Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٧٣] اخنس بن شریق ایک منافق تھا جو فصیح وبلیغ اور شیریں کلام تھا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کی چکنی چپڑی باتیں بھلی معلوم ہوتیں۔ وہ بات بات پر اللہ کی قسم کھاتا اور بار بار اللہ کو گواہ بنا کر کہتا کہ وہ سچا مسلمان ہے اور مسلمانوں کا دلی دوست ہے۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صحیح صورت حال سے مطلع کرتے ہوئے فرمایا کہ اس کی باتوں پر فریفتہ مت ہونا، کیونکہ یہ سخت جھگڑا لو قسم کا انسان ہے۔ چناچہ ایسا ہی ہوا، وہ اسلام سے پھر کر مکہ واپس چلا گیا۔ راستہ میں مسلمانوں کے جو کھیت دیکھے انہیں جلا دیا اور جو جانور نظر آئے انہیں مار ڈالا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاِذَا تَوَلّٰى سَعٰى فِي الْاَرْضِ لِيُفْسِدَ فِيْہَا وَيُہْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ۝ ٠ ۭ وَاللہُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ۝ ٢٠٥- سعی - السَّعْيُ : المشي السّريع، وهو دون العدو، ويستعمل للجدّ في الأمر، خيرا کان أو شرّا، قال تعالی: وَسَعى فِي خَرابِها[ البقرة 114] - ( س ع ی ) السعی - تیز چلنے کو کہتے ہیں اور یہ عدو ( سرپٹ دوڑ ) سے کم درجہ ( کی رفتار ) ہے ( مجازا ) کسی اچھے یا برے کام کے لئے کوشش کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَسَعى فِي خَرابِها[ البقرة 114] اور ان کی ویرانی میں ساعی ہو ۔ - فسد - الفَسَادُ : خروج الشیء عن الاعتدال، قلیلا کان الخروج عنه أو كثيرا،. قال تعالی: لَفَسَدَتِ السَّماواتُ وَالْأَرْضُ [ المؤمنون 71] ، - ( ف س د ) الفساد - یہ فسد ( ن ) الشئی فھو فاسد کا مصدر ہے اور اس کے معنی کسی چیز کے حد اعتدال سے تجاوز کر جانا کے ہیں عام اس سے کہ وہ تجاوز کم ہو یا زیادہ قرآن میں ہے : ۔ لَفَسَدَتِ السَّماواتُ وَالْأَرْضُ [ المؤمنون 71] تو آسمان و زمین ۔۔۔۔۔ سب درہم برہم ہوجائیں ۔- هلك - الْهَلَاكُ علی ثلاثة أوجه :- افتقاد الشیء عنك، وهو عند غيرک موجود کقوله تعالی: هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة 29] - وهَلَاكِ الشیء باستحالة و فساد کقوله :- وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة 205] ويقال : هَلَكَ الطعام .- والثالث :- الموت کقوله : إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء 176] وقال تعالیٰ مخبرا عن الکفّار : وَما يُهْلِكُنا إِلَّا الدَّهْرُ [ الجاثية 24] .- ( ھ ل ک ) الھلاک - یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ایک یہ کہ - کسی چیز کا اپنے پاس سے جاتے رہنا خواہ وہ دوسرے کے پاس موجود ہو جیسے فرمایا : هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة 29] ہائے میری سلطنت خاک میں مل گئی ۔- دوسرے یہ کہ - کسی چیز میں خرابی اور تغیر پیدا ہوجانا جیسا کہ طعام ( کھانا ) کے خراب ہونے پر ھلک الطعام بولا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة 205] اور کھیتی کو بر باد اور انسانوں اور حیوانوں کی نسل کو نابود کردی ۔ - موت کے معنی میں - جیسے فرمایا : ۔ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء 176] اگر کوئی ایسا مرد جائے ۔- حرث - الحَرْث : إلقاء البذر في الأرض وتهيّؤها للزرع، ويسمّى المحروث حرثا، قال اللہ تعالی: أَنِ اغْدُوا عَلى حَرْثِكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صارِمِينَ [ القلم 22] ، - وذلک علی سبیل التشبيه، فبالنساء زرع ما فيه بقاء نوع الإنسان، كما أنّ بالأرض زرع ما به بقاء أشخاصهم، وقوله عزّ وجل : وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة 205] ، يتناول الحرثین .