رسم طلاق میں آئینی اصلاحات اور خلع: اسلام سے پہلے یہ دستور تھا کہ خاوند جتنی چاہے طلاقیں دیتا چلا جائے اور عدت میں رجوع کرتا جائے اس سے عورتوں کی جان غضب میں تھی کہ طلاق دی ، عدت گزرنے کے قریب آئی رجوع کر لیا ، پھر طلاق دے دی اس طرح عورتوں کو تنگ کرتے رہتے تھے ، پس اسلام نے حد بندی کر دی کہ اس طرح کی طلاقیں صرف دو ہی دے سکتے ہیں ۔ تیسری طلاق کے بعد لوٹا لینے کا کوئی حق نہ رہے گا ، سنن ابو داؤد میں باب ہے کہ تین طلاقوں کے بعد مراجعت منسوخ ہے ، پھر یہ روایت لائے ہیں کہ حضرت ابن عباس یہی فرماتے ہیں ، ابن ابی حاتم میں ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی سے کہا کہ نہ تو میں تجھے بساؤں گا نہ چھوڑوں گا ، اس نے کہا یہ کس طرح؟ طلاق دے دوں گا اور جہاں عدت ختم ہونے کا وقت آیا تو رجوع کر لوں گا ، پھر طلاق دے دوں گا ، پھر عدت ختم ہونے سے پہلے رجوع کر لوں گا اور یونہی کرتا چلا جاؤں گا ۔ وہ عورت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور اپنا یہ دُکھ رونے لگی اس پر یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی ، ایک اور روایت میں ہے کہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد لوگوں نے نئے سرے سے طلاقوں کا خیال رکھنا شروع کیا اور وہ سنبھل گئے ، اور تیسری طلاق کے بعد اس خاوند کو لوٹا لینے کا کوئی حق حاصل نہ رہا اور فرما دیا گیا کہ دو طلاقوں تک تو تمہیں اختیار ہے کہ اصلاح کی نیت سے اپنی بیوی کو لوٹا لو اگر وہ عدت کے اندر ہے اور یہ بھی اختیار ہے کہ نہ لوٹاؤ اور عدت گزر جانے دو تاکہ وہ دوسرے سے نکاح کرنے کے قابل ہو جائے اور اگر تیسری طلاق دینا چاہتے ہو تو بھی احسان و سلوک کے ساتھ ورنہ اس کا کوئی حق نہ مارو ، اس پر کوئی ظلم نہ کرو ، اسے ضرر و نقصان نہ پہنچاؤ ، ایک شخص نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ دو طلاقیں تو اس آیت میں بیان ہو چکی ہیں تیسری کا ذِکر کہاں ہے؟ آپ نے فرمایا آیت ( اوتسریح باحسان ) میں ، جب تیسری طلاق کا ارادہ کرے تو عورت کو تنگ کرنا اس پر سختی کرنا تاکہ وہ اپنا حق چھوڑ کر طلاق پر آمادگی ظاہر کرے ، یہ مردوں پر حرام ہے ۔ جیسے اور جگہ ہے آیت ( ۭوَلَا تَعْضُلُوْھُنَّ لِتَذْهَبُوْا بِبَعْضِ مَآ اٰتَيْتُمُوْھُنَّ اِلَّآ اَنْ يَّاْتِيْنَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ ) 4 ۔ النسآء:19 ) یعنی عورتوں کو تنگ نہ کرو تاکہ انہیں دئیے ہوئے میں سے کچھ لے لو ، ہاں یہ اور بات ہے کہ عورت اپنی خوشی سے کچھ دے کر طلاق طلب کرے جیسے فرمایا آیت ( فَاِنْ طِبْنَ لَكُمْ عَنْ شَيْءٍ مِّنْهُ نَفْسًا فَكُلُوْهُ هَنِيْۗــــــًٔـا مَّرِيْۗـــــــًٔـا ) 4 ۔ النسآء:4 ) یعنی اگر عورتیں اپنی راضی خوشی سے کچھ چھوڑ دیں تو بیشک وہ تمہارے لئے حلال طیب ہے اور جب میاں بیوی میں نااتفاقی بڑھ جائے عورت اس سے خوش نہ ہو اور اس کے حق کو نہ بجا لاتی ہو ایسی صورت میں وہ کچھ لے دے کر اپنے خاوند سے طلاق حاصل کر لے تو اسے دینے میں اور اسے لینے میں کوئی گناہ نہیں ۔ یہ بھی یاد رہے کہ اگر عورت بلاوجہ اپنے خاوند سے خلع طلب کرتی ہے تو وہ سخت گنہگار ہے چنانچہ ترمذی وغیرہ میں حدیث ہے کہ جو عورت اپنے خاوند سے بےسبب طلاق طلب کرے اس پر جنت کی خوشبو بھی حرام ہے ، اور روایت میں ہے کہ حالانکہ جنت کی خوشبو چالیس سال کی دوری سے آتی ہے ، اور روایت میں ہے کہ ایسی عورتیں منافق ہیں ، آئمہ سلف و خلف کی ایک بڑی جماعت کا فرمان ہے کہ خلع صرف اسی صورت میں ہے کہ نافرمانی اور سرکشی عورت کی طرف سے ہو ، اس وقت مرد فدیہ لے کر اس عورت کو الگ کر سکتا ہے جیسے قرآن پاک کی اس آیت میں ہے اس کے سوا کی صورت میں یہ سب جائز نہیں ، بلکہ حضرت امام مالک تو فرماتے ہیں کہ اگر عورت کو تکلیف پہنچا کر اس کے حق میں کمی کر کے اگر اسے مجبور کیا گیا اور اس سے کچھ مال واپس لیا گیا تو اس کا لوٹا دینا واجب ہے ، امام شافعی فرماتے ہیں کہ جب حالت اختلاف میں جائز ہے تو حالت اتفاق میں بطور اولی جائز ٹھہرے گا ، بکر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ سرے سے خلع منسوخ ہے کیونکہ قرآن میں ہے آیت ( وَّاٰتَيْتُمْ اِحْدٰىھُنَّ قِنْطَارًا فَلَا تَاْخُذُوْا مِنْهُ شَـيْـــًٔـا ) 4 ۔ النسآء:20 ) یعنی اگر تم نے اپنی بیویوں کو ایک خزانہ بھی دے رکھا ہو ، تو بھی اس میں سے کچھ بھی نہ لو ، لیکن یہ قول ضعیف ہے اور مردود ہے ، اب آیت کا شان نزول سنئے ، موطا مالک میں ہے کہ حبیبہ بن سہل انصاریہ حضرت ثابت بن قیس شماس کی بیوی تھیں ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن صبح کی نماز کیلئے اندھیرے اندھیرے نکلے تو دیکھا کہ دروازے پر حضرت حبیبہ کھڑے ہیں ، آپ نے پوچھا کون ہے؟ کہا میں حبیبہ بن سہل ہوں ۔ فرمایا کیا بات ہے؟ کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں ثابت بن قیس کے گھر میں نہیں رہ سکتی یا وہ نہیں یا میں نہیں ، آپ سن کر خاموش رہے ۔ جب ثابت آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہاری بیوی صاحبہ کچھ کہہ رہی ہیں ۔ حضرت حبیبہ نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم میرے خاوند مجھے جو دیا ہے وہ سب میرے پاس ہے اور میں اسے واپس کرنے پر آمادہ ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ثابت کو فرمایا سب لے لو ، چنانچہ انہوں نے لے لیا اور حضرت حبیبہ آزاد ہو گئیں ، ایک روایت میں ہے کہ حضرت ثابت نے انہیں مارا تھا اور اس مار سے کوئی ہڈی ٹوٹ گئی تھی ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جب انہیں یہ فرمایا اس وقت انہوں نے دریافت کیا کہ کیا میں یہ مال لے سکتا ہوں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں ، کہا میں نے اسے دو باغ دئیے ہیں ، یہ سب واپس دلوا دیجئے ۔ وہ مہر کے دونوں باغ واپس کئے گئے اور جدائی ہو گئی ۔ ایک اور روایت میں ہے کہ حبیبہ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ میں اس کے اخلاق اور دین میں عیب گیری نہیں کرتی لیکن میں اسلام میں کفر کو ناپسند کرتی ہوں چنانچہ مال لے کر حضرت ثابت نے طلاق دے دی ۔ بعض روایات میں ان کا نام جمیلہ بھی آیا ہے ۔ بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ مجے اب غیظ و غضب کے برداشت کی طاقت نہیں رہی ۔ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو دِیا ہے لے لو ، زیادہ نہ لینا ۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت حبیبہ نے فرمایا تھا وہ صورت کے اعتبار سے بھی کچھ حسین نہیں ۔ ایک روایت میں ہے کہ یہ حضرت عبداللہ بن ابی کی بہن تھیں اور سب سے پہلا خلع تھا جو اسلام میں ہوا ۔ ایک وجہ یہ بھی بیان کی تھی کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں نے ایک مرتبہ خیمے کے پردہ کو جو اٹھایا تو دیکھا کہ میرے خاوند چند آدمیوں کے ساتھ آ رہے ہیں ، ان تمام میں یہ سیاہ فام چھوٹے قد والے اور بدصورت تھے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان پر کہ اس کا باغ واپس کرو ، حبیبہ نے کہا تھا کہ آپ فرمائیں تو میں اس کے منہ پر تھوک دیا کرتی ، جمہور کا مذہب تو یہ ہے کہ خلع عورت اپنے سے دئیے ہوئے سے زیادہ لے تو بھی جائز ہے کیونکہ قرآن نے آیت ( فَلَاجُنَاحَ عَلَيْھِمَا فِـيْمَا افْتَدَتْ بِهٖ ) 2 ۔ البقرۃ:229 ) فرمایا ہے ، حضرت عمر کے پاس ایک عورت اپنے خاوند سے بگڑی ہوئی آئی ، آپ نے فرمایا اسے گندگی والے گھر میں قید کر دو پھر قید خانہ سے اسے بلوایا اور کہا کیا حال ہے؟ اس نے کہا آرام کی راتیں مجھ پر میری زندگی میں یہی گزری ہیں ۔ آپ نے اس کے خاوند سے فرمایا اس سے خلع کر لے ۔ اگرچہ گوشوارہ کے بدلے ہی ہو ، ایک روایت میں ہے اسے تین دن وہاں قید رکھا تھا ، ایک اور روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا اگر یہ اپنی چٹیا کی دھجی بھی دے تو لے لے اور اسے الگ کر دے ۔ حضرت عثمان فرماتے ہیں اس کے سوا سب کچھ لے کر بھی خلع ہو سکتا ہے ۔ ربیع بنت معوذ بن عفراء فرماتی ہیں میرے خاوند اگر موجود ہوتے تو بھی میرے ساتھ سلوک کرنے میں کمی کرتے اور کہیں چلے جاتے تو بالکل ہی محروم کر دیتے ۔ ایک مرتبہ جھگڑے کے موقع پر میں نے کہہ دیا کہ میری ملکیت میں جو کچھ ہے لے لو اور مجھے خلع دو ۔ اس نے کہا اور یہ معاملہ فیصل ہو گیا لیکن میرے چچا معاذ بن عفراء اس قصہ کو لے کر حضرت عثمان کے پاس گئے ۔ عثمان نے بھی اسے برقرار رکھا اور فرمایا کہ چوٹی کی دھجی چھوڑ کر سب کچھ لے لو ، بعض روایتوں میں ہے یہ بھی اور اس ( سیس ) چھوٹی چیز بھی غرض سب کچھ لے لو ، پس مطلب ان واقعات کا یہ ہے کہ یہ دلیل ہے اس پر کہ عورت کے پاس جو کچھ ہے دے کر وہ خلع کرا سکتی ہے اور خاوند اپنی دی ہوئی چیز سے زائد لے کر بھی خلع کر سکتا ہے ۔ ابن عمر ، ابن عباس ، مجاہد ، عکرمہ ، ابراہیم ، نخعی ، قیصہ بن ذویب ، حسن بن صالح عثمان رحم اللہ اجمعین بھی یہی فرماتے ہیں ۔ امام مالک ، لیث ، امام شافعی اور ابو ثور کا مذہب بھی یہی ہے ۔ امام ابن جریر بھی اسی کو پسند فرماتے ہیں اور اصحاب ابو حنیفہ کا قول ہے کہ اگر قصور اور ضرر رسانی عورت کی طرف سے ہو تو خاوند کو جائز ہے کہ جو اس نے دیا ہے واپس لے لے ، لیکن اس سے زیادہ لینا جائز نہیں ۔ گو زیادہ لے لے تو بھی قضاء کے وقت جائز ہوگا اور اگر خاوند کی اپنی جانب سے زیادتی ہو تو اسے کچھ بھی لینا جائز نہیں ۔ گو ، لے لے تو قضا جائز ہوگا ۔ امام احمد ابو عبید اور اسحق بن راھویہ فرماتے ہیں کہ خاوند کو اپنے دئیے ہوئے سے زیادہ لینا جائز ہی نہیں ۔ سعید بن مسیب عطاء عمرو بن شعیب زہری طاؤس حسن شعبی حماد بن ابو سلیمان اور ربیع بن انس کا بھی یہی مذہب ہے ۔ عمر اور حاکم کہتے ہیں حضرت علی کا بھی یہ فیصلہ ہے ۔ اوزاعی کا فرمان ہے کہ قاضیوں کا فیصلہ ہے کہ دئیے ہوئے سے زیادہ کو جائز نہیں جانتے ۔ اس مذہب کی دلیل وہ حدیث بھی ہے جو اوپر بیان ہو چکی ہے جس میں ہے کہ اپنا باغ لے لو اور اس سے زیادہ نہ لو ۔ مسند عبد بن حمید میں بھی ایک مرفوع حدیث ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خلع لینے والی عورت سے اپنے دئیے ہوئے سے زیادہ لینا مکروہ رکھا ، اور اس صورت میں جو کچھ فدیہ وہ دے لے گا ، کا لفظ قرآن میں ہے ۔ اس کے معنی یہ ہوں گے کہ دئیے ہوئے میں سے جو کچھ دے ، کیونکہ اس سے پہلے یہ فرمان موجود ہے کہ تم نے جو انہیں دیا ہے اس میں سے کچھ نہ لو ، ربیع کی قرأت میں بہ کے بعد منہ کا لفظ بھی ہے ۔ پھر فرمایا کہ یہ حدود اللہ ہیں ان سے تجاوز نہ کرو ورنہ گنہگار ہوں گے ( فصل ) خلع کو بعض حضرات طلاق میں شمار نہیں کرتے ۔ وہ فرماتے ہیں کہ اگر ایک شخص نے اپنی بیوی کو دو طلاقیں دے دیں ہیں پھر اس عورت نے خلع کرا لیا ہے تو اگر خاوند چاہے تو اس سے پھر بھی نکاح کر سکتا ہے اور اس پر دلیل یہی آیت وارد کرتے ہیں ۔ یہ قول حضرت ابن عباس کا ہے ، حضرت عکرمہ بھی فرماتے ہیں کہ یہ طلاق نہیں ، دیکھو آیت کے اول و آخر طلاق کا ذِکر ہے پہلے دو طلاقوں کا پھر آخر میں تیسری طلاق کا اور درمیان میں جو خلع کا ذِکر ہے ، پس معلوم ہوا کہ خلع طلاق نہیں بلکہ فسخ ہے ۔ امیرالمومنین حضرت عثمان بن عفان اور حضرت عمر طاؤس عکرمہ ، احمد بن حنبل ، اسحاق بن راہویہ ، ابو ثور ، داؤد بن علی ظاہری کا بھی یہی مذہب ہے ۔ امام شافعی کا بھی قدیم قول یہی ہے اور آیت کے ظاہری الفاظ بھی یہی ہیں ۔ بعض دیگر بزرگ فرماتے ہیں کہ خلع طلاق بائن ہے اور اگر ایک سے زیادہ کی نیت ہوگی تو وہ بھی معتبر ہے ۔ ایک روایت میں ہے کہ ام بکر اسلمیہ نے اپنے خاوند عبداللہ بن خالد سے خلع لیا اور حضرت عثمان نے اسے ایک طلاق ہونے کا فتویٰ دیا اور ساتھ ہی فرما دیا کہ اگر کچھ سامان لیا ہو تو جتنا سامان لیا ہو وہ ہے ، لیکن یہ اثر ضعیف ہے واللہ اعلم ۔ حضرت عمر ، حضرت علی ، حضرت ابن مسعود ، حضرت ابن عمر ، سعید بن مسیب ، حسن ، عطا ، شریح ، شعبی ، ابراہیم ، جابر بن زید ، مالک ، ابو حنیفہ اور ان کے ساتھی ثوری ، اوزاعی ، ابو عثمان بتی کا یہی قول ہے کہ خلع طلاق ہے ۔ امام شافعی کا بھی جدید قول یہی ہے ، ہاں حنیفہ کہتے ہیں کہ اگر دو طلاق کی نیت خلع دینے والے کی ہے تو دو ہو جائیں گی ۔ اگر کچھ کچھ لفظ نہ کہے اور مطلق خلع ہو تو ایک طلاق بائن ہوگی اگر تین کی نیت ہے تو تین ہو جائیں گی ۔ امام شافعی کا ایک اور قول بھی ہے کہ اگر طلاق کا لفظ نہیں اور کوئی دلیل و شہادت بھی نہیں تو وہ بالکل کوئی چیز نہیں ۔ مسئلہ: امام ابو حنیفہ ، شافعی احمد ، اسحق بن راہویہ رحمہم اللہ کا مسلک ہے کہ خلع کی عدت طلاق کی عدت ہے ۔ عمر علی ابن مسعود اور سعید بن مسیب ، سلمان بن یسار ، عمروہ ، سالم ، ابو سلمہ ، عمر بن عبدالعزیز ، ابن شہاب ، حسن ، شعبی ، ابراہیم نخعی ، ابو عیاض ، خلاس بن عمرو ، قتادہ ، سفیان ثوری ، اوزاعی ، لیث بن سعد اور ابو عبید رحمتہ اللہ علیھم اجمعین کا بھی یہی فرمان ہے ۔ امام ترمذی فرماتے ہیں اکثر اہل علم اسی طرف گئے ہیں وہ کہتے ہیں کہ چونکہ خلع طلاق ہے لہذا عدت اس کی عدت طلاق کے مثل ہے ، دوسرا قول یہ ہے کہ صرف ایک حیض اس کی عدت ہے ۔ حضرت عثمان کا یہی فیصلہ ہے ، ابن عمر گو تین حیض کا فتویٰ دیتے تھے لیکن ساتھ ہی فرما دیا کرتے تھے کہ حضرت عثمان ہم سے بہتر ہیں اور ہم سے بڑے عالم ہیں ، اور ابن عمر سے ایک حیض کی مدت بھی مروی ہے ۔ ابن عباس ، عکرمہ ، امان بن عثمان اور تمام وہ لوگ جن کے نام اوپر آئے ہیں جو خلع کو فسخ کہتے ہیں ضروری ہے کہ ان سب کا قول بھی یہی ہو ، ابو داؤد اور ترمذی کی حدیث میں بھی یہی ہے کہ ثابت بن قیس کی بیوی صاحبہ کو آپ نے اس صورت میں ایک حیض عدت گزارنے کا حکم دیا تھا ، ترمذی میں ہے کہ ربیع بنت معوذ کو بھی خلع کے بعد ایک ہی حیض عدت گزارنے کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان صادر ہوا تھا ۔ حضرت عثمان نے خلع والی عورت سے فرمایا تھا کہ تجھ پر عدت ہی نہیں ۔ ہاں اگر قریب کے زمانہ میں ہی خاوند سے ملی ہو تو ایک حیض آ جانے تک اس کے پاس ٹھہری رہو ۔ مریم مغالبہ کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا جو فیصلہ تھا اس کی متابعت حضرت امیرالمومنین نے کی ۔ مسئلہ: جمہور علمائے کرام اور چاروں اماموں کے نزدیک خلع والی عورت سے رجوع کرنے کا حق خاوند کو حاصل نہیں ، اس لئے کہ اس نے مال دے کر اپنے تئیں آزاد کرا لیا ہے ۔ عبداللہ بن ابی اوفی ، ماہان حنفی ، سعید اور زہری کا قول ہے کہ اگر واپس کیا پھیر دے تو حق رجعت حاصل ہے بغیر عورت کی رضامندی کے بھی رجوع کر سکتا ہے ۔ سفیان ثوری فرماتے ہیں کہ اگر خلع میں طلاق کا لفظ نہیں تو وہ صرف جدائی ہے اور رجوع کرنے کا حق نہیں اور اگر طلاق کا نام لیا ہے تو بیشک وہ رجعت کا پورا پورا حقدار ہے ، داؤد ظاہری بھی یہی فرماتے ہیں ، ہاں سب کا اتفاق ہے کہ اگر دونوں رضامند ہوں تو نیا نکاح عدت کے اندر اندر کر سکتے ہیں ۔ عبدالبر ایک فرقہ کا یہ قول بھی حکایت کرتے ہیں کہ عدت کے اندر جس طرح دوسرا کوئی اس سے نکاح نہیں کر سکتا ، اسی طرح خلع دینے والا خاوند بھی نکاح نہیں کر سکتا ، لیکن یہ قول شاذ اور مردود ہے ۔ مسئلہ: اس عورت پر عدت کے اندر اندر دوسری طلاق بھی واقع ہو سکتی ہے یا نہیں؟ اس میں علماء کے تین قول ہیں ۔ ایک یہ کہ نہیں ، کیونکہ وہ عورت اپنے نفس کی مالکہ ہے اور اس خاوند سے الگ ہو گئی ہے ، ابن عباس ابن زبیر عکرمہ جابر بن زید حسن بصری شافعی احمد اسحاق ابو ثور کا یہی قول ہے ۔ دوسرا قول امام مالک کا ہے کہ اگر خلع کے ساتھ ہی بغیر خاموش رہے طلاق دے دے تو واقع ہو جائے گی ورنہ نہیں ، یہ مثل اس کے ہے جو حضرت عثمان سے مروی ہے ۔ تیسرا قول یہ ہے کہ عدت میں طلاق واقع ہو جائے گی ۔ ابو حنیفہ ان کے اصحاب ، ثوری ، اوزاعی ، سعید بن مسیب ، شریح ، طاؤس ، ابراہیم ، زہری ، حاکم ، حکم اور حماد کا بھی یہی قول ہے ۔ ابن مسعود اور ابو الدرداء سے بھی یہ مروی تو ہے لیکن ثابت نہیں ۔ پھر فرمایا ہے کہ یہ اللہ کی حدیں ہیں ۔ صحیح حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ کی حدوں سے آگے نہ بڑھو ، فرائض کو ضائع نہ کرو ، محارم کی بےحرمتی نہ کرو ، جن چیزوں کا ذِکر شریعت میں نہیں تم بھی ان سے خاموش رہو کیونکہ اللہ کی ذات بھول چوک سے پاک ہے ۔ اس آیت سے استدلال ہے ان لوگوں کا جو کہتے ہیں کہ تینوں طلاقیں ایک مرتبہ ہی دینا حرام ہیں ۔ مالکیہ اور ان کے موافقین کا یہی مذہب ہے ، ان کے نزدیک سنت طریقہ یہی ہے کہ طلاق ایک ایک دی جائے کیونکہ آیت ( الطلاق مرتان ) کہا پھر فرمایا کہ یہ حدیں ہیں اللہ کی ، ان سے تجاوز نہ کرو ، اس کی تقویت اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جو سنن نسائی میں ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک مرتبہ یہ معلوم ہوا کہ کسی شخص نے اپنی بیوی کو تینوں طلاقیں ایک ساتھ دی ہیں ۔ آپ سخت غضبناک ہو کر کھڑے ہو گئے اور فرمانے لگے کیا میری موجودگی میں کتاب اللہ کے ساتھ کھیلا جانے لگا ۔ یہاں تک کہ ایک شخص نے کھڑے ہو کر کہا اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم اجازت دیں تو میں اس شخص کو قتل کرو ، لیکن اس روایت کی سند میں انقطاع ہے ۔
