ایام تشریق آیت ( ایام معدودات ) سے مراد ایام تشریق اور ایام معلومات سے مراد ذی الحجہ کے دس دن ہیں ، ذکر اللہ سے مراد یہ ہے کہ ایام تشریق میں فرض نمازوں کے بعد اللہ اکبر اللہ اکبر کہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں عرفے کا دن قربانی کا دن اور ایام تشریق ہمارے یعنی اہل اسلام کی عید کے دن ہیں اور یہ دن کھانے پینے کے ہیں ( احمد ) اور حدیث میں ہے ایام تشریق کھانے پینے اور اللہ کا ذکر کرنے کے ہیں ( احمد ) پہلے یہ حدیث بھی بیان ہو چکی ہے کہ عرفات کل ٹھہرنے کی جگہ ہے اور ایام تشریق سب قربانی کے دن ہیں ، اور یہ حدیث بھی پہلے گزر چکی ہے کہ منی کے دن تین ہیں دو دن میں جلدی یا دو دیر کرنے والے پر کوئی گناہ نہیں ، ابن جریر کی ایک حدیث میں ہے کہ ایام تشریق کھانے اور ذکر اللہ کرنے کے دن ہیں ، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھیجا کہ وہ منی میں گھوم کر منادی کر دیں کہ ان دنوں میں کوئی روزہ نہ رکھیں یہ دن کھانے پینے اور اللہ کا ذکر کرنے کے ہیں ، ایک اور مرسل روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ مگر جس پر قربانی کے بدلے روزے ہوں اس کے لئے یہ زائد نیکی ہے ، ایک اور روایت میں ہے کہ منادی بشر بن سحیم رضی اللہ عنہ تھے اور حدیث میں ہے کہ آپ نے ان دنوں کے روزوں کی ممانعت فرمائی ہے ایک روایت میں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سفید خچر پر سوار ہو کر شعب انصار میں کھڑے ہو کر یہ حکم سنایا تھا ، کہ لوگو یہ دن روزوں کے نہیں بلکہ کھانے پینے اور ذکر اللہ کرنے کے ہیں ، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں ایام معدودات ایام تشریق ہیں اور یہ چار دن ہیں دسویں ذی الحجہ کی اور تین دن اس کے بعد کے یعنی دس سے تیرہ تک ، ابن عمر ، ابن زبیر ، ابو موسیٰ ، عطاء مجاہد ، عکرمہ ، سعید بن جبیر ، ابو مالک ، ابراہیم نخعی ، یحییٰ بن ابی کثیر ، حسن ، قتادہ ، سدی ، زہری ، ربیع بن انس ، ضحاک ، مقاتل بن حیان ، عطاء خراسانی ، امام مالک وغیرہ بھی یہی فرماتے ہیں ، حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں یہ تین دن ہیں دسویں گیارہویں اور بارہویں ان میں جب چاہو قربانی کرو لیکن افضل پہلا دن ہے مگر مشہور قول یہی ہے اور آیت کریمہ کے الفاظ کی ظاہری دلالت بھی اسی پر ہے کیونکہ دو دن میں جلدی یا دیر معاف ہے تو ثابت ہوا کہ عید کے بعد تین دن ہونے چاہئیں اور ان دنوں میں اللہ کا ذکر کرنا قربانیوں کے ذبح کے وقت ہے ، اور یہ بھی پہلے بیان ہو چکا ہے کہ راجح مذہب اس میں حضرت امام شافعی کا ہے کہ قربانی کا وقت عید کے دن سے ایام تشریق کے ختم ہونے تک ہے ، اور اس سے مراد نمازوں کے بعد کا مقررہ ذکر بھی ہے اور ویسے عام طور پر یہی اللہ کا ذکر مراد ہے ، اور اس کے مقررہ وقت میں گو علماء کرام کا اختلاف ہے لیکن زیادہ مشہور قول جس پر عمل درآمد بھی ہے یہ ہے کہ عرفے کی