Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

حکم جہاد اور شرائط حضرت ابو العالیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مدینہ شریف میں جہاد کا پہلا حکم یہی نازل ہوا ہے ، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس آیت کے حکم کی رو سے صرف ان لوگوں سے ہی لڑتے تھے جو آپ سے لڑیں جو آپ سے نہ لڑیں خود ان سے لڑائی نہیں کرتے تھے یہاں تک کہ سورۃ برأت نازل ہوئی ، بلکہ عبدالرحمن بن زید بن سلام رحمۃ اللہ علیہ تو یہاں تک فرماتے ہیں کہ یہ آیت منسوخ ہے اور ناسخ آیت ( فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَيْثُ وَجَدْتُّمُــوْهُمْ وَخُذُوْهُمْ وَاحْصُرُوْهُمْ وَاقْعُدُوْا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ ) 9 ۔ التوبہ:5 ) ہے یعنی جہاں کہیں مشرکین کو پاؤ انہیں قتل کرو ، لیکن اس بارہ میں اختلاف ہے اس لئے کہ اس سے تو مسلمانوں کو رغبت دلانا اور انہیں آمادہ کرنا ہے کہ اپنے ایسے دشمنوں سے کیوں جہاد نہ کروں جو تمہارے اور تمہارے دین کے کھلے دشمن ہیں ، جیسے وہ تم سے لڑتے ہیں تم بھی ان سے لڑو جیسے اور جگہ فرمایا آیت ( وَقَاتِلُوا الْمُشْرِكِيْنَ كَاۗفَّةً كَمَا يُقَاتِلُوْنَكُمْ كَاۗفَّةً ۭ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِيْنَ ) 9 ۔ التوبہ:36 ) یعنی مل جل کر مشرکوں سے جہاد کرو جس طرح وہ تم سے سب کے سب مل کر لڑائی کرتے ہیں چنانچہ اس آیت میں بھی فرمایا انہیں قتل کرو جہاں پاؤ اور انہیں وہاں سے نکالو جہاں سے انہوں نے تمہیں نکالا ہے مطلب یہ ہے کہ جس طرح ان کا قصد تمہارے قتل کا اور تمہیں جلا وطن کرنے کا ہے تمہارا بھی اس کے بدلے میں یہی قصد رہنا چاہئے ۔ پھر فرمایا تجاوز کرنے والے کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا ، یعنی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہ کرو ناک کان وغیرہ نہ کاٹو ، خیانت اور چوری نہ کرو ، عورتوں اور بچوں کو قتل نہ کرو ، ان بوڑھے بڑے لوگوں کو بھی نہ مارو جو نہ لڑنے کے لائق ہیں نہ لڑائی میں دخل دیتے ہیں درویشوں اور تارک دنیا لوگوں کو بھی قتل نہ کرو بلکہ بلا مصلحت جنگی نہ درخت کاٹو نہ حیوانوں کو ضائع کرو ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ حضرت عمر بن عبدالعزیز حضرت مقاتل بن حیان وغیرہ نے اس آیت کی تفسیر میں یہی فرمایا ہے ، صحیح مسلم شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجاہدین کو فرمان دیا کرتے تھے کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرو خیانت نہ کرو ، بدعہدی سے بچو ، ناک کان وگیرہ اعضاء نہ کاٹو ، بچوں کو اور زاہد لوگوں کو جو عبادت خانوں میں پڑے رہتے ہیں قتل نہ کرو ۔ مسند احمد کی ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا کرتے تھے اللہ کا نام لے کر نکلو اللہ کی راہ میں جہاد کرو کفار سے لڑو ظلم وزیادتی نہ کرو دھوکہ بازی نہ کرو ۔ دشمن کے اعضاء بدن نہ کاٹو درویشوں کو قتل نہ کرو ، بخاری ومسلم میں ہے کہ ایک مرتبہ ایک غزوے میں ایک عورت قتل کی ہوئی پائی گئی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے بہت برا مانا اور عورتوں اور بچوں کے قتل کو منع فرما دیا ، مسند احمد میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک ، تین ، پانچ ، سات ، نو ، گیارہ مثالیں دیں ایک تو ظاہر کر دی باقی چھوڑ دیں فرمایا کہ کچھ لوگ کمزور اور مسکین تھے کہ ان پر زور آور مالدار دشمن چڑھ آیا اللہ تعالیٰ نے ضعیفوں کی مدد کی اور ان طاقتوروں پر انہیں غالب کر دیا اب ان لوگوں نے ان پر ظلم وزیادتی شروع کر دی جس کے باعث اللہ تعالیٰ نے ان ضعیفوں کی مدد کی اور ان طاقتوروں پر انہیں غالب کر دیا اب ان لوگوں نے ان پر ظلم وزیادتی شروع کر دی جس کے باعث اللہ تعالیٰ ان پر قیامت تک کے لئے ناراض ہو گیا ۔ یہ حدیث اسناداً صحیح ہے ، مطلب یہ ہے کہ جب یہ کمزور قوم غالب آگئی تو انہوں نے ظلم وزیادتی شروع کر دی فرمان باری تعالیٰ کا کوئی لحاظ نہ کیا اس کے باعث پروردگار عالم ان سے ناراض ہو گیا ، اس بارے میں احادیث اور آثار بکثرت ہیں جن سے صاف ظاہر ہے کہ ظلم وزیادتی اللہ کو ناپسند ہے اور ایسے لوگوں سے اللہ ناخوش رہتا ہے ، چونکہ جہاد کے احکام میں بظاہر قتل وخون ہوتا ہے اس لئے یہ بھی فرما دیا کہ ادھر اگر قتل وخون ہے تو ادھر اللہ کے ساتھ کفر وشرک ہے اور اس مالک کی راہ سے اس کی مخلوق کو روکنا ہے اور یہ فتنہ قتل سے بہت زیادہ سخت ہے ، ابو مالک فرماتے ہیں تمہاری یہ خطا کاریاں اور بدکاریاں قتل سے زیادہ زبوں تر ہیں ۔ پھر فرمان جاری ہوتا ہے کہ بیت اللہ میں ان سے لڑائی نہ کرو جیسے بخاری ومسلم میں ہے کہ یہ شہر حرمت والا ہے آسمان وزمین کی پیدائش کے زمانے سے لے کر قیامت تک باحرمت ہی ہے صرف تھوڑے سے وقت کے لئے اللہ تعالیٰ نے میرے لئے اسے حلال کر دیا تھا لیکن وہ آج اس وقت بھی حرمت والا ہے اور قیامت تک اس کا یہ احترام اور بزرگی باقی رہے گی اس کے درخت نہ کاٹے جائیں اور اس کے کانٹے نہ اکھیڑے جائیں اگر کوئی شخص اس میں لڑائی کو جائز کہے اور میری جنگ کو دلیل میں لائے تو تم کہہ دینا اللہ تعالیٰ نے صرف اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تھوڑے سے وقت کے لیے اجازت دی تھی لیکن تمہیں کوئی اجازت نہیں ۔ آپ کے اس فرمان سے مراد فتح مکہ کا دن ہے جس دن آپ نے مکہ والوں سے جہاد کیا تھا اور مکہ کو فتح کیا تھا چند مشرکین بھی مارے گئے تھے ۔ گو بعض علماء کرام یہ بھی فرماتے ہیں کہ مکہ صلح سے فتح ہوا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صاف ارشاد فرما دیا تھا کہ جو شخص اپنا دروازہ بند کرلے وہ امن میں ہے جو مسجد میں چلا جائے امن میں ہے جو ابو سفیان کے گھر میں چلا جائے وہ بھی امن ہے ۔ پھر فرمایا کہ ہاں اگر وہ تم سے یہاں لڑائی شروع کر دیں تو تمہیں اجازت ہے کہ تم بھی یہیں ان سے لڑو تاکہ یہ ظلم دفع ہو سکے ، چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حدیبیہ والے دن اپنے اصحاب سے لڑائی کی بیعت لی جب قریشیوں نے اپنے ساتھیوں سے مل کر یورش کی تھی تب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے درخت تلے اپنے اصحاب سے بیعت لی ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس لڑائی کو دفع کر دیا چنانچہ اس نعمت کا بیان اس آیت میں ہے کہ وہ آیت ( وَهُوَ الَّذِيْ كَفَّ اَيْدِيَهُمْ عَنْكُمْ وَاَيْدِيَكُمْ عَنْهُمْ بِبَطْنِ مَكَّةَ مِنْۢ بَعْدِ اَنْ اَظْفَرَكُمْ عَلَيْهِمْ ) 48 ۔ الفتح:24 ) پھر ارشاد ہوتا ہے کہ اگر یہ کفار حرم میں لڑائی بند کر دیں اور اس سے باز آجائیں اور اسلام قبول کرلیں تو اللہ تعالیٰ ان کے گناہ معاف فرما دے گا گو انہوں نے مسلمانوں کو حرم میں قتل کیا ہو باری تعالیٰ ایسے بڑے گناہ کو بھی معاف فرما دے گا ۔ پھر حکم ہوتا ہے کہ ان مشرکین سے جہاد جاری رکھو تا کہ یہ شرک کا فتنہ مٹ جائے اور اللہ تعالیٰ کا دین غالب اور بلند ہو جائے اور تمام دین پر ظاہر ہو جائے ، جیسے بخاری ومسلم میں حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ ایک شخص اپنی بہادری جتانے کے لئے لڑتا ہے ایک شخص حمیت وغیرت قومی سے لڑتا ہے ، ایک شخص ریاکاری اور دکھاوے کے طور پر لڑتا ہے تو فرمائیے کہ ان میں سے کون شخص اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے والا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے والا وہی ہے جو صرف اس کے لئے لڑے کہ اللہ تعالیٰ کی بات بلند ہو اس کے دین کا بول بالا ہو ، بخاری ومسلم کی ایک اور حدیث میں کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے جہاد کرتا رہوں یہاں تک کہ وہ لا الہ الا اللہ کہیں ان کی جان ومال کا تحفظ میرے ذمہ ہوگا مگر اسلامی احکام اور ان کے باطنی حساب اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے ۔ پھر فرمایا کہ اگر یہ کفار شرک و کفر سے اور تمہیں قتل کرنے سے باز آجائیں تو تم بھی ان سے رک جاؤ اس کے بعد جو قتال کرے گا وہ ظالم ہوگا اور ظالموں کو ظلم کا بدلہ دینا ضروری ہے یہی معنی ہیں ۔ حضرت مجاہد کے اس قول کے کہ جو لڑیں ان سے ہی لڑا جائے ، یا مطلب یہ ہے کہ اگر وہ ان حرکات سے رک جائیں تو وہ ظلم یعنی شرک سے ہٹ گئے پھر کوئی وجہ نہیں کہ ان سے جنگ وجدال ہو ، یہاں لفظ عدوان جو کہ زیاتی کے معنی میں ہے وہ زیادتی کے مقابلہ میں زیادتی کے بدلے کے لئے ہے حقیقتا وہ زیادتی نہیں جیسے فرمایا آیت ( فمن اعتدی علیکم فاعتدو علیہ بمثل ما اعتدی علیکم ) یعنی تم پر جو زیادتی کرے تم بھی اس پر اس جیسی زیادتی کر لو اور جگہ ہے آیت ( جَزَاۗءُ سَـيِّئَةٍۢ بِمِثْلِهَا ۙ وَتَرْهَقُھُمْ ذِلَّةٌ ) 10 ۔ یونس:27 ) یعنی برائی کا بدلہ اسی جیسی برائی ہے اور جگہ فرمان ہے آیت ( وَاِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِهٖ ) 16 ۔ النحل:126 ) یعنی اگر تم سزا اور عذاب کرو تو اسی مثل سزا کرو جو تم کئے گئے ہو ، پاس ان تینوں جگہوں میں زیادتی برائی اور سزا بدلے کے طور پر کہا گیا ہے ورنہ فی الواقع وہ زیادتی برائی اور سزا وعذاب نہیں ، حضرت عکرمہ اور حضرت قتادہ کا فرمان ہے اصلی ظالم وہی ہے جو لا الہ الا اللہ کو تسلیم کرنے سے انکار کرے ، صحیح بخاری شریف میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو گھیر کر کہا کہ لوگ تو مر کٹ رہے ہیں آپ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابی ہیں کیوں اس لڑائی میں شامل نہیں ہوتے؟آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا سنو اللہ تعالیٰ نے مسلمان بھائی کا خون حرام کر دیا ہے ، انہوں نے کہا کیا جناب باری کا یہ فرمان نہیں کہ ان سے لڑو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے آپ نے جواب دیا کہ ہم تو لڑتے رہے یہاں تک کہ فتنہ دب گیا اور اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ دین غالب آگیا لیکن اب تم چاہتے ہو کہ تم لڑو تاکہ فتنہ پیدا ہو اور دوسرے مذاہب ابھر آئیں ۔ ایک اور روایت میں ہے کہ کسی نے آپ سے پوچھا کہ اے ابو عبدالرحمن آپ نے اللہ کی راہ میں جہاد کرنا کیوں چھوڑ رکھا ہے اور یہ کیا اختیار کر رکھا ہے کہ حج پر حج کر رہے ہو ہر دوسرے سال حج کو جایا کرتے ہو حالانکہ جہاد کے فضائل آپ سے مخفی نہیں آپ نے فرمایا بھتیجے سنو اسلام کی بنائیں پانچ ہیں ۔ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا ، پانچوں وقتوں کی نماز ادا کرنا ، رمضان کے روزے رکھنا ، زکوٰۃ دینا ، بیت اللہ شریف کا حج کرنا ، اس نے کہا کیا قرآن پاک کا یہ حکم آپ نے نہیں سنا کہ ایمان والوں کی دو جماعتیں اگر آپس میں جھگڑیں تو تم ان میں صلح کرا دو اگر پھر بھی ایک گروہ دوسرے پر بغاوت کرے تو باغی گروہ سے لڑو یہاں تک کہ وہ پھر سے اللہ کا فرمانبردار بن جائے ، اور جگہ ارشاد ہے ان سے لڑو تاوقتیکہ فتنہ مٹ جائے آپ نے فرمایا ہم نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں اس کی تعمیل کر لی جبکہ اسلام کمزور تھا اور مسلمان تھوڑے تھے جو اسلام قبول کرتا تھا اس پر فتنہ آ پڑتا تھا یا تو قتل کر دیا جاتا یا سخت عذاب میں پھنس جاتا یہاں تک کہ یہ پاک دین پھیل گیا اور اس کے حلقہ بگوش بہ کثرت ہو گئے اور فتنہ برباد ہو گیا اس نے کہا اچھا تو پھر فرمائیے کہ حضرت علی اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہما کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے فرمایا عثمان رضی اللہ عنہ کو تو اللہ تعالیٰ نے معاف فرما دیا گو تم اس معافی سے برا مناؤ اور علی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا زاد بھائی اور آپ کے داماد تھے اور یہ دیکھو ان کا مکان یہ رہا جو تمہاری آنکھوں کے سامنے ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

190۔ 1 اس آیت میں پہلی مرتبہ ان لوگوں سے لڑنے کی اجازت دی گئی جو مسلمانوں سے آمادہ قتل رکھتے تھے۔ تاہم زیادتی سے منع فرمایا جس کا مطلب یہ ہے کہ عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کو قتل نہ کرو جن کا جنگ میں حصہ نہ ہو اسی طرح درخت وغیرہ جلا دینا یا جانوروں کو بغیر مصلحت کے مار ڈالنا بھی زیادتی ہے جس سے بچا جائے (ابن کثیر) ۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٥٠] مکہ میں مسلمانوں کو مخالفین کے ظلم و ستم پر صبر کرنے کی ہی ہدایت کی جاتی رہی۔ مدینہ آ کر جب مسلمانوں کی ایک چھوٹی سی ریاست قائم ہوگئی تو مسلمانوں کو لڑائی کی اجازت مل گئی اور اس سلسلہ میں پہلی آیت جو نازل ہوئی وہ سورة حج کی یہ آیت تھی۔ ( اُذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوْا ۭ وَاِنَّ اللّٰهَ عَلٰي نَصْرِهِمْ لَقَدِيْرُۨ 39؀ۙ ) 22 ۔ الحج :39) - جن لوگوں سے لڑائی کی جاتی رہی اب انہیں (بھی لڑنے کی) اجازت دی جاتی ہے۔ کیونکہ ان پر ظلم ہوتا رہا ہے اور اللہ تعالیٰ ان کی مدد پر پوری قدرت رکھنے والا ہے۔ مگر ساتھ ہی یہ تاکید کی گئی کہ صرف انہیں سے جنگ کرو جو تم سے جنگ کریں۔ کیونکہ جنگ سے تمہاری کوئی مادی غرض وابستہ نہیں اور اس آیت سے مدافعانہ جنگ کی اجازت ملی۔- [٢٥١] یعنی نہ تو ان لوگوں سے جنگ کرو جو دین حق کی راہ میں مزاحم نہیں ہوتے اور نہ لڑائی میں جاہلی طریقے استعمال کرو، یعنی عورتوں، بوڑھوں، بچوں اور زخمیوں پر دست درازی نہ کرو۔ دشمن کی لاشوں کا مثلہ نہ کرو اور خواہ مخواہ کھیتوں اور مویشیوں کو برباد نہ کرو وغیرہ وغیرہ جن کی احادیث میں ممانعت آئی ہے۔ یعنی قوت وہاں استعمال کرو جہاں ضرورت ہو اور اتنی ہی کرو جتنی ضرورت ہو۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

مسلمان عمرہ کے لیے آئے تو کفار لڑائی پر آمادہ ہوگئے۔ حج کے بیان کے ساتھ لڑائی کے حکم کی مناسبت یہ ہے۔ - بعض مفسرین نے فرمایا کہ اس آیت میں صرف ان کفار سے لڑنے کا حکم ہے جو خود لڑنے میں پہل کریں ” وَلَا تَعْتَدُوْا ۭ“ (زیادتی نہ کرو) کا معنی انھوں نے یہ کیا کہ تم لڑائی میں پہل نہ کرو، پھر ان مفسرین نے اسے ان آیات کے ساتھ منسوخ قرار دیا جن میں تمام کفار سے لڑنے کا حکم ہے، وہ پہل کریں یا نہ کریں، مثلاً : (وَقَاتِلُوا الْمُشْرِكِيْنَ كَاۗفَّةً ) [ التوبۃ : ٣٦ ] ” اور مشرکوں سے ہر حال میں لڑو۔ “ اور فرمایا : (قَاتِلُوا الَّذِيْنَ يَلُوْنَكُمْ ) [ التوبۃ : ١٣٣ ]” ان لوگوں سے لڑو جو کافروں میں سے تمہارے قریب ہیں۔ “ اور فرمایا : (قَاتِلُوا الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ باللّٰهِ وَلَا بالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ) [ التوبۃ : ٢٩ ] ” لڑو ان لوگوں سے جو نہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور نہ یوم آخر پر۔ “ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ آیت نہ دوسری آیات کے خلاف ہے، نہ منسوخ ہے اور نہ ” وَلَا تَعْتَدُوْا “ کا معنی یہ ہے کہ لڑنے میں پہل نہ کرو، بلکہ اس میں مسلمانوں کو ابھارا گیا ہے کہ جب وہ لڑنے سے دریغ نہیں کرتے تو تم بھی ان سے لڑو اور جن جن جگہوں سے انھوں نے تمہیں نکالا ہے تم بھی انھیں وہاں سے نکالو۔ (ابن کثیر) اور ” وَلَا تَعْتَدُوْا “ کا معنی ابن عباس (رض) اور عمر بن عبد العزیز (رح) نے یہ بیان فرمایا کہ بچوں اور عورتوں کو قتل نہ کرو، نہ بوڑھوں کو اور نہ اس کو جو صلح کی پیش کش کرتا ہے اور لڑنے سے ہاتھ روک لیتا ہے، اگر تم نے ایسا کیا تو زیادتی کرو گے۔ (ابن کثیر) بریدہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کسی شخص کو کسی لشکر کا امیر مقرر فرماتے تو اسے اور باقی مومنوں کو نصیحت فرماتے : ” اللہ تعالیٰ کا نام لے کر اللہ کے راستے میں جہاد کرو، جو اللہ کا منکر ہے اس سے لڑو۔ جنگ کرو، خیانت نہ کرو، نہ عہد شکنی کرو، نہ مثلہ کرو، نہ بچوں کو قتل کرو اور نہ درویشوں، راہبوں کو۔ “ [ مسلم، الجہاد، باب تأمیر الإمام الأمراء علی البعوث۔۔ : ١٧٣١ ] امام طبری نے فرمایا : ” یہی معنی درست ہے، کیونکہ نسخ کا دعویٰ کرنے والوں کے پاس کوئی دلیل نہیں اور دلیل کے بغیر دعویٰ تو ہر شخص کرسکتا ہے۔ “ ظاہر ہے کہ اس پیشکش کے بعد کہ ” مسلمان ہوجاؤ یا جزیہ دو یا لڑنے کے لیے تیار ہوجاؤ “ اگر کوئی شخص نہیں لڑتا، بلکہ مسلمان ہوجاتا ہے، یا جزیہ دینے پر آمادہ ہوجاتا ہے تو اس سے لڑنا زیادتی ہے اور اللہ تعالیٰ کو زیادتی کرنے والے پسند نہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

حکم نہم جہاد و قتال :- اس پر ساری امت کا اتفاق ہے کہ ہجرت مدینہ سے پہلے کفار کے ساتھ جہاد و قتال ممنوع تھا اس وقت کی تمام آیات قرآنی میں مسلمانوں کو کفار کی ایذاؤں پر صبر اور عفو و درگذر کی ہی تلقین تھی ہجرت مدینہ کے بعد سب سے پہلے اس آیت میں قتال کفار کا حکم آیا (قالہ الربیع بن انس وغیرہ) اور صدیق اکبر سے ایک روایت یہ بھی ہے کہ قتال کفار کے متعلق پہلی آیت یہ ہے، اُذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوْا مگر اکثر حضرات صحابہ کرام (رض) اجمعین وتابعین کے نزدیک پہلی آیت سورة بقرہ کی آیت مذکورہ ہی ہے اور صدیق اکبر نے جس کو پہلی فرمایا ہے وہ بھی ابتدائی آیتوں میں ہونے کے سبب پہلی کہی جاسکتی ہے،- اس آیت میں حکم یہ ہے کہ مسلمان صرف ان کافروں سے قتال کریں جو ان کے مقابلہ پر قتال کے لئے آویں اس سے مراد یہ ہے کہ عورتیں، بچے، بہت بوڑھے اور اپنے مذہبی شغل میں دنیا سے یکسو ہو کر لگے ہوئے عبادت گذار راہب، پادری وغیرہ اور ایسے ہی اپاہج ومعذور لوگ یا وہ لوگ جو کافروں کے یہاں محنت مزدوری کا کام کرتے ہیں ان کے ساتھ جنگ میں شریک نہیں ہوتے ایسے لوگوں کو جہاد میں قتل کرنا جائز نہیں کیونکہ حکم آیت کا صرف ان لوگوں سے قتال کرنے کا ہے جو مسلمانوں کے مقابلہ میں قتال کریں اور مذکورہ قسم کے سب افراد قتال کرنے والے نہیں اسی لئے فقہاء رحمہم اللہ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اگر کوئی عورت یا بوڑھا یا مذہبی آدمی وغیرہ کفار کی طرف سے قتال میں شریک ہوں یا مسلمانوں کے بالمقابل جنگ میں ان کی مدد کسی طرح سے کررہے ہوں ان کا قتل جائز ہے کیونکہ وہ الَّذِيْنَ يُقَاتِلُوْنَكُمْ میں داخل ہیں (مظہری قرطبی، جصاص) - رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہدایات جو مجاہدین اسلام کو بوقت جہاد دی جاتی تھیں ان میں اس حکم کی واضح تشریحات مذکور ہیں صحیح بخاری ومسلم میں بروایت حضرت عبداللہ بن عمر ایک حدیث میں ہے، نھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عن قتل النسآء والصبیان، یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عورتوں اور بچوں کے قتل سے منع فرمایا ہے۔- ابوداؤد میں بروایت انس جہاد پر جانے والے صحابہ کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ ہدایات منقول ہیں تم اللہ کے نام پر اور رسول اللہ کی ملت پر جہاد کے لئے جاؤ کسی بوڑھے ضعیف کو اور چھوٹے بچے کو یا کسی عورت کو قتل نہ کرو (مظہری) - حضرت صدیق اکبر نے جب یزید بن ابی سفیان کو ملک شام بھیجا تو ان کو یہی ہدایت دی اس میں یہ بھی مذکور ہے کہ عبادت گذار اور راہبوں کو اور کافروں کی مزدوری کرنے والوں کو بھی قتل نہ کریں جبکہ وہ قتال میں حصہ نہ لیں (قرطبی) - آیت کے آخر میں وَلَا تَعْتَدُوْا کا بھی جمہور مفسرین کے نزدیک یہی مطلب ہے کہ قتال میں حد سے تجاوز نہ کرو کہ عورتوں بچوں وغیرہ کو قتل کرنے لگو۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَقَاتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللہِ الَّذِيْنَ يُقَاتِلُوْنَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوْا۝ ٠ ۭ اِنَّ اللہَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِيْنَ۝ ١٩٠- قتل - أصل القَتْلِ : إزالة الروح عن الجسد کالموت، لکن إذا اعتبر بفعل المتولّي لذلک يقال : قَتْلٌ ، وإذا اعتبر بفوت الحیاة يقال : موت . قال تعالی: أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144] - ( ق ت ل ) القتل - ( ن ) الموت کی طرح اس کے معنی بھی جسم سے روح کو زائل کرنے کے ہیں لیکن موت اور قتل میں فرق یہ ہے کہ اگر اس فعل کو سرا انجام دینے والے کا اعتبار کیا جائے تو اسے قتل کہا جاتا ہے اور اگر صرف روح کے فوت ہونے کا اعتبار کیا جائے تو اسے موت کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں قرآن میں ہے : ۔ أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144]- سبل - السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] - ( س ب ل ) السبیل - ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] دریا اور راستے ۔- عد ( اعداد)- والإِعْدادُ مِنَ العَدِّ كالإسقاء من السَّقْيِ ، فإذا قيل : أَعْدَدْتُ هذا لك، أي : جعلته بحیث تَعُدُّهُ وتتناوله بحسب حاجتک إليه . قال تعالی:- وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ [ الأنفال 60] ، وقوله : أُولئِكَ أَعْتَدْنا لَهُمْ عَذاباً أَلِيماً [ النساء 18] ، وَأَعْتَدْنا لِمَنْ كَذَّبَ [ الفرقان 11] ، وقوله : وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَأً [يوسف 31] ، قيل : هو منه، وقوله : فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ [ البقرة 184] ، أي : عدد ما قد فاته، وقوله : وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ [ البقرة 185] ، أي : عِدَّةَ الشّهر، وقوله : أَيَّاماً مَعْدُوداتٍ- [ البقرة 184] ، فإشارة إلى شهر رمضان . وقوله : وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَعْدُوداتٍ [ البقرة 203] ، فهي ثلاثة أيّام بعد النّحر، والمعلومات عشر ذي الحجّة . وعند بعض الفقهاء : المَعْدُودَاتُ يومُ النّحر ويومان بعده فعلی هذا يوم النّحر يكون من المَعْدُودَاتِ والمعلومات، والعِدَادُ : الوقت الذي يُعَدُّ لمعاودة الوجع، وقال عليه الصلاة والسلام :«ما زالت أكلة خيبر تُعَادُّنِي» وعِدَّانُ الشیءِ : عهده وزمانه .- ( ع د د ) العدد - الاعداد تیار کرنا مہیا کرنا یہ عد سے ہے جیسے سقی سے اسقاء اور اعددت ھذا لک کے منعی ہیں کہ یہ چیز میں نے تمہارے لئے تیار کردی ہے کہ تم اسے شمار کرسکتے ہو اور جس قدر چاہو اس سے حسب ضرورت لے سکتے ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ [ الأنفال 60] اور جہاں تک ہوسکے ( فوج کی جمیعت سے ) ان کے ( مقابلے کے لئے مستعد رہو ۔ اور جو ) کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے ۔ اور اس نے ان کے لئے باغات تیار کئے ہیں ۔ أُولئِكَ أَعْتَدْنا لَهُمْ عَذاباً أَلِيماً [ النساء 18] ایسے لوگوں کے لئے ہم نے عذاب الیم تیار کر رکھا ہے وَأَعْتَدْنا لِمَنْ كَذَّبَ [ الفرقان 11] اور ہم نے جھٹلا نے والوں کے لئے دوزخ تیار کر رکھی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَأً [يوسف 31] اور ان کے لئے ایک محفل مرتب کی ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ اعتدت بھی اسی ( عد ) سے ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ [ البقرة 185] تم روزوں کا شمار پورا کرلو ۔ کے معنی یہ ہیں کہ تم ماہ رمضان کی گنتی پوری کرلو ۔ أَيَّاماً مَعْدُوداتٍ [ البقرة 184] گنتی کے چند روز میں ماہ رمضان کی طرف اشارہ ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَعْدُوداتٍ [ البقرة 203] اور گنتی کے دنوں میں خدا کو یاد کرو ۔ میں سے عید قربان کے بعد کے تین دن مراد ہیں اور معلومات سے ذوالحجہ کے دس دن بعض فقہاء نے کہا ہے کہ ایام معدودۃ سے یوم النحر اور اس کے بعد کے دو دن مراد ہیں اس صورت میں یوم النحر بھی ان تین دنوں میں شامل ہوگا ۔ العداد اس مقرر وقت کو کہتے ہیں جس میں بیماری کا دورہ پڑتا ہو ۔ آنحضرت نے فرمایا مازالت امۃ خیبر تعادنی کہ خیبر کے دن جو مسموم کھانا میں نے کھایا تھا اس کی زہر بار بار عود کرتی رہی ہے عد ان الشئی کے معنی کسی چیز کے موسم یا زمانہ کے ہیں - حب - والمحبَّة :- إرادة ما تراه أو تظنّه خيرا، وهي علی ثلاثة أوجه :- محبّة للّذة، کمحبّة الرجل المرأة، ومنه :- وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان 8] .- ومحبّة للنفع، کمحبة شيء ينتفع به، ومنه :- وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] .- ومحبّة للفضل، کمحبّة أهل العلم بعضهم لبعض لأجل العلم .- ( ح ب ب ) الحب والحبۃ - المحبۃ - کے معنی کسی چیز کو اچھا سمجھ کر اس کا ارادہ کرنے اور چاہنے کے ہیں - اور محبت تین قسم پر ہے :- ۔ ( 1) محض لذت اندوزی کے لئے - جیسے مرد کسی عورت سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ آیت : ۔ وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان 8] میں اسی نوع کی محبت کی طرف اشارہ ہے - ۔ ( 2 ) محبت نفع اندوزی کی خاطر - جیسا کہ انسان کسی نفع بخش اور مفید شے سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13 اور ایک چیز کو تم بہت چاہتے ہو یعنی تمہیں خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح حاصل ہوگی - ۔ ( 3 ) کبھی یہ محبت یہ محض فضل وشرف کی وجہ سے ہوتی ہے - جیسا کہ اہل علم وفضل آپس میں ایک دوسرے سے محض علم کی خاطر محبت کرتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

(آیت 187 کی بقہ تفسیر)- یہ حدیث اس مسئلے پر بھی دلالت کرتی ہے کہ جو شخص مسجد کے اندر ہو اور وہ اپنا سر باہر نکال کر کسی سے دھلوائے تو وہ شخص مسجد کے اندر سر دھونے والا خیال کیا جائے گا ۔ اس مسئلے کا عملی طور پر اثر اس صورت میں پڑے گا جبکہ کوئی شخص یہ قسم اٹھالے کہ وہ فلاں شخص کا سر مسجد میں نہیں دھوئے گا ، پھر اگر وہ اس کا مسجد سے باہر نکال کر دھو لے جبکہ دھونے والا مسجد سے باہر ہو تو ایسی صورت میں سر دھونے والا حانث ہوجائے گا ۔ دراصل اس قسیمہ فقرے میں مغسول یعنی جس کا سردھویا گیا اس کی جگہ کا اعتبار کیا گیا ہے۔ سردھونے والے کی جگہ اور مقام کا اعتبار نہیں کیا گیا ۔ اس لیے دھونے کا عمل اس وقت مکمل ہوگا جب مغسول کا وجود ہوگا ۔ اسی بناء پر فقہاء کا قول ہے کہ اگر کسی نے قسم کھالی کہ میں فلاں شحص کو مسجد میں نہیں ماروں گا تو اس قسمیہ فقرے میں مضروب کے وجود کا مسجد میں پایا جانا ضروری ہے۔ ضارب کے وجود کا نہیں۔- یہ حدیث حائضہ کے ہاتھ اور اس کے جو ٹھے کی طہارت پر دلالت کرتی ہے۔ اس کا حیض اس کے جسمانی طہارت کے لیے مانع نہیں ہوسکتا۔ یہ بات حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس قول کی طرح ہے جس میں آپ نے فرمایا لیس حیضک فی یدک تیرا حیض تیرے ہاتھ میں نہیں ہے ۔ واللہ اعلم - آیت 187 کی تفسیر ختم ہوئی)- ۔۔۔۔- تفسیر آیت 188- حاکم کے حکم سے حلال ہونے اور نہ ہونے والے امور - ارشاد باری ہے ولا تاکلوا اموالکم بینکم بالباطل وتدلوا بھا الی الحکام لتا کلوا فریقا ً من اموال الناس بالباطل اور تم لوگ نہ تو آپس میں ایک دوسرے کا مال ناروا طریقے سے کھائو اور نہ حاکموں کے آگے ان کو اس غرض کے لیے بیش کرو کہ تمہیں دوسروں کے کمال کا کوئی حصہ قصدا ً ظالمانہ طریقے سے کھانے کا موقع مل جائے ۔ اس سے مراد ۔۔۔۔ واللہ اعلم ۔۔۔ یہ ہے کہ تم میں سے بع بعض کا مال ناجائز طریقے سے نہ کھائے جیسا کہ ارشاد باری ہے ولا تقتلوا انفسکم آپس میں ایک دوسرے کو قتل نہ کرو ولا تلمزوا انفسکم سے مرادآپس میں بعض بعض کو یا جس طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قول ہے اموالکم واعراضکم علیکم حرام تمہارا مال اور تمہاری عزت و آبرو تم پر حرام ہیں اس سے مراد یہ ہے کہ تم میں سے ایک دوسرے کا مال اور ایک دوسرے کی عزت و آبرو تمہارے لیے حرمت کی چیزیں ہیں ۔ ناجائز طریقے سے مال کھانے کی دو صورتیں ہیں اول یہ کہ ظلم و جبر کے ذریعے یا چوری ، خیانت اور غضب کے ذریعے یا اسی قسم کے کسی اور ہتھکنڈے کے ذریعے کسی کا مال ہتھیا لینا ۔ دوم یہ کہ ممنوعہ طریقوں مثلاً قمار بازی ، گانے بجانے یا کھیل تماشوں یا نوحہ خوانی کی اجرت کے طور پر یا شراب سور اور آزاد شخص کی قیمت کے طور پر حاصل کیا جائے یا ایسی چیز کی ملکیت حاصل کرلی جائے جس کا جواز نہ ہو اگرچہ مالک اس چیز کو برض اورغبت اس کی ملکیت میں دے دے۔ آیت میں ان تمام صورتوں میں حاصل شدہ مال کے اکل پر پابندی لگا دی گئی ہے اور اسے ممنوع قرار دے دیا گیا ہے۔ ارشاد باری وتدلوا بھا الی الحکام کا تعلق ان صورتوں میں سے ہے جنہیں حاکم کے سامنے پیش کیا جائے اور پھر حاکم ان کے متعلق ظاہری طور پر فیصلہ کر دے تا کہ یہ حلال ہوجائیں جبکہ وہ فریق جس کے حق میں فیصلہ ہوا ہو اسے معلوم ہو کہ وہ اس مال کا حق دار نہیں ہے اور فیصلہ غلط ہوا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں واضح فرما دیا کہ حاکم کے فیصلے سے ایسے مال کو اپنے قبضے میں کرلینا مباح نہیں ہوگا ۔- اس طرح اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک دوسرے کا مال ناجائز طریقے سے کھانے سے ڈانٹ کر روک دیا ۔ پھر ہمیں یہ بتادیا کہ اگر حاکم کے فیصلے کے نتیجے میں اس قسم کا مال کسی کے قبضے میں آ جائے تو وہ بھی ناجائز اور باطل مال کے زمرے میں آئے گا اور جس کا لینا ممنوع ہوگا ۔ ایک دوسری آیت میں ارشاد فرمایا یایھا الذین امنوا لا تاکلوا اموالکم بینکم بالباطل الا ان تکون تجارۃ ً عن تراض منکم اے ایمان والو آپس میں ایک دوسرے کا مال نا جائزطریقے سے نہ کھائو ، البتہ باہمی رضا مندی سے لین دین ہونا چاہیے۔ ما قبل کی صورتوں سے اس صورت کو مستثنیٰ قراردیا جو باہمی رضا مندی سے تجارت یعنی لین دین کی شکل میں ہو ۔ اس صورت کو باطل قرار نہیں دیا ۔ یہ جائز تجارت کی صورت ہے ممنوع تجارت کی نہیں ، جن آیتوں کی ہم نے تلاوت کی ہے وہ اس مسئلے کی اصل ہیں کہ اگر حاکم کسی شخص کے حق میں کسی ایسے مال کا فیصلہ دے دے جو حقیقت میں اس کا نہ ہو تو حاکم کے اس فیصلے سے اس شخص کو وہ مال اپنے قبضے میں لے لینا درست نہیں ہوگا ۔ اس سلسلے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے احادیث مروی ہیں اور یہ چیز سنت سے ثابت ہے۔ ہمیں عبد الباقی بن قانع نے ، انہیں بشر بن موسیٰ نے ، انہیں حمیدی نے ، انہیں عبد العزیز بن ابی حازم نے حضرت اسامہ بن زید (رض) سے ، انہوں نے حضر ت عبد اللہ بن رافع (رض) سے اور انہوں نے حضرت ام سلمہ (رض) سے روایت کی ۔ آپ فرماتی ہیں کہ میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس تھی ۔ دو شخص میراث اور ختم شدہ چیزوں کی ملکیت کا جھگڑا لے کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آئے۔ آپ نے دونوں سے فرمایا انما اقضی بینکما برأی فیما لم ینتزل علی فیہ ۔ فمن قضیت لہ لحجۃ اراھا فافتطع بھا قطعۃ ظلما فانما یقتطع قطعہ من النار یاتی بھا اسطاما ً یوم القیمۃ فی عنقہ میں تم دونوں کے درمیان اپنی رائے سے ان باتوں کے متعلق فیصلہ کر دوں گا جن کے بارے میں مجھ پر کوئی وحی نازل نہیں ہوئی ، اب میں جس شخص کی دلیل سے متاثر ہو کر اس کے حق میں فیصلہ کروں گا اور ازروئے ظلم اس کا ایک ٹکڑا اس کے حوالے کردوں گا تو در حقیقت وہ جہنم کی آگ کا ایک ٹکڑا کاٹ کرلے لے گا جسے وہ قیامت کے دن اپنے گلے میں آگ ہلانے کی کر ینی کی شکل میں ڈال کر آئے گا ۔- یہ سن کر دونوں رونے لگے اور ہر ایک نے یہ کہا کہ اے اللہ کے رسول میرا حق اسے مل جائے ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ سن کر فرمایا لا ولکن اذھبا ، فتوخیا للحق ثم استھما ولحلل کل واحد منکما صاحبہ نہیں بات اس طرح نہیں بنے گی ، تم جائو اور حق کی تلاش کرو اور پھر قرعہ اندازی کے ذریعے اسے آپس میں تقسیم کرلو اور تم دونوں میں سے ہر ایک دوسرے کو بری الذمہ قرار دے دے۔ اس حدیث کا مفہوم قرآن مجید کے نص کے مفہوم کے مطابق ہے کہ کسی شخص کے حق میں کسی مال کی ملکیت کے حاکم کا فیصلہ اس پر اس کے قبضہ کو مباح نہیں کرتا اگر حقیقت میں وہ اس کا مال نہ ہو۔ یہ حدیث کئی دوسرے معانی پر بھی مشتمل ہے ۔ ایک یہ کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایسے امور میں اپنی رائے اور اجتہاد سے فیصلے کرتے تھے ۔ جن کے متعلق وحی نازل نہ ہوتی ۔ اس لیے کہ اس حدیث میں آپ نے یہ فرمایا اقصی بینکما برای فیما لم ینزل علی فیہ میں تمہارے درمیان اس معاملے میں جس کے متعلق وحی نازل نہیں ہوئی اپنی رائے سے فیصلہ کروں گا ۔ دوسری بات یہ کہ حاکم فیصلہ کرنے میں صرف ظاہری حالت پر سوچ بچار کا مکلف ہوتا ہے۔ پوشیدہ باتوں کے متعلق معلومات حاصل کرنے کا مکلف نہیں ہوتا جنکا علم اللہ کو ہوتا ہے۔ اس حدیث میں اس پر بھی دلالت موجود ہے کہ جن امور میں اجتہاد جائز ہے ، ان میں ہر مجتہد مصیب یعنی درست رائے والا ہوتا ہے۔ اس لیے کہ وہ صرف اسی حکم یا رائے کا مکلف ہوتا ہے جس پر وہ اپنے اجتہاد کے نتیجے میں پہنچا ہو۔ - آپ ملاحظہ کرسکتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان دونوں شخصوں کو یہ بتادیا کہ ظاہری طور پر آپ کا فیصلہ درست ہے اگرچہ حقیقی طور پر معاملہ اس کے برعکس ہی کیوں نہ ہو۔ ساتھ ہی ساتھ آپ نے اس شخص کو جس کے حق میں فیصلہ ہوا تھا یہ اجازت نہیں دی کہ وہ مال پر قبضہ کرلے اس حدیث میں اس پر بھی دلالت ہے کہ حاکم کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ کسی انسان کو کوئی مال دینے کا حکم دے دے اگرچہ اس انسان کے لیے اس مال کا لے لینا جائز نہیں ہوگا جبکہ اسے یہ علم ہو کہ وہ اس کا حق دار نہیں ہے۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اقرار کے بغیر بھی فریقین میں صلح ہوسکتی ہے۔ کیونکہ ان دونوں میں سے کسی نے دوسرے کے حق کا اقرار نہیں کیا تھا۔ صرف اپنے ساتھی کے حق میں مال سے دست برداری کا اظہار کیا تھا۔ اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صلح کرنے اور مال کو آپس میں تقسیم کرلینے کا حکم دیا تھا۔- حدیث میں لفظ استہام آیا ہے جس کے معنی قرعہ اندازی کے ذریعے آپس میں تقسیم کرلینے کے ہیں ۔ حدیث کی اس پر بھی دلالت ہو رہی ہے کہ اگر زمین وغیرہ دو شخصوں کے قبضے میں ہو اور ان میں سے ایک اس کا تقسیم کا مطالبہ کرے تو تقسیم واجب ہوجاتی ہے نیز حاکم اس کی تقسیم کا صادر کرے گا ۔ حدیث سے یہ بات تھی معلوم ہوئی کہ مجاہیل یعنی نامعلوم اشیاء کے حق سے بری الذمہ قرار دینا جائز ہے ۔ اس لیے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایسی مجہول اور نامعلوم مواریث کے متعلق خبر دی گئی تھی جس کا نشان بھی باقی نہیں تھا لیکن اس کے باوجود حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان دونوں کو یہ حکم دیا تھا کہ وہ ایک دوسرے کو بری الذمہ قرار دیں۔ اگر حدیث میں ذکر نہ بھی ہوتا کہ یہ ایسی مجہول اور نامعلوم مواریث ہیں جنکا نشان مٹ چکا ہے پھر بھی آپ کا قول ولیحلل کل واحد منکما صاحبہ تم دونوں میں سے ہر شخص دوسرے کو بری الذمہ قراردے دے مجاہیل کے حق سے بری الذمہ قرار دینے کے جواز کا تقاضا کرتا ہے ۔ ا س لیے کہ لفظ میں عموم ہے جس کی دلیل یہ ہے کہ آپ نے ان مواریث میں معلوم اور نامعلوم کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا ۔ حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حاکم کے حکم کے بغیر بھی دونوں شریک تقسیم پر رضا مند ہوسکتے ہیں۔- ایک اور دلالت بھی موجود ہے کہ اگر کسی شخص کا کسی پر کوئی حق ہو اور وہ اپنا حق اسے ہبہ کر دے یعنی اسے نجش دے لیکن دوسرا شخص اسے قبول نہ کرے تو یہ ہبہ درست نہیں ہوگا اور اس حق کی ملکیت ہبہ کرنے والے کو لوٹ آئے گی ۔ اس لیے کہ ان دونوں میں سے ہر ایک نے دوسرے کے کیے ہوئے ہبہ کو رد کردیا تھا اور اپنا حق دوسرے کو دے دیا تھا اور چونکہ اس بارے میں اعیان موجود اشیاء اور دیون قرض کی رقموں کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا گیا اس لیے ضروری ہے کہ برأت ذمہ اور ہبہ کے رد ہوجانے کی صورت میں ان دونوں کو کالعدم قراردیئے جانے میں اعیان اور دیون سب کا حکم یکساں ہو۔- حدیث میں اس پر دلالت ہے کہ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ ” میرے مال میں سے فلاں کے لیے ہزار درہم ہیں “ تو اس کا یہ قول ہبہ ہوگا اپنے اوپر کسی کے حق کا اقرار نہیں ہوگا ، اس لیے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دونوں میں سے کسی ایک کے اس قول کو کہ ” جو میرا حق ہے وہ اس کا ہے “ اقرار قرار نہیں دیا کیونکہ اگر اسے اقرار قرار دیا جاتا تو یہ اس کے ذمہ آ جاتا اور پھر اس کے بعد انہیں صلح کرنے اور ایک دوسرے کو بری الذمہ ٹھہرانے نیز تقسیم کی ضرورت پیش نہ آتی ۔ ہمارے اصحاب کا اس شخص کے متعلق یہی قول ہے جو یہ کہے کہ ” میرے مال میں سے فلاں کے لیے ہزار درہم ہیں “ حدیث میں اس پر بھی دلالت ہو رہی ہے کہ حق کی موافقت کے لیے تحری جستجو اور سوچ بچار اور اجتہاد جائز ہے اگرچہ وہ یقینی نہ بھی ہو کیونکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا وتوخیا للحق حق کی جستجو اور تلاش کرو یعنی تم دونوں جستجو اور کوشش کرو۔ یہ دلالت بھی موجود ہے کہ حاکم کو اگر مصلحت نظر آئے تومقدمہ کے فریقین کو صلح کے لیے واپس کرسکتا ہے ، اور یہ کہ فریقین کو وہ فیصلہ حاصل کرنے پر مجبور نہ کرے۔ اسی بنا پر حضرت عمر (رض) کا قول ہے مقدمہ کے فریقین کو واپس کرو تا کہ یہ صلح کرالیں۔- ہمیں محمد بن بکر نے ، انہیں ابو دائود نے ، انہیں محمد بن کثیر نے ، انہیں سفیان نے ہشام بن عروہ سے ، انہوں نے اپنے والد عروہ سے ، انہوں نے زینب بنت ام سلمہ (رض) سے اور انہوں نے حضرت ام سلمہ (رض) سے روایت کی کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا انما انا بشر وانکم تخصمون الی و لعل بعضکم ان یکون الحسن بجتہ من صاحبہ ناقضی لہ علی نحومما اسمع منہ فمن قضیت لہ من حق اخیہ بشی فلا یا خذمنہ شیئا ً فانما اقطع لہ قطعہ من النار میں بھی ایک انسان ہوں تم میرے سامنے اپنے جھگڑے پیش کرتے ہو ۔ ہوسکتا ہے کہ تم میں سے بعض اپنی دلیل زیادہ بہتر طریقے سے پیش کرے اور میں اس کی بات سننے کے بعد اس کے حق میں اسی کے مطابق فیصلہ دے دوں ، سنو ، میں جس شخص کو اس کے بھائی کا حق دے دوں تو وہ ہرگز اسے نہ لے ایسی صورت میں میں نے اسے جہنم کی آگ کا ایک ٹکڑا کاٹ کردیا ہے۔- ہمیں محمد بن بکر نے ، انہیں ابو دائود نے ، انہیں ابربیع بن نافع نے، انہیں ابن المبارک نے حضرت اسامہ بن زید (رض) سے، انہوں نے حضرت ام سلمہ (رض) کے آزاد کردہ غلام عبد اللہ بن رافع سے اور انہوں نے حضرت ام سلمہ (رض) سے روایت کی ہے کہ دو شخص حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس وراثت کا جھگڑا لے کر آئے ان دونوں کے پاس اپنے دعوئوں کے سوا کوئی گواہی اور دلیل نہیں تھی۔ اس کے بعد انہوں نے سابقہ حدیث کے الفاظ بیان کئے ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی باتیں سن کر وہ دونوں رونے لگے اور دونوں میں سے ہر ایک نے کہا کہ ” میرا حق اسے مل جائے “ یہ سن کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ما اذ فعلتما ما فعلتما فاقتسما وتوخیا الحق ثم استھما ثم تحالااچھا جو کچھ تم دونوں نے کرلیا سو کرلیا ، اب اسے آپس میں تقسیم کرلو ، حق کی جستجو کرو پھر قرعہ اندازی کے ذریعے آپس میں تقسیم کرنے کے بعد ایک دوسرے کو بری الذمہ قرار دے دو ۔- یہ دو نوں حدیثیں وہی مفہوم بیان کر رہی ہیں جو ان سے پہلے حدیث کا ہے یعنی اگر حاکم کسی چیز کے متعلق کسی شخص کے حق میں فیصلہ دے بھی دے تو اس شخص کو اس چیز کے لینے کی ممانعت ہے جبکہ اسے یہ معلوم ہو کہ اس پر میرا حق نہیں ہے۔ ان دونوں حدیثوں کے کچھ اور فوائد ہیں ۔ حدیث زینب بنت ام سلمہ (رض) میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قول ہے ( اقضی لہ علی نحومما اسمع ) میں اس کی بات سن کر اسی کے مطابق اس کے حق میں فیصلہ دے دوں ۔ آپ کا یہ قول اقرار کرنے والے کے اس اقرار کے جواز پر دلالت کرتا ہے جو اپنی ذات پر کرے ۔ اس لیے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں بتادیا تھا کہ آپ ان سے سنی ہوئی بات کے مطابق فیصلہ کریں گے۔ اسی طرح یہ حدیث اس کا تقاضا کرتی ہے کہ حاکم گواہوں سے جو گواہی سنے اس کے مقتضی کی روشنی میں فیصلہ کرے اور اپنے فیصلے اور اپنے حکم کے نفاذ میں گواہیوں کے ظاہری الفاظ کا اعتبار کرے۔ حدیث عبد اللہ بن رافع میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے اقتسما د توخیا الحق ثم استھما اس استہام سے مراد وہ قرعہ اندازی ہے جو مال و ترکہ وغیرہ کی تقسیم کے وقت کی جاتی ہے اس لیے اس حدیث سے تقسیم کے وقت قرعہ اندازی کے جواز پر بھی دلالت ہوگئی۔- اس باب کی ابتداء میں مذکورہ آیت کی رو سے اگر حاکم اپنے غلط فیصلے کے ذریعے کسی کو کوئی مال یا حق دلوا دے تو آیت میں اس شخص کو اس مال پر حق کے لینے کی ممانعت ہے جبکہ اسے خود معلوم ہو کہ یہ اس کا حق یا مال نہیں ہے۔ امت کا اس پر اتفاق ہے کہ اگر کوئی شخص کسی دوسرے پر اپنے حق کا دعویٰ کرے اور اس کی تائید میں ثبوت وغیرہ پیش کر کے اپنے حق میں فیصلہ کرا لے تو اسے یہ حق لینا جائز نہیں ہوگا اور چیز اس کے لیے پہلے ممنوع تھی اب حاکم کے فیصلے کی وجہ سے وہ اس کے لیے مباح قرار نہیں پائے گی ۔ البتہ فقہاء کا اس میں اختلاف ہے کہ اگر حاکم گواہوں کی گواہی کی بنیاد پر کسی عقد مثلا ً عقد نکاح ، عقد بیع ، عقد ہبہ وغیرہ یا فسخ عقد کا فیصلہ دے دے اور جس کے حق میں فیصلہ ہوا ہو اسے معلوم ہو کہ گواہ جھوٹے ہیں تو ایسی صور ت میں اس کے فیصلے کا کیا بنے گا ؟ امام ابوحنیفہ کا قول ہے کہ ثبوت کی بنیاد پر اگر حاکم کسی عقد یا فسخ عقد کا فیصلہ دے دے بشرطیکہ اس عقد کی ابتداء درست ہو ، تو یہ فیصلہ نا فذ العمل ہوگا اور اس کی حیثیت اس عقد کی طرح ہوگی جسے فریقین نے باہمی رضا مندی سے طے کر کے ناقد کرلیا ہو ، خواہ اس مقدمے میں حاکم کے سامنے پیش ہونے والے گواہ جھوٹے ہی کیوں نہ ہوں ۔ امام ابو یوسف ، امام محمد اور امام شافعی کا قول ہے کہ حاکم کا حکم ظاہر میں بھی اسی طرح ہے جس طرح کہ باطن میں ۔ امام ابو یوسف کا قول ہے کہ اگر حاکم میاں بیوی کے درمیان علیحدگی کا فیصلہ دے دے تو بیوی کے لیے نکاح کرنا درست نہیں ہوگا اور نہ ہی اس کا شوہر اس سے قربت کرسکے گا ۔- ابو بکر جصاص کہتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ کے قول کی طرح حضرت علی (رض) ، حضرت ابن عمر (رض) اور شعبی سے بھی اقوال منقول ہیں ۔ امام ابو یوسف نے عمرو بن المقدام کے واسطے سے المقدام سے روایت کی ہے کہ قبیلے کے ایک شخص نے اپنے سے برتر حسب والی عورت کو نکاح کا پیغام بھیجا ۔ عورت نے نکاح کرنے سے انکار کردیا اس شخص نے یہ دعویٰ کیا کہ اس عورت سے اس کا نکاح ہوچکا ہے اور حضرت علی (رض) کے پاس مقدمہ پیش کر کے دو گوہ بھی لے آیا۔ عورت کہنے لگی کہ میں نے اس سے نکاح نہیں کیا ہے۔ حضرت علی (رض) نے جواب میں فرمایا کہ ان دو گواہوں نے تمہارا نکاح کرا دیا ہے۔ اس لیے آپ نے اس نکاح کی درستی کا فیصلے دے دیا ۔- امام ابو یوسف کہتے ہیں کہ مجھے شعبہ بن الحجاج نے زید سے ایک واقع کی روایت تحریر کی کہ دو شخصوں نے ایک شخص کے خلاف جھوٹی گواہی دی کہ اس نے اپنی بیوی کو طلاع دے دی ہے۔ قاضی نے دونوں میں علیحدگی کرا دی اور اس کے بعد ایک گواہ نے اس سے نکاح کرلیا ۔ شعبی نے کہا کہ یہ صورت جائز ہے ۔ حضرت عبد اللہ بن عمر (رض) نے ایک غلام یہ کہہ کر فروخت کیا کہ اس میں کسی قسم کی کوئی بیماری نہیں ہے ۔ خریدار یہ مقدمہ حضرت عثمان (رض) کے پاس لے گیا ۔ حضرت عثمان (رض) نے حضرت ابن عمر (رض) سے فرمایا کہ کیا تم قسم کھا سکتے ہو کہ تم نے یہ اس حالت میں فروخت نہیں کیا تھا کہ اس میں کوئی بیماری تھی جو تم نے خریدار سے چھپائی تھی ؟- حضرت ابن عمر (رض) نے قسم کھانے سے انکار کردیا ۔ حضرت عثمان (رض) نے یہ بیع منسوخ کردی ، حضرت ابن عمر (رض) نے یہ غلام ایک اور شخص کے ہاتھ زیادہ قیمت پر فروخت کردیا ۔ اس واقعے میں حضرت ابن عمر (رض) نے غلام کی فروخت کو جائز قرار دیا حالانکہ انہیں علم تھا کہ اس فیصلے کا باطن یعنی اصل حقیقت اس کے ظاہر کے خلاف ہے اور اگر حضرت عثمان (رض) کو بھی اس کے متعلق اسی طرح علم ہوتا جس طرح حضرت ابن عمر (رض) کو تھا تو آپ کبھی اس بیع کو نہ کرتے۔- اس سے یہ ثابت ہوگئی ۔ حضرت ابن عمر (رض) کا مسلک یہ تھا کہ اگر حاکم کسی عقد کو فسخ کر دے تو یہ واجب ہوجاتا ہے کہ چیز اصل مالک یعنی فروخت کنندہ کی ملکیت میں واپس آ جائے۔ اگرچہ حقیقت یعنی باطن کے لحاظ سے معاملہ اس کے برعکس ہوتا ہے۔ امام ابوحنیفہ کے قول کی صحت پر حضرت ابن عباس (رض) کی روایت دلالت کرتی ہے جو حضرت ہلال بن امیہ اور ان کی بیوی کے درمیان تنازعہ سے تعلق رکھتی ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان دونوں کے درمیان لعان کرا کے فرمایا تھا کہ اگر اس کی بیوں کے ہاں بچہ فلاں فلاں شکل و صورت اور چہرے مہرے کا پیدا ہوگا تو وہ ہلال بن امیہ کا ہوگا اور اگر اس کی شکل و صورت کسی اور ڈھب کی ہوگی تو وہ شریک بن سمحاء کے نفطے سے ہوگا جس کے ساتھ ناجائز تعلقات رکھنے کا اس عورت پر الزام لگایا گیا تھا۔- جب بچہ ناپسندیدہ صفت لے کر پیدا ہوا یعنی شکل و صورت سے وہ شریک کا بیٹا نظر آتا تھا تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اگر لعان کے سلسلے میں قسمیں نہ کھائی گئی ہوتیں تو پھر میں اس عورت سے نمٹ لیتا ۔ آپ نے لعان کی بنا پر ان دونوں کے درمیان علیحدگی کو باطل نہیں کیا حالانکہ آپ کو علم ہوگیا تھا کہ عورت جھوٹی ہے اور مرد سچا ہے۔ یہ حدیث اس صورت کی بنیاد ہے کہ عقود اور فسخ عقود میں حاکم کا فیصلہ نافذ العمل ہوگا اگرچہ ان کی ابتداء بھی حاکم کے حکم کے ذریعے کیوں نہ ہوئی ہو۔ ایک اور پہلو سے بھی امام ابوحنیفہ کے قول کی صحت پر دلالت ہو رہی ہے وہ یہ کہ حاکم گواہوں کی گواہی کی بنیاد پر کسی عقد یا فسخ عقد کے اپنے فیصلے کو نافذ کرنے کا پابند ہے۔ بشرطیکہ گواہ ظاہری طور پر عادل ہوں یعنی بےراہ روی اور فسق و فجور کی وجہ سے بد نام نہ ہوں ۔ اگر حاکم گواہوں کی گواہی کے بعد اپنا فیصلہ نافذ کرنے میں توقف کرے گا تو وہ گناہ گار ہوگا اور اللہ کے حکم کا تارک قرار پائے گا ۔ اس لیے کہ وہ صرف ظاہرکا مکلف ہے اور علم باطن کا جو اللہ کے ہاں پوشیدہ ہے، مکلف نہیں ہے۔ اس لیے جب کسی عقد کے حق میں اس کا فیصلہ نافذ ہوجائے گا تو اس کی حیثیت اس عقد کی طرح ہوگی جس کی فریقین نے اپنے درمیان خود ابتداء کی ہوگی ۔ - اسی طرح جب وہ کسی عقد کے فسخ ہونے کا فیصلہ صادر کرے گا تو اس کی حیثیت اس فسخ کی طرح ہوگی جو فریقین نے از خود اپنے درمیان کرلی ہوگی جب فریقین از خود کوی عقد یا فسخ عقد کرلیں تو ان کا نفاذ اللہ کے حکم پر دونوں کی رضا مندی کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ یہی حیثیت حاکم کے حکم کی بھی ہے۔- اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ حاکم اگر غلاموں کی گواہی کی بنا پر کوئی فیصلہ دے گا تو گواہوں کی غلامی کا علم ہوجانے پر اس کا فیصلہ نافذ العمل نہیں ہوگا حالانکہ وہ اپنا فیصلہ نافذ کرانے کا پابند ہوتا ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ غلاموں کی گواہی کی صورت میں حاکم کا فصلہ اس لئے نافذ العمل نہیں ہوتا کہ غلامی ایک ایسی صفت ہے جس کی صحت کا ثبوت عدالتی فیصلے کے ذریعے ہوتا ہے یہی حاحل شرک اور حد قذف کا بھی ہے۔- اس بنا پر غلامی کی وجہ سے حاکم کے حکم کا فسخ ہونا درست ہوگیا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ غلامی کے متعلق ثبوت مہیا کرنا اور عدالت میں مقدمہ لے جانا درست ہوتا ہے۔ اسی لئے ان اوصاف کے وجود کی بنا پر جن کا اثبات عدالتی فیصلے کی بنیاد پر درست ہوتا ہے۔ یہ جائز ہے کہ ان اوصاف کے مالک اشخاص کی گواہی پر حاکم کا حکم نافذ نہ ہو۔- لیکن فسق اور گواہ جھوٹے وہنے کی بنا پر گواہی کا ناقص ہوجانا تو یہ ایسے اوصاف نہیں ہیں جن کا اثبات عدالتی فیصلے کے ذریعے درست ہوتا ہے۔ نیز ان کے متعلق عدالتی چارہ جوئی بھی قابل قبول نہیں ہوتی اس لئے ان اوصاف کی بنا پر حاکم کے فیصلے کا نفاذ فسخ نہیں ہوتا۔- عقد اور فسخ عقد کے بارے میں عدالتی فیصلے کے نفاذ کے متعلق ہماری جو رائے ہے اس کی بنا پر ملک مطلق کے متعلق عدالتی فیصلے میں بھی وہی رائے ہونی چاہیے جبکہ اسے لے لینا ہم مباح نہیں سمجھتے اور ملک مطلق کے بارے میں عدالتی فیصلے کی بنا پر اسے لے لینا حلال نہیں سمجھتے تو یہ اعتراض ہم پر لازم نہیں آئے گا اس لئے کہ اگر وہ ملکیت کا فیصلہ کرے گا تو پھر گواہوں کی گواہی میں ملکیت کی وجہ بیان کرنا بھی ضروری ہوگا۔- اب جبکہ سب کا اس پر اتفاق ہے کہ ملکیت کی وجہ بیان کئے بغیر بھی گواہوں کی گواہی قابل قبول ہوگی۔ تو اس سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ حاکم جس بات کا فیصلہ کرے گا وہ تسلیم یعنی حوالگی اور سپرداری ہے اور حوالگی کا فیصلہ ملکیت کی منتقلی کا سبب نہیں بن سکتا اسی بن اپر وہ چیز مالک کی ملکیت میں باقی رہے گی۔- قول باری (لتا کلوا فریقاً من اموال الناس بالاثم وانتم تعلمون) اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ یہ حکم اس شخص کے متعلق ہے جسے یہ علم ہو کہ جو چیز حاکم کے فیصلے کے نتیجے میں اسے مل رہی ہے اس پر اس کا کوئی حق نہیں ہے۔ لیکن جسے اس کا علم ن ہہو تو اس کے لئے حاکم کے فیصلے کے نتیجے میں مال لے لینا جائز ہوگا جبکہ اس کا ثبوت مل جائے۔- یہ چیز اس بات پر دلالت کتری ہے کہ اگر گواہی وغیرہ کی صورت بینہ قائم ہوجائے یعنی ثبوت مل جائے کہ فلاں کے مرحوم باپ کے اس فلاں شخص کے ذمے ایک ہزار درہم ہیں یا یہ کہ فلاں گھر ترکے میں چھوڑ گیا ہے تو وارث کے لئے دعویٰ دائر کرنا جائز ہوگا اور حاکم کے فیصلے کے نتیجے میں اسے لے لینا جائز ہوگا۔ اگرچہ اسے اس کی صحت کے متعلق کوئی علم نہ ہو۔