[٢٥٥] فتنہ سے مراد ہر وہ مزاحمت اور قوت ہے جو تبلیغ و اشاعت اسلام کی راہ میں آڑے آئے جس سے اللہ کے دین کے مطابق زندگی بسر کرنا ممکن نہ رہے۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ اسلام صرف مدافعانہ جنگ کا قائل نہیں۔ بلکہ اسلام کی اشاعت میں جو قوت رکاوٹ بنے اس سے جارحانہ جنگ کرنا ضروری ہے۔ تاآنکہ ایسی رکاوٹیں ختم ہوجائیں اور اللہ کا دین غالب ہو۔ البتہ جو لوگ اپنی شرارتوں سے باز آجائیں اور جزیہ دینا قبول کرلیں۔ ان پر تمہیں ہاتھ نہ اٹھانا چاہیے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ اپنے عقاید یا دین یا مذہب سے مجبور ہو کر اسلام قبول کرلیں کیونکہ اسلام قبول کرنے کے لیے کسی کو مجبور نہیں کیا جاسکتا۔- اس آیت اور اس سے پہلی آیت کی بنا پر مخالفین اسلام کی طرف سے اسلام پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ اس نے جہاد کو فرض قرار دے کر ایک مستقل جنگ کی کیفیت پیدا کردی ہے۔ لہذا اسے ایک امن پسند مذہب نہیں کہا جاسکتا۔ عرب قبائل ہمیشہ آپس میں برسرپیکار رہتے تھے۔ اسلام نے آ کر صرف یہ تبدیلی پیدا کی کہ ان کا رخ باہمی خانہ جنگیوں سے ہٹا کر بیرونی دنیا کی طرف موڑ دیا۔ لیکن ان کی جنگ جوئی میں کوئی تبدیلی پیدا نہ ہوئی۔ اسلام نے یہ کیا کہ پوری دنیا کو دو حصوں میں تقسیم کردیا۔ ایک دارالاسلام جہاں اسلامی حکومت قائم ہو اور دوسرا دارالحرب جہاں غیر مسلم حکومت ہو۔ بالفاظ دیگر ایک حصہ عالم اسلام ہے اور دوسرا عالم جنگ۔ دارالاسلام پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ دارالحرب یا غیر مسلموں سے برسرپیکار رہ کر انہیں دارالاسلام میں شامل کرتا چلا جائے۔ تاآنکہ وہ ساری دنیا کو اپنے دائرہ اقتدار میں لے لے۔ یہ ہے ان عقلی و نقلی دلائل کا خلاصہ جن سے یہ ثابت کیا جاسکتا ہے کہ اسلام کوئی امن پسند یا صلح جو مذہب نہیں۔ بلکہ اپنے مزاج کے لحاظ سے ہر وقت برسرپیکار رہنا چاہتا ہے۔- پیشتر اس کے کہ اس اعتراض کا مختلف پہلوؤں سے جائزہ لیا جائے۔ دو باتوں کی وضاحت ضروری ہے۔ پہلی یہ کہ اسلام سب غیر مسلموں سے ایک جیسا سلوک روا نہیں رکھتا بلکہ اس نے مشرکین اور اہل کتاب میں فرق کیا ہے۔ اہل کتاب کا ذبیحہ حلال، ان کا کھانا جائز اور کتابیہ عورت سے نکاح جائز ہے۔ جبکہ مشرکوں کی کوئی چیز جائز نہیں۔ اہل کتاب پر جنگ سے بیشتر تین شرائط پیش کی جاتی ہیں۔ پہلی شرط یہ ہے کہ اسلام قبول کرلیں اور اگر یہ منظور نہ ہو تو پھر دارالاسلام میں اطاعت گزار بن کر رہیں انہیں مذہبی آزادی حاصل ہوگی اور دفاعی اخراجات کے طور پر جزیہ دینا یا اس کی متبادل صورت اختیار کرنا ہوگی اور اگر یہ بھی منظور نہ ہو تو پھر تیسری شرط یہ ہے کہ جنگ کے لیے تیار ہوجائیں۔- لیکن مشرکین کے لیے اطاعت گزار بن کر رہنے کی کم از کم حجاز میں گنجائش نہیں۔ ان پر بھی تین شرائط پیش کی جاتی ہیں۔ جیسا کہ سورة توبہ کے آغاز میں مذکور ہے یعنی (١) اسلام قبول کرلیں، اگر یہ منظور نہ ہو تو (٢) دارالاسلام کو چھوڑ کر چلے جائیں اور اگر یہ بھی منظور نہ ہو تو پھر (٣) جنگ کے لیے تیار ہوجائیں۔ گویا ان کے لیے شرط نمبر ٢ اطاعت گزار بن کر رہنے کی بجائے حجاز کو چھوڑ کر چلے جانے کی ہے۔- مشرک کی عام تعریف یہ ہے کہ وہ اللہ کی طرف سے نازل شدہ کسی کتاب کا قائل نہ ہو اور اللہ تعالیٰ کے متعلق کوئی واضح عقیدہ نہ رکھتا ہو اور اس کی صفات میں دوسری چیزوں کو بھی شریک بناتا ہو مندرجہ بالا شرائط سے بھی یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اسلام کی نظر میں سب غیر مسلم یکساں نہیں۔ وہ اہل کتاب سے نسبتاً نرم رویہ اختیار کرتا ہے اور مشرکین کے معاملہ میں سخت ہے اور مندرجہ بالا دونوں آیات جن سے یہ اعتراض اخذ کیا گیا ہے۔ مشرکین کے معاملہ میں مشرکین سے تعلق رکھتی ہیں نہ کہ اہل کتاب سے اور مشرکین پر سختی کی وجہ یہ ہے کہ اسلام ایک تحریک ہے جو فتنہ کو ختم کرنا چاہتا ہے اور اس کی نگاہوں میں چونکہ سب سے بڑا فتنہ شرک ہے۔ لہذا شرک کو ختم کرنا اس کا اولین مقصد ہے۔- دوسری قابل وضاحت بات یہ ہے کہ بلحاظ اقامت پذیری دارالاسلام کی تین اقسام ہیں۔- ١۔ حرمین یعنی حرم مکہ اور مدینہ ان مقامات میں صرف مسلمان ہی رہ سکتے ہیں، مشرک ہوں یا اہل کتاب یہاں اقامت اختیار نہیں کرسکتے۔- ٢۔ جزیرہ العرب یا حجاز، اس میں اہل کتاب معاہد کی حیثیت سے رہ سکتے ہیں۔ جب تک کہ وہ اپنے عہد پر قائم رہیں۔ اور اگر بغاوت وغیرہ کریں تو انہیں دارالاسلام کے کسی دوسرے علاقہ میں منتقل کیا جاسکتا ہے۔ لیکن مشرکین کو اس خطہ میں برداشت نہیں کیا گیا۔- ٣۔ باقی دارالاسلام میں اہل کتاب تو اطاعت گزار بن کر پوری آزادی سے رہ سکتے ہیں۔ لیکن مشرکین کو گوارا ہونے کی حد تک برداشت کیا گیا ہے۔ (اسلام کے قانون جنگ و صلح ص ١٤٨) - ان تصریحات کے بعد اب ہم اصل اعتراض کی طرف توجہ کرتے ہیں۔ یہ اعتراض دو وجوہ سے غلط ہے :۔- پہلی وجہ یہ ہے کہ بلاشبہ عرب کے اکثر قبائل جنگ جو واقع ہوئے تھے۔ لیکن ان کے سب افراد جنگ جو نہیں تھے۔ بلکہ ان میں کثیر طبقہ ایسا بھی تھا جو اس قتل و غارت کا ہدف بنے ہوئے تھے۔ وہ کمزور تھے، مظلوم تھے۔ نہتے تھے اور فطرتاً بھی قتل و غارت اور ظلم و فساد سے نفرت کرتے تھے۔ پھر اشراف میں بھی ایک ایسا طبقہ موجود تھا جو صلح پسند اور امن پسند تھا اور قتل و غارت اور ظلم و جور سے نفرت کرتا تھا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے حلف الفضول کا واقعہ اس بات کی تاریخی شہادت موجود ہے۔ ایسے ہی لوگ ابتداًء اسلام میں داخل ہوئے تھے۔ جس کی شہادت درج ذیل آیات ہیں۔- ١۔ آیت ( كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَھُوَ كُرْهٌ لَّكُمْ ۚ وَعَسٰٓى اَنْ تَكْرَھُوْا شَـيْـــًٔـا وَّھُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ٢١٦ ) 2 ۔ البقرة :216) تم پر جنگ فرض کی گئی ہے اور وہ تمہیں ناگوار ہے۔ - ٢۔ آیت ( يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَا لَكُمْ اِذَا قِيْلَ لَكُمُ انْفِرُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ اثَّاقَلْتُمْ اِلَى الْاَرْضِ ۭ اَرَضِيْتُمْ بالْحَيٰوةِ الدُّنْيَا مِنَ الْاٰخِرَةِ ۚ فَمَا مَتَاعُ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا فِي الْاٰخِرَةِ اِلَّا قَلِيْلٌ 38) 9 ۔ التوبہ :38) - اے ایمان والو تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ جب تمہیں کہا جاتا ہے کہ اللہ کی راہ میں (جہاد کے لئے) نکلو تو تم زمین سے چمٹے جاتے ہو۔ - دور نبوی کی سب سے پہلی جنگ بدر میں مسلمانوں کی جنگ جوئی کی کیفیت ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے۔- ٣۔ آیت ( كَمَآ اَخْرَجَكَ رَبُّكَ مِنْۢ بَيْتِكَ بالْحَقِّ ۠ وَاِنَّ فَرِيْقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِيْنَ لَكٰرِهُوْنَ ۙ ) 8 ۔ الانفال :5) جیسا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پروردگار نے آپ کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھر سے نکالا اور بلاشبہ مومنوں کا ایک گروہ اس (جنگ) کو ناپسند کر رہا تھا۔ وہ لوگ حق بات ظاہر ہوجانے کے بعد آپ سے جھگڑنے لگے۔ گویا وہ موت کی طرف دھکیلے جا رہے ہیں اور وہ موت کو سامنے دیکھ رہے ہیں۔- ٤۔ اسی بنا پر آپ کو حکم ہوتا ہے کہ : آیت ( يٰٓاَيُّھَا النَّبِيُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِيْنَ عَلَي الْقِتَالِ ۭاِنْ يَّكُنْ مِّنْكُمْ عِشْرُوْنَ صٰبِرُوْنَ يَغْلِبُوْا مِائَـتَيْنِ ۚ وَاِنْ يَّكُنْ مِّنْكُمْ مِّائَةٌ يَّغْلِبُوْٓا اَلْفًا مِّنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِاَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَفْقَهُوْنَ 65) 8 ۔ الانفال :65) اے نبی مومنوں کو جنگ کرنے کے لیے رغبت دلاؤ۔- غور فرمائیے کہ اگر مسلمان پہلے ہی جنگ جو تھے تو ان آیات اور احکامات کی کیا ضرورت تھی ؟ اور یہی لوگ اسلام کا ابتدائی اور قیمتی سرمایہ تھے۔ اصل بات یہی تھی کہ اسلام کے یہ ابتدائی جانثار صلح جو اور امن پسند تھے۔ پھر جب ظلم و فساد کے خاتمہ کے لیے ان پر جنگ فرض کی گئی تو انہوں نے اسے ناگوار سمجھنے کے باوجود اللہ کا حکم سمجھ کر سر انجام دیا۔ البتہ نوجوان اور جرات مند طبقہ مکی دور میں بھی لڑائی کی اجازت مانگتا رہا مگر انہیں صبر ہی کی تلقین کی جاتی رہی۔- اس اعتراض کے غلط ہونے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ جنگ جو وہی لوگ کہلائے جاسکتے ہیں جو جارحانہ اقدامات کریں۔ اس معیار پر غور کرنے کے لیے دور نبوی کی جنگوں کے اسباب پر سرسری نظر ڈالنا ہوگی۔- ١۔ غزوہ بدر، احد اور خندق خالصتاً مدافعانہ جنگیں تھیں جو طوعاً و کرہاً مسلمانوں کو لڑنا پڑیں۔- ٢۔ غزوہ بنو قینقاع، بنو نضیر، بنو قریظہ اور خیبر سب یہودیوں کی بد عہدیوں اور فتنہ انگیزیوں کی بنا پر لڑی گئیں۔ اگر یہ لوگ اپنے عہد پر قائم رہتے تو کبھی بپا نہ ہوتیں۔- ٣۔ غزوہ مکہ کا سبب قریش کی طرف سے معاہدہ حدیبیہ کی عہد شکنی تھی۔- ٤۔ سریہ مؤتہ اور غزوہ تبوک، سفیر کے قتل اور سرحد کی حفاظت کے لیے پیش آئیں اور وہ کون سی حکومت ہے جو اپنے سفیر کے قتل پر خاموش رہ سکتی ہے۔ یا اپنی سرحدوں کی حفاظت کے لیے لشکر روانہ نہیں کرتی۔- ٥۔ غزوہ حنین، اوطاس اور طائف میں دشمن نے خود مسلمانوں کو جنگ کے لیے للکارا تھا اور آپ نے پردیس میں کافروں سے نقد رقم اور اسلحہ بطور ادھار اور عاریتاً لے کر ان جنگوں کو نبھایا تھا۔ (موطا، ابو داؤد، باب الضمانہ) - غور فرما لیجئے کہ ان میں کونسی جنگ کو جارحانہ یا ظالمانہ جنگ کا نام دیا جاسکتا ہے ؟- اب رہا دارالاسلام اور دارالحرب کا مسئلہ، بلاشبہ یہ اصطلاحیں فقہائے اسلام نے وضع کی ہیں لیکن انہیں عام اسلام اور عام جنگ کے معنوں میں پیش کرنے میں کئی ایک مغالطے ہیں جو درج ذیل ہیں۔- ١۔ جو غیر مسلم حکومتیں غیر جانبدر رہنا چاہیں اور مسلمانوں کو نہ خود چھیڑیں اور نہ مسلمانوں کے خلاف حمایت کریں۔ خواہ وہ حکومت اہل کتاب کی ہو یا مشرکین کی اسلام ان سے لڑنے کی قطعاً اجازت نہیں دیتا۔ بلکہ اس کے برعکس اس سے بہتر سلوک کی تائید کرتا ہے۔ چناچہ ارشاد باری ہے : آیت ( لَا يَنْهٰىكُمُ اللّٰهُ عَنِ الَّذِيْنَ لَمْ يُقَاتِلُوْكُمْ فِي الدِّيْنِ وَلَمْ يُخْرِجُوْكُمْ مِّنْ دِيَارِكُمْ اَنْ تَبَرُّوْهُمْ وَتُقْسِطُوْٓا اِلَيْهِمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَ ) 60 ۔ الممتحنة :8) - اللہ تمہیں ان لوگوں سے بھلائی اور انصاف کا سلوک کرنے سے منع نہیں کرتا جو دین کے سلسلہ میں تم سے نہیں لڑتے اور نہ ہی انہوں نے تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا۔ بیشک اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ - گویا دارالحرب بھی دو حصوں میں تقسیم ہوگیا۔ ایک غیر جانبدار علاقہ جو فی الحقیقت دارالحرب نہیں ہے اور امن پسند ممالک عموماً غیر جانبدار ہی رہتے ہیں۔ لہذا دارالحرب آدھے سے بھی کم رہ گیا۔- ٢۔ باقی حربی علاقہ میں ایسے ممالک بھی ہوسکتے ہیں جن سے صلح کے معاملات طے پائے ہوں اور ان کی مدت صلح عموماً دس سال ہوتی ہے۔ جب تک ایسے ممالک بدعہدی نہ کریں۔ ان سے جنگ کی قطعاً اجازت نہیں۔- ٣۔ اس کے بعد جو ممالک بچ جائیں وہ فی الواقعہ دارالحرب ہیں اور وہ وہی ممالک ہوسکتے ہیں جو مسلمانوں کے مخالف ہوں یا مخالفوں کا ساتھ دیتے ہوں، اور وہ صلح پر بھی آمادہ نہ ہوں اور ظاہر ہے کہ ایسے ممالک تھوڑے ہی رہ جاتے ہیں۔ لیکن ایسے ممالک پر بھی حالات جنگ کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ حالات جنگ اور چیز ہے اور خطرہ جنگ اور چیز۔ اس کی قریب ترین مثال پاکستان اور بھارت کی ہے۔ پاکستان دو قومی نظریہ کا علمبردار ہے اور بھارت ایک قومی نظریہ کا حامی ہے۔ نظریہ کے اس تضاد نے ہر وقت جنگ کا خطرہ تو پیدا کردیا ہے۔ لیکن حالات جنگ مدتوں بعد پیدا ہوتے ہیں اور یہ اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب کوئی ملک اپنے حقوق سے تجاوز کرجاتا ہے۔ آج کی مہذب اقوام کے نزدیک طاقت کے ذریعہ اپنے مفادات کی حفاظت ہی سب سے بڑا حق ہے۔ مثلاً پچھلے دنوں روس نے یہ سمجھا کہ گرم پانی کی بندرگاہ تک پہنچنا اس کا حق ہے۔ لہذا افغانستان، ایران اور پاکستان پر اس کا تسلط ہونا چاہیے۔ مگر متعلقہ ممالک یا حریف ممالک نے اس کے اس حق کو ناجائز سمجھا اور تسلیم نہ کیا۔ افغانستان میں جنگ چھڑ گئی اور پاکستان اور ایران کے لیے حالات جنگ پیدا ہوگئے۔- لیکن اسلام ایسے دنیوی اور ذاتی مفادات کے لیے بھی جنگ کرنے کا قطعاً روادار نہیں، اس کے نزدیک جنگ درج ذیل وجوہ کی بنا پر لڑی جاسکتی ہے :- (١) اپنے جان و مال کی حفاظت کے لیے مدافعانہ جنگ جس میں سرحدوں کی حفاظت بھی شامل ہے۔- (٢) کسی علاقہ کے مظلوم مسلمان جب امداد کے لیے پکاریں اور انہیں احکام شرعیہ کی تعمیل میں رکاوٹیں پیش آرہی ہوں۔- (٣) معاہدہ کی خلاف ورزی، عہد شکنی یا سفیر کے قتل کی بنا پر اور یہ سب باتیں دراصل جنگ کا الٹی میٹم ہوتی ہیں۔- انہی مقاصد کے لیے دور نبوی میں جنگیں لڑی گئی تھیں اور یہ سب فتنہ ہی کی مختلف شکلیں ہیں۔ ان میں سے ایک بھی شق ایسی نہیں جسے ہم کسی دنیوی مفاد کی جنگ کہہ سکیں۔ گویا اسلام میں لڑائی کے جواز کا عام قانون ظلم اور فتنہ کا استیصال ہے۔ اسلام نے جنگ کرنے کے بھی اصول بتلا دیئے ہیں اور جنگ سے رک جانے یا عدم جواز کے بھی اور مسلمانوں کو بہرحال ان پر ہی کاربند رہنا لازم ہے۔ پھر جن صورتوں میں اسلام نے جنگ کرنے کی اجازت یا حکم دیا ہے وہاں بھی یہ حکم نہیں دیا کہ جاتے ہی جنگ شروع کردو۔ بلکہ حکم یہ ہے کہ دشمن پر تین شرطیں پیش کرو۔ پہلی شرط یہ ہے کہ تم مسلمان بن جاؤ اور ہمارے بھائی بند بن کر اپنا علاقہ اور اپنی حکومت اپنے پاس رکھو۔ دوسری شرط یہ ہے کہ اسلام دشمنی چھوڑ دو اور اپنی مذہبی آزادی بحال رکھو اور اطاعت گزاری کی علامت اور دفاعی اخراجات کے طور پر جزیہ ادا کرو اور اگر یہ بھی منظور نہیں تو پھر تیسری اور آخری صورت جنگ ہے۔ ان حدود وقیود کے بعد بھی کیا یہ شبہ باقی رہ جاتا ہے کہ اسلام ایک جنگ جو مذہب ہے ؟- رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہود کی پے در پے عہد شکنیوں کی بنا پر خیبر پر چڑھائی کی تو حضرت علی (رض) کو جھنڈا دے کر فرمایا کہ اگر تمہاری تبلیغ سے ایک آدمی بھی اسلام لے آئے تو وہ تمہارے لیے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے۔ (بخاری، کتاب الجہاد۔ باب الدعاء للمشرکین بالھدی لیتا لفھم) - اس حدیث سے درج ذیل نتائج سامنے آتے ہیں۔- ١۔ یہ جنگ ناگزیر حالات میں کی گئی۔ جن کی بنیاد یہود کی پے در پے عہد شکنیاں تھیں۔- ٢۔ مسلمانوں کا جنگ سے مقصد نہ کشور کشائی ہے اور نہ لوٹ مار۔- ٣۔ مسلمانوں کے ہاں محبوب ترین مقصد یہ ہے کہ لوگ اپنی رضا ورغبت سے اسلام لے آئیں۔ اور اگر یہ نہیں کرسکتے تو پھر کم از کم اسلام دشمنی چھوڑ دیں۔- اور اگر یہ بھی نہیں کرسکتے تو آخری چارہ کار کے طور پر جنگ کی اجازت دی گئی ہے اور ایسے بدعہد اور ہٹ دھرم قسم کے لوگوں سے جنگ کرنا لازم ہوجاتا ہے۔- [٢٥٦] ایسی رکاوٹیں ختم ہونے یا ان پر غلبہ پانے کے بعد بھی صرف ایسے آدمیوں کو سزا دینے کی اجازت ہے جو مسلمانوں پر جبر و تشدد کرنے اور انہیں ختم کردینے میں حد درجہ آگے بڑھے ہوئے یا سازشیں کرتے رہے تھے۔ جیسا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جنگ بدر کے قیدیوں میں سے عقبہ بن ابی معیط اور نضر بن حارث کو قتل کروا دیا اور باقی قیدیوں کو فدیہ لے کر چھوڑ دیا جیسے فتح مکہ کے موقع پر عفو عام کے باوجود آپ نے چار آدمیوں کو قتل کردینے کا حکم دیا تھا، یہ چاروں اشتہاری مجرم تھے۔ ان میں سے ایک عبداللہ بن خطل تھا جو تین ایسے جرائم میں ملوث تھا جن کی سزا اسلام میں قتل ہے اور وہ تین جرائم یہ تھے (١) وہ اسلام سے پھر گیا تھا (٢) اس نے خون ناحق کیا تھا اور (٣) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہجو کرتا تھا۔ یعنی توہین رسالت کا مجرم تھا۔ چناچہ انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ فتح مکہ کے دن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سر پر خود پہنے ہوئے مکہ میں داخل ہوئے۔ جب آپ نے خود اتارا تو ایک شخص کہنے لگا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عبداللہ بن خطل کعبہ کا پردہ پکڑے ہوئے لٹک رہا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اسے قتل کردو۔ (بخاری، کتاب المغازی، باب این رکز النبی الرایہ یوم الفتح) - ایسے اشتہاری مجرموں کی مکہ بلکہ کعبہ میں قتل کی دو ہی وجوہ ہوسکتی ہیں۔ ایک یہ کہ شاید یہ وہی ساعت ہو جس کے متعلق آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا۔ مکہ میرے لیے حلال کیا گیا ہے وہ بھی صرف چند ساعت کے لیے، وہ پہلے بھی ارض حرم تھا اور بعد میں تاقیامت ارض حرم ہی رہے گا اور دوسری یہ کہ ایسے اشتہاری مجرم کو کعبہ کی حرمت بھی پنا نہیں دے سکتی۔ واللہ اعلم بالصواب۔