صبح سے ایام تشریق کے آخر دن کی عصر کی نماز تک ، اس بارے میں ایک مرفوع حدیث بھی دار قطنی میں ہے لیکن اس کا مرفوع ہونا صحیح نہیں واللہ اعلم ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنے خیمہ میں تکبیر کہتے اور آپ کی تکبیر پر بازار والے لوگ تکبیر کہتے ہیں یہاں تک کہ منی کا میدان گونج اٹھتا اسی طرح یہ مطلب بھی ہے کہ شیطانوں کو کنکریاں مارنے کے وقت تکبیر اور اللہ کا ذکر کیا جائے جو ایام تشریق کے ہر دن ہوگا ، ابو داود وغیرہ میں حدیث ہے کہ بیت اللہ کا طواف صفا مروہ کی سعی شیطانوں کو کنکریاں مارنی یہ سب اللہ تعالیٰ کے ذکر کو قائم کرنے کے لئے ہے ۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے حج کی پہلی اور دوسری واپسی کا ذکر کیا اور اس کے بعد لوگ ان پاک مقامات کو چھوڑ کر اپنے اپنے شہروں اور مقامات کو لوٹ جائیں گے اس لئے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو اور یقین رکھو کہ تمہیں اس کے سامنے جمع ہونا ہے اسی نے تمہیں زمین میں پھیلایا پھر وہی سمیٹ لے گا پھر اسی کی طرف حشر ہو گا پس جہاں کہیں ہو اس سے ڈرتے رہا کرو ۔
203۔ 1 مراد ایام تشریق ہیں یعنی 11، 12 اور 13 ذوالحجہ۔ ان میں ذکر الہی یعنی باآواز بلند تکبیرات مسنون ہیں صرف فرض نمازوں کے بعد ہی نہیں (جیسے کہ ایک کمزور حدیث کی بنیاد پر مشہور ہے) بلکہ ہر وقت یہ تکبیرات پڑھی جائیں۔ کنکریاں مارتے وقت ہر کنکری کے ساتھ تکبیر پڑھنی مسنون ہے۔ (اَ للّٰہُ اَکبَرْ ، اللّٰہُ اَکبَر، ْ لَا اِلٰہَ اِلَّا، واللّٰہُ اَکبَر، اللّٰہُ اَکبَر وَ لِلّٰہِ الْحَمْدُہ) 203۔ 2 رمی جماد (جمرات کو کنکریاں مارنا) 3 دن افضل ہیں لیکن اگر کوئی دو دن (11 اور 12 ذوالحجہ) کنکریاں مار کر واپس آجائے تو اس کی بھی اجازت ہے۔
[٢٧٢۔ ا ] ایام معدودات سے مراد ماہ ذی الحجہ کی گیا رہ، بارہ اور تیرہ تاریخ ہے۔ ان دنوں میں بکثرت اللہ کو یاد کرتے رہنا چاہیے۔ رمی جمار کے وقت بھی بآواز بلند تکبیر کہی جائے اور تمام حالات میں بھی بازاروں میں چلتے پھرتے وقت بھی اور ہر نماز کے بعد بھی اور تکبیر کے الفاظ یہ ہیں۔ اللہ اکبر، اللہ اکبر، اللہ اکبر (تین مرتبہ) (لا الہ الا اللہ واللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد) - عیدین کی تکبیریں بھی یہی ہیں اور ایام تشریق میں بھی یہی باواز بلند کہتے رہنا چاہیے۔ ایام تشریق کے متعلق حدیث میں آیا ہے کہ یہ کھانے پینے اور ذکر الٰہی کے دن ہیں۔ تکبیرات کے شروع اور ختم کرنے میں اگرچہ اختلاف ہے۔ تاہم صحیح اور راجح یہی بات ہے کہ ذی الحجہ کی ٩ تاریخ ( عرفہ یا حج کے دن) کی صبح شروع کر کے تیرہ تاریخ کی عصر کو ختم کی جائیں۔ اس طرح یہ کل تئیس نمازیں بنتی ہیں۔ ہر نماز کے بعد کم از کم تین بار اور زیادہ سے زیادہ جتنی اللہ توفیق دے۔ بآواز بلند تکبیرات کہنا چاہئیں۔- رمی جمار کا عمل تین دن یعنی ذی الحجہ کی ١٠، ١١، ١٢ کو ہوتا ہے۔ دس ذی الحجہ کا دن تو حجاج کے لیے بہت مصروفیت کا دن ہوتا ہے۔ اس کے بعد تین دن منیٰ میں ٹھہرنا مسنون ہے۔ تاہم اگر کوئی شخص اس سے پہلے جانا چاہے تو وہ دوسرے دن بھی جاسکتا ہے۔ بشرطیکہ اس کے دل میں تقویٰ ہو اور حج کے تمام مناسک ٹھیک طور پر بجا لانے کا ارادہ رکھتا ہو۔
