حج اور عمرہ کے مسائل اوپر چونکہ روزوں کا ذکر ہوا تھا پھر جہاد کا بیان ہوا اب حج کا تذکرہ ہو رہا ہے اور حکم ہوتا ہے کہ حج اور عمرے کو پورا کرو ، ظاہر الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ حج اور عمرے کو شروع کرنے کے بعد پورا کرنا چاہئے ، تمام علماء اس پر متفق ہیں کہ حج وعمرے کو شروع کرنے کے بعد ان کا پورا کرنا لازم ہے گو عمرے کے واجب ہونے اور مستحب ہونے میں علماء کے دو قول ہیں جنہیں ہم نے پوری طرح کتاب الاحکام میں بیان کر دیا ہے فللہ الحمد والمنۃ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ پورا کرنا یہ ہے کہ تم اپنے گھر سے احرام باندھو حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ان کا تمام کرنے کامقصد یہ ہے کہ تم اپنے گھر سے احرام باندھو تمہارا سفر صرف حج وعمرے کی غرض سے ہو میقات پہنچ کر لبیک پکارنا شروع کر دو تمہارا ارادہ تجارت یعنی کسی اور دنیوی غرض کا نہ ہو ، کہ نکلے تو اپنے کام کو اور مکہ کے قریب پہنچ کر خیال آگیا کہ آؤ حج وعمرہ بھی کرتا چلوں گو اس طرح بھی حج وعمرہ ادا ہو جائے لیکن یہ پورا کرنا نہیں پورا کرنا یہ ہے کہ صرف اسی ارادے سے گھر سے نکلو حضرت مکحول فرماتے ہیں کہ ان کا پورا کرنا یہ ہے کہ انہیں میقات سے شروع کرے ، حضرت عمر فرماتے ہیں ان کا پورا کرنا یہ ہے کہ ان دونوں کو الگ الگ ادا کرے اور عمرے کو حج کے مہینوں میں نہ کرے اس لئے کہ قرآن شریف میں ہے آیت ( اَلْحَجُّ اَشْهُرٌ مَّعْلُوْمٰتٌ ۚ فَمَنْ فَرَضَ فِيْهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوْقَ ۙوَلَا جِدَالَ فِي الْحَجِّ ) 2 ۔ البقرۃ:197 ) حج کے مہینے مقرر ہیں قاسم بن محمد فرماتے ہیں کہ حج کے مہینوں میں عمرہ کرنا پورا ہونا نہیں ان سے پوچھا گیا کہ محرم میں عمرہ کرنا کیسا ہے ؟ کہا لوگ اسے تو پورا کہتے تھے لیکن اس قول میں شبہ ہے اس لئے کہ یہ ثابت شدہ امر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چار عمرے کئے اور چاروں ذوالقعدہ میں کئے ایک سن ٦ ہجری میں ذوالقعدہ کے مہینے میں ، دوسرا ذوالقعدہ سن ٧ ہجری میں عمرۃ القضاء تیسرا ذوالقعدہ سن ٨ ہجری میں عمرۃ الجعرانہ ، چوتھا ذوالقعدہ سن ١٠ہجری میں حج کے ساتھ ، ان عمروں کے سوا ہجرت کے بعد آپ کا اور کوئی عمرہ نہیں ہوا ، ہاں آپ نے ام ہانی رضی اللہ عنہما نے آپ کے ساتھ حج کے لئے جانے کا ارادہ کر لیا تھا لیک سواری کی وجہ سے ساتھ نہ جا سکیں جیسے کہ بخاری شریف میں یہ واقعہ منقول ہے حضرت سعید بن جبیر رحمۃ اللہ علیہ تو صاف فرماتے ہیں کہ یہ ام ہانی رضی اللہ عنہ کے لیے ہی مخصوص ہے واللہ اعلم ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حج وعمرے کا احرام باندھنے کے بعد بغیر پورا کئے چھوڑنا جائز نہیں ، حج اس وقت پورا ہوتا ہے جبکہ قربانی والے دن جمرہ عقبہ کو کنکر مار لے اور بیت اللہ کا طواف کر لے اور صفا مروہ کے درمیان دوڑ لے اب حج ادا ہو گیا ، ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حج عرفات کا نام ہے اور عمرہ طواف ہے حضرت عبداللہ کی قرأت یہ ہے آیت ( واتموا الحج والعمرۃ الی البیت ) عمرہ بیت اللہ تک جاتے ہی پورا ہو گیا ، حضرت سعید بن جبیر سے جب یہ ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا حضرت ابن عباس کی قرأت بھی یہی تھی ، حضرت علقمہ بھی یہی فرماتے ہیں ابراہیم سے مروی ہے حدیث ( واقیموا الحج والعمرۃ الی البیت ) ، حضرت شعبی کی قرأت میں والعمرۃ ہے وہ فرماتے ہیں عمرہ واجب نہیں گو اس کے خلاف بھی ان سے مروی ہے ، بہت سی احادیث میں بہت سندوں کے ساتھ حضرت انس رضی اللہ عنہ اور صحابہ رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حج وعمرے کا ایک ساتھ احرام باندھے ، ایک اور حدیث میں ہے عمرہ حج میں قیامت تک کے لئے داخل ہو گیا ابو محمد بن ابی حاتم نے اپنی کتاب میں اپنی کتاب میں ایک روایت وارد کی ہے کہ ایک شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور زعفران کی خوشبو سے مہک رہا تھا اس نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے احرام کے بارے میں کیا حکم ہے اس پر یہ آیت اتری حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا وہ سائل کہاں ہے؟ اس نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے زعفرانی کپڑے اتار ڈال اور خوب مل کر غسل کر لو اور جو اپنے حج میں کرتا ہے وہی عمرے میں بھی کر یہ حدیث غریب ہے اور یہ سیاق عجیب ہے بعض روایتوں میں غسل کر لو اور جو اپنے حج میں کرتا ہے وہی عمرے میں بھی کر یہ حدیث غریب ہے اور یہ سیاق عجیب ہے بعض روایتوں میں غسل کا اور اس آیت کے نازل ہونے کا ذکر نہیں ، ایک روایت میں اس کا نام یعلی بن امیہ آیا ہے دوسری روایت میں صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ واللہ اعلم ۔ پھر فرمایا اگر تم گھیر لئے جاؤ تو جو قربانی میسر ہو کر ڈالو مفسرین نے ذکر کیا کہ یہ آیت سن ٦ ہجری میں حدیبیہ کے میدان میں اتری جبکہ مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مکہ جانے سے روکا تھا اور اسی بارے میں پوری سورۃ فتح اتری اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کو رخصت ملی کہ وہ اپنی قربانیوں کو وہیں ذبح کر ڈالیں چنانچہ ستر اونٹ ذبح کئے گئے سر منڈوائے گئے اور احرام کھول دئیے گئے اول مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کو سن کر لوگ ذرا جھجھکے اور انہیں انتظار تھا کہ شاید کوئی ناسخ حکم اترے یہاں تک کہ خود آپ باہر آئے ، اور اپنا سر منڈوانے والوں پر رحم کرے لوگوں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بال کتروانے والوں کے لئے بھی دعا کیجئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر سر منڈاوانے والوں کے لیے یہی دعا کی ، تیسری مرتبہ کتروانے والوں کے لئے بھی دعا کر دی ، سات سات شخص ایک ایک اونٹ میں شریک تھے صحابہ کی کل تعداد چودہ سو تھی حدیبیہ کے میدان میں ٹھہرے ہوئے تھے جو حد حرم سے باہر تھا گو یہ بھی مروی ہے کہ حد حرم کے کنارے پر تھے واللہ اعلم ۔ علماء کا اس میں اختلاف ہے کہ یہ حکم صرف ان لوگوں کے لئے ہی ہے جنہیں دشمن گھیرے یا کسی بیماری وغیرہ سے بھی کوئی مجبور ہو جائے تو اس کے لئے بھی رخصت ہے کہ وہ اسی جگہ احرام کھول ڈالے اور سر منڈوالے اور قربانی کر دے ، حضرت ابن عباس تو صرف پہلی قسم کے لوگوں کے لئے ہی بتاتے ہیں ، ابن عمر ، طاؤس ، زہری اور زید بن اسلم بھی یہی فرماتے ہیں ، لیکن مسند احمد کی ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ جس شخص کا ہاتھ پاؤں ٹوٹ جائے یا بیمار ہو جائے یا لنگڑا لولا ہو جائے تو وہ حلال ہو گیا وہ اگلے سال حج کر لے راوی حدیث کہتا ہے کہ میں نے اسے ابن عباس اور ابو ہریرہ سے ذکر کیا انہوں نے بھی فرمایا سچ ہے سنن اربعہ میں بھی یہ حدیث ہے ، حضرت ابن مسعود ، ابن زبیر ، علقمہ سعید بن مسیب ، عروہ بن زبیر ، مجاہد ، نخعی ، عطا اور مقاتل بن حیان سے بھی یہی مروی ہے کہ بیمار ہو جانا اور لنگڑا لولا ہو جانا بھی ایسا ہی عذر ہے ، حضرت سفیان ثوری ہر مصیبت وایذاء کو ایسا ہی عذر بتاتے ہیں ، بخاری ومسلم کی ایک حدیث میں ہے کہ حضرت زبیر بن عبدالمطلب کی صاحبزادی ضباعہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کرتی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرا ارادہ حج کا ہے لیکن میں بیمار رہتی ہوں آپ نے فرمایا حج کو چلی جاؤ اور شرط کر لو کہ میرے احرام سے فارغ ہونے کی وہی جگہ ہو گی جہاں میں مرض کی وجہ سے رک جاؤں اسی حدیث کی بنا پر بعض علماء کرام کا فتویٰ ہے کہ حج میں شرط کرنا ناجائز ہے ، امام شافعی بھی فرماتے ہیں کہ اگر یہ حدیث صحیح ہو تو میرا قول بھی یہی ہے ، حضرت امام بیہقی فرماتے ہیں یہ حدیث باکل صحیح پس امام صاحب کا مذہب بھی یہی ہوا فالحمد للہ ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ جو قربانی میسر ہو اسے قربان کر دے ، حضرت علی فرماتے ہیں یعنی ایک بکری ذبح کر دے ، ابن عباس فرماتے ہیں اونٹ ہو گائے ہو بکری ہو بھیڑ ہو ان کے نر ہوں ۔ ان آٹھوں قسموں میں سے جسے چاہے ذبح کرے ، ابن عباس سے صرف بکری بھی مروی ہے اور بھی بہت سے مفسرین نے یہی فرمایا اور چاروں اماموں کا بھی یہی مذہب ہے ، حضرت عائشہ اور حضرت ابن عمر وغیرہ فرماتے ہیں کہ اس سے مراد صرف اونٹ اور گائے ہی ہے ، غالبًا ان کی دلیل حدیبیہ والا واقعہ ہوگا اس میں کسی صحابی سے بکری کا ذبح کرنا منقول نہیں ، گائے اور اونٹ ہی ان بزرگوں نے قربان کئے ہیں ، بخاری ومسلم میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہمیں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا کہ ہم سات سات آدمی گائے اور اونٹ میں شریک ہو جائیں ، حضرت ابن عباس سے یہ بھی منقول ہے کہ جس جانور کے ذبح کرنے کی وسعت ہو اسے ذبح کر ڈالے ، اگر مالدار ہے تو اونٹ اس سے کم حیثیت والا ہے تو گائے ورنہ پھر بکری حضرت عروہ فرماتے ہیں مہنگے سستے داموں پر موقوف ہے ، جمہور کے اس قول کی کہ بکری کافی ہے کہ یہ دلیل ہے کہ قرآن نے میسر آسان ہونے کا ذکر فرمایا ہے یعنی کم سے کم وہ چیز جس پر قربانی کا اطلاق ہو سکے اور قربانی کے جانور اونٹ گائے بکریاں اور بھیڑیں ہییں جیسے حبر البحر ترجمان قرآن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا زاد بھائی حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے ، بخاری ومسلم کی ایک حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مرتبہ بکری کی قربانی کی ۔ پھر فرمایا جب تک قربانی اپنی جگہ پر نہ پہنچ جائے تم اپنے سروں کو نہ منڈواؤ ، اس کا عطف آیت ( وَاَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلّٰهِ ) 2 ۔ البقرۃ:196 ) پر ہے ، آیت ( فان احصرتم ) پر نہیں امام ابن جریر سے یہاں سہو ہو گیا ہے وجہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں نے حدیبیہ والے سال جبکہ مشرکین رکاوٹ بن گئے تھے اور آپ کو حرم میں نہ جانے دیا تو حرم سے باہر ہی سب نے سر بھی منڈوائے اور قربانیاں بھی کر دیں ، لیکن امن کی حالت میں جبکہ حرم میں پہنچ سکتے ہوں تو جائز نہیں جب تک کہ قربانی اپنی جگہ پر نہ پہنچ جائے اور حاجی حج وعمرے کے جملہ احکام سے فارغ نہ ہولے اگر وہ حج وعمرے کا ایک ساتھ احرام باندھے ہوئے ہو تو ان میں سے ایک کو کرنے والے ہو تو خواہ اس نے صرف حج کا احرام باندھا ہو خواہ تمتع کی نیت کی ہو ، بخاری مسلم میں ہے کہ حضرت ام المومنین حفصہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب تو احرام کھول ڈالے لیکن آپ تو احرام میں ہی ہیں آپ نے فرمایا ہاں میں نے اپنا سر منڈوا لیا ہے اور اپنی قربانی کے جانور کے گلے میں علامت ڈال دی ہے جب تک یہ ذبح نہ ہو جائے میں احرام نہیں اتار سکتا ۔ پھر حکم ہوتا ہے کہ بیمار اور سر کی تکلیف والا شخص فدیہ دے دے صحیح بخاری شریف میں ہے عبداللہ بن معقل کہتے ہیں کہ میں کوفے کی مسجد میں حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا میں نے ان سے اس آیت کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے جواب میں کہا کہ مجھے لوگ اٹھا کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لے گئے جوئیں میرے منہ پر چل رہی تھیں آپ نے مجھے دیکھ کر فرمایا تمہاری حالت یہاں تک پہنچ گئی ہوگی میں خیال بھی نہیں کرسکتا کیا تمہیں اتنی طاقت نہیں کہ ایک بکری ذبح کر ڈالو میں نے کہا حضور میں میں تو مفلس آدمی ہوں آپ نے فرمایا جاؤ اپنا سر منڈوا دو اور تین روزے رکھ لینا یا چھ مسکینوں کو آدھا آدھا صاع ( تقریبا سوا سیر سوا چھٹانک ) اناج دے دینا یہ آیت میرے بارے میں اتری ہے اور حکم کے اعتبار سے ہر ایک ایسے معذور شخص کو شامل ہے ایک اور روایت میں ہے کہ میں ہنڈیا تلے آگ سلگا رہا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میری یہ حالت دیکھ کر مجھے یہ مسئلہ بتایا ، ایک اور روایت میں ہے کہ یہ واقعہ حدیبیہ کا ہے اور میرے سر پر بڑے بڑے بال تھے جن میں بکثرت جوئیں ہوگئی تھیں ، ابن مردویہ کی روایت میں ہے کہ پھر میں نے سر منڈوا دیا اور ایک بکری ذبح کر دی ، ایک اور حدیث میں ہے ( نسک ) یعنی قربانی ایک بکری ہے اور روزے اگر رکھے تو تین رکھے اگر صدقہ دے تو ایک فرق ( پیمانہ ) چھ مسکینوں کے درمیان تقسیم کر دینا ہے ، حضرت علی ، محمد بن کعب ، علقمہ ، ابراہیم ، مجاہد ، عطا ، سدی اور ربیع بن انس رحمہم اللہ کا بھی یہی فتویٰ ہے ، ابن ابی حاتم کی حدیث میں ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ کو تینوں مسئلے بتا کر فرما دیا تھا کہ اس میں سے جس پر تم چاہو عمل کرو کافی ہے ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جہاں دو تین صورتیں لفظ او کے ساتھ بیان ہوئی ہوں وہاں اختیار ہوتا ہے جسے چاہے کر لے ، حضرت مجاہد ، عکرمہ ، عطاء ، طاؤس ، حسن ، حمید ، اعرج ، ابراہیم نخعی اور ضحاک سے بھی یہی مروی ہے چاروں اماموں کا اور اکثر علماء کا بھی یہی مذہب ہے کہ اگر چاہے روزے رکھ لے اگر چاہے صدقہ کر دے اگر چاہے قربانی کر لے روزے تین ہیں صدقہ ایک فرق یعنی تین صاع یعنی آٹھ سیر میں آدھی چھٹانک کم ہے چھ مسکینوں پر تقسیم کر دے اور قربانی ایک بکری کی ہے ، ان تینوں صورتوں میں سے جو چاہے کر لے ، پروردگار رحمن ورحیم کو چونکہ یہاں رخصت دینی تھی اس لئے سب سے پہلے روزے بیان فرمائے جو سب سے آسان صورت ہے ، صدقہ کا ذکر کیا پھر قربانی کا ، اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چونکہ افضلیت پر عمل کرانا تھا اس لئے پہلے قربانی کا ذکر کیا پھر چھ مسکینوں کو کھلانے کا پھر تین روزے رکھنے کا ، سبحان اللہ دونوں مقام کے اعتبار سے دونوں ترکیبیں کس قدر درست اور برمحل ہیں فالحمد للہ سعید بن جبیر سے اس آیت کا مطلب پوچھا جاتا ہے تو فرماتے ہیں کہ غلہ کا حکم لگایا جائے گا اگر اس کے پاس ہے تو ایک بکری خرید لے ورنہ بکری کی قیمت درہموں سے لگائی جائے اور اس کا غلہ خریدا جائے اور صدقہ کر دیا جائے ورنہ ہر آدھے صاع کے بدلے ایک روزہ رکھے ، حضرت حسن فرماتے ہیں جب محرم کے سر میں تکلیف ہو تو بال منڈوا دے اور اور ان تین میں سے ایک فدیہ ادا کر دے روزے دس ہیں ، صدقہ دس مسکینوں کا کھانا بتلاتے ہیں لیکن یہ اقوال ٹھیک نہیں اس لئے کہ مرفوع حدیث میں آچکا ہے کہ روزے تین ہیں اور چھ مسکینوں کا کھانا ہے اور ان تینوں صورتوں میں اختیار ہے قربانی کی بکری کر دے خواہ تین روزے رکھ لے خواہ چھ فقیروں کو کھانا کھلا دے ، ہاں یہ ترتیب احرام کی حالت میں شکار کرنے والے پر ہے جیسے کہ قرآن کریم کے الفاظ ہیں اور فقہاء کا اجماع ہے لیکن یہاں ترتیب ضروری نہیں اختیار ہے ، طاؤس فرماتے ہیں یہ قربانی اور یہ صدقہ مکہ میں ہی کر دے لیکن روزے جہاں چاہے رکھ لے ، ایک اور روایت میں ہے ابو اسماء جو ابن جعفر کے مولیٰ ہیں فرماتے ہیں کہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ حج کو نکلے آپ کے ساتھ حضرت علی اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما بھی تھے میں ابو جعفر کے ساتھ تھا ہم نے دیکھا کہ ایک شخص سویا ہوا ہے اور اس کی اونٹنی اس کے سرہانے بندھی ہوئی ہے میں نے اسے جگایا دیکھا تو وہ حضرت حسین تھے ابن جعفر انہیں لے کر چلے یہاں تک کہ ہم سقیا میں پہنچے وہاں بیس دن تک ہم ان کی تیمارداری میں رہے ایک مرتبہ حضرت علی نے پوچھا کیا حال ہے؟ جناب حسین نے اپنے سر کی طرف اشارہ کیا آپ نے حکم دیا کہ سر منڈوا لو پھر اونٹ منگوا کر ذبح کر دیا ، تو اگر اس اونٹ کا نحر کرنا احرام سے حلال ہونے کے لئے تھا تو خیر اور اگر یہ فدیہ کے لئے تھا تو ظاہر ہے کہ مکہ کے باہر یہ قربانی ہوئی ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ تمتع والا شخص بھی قربانی کرے ، خواہ حج وعمرے کا ایک ساتھ احرام باندھا ہو یا پہلے عمرے کا احرام باندھا ہو یا اس سے فارغ ہو کر حج کا احرام باندھ لیا ہو ، اصل تمتع یہی ہے اور فقہاء کے کلام میں بھی مشہور یہی ہے اور عام تمتع ان دونوں قسموں میں شامل ہے ، جیسے کہ اس پر صحیح حدیثیں دلالت کرتی ہیں بعض راوی تو کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود حج تمتع کیا تھا بعض کہتے ہیں آپ قارن تھے اور اتنا سب کہتے ہیں کہ قربانی کے جانور آپ کے ساتھ تھے ، پس آیت میں یہ حکم ہے کہ تمتع کرنے والا جس قربانی پر قادر ہو وہ کر ڈالے جس کا ادنی درجہ ایک بکری کو قربان کرنا ہے گو گائے کی قربانی بھی کر سکتا ہے چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی بیویوں کی طرف سے گائے کی قربانی کی تھی جو سب کی سب تمتع والی تھیں ( ابن مردویہ ) اس سے ثابت ہوا کہ تمتع بھی مشروع ہے ، عمران بن حصین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ تمتع کی آیت بھی قرآن میں نازل ہو چکی ہے اور ہم نے خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تمتع کیا پھر نہ تو قرآن میں اس کی ممانعت نازل ہوئی نہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے روکا لیکن لوگوں نے اپنی رائے سے اسے ممنوع قرار دیا ، امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس سے مراد غالبًا حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہیں حضرت امام المحدثین کی یہ بات بالکل صحیح ہے ، حضرت عمر سے منقول ہے کہ وہ لوگوں کو اس سے روکتے تھے اور فرماتے تھے کہ اگر ہم کتاب اللہ کو لیں تو اس میں بھی حج وعمرے کے پورا کرنے کا حکم موجود ہے آیت ( وَاَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلّٰهِ ) 2 ۔ البقرۃ:196 ) لیکن یہ یاد رہے کہ لوگ بکثرت بیت اللہ شریف کا قصد حج وعمرے کے ارادے سے کریں جیسے کہ آپ سے صراحۃ مروی ہے رضی اللہ عنہ ۔ پھر فرمایا جو شخص قربانی نہ کرسکے وہ تین روزے حج میں رکھ لے اور سات روزے اس وقت رکھ لے جب حج سے لوٹے یہ پورے دس ہو جائیں گے ، یعنی قربانی کی طاقت جسے نہ ہو وہ روزے رکھ لے تین تو ایام حج میں اور بقیہ بعد میں ، علماء کا فرمان ہے کہ اولیٰ یہ ہے کہ یہ روزے عرفے سے پہلے ذی الحج کے دنوں میں رکھ لے حضرت طاؤس مجاہد وغیرہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ اول شوال میں بھی یہ روزے جائز ہیں ، حضرت شعبی وغیرہ فرماتے ہیں روزوں کو اگر عرفہ کے دن کا روزہ شامل کر کے ختم کرے تو بھی اختیار ہے ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بھی یہ منقول ہے کہ اگر عرفے سے پہلے دو دنوں میں دو روزے رکھ لے اور تیسرا عرفہ کے دن ہو تو بھی جائز ہے ، حضرت ابن عمر رضی اللہ بھی فرماتے ہیں ایک روزہ یوم الترویہ سے پہلے ایک یوم الترویہ کا اور یک عرفہ کا ، حضرت علی رضی اللہ عنہ کا فرمان بھی وہی ہے ۔ اگر کسی شخص سے یہ تینوں روزے یا ایک دو چھوٹ گئے ہوں اور ایام تشریق یعنی بقروعید کے بعد کے تین دن آجائیں تو حضرت عائشہ اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کا فرمان ہے کہ وہ ان دنوں میں بھی یہ روزے رکھ سکتا ہے ( بخاری ) امام شافعی کا بھی پہلا قول یہی ہے ، حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے بھی یہی مروی ہے ، حضرت عکرمہ ، حسن بصری اور عروہ بن زبیر سے بھی شامل ہے ، حضرت امام شافعی کا نیا قول یہ ہے کہ ان دنوں میں یہ روزے ناجائز ہیں ، کیونکہ صحیح مسلم شریف میں حدیث ہے کہ ایام تشریق کھانے پینے اور اللہ کا ذکر کرنے کے دن ہیں ۔ پھر سات روزے لوٹنے کے وقت اس سے مراد یا تو یہ ہے کہ جب لوٹ کر اپنی قیام گاہ پہنچ جاؤ پس لوٹتے وقت راستہ میں بھی یہ سات روزے رکھ سکتا ہے مجاہد اور عطا یہی کہتے ہیں ، یا مراد وطن میں پہنچ جانے سے ہے ابن عمر رضی اللہ عنہ یہی فرماتے ہیں اور بھی بہت سے تابعین کا یہی مذہب ہے بلکہ ابن جریر تو اس پر اجماع بتاتے ہیں ، بخاری شریف کی ایک مطول حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حجۃ الوداع میں عمرے کا حج کے ساتھ تمتع کیا اور قربانی دی ذوالحلیفہ سے آپ نے قربانی ساتھ لے لی تھی عمرے کے پھر حج کی تہلیل کی لوگوں نے بھی آپ کے ساتھ تمتع کیا بعض لوگوں نے تو قربانی ساتھ ہی رکھ لی تھی ۔ بعض کے ساتھ قربانی کے جانور نہ تھے مکہ شریف پہنچ کر آپ نے فرمایا کہ جس کے ساتھ قربانی ہے وہ حج ختم ہونے تک احرام میں رہے اور جس کے ساتھ قربانی نہیں وہ بیت اللہ شریف کا طواف کر کے صفا مروہ کے درمیان دوڑ کر احرام کھول ڈالے سر کے بال منڈوالے یا کتروالے پھر حج کا احرام باندھے اگر قربانی کی طاقت نہ ہو تو تین روزے تو حج میں رکھ لے اور سات روزے جب اپنے وطن پہنچے تب رکھ لے ( بخاری ) اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ سات روزے وطن میں جانے کے بعد ہیں ۔ پھر فرمایا یہ پورے دس ہیں یہ فرمان تاکید کے لئے ہے جیسے عربوں میں کہا جاتا ہے میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کانوں سے سنا ہاتھ سے لکھا اور قرآن میں بھی ہے آیت ( ولا طائر یطیر بجناحیہ ) نہ کوئی پرندہ جو اپنے دونوں پروں سے اڑتا ہو اور جگہ ہے آیت ( وَّلَا تَخُــطُّهٗ بِيَمِيْنِكَ ) 39 ۔ العنکبوت:48 ) تو اپنے دائیں ہاتھ سے لکھنا نہیں ، اور جگہ ہے ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو تیس راتوں کا وعدہ دیا اور دس اور اس کے ساتھ پورا کیا اور اس کے رب کا وقت مقررہ چالیس راتوں کو پورا ہوا ، اور اس کے رب کا وقت مقررہ چالیس راتوں کو پورا ہوا ، پس جیسے ان سب جگہوں میں صرف تاکید ہے ایسے ہی یہ جملہ بھی تاکید کے لئے ہے ، اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ تمام وکمال کرنے کا حکم ہے اور کاملہ کا مطلب یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ یہ قربانی کے بدلے کافی ہیں ۔ اس کے بعد فرمایا گیا ہے یہ حکم ان لوگوں کے لئے ہے جس کے گھر والے مسجد حرام کے رہنے والے نہ ہوں ، اس پر تو اجماع ہے کہ حرم والے تمتع نہیں کر سکتے حضرت ابن عباس یہی فرماتے ہیں ، بلکہ آپ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے مکہ والو تم تمتع نہیں کر سکتے باہر والوں کے لئے تمتع ہے تم کو تو ذرا سی دور جانا پڑتا ہے تھوڑے سا فاصلہ طے کیا پھر عمرے کا احرام باندھ لیا ، حضرت طاؤس کی تفسیر بھی یہی ہے ، لیکن حضرت عطاء رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میقات یعنی احرام باندھنے کے مقامات کے اندر ہوں وہ بھی اسی حکم میں ہیں ، ان کے لئے بھی تمتع کرنا جائز نہیں ، مکحول بھی یہی فرماتے ہیں ، تو عرفات والوں کا مزدلفہ والوں کا عرفہ اور رجیع کے رہنے والوں کا بھی یہی حکم ہے ، زہری فرماتے ہی مکہ شریف سے ایک دن کی راہ کے فاصلہ پر ہو یا اس کے قریب وہ تو تمتع کر سکتا ہے اور لوگ نہیں کر سکتے ، حضرت عطاء دو دن بھی فرماتے ہیں ، امام شافعی کا مذہب یہ ہے کہ اہل حرم اور جو اتنے فاصلے پر ہوں کہ وہاں مکی لوگوں کے لئے نماز قصر کرنا جائز نہ ہو ان سب کے لئے یہی حکم ہے اس لئے کہ یہ سب حاضر کہے جائیں گے ان کے علاوہ سب مسافر ، اور ان سب کے لئے حج میں تمتع کرنا جائز ہے واللہ اعلم ۔ پھر فرمایا اللہ تعالیٰ سے ڈرو اس کے احکام میں بجا لاؤ جن کاموں سے اس نے منع کیا ہے رک جاؤ اور یقین رکھو کہ اس کے نافرمانوں کو وہ سخت سزا کرتا ہے ۔