یعنی ان سے اس وقت تک لڑتے رہو جب تک فتنہ (شرک اور اس پر مجبور کرنے کے لیے ظلم و ستم) کا ہر طرح سے قلع قمع نہیں ہوتا اور اللہ کا دین ہر طرح سے غالب نہیں آجاتا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمام لوگوں سے جنگ کروں، یہاں تک کہ وہ اس بات کی شہادت دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں، پھر جب وہ یہ کام کرلیں تو انھوں نے اپنے خون اور اپنے اموال مجھ سے محفوظ کرلیے مگر اسلام کے حق کے ساتھ اور ان کا حساب اللہ پر ہے۔ “ [ بخاری، الإیمان، باب ( فإن تابوا وأقاموا۔۔ ) : ٢٥ ] - اِلَّا عَلَي الظّٰلِمِيْنَ ) یعنی اگر یہ شرک سے یا مسلمانوں کے ساتھ لڑائی سے باز آجائیں تو اس کے بعد جو شخص ان سے جنگ کرے گا وہ ظالم ہے اور اسے اس زیادتی کی سزا ملے گی۔ یہاں ” عُدْوَانَ “ کا لفظ ایسی ہی سزا کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ ( ابن کثیر) دوسرا معنی یہ ہے کہ اگر وہ ظلم یعنی شرک سے باز آجائیں تو اب ان پر زیادتی جائز نہیں، کیونکہ اب وہ ظالم نہیں۔ عدوان سے مراد وہ زیادتی ہے جو مقابلے میں ہوتی ہے، جیسا کہ اگلی آیت میں ہے : (فَمَنِ اعْتَدٰى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰى عَلَيْكُمْ ۠) [ البقرۃ : ١٩٤] ” پس جو تم پر زیادتی کرے سو تم اس پر زیادتی کرو، اس کی مثل جو اس نے تم پر زیادتی کی ہے۔ “ (ابن کثیر)
وَقٰتِلُوْھُمْ حَتّٰى لَا تَكُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّيَكُوْنَ الدِّيْنُ لِلہِ ٠ ۭ فَاِنِ انْتَہَوْا فَلَا عُدْوَانَ اِلَّا عَلَي الظّٰلِـمِيْنَ ١٩٣- قتل - أصل القَتْلِ : إزالة الروح عن الجسد کالموت، لکن إذا اعتبر بفعل المتولّي لذلک يقال : قَتْلٌ ، وإذا اعتبر بفوت الحیاة يقال : موت . قال تعالی: أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144] - ( ق ت ل ) القتل - ( ن ) الموت کی طرح اس کے معنی بھی جسم سے روح کو زائل کرنے کے ہیں لیکن موت اور قتل میں فرق یہ ہے کہ اگر اس فعل کو سرا انجام دینے والے کا اعتبار کیا جائے تو اسے قتل کہا جاتا ہے اور اگر صرف روح کے فوت ہونے کا اعتبار کیا جائے تو اسے موت کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں قرآن میں ہے : ۔ أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144]- دين - والدِّينُ يقال للطاعة والجزاء، واستعیر للشریعة، والدِّينُ کالملّة، لكنّه يقال اعتبارا بالطاعة والانقیاد للشریعة، قال إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران 19]- ( د ی ن ) دين - الدین کے معنی طاعت اور جزا کے کے آتے ہیں اور دین ملت کی طرح ہے لیکن شریعت کی طاعت اور فرمانبردار ی کے لحاظ سے اسے دین کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران 19] دین تو خدا کے نزدیک اسلام ہے ۔- عُدْوَانِ- ومن العُدْوَانِ المحظور ابتداء قوله : وَتَعاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوى وَلا تَعاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوانِ [ المائدة 2] ، ومن العُدْوَانِ الذي هو علی سبیل المجازاة، ويصحّ أن يتعاطی مع من ابتدأ قوله : فَلا عُدْوانَ إِلَّا عَلَى الظَّالِمِينَ [ البقرة 193] - اور عدوان یعنی زیادتی کا بدلہ لینے کو بھی قرآن نے عدوان کہا ہے حالانکہ یہ جائز ہے جیسے فرمایا : ۔ فَلا عُدْوانَ إِلَّا عَلَى الظَّالِمِينَ [ البقرة 193] تو ظالموں کے سوا کسی پر زیادتی نہیں کرنی چاہئے ۔- ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں
قول باری (وقاتلوھم حتی لاتکون فتنۃ ویکون الدین للہ) کافروں سے قتال کی فرضیت کو ضروری قرار دیتا ہے حتیٰ کہ وہ کفر سے باز آ جائیں ۔ حضرت ابن عباس، قتادہ، مجاہد اور ربیع بن انس کا قول ہے کہ یہاں فتنہ سے مراد شرک ہے۔ ایک قول ہے کہ کفر کو اس لئے فتنہ کہا گیا ہے کہ یہ انسان کو ہلاکت تک لے جاتا ہے جس طرح فتنہ انسان کو ہلاکت کی راہ دکھاتا ہے۔- ایک قلو یہ بھی ہے کہ فتنہ سے مراد آزمائش ہے اور کفر سے مراد آزمائش کی گھڑی میں اظہار فساد ہے۔ دین کے معنی طاعات کے ذریعے اللہ کے سامنے جھک جانے اور فرماں برداری بجا لانے کے ہیں۔ لغت میں دین کا مفہوم دو معنوں میں منقسم ہے۔ اول انقیاد یعنی فرماں برداری۔ اعشیٰ کا شعر ہے۔- ھودان الدباب اذکر ھوالدب ن درا کا بغروۃ وصیال - ثم دانت بعد الرباب وکانت کعذاب عقوبۃ الاقوال - جب لوگوں نے جنگوں اور حملوں کے لگاتار سلسلے کے سامنے خود سپردگی کو ناپسند کیا تو اس نے اپنی محبوبہ رباب کی فرماں برداری اختیار کرلی اس کے بعد رباب نے اس کی فرما برداری اختیار کی لیکن وہ منہ سے نکالے ہوئے الفاظ کے نتیجے میں ملنے والی سزائوں والی عذاب بن گئیے۔- دوم۔ عادت ۔ شاعر کا شعر ہے - تقول و قدد رأت لھا وضینی اھذا دینہ ابداً و دینی - میں نے اپنا بالوں سے بنا ہوا نمدہ یا بسترہٹا لیا تو وہ کہنے لگی کیا ہمیشہ اس کی یہی عادت رہی ہے اور میری بھی۔- شریعت میں دین کا مفہوم اللہ کی دائمی طور پر فرماں برداری اور اسکے لئے خود سپردگی کی عادت ہے یہ آیت خاص طور پر مشرکین کے بارے میں ہے۔ اہل کتاب اس میں داخل نہیں ہیں۔ اس لئے کہ خطاب کی ابتداء ان مشرکین کے ذکر سے ہوئی ہے چناچہ فرمایا گیا (واقتلوھم حیث تقفتموھم واخرجوھم من حیث اخرجوکم) یہ کیفیت مشرکین مکہ کی تھی جنہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ کرام کو مکہ سے نکالا تھا اس لئے اہل کتاب اس حکم میں داخل نہیں ہیں۔- یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ مشرکین عرب سے اسلام یا تلوار کے سوا کوئی تیسری چیز قبول نہیں کی جائے گی کیونکہ قول باری ہے (وقاتلوھم حتی لاتکون فتنہ) عینی کفر باقی نہ رہے۔ اور (ویکون الدین للہ) اللہ کا دین اسلام ہے۔ - قول باری ہے (ان الدین عند اللہ الاسلام ) دین اللہ کے ہاں اسلام ہے۔ اور قول باری (فان انتھوا فلاعدوان الا علی الظالمین، اگر یہ باز آ جائیں تو ظالموں کے سوا کسی کے ساتھ زیادتی نہیں ہوگی) معنی یہ ہے کہ ان کے باز آ جانے کی صورت میں ظالموں کے سوا اور کسی کو قتل کی سزا نہیں ملے گی۔- اس سے مراد … واللہ اعلم … وہ قتل ہے جس کی ابتداء کا ذکر صوقاتلوھم) کے قول سے ہوا تھا۔ کفر کی وجہ سے مشرکین جس قتل کے سزا وار ٹھہر ی تھے اسے عدوان کا نام دیا گیا کیونکہ یہ ان کے ظلم کی سزا تھی۔ سزا کے لئے اصل جرم کا نام تجویز کیا گیا جس طرح کہ قول باری (وجزاء سیئۃ سیئۃ مثلھا، اور بدی کا بدلہ اس جیسی بدی ہے۔ )- اسی طرح (فمن اعتدیٰ علیکم فاعتدوا علیہ بمثل ما اعتدی علیکم جو شخص تم پر زیادتی کرے تو تم بھی اس کے ساتھ اسی طرح زیادتی سے پیش آئو جس طرح وہ تمہارے ساتھ پیش آیا ہے) حالانکہ بدی اور زیادتی کا بدلہ نہ بدی ہے اور نہ زیادتی ۔- ارشاد باری ہے (الشھر الحرام باشھر الحرام و الحرمات قصاص، ماہ حرام کا بدلہ ماہ حرام ہی ہے اور تمام حرمتوں کا لحاظ برابری کے ساتھ ہوگا) حسن سے مروی ہے کہ مشرکین عرب نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا کہ آیا آپ کو ماہ حرام میں ہمارے ساتھ جنگ کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اثبات میں جوا بدیا۔ مشرکین نے موقعہ غنیمت جان کر ماہ حرام میں مسلمانوں پر حملہ کرنے اور ان سے برسر پیکار ہونے کا ارادہ کرلیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔- مقصد یہ ہے کہ اگر مشرکین نے ماہ حرام میں جنگ وجدل کا دروازہ کھول دیا تو تم بھی اسی طرح ان کے مقابلے میں جنگ وجدل کا راستہ اختیار کرو۔ حضرت ابن عباس، ربیع بن انس، قتادہ اور ضحاک سے مروی ہے کہ قریش نے جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ذی قعدہ کے مہینے میں جو ماہ حرام تھا، حدیبیہ کے دن حالت احرام میں ہونے کے باوجود بلد حرام مکہ سے واپس کردیا اور پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کے لئے اسی ماہ ذی القعدہ میں مکہ میں داخل ہونے کی راہ ہموار کردی۔ آپ نے عمرہ ادا کیا اور حدیبیہ کے دن آپ کے اور مکہ کے درمیان جو رکاوٹ کھڑی کردی گئی تھی اس کا بدلہ لے لیا۔- اب یہاں آیت سے دونوں معنی مراد لینا ممتنع ہے۔ اس صورت میں ایک معنی کے لحاظ سے اس جملے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ خبر دی گئی ہے کہ مشرکین نے ماہ حرام میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بلا حرام میں داخل ہونے سے روکا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اگلے سال ماہ حرام میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بلا حرام میں لے جا کر اس کا بدلہ چکا دیا۔ اس کے ساتھ ہی آیت میں ماہ حرام کے اندر قتال کی اباحت کا مضمون بھی موجود ہے بشرطیکہ مشرکین مسلمانوں کے خلاف ایسا قدم اٹھا لیں۔- بیک وقت دونوں معنی مراد لینا اس لئے ممتنع ہے کہ ایک ہی لفظ بیک وقت امر اور خبر نہیں بن سکتا اور جب ایک معنی مراد ہ گا دوسرے معنی کی خود بخود نفی ہوجائے گی۔ البتہ اس کی گنجائش ہے کہ ماہ حرام میں کفار کی رکاوٹ کی وجہ سے فوت شدہ عمرے کے بدلے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اگلے سال ماہ حرام میں جو عمرہ کرا دیا تھا آیت میں اس کی خبر دی جا رہی ہے اور بدلے میں آنے والے ماہ حرام کی حرمت اسی طرح ہے جس طرح فوت شدہ ماہ حرام کی حرمت تھی۔- اسی واسطے فرمایا (والحرمات قصاص) اور تمام حرمتوں کا لحاظ برابری کے ساتھ ہوگا۔ اور اس کے بعد ہی فرمایا (فمن اعتدی علیکم فاعتدوا علیہ بمثل ما اعتدی علیکم) لہٰذا جو تم پر دست درازی کرے تم بھی اسی طرح اس پر دست درازی کرو) اللہ نے یہ بتادیا کہ اگر مشرکین ماہ حرام میں جنگ کا دروازہ کھولیں تو مسلمان بھی ایسا ہی کریں اگرچہ مسلمانوں کو اس کی ابتداء کرنے کی اجازت نہیں تھی۔- آیت میں بدلے کا نام بھی اعتداء رکھا گیا اس لئے اعتداء کا بدلہ اپنے جنس اور اس مقدار کے لحاظ سے جس کا وہ سزا وار ہوتا ہے ، اعتداء کی طرح ہوتا ہے۔ اس بنا پر مجازی طور پر بدلہ کو اعتداء کا نام دے دیا گیا اس لئے کہ زیادتی کرنے والا حقیقت میں ظالم ہوتا ہے اس بنا پر یہاں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ مسلمانوں کو ظلم کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے۔- آیت میں اس بارے میں عموم ہے کہ جو شخص کسی دوسرے کا مال استعمال میں لا کر ختم کر دے تو اس پر اس کا مثل واجب ہوگا۔ پھر اس مثل کی دو صورتیں ہیں۔ جنس میں مثل ہونا اور یہ بات ان چیزوں میں ہوتی ہے جو ناپ، تول اور گنتی کے ضمن میں آتی ہوں اور قیمت میں مثل ہوں اس لئے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک غلام کے جھگڑے میں جو دو شخصوں کی ملکیت میں تھا پھر ایک نے جو خوشحال تھا اسے آزاد کردیا۔ “ یہ فیصلہ دیا کہ آزاد کرنے والا تاوان کے طور پر دوسرے کو غلام کی نصف قیمت ادا کرے۔- آپ نے اعتداء یعنی زیادتی کی وجہ سے لازم ہونے والے مثل کو قیمت کی شکل دی۔ اس لئے اس باب میں اس کی حیثیت اصل کی ہوگی۔ اور اس سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ مثل کا اطلاق قیمت پر بھی ہوتا ہے اور یہ اس کے لئے اسم بنتا ہے۔ - نیز اس پر بھی دلالت ہو رہی ہے کہ مثل کا اطلاق کبھی اس چیز کے لئے اسم کے طور پر بھی ہوتا ہے جو اس کے جنس سے نہیں ہوتی بشرطیکہ وہ چیز اس مثل کا بدل اور مقدار میں اس کی نظیر بن سکتی ہو۔ اس کے لئے یہ صورت پیش کی جاسکتی ہے کہ جس شخص نے دوسرے کے ساتھ اس پر زنا کی تہمت لگا کر زیادتی کی تو اس صورت میں اس کے مثل یہ سزا نہیں ہ گی کہ اس پر بھی اسی قسم کی تہمت لگا دی جائے۔ بلکہ وہ جس مثل ک امستحق ہوگا وہ اسی کوڑے ہوں گے جو اسے لگائے جائیں گے۔