(وَاذْكُرُوا اللّٰهَ فِيْٓ اَ يَّامٍ مَّعْدُوْدٰتٍ ) عبداللہ بن عباس (رض) نے فرمایا : ” ایام معدودات ایام تشریق (١١، ١٢، ١٣ ذوالحجہ) ہیں۔ “ [ بخاری، العیدین، باب فضل العمل۔۔ قبل، ح : ٩٦٩ ] پھر امام بخاری (رض) نے باب باندھا ہے : ” منیٰ میں ٹھہرنے کے دنوں میں تکبیر کہنا اور جب عرفات کو جائے۔ “ عمر (رض) منیٰ میں اپنے خیمے کے اندر تکبیر کہتے، مسجد والے اسے سنتے تو وہ بھی تکبیر کہتے اور بازاروں والے بھی تکبیر کہتے، یہاں تک کہ منیٰ تکبیرات سے گونج اٹھتا۔ اسی طرح ابن عمر (رض) بھی ان دنوں میں منیٰ میں تکبیر کہتے، نمازوں کے بعد تکبیر کہتے اور اپنے بستر پر، اپنے خیمے میں، اپنی مجلس میں اور چلتے پھرتے ان تمام دنوں میں تکبیر کہتے اور ام المومنین میمونہ (رض) قربانی کے دن تکبیر کہتیں اور عورتیں ابان بن عثمان اور عمر بن عبد العزیز کے پیچھے مسجد میں مردوں کے ساتھ تشریق کی راتوں میں تکبیر کہتیں۔ [ بخاری، العیدین، باب التکبیر أیام منیً ۔۔ ، قبل ح : ٩٧٠ ] معلوم ہوا ان ایام سے مراد عرفہ کی صبح سے لے کر ١٣ ذوالحجہ کے سورج غروب ہونے تک کا وقت ہے۔ قربانی کے دن اور ایام تشریق میں روزہ رکھنا منع ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” یہ کھانے پینے اور اللہ کے ذکر کے دن ہیں۔ “ [ مسلم، الصیام، باب تحریم صوم أیام التشریق ۔۔ : ١١٤١ ] اللہ کے ذکر سے مراد وہ تمام تکبیرات ہیں جو جمرات کو کنکر مارتے وقت، جانور ذبح کرتے وقت یا دوسرے اوقات میں کہی جاتی ہیں اور تکبیر کے علاوہ کوئی بھی ذکر ہو، وہ بھی اس حکم میں شامل ہے۔ یعنی ان ایام میں ذکر الٰہی میں مصروف رہو۔ - (لِمَنِ اتَّقٰى ۭ ) یعنی گیارہ اور بارہ کو دو دن جمرات کو کنکر مار کر چلا آئے، تب بھی جائز ہے اور اگر کوئی تاخیر کرے یعنی پورے تین دن منیٰ میں ٹھہرا رہے تو بھی جائز ہے، بشرطیکہ دل میں تقویٰ ہو اور حج کے احکام خلوص سے ادا کرے۔ (ابن کثیر) - (اِلَيْهِ تُحْشَرُوْنَ ) حج کے موقع پر لوگ حشر کی طرح جمع ہوتے ہیں، اس لیے حج کے ذکر کے ساتھ حشر کا دن یاد دلا کر اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کا حکم دیا۔
منیٰ میں دو یا تین دن کا قیام اور ذکر اللہ کی تاکید :- آٹھویں آیت جو اس جگہ احکام حج کی آخری آیت ہے اس میں حجاج کو ذکر اللہ کی طرف متوجہ کرکے ان کے مقصد حج کی تکمیل اور آئندہ زندگی کو درست رکھنے کی ہدایت اس طرح فرمائی گئی وَاذْكُرُوا اللّٰهَ فِيْٓ اَ يَّامٍ مَّعْدُوْدٰتٍ یعنی اللہ کو یاد کرو گنتی کے چند دنوں میں ان چند دنوں سے مراد ایام تشریق ہیں جن میں ہر نماز کے بعد تکبیر کہنا واجب ہے، آگے