حق جہاد کیا ہے؟ حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے بارے میں نازل ہوئی ہے ( بخاری ) اور بزرگوں نے بھی اس آیت کی تفسیر میں یہی بیان فرمایا ہے ، حضرت ابو عمران فرماتے ہیں کہ مہاجرین میں سے ایک نے قسطنطنیہ کی جنگ میں کفار کے لشکر پر دلیرانہ حملہ کیا اور ان کی صفوں کو چیرتا ہوا ان میں گھس گیا تو بعض لوگ کہنے لگے کہ یہ دیکھو یہ اپنے ہاتھوں اپنی جان کو ہلاکت میں ڈال رہا ہے حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر فرمایا اس آیت کا صحیح مطلب ہم جانتے ہیں سنو یہ آیت ہمارے ہی بارے میں نازل ہوئی ہے ہم نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت اٹھائی آپ کے ساتھ جنگ وجہاد میں شریک رہے آپ کی مدد پر تلے رہے یہاں تک کہ اسلام غالب ہوا اور مسلمان غالب آگئے تو ہم انصاریوں نے ایک مرتبہ جمع ہو کر آپس میں مشورہ کیا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت کے ساتھ ہمیں مشرف فرمایا ہم آپ کی خدمت میں لگے رہے آپ کی ہمرکابی میں جہاد کرتے رہے اب بحمد اللہ اسلام پھیل گیا مسلمانوں کا غلبہ ہو گیا لڑائی ختم ہو گئی ان دنوں میں نہ ہم نے اپنی اولاد کی خبر گیری کی نہ مال کی دیکھ بھال کی نہ کھیتیوں اور باغوں کا کچھ خیال کیا اب ہمیں چاہئے کہ اپنے خانگی معاملات کی طرف توجہ کریں اس پر یہ آیت نازل ہوئی ، پس جہاد کو چھوڑ کر بال بچوں اور بیوپار تجارت میں مشغول ہو جانا یہ اپنے ہاتھوں اپنے تئیں ہلاک کرنا ہے ( ابوداود ، ترمذی ، نسائی وغیرہ ) ایک اور روایت میں ہے کہ قسطنطنیہ کی لڑائی کے وقت مصریوں کے سردار حضرت عقبہ بن عامر تھے اور شامیوں کے سردار یزید بن فضالہ بن عبید تھے ، حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے ایک شخص نے پوچھا کہ اگر میں اکیلا تنہا دشمن کی صف میں گھس جاؤں اور وہاں گھر جاؤں اور قتل کر دیا جاؤں تو کیا اس آیت کے مطابق میں اپنی جان کو آپ ہی ہلاک کرنے والا بنوں گا ؟ آپ نے جواب دیا نہیں نہیں اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرماتا ہے آیت ( فَقَاتِلْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۚ لَا تُكَلَّفُ اِلَّا نَفْسَكَ وَحَرِّضِ الْمُؤْمِنِيْنَ ) 4 ۔ النسآء:84 ) اے نبی اللہ کی راہ میں لڑتا رہ تو اپنی جان کا ہی مالک ہے اسی کو تکلیف دے یہ آیت تو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے رک جانے والوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے ( ابن مردویہ وغیرہ ) ترمذی کی ایک اور روایت میں اتنی زیادتی ہے کہ آدمی کا گناہوں پر گناہ کئے چلے جانا اور توبہ نہ کرنا یہ اپنے ہاتھوں اپنے تئیں ہلاک کرنا ہے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ مسلمانوں نے دمشق کا محاصرہ کیا اور ازدشنوہ کے قبیلہ کا ایک آدمی جرات کر کے دشمنوں میں گھس گیا ان کی صفیں چیرتا پھاڑتا اندر چلا گیا لوگوں نے اسے برا جانا اور حضرت عمرو بن عاص کے پاس یہ شکایت کی چنانچہ حضرت عمرو نے انہیں بلا لیا اور فرمایا قرآن میں ہے اپنی جانوں کو ہلاکت میں نہ ڈالو ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں لڑائی میں اس طرح کی بہادری کرنا اپنی جان کو بربادی میں ڈالنا نہیں بلکہ اللہ کی راہ میں مال خرچ نہ کرنا ہلاکت میں پڑنا ہے ، حضرت ضحاک بن ابو جبیرہ فرماتے ہیں کہ انصار اپنے مال اللہ کی راہ میں کھلے دل سے خرچ کرتے رہتے تھے لیکن ایک سال قحط سالی کے موقع پر انہوں نے وہ خرچ روک لیا جس پر یہ آیت نازل ہوئی ، حضرت امام حسن بصری فرماتے ہیں اس سے مراد بخل کرنا ہے ، حضرت نعمان بن بشیر فرماتے ہیں کہ گنہگار کا رحمت باری سے ناامید ہو جانا یہ ہلاک ہونا ہے اور حضرات