196۔ 1 یعنی حج اور عمرے کا احرام باندھ لو تو پھر اسکا پورا کرنا ضروری ہے چاہے نفلی حج وعمرہ ہو (امیر التفسیر) 196۔ 2 اگر راستے میں دشمن یا شدید بیماری کی وجہ سے رکاوٹ ہوجائے تو ایک جانور بکری گائے یا اونٹ کا ساتواں حصہ جو بھی میسر ہو وہیں ذبح کر کے سر منڈوا لو اور حلال ہوجاؤ جیسے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ نے وہیں حدیبیہ میں قربانیاں ذبح کیں تھیں اور حدیبیہ حرم سے باہر ہے (فتح القدیر) اور آئندہ سال اس کی قضا دو جیسے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے 6 ہجری والے عمرے کی قضا 7 ہجری میں دی۔ 196۔ 3 یعنی اس کو ایسی تکلیف ہوجائے کہ سر کے بال منڈوانے پڑجائیں تو اس کا فدیہ ضروری ہے حدیث کی رو سے ایسا شخص 6 مسکینوں کو کھانا کھلا دے یا ایک بکری ذبح کر دے یا تین روزے رکھے۔ 196۔ 4 حج کی تین قسمیں ہیں۔ صرف حج کی نیت سے احرام باندھنا حج اور عمرہ کی ایک ساتھ نیت کر کے احرام باندھنا۔ ان دونوں صورتوں میں تمام مناسک حج کی ادائیگی سے پہلے احرام کھولنا جائز نہیں۔ 196۔ 5 یعنی تمتع اور اس کی وجہ سے ہدیہ یا روزے رکھے اور یہ ان لوگوں کے لئے ہیں جو مسجد احرام کے رہنے والے نہ ہوں مراد اس سے حدود حرم میں یا اتنی مسافت پر رہنے والے ہیں کہ ان کے سفر پر قصر کا اطلاق نہ ہوسکتا ہو۔ (ابن کثیر بحوالہ ابن جریر)
[٢٦٠] مسور بن مخرمہ روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حدیبیہ کے زمانے میں نکلے۔ بدیل بن ورقاء الخزاعی آیا اور کہنے لگا : وہ (قریش) آپ سے لڑیں گے اور آپ کو بیت اللہ جانے سے روکیں گے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہم لڑنے نہیں آئے، ہم تو عمرہ کرنے آئے ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے اصحاب سے فرمایا : اٹھو، قربانی کرو اور اپنے سر منڈوا دو ۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی قربانی ذبح کی۔ پھر حجام کو بلایا۔ اس نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا سر مونڈا۔ (بخاری۔ کتاب الشروط، بابالشروط فی الجہاد والمصالحہ مع اھل الحرب) - ٢۔ ضباعہ کہتی ہیں میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرا حج کرنے کا ارادہ ہے، لیکن میں بیمار ہوں، ایسی صورت میں میں کیا کروں ؟ آپ نے جواب دیا حج کرو اور (اللہ سے) شرط کرلو : اے اللہ میں اسی جگہ احرام کھول دوں گی، جہاں تو مجھے روک دے گا۔ (مسلم۔ کتاب الحج باب جواز اشتراط المحرم التحلل بعذر المرض و نحوہ) - [٢٦١] مثلاً ایک شخص نے حج اور عمرہ کا احرام باندھا تو اب اسے پورا کرنا لازم ہے اور کسی مجبوری سے وہ حج نہیں کرسکا، تو بھی اس کو قربانی دینا ہوگی۔ وہ کسی دوسرے کے ہاتھ قربانی بھیج دے یا اسے تاکید کر دے کہ وہ مناسب وقت پر اس کی طرف سے قربانی کر دے اور جس وقت تک اسے یہ یقین نہ ہوجائے کہ اس وقت تک اس کی قربانی ہوچکی ہوگی۔ اس وقت تک سر نہ منڈائے۔ ایسی قربانی کو دم احصار کہتے ہیں جو حج وعمرہ سے رکنے کی وجہ سے لازم ہوتا ہے۔- [٢٦٢] کعب بن عجرہ (رض) کہتے ہیں کہ ہم حدیبیہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھے اور احرام باندھے ہوئے تھے۔ لیکن مشرکین نے ہمیں عمرہ سے روک دیا، میرے لمبے بال تھے اور جوئیں میرے منہ پر گر رہی تھیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے پاس سے گزرے تو فرمایا کیا سر کی جوئیں تمہیں تکلیف پہنچا رہی ہیں ؟ میں نے عرض کیا جی ہاں تب یہ آیت نازل ہوئی۔ (فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِيْضًا اَوْ بِهٖٓ اَذًى مِّنْ رَّاْسِهٖ فَفِدْيَةٌ مِّنْ صِيَامٍ اَوْ صَدَقَةٍ اَوْ نُسُكٍ ١٩٦ۧ) 2 ۔ البقرة :196) پھر مجھے فرمایا : سر منڈاؤ، تین روزے رکھو یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلاؤ یا قربانی کرو۔ (بخاری، کتاب المغازی، باب غزوہ حدیبیہ لقولہ تعالیٰ لقد (رض) الایہ، مسلم۔ کتاب الحج۔ باب جواز حلق الراس للمحرم اذا کان بہ اذی الخ) - ٢۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس کو قربانی نہ ملے وہ تین روزے ایام حج میں رکھے اور سات اپنے گھر پہنچ کر۔ (مسلم، کتاب الحج، باب وجوب الدم علی المتمتّع) - ٣۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص (رض) کہتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حجۃ الوداع میں منیٰ میں ٹھہرے کہ لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے (مسائل حج) پوچھیں۔ ایک شخص آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور کہا : مجھے خیال نہ رہا میں نے قربانی سے پہلے سر منڈا لیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اب قربانی کرلو کچھ حرج نہیں۔ پھر ایک اور شخص آیا اور کہنے لگا : مجھے خیال نہ رہا : میں نے کنکریاں مارنے سے پہلے قربانی کرلی۔ فرمایا : اب کنکریاں مار لو۔ کوئی حرج نہیں۔ غرض یہ کہ جو کام بھی کسی نے آگے پیچھے کیا تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا گیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اب کرلو، کوئی حرج نہیں۔ (بخاری، کتاب العلم، باب الفتیا و ھو واقف علی ظھر الدابۃ وغیرھا) نیز کتاب المناسک باب الفتیا علی الدابہ عند الجمرۃ مسلم، کتاب الحج، باب جواز تقدیم الذبح علی الرمی والحلق علی الذبح و علی الرمی۔۔ الخ) - [٢٦٣] دور جاہلیت میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ عمرہ کے لیے الگ اور حج کے لیے الگ سفر کرنا ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ قید ختم کردی اور باہر سے آنے والوں کے لیے یہ رعایت فرمائی کہ وہ ایک ہی سفر میں حج اور عمرہ دونوں کو جمع کرلیں، البتہ جو لوگ مکہ میں یا اس کے آس پاس میقاتوں کی حدود کے اندر رہتے ہوں۔ انہیں اس رعایت سے مستثنیٰ کردیا۔ کیونکہ ان کے لیے عمرہ اور حج کے لیے الگ الگ سفر کرنا کچھ مشکل نہیں۔ اس آیت سے درج ذیل مسائل معلوم ہوتے ہیں۔- میقاتوں کے باہر سے آنے والے لوگ ایک ہی سفر میں عمرہ اور حج دونوں کرسکتے ہیں اس کی پھر دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ احرام باندھ کر عمرہ کرے، پھر احرام نہ کھولے (نہ سر منڈائے) تاآنکہ حج کے بھی ارکان پورے کرلے۔ ایسے حج کو قرآن کہتے ہیں اور اگر عمرہ کر کے سر منڈا لے اور احرام کھول دے پھر حج کے لیے نیا احرام باندھے تو اسے حج تمتع کہتے ہیں اور اسی حج کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پسند فرمایا :- قرآن اور تمتع کرنے والے پر قربانی لازم ہے۔ یعنی ایک بکری یا گائے اور اونٹ جس میں سات آدمی شامل ہوسکتے ہیں۔- اگر کسی کو قربانی میسر نہیں آسکی تو وہ دس روزے رکھ لے، تین روزے تو نویں ذی الحجہ یعنی عرفہ تک اور باقی سات روزے حج سے فراغت کے بعد رکھے، گھر واپس آ کر رکھ لے۔- جو لوگ میقاتوں کی حدود کے اندر رہتے ہیں صرف حج کا احرام باندھ کر حج کریں گے جسے حج افراد کہتے ہیں اور ان پر قربانی واجب نہیں۔
(وَاَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلّٰهِ ۭ ) طبری نے اپنی حسن سند کے ساتھ عبداللہ بن عباس (رض) سے بیان کیا ہے : ” جو شخص حج یا عمرے کا احرام باندھ لے تو اس کے لیے جائز نہیں کہ اسے پورا کرنے سے پہلے حلال ہو۔ حج کا پورا کرنا یہ ہے کہ یوم النحر (دس ذوالحجہ) کو جمرہ عقبہ کو کنکر مارے اور طواف زیارت کرے، تو وہ اپنے احرام سے پوری طرح حلال ہوگیا اور عمرے کا پورا کرنا یہ ہے کہ بیت اللہ کا طواف اور صفا ومروہ کی سعی کرلے تو حلال ہوگیا۔ “ [ طبری : ٢؍٢١٣، ح : ٣١٩٤ ] یعنی حج یا عمرہ فرض ہو یا نفل، احرام باندھ لینے کے بعد پورا کرنا ضروری ہے۔ آیت کا دوسرا معنی یہ ہے کہ اللہ کی خاطر حج اور عمرہ کے تمام ارکان پوری طرح ادا کرو۔ الفاظ میں دونوں معنی موجود ہیں۔ - فَاِنْ اُحْصِرْتُمْ ۔۔ : یعنی کسی دشمن یا مرض کی وجہ سے کعبہ تک نہ پہنچ سکو تو جہاں رکاوٹ پیدا ہو وہیں بکری یا اونٹ اور گائے کا حصہ، جو بھی میسر ہو، قربانی کرکے احرام کھول دو ، جیسا کہ ٦ ھ میں مشرکین مکہ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عمرہ ادا کرنے سے روک دیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حدود حرم سے باہر حدیبیہ ہی میں قربانی کر کے احرام کھول دیا۔ - وَلَا تَحْلِقُوْا رُءُوْسَكُمْ ۔۔ : اس کا عطف ” َاَتِمُّوا الْحَج “ پر ہے اور یہ حکم حالت امن کے ساتھ مخصوص ہے، یعنی حالت امن میں اس وقت تک سر نہ منڈواؤ (یعنی احرام نہ کھولو) جب تک کہ حج و عمرہ کے اعمال پوری طرح ادا نہ کرلو۔ بخاری (٥٠٨٩) اور مسلم (١٢٠٧) میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ضباعہ بنت زبیر بن عبدالمطلب کے پاس گئے تو انھوں نے عرض کیا : ” یا رسول اللہ میں حج کا ارادہ رکھتی ہوں اور میں بیمار ہوں “ تو آپ نے فرمایا : ” حج کرو اور شرط کرلو کہ میرے حلال ہونے کی جگہ وہ ہوگی جہاں (اے اللہ ) تو مجھے روک لے گا۔ “ معلوم ہوا کہ احرام کے وقت اگر شرط کرلے تو رکاوٹ کی صورت میں اسی جگہ احرام کھول دے اور اس پر کوئی قربانی وغیرہ لازم نہیں۔- فَمَنْ كَانَ مِنْكُم۔۔ : یعنی احرام باندھنے کے بعد تمہیں کسی بیماری یا عذر کی بنا پر سر منڈوانے کی ضرورت پیش آجائے تو سر منڈوا کر تین چیزوں میں سے ایک بطور فدیہ انجام دو ۔ کعب بن عجرہ (رض) کہتے ہیں کہ مجھے اٹھا کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس اس حال میں لایا گیا کہ جوئیں میرے چہرے پر گر رہی تھیں، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” میں نہیں سمجھتا تھا کہ تمہیں اتنی زیادہ تکلیف ہوگئی ہے، کیا تمہارے پاس کوئی بکری (وغیرہ) ہے ؟ “ میں نے کہا نہیں، تو آپ نے فرمایا : ” تو تم تین روزے رکھ لو، یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلا دو ، ہر مسکین کو نصف صاع (یعنی ایک کلو) اور سرمنڈوا دو ۔ “ [ بخاری، التفسیر، باب : ( فمن - کان منکم مریضًا ۔۔ ) : ٤٥١٧ ] علماء کا اتفاق ہے کہ تینوں چیزوں میں سے جو چاہے کرلے، قرآن کے الفاظ بھی یہی ہیں۔ - فَمَنْ تَمَتَّعَ بالْعُمْرَةِ اِلَى الْحَجِّ ۔۔ : کوئی شخص صرف عمرہ ادا کرے یا صرف حج تو اس پر قربانی واجب نہیں، اگر قربانی کرے تو ثواب ہے۔ البتہ اگر حج کے مہینوں میں عمرہ اور حج دونوں کرنے کا فائدہ اٹھائے، خواہ میقات سے دونوں کا احرام اکٹھا باندھے جسے حج قرآن کہتے ہیں، یا پہلے صرف عمرے کا احرام باندھے اور عمرہ ادا کر کے احرام کھول دے، پھر آٹھ ذوالحجہ کو حج کا احرام باندھے، جسے حج تمتع کہتے ہیں، دونوں صورتوں میں قربانی واجب ہے، جو کم از کم ایک بکری ہے۔ اگر کسی کے پاس طاقت نہ ہو تو اسے دس روزے رکھنا ہوں گے، تین روزے ایام حج یعنی قربانی کے دن سے پہلے اور سات روزے جب اپنے گھر واپس جائے۔ اگر قربانی کے دن سے پہلے نہ رکھ سکے تو ایام تشریق (گیارہ، بارہ اور تیرہ ذوالحجہ) میں رکھ لے۔ - تِلْكَ عَشَرَةٌ كَامِلَةٌ ۭ: یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب فرما دیا کہ تین روزے حج میں اور سات جب تم واپس جاؤ تو ظاہر ہے کہ یہ دس ہی ہوتے ہیں، پھر یہ کہنے کی کیا ضرورت ہے کہ یہ پورے دس ہیں ؟ جواب اس کا یہ ہے کہ یہاں ” واؤ “ سے مراد ” أَوْ “ بھی ہوسکتا تھا کہ حج کے ایام میں تین روزے رکھو، یا پھر واپس جا کر سات روزے رکھو۔ اس لیے وضاحت فرما دی کہ دونوں کام کرنے ہیں اور دس روزے پورے رکھنے ہیں، یہ قرآن کی بلاغت ہے کہ کوئی ابہام نہیں رہنے دیا۔ - ذٰلِكَ لِمَنْ لَّمْ يَكُنْ اَھْلُهٗ حَاضِرِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۭ: یعنی جو لوگ مسجد حرام کے رہنے والے نہیں، بلکہ دور سے آنے والے ہیں، چونکہ انھوں نے عمرہ اور حج کے لیے الگ الگ دو سفر کرنے کے بجائے ایک ہی سفر میں دونوں سرانجام دے دیے ہیں، لہٰذا یہ فائدہ اٹھانے پر انھیں قربانی دینا ہوگی، ورنہ دس روزے رکھیں۔ رہے مکہ کے لوگ تو انھیں حج کے مہینوں میں عمرہ و حج کرنے سے چونکہ ایسا کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوا، اس لیے وہ حج قرآن کریں یا حج تمتع، ان پر نہ قربانی ہے نہ روزے، وہ ان کے بغیر ہی دونوں عبادتیں سرانجام دے سکتے ہیں۔ امام مالک، امام شافعی (رح) اور جمہور کا یہی قول ہے، البتہ امام ابوحنیفہ (رض) کا قول یہ ہے کہ تمتع اور قرآن صرف باہر سے آنے والوں کے لیے ہے، اہل مکہ کے لیے جائز نہیں۔ ( ابن عاشور) مسجد حرام کے رہنے والوں سے مراد مکہ میں رہنے والے اور مکہ سے اتنی مسافت کے اندر رہنے والے ہیں جس پر قصر ہوتا ہے (جو تقریباً اکیس کلو میٹر ہے) ۔ بعض نے اس سے صرف حرم مکہ کے اندر رہنے والے مراد لیے ہیں۔ ( ابن کثیر، ابن جریر )
خلاصہ تفسیر :- گیارہواں حکم متعلق حج وعمرہ :- اور (جب حج یا عمرہ کرنا ہو تو اس) حج اور عمرہ کو اللہ تعالیٰ کے (راضی کرنے کے) واسطے پورا پورا ادا کیا کرو (کہ اعمال وآداب بھی سب بجا لاؤ اور نیت بھی خالص ثواب ہی کی ہو) پھر اگر (کسی دشمن کی جانب سے یا کسی مرض کے سبب سے حج وعمرہ کے پورا کرنے سے) روک دیئے جاؤ تو (اس حالت میں یہ حکم ہے کہ) قربانی کا جانور جو کچھ میسر ہو (ذبح کرے اور حج وعمرہ کی جو وضع اختیار کر رکھی تھی موقوف کرے اس کو احرام کھولنا کہتے ہیں جس کا طریقہ شرع میں سر منڈانا ہے اور بال کٹا دینے کا بھی یہی اثر ہے) اور (یہ نہیں کہ فورا روک ٹوک کے ساتھ ہی تم کو احرام کھولنا درست ہوجاوے بلکہ) اپنے سروں کو (احرام کھولنے کی غرض سے) اس وقت تک مت منڈاؤ جب تک کہ (وہ) قربانی (کا جانور جس کے ذبح کا اس حالت میں حکم تھا) اپنے موقع پر نہ پہنچ جاوے (اور وہ موقع حرم ہے کہ اس قربانی کا جانور حدود حرم ہی میں ذبح کیا جاسکتا ہے وہاں اگر خود نہ جاسکے تو کسی کے ہاتھ بھیج کر ذبح کرایا جاوے جب جانور ذبح ہوجاوے اس وقت احرام کھولنا جائز ہوگا) البتہ اگر کوئی تم میں سے (کچھ) بیمار ہو یا اس کے سر میں کچھ (زخم یا درد یا جوؤں وغیرہ کی) تکلیف ہو ( اور اس بیماری یا تکلیف کی وجہ سے پہلے ہی سر منڈانے کی ضرورت پڑے) تو (اس کو اجازت ہے کہ وہ سر منڈا کر) فدیہ (یعنی شرعی بدلہ) دیدے (یعنی خواہ تین) روزے سے یا (چھ مسکینوں کو فی مسکین صدقہ فطر کے برابر یعنی نصف صاع گیہوں) خیرات (کے طور پر) دیدینے سے یا (ایک بکری) ذبح کردینے سے پھر جب تم امن کی حالت میں ہو (خواہ تو پہلے ہی سے کوئی خوف ومزاحمت پیش نہیں آیا یا ہو کرجاتا رہا) تو (اس صورت میں حج وعمرہ کے متعلق قربانی کرنا ہر ایک کے ذمہ نہیں بلکہ خاص) جو شخص عمرہ سے اس کو حج کے ساتھ ملا کر منتفع ہوا ہو (یعنی ایام حج میں عمرہ بھی کیا ہو) تو (فقط اس پر واجب ہے کہ) جو کچھ قربانی میسر ہو (ذبح کرے اور جس نے صرف عمرہ کیا ہو یا صرف حج کیا ہو اس پر حج یا عمرہ کے متعلق کوئی قربانی نہیں) پھر (ایام حج میں حج وعمرہ کو جمع کرنے والوں میں سے) جس شخص کو قربانی کا جانور میسر نہ ہو (مثلا غریب ہے) تو (اس کے ذمہ بجائے قربانی کے) تین دن کے روزے ہیں (ایام) حج میں (کہ آخر ان ایام کا نویں تاریخ ذی الحجہ ہے) اور سات (دن کے روزے) ہیں جبکہ حج سے تمہارے لوٹنے کا وقت آجاوے (یعنی حج کرچکو خواہ لوٹنا ہو یا کہ وہیں رہنا ہو) یہ پورے دس (دن کے روزے) ہوئے (اور یہ بھی یاد رکھو کہ ابھی جو حج وعمرہ کے ملانے کا حکم ہوا ہے یہ (ملانا ہر ایک کو درست نہیں بلکہ خاص) اس شخص کے لئے (درست) ہے جس کے اہل (و عیال) مسجد حرام (یعنی کعبہ) کے قرب (نواح) میں نہ رہتے ہوں (یعنی حدود حرم مکہ میں ان کا وطن نہ ہو) ان سب احکام کی بجاآوری میں) اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو (کہ کسی امر میں خلاف نہ ہوجاوے) اور (خوب) جان لو کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ (بیباکی اور مخالفت کرنے والوں کو) سزائے سخت دیتے ہیں۔- (زمانہ افعال) حج (کا) چند مہینے ہیں جو (مشہور و) معلوم ہیں (ایک شوال دوسرا ذی قعدہ تیسرا دس تاریخیں ذی الحجہ کی) سو جو شخص ان (ایام) میں (اپنے ذمہ) حج مقرر کرلے (کہ حج کا احرام باندھ لے) تو پھر (اس شخص کو) نہ کوئی فحش بات (جائز) ہے اور نہ کوئی بےحکمی (درست) ہے اور نہ کسی قسم کا نزاع (و تکرار) زیبا ہے (بلکہ اس کو چاہئے کہ ہر وقت نیک ہی کاموں میں لگا رہے) اور جو نیک کام کرو گے اللہ تعالیٰ کو اس کی اطلاع ہوتی ہے (سو اس کا ثمرہ تم کو عنایت ہوگا) اور (جب حج کو جانے لگو تو) خرچ ضرور (ساتھ) لے لیا کرو سب سے بڑی بات (اور خوبی) خرچ میں (گداگری سے) بچا رہنا ہے اور اے ذی عقل لوگو (ان احکام کی تعمیل میں) مجھ سے ڈرتے رہو (اور کسی حکم کے خلاف مت کرو) - (اور اگر حج میں کچھ اسباب تجارت ہمراہ لیجانا مصلحت سمجھو تو) تم کو اس میں ذرا بھی گناہ نہیں کہ (حج میں) معاش کی تلاش کرو جو (تمہاری قسمت میں) تمہارے پروردگار کی طرف سے (لکھی) ہے پھر جب تم لوگ عرفات (میں ٹھر کر وہاں) سے واپس آنے لگو تو مشعر حرام کے پاس (یعنی مزدلفہ میں آکر شب کو وہاں قیام کرکے) خدا تعالیٰ کی یاد کرو اور (یاد کرنے کے طریقہ میں اپنی رائے کو دخل مت دو بلکہ) اس طرح یاد کرو جس طرح تم کو (اللہ تعالیٰ نے) بتلا رکھا ہے اور حقیقت میں قبل اس (بتلانے) کے تم محض ہی ناواقف تھے پھر (اس میں اور بھی بات یاد رکھو کہ جیسا قریش نے دستور نکال رکھا تھا کہ تمام حجاج تو عرفات میں ہو کر پھر وہاں سے مزدلفہ کو آتے تھے اور یہ مزدلفہ ہی میں رہ جاتے تھے عرفات نہ جاتے تھے یہ جائز نہیں بلکہ) تم سب کو (خواہ قریش ہوں یا غیر قریش) ضروری ہے کہ اسی جگہ ہو کر واپس آؤ جہاں اور لوگ جاکر وہاں سے واپس آتے ہیں اور (احکام حج میں پرانی رسموں پر عمل کرنے سے) خدا تعالیٰ کے سامنے توبہ کرو یقیناً اللہ تعالیٰ معاف کردیں گے اور مہربانی فرمادیں گے،- (جاہلیت میں بعضوں کی تو یہ عادت تھی کہ حج سے فارغ ہو کر منی میں جمع ہو کر اپنے آباء و اجداد کے مفاخر و فضائل بیان کیا کرتے حق تعالیٰ بجائے اس بہیودہ شغل کے اپنے ذکر کی تعلیم کے لئے فرماتے ہیں کہ) پھر جب تم اپنے اعمال حج پورے کرچکا کرو تو حق تعالیٰ کا (شکر و عظمت کے ساتھ) ذکر کیا کرو جس طرح تم اپنے آباء (و اجداد) کا ذکر کیا کرتے ہو بلکہ یہ ذکر اس سے (بدرجہا) بڑھ کر ہونا ( چاہئے اور بعضوں کی عادت تھی کہ حج میں ذکر تو اللہ تعالیٰ ہی کا کرتے تھے لیکن چونکہ آخرت کے قائل نہ تھے لہذا تمام تر ذکر ان کا صرف دنیا کے لئے دعا مانگنا ہوتا تھا حق تعالیٰ صرف دنیا طلبی کی مذمت بیان فرما کر بجائے اس کے خیر دارین طلب کرنے کی ترغیب دینے کے لئے فرماتے ہیں) سو بعضے آدمی (جو کہ کافر ہیں) ایسے ہیں جو (دعا میں یوں) کہتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار ہم کو (جو کچھ دینا ہو) دنیا میں دیدیجئے (بس سو ان کو جو کچھ ملنا ہوگا دنیا ہی میں مل رہے گا) اور ایسے شخص کو آخرت میں (بوجہ انکار آخرت کے) کوئی حصہ نہ ملے گا اور بعضے آدمی (جو کہ مومن ہیں) ایسے ہیں جو (دعا میں یوں) کہتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار ہم کو دنیا میں بھی بہتری عنایت کیجئے اور آخرت میں بھی بہتری دیجئے اور ہم کو عذاب دوزخ سے بچائیے (سو یہ لوگ اوپر کے لوگوں کی طرح بےبہرہ نہیں بلکہ) ایسے لوگوں کو (دونوں جہان میں) بڑا حصہ ملے گا بدولت ان کے اس عمل (یعنی طلب خیر دارین) کے اور اللہ تعالیٰ جلدی ہی حساب لینے والے ہیں (کیونکہ قیامت میں حساب ہوگا اور قیامت نزدیک آتی جاتی ہے جب حساب جلدی ہونے والا ہے تو وہاں کی بہتری کو مت بھولو) اور (منیٰ میں خاص طریقہ سے بھی) اللہ تعالیٰ کا ذکر کرو کئی روز تک (وہ خاص طریقہ کنکریوں کا خاص تین پتھروں پر مارنا ہے اور وہ کئی روز دسویں گیارہویں بارہویں تاریخیں ذی الحجہ کی ہیں، یا تیرہویں بھی کہ ان میں کنکریاں ماری جاتی ہیں) پھر جو شخص (کنکریاں مار کر دسویں تاریخ کے بعد) دو دن میں (مکہ واپس آنے میں) تعجیل کرے اس پر بھی کچھ گناہ نہیں اور جو شخص (ان) دو دن میں (واپسی مکہ میں) تاخیر کرے (یعنی بارہویں کو نہ آوے بلکہ تیرہویں کو آوے) اس میں بھی کچھ گناہ نہیں (اور یہ سب باتیں) اس شخص کے واسطے (ہیں) جو (خدا سے) ڈرے (اور نہ ڈرنے والے کو گناہ ثواب ہی سے غرض نہیں) اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور خوب یقین رکھو کہ تم سب کو خدا ہی کے پاس جمع ہونا ہے۔- معارف و مسائل : - احکام حج وعمرہ :- ابواب البر جن کے بیان کا سلسلہ نصف سورة بقرہ سے چل رہا ہے ان میں گیا رہواں حکم حج کا ہے حج کا تعلق چونکہ مکہ مکرمہ اور بیت اللہ یعنی کعبہ سے ہے اس لئے اس کے متعلقہ کچھ مسائل تو قبلہ کے بیان میں ضمنی طور پر سورة بقرہ کی آیات ١٢٥ سے ١٢٨ تک وَاِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً سے شروع ہو کر وَاَرِنَا مَنَاسِكَنَا تک ذکر میں آگئے ہیں پھر بحث قبلہ کے ختم پر ایک ١٥٨ اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ میں صفا کے درمیان سعی کرنے کا حکم بھی ضمنی طور پر بیان ہوچکا ہے اب آیت نمبر ١٩٦ سے آیت نمبر ٢٠٣ تک وَاَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ سے شروع ہو کر فَمَنْ تَعَـجَّلَ فِيْ يَوْمَيْنِ الخ تک آٹھ آیات مسلسل حج وعمرہ کے احکام و مسائل سے متعلق ہیں۔- حج باجماع امت اسلام کے ارکان میں سے ایک رکن اور فرائض اسلام میں سے ایک اہم فرض ہے جس کی تاکید و اہمیت قرآن کریم کی بہت سی آیات اور بیشمار احادیث صحیحہ میں وارد ہوئی ہے۔- جمہور کے قول کے مطابق حج کی فرضیت ہجرت کے تیسرے یعنی غزوہ احد کے سال میں سورة آ لِ عمران کی اس آیت (٩٧) سے ہوتی ہے، وَلِلّٰهِ عَلَي النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ (الآیہ ابن کثیر) اسی آیت میں فرضیت حج کی شرائط کا بیان اور باوجود قدرت ہونے کے حج نہ کرنے پر سخت وعید مذکور ہے،- مذکور الصدر آٹھ آیتوں میں سے پہلی آیت وَاَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلّٰهِ باتفاق مفسرین قصہ حدیبیہ میں نازل ہوئی جو ٦ ہجری میں واقعہ ہوا ہے اسی سے یہ معلوم ہوگیا کہ اس آیت کا مقصد حج کی فرضیت بتلانا نہیں وہ پہلے بتلائی جاچکی ہے بلکہ اس جگہ حج وعمرہ کے کچھ خاص احکام بتلانا مقصود ہے،- عمرہ کا حکم :- اور چونکہ سورة آل عمران جس میں حج کا فرض ہونا مذکور ہے اس میں صرف حج ہی کا ذکر ہے عمرہ کا نہیں اور یہ آیت جس میں عمرہ کو بذریعہ احرام شروع کردے تو اس کا پورا کرنا واجب ہوجاتا ہے جیسا عام نفلی نماز اور روزہ کا بھی حکم یہی ہے کہ شروع کرنے سے واجب ہوجاتے ہیں اس لیے اس آیت سے یہ مسئلہ معلوم نہیں ہوتا کہ عمرہ واجب ہے یا نہیں صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ کوئی شروع کردے تو اس کا پورا کرنا واجب ہوجاتا ہے۔