Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

191۔ 1 مکہ میں مسلمان چونکہ کمزور اور منتشر تھے اس لئے کفار سے قتال ممنوع تھا ہجرت کے بعد مسلمانوں کی ساری قوت مدینہ میں جمع ہوگئی تو پھر ان کو جہاد کی اجازت دے دی گئی۔ ابتداء میں آپ صرف انہی سے لڑتے جو مسلمانوں سے لڑنے میں پہل کرتے اس کے بعد اس میں مزید توسیع کردی گئی اور مسلمانوں نے حسب ضرورت کفار کے علاقوں میں بھی جا کر جہاد کیا قرآن کریم نے (اَعْندَا) زیادتی کرنے سے منع فرمایا اس لئے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے لشکر کو تاکید فرماتے کہ خیانت، بد عہدی اور مثلہ نہ کرنا نہ بچوں اور عورتوں اور گرجوں میں مصروف عبادت کرنے والوں کو قتل کرنا۔ اسی طرح درختوں کو جلانے اور حیوانات کو بغیر کسی مصلحت کے مارنے سے بھی منع فرمایا (ابن کثیر) ۔ جس طرح کفار نے تمہیں مکہ سے نکالا تھا اسی طرح تم بھی ان کو مکہ سے نکال باہر کرو۔ چناچہ فتح مکہ کے بعد جو لوگ مسلمان نہیں ہوئے انہیں مدت معاہدہ ختم ہونے کے بعد وہاں سے نکل جانے کا حکم دے دیا گیا۔ فتنہ سے مراد کفر و شرک ہے یہ قتل سے بھی زیادہ سخت ہے اس لیے اس کو ختم کرنے کے لیے جہاد سے گریز نہیں کرنا چاہیے۔ 191۔ 2 حدود حرم میں قتال منع ہے لیکن اگر کفار اس کی حرمت کو ملحوظ نہ رکھیں اور تم سے لڑیں تو تمہیں بھی ان سے لڑنے کی اجازت ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٥٢] اب جہاں بھی موقع پیش آئے تم ان سے لڑائی کرو اور تمہارا مطمح نظر یہ ہونا چاہیے کہ جیسے انہوں نے اسلام لانے کی وجہ سے تمہیں مکہ سے نکالا تھا۔ تم بھی ان کو ان کے مشرک ہونے اور مشرک رہنے کی وجہ سے مکہ سے نکال کے دم لو، اور یہ ادلے کا بدلہ ہے۔- [٢٥٣] فتنہ کا لفظ عربی زبان میں بڑے وسیع مفہوم اور کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً مشرکین مکہ کا بیت اللہ کا متولی ہونا اور بیت اللہ میں بت رکھنا، مسلمانوں کو بیت اللہ میں نماز ادا کرنے، حتیٰ کہ داخل ہونے سے روکنا یہ سب فتنہ کے کام ہیں گویا یہاں فتنہ سے مراد مشرکین مکہ کی ہر وہ حرکت ہے جو انہوں نے دین اسلام کو روکنے کی خاطر کی تھی۔ مثلاً مسلمانوں پر ظلم و ستم اور جبر و استبداد، انہیں دوبارہ کفر پر مجبور کرنا، اگر وہ ہجرت کر جائیں تو ان کا پیچھا نہ چھوڑنا اور بعد میں ان کے اموال و جائیداد کو غصب کرلینا وغیرہ وغیرہ یہی سب باتیں فتنہ میں شامل ہیں۔ ایسی تمام باتوں کے سدباب کے لیے جہاد کرنا ضروری قرار دیا گیا۔- [٢٥٤] یعنی مکہ جائے امن ضرور ہے لیکن اگر وہ یہاں تم سے لڑائی کریں تو جوابی کاروائی کے طور پر تم بھی کرسکتے ہو۔ ازخود لڑائی کی ابتداء مکہ میں تمہاری طرف سے نہ ہونا چاہیے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ فتح کیا اور ٩ ہجری میں ابوبکر صدیق (رض) کو امیر حج بنا کر بھیجا اور انھیں سورة توبہ میں مذکور اعلان کرنے کا حکم دیا جس کے مطابق مشرکین کو چار ماہ تک مکہ میں اور سرزمین عرب میں چلنے پھرنے کی اجازت دی گئی، اس کے بعد مسلمان نہ ہونے کی صورت میں وہ جہاں ملیں انھیں قتل کرنے کا حکم دے کر جزیرۂ عرب سے نکال دیا گیا۔ دیکھیے سورة توبہ کی پہلی پانچ آیات۔ پھر یہود کو بھی پہلے مدینہ سے، پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وصیت کے مطابق عمر (رض) کے زمانے میں سر زمین عرب سے نکال دیا گیا۔ یہ سب اسی ” اَخْرِجُوْھُمْ “ کے حکم کی تعمیل تھی۔ - الْفِتْنَةُ اس کا اصل معنی آزمائش میں ڈالنا ہے، مفسرین سلف نے اس کا معنی شرک کیا ہے اور (وَالْفِتْنَةُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ ۚ ) کی تفسیر دو طرح سے کی ہے، ایک تو یہ کہ بیشک مشرکین کو قتل کرنے کا حکم بڑی سخت بات ہے، مگر وہ جس طرح شرک پر اڑے ہوئے ہیں اور مسلمانوں کو اسلام سے برگشتہ کر کے انھیں دوبارہ مشرک بنانے کے لیے ظلم و ستم کا نشانہ بنا رہے ہیں، ان کا یہ شرک کرنا اور مسلمانوں کو اس پر مجبور کرنا اس سے بھی سخت جرم ہے۔ لہٰذا اس جرم کی پاداش میں کسی اندیشے اور سوچ بچار کے بغیر انھیں بےدریغ قتل کرو، یہاں تک کہ اللہ کا دین اتنا غالب ہوجائے کہ کسی کو مسلمان ہونے والے شخص پر ظلم و ستم کرکے اسے دین سے برگشتہ کرنے کی جرأت باقی نہ رہے۔ دوسرا معنی امام طبری (رض) نے یہ کیا ہے کہ کسی مومن کو اسلام قبول کرنے پر آزمائش میں ڈالنا، یہاں تک کہ وہ اسلام سے برگشتہ ہو کر دوبارہ مشرک بن جائے، اس مومن کے لیے اس سے زیادہ تکلیف دہ اور نقصان دہ ہے کہ وہ اسلام پر قائم رہتا اور اسی پر قتل ہوجاتا (کیونکہ قتل تو ایک ہی دفعہ ہوجاتا ہے، جب کہ کفار کی طرف سے سزا اور عذاب کا سلسلہ جاری رہتا ہے) ۔ ( طبری) مجاہد (رح) کے الفاظ یہ ہیں کہ مومن کا بت پرستی کی طرف لوٹ جانا اس پر قتل ہونے سے بھی زیادہ سخت ہے۔ اس صورت میں معنی یہ ہوگا کہ بیشک ان کفار کو قتل کرنا بڑی سخت بات ہے، مگر جو معاملہ وہ مسلمانوں کے ساتھ کر رہے ہیں وہ ان کے لیے قتل ہوجانے سے بھی زیادہ تکلیف دہ ہے، تو مسلمانوں کو قتل ہوجانے سے بھی بڑی تکلیف اور آزمائش میں مبتلا کرنے کے مقابلے میں مسلمانوں کا انھیں قتل کرنا کم سخت ہے۔ (وَالْفِتْنَةُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ ۚ ) کے الفاظ میں دونوں معنی موجود ہیں اور یہ قرآن مجید کا اعجاز ہے۔- (وَلَا تُقٰتِلُوْھُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتّٰى يُقٰتِلُوْكُمْ فِيْهِ ) یعنی سرزمین مکہ حرم ہے، اس میں قتل و قتال منع ہے، مگر کفار اس میں لڑنے کی ابتدا کریں تو تمہارے لیے بھی لڑنا جائز ہے، پھر اگر وہ لڑائی کریں تو پھر تم صرف قتال (لڑائی) ہی نہیں بلکہ انھیں قتل کرو، ایسے کافروں کی یہی جزا ہے۔ ” الْكٰفِرِيْنَ “ میں الف لام عہد کا ہے، اس لیے ترجمہ ” ایسے کافروں “ کیا گیا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

وَاقْتُلُوْھُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوْھُمْ وَاَخْرِجُوْھُمْ مِّنْ حَيْثُ اَخْرَجُوْكُمْ خلاصہ تفسیر میں بیان ہوچکا ہے کہ آیت واقعہ حدیبیہ کے بعد اس وقت نازل ہوئی ہے جب صلح حدیبیہ کی شرط کے مطابق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام کے ساتھ اس عمرہ کی قضاء کے لئے سفر کا ارادہ کیا جس سے اس سے پہلے سال میں کفار مکہ نے روک دیا تھا صحابہ کرام (رض) اجمعین کو اس سفر کے وقت یہ خیال ہو رہا تھا کہ کفار کی صلح اور معاہدہ کا کچھ بھروسہ نہیں اگر وہ لوگ اس سال بھی آمادہ پیکار ہوگئے تو ہمیں کیا کرنا چاہئے اس پر آیت مذکورہ کے الفاظ نے ان کو اجازت دے دی کہ اگر وہ قتال کرنے لگیں تو تمہیں بھی اجازت ہے کہ جہاں پاؤ ان کو قتل کرو اور اگر قدرت میں ہو تو جس طرح انہوں نے مسلمانوں کو مکہ مکرمہ سے نکال دیا تھا تم بھی ان کو مکہ سے نکال دو ۔ - اور پوری مکی زندگی میں جو مسلمانوں کو کفار کے ساتھ مقاتلہ سے روکا ہوا تھا اور ہمیشہ عفو و درگذر کی تلقین ہوتی رہی تھی اس لئے صحابہ کرام کو اس آیت کے نازل ہونے سے یہی خیال تھا کہ کسی کافر کو قتل کرنا برا اور ممنوع ہے اس خیال کے ازالہ کے لئے فرمایا والْفِتْنَةُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ یعنی یہ بات اپنی جگہ صحیح ہے کہ کسی کو قتل کرنا سخت برا کام ہے مگر کفار مکہ کا اپنے کفر و شرک پر جما رہنا اور مسلمانوں کو ادائے عبادت حج وعمرہ سے روکنا اس سے زیادہ سخت وشدید ہے اس سے بچنے کے لئے ان کو قتل کرنے کی اجازت دے دیگئی ہے آیت میں لفظ فتنہ سے کفر و شرک اور مسلمانوں کو ادائے عبادت سے روکنا ہی مراد ہے (جصاص، قرطبی وغیرہ) - البتہ اس آیت کے عموم سے جو یہ سمجھا جاسکتا تھا کہ کفار جہاں کہیں ہوں ان کا قتل کرنا جائز ہے اس عموم کی ایک تخصیص آیت کے اگلے جملے میں اس طرح کردی گئی وَلَا تُقٰتِلُوْھُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتّٰى يُقٰتِلُوْكُمْ فِيْهِ یعنی مسجد حرام کے آس پاس جس سے مراد پورا حرم مکہ ہے اس میں تم ان لوگوں سے اس وقت تک قتال نہ کرو جب تک وہ خود قتال کی ابتداء نہ کریں۔- مسئلہ : حرم مکہ میں انسان کیا کسی شکاری جانور کو بھی قتل کرنا جائز نہیں لیکن اسی آیت سے معلوم ہوا کہ اگر حرم محترم میں کوئی آدمی دوسرے کو قتل کرنے لگے تو اس کو بھی مدافعت میں قتال کرنا جائز ہے اس پر جمہور فقہاء کا اتفاق ہے۔- مسئلہ : اسی آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ابتداء جہاد و قتال کی ممانعت صرف مسجدِحرام کی آس پاس حرم مکہ کے ساتھ مخصوص ہے دوسرے مقامات میں جیسے دفاعی جہاد ضروری ہے اسی طرح ابتدائی جہاد و قتال بھی درست ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاقْتُلُوْھُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوْھُمْ وَاَخْرِجُوْھُمْ مِّنْ حَيْثُ اَخْرَجُوْكُمْ وَالْفِتْنَۃُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ۝ ٠ ۚ وَلَا تُقٰتِلُوْھُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتّٰى يُقٰتِلُوْكُمْ فِيْہِ۝ ٠ ۚ فَاِنْ قٰتَلُوْكُمْ فَاقْتُلُوْھُمْ۝ ٠ ۭ كَذٰلِكَ جَزَاۗءُ الْكٰفِرِيْنَ۝ ١٩١- حيث - حيث عبارة عن مکان مبهم يشرح بالجملة التي بعده، نحو قوله تعالی: وَحَيْثُ ما كُنْتُمْ [ البقرة 144] ، وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ [ البقرة 149] .