دل بھیڑیوں کے اور کھال انسانوں کی سدی رحمتہ اللہ کہتے ہیں کہ یہ آیت اخنس بن شریق ثقفی کے بارے میں نازل ہوئی ہے یہ منافق شخص تھا ظاہر میں مسلمان تھا اور لیکن باطن میں مخالف تھا ، ابن عباس کہتے ہیں کہ منافقوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے جنہوں نے حضرت خبیب اور ان کے ساتھیوں کی برائیاں کی تھیں جو رجیع میں شہید کئے گئے تھے تو ان شہداء کی تعریف میں ( من بشری ) والی آیت اتری اور ان منافقین کی مذمت کے بارے میں آیت ( من یعجبک ) الخ والی آیت نازل ہوئی ، بعض کہتے ہیں کہ یہ آیت عام ہے تمام منافقوں کے بارے میں پہلی اور دوسری آیت ہے اور تمام مومنوں کی تعریف کے بارے میں تیسری آیت ہے ، قتادہ وغیرہ کا قول یہی ہے اور یہی صحیح ہے ، حضرت نوف بکالی جو توراہ وانجیل کے بھی عالم تھے فرماتے ہیں کہ میں اس امت کے بعض لوگوں کی برائیاں اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کتاب میں پاتا ہوں لکھا ہے کہ بعض لوگ دین کے حیلے سے دنیا کماتے ہیں ان کی زبانیں تو شہد سے زیادہ میٹھی ہیں لیکن دل ایلوے ( مصبر ) سے زیادہ کڑوے ہیں لوگوں کے لئے بکریوں کی کھالیں پہنتے ہیں لیکن ان کے دل بھیڑیوں جیسے ہیں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کیا وہ مجھ پر جرأت کرتے ہیں اور میرے ساتھ دھوکے بازیاں کرتے ہیں مجھے اپنی ذات کی قسم کہ میں ان پر وہ فتنہ بھیجوں گا کہ بردبار لوگ بھی حیران رہ جائیں گے ، قرظی کہتے ہیں میں نے غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ یہ منافقوں کا وصف ہے اور قرآن میں بھی موجود ہے پڑھئے آیت ( وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُّعْجِبُكَ قَوْلُهٗ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَيُشْهِدُ اللّٰهَ عَلٰي مَا فِيْ قَلْبِهٖ ۙ وَھُوَ اَلَدُّ الْخِصَامِ ) 2 ۔ البقرۃ:204 ) حضرت سعید نے بھی جب یہ بات اور کتابوں کے حوالے سے بیان کی تو حضرت محمد بن کعب رضی اللہ عنہ نے یہی فرمایا تھا کہ یہ قرآن شریف میں بھی ہے اور اسی آیت کی تلاوت کی تھی سعید کہنے لگے میں جانتا ہوں کہ یہ آیت کس کے بارے میں نازل ہوئی ہے آپ نے فرمایا سنئے آیت شان نزول کے اعتبار سے گو کسی کے بارے میں ہی ہو لیکن حکم کے اعتبار سے عام ہوئی ہے ۔ ابن محیصن کی قرأت میں ( یشہد اللہ ) ہے معنی یہ ہوں گے کہ گو وہ اپنی زبان سے کچھ ہی کہے لیکن اس کے دل کا حال اللہ تعالیٰ کو خوب معلوم ہے جیسے اور جگہ آیت ( اِذَا جَاۗءَكَ الْمُنٰفِقُوْنَ قَالُوْا نَشْهَدُ اِنَّكَ لَرَسُوْلُ اللّٰهِ ) 63 ۔ المنافقون:1 ) یعنی منافق تیرے پاس آکر تیری نبوت کی گواہی دیتے ہیں اللہ جانتا ہے کہ تو اس کا رسول ہے لیکن اللہ کی گواہی ہے کہ یہ منافق یقینًا جھوٹے ہیں ، لیکن جمہور کی قرأت یشہد اللہ ہے تو معنی یہ ہوئے کہ لوگوں کے سامنے تو اپنی خیانت چھپاتے ہیں لیکن اللہ کے سامنے ان کے دل کا کفر ونفاق ظاہر ہے جیسے اور جگہ ہے آیت ( يَّسْتَخْفُوْنَ مِنَ النَّاسِ وَلَا يَسْتَخْفُوْنَ مِنَ اللّٰهِ وَھُوَ مَعَھُمْ اِذْ يُبَيِّتُوْنَ مَا لَا يَرْضٰى مِنَ الْقَوْلِ ) 4 ۔ النسآء:108 ) یعنی لوگوں سے چھپاتے ہیں لیکن اللہ سے نہیں چھپا سکتے ، ابن عباس رضی اللہ عنہ نے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ لوگوں کے سامنے اسلام ظاہر کرتے ہیں اور ان کے سامنے قسمیں کھا کر باور کراتے ہی کہ جو ان کی زبان پر ہے وہ ہی ان کے دل میں ہے ، صحیح معنی آیت کے یہی ہیں کہ عبدالرحمن بن زید اور مجاہد رحمہ اللہ سے بھی یہی مروی ہے ابن جریر بھی اسی کو پسند فرماتے ہیں ۔ الد کے معنی لغت میں ہیں سخت ٹیڑھا جیسے اور جگہ ہے آیت ( وَتُنْذِرَ بِهٖ قَوْمًا لُّدًّا ) 19 ۔ مریم:97 ) یہی حالت منافق کی ہے کہ وہ اپنی حجت میں جھوٹ بولتا ہے اور حق سے ہٹ جاتا ہے ، سیدھی بات چھوڑ دیتا ہے اور افترا اور بہتان بازی کرتا ہے اور گالیاں بکتا ہے ، صحیح حدیث میں ہے کہ منافق کی تین نشانیاں ہیں جب بات کرے جھوٹ بولے جب وعدہ کرے بیوفائی کرے ، جب جھگڑا کرے گالیاں بکے ، ایک اور حدیث میں ہے سب سے زیادہ برا شخص اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ ہے جو سخت جھگڑالو ہو اس کی کئی ایک سندیں ہیں ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ جس طرح یہ برے اقوال والا ہے اسی طرح افعال بھی اس کے بدترین ہیں تو قول تو یہ ہے لیکن فعل اس کے سراسر خلاف ہے ، عقیدہ بالکل فاسد ہے ۔ نماز اور ہماری رفتار ۔ سعی سے مراد یہاں قصد جیسے اور جگہ ہے آیت ( ثُمَّ اَدْبَرَ يَسْعٰى ) 79 ۔ النازعات:22 ) اور فرمان ہے آیت ( فَاسْعَوْا اِلٰى ذِكْرِ اللّٰهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ) 62 ۔ الجمعہ:9 ) یعنی جمعہ کی نماز کا قصد و ارادہ کرو ، یہاں سعی کے معنی دوڑنے کے نہیں کیونکہ نماز کے لئے دوڑ کر جانا ممنوع ہے ، حدیث شریف میں ہے جب تم نماز کے لئے آؤ بلکہ سکینت ووقار کے ساتھ آؤ ۔ منافقوں کا مزید تعارف ۔ غرض یہ کہ ان منافقوں کا قصد زمین میں فساد پھیلانا کھیتی باڑی ، زمین کی پیداوار اور حیوانوں کی نسل کو برباد کرنا ہی ہوتا ہے ۔ یہ بھی معنی مجاہد سے مروی ہیں کہ ان لوگوں کے نفاق اور ان کی بدکرداریوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ بارش کو روک لیتا ہے جس سے کھیتیوں کو اور جانوروں کو نقصان پہنچتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو جو بانی فساد ہوں ناپسند کرتا ہے ۔ ان بدکرداروں کو جب وعظ نصیحت کے ذریعہ سمجھایا جائے تو یہ اور بھڑک اٹھتے ہیں اور مخالفت کے جوش میں گناہوں پر آمادہ ہو جاتے ہیں آیت ( وَاِذَا تُتْلٰى عَلَيْهِمْ اٰيٰتُنَا بَيِّنٰتٍ تَعْرِفُ فِيْ وُجُوْهِ الَّذِيْنَ كَفَرُوا الْمُنْكَرَ ۭ يَكَادُوْنَ يَسْطُوْنَ بِالَّذِيْنَ يَتْلُوْنَ عَلَيْهِمْ اٰيٰتِنَا ۭ قُلْ اَفَاُنَبِّئُكُمْ بِشَرٍّ مِّنْ ذٰلِكُمْ ۭ اَلنَّارُ ۭ وَعَدَهَا اللّٰهُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا ۭ وَبِئْسَ الْمَصِيْرُ ) 22 ۔ الحج:72 ) یعنی اللہ تعالیٰ کے کلام کی آیتیں جب ان کے سامنے تلاوت کی جاتی ہیں تو ان کافروں کے منہ چڑھ جاتے ہیں اور پڑھنے والوں پر جھپٹتے ہیں ، سنو ، اس سے بھی بڑھ کر سنو ، کافروں کے لئے ہمارا فرمان جہنم کا ہے جو بدترین جگہ ہے ، یہاں بھی یہی فرمایا کہ انہیں جہنم کافی ہے یعنی سزا میں وہ بدترین اوڑھنا بچھونا ہے ۔ مومن کون؟ منافقوں کی مذموم خصلتیں بیان فرما کر اب مومنوں کی تعریفیں ہو رہی ہیں ، یہ آیت حضرت صہیب بن سنان رومی رضی اللہ عنہ کے حق میں نازل ہوئی ہے یہ مکہ میں مسلمان ہوئے تھے جب مدینہ کی طرف ہجرت کرنی چاہی تو کافروں نے ان سے کہا کہ ہم تمہیں مال لے کر نہیں جانے دیں گے اگر تم مال چھوڑ کر کر جانا چاہتے ہو تو تمہیں اختیار ہے ، آپ نے سب مال سے علیحدگی کر لی اور کفار نے اس پر قبضہ کر لیا اور آپ نے ہجرت کی جس پر یہ آیت اتری حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اور صحابہ کرام کی ایک بڑی جماعت آپ کے استقبال کے لئے حرہ تک آئی اور مبارکبادیاں دیں کہ آپ نے بڑا اچھا بیوپار کیا بڑے نفع کی تجارت کی آپ یہ سن کر فرمانے لگے اللہ تعالیٰ آپ کی تجارتوں کو بھی نقصان والی نہ کرے آخر بتاؤ تو یہ مبارکبادیاں کیا ہیں ۔ ان بزرگوں نے فرمایا آپ کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر یہ آیت نازل ہوئی ہے ، جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ خوشخبری سنائی ۔ قریش نے ان سے کہا تھا کہ جب آپ مکہ میں آئے آپ کے پاس مال نہ تھا یہ سب مال یہیں کمایا اب اس مال کو لے کر ہم جانے نہ دیں گے چنانچہ آپ نے مال کو چھوڑا اور دین لے کر خدمت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہو گئے ، ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ جب آپ ہجرت کے ارادے سے نکلے اور کفار مکہ کو علم ہوا تو سب نے آن کر گھیر لیا آپ نے اپنے ترکش سے تیر نکال لئے اور فرمایا اے مکہ والو تم خوب جانتے ہو کہ میں کیسا تیر انداز ہوں میرا ایک نشانہ بھی خطا نہیں جاتا جب تک یہ تیر ختم نہ ہوں گے میں تم کو چھیدتا رہوں گا اس کے بعد تلوار سے تم سے لڑوں گا اور اس میں بھی تم میں سے کسی سے کم نہیں ہوں جب تلوار کے بھی ٹکڑے ہو جائیں گے پھر تم میرے پاس آسکتے ہو پھر جو چاہو کر لو اگر یہ تمہیں منظور ہے تو بسم اللہ ورنہ سنو میں تمہیں اپنا کل مال دئیے دیتا ہوں سب لے لو اور مجھے جانے دو وہ مال لینے پر رضامند ہو گئے اور اس طرح آپ نے ہجرت کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس پہنچنے سے پہلے ہی وہاں بذریعہ وحی یہ آیت نازل ہو چکی تھی آپ کو دیکھ کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مبارک باد دی اکثر مفسرین کا یہ قول بھی ہے کہ یہ آیت عام ہے ہر مجاہد فی سبیل اللہ کی شان ہے جیسے اور جگہ ہے آیت ( اِنَّ اللّٰهَ اشْتَرٰي مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اَنْفُسَھُمْ وَاَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّةَ ) 9 ۔ التوبہ:111 ) یعنی اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی جانیں اور مال خرید لئے ہیں اور ان کے بدلے جنت دے دی ہے یہ اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں مارتے بھی ہیں اور شہید بھی ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ کا یہ سچا عہد توراہ انجیل اور قرآن میں موجود ہے اللہ تعالیٰ سے زیادہ سچے عہد والا اور کون ہوگا تم اے ایماندارو اس خرید فروخت اور ادلے بدلے سے خوش ہو جاؤ یہی بڑی کامیابی ہے ، حضرت ہشام بن عامر نے جبکہ کفار کی دونوں صفوں میں گھس کر ان پر یکہ وتنہا بےپناہ حملہ کر دیا تو بعض لوگوں نے اسے خلاف شرع سمجھا ۔ لیکن حضرت عمر اور حضرت ابو ہریرہ وغیرہ نے ان کی تردید کی اور اسی آیت ( من بشری ) کی تلاوت کر کے سنا دی ۔
(1) ۔ 204۔ 1 بعض ضعیف روایات کے مطابق یہ آیت ایک منافق اخنس بن شریق ثقفی کے بارے میں نازل ہوئی ہے لیکن صحیح بات یہ ہے کہ اس سے مراد سارے ہی منافقین اور منکرین ہیں جن میں یہ مذموم اوصاف پائے جائیں جو کہ اس کے ضمن میں بیان فرمائے ہیں۔
اوپر کی آیات میں ” وَمِنَ النَّاسِ “ سے لے کر یہاں تک دو قسم کے لوگ ذکر کیے، یعنی طالب دنیا اور طالب دنیا و آخرت۔ اب یہاں سے منافقین کے اوصاف کا بیان ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد مبارک میں چند ایسے چال باز لوگ تھے (اور ہمیشہ رہے ہیں) ، ان آیات میں ان کی صفات بیان فرما کر ان سے چوکس رہنے کی ہدایت فرمائی ہے۔ (قرطبی، فتح القدیر) تفاسیر میں گو ان آیات کا سبب نزول اخنس بن شریق ثقفی کو بیان کیا گیا ہے، مگر الفاظ کے اعتبار سے یہ ہر اس شخص کو شامل ہیں جس میں یہ پانچوں صفات پائی جائیں۔ (کبیر) علاوہ ازیں وہ تمام روایات جن میں اس آیت کے اخنس کے بارے میں اترنے کا ذکر ہے، ضعیف ہیں۔ ( دیکھیے الاستیعاب فی بیان الاسباب) اس لیے یہ آیت عام ہے۔- ایسے منافق کی پہلی صفت یہ ہے کہ وہ دنیا کی زندگی سے متعلق بہت سی معلومات رکھتا ہے، اس موضوع پر بات کرے تو آدمی حیران رہ جاتا ہے۔ آخرت پر نہ وہ بات کرتا ہے نہ اسے اس کا علم ہے۔ (دیکھیے الروم : ٦، ٧) ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ ہر سخت دل متکبر، بخیل پیٹو سے بغض رکھتا ہے جو بازاروں میں شور کرنے والا ہے، رات کو مردار اور دن کو گدھا ہے، دنیا کے معاملات کا عالم ہے، آخرت کے معاملات سے جاہل ہے۔ “ [ صحیح ابن حبان : ١٩٥٧۔ السلسلۃ - الصحیحۃ : ١٩٥ ] - دوسری صفت یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی قسمیں کھا کھا کر اپنے ایمان و اخلاص کا یقین دلاتا ہے، کیونکہ وہ مسلمانوں کے ہاں اپنے بےاعتبار ہونے کو خوب سمجھتا ہے۔ ( دیکھیے سورة منافقون کی ابتدائی آیات )- تیسری صفت یہ ہے کہ وہ ” اَلَدُّ الْخِصَام “ ہے۔ ” اَلَدّ “ کا معنی سخت جھگڑالو ہے۔ ” الْخِصَامِ “ یا تو باب مفاعلہ کا مصدر ہے، اس صورت میں معنی ہوگا جھگڑے میں سخت جھگڑالو ہے، یا ” خَصْمٌ“ (جھگڑنے والا) کی جمع ہے، معنی ہوگا جھگڑنے والوں میں سے بہت سخت جھگڑالو ہے۔ عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ کے ہاں سب آدمیوں سے زیادہ مبغوض ” اَلْاَلَدُّ الْخَصِمُ “ (سخت جھگڑا لو) ہے۔ “ [ بخاری، التفسیر، باب : ( وہو ألد الخصام ) : ٤٥٢٣۔ مسلم : ٢٦٦٨ ] اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منافق کی چار نشانیوں میں سے ایک یہ بیان فرمائی : ” وہ جب جھگڑتا ہے تو بدزبانی کرتا ہے۔ “ [ بخاری، الإیمان، باب علامۃ المنافق : ٣٤۔ مسلم : ٥٨ ] چوتھی صفت یہ ہے کہ جب وہ مسلمانوں کے پاس اپنے اخلاص کی قسمیں کھا کر واپس جاتا ہے تو تخریبی کاروائیوں کے ذریعے سے زمین میں فساد اور کھیتوں اور جان و مال کو برباد کرنے میں مشغول ہوجاتا ہے ” تَوَلّٰى“ کا ایک معنی ہے ” وہ واپس جاتا ہے “ اور دوسرا معنی ہے ” جب وہ والی یعنی حاکم یا صاحب اقتدار بنتا ہے۔ “ پانچویں صفت یہ ہے کہ جب اسے اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کے لیے کہا جائے تو اس کی (جھوٹی) عزت اور غرور نفس اسے گناہ میں پھنسائے رکھتا ہے۔
ربط آیات :- اوپر کی آیتوں میں دعا مانگنے والے آدمیوں کی دو قسمیں ٹھرائی تھیں ایک کافر کہ منکر آخرت ہے اس لئے صرف دنیا مانگتا ہے دوسرا مومن کہ معتقد آخرت ہے دنیا کی بھلائی کے ساتھ آخرت کی بھلائی بھی مانگتا ہے اب اگلی آیت میں اسی طرح کی تقسیم نفاق و اخلاص کے اعتبار سے فرماتے ہیں کہ بعض منافق ہوتے ہیں اور بعض مخلصین۔- خلاصہ تفسیر :- (کوئی شخص تھا اخنس بن شریق بڑا فصیح وبلیغ وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آکر قسمیں کھا کھا کر دعویٰ اسلام کیا کرتا اور مجلس سے اٹھ کرجاتا تو فساد و شرارت و ایذا رسانی خلق میں لگ جاتا اس منافق کے باب میں فرماتے ہیں) اور بعضا آدمی ایسا بھی ہے کہ آپ کو اس کی گفتگو جو محض دنیوی غرض سے ہوتی ہے (کہ اظہار اسلام سے مسلمانوں کی طرح قرب وخصوصیت کے ساتھ رہوں گا اس کی فصاحت و بلاغت کی وجہ سے) مزہ دار معلوم ہوتی ہے اور وہ (اپنا اعتبار بڑھانے کو) اللہ تعالیٰ کو گواہ بناتا ہے اپنے دل کی سچائی پر حالانکہ (بالکل جھوٹا ہے کیونکہ واقع میں) وہ (آپکی) مخالفت میں (نہایت) شدید ہے اور (جس طرح آپ کا مخالف ہے اسی طرح اور مسلمانوں کو بھی ایذا پہنچاتا ہے چنانچہ) جب (آپ کی مجلس سے) پیٹھ پھیرتا ہے تو اس دوڑ دھوپ میں پھرتا رہتا ہے کہ شہر میں (کوئی) فساد کردے اور (کسی کی) کھیت اور مواشی کو تلف کردے (چنانچہ ایک مسلمان کا اس طرح نقصان کردیا) اور اللہ تعالیٰ فساد (کی باتوں) کو پسند نہیں فرماتے اور (اس مخالفت و ایذاء کے ساتھ مغرور اس درجہ ہے کہ) جب اس سے کوئی کہتا ہے خدا سے ڈر تو (اور زیادہ) آمادہ کردیتا ہے اس کو غرور گناہ پر سو ایسے شخص کی کافی سزا جہنم اور وہ برا ٹھکانا ہے اور بعض آدمی ایسے بھی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے بدلہ میں اپنی جان تک بیچ ڈالتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ایسے بندوں کے حال پر نہایت مہربان ہیں۔