- ابن کثیر نے بحوالہ ترمذی، احمد، بیہقی حضرت جابر سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا کہ عمرہ واجب ہے آپ نے فرمایا واجب تو نہیں لیکن کرلو تو بہتر و افضل ہے (قال الترمذی ہذا حدیث حسن صحیح) اس وجہ سے امام اعظم ابوحنیفہ مالک وغیرہ کے نزدیک عمرہ واجب نہیں سنت ہے آیت مذکورہ میں جب یہ بیان ہوا کہ حج یا عمرہ کا احرام باندھ لیں تو ان کا پورا کرنا واجب ہوجاتا ہے تو اب یہ سوال پیدا ہوا کہ اگر احرام باندھنے کے بعد کوئی مجبوری پیش آجائے حج وعمرہ ادا نہ کرسکیں تو کیا کریں اس کا بیان بعد کے جملہ میں فَاِنْ اُحْصِرْتُمْ سے فرمادیا،- احرام کے بعد کوئی مجبوری پیش آجائے حج وعمرہ ادا نہ کرسکیں تو کیا کریں :- یہ آیت چونکہ واقعہ حدیبیہ میں نازل ہوئی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام نے عمرہ کا احرام باندھا ہوا تھا کفار مکہ نے مکہ میں داخل ہونے اور عمرہ ادا کرنے سے روک دیا اس پر یہ حکم نازل ہوا کہ احرام کا فدیہ ایک قربانی دینا ہے بکری، گائے، اونٹ وغیرہ کی جو آسان ہو قربانی دے کر احرام کھول دیں مگر ساتھ ہی اگلے جملے وَلَا تَحْلِقُوْا رُءُوْسَكُمْ میں یہ بھی بتلا دیا کہ احرام کھولنا جس کی شرعی صورت سر کے بال منڈوانا یا کٹوانا ہے اس وقت تک جائز نہیں جب تک محرم کی قربانی اپنے موقع پر پہنچ کر ذبح نہ ہوجائے،- موقع پر پہنچنے سے مراد امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک یہ ہے کہ حدود حرم میں پہنچ کر ذبح کی جائے خود نہ کرسکیں تو کسی دوسرے سے کرادیں، اس آیت میں مجبوری کی یہ صورت کہ کوئی دشمن حائل ہوجائے صراحۃ مذکور ہے، امام اعظم ابوحنیفہ اور بعض دوسرے ائمہ نے بیماری وغیرہ کی مجبوری کو بھی اس میں باشتراک علت داخل قرار دیا ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عملی بیان سے یہ امر بھی ثابت ہوگیا کہ مجبوری کی حالت میں قربانی دے کر احرام کھول دینا جائز ہے مگر بعد میں قضاء کرنا واجب ہے جیسا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام نے اگلے سال عمرہ کی قضا کی ہے۔- اس آیت میں سر منڈانے کو احرام کھولنے کی علامت قرار دیا گیا جس سے ثابت ہوا کہ حالت احرام میں سر منڈانا یا بال کٹوانا ممنوع ہے اس کی مناسبت سے اگلا حکم یہ بتلایا گیا کہ جو شخص حج وعمرہ کے افعال ادا کرنے سے تو مجبور نہیں مگر حالت احرام میں کوئی مجبوری سر کے بال منڈانے یا کٹوانے کی پیش آجائے تو وہ کیا کرے۔- حالت احرام میں بال منڈانے پر کوئی مجبور ہوجائے تو وہ کیا کرے :- فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِيْضًا اَوْ بِهٖٓ اَذًى مِّنْ رَّاْسِهٖ میں ارشاد فرمایا کہ اگر کسی بیماری کے سبب سر یا بدن کے کسی دوسرے حصہ کے بال منڈانے کی مجبوری ہو یا سر میں جوُویں پیدا ہو کر تکلیف دے رہی ہوں تو ایسی صورت میں بال منڈانا بقدر ضرورت جائز ہے مگر اس کا فدیہ اور بدلہ یہ ہے کہ روزے رکھے یا صدقہ دے یا قربانی کرے، قربانی کے لئے تو حدود حرم کی جگہ متعین ہے روزے اور صدقہ کے لئے کوئی جگہ متعین نہیں ہر جگہ ادا کرسکتا ہے قرآن کے الفاظ میں صیام کا کوئی عدد اور صدقہ کی کوئی مقدار مذکور نہیں ہے مگر حدیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت کعب بن عجرہ صحابی کی ایسی ہی حالت میں یہ فرمایا کہ تین روزے رکھیں یا چھ مسکینوں کو آدھا صاع گندم کا بطور صدقہ دیدیں (صحیح بخاری) - آدھا صاع ہمارے اسی تولہ کے سیر کے حساب سے تقریبا پونے دو سیر گندم ہوتے ہیں ان کی قیمت صدقہ کردینا بھی کافی ہے،- حج کے مہینوں میں حج وعمرہ کو جمع کرنے کے احکام :- اسلام سے پہلے عرب اہل جاہلیت کا خیال تھا کہ جب حج کے مہینے شروع ہوجائیں یعنی ماہ شوال شروع ہوجائے تو ان ایام میں حج وعمرہ کا جمع کرنا سخت گناہ ہے اس آیت کے آخری حصے میں ان کے اس خیال کی اصلاح اس طرح کردی گئی کہ حدود میقات کے اندر رہنے والوں کے لئے تو حج وعمرہ دونوں کو اشہر حج میں جمع کرنا ممنوع رکھا گیا کیونکہ ان کو اشہر حج کے بعد دوبارہ عمرہ کے لئے سفر کرنا مشکل نہیں لیکن حدود میقات کے باہر سے آنے والوں کے لئے جمع کرنے کو جائز قرار دیا کہ دور دراز سے عمرہ کے لئے مستقل سفر کرنا ان کے لئے آسان نہیں، میقات وہ معین مقامات ہیں جو اطراف عالم سے مکہ میں آنے والوں کے ہر راستہ پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے متعین ہیں کہ جب بقصد مکہ آنے والا مسافر یہاں پہنچے تو یہاں سے حج یا عمرہ کی نیت سے احرام با ندھنا لازم ہے بغیر احرام کے یہاں سے آگے بڑہنا جرم و گناہ ہے،- لِمَنْ لَّمْ يَكُنْ اَھْلُهٗ حَاضِرِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ کا یہی مفہوم ہے کہ جس شخص کے اہل و عیال مسجد حرام کے قرب و جوار یعنی حدود میقات کے اندر نہیں رہتے، مقصد یہ ہے کہ اس کا وطن حدود میقات کے اندر نہیں ہے اس کیلئے حج وعمرہ کو اشہر حج میں جمع کرنا جائز ہے،- البتہ جو لوگ حج وعمرہ کو اشہر حج میں جمع کریں ان پر واجب ہے کہ دونوں عبادتوں کو جمع کرنے کا شکرانہ ادا کریں وہ یہ ہے کہ جس کو قربانی دینے کی قدرت ہو وہ ایک قربانی دیدے بکری، گائے، اونٹ جو اس کے لئے آسان ہو، لیکن جس شخص کی مالی حیثیت قربانی ادا کرنے کے قابل نہیں اس پر دس روزے اس طرح واجب ہیں کہ تین روزے تو ایام حج کے اندر ہی رکھے یعنی نویں ذی الحجہ تک پورے کردے باقی سات روزے حج سے فارغ ہو کر جہاں چاہے اور جب چاہے رکھے وہیں مکہ مکرمہ میں رہ کر پورے کرے یا گھر واپس آکر اختیار ہے، اگر کوئی شخص تین روزے ایام حج میں نہ رکھ سکا تو پھر امام اعظم ابوحنیفہ اور اکابر صحابہ کے نزدیک اس کے لئے قربانی کرنا ہی متعین ہے جب قدرت ہو کسی کے ذریعہ حرم میں قربانی کرادے، (جصاص) - تمتع وقران :- اشہر حج میں حج کے ساتھ عمرہ کو جمع کرنے کی دو صورتیں ہیں ایک یہ کہ میقات سے ہی حج اور عمرہ دونوں کا احرام ایک ساتھ باندھ لے اس کو اصطلاح حدیث میں قرن کہا گیا ہے اس کا احرام حج کے احرام کے ساتھ کھلتا ہے آخر ایام حج تک اس کو احرام ہی کی حالت میں رہنا پڑتا ہے دوسرے یہ کہ میقات سے صرف عمرہ کا احرام باندھے اور مکہ مکرمہ پہنچ کر عمرہ کے افعال ادا کرکے احرام کھول دے پھر آٹھویں ذی الحجہ کو منیٰ جانے کے وقت حج کا احرام حرم شریف کے اندر ہی باندھ لے اس کو اصطلاح میں تمتع کہا جاتا ہے۔- اور لفظی معنی کے اعتبار سے لفظ تمتع دونوں صورتوں میں برابر ہے قرآن کی آیت مذکورہ میں فَمَنْ تَمَتَّعَ اسی عام معنی میں ہے :- احکام حج وعمرہ میں خلاف ورزی اور کوتاہی موجب عذاب :- آخر آیت میں اول تقویٰ اختیار کرنے کا حکم دیا جس کے معنیٰ ہیں اللہ تعالیٰ کے احکام کی خلاف ورزی سے ڈرنے اور بچنے کے، اس کے بعد فرمایا واعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ شَدِيْدُ الْعِقَاب یعنی جو شخص جان بوجھ کر اللہ تعالیٰ کے احکام کی خلاف ورزی کرتا ہے اس کے لئے اللہ تعالیٰ کا عذاب سخت ہے آج کل حج وعمرہ کو جانے والے بکثرت اس سے غافل ہیں اول تو حج وعمرہ کے احکام معلوم کرنے ہی کی پوری کوشش نہیں کرتے پھر معلوم بھی ہو تو بکثرت ان کے مطابق عمل نہیں کرتے غلط کار معلموں اور ساتھیوں کی بےپروائی سے بہت سے واجبات تک چھوٹ جاتے ہیں اور آداب وسنن کا تو کہنا کیا، اللہ تعالیٰ سب کو اصلاح عمل کی توفیق عطا فرمادیں۔
وَاَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَۃَ لِلہِ ٠ ۭ فَاِنْ اُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْہَدْيِ ٠ ۚ وَلَا تَحْلِقُوْا رُءُوْسَكُمْ حَتّٰى يَبْلُغَ الْہَدْيُ مَحِلَّہٗ ٠ ۭ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِيْضًا اَوْ بِہٖٓ اَذًى مِّنْ رَّاْسِہٖ فَفِدْيَۃٌ مِّنْ صِيَامٍ اَوْ صَدَقَۃٍ اَوْ نُسُكٍ ٠ ۚ فَاِذَآ اَمِنْتُمْ ٠ ۪ فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَۃِ اِلَى الْحَجِّ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْہَدْيِ ٠ ۚ فَمَنْ لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلٰثَۃِ اَيَّامٍ فِي الْحَجِّ وَسَبْعَۃٍ اِذَا رَجَعْتُمْ ٠ ۭ تِلْكَ عَشَرَۃٌ كَامِلَۃٌ ٠ ۭ ذٰلِكَ لِمَنْ لَّمْ يَكُنْ اَھْلُہٗ حَاضِرِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ٠ ۭ وَاتَّقُوا اللہَ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ ١٩٦ ۧ- تمَ- تَمَام الشیء : انتهاؤه إلى حدّ لا يحتاج إلى شيء خارج عنه، والناقص : ما يحتاج إلى شيء خارج عنه . ويقال ذلک للمعدود والممسوح، تقول : عدد تَامٌّ ولیل تام، قال : وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [ الأنعام 115] ، وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ- [ الصف 8] ، وَأَتْمَمْناها بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِيقاتُ رَبِّهِ [ الأعراف 142] .- ( ت م م ) تمام الشیء کے معنی کسی چیز کے اس حد تک پہنچ جانے کے ہیں جس کے بعد اسے کسی خارجی شے کی احتیاج باقی نہ رہے اس کی ضد ناقص یعنی وہ جو اپنی ذات کی تکمیل کے لئے ہنور خارج شے کی محتاج ہو اور تمام کا لفظ معدودات کے متعلق بھی استعمال ہوتا ہے اور مقدار وغیرہ پر بھی بولا جاتا ہے مثلا قرآن میں ہے : ۔ وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [ الأنعام 115] اور تمہارے پروردگار وعدہ پورا ہوا ۔ وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ [ الصف 8] حالانکہ خدا اپنی روشنی کو پورا کرکے رہے گا ۔ وَأَتْمَمْناها بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِيقاتُ رَبِّهِ [ الأعراف 142] . اور دس ( راتیں ) اور ملا کر اسے پورا ( حیلہ ) کردیا تو اس کے پروردگار کی ۔۔۔۔۔ میعاد پوری ہوگئی ۔- حج - أصل الحَجِّ القصد للزیارة، قال الشاعر : يحجّون بيت الزّبرقان المعصفرا خصّ في تعارف الشرع بقصد بيت اللہ تعالیٰ إقامة للنسک، فقیل : الحَجّ والحِجّ ، فالحَجُّ مصدر، والحِجُّ اسم، ويوم الحجّ الأكبر يوم النحر، ويوم عرفة، وروي : «العمرة الحجّ الأصغر» ( ح ج ج ) الحج ( ن ) کے اصل معنی کسی کی زیارت کا قصد اور ارادہ کرنے کے ہیں شاعر نے کہا ہے ( طویل ) (99) یحجون سب الزیتون المعصفرا وہ زبر قان کے زر رنگ کے عمامہ کی زیارت کرتے ہیں ۔ اور اصطلاح شریعت میں اقامت نسک کے ارادہ سے بیت اللہ کا قصد کرنے کا نام حج ہے ۔ الحج ( بفتح الما) مصدر ہے اور الحج ( بکسرالحا) اسم ہے اور آیت کریمہ :۔ ويوم الحجّ الأكبر يوم میں حج اکبر سے مراد یوم نحر یا یوم عرفہ ہے ۔ ایک روایت میں ہے :۔ العمرۃ الحج الاصغر عمر حج اصغر ہے ۔.- عُمْرَةُ- والِاعْتِمَارُ والْعُمْرَةُ : الزیارة التي فيها عِمَارَةُ الودّ ، وجعل في الشّريعة للقصد المخصوص . وقوله : إِنَّما يَعْمُرُ مَساجِدَ اللَّهِ [ التوبة 18] ، إمّا من العِمَارَةِ التي هي حفظ البناء، أو من العُمْرَةِ التي هي الزّيارة- الا عتمار والعمرۃ کے معنی ملاقات کے ہیں کیونکہ ملاقات سے بھی محبت اور دوستی کا خانہ آباد ہوتا ہے اصلاح شریعت میں حج کے علاوہ بیت اللہ کی زیارت اور طواف وسعی کرنے کو عمرۃ کہا جاتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّما يَعْمُرُ مَساجِدَ اللَّهِ [ التوبة 18] خدا کی مسجدوں کو تو ۔۔۔۔ آباد کرتے ہیں ۔ میں یعمر کا لفظ یا تو العمارۃ سے ہے جس کے معنی آباد اور حفاظت کرنا ہیں اور یا العمرۃ سے ہے جس کے معنی زیارت کے ہیں - حصر - الحَصْر : التضييق، قال عزّ وجلّ : وَاحْصُرُوهُمْ [ التوبة 5] ، أي : ضيقوا عليهم، وقال عزّ وجل : وَجَعَلْنا جَهَنَّمَ لِلْكافِرِينَ حَصِيراً [ الإسراء 8] ، أي : حابسا . قال الحسن : معناه : مهادا «5» ، كأنه جعله الحصیر المرمول کقوله : لَهُمْ مِنْ جَهَنَّمَ مِهادٌ [ الأعراف 41] فحصیر في الأول بمعنی الحاصر، وفي الثاني بمعنی المحصور، فإنّ الحصیر سمّي بذلک لحصر بعض طاقاته علی بعض، - ( ح ص ر ) الحصر - ( ن ) کے معنی تضییق یعنی تنگ کرنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا :۔ اور گھیر لو یعنی انہیں تنگ کرو ۔ اور آیت کریمہ ؛ ۔ وَجَعَلْنا جَهَنَّمَ لِلْكافِرِينَ حَصِيراً [ الإسراء 8] اور ہم نے جہنم کو کافروں کیلئے قید خانہ بنا رکھا ہے ۔ میں حصیر کے معنی روکنے والا کے ہیں ۔ حسن نے کہا ہے کہ حصیر کے معنی مھاد یعنی بچھونے کے ہیں گویا ان کے نزدیک اس سے حصیر مرموں یعنی چنائی مراد ہے اور چٹائی کو حصیر اسی لئے کہا جاتا ہے کہ اس کے ریشے ایک دوسرے کے ساتھ بندھے ہوتے ہیں ۔ - يسر - اليُسْرُ : ضدّ العسر . قال تعالی: يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] ، سَيَجْعَلُ اللَّهُ بَعْدَ عُسْرٍ يُسْراً [ الطلاق 7] ، وَسَنَقُولُ لَهُ مِنْ أَمْرِنا يُسْراً [ الكهف 88] ، فَالْجارِياتِ يُسْراً [ الذاریات 3] - ( ی س ر ) الیسر کے معنی آسانی ار سہولت کے ہیں یہ عسر کی ضد ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے ۔ اور سختی نہیں چاہتا ۔ سَيَجْعَلُ اللَّهُ بَعْدَ عُسْرٍ يُسْراً [ الطلاق 7] خدا عنقریب تنگی کے بعد کشائش بخشے گا ۔ وَسَنَقُولُ لَهُ مِنْ أَمْرِنا يُسْراً [ الكهف 88] بلکہ اس سے نرم بات کہیں گے ۔ فَالْجارِياتِ يُسْراً [ الذاریات 3] پھر نر می سے چلتی ہیں ۔ - هَدْيُ قرباني - والهَدْيُ مختصّ بما يُهْدَى إلى البیت . قال الأخفش : والواحدة هَدْيَةٌ ، قال : ويقال للأنثی هَدْيٌ كأنه مصدر وصف به، قال اللہ تعالی: فَإِنْ أُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ البقرة 196] - اور ھدی کا لفظ خاص کر اس جانور پر بولا جاتا ہے جو بیت اللہ کی طرف ذبح کے لئے بھیجا جائے اخفش نے اس کا وحد ھدیۃ لکھا ہے نر کی طرح مادہ جانور پر بھی ہدی کا لفظ بولا جاتا ہے کیونکہ یہ مصدر ہے جو بطور صفت کے استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ فَإِنْ أُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ [ البقرة 196] اور اگر رستے میں روک لئے جاؤ تو جیسی قر بانی میسر ہو کردو ۔ - حلق - الحَلْق : العضو المعروف، وحَلَقَهُ : قطع حلقه، ثم جعل الحَلْق لقطع الشعر وجزّه، فقیل : حلق شعره، قال تعالی: وَلا تَحْلِقُوا رُؤُسَكُمْ [ البقرة 196] ، وقال تعالی: مُحَلِّقِينَ رُؤُسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ [ الفتح 27] ( ح ل ق ) الحلق حلق ( وہ جگہ جہاں سے جانور کو ذبح کیا جاتا ہے ) حلقۃ ( ض ) اسکے حلق کو قطع کر ڈالا ۔ پھر یہ لفظ بال مونڈے نے پر بولا جاتا ہے ہی کہا جاتا ہے حلق شعرۃ اس نے اپنے بال منڈوا ڈالے قرآن میں ہے : ۔ وَلا تَحْلِقُوا رُؤُسَكُمْ [ البقرة 196] اور سر نہ منڈ واو ۔ مُحَلِّقِينَ رُؤُسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ [ الفتح 27] اپنے سر منند وا کر اور اپنے بال کتر وا کہ راس حلیق مونڈا ہوا مہر ۔ - رأس - الرَّأْسُ معروف، وجمعه رُؤُوسٌ ، قال : وَاشْتَعَلَ الرَّأْسُ شَيْباً [ مریم 4] ، وَلا تَحْلِقُوا رُؤُسَكُمْ [ البقرة 196] ، ويعبّر بِالرَّأْسِ عن الرَّئِيسِ ، والْأَرْأَسُ : العظیم الرّأس، وشاة رَأْسَاءُ : اسودّ رأسها . ورِيَاسُ السّيف : مقبضه .- ( ر ء س ) الراس - سر کو کہتے ہیں اور اس کی جمع رؤوس آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : وَاشْتَعَلَ الرَّأْسُ شَيْباً [ مریم 4] اور سر بڑاھاپے ( کی آگ ) سے بھڑک اٹھا ہے ۔ وَلا تَحْلِقُوا رُؤُسَكُمْ [ البقرة 196] اپنے سر نہ منڈاؤ اور کبھی راس بمعنی رئیس بھی آتا ہے اور ارء س ( اسم تفصیل ) کے معنی بڑے سر والا کے ہیں اور سیاہ سر والی بکری کو شاۃ راساء کہتے ہیں اور ریاس السیف کے معنی دستہ شمشیر کے ہیں ۔- حَتَّى- حَتَّى حرف يجرّ به تارة كإلى، لکن يدخل الحدّ المذکور بعده في حکم ما قبله، ويعطف به تارة، ويستأنف به تارة، نحو : أكلت السمکة حتی رأسها، ورأسها، ورأسها، قال تعالی: لَيَسْجُنُنَّهُ حَتَّى حِينٍ [يوسف 35] ، وحَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر 5] .- ويدخل علی الفعل المضارع فينصب ويرفع،- وفي كلّ واحد وجهان :- فأحد وجهي النصب : إلى أن .- والثاني : كي .- وأحد وجهي الرفع أن يكون الفعل قبله ماضیا، نحو : مشیت حتی أدخل البصرة، أي :- مشیت فدخلت البصرة .- والثاني : يكون ما بعده حالا، نحو : مرض حتی لا يرجونه، وقد قرئ : حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ [ البقرة 214] ، بالنصب والرفع «1» ، وحمل في كلّ واحدة من القراء تین علی الوجهين . وقیل : إنّ ما بعد «حتی» يقتضي أن يكون بخلاف ما قبله، نحو قوله تعالی: وَلا جُنُباً إِلَّا عابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا [ النساء 43] ، وقد يجيء ولا يكون کذلک نحو ما روي :- «إنّ اللہ تعالیٰ لا يملّ حتی تملّوا» «2» لم يقصد أن يثبت ملالا لله تعالیٰ بعد ملالهم - حتی ٰ ( حرف ) کبھی تو الیٰ کی طرح یہ حرف جر کے طور پر استعمال ہوتا ہے لیکن اس کے مابعد غایت ماقبل کے حکم میں داخل ہوتا ہے اور کبھی عاطفہ ہوتا ہے اور کبھی استیناف کا فائدہ دیتا ہے ۔ جیسے اکلت السملۃ حتی ٰ راسھا ( عاطفہ ) راسھا ( جارہ ) راسھا ( مستانفہ قرآن میں ہے ليَسْجُنُنَّهُ حَتَّى حِينٍ [يوسف 35] کچھ عرصہ کے لئے نہیں قید ہی کردیں ۔ وحَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر 5] طلوع صبح تک ۔۔۔۔ جب یہ فعل مضارع پر داخل ہو تو اس پر رفع اور نصب دونوں جائز ہوتے ہیں اور ان میں ہر ایک کی دو وجہ ہوسکتی ہیں نصب کی صورت میں حتی بمعنی (1) الی آن یا (2) گی ہوتا ہے اور مضارع کے مرفوع ہونے ایک صورت تو یہ ہے کہ حتی سے پہلے فعل ماضی آجائے جیسے ؛۔ مشیت حتی ادخل ۔ البصرۃ ( یعنی میں چلا حتی کہ بصرہ میں داخل ہوا ) دوسری صورت یہ ہے کہ حتیٰ کا مابعد حال واقع ہو جیسے مرض حتی لایرجون و دو بیمار ہوا اس حال میں کہ سب اس سے ناامید ہوگئے ) اور آیت کریمۃ ؛۔ حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ [ البقرة 214] یہاں تک کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پکار اٹھے ۔ میں یقول پر رفع اور نصب دونوں منقول ہیں اور ان ہر دو قرآت میں دونوں معنی بیان کئے گئے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ حتیٰ کا مابعد اس کے ماقبل کے خلاف ہوتا ہے ۔ جیسا ک قرآن میں ہے : وَلا جُنُباً إِلَّا عابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا [ النساء 43] ۔ اور جنابت کی حالت میں بھی نماز کے پاس نہ جاؤ ) جب تک کہ غسل ( نہ ) کرو ۔ ہاں اگر بحالت سفر رستے چلے جارہے ہو اور غسل نہ کرسکو تو تیمم سے نماز پڑھ لو ۔ مگر کبھی اس طرح نہیں بھی ہوتا جیسے مروی ہے ۔ اللہ تعالیٰ لاتمل حتی تملو ا ۔ پس اس حدیث کے یہ معنی نہیں ہیں کہ تمہارے تھک جانے کے بعد ذات باری تعالیٰ بھی تھک جاتی ہے ۔ بلکہ معنی یہ ہیں کہ ذات باری تعالیٰ کو کبھی ملال لاحق نہیں ہوتا ۔- بلغ - البُلُوغ والبَلَاغ : الانتهاء إلى أقصی المقصد والمنتهى، مکانا کان أو زمانا، أو أمرا من الأمور المقدّرة، وربما يعبّر به عن المشارفة عليه وإن لم ينته إليه، فمن الانتهاء : بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ الأحقاف 15]- ( ب ل غ ) البلوغ - والبلاغ ( ن ) کے معنی مقصد اور متبٰی کے آخری حد تک پہنچے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ مقصد کوئی مقام ہو یا زمانہ یا اندازہ کئے ہوئے امور میں سے کوئی امر ہو ۔ مگر کبھی محض قریب تک پہنچ جانے پر بھی بولا جاتا ہے گو انتہا تک نہ بھی پہنچا ہو۔ چناچہ انتہاتک پہنچے کے معنی میں فرمایا : - بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ الأحقاف 15] یہاں تک کہ جب خوب جو ان ہوتا ہے اور چالس برس کو پہنچ جاتا ہے ۔ - مرض - الْمَرَضُ : الخروج عن الاعتدال الخاصّ بالإنسان، وذلک ضربان :- الأوّل : مَرَضٌ جسميٌّ ، وهو المذکور في قوله تعالی: وَلا عَلَى الْمَرِيضِ حَرَجٌ- [ النور 61] ، وَلا عَلَى الْمَرْضى[ التوبة 91] .- والثاني : عبارة عن الرّذائل کالجهل، والجبن، والبخل، والنّفاق، وغیرها من الرّذائل الخلقيّة .- نحو قوله : فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَهُمُ اللَّهُ مَرَضاً [ البقرة 10] ، أَفِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ أَمِ ارْتابُوا [ النور 50] ، وَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَتْهُمْ رِجْساً إِلَى رِجْسِهِمْ [ التوبة 125]- ( م ر ض ) المرض کے معنی ہیں انسان کے مزاج خصوصی کا اعتدال اور توازن کی حد سے نکل جانا اور یہ دوقسم پر ہے ۔ مرض جسمانی جیسے فرمایا : وَلا عَلَى الْمَرِيضِ حَرَجٌ [ النور 61] اور نہ بیمار پر کچھ گناہ ہے ۔ وَلا عَلَى الْمَرْضى[ التوبة 91] اور نہ بیماروں پر ۔- دوم مرض کا لفظ اخلاق کے بگڑنے پر بولا جاتا ہے اور اس سے جہالت بزدلی ۔ بخل ، نفاق وغیرہ جیسے اخلاق رزیلہ مراد ہوتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَهُمُ اللَّهُ مَرَضاً [ البقرة 10] ان کے دلوں میں کفر کا مرض تھا ۔ خدا نے ان کا مرض اور زیادہ کردیا ۔ أَفِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ أَمِ ارْتابُوا [ النور 50] گناہ ان کے دلوں میں بیماری ہے یا یہ شک میں ہیں ۔ وَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَتْهُمْ رِجْساً إِلَى رِجْسِهِمْ [ التوبة 125] اور جن کے دلوں میں مرض ہے ۔ ان کے حق میں خبث پر خبث زیادہ کیا ۔ - - أذي - الأذى: ما يصل إلى الحیوان من الضرر إمّا في نفسه أو جسمه أو تبعاته دنیویاً کان أو أخرویاً ، قال تعالی: لا تُبْطِلُوا صَدَقاتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْأَذى [ البقرة 264] - ( ا ذ ی ) الاذیٰ ۔- ہرا س ضرر کو کہتے ہیں جو کسی جاندار کو پہنچتا ہے وہ ضرر جسمانی ہو یا نفسانی یا اس کے متعلقات سے ہو اور پھر وہ ضرر دینوی ہو یا اخروی چناچہ قرآن میں ہے : ۔ لَا تُبْطِلُوا صَدَقَاتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْأَذَى ( سورة البقرة 264) اپنے صدقات ( و خیرات ) کو احسان جتا کر اور ایذا دے کر برباد نہ کرو ۔ - فدی - الفِدَى والفِدَاءُ : حفظ الإنسان عن النّائبة بما يبذله عنه، قال تعالی: فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِداءً [ محمد 4] ، يقال : فَدَيْتُهُ بمال، وفدیته بنفسي، وفَادَيْتُهُ بکذا، قال تعالی: إِنْ يَأْتُوكُمْ أُساری تُفادُوهُمْ [ البقرة 85] ، وتَفَادَى فلان من فلان، أي : تحامی من شيء بذله . وقال :- وَفَدَيْناهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ [ الصافات 107] ، وافْتَدى: إذا بذل ذلک عن نفسه، قال تعالی: فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ [ البقرة 229] ، وَإِنْ يَأْتُوكُمْ أُساری تُفادُوهُمْ [ البقرة 85] ، والمُفَادَاةُ : هو أن يردّ أسر العدی ويسترجع منهم من في أيديهم، قال : وَمِثْلَهُ مَعَهُ لَافْتَدَوْا بِهِ [ الرعد 18] ، لَافْتَدَتْ بِهِ [يونس 54] ، ولِيَفْتَدُوا بِهِ [ المائدة 36] ، وَلَوِ افْتَدى بِهِ [ آل عمران 91] ، لَوْ يَفْتَدِي مِنْ عَذابِ يَوْمِئِذٍ بِبَنِيهِ [ المعارج 11] ، وما يقي به الإنسان نفسه من مال يبذله في عبادة قصّر فيها يقال له : فِدْيَةٌ ، ككفّارة الیمین، وكفّارة الصّوم . نحو قوله : فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيامٍ أَوْ صَدَقَةٍ [ البقرة 196] ، فِدْيَةٌ طَعامُ مِسْكِينٍ [ البقرة 184]- ( ف د ی ) الفدٰی والفداء - کے معنی کسی کی جانب سے کچھ دیگر اسے مصیبت سے بچالینا کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِداءً [ محمد 4] پھر اس کے بعد یا تو احسان رکھ کر چھوڑ دینا چاہئے ۔ یا کچھ مال لے لر ۔ چناچہ محاورہ فدیتہ بمال میں نے کچھ خرچ کر کے اسے مسیبت سے بچالیا فدیتہ منفسی میں نے اپنی جان کے عوض اسے چھڑالیا فاواہُ بکذا ۔ اس نے کچھ دے کت اسے چھڑا لیا قرآن میں ہے ۔ إِنْ يَأْتُوكُمْ أُساری تُفادُوهُمْ [ البقرة 85] اور اگر وہ تمہارے پاس قید ہوکر آئیں تو بدلہ دے کر انہیں چھڑا بھی لیتے ہو ۔ تفادیٰ فلان من فلان کسی کا فدیہ دے کر اس کو چھڑالینا ۔ وَفَدَيْناهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ [ الصافات 107] اور ہم نے ایک بڑی قربانی کو ان کا فدیہ دیا ۔ افتدیٰ کے معنی خواہ اپنے کو مال کے عوض چھڑانے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ [ البقرة 229] رہائی پانے کے بدلے میں وَمِثْلَهُ مَعَهُ لَافْتَدَوْا بِهِ [ الرعد 18]( تو وہ سب کے سب ) اور ان کے ساتھ ہی اتنے اور ( نجات کے ) بدلے میں صرف کر ڈالیں ۔ لَافْتَدَتْ بِهِ [يونس 54] تو ( عذاب سے بچنے کے لئے ( سب ) دے ڈالے ۔ ولِيَفْتَدُوا بِهِ [ المائدة 36] تاکہ بدلہ دیں۔ وَلَوِ افْتَدى بِهِ [ آل عمران 91] اگر بدلے میں دیں لَوْ يَفْتَدِي مِنْ عَذابِ يَوْمِئِذٍ بِبَنِيهِ [ المعارج 11] کہ کسی طرح اس دن کے عذاب کے بدلے میں ( سب کچھادے ڈالے یعنی بیٹے اور جو مال کسی عبادت میں کوتاہی کرنے کی وجہ سے - خرچ کر کے انسان خود اپنے کو گناہ سے بچاتا ہے اسے بھی فدیتہ کہا جاتا ہے جیسا کہ کفار یمین اور صوم کے متعلق فرمایا ۔ فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيامٍ أَوْ صَدَقَةٍ [ البقرة 196] تو اس کے بدلے روزے رکھے یا صدقے دے یا قربانی کرے ۔ فِدْيَةٌ طَعامُ مِسْكِينٍ [ البقرة 184] روزے کے بدلے محتاج کو کھانا کھلادیں ۔- صوم - الصَّوْمُ في الأصل : الإمساک عن الفعل مطعما کان، أو کلاما، أو مشیا، ولذلک قيل للفرس الممسک عن السّير، أو العلف : صَائِمٌ. قال الشاعر :۔ خيل صِيَامٌ وأخری غير صَائِمَةٍ- «1» وقیل للرّيح الرّاكدة : صَوْمٌ ، ولاستواء النهار :- صَوْمٌ ، تصوّرا لوقوف الشمس في كبد السماء، ولذلک قيل : قام قائم الظّهيرة . ومَصَامُ الفرسِ ، ومَصَامَتُهُ : موقفُهُ. والصَّوْمُ في الشّرع : إمساک المکلّف بالنّية من الخیط الأبيض إلى الخیط الأسود عن تناول الأطيبين، والاستمناء والاستقاء، وقوله : إِنِّي نَذَرْتُ لِلرَّحْمنِ صَوْماً- [ مریم 26] ، فقد قيل : عني به الإمساک عن الکلام بدلالة قوله تعالی: فَلَنْ أُكَلِّمَ الْيَوْمَ إِنْسِيًّا [ مریم 26] .- ( ص و م ) الصوم - ( ن ) کے اصل معنی کسی کام سے رک جانا اور باز رہنا کے ہیں خواہ اس کا تعلق کھانے پینے سے ہو یا چلنے پھرنے اور یا گفتگو کرنے سے اس بنا پر گھوڑا چلنے سے رک جائے یا چارہ نہ کھائے اسے بھی صائم کہا جاتا ہے شاعر نے کہا ہے ( البیط ) ( 280 ) خیل صیام واخرٰ ی غیر صائیمۃ کچھ گھوڑے اپنے تھان پر کھڑے ہیں اور دوسرے میدان جنگ میں ہوں ۔ اور ہوا کے ساکن ہونے اور دوپہر کے وقت پر بھی صوم کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ اس تصور پر کہ اس وقت آفتاب وسط آسمان میں ٹہھر جاتا ہے اسی اعتبار سے قام قائم الظھیرۃ کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے جس کے معنی دوپہر کے وقت سورج کے خط نصف النہار پر ہونا کے ہیں مصمام الفرس او مصامتہ گھوڑے کے کھڑے ہونے کی جگہ ۔ اصطلاحی شریعت میں کسی مکلف کا روزہ کی نیت کے ساتھ صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے پینے منی خارج کرنے اور ۔ عمدا قے کرنے سے رک جانے کا نام صوم ہے اور آیت کریمہ : ۔ إِنِّي نَذَرْتُ لِلرَّحْمنِ صَوْماً [ مریم 26] کہ میں نے خدا کے لئے روزے کی منت مانی ہے ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں صوم سے مراد کلام سے رکنے یعنی خاموش رہنا کے ہیں ۔ جیسا کہ بعد میں فَلَنْ أُكَلِّمَ الْيَوْمَ إِنْسِيًّا [ مریم 26] تو آج میں کسی آدمی سے ہر گز کلام نہ کروں گی ) سے اسکی تفسیر کی گئی ہے ۔- صدقه - والصَّدَقَةُ : ما يخرجه الإنسان من ماله علی وجه القربة کالزّكاة، لکن الصدّقة في الأصل تقال للمتطوّع به، والزّكاة للواجب، وقد يسمّى الواجب صدقة إذا تحرّى صاحبها الصّدق في فعله . قال : خُذْ مِنْ أَمْوالِهِمْ صَدَقَةً [ التوبة 103] ، وقال :إِنَّمَا الصَّدَقاتُ لِلْفُقَراءِ [ التوبة 60- ( ص دق) الصدقۃ ( خیرات )- ہر وہ چیز جو انسان اپنے مال سے قرب الہی حاصل کرنے کے لئے دیتا ہے اور یہی معنی زکوۃ کے ہیں مگر صدقۃ اسے کہتے ہیں جو واجب نہ ہو ۔ اور کبھی واجب کو بھی صدقۃ سے موسوم کردیا جاتا ہے ۔ جب کہ خیرات دینے والا اس سے صدق یعنی صلاح وتقوی کا قصد کرے قرآن میں ہے : ۔ خُذْ مِنْ أَمْوالِهِمْ صَدَقَةً [ التوبة 103] ان کے مال میں سے زکوۃ قبول کرلو ۔ إِنَّمَا الصَّدَقاتُ لِلْفُقَراءِ [ التوبة 60] صدقات ( یعنی زکوۃ و خیرات ) تو مفلسوں کا حق ہے ۔- نسك - النُّسُكُ : العبادةُ ، والنَّاسِكُ : العابدُ واختُصَّ بأَعمالِ الحجِّ ، والمَنَاسِكُ : مواقفُ النُّسُك وأعمالُها، والنَّسِيكَةُ : مُخْتَصَّةٌ بِالذَّبِيحَةِ ، قال : فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ [ البقرة 196] ، فَإِذا قَضَيْتُمْ مَناسِكَكُمْ [ البقرة 200] ، مَنْسَكاً هُمْ ناسِكُوهُ [ الحج 67] .- ( ن س ک ) النسک کے معنی عبادک کے ہیں اور ناسک عابد کو کہا جاتا ہے ، مگر یہ لفظ ارکان حج کے ادا کرنے کے ساتھ مخصوص ہوچکا ہے ۔ المنا سک اعمال حج ادا کرنے کے مقامات النسیکۃ خاص کر ذبیحہ یعنی قربانی کو کہتے ہیں ۔ قرآن میں سے : ۔ فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ [ البقرة 196] تو اس کے بدلے روزے رکھے یا صد قے دے یا قر بانی کرے ۔ فَإِذا قَضَيْتُمْ مَناسِكَكُمْ [ البقرة 200] پھر جب حج کے تمام ارکان پورے کر چکو ۔ مَنْسَكاً هُمْ ناسِكُوهُ [ الحج 67] ایک شریعت مقرر کردی جس پر وہ چلتے ہیں ۔- إذا - إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له - ( اذ ا ) اذ ا - ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔- اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔- (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی)- (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ)- (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔- مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔- (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) - (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن)- (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی)- أمن - أصل الأَمْن : طمأنينة النفس وزوال الخوف، والأَمْنُ والأَمَانَةُ والأَمَانُ في الأصل مصادر، ويجعل الأمان تارة اسما للحالة التي يكون عليها الإنسان في الأمن، وتارة اسما لما يؤمن عليه الإنسان، نحو قوله تعالی: وَتَخُونُوا أَماناتِكُمْ [ الأنفال 27] ، أي : ما ائتمنتم عليه، - ( ا م ن ) الامن ۔ اصل میں امن کا معنی نفس کے مطمئن ہونا کے ہیں ۔ امن ، امانۃ اور امان یہ سب اصل میں مصدر ہیں اور امان کے معنی کبھی حالت امن کے آتے ہیں اور کبھی اس چیز کو کہا جاتا ہے جو کسی کے پاس بطور امانت رکھی جائے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ وَتَخُونُوا أَمَانَاتِكُمْ ( سورة الأَنْفال 27) یعنی وہ چیزیں جن پر تم امین مقرر کئے گئے ہو ان میں خیانت نہ کرو ۔ - وجد - الوجود أضرب : وجود بإحدی الحواسّ الخمس . نحو : وَجَدْتُ زيدا، ووَجَدْتُ طعمه . ووجدت صوته، ووجدت خشونته . ووجود بقوّة الشّهوة نحو : وَجَدْتُ الشّبع . ووجود بقوّة الغضب کو جود الحزن والسّخط . ووجود بالعقل، أو بواسطة العقل کمعرفة اللہ تعالی، ومعرفة النّبوّة، وما ينسب إلى اللہ تعالیٰ من الوجود فبمعنی العلم المجرّد، إذ کان اللہ منزّها عن الوصف بالجوارح والآلات . نحو : وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف 102] . - ( و ج د ) الو جود - ( ض) کے معنی کسی چیز کو پالینا کے ہیں اور یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے حواس خمسہ میں سے کسی ایک حاسہ کے ساتھ اور اک کرنا جیسے وجدت طعمہ ( حاسہ ذوق ) وجدت سمعہ ( حاسہ سمع ) وجدت خثومتہ حاسہ لمس ) قوی باطنہ کے ساتھ کسی چیز کا ادراک کرنا ۔ جیسے وجدت الشبع ( میں نے سیری کو پایا کہ اس کا تعلق قوت شہو یہ کے ساتھ ہے ۔ وجدت الحزن وا لسخط میں نے غصہ یا غم کو پایا اس کا تعلق قوت غضبہ کے ساتھ ہے ۔ اور بذریعہ عقل کے کسی چیز کو پالیتا جیسے اللہ تعالیٰ یا نبوت کی معرفت کہ اسے بھی وجدان کہا جاتا ہے ۔ جب وجود پالینا ) کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی جائے تو اس کے معنی محض کسی چیز کا علم حاصل کرلینا کے ہوتے ہیں کیونکہ ذات باری تعالیٰ جوارح اور آلات کے ذریعہ کسی چیز کو حاصل کرنے سے منزہ اور پاک ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف 102] اور ہم نے ان میں سے اکثروں میں عہد کا نباہ نہیں دیکھا اور ان میں اکثروں کو ( دیکھا تو ) بد عہد دیکھا ۔- يوم - اليَوْمُ يعبّر به عن وقت طلوع الشمس إلى غروبها . وقد يعبّر به عن مدّة من الزمان أيّ مدّة کانت، قال تعالی: إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران 155] ، - ( ی و م ) الیوم - ( ن ) ی طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک کی مدت اور وقت پر بولا جاتا ہے اور عربی زبان میں مطلقا وقت اور زمانہ کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ خواہ وہ زمانہ ( ایک دن کا ہو یا ایک سال اور صدی کا یا ہزار سال کا ہو ) کتنا ہی دراز کیوں نہ ہو ۔ قرآن میں ہے :إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران 155] جو لوگ تم سے ( احد کے دن ) جب کہہ دوجماعتیں ایک دوسرے سے گتھ ہوگئیں ( جنگ سے بھاگ گئے ۔ - سبع - أصل السَّبْع العدد، قال : سَبْعَ سَماواتٍ [ البقرة 29] ، سَبْعاً شِداداً [ النبأ 16] - ( س ب ع ) السبع اصل میں " سبع " سات کے عدد کو کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے ؛ سَبْعَ سَماواتٍ [ البقرة 29] سات آسمان ۔ سَبْعاً شِداداً [ النبأ 16] سات مضبوط ( آسمان بنائے ) ۔ - رجع - الرُّجُوعُ : العود إلى ما کان منه البدء، أو تقدیر البدء مکانا کان أو فعلا، أو قولا، وبذاته کان رجوعه، أو بجزء من أجزائه، أو بفعل من أفعاله . فَالرُّجُوعُ : العود، - ( ر ج ع ) الرجوع - اس کے اصل معنی کسی چیز کے اپنے میدا حقیقی یا تقدیر ی کی طرف لوٹنے کے ہیں خواہ وہ کوئی مکان ہو یا فعل ہو یا قول اور خواہ وہ رجوع بذاتہ ہو یا باعتبار جز کے اور یا باعتبار فعل کے ہو الغرض رجوع کے معنی عود کرنے اور لوٹنے کے ہیں اور رجع کے معنی لوٹا نے کے - عشر - العَشْرَةُ والعُشْرُ والعِشْرُونَ والعِشْرُ معروفةٌ. قال تعالی: تِلْكَ عَشَرَةٌ كامِلَةٌ [ البقرة 196] ، عِشْرُونَ صابِرُونَ [ الأنفال 65] - ( ع ش ر ) العشرۃ دس العشرۃ دسواں حصہ العشرون بیسواں العشر ( مویشیوں کا دسویں دن پانی پر وار ہونا ) قرآن میں ہے : تِلْكَ عَشَرَةٌ كامِلَةٌ [ البقرة 196] یہ پوری دس ہوئے عِشْرُونَ صابِرُونَ [ الأنفال 65] بیس آدمی ثابت قدم۔ - كمل - كَمَالُ الشیء : حصول ما فيه الغرض منه . فإذا قيل : كَمُلَ ذلك، فمعناه : حصل ما هو الغرض منه، وقوله تعالی: وَالْوالِداتُ يُرْضِعْنَ أَوْلادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كامِلَيْنِ [ البقرة 233] تنبيها أنّ ذلک غاية ما يتعلّق به صلاح الولد . وقوله : لِيَحْمِلُوا أَوْزارَهُمْ كامِلَةً يَوْمَ الْقِيامَةِ- [ النحل 25] تنبيها أنه يحصل لهم کمال العقوبة- ( ک م ل ) کمال الشی کسی چیز کا ل ہونے سے مراد ہے غرض پوری ہوجانا جس کے لئے وہ وجود میں آتی تھی ۔ چناچہ کے متعلق کمل ذالک کہا جاتا ہے تو اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ جو کچھ اس سے مقصود تھا ۔ وہ حاصل ہوگیا ۔ اور آیت کریمہ : ، وَالْوالِداتُ يُرْضِعْنَ أَوْلادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كامِلَيْنِ [ البقرة 233] اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ پلائیں ۔ میں کاملین سے مراد یہ ہے کہ رضاعت کے لئے دو سال مدت آخر مدت ہے جس سے بچہ کی نشونما اور اس کی بیوی کا تعلق ہے اور آیت کریمہ : ۔ لِيَحْمِلُوا أَوْزارَهُمْ كامِلَةً يَوْمَ الْقِيامَةِ [ النحل 25] یہ قیامت کے دن اپنے ( اعمال ) پورے بوجھ بھی اٹھائیں گے ۔ میں اس بات پر تنبیہ کی ہے کہ انہیں قیامت کے دن پوری سزا ملے گی - أهل - أهل الرجل : من يجمعه وإياهم نسب أو دين، أو ما يجري مجراهما من صناعة وبیت وبلد، وأهل الرجل في الأصل : من يجمعه وإياهم مسکن واحد، ثم تجوّز به فقیل : أهل الرجل لمن يجمعه وإياهم نسب، وتعورف في أسرة النبيّ عليه الصلاة والسلام مطلقا إذا قيل :- أهل البیت لقوله عزّ وجلّ : إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ [ الأحزاب 33] - ( ا ھ ل ) اھل الرجل - ۔ ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو اس کے ہم نسب یا ہم دین ہوں اور یا کسی صنعت یامکان میں شریک ہوں یا ایک شہر میں رہتے ہوں اصل میں اھل الرجل تو وہ ہیں جو کسی کے ساتھ ایک مسکن میں رہتے ہوں پھر مجازا آدمی کے قریبی رشتہ داروں پر اہل بیت الرجل کا لفظ بولا جانے لگا ہے اور عرف میں اہل البیت کا لفظ خاص کر آنحضرت کے خاندان پر بولا جانے لگا ہے کیونکہ قرآن میں ہے :۔ إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ ( سورة الأحزاب 33) اسے پیغمبر گے اہل بیت خدا چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی ( کا میل کچیل ) دور کردے ۔- حضر - الحَضَر : خلاف البدو، والحَضَارة والحِضَارَة : السکون بالحضر، کالبداوة والبداوة، ثمّ جعل ذلک اسما لشهادة مکان أو إنسان أو غيره، فقال تعالی: كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ البقرة 180] ، نحو : حَتَّى إِذا جاءَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ الأنعام 61] ، وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ [ النساء 8]- ( ح ض ر ) الحضر - یہ البدو کی ضد ہے اور الحضارۃ حاد کو فتحہ اور کسرہ دونوں کے ساتھ آتا ہے جیسا کہ بداوۃ وبداوۃ اس کے اصل شہر میں اقامت کے ہیں ۔ پھر کسی جگہ پر یا انسان وگیرہ کے پاس موجود ہونے پر حضارۃ کا لفظ بولاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ البقرة 180] تم پر فرض کیا جاتا ہے کہ جب تم میں سے کسی کو موت کا وقت آجائے ۔ وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ [ النساء 8] اور جب تم میراث کی تقسیم کے وقت ۔۔۔ آمو جود ہوں ۔ - - مَسْجِدُ- : موضع الصلاة اعتبارا بالسجود، وقوله : وَأَنَّ الْمَساجِدَ لِلَّهِ [ الجن 18] ، قيل : عني به الأرض، إذ قد جعلت الأرض کلّها مسجدا وطهورا کما روي في الخبر وقیل : الْمَسَاجِدَ : مواضع السّجود : الجبهة والأنف والیدان والرّکبتان والرّجلان، وقوله : أَلَّا يَسْجُدُوا لِلَّهِ [ النمل 25] أي : يا قوم اسجدوا، وقوله : وَخَرُّوا لَهُ سُجَّداً [يوسف 100] ، أي : متذلّلين، وقیل : کان السّجود علی سبیل الخدمة في ذلک الوقت سائغا، وقول الشاعر : وافی بها لدراهم الْإِسْجَادِعنی بها دراهم عليها صورة ملک سجدوا له . المسجد ( ظرف ) کے معنی جائے نماز کے ہیں اور آیت وَأَنَّ الْمَساجِدَ لِلَّهِ [ الجن 18] اور مسجدیں تو خدا ہی ( کی عبادت کے لئے ہیں ) میں بعض نے کہا ہے کہ مساجد سے روئے زمین مراد ہے کیونکہ آنحضرت کے لئے تمام زمین کو مسجد اور طھور بنایا گیا ہے جیسا کہ ایک حدیث میں مروی ہے اور بعض نے کہا ہے کہ مساجد سے اعضاء سجود یعنی پیشانی ناک دونوں ہاتھ دونوں زانوں اور دونوں پاؤں مراد ہیں اور آیت : ۔ أَلَّا يَسْجُدُوا لِلَّهِ [ النمل 25]( اور نہیں سمجھتے ) کہ اللہ کو ۔۔۔۔۔۔۔ سجدہ کیوں نہ کریں ۔ میں لا زائدہ ہے اور معنی یہ ہیں کہ میری قوم اللہ ہی کو سجدہ کرو ۔ اور آیت : ۔ وَخَرُّوا لَهُ سُجَّداً [يوسف 100] اور اس کے سامنے سجدہ ریز ہوگئے ۔ میں اظہار عاجزی مراد ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ مراد سجدہ خدمت ہے جو اس وقت جائز تھا اور شعر ( الکامل ) وافی بها لدراهم الْإِسْجَادِمیں شاعر نے وہ دراھم مراد لئے ہیں جن پر بادشاہ کی تصویر ہوتی تھی اور لوگ ان کے سامنے سجدہ کرتے تھے ۔- تقوي - والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] - التقویٰ- اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔- شدید - والشِّدَّةُ تستعمل في العقد، وفي البدن، وفي قوی النّفس، وفي العذاب، قال : وَكانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً [ فاطر 44] ، عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوى[ النجم 5] ، يعني : جبریل عليه السلام، - ( ش دد ) الشد - اور شدۃ کا لفظ عہد ، بدن قوائے نفس اور عذاب سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَكانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً [ فاطر 44] وہ ان سے قوت میں بہت زیادہ تھے ۔ عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوى[ النجم 5] ان کو نہایت قوت والے نے سکھایا ؛نہایت قوت والے سے حضرت جبریل (علیہ السلام) مراد ہیں - عُقُوبَةُ والمعاقبة والعِقَاب - والعُقُوبَةُ والمعاقبة والعِقَاب يختصّ بالعذاب، قال : فَحَقَّ عِقابِ [ ص 14] ، شَدِيدُ الْعِقابِ [ الحشر 4] ، وَإِنْ عاقَبْتُمْ فَعاقِبُوا بِمِثْلِ ما عُوقِبْتُمْ بِهِ [ النحل 126] ، وَمَنْ عاقَبَ بِمِثْلِ ما عُوقِبَ بِهِ [ الحج 60] .- اور عقاب عقوبتہ اور معاقبتہ عذاب کے ساتھ مخصوص ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ فَحَقَّ عِقابِ [ ص 14] تو میرا عذاب ان پر واقع ہوا ۔ شَدِيدُ الْعِقابِ [ الحشر 4] سخت عذاب کر نیوالا ۔ وَإِنْ عاقَبْتُمْ فَعاقِبُوا بِمِثْلِ ما عُوقِبْتُمْ بِهِ [ النحل 126] اگر تم ان کو تکلیف دینی چاہو تو اتنی ہی دو جتنی تکلیف تم کو ان سے پہنچی ہے ۔ وَمَنْ عاقَبَ بِمِثْلِ ما عُوقِبَ بِهِ [ الحج 60] جو شخص کسی کو اتنی ہی سزا کہ اس کو دی گئی ہے ۔
