بیعت رضوان ذوالقعدہ سن ٦ہجری میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عمرے کے لئے صحابہ کرام سمیت مکہ کو تشریف لے چلے لیکن مشرکین نے آپ کو حدیبیہ والے میدان میں روک لیا بالآخر اس بات پر صلح ہوئی کہ آئندہ سال آپ عمرہ کریں اور اس سال واپس تشریف لے جائیں چونکہ ذی القعدہ کا مہینہ بھی حرمت والا مہینہ ہے اس لئے یہ آیت نازل ہوئی مسند احمد میں حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حرمت والے مہینوں میں جنگ نہیں کرتے تھے ہاں اگر کوئی آپ پر چڑھائی کرے تو اور بات ہے بلکہ جنگ کرتے ہوئے اگر حرمت والے مہینے آجاتے تو آپ لڑائی موقوف کر دیتے ، حدیبیہ کے میدان میں بھی جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ خبر پہنچی کہ حضرت عثمان کو مشرکین نے قتل کر دیا جو کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیغام لے کر مکہ شریف میں گئے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے چودہ سو صحابہ سے ایک درخت تلے مشرکوں سے جہاد کرنے کی بیعت لی پھر جب معلوم ہوا کہ یہ خبر غلط ہے تو آپ نے اپنا ارادہ ملتوی کر دیا اور صلح کی طرف مائل ہو گئے ۔ پھر جو واقعہ ہوا وہ ہوا ۔ اسی طرح جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوازن کی لڑائی سے حنین والے دن فارغ ہوئے اور مشرکین طائف میں جا کر قلعہ بند ہو گئے تو آپ نے اس کا محاصرہ کر لیا چالیس دن تک یہ محاصرہ رہا بالآخر کچھ صحابہ کی شہادت کے بعد محاصرہ اٹھا کر آپ مکہ کی طرف لوٹ گئے اور جعرانہ سے آپ نے عمرے کا احرام باندھا یہیں حنین کی غنیمتیں تقسیم کیں اور یہ عمرہ آپ کا ذوالقعدہ میں ہوا یہ سن ٨ ہجری کا واقعہ ہے ، اللہ تعالیٰ آپ پر درود وسلام بھیجے ۔ پھر فرماتا ہے جو تم پر زیادتی کرے تم بھی اس پر اتنی ہی زیادتی کر لو ، یعنی مشرکین سے بھی عدل کا خیال رکھو ، یہاں بھی زیادتی کے بدلے کو زیادتی سے تعبیر کرنا ویسا ہی ہے جیسے اور جگہ عذاب وسزا کے بدلے میں برائی کے لفظ سے بیان کیا گیا ، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں یہ آیت مکہ شریف میں اتری جہاں مسلمانوں میں کوئی شوکت وشان نہ تھی نہ جہاد کا حکم تھا پھر یہ آیت مدینہ شریف میں جہاد کے حکم سے منسوخ ہو گئی ، لیکن امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ نے اس بات کی تردید کی ہے اور فرماتے ہیں کہ یہ آیت مدنی ہے عمرہ قضا کے بعد نازل ہوئی ہے حضرت مجاہد کا قول بھی یہی ہے ۔ ارشاد ہے اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور پرہیز گاری اختیار کرو اور اسے جان لو کہ ایسے ہی لوگوں کے ساتھ دین و دنیا میں اللہ تعالیٰ کی تائید ونصرت رہتی ہے ۔
194۔ 1۔ 6 ہجری میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چودہ سو صحابہ (رض) اجمعین کو ساتھ لے کر عمرہ کے لئے گئے تھے لیکن کفار مکہ نے انہیں مکہ میں نہیں جانے دیا اور یہ طے پایا کہ آئندہ سال مسلمان تین دن کے لئے عمرہ کرنے کی غرض سے مکہ آسکیں گے یہ مہینہ تھا جو حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے جب دوسرے سال حسب معاہدہ اسی مہینے میں عمرہ کرنے کے لئے جانے لگے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں مطلب یہ ہے کہ اس دفعہ بھی اگر کفار مکہ اس مہینے کی حرمت پامال کر کے (گزشتہ سال کی طرح) تمہیں مکہ جانے سے روکیں تو تم بھی اس کی حرمت کو نظر انداز کر کے ان سے بھرپور مقابلہ کرو۔ حرمتوں کو ملحوظ رکھنے میں بدلہ ہے یعنی وہ حرمت کا خیال رکھیں تو تم بھی رکھو بصورت دیگر تم بھی حرمت کو نظر انداز کر کے کفار کو عبرت ناک سبق سکھاؤ (ابن کثیر) ۔