- معارف و مسائل :- آیت کا آخری حصہ جس میں مومن کا یہ حال بیان کیا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے اپنی جان کی بھی بازی لگا دیتا ہے یہ ان مخلص صحابہ کرام (رض) اجمعین کی شان میں نازل ہوئی ہے جنہوں نے بےمثال قربانیاں اللہ کی راہ میں پیش کی ہیں، مستدرک حاکم ابن جریر، مسند ابن ابی حاتم وغیرہ میں بسند صحیح منقول ہے کہ یہ آیت حضرت صہیب رومی کے اس واقعہ میں نازل ہوئی ہے کہ جب وہ مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ کے لئے روانہ ہوئے تو راستہ میں کفار قریش کی ایک جماعت نے راستہ روک لیا یہ دیکھ کر حضرت صہیب رومی اپنی سواری سے اتر کر کھڑے ہوگئے اور ان کے ترکش میں جتنے تیر تھے سب نکال لئے اور قریش کی اس جماعت سے خطاب کیا کہ اے قبیلہ قریش تم سب جانتے ہو کہ میں تیر اندازی میں تم سب سے زیادہ ماہر ہوں میرا تیر کبھی خطا نہیں کرتا اور اب میں اللہ تعالیٰ کی قسم کھاتا ہوں کہ تم میرے پاس اس وقت تک نہیں پہنچ سکو گے جب تک میرے ترکش میں ایک تیر بھی باقی ہے اور تیروں کے بعد میں تلوار سے کام لوں گا جب تک مجھ میں دم رہے گا پھر جو تم چاہو کرلینا اور اگر تم نفع کا سودا چاہتے ہو تو میں تمہیں اپنے مال کا پتہ دیتا ہوں جو مکہ میں رکھا ہے تم وہ مال لے لو اور میرا راستہ چھوڑ دو اس پر قریش کی جماعت راضی ہوگئی اور حضرت صہیب رومی نے صحیح سالم آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پہنچ کر واقعہ سنایا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دو مرتبہ فرمایا۔- ربح البیع ابا یحییٰ ربح البیع ابا یحییٰ تمہارا بیوپار نفع بخش رہا تمہاری بیع نفع بخش رہی، - اسی واقعہ میں آیت مذکورہ کے نزول نے اس کلام کی تصدیق کردی جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک سے نکلا تھا۔- اور بعض حضرات مفسرین نے کچھ دوسرے صحابہ کرام (رض) اجمعین کے ایسے ہی واقعات کو آیت کا شان نزول بتلایا ہے (مظہری)
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُّعْجِبُكَ قَوْلُہٗ فِي الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا وَيُشْہِدُ اللہَ عَلٰي مَا فِيْ قَلْبِہٖ ٠ ۙ وَھُوَاَلَدُّ الْخِصَامِ ٢٠٤- نوس - النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] - ( ن و س ) الناس ۔- بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ - عجب - العَجَبُ والتَّعَجُّبُ : حالةٌ تعرض للإنسان عند الجهل بسبب الشیء، ولهذا قال بعض الحکماء : العَجَبُ ما لا يُعرف سببه، ولهذا قيل : لا يصحّ علی اللہ التَّعَجُّبُ ، إذ هو علّام الغیوب لا تخفی عليه خافية . يقال : عَجِبْتُ عَجَباً ، ويقال للشیء الذي يُتَعَجَّبُ منه : عَجَبٌ ، ولما لم يعهد مثله عَجِيبٌ. قال تعالی: أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً أَنْ أَوْحَيْنا - [يونس 2] ، تنبيها أنهم قد عهدوا مثل ذلک قبله، وقوله : بَلْ عَجِبُوا أَنْ جاءَهُمْ- [ ق 2] ، وَإِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُهُمْ [ الرعد 5] ،- ( ع ج ب ) العجب اور التعجب - اس حیرت کو کہتے ہیں جو کسی چیز کا سبب معلوم نہ ہونے کی وجہ سے انسان کو لاحق ہوجاتی ہے اسی بنا پر حکماء نے کہا ہے کہ عجب اس حیرت کو کہتے ہیں جس کا سبب معلوم نہ ہو اس لئے اللہ تعالیٰ پر تعجب کا اطلاق جائز نہیں ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ تو علام الغیوب ہے اس بنا پر کوئی چیز بھی مخفی نہیں ہے عجبت عجبا ( س ) میں نے تعجب کیا عجب ہر وہ بات جس سے تعجب پیدا ہوا اور جس جیسی چیز عام طور نہ دیکھی جاتی ہوا ہے عجیب کہا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً أَنْ أَوْحَيْنا[يونس 2] کیا لوگوں کو اس بات پر حیرت ہے کہ ہم نے وحی بھیجی ۔ میں تنبیہ کی ہے کہ آنحضرت کی طرف وحی بھیجنا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کیونکہ یہ لوگ پہلے سے سلسلہ وحی کو جانتے ہیں نیز فرمایا : ۔ بَلْ عَجِبُوا أَنْ جاءَهُمْ [ ق 2] بلکہ ان لوگوں نے تعجب کیا ہے کہ انہی میں سے ایک ہدایت کرنے والا ان کے پاس آیا ۔ وَإِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُهُمْ [ الرعد 5] اور اگر تم عجیب بات سننی چاہو تو کافروں کا یہ کہنا عجیب ہے ۔ - قلب - قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] .