- اسی طرح وہ اگر کسی کو ایسی گالی دے جو تہمت سے کم ہو تو اسے تعزیری سزا دی جائے گی۔ یہ تعزیری سزا اس کے جرم کا مثل ہوگی۔ اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ مثل کے اسم کا اطلاق کبھی ایسی چیز پر بھی ہوتا ہے جو اس کے جنس میں سے نہیں ہوتی لیکن اس کا بدل اور عائد ہونے والی سزا کی مقدار میں اس کی نظیر بن سکتی ہو۔- اس سے اس مسئلے میں بھی استدلال کیا جاسکتا ہے جس میں کوئی شخص کسی کی ساگوان کی لکڑی غصب کر کے اپنی عمارت میں لگا دے تو اس پر اس لکڑی کی قیمت عائد ہوگی اس لئے کہ قیمت پر مثل کے اسم کا اطلاق ہوتا ہے چونکہ غاصب نے یہ لکڑی غصب کر کے زیادتی کی ہے اس لئے اس پر عموم حق کی وجہ سے اس کا مثل عائد ہوگا یعنی اسے لکڑی کی قیمت دینی پڑے گی۔- اگر یہ کہا جائے کہ ہم اس شخص کا مکان گرا کر اگر غصب شدہ لکڑی نکال لیں تو ایسی صورت میں ہماری طر سے اس پر اتنی ہی زیادتی ہوگی جتنی اس نے ہم پر کی تھی اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ غاصب سے اپنی مملوکہ چیز بعینہ واپس لے لینا اس کے ساتھ زیادتی نہیں ہے جس طرح کہ ایک شخص کے پاس رکھی ہوئی امانت کی واپسی اس شخص کے ساتھ زیادتی نہیں کہلاتی۔- زیادتی تو اس صورت میں ہوگی جبکہ وہ چیز غاصب کی ملکیت سے اسی طرح نکال لی جائے جس طرح اس نے نکالی تھی یا اس چیز پر اس کا قبضہ اسی طرح ختم کر ا دیا جائے جس طرح اس نے اصل مالک کا قبضہ ختم کرا دیا تھا۔ لیکن اگر مالک اپنی مملوکہ چیز بعینہ واپس حاصل کرلیتا ہے تو وہ کسی کے ساتھ زیادتی نہیں کرتا اور نہ ہی اس میں مثل واپس ہوتا ہے۔- اس سے اس مسئلے میں بھی استدلال کیا جاسکتا ہے کہ قصاص کی جن صورتوں میں مماثلت اور مساوات ممکن ہو ان میں پورا پورا قصاص واجب ہوتا ہے اور ان صورتوں میں نہیں ہوتا جہاں مماثلت ممکن نہیں ہوتی مثلاً نصف باز و قطع کردینے یا پیٹ اور سر پر زخم لگانے کے جرم میں قصاص ساقط ہوجاتا ہے اس لئے کہ ان صورتوں میں مماثلت متعذر ہوتی ہے اور ان کے مثل کی پوری وصول محال ہوتی ہے۔- امام ابوحنیفہ نے اسی اصول کی بنا پر یہ استدلال کیا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کا ہاتھ کاٹ دے اور پھر اسے قتل کر دے تو مقتول کے ولی کو یہ حق پہنچنا ہے کہ وہ قاتل کو بھی اسی طریقے سے قتل کر دے کیونکہ قول باری ہے (فمن اعتدی علیکم فاعتدوا علیہ بمثل ما اعتدی علیکم) آیت کا مقتضی یہ ہے کہ قاتل کے ساتھ بھی وہی سلوک ہونا چاہیے جو اس نے مقتول کے ساتھ کیا تھا۔- ارشاد باری ہے (وانفقوا فی سبیل اللہ ولا تلفوا بایدیکم الی التھلکۃ، اللہ کے راستے میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں سے اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو) ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اس آیت کی تفسیر میں بہت سے اقوال ہیں۔ ایک وہ ہے جس کی روایت ہمیں محمد بن بکر نے کی، انہیں ابودائود نے ، انہیں احمد بن عمرو بن السرح نے ، انہیں ابن وہب نے حیوۃ بن شریح سے اور ابن لھیعہ نییزید بن ابی حبیب سے ان دونوں نے اسلم ابو عمران سے وہ کہتے ہیں کہ ہم نے قسطنطنیہ پر حملہ کیا، عبدالرحمٰن بن ولید ہمارے سالار تھے ادھر رومی ہمارے مقابلے پر اس طرح آئے کہ انہوں نے اپنی پشت کو شہر کی دیوار سے چپکائے رکھا تھا ہمارے ایک آدمی نے دشمن پر حملہ کردیا، لوگوں نے اس سے رک جانے کے لئے کہا کہ یہ تو اپنے ہاتھوں سے اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال رہا ہے۔- لوگوں کا اشارہ آیت (ولا تلقوا بایدفکم الی التھلکۃ) کی طرف تھا، حضرت ابو ایوب انصاری نے یہ سن کر فوراً محسوس کیا کہ لوگوں نے آیت کو بےمحل استعمال کیا ہے۔ اس لئے آپ نے ان کی تصحیح کرتے ہوئے فرمایا کہ اس آیت کا نزول ہم انصار مدینہ کے سلسلے میں ہوا تھا بات یہ ہوئی کہ جب اللہ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نصرت فرمائی اور اپنے دین اسلام کو غلبہ عطا کیا تو ہم نے کہا کہ اب اسلام کے لئے زیادہ جدوجہد کی ضرورت نہیں ہے کیوں نہ ہم اپنے مال و اسباب میں مصروف ہو کر ان کی دیکھ بھال کریں۔- اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (وانفقوا فی سبیل اللہ ولا تلقوا بایدکم الی التھلکۃ) اپنے ہاتھوں سے اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنے کاروبار اور مال و اسباب میں مصروف ہو کر ان کی فکر میں لگ جائیں اور جہاد چھوڑ بیٹھیں۔ ابو عمران کہتے ہیں کہ حضرت ابو ایوب انصاری مسسلل جہاد کرتے رہے حتیٰ کہ آپ کا وہیں انتقال ہوگیا اور قسطنطنیہ میں مدفون ہوئے حضرت ابو ایوب انصاری نے یہ بتایا کہ ہلاکت میں ڈالنے کا مطلب ترک جہاد ہے اور آیت کا نزول اسی سلسلے میں ہوا تھا۔- حضرت ابن عباس، حضرت عذیفہ، حسن بصری، قتادہ، مجاہد اور ضحاک سے بھی سی طرح کی روایت ہے۔ حضرت براء بن عاذب اور عبیدہ سلمانی سے اس آیت کی تفسیر میں مروی ہے کہ ہلاکت میں ڈالنے کا مطلب معاصی کے ارتکاب پر بخشش سے مایوسی ہے۔ ایک روایت ہے کہ اس کا مطلب خرچ میں اسراف ہے۔ یہاں تک کہ اس کے پاس کھانے پینے کی کوئی چیز باقی نہ رہ جائے اور فاقہ کشی میں اپنی جان گنوا بیٹھے ۔ ایک قول ہے کہ اس سے مراد دشمنوں کی صفوں میں اندھا دھند گھس پڑنا کہ جس سے دشمن کا کوئی نقصان تو نہ ہو لیکن اپنی جان چلی جائے۔ آیت کی یہ تاویل ان لوگوں نے کی تھی جنہیں حضرت ایوب انصاری نے ان کی غلطی سے آگاہ کر کے اصل شان نزول کی خبر دی تھی۔- اگر آیت سے درج بالا تمام معانی مراد لئے جائیں تو اس میں قباحت نہیں ہے کیونکہ آیت کے الفاظ میں ان سب کا احتمال موجود ہے اور چونکہ ان معانی کا آپس میں کوئی تضادیا منافاقت نہیں ہے اس لئے ان سب کا بیک وقت اجتماع جائز ہے۔