[٢٥٧] حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے وقت سے لے کر عرب میں یہ دستور چلا آیا تھا کہ ذی قعد ذی الحجہ اور محرم کے مہینے حج کرنے والوں کی وجہ سے قابل احترام قرار دیئے گئے تھے اور ان کے درمیان رجب کا مہینہ عمرہ کرنے والوں کے لیے مختص کیا گیا تھا۔ تاکہ حج اور عمرہ کرنے والے امن وامان سے سفر کرسکیں۔ ان مہینوں میں جدال و قتال بھی ممنوع قرار دیا گیا تھا۔ چونکہ یہ ایک اچھا دستور تھا۔ لہذا اسلام نے اسے بحال رکھا۔ اس آیت کا منشا یہ ہے کہ اگر ان مہینوں میں کافر تم سے جنگ کرتے ہیں تو پھر تمہیں بھی ان سے جنگ کی اجازت ہے، ورنہ نہیں۔ مگر یہ خیال رہے کہ جتنی زیادتی تم پر ہوئی اتنی ہی تم کرسکتے ہو۔ اس سے زیادہ نہیں اور اس معاملہ میں اللہ سے ڈرتے رہو۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب ذوالقعدہ ٦ ھ میں عمرہ کے لیے تشریف لے گئے، تو کفار نے مزاحمت کی اور عمرہ سے روک دیا، مگر آخرکار صلح ہوگئی اور قرار پایا کہ مسلمان آئندہ سال عمرہ کرلیں۔ یہ معاہدہ صلح حدیبیہ کے نام سے مشہور ہے، پھر جب دوسرے سال ٧ ھ میں مسلمان عمرہ کے لیے روانہ ہوئے تو انھیں اندیشہ ہوا کہ ماہ حرام اور حرم مکہ میں تو لڑائی منع ہے، لیکن اگر کفار نے بد عہدی کی اور ہمیں عمرہ سے روک دیا تو ہم کیا کریں گے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (ابن کثیر) یعنی (حرمت والے مہینوں کی حرمت کی پاس داری کفار کی طرف سے ان کی حرمت کی پاس داری کے مقابلے میں ہے) اگر وہ حرام مہینوں کا لحاظ نہ کریں تو تم بھی نہ کرو اور اگر وہ بدعہدی کریں تو تم بھی حرم کا لحاظ مت کرو۔ (قرطبی، ابن کثیر) واضح رہے کہ حرمت والے مہینے چار ہیں، ذوالقعدہ، ذوالحجہ، محرم اور رجب۔ اگرچہ زیادتی کے جواب کو زیادتی نہیں کہا جاتا، بلکہ وہ عین حق ہے، مگر یہ صرف لفظ کی حد تک مشابہت ہے کہ ” فَمَنِ اعْتَدٰى“ کے مقابلے میں لفظ ” ْ فَاعْتَدُوْا “ آیا ہے، جیسے فرمایا : (وَجَزٰۗؤُا سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِّثْلُهَا ۚ ) [ الشوریٰ : ٤٠ ] ” اور کسی برائی کا بدلہ اس کی مثل ایک برائی ہے۔ “
معارف و مسائل : - ٧ ہجری میں جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صلح حدیبیہ کے قانون کے مطابق فوت شدہ عمرہ ادا کرنے کے لئے بہ معیت صحابہ کرام (رض) اجمعین مکہ کے سفر کا ارادہ کیا تو صحابہ کرام جانتے تھے کہ ان کفار کے معاہدوں اور صلح کا کچھ اعتبار نہیں ممکن ہے کہ وہ جنگ کرنے لگیں تو اس جنگ میں صحابہ کرام (رض) اجمعین کے لئے ایک اشکال تو یہ تھا کہ حرم مکہ میں جنگ کی نوبت آئے گی جو اسلام میں ناجائز ہے اس کا جواب پچھلی آیت میں دے دیا گیا کہ حرم مکہ کی حرمت مسلمانوں پر ضرور لازم ہے لیکن اگر کفار حدود حرم میں ہی مسلمانوں سے جنگ کرنے لگیں تو ان کو بھی مدافعت میں جنگ کرنا جائز ہے۔- دوسرا اشکال یہ تھا کہ یہ مہینہ ذیقعدہ کا ہے جو ان چار مہینوں میں سے ہے جن کو اشہر حرم کہا جاتا ہے اور ان میں کسی سے کسی جگہ جنگ کرنا جائز نہیں تو اگر مشرکین مکہ نے ہمارے خلاف جنگ شروع کردی تو ہم اس مہینے میں دفاعی جنگ کیسے کرسکتے ہیں اس کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی کہ جیسے حرم مکہ کی حرمت سے حالت دفاع مستثنی ہے اسی طرح اگر اشہر حرم میں کافر ہم سے قتال کرنے لگیں تو ہم کو بھی ان سے دفاعی جنگ لڑناجائز ہے۔- مسئلہ : اشہر حرم چار مہینے ہیں، ذیقعدہ، ذی الحجہ، محرم یہ تین ماہ تو مسلسل ہیں چوتھا مہینہ رجب کا ہے اسلام سے پہلے بھی ان چار مہینوں میں جنگ کو حرام سمجھا جاتا تھا اور مشرکین مکہ بھی اس کے پابند تھے ابتداء اسلام میں بھی ٧ ہجری تک یہی قانون نافذ تھا اسی لئے صحابہ کرام کو اشکال پیش آیا اس کے بعد یہ حرمت قتال منسوخ کرکے عام قتال کی اجازت باجماع امت دے دیگئی مگر افضل اب بھی یہی ہے کہ ان چار مہینوں میں ابتداء بالقتال نہ کی جائے صرف مدافعت کی ضرورت سے قتال کیا جائے اس لحاظ سے یہ کہنا بھی فی الجملہ درست ہے کہ اشہر حرم کی حرمت منسوخ نہیں باقی ہے جیسے حرم مکہ میں قتال کی اجازت بضرورت مدافعت دینے سے حرم مکہ کی حرمت منسوخ نہیں ہوئی بلکہ صرف ایک استثنائی صورت پر عمل ہوا،
اَلشَّہْرُ الْحَرَامُ بِالشَّہْرِ الْحَرَامِ وَالْحُرُمٰتُ قِصَاصٌ ٠ ۭ فَمَنِ اعْتَدٰى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَيْہِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰى عَلَيْكُمْ ٠ ۠ وَاتَّقُوا اللہَ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ مَعَ الْمُتَّقِيْنَ ١٩٤- شهر - الشَّهْرُ : مدّة مَشْهُورَةٌ بإهلال الهلال، أو باعتبار جزء من اثني عشر جزءا من دوران الشمس من نقطة إلى تلک النّقطة . قال تعالی: شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ [ البقرة 185] ، - ( ش ھ ر ) الشھر ( مہینہ ) وہ مدت معینہ جو چاند کے ظہور سے شروع ہوتی ہے ۔ یا دوران شمس کے بارہ - حصوں میں سے ایک حصہ کا نام ہے جو ایک نقطہ سے شروع ہو کر دوسرے نقطہ پر ختم ہوجاتا ہے قرآن میں ہے :۔ شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ [ البقرة 185]( روزوں کا مہینہ ) رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن نازل كيا گيا هے۔ - قِصاصُ- : تتبّع الدّم بالقود . قال تعالی: وَلَكُمْ فِي الْقِصاصِ حَياةٌ [ البقرة 179] وَالْجُرُوحَ قِصاصٌ- [ المائدة 45] ويقال : قَصَّ فلان فلانا، وضربه ضربا فَأَقَصَّهُ ، أي : أدناه من الموت، والْقَصُّ : الجصّ ، و «نهى رسول اللہ صلّى اللہ عليه وسلم عن تَقْصِيصِ القبور»- القصاص کے معنی خون کا بدلہ دینے کے ہیں چناچہ فرمایا : وَلَكُمْ فِي الْقِصاصِ حَياةٌ [ البقرة 179] حکم قصاص میں تمہاری زندگی ہے ۔ وَالْجُرُوحَ قِصاصٌ [ المائدة 45] سب زخموں کا اسی طرح بدلہ ہے ۔ محاورہ ہے قص فلان فلانا وضربہ ضربا فاقصہ فلاں کو ( مار مار کر ) مرنے کے قریب کردیا ۔ القص کے معنی چونہ کے ہیں ۔ حدیث میں ہے (181) نھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عن تقصیص القبور کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قبروں کو گچ کرنے سے منع فرمایا ۔- عدا - والاعْتِدَاءُ :- مجاوزة الحقّ. قال تعالی: وَلا تُمْسِكُوهُنَّ ضِراراً لِتَعْتَدُوا[ البقرة 231] ، وقال : وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ [ النساء 14] ،- ( ع د و ) العدو - الاعتداء کے معنی حق سے تجاوز کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَلا تُمْسِكُوهُنَّ ضِراراً لِتَعْتَدُوا[ البقرة 231] اور اس نیت سے ان کو نکاح میں نہ رہنے دینا چاہیئے کہ انہیں تکلیف دو اور ان پر زیادتی کرو ۔ - تقوي - والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] - التقویٰ- اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔
(١٩٤) وہ مہینہ جس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عمرہ کی قضا کے لیے تشریف لے جارہے ہیں وہ اس مہینے کا بدل ہے جس میں کفار نے آپ کو عمرہ کرنے سے منع کردیا تھا اور اگر یہ کفار حدود حرم میں آپ لڑائی کی پہل کریں تو آپ بھی اسی قدر ان کے ساتھ لڑائی کریں اور قتل و غارت میں پہل کرنے سے اللہ تعالیٰ سے ڈریں، اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت پرہیزگاروں کے ساتھ ہے۔
آیت ١٩٤ (اَلشَّہْرُ الْحَرَام بالشَّہْرِ الْحَرَامِ ) (وَالْحُرُمٰتُ قِصَاصٌ ط) - یعنی اگر انہوں نے اشہر حرم کی بےحرمتی کی ہے تو اس کے بدلے میں یہ نہیں ہوگا کہ ہم تو ہاتھ پر ہاتھ باندھ کر کھڑے رہیں کہ یہ تو اشہر حرم ہیں۔ حدود حرم اور اشہر حرم کی حرمت اہل عرب کے ہاں مسلّم تھی۔ ان کے ہاں یہ طے تھا کہ ان چار مہینوں میں کوئی خونریزی ‘ کوئی جنگ نہیں ہوگی ‘ یہاں تک کہ کوئی اپنے باپ کے قاتل کو پالے تو وہ اس کو بھی قتل نہیں کرے گا۔ یہاں وضاحت کی جا رہی ہے کہ اشہرحرم اور حدود حرم میں جنگ واقعتا بہت بڑا گناہ ہے ‘ لیکن اگر کفار کی طرف سے ان کی حرمت کا لحاظ نہ رکھا جائے اور وہ اقدام کریں تو اب یہ نہیں ہوگا کہ ہاتھ پاؤں باندھ کر اپنے آپ کو پیش کردیا جائے ‘ بلکہ جوابی کارروائی کرنا ہوگی۔ اس جوابی اقدام میں اگر حدود حرم یا اشہر حرم کی بےحرمتی کرنی پڑے تو اس کا وبال بھی ان پر آئے گا جنہوں نے اس معاملے میں پہل کی۔- (فَمَنِ اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَیْہِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ ) (وَاتَّقُوا اللّٰہَ ) (وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ ) - یعنی اللہ کی تائید و نصرت اور اس کی مدد اہل تقویٰ کے لیے آئے گی۔ اب آگے انفاق کا حکم آ رہا ہے جو مضامین کی چار لڑیوں میں سے تیسری لڑی ہے۔ قتال کے لیے انفاق مال لازم ہے۔ اگر فوج کے لیے ساز و سامان نہ ہو ‘ رسد کا اہتمام نہ ہو ‘ ہتھیار نہ ہوں ‘ سواریاں نہ ہوں تو جنگ کیسے ہوگی ؟
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :206 اہل عرب میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے وقت سے یہ قاعدہ چلا آ رہا تھا کہ ذی القعدہ ، ذی الحجہ اور محرم کے تین مہینے حج کے لیے مختص تھے اور رجب کا مہینہ عمرے کے لیے خاص کیا گیا تھا ، اور ان چار مہینوں میں جنگ اور قتل و غارت گری ممنوع تھی تاکہ زائرین کعبہ امن و امان کے ساتھ خدا کے گھر تک جائیں اور اپنے گھروں کو واپس ہو سکیں ۔ اس بنا پر ان مہینوں کو حرام مہینے کہا جاتا تھا ، یعنی حرمت والے مہینے ۔ آیت کا منشا یہ ہے کہ ماہ حرام کی حرمت کا لحاظ کفار کریں ، تو مسلمان بھی کریں اور اگر وہ اس حرمت کو نظر انداز کر کے کسی حرام مہینے میں مسلمانوں پر دست درازی کر گزریں ، تو پھر مسلمان بھی ماہ حرام میں بدلہ لینے کے مجاز ہیں ۔ اس اجازت کی ضرورت خاص طور پر اس وجہ سے پیش آگئی تھی کہ اہل عرب نے جنگ و جدل اور لوٹ مار کی خاطر نسی کا قاعدہ بنا رکھا تھا ، جس کی رو سے وہ اگر کسی سے انتقام لینے کے لیے یا غارت گری کرنے کے لیے جنگ چھیڑنا چاہتے تھے ، تو کسی حرام مہینے میں اس پر چھاپہ مار دیتے اور پھر اس مہینے کی جگہ کسی دوسرے حلال مہینے کو حرام کر کے گویا اس حرمت کا بدلہ پورا کر دیتے تھے ۔ اس بنا پر مسلمانوں کے سامنے یہ سوال پیدا ہوا کہ اگر کفار اپنے نسی کے حیلے کو کام میں لا کر کسی حرام مہینے میں جنگی کاروائی کر بیٹھیں ، تو اس صورت میں کیا کیا جائے ۔ اسی سوال کا جواب آیت میں دیا گیا ہے ۔
124: یعنی اگر کوئی شخص مہینے کی حرمت پامال کرکے تم سے لڑائی کرے تو تم بھی اس سے بدلہ لے سکتے ہو۔