- ( ق ل ب ) قلب - الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ - لدد - الْأَلَدُّ : الخصیم الشّديد التّأبّي، وجمعه : لُدٌّ. قال تعالی: وَهُوَ أَلَدُّ الْخِصامِ- [ البقرة 204] ، وقال : وَتُنْذِرَ بِهِ قَوْماً لُدًّا [ مریم 97] . وأصل الألدّ : الشّديد اللَّدَدُ ، أي : صفحة العنق، وذلک إذا لم يمكن صرفه عمّا يريده، وفلان يَتَلَدَّدُ ، أي : يتلفّت، واللَّدُودُ ما سقي الإنسان من دواء في أحد شقّي فمه، وقد الْتَدَدْتُ ذلك .- ( ل د د ) الالد - ۔ سخت جھگڑا لو آدمی کو کہتے ہیں جو کسی کی بات مانتا ہی ن ہو ۔ اس کی جمع لد آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : وَهُوَ أَلَدُّ الْخِصامِ [ البقرة 204] حالانکہ وہ سخت جھگڑالو ہے ۔ وَتُنْذِرَ بِهِ قَوْماً لُدًّا [ مریم 97] تاکہ اس کے ذریعہ سخت جھگڑا لو قوم کے بدانجام سے آگاہ کرو ۔ اصل میں الد شدید اللد د یعنی اس آدمی کو کہتے ہیں ۔ جس کی گردن کا پہو بڑا سخت ہو ۔ اور مجازا اس شخص پر بولاجاتا ہے جسے اس کے ارادہ سے پھیرا نہ جاسکے ۔ فلان یتلدد فلاں گردن موڑ کر رخ پھیر تا ہے ۔ اللدود ۔ وہ دو اجومنہ کی ایک جانب سے پلائی جائے ۔ التددت ۔ لدو دلینا ۔- خصم - الخَصْمُ مصدر خَصَمْتُهُ ، أي : نازعته خَصْماً ، يقال : خاصمته وخَصَمْتُهُ مُخَاصَمَةً وخِصَاماً ، قال تعالی: وَهُوَ أَلَدُّ الْخِصامِ [ البقرة 204] ، وَهُوَ فِي الْخِصامِ غَيْرُ مُبِينٍ [ الزخرف 18] ، ثم سمّي المُخَاصِم خصما، واستعمل للواحد والجمع، وربّما ثنّي، وأصل المُخَاصَمَة : أن يتعلّق كلّ واحد بخصم الآخر، أي جانبه وأن يجذب کلّ واحد خصم الجوالق من جانب، وروي : ( نسیته في خصم فراشي) «1» والجمع خُصُوم وأخصام، وقوله : خَصْمانِ اخْتَصَمُوا - [ الحج 19] ، أي : فریقان، ولذلک قال : اخْتَصَمُوا وقال : لا تَخْتَصِمُوا لَدَيَّ [ ق 28] ، وقال : وَهُمْ فِيها يَخْتَصِمُونَ [ الشعراء 96] ، والخَصِيمُ : الكثير المخاصمة، قال : هُوَ خَصِيمٌ مُبِينٌ [ النحل 4] ، والخَصِمُ : المختصّ بالخصومة، قال : بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُونَ [ الزخرف 58] .- ( خ ص م ) الخصم - ۔ یہ خصمتہ کا مصدر ہے جس کے معنی جھگڑنے کے ہیں کہاجاتا ہے خصمتہ وخاصمتہ مخاصمۃ وخصاما کسی سے جھگڑا کر نا قرآن میں ہے :۔ وَهُوَ أَلَدُّ الْخِصامِ [ البقرة 204] اور وہ حالانکہ سخت جھگڑا لو ہے ۔ وَهُوَ فِي الْخِصامِ غَيْرُ مُبِينٍ [ الزخرف 18] اور جھگڑنے کے وقت بات نہ کرسکے ۔ اور مخاصم کو خصم کہا جات ہے ، اور خصم کا لفظ واحد جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے مگر کبھی تثنیہ بھی آجاتا ہے۔ اصل میں خصم کے معنی کنارہ کے ہیں ۔ اور مخاصمت کے معنی ایک دوسرے سے کو کنارہ سے پکڑنے کے ہیں ۔ اور بوری کو کونے سے پکڑکر کھینچنے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔ ایک حدیث میں ہے :۔ (114) نسی تھا فی خصم فراشی کہ میں اسے اپنے بسترہ کے کونے میں بھول آیا ہوں خصم کی جمع خصوم واخصام آتی ہے اور آیت کریمہ ؛۔ اخْتَصَمُوا[ الحج 19] دوفریق جھگڑتے ہیں ۔ میں خصما ن سے دو فریق مراد ہیں اسی لئے اختصموا آیا ہے ۔ - الاختصام - ( افتعال ) ایک دوسرے سے جھگڑنا ۔ قرآن میں ہے :۔ لا تَخْتَصِمُوا لَدَيَّ [ ق 28] ہمارے حضور رد کد نہ کرو ۔ وَهُمْ فِيها يَخْتَصِمُونَ [ الشعراء 96] ۔۔۔۔ وہ آپس میں جھگڑیں گے ۔- الخصیم - ۔ جھگڑا لو بہت زیادہ جھگڑا کرنے والا جیسے فرمایا :۔ هُوَ خَصِيمٌ مُبِينٌ [ النحل 4] مگر وہ ( اس بارے میں ) علانیہ جھگڑنے لگا ۔ الخصم سخٹ جھگڑالو جس کا شیوہ ہ جھگڑنا ہو ۔ قرآن میں ہے :َ بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُونَ [ الزخرف 58] حقیقت یہ ہے ۔ یہ لوگ ہیں ہی جھگڑا لو،