- امام محمد بن الحسن شیبانی نے سیر کبیر میں بیان کیا ہے کہ اگر ایک مسلمان تن تنہا دشمن کے ایک ہزار افراد پر حملہ آور ہو جائیتو اس پر کوئی حرج نہیں بشرطیکہ اس مجاہد کے دل میں بذریعہ شہادت اپنی نجات یا بذریعہ شجاعت دشمن کو نقصان پہنچانے کا جذبہ موج زن ہو۔ اگر ان میں سے کوئی جذبہ بھی کار فرما نہ ہو تو میرے نزدیک اس کا یہ اقدام مکروہ ہوگا اس لئے کہ وہ اپنی جان ہلاکت میں ڈالے گا اور اس سے مسلمانوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔- ایک انسان کو یہ قدم اسی وقت اٹھانا چاہیے جبکہ اسے اپنی نجات یا مسلمانوں کی منفعت مقصود ہو۔ اگر اسے نہ تو نجات کا طمع ہو نہ ہی دشمن کو نقصان پہنچانے کا جذبہ بلکہ وہ یہ قدم محض مسلمانوں میں حوصلہ اور جرأت پیدا کرنے کے لئے اٹھا رہا ہو تاکہ اس کی دیکھا دیکھی دوسرے مسلمان بی ایسا ہی قدم اٹھائیں اور یا تو دشمنوں کو نقصان پہنچائیں یا خود جام شہادت نوش کرلیں، تو ایسی صورت میں انشاء اللہ کوئی حرج نہیں ہے۔ کیونکہ اگر اسے صرف دشمن کے ہاتھوں نقصان پہنچانے کا جذبہ یہ اس اقدام پر ابھارت ا اور اپنی نجات کا اسے کوئی خیال نہ ہوتا تو بھی اس کا دشمن پر حملہ کرنا میرے نزدیک کوئی غلط بات نہ ہوتی۔- ٹھیک اسی طرح اگر وہ دشمن کی صفوں میں گھس کر دوسروں کو نقصان پہنچانے کا جذبہ لے کر حملہ آور ہوتا ہے تو میرے نزدیک اس کا بھی یہی حکم ہے اور مجھے امید ہے کہ وہ اجر کا مستحق ہوگا مگر وہ صورت وہ ہوگی جبکہ اس کے اس اقدام میں منفعت کی کوئی بھ صورت نہ پائی جائے۔ اگر سا کے دل میں صرف دشمنوں کو مرعوب کرنے کا جذبہ ہو تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں کیونکہ یہ دشمن کو نقصان پہنچانے کی بہترین شکل ہے اور اس میں مسلمانوں کے لئے منفعت کا پہلو بھی موجود ہے۔- امام محمد نے فرد واحد کے حملے کی جتنی صورتیں بتائی ہیں وہی صورتیں درست ہیں۔ ان کے علاوہ اور کوئی صورت درست نہیں ہے اور ان ہی صورتوں پر ا نلوگوں کی تاویل کو محمول کیا جائے گا جن ہوں نے حضرت ابو ایوب انصاری کی حدیث میں اس شخص پر اس آیت کے مفہوم کو چسپاں کیا تھا جو تن تنہا دشمنوں پر حملہ کرنے کی نیت سے نکل کھڑا ہوا تھا۔ کیونکہ ان کے نزدیک اس شخص کے اس اقدام کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔- اس لئے ایسی صورت میں اسے اپنی جان تلف نہیں کرنی چاہیے تھی اس سے نہ دین کو کوئی فائدہ پہنچتا نہ مسلمانوں کو۔ اگر اس کی جان جانے کی صورت میں دین کو کوئی نفع ہوتا تو یہ تو ایسا مرتبہ و مقام ہے جس کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی متعدد بار تعریف فرمائی۔- ارشاد باری ہے (ان اللہ اشتری من المئومنین انفسھم واموالھم بان لھوا الجنۃ یقاتلون فی سبیل اللہ فیقتلون ویقتلون) اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے ان کی جان و مال کی خرید داری کرلی ہے کہ انہیں اس کے بدلے میں جنت ملے گی وہ اللہ کے راستے میں جنگ کرتے ہیں اور پھر دشمنوں کو قتل بھی کرتے ہیں اور ان کے ہاتھوں قتل بھی ہوتے ہیں۔ )- اسی طرح ایک اور جگہ ارشاد ہے (ولا تحسبن الذین قتلوا فی سبیل اللہ امواتاً بل احیاء عند ربھم یرزقون اور تم ان لوگوں کو ہرگز مردہ مت سمجھو جو اللہ کے راستے میں قتل ہوئے بلکہ وہ زندہ ہیں اور انہیں اپنے رب کی طرف سے رزق مل رہا ہے۔ )- ایک اور جگہ ارشاد ہے (ومن الناس من یشری نفسہ ابتغاء مرضات اللہ اور لوگوں میں ایسے بھی ہیں جو اللہ کی رضا کے حصول کی خواہش میں اپنی جان کا سودا کر لیت یہیں) ان آیات اور ان جیسی دوسری آیات میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی مدح کی ہے جو اللہ تعالیٰ کے لئے اپنی جان دے دیتے ہیں۔- ام بالمعروف اور نہی عن المنکر کا حکم بھ یہی ہونا چاہیے کہ اگر کسی کو اس کام سے دین کو فائدہ پہنچنے کی امید ہو اور پھر وہ اس کام پر اپنی جان لگائے یہاں تک کہ اپنی زندگی بھی اس پر قربان کر دے تو وہ شہادت کے اعلیٰ مراتب پر فائز ہوجائے گا۔ قول باری ہے (وامر بالمعروف وانہ عن المنکر واصبر علی ما اصابک ان ذلک من عزم الامور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کریں اور اس س لسلے میں پہنچنے والی تکلیفوں کو صبر کے سات ھ برداشت کریں۔ بیشک یہ بڑے پختہ ارادے اور حوصلے کا کام ہے۔- عکرمہ کے واسطے سے حضرت ابن عباس سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ حدیث مروی ہے کہ آپ نے فرمایا (افضل الشھداء حمزۃ بن عبدالمطلب ورجل تکلم بکلمۃ حق عند سلطان جائز فقتلہ، تمام شہیدوں میں سب سے افضل حمزہ بن عبدالمطلب ہیں نیز وہ شخص بھی ہے جس نے کسی ظالم سلطان کے سامنے حق بات کہہ دی اور اس وجہ سے سلطان نے اس کی گردن اڑا دی)- حضرت ابو سعید خدری (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا (افضل الجھاد کلمۃ حق عند سلطان جائز، ظالم بادشاہ کے سامنے کلمہ حق کہنا بہترین جہاد ہے) محمد بن بکر نے ہمیں روایت کی، انہیں ابو دائود نے ، انہیں عبداللہ بن الجراح نے عبداللہ بنیزید سے، انہوں نے موسیٰ بن علی بن رباح سے، انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے عبدالعزیز بن مروان سے کہ میں نے حضرت ابوہریرہ کو یہ فرمایت ہوئے سنا تھا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا کہ (شوما فی الرجل شح ھالع و جین خالع، ایک انسان میں بدترین چیز غم اگنیز شدت بخل اور قدم اکھاڑ دینے الی بزدلی ہے۔ )- بزدل کی مذمت سے بہادری اور جان بازی کے اقدام کی تعریف کا پہلو نکلتا ہے۔ ایسی بہادری اور جان بازی جس سے دین کو فائدہ پہنچنے اگرچہ خود اسے اپنی ہلاکت کا یقین ہو۔ واللہ اعلم بالصواب