- اس لئے کہ اسے اس بات کا علم نہیں ہے کہ وہ باطل طریقے سے ایک چیز لے رہا اور اللہ تعالیٰ نے اس شخص کی مذمت کی ہے جو یہ جانتا ہو کہ وہ باطل طریقے سے ایک چیز لے رہا ہے کیونکہ قول باری ہے (لتاکلوا فریقاً من اموال الناس بالباطل وانتم تعلمون)- عقود اور فسخ عقود میں حاکم کے حکم کے نفاذ پر ایک یہ چیز بھی دلالت کرتی ہے کہ سب کا اس پر اتفاق ہے کہ اگر حاکم کسی ایسے مسئلے میں جس کے متعلق فقہاء کی آراء مختلف ہوں کسی ایک فقیہ کی رائے کے مطابق فیصلہ کر دے گا تو اس کا فیصلہ نافذ العمل ہوجائے گا اور اسے رد کرنے کے لئے اجتہاد کی ہر گنجائش ختم ہوجائے گی۔ نیز جس فریق کے حق میں فیصلہ ہوا ہے اسے اس مال کو لے لینے کی اجازت ہوگی اور جس فریق کے خلاف فیصلہ ہوا ہے اسے اس مال کو لے لینے کی اجازت ہوگی اور جس فرق کے خلاف فیصلہ ہوا ہے اسے اس چیز کی گنجائش نہیں ہوگی کہ وہ دوسرے فریق کو ایسا کرنے سے روک دے اگرچہ دونوں فریق کا مسلک اس کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ مثلاً پڑوس کی بنا پر حق شفعہ یا ولیکے بغیر نکاح کا جواز وغیرہ مسائل جن میں فقہاء کے درمیان اختلاف رائے ہے۔- ۔۔۔۔- تفسیر آیت 189 ۔- قو ل باری ہے (یسئلونک عن الاھلۃ قلھی موافیت للناس والحج، آپ سے چاند کے گھٹنے بڑھنے کے بارے میں پوچھتے ہیں آپ کہہ دیجیے کہ یہ لوگوں کے لئے تاریخوں کی تعیین اور حج کی علامتیں ہیں) پہلی تاریخ اور اس سے قریب کی تاریخوں کے چاند کو ہلال کہنے کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ کچھ عرصے تک مخفی رہنے کے بعد اس وقت اس کا ظہور ہوتا ہے۔ اسی سے ابلال بالحج کا محاورہ ہے جس کے معنی اظہار تلبیہ کے ہیں اسی طرح استہلال الصبی، ہے جس کا مطلب آواز یا حرکت کے ذریعے بچے کی زندگی کے آثار کا ظہور ہے۔- بعض لوگوں کا یہ قول ہے کہ ’ اہلال ‘ کا مطلب آواز بلند کرنا ہے اور ’ اھلال الھلال ‘ اسی سے بنا ہے کیونکہ جب چاند نظر آ جاتا ہے تو دیکھنے والوں کی آواز بلند ہوتی ہے لیکن پہلی بات زیادہ واضح اور ظاہر ہے۔- آپ دیکھتے نہیں کہ عرب کہتے ہیں ” تھلل وجھہ “ (اس کا چہرہ دمک اٹھا) یہ فقرہ اس وقت بولا جاتا ہے جب کہ اس شخص کے چہرے پر خوشی اور مسرت کے آثار ہویدا ہوتے ہیں۔ اس محاورے میں ’ بلند آواز ‘ کا کوئی مفہوم موجود نہیں ہے۔ تابط شراً کا ایک شعر ہے۔- واذا نظرت الی اسوۃ وجھہ بوقت کسبرق العارض المتھلل - جب تم اس کے چہرے کی لکیروں پر نظر ڈالو گے تو تمہیں وہ اس طرح چمکتی ہوئی نظر آئیں گی جس طرح پر مسرت رخسار یا بجلیوں والے بادل کی چمک ہوتی ہے۔ یہاں المتہلل کے معنی کھلے ہوئے اور روشن کے ہیں۔- اہل لغت کا اس وقت کے بارے میں اختلاف ہے جو ہلال کہلاتا ہے ۔ بعض کا قول ہے کہ مہینے کی پہلی اور دوسری رات کا چاند ہلال ہوتا ہے۔ بعض کا قول ہے کہ پہلی تین راتوں کا چاند ہلال کہلاتا ہے اس کے بعد قمر کہلاتا ہے۔- اصمعی کا کہنا ہے کہ چاند جب تک ایک باریک لکیر کے ذریعے گول نظر نہ آئے اس وقت تک ہلال ہوتا ہے ۔ بعض کا قول ہے کہ چاند کی روشنی جب تک رات کی تاریکی پر غالب نہ آ جائے اس وقت تک ہلال ہوتا ہے۔ اس کے بعد قمر کہلاتا ہے۔ چاند کی یہ صورت ساتویں رات میں ہوتی ہے۔ زجاج کا قول ہے کہ اکثر لوگ پہلی دو راتوں کے چاند کو ہلال کہتے ہیں۔- آیت میں چاند کے متعلق لوگوں کے سوال کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اس کے ذریعے چاند کے گھٹنے بڑھنے کی حکمت دریافت کی گئی تھی، اللہ تعالیٰ نے انہیں جواب دیا کہ اس کے گھٹنے بڑھنے کی صورتیں وہ پیمانے ہیں جن کی ضرورت لوگوں کو اپنے روزوں اور حج کی تعیین نیز قرضوں کی ادائیگی کے اوقات اور اسی طرح کے دوسرے امور کے سلسلے میں پیش آتی ہے گویا ان کا تعلق تمام لوگوں کے عام منافع سے ہے۔ ان کے ذریعے لوگ مہینوں اور سالوں کی پہچان رکھتے ہیں اور ان میں ان کے لئے لاتعداد دیگر منافع اور مصالح پوشیدہ ہیں۔- یہ تمام چیزیں اللہ کی ذات کی معرفت کے علاوہ ہیں۔ آیت میں اس بات کی دلالت موجود ہے کہ حج کے لئے پورے سال میں کسی بھی وقت احرام باندھا جاسکتا ہے اس لئے کہ تمام سال کے ہلالوں کے متعلق لفظ کے عموم کے ذریعے یہ بتایا گیا ہے کہ یہ ہلال حج کی تاریخوں کی تعیین کے لئے ہیں۔ اور ظاہر ہے ان سے مراد افعال حج نہیں ہیں اس لئے ان سے احرام مراد لینا ضروری ہوگیا۔- قول باری (الحج اشھر معلومات، حج کے معلوم مہینے ہیں) ہمارے قول کی نفی نہیں کرتا۔ اس لئے کہ اس قول باری میں ایک پوشیدہ لفظ موجود ہے جس سے یہ فقرہ کسی طرح خلای نہیں رکھا جاسکتا، اس کی دلیل یہ ہے کہ لفظ حج کا اطلاق، اشہر، یعنی مہینوں پر کرنا محال ہے۔ اس لئے کہ حج نام ہے حاجی کے فعل کا نہ کہ مہینوں کا۔ مہینے تو مردر اوقات کا نام ہے اور مردر اوقات اللہ کا فعل ہے نہ کہ حاجی کا جب کہ حج حاجی کا فعل ہے۔- اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ فقرے میں ایک پوشیدہ لفظ موجود ہے جس سے فقرے کو الگ نہیں کیا جاسکتا ہے۔ پھر یہ پوشیدہ لفظ، فعل الحج ہوگا، یا احرام بالحج ہوگا۔ اب کوئی شخص دلیل کے بغیر ان میں سے کوئی ایک معنی لے نہیں سکتا۔ جب لفظ میں یہ احتمال موجود ہے تو قول باری (قل ھی مواقیت للناس والحج) کو اس کے ساتھ خاص کرنا جائز نہیں ہوگا اس لئے کہ احتمال کے ذریعے عموم کی تخصیص جائز نہیں ہے۔- دوسری وجہ یہ ہے کہ اگر اس سے مراد حج کا احرام ہے تو اس سے دیگر مہینوں میں احرام کی صحت کی نفی نہیں ہوتی، اس سے تو صرف ان مہینوں میں احرام کا اثبات ہو رہا ہے ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ اس آیت سے ان مہینوں میں احرام جائز ہے اور ایک دوسری آیت سے دیگر مہینوں میں احرام کا جواز ثابت ہوتا ہے۔ اس لئے کہ ان دونوں آیتوں میں ایسی کوئی بات نہیں ہے جس کے ذریعے دوسری آیت کی تخصیص ہوجائے۔ ظاہر لفظ جس بات کا متقاضی ہے وہ یہ ہے کہ اس سے مراد حج کے افعال ہیں نہ کہ حج کا احرام۔- البتہ اس میں ایک حرف ظرف (فی) پوشیدہ ہے۔ اس وقت معنی یہ ہوں گے کہ ” حج معلوم مہینوں میں ہوتا ہے۔ “ اور سا کے ذریعے افعال حج کو ان ہی مہینوں میں خاص کردیا گیا ہے۔ دیگر مہینوں میں افعال حج نہیں ہوسکتے۔ ہمارے اصحاب کا اس شخص کے متعلق یہی قول ہے جس نے اشہر حج سے پہلے حج کا احرام باندھ لیا ہو اور پھر طواف اور سعی سے بھی فارغ ہوگیا ہو۔ اس کی یہ سعی اس کے لئے کافی نہیں ہوگی اور اس کا اعادہ اس پر لازم ہوگا اس لئے کہ حج کے افعال اشہر حج سے پہلے نہیں کئے جاسکتے۔- اس بنا پر قول باری (الحج اشھر معلومات) کے معنی یہ ہوں گے کہ حج کے افعال حج کے معلوم مہینوں میں ہوتے ہیں اور قول باری (یسئلونک عن الاھلۃ قلھی مراقیت للناس والحج) میں حج کے احرام کے لئے عموم ہے نہ کہ افعال حج کے لئے۔- اسی طرح یہ درست نہیں ہے کہ قول باری (ھی مراقیت للنسا والحج) سے وہ ہلال مراد ہوں جو حج کے مہینوں کے ساتھ خاص ہیں جس طرح یہ بھی درست نہیں کہ آیت میں مذکور اھلہ ، جو لوگوں کے لئے اوقات کی تعیین، ان کے قرضوں کی مدت کی تحدید اور ان کے روزہ رکھنے اور روزہ چھوڑنے کے لئے علامات میں، صرف اشہر حج کے ساتھ مخصوص ہوں اور دوسرے مہینوں سے ان کا تعلق نہ ہو۔- جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ لفظ اھلہ، لوگوں کے لئے تاریخوں کی تعیین کا مفہوم ادا کر رہا ہے اور یہ مفہوم تمام اھلہ، کے لئے عام ہے اس بنا پر حج کے سلسلے میں بھی اس کا یہی حکم ہونا چاہیے۔ اس لئے کہ لوگوں کے لئے تاریخوں کی تعیین یعنی مواقیت کے لئے جن اھلہ کا ذکر ہوا ہے بعینہ حج کے لئے بھی ان ہی اھلہ کا ذکر ہوا ہے کیونکہ ارشاد باری ہے (قل ھی مواقیت للناس والحج)- اس بنا پر اگر ہم آیت کو افعال حج پر محمول کریں گے اور قول باری (الحج اشھر معلومات) میں مذکور معنی پر اس کے مفہوم کو محدود کردیں گے تو اس سے یہ نتیجہ برآمد ہوگا کہ آیت (قل ھی مراقیت للناس والحج) کا فائدہ ساقط ہوجائے گا، اس کے حکم کا انعدام ہوگا اور بغیر کسی دلیل کے اس کے لفظ کی تخصیص ہوجائے گی اور اس کا مفہوم قول باری (الحج اشھر معلومات) کے مفہوم میں محدود ہوجائے گا۔- لیکن قاعدے کی رو سے جب ہر لفظ کو حکم اور فائدے کے لحاظ سے اس کا پورا پورا ح قدینا واجب ہے تو یہ ضرو ریہو گیا کہ آیت میں مذکور اھلہ کو سال کے تمام ہلالوں پر محمول کیا جائے اور انہیں حج کے احرام کے لئے مواقیت شمار کیا جائے۔ ہم انشاء اللہ اس مسئلے پر اس کے مقام میں پہنچ کر مزید روشنی ڈالیں گے۔- قول باری (قل ھی مواقیت للناس) سے اس فقہی مسئلے پر روشنی پڑتی ہے کہ اگر کسی عورت پر ایک مرد کی طرف سے دو عدتیں واجب ہوجائیں تو اس کے لئے ایک عدت گذار دینا دونوں کی طرف سے کافی ہوجائے گا اور وہ حیض اور مہینوں کے حساب سے نئے سرے سے دوسری عدت شروع نہیں کرے گی۔ پہلی مدت کی عدت ہی کافی ہوگی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جب تمام اہلہ کو سب لوگوں کے لئے وقت کی تعیین کا ذریعہ قرار دیا تو اس نے ان میں کسی عدت کو وقت کے کسی ایک حصے کے ساتھ مخصوص نہیں کیا اور عدت کی مدت کا گذر جانا ان دونوں میں سے ہر عدت کے لئے وقت ہے کیونکہ ارشاد باری ہے (فما لکم علیھن من عدۃ تعتدونھا ، تمہارے لئے ان عورتوں پر کوئی عدت نہیں جسے تم شمار کرنے لگو۔ )- آیت میں عدت کو شوہر کا حق قرار دیا۔ پھر جب عدت مرور اوقات کا نام ہے اور اللہ تعالیٰ نے اھلہ کو تمام لوگوں کے لئے وقت قرار دیا ہے تو یہ ضروری ہوگیا کہ دونوں عدتوں کے لئے ایک ہی مدت کے گذرنے کو کافی سمجھا جائے۔- ذرا قول باری (قل ھی مواقیت للناس) پر غور کیجیے اس کے خطاب کے مفہوم سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے، اھلہ تمام لوگوں کے اجارہ (مکان یا دکان وغیرہ کرایہ پر دینا) کی مدتوں اور ان کے تمام قرضوں وغیرہ کی ادائیگی کے اوقات کی علامتیں ہیں اور ان میں سے کسی شخص کو بھی اس کی ضرورت نہیں ہے کہ وہ اپنی ذات کے لئے بعض اہلہ کو خاص کرے اور دوسرے اہلہ کو نظر انداز کر دے۔ ٹھیک اسی طرح عدت کے متعلق آیت کا مفہوم دو مردوں کے لئے ایک مدت کے گذر جانے کا تقاضا کرتا ہے۔