ایک مسئلہ کی وضاحت کی گئی کہ منٰی میں قیام اور جمرات پر کنکریاں مارنا کب تک ضروری ہے اس میں اہل جاہلیت کا اختلاف رہا کرتا تھا بعض لوگ تیرہویں تاریخ ذی الحجہ تک منیٰ میں قیام اور جمرات پر رمی کرنے کو ضروری سمجھتے تھے اس سے پہلے بارہویں کو واپس آجانے کو ناجائز اور ایسا کرنے والوں کو گنہگار کہا کرتے تھے اسی طرح دوسرے لوگ بارہویں تاریخ کو چلے آنا ضروری سمجھتے اور تیرھویں تک ٹھہرنے کو گناہ جانتے تھے اس آیت میں ان دونوں کی اصلاح اس طرح کی گئی کہ فَمَنْ تَعَـجَّلَ فِيْ يَوْمَيْنِ فَلَآ اِثْمَ عَلَيْهِ ۚ وَمَنْ تَاَخَّرَ فَلَآ اِثْمَ عَلَيْهِ یعنی جو شخص عید کے بعد صرف دو دن منٰی میں قیام کرکے واپس آجائے اس پر بھی کوئی گناہ نہیں اور جو تیسرے دن تک مؤ خر کرے اس پر بھی کوئی گناہ نہیں یہ دونوں فریق جو ایک دوسرے کو گنہگار کہتے ہیں غلو اور غلطی میں مبتلا ہیں۔- صحیح یہ ہے کہ حجاج کو دونوں صورتوں میں اختیار ہے جس پر چاہیں عمل کریں ہاں افضل واولیٰ یہی ہے کہ تیسرے دن تک ٹھہریں، فقہاء نے فرمایا ہے کہ جو شخص دوسرے دن غروب آفتاب سے پہلے منٰی میں چلا آیا اس پر تیسرے دن کی رمی واجب نہیں لیکن اگر آفتاب منیٰ میں غروب ہوگیا پھر تیسرے دن کی رمی کرنے سے پہلے وہاں سے واپس آجانا جائز نہیں رہتا البتہ تیسرے دن کی رمی میں یہ رعایت رکھی گئی ہے کہ وہ زوال آفتاب سے پہلے صبح کے بعد بھی ہوسکتی ہے۔- منیٰ سے واپسی کا اور اس میں حجاج کو اختیار دینے کا ذکر فرمانے کے بعد جو کچھ کہا گیا کہ دوسرے دن واپس آجائے تو کچھ گناہ نہیں اور تیسرے دن واپس آجائے تو کچھ گناہ نہیں یہ سب اس شخص کے لئے ہے جو اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا اور اس کے احکام کی پابندی کرنے والا ہے کیونکہ درحقیقت حج اسی کا ہے، جیسا قرآن میں دوسری جگہ ارشاد ہے اِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللّٰهُ مِنَ الْمُتَّقِيْنَ (٢٧: ٥) یعنی اللہ تعالیٰ عبادت انہی کی قبول کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے اور اطاعت شعار بندے ہیں، اور جو شخص حج سے پہلے بھی گناہوں میں ملوّث تھا اور حج کے اندر بھی بےپروائی سے کام لیتا رہا حج کے بعد بھی گناہوں سے پرہیز نہ کیا تو اس کا حج کوئی فائدہ نہ دے گا اگرچہ اس کا حج فرض ادا ہوگیا ترک حج کا مجرم نہیں رہا۔- آخر میں ارشاد فرمایا واتَّقُوا اللّٰهَ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّكُمْ اِلَيْهِ تُحْشَرُوْنَ یعنی ڈرتے رہو اللہ تعالیٰ سے اور یقین کرو کہ تم سب اللہ کے پاس جمع ہونے والے ہو وہ تمہارے کھلے ہوئے اور چھپے ہوئے اعمال کا حساب لیں گے اور ان پر جزا وسزا دیں گے احکام حج جو اوپر کی آیات میں بیان کئے گئے ہیں یہ جملہ درحقیقت ان سب کی روح ہے اس کے معنی یہ ہیں کہ خاص ایام حج میں جب کہ اعمالِ حج میں مشغول ہو اس وقت بھی اللہ تعالیٰ سے ڈرو احکام حج میں کوئی کوتاہی نہ کرو کیونکہ وزن اعمال کے وقت انسان کے گناہ اس کے نیک اعمال کو کھا جائیں گے نیک اعمال کا اثر اور وزن ظاہر نہ ہونے دیں گے عبادت حج کے متعلق حدیث میں ہے کہ جب انسان حج سے فارغ ہو کر آتا ہے تو اپنے سابقہ گناہوں سے ایسا پاک صاف ہوجاتا ہے جیسے وہ ماں کے پیٹ سے آج پیدا ہوا ہے اس لئے خاص طور سے حجاج کو آئندہ کے لئے تقویٰ کی ہدایت کی گئی کہ پچھلے گناہوں سے پاک ہوچکے ہو آگے احتیاط رکھو تو دنیا وآخرت کی بھلائی تمہارے لئے ہے ورنہ جو شخص حج کے بعد پھر گناہوں میں مبتلا ہوگیا تو پچھلے گناہوں کی معافی اس کو اس طرح کوئی خاص کام نہ آوے گی بلکہ علماء نے فرمایا ہے کہ حج مقبول کی علامت یہ ہے کہ اپنے حج سے اس طرح واپس آئے کہ اس کا دل دنیا کی محبت سے فارغ اور آخرت کی طرف راغب ہو ایسے شخص کا حج مقبول اور گناہ معاف ہیں اور دعاء اس کی مقبول ہے دوران حج میں جگہ جگہ انسان اللہ تعالیٰ سے اطاعت و فرمانبرداری کا معاہدہ اس کے بیت کے سامنے کرتا ہے اگر حج کرنے والے اس کا دھیان رکھیں تو اس معاہدہ کے پورا کرنے کا آئندہ اہتمام میسر آسکتا ہے۔- ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ میں حج سے واپس آیا تو اتفاقاً میرے دل میں ایک گناہ کا وسوسہ پیدا ہوا مجھے غیب سے ایک آواز آئی کہ کیا تو نے حج نہیں کیا ؟ کیا تو نے حج نہیں کیا ؟ یہ آواز میرے اور اس گناہ کے درمیان ایک دیوار بن گئی اللہ تعالیٰ نے مجھے محفوظ فرمادیا،- ایک ترکی بزرگ جو مولانا جامی کے مرید تھے ان کا حال یہ تھا کہ ہمیشہ اپنے سر پر ایک نور کا مشاہدہ کیا کرتے تھے وہ حج کو گئے اور فارغ ہو کر واپس آئے تو یہ کیفیت بجائے بڑہنے کے بالکل سلب ہوگئی اپنے مرشد مولانا جامی سے اس کا تذکرہ کیا تو انہوں نے فرمایا کہ حج سے پہلے تمہارے اندر تواضع و انکسار تھا اپنے آپ کو گنہگار سمجھ کر اللہ تعالیٰ کے سامنے الحاح وزاری کرتے تھے حج کے بعد تم اپنے آپ کو نیک اور بزرگ سمجھنے لگے اس لئے یہ حج ہی تمہارے لئے غرور کا سبب بن گیا اسی وجہ سے یہ کیفیت زائل ہوگئی۔- احکام حج کے ختم پر تقویٰ کی تاکید میں ایک راز یہ بھی ہے کہ حج ایک بڑی عبادت ہے اس کے ادا کرنے کے بعد شیطان عموماً انسان کے دل میں اپنی بڑائی اور بزرگی کا خیال ڈالتا ہے جو اس کے تمام عمل کو بیکار کردینے والا ہے اس لئے خاتمہ کلام میں فرمایا کہ جس طرح حج سے پہلے اور حج کے اندر اللہ تعالیٰ سے ڈرنا اور اس کی اطاعت لازم ہے اسی طرح حج کے بعد اس سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے اور گناہوں سے پرہیز کا اہتمام کرتے رہو کہ کہیں یہ کری کرائی عبادت ضائع ہوجائے۔ اللہم وفقنا لما تحب وترضی من القول والفعل والنیۃ۔