- ( ح ی ث ) حیث - ( یہ ظرف مکان مبنی برضم ہے ) اور ) مکان مبہم کے لئے آتا ہے جس کی مابعد کے جملہ سے تشریح ہوتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَحَيْثُ ما كُنْتُمْ [ البقرة 144] اور تم جہاں ہوا کرو - ثقف - الثَّقْفُ : الحذق في إدراک الشیء وفعله، ومنه قيل : رجل ثَقِفٌ ، أي : حاذق في إدراک الشیء وفعله، ومنه استعیر : المُثَاقَفَة ورمح مُثَقَّف، أي : مقوّم، وما يُثَقَّفُ به : الثِّقَاف، ويقال : ثَقِفْتُ كذا : إذا أدركته ببصرک لحذق في النظر، ثم يتجوّز به فيستعمل في الإدراک وإن لم تکن معه ثِقَافَة . قال اللہ تعالی: وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ [ البقرة 191] ، وقال عزّ وجل : فَإِمَّا تَثْقَفَنَّهُمْ فِي الْحَرْبِ [ الأنفال 57] ، وقال عزّ وجل : مَلْعُونِينَ أَيْنَما ثُقِفُوا أُخِذُوا وَقُتِّلُوا تَقْتِيلًا [ الأحزاب 61] .- ( ث ق ف ) الثقف ( س ک ) کے معنی ہیں کسی چیز کے پالینے یا کسی کام کے کرنے میں حذا وقت اور مہارت سی کام لینا ۔ اسی سے المثاقفۃ کا لفظ مستعار ہے ( جس کے معنی ہتھیاروں کے ساتھ باہم کھیلنے کے ہیں اور سیدھے نیزے کو رمح مثقف کہا جاتا ہو ۔ اور الثقاف اس آلہ کو کہتے ہیں جس سے نیزوں کو سیدھا کیا جاتا ہے ثقفت کذا کے اصل معنی مہارت نظر سے کسی چیز کا نگاہ سے اور اک کرلینا کے ہیں ۔ پھر مجاذا محض کسی چیز کے پالینے پر بولا جاتا ہے خواہ اسکے ساتھ نگاہ کی مہارت شامل ہو یا نہ ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ [ البقرة 191] اور ان کو جہان پاؤ قتل کردو ۔ فَإِمَّا تَثْقَفَنَّهُمْ فِي الْحَرْبِ [ الأنفال 57] اگر تم ان کو لڑائی میں پاؤ ۔ مَلْعُونِينَ أَيْنَما ثُقِفُوا أُخِذُوا وَقُتِّلُوا تَقْتِيلًا [ الأحزاب 61] . پھٹکارے ہوئے جہاں پائے گئے پکڑے گئے ۔ اور جان سے مار ڈالے گئے ۔- خرج - خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] ،- ( خ رج ) خرج ۔ ( ن)- خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ - فتن - أصل الفَتْنِ : إدخال الذّهب النار لتظهر جو دته من رداء ته، واستعمل في إدخال الإنسان النار . قال تعالی: يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات 13] - ( ف ت ن ) الفتن - دراصل فتن کے معنی سونے کو آگ میں گلانے کے ہیں تاکہ اس کا کھرا کھوٹا ہونا ہوجائے اس لحاظ سے کسی انسان کو آگ میں ڈالنے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات 13] جب ان کو آگ میں عذاب دیا جائے گا ۔ - شد - الشَّدُّ : العقد القويّ. يقال : شَدَدْتُ الشّيء :- قوّيت عقده، قال اللہ : وَشَدَدْنا أَسْرَهُمْ [ الإنسان 28] ،- ( ش دد ) الشد - یہ شدد ت الشئی ( ن ) کا مصدر ہے جس کے معنی مضبوط گرہ لگانے کے ہیں ۔ قرآں میں ہے - : وَشَدَدْنا أَسْرَهُمْ [ الإنسان 28] اور ان کے مفاصل کو مضبوط بنایا ۔ - عند - عند : لفظ موضوع للقرب، فتارة يستعمل في المکان، وتارة في الاعتقاد، نحو أن يقال : عِنْدِي كذا، وتارة في الزّلفی والمنزلة، وعلی ذلک قوله : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] ،- ( عند ) ظرف - عند یہ کسی چیز کا قرب ظاہر کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کبھی تو مکان کا قرب ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور کبھی اعتقاد کے معنی ظاہر کرتا ہے جیسے عندی کذا اور کبھی کسی شخص کی قرب ومنزلت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہے ۔- مَسْجِدُ- : موضع الصلاة اعتبارا بالسجود، وقوله : وَأَنَّ الْمَساجِدَ لِلَّهِ [ الجن 18] ، قيل : عني به الأرض، إذ قد جعلت الأرض کلّها مسجدا وطهورا کما روي في الخبر وقیل : الْمَسَاجِدَ : مواضع السّجود : الجبهة والأنف والیدان والرّکبتان والرّجلان، وقوله : أَلَّا يَسْجُدُوا لِلَّهِ [ النمل 25] أي : يا قوم اسجدوا، وقوله : وَخَرُّوا لَهُ سُجَّداً [يوسف 100] ، أي : متذلّلين، وقیل : کان السّجود علی سبیل الخدمة في ذلک الوقت سائغا، وقول الشاعر : وافی بها لدراهم الْإِسْجَادِعنی بها دراهم عليها صورة ملک سجدوا له . المسجد ( ظرف ) کے معنی جائے نماز کے ہیں اور آیت وَأَنَّ الْمَساجِدَ لِلَّهِ [ الجن 18] اور مسجدیں تو خدا ہی ( کی عبادت کے لئے ہیں ) میں بعض نے کہا ہے کہ مساجد سے روئے زمین مراد ہے کیونکہ آنحضرت کے لئے تمام زمین کو مسجد اور طھور بنایا گیا ہے جیسا کہ ایک حدیث میں مروی ہے اور بعض نے کہا ہے کہ مساجد سے اعضاء سجود یعنی پیشانی ناک دونوں ہاتھ دونوں زانوں اور دونوں پاؤں مراد ہیں اور آیت : ۔ أَلَّا يَسْجُدُوا لِلَّهِ [ النمل 25]( اور نہیں سمجھتے ) کہ اللہ کو ۔۔۔۔۔۔۔ سجدہ کیوں نہ کریں ۔ میں لا زائدہ ہے اور معنی یہ ہیں کہ میری قوم اللہ ہی کو سجدہ کرو ۔ اور آیت : ۔ وَخَرُّوا لَهُ سُجَّداً [يوسف 100] اور اس کے سامنے سجدہ ریز ہوگئے ۔ میں اظہار عاجزی مراد ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ مراد سجدہ خدمت ہے جو اس وقت جائز تھا اور شعر ( الکامل ) وافی بها لدراهم الْإِسْجَادِمیں شاعر نے وہ دراھم مراد لئے ہیں جن پر بادشاہ کی تصویر ہوتی تھی اور لوگ ان کے سامنے سجدہ کرتے تھے ۔- حَتَّى- حَتَّى حرف يجرّ به تارة كإلى، لکن يدخل الحدّ المذکور بعده في حکم ما قبله، ويعطف به تارة، ويستأنف به تارة، نحو : أكلت السمکة حتی رأسها، ورأسها، ورأسها، قال تعالی: لَيَسْجُنُنَّهُ حَتَّى حِينٍ [يوسف 35] ، وحَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر 5] .- ويدخل علی الفعل المضارع فينصب ويرفع،- وفي كلّ واحد وجهان :- فأحد وجهي النصب : إلى أن .- والثاني : كي .- وأحد وجهي الرفع أن يكون الفعل قبله ماضیا، نحو : مشیت حتی أدخل البصرة، أي :- مشیت فدخلت البصرة .- والثاني : يكون ما بعده حالا، نحو : مرض حتی لا يرجونه، وقد قرئ : حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ [ البقرة 214] ، بالنصب والرفع «1» ، وحمل في كلّ واحدة من القراء تین علی الوجهين . وقیل : إنّ ما بعد «حتی» يقتضي أن يكون بخلاف ما قبله، نحو قوله تعالی: وَلا جُنُباً إِلَّا عابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا [ النساء 43] ، وقد يجيء ولا يكون کذلک نحو ما روي :- «إنّ اللہ تعالیٰ لا يملّ حتی تملّوا» «2» لم يقصد أن يثبت ملالا لله تعالیٰ بعد ملالهم - حتی ٰ ( حرف ) کبھی تو الیٰ کی طرح یہ حرف جر کے طور پر استعمال ہوتا ہے لیکن اس کے مابعد غایت ماقبل کے حکم میں داخل ہوتا ہے اور کبھی عاطفہ ہوتا ہے اور کبھی استیناف کا فائدہ دیتا ہے ۔ جیسے اکلت السملۃ حتی ٰ راسھا ( عاطفہ ) راسھا ( جارہ ) راسھا ( مستانفہ قرآن میں ہے ليَسْجُنُنَّهُ حَتَّى حِينٍ [يوسف 35] کچھ عرصہ کے لئے نہیں قید ہی کردیں ۔ وحَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر 5] طلوع صبح تک ۔۔۔۔ جب یہ فعل مضارع پر داخل ہو تو اس پر رفع اور نصب دونوں جائز ہوتے ہیں اور ان میں ہر ایک کی دو وجہ ہوسکتی ہیں نصب کی صورت میں حتی بمعنی (1) الی آن یا (2) گی ہوتا ہے اور مضارع کے مرفوع ہونے ایک صورت تو یہ ہے کہ حتی سے پہلے فعل ماضی آجائے جیسے ؛۔ مشیت حتی ادخل ۔ البصرۃ ( یعنی میں چلا حتی کہ بصرہ میں داخل ہوا ) دوسری صورت یہ ہے کہ حتیٰ کا مابعد حال واقع ہو جیسے مرض حتی لایرجون و دو بیمار ہوا اس حال میں کہ سب اس سے ناامید ہوگئے ) اور آیت کریمۃ ؛۔ حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ [ البقرة 214] یہاں تک کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پکار اٹھے ۔ میں یقول پر رفع اور نصب دونوں منقول ہیں اور ان ہر دو قرآت میں دونوں معنی بیان کئے گئے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ حتیٰ کا مابعد اس کے ماقبل کے خلاف ہوتا ہے ۔ جیسا ک قرآن میں ہے : وَلا جُنُباً إِلَّا عابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا [ النساء 43] ۔ اور جنابت کی حالت میں بھی نماز کے پاس نہ جاؤ ) جب تک کہ غسل ( نہ ) کرو ۔ ہاں اگر بحالت سفر رستے چلے جارہے ہو اور غسل نہ کرسکو تو تیمم سے نماز پڑھ لو ۔ مگر کبھی اس طرح نہیں بھی ہوتا جیسے مروی ہے ۔ اللہ تعالیٰ لاتمل حتی تملو ا ۔ پس اس حدیث کے یہ معنی نہیں ہیں کہ تمہارے تھک جانے کے بعد ذات باری تعالیٰ بھی تھک جاتی ہے ۔ بلکہ معنی یہ ہیں کہ ذات باری تعالیٰ کو کبھی ملال لاحق نہیں ہوتا ۔- جزا - الجَزَاء : الغناء والکفاية، وقال تعالی: لا يَجْزِي والِدٌ عَنْ وَلَدِهِ وَلا مَوْلُودٌ هُوَ جازٍ عَنْ والِدِهِ شَيْئاً [ لقمان 33] ، والجَزَاء : ما فيه الکفاية من المقابلة، إن خيرا فخیر، وإن شرا فشر . يقال : جَزَيْتُهُ كذا وبکذا . قال اللہ تعالی: وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه 76] ، - ( ج ز ی ) الجزاء ( ض )- کافی ہونا ۔ قرآن میں ہے :۔ لَا تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئًا ( سورة البقرة 48 - 123) کوئی کسی کے کچھ کام نہ آئے گا ۔ کہ نہ تو باپ اپنے بیٹے کے کچھ کام آئے اور نہ بیٹا اپنے باپ کے کچھ کام آسکیگا ۔ الجزاء ( اسم ) کسی چیز کا بدلہ جو کافی ہو جیسے خیر کا بدلہ خیر سے اور شر کا بدلہ شر سے دیا جائے ۔ کہا جاتا ہے ۔ جزیتہ کذا بکذا میں نے فلاں کو اس ک عمل کا ایسا بدلہ دیا قرآن میں ہے :۔ وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه 76] ، اور یہ آں شخص کا بدلہ ہے چو پاک ہوا ۔ - كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

ارشاد باری (واقتلوھم حیث تقفتموھم واخرجوھم من حیث اخرجو کم) میں ہمیں یہ حکم دیا گیا ہے کہ مشرکین جہاں کہیں بھی قابو میں آ جائیں انہیں نہ چھوڑو بلکہ ا ن کی گردنیں اڑا دو یہ حکم تمام مشرکین سے جنگ کرنے کے متعلق عام ہے۔ خواہ وہ ہم سے برسر پیکار ہوں یا نہ ہوں البتہ وہ جنگ میں حصہ لینے کی اہلیت رکھتے ہوں۔ اس لئے کہ عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے کی ممانعت ایک متفقہ مسئلہ ہے نیز حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گرجا گھروں کے باسیوں کو بھی قتل کرنے سے منع فرمایا ہے۔- اگر ارشاد باری (وقاتلوا فی سبیل اللہ الذین یقاتلونکم) سے مراد ہم سے جنگ کرنے والوں سے جنگ کرنا ہے اور جو جنگ کے قابل نہیں ان سے ہاتھ روکنا ہے اور قول باری (ولا تعتدوا ان اللہ لایحب المعتدین ) میں ان لوگوں سے جنگ کرنے کی ممانعت ہے جو ہم سے جنگ نہیں کرتے تو لامحالہ اس آیت کو قول باری (واقتلوھم حیث ثقفتموھم) کی وجہ سے منسوخ ماننا پڑے گا اس لئے کہ اس آیت میں ان لوگوں کو قتل کرنے کا حکم ہے جن کے قتل کی پہلی آیت میں ممانعت تھی اور (ولا تعبدوا) میں اعتداد کا اس جگہ مفہوم جنگ نہ کرنے والوں سے جنگ کرنا ہوگا اور قول باری (اخرجوھم من حیث اخرجوکم) کا مفہوم یہ ہے کہ اگر تمہارے لئے ممکن ہو تو ان مشرکین کو مکہ سے نکال دو ۔ اس لئے کہ ان مشرکین نے مسلمانوں کو مکہ میں اس قدر تکلیفیں دیں کہ انہیں وہاں سے نکلنے پر مجبور ک ردیا۔ اس طرح یہ مشرکین مسلمانوں کو نکالنے والے بن گئے۔- اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے (واذیمکربک الذین کفروا لیتبتوک اویقتلوک او یخرجوک ) اور وہ وقت بھی یاد کرنے کے قابل ہے جبکہ منکرین حق آپ کے خلاف تدبیریں سوچ رہے تھے کہ آپ کو قید کردیں یا قتل کر ڈالیں یا جلا وطن کردیں) پھر جب اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر قتال فرض کردیا تو انہیں یہ حکم دیا کہ ان منکرین حق کو طاقت کے ذریعے مکہ سے نکال دیں ۔ کیونکہ مسلمانوں کو مکہ کے اندر جنگ سے منع کردیا گیا تھا۔ الا یہ کہ مشرکین مکہ میں بھی جنگ پر کمر بستہ ہوجائیں۔- اس صورت میں قول باری (واقتلوھم حیث ثقفتموھم) تمام مشرکین کے متعلق ایک عام حکم ہوگا۔ البتہ اس حکم سے وہ مشرکین مستثنیٰ ہوں گے جو مکہ میں رہتے ہوں۔ ان کو مکہ سے نکال دینے کا حکم دیا گیا تھا۔ ان میں سے صرف ان لوگوں کے خلاف جنگ کی اجازت تھی جو جنگ پر کمربستہ ہوجاتے۔- اس کی دلیل خطاب کے تسلسل میں وہ ارشاد باری ہے جس میں فرمایا گیا کہ (ولا تقاتلوھم عند المسجد الحرام حتی یقاتلو کم فیہ) اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ قول باری (واقتلوھم حیث ثقفتموھم) ان مشرکین کے متعلق ہے جو مکہ کے سوا دوسری جگہوں پر رہنے والے تھے۔- ارشاد باری ہے (وائفتنہ اشد من القتل۔ قتل اگرچہ برا ہے لیکن فتنہ اس سے بھی زیادہ برا ہے) سلف کی ایک جماعت سے مروی ہے کہ فتنہ سے مراد کفر ہے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ مشرکین مسلمانوں کو اذیتیں دے دے کر آزمائشوں میں مبتلا کرتے اور انہیں کفر پر مجبور کرتے تھے اور جب ایک صحابی حضرت واقد بن عبداللہ نے ماہ حرام یعنی رجب میں ایک مشرک عمرو بن الحضرمی کو قتل کردیا تھا تو مشرکین مسلمانوں کو طعنے دیتے تھے کہ محمد ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) نے ماہ حرام میں قتال کو حلال کردیا۔- اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (والفتنۃ اشد من القتل) یعنی ان مشرکین کا کفر اور بلد حرام مکہ کے اندر اور ماہ حرام کے دوران مسلمانوں کو اذیتیں دینا ماہ حرام میں کسی کو قتل کردینے سے بڑھ کر گناہ اور سنگین جرم ہے۔