آیا عمرہ فرض ہے یا نقل ؟- ارشاد باری ہے (واتموا الحج والعمرۃ للہ، اللہ کے لئے حج اور عمرہ پورا کرو) اس آیت کی تاویل میں سلف کا اختلاف ہے۔ حضرت علی ، حضرت عمر، سعید بن جبیر اور طائوس سے مروی ہے کہ حج اور عمرہ کے اتمام کا مطلب یہ ہے کہ تم اپنے گھر سے دونوں کا احرام باندھ لو۔- مجاہد کا قول ہے کہ اتمام کا مفہمو یہ ہے کہ حج اور عمرہ میں داخل ہونے کے بعد ان دونوں کے آخری افعال تک ادا کئے جائیں۔ سعید بن جبیر اور عطاء کا قول ہے۔ اللہ کے لئے ان کے تمام افعال و ارکان کو قائم کرنا اس لئے کہ یہ دونوں واجب ہیں۔ گویا ان دونوں نے آیت کی یہ تاویل کی کہ اس میں ان دونوں چیزوں کی ادائیگی کا حکم ہے گویا یوں فرمایا گیا کہ حج اور عمرہ کرو۔- حضرت ابن عمر اور طائوس سے مروی ہے کہ اتمام سے مراد افراد ہے ینی الگ الگ احرام کے ذریعے ان دونوں کی ادائیگی ہے ۔ قتادہ کا قول ہے عمرہ پورا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ حج کے مہینوں کے سوا دوسرے مہینوں میں عمرہ ادا کیا جائے۔- عمرہ کے وجوب کے متعلق بھی سلف میں اختلاف رائے ہے۔ حضرت ابن مسعود، ابراہیم نخعی اور شعبی سے مروی ہے کہ یہ نفل ہے ۔ مجاہد نے قول باری (واتموا الحج والعمرۃ للہ) کی تفسیر میں کہا ہے کہ ان دونوں کے اندر جن افعال کا ہم نے حکم دیا ہے انہیں پورا کرو۔ حضرت عائشہ ، حضرت ابن عباس، حضرت ابن عمر، حسن بصری اور ابن سیرین سے مروی ہے کہ عمرہ واجب ہے۔ مجاہد سے بھی اسی قسم کی روایت ہے۔- طائوس نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ یہ واجب یعنی فرض ہے ۔ جو لوگ عمرے کے وجوب یعنی فرضیت کے قائل ہیں انہوں نے ظاہر آیت (واتموا الحج والعمرۃ للہ) سے استدلال کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ آیت کے الفاظ میں احتمال ہے کہ حج اور عمرہ میں داخل ہونے کے بعد انہیں پورا کیا جائے اور اس میں یہ بھی احتمال ہے کہ ان دونوں کے اعفال کے ابتداء کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے۔ اس لئے آیت کے الفاظ کو ان دونوں احتمالات پر محمول کرنا واجب ہے اور اس کی حیثیت اس عموم کی طرح ہے جو ہر اس چیز کو شامل ہوتا ہے جو اس میں شامل ہوسکتی ہے اور کوئی چیز اس کے دائرے سے کسی دلیل کے بغیر نکل نہیں سکتی۔- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ آیت میں وجوب عمرہ پر کوئی دلالت موجود نہیں ہے۔ وہ اس طرح کہ آیت میں زیادہ سے زیادہ جو بات ہے وہ حج اور عمرے کے اتمام کا حکم ہے اور یہ حکم صرف اس بات کا متقاضی ہے کہ ان کی ادائیگی میں کوئی کمی نہ رہے بلکہ ان کے ارکان و افعال پورے پر وے ادا کئے جائیں۔ اس لئے کہ لغت کے لحاظ سے نقصان یعنی کمی رہ جانا تمام یعنی پورا ہونے کے مفہوم کی ضد ہے۔ بطلان اس کی ضد نہیں ہے۔- آپ ناقص کو غیر تام کہتے ہیں لیکن کسی ایسی چیز کو غیر تام نہیں کہتے جس کے کسی حصے کا وجود ہی نہ ہو۔ اس سے ہمیں یہ معلوم ہوگیا کہ اتمام کا حکم نقصان کی نفی کا متقاضی ہے۔ اسی بنا پر حضرت علی اور حضرت عمر کا قول ہے کہ ان دونوں کے اتمام کا مطلب یہ ہے کہ تم اپنے گھر سے ہی ان دونوں کے لئے احرام باندھ لو۔- اگر بات اسی طرح ہے جو ہم نے یان کی ہے تو آیت کی تاویل یہ ہوگی کہ ان کی ادائیگی ناقص طریقے سے نہ ہو۔ اب ناقص طریقے سے ادائیگی کا نہ ہونا وجوب پر دلالت نہیں اس لئے کہ نوافل پر بھی اب فقرے کا اطلاق درست ہے۔ آپ حسب موقع یہ کہتے ہیں کہ نفلی حج یا نفلی عمرہ نقاص طرقیے سے ادا نہ کرو۔ اسی طرح نفل نماز کو بھی ناقص ادائیگی سے بچائو۔ اس لئے جب اتمام کا حکم نقصان کی نفی کا متقاضی ہے تو اس صورت میں وجوب پر اس کی دلالت نہیں ہوگی۔- ہمارے استدلال کی صحت پر یہ بات دلالت کر رہی ہے کہ آیت میں نفلی حج اور نفلی عمرہ مراد ہیں جنہیں ناقص طور پر ادا کرنے سے منع کیا گیا ہے اور بنیادی طور پر ان دونوں کے وجوب پر آیت کی دلالت نہیں ہے۔ نیز یہ پہلو بھی موجود ہے کہ لفظ اتمام کے زیادہ ظاہر معنی یہ ہیں کہ اس کا اطلاق کسی چیز میں دخول یا ابتداء کے بعد اس پر کیا جاتا ہے۔- قول باری ہے (ثم اتموا الصیام الی اللیل) یہاں روزے میں دخو ل کے بعد اس پر اتمام کے لفظ کا اطلاق کیا گیا ہے۔ اسی طرح حدیث ہے (ماادرکتم فصلوا وما فاتکم فاتموا جماعت کے ساتھ نماز کا جتنا حصہ مل جائے اسے پڑھ لو اور جو رہ جائے اسے پورا کرلو) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لفظ اتمام کا اطلاق نماز میں دخول کے بعد کی حالت پر کیا ہے۔- اس بات پر کہ آیت سے مراد حج اور عمرہ میں داخل ہونے کے بعد ان کے اتمام کو واجب کرنا ہے یہ چیز دلالت کر رہی ہے کہ آیت کی رو سے نفلی حج اور عمرہ شروع کرنے کے بعد ان کا اتمام لازم ہوجاتا ہے گویا کہ آیت میں یوں کہا گیا کہ حج اور عمرہ میں داخل ہونے کے بعد انہیں پورا بھی کرو۔ اب جبکہ دخول کے بعد اتمام کالزوم ثابت ہوگیا تو اس لزوم کو ابتداء پر محمول کر کے یہ کہنا کہ یہ دونوں واجب ہیں درست نہیں ہے۔ اس لئے کہ ان دونوں مفہوم میں تضاد ہے۔- آپ نہیں دیکھتے کہ اگر آیت سے دخول کی وجہ سے لازم کردینا مراد لیا جائے تو پھر دخول سے پہلے لازم کردینے کا معنی خود بخود منتفی ہوجائے گا۔ اس لئے کہ دخول سے پہلے لازم کردینے کی صورت دخول کی وجہ سے واجب ہونے کے مفہوم کے مناف ہے آپ نہیں دیکھتے کہ فرض حج کے متعلق یہ کہنا درست نہیں ہے کہ وہ دخول کے بعد لازم ہوجاتا ہے یا مثلاً ظہر کی نماز دخول کی وجہ سے لازم ہوجاتی ہے۔- درج بالا صورت حال اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ دخول کی وجہ سے ان دونوں کے ایجاب اور دخول سے قبل ابتداء سے ایجاب کا ارادہ کرنا درست نہیں ہے۔ اس لئے ہمارے بیان سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ اس آیت میں عمرہ کے، وجوب پر اس میں داخل ہونے سے پہلے کوئی دلالت نہیں ہے۔- عمرے کے بارے میں مختلف خیالات - عقلی طور پر بھی عمرہ کے عدم وجوب پر اس طرح استدلال کیا جاسکتا ہے کہ جو عبادات فرض ہیں وہ ایسے اوقات کے ساتھ مخصوص ہیں کہ ان اوقات کے وجود کے ساتھ ان عبادات کی فرضیت کا تعلق ہوتا ہے۔ مثلاً نماز، روزہ، زکواۃ اور حج ۔ اب اگر عمرہ فرض ہوتا تو اس کے لئے بھی کوئی دقت مخصوص ہوتا جب ایسا نہیں ہے تو عمرہ کرنے والا آزاد ہے جس وقت چاہے عمرہ کرسکتا ہے۔ اس طرح اس کی مشابہت نفل نماز اور نفلی روزے کے ساتھ ہوگئی۔- اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ نفلی حج بھی تو ایک وقت کے ساتھ مخصوص ہے لیکن اس کا اس طرح ہونا اس کے وجوب پر دلالت نہیں کرتا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ تمہاری یہ بات لازم نہیں آتی۔ اس لئے کہ ہم نے یہ کہا تھا کہ ایسی فرضی عبادت جو ہر شخص کے لئے اس کی ذاتی حیثیت میں لازم ہوتی ہیں۔ ان کی شرائط میں سے ایک شرط یہ ہے کہ وہ اوقات کے ساتھ مخصوص ہیں اور جو عبادت کسی وقت کے ساتھ مخصوص نہ ہو وہ فرض عبادت نہیں ہوتی۔- اس سے یہ امتناع لازم نہیں آتا کہ بعض نوفال کسی وقت کے ساتھ مخصوص ہوں اور بعض اس سے آزاد ہوں، سا لئے کلیہ یہ بنا کر ہر وہ عبادت جو کسی وقت کے ساتھ مخصوص نہ ہو وہ نفل ہوت ی ہے اور جو وقت کے ساتھ مخصوص ہوتی ہے اس کی دو قسمیں ہیں۔ بعض فرض ہیں اور بعض نوافل۔ ایسے آثار و مرویات بھی ہیں جن سے عمرہ کے عدم وجوب پر استدلال کیا جاسکتا ہے۔ ان میں سے ایک وہ ہے جس کی ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت کی ہے، انہیں احمد بن بحتر عطار نے، انہیں محمد بن ب کرنے ، انہیں محمد بن فضل بن عطیہ نے سالم افطس سے، انہوں نے سعید بن جبیر سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (الحج جھاد والعمرۃ تطوع ، حج جہاد ہے اور عمرہ نفل) ۔- جو لوگ عمرہ کے وجوب کے قاتل ہیں وہ اس روایت سے استدلال کرتے ہیں جو ابن لھیعہ نے عطاء سے اور انہوں نے حضرت جابر سے کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (الحج والعمرۃ فریضتان واجبتان حج اور عمرہ و لازمی فریضے ہیں۔ )- اسی طرح ان کا اس روایت سے بھی استدلال ہے جو حسن بصری نے حضرت سمرۃ سے کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (اقیموالصلوۃ واتوالزکوۃ وحجوا واعتمووا واستغیموا الیستقم لکم، ) نماز قائم کرو، زکوۃ ادا کرو حج اور عمرہ کرو سیدھے رہو تمہارے تمام معاملات سیدھے رہیں گے) اور ظاہر ہے کہ آپ کے امر کو وجوب پر محمول کیا جاتا ہے۔ - اسی طرح ایک اور روایت ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسلام کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے نماز وغیرہ کے ذکر کے بعد فرمایا (وان تحج وتعتمو اور یہ کہ تم حج اور عمرہ کرو) اسی طرح ان کا استدلال صبی بن معبد کے قول سے بھی ہے کہ ” میں نے حج اور عمرہ کو اپنے اوپر فرض پایا۔ “ حضرت عمر کے سامنے یہ بات کہی گئی اور آپ نے اس کی تردید نہیں کی۔ بلکہ اس سے یہ فرمایا کہ ” حج اور عمرہ دونوں کو جمع کرلیا کرو۔ “- اسی طرح ان کا استدلال ابو رزین کی حدیث سے ہے جو بنو عامر کا ایک شخص تھا۔ اس نے عرض کیا ” اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرا باپ بہت بوڑھا ہے وہ نہ اونٹ پر سفر کرسکتا ہے اور نہ ہی حج اور عمرہ ادا کرسکتا ہے۔ “ آپ نے فرمایا :” اپنے باپ کی طرف سے حج اور عمرہ کرلو۔ “- وجوب عمرہ میں ابولھیعہ کے طریق سے حضرت جابر کی جو حدیث ہے وہ اس لحاظ سے ضعیف ہے کہ ابولھیعہ ایک ضعیف اور بہت زیادہ غلطیاں کرنے والا راوی ہے کہا جاتا ہے کہ اس کی کتابیں جل گئی تھیں اور سا نے روایت کرنے کے لئے اپنے حفظ کا سہارا لیا تھا لیکن اس کا حافظہ بہت خراب تھا عدم وجوب کی جو روایت ہم نے حضرت جابر سے کی ہے اس کی سند ابن لھیعہ کی سند سے بہتر ہے۔ اگر سند کے لحاظ سے دونوں روایتوں کو یکساں تلیم کرلیا جائے تو زیادہ سے زیادہ ہوگا کہ دونوں ایک دوسرے سے متعارض ہونے کی وجہ سے ساقط ہوجائیں گی اور ہمارے لئے طلحہ اور ابن عباس کی روایت باقی رہ جائے گی جس کا کسی روایت سے تعارض نہیں۔- اگر کوئی یہ کہے کہ ایجاب عمرہ کی نفی میں جو حدیث آپ نے حجاج سے، انہوں نے محمد بن المنکدر سے اور انہوں نے حضرت جابر سے روایت کی ہے وہ ایجاب عمرہ کی اس حدیث سے متعارف نہیں ہے جو ابن لھیعہ نے عطاء سے اور انہوں نے حضرت جابر سے روایت کی ہے۔ اس لئے کہ حجاج کی حدیث اصل کے طور پر مروی ہے جبکہ ابن لھیعہ کی حدیث اس اصل کی ناقل ہے اور قاعدہ یہ ہے کہ ایک مسئلے کے متعلق دو حدیثیں مروی ہوں جن میں ایک نفی کرنے والی اور دوسری اثبات کی حامل ہو تو اثبات والی روایت اولیٰ ہوگی۔- اسی طرح اگر ایک روایت موجب ہو اور دوسری غیر موجب تو پہلی روایت اولیٰ ہوگی۔ اس لیء کہ ایجاب اس کے ترک کی ممانعت کا متقاضی ہوتا ہے جبکہ نفی کی صورت میں کوئی ممانعت نہیں ہوتی اور ترک کی ممانتع کرنے والی روایت ممانعت نہ کرنے والی روایت سے اولیٰ ہوتی ہے۔- اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بات اس بنا پر ضروری نہیں ہے کہ ایجاب عمرہ والی ابن لھیعہ کی روایت اگر ثابت ہوتی تو اس کی بکثرت روایت ہوتی کیونکہ لوگوں کو اس کی عام ضرورت تھی اور اس سے ہر وہ شخص واقف ہوتا جو وجوب حج سے واقف تھا۔ اس لئے کہ اس کا وجوب بھی حج کے وجوب کی طرح ہوتا ہے اور جسے حج کی ادائیگی کا مخاطب بنایا جاتا وہ عمرہ کی ادائیگی کا بھی مخاطب ہوتا۔- اس لئے جس حدیث کی یہ حدیث ہو اس کا ورود خبر واحد کی شکل میں درست نہیں ہوتا علاوہ ازیں اس کی سند میں بھی ضعف ہے اور ایک دوسری روایت اس کی معارض ہے۔ نیز یہ بھی واضح ہے کہ یہ روایتیں ایک ہی صحابی سے مروی ہیں۔- اگر وجوب کیر وایت تاریخ کے اعتبار سے نفی وجوب کی روایت سے متاخر ہوتی تو حضرت جابر اس کی ضرور وضاحت کردیتے اور یوں فرماتے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عمرہ کے متعلق فرمایا تھ ا کہ یہ نفل ہے پھر بعد میں آپ نے فرمایا تھا کہ یہ واجب ہے، کیونکہ یہ بات قابل تسلیم نہیں ہے کہ حضرت جابر کو دونوں روایتوں کا علم ہو اور ان کی تاریخ بھی انہیں معلوم ہو اور پھر آپ تاریخ کا ذکر کئے بغیر کبھی ایجاب کی روایت بیان کردیتے اور کبھی نفی ایجاب کی روایت جو اس کی ضد ہے۔- یہ وضاحت اس پر دلالت کرتی ہے کہ یہ دونوں حدیثیں ایک دوسرے کی متعارق منقول ہوئی ہیں۔ البتہ اگر دو حدیثیں دو صحابیوں سے اثبات اور نفی کے ساتھ منقول ہوئی ہوں تو ان میں اعتبار کا وہی طریقہ ہوگا جس کا ہم پہلے ذکر کر آئے ہیں۔ حضرت سمرہ بن جندب کی روایت میں امر کے لفظ (فاعتموا عمرہ کرو) کو ہمارے بیان کردہ دلائل کی روشنی میں ندب یعنی استحباب پر محمول کیا جائے گا۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جب اسلام سکے متعلق پوچھا گیا تھا تو آپ نے نماز وغیرہ کے ذکر کے بعد یہ فرمایا تھا کہ (وان تحج وتعتمو اور یہ کہ تم حج اور عمرہ کرو) اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ نوافل بھی تو آخر اسلام کا حصہ ہیں۔ اسی طرح ہر وہ عبادت اسلام کا حصہ ہے جو تقرب الٰہی کے حصول کی خاطر ادا کی جائے۔ چناچہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ اسلام کے کچھ اوپر ستر شعبے ہیں اور راستے سے تکلیف وہ چیز کو ہٹا دینا بھی ایک شعبہ ہے۔- حضرت عمر کے سامنے صبی بن معبد نے یہ کہا تھا کہ ۔” میں نے حج اور عمرہ کو اپنے اوپر فرض پایا ہے۔ حضرت عمر یہ سن کر خاموش رہے اور اس پر نکیر نہیں کی اس کی تاویل یہ ہے کہ صبی نے یہ کہا تھا کہ یہ دونوں مجھ پر فرض ہیں۔ “ یہ نہیں کہا تھا کہ ” یہ دونوں لوگوں پر فرض ہیں۔ “ اس قول کے ظاہر کا تقاضا تو یہ ہے کہ انہوں نے اس کی نذر مانی ہو۔ اسطرح نذر کی وجہ سے یہ دونوں ان پر لازم ہوگئے ہوں۔- نیز یہ بھی ہوسکتا ہے کہ انہوں نے آیت حج و عمرہ کی یہی تاویل کی ہو جبکہ اس میں تاویل کی گنجائش موجود ہے اور اسی گنجاش کی بنا پر حضرت عمر نے انہیں ٹوکا تھا۔ اس کی حیثیت بالکل وہی ہے جو وجوب عمرہ کے قائل کے قول کی ہے ۔ اس لئے کہ اجتہادی طور پر اس کے لئے اس قول کی گنجائش ہے اس بن اپر اسے ٹوکا نہیں جاسکتا۔- بنو عامر کے جس شخص نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اپنے بوڑھے باپ کے متعلق مسئلہ پوچھا تھا آپ نے اسے فرمایا تھا کہ اپنے باپ کی طرف سے حج اور عمرہ کرو تو آپ کے اس قول میں وجوب عمرہ پر کوئی دلالت موجود نہیں ہے۔ اس لئے کہ اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔ آپ کا یہ قول وجوب کو لازم کرنے کے موقعہ و محل میں نہیں تھا کیونکہ بنو عامر کے اس شخص پر اپنے باپ کی طرف سے نہ تو حج کرنا لازم تھا اور نہ ہی عمرہ کرنا۔- بعض لوگ قول باری (وافعلوا الخیر، نیکی کے کام کرو) سے عمرہ کے وجوب پر استدلال کرتے ہیں اس لئے کہ عمرہ بھی نیکی ہے۔ ظاہر لفظ تو تمام نیکیوں کے ایجاب کا متقاضی ہے لیکن یہ استدلال کئی وجوہ سے ساقط ہے پہلی وجہ یہ ہے کہ یہ ثابت کرنے کی ضرورت ہے کہ عمرہ کے وجوب کا اعتقاد رکھتے ہوئے اس کی ادائیگی نیکی ہے۔ اس لئے جس شخص کا اس کے وجوب کے متعلق اعتقاد نہ ہو اس کے لئے وجوب کے طور پر اس کی ادائیگی درست نہیں ہوگی اور اگر وہ اسی طرح اعتقاد پر اسے ادا کرے گا تو یہ نیکی نہ ہوگی جس طرح کہ ایک شخص نفل نماز پڑھے اور اس میں فرض کا اعتقاد کرے۔- دوسری وجہ یہ ہے کہ قول باری صوافعلوا الخیر) ایک مجمل لفظ ہے اس لئے کہ یہ ایسے مجمل پر مشتمل ہے کہ اگر یہ لفظاً وارد بھی ہوجائے تو اس پر عمل لازم نہیں ہوتا ۔ اگر آپ دیکھیں تو اس میں آپ کو نماز، روزہ اور زکوۃ وغیرہ سب داخل نظر آئیں گے اور یہ سب کے سب فرائض مجملہ ہیں اور جب لفظ ایسے معانی پر مشتمل ہو جو مجمل ہو تو وہ لفظ خود مجمل بن جائے گا اور اپنے حکم کے اثبات کے لئے کسی اور دلیل کا محتاج ہوگا۔- تیسری وجہ یہ ہے کہ لفظ الخیر، میں الف لام جنس کا ہے جس کا استغراق ممکن نہیں۔ اس بنا پر یہ اس کم سے کم نیکی کو شامل ہوگا جس پر لفظ خیر کا اطلاق کیا جاسکتا ہو۔ مثلاً کوئی یہ کہے کہ اگر میں نے پانی پی لیا یا عوتروں سے نکاح کیا تو … اب اگر وہ ان دونوں کاموں کا کم سے کم درجہ بھی سر انجام دے دے گا تو وہ اس لفظ سے عہدہ برا ہوجائے گا۔- اس میں یہ پہلو بھی ہے کہ ہمیں لفظ کے ورود کے ساتھ یہ علم ہوگیا تھا کہ یہاں خیر سے مراد خیر کی بعض صورتیں ہیں اس لئے کہ خیر کی تمام صورتوں کا احاطہ مشکل امر ہے۔ اس لئے اس فقرے کا مفہوم یہ ہوگا کہ خیر کی بعض صورتوں پر عمل کرو۔ اس مفہوم کے تحت حکم کے لزوم کے لئے بیان اور وضاحت کی ضرورت پڑے گی۔- اس سلسلے میں بعض لوگوں کا یہ استدلال ہے کہ ہمیں نفل کی صورت میں جو چیز بھی نظر آئی اس کی کوئی نہ کوئی اصل فرض میں موجود ملی ۔ اگر عمرہ بھی تطوع ہوتا تو فرض میں اس کی اصل موجود ہوتی۔ تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ عمرہ نام ہے طواف اور سعی کا اور اس کے لئے فرض میں اصل موجود ہے۔ - اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ عمرہ کے سوا کسی اور جگہ طواف اور سعی مفرد فرض کی شکل میں موجود نہیں ہوتے جبکہ فرض میں طواف وسعی تابع کی صورت میں موجود ہوتے ہیں اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ کبھی نفلی طور پر بیت اللہ کا طواف کیا جاتا ہے۔ اگرچہ فرض میں الگ سے اس کی کوئی اصل نہیں ہوتی اسی طرح عمرہ بھی نفلی طور پر ادا کی اجاتا ہے کیونکہ یہ نام ہے طواف اور سعی کا، اگرچہ فرض میں اس کی کوئی اصل نہیں ہوتی۔- امام شافعی نے یہ استدلال کیا ہے کہ جب حج اور عمرہ کی اکٹھی ادائیگی جائز ہے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ عمرہ فرض ہے کیونکہ اگر یہ نفل ہوتا تو حج کے اعمال کے ساتھ اس کے افعال کو جمع کرنا جائز نہ ہوتا جس طرح کہ ایسی دو نمازوں کو جمع نہیں کیا جاسکتا جن میں ایک فرض ہو اور دوسری نفل جبکہ چار رکعات فرضوں کے عمل کو جمع کردیا جاتا ہے۔- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ یہ ایک غلط کلیہ ہے جس پر وجوب عمرہ کا قول باطل ہوجاتا ہے۔ اس لئے کہ جب حج اور عمرہ کو جمع کرنا جائز ہوگیا اور دو فرض نمازوں کو جمع کرنا جائز نہ ہوا تو یہ خود اس بات کی دلیل ہوگئی کہ عمرہ فرض نہیں ہے۔ رہ گئی یہ بات کہ چار رکعات فرض کے عمل کو جمع کیا جات ا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ چاروں رکعتیں ایک نماز ہوتی ہیں جس طرح کہ ایک حج جو اپنے تمام ارکا ن پر مشتمل ہوتا ہے یا جس طرح کہ ایک طواف جو سات اشواط پر مشتمل ہوتا ہے۔- اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی موجود ہے کہ اس استدلال سے امام شافعی کا اصول ٹوٹ جاتا ہے وہ اس طرح کہ اگر کوئی شخص پہلے عمرہ کرے پھر فرض حج قرآن کی شکل میں اس طرح ادا کرے کہ اس کے ساتھ عمرہ بھی ملا لے تو یہ عمرہ نفلی ہوگا اور حج فرض ہوگا۔ اس طرح فرض اور نفل کے درمیان جمع درست ہوجائے گا اور اس سے ان لوگوں کا استدلال ختم ہوجائے گا جو حج کے ساتھ عمرہ کو وجوب کی بنا پر جمع کرنے کے قائل ہیں۔- امام شافعی کا یہ بھی استدلال ہے کہ حج کی طرح عمرے کے بھی میقات ہیں جس سے معلوم ہوا کہ یہ فرض ہے اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ جب کوئی شخص فرض عمرہ ادا کر کے گھر واپس ہوجائے اور دوبارہ پھر عمرہ کی ادائیگی کے ارادے سے آئے تو اس وقت بھی اس کے عمرے کے وہی میقات ہوں گے جو حج کے ہیں۔ جبکہ اس کا یہ عمرہ نفلی ہوگا۔ اس لئے میقات کی شرط وجوب پر دلالت نہیں کرتی اسی طرح نفلی حج کے بھی فرض حج کی طرح میقات ہوتے ہیں۔- امام شافعی نے حج قرآن کرنے والے پر وجوب دم سے بھی استدلال کیا ہے لیکن اس سے وجوب عمرہ پر دلالت کی وجہ بیان نہیں کی ہے صرف دلیل سے خلای ایک دعویٰ کیا ہے۔ اس کے باوجود ان کا یہ اصول ٹوٹ جاتا ہے۔ وہ اس طرح کہ اگر کوئی شخص فرض حج کے ساتھ نفلی عمرہ کرے تو اس پر بھی دم واجب ہوگا تو اگر دونوں کو جمع کر دے جبکہ دونوں نفلی ہوں تو پھر بھی دم واجب ہوگا۔ اس مثال سے امام شافعی کا اصول ٹوٹ گیا۔- محصورین کے لئے حج کے احکام - قول باری ہے (فان احصر تم فما استیسر من الھدی) اور اگر تم کہیں گھر جائو تو جو قربانی میسر آئے اللہ کی جناب میں پیش کر دو ) کسائی، ابوعبیدہ اور اکثر اہل لغت کا قول ہے کہ مرض یا نفقہ کے ختم ہونے کی وجہ سے پیش آنے والی رکاوٹ کو احصار کہتے ہیں اور دشمن کی وجہ سے پیدا ہونے والی رکاوٹ کو حصر کہتے ہیں۔ چناچہ محاورے میں یوں کہا جاتا ہے۔ ” احصرہ المرض وحصرہ العدو (بیماری اس کے لئے رکاوٹ بن گئی اور دشمن نے اسے روک دیا۔ )- فرآء سے یہ منقول ہے دونوں الفاظ ایک دوسرے کی جگہ استعمال ہوسکتے ہیں۔ ابو العباس مبرو اور زجاج نے فراء کے اس قول کو ناپسند کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ دونوں الفاظ معنی کے لحاظ سے مختلف ہیں۔ کیونکہ بیماری ک صورت میں یہ نہیں کہا جائے گا کہ ” حصرہ المرض “ اور نہ دشمن کی صورت میں ” احمرہ العدو “ بولا جائے گا۔- ان دونوں لفظوں کا استعمال بالکل اسی طرح ہے جس طرح یہ دو محاورے ہیں۔ اول ” حبسہ “ جس کا مفہوم ہے ” قید میں ڈال دیا “ اور دوم ” احبسہ “ جس کے معنی ہیں ” قید کے لئے پیش کیا “ بالکل اسی طرح قتلہ (اسے قتل کردیا) اور اقتلہ (اسے قتل کے لئے پیش کیا) یا قبرہ (اسے قبر میں دفن کردیا) اور اقبرہ (اسے قبر میں دفن کے لئے پیش کیا) ٹھیک اسی طرح حصرہ (اسے محصور کردیا) اور احصرہ (اسے حصر کے لئے پیش کیا) کے معانی ہیں۔- ابن ابی نجیع نے عطاء کے واسطے سے حضرت ابن عباس سے روایت کی ہے کہ حصر صرف دشمن کی وجہ سے ہوتا ہے اور جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے بیماری یا ہڈی وغیرہ ٹوٹ جانے کی وجہ سے روک دیا ہو وہ حصر نہیں کہلائے گا۔ حضرت ابن عباس نے یہ بتایا کہ حصر صرف دشمن کی بنا پر ہوتا ہے اور بیماری کی وجہ سے رکاوٹ کو حصر نہیں کہتے۔- یہ روایت اہل لغت کے اس قول کے موافق ہے جسے ہم نے اوپر نقل کیا ہے۔ بعض لوگوں کا قول ہے کہ اگر حصر کے معنی وہی لئے جائیں جو حضرت ابن عباس نے بیان کئے تو یہ اس بات کی دلیل ہوگی کہ بیمار کے لئے احرام کھول دینا جائز نہیں ہوگا اور وہ محصر نہیں کہلائے گا۔- لیکن حضرت ابن عباس کے قول میں کوئی ایسی دلالت موجود نہیں ہے جو معترض کے اس گمان کی تائید کرتی ہو۔ انہوں نے تو صرف اسم کے معنی کی نشاندہی کی ہے ۔ حکم کے معنی کی نشاندہی نہیں کی۔ انہوں نے تو یہ بتایا کہ احصار کا لفظ بیماری کی رکاوٹ کے ساتھ اور حصر کا لفظ دشمن کی رکاوٹ کے ساتھ خاص ہے۔- محصر (گھر جانے والے شخص) کے حکم کے متعلق سلف سے تین اقوال منقول ہیں۔ حضرت ابن بع اس اور حضرت ابن مسعود سے مروی ہے کہ دشمن یا بیماری میں گھر جانے والے شخص کا حکم یکساں ہے۔ وہ ایک دم (یعنی قربانی کے لئے اونٹ، گائے بکری میں سے جو جانور میسر ہو) بھیج دے گا اور جب یہ جانو رحرم میں ذبح ہوجائے گا تو وہ اپنا احرام کھول دے گا۔- یہی امام ابوحنیفہ، ابو یوسف، محمد، زفر اور سفیان ثوری کا قول ہے۔ دوسرا قول حضرت ابن عمر کا ہے کہ بیمار احرام نہیں کھولے گا اور کوئی شخص دشمن کی بن اپر ہی محصر ہوگا۔ یہ امام مالک امام شافعی اور لیث بن سعد کا قول ہے۔- تیسرا قول حضرت عبداللہ بن الزبیر اور عروہ بن الزبیر کا ہے کہ اس مسئلے میں بیماری اور دشمن کی رکاوٹ دونوں کا یکساں حکم ہے اور حالت احصار میں گھرا ہوا شخص صرف طواف کے بعد ہی احرام کھول سکتا ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ فقہا امصار میں سے کوئی اس قول کا قائل ہے یا نہیں۔- ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ اہل لغت کے جو اقوال ہم نے گزشتہ سطور میں نقل کئے ہیں ان سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ احصار کا لفظ بیماری کے ساتھ خاص ہے اور قول باری ہے (فان احصرتم فما استیسرمن الھدی) اس لئے یہ ضروری ہوگیا کہ یہ لفظ اپنی حقیقی معنی، بیماری میں استعمال کیا جائے اور دشمن معنوی طور پر اس میں داخل سمجھا جائے۔- اگر یہ کہا جائے کہ فرآء سے بیماری اور شدمن دونوں کے لئے لفظ احصار کے استعمال کا جواز منقول ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اگر یہ قول درست بھی ہوا تو بھی بمیاری میں اس کے اثبات پر آیت کی دلالت بحالہ باقی رہے گی۔ اس لئے کہ فرآء نے بیماری پر اس لفظ کے اطلاق کو رد نہیں کیا۔ اس نے صرف دشمن کی صورت میں اس لفظ کے استعمال کے جواز کی بات بتائی ہے۔ اب اگر اس لفظ کا اطلاق دونوں باتوں پر ہوجائے تو یہ ایک عموم ہوگا جو مریض اور دشمن میں گھرے ہوئے انسان دونوں کے لئے حکم کو واجب کر دے گا۔- اگر یہ کہا جائے کہ راویوں میں اس بات میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اس آیت کا شان نزول حدیبیہ کا واقعہ ہے جس میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ کرام کو دشمنوں یعنی کفار مکہ نے روک دیا تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے ذریعے احرام کھول دینے کا حکم دیا تھا۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آیت میں دشمن مراد ہے۔- اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس آیت کے نزول کا سبب تو یقینا دشمن تھا پھر اس میں حصہ کے ذکر سے جو دشمن کے ساتھ خاص ہے احصار کے ذکر کی طرف جو کہ بیماری کے ساتھ مختص ہے روئے سخن منتقل ہوگیا ۔ اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ آیت میں بیماری کی صورت میں عائد ہونے والا حکم بتانا مقصود ہے تاکہ اس لفظ کو اس کے ظاہر پر محمول کیا جائے۔ پھر جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام کو احرام کھول دینے کا حکم دے کر خود بھی احرام کھول دیا تو اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ آپ نے اس لفظ کے معنی سے حصر عدو مراد لیا ، نہ کہ لفظ سے، اور سا طرح آیت کا نزول دونوں صورتوں میں عائد ہوتے ہوئے حکم کی نشاندہی کر گیا۔