وَاذْكُرُوا اللہَ فِيْٓ اَيَّامٍ مَّعْدُوْدٰتٍ ٠ ۭ فَمَنْ تَعَـجَّلَ فِيْ يَوْمَيْنِ فَلَآ اِثْمَ عَلَيْہِ ٠ ۚ وَمَنْ تَاَخَّرَ فَلَآ اِثْمَ عَلَيْہِ ٠ ۙ لِمَنِ اتَّقٰى ٠ ۭ وَاتَّقُوا اللہَ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّكُمْ اِلَيْہِ تُحْشَرُوْنَ ٢٠٣- عجل - العَجَلَةُ : طلب الشیء وتحرّيه قبل أوانه، وهو من مقتضی الشّهوة، فلذلک صارت مذمومة في عامّة القرآن حتی قيل : «العَجَلَةُ من الشّيطان» «2 قال تعالی: سَأُرِيكُمْ آياتِي فَلا تَسْتَعْجِلُونِ [ الأنبیاء 37] ،- ( ع ج ل ) العجلۃ - کسی چیز کو اس کے وقت سے پہلے ہی حاصل کرنے کی کوشش کرنا اس کا تعلق چونکہ خواہش نفسانی سے ہوتا ہے اس لئے عام طور پر قرآن میں اس کی مذمت کی گئی ہے حتی کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا العجلۃ من الشیطان ( کہ جلد بازی شیطان سے ہے قرآن میں ہے : سَأُرِيكُمْ آياتِي فَلا تَسْتَعْجِلُونِ [ الأنبیاء 37] میں تم لوگوں کو عنقریب اپنی نشانیاں دکھاؤ نگا لہذا اس کے لئے جلدی نہ کرو ۔ - إثم - الإثم والأثام : اسم للأفعال المبطئة عن الثواب وجمعه آثام، ولتضمنه لمعنی البطء قال الشاعرجماليّةٍ تغتلي بالرّادفإذا کذّب الآثمات الهجير وقوله تعالی: فِيهِما إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنافِعُ لِلنَّاسِ [ البقرة 219] أي : في تناولهما إبطاء عن الخیرات .- ( ا ث م ) الاثم والاثام ۔ وہ اعمال وافعال جو ثواب سے روکتے اور پیچھے رکھنے والے ہوں اس کی جمع آثام آتی ہے چونکہ اس لفظ میں تاخیر اور بطء ( دیرلگانا ) کا مفہوم پایا جاتا ہے اس لئے شاعر نے اونٹنی کے متعلق کہا ہے ۔ ( المتقارب ) (6) جمالیۃ تغتلی بالرادف اذا کذب الآثمات الھجیرا وہ اونٹ کی طرح مضبوط ہے جب سست رفتار اونٹنیاں دوپہر کے وقت چلنے سے عاجز ہوجاتی ہیں تو یہ ردیف کو لے کر تیز رفتاری کے ساتھ چلتی ہے اور آیت کریمہ فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ ( سورة البقرة 219) میں خمر اور میسر میں اثم کبیر کے یہ معنی ہیں کہ ان کا تناول ( اور ارتکاب ) انسان کو ہر قسم کے افعال خیر سے روک لیتا ہے ۔ - أخر ( تاخیر)- والتأخير مقابل للتقدیم، قال تعالی: بِما قَدَّمَ وَأَخَّرَ [ القیامة 13] ، ما تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَما تَأَخَّرَ [ الفتح 2] ، إِنَّما يُؤَخِّرُهُمْ لِيَوْمٍ تَشْخَصُ فِيهِ الْأَبْصارُ [إبراهيم 42] ، رَبَّنا أَخِّرْنا إِلى أَجَلٍ قَرِيبٍ [إبراهيم 44] - ( اخ ر ) اخر - التاخیر یہ تقدیم کی ضد ہے ( یعنی پیچھے کرنا چھوڑنا ۔ چناچہ فرمایا :۔ بِمَا قَدَّمَ وَأَخَّرَ ( سورة القیامة 13) جو عمل اس نے آگے بھیجے اور جو پیچھے چھوڑے ۔ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ ( سورة الفتح 2) تمہارے اگلے اور پچھلے گناہ إِنَّمَا يُؤَخِّرُهُمْ لِيَوْمٍ تَشْخَصُ فِيهِ الْأَبْصَارُ ( سورة إِبراهيم 42) وہ ان کو اس دن تک مہلت دے رہا ہے جب کہ دہشت کے سبب آنکھیں کھلی کی کھلی ۔ رہ جائیں گی ۔ رَبَّنَا أَخِّرْنَا إِلَى أَجَلٍ قَرِيبٍ ( سورة إِبراهيم 44) اسے ہمارے پروردگار ہمیں تھوڑی سی مہلت عطا کر - تقوي - والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] - التقویٰ- اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔- حشر - الحَشْرُ : إخراج الجماعة عن مقرّهم وإزعاجهم عنه إلى الحرب ونحوها، وروي :- «النّساء لا يُحْشَرن» أي : لا يخرجن إلى الغزو، ويقال ذلک في الإنسان وفي غيره، يقال :- حَشَرَتِ السنة مال بني فلان، أي : أزالته عنهم، ولا يقال الحشر إلا في الجماعة، قال اللہ تعالی: وَابْعَثْ فِي الْمَدائِنِ حاشِرِينَ [ الشعراء 36] وَحَشَرْناهُمْ فَلَمْ نُغادِرْ مِنْهُمْ أَحَداً [ الكهف 47] ، وسمي يوم القیامة يوم الحشر کما سمّي يوم البعث والنشر، ورجل حَشْرُ الأذنین، أي : في أذنيه انتشار وحدّة .- ( ح ش ر ) الحشر ( ن )- ( ح ش ر ) الحشر ( ن ) کے معنی لوگوں کو ان کے ٹھکانہ سے مجبور کرکے نکال کر لڑائی وغیرہ کی طرف لے جانے کے ہیں ۔ ایک روایت میں ہے (83) النساء لایحضرون کہ عورتوں کو جنگ کے لئے نہ نکلا جائے اور انسان اور غیر انسان سب کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ کہا جاتا ہے ۔ حشرت النسۃ مال بنی فلان یعنی قحط سالی نے مال کو ان سے زائل کردیا اور حشر کا لفظ صرف جماعت کے متعلق بولا جاتا ہے قرآن میں ہے : وَابْعَثْ فِي الْمَدائِنِ حاشِرِينَ [ الشعراء 36] اور شہروں میں ہر کار سے بھیج دیجئے ۔ اور قیامت کے دن کو یوم الحشر بھی کہا جاتا ہے جیسا ک اسے یوم البعث اور یوم النشور کے ناموں سے موسوم کیا گیا ہے لطیف اور باریک کانوں والا ۔
قول باری ہے (فمن تعجل فی یومین فلا اثم علیہ ومن تاخر فلا اثر علیہ لمن اتقی پھر جو کوئی جلدی کر کے دو ہی دن میں واپس تو کوئی حرج نہیں اور جو کچھ دیر ٹھہر کر پلٹا تو بھی کوئی حرج نہیں بشرطیکہ یہ دن اس نے تقویٰ کے ساتھ بسر کئے ہوں) اس آیت کی دو تفسیریں بیان کی گئی ہیں اول یہ کہ جو شخص دو دنوں میں واپس ہوگیا اس پر کوئی گناہ نہیں اس لئے کہ حج مقبول کی بنا پر اس کی سیئات اور اس کے گناہوں کی تکفیر ہوگئی ہے۔- اسی طرح کی روایت حضرت عبداللہ بن مسعود سے ہے ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی اسی مضمون کی ایک روایت ہے ۔ آپ نے فرمایا (من حج فلو یرفث ولم یفسق رجع کیوں مرولدتہ امہ۔ جس شخص نے حج کیا اور حج کے دوران رفث اور فسق سے اجتناب کیا تو وہ گناہوں سے اس طرح پاک ہو کر لوٹے گا جس طرح اس دن تھا جس دن اس کی ماں نے اسے جنم دیا تھا۔- دوسری تفسیر یہ ہے کہ دو ہی دن میں واپسی کے اندر جلدی کرنے میں اس پر کوئی گناہ نہیں۔ حسن وغیرہ سے اسی قسم کی تفسیر مروی ہے۔ قول باری ہے (من تاخر فلا اثم علیہ) اس لئے کہ اس کے لئے تاخیر مباح ہے اور قول باری (لمن اتقی) میں یہ احتمال ہے کہ جو شخص ان تمام باتوں سے جو اللہ نے (فلا رفث ولا فسوق لاجدال فی الحج میں بتائی ہیں احرام کی حالت میں بچتا رہا۔ اگر نہیں بچا تو اس سے کسی ثواب کا وعدہ نہیں۔- نیت درست نہ ہو تو بھلی باتیں کرنے والا منافق ہوسکتا ہے
