خلاصہ تفسیر :- پھر اگر (بعد شروع قتال کے بھی) وہ لوگ (یعنی مشرکین مکہ اپنے کفر سے) باز آجاویں (اور اسلام قبول کرلیں) تو ان کا اسلام بےقدر نہ سمجھا جاوے گا بلکہ) اللہ تعالیٰ (ان کے گذشتہ کفر کو) بخش دے گا اور (مغفرت کے علاوہ بیشمار نعمتیں دے کر ان پر) مہربانی (بھی) فرمادیں گے اور (اگر وہ لوگ اسلام نہ لاویں تو اگرچہ دوسرے کفار کے لئے اسلامی قانون یہ ہے کہ وہ اپنے مذہب پر رہتے ہوئے بھی اگر اسلامی حکومت کی اطاعت اور جزیہ دینے کا اقرار کرلیں تو ان کا قتل جائز نہیں رہتا بلکہ ان کے حقوق کی حفاظت اسلامی حکومت پر لازم ہوجاتی ہے مگر یہ خاص کفار چونکہ اہل عرب ہیں ان کے لئے قانون جزیہ نہیں بلکہ ان کے لئے صرف دو راستے ہیں اسلام یا قتل اس واسطے) ان کے ساتھ اس حد تک لڑو کہ (ان میں) فساد عقیدہ (یعنی شرک) نہ رہے اور انکا دین (خالص) اللہ ہی کا ہوجائے (اور کسی کا دین و مذہب کا خالصا اللہ کے لئے ہوجانا موقوف ہے قبول اسلام پر تو حاصل یہ ہوا کہ شرک چھوڑ کر اسلام اختیار کرلیں) اور اگر وہ لوگ (کفر سے) باز آجاویں (جس کا ذکر ابھی ہوا ہے) تو (آخرت میں مغفرت و رحمت کے مستحق ہونے کے ساتھ دنیا میں ان کے لئے تم کو یہ قانون بتلایا جاتا ہے کہ سزا کی) سختی کسی پر نہیں ہوا کرتی بجز بےانصافی کرنے والوں کے (جو براہ بےانصافی خدائی احسانات کو بھول کر کفر و شرک کرنے لگیں اور جب یہ لوگ اسلام لے آئے تو بےانصاف نہ رہے لہذا ان پر سزائے قتل کی سختی نہ رہی اور مسلمانو تم کو جو یہ خیال ہے کہ کفار مکہ اگر اپنے عہد پر قائم نہ رہے تو شہر حرام یعنی ذی قعدہ میں ان سے لڑنا پڑے گا سو اس سے بھی بےفکر رہو کیونکہ) حرمت والا مہینہ (تم کو قتال کفار سے مانع ہو سکتا) ہے بعوض (اس کے کہ اس) حرمت والے مہینہ کے (سبب وہ بھی تم سے قتال نہ کریں) اور وجہ یہ ہے کہ یہ حرمتیں تو عوض معاوضہ کی چیزیں ہیں (سو جو تمہارے ساتھ ان حرمتوں کی رعایت کرے تو تم بھی رعایت رکھو اور) جو تم پر (ایسی حرمتوں کی رعایت نہ کرکے) زیادتی کرے تو تم بھی اس پر زیادتی کرو جیسی اس نے تم پر زیادتی کی ہے اور (ان سب احکام مذکورہ کے برتاؤ میں) اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو (کہ کسی امر میں حد قانونی سے تجاوز نہ ہونے پاوے) اور یقین کرلو کہ اللہ تعالیٰ (اپنی عنایت و رحمت سے) ان ڈرنے والوں کے ساتھ ہوتے ہیں۔- حکم دہم انفاق فی الجہاد :- اور تم لوگ (جان کے ساتھ مال بھی) خرچ کیا کرو اللہ کی راہ (یعنی جہاد) میں اور اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں تباہی میں مت ڈالو (کہ ایسے مواقع میں جان ومال خرچ کرنے سے جبن یا بخل کرنے لگو جس کا نتیجہ تمہارا ضعیف اور مخالف کا قوی ہوجانا ہے جو کہ عین تباہی ہے) اور جو کام (کرو) اچھی طرح کیا کرو (مثلا اس موقع پر خرچ کرنا ہی دل کھول کر خوشی سے اچھی نیت کیساتھ خرچ کرو) بلاشبہ اللہ تعالیٰ پسند کرتے ہیں اچھی طرح کام کرنے والوں کو۔
فَاِنِ انْــتَہَوْا فَاِنَّ اللہَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ ١٩٢- انتهَاءُ- والانتهَاءُ : الانزجار عمّا نهى عنه، قال تعالی: قُلْ لِلَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ يَنْتَهُوا يُغْفَرْ لَهُمْ ما قَدْ سَلَفَ [ الأنفال 38] الانتھاء کسی ممنوع کام سے رک جانا ۔ قرآن پاک میں ہے : قُلْ لِلَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ يَنْتَهُوا يُغْفَرْ لَهُمْ ما قَدْ سَلَفَ [ الأنفال 38]( اے پیغمبر ) کفار سے کہہ دو کہ اگر وہ اپنے افعال سے باز آجائیں تو جو ہوچکا وہ انہیں معاف کردیاجائے گا ۔- غفر - الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285]- ( غ ف ر ) الغفر - ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ - رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین .- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، - اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] لوگو تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :203 یعنی تم جس خدا پر ایمان لائے ہو ، اس کی صفت یہ ہے کہ بدتر سے بدتر مجرم اور گناہ گار کو بھی معاف کر دیتا ہے ، جبکہ وہ اپنی باغیانہ روش سے باز آجائے ۔ یہی صفت تم اپنے اندر بھی پیدا کرو ۔ تخلّقوا باخلاق اللہ ۔ تمہاری لڑائی انتقام کی پیاس بجھانے کے لیے نہ ہو بلکہ خدا کے دین کا راستہ صاف کرنے کے لیے ہو ۔ جب تک کوئی گروہ راہ خدا میں مزاحم رہے ، بس اسی وقت تک اس سے تمہاری لڑائی بھی رہے ، اور جب وہ اپنا رویہ چھوڑ دے ، تو تمہارا ہاتھ بھی پھر اس پر نہ اٹھے ۔