مفسرین بھی فرماتے ہیں کہ گناہ ہو جائیں پھر بخشش سے ناامید ہو کر گناہوں میں مشغول ہو جانا اپنے ہاتھوں پر آپ ہلاک ہونا ہے ، تہلکۃ سے مراد اللہ کا عذاب بھی بیان کیا گیا ہے ، قرطبی وغیرہ سے روایت ہے کہ لوگ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ جہاد میں جاتے تھے اور اپنے ساتھ کچھ خرچ نہیں لے جاتے تھے اب یا تو وہ بھوکوں مریں یا ان کا بوجھ دوسروں پر پڑے تو ان سے اس آیت میں فرمایا جاتا ہے کہ اللہ نے جو تمہیں دیا ہے اسے اس کی راہ کے کاموں میں لگاؤ اور اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ پڑو کہ بھوک پیاس سے یا پیدل چل چل کر مر جاؤ ۔ اس کے ساتھ ہی ان لوگوں کو جن کے پاس کچھ ہے حکم ہو رہا ہے کہ تم احسان کرو تاکہ اللہ تمہیں دوست رکھے نیکی کے ہر کام میں خرچ کیا کرو بالخصوص جہاد کے موقعہ پر اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے نہ رکو یہ دراصل خود تمہاری ہلاکت ہے ، پس احسان اعلیٰ درجہ کی اطاعت ہے جس کا یہاں حکم ہو رہا ہے اور ساتھ ہی یہ بیان ہو رہا ہے کہ احسان کرنے والے اللہ کے دوست ہیں ۔
195۔ 1 اس سے بعض نے ترک جہاد اور بعض نے گناہ پر گناہ کئے جانا مراد لیا ہے اور یہ ساری صورتیں ہلاکت کی ہیں جہاد چھوڑ دو گے یا جہاد میں اپنا مال صرف کرنے سے گریز کرو گے تو یقینا دشمن قوی ہوگا اور تم کمزور نتیجہ تباہی ہے۔
[٢٥٨] اس آیت کی بہترین تفسیر درج ذیل حدیث میں موجود ہے۔- حضرت ابو ایوب فرماتے ہیں کہ یہ آیت ہم انصار کے بارے میں نازل ہوئی۔ جب اللہ نے اسلام کو عزت دی اور اس کے مددگار بہت ہوگئے تو ہم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے علیحدگی میں ایک دوسرے سے کہا کہ بلاشبہ ہمارے مال خرچ ہوگئے۔ اب اللہ نے اسلام کو عزت دی ہے اور اس کے مددگاروں کو زیادہ کردیا ہے۔ تو اب اگر ہم اپنے اموال سنبھال رکھیں اور جو کچھ خرچ ہوچکا اس کی تلافی شروع کردیں (تو کوئی بات نہیں) اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور جو کچھ ہم نے آپس میں کہا تھا اس کی تردید کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرتے رہو اور اپنے آپ کو ہلاکت میں مت ڈالو۔ ہلاکت سے مراد اموال کی نگرانی، ان کی اصلاح اور جہاد کو چھوڑ دینا ہے۔ (بخاری، کتاب التفسیر، ترمذی ابو اب التفسیر۔ زیر آیت مذکورہ) گویا اموال کو جہاد میں خرچ نہ کرنے کو اس قوم کی ہلاکت قرار دیا گیا ہے۔- [٢٥٩] کسی حکم کو بجا لانے کی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ بس اس کی تعمیل کردی جائے اور دوسری یہ کہ اسے دل کی رغبت، محبت اور نہایت احسن طریقے سے بجا لایا جائے۔ پہلی صورت اطاعت ہے اور دوسری احسان۔ احسان اطاعت کا بلند تر درجہ ہے اور عدل کا بھی۔ حدیث میں ہے کہ جبریل جب تمام صحابہ (رض) کے سامنے اجنبی صورت میں آپ کے پاس آئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ احسان کیا ہے۔ تو آپ نے یہ جواب دیا کہ احسان یہ ہے کہ تو اللہ کی عبادت اس طرح کرے جیسے تو اسے دیکھ رہا ہے اور اگر تجھ سے یہ نہ ہو سکے تو کم از کم یہ سمجھے کہ اللہ تجھے دیکھ رہا ہے اور یہ تو ظاہر ہے کہ عبادت صرف نماز فرض یا نوافل کا ہی نام نہیں بلکہ جو کام بھی اللہ کے احکام کی بجاآوری کے لیے اس کا حکم سمجھ کر کیا جائے وہ اس کی عبادت ہی کی ضمن میں آتا ہے۔ خواہ اس کا تعلق حقوق العباد سے ہو یا حقوق اللہ سے، معاملات سے ہو یا مناکحات سے ان میں سے ہر ایک کام کو بنا سنوار کر اور شرعی احکام کی پابندی کے ساتھ نیز دل کی رغبت اور محبت سے بجا لانے کا نام احسان ہے۔