(٢٠٣) اور ایام معلوم یعنی ایام تشریق کے پانچ دنوں میں یوم عرفہ، یوم النحر اور ١١، ١٢، ١٣ کو اللہ تعالیٰ کی حمد و تہلیل (لا الہ الا اللہ) بہت زیادہ کیا کرو۔- اور جو شخص دسویں تاریخ کے دو دن بعد ہی اپنے گھر واپس آنا چاہے تو اس جلدی میں کوئی گناہ نہیں اور جو شخص تیرہویں تاریخ تک منی میں ٹھہرے تو اس میں بھی کوئی گناہ کی بات نہیں، اس کی بخشش ہوجائے گی، تو تیرہویں تاریخ تک شکار کرنے سے رکا رہے گا اور تیرہویں تاریخ تک شکار کرنے سے اللہ تعالیٰ سے ڈرے اور یہ بات اچھی طرح جان لو کہ مرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہونا ہے۔
آیت ٢٠٣ (وَاذْکُرُوا اللّٰہَ فِیْ اَ یَّامٍ مَّعْدُوْدٰتٍ ط) - اس سے مراد ذوالحجہ کی گیارہویں ‘ بارہویں اور تیرہویں تاریخیں ہیں جن میں یوم نحر کے بعد منیٰ میں قیام کیا جاتا ہے۔ اِن تین دنوں میں کنکریاں مارنے کے وقت اور ہر نماز کے بعد تکبیر کہنے کا حکم ہے۔ دیگر اوقات میں بھی ان دنوں میں تکبیر اور ذکر الٰہی کثرت سے کرنا چاہیے۔- (فَمَنْ تَعَجَّلَ فِیْ یَوْمَیْنِ فَلَآ اِثْمَ عَلَیْہِ ج) ۔ - یعنی جو کوئی تین دن پورے نہیں کرتا ‘ بلکہ دو دن ہی میں واپسی اختیار کرلیتا ہے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے۔- (وَمَنْ تَاَخَّرَ ) - یعنی منیٰ میں ٹھہرا رہے اور تین دن کی مقدار پوری کرے۔- (فَلَآ اِثْمَ عَلَیْہِ لِمَنِ اتَّقٰی ط) ۔ - اصل چیز تقویٰ ہے۔ جو کوئی زمانۂ حج میں پرہیزگاری کی روش اختیار کیے رکھے تو اس پر اس بات میں کوئی گناہ نہیں کہ منیٰ میں دو دن قیام کرے یا تین دن۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کا اجر محفوظ ہے۔ اگر کسی شخص نے منیٰ میں قیام تو تین دن کا کیا ‘ لیکن تیسرے دن اس نے کچھ اور ہی حرکتیں شروع کردیں ‘ اس لیے کہ جی اکتایا ہوا ہے اور طبیعت کے اندر ٹھہراؤ نہیں ہے تو وہ تیسرا دن اس کے لیے کچھ خاص مفید ثابت نہیں ہوگا۔ اصل شے جو اللہ کے ہاں قبولیت کے لیے شرط لازم ہے ‘ وہ تقویٰ ہے۔ آگے پھر فرمایا :- (وَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّکُمْ اِلَیْہِ تُحْشَرُوْنَ ) ۔ - تم سب کے سب ہانک کر اسی کی جناب میں لے جائے جاؤ گے۔
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :222 یعنی ایام تشریق میں منٰی سے مکے کی طرف واپسی خواہ ۱۲ ذی الحجہ کو ہو یا تیرھویں تاریخ کو ، دونوں صورتوں میں کوئی حرج نہیں ۔ اصل اہمیت اس کی نہیں کہ تم ٹھیرے کتنے دن ، بلکہ اس کی ہے کہ جتنے دن بھی ٹھیرے ان میں خدا کے ساتھ تمہارے تعلق کا کیا حال رہا ۔ خدا کا ذکر کرتے رہے یا میلوں ٹھیلوں میں لگے رہے ۔
135: منیٰ میں تین دن گزارنا سنت ہے اور اس دوران جمرات پر کنکریاں مارنا واجب ہے، البتہ ١٢ تاریخ کے بعد منی سے چلا جانا جائز ہے، ١٣ تاریخ تک رکنا ضروری نہیں، اور اگر کوئی رکنا چاہے تو ١٣ تاریخ کو بھی رمی کرکے واپس جاسکتا ہے۔