- قول باری (ولاتقاتلوھم عند المسجد الحرام حتی یقاتلوکم فیہ) میں (حتی یقاتلوا کم فیہ) سے مراد یہ ہے کہ ان کے ہاتھوں سے تم میں سے کسی کا خون بہہ جائے جس طرح کہ قول باری (ولا تلمزوا انفسکم) میں مراد یہ ہے کہ تم آپس میں ایک دوسرے کی عیب جئوی نہ کرو۔ کیونکہ یہ کسی طرح بھی درست نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو مشرکین کے قتل کا حکم دے جبکہ تمام مسلمان پہلے ان کے ہاتھوں قتل ہوجائیں۔- آیت سے یہ مفہوم مستفاد ہوتا ہے کہ مکہ میں ایسے شخص کے قتل پر پابندی ہے جس نے وہاں کسی کو قتل نہیں کیا۔ اس سے یہ استدلال کیا جاسکتا ہے کہ اگر کوئی مشرک حربی مکہ میں پناہ لے لے اور سا نے جنگ میں بھی شرکت نہ کی ہو تو اسے وہاں قتل نہیں کیا جاسکتا۔- آیت کے عموم سے یہ بھی استدلال کیا جاسکتا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کو قتل کر کے مکہ میں پناہ لے لے تو اسے وہاں اس جرم میں قتل نہیں کیا جائے کیونکہ ہر قسم کے انسان کے قتل کی ممانعت کے حکم میں یہ فرق نہیں کیا گیا کہ کون وہاں کسی کو قتل کرنے کے بعد آگیا ہے اور کون اس کے بغیر آیا ہے۔- آیت کے مضمون سے یہ بات لازم ہوگئی کہ حرم میں ہم کسی کو بھی قتل نہیں کریں گے خواہ وہ حرم سے باہر سکی کو قتل کرنے کے بعد وہاں آگیا ہو یا اس کے بغیر وہاں داخل ہوگیا ہو۔ البتہ جس شخص نے حرم کے اندر کسی کا خون بہایا ہو اسے قصاص میں حرم کے اندر قتل کردیا جائے گا۔ کیونکہ قول باری ہے (فان قاتلوکم فاقتلوھم) اگر یہ کہا جائے کہ درج بالا آیت قول باری صوقاتلوھم حتی لاتکون فتنۃ ویکون الدین للہ، اور تم ان سے لڑتے رہو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین اللہ کے لئے ہوجائے) سے منسوخ ہوگئی ہے تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ جب دونوں آیتوں پر عمل ممکن ہو تو نسخ ثابت نہیں ہوگا۔ خاص کر جب کہ اہل علم کے درمیان اس کے نسخ کے بارے میں اختلاف ہو۔- اس صورت مں (وقاتلوھم حتی لاتکو نفتنۃ) کا حکم غیر حرم کے لئے ہوگا، حرم میں پناہ لینے والے انسان خواہ وہ مجرم ہی کیوں نہ ہوں، کے قتل کی ممانعت کے سلسلے میں اس آیت کی نظیر قول باری ومن دخلہ کان امناً جو شخص بھی اللہ کے گھر میں داخل ہوگا وہ مامون ہوجائے گا) ہے یہ فقرہ قتل ہوجانے کے خوف سے امن کے معنی پر بھی حاوی ہے۔ اس لئے آیت سے مراد یہ ہوئی کہ جو شخص قتل کئے جانے کا مستحق تھا جب حرم میں داخل ہوگا تو داخل ہوتے ہی مامون ہوجائے گا۔- اسی طرح قول باری (واذ جعلنا لابیت مثابۃ للناس وامناً اور یاد کرو جبکہ ہم نے اس گھر کو لوگوں کے لئے مرکز اور امن کی جگہ قرار دیا تھا) بھی اس پر دلالت کرتا ہے کہ قتل کا مستحق شخص جب حرم میں پناہ لے لے گا تو وہ مامون ہوجائے گا اور وہاں پہنچتے ہی اس سے قتل کا حکم ٹل جائے گا۔- علاوہ ازیں اگر (وقاتلوھم حتی لاتکون فتنۃ ویکون الدین للہ) کا نزول سلسلہ خطاب کی ابتداء میں (ولاتقاتلوھم عند المسجد الحرام) کے ساتھ ہوتا تو بھی یہ درست نہ ہوتا کہ یہ موخر الذکر آیت کے لئے ناسخ بن جائے، اس لئے کہ نسخ اس وقت تک درست نہیں ہوتا جب تک سابقہ حکم پر عمل کرنے کا موقعہ اور قدرت حاصل نہ ہوجائے۔ اس لئے ناسخ اور منسوخ دونوں کا ایک ہی سلسلہ خطاب میں پایا جانا درست نہیں ہے۔- اب جبکہ دونوں حسب تقاضائے سلسلہ تلاوت اور نظام تنزیل ایک ہی سلسلہ خطاب میں جمع ہوگئے ہیں تو اب کسی کے لئے یہ جائز نہ ہوگا کہ ان دونوں آیتوں کے نزول کی تاریخوں اور ان میں فاصلہ، زمانی کا نقل صحیح کے بغیر ثبوت پیش کرے جبکہ کسی کے لئے اس سلسلے میں سکی صحیح روایت کا دعویٰ کرنا ممکن ہی نہیں۔ صرف ربیع بن انس سے ایک قول منقول ہے کہ یہ آیت قول باری (وقاتلوھم حتی لاتکو نفتنۃ) سے منسوخ ہوگئی ہے۔- قتادہ کا قول ہے کہ یہ (فاقتلوا المشرکین حیث وجدتموھم) سے مسنوخ ہوگئی ہے۔ یہ ممکن ہے کہ قتادہ کی یہ اپنی رائے اور ایک تاویل ہو۔ اس لئے کہ قول باری (فاقتلوا المشرکین حیث وجدتموھم) لامحالہ سورة بقرہ کے بعد نازل ہوا ہے۔- اس کے متعلق اہل نقل میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ لیکن اس کے باوجود اس میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جو نسخ پر دلالت کرتی ہو اس لئے کہ ان دونوں پر عمل ممکن ہے۔ وہ اس طرح کہ (فاقتلوا المشرکین) کو قول باری (ولا تقاتلوا ھم عند المسجد الحرام) پر مترب سمجھا جائے تو اس صورت میں معنی کے لحاظ سے فقرہ یوں بنے گاے ”(اقتلوا المشرکین حیث وجدتموھم الاعنہ المسجد الحرام الا ان یقاتلوکم فیہ فان قاتلوکم فاقتلوھم “ (مشرکین کو جہاں کہیں بھی پائو قتل کرو ، مسجد حرام کے سوا) الایہ کہ وہ تم سے وہاں جنگ کریں۔ اگر وہ وہاں ایسا کریں پھر تم انہیں وہاں بھی قتل کرو۔ )- اس مفہوم پر حضرت ابن عباس ، حضرت ابو شریح خزاعی اور حضرت ابوہریرہ کی روایت کردہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فتح مکہ کے دن خطبہ دیتے ہوئے فرمایا (ایھا الناس ان اللہ تعالیٰ حرم مکۃ یوم خلق السماوات والارض لم تحل لاحد قبلی ولا تحل لاحد بعدی وانما احلت لی ساعۃ من نھارثم عادت حراماً الی یوم القیامۃ اے لوگو اللہ تعالیٰ نے مکہ کو اس دن ہی حرمت کی جگہ بنادیا تھا جس دن اس نے آسمانوں اور زمین کی تخلیق کی تھی پھر اس کی حرمت نہ مجھ سے پہلے کسی کے لئے اٹھائی گئی اور نہ میرے بعد کسی کے لئے اٹھائی جائے گی اور میرے لئے بھی ایک گھڑی بھر کے لئے اس کی حرمت اٹھائی گئی تھی اور پھر قیامت تک کے لئے اس کی حرمت لوٹ آئی ہے۔- بعض روایات میں یہ الفاظ بھی ہیں (فان ترخم مترخص بقتال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فانما اھلت لی ساعۃ من نھار، اگر کوئی شخص اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جنگ کو دیکھتے ہوئے اس کی حرمت کے اٹھائے جانے کی گنجائش کا طلبگار ہو تو وہ سن لے کہ میرے لئے بھی اس کی حرمت گھڑی بھر کے لئے اٹھائی گئی تھی۔ )- اس حدیث کے ذریعے حرم میں قتال کی ممانعت ثابت ہوگئی۔ صرف اس صورت میں اس کا جواز رہ گیا کہ مشرکین مسلمانوں سے حرم میں ہی برسر پیکار ہوجائیں۔ عبداللہ بن ادریس نے محمد بن اسحق سے ، انہیں سعید بن ابی سعید المقبری نے ابوشریح خزاعی سے یہ حدیث روایت کی ہے۔- اس میں یہ الفاظ آئے ہیں (وانما احل لی القتال بھا ساعۃ من نھار، میرے لئے بھی یہاں قتال دن کی ایک گھڑی کے لئے حلال کردیا گیا تھا) اس مفہوم پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ایک دوسری روایت بھی دلالت کرتی ہے کہ آپ نے اس دن خطبہ دیتے ہوئے جبکہ آپ کو اطلاع ملی کہ قبیلہ خزاعہ کے ایک شخص نے قبیلہ بذیل کے ایک شخص کو قتل کردیا ہے۔ فرمایا (ان اعت یالنسا علی اللہ ثلالۃ رجل قتل غیر فاتلہ و رجل قتل فی الحرم و رجل قتل بذحل الجاھلیۃ اللہ کے ہاں تین قسم کے لوگ سب سے زیادہ سرکش شمار ہوتے ہیں، پہلا وہ شخص جو اس شخص کو قتل کر ڈالے جو اس کا قاتل نہ ہو یعنی اس کے دل میں اسے قتل کرنے کی نیت نہ ہو محض شک کی بنا پر وہ اس پر ہاتھ اٹھالے دوسرا وہ جو حرم میں قتل کرے اور تیسرا وہ جو زمانہ جاہلیت کی دشمنی یا خون کے بدلے کی بنا پر زمانہ اسلام میں کسی کو قتل کرے۔ )- یہ حدیث حرم میں اس شخص کے قتل کی حرمت پر جس نے وہاں کوئی جرم قتل نہیں کیا دو طریقوں سے دلالت کرتی ہے ۔ اول یہ کہ حرم میں قتل کرنے والے کی عمومی انداز میں مذمت کی گئی ہے۔ دوم یہ کہ اس کے ساتھ اس شخص کے قتل کا بھی ذکر کیا گیا ہے جو قتل کا مستحق نہیں تھا تو اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ اس سے مراد اس شخص کا قتل ہے جو قتل کا مستحق ہوگیا لیکن حرم میں پناہ حاصل کرلی اور اس طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بتادیا کہ حرم میں جو شخص بھی آ کر پناہ لے لے اس کے قتل پر پابندی ہے ۔- ہم نے حرم میں پناہ لینے والے کے قتل کی ممانتع کے سلسلے میں جن آیات کی تلاوت کی ہے ان کی دلالت صرف قتل کی ممانتع تک محدود ہے۔ ان میں جان لینے سے کم کے جرم سے متعلق حکم پر کوئی دلالت نہیں ہے۔ اس لئے کہ قول باری (ولاتقتلوھم عند المسجد الحرام) صرف حکم قتلم پر مشتمل ہے۔ اسی طرح قول باری (ومن دخلہ کان امنا) اور قول باری (مثابۃ للناس و امناً ) کا ظاہری مفہوم قتل سے مامون ہونا ہے اور قتل کے سوا دوسری سزائوں سے امن کے حکم کا اس میں دخول کسی دلیل کی بنا پر ہوگا اس لئے کہ قول باری (ومن دخلہ) اور انسان کے لئے اسم ہے اور (کان امناً ) بھی اسی کی طرف راجع ہے۔- اس بنا پر آیت کا مقتضی یہ ہے کہ امن کا حکم انسا ن کے لئے ہے نہ کہ اس کے اعضاء کے لئے۔ اس کے باوجود اگر لفظ میں جا ناو جان سے کم یعنی اعضاء کے مفہوم کی گنجائش ہو تو ہم نے ان سے کم کی تخصیص دلیل کی بنا پر کی ہے اور جان کے متعلق لفظ کا حکم بحالہ باقی ہے۔ اب چونکہ اس مسئلے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اگر کسی شخص کے ذمے قرض کی رقمیں ہوں اور وہ بھاگ کر حرم میں چلا جائے تو اسے حرم میں قید کیا جاسکتا ہے اور حرم میں داخلے کی وجہ سے وہ قید سے بچ نہیں سکتا۔- اس پر قیاس کرتے ہوئے کوئی شخص اگر کسی کا کوئی ایسا حق لے کر جو جان سے کم ہو حرم میں داخل ہوجائے تو حرم کی وجہ سے وہ اس حق کے سلسلے میں سزا سے بچ نہیں سکتا۔ ارشاد باری (فان انتھوا فان اللہ غفور رحیم اگر یہ باز آ جائیں تو اللہ غفور رحیم ہے ) یعنی اگر یہ کفر سے باز آ جائیں تو ان کی اللہ تعالیٰ بخشش کر دے گا اس لئے کہ لفظ (فان انتھوا) شرط ہے جو اب شرط کا متقاضای ہے۔ - آیت کی اس پر دلالت ہو رہی ہے کہ اگر کسی شخص نے قتل عمد کا ارتکاب کیا ہو تو اس کے لئے بھی توبہ کی گنجاش ہے کیونکہ کفر قتل سے زیادہ سنگین گناہ ہے اور اللہ تعالیٰ نے یہ بتادیا ہے کہ وہ کفر سے توبہ کو قبول کرتا اور اس کا گناہ بھی معاف کردیتا ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٩١۔ ١٩٢) اور اگر مشرکین قتال کی پہل کریں سو وہ جس مقام پر بھی ہوں ان کو قتل کردو اور مکہ مکرمہ سے ان کو نکال دو جس طرح کہ انہوں نے تمہیں نکالا ہے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا اور بتوں کی پوجا کرنا، یہ تمام چیزیں حرم میں لڑائی کرنے سے زیادہ بدتر ہیں۔- اور حرم میں جب تک کہ کفار لڑائی کی پہل نہ کریں تم ان سے لڑائی نہ کرو اور اگر یہ پہل کریں تو تم بھی ایسا ہی کرسکتے ہو، قتل ہی ان کی سزا ہے لیکن اگر یہ کفر وشرک سے رک جائیں (یعنی ایمان اختیار کرکے مسلمان جماعت میں داخل ہوجائیں) اور توبہ کرلیں تو اللہ تعالیٰ توبہ کو قبول فرمانے والا اور جو توبہ کی حالت پر انتقال کرجائے اس پر رحمت فرمانے والا ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٩١ (وَاقْتُلُوْہُمْ حَیْثُ ثَقِفْتُمُوْہُمْ ) (وَاَخْرِجُوْہُمْ مِّنْ حَیْثُ اَخْرَجُوْکُمْ ) - مہاجرین مکہ مکرمہ سے نکالے گئے تھے ‘ وہاں پرٌ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھی اہل ایمان پر قافیہ حیات تنگ کردیا گیا تھا۔ تبھی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہجرت کی۔ اب حکم دیا جا رہا ہے کہ نکالو انہیں وہاں سے جہاں سے انہوں نے تمہیں نکالا ہے۔ - (وَالْفِتْنَۃُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ ج ) ۔ - کفار و مشرکین سے قتال کے ضمن میں کہیں یہ خیال نہ آئے کہ قتل اور خونریزی بری بات ہے۔ یاد رکھو کہ فتنہ اس سے بھی زیادہ بری بات ہے۔ فتنہ کیا ہے ؟ ایسے حالات جن میں انسان خدائے واحد کی بندگی نہ کرسکے ‘ اسے غلط کاموں پر مجبور کیا جائے ‘ وہ حرام خوری پر مجبور ہوگیا ہو ‘ یہ سارے حالات فتنہ ہیں۔ تو واضح رہے کہ قتل اور خونریزی اتنی بری شے نہیں ہے جتنی فتنہ ہے۔ - (وَلاَ تُقٰتِلُوْہُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتّٰی یُقٰتِلُوْکُمْ فِیْہِ ج) - (فَاِنْ قٰتَلُوْکُمْ فَاقْتُلُوْہُمْ ط) پھر اگر وہ تم سے جنگ کریں تو ان کو قتل کرو۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :202 یہاں فتنے کا لفظ اسی معنی میں استعمال ہوا ہے ، جس میں انگریزی کا لفظ ( ) استعمال ہوتا ہے ، یعنی کسی گروہ یا شخص کو محض اس بنا پر ظلم و ستم کا نشانہ بنانا کہ اس نے رائج الوقت خیالات و نظریات کی جگہ کچھ دوسرے خیالات و نظریات کو حق پا کر قبول کر لیاہے اور وہ تنقید و تبلیغ کے ذریعے سے سوسائٹی کے موجود الوقت نظام میں اصلاح کی کوشش کرتا ہے ۔ آیت کا منشا یہ ہے کہ بلا شبہہ انسانی خون بہانا بہت برا فعل ہے ، لیکن جب کوئی انسانی گروہ زبردستی اپنا فکری استبداد دوسروں پر مسلط کرے اور لوگوں کو قبول حق سے بجبر رو کے اور اصلاح و تغیر کی جائز و معقول کوششوں کا مقابلہ دلائل سے کرنے کے بجائے حیوانی طاقت سے کرنے لگے ، تو وہ قتل کی بہ نسبت زیادہ سخت برائی کا ارتکاب کرتا ہے اور ایسے گروہ کو بزور شمشیر ہٹا دینا بالکل جائز ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

122: لفظ‘‘ فتنہ ’’ قرآن کریم میں مختلف معنوں میں استعمال ہوا ہے جن میں سے ایک معنی ظلم اور تشدد کے بھی ہیں اور شاید یہاں یہی معنی مراد ہوں، مشرکین مکہ نے مسلمانوں کو اپنے دین پر عمل سے روکنے کے لئے بدترین تشدد روا رکھا ہوا تھا، لہذا بظاہر یہاں مقصد یہ ہے کہ اگرچہ کسی کو قتل کرنا اپنی ذات میں کوئی اچھی بات نہیں ہے لیکن فتنہ اس کے مقابلے میں زیادہ سخت برائی ہے اور جہاں فتنے کا سد باب قتل کے بغیر ممکن نہ ہو وہاں قتل کے سوا چارہ نہیں ہے۔