اس سے پہلی آیت میں قتال فی سبیل اللہ کا حکم ہے، یہ آیت بھی اسی حکم کی تکمیل ہے، یعنی جہاد میں اور اس کی تیاری میں خرچ کرتے رہو اور اس میں کوتاہی کر کے اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو، کیونکہ اس صورت میں کفار تم پر غالب آجائیں گے، جو سراسر ہلاکت ہے۔ اسلم تجیبی کہتے ہیں کہ ہم مدینۂ روم (قسطنطنیہ) میں تھے، انھوں نے ہمارے مقابلے کے لیے رومیوں کی ایک بہت بڑی جماعت نکالی، ان کے مقابلے میں اتنے ہی یا ان سے زیادہ مسلمان نکلے، اہل مصر پر عقبہ بن عامر (رض) اور جماعت پر فضالہ بن عبید (رض) (امیر) تھے۔ مسلمانوں میں سے ایک آدمی نے رومیوں کی صف پر حملہ کردیا، یہاں تک کہ ان میں داخل ہوگیا، لوگ چیخ اٹھے اور کہنے لگے، سبحان اللہ یہ تو اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال رہا ہے، تو ابو ایوب انصاریٰ (رض) کھڑے ہوئے، انھوں نے فرمایا، تم آیت کا یہ مطلب سمجھتے ہو ؟ حالانکہ یہ تو ہم انصار کی جماعت کے بارے میں نازل ہوئی، جب اللہ تعالیٰ نے اسلام کو عزت بخشی اور اس کے مددگار بہت ہوگئے تو ہم میں سے کچھ لوگوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے چھپا کر دوسروں سے کہا کہ ہمارے اموال (یعنی کھیت اور باغات وغیرہ) ضائع ہوگئے، اب اللہ تعالیٰ نے اسلام کو عزت بخشی ہے اور اس کے مدد گار بہت ہوگئے ہیں، چناچہ ہم اگر اپنے اموال میں ٹھہر جائیں اور جو ضائع ہوگئے ہیں انھیں درست کرلیں (تو بہت رہے) ، تو اللہ تعالیٰ نے ہماری بات کی تردید کرتے ہوئے یہ آیت اتار دی :” اور اللہ کے راستے میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں کو ہلاکت کی طرف مت ڈالو۔ “ [ البقرۃ : ١٩٥ ] تو ” ہلاکت “ ہمارا اپنے اموال میں ٹھہر جانا، انھیں درست کرنا اور جنگ کو چھوڑ دینا تھا۔ ابو ایوب (رض) اللہ کے راستے ہی میں نکلے رہے یہاں تک کہ روم کی سرزمین میں دفن ہوئے۔ [ ترمذی، التفسیر، باب و من سورة البقرۃ : ٢٩٧٢ و صححہ الألبانی ] حذیفہ بن یمان (رض) نے فرمایا کہ یہ آیت نفقہ کے بارے میں تری۔ [ بخاری، قبل ح : ٤٥١٦ ] ابو اسحاق سبیعی کہتے ہیں کہ میں نے براء بن عازب (رض) سے پوچھا، اگر آدمی مشرکین پر حملہ کر دے تو کیا اس نے اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالا ہوگا ؟ انھوں نے فرمایا، نہیں، اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا : (فَقَاتِلْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۚ لَا تُكَلَّفُ اِلَّا نَفْسَكَ ) [ النساء : ٨٤ ] ” پس اللہ کے راستے میں جنگ کر، تجھے تیری ذات کے سوا کسی کی تکلیف نہیں دی جاتی۔ “ [ أحمد : ٤ ٢٨١، ح : ١٨٤٧٧، وھو حسن ]- صحابہ کرام (رض) کی اس آیت کی تفسیر سے معلوم ہوا کہ جب کسی اکیلے فدائی مسلم کے حملے سے دشمن کو نقصان پہنچنے کی امید ہو، یا اہل اسلام کی شجاعت سے کفار کے حوصلے پست کرنا مقصود ہو، یا شہادت پیش کیے بغیر دشمن کو نقصان پہنچانا ممکن نہ ہو تو فدائی حملے بالکل درست ہیں۔ یہ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا نہیں ہے، بلکہ جہاد چھوڑ کر کاروبار میں مصروف ہوجانا اصل ہلاکت ہے۔ تاریخ اسلام میں غزوۂ بدر میں ابوجہل کے قاتل معوذ اور معاذ، غزوۂ خیبر میں ابو رافع یہودی کے قاتل عبداللہ بن عتیک، مدینہ میں کعب بن اشرف کے قاتل محمد بن مسلمہ، خالد بن سفیان کے قاتل عبداللہ بن انیس (رض) کی کارروائیاں، حدیبیہ کے موقع پر صحابہ کرام کی موت پر بیعت، جنگ جسر میں ابو عبید ثقفی کی ہاتھی پر حملہ کرتے ہوئے شہادت، جنگ یمامہ میں براء بن مالک (رض) کا ساتھیوں سے کہنا کہ مجھے ڈھال پر بٹھا کر ڈھال کو نیزوں کے ساتھ بلند کر کے باغ کے اندر پھینک دو اور وہاں جا کر اسی (٨٠) زخم کھا کر بھی دروازہ کھول کر مسلمانوں کو فتح سے ہم کنار کرنا، بیہقی : ١٨٣٧٩) سلطان صلاح الدین ایوبی کے تیار کردہ فدائی جنھوں نے صلیبیوں کی کمر توڑ دی، الغرض بیشمار واقعات اس کے لیے شاہد ہیں۔ اس وقت مسلمانوں کی ہلاکت اور ذلت کا باعث یہی ہے کہ انھوں نے جہاد کی تیاری میں خرچ کرنے اور کفار سے لڑنے کے بجائے عیش و عشرت اور جان بچانے کو ترجیح دی تو کفار کے ہاتھوں نہ ان کی جانیں محفوظ رہیں نہ مال اور نہ عزتیں۔ اب بھی اگر اسلام کی آبرو کچھ باقی ہے تو جان قربان کرنے والے ان مجاہدین کے ذریعے سے، جن سے دنیائے کفر کے دل دہلتے ہیں۔
دسواں حکم جہاد کے لئے مال خرچ کرنا :- وَاَنْفِقُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ اس میں مسلمانوں پر لازم کیا گیا کہ جہاد کے لئے بقدر ضرورت اپنے اموال بھی اللہ کی راہ میں خرچ کریں اس سے فقہاء نے یہ حکم بھی نکالا ہے کہ مسلمانوں پر زکوٰۃ فرض کے علاوہ بھی دوسرے حقوق فرض ہیں مگر وہ نہ دائمی ہیں اور نہ ان کے لئے کوئی نصاب اور مقدار متعین ہے بلکہ جب وہ جتنی ضرورت ہو اس کا انتظام کرنا سب مسلمانوں پر فرض ہے اور ضرورت نہ ہو تو کچھ فرض نہیں جہاد کا خرچ بھی اسی میں داخل ہے،- وَلَا تُلْقُوْا بِاَيْدِيْكُمْ اِلَى التَّهْلُكَةِ کے لفظی معنے تو ظاہر ہیں کہ اپنے اختیار سے اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے کی ممانعت بیان فرمائی ہے اب یہ بات کہ ہلاکت میں ڈالنے سے اس جگہ کیا مراد ہے ؟ اس میں حضرات مفسرین کے اقوال مختلف ہیں اور امام جصاص رازی نے فرمایا کہ ان سب اقوال میں کوئی تضاد نہیں سب ہی مراد ہو سکتے ہیں۔ حضرت ابو ایوب انصاری نے فرمایا کہ یہ آیت ہمارے ہی بارے میں نازل ہوئی ہے ہم اس کی تفسیر بخوبی جانتے ہیں، بات یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اسلام کو غلبہ اور قوت عطا فرما دیا تو ہم میں یہ گفتگو ہوئی کہ اب جہاد کی کیا ضرورت ہے ہم اپنے وطن میں ٹھہر کر اپنے مال وجائداد کی خبر گیری کریں اس پر یہ آیت نازل ہوئی جس نے یہ بتلا دیا کہ ہلاکت سے مراد اس جگہ ترک جہاد ہے اور اس سے ثابت ہوا کہ ترک جہاد مسلمانوں کی ہلاکت و بربادی کا سبب ہے اسی لئے حضرت ابوایوب انصاری نے عمر بھر جہاد میں صرف کردی یہاں تک کہ آخر میں قسطنطنیہ میں وفات پاکر وہیں مدفون ہوئے،- حضرت ابن عباس، حذیفہ، قتادہ، مجاہد، ضحاک ائمہ تفسیر سے بھی یہی مضمون منقول ہے،- حضرت براء بن عازب نے فرمایا کہ گناہوں کی وجہ سے اللہ کی رحمت اور مغفرت سے مایوس ہوجانا اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں ہلاکت میں ڈالنا ہے اس لئے مغفرت سے مایوس ہونا حرام ہے،- بعض حضرات نے فرمایا کہ اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے میں حد سے تجاوز کرنا کہ بیوی بچوں کے حقوق ضائع ہوجائیں یہ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا ہے ایسا اسراف جائز نہیں بعض حضرات نے فرمایا کہ ایسی صورت میں قتال کے لئے اقدام کرنا اپنے کو ہلاکت میں ڈالنا ہے جبکہ یہ اندازہ ظاہر ہے کہ دشمن کا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے خود ہلاک ہوجائیں گے ایسی صورت میں اقدام قتال اس آیت کی بناء پر ناجائز ہے،- اور جصاص کے فرمانے کے مطابق یہ سب ہی احکام اس آیت سے مستفاد ہوتے ہیں۔- وَاَحْسِنُوْا اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِيْنَ اس جملے میں ہر کام کو اچھی طرح کرنے کی ترغیب ہے اور کام کو اچھی طرح کرنا جس کو قرآن میں احسان کے لفظ سے تعبیر کیا ہے دو طرح کا ہے ایک عبادت میں دوسرے آپس کے معاملات ومعاشرت میں عبادت میں، احسان کی تفسیر حدیث جبرئیل میں خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ فرمائی ہے کہ ایسی طرح عبادت کرو جیسے تم خدا کو دیکھ رہے ہو اور اگر یہ درجہ حاصل نہ ہو تو کم ازکم یہ تو اعتقاد لازم ہی ہے کہ خدا تعالیٰ تمہیں دیکھ رہے ہیں۔- اور معاملات ومعاشرت میں احسان کی تفسیر مسند احمد میں بروایت حضرت معاذ حضرت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ فرمائی ہے کہ تم سب لوگوں کے لئے وہی پسند کرو جو اپنے لئے پسند کرتے ہو اور جس چیز کو تم اپنے لئے برا سمجھتے ہو وہ دوسروں کے لئے بھی برا سمجھو (مظہری)
وَاَنْفِقُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللہِ وَلَا تُلْقُوْا بِاَيْدِيْكُمْ اِلَى التَّہْلُكَۃِ ٠ ۚ ۖۛ وَاَحْسِنُوْا ٠ ۚۛ اِنَّ اللہَ يُحِبُّ الْمُحْسِـنِيْنَ ١٩٥- نفق - نَفَقَ الشَّيْءُ : مَضَى ونَفِدَ ، يَنْفُقُ ، إِمَّا بالبیع نحو : نَفَقَ البَيْعُ نَفَاقاً ، ومنه : نَفَاقُ الأَيِّم، ونَفَقَ القَوْمُ : إذا نَفَقَ سُوقُهُمْ ، وإمّا بالمَوْتِ نحو : نَفَقَتِ الدَّابَّةُ نُفُوقاً ، وإمّا بالفَنَاءِ نحو : نَفِقَتِ الدَّرَاهِمُ تُنْفَقُ وأَنْفَقْتُهَا . والإِنْفَاقُ قد يكون في المَالِ ، وفي غَيْرِهِ ، وقد يكون واجباً وتطوُّعاً ، قال تعالی: وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة 195] ، وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة 254] - ( ن ف ق ) نفق - ( ن ) س الشئی کے منعی کسی چیز کے ختم ہونے یا چلے جانے کے ہیں ۔ اور چلے جانے کی مختلف صورتیں ہیں ( 1 ) خوب فروخت ہونے سے جیسے نفق البیع ( سامان کا ) خوب فروخت ہونا اسی سے نفاق الایتیم ہے جس کے معنی بیوہ عورت سے نکاح کے طلب گاروں کا بکثرت ہونا کے ہیں ۔ نفق القوم بازار کا پر رونق ہونا ۔ ( 2 ) بذیعہ مرجانے کے جیسے نفقت الدابۃ نفوقا جانور کا مرجانا ۔ ( 3 ) بذریعہ فنا ہوجانے کے جیسے نفقت الدراھم درواہم خرچ ہوگئے ۔ انفق تھا ان کو خرچ کردیا ۔ الا نفاق کے معنی مال وغیرہ صرف کرنا کے ہیں اور یہ کبھی واجب ہوتا ہے ۔ اور کبھی مستحب اور مال اور غیر مال یعنی علم وغیرہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا ۔ وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة 195] اور خدا کی راہ میں مال خرچ کرو ۔ وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة 254] اور جو مال ہم نے تم کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرلو ۔- سبل - السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] - ( س ب ل ) السبیل - ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] دریا اور راستے ۔- لقی( افعال)- والإِلْقَاءُ : طرح الشیء حيث تلقاه، أي : تراه، ثم صار في التّعارف اسما لكلّ طرح . قال : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه 87] ، قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ- [ الأعراف 115] ،- ( ل ق ی ) لقیہ ( س)- الالقآء ( افعال) کے معنی کسی چیز کو اس طرح ڈال دیناکے ہیں کہ وہ دوسرے کو سمانے نظر آئے پھر عرف میں مطلق کس چیز کو پھینک دینے پر القاء کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه 87] اور اسی طرح سامری نے ڈال دیا ۔ قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ [ الأعراف 115] تو جادو گروں نے کہا کہ موسیٰ یا تو تم جادو کی چیز ڈالو یا ہم ڈالتے ہیں ۔ موسیٰ نے کہا تم ہی ڈالو۔ - يد - الْيَدُ : الجارحة، أصله : وقوله : فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم 9] ،- ( ی د ی ) الید - کے اصل معنی تو ہاتھ کے ہیں یہ اصل میں یدی ( ناقص یائی ) ہے کیونکہ اس کی جمع اید ویدی اور تثنیہ یدیان اور آیت کریمہ : ۔ فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم 9] تو انہوں نے اپنے ہاتھ ان کے مونہوں پر رکھ دئے ۔ - هلك - الْهَلَاكُ علی ثلاثة أوجه :- افتقاد الشیء عنك، وهو عند غيرک موجود کقوله تعالی: هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة 29] - وهَلَاكِ الشیء باستحالة و فساد کقوله :- وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة 205] ويقال : هَلَكَ الطعام .- والثالث :- الموت کقوله : إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء 176] وقال تعالیٰ مخبرا عن الکفّار : وَما يُهْلِكُنا إِلَّا الدَّهْرُ [ الجاثية 24] .- ( ھ ل ک ) الھلاک - یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ایک یہ کہ - کسی چیز کا اپنے پاس سے جاتے رہنا خواہ وہ دوسرے کے پاس موجود ہو جیسے فرمایا : هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة 29] ہائے میری سلطنت خاک میں مل گئی ۔- دوسرے یہ کہ - کسی چیز میں خرابی اور تغیر پیدا ہوجانا جیسا کہ طعام ( کھانا ) کے خراب ہونے پر ھلک الطعام بولا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة 205] اور کھیتی کو بر باد اور انسانوں اور حیوانوں کی نسل کو نابود کردی ۔ - موت کے معنی میں - جیسے فرمایا : ۔ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء 176] اگر کوئی ایسا مرد جائے ۔- احسان - الإحسان فوق العدل، وذاک أنّ العدل هو أن يعطي ما عليه، ويأخذ أقلّ مما له، والإحسان أن يعطي أكثر مما عليه، ويأخذ أقلّ ممّا له «3» .- فالإحسان زائد علی العدل، فتحرّي العدل - واجب، وتحرّي الإحسان ندب وتطوّع، وعلی هذا قوله تعالی: وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء 125] ، وقوله عزّ وجلّ : وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة 178] ، ولذلک عظّم اللہ تعالیٰ ثواب المحسنین، فقال تعالی: وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت 69] ، وقال تعالی:إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة 195] ، وقال تعالی: ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة 91] ، لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل 30] .- ( ح س ن ) الحسن - الاحسان ( افعال )- احسان عدل سے بڑھ کر چیز ہے کیونکہ دوسرے کا حق پورا دا کرنا اور اپنا حق پورا لے لینے کا نام عدل ہے لیکن احسان یہ ہے کہ دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دیا جائے اور اپنے حق سے کم لیا جائے لہذا احسان کا درجہ عدل سے بڑھ کر ہے ۔ اور انسان پر عدل و انصاف سے کام لینا تو واجب اور فرض ہے مگر احسان مندوب ہے ۔ اسی بنا پر فرمایا :۔ وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء 125] اور اس شخص سے کس کا دین اچھا ہوسکتا ہے جس نے حکم خدا قبول کیا اور وہ نیکو کا ر بھی ہے ۔ اور فرمایا ؛ وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة 178] اور پسندیدہ طریق سے ( قرار داد کی ) پیروی ( یعنی مطالبہ خونہار ) کرنا ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محسنین کے لئے بہت بڑے ثواب کا وعدہ کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت 69] اور خدا تو نیکو کاروں کے ساتھ ہے ۔ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة 195] بیشک خدا نیکی کرنیوالوں کو دوست رکھتا ہے ۔ ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة 91] نیکو کاروں پر کسی طرح کا الزام نہیں ہے ۔ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل 30] جنہوں نے اس دنیا میں نیکی کی ان کے لئے بھلائی ہے ۔