- اگر اس سے اللہ کی مراد صرف دشمن والی صورت کی تخصیص ہوتی اور بیماری مراد نہ ہوتی تو پھر آیت میں ایسے الفاظ بیان کئے جاتے جن کا تعلق صرف والی صورت سے نہ ہوتا کسی اور سے نہ ہوتا ۔ علاوہ ازیں اگر لفظ دو معنوں کے لئے اسم ہوتا تو کسی خاص سبب کی بنا پر اس کا نزول اس کے حکم کو صرف اسی سبب تک محدود نہ کرتا بلکہ عموم لفظ کا اعتبار کرنا واجب ہوتا نہ کہ سبب کا۔- سنت سے بھی اس پر دلالت ہو رہی ہے ، ہمیں محمد بن بکر نے روایت کی ، انہیں ابو دائود نے انہیں مسدد نے، انہیں یحییٰ نے حجاج صواف سے، انہیں یحییٰ بن ابی کثیر نے عکرمہ سے وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت حجاج بن عمرو انصاری سے سنا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (من کسواو عرج فقد حل وعلیہ الحج من قابل ، جس شخص کی ہڈی ٹوٹ گئی یا وہ لنگڑا ہوگیا تو اس کا احرام کھل گیا ۔ اب اس پر اگلے سال کا حج ہے۔ )- عکرمہ کہتے ہیں کہ میں نے اس کے متعلق حضرت ابن عباس اور حضرت ابوہریرہ سے دریافت کیا، دونوں نے فرمایا کہ حجاج بن عمرو نے سچ کہا ہے ۔ اب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قول (فقد حل) کا مفہوم یہ ہے کہ اس شخص کے لئے احرام کھول دینا جائز ہوگیا جس طرح کہ کہا جاتا ہے (حلت المراۃ للزوج) جس کا مفہوم یہ ہے کہ عوت کے لئے ناکح کرنا جائز ہوگیا۔- اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ حماد اور ابن زید نے ایوب سے اور انہوں نے عکرمہ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے محصر کے متعلق فرمایا کہ وہ قربانی کا جانور بھیج دے گا جب جانور اپنی قربانی کی جگہ پہنچ جائے گا تو اس کا احرام کھل جائے گا اور وہ آئندہ سال حج کرے گا۔- عکرمہ نے یہ بھی فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے قصاص (مساوی بدلے) پر راضی ہوجاتا ہے یعنی حج کے بدلے حج اور احرام کے بدلے احرام ۔ البتہ جب بندے کی طرف سے اللہ کے حق میں زیادتی ہوتی ہے تو پھر مواخذہ کرتا ہے۔ اس معترض کا یہ خیال ہے کہ اگر یہ حدیث عکرمہ کے پاس ہوتی تو وہ ” یبعث بالھدی “ (قرباین کے لئے جانور بھیجے گا) کہنے کی بجائے ” یحل “ (وہ احرام کھول دے گا) کہتے جس طرح کہ ہماری روایت کردہ حدیث کے الفاظ ہیں۔- معترض کو غلط فہمی ہوئی ہے کیونکہ اس نے یہ خیال کیا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قول (حل) کا مطلب یہ ہے کہ احصار کے ساتھ ہی اس کا احرام کھل جائے گا۔ حالانکہ اس کا مفہوم یہ نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے لئے احرام کھول دینا جائز ہوگا جیسا کہ ہم نے پہلے ذکر کیا ہے کہ لوگ اپنی بول چلا میں جب یہ فقرہ کہتے ہیں کہ ’ حلت المرأۃ للازواج “ تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اب اس کا نکاح پڑھانا جائز ہوگیا ہے۔- عقلی طور پر بھی ہمارے استدلال کی تائید اس طرح ہوتی ہے کہ دشمن میں گھر جانے والا شخص اس لئے احرام کھول دیتا ہے کہ اب بیت اللہ تک پہنچنا اس کے لئے ممکن نہیں رہا اور بعینہ یہی بات بیماری کی صورت میں بھی موجود ہوتی ہے۔ اس لئے یہ ضرو ریہو گیا کہ بیماری کی وہی حیثیت اور حکم ہو جو دشمن کی ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر دشمن کی رکاوٹ کے باوجود اس شخص کے لئے بیت اللہ تک پہنچ جانا مشکل نہ ہو تو ایسی صورت میں احرام کھول دینا اس کے لئے درست نہیں ہوگا۔ اس سے یہ پتہ چلا کہ اصل بات بیت اللہ تک رسائی کا متعذر ہونا ہے۔- اس بات پر یہ حقیقت بھی دلالت کرتی ہے کہ ہمارا مخالف بھی ہم سے اس مسئلے میں متفق ہے کہ اگر کسی عورت کا شوہر اسے نفلی حج سے روک دے جبکہ اس عورت نے حج کا احرام باندھ لیا ہو تو اس کے لئے احرام کھول دینا جائز ہوگا اور سا کی حیثیت محصر کی ہوگی حالانکہ دشمن موجود نہیں، اسی طرح اگر کوئی قرضوں کی وجہ سے قرض خواہوں میں پھنس جائے اور سا کے لئے بیت اللہ تک پہنچنا مشکل ہوجائے تو وہ بھی محصر کے حکم میں ہوگا۔ اس لئے ہم یہ کہتے ہیں کہ مریض کا بھی یہی حکم ہونا چاہیے۔- ہمارے دعوے کی اس بات سے بھی تائید ہوتی ہے کہ تمام فرائض کے حکم میں اس لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہوتا کہ ان کی ادائیگی میں دشمن کی وجہ سے رکاوٹ ہوئی ہے یا بیماری کی وجہ سے آپ نہیں دیکھتے کہ خوف زدہ انسان کے لئے اشارے سے یا بیٹھ کر نماز ادا کر لینی جائز ہے جبکہ کھڑے ہو کر ادا کرنا اس کے لئے متعذر ہو اور بیماری کی صورت میں بھی مریض کے لئے اس طرح کی ادائیگی جائز ہے، اس لئے احرام جاری رکھنے کے سلسلے میں بھی حکم مختلف نہیں ہونا چاہیے جبکہ کسی بیماری یا دشمن کے خوف کی وجہ سے بیت اللہ تک پہنچناا س کے لئے معتذر ہوجائے۔- خوف یا بیماری کی وجہ سے استقبال قبلہ کا بھی یہی حکم ہے۔ یا کسی کو طہارت حاصل کرنے کے لئے پانی نہ ملنے یا پانی موجود ہو لیکن وہ بیمار ہو یا کوئی شخص جہاد پر جانے کے لئے تیار ہو لیکن اس کے پاس میدان جنگ میں استعمال ہونے والے ضروری ہتھیار اور سامان نہ ہو یا سب کچھ موجود ہو لیکن وہ خود بیمار ہو۔ تو فرض کے سقوط کے لئے ان تمام اعذار کا حکم یکساں ہے۔- ایسا نہیں ہے کہ بعض اعذار میں تو سقوط فرض کا حکم عائد ہوجائے گا اور بعض میں نہیں ہوگا اس لئے احرام جاری رکھنے کی فرضیت کے سقوط اور احرام کھول دینے کے جواز کے سلسلے میں بھی ان اعذار کا حکم مختلف نہیں ہونا چاہیے۔ فعل کا متعذر ہونا سب میں قدر مشترک کے طور پر موجود ہے۔ - اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ قول باری (فان احصرتم فما استیسر من الھدی) اور اس کے بعد پھر یہ ارشاد ہے (فمن کان منکم مریضا اوبہ اذی من راسہ فقدیا من صیام اوصدقۃ پھر تم میں جو شخص بیمار ہو یا اس کے سر میں تکلیف ہو تو وہ روزے یا صدقہ کا فدیہ دے۔ )- اس میں دو طرح سے اس بات پر دلالت ہے کہ احصار کے ذکر سے مریض مراد نہیں ہے اس لئے کہ اگر وہ اول خطاب میں مراد ہوا تو نئے سرے سے ان کا ذکر نہ ہوتا، نیز اگر وہ مراد ہوتا تو وہ دم دے کر احرام کھول دیتا، اس فدیہ دینے کی ضرورت نہ ہوتی۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ جب اللہ تعالیٰ نے یہ فرما دیا کہ (ولا تحلقوا رئو و سکم حتی یبلغ الھدی محلہ) اور تم اپنے سر نہ مونڈ جب تک کہ قربانی کا جانور حرم میں ذبح نہ ہوجائے) تو احصار کے باوجود اس قربانی کا جانور حرم میں ذبح ہوجانے تک احرام کھول دینے سے روک دیا گیا۔ محلہ کے معنی قربانی کے جانور کا حرم میں ذبح ہونے کے ہیں۔- اس طرح آیت میں اللہ تعالیٰ نے قربانی کے جانور کا حرم میں ذبح ہوجانے سے پہلے مریض پر عائد ہونے والا حکم بیان کردیا گیا اور اس پر فدیہ واجب کر کے اسے سرمونڈنے کی اجازت دے دی۔ اس میں ایک پہلو اور بھی ہے کہ ہر بیماری بیت اللہ تک پہنچنے سے مانع نہیں ہوتی۔ آپ نہیں دیکھتے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت کعب بن عجرہ سے دریافت فرمایا تھا کہ آیا سر میں پائی جانے الی جوئیں وغیرہ تمہاری تکلیف کا باعث ہیں ؟ تو انہوں نے اثبات میں جواب دیا تھا اور اس پر یہ آیت نازل ہوئی تھی۔- اب ظاہر ہے کہ سر کی یہ جوئیں وغیرہ بیت اللہ تک پہنچنے میں رکاوٹ نہیں تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں سرمونڈنے کی اجازت دے دی اور فدیہ ادا کرنے کا حکم دیا۔ اسی طرح یہ جائز ہے آیت میں مذکور مرض ایسی بیماری ہو جس کی موجودگی میں احصار کی حالت نہ پائی جاتی ہو جبکہ اللہ تعالیٰ نے اس بیماری کو احصار قرار دیا ہے جو بیت اللہ تک مریض کے پہنچنے میں مانع ہو اس لئے آیت میں مریض کے حکم کا ذکر کوئی ایسی بات نہیں کہ جو یہ ثابت کر دے کہ مرض احصار نہیں بن سکتا۔- اس میں ایک پہلو اور بھی ہے کہ افمن کان منکم مریضاً ) کا تعلق احصار کے حکم کی طرح خطاب کی ابتداء یعنی (واتموا الحج والعمرہ للہ) کے ساتھ ہو پھر اس پر (فان لحصرتم) کو عطف کر کے احصار کی صورت میں ان کا حکم بیان کردیا اور اس کے بعد فرمایا (فمن کان منکم مریضاً ) یعنی ” اے وہ لوگو جنہوں نے حج اور عمرہ کا احرام باندھا ہے۔ “ ان کا حکم اسی طرح یہاں بیان کردیا جبکہ وہ احصار سے قبل بیمار پڑجائیں جس طرح کہ احصار کی حالت میں مبتلا ہونے کی صورت میں ان کا حکم بیان کردیا۔ اس بنا پر قول باری (فمن کان منکم مریضاً ) میں کوئی ایسی دلالت نہیں جس سے یہ معلوم ہو سکے کہ مرض احصار نہیں بن سکتا۔- یہ معلوم ہو سکے کہ مرض احصار نہیں بن سکتا۔ - اگر یہ کہاجائے کہ سیاق آیت میں قول باری (فاذا امتتم فمن تمتع بالعمرۃ الی الحج، پھر اگر تمہیں امن نصیب ہوجائے (اور تم حج سے پہلے مکہ پہنچ جائو) تو جو شخص تم میں سے حج کا زمانہ آنے تک عمرے کا فائدہ اٹھائے ……) اس پر دلالت کرتا ہے کہ یہاں مراد وہ دشمن ہے ج سکا خوف ہو اس لئے کہ امن اس بات کا مقتضی ہے کہ پہلے خوف موجود ہو۔- اس کے جواب میں کہا جائے گا اگر اس سے مراد مرض کے ضرر کے خوف سے امن ہو تو اس میں کونسی رکاوٹ ہے اور صرف دشمن کے ساتھ اسے مخصوص کردینے کی کیا وجہ ہے، مرض کے ساتھ اسے متعلق کیوں نہیں کیا جاسکتا۔ جبکہ دشمن اور بیماری دونوں میں امن اور خوف کا پہلو موجود ہوتا ہے۔ چناچہ حضرت عروہ بن الزبیر سے مروی ہے کہ (فاذا امنتم) کے معنی ہیں کہ جب تمہیں ہڈی وغیرہ ٹوٹ جانے اور درود وغیرہ لاحق ہونے سے امن ہو تو پھر تم پر بیت اللہ پہنچنا لازم ہے۔- اگر یہ کہا جائے کہ دشمن اور مرض میں یہ فرق ہے کہ دشمن کی وجہ سے محصر کے لئے اگرچہ آگے جانا ممکن نہیں ہوتا لیکن واپس ہوجانا ممکن ہوتا ہے جبکہ بیمار انسان نہ آگے جاسکتا ہے اور نہ پیچھے واپس ہوسکتا ہے ۔ اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ جس شخص کے لئے نہ آگے جانا ممکن ہو نہ پیچھے واپس آنا تو ایسا شخص محصر کہلانے کا اس شخص سے بڑھ کر مستحق ہوگا جس کے لئے اگرچہ آگے جانا متعذر ہونا ہے لیکن پیچھے واپسی کا راستہ کھلا ہوتا ہے۔- معترض سے یہ سوال بھی کیا جاسکتا ہے کہ آپ اس محصر کے متعلق کیا کہتے ہیں جو دشمن کے گھیرے میں آگیا ہو اور اس کے لئے نہ آگے جانا ممکن ہو اور نہ پیچھے آنا کیا اس کے لئے فقہاء کے نزدیک متفقہ طور پر احرام کھولنا جائز نہیں ہوگا ؟ اس طرح آپ نے دشمن اور مرض کے درمیان فرق کی جو علت بیان کی تھی وہ اس خاص صورت میں منتقض ہوگئی۔- تاہم امام شافعی کا قول ہے کہ عورت جب احرام باندھ لے اور پھر اس کا شوہر اسے جانے سے روک دے یا کوئی شخص احرام باندھنے کے بعد قید ہوجائے تو یہ دونوں محصر کہلائیں گے اور ان کے لئے احرام کھول دینا جائز ہوگا اور ان کے حق میں آگے جانا اور واپس ہوجانا، دونوں برابر ہوگا کیونکہ ان کو ان دونوں باتوں سے روک دیا گیا ہے۔- امام شافعی کا خیال ہے کہ مریض اور خائف کے درمیان یہ فرق ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جنگ میں خوف زدہ انسان کے لئے یہ جائز کردیا ہ کہ وہ کسی دوسری فوج میں جا ملے اور اس طرح خوف سے امن کی طرف منتقل ہوجائے۔ ان کے جواب میں کہا جائے گا کہ اللہ تعالیٰ نے تو مریض کو جنگ میں سرے سے حصہ نہ لینے کی اجازت دے دی ہے۔- قول باری ہے (لیس علی الضعفاء ولا عل المرض ولا علی الذین لایجدون ماینفقون حرج) کمزوری بیماریوں اور ایسے لوگوں پر کوئی گناہ نہیں جن کے پاس خرچ کرنے کے لئے بھی کچھ نہیں ہے) اس بنا پر مریض کو ملنے والی رخصت خائف کو منلے والی رخصت سے بڑھ کر ہے۔ اس لئے کہ خائف جنگ میں تر ک شمولیت میں معذور نہیں گردانا جاتا جبکہ مریض گردانا جاتا ہے۔- خائف کا کسی دوسری فوج سے جا ملنا قابل قبول عذر ہے لیکن اس کا جنگ میں سرے سے شامل ہونا ناقابل قبول ہے اس لئے مریض اس بات کا زیادہ مستحق ٹھہرے گا کہ احرام کھول کر حلال ہونے کی صورت میں اس کا عذر قابل قبول کرلیا جائے۔- امام شافعی نے فرمایا کہ جب ایک طرف ارشاد باری ہے (واتموا الحج والعمرۃ للہ) اور دوسری طرف محصر خائف کو احرام کھولنے کی اجازت مل گئی تو اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ حج اور عمرہ کے اتمام کی فرضیت صرف خائف کے سوا اور کسی محرم سے ساقط اور زائل نہ ہو۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ جس ذات باری کا یہ ارشاد ہے کہ صواتمو الحج والعمرۃ للہ) اسی کا یہ بھی ارشاد ہے کہ (فان احصرتم) اس لفظ میں جو عموم ہے وہ خائف اور غیر خائف سب کو شامل ہے۔- اس لئے کسی دلالت کے بغیر اس عموم سے کوئی صورت خارج نہیں کی جاسکتی۔ اب وہ کون سی دلالت ہے جو اسے صرف خائف کے ساتھ مخصوص کرتی ہے اور اس میں غیر خائف کو شامل نہیں ہونے دیتی ؟ دوسری جانب آپ نے اپنا اصول یہ کہہ کر خود یہ توڑ دیا کہ اگر عورت کو اس کا شوہر احرام کے باوجود حج پر جانے سے روک دے تو وہ احرام کھول سکتی ہے ۔ حالانکہ وہ خائف نہیں ہوتی۔ اسی طرح قیدی بھی جسے قتل ہونے کا خوف نہ ہو اپنا احرام کھول سکتا ہے۔- مزنی کا کہنا ہے کہ دشمن سے خوف زدہ محرم کو احرام کھول دینے کا حکم رخصت کے طور پر دیا گیا ہے اور کسی دوسرے کو اس کے مشابہ قرار نہیں دیا جاسکتا ہے۔ جس طرح کہ مسح کرنے کا حکم موزوں کے ساتھ خاص ہے اور دستانوں کو ان کے مشابہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اگر خائف کے لئے احرام کھول دینے کی بنیاد رخصت ہے تو پھر اس رخصت میں کسی اور کو اس کے مشابہ قرار نہیں دینا چاہیے۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب پتھر یا مٹی کے ڈھییل کے ساتھ استنجا کرنے کی رخصت دے دی تو یہ ضروری ہوگیا کہ استنجا کے جواز میں پتھر یا ڈھیلے کے ساتھ کسی اور چیز مثلاً چیتھڑے یا لکڑی وغیرہ کی مشابہت نہ ہو۔ اسی طرح جوئیں وغیرہ کی وجہ سے سرمنڈانا رخصت ہے تو یہ ضرو ری ہے کہ جسم کی کسی اور تکلیف کو سر منڈانے اور فدیہ ادا کرنے کی اجازت کے لئے اس کے مشابہ قرار نہ دیا جائے جس سے یہ لازم آت ا ہے کہ قیدی کو نیز اس محرم عورت کو جسے اس کا شوہر حج پر جانے سے روک دے خائف کے مشابہ قرار نہ دیا جائے۔ ہم نے جو کچھ بیان کیا ہے اس سے امام شافعی اور مزنی کی تعلیل منقوض ہوجاتی ہے۔- فصل - حضرت ابوبکر (رض) کا قول ہے کہ حج اور عمرہ میں احصار کا حکم یکساں ہے۔ محمد بن سیرین سے مروی ہے کہ احصار صرف حج میں ہوتا ہے ، عمرہ میں نہیں ہوتا۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ عمرے کے لئے کوئی وقت مقرر نہیں ہوتا اور اس کے فوت ہونے کا بھی خطرہ نہیں ہوتا اس لئے عمرہ میں احصار نہیں ہوتا ۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے متواتر روایات کی بن اپر یہ ثابت ہے کہ آپ نے حدیبیہ کے سال عمرہ کا احرام باندھا تھا اور پھر طواف کے بغیر آپ نے عمرہ کا احرام کھول دیا اور اگلے سال ذی قعدہ میں اس یقضا کیا جس کی بنا پر اس کا نام عمرۃ القضاء پڑگیا۔- نیز ارشاد باری ہے (واتموا الحج والعمرۃ للہ) پھر ارشاد ہوا (فان احصرتم فما استیسر من الھدی) اس میں مذکورہ حکم حج اور عمرہ دونوں پر عائد ہوتا ہے اور یہ جائز ہی نہیں ہے کہ حکم کو صرف ایک تک محدود رکھا جائے اور دوسرے کو چھوڑ دیا جائے اس لئے کہ اس سے یہ خرابی لازم آئے گی کہ دلیل کے بغیر لفظ کے حکم کی تخصیص کردی جائے۔- قربانی کے جانور کے بارے میں احکام - ارشاد باری ہے (فما استیسرمن الھدی ، جو قربانی میسر آ جائے اللہ کی جناب میں پیش کر دو ۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اس کے متعلق سلف کے اقوال مختلف ہیں۔ حضرت عائشہ اور حضرت ابن عمر کا یہ قول مروی ہے کہ اونٹ اور گائے کے سوا کوئی جانور ہدی کے طور پر نہیں بھیجا جاسکتا جبکہ حضرت ابن عباس سے بکری کا جواز بھی منقول ہے۔- فقہاء امصار بھی اس بارے میں مختلف الرائے ہیں۔ امام ابوحنیفہ، ابو یوسف، محمد، زفر، امام مالک، اور امام شافعی کا قول ہے کہ ہدی، تین قسم کے جانوروں یعنی اونٹ، گائے اور بھیڑ بکری میں سے ہوسکتا ہے یہی ابن شبرمہ کا قول ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ بد نہ یعنی حج کے موقع پر قربانی کیا جانے والا جانور صرف اونٹ ہوتا ہے لیکن ہمارے اصحاب اور امام شافعی فرماتے ہیں کہ اونٹ اور گائے دونوں ہوسکتے ہیں۔ پھر قربانی کے جانور کی عمر میں اختلاف ہے۔- ہمارے اصحاب اور امام شافعی کا قول ہے کہ اونٹ، گائے یا بھیڑ بکری میں سے بطور ہدی جو جانور لیا جائے وہ کم از کم ثنی یا اس سے زائد ہو (یعنی گائے، بھینس وغیرہ وغیرہ کم از کم دو برس کی۔ اونٹ پانچ برس کا اور بکری یا بکرا ایک برس کا) البتہ بھیڑیا دنبہ ایک سال سے کم کا ہو تو وہ جائز ہے (بشرطیکہ موٹا تازہ ہو اور جب ریوڑ میں سال بھر کے بھیڑ دنبوں کے ساتھ چلے پھرے تو فرق معلوم نہ ہوتا ہو) - امام مالک کا قول ہے کہ ہدی کا جانور ثنی یا اس سے بڑا ہو اور زاعی کا قول ہے کہ ہدی کے طور پر پیش کیا جانے والا جانور کر اونٹ ہو اور گائے یا اونٹ کا نر بچہ بھی جائز ہے۔ اونٹ یا گائے میں سات آدمی شریک ہوسکتے ہیں۔- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ہدی اس جانور کو کہتے ہیں جسے بیت اللہ کی طرف تقرب الٰہی حاصل کرنے کی غرض سے اللہ کی جناب میں پیش کرنے کے لئے لے جایا جائے۔ لفظ ہدی سے ایسا جانور بھی مراد لینا درست ہے جو بطور صدقہ دیا جائے اگر چہ اسے بیت اللہ نے لے جایا جائے۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے :(المکوالی الجمعۃ کا لھدی بدلۃ ثم الذی یلیہ کالمھدی بقرۃ ثم الذی یلیہ کالمھدی شاہ ثم الذی یلیہ کالمھدی دجاجۃ ثم الذی یلیہ کالمھدی بیضۃ جمعہ کی نماز کے لئے سب سے پہلے آنے والا اونٹ کی قربانی دینے والے کی طرح ہے، سا کے بعد آنے والا آنے والا گائے کی، اس کے بعد آنے والا بکری کی، اس کے بعد آنے والا مرغی کی اور اس کے بعد آنے والا انڈے کی قربانی دینے والے کی طرح ہے۔- آپ نے مرغی اور انڈے کو ہدی کا نام دیا اگرچہ آپ کا مقصد انہیں بیت اللہ لے جانا نہیں بلکہ صرف صدقہ تھا جس سے تقرب الٰہی حاصل ہو۔ اسی بنا پر ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ جو شخص یہ کہے کہ ” اللہ کے لئے میرے ذمے میرا یہ کپڑا یا گھر بطور ہدی دینا ہے۔ “ تو اسے نذر پوری کرنے کے لئے اپنا کپڑا یا گھر صدقہ کے طور پردے دینا ضروری ہوگا۔- فقہاء کا اس پر اتفاق ہے جانوروں کے ان تینوں اصناف یعنی اونٹ، گائے اور بھیڑ بکری کے سوا اور کوئی جانور بطور ہدی بھیجا نہیں جاسکتا جس کا ذکر قول باری (فما استیسو من الھدی) میں آیا ہے۔ البتہ ان جانوروں میں سے عمر کے لحاظ سے ہدی کے لئے کیسے جانور مراد ہیں۔ اس میں اختلاف ہے جس کا ہم سابقہ سطور میں ذکر کر آئے ہیں۔- ظاہر آیت اس بات کا مقتضی ہے کہ اس میں بکری بھی داخل ہو کیونکہ لفظ ہدی اکا اس پر بھی اطلاق ہوتا ہے۔ اس ارشاد باری (ھدیا بالغ الکعبۃ ) ایسا ہدی جو کعبہ تو پہنچنے والا ہو) کے معنی میں کسی کا اختلاف نہیں ہے کہ بکری بھی اس میں شامل ہے اور اسے حرم میں شکار کے بدلے میں بطور ہدی دیا جاسکتا ہے۔- ابراہیم نخعی نے اسود کے واسطے سے حضرت عائشہ سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک مرتبہ بکریاں بطور ہدی بھیجیں، اعمش نے ابوسفیان کے واسطے سے حضرت جابر سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بطور ہدی جو جانور بھیجے تھے ان میں بکریاں بھی تھیں جن کی گردنوں میں پٹے پڑے ہوئے تھے۔- اگر اعتراض کیا جائے کہ بکریاں بطور ہدی بھیجنے کی حضرت عائشہ سے یہ روایت درست نہیں ہے۔ اس لئے کہ قاسم نے حضرت عائشہ سے یہ روایت کی ہے کہ آپ بکریوں کو (فما استیسر من الھدی) میں شامل نہیں سمجھتی تھیں۔- اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ حضرت عائشہ کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص بکری بطور ہدی لے کر چلے گا وہ اس کی وجہ سے محرم نہیں ہوگا۔ اونٹ اور گائے کو بطور ہدی لے جانا احرام کو واجب کردیتا ہے۔ بشرطیکہ وہ شخص احرام کا ارادہ کرلے اور جانور کے گلے میں پٹہ ڈال دے۔- رہا، ہدی، کے جانوروں میں ثنی کا اعتبار کرنا تو اس کی بنیاد وہ روایت ہے جو حضرت ابو بردہ بن دینار کے واقعہ میں حضور سے مروی ہے ۔ جب انہوں نے نماز سے پہلے قربانی دے دی تو آپ نے دوبارہ قربانی کرنے کا حکم دیا۔ انہوں نے عرض کیا کہ میرے پاس بکری کا بچہ ہے۔ جو دو بکریوں کے گوشت سے بہتر ہے، آپ نے فرمایا :” تمہارے لئے اس کی قربانی کفایت کر جائے گی لیکن تمہارے بعد کسی اور کے لئے نہیں۔ “- آپ نے قربانی میں بکری کا بچہ دینے سے منع کردیا اور ہدی بھی اضحیہ یعنی قربانی کی طرح ہے کیونکہ کسی نے بھی ان دونوں میں فرق نہیں کیا ہے۔ فقہاء نے بھیڑ کا بچہ اس لئے جائز کردیا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منقول ہے کہ آپ نے بھیڑ کے بچے کی قربانی کا حکم دیا تھا جبکہ وہ چھ مہینے کا ہوچکا ہو۔ ہم نے شرح المختصر، میں اس کی وضاحت کردی ہے۔- واجب ہدی میں ایک سے زائد لوگوں کی رشکت میں اختلا ف ہے۔ ہمارے اصحاب اور امام شافعی کا قول ہے کہ اونٹ اور گائے میں سات آدمی شریک ہو سکت یہیں۔ امام مالک کا قول ہے کہ نفلی قربانی میں تو یہ جائز ہے لیکن واجب میں جائز نہیں۔- حضرت جابر نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ آپ نے حدیبیہ کے دن اونٹ اور گائے سات سات آدمیوں کی طرف سے قربانی دینے کا حکم دیا۔ یہ واجب قربانی تھی اس لئے کہ یہ احصار کی وج ہ سے تھی۔ پھر جب نفلی قربانی میں سات آدمیوں کی شرکت کے جواز پر سب کا اتفاق ہے تو واجب قربانی کا بھی یہی حکم ہونا چاہیے۔ اس لئے کہ نفلی اور واجب قربانی میں جواز کے لحاظ سے تمام وجوہ سے کوئی فرق نہیں ہے۔- اس پر قول باری (فما استیسر من الھدی) کا ظاہر لفظ بھی دلالت کرتا ہے کیونکہ ” من “ تبعیض کا تقاضا کرتا ہے اس لئے یہ ضروری ہوگیا کہ ’ ہدی ‘ کا ایک حصہ آیت کے ظاہر لفظ کے لحاظ سے کافی ہوجائے۔ واللہ اعلم۔- محصر ہدی ، کو کس جگہ ذبح کرے گا - ارشاد باری ہے (ولا تحلقوا رئو وسکم حتی یبلغ الھدی محلہ، اور تم اپنے سرنہ مونڈو یہاں تک کہ قربانی اپنی جگہ نہ پہنچ جائے) قربانی کی جگہ یعنی محلل کے متعلق سلف کا اختلاف ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت ابن عباس، عطاء طائوس، مجاہد، حسن بصری اور ابن سیرین کا قول ہے کہ قربانی کی جگہ حرم ہے۔ یہی ہمارے اصحاب اور ثوری کا قول ہے۔- امام مالک اور امام شافعی کا قول ہے کہ محرم جس جگہ حالت احصار میں آ جائے اسی جگہ جانور ذبح کر کے احرام کھول دے۔ پہلے قول کی صحت کی دلیل یہ ہے کہ لفظ ” المحل ‘ کا اطلاق دو معنوں پر ہوتا ہے ۔ اس میں یہ بھی احتمال ہے کہ اس سے وقت ذبح مراد لیا جائے اور یہ بھی احتمال ہے کہ مکان ذبح مراد ہو۔- آپ نہیں دیکھتے کہ قرض کی ادائیگی محل وہ وقت ہوتا ہے جس میں اس کی واپسی کا مطالبہ ضروری ہوجاتا ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ضباعہ بنت الزبیر سے فرمایا تھا کہ صاشترطی فی الحج و قولی محلی حیث حبستی، حج کا احرام باندھتے وقت اسے مشروط کرتے ہوئے کہو میرا محل یعنی احرام کھول دینے کی جگہ وہی ہے جہاں، اے میرے اللہ تو مجھے محصو رکر دے گا۔ )- اس قول میں ’ المحل ‘ کا اطلاق مکان پر ہوا ہے۔ اب جب یہ لفظ دونوں معنوں کا احتمال رکھتا ہے اور دوسری طرف سب کا اس پر اتفاق ہے کہ عمرہ کے احرام میں احصار کی شکل میں قربانی کی ذبح کا کوئی مقررہ وقت نہیں ہوتا جبکہ آیت میں لا محالہ مقررہ وقت مراد ہے۔ تو اب لازمی ہوگیا کہ یہاں المحل سے مکان مراد لیا جائے جس کا مقتضی یہ ہے کہ محرم اس وقت تک احرام نہ کھولے جب تک کہ قربانی اس جگہ نہ پہنچ جائے جو احصار کی جگہ کے علاوہ ہو۔ اس لئے کہ اگر احصار کی جگہ ہی قربانی کی ذبح کی جگہ ہوتی تو اس صورت میں احصار کے پیدا ہوتے ہی قربانی اپنی ذبح کی جگہ کو پہنچ جاتی۔- جس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ آیت میں لفظ حتی کے ذریعے جو غایت بیان کی گئی ہے وہ بیکار ہوجاتی ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ المحل سے مراد حرم ہے اس لئے کہ جو شخص احصار کی جگہ کو قربانی کی جگہ قرار دینے کا قائل نہیں ہوگا وہ پھر حرم کو ہی قربانی کی ذبح کی جگہ قرار دے گا اور جو شخص اس کا قاتل نہیں ہوگا وہ آیت کے فائدے کو باطل اور اس کے معنی کو ساقط کرنے کا مرتکب ہوگا۔- ایک اور جہت سے یہ بات ثابت ہو رہی ہے۔ قول باری ہے (واحلت لکم الا نعام الا مایتلی علیکم) اور تمہارے لئے ان چوپایوں کے سوا جن کے نام تمہیں پڑھ کر سنائے جاتے ہیں، تمام چوپائے حلال کردیئے گئے ہیں) تاقول باری (لکم فیھا منافع الی اجل مسمی ثم محلھا الی البیت العتیق ) ان جانوروں میں تمہارے لئے ایک مقررہ مدت تک فائدہ اٹھانے کی گنجائش ہے پھر ان ک یذبح کی جگہ بیت عتیق یعنی کعبتہ اللہ کی طرف ہے۔ )- ہمارے قول کی صحت پر یہ آیت دو طرح سے دلالت کر رہی ہے۔ اول یہ کہ اس میں تمام ہدایا یعنی قربانی کے جانوروں کے لئے عموم ہے۔ دوم یہ کہ اس میں المحل کا مفہوم بیان کردیا گیا ہے۔ جو قول باری (حتی یبلغ الھدی محلہ) میں مجمل تھا۔ اس لئے کہ جب اللہ تعالیٰ نے بیت عتیق کو قربانی ذبح کرنے کی جگہ مقرر کردیا تو اب کسی کیلئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اس کے سوا کسی اور جگہ کو اس کام کے لئے متعین کرے۔- شکار کے بدلے کے متعلق قول باری (ھدیا بالغ الکعبۃ ) بھی اس پر دلالت کرتا ہے۔ کیونکہ آیت میں کعبہ تک پہنچنا اس جانور کی ایک صفت قرار دی گئی ہے۔ اس بنا پر اس صفت کے عدم وجود سے کوء یجانور ھدی نہیں بن سکتا جس طرح کہ کفارئہ قتل اور کفارہ ظہار میں فرمایا گیا کہ (فصیام شھرین متتابعین مسلسل دو مہینوں کا روزہ)- چونکہ اس روزے کو تسلسل کی قید سے مقید کردیا گیا ہے۔ اس بنا پر تسلسل کے بغیر کفارہ کے روزوں کا وجود نہیں ہوگا۔ اسی طرح قول باری ہے (فتحریر رقبۃ مومنۃ ایک مومن گردن آزاد کرنا ہے) اگر مومن غلام آزاد نہ کیا گیا تو کفارہ ادا نہیں ہوگا۔ کیونکہ غلام اس صفت کے ساتھ مشروط ہے۔ اسی بنا پر ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ ھدی کے تمام جانوروں کی ذبح حرم کے سوا اور کہیں جائز نہیں۔- قول باری جو احصار کے ذکر کے بعد خطاب کے تسلسل کے دوران وارد ہوا وہ بھی اس پر دلالت کرتا ہے۔ ارشاد ہے (فمن کان منکم مریضاً اوبہ اذی من راسہ ففدیۃ من صیام او صدققا ونسلک) اس میں محصر پر دم یعنی جانور کی قربانی واج بکر کے اسے سرمونڈنے سے منع کردیا گیا جب تک کہ جانور ذبح نہ ہوجائے۔- اگر حرم سے باہر کسی جگہ اس کی قربانی جائز ہوتی تو سر کی تکلیف والا محرم اپنے احصار کا جانور ذبح کر کے احرام کھول دیتا اور اسے سر کی تکلیف کی بنا پر حلق کرنے کا فدیہ ادا کرنے کی کوئی ضرورت نہ ہوتی۔ اس سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ حل یعنی حرم سے باہر کی جگہ قربانی کی ذبح کی جگہ نہیں ہے۔- اگر یہ کہا جائے کہ یہ حکم اس شخص کے لئے ہے جسے احصار کی حالت میں قربانی کرنے کے لئے جانور نہ ملے۔ اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ یہ خطاب درج بالا شخص کے لئے نہیں ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے ایسے شخص کو روزہ رکھنے یا صدقہ کرنے یا دم دینے کا اختیار دیا ہے اور یہ اختیار اسی صورت میں درست ہوسکتا ہے جبکہ اسے یہ تینوں اشیاء میسر ہوں۔ اس لئے کہ ایسی چیزوں میں اختیار دینے کا تو کوئی مطلب ہی نہیں جن میں سے بعض تو دستیاب ہوں اور بعض نہ ہوں اس لئے اس استدلال سے یہ ثابت ہوگیا کہ قربانی کی ذبح کی جگہ حرم ہے۔ احصار کی جگہ نہیں ہے۔- اب آئیے ذرا عقلی طور پر اس مسئلہ پر نظر ڈالیں۔ جب سب کا اس پر اتفاق ہے کہ شکار کے بدلے میں ذبح ہونے والا جانور حرم کے سوا اور کہیں ذبح نہیں ہوسکتا اس لئے ہر اس قربانی کا بھی یہی حکم ہونا چاہیے۔ جس کے وجوب کا تعلق احرام کی وجہ سے ہوا ہو۔ ان دونوں کے درمیان جو مشترک بات ہے وہ یہ ہے کہ ان کا تعلق احرام کے ساتھ ہے۔- اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ قول باری ہے (ھو الذی کفروا وصدوکم عن المسجد الحرام وا لھدی معکوفاً ان یبلغ محلہ، یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے کفر کیا اور تمہیں مسجد حرام میں جانے سے روکا اور قربانی کے جانور کو جور کا ہوا رہ گیا تھا اس کی ذبح کی جگہ پہنچنے سے روک دیا۔ )- اس آیت کا شان نزول حدیبیہ کا واقعہ ہے اس میں یہ دلالت موجود ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ نے حرم سے باہر اپنی قربانیاں ذبح کیں اگر یہ بات نہ ہوتی تو قربانی کا جانور ضرور اپنی ذبح کی جگہ پہنچ جاتا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس واقعہ سے تو اس حقیقت پر زیادہ دلالت ہو رہی ہے کہ قربانی کی ذبح کی جگہ حرم ہے۔ اس لئے کہ اگر احصار کی جگہ ذبح کی جگہ ہوتی تو آیت میں یہ ارشاد نہ ہوتا کہ (والھدی معکوفا ان یبلغ محلہ)- اس میں یہ اطلاع دی گئی ہے کہ مشرکین مکہ نے قربانی کو اس کی ذبح کی جگہ پہنچنے سے روک دیا، اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ ذبح کی جگہ حل یعنی حرم سے باہر نہیں ہے۔ آیت میں یہ گنجائش ہے کہ وہ اس مسئلے میں دلیل کی ابتداء کا کام دے۔- اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ اگر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ کرام نے اپنی قربانیاں حل یعنی غیر حرم میں ذبح نہیں کیں تو پھر (والھدی معکوفاً یبلغ محلہ) کا کیا مطلب ہوگا ؟ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ جب ادنیٰ درجے کی رکاوٹ پیدا ہوگئی تو یہ کہنا درست ہوگیا کہ انہیں روک دیا گیا تھا۔- لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہمیشہ کے لئے ایسا کیا گیا تھا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر ایک شخص دور سے شخص کا حق مار کر اسے محروم کردیتا ہے تو اس وقت یہ فقرہ کہنا درست ہے کہ فلاں نے فلاں کا حق روک دیا یا محبوس کردیا ہے۔ لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اس کا حق ہمیشہ کے لئے محبوب ہو کر رہ گیا۔ اس واقعہ میں بھی صورت حال یہی ہے۔- مشرکین مکہ نے جب قربانی کو ابتداء ہی سے حرم میں پہنچنے سے روک دیا تو یہ کہنا دسرت ہوگیا کہ انہوں نے قربانی کو اس کی ذبح کی جگہ پہنچنے سے روک دیا اگرچہ اس کے بعد انہوں نے یہ رکاوٹ دور کردی تھی۔ آیت پر ذرا غور کرنے سے معلوم ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے مشرکین کی خاص بات یہ بتائی کہ انہوں نے مسلمانوں کو مسجد حرام میں جانے سے روک دیا تھا۔- اگرچہ انہوں نے اگلے سال مسلمانوں کو اس کی اجازت دے دی تھی جیسا کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے واقعہ کے سلسلے میں برادران یوسف کا قول اللہ تعالیٰ نے نقل فرمایا ہے کہ (قالوایا ابانا منع منا الکیل، برادران یوسف نے کہا اے ہمارے باپ آئندہ ہم کو غلہ دینے سے انکار کردیا گیا ہے۔ )- یہاں انہیں ایک موقع ہپر غلہ دینے سے انکار کردیا گیا تھا۔ جبکہ دوسرے موقعہ پر ایسا نہیں کیا گیا۔ ٹھیک اسی طرح مشرکین مکہ نے ابتداء میں قربانی کو حرم میں لے جانے سے روک دیا تھا پھر جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مشرکین مکہ کے درمیان صلح ہوگئی تو انہوں نے اس کی اجازت دے دی تو آپ نے قربانی کو حرم میں لیجا کر ذبح کیا۔- اس میں ایک قول یہ بھی ہے کہ حضو ر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے ساتھ قربانی لے کر اس لئے آئے تھے کہ بیت اللہ کا طواف کرنے کے بعد اسے ذبح کریں گے۔ جب مشرکین نے آپ کو اس سے روک دیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا (والھدی معکوفاً ان یبلغ محلہ) اس لئے کہ قربانی ذبح کے وقت مقررہ تک حرم میں نہیں پہنچ سکی تھی۔- اس میں یہ بھی احتمال ہے کہ اس سے مراد وہ جگہ جہاں قربانی کا جانور ذبح کرنا مستحب ہوتا ہے ۔ وہ مردہ کے قریب جگہ یا منی کا مقام ہے۔ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس جگہ قربانی کرنے سے روک دیا گیا تو اس پر آیت میں وہ اطلاق ہوا جو ہم بیان کر آئے ہیں۔ مسور بن مخرمہ اور مردان بن الحکم نے بیان کیا ہے کہ حدیبیہ کا کچھ حصہ حرم سے باہر ہے اور کچھ حصہ حرم کے اندر ہے ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خیمہ تو حرم سے باہر تھا لیکن نماز گاہ حرم کے اندر تھی۔ اب جبکہ آپ کے لئے نماز کی ادائیگی حرم کے اندر ممکن تھی تو لا محالہ قربانی کا جانور بھی حرم کے اندر ذبح کرنا ممکن تھا۔- یہ بھی روایت ہے کہ ناجیہ بن جندب اسلمی نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا تھا کہ اپنے قربانی کے جانور مجھے دے دیجیے میں انہیں گھاٹیوں اور وادیوں سے گذار کر مکہ میں ذبح کر دوں گا۔ چناچہ آپ نے ایسا ہی کیا۔ اس صورت میں یہ ممکن ہے کہ آپ نے کچھ جانور تو اس کے ذریعے بھیج دیئے ہوں گے اور کچھ کو حرم میں خود ذبح کیا ہوگا۔ واللہ اعلم ۔- ہدی احصار کے لئے ذبح کا وقت - فرمان الٰہی ہے (فما استیسر من الھدی) جو اہل علم قربانی کا جانور بھیج کر احرام کھول دینے کے قائل ہیں ان میں اس مسئلے کے متعلق کوئی اختلاف نہیں ہے کہ عمرہ کی صورت میں احصار کی حالت کے تحت قربانی کا جو جانور بھیجا جائے گا۔ اس کی ذبح کا کوئی وقت مقرر نہیں ہے۔ جب چاہے ذبح کرا لے اور احرام کھو ل دے۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ کرام حدیبیہ کے مقام پر حالت احصار میں تھے اور سب نے عمرہ کا احرام باندھ رکھا تھا۔ پھر قربانی کے جانور ذبح کرنے کے بعد احرام کھول دیا۔ یہ واقعہ ذی قعدہ کے مہینے میں پیش آیا تھا۔ البتہ فقہاء کا حج کے احرام کی صورت میں احصار پیش آنے پر جانور ذبح کرنے کے وقت کے متعلق اختلاف ہے۔- امام ابوحنیفہ، امام مالک اور امام شافعی کا قول ہے کہ جب چاہے ذبح کرسکتا ہے یعنی دسویں ذی الحجہ سے قبل بھی وہ جانور ذبح ہوسکتا ہے، امام ابو یوسف، امام محمد اور سفیان ثوری کا قول ہے کہ دسویں ذالحجہ سے قبل ذبح نہیں ہوسکتا۔- ظاہر آیت (فما استیسر من الھدی) کا اقتضاء یہ ہے کہ اس کی ذبح کا کوئی وقت مقرر نہیں ہونا چاہیے۔ اگر اس کے لئے کوئی وقت مقرر کیا گیا تو اس سے بلا دلیل لفظ کی تخصیص عمل میں آئے گی جو ناجائز ہے۔- اگر یہ کہا جائے کہ قول باری (ولا تحلقوا ارئو وسکم حتی یبلغ الھدی محلہ) میں لفظ المحل کا اطلاق توقیت (تعیین وقت) پر ہوتا ہے۔ اس لئے ذبح کا موقف ہونا ضروری ہوگیا جواب میں کہا جائے گا کہ ہم بیان کر آئے ہیں کہ المحل کا اطلاق جگہ پر ہوتا ہے ۔ اگرچہ کبھی کبھی وقت پر بھی ہوجاتا ہے۔ تاہم سب کا اس پر اتفاق ہے کہ المحل سے یہاں مراد مکان ذبح ہے۔ اس لئے جس وقت قربانی کا جانور حرم میں پہنچ جائے اور وہاں ذبح ہوجائے تو ظاہر آیت کی رو سے ایسا کرنا جائز ہوگا۔- اس بنا پر اس میں وقت کی شرط ایک زائد بات ہوگی اس لئے کہ اکثر احوال میں جب یہ لفظ جگہ اور وقت دونوں کو شامل ہوگا تو ان میں سے جو بھی پایا جائے گا اس کے ساتھ شرط کا پورا ہوجانا ضروری ہوگا۔ اس لئے کہ قربانی کا اپنی ذبح کی جگہ پہنچ جانا احرام کی انتہاء قرار دیا گیا ہے اور حرم میں اس کی ذبح کے ساتھ بلوغ المحل کا مفہوم وجود میں آگیا۔- جب اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا (والھدی معکوفاً ان یبلغ محلہ) اور یہ محل حرم تھا۔ پھر بعینہ اسی سلسلے میں (حتی یبلغ الھدی محلہ) فرمایا تو اس سے یہ بات ضروری ہ وگئی کہ یہاں المحل سے مراد وہی مفہوم ہو جو دوسری آیت میں تھا اور یہ حرم ہے۔- حج کے احرام میں دم احصار کی ذبح کے غیر موقف ہونے کی ایک دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا (فان احصر تم فما استیسرمن الھدی) آیت میں حج اور عمرہ دونوں مراد ہیں اس لئے کہ خطاب کی ابتداء ان دونوں کے ذکر کے ساتھ ان الفاظ میں کی گئی تھی (واتموا الحج والعمرہ للہ) آیت میں حج کے لئے جس قربانی کے جانور کا ذکر ہے، عمرے کے لئے بھی اسی کا ذکر ہے اور جب اس پر اتفاق ہے کہ عمرے کی صورت میں ذبح کے لئے کوئی وقت مقرر نہیں ہے تو حج کے لئے یہی ہونا چاہیے۔ اس لئے کہ لفظ میں اطلاق کا مفہو م مراد ہے اور توقیت کی صورت میں اطلاق کا مفہوم باقی نہیں رہ سکتا۔- اس پر یہ قول باری (حتی یبلغ الھدی محلہ) بھی دلالت کر رہ ا ہے۔ اس لئے کہ عمرے کی صورت میں لفظ ، محلہ، سے مراد حرم ہے نہ کہ وقت۔ اس طرح عمرے کے سلسلے میں حرم کے مفہوم کے لئے اس لفظ کی حیثیت منطوق حکم کی طرح ہوگئی جس کا مقتضی یہ ہے کہ حرم میں جس وقت بھی اس جانور کی قربانی کی جائے گی اس کی قربانی درست ہوگی اس لئے حج کے سلسلے میں بھی ایسا ہی ہونا چاہیے۔- نیز عمرے کی صورت میں جب لفظ کے اطلاق کو بحالہ باقی رکھا گیا ہے تو حج کی صورت میں اسے مقید کرنا درست نہیں ہوگا، اس لئے کہ ذبح کا حکم حج اور عمرہ دونوں کے لئے ایک ہی لفظ اور ایک ہی وجہ کے تحت وارد ہوا ہے ۔ اس لئے یہ دسرت نہیں ہوگا کہ بعض صورتوں میں لفظ سے وقت ذبح مراد لیا جائے اور بعض دوسر صورتوں میں مکان ذبح مراد لیا جائے۔- جس طرح کہ قول باری (والسابق والسارقۃ) میں یہ جائز نہیں ہے کہ بعض صورتوں میں دس درہم چرانے والا مراد لیا جائے اور بعض میں چوتھائی دینار چرانے والا۔- سنت سے بھی عدم توقیت کی تائید ہوتی ہے حجاج بن عمرو انصاری کی حدیث ہے جس میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے (من کسر او اعرج فقد حل وعلیہ الحج من قابل جس کی ہڈی ٹوٹ جائے یا لنگڑا ہوجائے تو اس کا احرام کھل گیا اور اس پر اگلے سال کا حج ہے) اس سے مراد یہ ہے کہ ایسے شخص کے لئے احرام کھول دینا جائز ہوگا کیونکہ اس پر اتفاق ہے کہ ہڈی ٹوٹنے یا لنگڑا ہوجانے پر احرام نہیں کھلتا۔- درج بالا مسئلے پر ضباعہ بنت الزبیر کی حدیث بھی دلالت کرتی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں فرمایا تھا کہ (اشترطی وقولی ان محلی حیث حبستنی ، احرام باندھتے وقت شرط رکھ لو اور کہو کہ میرا احرام اس جگہ کھل جائے گا جس جگہ اے خدا تو مجھے روک دے گا۔ )- اس کا مفہوم یہ ہے کہ ضباء کی طرف سے یہ اظہار ہوگیا کہ مقام حبس ان کے احرام کھولنے کی جگہ ہے۔ کیونکہ یہ اصول ہے کہ احرام کی وجہ سے عائد ہونے والے احکام کسی شرط کی وجہ سے منتفی نہیں ہوتے، اس اصول کی بھی درج بالا مسئلے پر دلالت ہو رہی ہے پھر اس حدیث میں ذبح کے لئے وقت بھی مقرر نہیں کیا گیا جس سے ہمارے قول کی تائید ہوتی ہے۔- عقلی طور پر بھی درج بالا مسئلے کی تائید اس بات سے ہوتی ہے کہ تمام کا اس پر اتفاق ہے کہ حج فوت ہوجانے کی صورت میں جس عمرے کے ذریعے وہ احرام کھول رہا ہے اس کی ادائیگی کے لئے کوئی وقت مقرر نہیں ہے۔ اسی طرح اس قربانی کا حکم بھی ہونا چاہیے جو احصار کی وجہ سے اس پر لازم ہوگئی ہے۔ یعنی جس طرح حج فوت ہوجانے کی صورت میں حج کا احرام کھولنے کے لئے واجب ہونے والا عمرہ غیر موقت ہے۔ اسی طرح یہ قربانی بھی غیر موقت ہونی چاہیے کیونکہ اس کے ذریعے فسخ حج کے طور پر انسان احرام کھول دیتا ہے۔ اس لئے اس کا حکم بھی وہی ہونا چاہیے جو حج فوت ہوجانے کی صورت میں واجب ہونے والے عمر کا ہوتا ہے۔ دونوں باتیں عمرہ اور قربانی وقت کی قید سے آزاد ہونی چاہئیں۔- قول باری ہے (ولا تحلقوا رئوسکم، اور تم اپنے سر نہ منڈائو) احرا مکی حلات میں حج کرنے والے اور عمرہ کرنے والے دونوں کو سرمنڈانے سے روک دیا گیا ہے اس لئے کہ اس قول باری کا عطف (واتموا الحج والعمرۃ للہ) پر ہے۔ اس کا اقتضا یہ ہے کہ اس میں ایک دوسرے کے سرمونڈنے کی اسی طرح ممانعت ہے جس طرح خود اپن اسر مونڈنے کی کیونکہ لف ظ میں دونوں معنوں کا احتمال ہے۔- اس کی ایک مثال یہ قول باری ہے (ولا تقتلوا انفسکم ، اپنی جانوں کو قتل نہ کرو) اس کا اقتضا یہ ہے کہ ایک دوسرے کی جان لینے کی اسی طرح ممانعت ہے جس طرح اپنی جان لینے کی۔ اس لئے درج بالا آیت میں محرم کو کسی دوسرے کا سرمونڈنے کی بھی ممانعت ہے اور اگر اس نے یہ حرکت کی تو اس پر جز الازم آئے گی۔- نیز اس کی اس امر پر بھی دلالت ہو رہی ہے کہ قران اور تمتع کی صورت میں ذبح حلق یعنی سرمنڈانے پر مقدم ہے۔ اس لئے کہ آیت میں ان تمام لوگوں کے لئے عموم ہے جن پر ایک ہی وقت میں قربانی بھی لازم ہے اور سر منڈانا بھی۔ اس لئے ایسا قارن یا متمتع جو قربانی کا جانور ذبح کرنے سے پہلے سرمنڈا لے۔ اس آیت کی دلالت کی بن اپر اس پر دم کا وجوب ہوگا۔ اس لئے کہ اس نے یہ حرتک کر کے ایک ممنوع شئی کا ارتکاب کیا ہے۔- کیا محصر سر منڈانا جائز ہے - اس مسئلہ میں اختلاف ہے کہ آیا محصر کے لئے سر منڈانا ضرو ری ہے یا نہیں۔ امام ابوحنیفہ اور امام محمد کا قول ہے کہ سر منڈانا ضروری نہیں۔ امام ابویوسف سے ایک روایت کی بن اپر اسے حلق کرا لینا چاہیے اگر نہیں کراتا تو اس پر کوئی جرمانہ وغیرہ عائد نہیں ہوگا۔ امام ابو یوسف سے دوسری روایت کی بنا پر اس کے لئے حلق کرانا ضروری ہے۔- تاہم فقہا کا اس مسئلے میں اتفاق ہے کہ اگر بیوی شوہر کی اور غلام آقا کی اجازت کے بغیر نفلی احرام باندھ لے تو شوہر اور آقا کو اس بات کی اجازت ہے کہ وہ حلق یا بال کٹوانے کے بغیر ہی ان کے احرام کھول دیں۔ وہ اس طرح کہ احرام کی وجہ سے ممنوعہ اشیاء میں سے کوئی معمولی سی چیز مثلاً خوشبو یا سلے ہوئے کپڑے انہیں لگایا پہنا دیا تو ان کا احرام ختم ہوجائے گا۔- اس مسئلے سے اس بات پر دلالت ہو رہی ہے کہ محصر پر حلق واجب نہیں ہے۔ اس لئے کہ درج بالا مسئلے میں بیوی اور غلام کی حیثیت محصر کی سی تھی۔ اور شوہر اور آقا کے لئے جائز ہوگیا کہ وہ حلق کے بغیر ہی بیوی اور غلام کا احرام کھول دیں۔- اگر حلق واجب وہتا تو شوہر کے لئے ضروری ہوتا کہ وہ بیوی کے بال چھوٹے کر کے اس کا احرام کھولے اور آقا غلام کا سرمونڈ کر اس کا احرام کھولے۔ نیز اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ مناسک میں حلق کی باری اس وقت آتی ہے جب محرم حج یا عمرے کے کچھ مناسک ادا کرے ۔- اب حالت احصار میں مناسک کی ادائیگی کے بعد حلق کی صورت تو نہیں پائی گئی اس لئے اسے کسی دلیل کے بغیر نسک قرار دینا درست نہیں ہوگا۔ کیونکہ یہ بات ثابت شدہ ہے کہ حلق بنیادی طور پر کوئی نسک یعنی عبادت نہیں ہے۔- اسی علت کی بن اپر بیوی اور غلام کے مسئلے پر بھی قیاس کیا جائے گا کہ شوہر اور آقا کو علی الترتیب ان دونوں کا احرام حلق یا تقصیر (بال چھوٹے کرنا) کے بغیر کھول دینا اس لئے جائز ہوگیا کہ بیوی اور غلام نے وہ مناسک ادا نہیں کئے تھے جن کے بعد حلق یا تقصیر کی باری آتی تھی۔ اس لئے یہ بھی ضروری ہوگیا کہ اس علت کی بنیاد پر حالت احصار میں آنے والے تمام لوگوں کے لئے حلق کے بغیر احرام کھول دینا جائز ہوجائے۔- محصر کے لئے عدم حلق کے مسئلے پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس حدیث سے بھی دلالت ہو رہی ہے جس میں آپ نے حضرت عائشہ کو عمرہ کے افعال کی ادائیگی مکمل کرنے سے پہلے عمرہ ترک کردینے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا تھا (انقضی راس کو امتشطی ودعی العمرۃ واغتسلی واھلی بالحج، اپنے بالوں میں کنگھی کرلو، عمرہ چھوڑ دو ، غسل کرلو اور حج کا احرام باندھ لو۔ )- اس حدیث میں آپ نے حضرت عائشہ کو اس وقت حلق یا تقصیر کا حکم نہیں دیا۔ جب آپ عمرہ کے افعال کی ادائیگی مکمل نہ کرسکیں۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ جس شخص کے لئے مناسک ادا کرنے سے پہلے احرام کھول دینا جائز ہوتا ہے۔ اس پر حلق کے ذریعے احرام کھولنا ضروری نہیں ہوتا۔ اس میں اس بات کی بھی دلیل موجود ہے کہ حلق مناسک کی ادائیگی پر اسی طرح ترتیب سے آتا ہے جس طرح مناسک کی آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ ترتیب ہوتی ہے۔- اسی لئے امام محمد نے یہ استدلال کیا ہے کہ محصر سے جب تمام مناسک کی ادائیگی ساقط ہوگئی تو حلق بھی ساقط ہوگیا۔ امام محمد کے اس قول کے دو معنی ہوسکتے ہیں۔ اول یہ کہ اس قول سے ان کی مراد وہی ہو جو ہم اپنے استدلال میں بیان کر آئے ہیں کہ محصر سے جب تمام مناسک ساقط ہوگئے تو حلق بھی ساقط ہوگیا۔ اس لئے کہ حلق کا نمبر ترتیب میں مناسک کی ادائیگی کے بعد آتا ہے۔ دوم یہ کہ احرام کی صورت میں جب حلق واجب ہوتا ہے تو اس کی حیثیت نسک کی ہوتی ہے۔ جب محصر سے تمام مناسک ساقط ہوگئے تو ضرور ی ہوگیا کہ حلق بھی ساقط ہوجائے۔- اگر یہ کہا جائے کہ محصر سے تمام مناسک اس لئے ساقط ہوگئے کہ ان کی ادائیگی اس کے لئے متعذر ہوگئی لیکن حلق تو ایسا فعل ہے جس کی ادائیگی اس کے لئے کچھ مشکل نہیں ہے اس لئے اسے حلق ضروری کرنا چاہیے۔- اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ مفروضہ غلط ہے اس لئے کہ اگر محصر کو مزدلفہ جانا اور رمی جمار کرنا ممکن ہو لیکن بیت اللہ تک پہنچنا اور وقوف عرفات کرنا متعذر ہو تو اس پر وقوف مزدلفہ لازم نہیں ہوگا اور نہ ہی رمی جمار اگرچہ ان دونوں کاموں کا امکان بھی ہو۔ اس لئے کہ ان دونوں افعال کا نمبر مناسک حج میں ایسے چند مناسک کے بعد آتا ہے جن کا ان دونوں سے پہلے سر انجام پالینا ضروری ہوتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح حلق کا نمبر کچھ مناسک کی ادائیگی کے بعد آت ا ہے۔ اگر ا ن سے پہلے حلق ہوجائے تو صرف حلق ہی ہوگا نسک نہیں بنے گا۔ اس استدلال سے معترض کا اعتراض رفع ہوگیا اس لئے کہ ایسے مناسک موجود ہوتے ہیں جن کی ادائیگی اس کے لئے ممکن ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود حالت احصار میں وہ اس کے لئے لازم نہیں ہوتے۔- اگر کوئی شخص امام ابویوسف کے مسلک پر استدلال کے لئے یہ آیت پیش کرے صولا تحلفوا رئوسکم حتی یبلغ الھدی محلہ) اور کہے کہ اس میں قربانی کے جانور کا اپنی ذبح کی جگہ پہنچ جائے کو پابندی ختم ہونے کی غایت یا انتہا قرار دی گئی ہے۔