قول باری ہے (ومن الناس من یعجیک قولہ فی الحیاۃ الدنیا ویشھد اللہ علی مافی قلبہ وھو الذالخصام انسانوں میں کوئی تو ایسا ہے جس کی باتیں دنیا کی زندگی میں تمہیں بہت بھلی معلوم ہوتی ہیں اور اپنی نیک نیتی پر بار بار خدا کو گواہ ٹھہراتا ہے مگر حقیقت میں وہ بدترین دشمن حق ہوتا ہے)- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ آیت میں اس بات سے خبردار کیا گیا ہے کہ کسی شخص کی ظاہری باتوں شیریں بیانی اور نیک نیتی کی بار بار یقین دہانیوں سے ہرگز دھوکا نہ کھایا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بتادیا کہ انسانوں میں کوئی تو ایسا ہوتا ہے جس کی باتیں ظاہری طور پر بڑی بھلی معلوم ہوتی ہیں اور وہ اپنی نیک نیتی پر بار بار خدا کو گواہ ٹھہراتا ہے۔- یہ منافقین کی صفت ہے جیسا کہ قول باری ہے (قالوا نشھد انک لرسول اللہ ۔ واللہ یعلم انک لرسولہ واللہ یشھد ان المنافقین لکذبون اتخذوا ایمانھم جنۃ منافقین کہتے ہیں کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ بیشک آپ اللہ کے رسول ہیں۔ اللہ بھی جانتا ہے کہ آپ اس کے رسول ہیں لیکن اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ یہ منافقین جھوٹے ہیں۔ انہوں نے اپنی قسموں کو اپنے لئے ڈھال بنا رکھا ہے۔ )- قضا، امامت اور عدالت وغیرہ کے مناصب صرف ظاہری حالت دیکھ کر نہ سپرد کردیئے جائیں - اسی طرح قول باری ہے (واذا رایتھم تعجبک اجسامھم وان یقولوا تسمع لقولھم اور جب آپ ان کو دیکھیں تو ان کے قدو قامت آپ کو خوشنما معلوم ہوں اور یہ باتیں کرنے لگیں تو آپ ان کی باتیں سننے لگیں) اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان باتوں سے آگاہ کردیا جو انہوں نے اپنے دلوں میں چھپا رکھی ہیں تاکہ آپ ان کی ظاہری باتوں سے دھوکے میں نہ آ جائیں۔ نیز اللہ تعالیٰ نے ان جیسے لوگوں میں ہمارے لئے عبرت کا سامان رکھ دیا تاکہ ہم لوگوں کے ظاہری امور پر اور ان کی ان باتوں پر بھروسہ نہ کر بیٹھیں جو وہ اپنے ما فی الضمیر کے اظہار کے طور پر بیان کرتے ہوں۔- ان جیسے لوگوں کے ساتھ جن دینی اور دنیاوی امور کا تعلق ہو اس آیت میں ان میں ہمیں احتیاط برتنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ہم کسی دینی یا دنیاوی امر میں کسی انسان کی صرف ظاہری حالت پر ہی اعتماد نہ کر بیٹھیں بلکہ اس کے متعلق تحقیق و تفتیش بھی کریں۔- اس میں اس بات کی بھی دلیل ہے کہ جس شخص کو قضا یا امامت (خلافت) یا اسی قسم کے کسی اہ ممنصب کے لئے منتخب کیا جائے یا عدالت میں گواہی دینے کے لئے طلب کیا جائے تو یہ ضروری ہے کہ صرف ان کے ظاہر کو قابل قبول نہ سمجھا جائے بلکہ ان کے متعلق پوری طرح چھان پھٹک کرلی جائے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے ان جیسے لوگوں کو مسلمانوں کے معاملات سپرد کردینے کے سلسلے میں ہمیں پوری طرح چوکنا رہنے کا حکم دیا ہے۔- آپ نہیں دیکھتے کہ درج بالا آیت کے فوراً ہی بعد اللہ کا ارشاد ہے (واذا تولی سعی فی الارض لیفسد فیھا و یھلک الحرث والنسل۔ جب اسے اقتدار حاصل ہوجاتا ہے تو زمین میں اس کی ساری دوڑ دھپو اس لئے ہوتی ہے کہ فساد پھیلائے، کھیتوں کو غارت کرے اور نسل انسانی کو تباہ کرے۔- اس مقام پر اقتدار کے ذکر کی وجہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمیں یہ بتایا جا رہا ہے کہ جسے اقتدار سونپا جائے جب تک مختلف ذرائع سے اس کے حالات کی چھان پھٹک نہ کرلی جائے۔ اس وقت تک صرف) اس کے ظاہر پر انحصار کرنا جائز نہیں ہوتا۔- قول باری (وھو الدالخصام) یہ اس شخص کی کیفیت ہے جو بار بار اپنی نیک نیتی پر خدا کو گواہ بناتا ہے لیکن اس کی حالت یہ ہے کہ اپنی بدنیتی کی بنا پر انتہائی جھگڑالو ہے۔ اگر کسی معاملے میں اس کا کسی کے ساتھ تنازعہ ہوجائے تو شدید جھگڑے کے ذریعے اپنے فریق مقابل کو مجبور کر کے اس کے حق سے ہٹا کر اسے اپنے قبضے میں کرلیتا ہے۔- محاورہ ہے لدہ عن کذا یعنی اس نے اسے مجبور و محبوس کردیا۔ اس معنی میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (انکم تختصمون الی ولعل بعض کو یکون الحسن بججتہ من بعض من النار تم اپنے جھگڑے میرے پاس فیصلے کے لئے لے کر آتے ہوسکتا ہے کہ تم میں سے بعض اپنی دلیل سے دوسرے کی بہ نسبت زیادہ خبردار ہو۔ جہاں تک میرا تعلق ہے میں تو جو سنوں گا اس کے فیصلہ کروں گا اگر میں نے ظاہری دلائل کی بنا پر کسی شخص کو اس کے بھائی کا حق دے دیا تو یاد رکھو میں اسے جہنم کی آگ کا ایک ٹکڑا دوں گا۔- اس بنا پر (الدالخصام) کے معنی یہ ہوں گے کہ یہ شخص جھگڑا کرنے کے لحاظ سے دونوں فریضوں میں سے زیادہ شدید ہے۔