(١٩٥) عمرہ قضا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کے راستہ میں خرچ کرو اور اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنے سے اپنا ہاتھ نہ روکو تاکہ تم ہلاکت میں نہ پڑجاؤ، اور ایک تفسیر یہ بھی ہے کہ اپنے آپ کو خود ہلاکت میں مت مبتلا کرو اور ایک یہ تفسیر کی گئی ہے کہ نیک کاموں سے مت رکو کہ کہیں تم ہلاکت میں نہ پڑجاؤ یعنی رحمت خداوندی سے مایوس نہ ہو کر پھر ہلاکت میں گرفتار ہوجاؤ، اور اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرو، اور ایک تفسیر یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے حسن ظن رکھو اور ایک تفسیر یہ بھی ہے کہ راہ خدا میں اچھی طرح خرچ کرو اللہ تعالیٰ نیکی کرنے والوں کو پسند فرماتے ہیں، (آیت) ”۔ وقاتلوا فی سبیل اللہ “۔ سے لے کر یہاں تک یہ آیات ان حضرات کے بارے میں نازل ہوئی ہیں جو حدیبیہ سے اگلے سال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ احرام کی حالت میں عمرہ قضا کرنے کے لیے تشریف لے جارہے تھے۔- شان نزول : (آیت) ” وانفقوفی سبیل اللہ “ (الخ)- امام بخاری (رح) نے حضرت حذیفہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت مبارکہ نفقہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور امام ابو داؤد اور ترمذی (رح) نے سحت کے ساتھ اور نیز امام حاکم اور ابن حبان (رح) نے ابوایوب (رض) سے روایت نقل کی ہے انہوں نے فرمایا اے گروہ انصار یہ آیت کریمہ ہمارے بارے میں نازل ہوئی ہے جب اللہ تعالیٰ نے اسلام کو عزت عطا فرما دی اور اس کے مددگار زیادہ ہوگئے تو ہم میں سے بعض نے بعض سے خفیہ طور پر یہ کہا کہ ہمارے مال یوں ہی ضائع ہورہے ہیں اور آب اللہ تعالیٰ نے اسلام کو عزت دے دی ہے لہٰذا اگر اب ہم اپنے مال کا خیال کریں اور ضائع ہونے سے ان کی حفاظت کریں تو بہتر ہے، اس وقت اللہ تعالیٰ نے ہماری باتوں کی تردید میں یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی کہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں مال بھی خرچ کرو اور اپنے آپ کو تباہی میں نہ ڈالو تو مال کی ہلاکت کی نگرانی اور اس کی حفاظت جہاد کو چھوڑنا ہے۔ طبرانی نے صحیح سند کے ساتھ ابوجبیرہ بن ضحاک (رح) سے روایت کیا ہے کہ انصار صدقہ و خیرات کرتے تھے اور جتنی اللہ تعالیٰ توفیق دیتے غرباء کو مال بھی دیتے تھے ایک مرتبہ ان پر کچھ تنگی آگئی تو وہ اس کام سے رک گئے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ اتار دی کہ اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو، نیز امام طبرانی (رح) ہی نے صحیح سند کے ساتھ نعمان بن بشیر (رح) سے روایت کیا ہے کہ انسان سے گناہ سرزد ہوجاتا تو وہ اپنے دل میں خیال کرتا ہے کہ خدا اسے معاف نہیں فرمائے گا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ اتاری کہ اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو، اس حدیث کے لیے ایک اور گواہ بھی موجود ہے جس کو امام حاکم (رح) نے حضرت براء سے روایت کیا ہے (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )
آیت ١٩٥ (وَاَنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَلاَ تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّہْلُکَۃِ ج) ۔ - یعنی جس وقت اللہ کے دین کو روپے پیسے کی ضرورت ہو اس وقت جو لوگ اللہ کی راہ میں جان و مال کی قربانی سے جی چراتے ہیں وہ اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں ہلاکت میں ڈالتے ہیں۔ جیسے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غزوۂ تبوک کے موقع پر عام اپیل کی اور اس وقت جو لوگ اپنے مال کو سمیٹ کر بیٹھے رہے تو گویا انہوں نے اپنے آپ کو خود ہلاکت میں ڈال دیا۔ - (وَاَحْسِنُوْا ج) ۔ - اپنے دین کے اندر خوبصورتی پیدا کرو۔ دین میں بہتر سے بہتر مقام حاصل کرنے کی کوشش کرو۔ ہمارا معاملہ یہ ہے کہ دنیا میں آگے سے آگے اور دین میں پیچھے سے پیچھے رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دین میں یہ دیکھیں گے کہ کم سے کم پر گزارا ہوجائے ‘ جبکہ دنیا کے معاملے میں آگے سے آگے نکلنے کی کوشش ہوگی ع ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں یہ جستجو جو دنیا میں ہے اس سے کہیں بڑھ کر دین میں ہونی چاہیے ‘ ازروئے الفاظ قرآنی : (فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرٰتِ ) پس تم نیکیوں میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی کوشش کرو۔- ( اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ ) ۔ - حدیث جبرائیل ( علیہ السلام) (جسے اُمّ السُّنّۃ کہا جاتا ہے) میں حضرت جبرائیل ( علیہ السلام) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تین سوال کیے تھے : (١) اَخْبِرْنِیْ عَنِ الْاِسْلَام مجھے اسلام کے بارے میں بتایئے (کہ اسلام کیا ہے ؟ ) (٢) اَخْبِرْنِیْ عَنِ الْاِیْمَان مجھے ایمان کے بارے میں بتایئے (کہ ایمان کیا ہے ؟ ) (٣) ‘ اَخْبِرْنِیْ عَنِ الْاِحْسَان مجھے احسان کے بارے میں بتایئے (کہ احسان کیا ہے ؟ ) احسان کے بارے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : (اَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَاَنَّکَ تَرَاہُ ‘ فَاِنْ لَمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَاِنَّہٗ یَرَاکَ ) (٢٣) (احسان یہ ہے ) کہ تو اللہ تعالیٰ کی عبادت ایسے کرے گویا تو اسے دیکھ رہا ہے ‘ پھر اگر تو اسے نہ دیکھ سکے (یعنی یہ کیفیت حاصل نہ ہو سکے) تو (کم از کم یہ خیال رہے کہ) وہ تو تجھے دیکھ رہا ہے۔ دین کے سارے کام ‘ عبادات ‘ انفاق اور جہاد و قتال ایسی کیفیت میں اور ایسے اخلاص کے ساتھ ہوں گویا تم اپنی آنکھوں سے اللہ کو دیکھ رہے ہو ‘ اور اگر یہ مقام اور کیفیت حاصل نہ ہو تو کم سے کم یہ کیفیت تو ہوجائے کہ تمہیں مستحضر رہے کہ اللہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔ یہ احسان ہے۔ عام طور پر اس کا ترجمہ اس انداز میں نہیں کیا گیا۔ اس کو اچھی طرح سمجھ لیجیے۔ ویسے یہ مضمون زیادہ وضاحت کے ساتھ سورة المائدۃ میں آئے گا۔
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :207 اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے مراد اللہ کے دین کو قائم کرنے کی سعی و جہد میں مالی قربانیاں کرنا ہے ۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم خدا کے دین کو سربلند کرنے کے لیے اپنا مال خرچ نہ کرو گے اور اس کے مقابلے میں اپنے ذاتی مفاد کو عزیز رکھو گے ، تو یہ تمہارے لیے دنیا میں بھی موجب ہلاکت ہو گا اور آخرت میں بھی ۔ دنیا میں تم کفار سے مغلوب اور ذلیل ہو کر رہو گے اور آخرت میں تم سے سخت باز پرس ہو گی ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :208 احسان کا لفظ حسن سے نکلا ہے ، جس کے معنی کسی کام کو خوبی کے ساتھ کرنے کے ہیں ۔ عمل کا ایک درجہ یہ ہے کہ آدمی کے سپرد جو خدمت ہو ، اسے بس کردے ۔ اور دوسرا درجہ یہ ہے کہ اسے خوبی کے ساتھ کرے ، اپنی پوری قابلیت اور اپنے تمام وسائل اس میں صرف کر دے اور دل و جان سے اس کی تکمیل کی کوشش کرے ۔ پہلا درجہ محض طاعت کا درجہ ہے ، جس کے لیے صرف تقویٰ اور خوف کافی ہو جاتا ہے ۔ اور دوسرا درجہ احسان کا درجہ ہے ، جس کے لیے محبت اور گہرا قلبی لگاؤ درکار ہوتا ہے ۔
125: اشارہ یہ ہے کہ اگر تم نے جہاد میں خرچ کرنے سے بخل سے کام لیا اور اس کی وجہ سے جہاد کے مقاصد حاصل نہ ہوسکے تو یہ اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی مارنے کی مرادف ہوگا، کیونکہ اس کے نتیجے میں دُشمن مضبوط ہو کر تمہاری ہلاکت کاسبب بنے گا۔