- اسی طرح قول باری (قل ھی مواقیت للناس) اس پر بھی دلالت کرتا ہے کہ اگر عدت کی ابتدا چاند کے حساب سے ہو اور مدت کا حساب مہینوں کے لحاظ سے ہو تو اس مدت کی تکمیل بھی چاند کے تین مہینوں کے حساب سے واجب ہوگی اگر عدت کی مدت تین ماہ ہو یا عدت وفات کی صورت میں چاند کے حساب سے چار مہینے پورے کرنے ہوں گے۔ دنوں کی تعداد کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا۔ - آیت کی اس پر بھی دلالت ہوتی ہے روزے کے مہینے کی ابتدا اور انتہا دونوں کا اعتبار چاند کے ذریعے ہوگا اور تعداد کی ضرورت رویت ہلال نہ ہونے کی صورت میں پیش آئے گی۔ آیت کی دلالت اس فقہی مسئل یپر بھی ہو رہی ہے کہ جس شخص نے اپنی بیوی سے مہینے کی ابتدا میں ایلاء کیا تو طلاق واقع ہونے کے لئے چار ماہ کی مدت کا حساب چاند کے ذریعے ہوگا۔ تیس دنوں کا اعتبار نہیں ہوگا۔- یہ مسئلہ اجارے کی تمام صورتوں، قسموں اور قرضوں کی مدت کی تحدید وغیرہ کے لئے ہے کہ جب ان کی ابتداء ہلال یعنی چاند کی پہلی تاریخ سے ہوگی تو پھر ان کا حساب چاند کے مہینوں کے لحاظ سے ہوگا اور تیس دنوں کی گنتی کا اعتبار نہیں کیا جائے گا۔ اس چیز کا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے فرمان (صوموالرویتہ وافطروالردیتہ فان غم علیکم فعدواثلاثین) میں حکم دیا ہے کہ رویت ہلال نہ ہونے کی صورت میں تیس کی گنتی پوری کرنے کی طرف رجوع کیا جائے۔- قول باری ہے (ولیس البریات تاتوا البیوت من ظھورھا یہ نیکی نہیں ہے کہ تم اپنے گھروں میں پچھواڑے سے آئو۔ ) اس کی تفسیر میں جو کہا گیا ہے۔ اس کی روایت ہمیں عبداللہ بن اسحاق مروزی نے ، انہیں الحسن بن ربیع جرجانی نے، انہیں عبدالرزاق نے، انہیں معمر نے زہری سے کی ہے۔- زہری کہتے ہیں کہ انصار میں سے کچھ لوگ ایسے تھے کہ جب عمر کا تلبیہ کہتے تو اپنے اور آسمان کے درمیان حائل نہ ہونے دیت یاور اسے گناہ کی بات سمجھتے پھر کبھی ایسا ہوتا کہ کوئی شخص عمرے کا تلبیہ کہتے ہوئے اپنے گھر سے نکلتا۔ اتفاقاً اسے کوئی ضرورت پیش آ جاتی تو واپس ہو کر دروازے سے گھر میں داخل نہ ہوتا تاکہ کمرے کی چھت اس کے اور آسمان کے درمیان حائل نہ ہوجائے۔ اس لئے وہ گھر کے پچھواڑے سے دیوار پھاڑ کر اندر داخل ہوتا اور کمرے کے دروازے پر کھڑا ہو کر اپنی ضرورت پوری کرنے کے لئے الہ خانہ کو ہدایات دیتا اور واپس ہوجاتا۔- ہمیں یہ روایت پہنچی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حدیبیہ کے مقام پر عمرے کا احرام باندھ کر تلبیہ کہا پھر اپنے حجرے میں داخل ہوگئے اور آپ کے پیچھے پیچھے انصار قبیلہ بنی سلمہ کا ایک شخص بھی کمرے میں داخل ہوگیا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے فرمایا کہ میں احمس ہوں۔ یعنی دین کے معاملے میں بڑا دلیر اور جو شیلا ہوں۔- زہری کہتے ہیں کہ جو لوگ اپنے آپ کو پرجوش دیندار کہلاتے تھے وہ تلبیہ کے بعد چھت کے نیچے جانے کی پروا نہیں کرتے تھے۔ یہ سن کر اس انصاری نے بھی کہا کہ میں بھی احمس ہوں یعنی میں بھی آپ کے دین پر ہوں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی (ولیس البربان تاتوا البیوت من ظھورھا)- حضرت ابن عباس ، حضرت براء بن عازب، قتادہ اور عطاء بن ابی رباح نے روایت کی ہے کہ زمانہ جاہلیت میں ایک گروہ ایسا تھا جو احرام باندھ کر گھر کی پچھلی دیوار میں بڑا سا سوراخ کر کے اس کے ذریعے آنا جانا کرتا۔ ان لوگوں کو اس قسم کی دینداری سے منع کردیا گیا۔- اس آیت کی تفسیر میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ ایک مثال ہے جو اللہ نے بیان کی ہے کہ نیکی کو اس کے درست طریقے سے سر انجام دو ، درست طریقہ ہی ہے جس کا حکم اللہ نے دیا ہے۔ تاہم اسی میں کوئی امتناع نہیں کہ آیت میں یہ تمام باتیں اللہ کی مراد ہوں۔ اس طرح اس میں یہ بیان بھی ہے کہ گھر کے پچھواڑے سے گھر میں آنا تقرب الٰہی کا ذریعہ نہیں، نہ ہی یہ اللہ کی شریعت کا جز ہے اور نہ ہی اس کی ترغیب دی گئی ہے۔- ساتھ ہی یہ مثال بھی بن سکتی ہے جو اللہ نے لوگوں کے سامنے بیان کی ہے کہ تمام امور سای ڈھنگ سے سرانجام دینے چاہئیں جس کا اللہ نے حکم دیا اور جس کی ترغیب دی ہے۔ اس میں یہ بھی بیان ہے کہ جو بات اللہ کی شریعت کا جز نہیں اور نہ ہی اللہ نے اس کی ترغیب دی ہے وہ نہ تو تقرب الٰہی کا ذریعہ بن سکتی ہے اور نہ ہی دینداری میں شمار ہوسکتی ہے کہ کوئی تقرب حاصل کرنے والا اسے قربت یعنی عبادت سمجھ بیٹھے یا اس کے متعلق اس کا عقیدہ یہ ہوجائے کہ یہ دین ہے۔- سنت میں اس کی نظیروہ حدیث ہے جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے جس میں آپ نے دن بھر کی صحت یعنی چپ کے روزے، سے منع فرمایا ہے جو رات تک ممتد ہو۔ اسی طرح آپ نے ایک شخص کو دھوپ میں کھڑا دیکھا۔ استفسار کرنے پر پتہ چلا کہ اس نے دھوپ میں کھڑے ہونے کی نذر مانی ہے۔ آپ نے اسے سائے میں چلے جانے کا حکم دیا۔ - اسی طرح آپ نے صوم و صال سے منع فرمایا۔ اس لئے کہ رات کو تو روزہ نہیں ہوتا۔ اس لئے آپ نے یہ عقیدہ رکھنے سے روک دیا کہ رات کے وقت کا روزہ اور کھانے پینے سے پرہیز بھی کوئی قربت یعنی عبادت ہے۔ یہ تمام صورتیں اس اصول کی بنیاد ہیں کہ اگر کوئی شخص کسی ایسی چیز کی نذر مان لے جو قربت نہ ہو تو نذر کی بنا پر وہ چیز اس پر لازم نہیں آئے گی اور اسے اپنے اوپر واجب کرلینے سے یہ قربت نہیں بنے گی۔- اسی طرح اس پر بھی دلالت ہو رہی ہے کہ جس چیز کی اصلیت کی بنا وجوب پر نہ ہو تو وہ چیز نذر کی وجہ سے واجب نہیں ہوتی خواہ وہ قربت ہی کیوں نہ ہو۔ مثلاً مریض کی عیادت، کھانے کی دعوت میں شرکت ، مسجد کی طرف پیدل جانا اور مسجد میں دیر تک بیٹھے رہنا وغیرہ۔ واللہ اعلم - جہاد کی فرضیت - ارشاد باری ہے (وقاتلوا فی سبیل اللہ الذین یقاتلونکم ولا تعتدوا ان اللہ لایحب المعتدین) اور تم اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں مگر زیادتی نہ کرو کہ اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ )- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ امت میں اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ ہجرت سے پہلے قتال یعنی جنگ کی ممانعت تھی۔ ارشاد باری ہے (ادفع بالتیھی احسن فا ذا الذی بین کو بینہ عداوۃ کانہ ولی حمیم وما یلقھا الا الذین صبروا وما یلقھا الا ذو حظ عظیم) آپ نیکی سے بدی کو ٹال دیا کیجیے تو پھر یہ ہوگا کہ جس شخص میں اور آپ میں عداوت ہے وہ ایسا ہوجائے گا جیسا کوئی دلی دوست ہوتا ہے اور یہ بات انہی لوگوں کو نصیب ہوتی ہے جو صبر کرتے رہتے ہیں اور اسی کو نصیب ہوتی ہے جو بڑا صاحب نصیب ہوتا ہے۔ )- اسی طرح قول باری ہے (فان تولوا فانما علیک البلغ وعلینا الحساب) اگر یہ منہ موڑیں تو تمہارے ذمہ صرف ہمارا پیغام پہنچا دینا ہے اور ان سے حساب کتاب لینا ہمارے ذمہ ہے)- اسی طرح ارشاد باری ہے (واذا خاطبھم الجاھلون قالوا سلاماً ) اور جب جاہل ان کے منہ آئیں تو کہہ دیتے ہیں تم کو سلام) عمرو بن دینار نے عکرمہ کے واسطے سے حضرت ابن عباس سے روایت کی ہے کہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف اور ان کے چند دوستوں کا مال و متاع مکہ میں تھا۔ انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ ہم جب تک مشرک تھے ہمارا دبدبدہ تھا جب ہم مسلمان ہوگئے تو ہم پر ذلت اور پستی طاری ہوگئی اور ہم کمزور ہوگئے۔- یہ سن کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (امرت بالعفو، فلاتقا تلوا القوم، مجھے درگذر کرنے کا حکم دیا گیا ہے اس لئے تم ان سے جنگ نہ کرو) پھر جب اللہ تعالیٰ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مدینہ چلے جانے کا حکم دے دیا تو مسلمان کو جنگ کرنے کا حکم ملا لیکن اس وقت ان لوگوں نے اپنے ہاتھ روک لئے۔- اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (الم ترا لی الذین قیل لھو کفوا ایدیکم و اقیموا الصلوۃ و اتوا الزکوۃ فلما کتب علیھم القتال اذا فریق منھم یخشون الناس ) کیا تم ان لوگوں کی طرف نہیں دیکھتے جن سے کہا گیا تھا کہ اپنے ہاتھ روکے رکھو اور نماز قائم کرو اور زکواۃ ادا کرو۔ پھر جب ان پر قتال فرض کردیا گیا تو ان میں سے ایک گروہ لوگوں سے ڈرنے لگا۔ )- ہمیں جعفر بن محمد واسطی نے روایت کی، انہیں ابو الفضل جعفر بن محمد بن الیمان نے، انہیں ابو عبد نے ، انہیں عبداللہ بن صالح نے علی بن ابی طلحہ سے انہوں نے حضرت ابن عباس سے اللہ تعالیٰ کے ان ارشادات (لست علیھم بمصیطر، آپ ان پر مسلط تو نہیں ہیں) اور (وما انت علیھم بجبار، آپ ان پر جبر کرنے والے بنا کر نہیں بھیجے گئے۔ )- نیز (فاعف عنھم واصفح، انہیں معاف کردیجیے اور ان سے در گذر کیجیے) نیز (قل للذین امنوا یغفروا للذین لایرجون ایام اللہ جو لوگ ایمان لے آئے ہیں آپ ان سے کہہ دیجیے ان لوگوں سے درگذر کریں جو اللہ کے معاملات کا یقین نہیں رکھتے ) کی تفسیر میں بیان کیا کہ ان تمام آیات کو قول باری (اقتلوا المشرکین حیث وجدتموھم تم مشرکین کو جہاں کہیں بھی پائو قتل کر دو ) نے منسوخ کردیا۔- اسی طرح یہ آیات قول باری (قاتلوا الذین لایومنون باللہ ولاب الیوم الاخر ولا یحرمون ماحرم اللہ ور سولہ ولا یدینون دین الحق من الذین اوتوا الکتاب حتی یعطوا الجزیۃ عن یدوھم صاغرون، اہل کتاب میں سے ان سے لڑو جو نہ تو اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور نہ روز آخرت پر اور نہ ان چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں جنہیں اللہ اور اس کے رسول نے حرام کیا ہے اور نہ سچے دین کو قبول کرتے ہیں یہاں تک کہ وہ رعیت ہو کر اور اپنی پستی کا احساس کر کے جزیہ ادا کریں۔- کفار سے قتال کرنے کا حکم لے کر کون سی آیت پہلے نازل ہوئی اس کے متعلق سلف میں اختلاف رائے ہے۔ ربیع بن انس وغیرہ سے مروی ہے کہ (وقاتلوا فی سبیل اللہ الذین یقاتلونکم اور تم اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں۔ اس سلسلے کی پہلی آیت ہے۔ - ایک دوسرے گروہ سے جس میں حضرت ابوبکر صدیق، زہری اور سعید بن جبیر شامل ہیں یہ مروی ہے کہ قتال کے متعلق پہلی آیت (اذن للذین یقاتلون بانھم ظلموا، اب لڑنے کی اجازت دی جاتی ہے انہیں جن سے لڑائی کی جاتی ہے اس لئے کہ ان پر بہت ظلم ہوچکا) یہاں یہ گنجائش ہے کہ (وقاتلوا فی سبیل اللہ) پہلی آیت ہو جس میں ان لوگوں سے لڑنے کی اجازت دی گئی تھی جو مسلمانوں سے لڑتے تھے ، اور دوسری آیت میں جنگ کا اذن عام ہو یعنی جو لوگ مسلمانوں سے جنگ کرتے تھے اور جو نہیں کرتے تھے سب کے خلاف ہتھیار اٹھانے کی اجازت دی گئی تھی۔- ۔۔۔۔ - تفسیر آیت 190- قول باری (وقاتلوا فی سبیل اللہ الذین یقاتلونکم) کے معنی میں اختلاف منقول ہوا ہے۔ ربیع بن انس کا قول ہے کہ یہ پہلی آیت ہے جو مدینہ منورہ میں قتال کے بارے میں نازل ہوئی۔ اس کے نزول کے بعد حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صرف ان مشرکین سے جنگ کرتے جو آپ کے مقابلے پر آتے اور جو جنگ نہ کرتے ان سے اپنے ہاتھ روکے رکھتے یہاں تک کہ وہ آیت نازل ہوئی جس میں تمام مخالفین اسلام سے جنگ کرنے کا حکم دے دیا گیا۔- ابوبکر جصاص کہتے ہیں درج بالا آیت کی ربیع بن انس کے نزدیک وہی حیثیت ہے جو اس آیت کی ہے (فمن اعتدیٰ علیکم فاعتدوا علیہ بمثل مااعتدی علیکم جو شخص تمہارے ساتھ زیادتی کرے تو تم بھی اس کے ساتھ اتنی ہی زیادتی کرو جتنی اس نے تمہارے ساتھ کی ہے محمد بن جعفر بن الزبیر کا قول ہے کہ حضرت ابوبکر نے شمامسہ (عیسائیوں کا ایک فرقہ سے قتال کا حکم دیا۔ کیونکہ یہ لوگ جنگ میں شریک ہوتے تھے اگرچہ ان کے پادریوں کی رائے یہ ہوتی تھی کہ وہ جنگ میں شریک نہ ہوں۔- یہ جان کر حضرت ابوبکر نے ان سے جنگ نہ کرنے کا حکم جاری کردیا۔ کیونکہ قول باری ہے (وقاتلوا فی سبیل اللہ الذین یقاتلونکم) محمد بن جعفر کی اس تاویل کی بنیاد پر یہ آیت منسوخ ہوئی بلکہ اس کا حکم اب بھی قائم ہے اور ربیع بن انس کے قول کے مطابق حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کو اس آیت کے نزول کے بعد صرف مقابلہ پر آنے والوں کے خلاف جنگ کرنے کی اجازت تھی اور جو لوگ جنگ میں حصہ نہ لیتے ان کے خلاف جنگ کارروائی کرنے کی اجازت نہیں تھی خواہ ان لوگوں کا تعلق ایسے گروہ سے ہو جو جنگ میں حصہ لینا دینداری کے خلاف سمجھتے تھے یا ایسے گروہ سے جن کا یہ عقیدہ نہیں تھا۔- حضرت عمر بن عبدالعزیز سے درج بالا آیت کی تفسیر میں منقول ہے کہ اس سے مراد عورتیں بچے اور ایسے لوگ ہیں جو مسلمانوں کے خلاف جنگ میں حصہ لینے کے قابل ہی نہ تھے مثلاً بوڑھے اور بیمار وغیرہ گویا کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کی رائے یہ تھی کہ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو اپنی کمزوری اور عجز کی بنا پر اغلب حالات میں جنگ کرنے کے قابل ہی نہیں تھے اس لئے کہ عورتوں اور بچوں کی بھی یہی کیفیت ہوتی ہے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بہت سی روایتیں منقول ہیں جن میں عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے سے روک دیا گیا ہے۔- اسی طرح گرجا گھروں میں بھی عبادت کرنے والوں کو قتل کرنے سے روک دیا گیا ہے۔ اس حدیث کی روایت دائود بن الحصین نے عکرمہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس سے اور آپ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کی ہے۔ اگر آیت کا مفہوم وہ ہے جو ربیع بن انس نے بیان کیا ہے۔ کہ آپ کو صرف مقابلہ پر آنے والے لوگوں سے جنگ کا حکم دیا گیا تھا اور مقابلہ پر نہ آنے والوں سے ہاتھ روک لینے کا تو اس صورت میں آیت (قاتلوا الذین یلونکم من الکفار، وہ کافر جو تمہارے پڑوس میں ہیں ان سے جنگ کرو۔ )- اس میں قتال کا حکم پہلی آیت کے حکم کے مقابلے میں زیادہ عام تھا۔ کیونکہ پہلی آیت میں صرف اپنے پڑوس کے مشرکین اور کفار سے جنگ کا حکم تھا اور پڑوس میں جو نہ تھے ان سے جنگ کا حکم نہیں تھا۔ تاہم اس آیت میں تخیص کا ایک پہلو تھا کہ مسجد حرام کے آس پاس جنگ کی ممانعت تھی۔ الا یہ کہ مشرکین جنگ پر اتر آئیں تو ایسی صورت میں مسجد حرام کے آس پاس بھی جنگ کرنے کی اجازت تھی۔ ارشاد باری ہے (ولا تقاتلوا ھم عند المسجد الحرام حتی یقاتلوکم فیہ فان قاتلوکم فاقتلوھم مسجد حرام کے آس پاس ان سے جنگ نہ کرو جب تک یہ تم سے وہاں جنگ نہ کریں۔ اگر یہ وہاں بھی تم سے جنگ کرنے سے باز نہ رہیں تو پھر انہیں تہہ تیغ کرو۔ )- پھر اللہ تعالیٰ نے تمام مشرکین سے قتال کی فرضیت نازل فرمائی۔ ارشاد باری ہے (وقاتلوا المشرکین کافۃ کما یقاتلونکم کافۃ اور تم تمام مشرکین سے قتال کرو جس طرح یہ تم سب سے قتال کرتے ہیں۔- نیز قول باری ہے (کتب علیکم القتال ونعرکرہ لکم، تم پر قتال فرض کردیا گیا حالانکہ وہ تمہیں پسند نہیں ہے) نیز قول باری ہے (فاذا نسلخ الاشھر الحرم فاقتلوا المشرکین حیث وجدتموھم جب حرمت کے مہینے گذر جائیں تو پھر تمہیں جہاں کہیں بھی مشرک نظر آئیں ان کی گردنیں اڑا دو ۔ )- کچھ لوگوں کا یہ قول ہے کہ آیت (ولا تقاتلوھم عند المسجد احلرام) آیت (اقتلوا المشرکین حیث وجد تموھم) کی بنا پر منسوخ ہوگئی ہے۔ بعض کا قول ہے کہ اس آیت کا حکم ثابت ہے کہ حرم میں صرف ان لوگوں سے قتال کیا جائے گا جو جنگ پر اتر آئیں گے۔ - اس بات کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جو فتح مکہ کے دن حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منقول ہے آپ نے اس موقع پر فرمایا (ان مکۃ حرام حرمھا اللہ یوم خلق السماوات والارض) بیشک مکہ حرمت کی جگہ ہے جس کی حرمت اللہ تعالیٰ نے اس دن قائم کردی تھی جس دن اس نے زمین و آسمان کی تخلیق کی تھی) پھر فرمایا (فان ترخص مترخص یقتال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فاتما احلت کی ساعۃ من نھار، اگر کوئی شخص اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جنگ کو دیکھ کر اس کی حرمت کے اٹھائے جانے کی گنجائش کا طلبگار ہو تو وہ سن لے کہ میرے لئے بھی اس کی حرمت گھڑی بھر کے لئے اٹھائی گئی تھی) پھر اس کی حرمت تا قیام قیامت لوٹ آئی۔- اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ درج بالا آیت کا حکم منسوخ نہیں ہوا بلکہ باقی ہے۔ ہمارے لئے یہ حلال نہیں کہ ہم حرم میں ان لوگوں کے خلاف جنگ کی ابتدا کریں جو جنگ کرنا نہیں چاہتے۔ ارشاد باری (یسئلونک عن الشھر الحرام قتال فیہ قل قتال فیہ کبیر، لوگ آپ سے حرمت کے مہینے میں جنگ کے متعلق پوچھتے ہیں۔ آپ کہہ دیجیے کہ حرمت کے مہینے میں جنگ کرنا بڑے گناہ کی بات ہے ) میں ماہ حرام یعنی رجب میں جنگ کی ممانعت تھی پھر (فاذ انسلح الاشھر الحرم فاقتلوا المشرکین حیث وجدتموھم) سے یہ حکم منسوخ ہوگیا۔ بعض لوگوں کا قول ہے کہ یہ حکم منسوخ نہیں ہوا اور ممانعت بحالہ باقی ہے - ۔۔۔۔۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٩٠) جب کوئی تم سے قتال کی پہل کرے تو تم جوابا اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتے ہوئے مسجد حرام میں قتال کرسکتے ہو باقی خود سے پہل مت کرو کیوں کہ حالت احرام اور حرم میں قتال کی پہل کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتے ،

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٩٠ (وَقَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَکُمْ ) - لیجیے قتال کا حکم آگیا۔ سورة البقرۃ کے نصف ثانی کے مضامین کی جو چار لڑیاں میں نے گنوائی تھیں یعنی عبادات ‘ معاملات ‘ انفاق اور قتال یہ ان میں سے چوتھی لڑی ہے۔ فرمایا کہ اللہ کی راہ میں ان سے قتال کرو جو تم سے قتال کر رہے ہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :200 یعنی جو لوگ خدا کے کام میں تمہارا راستہ روکتے ہیں ، اور اس بنا پر تمہارے دشمن بن گئے ہیں کہ تم خدا کی ہدایت کے مطابق نظام زندگی کی اصلاح کرنا چاہتے ہو ، اور اس اصلاحی کام کی مزاحمت میں جبر و ظلم کی طاقتیں استعمال کر رہے ہیں ، ان سے جنگ کرو ۔ اس سے پہلے جب تک مسلمان کمزور اور منتشر تھے ، ان کو صرف تبلیغ کا حکم تھا اور مخالفین کے ظلم و ستم پر صبر کرنے کی ہدایت کی جاتی تھی ۔ اب مدینے میں ان کی چھوٹی سی شہری ریاست بن جانے کے بعد پہلی مرتبہ حکم دیا جا رہا ہے کہ جو لوگ اس دعوت اصلاح کی راہ میں مسلح مزاحمت کرتے ہیں ، ان کو تلوار کا جواب تلوار سے دو ۔ اس کے بعد ہی جنگ بدر پیش آئی اور لڑائیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :201 یعنی تمہاری جنگ نہ تو اپنی مادی اغراض کے لیے ہو ، نہ ان لوگوں پر ہاتھ اٹھاؤ ، جو دین حق کی راہ میں مزاحمت نہیں کرتے ، اور نہ لڑائی میں جاہلیت کے طریقے استعمال کرو ۔ عورتوں اور بچوں اور بوڑھوں اور زخمیوں پر دست درازی کرنا ، دشمن کے مقتولوں کا مثلہ کرنا ، کھیتوں اور مویشیوں کو خواہ مخواہ برباد کرنا اور دوسرے تمام وحشیانہ اور ظالمانہ افعال ” حد سے گزرنے“ کی تعریف میں آتے ہیں اور حدیث میں ان سب کی ممانعت وارد ہے ۔ آیت کا منشا یہ ہے کہ قوت کا استعمال وہیں کیا جائے ، جہاں وہ ناگزیر ہو ، اور اسی حد تک کیا جائے ، جتنی اس کی ضرورت ہو ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

121: یہ آیات اس وقت نازل ہوئی تھیں جب مکہ کے مشرکین نے آنحضرتﷺ اور آپ کے صحابہ کو صلح حدیبیہ کے موقع پر عمرہ ادا کرنے سے روک دیا تھا اور یہ معاہدہ کیا تھا کہ وہ اگلے سال آکر عمرہ کریں گے، جب اگلے سال عمرہ کا ارادہ کیا گیا تو کچھ صحابہ کو یہ خطرہ ہوا کہ کہیں مشرکین مکہ عہد شکنی کرکے ہم سے لڑائی شروع نہ کردیں اگر ایسا ہوا تو مسلمانوں کو یہ مشکل پیش آئے گی کے حدود حرم میں اور خاص طور پر ذیقعدہ کے مہینے میں لڑائی کیسے کریں جبکہ اس مہینے میں جنگ ناجائز ہے، ان آیات نے وضاحت فرمائی کہ اپنی طرف سے تو جنگ نہ کی جائے، البتہ اگر کفار معاہدہ توڑ کر جنگ شروع کردیں توایسی صورت میں مسلمانوں کے لئے جنگ جائز ہے اور اگر وہ حدود حرم اور محترم مہینے کی حرمت کا لحاظ کئے بغیر حملہ آور ہوجائیں تو مسلمانوں کے لئے بھی ان کی زیادتی کا بدلہ لینا درست ہے۔