(٢٠٤) آپ کو بعض لوگوں کی دنیاوی زندگی میں گفتگو اور ان کا طرز بیان پسندیدہ معلوم ہوتا ہے اور اس کے ساتھ وہ اللہ تعالیٰ کی اس بات پر قسم کھاتا ہے کہ میں آپ سے محبت رکھتا ہوں اور آپ کی پیروں کرتا ہوں حالانکہ وہ جھوٹا اور سخت قسم کا جھگڑالو ہے۔- شان نزول : (آیت) ” ومن الناس من یعجبک “۔ (الخ)- ابن ابی حاتم (رح) نے سعید (رض) یا عکرمہ (رض) کے ذریعہ سے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ جب وہ لشکر شہید کردیا گیا جس میں عاصم اور مرشد تھے تو منافقوں میں سے دو آدمیوں نے کہا کہ جو لوگ اس طرح مارے گئے ان کے لیے ہلاکت ہے۔ کیوں نہ یہ اپنے گھروں میں بیٹھے رہے اور کیوں نہ انہوں نے اپنے صاحب کی رسالت کو ادا کردیا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ اتاری کہ (آیت) ” ومن الناس من یعجبک “۔ اور ابن جریر (رح) نے سدی (رح) سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت کریمہ اخنس بن شریق (رض) کے بارے میں اتری ہے، رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آکر اس نے اسلام ظاہر کیا، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کی یہ بات پسند آئی، اس کے بعد یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس سے چلا گیا اور مسلمانوں کی ایک جماعت کی کھیتی اور گدھوں پر سے اس کا گزر ہوا تو اس نے کھیتی جلادی اور گدھوں کے پاؤں کاٹ ڈالے۔- (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )
آیت ٢٠٤ (وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یُّعْجِبُکَ قَوْلُہٗ فِی الْْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا) - یہ منافقین میں سے ایک خاص گروہ کا تذکرہ ہو رہا ہے۔ منافقین میں سے بعض تو ایسے تھے کہ ان کی زبانوں پر بھی نفاق واضح طور پر ظاہر ہوجاتا تھا ‘ جبکہ منافقین کی ایک قسم وہ تھی کہ بڑے چاپلوس اور چرب زبان تھے۔ ان کی گفتگو ایسی ہوتی تھی گویا وہ تو بڑے ہی مخلص اور بڑے ہی فداکار ہیں۔ اپنا موقف اس انداز سے پیش کرتے کہ یوں لگتا تھا کہ بڑی ہی نیک نیتی پر مبنی ہے ‘ لیکن ان کا کردار انتہائی گھناؤنا تھا۔ ان کی ساری بھاگ دوڑ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اسلام کی مخالفت کی راہ میں ہوتی تھی۔ ان کے بارے میں فرمایا کہ بعض لوگ ایسے بھی ہیں کہ جن کی باتیں دنیا کی زندگی میں تمہیں بہت اچھی لگتی ہیں۔ - (وَیُشْہِدُ اللّٰہَ عَلٰی مَا فِیْ قَلْبِہٖ لا) اور وہ اللہ کو بھی گواہ ٹھہراتا ہے اپنے دل کی بات پر۔ - اس کا انداز کلام یہ ہوتا ہے کہ میں جو کچھ کہہ رہا ہوں اللہ جانتا ہے کہ خلوص سے کہہ رہا ہوں ‘ پوری نیک نیتی سے کہہ رہا ہوں۔ منافق کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ اپنے آپ کو قابل اعتبار ثابت کرنے کے لیے بات بات پر قسم کھاتا ہے۔
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :223 یعنی کہتا ہے: خدا شاہد ہے کہ میں محض طالب خیر ہوں ، اپنی ذاتی غرض کے لیے نہیں ، بلکہ صرف حق اور صداقت کے لیے یا لوگوں کی بھلائی کے لیے کام کر رہا ہوں ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :224 ”اَلَدُّ الْخِصَام“ کے معنی ہیں”وہ دشمن جو تمام دشمنوں سے زیادہ ٹیڑھا ہو“ ۔ یعنی جو حق کی مخالفت میں ہر ممکن حربے سے کام لے ۔ کسی جھوٹ ، کسی بے ایمانی ، کسی غدر و بد عہدی اور کسی ٹیڑھی سے ٹیڑھی چال کو بھی استعمال کرنے میں تامل نہ کرے ۔