(١٩٣) اور جب ان کی طرف سے قتل کی پہل ہو تو پھر حرم میں ان کے ساتھ اس قدر قتال کرو کہ حرم کے اندر شرک کا نام ونشان مٹ جائے اور اسلام اور اظہار بندگی اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہوجائے۔- اور اگر یہ کفار حرم میں لڑائی کرنے سے باز آجائیں تو پھر قتل کرنے کی کوئی اجازت نہیں مگر صرف وہ لوگ جو خود سے لڑائی کی پہل کریں۔
آیت ١٩٣ (وَقٰتِلُوْہُمْ حَتّٰی لاَ تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّیَکُوْنَ الدِّیْنُ لِلّٰہِ ط) ( فَاِنِ انْتَہَوْا فَلاَ عُدْوَان الاَّ عَلَی الظّٰلِمِیْنَ ) - دعوت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ضمن میں اب یہ جنگ کا مرحلہ شروع ہوگیا ہے۔ مسلمانو جان لو ‘ ایک دوروہ تھا کہ بارہ تیرہ برس تک تمہیں حکم تھا (کُفُّوْا اَیْدِیَکُمْ ) اپنے ہاتھ باندھے رکھو ماریں کھاؤ لیکن ہاتھ مت اٹھانا۔ اب تمہاری دعوت اور تحریک نئے دور میں داخل ہوگئی ہے۔ اب جب تمہاری تلواریں نیام سے باہر آگئی ہیں تو یہ نیام میں نہ جائیں جب تک کہ فتنہ بالکل ختم نہ ہوجائے اور دین اللہ ہی کے لیے ہوجائے ‘ اللہ کا دین قائم ہوجائے ‘ پوری زندگی میں اس کے احکام کی تنفیذ ہو رہی ہو۔ یہ آیت دوبارہ سورة الانفال میں زیادہ نکھری ہوئی شان کے ساتھ آئی ہے : (وَقَاتِلُوْہُمْ حَتّٰی لاَ تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّیَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ ج) (آیت ٣٩) اور جنگ کرو ان سے یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین کل کا کُل اللہ کے لیے ہوجائے۔ دین کی بالادستی جزوی طور پر نہیں بلکہ کلی طور پر پوری انسانی زندگی پر قائم ہوجائے ‘ انفرادی زندگی پر بھی اور اجتماعی زندگی پر بھی۔ اور اجتماعی زندگی کے بھی سارے پہلو ‘ ( - - ) کلیُ طور پر اللہ کے احکام کے تابع ہوں۔
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :204 یہاں فتنہ کا لفظ اوپر کے معنی سے ذرا مختلف معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ سیاق و سباق سے صاف ظاہر ہے کہ اس مقام پر ” فتنے“ سے مراد وہ حالت ہے جس میں دین اللہ کے بجائے کسی اور کے لیے ہو ، اور لڑائی کا مقصد یہ ہے کہ یہ فتنہ ختم ہو جائے اور دین صرف اللہ کے لیے ہو ۔ پھر جب ہم لفظ”دین“ کی تحقیق کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ عربی زبان میں دین کے معنی” اطاعت“ کے ہیں اور اصطلاحاً اس سے مراد وہ نظام زندگی ہے جو کسی کو بالا تر مان کر اس کے احکام و قوانین کی پیروی میں اختیار کیا جائے ۔ پس دین کی اس تشریح سے یہ بات خود واضح ہو جاتی ہے کہ سوسائٹی کی وہ حالت ، جس میں بندوں پر بندوں کی خدائی و فرماں روائی قائم ہو ، اور جس میں اللہ کے قانون کے مطابق زندگی بسر کرنا ممکن نہ رہے ، فتنے کی حالت ہے اور اسلامی جنگ کا مطمح نظریہ ہے کہ اس فتنے کی جگہ ایسی حالت قائم ہو ، جس میں بندے صرف قانون الہٰی کے مطیع بن کر رہیں ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :205 باز آجانے سے مراد کافروں کا اپنے کفر و شرک سے باز آجانا نہیں ، بلکہ فتنہ سے باز آجانا ہے ۔ کافر ، مشرک ، دہریے ، ہر ایک کو اختیار ہے کہ اپنا جو عقیدہ رکھتا ہے ، رکھے اور جس کی چاہے عبادت کرے یا کسی کی نہ کرے ۔ اس گمراہی سے اس کو نکالنے کے لیے ہم اسے فہمائش اور نصیحت کریں گے مگر اس سے لڑیں گے نہیں ۔ لیکن اسے یہ حق ہرگز نہیں ہے کہ خدا کی زمین پر خدا کے قانون کے بجائے اپنے باطل قوانین جاری کرے اور خدا کے بندوں کو غیر از خدا کسی کا بندہ بنائے ۔ اس فتنے کو دفع کرنے کے لیے حسب موقع اور حسب امکان ، تبلیغ اور شمشیر ، دونوں سے کام لیا جائے گا اور مومن اس وقت تک چین سے نہ بیٹھے گا ، جب تک کفار اپنے اس فتنے سے باز نہ آجائیں ۔ اور یہ جو فرمایا کہ اگر وہ باز آجائیں ، تو ”ظالموں کے سوا کسی پر دست درازی نہ کرو“ ، تو اس سے یہ اشارہ نکلتا ہے کہ جب نظام باطل کی جگہ نظام حق قائم ہو جائے ، تو عام لوگوں کو تو معاف کر دیا جائے گا ، لیکن ایسے لوگوں کو سزا دینے میں اہل حق بالکل حق بجانب ہوں گے ، جنہوں نے اپنے دور اقتدار میں نظام حق کا راستہ روکنے کے لیے ظلم و ستم کی حد کر دی ہو ، اگرچہ اس معاملے میں بھی مومنین صالحین کو زیب یہی دیتا ہے کہ عفو و درگزر سے کام لیں اور فتحیاب ہو کر ظالموں سے انتقام نہ لیں ۔ مگر جن کے جرائم کی فہرست بہت ہی زیادہ سیاہ ہو ان کو سزا دینا بالکل جائز ہے اور اس اجازت سے خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فائدہ اٹھایا ہے ، جن سے بڑھ کر عفو و درگزر کسی کے شایان شان نہ تھا ۔ چنانچہ جنگ بدر کے قیدیوں میں سے ععقبہ بن ابی معیط اور نضر بن حارث کا قتل اور فتح مکہ کے بعد آپ کا ۱۷ آدمیوں کو عفو عام سے مستثنیٰ فرمانا اور پھر ان میں سے چار کو سزائے موت دینا اسی اجازت پر مبنی تھا ۔
123: یہاں یہ بات سمجھنے کی ہے کہ جہاد کا اصل مقصد کسی کو اسلام پر مجبور کرنا نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ عام حالات میں کوئی شخص کفر پر اصرار کرے تب بھی جزیہ کے ذریعے اسلامی حکومت کے قوانین کی اطاعت کرکے اپنے مذہب پر قائم رہ سکتا ہے، لیکن جزیرۂ عرب کا حکم مختلف ہے، یہ وہ ملک ہے جہاں رسول کریمﷺ کو براہ راست بھیجا گیا اور جہاں کے لوگوں نے آنحضرتﷺ کے معجزات اپنی آنکھوں سے دیکھے اور آپﷺ کی تعلیمات براہ راست سنیں، ایسے لوگ اگر ایمان نہ لائیں تو پچھلے انبیاء علیہم السلام کے زمانوں میں انہیں عذاب عام کے ذریعے ہلاک کیا گیا، آنحضرتﷺ کے زمانے میں عذاب عام موقوف فرما دیا گیا، لیکن یہ حکم دیا گیا کہ جزیرۂ عرب میں کوئی کافر مستقل شہری کی حیثیت میں نہیں رہ سکتا، یہاں اس کے لئے تین ہی راستے ہیں یا اسلام لائے یا جزیرۂ عرب سے باہر چلاجائے یا جنگ میں قتل ہوجائے۔