- ( ح ر ث ) الحرث ( ن ) کے معنی زمین میں بیج ڈالنے اور اسے زراعت کے لئے تیار کرنے کے پاس اور کھیتی کو بھی حرث کہاجاتا ہے ۔ قرآں میں ہے ؛۔ أَنِ اغْدُوا عَلى حَرْثِكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صارِمِينَ [ القلم 22] کہ اگر تم کو کاٹنا ہے تو اپنی کھیتی پر سویری ہی جا پہنچو۔ اور کھیتی سے زمین کی آبادی ہوئی ہے اس لئے حرث بمعنی آبادی آجاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة 205] اور کھیتی کو ( برباد ) اور انسانوں اور حیوانوں کی ) نسل کو قابو کردے ۔ دونوں قسم کی کھیتی کو شامل ہے۔- حب - والمحبَّة :- إرادة ما تراه أو تظنّه خيرا، وهي علی ثلاثة أوجه :- محبّة للّذة، کمحبّة الرجل المرأة، ومنه :- وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان 8] .- ومحبّة للنفع، کمحبة شيء ينتفع به، ومنه :- وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] .- ومحبّة للفضل، کمحبّة أهل العلم بعضهم لبعض لأجل العلم .- ( ح ب ب ) الحب والحبۃ - المحبۃ - کے معنی کسی چیز کو اچھا سمجھ کر اس کا ارادہ کرنے اور چاہنے کے ہیں - اور محبت تین قسم پر ہے :- ۔ ( 1) محض لذت اندوزی کے لئے - جیسے مرد کسی عورت سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ آیت : ۔ وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان 8] میں اسی نوع کی محبت کی طرف اشارہ ہے - ۔ ( 2 ) محبت نفع اندوزی کی خاطر - جیسا کہ انسان کسی نفع بخش اور مفید شے سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13 اور ایک چیز کو تم بہت چاہتے ہو یعنی تمہیں خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح حاصل ہوگی - ۔ ( 3 ) کبھی یہ محبت یہ محض فضل وشرف کی وجہ سے ہوتی ہے - جیسا کہ اہل علم وفضل آپس میں ایک دوسرے سے محض علم کی خاطر محبت کرتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے (واللہ لایحب الفساد اور اللہ تعالیٰ پسند نہیں کتا اس کا ارادہ بھی نہیں کرتا اور جس چیز کا ارادہ نہیں کرتا اسے پسند بھی نہیں کرتا۔ اس فقرے میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتادیا ہے کہ وہ فساد کو پسند نہیں کرتا۔- یہ چیز اس بات کو واجب کردیتی ہے کہ اللہ تعالیٰ فساد کا کام نہ کرے کیونکہ اگر وہ ایسا کرے گا تو وہ فساد کا ارادہ کرنے والا اور اسے پسند کرنے والا قرار پائے گا اور اللہ کی ذات اس سے بہت بلند ہے کہ وہ ایسا کرے۔ اس کی مثال ایک اور قول باری میں موجود ہے۔ ارشاد ہوتا ہے (وما اللہ یرید ظلماً للعباد اور یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ بندوں پر ظلم کا ارادہ کرتا ہو۔- اس بات پر بھی دلالت ہو رہی ہے کہ فعل کے ہونے کے متعلق اس کی پسندیدگی اس فعل کے لئے اس کا ارادہ ہوتی ہے کیونکہ یہ بات تو بالکل غلط ہے کہ وہ ایک فعل کے ہونے کو پسند کرے اور اس کے ہونے کا ارادہ نہ کرے بلکہ اس کا ہونا اسے ناپسند ہو اس سے تو تنا قض لازم آتا ہے۔- مثلاً کوئی یہ کہے کہ وہ ایک کام کا ارادہ رکھتا ہے لیکن اسے ناپسند بھی کرتا ہے، اس کا یہ کلام تناقض کا شکار ہوگا اور اس میں اختلال واقع ہوجائے گا۔ اس حقیقت پر یہ قول باری دلالت کرتا ہے (ان الذین یحبون ان تشیع الفاحشۃ فی الذین امنوا لھم عذاب الیم وہ لوگ جو یہ چاہتے ہیں کہ اہل ایمان کے گروہ میں فحش پھیلے بلاشبہ ا ن کے لئے درد ناک عذاب ہے ) یہاں یحبون کے معنی یریدون (وہ چاہتے ہیں) ہیں۔- آیت سے اس بات پر دلالت ہو رہی ہے کہ پسند کرنا ہی ارادہ کرنا ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا (ان اللہ احب لکم ثلاثا وکرہ لکم ثلاثا۔ احب لکم القیل والقال وکثرۃ السئوال و اضاعۃ المال اللہ تعالیٰ نے تین باتوں کو تمہارے لئے پسند اور تین باتوں کو ناپسند کیا ہے۔ اس نے یہ پسند کیا ہے کہ تم اس کی عبادت کرو اور سا کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور یہ کہ تم اس شخص کے لئے خیر خواہانہ جذبات رکھو جسے وہ تم پر والی مقرر کرے۔ اس نے قلیل وقال (بلاوجہ اعتراضات کرنے) کثرت سوال اور مال کے ضیاع کو ناپسند کیا ہے)- اس حدیث میں کراہت کو محبت کے مقابل ہمیں بیان کیا گیا ہے۔ اس سے یہ دلالت ہوئی کہ اللہ تعالیٰ جس چیز کا ارادہ کرتا ہے اسے پسند بھی کرتا ہے اور جس بات کو وہ ناپسند کرتا ہے اس کا ارادہ نہیں کرتا۔ کیونکہ کراہت ارادے کے بالمقابل ہے جس طرح کہ یہ محبت یعنی پسندیدگی کے بالمقابل ہوتی ہے۔ جب کراہت ارادے اور پسندیدگی کی نقیض ہے تو اس سے یہ معلوم ہوا کہ ارادہ اور محبت دونوں ایک چیز ہیں۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢٠٥۔ ٢٠٦) اور جب غصہ میں آتا ہے تو ہر قسم کے گناہ کرتا ہے اور کھیتوں اور باغات کو برباد اور جانوروں کو قتل کرتا ہے، اللہ تعالیٰ ایسے فساد پھیلانے والے لوگوں کو پسند نہیں کرتے اور جب اس سے کہا جاتا ہے کہ اپنے کاموں میں اللہ تعالیٰ سے ڈر تو اس میں تکبر اور حمیت جوش مارنے لگتی ہے، اس کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ برے لوگوں کا برترین ٹھکانا ہے۔- یہ آیت کریمہ اخنس بن شریق کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ وہ شیریں کلام تھا رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کی یہ بات پسند تھی کہ میں آپ سے محبت رکھتا ہوں اور خفیہ طریقے سے آپ کے ہاتھ پر بیت کرتا ہوں اور اس پر اللہ کی قسم بھی کھاتا تھا، مگر یہ پکا منافق تھا، لوگوں کا خیال ہے کہ اس نے ایک قوم کی کھیتی جلادی تھی اور اسی طرح ایک قوم کے گدھوں کو مار ڈالا تھا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٠٥ (وَاِذَا تَوَلّٰی سَعٰی فِی الْاَرْضِ ) (لِیُفْسِدَ فِیْہَا وَیُہْلِکَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ ط) - یہ لوگ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس سے ہٹتے ہیں تو ان کی ساری بھاگ دوڑ اس لیے ہوتی ہے کہ زمین میں فساد مچائیں اور لوگوں کی کھیتیاں اور جانیں تباہ و برباد کریں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :225 ”اِذَا تَوَلّٰی“کے دو مطلب ہو سکتے ہیں ۔ ایک وہ جو ہم نے متن میں اختیار کیا ہے اور دوسرا مطلب یہ بھی نکلتا ہے کہ یہ مزے مزے کی دل لبھانے والی باتیں بنا کر”جب وہ پلٹتا ہے“ ، تو عملاً یہ کرتوت دکھاتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

بعض روایات میں ہے کہ اخنس بن شریق نامی ایک شخص مدینہ منورہ آیا تھا، اور اس نے آنحضرتﷺ کے پاس آکر بڑی چکنی چپڑی باتیں کیں، اور اللہ کو گواہ بناکر اپنے ایمان لانے کا اظہار کیا ؛ لیکن جب واپس گیا توراستے میں مسلمانوں کی کھیتیاں جلادیں اور ان کے مویشیوں کو ذبح کرڈالا، یہ آیات اس پس منظر میں نازل ہوئیں تھیں، البتہ ہر قسم کے منافقوں پر پوری اترتی ہیں۔