- اور قاعدے کے مطابق یہ ضروری ہے کہ غایت کا حکم اس کے ماقبل کے حکم کی ضد ہو۔ اس بنا پر تقدیر آیت یوں ہوگی :” تم اپنے سر منڈائو جب تک قربانی اپنی ذبح کی جگہ نہ پہنچ جائیخ جب پہنچ جائے تو سرمنڈا دو ۔ “ یہ مفہوم حلق کے وجوب کا تقاضا کرتا ہے ۔ جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بات غلط ہے اس لئے کہ اباحت پابندی کی ضد ہوتی ہے جس طرح ایجاب اباحت کی ضد ہوتا ہے۔- اس بنا پر حظر پابندی کے ان دونوں اضداد میں سے ایک ضد یعنی ایجاب کو اختیار کرلینا دوسری ضد یعنی اباحت کو اختیار کرلینے سے اولیٰ نہیں ہوگا۔- دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ حظر یعنی پابندی کا خاتمہ اس بات کا متقاضی نہیں ہوتا کہ اس کی ضد پر ایجاب کے طور پر عمل کیا جائے اس کا تقاضا تو صرف یہ ہوتا ہے کہ پابندی اٹھ جانے کے بعد وہ شئی اپنی اصل حالت پر آ اجتی ہے اور اس کا حکم وہی ہو جات ا ہے جو پابندی سے پہلے کا تھا۔- اس بن اپر زیر بحث مسئلے میں حلق کی حیثیت وہی ہوجائے گی جو احرام سے پہلے کی تھی اگر چاہے تو سر کے بال صاف کرا دے اور اگر چاہے تو اسے بحالہ باقی رہنے دے۔ آپ دیکھتے نہیں کہ جمعہ کی وجہ سے خرید و فروخت پر اور احرام کی وجہ سے شکار پر لگی ہوئی پابندی جب ختم ہوتی ہے تو یہ تقاضا نہیں کرتی کہ ایک شخص جمعہ سے فارغ ہو کر لازم طور پر خرید و فروخت کرے یا ایک شخص احرام سے نکل کر لازمی طور پر شکار کرے۔ پابندی یا حظر کے خاتمے کا تقاضا صرف یہ ہوتا ہے کہ اب ممنوعہ افعال کی اباحت یا اجازت ہوگئی ہے۔- امام ابویوسف کے لئے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس حدیث سے بھی استدلال کیا جاسکتا ہے کہ آپ نے حلق کرانے والوں کے لئے اللہ کی رحمت کی تین دفعہ دعا کی اور بال چھوٹے کرانے والوں کے لئے ایک دفعہ دعا مانگی۔- یہ بات عمرئہ حدیبیہ میں احصار کی حالت پیش آنے پر ہوئی۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ دعا اس بات کی دلیل ہے کہ حلق ایک نسک ہے اور جب نسک ہے تو اس کی ادائیگی ہے جس طرح کہ غیر محصر کے لئے اس کی ادائیگی دیگر مناسب کی ادائیگی کے ساتھ ضروری ہے۔- اس کا جواب یہ ہے کہ صحابہ کرام کے لئے بیت اللہ کے طواف سے پہلے حلق کرنا اور احرام کھول دینا ذہنی طور پر بری پریشانی کا سبب تھا۔ لیکن جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں احرام کھولنے کا حکم دیا تو سب نے اس امید پر توقف کیا کہ شاید بیت اللہ تک پہنچنا ممکن ہوجائے۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دوبارہ اپنا حکم دہرایا اور ساتھ ہی ساتھ احرام کھولنے کے افعال کی ابتداء خود کردی کہ آپ نے قربانی کا جانور ذبح کیا اور حلق کرایا جب صحابہ کرام نے یہ دیکھا تو بعض نے حلق کرا لیا اور بعض نے تقصیر۔- اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حلق کرانے والوں کے لئے دعا ماگنی کیونکہ انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی متابعت اور آپ کا حکم بجا لانے میں پوری تندہی دکھائی تھی۔- جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ عرض کیا گیا کہ آپ نے حلق کرانے والوں کے لئے تین دفعہ دعا مانگی اور بال چھوٹے کرانے والوں کے لئے ایک دفعہ، اس کی کیا وج تھی ؟ تو آپ نے جواب میں فرمایا تھا کہ ” ان لوگوں نے شک نہیں کیا تھا۔ “- اس کا مفہوم یہ ہے کہ ان لوگوں نے اس چیز کے متعلق کوئی شک نہیں کیا تھا کہ حلق تقصیر سے افضل ہے۔ اس بنا پر وہ دوسروں کے مقابلے میں زیادہ ثواب کے مستحق ٹھہرے۔- اگر یہ کہا جائے کہ چاہے جو بھی صورت حال ہو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں حلق کا حکم دیا تھا اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حکم وجوب پر محمول ہوتا ہے پھر حلق کرانے والوں اور بال چھوٹے کرانے والوں کے لئے آپ کی دعا اس بات کی دلیل ہے کہ حلق ایک نسک ہے۔ آپ کا یہ استدلال کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں حلق کا حکم دیا تھا لیکن صحابہ کرام بیت اللہ تک پہنچنے سے پہلے حلق کرانا ناپسند کرتے تھے تو یہ استدلال حلق کے نسک ہونے کی دلالت کے منافی نہیں ہے۔ - اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ مسور بن مخزمہ اور مروان بن الحکم نے حدیبیہ کے واقعہ کی روات کی ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ سے فرمایا تھا کہ احرام کھول کر قربانی کرلو۔- بعض روایات میں حلق کا بھی ذکر ہے ۔ اب ہم دونوں لفظوں پر عمل کرتے ہوئے کہیں گے کہ جس چیز کے ذریعے وہ احرام کھولے گا اس کا احرام کھل جائے گا کیونکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے (احلوا) یعنی احرام کھول لو۔ اور آپ کے قول (احلقوا) کا مقصد احلال یعنی احرام کھول دینا ہے۔ اس میں حلق کے ذریعے احرام کھولنے کی تعیین نہیں ہے کہ اس کے سوا اور کسی چیز کے ذریعے احرام کھولا نہیں جاسکتا۔- حلق کرنے والے ثواب کے اس لئے مستحق ٹھہرے کہ انہوں نے احرام کھولنے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کی فرمانبرداری کی تھی اور آپ کی متابعت اور پیروی میں ان کی کوشش اور تندہی کی بنا پر حلق تقصیر سے افضل قرار پایا۔ واللہ اعلم بالصواب ۔- قربانی کے ذریعے احرام حج کھول دینے کے بعد محصر پر کیا واجب ہوتا ہے ؟- محصر کی کیفیت بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا (فمن تمتع بالعمرۃ الی الحج فما استیسر من الھدی، پس جو شخص حج کا زمانہ آنے سے پہلے عمرے سے فائدہ اٹھائے تو جو قربانی میسر ہو وہ پیش کرے۔ )- سلف اور فقہائے امصار میں اس محصر کے مسئلے میں اختلاف ہے جس نے حج کا احرام باندھا ہو اور پھر قربانی کا جانور بھیج کر احرام کھول دے ۔ سعید بن جبیر نے حضرت ابن عباس اور مجاہد نے حضرت عبداللہ بن مسعود سے روات کی ہے کہ اس پر عمرہ اور حج دونوں لازم ہوں گے۔- اگر اس نے ان دونوں کو حج کے مہینوں میں ادا کرنے کی نیت سے اکٹھا کردیا ہے تو اس پر قربانی واجب ہوگی اور وہ متمتع قرار پائے گا۔ اگر اس نے ان دونوں کو حج کے مہینوں میں اکٹھا نہ کیا ہوگا تو اس پر کوئی قربانی واجب نہیں ہوگی۔ یہی قول علقمہ ، حسن بصری، ابراہیم نخعی، سالم، قاسم اور محمد بن سیرین کا ہے اور یہی ہمارے اصحاب کا قول ہے۔- ایوب نے عکرمہ کے واسطے سے حضرت ابن عباس سے روایت کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے ساتھ قصاص یعنی برابری کا معاملہ کیا ہے۔ حج کے بدلے حج اور عمرہ کے بدلے عمرہ الایہ کہ تمہاری زیادتی پر اس کی طرف سے مواخذہ ہو تو یہ اور صورت ہے ۔ شعبی سے روایت ہے کہ اس پر حج واجب ہوگا۔ - امام ابوحنیفہ صرف اس محرم پر حج اور عمرہ دونوںں واجب کرتے ہیں جو حالت احصار کی وجہ سے قربانی دے کر احرام کھول دیتا ہے اور پھر اسی سال حج نہیں کرتا۔ اگر ایسا شخص یوم نحر سے پہلے احرام کھول دے پھر احصار ختم ہوجائے اور وہ حج کا احرام باندھ کر حج ادا کرے لے تو اس پر عمرہ واجب نہیں ہوگا۔ اس لئے کہ یہ عمرہ حج قوت ہونے کی صورت میں واجب ہوتا ہے۔- کیونکہ جس شخص کا حج فوت ہوجائے اس پر احرام کھولنا عمرہ ادا کرنے کے ذریعے ہی واجب ہوجاتا ہے۔ اس لئے جب اس کا حج فوت ہوا تھا۔ اس پر اس کی وجہ سے عمرہ واجب ہوا تھا۔ اور احصار کی حالت میں اس پر جو دم واجب ہوا تھا وہ صرف احلال یعنی احرام کھولنے کے لئے تھا۔ یہ دم اس نمرہ کے قائم مقام نہیں ہوسکتا جو حج فوت ہونے کی وجہ سے اس پر لازم ہوا تھا۔ اس لئے کہ اصولی طور پر کوئی عمرہ ایسا نہیں ہوتا کہ کوئی دم اس کے قائم مقام ہوجائے۔- آپ نہیں دیکھتے کہ کوئی شخص اگر عمرہ کرنے کی نذر مان لے تو وہ اس کی جگہ دم نہیں دے سکے گا خواہ اسے کوئی عذر پیش آ جائے یا عمرہ ادا کرنا اس کے لئے ممکن ہو۔ اسی طرح جو شخص عمرہ کی فرضیت کا قائل ہے وہ دم کو عمرہ کے قائم مقام تسلیم نہیں کرتے ہے۔ اس لئے حج فوت ہونے کی وجہ سے لازم ہونے والا عمرہ ایسا ہوتا ہے کہ کسی دم کا اس کے قائم قمام ہونا جائز نہیں وہتا۔ جس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ دم یعنی قربانی کے ذریعے صرف احرام کھل جاتا ہے اور بس ۔- اس حقیقت پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ حج فوت ہونے کی وجہ سے جو عمرہ واجب ہوتا ہے حج فوت ہونے سے پہلے اس کا ادا کرنا جائز نہیں ہوتا کیونکہ ابھی نہ اس کا وقت ہوتا ہے اور نہ ہی سبب پایا اجتا ہے (اس عمرے کا سبب حج کا فوت ہونا ہے اور اس کا وقت حج فوت ہونے کے بعد شروع ہوتا ہے) جبکہ دم احصار کو ذبح کرنا اور اس کے ذریعے احرام کھول دینا حج فوت ہونے سے قبل بھی درست ہے۔ اس پر ہمارا اور ہمارے مخالفین کا اتفاق ہے۔- اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ دم احصار صرف احرام کھولنے کے لئے ہوتا ہے اور یہ عمرہ کے قائم مقام نہیں ہوتا۔ یہاں امام مالک اور امام شافعی کے لئے یہ گنجائش نہیں ہے کہ دم احصار کو اس عمرہ کے قائم مقام بنادیں جو حج فوت ہونے کی وجہ سے واجب ہوتا ہے۔ اس لئے کہ یہ دونوں حضرات اس بات کے قائل ہیں کہ جس شخص کا حج فوت ہوگیا ہو اس پر عمرہ کے ساتھ ساتھ قربانی بھی واجب ہوتی ہے۔- (بقیہ تفسیر۔ اگلی آیت میں)
١٩٦: تم حج یا عمرہ سے کسی بیماری یا دشمن کی وجہ سے روک دیے جاؤ تو بکری، گائے یا اونٹ میں سے، جس قربانی میں تمہارے لیے آسمانی ہو احرام کے چھوڑنے پر واجب ہے اور اس رکنے کے عرصہ میں اپنے سروں کو نہ منڈواؤ جب تک کہ جو قربانی روانہ کی ہے وہ اپنے ذبح ہونے کے مقام پر نہ چلی جائے اور جو اس رکنے کی مدت میں اتنے زمانہ تک نہ ٹھہر سکتا ہوں تو وہ قربانی کا جانور کی جگہ پر روانہ کرنے سے پہلے ہی اپنے گھر چلا جائے اور جس کے سر میں جوئیں بہت زیادہ ہوگئی ہوں وہ اپنے سر کو منڈوائے، یہ آیت کریمہ حضرت کعب بن عجرہ (رض) کے متعلق نازل ہوئی ہے ان کے سر میں جوئیں بہت زیادہ ہوگئی تھیں، اس لیے انہوں نے حرم ہی میں اپنا سر منڈا دیا تھا اور اس سر منڈانے کا فدیہ تین روزے یا اہل مکہ میں سے چھ مسکینوں کو کھانا کھلانا یا ایک قربانی کا جانور ذبح کرنے کے لیے روانہ کرنا ہے اور جب دشمن اور بیماری سے نجات مل جائے تو اس سال اللہ تعالیٰ نے جو تمہارے ذمہ حج اور عمرہ فرض کیا تھا اگلے سال اس کو قضا کرلو۔- اور جو شخص عمرہ ادا کرنے کے بعد پھر حج کا احرام باندھے تو اس پر حج تمتع اور قرن (حج اور عمرے کا اکٹھا کرنا) کی قربانی واجب ہے اور قربانی عام ہے خواہ بکری ہو یا گائے اور اونٹ میں سے حصہ کردے اور جو شخص ان تینوں قسم کی قربانیوں میں سے کوئی سی بھی قربانی ادا نہ کرسکے تو وہ حج کے عشرہ میں تین روزے متواتر اس ترتیب سے رکھے کہ اخیر روزہ عرفہ کے دن ہو، اور ساتھ گھر پہنچنے پر یا جس وقت راستہ ہی میں تم قیام کرلو یہ پورے روزے قربانی کے قائم مقام ہوجائیں گے اور یہ دم تمتع (قربانی) اس شخص پر واجب ہے کہ جس کا گھر حرم میں یا اس کے گھر والے حرم میں نہ ہوں، کیوں کہ حرم والوں پر حج تمتع اور قرن نہیں ہے، اور جس چیز کا اللہ تعالیٰ نے تمہیں حکم دیا ہے اس کو پورا کرنے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو، کیوں کہ جو احکام خداوندی میں سے قربانی یا روزوں کو ترک کرے گا تو اللہ تعالیٰ سخت عذاب دینے والے ہے۔- شان نزول : (آیت) ” فمن کان منکم مریضا “۔ (الخ)- امام بخاری (رح) نے کعب بن عجرہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ ان سے اللہ تعالیٰ کا فرمان (آیت) ” ففدیۃ من صیام “ (الخ) کے بارے میں دریافت کیا گیا انہوں نے فرمایا کہ مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں لایا گیا اور جوئیں میرے سر پر سے جھڑ رہی تھیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ تم مشکل میں پھنسے ہو۔ کوئی بکری تمہارے پاس ہے میں نے کہا نہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تو تین روزے رکھو یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلاؤ ہر ایک مسکین کو آدھا صاع کھانے کا دو ، اور اس کے بعد سرمنڈالو۔- اسی طرح واحدی (رح) نے عطا (رح) کے واسطہ سے حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے فرماتے ہیں کہ جب ہم نے حدیبیہ میں قیام کیا تو کعب بن عجرہ (رض) اپنی جوؤں کو اپنے چہرے پر سے جھاڑتے ہوئے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت آئے اور عرض کیا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان جوؤں نے تو مجھے کھالیا ہے تو اسی مقام پر یہ آیت کریمہ ” فمن کان منکم “۔ (الخ) اتری۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )
آیت ١٩٦ (وَاَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَۃَ لِلّٰہِ ط) ۔ - عمرہ کے لیے احرام تو مدینہ منورہ سے سات میل باہر نکل کر ہی باندھ لیا جائے گا ‘ لیکن حج مکمل تب ہوگا جب طواف بھی ہوگا ‘ وقوف عرفہ بھی ہوگا اور اس کے سارے مناسک ادا کیے جائیں گے۔ لہٰذا جو شخص بھی حج یا عمرہ کی نیت کرلے تو پھر اسے تمام مناسک کو مکمل کرنا چاہیے ‘ کوئی کمی نہ رہے۔- (فَاِنْ اُحْصِرْتُمْ ) - یعنی روک دیا جائے ‘ جیسا کہ ٦ ہجری میں ہوا کہ مسلمانوں کو صلح حدیبیہ کرنی پڑی اور عمرہ ادا کیے بغیر واپس جانا پڑا۔ مشرکین مکہ اڑ گئے تھے کہ مسلمانوں کو مکہ میں داخل نہیں ہونے دیں گے۔- (فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْہَدْیِ ج) ۔ - یہ دم احصار کہلاتا ہے کہ چونکہ اب ہم آگے نہیں جاسکتے ‘ ہمیں یہیں احرام کھولنا پڑ رہا ہے تو ہم اللہ کے نام پر یہ جانور دے رہے ہیں۔ یہ ایک طرح سے اس کا کفارہ ہے۔ّ- (وَلاَ تَحْلِقُوْا رُءُ وْسَکُمْ حَتّٰی یَبْلُغَ الْہَدْیُ مَحِلَّہٗ ط) ۔ - یعنی جہاں جا کر قربانی کا جانور ذبح ہونا ہے وہاں پہنچ نہ جائے۔ اگر آپ کو حج یا عمرہ سے روک دیا گیا اور آپ نے قربانی کے جانور آگے بھیج دیے تو آپ کو روکنے والے ان جانوروں کو نہیں روکیں گے ‘ اس لیے کہ ان کا گوشت تو انہیں کھانے کو ملے گا۔ اب اندازہ کرلیا جائے کہ اتنا وقت گزر گیا ہے کہ قربانی کا جانور اپنے مقام پر پہنچ گیا ہوگا ۔- (فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیْضًا اَوْ بِہٖٓ اَذًی مِّنْ رَّاْسِہٖ ) یعنی سر میں کوئی زخم وغیرہ ہو اور اس کی وجہ سے بال کٹوانے ضروری ہوجائیں ۔- (فَفِدْیَۃٌ مِّنْ صِیَامٍ اَوْ صَدَقَۃٍ اَوْ نُسُکٍ ج) ۔ - اگر اس ہدی کے جانور کے کعبہ پہنچنے سے پہلے پہلے تمہیں اپنے بال کاٹنے پڑیں تو فدیہ ادا کرنا ہوگا۔ یعنی ایک کمی جو رہ گئی ہے اس کی تلافی کے لیے کفارہّ ادا کرنا ہوگا۔ اس کفارے ّ کی تین صورتیں بیان ہوئی ہیں : روزے ‘ یا صدقہ یا قربانی۔ اس کی وضاحت احادیث نبویہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہوتی ہے کہ یا تو تین دن کے روزے رکھے جائیں ‘ یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلایا جائے یا کم از کم ایک بکری کی قربانی دی جائے۔ اس قربانی کو دم جنایت کہتے ہیں۔- (فَاِذَآ اَمِنْتُمْ قف ) - (فَمَنْ تَمَتَّعَ بالْعُمْرَۃِ اِلَی الْحَجِّ فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْہَدْیِج ) - رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے اہل عرب کے ہاں ایک سفر میں حج اور عمرہ دونوں کرنا گناہ سمجھا جاتا تھا۔ ان کے نزدیک یہ کعبہ کی توہین تھی۔ ان کے ہاں حج کے لیے تین مہینے شوال ‘ ذوالقعدہ اور ذوالحجہ تھے ‘ جبکہ رجب کا مہینہ عمرے کے لیے مخصوص تھا۔ وہ عمرے کے لیے علیحدہ سفر کرتے اور حج کے لیے علیحدہ۔ یہ بات حدود حرم میں رہنے والوں کے لیے تو آسان تھی ‘ لیکن اس امت کو تو پوری دنیا میں پھیلنا تھا اور دور دراز سے سفر کر کے آنے والوں کے لیے اس میں مشقت تھی۔ لہٰذا شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں لوگوں کے لیے جہاں اور آسانیاں پیدا کی گئیں وہاں حج وعمرہ کے ضمن میں یہ آسانی بھی پیدا کی گئی کہ ایک ہی سفر میں حج اور عمرہ دونوں کو جمع کرلیا جائے۔ اس کی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ پہلے عمرہ کر کے احرام کھول دیا جائے اور پھر آٹھویں ذوالحجہ کو حج کا احرام باندھ لیا جائے۔ یہ حج تمتع کہلاتا ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ حج کے لیے احرام باندھا تھا ‘ جاتے ہی عمرہ بھی کرلیا ‘ لیکن احرام کھولا نہیں اور اسی احرام میں حج بھی کرلیا۔ یہ حج قرآن کہلاتا ہے۔ لیکن اگر شروع ہی سے صرف حج کا احرام باندھا جائے اور عمرہ نہ کیا جائے تو یہ حج افراد کہلاتا ہے۔ قرآن یا تمتع کرنے والے پر قربانی ضروری ہے۔ امام ابوحنیفہ (رض) اسے دم شکر کہتے ہیں اور قربانی کرنے والے کو اس میں سے کھانے کی اجازت دیتے ہیں۔ امام شافعی (رح) کے نزدیک یہ دم جبر ہے اور قربانی کرنے والے کو اس میں سے کھانے کی اجازت نہیں ہے۔- (فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلٰثَۃِ اَیَّامٍ فِی الْْحَجِّ ) - یعنی عین ایام حج میں ساتویں ‘ آٹھویں اور نویں ذوالحجہ کو روزہ رکھے۔ دسویں کا روزہ نہیں ہوسکتا ‘ وہ عید کا دن (یوم النحر) ہے۔- (وَسَبْعَۃٍ اِذَا رَجَعْتُمْ ط) - اپنے گھروں میں جا کر سات روزے رکھو۔- (تِلْکَ عَشَرَۃٌ کَامِلَۃٌ ط) (ذٰلِکَ لِمَنْ لَّمْ یَکُنْ اَہْلُہٗ حَاضِرِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ط) - یعنی ایک ہی سفر میں حج اور عمرہ کو جمع کرنے کی رعایت ‘ خواہ تمتعّ کی صورت میں ہو یا قران کی صورت میں ‘ صرف آفاقی کے لیے ہے ‘ جس کے اہل و عیال جوار حرم میں نہ رہتے ہوں ‘ یعنی جو حدودحرم کے باہر سے حج کرنے آیا ہو۔
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :209 یعنی اگر راستے میں کوئی ایسا سبب پیش آجائے ، جس کی وجہ سے آگے جانا غیر ممکن ہو اور مجبوراً رک جانا پڑے ، تو اونٹ ، گائے ، بکری میں سے جو جانور بھی میسر ہو ، اللہ کے لیے قربان کر دو ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :210 اس امر میں اختلاف ہے کہ قربانی کے اپنی جگہ پہنچ جانے سے کیا مراد ہے ۔ فقہائے حنفیہ کے نزدیک اس سے مراد حرم ہے ، یعنی اگر آدمی راستہ میں رک جانے پر مجبور ہو ، تو اپنی قربانی کا جانور یا اس کی قیمت بھیج دے تاکہ اس کی طرف سے حدود حرم میں قربانی کی جائے ۔ اور امام مالک اور شافعی رحمہما اللہ کے نزدیک جہاں آدمی گھر گیا ہو ، وہیں قربانی کردینا مراد ہے ۔ سر مونڈنے سے مراد حجامت ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ جب تک قربانی نہ کرلو حجامت نہ کراؤ ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :211 حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس صورت میں تین دن کے روزے رکھنے یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلانے یا کم از کم ایک بکری ذبح کرنے کا حکم دیا ہے ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :212 یعنی وہ سبب دور ہو جائے ، جس کی وجہ سے مجبوراً تمہیں راستے میں رک جانا پڑا تھا ۔ چونکہ اس زمانے میں حج کا راستہ بند ہونے اور حاجیوں کے رک جانے کی وجہ زیادہ تر دشمن اسلام قبیلوں کی مزاحمت ہی تھی ، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اوپر کی آیت میں ”گھر جانے“ اور اس کے بالمقابل یہاں”امن نصیب ہوجانے“ کے الفاظ استعمال کیے ہیں ۔ لیکن جس طرح”گھر جانے“ کے مفہوم میں دشمن کی مزاحمت کے علاوہ دوسرے تمام موانع شامل ہیں ، اسی طرح ”امن نصیب ہو جانے“ کا مفہوم بھی ہر مانع و مزاحم چیز کے دور ہو جانے پر حاوی ہے ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :213 عرب جاہلیت میں یہ خیال کیا جا تا تھا کہ ایک ہی سفر میں حج اور عمرہ دونوں ادا کرنا گناہ عظیم ہے ۔ ان کی خود ساختہ شریعت میں عمرے کے لیے الگ اور حج کےلیے الگ سفر کرنا ضروری تھا ۔ اللہ تعالیٰ نے اس قید کو اڑا دیا اور باہر سے آنے والوں کے ساتھ یہ رعایت فرمائی کہ وہ ایک ہی سفر میں عمرہ اور حج دونوں کرلیں ۔ البتہ جو لوگ مکہ کے آس پاس میقاتوں کی حدود کے اندر رہتے ہوں انہیں اس رعایت سے مستثنیٰ کر دیا کیونکہ ان کے لیے عمرہ کا سفر الگ اور حج کا سفر الگ کرنا کچھ مشکل نہیں ۔ حج کا زمانہ آنے تک عمرے کا فائدہ اٹھانے سے مراد یہ ہے کہ آدمی عمرہ کر کے احرام کھول لے اور ان پابندیوں سے آزاد ہو جائے ، جو احرام کی حالت میں لگائی گئی ہیں ۔ پھر جب حج کے دن آئیں ، تو ازسر نو احرام باندھ لے ۔
126: مطلب یہ ہے کہ جب کوئی شخص حج یا عمرے کا احرام باندھ لے تو جب تک حج یا عمرے کے اعمال پورے نہ ہوجائیں، احرام کھولنا جائز نہیں، البتہ کسی کو ایسی مجبوری پیش آسکتی ہے کہ احرام باندھنے کے بعد مکہ مکرمہ تک پہنچنا ممکن ہی نہ رہے۔ چنانچہ خود آنحضرتﷺ کو یہ صورت پیش آئی کہ آپ اور آپ کے صحابہ عمرے کا احرام باندھ کرروانہ ہوئے ، لیکن جب حدیبیہ کے مقام پر پہنچے تو مشرکین مکہ نے آگے بڑھنے سے روک دیا، اسی موقع پر یہ آیات نازل ہوئیں، اور ان میں ایسی صورت حال کا یہ حل بتایا گیا کہ ایسی صورت میں قربانی کرکے احرام کھولاجاسکتا ہے، امام ابوحنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ کے مسلک میں یہ قربانی حدود حرم میں ہونی چاہئے، جیسا کہ اگلے جملے میں فرمایا گیا ہے: ’’اور اپنے سر اس وقت تک نہ منڈاو جب تک قربانی اپنی جگہ نہ پہنچ جائے‘‘، نیز اس کے بعد جس حج یا عمرے کا احرام باندھا تھا اس کی قضا بھی ضروری ہے، چنانچہ آنحضرتﷺ نے اس عمرے کی قضا اگلے سال فرمائی۔ 127: احرام کی حالت میں سر منڈاناجائز نہیں ہوتا، لیکن اگر کسی شخص کو بیماری یا کسی تکلیف کی وجہ سے سر منڈانا پڑجائے تو اس کو یہ فدیہ دینا ہوگا جو یہاں مذکور ہے۔ احادیث کی روشنی میں اس کی تفصیل یہ ہے کہ یا تین روزے رکھے جائیں یا چھ مسکینوں کو صدقہ الفطر کے برابرصدقہ کیا جائے یا ایک بکری قربان کی جائے۔ 128: اوپر اس صورت میں قربانی کا حکم بیان ہوا تھا جب کسی شخص کو دُشمن نے روک دیا ہو، اب یہ بتایاجارہا ہے کہ قربانی امن کے عام حالات میں بھی واجب ہوسکتی ہے، جب کوئی شخص حج کے ساتھ عمرہ بھی جمع کرے، یعنی قران یاتمتع کا احرام باندھے۔ (اگر صرف حج کا احرام باندھا ہو جسے افراد کہتے ہیں، تو قربانی واجب نہیں ہے) البتہ اگر کوئی شخص قران یا تمتع کے باوجودقربانی کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو وہ قربانی کے بدلے دس روزے رکھ سکتا ہے، جن میں سے تین روزے عرفہ کے دن (یعنی ۹ ذوالحجہ) تک پورے ہوجانے چاہئیں، اور سات روزے حج سے فارغ ہونے کے بعد رکھنے ہوں گے۔ 129: یعنی تمتع یاقران کے ذریعے حج اور عمرہ دونوں کو جمع کرنا صرف ان لوگوں کے لئے جائز ہے جو باہر سے حج کے لئے آئیں، جو لوگ حدود حرم، یا حنفی مسلک کے مطابق حدود میقات میں رہتے ہوں، وہ صرف افراد کرسکتے ہیں، تمتع یاقران نہیں کرسکتے۔