229۔ 1 یعنی وہ طلاق جس میں خاوند کو (عدت کے اندر رجوع کا حق حاصل ہے وہ دو مرتبہ ہے پہلی مرتبہ طلاق کے بعد بھی اور دوسری مرتبہ طلاق کے بعد بھی رجوع ہوسکتا ہے تیسری مرتبہ طلاق دینے کے بعد رجع کی اجازت نہیں زمانہ جاہلیت میں یہ حق طلاق و رجوع غیر محدود تھا جس سے عورتوں پر بڑا بوجھ تھا۔ نیز معلوم ہونا چاہیے کہ بہت سے علماء ایک مجلس کی تین طلاقوں کے واقع ہونے ہی کا فتویٰ دیتے ہیں۔ 229۔ 2 یعنی رجوع کر کے اچھے طریقے سے بسانا۔ 229۔ 3 یعنی تیسری مرتبہ طلاق دے کر۔ 229۔ 4 اس میں خلع کا بیان ہے یعنی عورت خاوند سے علیحدگی حاصل کرنا چاہے تو اس صورت میں خاوند عورت سے اپنا دیا ہوا مہر واپس لے سکتا ہے خاوند اگر علیحدگی قبول کرنے پر آمادہ نہ ہو تو عدالت خاوند کو طلاق دینے کا حکم دے گی اور اگر وہ اسے نہ مانے تو علت نکاح فسخ کر دے گی گویا خلع بزریعہ طلاق بھی ہوسکتا ہے اور بذریعہ فسخ بھی دونوں صورتوں میں عدت ایک حیض ہے (ابو داؤد، ترمذی، نسائی والحاکم [۔ فتح القدیر) عورت کو یہ حق دینے کے ساتھ ساتھ اس بات کی بھی سخت تاکید کی گئی ہے کہ عورت بغیر کسی معقول عذر کے خاوند سے علیحدگی یعنی طلاق کا مطالبہ نہ کرے اگر ایسا کرے گی تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسی عورتوں کے لئے یہ سخت وعید بیان فرمائی کہ وہ جنت کی خوشبو تک نہیں پائیں گیں۔ (ابن کثیر وغیرہ)
[٣٠٧] دور جاہلیت میں عرب میں ایک دستور یہ بھی تھا کہ مرد کو اپنی بیوی کو لاتعداد طلاقیں دینے کا حق حاصل تھا۔ ایک دفعہ اگر مرد بگڑ بیٹھتا، اور اپنی بیوی کو تنگ اور پریشان کرنے پر تل جاتا تو اس کی صورت یہ تھی کہ طلاق دی اور عدت کے اندر رجوع کرلیا پھر طلاق دی پھر رجوع کرلیا اور یہ سلسلہ چلتا ہی رہتا، نہ وہ عورت کو اچھی طرح اپنے پاس رکھتا اور نہ ہی اسے آزاد کرتا کہ وہ کسی دوسرے سے نکاح کرسکے۔ چناچہ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ ایک مرد اپنی عورت کو جتنی بھی طلاقیں دینا چاہتا، دیئے جاتا اور عدت کے اندر رجوع کرلیتا۔ اگرچہ وہ مرد سو بار یا اس سے زیادہ طلاقیں دیتا جائے۔ یہاں تک کہ ایک (انصاریٰ ) مرد نے اپنی بیوی سے کہا : اللہ کی قسم میں نہ تجھ کو طلاق دوں گا کہ تو مجھ سے جدا ہو سکے اور نہ ہی تجھے بساؤں گا۔ اس عورت نے پوچھا : وہ کیسے ؟ وہ کہنے لگا، میں تجھے طلاق دوں گا اور جب تیری عدت گزرنے کے قریب ہوگی تو رجوع کرلوں گا۔ یہ جواب سن کر وہ عورت حضرت عائشہ (رض) کے پاس گئی اور اپنا یہ دکھڑا سنایا۔ حضرت عائشہ (رض) خاموش رہیں تاآنکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے۔ حضرت عائشہ (رض) نے آپ کو یہ ماجرا سنایا تو آپ بھی خاموش رہے۔ حتیٰ کہ یہ آیت نازل ہوئی۔ ( اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ ۠ فَاِمْسَاكٌۢ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِيْحٌۢ بِاِحْسَانٍ ۭ وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ اَنْ تَاْخُذُوْا مِمَّآ اٰتَيْتُمُوْھُنَّ شَـيْـــًٔـا اِلَّآ اَنْ يَّخَافَآ اَلَّايُقِيْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِ ۭ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا يُقِيْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِ ۙ فَلَاجُنَاحَ عَلَيْھِمَا فِـيْمَا افْتَدَتْ بِهٖ ۭ تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ فَلَاتَعْتَدُوْھَا ۚ وَمَنْ يَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰهِ فَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ ٢٢٩۔ ) 2 ۔ البقرة :229) (ترمذی۔ ابو اب الطلاق٫ اللعان) - اس آیت سے اسی معاشرتی برائی کا سدباب کیا گیا اور مرد کے لیے صرف دو بار طلاق دینے اور اس کے رجوع کرنے کا حق رہنے دیا گیا۔ طلاق دینے کا مسنون اور سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ مرد حالت طہر میں عورت کو ایک طلاق دے اور پوری عدت گزر جانے دے۔ اس صورت کو فقہی اصطلاح میں طلاق احسن کہتے ہیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ ایک طہر میں ایک طلاق دے اور دوسرے میں دوسری اور تیسرے میں تیسری دے دے اس صورت کو حسن کہتے ہیں۔ پہلی صورت کا فائدہ یہ ہے کہ اگر عدت گزر جانے کے بعد بھی میاں بیوی آپس میں مل بیٹھنے پر رضامند ہوں تو تجدید نکاح سے یہ صورت ممکن ہے اور تیسری صورت یہ ہے کہ یکبارگی تینوں طلاقیں دے دے۔ یہ صورت طلاق بدعی کہلاتی ہے اور ایسا کرنا کبیرہ گناہ ہے۔ (ہدایہ، کتاب الطلاق) اگرچہ بعض ائمہ فقہاء کے مطابق اس صورت میں بھی تینوں طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں۔ مگر سنت کی رو سے یہ ایک ہی طلاق واقع ہوگی جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہے۔- (١) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت ابوبکر (رض) کے زمانہ میں اور حضرت عمر (رض) کی خلافت کے ابتدائی دو سالوں تک یک بارگی تین طلاق کو ایک ہی طلاق شمار کیا جاتا تھا۔ پھر عمر نے کہا : لوگوں نے ایک ایسے کام میں جلدی کرنا شروع کردیا جس میں ان کے لیے مہلت اور نرمی تھی تو اب ہم کیوں نہ ان پر تین طلاقیں ہی نافذ کردیں۔ چناچہ حضرت عمر (رض) نے ایسا قانون نافذ کردیا۔ (مسلم، کتاب الطلاق، باب طلاق الثلاث) - (٢) ابو الصہباء نے حضرت ابن عباس (رض) سے کہا : کیا آپ جانتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں اور حضرت ابوبکر صدیق (رض) کی خلافت میں اور حضرت عمر (رض) کی خلافت میں بھی تین سال تک تین طلاقوں کو ایک بنادیا جاتا تھا ؟ تو حضرت عباس نے فرمایا۔ ہاں۔ (بحوالہ، ایضاً ) - (٣) ابو الصہباء نے حضرت عباس سے کہا : ایک مسئلہ تو بتلائیے کہ رسول اور حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے زمانہ میں تین طلاقیں ایک ہی شمار نہ ہوتی تھیں ؟ حضرت ابن عباس نے جواب دیا، ہاں ایسا ہی تھا۔ پھر جب حضرت عمر (رض) کا زمانہ آیا تو اکٹھی تین طلاق دینے کا رواج عام ہوگیا تو حضرت عمر (رض) نے ان پر تین ہی نافذ کردیں۔ (حوالہ ایضاً ) - مندرجہ بالا تین احادیث اگرچہ الگ الگ ہیں۔ مگر مضمون تقریباً ایک ہی جیسا ہے اور ان احادیث سے درج ذیل امور کا پتہ چلتا ہے۔- ١۔ دور نبوی، دور صدیقی اور دور فاروقی کے ابتدائی دو تین سالوں تک لوگ یکبارگی تین طلاق دینے کی بدعات میں مبتلا تھے اور یہی عادت دور جاہلیت سے متواتر چلی آرہی تھی جو دور نبوی میں بھی کلیتہ ختم نہ ہوئی تھی۔ چناچہ دور نبوی میں ایک شخص نے یکبارگی تین طلاقیں دیں تو آپ غصہ سے کھڑے ہوگئے اور فرمایا کہ : میری زندگی میں ہی کتاب اللہ سے یوں کھیلا جا رہا ہے ؟ آپ کی یہ کیفیت دیکھ کر ایک شخص نے اجازت چاہی کہ : میں اس مجرم کو قتل نہ کر دوں ؟ تو آپ نے ازراہ شفقت اس مجرم کو قتل کرنے کی اجازت نہ دی، (نسائی، کتاب الطلاق، باب طلاق الثلاث المتفرقہ، ابو داؤد، کتاب الطلاق باب نسخ المراجعہ بعد التطلیقات الثلاث) اس واقعہ سے یہ اندازہ ہوجاتا ہے کہ ایک مجلس میں تین طلاق دینا شرعی نقطہ نگاہ سے کتنا بڑا گناہ اور مکروہ فعل ہے۔- ٢۔ لوگوں کی اس بدعادت پر انہیں زجر و توبیخ کی جاتی تھی۔ کیونکہ یہ طریقہ کتاب و سنت کے خلاف تھا تاہم ١٥ ھ تک عملاً یکبارگی تین طلاق کو ایک ہی قرار دیا جاتا رہا۔ اور لوگوں کی معصیت اور حماقت کے باوجود ان سے حق رجوع کو سلب نہیں کیا جاتا تھا۔- ٣۔ حضرت عمر (رض) کے الفاظ فَلَوْاَمْضَیْنَاہُ عَلَیْھِمْ اس بات پر واضح دلیل ہے کہ حضرت عمر (رض) کا یہ فیصلہ تعزیر و تادیب کے لیے تھا تاکہ لوگ اس بدعادت سے باز آجائیں۔ یہ فیصلہ آپ نے سرکاری اعلان کے ذریعہ نافذ کیا۔ گویا یہ ایک وقتی اور عارضی قسم کا آرڈیننس تھا۔ کتاب و سنت کی طرح اس کی حیثیت دائمی نہ تھی۔- ٤۔ اگر حضرت عمر (رض) کے سامنے کوئی شرعی بنیاد موجود ہوتی تو آپ یقینا استنباط کر کے لوگوں کو مطلع فرماتے، جیسا کہ عراق کی زمینوں کو قومی تحویل میں لیتے وقت کیا تھا اور تمام صحابہ (رض) نے آپ کے استنباط کو درست تسلیم کر کے آپ سے پورا پورا اتفاق کرلیا تھا، اگر آپ کسی آیت یا حدیث سے استنباط کر کے اور لوگوں کو اس سے مطلع کر کے یہ فیصلہ نافذ کرتے تو پھر واقعی اس فیصلہ کی حیثیت شرعی اور دائمی بن سکتی تھی۔- یہی وہ وجوہ ہیں جن کی بنا پر آج تک حضرت عمر (رض) کے اس فیصلہ پر امت کا اجماع نہ ہوسکا اور جو لوگ اجماع کا دعویٰ کرتے ہیں ان کا دعویٰ باطل ہے۔ کیونکہ تطلیق ثلاثہ کے بارے میں مندرجہ ذیل چار قسم کے گروہ پائے جاتے ہیں۔- ١۔ پہلا گروہ حضرت عمر (رض) کے اس فیصلہ کو وقتی اور تعزیری سمجھتا ہے اور سنت نبوی کو ہی ہر زمانہ کے لیے معمول جانتا ہے۔ ان کے نزدیک ایک مجلس کی تین طلاق ایک ہی شمار ہوتی ہے اس گروہ میں ظاہری، اہل حدیث اور شیعہ شامل ہیں (نیز قادیانی جنہیں غیر مسلم قرار دیا جا چکا ہے وہ بھی ایک ہی طلاق کے قائل ہیں) علاوہ ازیں ائمہ اربعہ کے مقلدین میں سے بعض وسیع الظرف علماء بھی شامل ہیں اور بعض اشد ضرورت کے تحت اس کے قائل ہیں۔- ٢۔ دوسرا گروہ مقلد حضرات کا ہے جن کی اکثریت حضرت عمر (رض) کے اس فیصلہ کو مشروع اور دائمی سمجھتی ہے۔ البتہ اس کام کو گناہ کبیرہ سمجھتی ہے۔- ٣۔ تیسرا گروہ دوسری انتہا کو چلا گیا ہے۔ ان کے نزدیک ایک مجلس میں ایک طلاق واقع ہونا تو جائز ہے۔ لیکن اگر دو یا تین یا زیادہ طلاقیں دی جائیں تو ایک بھی واقع نہیں ہوتی وہ کہتے ہیں کہ ایک وقت میں ایک سے زیادہ طلاق دینا کار معصیت اور خلاف سنت یعنی بدعت ہے۔ جس کے متعلق ارشاد نبوی ہے - مَنْ اَحْدَثَ فِیْ اَمْرِنَا ھَذٰا مَالَیْسَ مِنْہُ فَھُوْرَدٌ (متفق علیہ) جس نے ہمارے اس دین میں کوئی نئی بات پیدا کی جو اس میں نہ تھی تو وہ بات مردود ہے۔ لہذا ایسی بدعی طلاقیں سب مردود ہیں، لغو ہیں، باطل ہیں۔ لہذا ایک طلاق بھی واقع نہ ہوگی۔ اس گروہ میں شیعہ حضرات میں سے کچھ لوگ شامل ہیں۔ نیز محمد بن ارطاۃ اور محمد بن مقاتل (حنفی) بھی اس کے قائل ہیں (شرح مسلم للنووی، ج ١۔ ص ٤٧٠) - ٤۔ اور ایک قلیل تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہے جو ایک مجلس کی تین طلاق کو غیر مدخولہ کے لیے ایک ہی شمار کرتے ہیں اور مدخولہ کے لیے تین۔ (زادالمعادج ٤ ص ٦٧) - غور فرمائیے کہ جس مسئلہ میں اتنا اختلاف ہو کہ اس میں چار گروہ پائے جاتے ہوں اسے اجماعی کہا جاسکتا ہے۔- ایک مجلس میں ایک سے زیادہ طلاقیں دینے کی بدعادت دور جاہلیہ کی یادگار ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد پھر عود کر آئی اور حضرت عمر (رض) نے اس عادت کو چھڑانے کے لیے تین طرح کے اقدامات کئے تھے۔- ١۔ وہ ایک مجلس میں تین طلاق دینے والوں کو بدنی سزا بھی دیتے تھے۔- ٢۔ ایک مجلس کی تین طلاقوں کو تین شمار کرنا بھی حقیقتاً ایک سزا تھی۔ جسے حضرت عمر (رض) نے نافذ کردیا۔- ٣۔ اور جب لوگوں نے اپنی عادت پر کنٹرول کرنے کی بجائے حلالہ کی باتیں شروع کردیں تو آپ نے حلالہ نکالنے اور نکلوانے والے دونوں کے لیے رجم کی سزا مقرر کردی۔ اس طرح یہ فتنہ کچھ مدت کے لیے دب گیا۔ گویا دور فاروقی میں اس معصیت کی اصلاح اس صورت میں ہوئی کہ حلالہ کا دروازہ سختی سے بند کردیا گیا تھا۔- مگر آج المیہ یہ ہے کہ مقلد حضرات ہوں یا غیر مقلد کوئی بھی اکٹھی تین طلاق دینے کو جرم سمجھتا ہی نہیں۔ جہالت اس قدر بڑھ چکی ہے کہ عوام تو درکنار، خواص بھی یہ سمجھتے ہیں کہ جدائی کے لیے تین طلاق دینا ضروری ہیں۔ حالانکہ طلاق کی بہترین اور مسنون صورت یہی ہے کہ صرف ایک ہی طلاق دے کر عدت گزر جانے دی جائے۔ تاکہ عدت گزر جانے کے بعد بھی اگر زوجین مل بیٹھنا چاہیں تو تجدید نکاح سے مسئلہ حل ہوجائے۔ تاہم اگر آپس میں نفرت اور بگاڑ اتنا شدید پیدا ہوچکا ہو کہ مرد تازیست اپنی بیوی کو رشتہ زوجیت میں نہ رکھنے کا فیصلہ کرچکا ہو اور اپنی حسرت اور غصہ مٹانے کے لیے تین کا عدد پورا کر کے طلاق مغلظہ ہی دینا چاہتا ہو تو پھر اسے یوں کرنا چاہیے کہ ہر طہر میں ایک ایک طلاق دیتا جائے، تیسری طلاق کے بعد ان کے آئندہ ملاپ کی (حَتّٰي تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهٗ ٢٣٠۔ ) 2 ۔ البقرة :230) کے علاوہ کوئی صورت باقی نہ رہے گی۔- آج کے دور میں ایک مجلس کی تین طلاق کو کار معصیت یا گناہ کبیرہ نہ سمجھنے کے لحاظ سے مقلد اور غیر مقلد دونوں حضرات ایک جیسے ہیں۔ کوئی بھی یہ نہیں سوچتا کہ ایسے مجرم کو کیا سزا دی جانی چاہیے۔ تاکہ حضرت عمر (رض) کی یہ سنت بھی زندہ ہو۔ البتہ یہ فرق ضرور ہے کہ اس جرم کے بعد اہل حدیث تو ایسے مجرم کو سنت نبوی کی راہ دکھلاتے ہیں۔ جبکہ بعض حنفی حضرات حلالہ جیسے کار حرام کی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔- نیز آج کل جو یہ دستور چل نکلا ہے کہ پہلے بیوی کو میکے بھیج دیتے ہیں بعد میں کسی وقت بذریعہ چٹھی تین طلاق تحریری لکھ کر ڈاک میں بھیج دیتے ہیں یہ نہایت ہی غلط طریقہ ہے اور اس کی وجوہ درج ذیل ہیں۔- ١۔ ایک وقت کی تین طلاق کار معصیت گناہ کبیرہ ہے۔ بدعت ہے۔ جیسا کہ مندرجہ بالا تصریحات سے واضح ہے۔- ٢۔ دوران عدت مطلقہ کا نان نفقہ اور رہائش خاوند کے ذمہ ہوتی ہے اور مطلقہ اس کی بیوی ہی ہوتی ہے جس سے وہ رجوع کا حق رکھتا ہے جسے وہ ضائع کردیتا ہے۔ اس دوران وہ نان نفقہ کے اس بار سے بھی سبکدوش رہنا چاہتا ہے جو شرعاً - اس پر لازم ہے۔- ٣۔ عدت کے دوران عورت کو اپنے پاس رکھنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ شاید حالات میں ساز گاری پیدا ہوجائے۔ منشائے الٰہی یہ ہے کہ رشتہ ازدواج میں پائیداری بدستور قائم رہے۔ اگرچہ ناگزیر حالات میں طلاق کو جائز قرار دیا گیا ہے۔ تاہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اَبْغَضُ الْحَلاَلِ اِلَی اللّٰہِ الطَّلاَقُ (ابو داؤد، کتاب الطلاق) یعنی تمام حلال اور جائز چیزوں میں سے اللہ کے ہاں سب سے زیادہ ناپسندیدہ چیز طلاق ہے۔ لہذا اللہ کی خوشنودی اسی بات میں ہے کہ طلاق دینے کے بعد عدت کے دوران مرد رجوع کرلے، اور وہ زبردستی بھی کرنے کا حق رکھتا ہے۔ یعنی اگر عورت رضامند نہ ہو تو بھی وہ ایسا کرنے کا حق رکھتا ہے جس سے علیحدگی کی راہ بند ہو اور مصالحت کی راہ کھل جائے۔- ٤۔ عدت گزر جانے کے بعد عورت کی رخصتی کے وقت دو عادل گواہوں کی موجودگی بھی ضروری ہے (٦٥ ٢) اور بذریعہ خط طلاقیں بھیج دینے سے اس حکم پر بھی عمل نہیں ہوسکتا۔ گواہوں کی اہمیت مصلحت کے لیے دیکھئے سورة طلاق کے حواشی۔- اب یہ سوال ہے کہ آج کے دور میں بیک وقت تین طلاق دینے والے مجرم کی سزا کیا ہونی چاہیے، اگرچہ یہ مسئلہ علمائے کرام اور مفتیان عظام کی توجہ کا مستحق ہے۔ تاہم میرے خیال میں اس کی سزا ظہار کا کفارہ ہونا چاہیے۔ کیونکہ یہ دونوں کام (مُنْكَرًا مِّنَ الْقَوْلِ وَزُوْرًا ) 58 ۔ المجادلة :2) (ناپسندیدہ اور انہونی بات) کے ضمن میں آتے ہیں اور کئی وجوہ سے ان میں مماثلت ہے۔ ظہار کا کفارہ ایک غلام کو آزاد کرنا یا دو ماہ کے مسلسل روزے رکھنا یا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے۔ آج غلامی کا دور تو ختم ہوچکا۔ البتہ باقی دو سزاؤں میں سے کوئی ایک مفتی حضرات ایسے مجرموں کے لیے تجویز کرسکتے ہیں جب تک ان کے لیے کوئی سزا تجویز نہ کی جائے ان کو اپنے جرم کا کبھی احساس تک نہ ہو سکے گا۔ اس طرح ہی اس رسم بد اور بدعت کی حوصلہ شکنی ہوسکتی ہے اور علمائے کرام کو ایسی سزا تجویز کرنا اس لحاظ سے بھی ضروری ہے کہ خاموشی اور بےحسی کے ذریعہ کسی معصیت کے کام کو قائم رکھنا یا رہنے دینا بھی کار معصیت ہے۔ لہذا ایسے مجرم کو سزا بھی دینا چاہیے اور طلاق بھی ایک ہی شمار کرنا چاہیے، تاکہ سنت نبوی پر بھی عمل ہوجائے اور سنت فاروقی پر بھی۔- [٣٠٨] یعنی اسے اپنی حیثیت کے مطابق کچھ دے دلا کر رخصت کیا جائے، خالی ہاتھ یا دھکے دے کر گھر سے ہرگز نہ نکالا جائے۔- [٣٠٩] یعنی حق مہر بھی اور اس کے علاوہ دوسری اشیاء (مثلاً زیور کپڑے وغیرہ) جو خاوند اپنی بیوی کو بطور ہدیہ دے چکا ہو۔ کسی کو ہدیہ دے کر واپس لینا عام حالات میں بھی جائز نہیں اور ایسے ہدیہ واپس لینے والے کے اس فعل کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کتے سے تشبیہ دی ہے جو قے کر کے پھر اسے چاٹ لے۔ (بخاری، کتاب الھبۃ، باب ھبہ الرجل لامراتہ) طلاق دینے والے شوہر کے لیے یہ اور بھی شرمناک بات ہے کہ کسی زمانہ میں اس نے جو اپنی بیوی کو ہدیہ دیا تھا۔ رخصت کرتے وقت بجائے مزید کچھ دینے کے اس سے پہلے تحائف کی بھی واپسی کا مطالبہ کرے۔- [٣١٠] اگر میاں بیوی میں ناچاقی کی صورت پیدا ہوجائے یا ہونے کا خدشہ ہو اور وہ سمجھیں کہ شاید حسن معاشرت کے متعلق ہم اللہ کے احکام بجا نہ لاسکیں گے اور مرد کی طرف سے ادائے حقوق زوجہ میں قصور بھی نہ ہو۔ تو عورت اپنے کسی حق سے دستبردار ہو کر یا اپنی طرف سے کچھ مال دے کر خواہ وہ خاوند ہی کا دیا ہو۔ اسے طلاق نہ دینے پر رضامند کرلے تو یہ صورت بھی جائز ہے اور اس کی مثال یہ ہے کہ ام لمومنین حضرت سودہ (رض) بنت زمعہ جب بوڑھی ہوگئیں تو انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے نیز اس خیال سے بھی کہ کہیں آپ انہیں طلاق نہ دے دیں۔ اپنی باری حضرت عائشہ (رض) کو ہبہ کردی تھی (بخاری کتاب الہبۃ باب ہبۃ المراۃ لغیر زوجھا الخ) - [٣١١] اگر حالات زیادہ کشیدہ ہوں اور عورت بہرحال اپنے خاوند سے اپنا آپ چھڑانا چاہتی ہو تو جو زر فدیہ وہ آپس میں طے کرلیں وہی درست ہوگا اور وہ رقم لینے کے بعد مرد اسے طلاق دے گا۔ عورت پر طلاق بائنہ واقع ہوجائے گی اسے شرعی اصطلاح میں خلع کہتے ہیں۔ چناچہ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں ثابت بن قیس (بن شماس انصاری) کی بیوی (جمیلہ) جو عبداللہ بن ابی منافق کی بہن تھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئی اور کہنے لگی یا رسول اللہ میں ثابت بن قیس پر دینداری اور اخلاق میں کوئی عیب نہیں لگاتی، مگر میں یہ نہیں چاہتی کہ مسلمان ہو کر خاوند کی ناشکری کے گناہ میں مبتلا ہوں۔ آپ نے فرمایا۔ اچھا جو باغ ثابت نے تمہیں (حق مہر میں) دیا تھا وہ واپس کرتی ہو ؟ وہ کہنے لگی جی ہاں کرتی ہوں۔ آپ نے ثابت بن قیس سے فرمایا : اپنا باغ واپس لے لو اور اسے طلاق دے دو (بخاری، کتاب الطلاق، باب الخلع و کیف الطلاق فیہ) - یہ ضروری نہیں کہ زر فدیہ اتنا ہی ہو جتنا حق مہر تھا۔ اس سے کم بھی ہوسکتا ہے اور زیادہ بھی۔ مگر زیادہ لینے کو فقہا نے مکروہ سمجھا ہے اور اگر معاملہ آپس میں طے نہ ہو سکے تو عورت عدالت کی طرف رجوع کرسکتی ہے۔ اس صورت میں تمام حالات کا جائزہ لے کر عدالت جو فدیہ طے کرے گی وہی نافذ العمل ہوگا اور عورت اس وقت تک اس مرد سے آزاد نہ ہوگی جب تک وہ زر فدیہ ادا نہ کر دے اور وہ مرد یا اس کی جگہ عدالت اسے طلاق نہ دے دے۔- یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جمیلہ بنت ابی نے خلع کے لیے کوئی معقول وجہ پیش نہیں کی۔ ثابت بن قیس پوری طرح اس کے حقوق بھی پورے کر رہے تھے اور ان کے اخلاق بھی قابل اعتراض نہیں تھے۔ جمیلہ بنت ابی کو طبعی نفرت صرف اس وجہ سے تھی کہ ثابت بن قیس رنگ کے کالے تھے اور وہ خود عبداللہ بن ابی (رئیس المنافقین) کی بہن ہونے کی بنا پر چودھریوں کا سا ذہن رکھتی تھی۔ تاہم سچی مومنہ تھی۔ چناچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صرف اس طبعی نفرت کو ہی معقول وجہ قرار دے کر خلع کا حکم دے دیا .
ام المومنین عائشہ (رض) اور دیگر صحابہ کی روایات کے مطابق ابتدائے ہجرت میں جاہلی دستور کے مطابق مرد عورت کو کئی کئی بار طلاق دیتے اور رجوع کرتے رہتے تھے، مقصد بیوی کو تنگ کرنا ہوتا تھا۔ اس صورت حال کو روکنے کے لیے یہ آیت نازل ہوئی۔ - (اَلطَّلَاقُ ) “ میں الف لام عہد کا ہے، اس لیے ترجمہ ” یہ طلاق “ کیا ہے، یعنی وہ طلاق جو اوپر کی آیت میں ذکر ہوئی ہے، جس کے بعد عدت میں خاوند رجوع کرسکتا ہے، وہ دو مرتبہ ہے۔- فَاِمْسَاكٌۢ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِيْحٌۢ بِاِحْسَانٍ ) یعنی پہلی یا دوسری طلاق دینے کے بعد خاوند دوبارہ بسانے کا ارادہ رکھتا ہے تو عدت کے اندر رجوع کرے، یہ ” اچھے طریقے سے رکھ لینا “ ہے۔ اگر یہ ارادہ نہیں تو رجوع نہ کرے، بلکہ عدت گزرنے دے، بیوی خود بخود جدا ہوجائے گی، یہ ” نیکی کے ساتھ چھوڑ دینا “ ہے۔ فائدہ اس کا یہ ہوگا کہ عدت گزرنے کے بعد اگرچہ عورت آزاد ہے کہ جس مرد سے چاہے شادی کرلے، مگر اسے پہلے خاوند کے ساتھ شادی کا بھی اختیار ہے۔ البتہ تیسری طلاق کے بعد خاوند نہ عدت کے دوران رجوع کرسکتا ہے نہ عدت کے بعد نکاح، جیسا کہ اگلی آیت میں آ رہا ہے۔ - وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ اَنْ تَاْخُذُوْا۔۔ : خاوند کے لیے بیوی کو تنگ کر کے اس سے حق مہر واپس لینا جائز نہیں۔ (دیکھیے نساء : ٢٠) مگر خلع کی صورت میں خاوند معاوضہ لے کر طلاق پر راضی ہوجائے تو یہ واپسی جائز ہے۔ - فِـيْمَا افْتَدَتْ بِهٖ اس میں خلع کا بیان ہے، یعنی عورت خاوند سے علیحدگی حاصل کرنا چاہے اور خاوند طلاق دینے پر تیار نہ ہو تو عورت جان چھڑانے کے لیے اپنا مہر یا خاوند اور بیوی کے درمیان جو بھی آپس میں یا حاکم کی عدالت میں طے پا جائے، وہ چیز بطور فدیہ دے کر اپنی جان چھڑا لے۔ پھر خواہ خاوند خود ہی فدیہ لے کر اسے چھوڑ دے، یا اگر وہ اس پر تیار نہ ہو تو حاکم اسے فدیہ لے کر چھوڑنے کا حکم دے، اگر وہ نہ مانے تو عدالت نکاح فسخ کر دے۔ چونکہ یہ درحقیقت طلاق نہیں بلکہ عورت کی طرف سے علیحدگی کا مطالبہ ہے، اس لیے اسے خلع کہتے ہیں، اس کی عدت ایک حیض ہے۔ [ ترمذی : ١١٨٥، عن الربیع بنت معوذ (رض) ] تاکہ معلوم ہوجائے کہ عورت کو حمل تو نہیں اور عدت کے دوران میں خاوند رجوع بھی نہیں کرسکتا۔
خلاصہ تفسیر :- حکم نمبر ٢٥، طلاق رجعی کی تعداد :- طلاق دو مرتبہ کی پھر (دو مرتبہ طلاق دینے کے بعد دو اختیار ہیں) خواہ (یہ کہ رجعت کرکے عورت کو) قاعدہ کے مطابق رکھ لے خواہ (یہ کہ رجعت نہ کرے عدت پوری ہونے دے اور اس طرح) اچھے طریقے سے اس کو چھوڑ دے۔- حکم نمبر ٢٦، خلع :- اور تمہارے لئے یہ بات حلال نہیں کہ (بیبیوں کو چھوڑنے کے وقت ان سے) کچھ بھی لو (اگرچہ وہ لیا ہو) اسی (مال) میں سے (کیوں نہ ہو) جو تم نے (ہی مہر میں) ان کو دیا تھا مگر (ایک صورت البتہ حلال ہے وہ) یہ کہ (کوئی) میاں بیوی (ایسے ہوں کہ) دونوں کو خطرہ ہو کہ (دوبارہ حقوق زوجیت) وہ اللہ تعالیٰ کے قائم کردہ ضابطوں کو قائم نہ رکھ سکیں گے سو اگر تم کو (یعنی میاں بیوی کو) یہ خطرہ ہو کہ وہ دونوں ضوابط خداوندی کو قائم نہ رکھ سکیں گے تو دونوں پر کوئی گناہ نہ ہوگا اس ( مال کے لینے دینے) میں جس کو دے کر عورت اپنی جان چھڑائے (بشرطیکہ مہر سے زیادہ نہ ہو) یہ سب احکام خدائی ضابطے ہیں تم ان سے باہر نہ نکلنا اور جو شخص خدائی ضابطوں (کو توڑ کر) باہر نکل جائے تو ایسے لوگ اپنا ہی نقصان کرنے والے ہیں۔- حکم نمبر ٢٧، تین طلاقوں کے بعد حلالہ :- پھر اگر (دو طلاقوں کے بعد) کوئی (تیسری) طلاق (بھی) دیدے تو پھر وہ عورت اس (تیسری طلاق دینے) کے بعد اس شخص کے لئے حلال نہ ہوگی جب تک وہ اس خاوند کے سوا دوسرے شخص کے ساتھ (عدت کے بعد) نکاح نہ کرے (اور حقوق زوجیت صحبت کے ادا نہ کرے) پھر اگر یہ دوسرا خاوند اس کو طلاق دیدے (اور اس کی عدت بھی گذر جائے) تو ان دونوں پر اس میں کوئی گناہ نہیں کہ دوبارہ آپس میں نکاح کرکے) بدستور پھر مل جاویں بشرطیکہ دونوں کو اپنے اوپر یہ اعتماد ہو کہ آئندہ خداوندی ضابطوں کو قائم رکھیں گے اور یہ خداوندی ضابطے ہیں حق تعالیٰ ان کو بیان فرماتے ہیں ایسے لوگوں کے لئے جو دانشمند ہیں۔- معارف و مسائل :- طلاق ونکاح کے احکام پورے قرآن کریم میں بہت سی آیتوں میں آئے ہیں مگر یہ چند آیتیں جو یہاں مذکور ہیں طلاق کے معاملہ میں اہم ضابطوں کی حیثیت رکھتی ہیں ان کو سمجھنے کیلئے پہلے نکاح کی شرعی حیثیت کو جاننا ضروری ہے۔- نکاح و طلاق کی شرعی حیثیت اور حکیمانہ نظام :- نکاح کی ایک حیثیت تو ایک باہمی معاملے اور معاہدے کی ہے جیسے بیع وشراء اور لین دین کے معاملات ہوتے ہیں دوسری حیثیت ایک سنت اور عبادت کی ہے اس پر تو تمام امت کا اتفاق ہے کہ نکاح عام معاملات معاہدات سے بالاتر ایک حیثیت شرعی عبادت وسنت کی رکھتا ہے اسی لئے نکاح کے منعقد ہونے کے لئے باجماع امت کچھ ایسی شرائط ضروری ہیں جو عام معاملات بیع وشراء میں نہیں ہوتیں۔- اول تو یہ کہ ہر عورت سے اور ہر مرد سے نکاح نہیں ہوسکتا اس میں شریعت کا ایک مستقل قانون ہے جس کے تحت بہت سی عورتوں اور مردوں کا آپس میں نکاح نہیں ہوسکتا۔- دوسرے تمام معاملات ومعاہدات کے منعقد اور مکمل ہونے کے لئے کوئی گواہی شرط نہیں، گواہی کی ضرورت اس وقت پڑتی ہے جب فریقین میں اختلاف ہوجائے لیکن نکاح ایسا معاملہ نہیں یہاں اس کے منعقد ہونے کیلئے بھی گواہوں کا سامنے ہونا شرط ہے اگر دو مرد و عورت بغیر گواہوں کے آپس میں نکاح کرلیں اور دونوں میں کوئی فریق کبھی اختلاف و انکار بھی نہ کرے اس وقت بھی شرعاً وہ نکاح باطل کالعدم ہے جب تک گواہوں کے سامنے دونوں کا ایجاب و قبول نہ ہو اور سنت یہ ہے کہ نکاح اعلان عام کے ساتھ کیا جائے اسی طرح کی اور بہت سی شرائط اور آداب ہیں جو معاملہ نکاح کے لئے ضروری یا مسنون ہیں۔- امام اعظم ابوحنیفہ اور بہت سے دوسرے حضرات ائمہ کے نزدیک تو نکاح میں معاملہ اور معاہدہ کی حیثیت سے زیادہ عبادت وسنت کی حیثیت غالب ہے اور قرآن وسنت کے شواہد اس پر قائم ہیں۔- نکاح کی اجمالی حقیقت معلوم کرنے کے بعد طلاق کو سمجھئے، طلاق کا حاصل نکاح کے معاملے اور معاہدے کو ختم کرنا ہے جس طرح شریعت اسلام نے نکاح کے معاملے اور معاہدے کو ایک عبادت کی حیثیت دے کر عام معاملات ومعاہدات کی سطح سے بلند رکھا ہے اور بہت سی پابندیاں اس پر لگائی ہیں اسی طرح اس معاملہ کا ختم کرنا بھی عام لین دین کے معاملات کی طرح آزاد نہیں رکھا کہ جب چاہے جس طرح چاہے اس معاملہ کو فسخ کردے اور دوسرے سے معاملہ کرلے بلکہ اس کے لئے ایک خاص حکیمانہ قانون بنایا ہے جس کا بیان آیات مذکورہ میں کیا گیا ہے، اسلامی تعلیمات کا اصل رخ یہ ہے کہ نکاح کا معاملہ اور معاہدہ عمر بھر کے لئے ہو اس کے توڑنے اور ختم کرنے کی کبھی نوبت ہی نہ آئے کیونکہ اس معاملہ کے انقطاع کا اثر صرف فریقین پر نہیں پڑتا نسل واولاد کی تباہی و بربادی اور بعض اوقات خاندانوں اور قبیلوں میں فساد تک کی نوبت پہونچتی ہے اور پورا معاشرہ بری طرح اس سے متاثر ہوتا ہے اسی لئے جو اسباب اور وجوہ اس معاملہ کو توڑنے کا سبب بن سکتے ہیں قرآن وسنت کی تعلیمات میں ان تمام اسباب کو راہ سے ہٹانے کا پورا انتظام کیا ہے، زوجین کے ہر معاملے اور ہر حال کے لئے جو ہدایتیں قرآن وسنت میں مذکور ہیں ان سب کا حاصل یہی ہے کہ یہ رشتہ ہمیشہ زیادہ سے زیادہ مستحکم ہوتا چلا جائے ٹوٹنے نہ پائے ناموافقت کی صورت میں اول افہام و تفہیم کی پھر زجر و تنبیہ کی ہدایتیں دی گئیں اور اگر بات بڑھ جائے اور اس سے بھی کام نہ چلے تو خاندان ہی کے چند افراد کو حکم اور ثالث بنا کر معاملہ طے کرنے کی تعلیم دی آیت حَكَمًا مِّنْ اَھْلِهٖ وَحَكَمًا مِّنْ اَھْلِھَا (٣٥: ٤) میں خاندان ہی کے افراد کو ثالث بنانے کا ارشاد کس قدر حکیمانہ ہے کہ اگر معاملہ خاندان سے باہر گیا تو بات بڑھ جانے اور دلوں میں زیادہ بعد پیدا ہوجانے کا خطرہ ہے۔- لیکن بعض اوقات ایسی صورتیں بھی پیش آتی ہیں کہ اصلاح حال کی تمام کوشش ناکام ہوجاتی ہیں اور تعلق نکاح کے مطلوبہ ثمرات حاصل ہونے کے بجائے طرفین کا آپس میں مل رہنا ایک عذاب بن جاتا ہے ایسی حالت میں اس ازدواجی تعلق کا ختم کردینا ہی طرفین کے لئے راحت اور سلامتی کی راہ ہوجاتی ہے اس لئے شریعت اسلام نے بعض دوسرے مذاہب کی طرح یہ بھی نہیں کیا کہ رشتہ ازدواج ہر حال میں ناقابل فسخ ہی رہے بلکہ طلاق اور فسخ نکاح کا قانون بنایا طلاق کا اختیار تو صرف مرد کو دیا جس میں عادۃ فکر و تدبر اور تحمل کا مادہ عورت سے زائد ہوتا ہے عورت کے ہاتھ میں یہ آزاد اختیار نہیں دیا تاکہ وقتی تاثرات سے مغلوب ہوجانا جو عورت میں بہ نسبت مرد کے زیادہ ہے وہ طلاق کا سبب نہ بن جائے۔- لیکن عورت کو بھی بالکل اس حق سے محروم نہیں رکھا وہ شوہر کے ظلم وستم سہنے ہی پر مجبور ہوجائے اس کو یہ حق دیا کہ حاکم شرعی کی عدالت میں اپنا معاملہ پیش کرکے اور شکایات کا ثبوت دے کر نکاح فسخ کرا سکے یا طلاق حاصل کرسکے پھر مرد کو طلاق کا آزادانہ اختیار تو دے دیا مگر اول تو یہ کہہ دیا کہ اس اختیار کا استعمال کرنا اللہ کے نزدیک بہت مبغوض و مکروہ ہے صرف مجبوری کی حالت میں اجازت ہے حدیث میں ارشاد نبوی ہے۔- ابغض الحلال الی اللہ الطلاق : یعنی حلال چیزوں میں سب سے زیادہ مبغوض اور مکروہ اللہ کے نزدیک طلاق ہے۔- دوسری پابندی یہ لگائی کہ حالت غیظ وغضب میں یا کسی وقتی اور ہنگامی ناگواری میں اس اختیار کو استعمال نہ کریں اسی حکمت کے ماتحت حالت حیض میں طلاق دینے کو ممنوع قرار دیا اور حالت طہر میں بھی جس طہر میں صحبت وہمبستری ہوچکی ہے اس میں طلاق دینے کو اس بناء پر ممنوع قرار دیا کہ اس کی وجہ سے عورت کی عدت طویل ہوجائے گی اس کو تکلیف ہوگی ان دونوں چیزوں کے لئے قرآن کریم کا ارشاد یہ آیا : فَطَلِّقُوْهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ (١: ٦٥) یعنی طلاق دینا ہو تو ایسے وقت میں دو جس میں بلاوجہ عورت کی عدت طویل نہ ہو حیض کی حالت میں طلاق ہوئی تو موجودہ حیض عدت میں شمار نہ ہوگا اس کے بعد طہر اور پھر طہر کے بعد حیض سے عدت شمار ہوگی اور جس طہر میں ہمبستری ہوچکی ہے اس میں یہ امکان ہے کہ حمل رہ گیا ہو تو عدت وضع حمل تک طویل ہوجائیگی طلاق دینے کے لئے مذکورہ وقت طہر کا مقرر کرنے میں یہ بھی حکمت ہے کہ اس انتظار کے وقفہ میں بہت ممکن ہے کہ غصہ فرو ہو معافی تلافی ہو کر طلاق کا ارادہ ہی ختم ہوجائے۔- تیسری پابندی یہ لگائی کہ معاہدہ نکاح توڑنے اور فسخ کرنے کا طریقہ بھی وہ نہیں رکھا جو عام بیع وشراء کے معاملات ومعاہدات کا ہے کہ ایک مرتبہ معاہدہ فسخ کردیا تو اسی وقت اسی منٹ میں فریقین آزاد ہوگئے اور پہلا معاملہ بالکل ختم ہوگیا ہر ایک کو اختیار ہوگیا کہ دوسرے سے معاہدہ کرلے بلکہ معاملہ نکاح کو قطع کرنے کے لئے اول تو اس کے تین درجے تین طلاقوں کی صورت میں رکھے گئے پھر اس پر عدت کی پابندی لگادی کہ عدت پوری ہونے تک معاملہ نکاح کے بہت سے اثرات باقی رہیں گے عورت کو دوسرا نکاح حلال نہ ہوگا مرد کے لئے بھی بعض پابندیاں باقی رہیں گی۔- چوتھی پابندی یہ لگائی کہ اگر صاف وصریح لفظوں میں ایک یا دو طلاق دی گئی ہے تو طلاق دیتے ہی نکاح نہیں ٹوٹا بلکہ رشتہ ازدواج عدت پوری ہونے تک قائم ہے دوران عدت میں اگر یہ اپنی طلاق سے رجوع کرلے تو نکاح سابق بحال ہوجائے گا۔- لیکن یہ رجوع کرنے کا اختیار صرف ایک یا دو طلاق تک محدود کردیا گیا تاکہ کوئی ظالم شوہر ایسا نہ کرسکے کہ ہمیشہ طلاق دیتا رہے پھر رجوع کرکے اپنی قید میں رکھتا رہے اس لئے حکم یہ دے دیا کہ اگر کسی نے تیسری طلاق بھی دے دیتو اب اس کو رجوع کرنے کا بھی اختیار نہیں بلکہ اگر دونوں راضی ہو کر آپس میں دوبارہ بھی نکاح کرنا چاہیں تو بغیر ایک مخصوص صورت کے جس کا ذکر آگے آتا ہے دوبارہ نکاح بھی آپس میں حلال نہیں۔- آیات مذکورہ میں اسی نظام طلاق کے اہم احکام کا ذکر ہے اب ان آیات کے الفاظ پر غور کیجئے پہلی آیت میں اول تو ارشاد فرمایا : اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ یعنی طلاق دو ہی مرتبہ ہے پھر ان دونوں مرتبہ کی طلاقوں میں یہ لچک رکھ دی کہ ان سے نکاح بالکل ختم نہیں ہوا بلکہ عدت پوری ہونے تک مرد کو اختیار ہے کہ رجوع کرکے بیوی کو اپنے نکاح میں روک لے یا پھر رجوع نہ کرے عدت پوری ہونے دے، عدت پوری ہونے پر نکاح کا تعلق ختم ہوجائے گا اسی مضمون کو ان الفاظ میں ارشاد فرمایا : فَاِمْسَاكٌۢ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِيْحٌۢ بِاِحْسَانٍ یعنی یا تو شرعی قاعدے کے مطابق رجعت کرکے بیوی کو اپنے نکاح میں روک لے یا پھر خوب صورتی اور خوش معاملگی کے ساتھ اس کی عدت پوری ہونے دے تاکہ وہ آزاد ہوجائے۔- ابھی تیسری طلاق کا ذکر نہیں آیا درمیان میں ایک اور مسئلہ بیان فرما دیا جو ایسے حالات میں عموماً زیر بحث آجاتا ہے وہ یہ کہ بعض شوہر بیوی کو نہ رکھنا چاہتے ہیں نہ اس کے حقوق کی فکر کرتے ہیں نہ طلاق دیتے ہیں بیوی تنگ ہوتی ہے اس کی مجبوری سے یہ ناجائز فائدہ اٹھا کر طلاق دینے کے لئے اس سے کچھ مال کا یا کم ازکم مہر کی معافی یا واپسی کا مطالبہ کرتے ہیں قرآن کریم نے اس کو حرام قرار دیا ارشاد فرمایا : وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ اَنْ تَاْخُذُوْا مِمَّآ اٰتَيْتُمُوْھُنَّ شَـيْـــًٔـا یعنی تمہارے لئے حلال نہیں کہ طلاق کے معاوضہ میں ان سے اپنا دیا ہوا مال اور مہر وغیرہ واپس لے لو۔ - البتہ ایک صورت اس سے مستثنیٰ فرمادی کہ اس میں مہر کی واپسی یا معافی جائز کردی وہ یہ کہ عورت بھی یہ محسوس کرے کہ طبیعتوں میں بعد و مخالفت کی وجہ سے میں شوہر کے حقوق ادا نہیں کرسکتی اور مرد بھی یہی سمجھے تو ایسی صورت میں یہ بھی جائز ہے کہ مہر کی واپسی یا معافی کے بدلے میں طلاق دی جائے اور لی جائے۔
اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ ٠ ۠ فَاِمْسَاكٌۢ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِيْحٌۢ بِـاِحْسَانٍ ٠ ۭ وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ اَنْ تَاْخُذُوْا مِمَّآ اٰتَيْتُمُوْھُنَّ شَـيْـــًٔـا اِلَّآ اَنْ يَّخَافَآ اَلَّا يُقِيْمَا حُدُوْدَ اللہِ ٠ ۭ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا يُقِيْمَا حُدُوْدَ اللہِ ٠ ۙ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْھِمَا فِـيْمَا افْتَدَتْ بِہٖ ٠ ۭ تِلْكَ حُدُوْدُ اللہِ فَلَا تَعْتَدُوْھَا ٠ ۚ وَمَنْ يَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللہِ فَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ ٢٢٩- طلق - أصل الطَّلَاقِ : التّخليةُ من الوثاق، يقال : أَطْلَقْتُ البعیرَ من عقاله، وطَلَّقْتُهُ ، وهو طَالِقٌ وطَلِقٌ بلا قيدٍ ، ومنه استعیر : طَلَّقْتُ المرأةَ ، نحو : خلّيتها فهي طَالِقٌ ، أي : مُخَلَّاةٌ عن حبالة النّكاح . قال تعالی: فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَ [ الطلاق 1] - ( ط ل ق ) - ا لطلاق دراصل اس کے معنی کسی بندھن سے آزاد کرنا کے ہیں ۔ محاورہ الطلقت البعر من عقالہ وطلقۃ میں نے اونٹ کا پائے بند کھول دیا طالق وطلق وہ اونٹ جو مقید نہ ہو اسی سے خلی تھا کی طرح طلقت المرءۃ کا محاورہ مستعار ہے یعنی میں نے اپنی عورت کو نکاح کے بندھن سے آزادکر دیا ایسی عورت کو طائق کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَ [ الطلاق 1] تو ان کی عدت کے شروع میں طلاق دو ۔ - مَرَّةً- مَرَّةً ومرّتين، كفَعْلَة وفَعْلَتين، وذلک لجزء من الزمان . قال :- يَنْقُضُونَ عَهْدَهُمْ فِي كُلِّ مَرَّةٍ [ الأنفال 56] ، وَهُمْ بَدَؤُكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ [ التوبة 13] ، إِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً [ التوبة 80] ، إِنَّكُمْ رَضِيتُمْ بِالْقُعُودِ أَوَّلَ مَرَّةٍ [ التوبة 83] ، سَنُعَذِّبُهُمْ مَرَّتَيْنِ [ التوبة 101] ، وقوله : ثَلاثَ مَرَّاتٍ [ النور 58] .- مرۃ ( فعلۃ ) ایک بار مرتان ض ( تثنیہ ) دو بار قرآن میں ہے : يَنْقُضُونَ عَهْدَهُمْ فِي كُلِّ مَرَّةٍ [ الأنفال 56] پھر وہ ہر بار اپنے عہد کو توڑ ڈالتے ہیں ۔ وَهُمْ بَدَؤُكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ [ التوبة 13] اور انہوں نے تم سے پہلی بار ( عہد شکنی کی ) ابتداء کی ۔إِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً [ التوبة 80] اگر آپ ان کے لئے ستربار بخشیں طلب فرمائیں ۔ إِنَّكُمْ رَضِيتُمْ بِالْقُعُودِ أَوَّلَ مَرَّةٍ [ التوبة 83] تم پہلی مرتبہ بیٹھ رہنے پر رضامند ہوگئے ۔ سَنُعَذِّبُهُمْ مَرَّتَيْنِ [ التوبة 101] ہم ان کو دو بار عذاب دیں گے ۔ ثَلاثَ مَرَّاتٍ [ النور 58] تین دفعہ ( یعنی تین اوقات ہیں )- مسك - إمساک الشیء : التعلّق به وحفظه . قال تعالی: فَإِمْساكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسانٍ [ البقرة 229] ، وقال : وَيُمْسِكُ السَّماءَ أَنْ تَقَعَ عَلَى الْأَرْضِ [ الحج 65] ، أي : يحفظها، - ( م س ک )- امسک الشئی کے منعی کسی چیز سے چمٹ جانا اور اس کی حفاطت کرنا کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ فَإِمْساكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسانٍ [ البقرة 229] پھر ( عورت کو ) یا تو بطریق شاہتہ نکاح میں رہنے دینا یا بھلائی کے ساتھ چھور دینا ہے ۔ وَيُمْسِكُ السَّماءَ أَنْ تَقَعَ عَلَى الْأَرْضِ [ الحج 65] اور وہ آسمان کو تھا مے رہتا ہے کہ زمین پر نہ گر پڑے - سرح - السَّرْحُ : شجر له ثمر، الواحدة : سَرْحَةٌ ، وسَرَّحْتُ الإبل، أصله : أن ترعيه السَّرْحَ ، ثمّ جعل لكلّ إرسال في الرّعي، قال تعالی: وَلَكُمْ فِيها جَمالٌ حِينَ تُرِيحُونَ وَحِينَ تَسْرَحُونَ- [ النحل 6] ، والسَّارِحُ : الرّاعي، والسَّرْحُ جمع کا لشّرب «2» ، والتَّسْرِيحُ في الطّلاق، نحو قوله تعالی: أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسانٍ [ البقرة 229] ، وقوله : وَسَرِّحُوهُنَّ سَراحاً جَمِيلًا - [ الأحزاب 49] ، مستعار من تَسْرِيحِ الإبل، کالطّلاق في كونه مستعارا من إطلاق الإبل، واعتبر من السّرح المضيّ ، فقیل : ناقة سَرْحٌ: تسرح في سيرها، ومضی سرحا سهلا . والْمُنْسَرِحُ : ضرب من الشّعر استعیر لفظه من ذلك .- ( س ر ح) السرح - ایک قسم کا پھلدار درخت ہے اس کا واحد سرحۃ ہے اور سرحت الابل کے اصل معنی تو اونٹ کو سرح ، ، درخت چرانے کے ہیں بعدہ چراگاہ میں چرنے کے لئے کھلا چھوڑ دینے پر اس کا استعمال ہونے لگا ہے چناچہ قرآن میں ہے : وَلَكُمْ فِيها جَمالٌ حِينَ تُرِيحُونَ وَحِينَ تَسْرَحُونَ [ النحل 6] اور جب شام کو انہیں ( جنگل سے ) لاتے ہو اور جب صبح کو ( جنگل ) چرانے لے جاتے ہو تو ان سے تمہاری عزت وشان ہے ۔ اور چروا ہے کو ، ، سارح کہاجاتا ہے اس کی جمع سرح ہے جیسے شارب کی جمع شرب ( اور راکب کی جمع رکب ) آتی ہے اور تسریح کا لفظ طلاق دینے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے چناچہ فرمایا : أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسانٍ [ البقرة 229] یا بھلائی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے ۔ اور اسی طرح آیت : وَسَرِّحُوهُنَّ سَراحاً جَمِيلًا[ الأحزاب 49] اور ان کو کچھ فائدہ ( یعنی خرچ ) دے کر اچھی طرح سرے رخصت کردو ۔ میں بھی سرحوھن کے معنی طلاق دینے کے ہیں اور یہ تسریح سے مستعار ہے جس کے معنی جانوروں کو چرنے کے لئے چھوڑ دینا کے ہیں ۔ جیسا کہ خود طلاق کا لفظ اطلاق الابل ( اونٹ کا پائے بند کھولنا) کے محاورہ سے مستعا رہے ۔ اور کبھی سرح ، ، میں تیز روی کے معنی کا اعتبار کر کے تیز رو اور سہل رفتار اونٹنی کو ناقۃ سرح کہاجاتا ہے اور اسی سے بطور ستعارہ شعر کے ایک بحر کا نام منسرح رکھا گیا ہے ۔- احسان - الإحسان فوق العدل، وذاک أنّ العدل هو أن يعطي ما عليه، ويأخذ أقلّ مما له، والإحسان أن يعطي أكثر مما عليه، ويأخذ أقلّ ممّا له «3» .- فالإحسان زائد علی العدل، فتحرّي العدل - واجب، وتحرّي الإحسان ندب وتطوّع، وعلی هذا قوله تعالی: وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء 125] ، وقوله عزّ وجلّ : وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة 178] ، ولذلک عظّم اللہ تعالیٰ ثواب المحسنین، فقال تعالی: وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت 69] ، وقال تعالی:إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة 195] ، وقال تعالی: ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة 91] ، لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل 30] .- ( ح س ن ) الحسن - الاحسان ( افعال )- احسان عدل سے بڑھ کر چیز ہے کیونکہ دوسرے کا حق پورا دا کرنا اور اپنا حق پورا لے لینے کا نام عدل ہے لیکن احسان یہ ہے کہ دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دیا جائے اور اپنے حق سے کم لیا جائے لہذا احسان کا درجہ عدل سے بڑھ کر ہے ۔ اور انسان پر عدل و انصاف سے کام لینا تو واجب اور فرض ہے مگر احسان مندوب ہے ۔ اسی بنا پر فرمایا :۔ وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء 125] اور اس شخص سے کس کا دین اچھا ہوسکتا ہے جس نے حکم خدا قبول کیا اور وہ نیکو کا ر بھی ہے ۔ اور فرمایا ؛ وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة 178] اور پسندیدہ طریق سے ( قرار داد کی ) پیروی ( یعنی مطالبہ خونہار ) کرنا ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محسنین کے لئے بہت بڑے ثواب کا وعدہ کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت 69] اور خدا تو نیکو کاروں کے ساتھ ہے ۔ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة 195] بیشک خدا نیکی کرنیوالوں کو دوست رکھتا ہے ۔ ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة 91] نیکو کاروں پر کسی طرح کا الزام نہیں ہے ۔ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل 30] جنہوں نے اس دنیا میں نیکی کی ان کے لئے بھلائی ہے ۔- أخذ - الأَخْذُ : حوز الشیء وتحصیله، وذلک تارةً بالتناول نحو : مَعاذَ اللَّهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنا مَتاعَنا عِنْدَهُ [يوسف 79] ، وتارةً بالقهر نحو قوله تعالی: لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ [ البقرة 255] - ( اخ ذ) الاخذ - ۔ کے معنی ہیں کسی چیز کو حاصل کرلینا جمع کرلینا اور احاطہ میں لے لینا اور یہ حصول کبھی کسی چیز کو پکڑلینے کی صورت میں ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ مَعَاذَ اللهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهُ ( سورة يوسف 79) خدا پناہ میں رکھے کہ جس شخص کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی ہے اس کے سو اہم کسی اور پکڑ لیں اور کبھی غلبہ اور قہر کی صورت میں جیسے فرمایا :۔ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ ( سورة البقرة 255) نہ اس پر اونگھ غالب آسکتی اور نہ ہ نیند ۔ محاورہ ہے ۔- إِيتاء - : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة 247]- الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی - خوف - الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] - ( خ و ف ) الخوف ( س )- کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ - اقامت - والْإِقَامَةُ في المکان : الثبات . وإِقَامَةُ الشیء : توفية حقّه، وقال : قُلْ يا أَهْلَ الْكِتابِ لَسْتُمْ عَلى شَيْءٍ حَتَّى تُقِيمُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة 68] أي : توفّون حقوقهما بالعلم والعمل، وکذلک قوله : وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقامُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة 66] - الاقامتہ - ( افعال ) فی المکان کے معنی کسی جگہ پر ٹھہرنے اور قیام کرنے کے ہیں اوراقامتہ الشیی ( کسی چیز کی اقامت ) کے معنی اس کا پورا پورا حق ادا کرنے کے ہوتے ہیں چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ يا أَهْلَ الْكِتابِ لَسْتُمْ عَلى شَيْءٍ حَتَّى تُقِيمُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة 68] کہو کہ اے اہل کتاب جب تک تم توراۃ اور انجیل ۔۔۔۔۔ کو قائم نہ رکھو گے کچھ بھی راہ پر نہیں ہوسکتے یعنی جب تک کہ علم وعمل سے ان کے پورے حقوق ادا نہ کرو ۔ اسی طرح فرمایا : ۔ وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقامُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة 66] اور اگر وہ توراۃ اور انجیل کو ۔۔۔۔۔ قائم کہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک میں جہاں کہیں نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے یا نماز یوں کی تعریف کی گئی ہے ۔ وہاں اقامتہ کا صیغۃ استعمال کیا گیا ہے ۔ جس میں اس بات پر تنبیہ کرنا ہے کہ نماز سے مقصود محض اس کی ظاہری ہیبت کا ادا کرنا ہی نہیں ہے بلکہ اسے جملہ شرائط کے ساتھ ادا کرنا ہے اسی بنا پر کئی ایک مقام پر اقیموالصلوۃ اور المتقین الصلوۃ کہا ہے - حدَّ- الحدّ : الحاجز بين الشيئين الذي يمنع اختلاط أحدهما بالآخر، يقال : حَدَدْتُ كذا :- جعلت له حدّا يميّز، وحَدُّ الدار : ما تتمیز به عن غيرها، وحَدُّ الشیء : الوصف المحیط بمعناه المميّز له عن غيره، وحَدُّ الزنا والخمر سمّي به لکونه مانعا لمتعاطيه من معاودة مثله، ومانعا لغیره أن يسلک مسلکه، قال اللہ تعالی: وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ وَمَنْ يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ- [ الطلاق 1] ، وقال تعالی: تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلا تَعْتَدُوها [ البقرة 229] ، وقال : الْأَعْرابُ أَشَدُّ كُفْراً وَنِفاقاً وَأَجْدَرُ أَلَّا يَعْلَمُوا حُدُودَ ما أَنْزَلَ اللَّهُ [ التوبة 97] ، أي : أحكامه، وقیل : حقائق معانيه، و جمیع حدود اللہ علی أربعة أوجه :- إمّا شيء لا يجوز أن يتعدّى بالزیادة عليه ولا القصور عنه، كأعداد رکعات صلاة الفرض .- وإمّا شيء تجوز الزیادة عليه ولا تجوز النقصان عنه - وإمّا شيء يجوز النقصان عنه ولا تجوز الزیادة عليه .- وإمّا شيء يجوز کلاهماوقوله تعالی: إِنَّ الَّذِينَ يُحَادُّونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المجادلة 5] ، أي : يمانعون، فذلک إمّا اعتبارا بالممانعة وإمّا باستعمال الحدید . - ( ح د د ) الحد - جو دو چیزوں کے درمیان ایسی روک جو ان کو با ہم ملنے سے روک دے حدرت کذا میں نے فلاں چیز کے لئے ھڈ ممیز مقرر کردی ۔ حدالداد مکان کی حد جس کی وجہ سے وہ دوسرے مکان سے ممیز ہوتا ہے ۔ حد الشیء کسی چیز کا وہ وصف جو دوسروں سے اسے ممتاز کردے اور زنا و شراب کی سزا کو بھی حد اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ اس کا دوبارہ ارتکاب کرنے سے انسان کو روکتی ہے ۔ اور دوسروں کو بھی اس قسم کے جرائم کا ارتکاب کرنے سے روک دیتی ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ وَمَنْ يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ [ الطلاق 1] اور یہ خدا کی حدیں ہیں ۔ جو خدا کی حدود سے تجاوز کرے گا ۔ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلا تَعْتَدُوها [ البقرة 229] یہ خدا کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں ان سے تجاوز مت کرو ۔ اور آیت کریمہ ؛ الْأَعْرابُ أَشَدُّ كُفْراً وَنِفاقاً وَأَجْدَرُ أَلَّا يَعْلَمُوا حُدُودَ ما أَنْزَلَ اللَّهُ [ التوبة 97] دیہاتی لوگ سخت کافر اور سخت منافق ہیں اور اس قابل ہیں کہ یہ جو احکام ( شریعت ) خدا نے نازل فرمائے ہیں ان سے واقف ( ہی ) نہ ہوں ۔ میں بعض نے حدود کے معنی احکام کئے ہیں اور بعض نے کہا ہے کہ حقائق و معانی مراد ہیں ۔ جملہ حدود الہی چار قسم پر ہیں - ۔ ( ا) ایسے حکم جن میں نقص و زیادہ دونوں جائز ہوتے ہیں جیسے فرض نمازوں میں تعداد رکعات کو جو شارع (علیہ السلام) نے مقرر کردی ہیں ان میں کمی بیشی قطعا جائز نہیں ہے (2) وہ احکام جن میں اضافہ تو جائز ہو لیکن کمی جائز نہ ہو (3) وہ احکام جو اس دوسری صورت کے برعکس ہیں یعنی ان کمی تو جائز ہے لیکن ان پر اضافہ جائز نہیں ہے ۔ (4) اور آیت کریمہ : إِنَّ الَّذِينَ يُحَادُّونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المجادلة 5] جو لوگ خدا اور اسکے رسول کی مخالفت کرتے ہیں ۔ یحادون کے معنی اللہ رسول کی مخالفت کے ہیں اور اس مخالف کو یحدون کہنا یا تو روکنے کے اعتبار سے ہے اور یا الحدید کے استعمال یعنی جنگ کی وجہ سے - جناح - وسمي الإثم المائل بالإنسان عن الحق جناحا ثم سمّي كلّ إثم جُنَاحاً ، نحو قوله تعالی: لا جُناحَ عَلَيْكُمْ في غير موضع، وجوانح الصدر :- الأضلاع المتصلة رؤوسها في وسط الزور، الواحدة : جَانِحَة، وذلک لما فيها من المیل - اسی لئے ہر وہ گناہ جو انسان کو حق سے مائل کردے اسے جناح کہا جاتا ہے ۔ پھر عام گناہ کے معنی میں یہ لفظ استعمال ہونے لگا ہے ۔ قرآن میں متعدد مواضع پر آیا ہے پسلیاں جن کے سرے سینے کے وسط میں باہم متصل ہوتے ہیں اس کا واحد جانحۃ ہے اور ان پسلیوں کو جو انح اسی لئے کہا جاتا ہے کہ ان میں میلان یعنی خم ہوتا ہے ۔- فدی - الفِدَى والفِدَاءُ : حفظ الإنسان عن النّائبة بما يبذله عنه، قال تعالی: فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِداءً [ محمد 4] ، يقال : فَدَيْتُهُ بمال، وفدیته بنفسي، وفَادَيْتُهُ بکذا، قال تعالی: إِنْ يَأْتُوكُمْ أُساری تُفادُوهُمْ [ البقرة 85] ، وتَفَادَى فلان من فلان، أي : تحامی من شيء بذله . وقال :- وَفَدَيْناهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ [ الصافات 107] ، وافْتَدى: إذا بذل ذلک عن نفسه، قال تعالی: فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ [ البقرة 229] ، وَإِنْ يَأْتُوكُمْ أُساری تُفادُوهُمْ [ البقرة 85] ، والمُفَادَاةُ : هو أن يردّ أسر العدی ويسترجع منهم من في أيديهم، قال : وَمِثْلَهُ مَعَهُ لَافْتَدَوْا بِهِ [ الرعد 18] ، لَافْتَدَتْ بِهِ [يونس 54] ، ولِيَفْتَدُوا بِهِ [ المائدة 36] ، وَلَوِ افْتَدى بِهِ [ آل عمران 91] ، لَوْ يَفْتَدِي مِنْ عَذابِ يَوْمِئِذٍ بِبَنِيهِ [ المعارج 11] ، وما يقي به الإنسان نفسه من مال يبذله في عبادة قصّر فيها يقال له : فِدْيَةٌ ، ككفّارة الیمین، وكفّارة الصّوم . نحو قوله : فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيامٍ أَوْ صَدَقَةٍ [ البقرة 196] ، فِدْيَةٌ طَعامُ مِسْكِينٍ [ البقرة 184]- ( ف د ی ) الفدٰی والفداء - کے معنی کسی کی جانب سے کچھ دیگر اسے مصیبت سے بچالینا کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِداءً [ محمد 4] پھر اس کے بعد یا تو احسان رکھ کر چھوڑ دینا چاہئے ۔ یا کچھ مال لے لر ۔ چناچہ محاورہ فدیتہ بمال میں نے کچھ خرچ کر کے اسے مسیبت سے بچالیا فدیتہ منفسی میں نے اپنی جان کے عوض اسے چھڑالیا فاواہُ بکذا ۔ اس نے کچھ دے کت اسے چھڑا لیا قرآن میں ہے ۔ إِنْ يَأْتُوكُمْ أُساری تُفادُوهُمْ [ البقرة 85] اور اگر وہ تمہارے پاس قید ہوکر آئیں تو بدلہ دے کر انہیں چھڑا بھی لیتے ہو ۔ تفادیٰ فلان من فلان کسی کا فدیہ دے کر اس کو چھڑالینا ۔ وَفَدَيْناهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ [ الصافات 107] اور ہم نے ایک بڑی قربانی کو ان کا فدیہ دیا ۔ افتدیٰ کے معنی خواہ اپنے کو مال کے عوض چھڑانے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ [ البقرة 229] رہائی پانے کے بدلے میں وَمِثْلَهُ مَعَهُ لَافْتَدَوْا بِهِ [ الرعد 18]( تو وہ سب کے سب ) اور ان کے ساتھ ہی اتنے اور ( نجات کے ) بدلے میں صرف کر ڈالیں ۔ لَافْتَدَتْ بِهِ [يونس 54] تو ( عذاب سے بچنے کے لئے ( سب ) دے ڈالے ۔ ولِيَفْتَدُوا بِهِ [ المائدة 36] تاکہ بدلہ دیں۔ وَلَوِ افْتَدى بِهِ [ آل عمران 91] اگر بدلے میں دیں لَوْ يَفْتَدِي مِنْ عَذابِ يَوْمِئِذٍ بِبَنِيهِ [ المعارج 11] کہ کسی طرح اس دن کے عذاب کے بدلے میں ( سب کچھادے ڈالے یعنی بیٹے اور جو مال کسی عبادت میں کوتاہی کرنے کی وجہ سے - خرچ کر کے انسان خود اپنے کو گناہ سے بچاتا ہے اسے بھی فدیتہ کہا جاتا ہے جیسا کہ کفار یمین اور صوم کے متعلق فرمایا ۔ فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيامٍ أَوْ صَدَقَةٍ [ البقرة 196] تو اس کے بدلے روزے رکھے یا صدقے دے یا قربانی کرے ۔ فِدْيَةٌ طَعامُ مِسْكِينٍ [ البقرة 184] روزے کے بدلے محتاج کو کھانا کھلادیں ۔- عد ( اعداد)- والإِعْدادُ مِنَ العَدِّ كالإسقاء من السَّقْيِ ، فإذا قيل : أَعْدَدْتُ هذا لك، أي : جعلته بحیث تَعُدُّهُ وتتناوله بحسب حاجتک إليه . قال تعالی:- وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ [ الأنفال 60] ، وقوله : أُولئِكَ أَعْتَدْنا لَهُمْ عَذاباً أَلِيماً [ النساء 18] ، وَأَعْتَدْنا لِمَنْ كَذَّبَ [ الفرقان 11] ، وقوله : وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَأً [يوسف 31] ، قيل : هو منه، وقوله : فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ [ البقرة 184] ، أي : عدد ما قد فاته، وقوله : وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ [ البقرة 185] ، أي : عِدَّةَ الشّهر، وقوله : أَيَّاماً مَعْدُوداتٍ- [ البقرة 184] ، فإشارة إلى شهر رمضان . وقوله : وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَعْدُوداتٍ [ البقرة 203] ، فهي ثلاثة أيّام بعد النّحر، والمعلومات عشر ذي الحجّة . وعند بعض الفقهاء : المَعْدُودَاتُ يومُ النّحر ويومان بعده فعلی هذا يوم النّحر يكون من المَعْدُودَاتِ والمعلومات، والعِدَادُ : الوقت الذي يُعَدُّ لمعاودة الوجع، وقال عليه الصلاة والسلام :«ما زالت أكلة خيبر تُعَادُّنِي» وعِدَّانُ الشیءِ : عهده وزمانه .- ( ع د د ) العدد - الاعداد تیار کرنا مہیا کرنا یہ عد سے ہے جیسے سقی سے اسقاء اور اعددت ھذا لک کے منعی ہیں کہ یہ چیز میں نے تمہارے لئے تیار کردی ہے کہ تم اسے شمار کرسکتے ہو اور جس قدر چاہو اس سے حسب ضرورت لے سکتے ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ [ الأنفال 60] اور جہاں تک ہوسکے ( فوج کی جمیعت سے ) ان کے ( مقابلے کے لئے مستعد رہو ۔ اور جو ) کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے ۔ اور اس نے ان کے لئے باغات تیار کئے ہیں ۔ أُولئِكَ أَعْتَدْنا لَهُمْ عَذاباً أَلِيماً [ النساء 18] ایسے لوگوں کے لئے ہم نے عذاب الیم تیار کر رکھا ہے وَأَعْتَدْنا لِمَنْ كَذَّبَ [ الفرقان 11] اور ہم نے جھٹلا نے والوں کے لئے دوزخ تیار کر رکھی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَأً [يوسف 31] اور ان کے لئے ایک محفل مرتب کی ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ اعتدت بھی اسی ( عد ) سے ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ [ البقرة 185] تم روزوں کا شمار پورا کرلو ۔ کے معنی یہ ہیں کہ تم ماہ رمضان کی گنتی پوری کرلو ۔ أَيَّاماً مَعْدُوداتٍ [ البقرة 184] گنتی کے چند روز میں ماہ رمضان کی طرف اشارہ ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَعْدُوداتٍ [ البقرة 203] اور گنتی کے دنوں میں خدا کو یاد کرو ۔ میں سے عید قربان کے بعد کے تین دن مراد ہیں اور معلومات سے ذوالحجہ کے دس دن بعض فقہاء نے کہا ہے کہ ایام معدودۃ سے یوم النحر اور اس کے بعد کے دو دن مراد ہیں اس صورت میں یوم النحر بھی ان تین دنوں میں شامل ہوگا ۔ العداد اس مقرر وقت کو کہتے ہیں جس میں بیماری کا دورہ پڑتا ہو ۔ آنحضرت نے فرمایا مازالت امۃ خیبر تعادنی کہ خیبر کے دن جو مسموم کھانا میں نے کھایا تھا اس کی زہر بار بار عود کرتی رہی ہے عد ان الشئی کے معنی کسی چیز کے موسم یا زمانہ کے ہیں - ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں
(سابقہ آیت کی بقیہ تفسیر)- یہ بات اس چیز پر دلالت کرتی ہے کہ بیوی کا حق ہے کہ شوہر اس کے اور دوسری بیوی کے درمیان دنوں کو تقسیم کر دے اور باریاں مقرر کر دے۔ اس لئے کہ اس صورت میں ایک بیوی کو چھوڑ کر دوسری بیویوں کی طرف میلان کا اظہار نہیں ہوگا۔ نیز یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ اس کے ساتھ ہمبستری کرنا بھی اس پر لازم ہے کیونکہ قول باری ہے فتذدوھا کالمعلقۃ یعنی نہ تو وہ آزاد ہو کہ کہیں اور نکاح کرلے اور نہ ہی شوہر والی ہو کیونکہ مرد نے اس کے ساتھ ہمبستری کا حق پورا نہیں کیا۔ عورت کا بھی یہ حق ہے کہ مرد اس کو نقصان پہنچانے کی نیت سے نہ روکے رکھے جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔ نیز فرمایا ولاتعضلوھن ان ینکحن ازواجھن اذا ترا ضوابینھم بالمعروف۔ عورتوں کو طلاق دینے کے بعد تم اس میں مانع نہ بنو کہ وہ اپنے زیر تجویز شوہروں سے نکاح کرلیں جب کہ وہ معروف طریقے سے باہم مناکحت پر رضامند ہوں) اگر یہ خطاب شوہر سے ہے تو یہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ جب اس کی طرف شوہر کا میلان ختم ہوجائے تو اس کا حق یہ ہے کہ شوہر اسے طلاق نہ دے کر کسی دوسرے شخص سے نکاح کرنے کے راستے میں حائل نہ ہو۔- شوہر پر عورتورں کے یہ وہ حقوق ہیں جن کا اثبات درج بالا آیتوں میں کیا گیا ہے۔ عورتوں پر مردوں کے جن حقوق کا اللہ تعالیٰ نے ذکر کیا ہے ان میں سے چند یہ ہیں ارشاد ہے فالصالحت قانتات حافظات للغیب بما حفظ اللہ ، پس جو صالح عورتیں ہیں وہ اطاعت شعار ہوتی ہیں اور مردوں کے پیچھے اللہ کی حفاظت اور نگرانی میں ان کے حقوق کی حفاظت کرتی ہیں) اس بارے میں کئی اقوال ہیں۔ ایک قول ہے کہ شوہر نے بیوی کے رحم میں جو قطرے ٹپکائے ہیں ان کی وہ حفاظت کرے اور اسقاط کے لئے حیلے نہ کرے۔ ایک قول ہے کہ اپنے بستر کو شوہر کے لئے محفوظ رکھے یعنی بدکاری سے بچے۔ ایک احتمال یہ بھی ہے کہ گھر میں شوہر کا جو مال و متاع ہو اس کی اور اپنی دونوں کی حفاظت کرے اس کی بھی گنجائش ہے کہ درج بالا تمام احتمالات مراد ہوں کیونکہ الفاظ میں ان سب کی گنجائش ہے۔ قول باری الرجال قوامون علی النساء) نے یہ بتادیا کہ بیوی پر شوہر کی اطاعت لازم ہے۔ کیونکہ شوہر کو قوامیت کے وصف سے متصف کرنا اس کا متقاضی ہے۔ نیز قول باری واللاتی تخافون نشوزھن فعظوھن واھجروھن فی المضاجع واضربوھن فان اطعنکم فلاتبعو علیھن سبیلاً اور جن عورتوں سے تمہیں سرکشی کا اندیشہ ہو انہیں سمجھائوخواب گاہوں میں ان سے علیحدہ رہو اور مارو۔ پھر اگر وہ تمہاری مطیع ہوجائیں تو خواہ مخواہ ان پر دست درازی کے لئے بہانے تلاش نہ کرو) اس پر دلالت کرتا ہے کہ بیوی پر اپنی ذاتی حیثیت سے شوہر کی فرمانبرداری لازمی ہے نیز وہ اس کے ساتھ بدسلوکی سے پیش نہ آئے۔ زوجین میں سے ہر ایک پر دوسرے کے حقوق کے متعلق حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بہت سی احادیث مروی ہیں ان میں سے بعض تو ایسی ہیں جن کا مضمون درج بالا قرآنی آیات کے مضمون کی طرح ہے اور بعض میں اس سے کچھ زائد باتیں ہیں۔ ان میں سے ایک روایت ہے جسے محمد بن بکر بصری نے ہمیں بیان کی انہیں ابودائود نے انہیں عبداللہ بن محمد النفیلی وغیرہ نے انہیں خاتم بن اسماعیل نے انہیں جعفر بن محمد نے اپنے والد سے انہوں نے حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عرفات میں خطبہ دیتے ہوئے فرمایا :” عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرتے رہو کیونکہ تم نے اللہ کی امانت کے وسیلے سے انہیں حاصل کیا ہے اور اللہ کے کلمے کے ذریعے ان کی شرمگاہوں کو اپنے لئے حلال کیا ہے۔ تمہارا ان پر یہ حق ہے کہ وہ تمہارے بستر پر کسی ایسے شخص کو قدم نہ رکھنے دیں جسے تم ناپسند کرتے ہو، اگر وہ ایسا کریں تو ان کی پٹائی کرو لیکن پٹائی سخت نہ ہو کہ زخموں کے نشان پڑجائیں تم پر ان کے حقوق یہ ہیں کہ معروف طریقے سے ان کے روٹی کپڑے یعنی نان و نفقہ کے ذمہ دار ہو) ۔- لیث نے ملک سے ، انہوں نے عطاء سے اور انہوں نے حضرت ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ ایک عورت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئی اور سوال کیا کہ شوہر کا بیوی پر کیا حق ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواب میں بہت سی باتوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ شوہر کی اجازت کے بغیر اس کے گھر کی کوئی چیز بطور صدقہ نہ دے۔ اگر اس نے ایسا کرلیا تو شوہر کو اجر ملے گا اور بیوی کی گردن پر بوجھ ہوگا۔ آپ نے مزید فرمایا کہ بیوی شوہر کی اجازت کے بغیر اس کے گھر سے نہ نکلے اور اس کی اجازت کے بغیر کسی روز نفلی روزہ نہ رکھے مسعر نے سعید المقبری سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا ” بہترین عورت وہ بیوی ہے کہ تم اس پر نظر ڈالو تو تمہیں خوش کر دے جب تم اسے حکم دو تو حکم مانے اور تم موجود نہ ہو تو وہ تمہارے مال اور اپنی آبرو کی حفاظت کرے) پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔ الرجال تعامون علی النساء) تا آخر آیت۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں بعض نے اس آیت سے یہ استدلال کیا ہے کہ اگر شوہر تنگ دست ہوجائے اور بیوی کے نان و نفقہ کی ذمہ داری پوری نہ کرسکے تو دونوں کے درمیان علیحدگی کرا دینا واجب ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے شوہروں پر بیویوں کے اسی طرح کے حقوق لازم کردیئے ہیں جس طرح کے حقوق بیویوں پر شوہروں کے لئے ہیں۔- حقوق کے لزوم کے لحاظ سے دونوں کے درمیان مساوات قائم کردی ہے۔ اب یہ جائز نہیں ہے کہ شوہر بیوی کا نان و نفقہ پورا کئے بغیر اس سے ہمبستری کا لطف اٹھائے۔ لیکن یہ بات کئی وجوہ سے غلط ہے۔ اول یہ کہ نان و نفقہ ہمبستری کا بدل نہیں ہے کہ جس کی عدم موجودگی میں دونوں کے درمیان علیحدگی کرا دی جائے اور نہ ہی شوہر نان و نفقہ دینے کی بنا پر اس سے ہمبستری کا حق دار بنتا ہے۔ بلکہ شوہر کو یہ حق عقد نکاح کی بنا پر حاصل ہوا ہے جس کے بدلے میں مہر کی رقم ادا کی گئی ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اگر نان و نفقہ بدل ہوتا تو آیت کی روشنی میں عورت علیحدگی کی مستحق قرار نہ پاتی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے نان و نفقہ کے ذکر کے فوراً بعد یہ فرمایا کہ وللرجال علیھن درجۃ، آیت کا یہ حصہ اس بات کا متقاضی ہے کہ جہاں تک نکاح کی وجہ سے حاصل ہونے والے حقوق کا تعلق ہے ان میں مرد کو عورت پر برتری حاصل ہے اور مرد کو عورت سے تعلقات زن وشو قائم کرنے کا حق ہے خواہ وہ اس کے نان و نفقہ کو پور ا کرنے کی قدرت نہ بھی رکھتا ہو۔ نیز اگر عورت اپنی ذات کو شوہر کے حوالے کر کے اس کے گھر میں بس کر نان و نفقہ کی مستحق ہوگئی ہے تو ہم نے شوہر پر نان و نفقہ کی ذمہ داری واجب کردی ہے جس طرح ہم نے بیوی کے ساتھ تعلقات زن و شو کو مباح کردیا ہے۔ جب ہم نے شوہر پر نان و نفقہ کی ذمہ داری واجب کردی اور اسے بیوی کے لئے اس پر ثابت کردی تو اس صورت میں ہم نے بیوی کو اس کا حق واجب کئے بغیر نہیں چھوڑا جس طرح کہ ہم نے اس پر شوہر کا حق بھی واجب کردیا۔ آیت ولھن مثل الذی علیھن بالمعروف جن احکام پر دلالت کر رہی ہے ان میں سے چند یہ ہیں۔ اول اگر بیوی کے لئے کوئی مہر مقرر نہیں ہوا تو شوہر پر مہر مثل واجب ہوگا۔ اس لئے کہ شوہر عقد نکاح کے ذریعے بیوی کی ذات کا مالک ہوگیا اور یہ اسے حق حاصل ہوگیا کہ بیوی اپنی ذات کو اس کے سپرد کر دے۔ اس لئے شوہر کے ذمہ بیوی پر اس کی ملکیت کا مثل واجب ہوگا اور مثل بضع اس کی قیمت ہے جو مہر مثل ہے جیسا کہ قول باری ہے فمن اعتدی علیکم فاعتدواعلیہ بمثل ما اعتدی علیکم جو شخص تم پر زیادتی کرے تو تم پر اس پر اسی قدر زیادتی کرو جس قدر اس نے کی ہے) ۔ اس سے یہ بات سمجھ میں آئی کہ اس پر اس چیز کی قیمت واجب ہوجاتی ہے جس کی ملکیت اسے حاصل ہوجائے اور یہ ملکیت اسے ایسی چیز کے بدلے میں حاصل ہو جس کا اس کی جنس میں کوئی مثل نہ ہو اسی طرح مثل بضع مہر مثل ہے۔ قول باری بالمعروف۔ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ جو مہر واجب ہوجائے اس میں نہ زیادتی کی جائے نہ کمی جس طرح کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اس عورت کے متعلق ارشاد ہے جس کے شوہر کی وفات ہوجائے اور نہ تو اس نے اس کے لئے مہر مقرر کیا ہو اور نہ ہی اس سے ہمبستری کی ہو لھا مھرمثل نساء ھا ولاوکس ولاشطط، اسے اس کے خاندان کی عورتوں جیسا مہر ملے گا نہ اس میں کمی ہوگی نہ زیادتی) ۔ اسی طرح آپ کا ارشاد ہے ایمامراۃ تزوجت بغیراذن ولیھا فنکاحھا باطل فان دخل بھا فلھا مھر مثل نساء ھا ولاوکس فیھا ولاشطط، جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرلیا اس کا نکاح باطل ہے۔ اگر مرد نے اس کے ساتھ ہمبستری کرلی تو اس کے ذمہ عورت کے خاندان کی عورتوں جیسا مہر لازم آئے گا اس میں نہ کمی ہوگی نہ بیشی یہی وہ معنی ہے جو مشہور ہے اور جو آیت میں مذکور ہے۔ آیت کی اس پر بھی دلالت ہو رہی ہے کہ اگر اس نے اس شرط پر نکاح کرلیا کہ اسے کوئی مہر نہیں ملے گا پھر بھی اس پر مہر واجب ہوگا۔ اس لئے آیت نے نکاح میں مہر کی نفی کی شرط لگانے کا وہ حق واجب کردیا جو اس حق کی طرح ہے جو مرد کے لئے عورت پر واجب ہوتا ہے۔- قول باری ہے وللرجال علیھن درجۃ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مرد کو عورت پر جن باتوں کی وجہ سے فضیلت دی ہے ان میں سے ایک کا ذکر ان الفاظ میں فرمایا ہے الرجال قوامون علی النساء بما فضل اللہ بعضھم علی بعض۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے بتادیا کہ مرد کو عورت کا منتظم بنا کر اسے اس پر فضیلت عطا کردی۔ نیز قول باری ہے وبما انفقوا امن اموالھم، یہ چیز بھی ایسی ہے جس کی بنا پر مرد کو عورت پر فضیلت دی گئی نیز قول باری ہے۔ عورت پر مرد کی اطاعت لازم کر کے اس پر اسے فضیلت دی گئی۔ فضیلت کے درجات میں سے ایک بات یہ ہے کہ اگر عورت بدسلوکی اور سرکشی کرے تو اللہ تعالیٰ نے شوہر کے لئے مباح کردیا ہے کہ اس کی پٹائی کرے اور خواب گاہ میں اس سے علیحدہ رہے۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ شوہر طلاق دے کر عورت سے علیحدگی کرنے کا حق رکھتا ہے جبکہ عورت کو یہ حق حاصل نہیں ہے۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ شوہر اس بیوی کے ہوتے ہوئے مزید تین بیویاں کرسکتا ہے لیکن عورت کو یہ حق نہیں ہے کہ جب تک وہ اس کے حبالہ عقد میں ہے یا اس سے طلاق حاصل کر کے عدت کے اندر رہے اس وقت تک کسی اور مرد سے نکاح کرلے۔ اسی طرح میراث میں شوہر کا حصہ بیوی کے حصے سے زائد ہے اسی طرح شوہر جہاں چاہے گا بیوی کو اس کے ساتھ جانا پڑے گا لیکن بیوی جہاں جانا یا رہنا چاہے شوہر پر اس کا ساتھ دینا لازم نہیں ہے۔ اسی طرح بیوی شوہر کی اجازت کے بغیر نفلی روزہ نہیں رکھ سکتی ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہمارے بیان کردہ وجوہ تفصیل کے علاوہ اور کئی وجوہ مروی ہیں۔ ان میں سے ایک اسماعیل بن عبدالمالک کی روایت کردہ حدیث ہے جو انہوں نے ابوالزبیر سے اور انہوں نے حضرت جابر (رض) سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی آپ نے فرمایا لاینبغی لبشران یسجد لبشولوکان ذلک کان النساء لازواجھن، کسی بشر کو کسی بشر کے آگے جھکنا یعنی سجدہ کرنا مناسب نہیں اگر ایس ہوتا تو عورتیں اپنے مردوں کے سامنے جھکتیں) اسی طرح خلف بن امیہ کی روایت کردہ حدیث ہے جو انہوں نے حضرت انس (رض) کے بھتیجے حفص سے اور انہوں نے حضرت انس (رض) سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی۔ اعمش نے ابوحازم سے انہوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اذادعا الرجل امراتہ الی فراشہ فابت فبات غضبان علیھالعن تھا الملائکۃ حتی تصبح، جب کوئی شخص اپنی بیوی کو ہمبستری کے لئے بلائے اور وہ انکار کر دے جس کی بنا پر اس سے ناراض ہو کر وہ رات گزارے تو فرشتے اس عورت پر صبح تک لعنت بھیجتے رہتے ہیں) ۔- حصین بن محصن نے اپنی خالہ سے روایت کی ہے کہ خالہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں گئی۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے استفسار کیا تو شوہر والی ہے ، خالہ اثبات میں جواب دیا۔ آپ نے فرمایا ” تمہارا اس کے ساتھ کیا سلوک ہے “۔ خالہ نے عرض کیا ” میں تو کوئی کمی نہیں کرتی، اس چیز کے سوائے جو میں نہ کرسکوں “۔ اس پر حضور نے فرمایا ” شوہر کے ساتھ اپنے سلوک کا خیال رکھو کیونکہ شوہر ہی تمہارے لئے جنت ہے یا دوزخ “۔ سفیان نے ابوالزناد سے، انہوں نے اعرج سے انہوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لاتصوم المراۃ یوماً زوجھا شاھد من غیر رمضان الاباذنہ، رمضان کے علاوہ کوئی عورت اپنے شوہر کی موجودگی میں اس کی اجازت کے بغیر روزہ نہ رکھے) ۔ اعمش نے ابو صالح سے انہوں نے حضرت ابو سعید خدری (رض) سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ آپ نے عورتوں کو اپنے شوہروں کی اجازت کے بغیر روزہ رکھنے سے منع فرما دیا۔ ان احادیث اور کتاب اللہ کی آیات پر مشتمل دلالت ان حقوق میں جو عقد نکاح سے لازم ہوتی ہیں عورت پر مرد کی فضیلت کا تقاضا کرتی ہے۔ قول باری والمطلقات یتربصن بانفسھن ثلثۃ قروء) کے بارے میں کئی مواضع میں نسخ کا ذکر کیا گیا ہے۔ ان میں سے ایک وہ ہے جس کی روایت مطرف نے ابوعثمان الہندی سے اور انہوں نے حضرت ابی بن کعب (رض) سے کی ہے جب مطلقہ اور بیوہ عورتوں کی عدت والی آیت نازل ہوئی تو ہم نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ نابالغ، سن یاس کو پہنچ جانے والی عورت اور حاملہ عورت کی عدت کا حکم ابھی تک نازل نہیں ہوا۔- اس پر یہ آیت واللائی یئسن من المحیض من نساء کم) تا قول باری واولات الاحمال اجلھن ان یضعن حملھن، اور تمہاری وہ عورتیں جو حیض آنے سے ناامید ہوچکی ہیں تا قول باری اور حاملہ عورتوں کی عدت یہ ہے کہ ان کا وضع حمل ہوجائے) نازل ہوئی۔ عبدالوھاب نے سعید سے انہوں نے قتادہ سے روایت کی ہے کہ اولمطلقات یتربصن بانفسھن ثلثۃ قروء) میں مطلقہ کی عدت تین حیض مقرر ہوئی پھر اس سے اس عورت کی عدت کا حکم منسوخ ہوگیا جس کے ساتھ اس کے شوہر نے ہمبستری نہ کی ہو۔ پھر تین قرء سے دو قسم کی عورتوں کا حکم منسوخ ہوگیا ایک واللائی یئسن من المحیض من نساء کم ان رتبتم) یعنی ایسی بوڑھی عورت جسے حیض نہ آتا ہے اور دوسری واللائی لم یحضن، اور وہ عورتیں جنہیں حیض نہ آیا ہو) یعنی ایسی کنواری عورت جسے ابھی تک حیض نہ آیا ہو۔ ان دونوں قسموں کی عورتوں کی عدت تین ماہ ہے اور ان کا حیض سے کوئی تعلق نہیں ہے اسی طرح تین قروء سے حاملہ عورت کی عدت کا حکم منسوخ ہوگیا۔ قول باری ہے واولات الاحمال اجلھن ان یضعن حملھن) حاملہ عورت کی عدت کا بھی حیض سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس کی عدت وضع حمل ہے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ حضرت ابی بن کعب (رض) کی حدیث میں نسخ پر کسی قسم کی دلالت نہیں ہے اس میں زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ صحابہ کرام نے صغیرہ، آئیسہ اور حاملہ عورتوں کی عدت کے متعلق دریافت کیا یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ صحابہ کرام کو اس آیت کے خصوص کا علم تھا اور وہ یہ بھی جانتے تھے کہ حاملہ عورت اس آیت میں داخل نہیں ہے اگرچہ یہ جواز تھا کہ وہ بھی مراد لی جائے اسی طرح نابالغ لڑکی بھی مراد لی جاسکتی ہے۔ اس لئے کہ یہ جائز تھا کہ بلوغت کے بعد اس کے لئے بھی تین قروء کی شرط ہو اگر اسے بلوغت سے پہلے ہی طلاق ہوچکی ہو۔- رہ گئی آئیسہ تو آیت سے یہ بات خودبخود سمجھ میں آرہی تھی کہ وہ یہاں مراد نہیں ہے کیونکہ آئیسہ وہ عورت ہوتی ہے جسے حیض آنے کی کوئی امید نہیں ہوتی اس لئے یہ درست ہی نہیں تھا کہ وہ کسی بھی حالت میں آیت میں مراد ہو۔ رہ گئی قتادہ کی روایت تو اس میں یہ ذکر ہے کہ آیت مدخول بہا (جس کے ساتھ شوہر ہمبستری کرچکا ہو) اور غیر مدخول بہاسب کے لئے تین قروء کی عدت واجب کرنے کے سلسلے میں عمومی حکم کی متقاضی تھی پھر اس سے غیر مدخول بہا کر منسوخ کردیا گیا۔ یہاں تک ممکن ہے کہ بات اس طرح جو جس طرح قتادہ نے کہی ہے لیکن قتادہ کا یہ قول کہ اس آیت سے دو قسم کی عورتیں منسوخ ہوگئیں اور وہ آئیسہ اور نابالغ لڑکی ہیں تو دراصل انہوں نے لفظ نسخ کا اطلاق کر کے اس سے مراد تخصیص لی ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) اور دوسرے اہل تفسیر سے اکثر لفظ نسخ منقول ہوتا ہے اور اس سے مراد تخصیص ہوتی ہے۔ اسی طرح قتادہ نے آئیسہ کے متعلق لفظ نسخ کہہ کر تخصیص مراد لی ہے نسخ کا حقیقی معنی مراد نہیں لیا ہے۔- اس لئے یہ بات درست ہی نہیں ہے کہ نسخ کا ورود ایسی چیز کے متعلق ہوجائے جس کا حکم ابھی ثابت ہی نہ ہو اور اس حکم کو ابھی استقرار حاصل نہ ہوا ہو۔ یعنی نسخ اس مقام پر وارد ہوتا ہے جہاں ایک چیز کے حکم کو استقرار حاصل ہوچکا ہو اور یہ بات تو کسی صورت میں درست نہیں ہوسکتی کہ حیض سے مایوس عورت کو اقراء کے حساب سے عدت گزارنے کے حکم میں شامل کرلیا جائے جبکہ اقراء یعنی حیض کا وجود اس کی ذات میں محال ہوتا ہے یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ قتادہ نے لفظ نسخ کہہ کر اس سے تخصیص مراد لی ہے۔ ہمارے نزدیک قتادہ کے اس قول میں ایک احتمال اور بھی ہے اگرچہ وہ ذرا بعید سا احتمال ہے وہ یہ کہ قتادہ کا مسلک یہ ہے کہ جس عورت کا حیض بند ہوچکا ہو وہ ان کے نزدیک آئیسہ کہلاتی ہے خواہ وہ جوان ہی کیوں نہ ہو۔ اس کی عدت اس عذر کے باوجود اقراء یعنی حیض کے حساب سے ہوگی ، واہ اس کی مدت کتنی لمبی کیوں نہ ہوجائے۔ حضرت عمر (رض) سے یہ مروی ہے کہ جس عورت کا حیض بند ہوچکا ہو اور وہ آئیسات میں سے ہو اس کی عدت آئیسہ کی عدت ہوگی خواہ وہ جوان ہی کیوں نہ ہو یہی امام مالک کا مسلک ہے۔ اگر قتادہ کا آئیسہ کے معنی کے متعلق یہ مسلک ہو تو یہ جائز ہے کہ اقراء کے حساب سے عدت کے حکم میں یہ بھی مراد ہو اس لئے کہ اس میں اقراء کے وجود کی امید کی جاسکتی ہے۔ قتادہ کا یہ قول کہ تین قروء کے حکم سے حاملہ عورت کا حکم منسوخ ہوگیا ہے تو بات بھی جائز اور قابل قبول ہے کیونکہ عبارت سے یہ معنی لینا ممتنع نہیں ہے کہ حاملہ عورت کی عدت وضع حمل کے بعد تین حیض ہوتی اور اگر وہ حاملہ ہوتی اور اسے حیض نہیں آرہا ہوتا تو وضع حمل کے بعد اس کی عدت تین قروء ہوتی لیکن حمل کی وجہ سے یہ حکم عدت منسوخ ہوگیا۔- تاہم حضرت ابی بن کعب (رض) نے یہ بتادیا کہ حاملہ عورت اقراء کی صورت میں عدت کے حکم میں مراد ہی نہیں تھی صحابہ کرام نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کے متعل ق دریافت کیا کہ حاملہ آئیسہ او صغیرہ کے متعلق ابھی تک حکم نازل نہیں ہوا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ دوسری طرف یہ جائز نہیں ہے کہ لفظ نسخ کا اطلاق کر کے اس کے حقیقی معنی مراد لئے جائیں۔ یہ بات صرف وہاں ہوسکتی ہے جہاں ایک چیز کے حکم کے ثبوت کا علم ہوچکا ہو اور اسے منسوخ کرنے والا حکم اس کے بعد آیا ہو (ہم نے اوپر جو وضاحت کی ہے اس کی روشنی میں یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ اس مقام پر لفظ نسخ کا اپنے حقیقی معنوں میں اطلاق درست نہیں ہے) ۔ البتہ اس کی گنجائش ہے کہ لفظ نسخ کا اطلاق کر کے مجازاً اس سے تخصیص مراد لی جائے۔ اس صورت میں کوئی دقت پیش نہیں آئیگی۔ ہمارے لئے تو بہتر صورت یہی ہے کہ قتادہ کے قول میں لفظ نسخ کو تخصیص پر محمول کریں اس صورت میں قول باری والمطلقات یتربصن بانفسھن) کا ورود صرف ایسی مطلقہ عورتوں تک مخصوص رہے گا جنہیں حیض آتا ہو اور جن کے ساتھ ہمبستری بھی ہوچکی ہو۔ اور آیت میں آئیسہ صغیرہ اور حاملہ مراد ہی نہ ہوں اس لئے کہ ہمارے پاس ان احکام کے درود کی تاریخ نہیں ہے اور نہ ہی اس کا علم ہے کہ اس حکم کو استقرار حاصل ہوگیا پھر اس پر نسخ کا حکم وارد ہوا۔ اس لئے اب یوں سمجھ لیا جائے گا کہ یہ تمام آیات ایک ساتھ نازل ہوئیں اور ان کے ضمن میں نازل ہونے والے احکام اسی طرح ترتیب دیئے گئے جس طرح ان پر عمل کرنے کی ضرورت پڑی اور خاص طورپر عام کی بنائی گئی۔- حضرت ابن عباس (رض) سے اس آیت میں نسخ کی ایک اور وجہ مروی ہے اس کی روایت حسین بن حسن نے عطیہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے کہ والمطلقات یتربصن بانفسھن ثلثۃ قروء) تا قول باری وبعولتھن احق بردھن فی ذلک) کے متعلق فرمایا کہ جب کوئی شخص اپنی بیوی کو طلق دے دیتا تو وہ اسے واپس اپنی بیوی بنا لینے کا سب سے بڑھ کر حق رکھتا خواہ اس نے تین طلاق ہی کیوں نہ دی ہوں۔ اس چیز کو قول باری یایھا الذین امنو اذا انکحتم المومنت ثم طلقتموھن من قبل ان تمسوھن فمالکم علیھن من عدۃ تعتدونھا فمتعوھن وسرحوھن سراحاً جمیلاً ۔ اے ایمان والو جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرو پھر تم انہیں طلاق دے دو قبل اس کے کہ تم نے انہیں ہاتھ لگایا ہو تو تمہارے لئے اس کے بارے میں کوئی عدت نہیں جسے تم شمار کرنے لگو۔ انہیں کچھ مال دے دو اور انہیں خوبی کے ساتھ رخصت کر دو ) ۔- ضحاک بن مزاحم سے مروی ہے کہ والمطلقات یتربصن بانفسھن ثلثۃ قروء) کے نزول سے قبل مطلقات کی عدت تین ماہ تھی پھر اس آیت سے یہ منسوخ ہوگئی اور تین قروء مقرر ہوئی پھر اس حکم سے غیر مدخول بہا کا حکم مستثنیٰ ہوگیا۔ استثناء کی آیت یہ ہے اذانکحتم المومنات ثم طلقتموھن من قبل ان تمسوھن فمالکم علیھن من عدۃ تعتدوانھا) اس سلسلے میں ایک روایت اور بھی ہے اس کی روایت امام مالک نے ہشام بن عروہ سے اور انہوں نے اپنے والد عروہ سے کہ ایک شخص جب اپنی بیوی کو طلاق دے دیتا پھر عدت گزرنے سے پہلے وہ رجوع کرلیتا تو اسے رجوع کرنے کی اجازت ہوتی خواہ اس نے اسے ہزار بار طلاق کیوں نہ دی ہو۔ ایک شخص نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی جب اس کی عدت کی مدت کا اختتام قریب ہوگیا تو اس نے رجوع کرلیا اور اس کے بعد پھر طلاق دے دی اور ساتھ ہی یہ کہا کہ ” بخدا میں تجھے کبھی اپنے پاس نہیں بلائوں گا اور نہ ہی کبھی تیرے ساتھ تخلیہ کروں گا “۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی : اس دن سے لوگوں نے نئے سرے سے طلاق کا حساب شروع کیا خواہ اس سے پہلے انہوں نے طلاق دی تھی یا نہیں دی تھی۔ شیبان نے قتادہ سے قول باری ولبعولتھن احق بردھن فی ذلک) کے متعلق مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے تین قروء کے متعلق فرمایا پھر یہ فرمایا کہ طلاق دو مرتبہ ہوتی ہے ہر دفعہ کے لئے ایک قروء ہے۔ اس آیت نے ماقبل کی تمام آیات کو منسوخ کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے طلاق کی حد تین مقرر کردی اور شوہر کو اسے رجوع کے ذریعے دوبارہ بیوی بنا لینے کا سب سے بڑھ کر حق دار قرار دیا بشرطیکہ اس نے تین طلاقیں نہ دی ہوں۔ واللہ اعلم بالصواب۔- سابقہ آیت کی تفسیر ختم ہوئی۔- ۔۔۔۔- آیت 229 کی تفسیر :- طلاق کی تعداد - قول باری ہے الطلاق مرتان فامساک بمعروف اوتسریح باحسان، طلاق دو بار ہے یا تو پھر معروف طریقے سے اسے روک لیا جائے یا بھلے طریقے سے اسے رخصت کردیا جائے) ۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں اس آیت کے معنی میں کئی وجوہ بیان کئے گئے ہیں ایک یہ کہ آیت میں اس طلاق کا بیا ن ہے جس میں رجوع کرنے کی گنجائش رہتی ہے۔ یہ بات عروہ بن الزبیر اور قتادہ سے منقول ہے۔ دوسری یہ کہ اس میں طلاق سنت کو بیان کیا گیا ہے جس کی لوگوں کو ترغیب دی گئی ہے۔ یہ بات حضرت ابن عباس (رض) اور مجاہد سے منقول ہے۔ تیسری یہ کہ اس میں یہ حکم ہے کہ جب کوئی شخص اپنی بیوی کو تین طلاقیں دینا چاہے تو اسے چاہیے کہ یہ طلاقیں الگ الگ کر کے دے اس آیت میں دو کا حکم دیا گیا ہے اور اس کے بعد آگے تین طلاقوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ جن لوگوں کا یہ قول ہے کہ یہ اس طلاق کا ذکر ہے جس کے ساتھ رجوع کرنے کی گنجائش باقی رہتی ہے تو اگرچہ طلاق کے ذکر کے فوراً بعد رجوع کا ذکر ہوا ہے لیکن اس کا ظاہر اس پر دلالت کرتا ہے کہ یہاں مباح طلاق کو بیان کیا گیا ہے۔ اس کے سوا جو ہے وہ ممنوع ہے اس کے ساتھ ہی اس کا حکم بھی جب شوہر اسے مسنون طریقے سے بیوی کو دے۔ اس کے فوراً بعد رجوع کا ذکر کر کے بیان کردیا گیا ہے۔ اس بات کی دلیل کہ قول باری کا مقصد طلاق کی تفریق کا حکم دینا اور تین سے کم طلاقوں کی صورت میں رجوع کا حکم بیان کرنا ہے۔- یہ قول باری ہے الطلاق مرتان۔ یہ لامحالہ طلاقوں کی تفریق کا تقاضا کرتا ہے کیونکہ اگر وہ اسے دو طلاقیں ایک ساتھ دے دیتا تو یہ کہنا درست نہیں ہوتا کہ اس نے دو دفعہ طلاق دی ہے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص کسی کو دو درہم دے دے تو یہ کہنا درست نہیں ہے کہ اس نے دودفعہ اسے درہم دیئے ہیں یہ قول اسی وقت درست ہوگا جب وہ دومرتبہ درہم دینے کا عمل کرے۔ اس بیان کی روشنی میں اگر لفظ سے مقصود حکم کا تعلق بیک وقت دو طلاق دینے کے بعد رجوع کی گنجائش باقی رہنے کے ساتھ ہوتا تو اس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ قول باری میں لفظ (مرتان) کے ذکر کا کوئی فائدہ نہ ہوتا کیونکہ یہ حکم بھی اس وقت ثابت ہوجاتا جب وہ ایک ہی دفعہ دو طلاق دے دیتا اس لیے یہ بات ثابت ہوگئی کہ مرتان کا ذکر کر کے یہ حکم دیا گیا کہ وہ دو مرتبہ طلاق دے اور اسے دو طلاق ایک مرتبہ دینے سے روک دیا گیا ہے۔ ایک اور پہلو سے دیکھئے، اگر لفظ میں تفریق اور عدم تفریق دونوں صورتوں کا احتمال ہوتا تو پھر بھی یہ ضروری ہوتا کہ اسے دو فائدوں کے ایجاب کے حکم کے اثبات پر محمول کیا جائے۔ ایک فائدہ شوہر کو طلاقوں کی تفریق کا حکم جب وہ دو طلاق دینے کا کرے اور دوسرا رجوع کی گنجائش کا حکم جب وہ دونوں طلاقیں الگ الگ دے۔ اس طرح یہ لفظ دونوں فائدوں کا احاطہ کرے گا۔ قول باری الطلاق مرتان، کا ظاہر اگرچہ خبر ہے لیکن یہ معنی میں امر ہے جس طرح یہ قول باری ہے : اور مائیں اپنے بچوں کو مکمل دو سال دودھ پلائیں گی) ۔ اسی طرح کی اور مثالیں جن میں صیغہ تو خبر کا ہے لیکن معنی امر کا دے رہا ہے اس بات کی دلیل کہ الطلاق مرتان امر ہے خبر نہیں، یہ ہے کہ اگر یہ خبر ہوتا تو اس کا مخبر (جس کو خبر دی جا رہی ہے) اس حال میں پایاجاتا جس کی خبر دی جا رہی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی خبریں اپنے مخبرات کے وجود سے جدا نہیں ہوتیں۔ اب جب ہم نے یہ دیکھا کہ لوگ ایک طلاق بھی دیتے ہیں اور ایک ساتھ تین طلاقیں بھی تو اس صورت میں اگر الطلاق مرتان، خبر کا اسم ہوتا تو وہ ان تمام صورتوں پر مشتمل ہوتا جو اس کے تحت آسکتی تھیں۔ پھر ہم نے یہ دیکھا کہ لوگوں میں سے ایسے بھی ہیں جو اس طریقے سے طلاق نہیں دیتے جس کا ذکر آیت میں ہے تو اس سے ہمیں یہ معلوم ہوگیا کہ الطلاق مرتان۔ سے خبر کا ارادہ نہیں کیا گیا بلکہ یہ دو میں ایک بات پر مشتمل ہے یا تو اس میں طلاق کی تفریق کا حکم ہے جب ہم طلاق دینا چاہیں یا اس میں اس مسنون طلاق کے متعلق اطلاع ہے جس کی ترغیب دی گئی ہے۔ لیکن ان تمام احتمالات میں بہترین صورت یہی ہے کہ اسے امر پر محمول کیا جائے۔ اس لئے کہ یہ ثابت ہوچکا ہے کہ آیت میں حقیقت خبر مراد نہیں ہے۔ امر پر محمول کرنے کی صورت میں فقرے کا مفہوم یہ ہوگا کہ ” جب تم طلاق دینے کا ارادہ کرو تو دو مرتبہ طلاق دو “۔ یہ مفہوم اگرچہ ایجاب کا تقاضا کرتا ہے لیکن اسے دلالت کی بنا پر ندب پر محمول کیا جائے گا۔ اور یہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس قول کی طرح ہوگا جس میں آپ نے فرمایا الصلوۃ مثنیٰ مثنیٰ والتشھد فی کل رکعتین وتمسکن وخشوع، نماز دو دو رکعت کر کے پڑھی جائے اور ہر دو رکعت میں تشہد ہو، عاجزی ہو اور خشوع و خضوع ہو) یہ اگرچہ خبر کا صیغہ ہے لیکن مراد اس سے یہ حکم دینا ہ کہ نماز اس طریقے سے پڑھی جائے۔ اگر آیت کو خبر کے پیرائے میں اس پر محمول کیا جائے کہ اس سے مراد مسنون طلاق کا بیان ہے پھر بھی ایک جملے کے ذریعے دو یا تین طلاق دینے کی ممانعت پر اس کی دلالت قائم رہے گی۔ اس لئے کہ قول باری الطلاق مرتان طلاق مسنون کی تمام صورتوں پر مشتمل ہے اور اس کی کوئی صورت ایسی نہیں ہے جو اس لفظ کے تحت آنے سے رہ گئی ہو جو صورت اس سے باہر رہ جائے گی وہ خلاف سنت ہوگی۔ اس لئے یہ بات ثابت ہوگئی کہ جو شخص ایک فقرے کے ذریعے دو یا تین طلاق دے گا وہ خلاف سنت طلاق دینے والا قرار پائے گا۔- یہ آیت کئی اور معانی کی دلالت پر بھی مشتمل ہے۔ ایک یہ کہ جب کوئی شخص تین طلاق دینا چاہے تو اس کے لئے مسنون طریقہ یہ ہے کہ وہ تینوں طلاق الگ الگ دے دوسری یہ کہ وہ دو طلاقیں الگ الگ دو بار دے تیسری یہ کہ تین سے کم طلاقوں کی صورت میں رجوع کرنے کی گنجائش باقی رہتی ہے چوتھی یہ کہ اگر وہ حیض کے اندر دو طلاق دے دے تو یہ دونوں طلاقیں واقع ہوجائیں گی اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے واقع ہوجانے کا حکم دیا ہے۔ پانچویں یہ کہ اس آیت نے تین سے زائد طلاقوں کو منسوخ کردیا ہے جس طرح کہ حضرت ابن عباس (رض) اور دوسرے حضرات سے منقول ہے کہ لوگ جس قدر تعداد میں چاہتے طلاق دے دیتے تھے اور پھر رجوع کرلیتے تھے، اس آیت کے ذریعے انہیں تین کے اندر محدود کر کے زائد کو منسوخ کردیا گیا۔ اس آیت میں مسنون طلاق کی تعداد کے حکم پر دلالت موجود ہے لیکن اس میں طلاق دینے کے مسنون وقت کا ذکر نہیں ہے۔ یہ بات اللہ تعالیٰ نے اپنے قول فطلقوھن لعدتھن) میں بیان کی ہے نیز حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی اس کی وضاحت فرمائی ہے۔ حضرت ابن عمر (رض) نے جب اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی تو آپ نے ان سے فرمایا ماھکذا امرواللہ انما طلاق العدۃ ان تطلقھا طاھواً من غیر جماع اوحاملاً وقداستبان حملھا فتلک العدۃ التی امر اللہ ان یطلق لھا النساء اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس طرح طلاق دینے کا حکم نہیں دیا ہے۔- عدت پر طلاق دینے کا معنی تو یہ ہے کہ تم حالت طہر میں طلاق دو جس میں ہمبستری نہ ہوئی ہو یا حمل کی حالت میں طلاق دو جبکہ حمل ظاہر ہوچکا ہو۔ یہی وہ عدت ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو طلاق دینے کا حکم دیا ہے) اس وضاحت کی روشنی میں یہ بات معلوم ہوگئی کہ طلاق سنت دو باتوں کے ساتھ مشروط ہے اول تعداد دوم وقت۔ جہاں تک تعداد کا تعلق ہے اس کے بارے میں یہ حکم ہے کہ ایک طہر میں ایک سے زائد طلاق نہ ہو۔ اور جہاں تک وقت کا تعلق ہے تو وہ حالت طہر ہو جس میں ہمبستری نہ ہوئی ہو یا حمل کی حالت ہو اور حمل ظاہر ہوچکا ہو۔ اقراء یعنی حیض والی عورتوں کو طلاق سنت دینے میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ طلاق کی بہترین صورت یہ ہے کہ جب عورت حیض سے پاک ہوجائے تو ہمبستری سے قبل اسے طلاق دے دے پھر اس سے الگ رہے یہاں تک کہ اس کی عدت گزر جائے اور اگر اسے تین طلاق دینا چاہے تو ہر طہر پر جماع سے پہلے ایک طلاق دے دے یہی سفیان ثوری کا قول ہے۔ امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ ہمیں ابراہیم نخعی کے واسطے سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کی امر سے بات پہنچی ہے کہ وہ حضرات ایک سے زائد طلاق نہ دینے کو پسند کرتے تھے حتی کہ اس کی عدت گزر جاتی۔ اور یہ صورت ان کے نزدیک ہر طہر میں ایک طلاق کے حساب سے تین طلاق دینے سے افضل تھی۔ امام مالک، عبدالعزیز بن سلمہ الماحبشون، لیث بن سعد، حسن بن صالح اور اوزاعی کا قول ہے کہ طلاق سنت یہ ہے کہ حالت طہر میں جماع سے پہلے ایک طلاق دے دے۔ یہ حضرات تین طہر میں تین طلاق دینے کو ناپسند کرتے ہیں۔ ایک طلاق دینے کے بعد اگر شوہر رجوع کرنا نہ چاہے تو اس سے علیحدہ رہے حتی کہ ایک طلاق کی عدت گزر جائے۔- مزنی کی روایت کے مطابق امام شافعی کا قول ہے کہ شوہر پر تین طلاق دینا حرام نہیں ہے۔ اگر شوہر حالت طہر میں جماع کئے بغیر بیوی سے کہے کہ تجھے تین طلاق سنت ہے تو اس پر تین طلاق سنت واقع ہوجائے گی۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ ہم امام شافعی کے قول کے جائزے سے بات شروع کرتے ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ ہم نے جس آیت کی تلاوت کی ہے اس کی دلالت اس قول کے بطلان پر ظاہر ہے۔ اس لئے کہ آیت اس حکم پر مشتمل ہے کہ دو طلاقیں دو بار الگ الگ دی جائیں۔ اب جو شخص ایک ہی دفعہ میں دو طلاقیں دے دے گا وہ آیت کے حکم مخالف عمل کرے گا۔ اس پر جو چیز دلالت کرتی ہے وہ یہ قول باری ہے ولاتحرمواطیبات مااحل اللہ لکم، اور تم ان پاکیزہ چیزوں کو اپنے لئے حرام نہ کرو جو اللہ نے تمہارے لئے حلال کردی ہیں) ۔- ظاہر آیت تین طلاقوں کی تحریم کا تقاضا کرتا ہے کیونکہ اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے جو طیبات حلال کردی ہیں ان کی تحریم لازم آتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ آیت میں وارد لفظ طیبات کا عموم بیویوں کو بھی شامل ہے تو جواب یہ ہے کہ شامل ہے اور اس کی دلیل یہ قول باری ہے فانکحوا ماطاب لکم من النساء جو عورتیں تمہیں اچھی لگیں ان میں سے نکاح کرلو) اس عموم کے پیش نظر طلاق کی ممانعت ہوگئی جو ان عورتوں کی تحریم کا موجب ہے۔ اگر وقت سنت یعنی طہر میں تین طلاقوں اور غیر مدخول بہا (وہ بیوی جس کے ساتھ شوہر کی ہمبستری نہ ہوئی ہو) پر ایک طلاق واقع کرنے کی اباحت پر دلالت نہ ہوتی تو آیت سرے سے ہی طلاق کی ممانعت کا تقاضا کرتی۔ ایک اور جہت سے دیکھئے۔ اس بات پر کتاب اللہ کی دلیل کہ اللہ تعالیٰ نے اس عورت کے لئے جس پر عدت واجب ہوتی ہے ابتدائے طلاق کی اباحت کو رجوع کے ذکر کے ساتھ مقرون کردیا ہے یہ قول باری ہے الطلاق مرتان فامساک بمعروف اوتسریج بلسان) نیز یہ قول باری والمطلقات یتربصن بانفسھن ثلثۃ قروء) ۔ نیز یہ قول باری واذا طلقتم النساء فبلغن اجلھن فاسمکوھن بمعروف اوفادقوھن بمعروف) ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے عدت گزارنے والی عورتوں کے لئے شروع کی جانے والی طلاق کی اباحت کو رجعت کے ذکر کے ساتھ مقرون کردیا۔ ان آیات سے طلاق کا حکم اخذ کیا جاتا ہے۔ اگر یہ آیتیں نہ ہوتیں تو طلاق احکام شرع میں سے نہ ہوتی۔ اس بنا پر ہمارے لئے یہ جائز ہی نہیں ہے کہ سنت طلاق کا اثبات اس شرط یعنی شرط جواز رجعت اور اس وصف کے بغیر کسی اور صورت میں کریں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے (من ادخل فی امرنا مالیس منہ فھورد) جو شخص ہماری شریعت میں کوئی ایسی چیز داخل کرے جو اس میں سے نہ ہو اسے ٹھکرا دیا جائے گا) اس ارشاد میں کم سے کم جو بات کہی گئی ہے وہ ان آیات میں دیئے گئے حکم کی خلاف ورزی کی ممانعت ہے۔ وہ حکم یہ ہے کہ ابتدائی طور پر دی جانے والی طلاق ایسی صورت کے ساتھ مقرون ہو جو رجعت کو واجب کر دے۔ سنت کی جہت سے اس پر وہ روایت دلالت کرتی ہے جو ہمیں محمد بن بکر نے بیان کی، انہیں ابودائود نے انہیں القعنبی نے مالک سے انہوں نے نافع سے، انہوں نے حضرت ابن عمر (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں حضرت ابن عمر (رض) نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی۔ حضرت عمر (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کے متعلق استفسار کیا آپ نے ارشاد فرمایا : اس سے کہو کو رجوع کرلے پھر اسے روکے رکھے یہاں تک کہ وہ پاک ہوجائے پھر اسے حیض آجائے پھر پاک ہوجائے پھر اس کے بعد اگر چاہے اپنے عقد میں رکھے اور اگر چاہے تو جماع کرنے سے پہلے طلاق دے دے یہی وہ عدت ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو طلااق دینے کا حکم دیا ہے) ۔- ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی، انہیں ابودائود نے انہیں احمدبن صالح نے، انہیں غنبہ نے، انہیں یونس نے ابن شہاب سے، انہوں نے کہا کہ مجھے سالم بن عبداللہ نے اپنے والد حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے بتایا کہ انہوں نے حیض کی حالت میں اپنی بیوی کو طلاق دے دی تھی۔ حضرت عمر (رض) نے اس بات کا تذکرہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کیا جسے سن کر آپ کو غصہ آگیا پھر آپ نے فرمایا : سالم نے زہری کی روایت میں اور نافع مالک کی روایت میں حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے نقل کیا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں یہ حکم دیا کہ رجوع کرلیں، پھر اسے چھوڑے رکھیں یہاں تک کہ وہ پاک ہوجائے پھر اسے حیض آجائے پھر وہ پاک ہوجائے پھر چاہے تو اسے عقد زوجیت میں رکھیں یا چاہیں تو طلاق دے دیں۔ عطاء خراسانی نے حسن کے واسطے سے حضرت ابن عمر (رض) سے اس طرح کی روایت کی ہے۔ یونس : انس بن سرین، سعیدبن جبیر اور زید بن اسلم نے حضرت ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں رجوع کرلینے کا حکم دیا یہاں تک کہ وہ حیض سے پاک ہوجائے پھر فرمایا کہ وہ چاہیں تو طلاق دے دیں اور چاہیں توعقد زوجیت میں رکھیں پہلی روایتیں اولیٰ ہیں کیونکہ ان میں زیادہ تفصیل ہے۔ اب تو یہ واضح ہے کہ یہ تمام روایتیں ایک ہی واقعہ کے سلسلے میں مروی ہیں۔- البتہ بعض راویوں نے انہیں ہو بہو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے الفاظ میں بیان کیا ہے اور بعض نے تفصیل کو غفلت یا نسیان کی بنا پر حذف کردیا ہے۔ اس لئے تفصیل والی روایت پر عمل کرنا واجب ہے جس میں حیض کا ذکر بھی ہے کیونکہ یہ بات تو ثابت نہیں ہوئی کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ اس طرح بیان کیا ہو کہ اس میں تفصیل و اضافہ کا ذکر نہ ہو اور ایک دفعہ اس کا ذکر اس تفصیل کے ساتھ مقرون کر کے کیا ہو۔ اگر ہم اس روایت کو اس طرح لیں گے تو اس سے یہ ثابت ہوگا کہ آپ نے مفصل اور مختصر ارشاد دو الگ الگ موقعوں پر کیا ہے لیکن چونکہ ہمیں اس کا علم نہیں ہے اس لئے اس کا اثبات بھی جائز نہیں اور اگر یہ مان بھی لیں کہ شارع علیہ الصواۃ والسلام نے یہ ارشاد دوالگ الگ حالتوں کے متعلق کیا ہے تو اب یا تو ان دونوں میں مقدم وہ ارشاد ہے جس میں اضافہ اور تفصیل ہے اور اضافہ و تفصیل کے بغیر جو ارشاد ہے وہ بعد کا ہے۔ اس صورت میں بعد والی روایت تفصیل والی روایت کے لئے ناسخ بن جائے گی۔ یا یہ کہ تفصیل والی روایت بعد کی ہے اس صورت میں وہ مختصر روایت کے لئے ناسخ بن کر تفصیل اور اضافہ کو ثابت کر دے گی۔ اب ہمارے لئے ان دونوں کے تقدم و تاخر کو جاننے کے لئے ان دونوں کے درود کی تاریخ کے علم کا کوئی ذریعہ نہیں ہے خاص طور پر جبکہ تمام راویوں نے ایک ہی واقعہ کی طرف اشارہ کیا ہے جب تقدم و تاخر کی تاریخ کا علم نہ ہو تو اضافے اور تفصیل کو دو وجوہ سے ثابت کرنا واجب ہوگا۔ اول یہ کہ ہر ایسی دو باتیں جن کے تقدم و تاخر کی تاریخ کا علم نہ ہو تو اس صورت میں ان دونوں کا حکم لگانا واجب ہوگا اور ایک پر دوسرے کے تقدم کا حکم نہیں لگایا جائے گا۔ اس کی مثال ایک ساتھ ڈوب جانے والوں اور ایک ساتھ کسی عمارت کے نیچے دب کر مرجانے والوں کی ہے یا جس طرح ہم ایک شخص کی طرف کئے جانے والے دو سودوں کے متعلق کہتے ہیں جب دونوں کا ثبوت مل جائے اور ان کی تاریخوں کا علم نہ ہو تو اس صورت میں یہی حکم لگایا جائے گا کہ یہ دونوں سودے اکٹھے ہی ہوئے ہیں۔ اسی طرح ان دونوں روایتوں کی کیفیت ہے کہ ان دونوں کا ایک ساتھ حکم لگانا واجب ہے کیونکہ تقدم و تاخر کی تاریخوں کا علم نہ ہوسکا اس لئے حکم کا ثبوت اس اضافے اور تفصیل کے ساتھ مقرون ہوگا جو اس میں مذکور ہیں۔ اس کی ایک اور وجہ بھی ہے وہ یہ کہ یہ چیز ثابت ہوگئی ہے کہ شارع (علیہ السلام) نے اس اضافے اور زائد بات کا ذکر کیا ہے اسے ثابت رکھا ہے اور اس کے اعتبار کا اپنے اس قول مرہ فلیراجعھاعھد حتی تطھر ثم تحیض ثم تطھرثم طلقھا ان شاء) سے حکم دیا ہے۔ کیونکہ اضافے کی روایتیں صحیح اسناد سے مروی ہیں اگر یہ اضافہ ایک وقت میں ثابت ہو اور اس میں یہ احتمال ہو کہ یہ اس روایت کی وجہ سے منسوخ ہوگیا ہو جس میں یہ اضافہ محذوف ہے اور یہ بھی احتمال ہو کہ منسوخ نہ ہوا ہو تو ہمارے لئے احتمال کی بنا پر نسخ ثابت کرنا جائز نہیں ہوگا اور اضافے کے حکم کا باقی رہنا واجب ہوگا۔ جب یہ بات ثابت ہوگئی اور دوسری طرف شارع (علیہ السلام) نے حیض کے اندر دی جانے والی طلاق اور اس دوسری طلاق کے درمیان فرق کیا جسے حیض کے ساتھ دینے کا حکم دیا تھا اور اسے اس طہر میں دینے کی اجازت نہی دی جو حیض کے بعد آیا تھا تو اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ ہر دو طلاقوں کے درمیان ایک حیض کے ذریعے فصل کرنا واجب ہے اور دو طلاقوں کو ایک طہر میں اکٹھا کردینا جائز نہیں ہے۔- اس لئے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جس طرح طہر میں طلاق دینے کا حکم دیا تھا اور حیض میں طلاق دینے سے روکا تھا اسی طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ حکم بھی دیا تھا کہ وہ اس طہر میں طلاق نہ دیں جو اس حیض کے بعد آیا تھا جس میں انہوں نے طلاق دی تھی ان دونوں حکموں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ امام ابوحنیفہ سے مروی ہے اگر کوئی شخص حالت طہر میں طلاق دے دے اور پھر اس میں رجوع بھی کرلے تو اس کے لئے جائز ہے کہ اسی طہر میں ایک اور طلاق بھی دے دے۔ اس طرح امام ابوحنیفہ نے اس اضافے اور تفصیل والی روایت کی خلاف ورزی کی جس کی تاکید کی تم کوشش کر رہے ہو۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ہم نے اس مسئلے کا ذکر اپنی اصول فقہ کی کتاب میں کیا ہے اور ہم نے وہاں بتایا ہے کہ امام ابوحنیفہ نے اس طہر میں اس وقت تک دوطری طلاق دینے سے روک دیا تھا خواہ شوہر نے رجوع ہی کیوں نہ کرلیا ہو جب تک ان دونوں طلاقوں میں ایک حیض کے ذریعے فصل نہ ہوجائے۔ یہی صحیح روایت ہے رہ گئی دوسری روایت جس کا ذکر سوال کے اندر کیا گیا ہے تو اس پر عملدرآمد نہیں ہوتا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اکٹھے تین طلاق دینے کی نہی ایسے واضح الفاظ میں منقول ہے کہ تاویل کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ گئی ہے ہمیں یہ روایت ابن قانع نے بیان کی، انہیں محمد بن شاذان الجوہری نے، انہیں معلی بن منصور نے، انہیں سعید بن زریق نے، انہیں عطاء الخراسانی نے حسن سے، انہیں حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نے بیان کیا کہ میں نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں ایک طلاق دی تھی پھر میں نے اس کے بعد باقی دو قروء میں دو اور طلاقیں دینے کا ارادہ کرلیا۔ یہ خبر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی پہنچی اس پر آپ نے فرمایا : اے عمر کے بیٹے اللہ نے تمہیں اس طرح کرنے کا حکم تو نہیں دیا تھا تم نے سنت کا طریقہ چھوڑ دیا ہے۔ سنت کا طریقہ یہ ہے کہ تم طہر کی حالت کا انتظار کرتے اور پھر ہر قرء یعنی طہر پر ایک طلاق دیتے) پھر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے رجوع کرلینے کا حکم دیا چناچہ میں نے رجوع کرلیا پھر فرمایا کہ جب وہ حالت طہر میں آجائے تو اس وقت طلاق دے دو یا عقد زوجیت میں باقی رکھو۔ اس پر میں نے عرض کیا کہ آپ کا کیا ارشاد ہے ؟ اگر میں اسے تین طلاق دے دوں تو مجھے رجوع کرنے کی گنجائش باقی رہے گی یہ سن کر آپ نے نفی میں جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ ” وہ بائن ہوجائے گی اور اس طرح طلاق دینا معصیت کی بات ہوگی “۔ اس حدیث میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے واضح طور سے فرمایا کہ تین طلاق معصیت ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ حضرت ابن عمر (رض) کے واقعہ کی تمام روایتوں میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب طہر کا ذکر فرمایا جو کہ طلاق سنت واقع کرنے کا وقت ہے تو یہ بھی فرمایا ثم لیطلقھا ان شاء، پھر اگر چاہے تو اسے طلاق دے دے) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تین یا اس سے کم کی تخصیص نہیں کی تو اس سے یہ ثابت ہوا کہ آپ کا یہ حکم ایک ساتھ دو یاتین طلاق دینے کے اطلاق پر محمول ہوگا۔- اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ہمارے سابقہ بیان سے جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ دو طلاقوں کے درمیان ایک حیض کے ذریعے فصل کرنا واجب ہے پھر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایجاب کے اس حکم پر اپنے قول ثم لیطلقھا ان شاء) کو عطف کیا، تو اس سے ہمیں یہ معلوم ہوگیا کہ آپ نے اپنے اس قول سے ایک طلاق کا ارادہ کیا ہے۔ ایک سیزائد کا نہیں کیونکہ یہ بات محال ہے کہ ابتداء میں جس صورت کو آپ نے دو طلاقوں کے درمیان حیض کے ذریعے فصل کر کے واجب کردیا تھا اور جس کا مقتضیٰ یہ تھا کہ دو طلاقوں کو جمع کرنے کی ممانعت ہوگئی تھی۔ اسی کو منسوخ کرنے کا آپ پھر ارادہ کرلیں کیونکہ یہ جائز ہی نہیں ہے کہ ایک ہی خطاب میں ایک حکم کا ناسخ اور منسوخ یعنی وہ حکم دونوں ایک ساتھ مذکور ہوں۔ اس لئے کہ نسخ اسی وقت درست ہوتا ہے جبکہ حکم کو استقرار حاصل ہوجائے۔- اور اس پر عمل کی قدرت پیدا ہوجائے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ ایک ہی خطاب میں یہ کہنا درست نہیں کہ ” میں نے تمہارے لئے درندے جائز کردیئے ہیں اور میں نے ان کی ممانعت بھی کردی ہے “۔ اس لئے کہ خطاب کی یہ صورت ایک بےکار مشغلہ ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات بےکار مشغلے سے مبرا اور منزہ ہے۔ جب یہ بات ثابت ہوگئی تو یہ معلوم ہوگیا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد ثم لیطلقھا ان شاء) اس حکم پر مبنی ہے جو ابتدائے خطاب میں گزر چکا ہے اور وہ حکم یہ ہے کہ ایک طہر میں دو طلاقیں جمع نہ کی جائیں……نیز اگر یہ لفظ ایک طہر میں دو طلاقوں کو جمع کرنے کی ممانعت کی دلالت سے خالی ہوتا تو پھر بھی یہ اس کی اباحت پر دلالت نہ کرسکتا کیونکہ اس لفظ کا ورود علی الاطلاق ہوا ہے اور ماقبل میں ذکر کردہ امور کے تذکرے سے خالی ہے۔ اس لئے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قول (ثم لیطلقھا ان شاء) کے الفاظ ایک سے زائد طلاق کا تقاضا نہیں کرتے۔ یہی بات ہم ان تمام اوامر کے متعلق کہتے ہیں جو اس امر کی نظائر ہیں اور وہ بات یہ ہے کہ اس قسم کا امراسم کے تحت آنے والے تمام مدلولات میں کم سے کم کا تقاضا کرتا ہے اور کسی دلالت کی بنا پر اس کا رخ اکثر کی طرف موڑا جاتا ہے۔ مثلاً کوئی شخص کسی سے کہے کہ ” میری بیوی کو طلاق دے دو “۔ اب اس شخص کے لئے اس امر کے تحت جو طلاق دینا جائز ہوگیا ہے اس کی تعداد ایک ہے۔ ایک سے زائد نہیں۔ اسی لئے ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ اگر کوئی آقا اپنے غلام سے کہے کہ ” نکاح کرلو “۔ تو اس امر کے تحت وہ صرف ایک عورت سے نکاح کرسکتا ہے۔ اگر اس نے دو سے نکاح کر لیاتو کسی ایک سے بھی نکاح درست نہیں ہوگا۔ اِلا یہ کہ آقا کہے کہ میں نے دو کی نیت کی تھی، اسی طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ قول ( فلیطلقھا ان شاء) صرف ایک طلاق کا مقتضی ہے اور ایک سے جو زائد ہوگی کا ثبوت کسی دلالت کی بنا پر ہی ہوگا۔ ہم نے کتاب و سنت سے یہ دلالت مہیا کردی ہے کہ جو ایک ہی فقرے میں دو یا تین طلاقوں کو جمع کرنے کی ممانعت کی وضاحت کرتی ہے۔ اس مسئلے پر سلف کا اتفاق بھی منقول ہے۔ ان میں سے ایک وہ روایت ہے جو اعمش نے ابو اسحق سے، انہوں نے ابو الاحرص سے، انہوں نے عبداللہ (رض) سے کی ہے کہ ” طلاق سنت یہ ہے کہ حالت ظہر میں جس میں ہمبستری نہ ہوئی ہو ایک طلاق دے پھر جب حیض آ جائے اور حیض سے فارغ ہو کر پاک ہوجائے تو دوسری طلاق دیدے۔ ابراہمی نخعی سے بھی اسی قسم کی روایت ہے۔ زہیر نے ابو اسحاق سے ، انہوں نے ابوالاحوص سے اور انہوں نے حضرت ابوعبداللہ (رض) سے روایت کی ہے کہ حقیقت میں جو طلاق ہے وہ یہ ہے کہ ہر طہر ایک طلاق دے دے اور جماع نہ کرے۔ اگر رجوع کرنے کا ارادہ ہوجاتے تو رجوع کرلے اور دو آدمیوں کو اس کا گواہ بنا لے اور اگر دوسری مرتبہ دوسری طلاق دے تو بھی اسی طرح کرے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ( الطلاق مرقان) ۔- ابن سیرین نے حضرت علی (رض) سے روایت کی ہے کہ اگر لوگ طلاق کے درست طریقے کو اختیار کرلیتے تو کوئی شخص بھی اپنی بیوی کو طلاق دے کر نادم نہ ہوتا۔ وہ درست طریقہ یہ ہے کہ حالت طہر میں جماع کیے بغیر ایک طلاق دے دے۔ اگر رجوع کرنے کا ارادہ ہوجائے تو رجوع کرلے اور اگر اس کے راستے سے ہٹ جانے کا ارادہ ہو تو ہٹ جائے۔ ہمیں محمد بن بکر نے، انہیں ابوائود نے ، انہیں حمید بن مسعدہ نے ، انہیں اسماعیل نے، انہیں ایوب نے عبداللہ بن کیثر نے مجاہد سے روایت کی کہ میں عبداللہ بن عباس (رض) کے پاس تھا ایک شخص آیا اور کہنے لگا کہ میں نے اپنی بیوی کو تین طلاق دے دی ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) یہ سن کر خاموش رہے۔ میں نے یہ سمجھا کہ شاید آپ اس کی بیوی کو اس کی طرف لوٹا دیں گے۔ پھر آپ یوں گویا ہوئے ” تم میں سے کوئی حماقت کر بیٹھتا ہے پھر آوازیں دیتا ہے، ابن عباس (رض) ذرا میری مدد کرنا، - حالانکہ اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے (ومن یتق اللہ یجعل لہ مخرجا، اور جو شخص اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے گا اللہ تعالیٰ اس کے لیے کوئی نہ کوئی سبیل پیدا فرما دے گا) “۔ پھر اس شخص سے مخاطب ہو کر فرمای : ” تو نے تقویٰ اختیار نہیں کیا اب تیرے لیے مجھے کوئی سبیل نظر نہیں آرہی ہے تو نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور اس کے نتیجے میں تیری بیوی تیرے ہاتھ سے نکل گئی، وہ اب بائن ہوچکی ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ( یایھا النبی اذا طلقتم النسآء فطلقو ھن بعدتھن ، اے نبی ان سے کہہ دو کہ تم عورتوں کو طلاق دینے لگو تو ان کی عدت پر طلاق دو ) یعنی عدت سے قبل۔ - حضرت عمران بن حصین (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص نے ان سے آ کر کہا کہ میں نے اپنی بیوی کو تین طلاق دے دی ہے، یہ سب کر حضرت عمران (رض) نے فرمایا : ” تو اپنے رب کا گنہگار ہوا اور تیری بیوی تجھ پر حرام ہوگئی “۔ ابوقلابہ کہتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) سے ایک شخص کے متعلق مسئلہ دریافت کیا گیا جس نے اپنی بیوی کو ہمبستری سے قبل تین طلاق دے دی تھی، حضرت عمر (رض) نے فرمایا : ” جس شخص نے ایسا کیا میرا خیال ہے کہ وہ گنہگار ہوا “۔ ابن عون نے حسن بصری سے روایت کی ہے کہ لوگ ایسے شخص کو سخت سزا دیتے تھے جو اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاق دیتا “ حضرت ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ جب کوئی شخص آپ کے پاس لایا جاتا جس نے ایک مجلس میں اپنی بیوی کو تین طلاق دے دی ہو تو آپ اس کی خوب پٹائی کرتے اور پھر میاں بیوی کو علیحدہ کردیتے، ان تمام صحابہ کرام سے ایک ساتھ تین طلاقوں کی ممانعت ثابت ہوگئی اور اس کے خلاف کسی صحابی سے کوئی روایت منقول نہیں۔ اس طرح یہ اجماع ہوگیا۔ اگر یہ کہا جائے کہ حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) نے بیماری میں اپنی بیوی کو تین طلاق دے دی تھی اور کسی نے اس پر نکتہ چینی نہیں کی تھی۔- اگر ایک ساتھ تین طلاق دینا ممنوع ہوتا حضرت عبدالرحمن (رض) کبھی ایسا نہ کرتے، اور دوسرے صحابہ کرام کی طرف سے ان پر نکتہ چینی نہ ہونا اس پر دلالت کرتا ہے کہ یہ بات ان کے لیے درست تھی۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ مذکورہ بالا واقعہ میں کہیں یہ ذکر نہیں کہ حضرت عبدالرحمن (رض) نے ایک فقرے میں تین طلاقیں دی تھیں بلکہ اس واقعہ کا روای کا یہ کہنا چاہتا تھا کہ حضرت عبدالرحمن (رض) نے تین طلاق اس طریقے سے دی تھی جو ان کے لیے جائز تھا۔ یہ بات ان روایات میں بیان کی گئی ہے جنہیں راویوں کی ایک جماعت نے زہری سے نقل کیا ہے، زہری نے طلحہ بن عبداللہ بن عوف سے روایت کی ہے کہ حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) نے اپنی بیوی تماضر کو دو طلاقیں دیں پھر اپنی بیماری کے دوران بیوی سے کہا کہ جب تم مجھے حیض سے پاک ہونے کی اطلاع دو گی تو میں تمہیں طلاق دے دونگا۔ اس روایت میں یہ بات بیان کی گئی ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاقیں نہیں دیں۔ فاطمہ بن قیس کی روایت میں بھی اس سے ملتی جلتی بات کہی گئی ہے۔ ہمیں اس کی روایت محمد بن بکر نے کی، انہیں ابودائونے، انہیں موسیٰ بن اسماعیل نے ، انہیں ابان بن یزیر عطاء نے ، انہیں یحییٰ بن ابی کثیر نے ، انہیں ابو سلمہ بن عبدالرحمن نے کہ فاطمہ بن قیس نے ان سے بیان کیا کہ ابو حفص بن المغیرہ نے انہیں طلاق دے دی۔ حضرت خالد بن الولید اور بنو مخزوم کے چند دوسرے افراد حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آئے اور آ کر سارا ماجرا سنایا کہ ابو حفص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی ہیں اور اس کے لیے تھوڑا سا خرچ چھوڑ گیاے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ” اسے کوئی خرچ نہیں ملے گا “ ۔- راوی نے اس کے بعد بقیہ حدیث بھی بیان کردی۔ اب ایک ساتھ تین طلاق کا قائل یہ استدلال کرتا ہے کہ جب بنو مخزوم کے افراد نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ عرض کیا کہ ابو حفص نے تین طلاقیں دے دی ہیں تو آپ نے نکیر نہیں کی۔ لیکن یہ روایت ایسی ہے کہ اس میں جو بات اجمالاً بیان کی گئی ہے دوسری روایت میں اس کی تفصیل آ گئی ہے۔ محمد بن ب کرنے ہمیں یہ روایت بیان کی، انہیں ابودائود نے ، انہیں یزید بن خالد رملی نے انہیں لیث نے عقیل سے، انہوں نے ابن شہاب سے ، انہوں نے بوسلمہ سے، انہوں نے فاطمہ بنت قیس سے کہ وہ ابو حفص بن المغیرہ کے عقد میں تھیں، انہوں نے اسے تین میں آخری طلاق دے دی تھی ، پھر فاطمہ نے یہ دعویٰ کیا کہ وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں بھی گئی تھی، پھر راوی نے باقی ماندہ حدیث کی روایت کی۔- ابودائود نے کہا ہے کہ صاحل بن کیسان، ابن جریج اور شعیب بن حمزہ سب نے زہری سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔ اس روایت میں اس بات کی تفصیل آ گئی ہے جسے پچھلی روایت میں اجمالاً بیان کیا گیا تھا کہ انہوں نے فاطمہ کو تین میں سے آخری طلقا دے دی تھی، یہ روایت پہلی روایت سے اولیٰ ہے کیونکہ معاملے کی اصل حقییقت ک متعلق اطلاق دی گئی ہے جبکہ پہلی روایت میں یہ خبر دی گئی ہے کہ انہوں نے فاطمہ کو ایک ساتھ تین طلاق دے دی تھی۔ اس روایت کو اس روایت پر محمول کیا جائے گا جس میں ذکر ہے کہ انہوں نے تین طلاقیں متفرق طور پر دی تھیں۔ ہم نے کتاب و سنت اور اتفاق سلف کے جو دلائل بیان کیے ہیں ان سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ ایک ساتھ تین طلاق دینا ممنوع ہے۔ - اگر یہ کہا جائے کہ گزشتہ سطور میں ہم نے ( الطلاق مرتان) سے یہ ثابت کیا تھا کہ آیت ایک کلمہ میں دو طلاقوں کو جمع کرنے کی ممانعت پر دلالت کر رہی ہے۔ اس دلالت کے ساتھ ساتھ آیت اس بات کی بھی دلیل ہے کہ مرد کو ایک طہر میں دو طلاقیں دینے کی اجازت ہے کیونکہ آیت سے یہ نہیں معلوم ہوتا کہ دو طلاقوں کو دو طہر میں متفرق کردیا جائے آیت میں تو صرف یہ ذکر ہے کہ دو طلاقیں دو مرتبہ دی جائیں اور یہ چیز اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ ایک طہر میں دو مرتبہ دو طلاقیں دینا مباح ہوجائے۔ جب ایک طہر میں دو طلاقیں دو لفظوں کے ذریعے دینا جائز ہوگیا تو دو طلاقیں ایک لفظ کے ذریعے دینا بھی جائز ہونا چاہیے۔ اس لیے کہ کسی نے ان دونوں صورتوں میں فرق نہیں کیا ہے۔ اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ یہ بات اس وجہ سے غلط ہے کہ اگر اس کا اعتبار کرلیا جائے تو اس سے کتاب اللہ کے لفظ کو ساقط کرنا اسے سرے سے نظر انداز کرنا اور اس کے فائدے کو زائل کردینا لازم آئے گا۔- ہر ایسا قول جو لفظ کے حکم کو ختم کر رہا ہو اسے ساقط سمجھا جائے گا۔ یہ قول لفظ کے فائدے کو ساقط کرنے اور اس کے حکم کو زائل کرنے کا سبب اس طرح بنتا ہے کہ قول باری ( الطلاق مرتان) کا تقاضا تو یہ ہے کہ دو طلاقیں متفرق طور پر دی جائیں اور انہیں ایک لفظ میں اکٹھا نہ کیا جائے جیسا کہ ہم پہلے بیان کر آئے ہیں۔ لیکن اگر معترض کا یہ قول تسلیم کرلیا جائے کہ یہ دو طلاقیں ایک طہر میں متفرق طور پر دی جاسکتی ہیں تو اس کے نتیجے میں ان دونوں کو ایک فقرے میں اکھٹا کردینے کی اباحت لازم آئے گی اور اس اباحت کی صورت میں لفظ کے حکم کو ختم کردینا لازم آئے گا اور جب ایک طہر میں ان دو طلاقوں کو متفرق طور پر یا ایک ساتھ دینے پر پابندی لگا دیں گے اور دو طہر میں اس کی اباحت کردیں گے تو اس لفظ ک حکم کا رفع لازم نہیں آئے گا بلکہ اس طریقے سے بعض مواقع پر اس پر عمل کی صورت نکل آئے گی اگرچہ بعض مواقع پر نہیں نکلے گی۔ اس طرح ہمارے قول کے نتیجے میں ان دونوں طلاقوں کو دو طہر میں متفرق کردیا جائے تو لفظ کا حکم مرتفع نہیں ہوتا بلکہ اس سے لفظ کی تخصیص لازم آتی ہے۔ کیونکہ لفظ تفریق کو واجب کر رہا تھا اور سب کا اس پر اتفاق تھا کہ جب یہ تفریق لفظ کے ذریعے واجب ہوگئی تو یہ تفریق دو طہر میں ہوگی۔ اس لیے ہم نے سب کے اتفاق کی دلالت اور لفظ پر عمل کی بنا پر ایک طہر میں ان دونوں کی تفریق کی تخصیص کردی اور اس صورت کو لفظ کے حکم سے خارج کردیا۔- کیونکہ ہم جس وقت بھی ایک طہر میں اس تفریق کی اباحت کردیں گے اس کیی وجہ سے لفظ کو سرے سے ہی نظر انداز کرنا لازم آئے گا اور اس طرح طلاق کے لیے ( مرتان) کے لفظ کا ذکر اور عدم ذکر دونوں برابر ہوجائیں گے۔ اس بنا پر یہ قول قابل قبول نہیں اور اسے مسترد کیا جاتا ہے۔ جو لوگ ایک ساتھ تین طلاق کی اباحت کے قائل ہیں انہوں نے عویمر عجلانی کے واقعے سے بھی استدلال کیا ہے، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میاں بیوی کے درمیان لعان کرایا تھا جب دونوں لعان سے فارغ ہوئے تو عویمر نے کہا اس لعان کے بعد اگر ” میں اسے اپنی زوجیت میں رکھوں گا تو جھوٹا ثابت ہو جائوں گا اس لیے اسے میں تین طلاق دیتا ہوں “ ۔ اور قبل اس کے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دونوں کی علیحدگی کا اعلان کریں کہ وہ اپنی بیوی کو چھوڑ کر چلا گیا۔ اس واقعے سے استدلال کرنے والے کا کہنا یہ ہے کہ عویمر نے جب اپنی بیوی کو ایک لفظ میں تین طلاقیں دے دیں تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس پر اس کی نکیر نہیں کی جس سے اس کی اباحت کی دلیل حاصل ہوگئی۔ امام شافعی کے لیے جو اس قول کے قائل ہیں۔ اس واقعے سے استدلال کرنا درست نہیں ہوگا اس لیے کہ ان کے مسلک کے مطابق لعان کی صورت میں جب مرد لعان سے فارغ ہوتا ہے تو اس کے ساتھ علیحدگی واقع ہوجاتی ہے یعنی عورت کے لعان سے قبل، اس لیے اگر شوہر طلاق دے بھی دے تو یہ طلاق عورت کو لاحق نہیں ہوتی۔ - اس لیے محولہ بالا صورت میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایسی طلاق پر عویمر کی نکیر کیوں کرتے جو سرے سے واقع ہی نہیں ہوئی اور جس کا حکم ثابت ہی نہیں ہوا۔ اگر یہ پوچھا جائے کہ پھر تمہارے مسلک کے مطابق عویمر کے اس فعل کی کیا توجہیہ ہوگی تو اس کا جواب دیا جائے گا کہ ہوسکتا ہے کہ یہ واقعہ عدت پر طلاق دینے کے نفاذ اور ایک طہر میں دو طلاقوں کو یکجا کردینے کی ممانعت سے پہلے کا ہو۔ اس بنا پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عویمر کی نکیر نہیں کی۔ اس میں اس تاویل کی بھی گنجائش ہے کہ چونکہ لعان کی بنا پر طلاق کے بغیر ہی علیحدگی ہو کر رہنی تھی اس بنا پر طلاق کے ذریعے اس علیحدی کو لازم کرنے کے فعل کی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نکیر نہیں کی۔- ہم نے امام مالک، لیث بن سعد، اوزاعی اور الحسن بن حی کا یہ قول نقل کیا ہے ک ان حضرات کے نزدیک طلاق سنت یہ کہ شوہر بیوی کو صرف ایک طلاق دے وہ اپنی جگہ ہے لیکن متفرق طہر میں تین طلاق کی اباحت پر قول بارب ( الطلاق مرتان فامساک بمعروف اور تسریح باحسان) دلالت کر رہا ہے، اس قول باری می دو طلاقوں کی اباحت مذکور ہے۔ جب ہمارا اس پر اتفاق ہوگیا کہ ایک طہر میں دو طلاقوں کو یکجا نہ کرے تو ضروری ہوگیا کہ ان دو طلاقوں کے حکم کو دو طہر میں استعمال کیا جائے۔ دوسری طرف یہ مروی ہے کہ قول باری ( او تسریح باحسان) تیرس یطلاق کے لیے ہے اس میں گویا شوہر کو اختیار دیا گیا ہے کہ رجوع کرنے سے پہلے تیسری طلاق دے دے۔ اس پر قول باری ( یایھا النبی اذا طلقتم النسآء فطلقوھن لعدتھن) بھی دلالت کرتا ہے کیونکہ یہ عدت پر تیری طلاق کے حکم کو متضمن ہے، اس لیے کہ شارع (علیہ السلام) کے بیان کے مطابق اسے عدت کے واقات پر طلاق دی جائے۔- چناچہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے۔ ( یطلقھا طاھرا من غیر جماع او حاملاقہ استبان حملھا فتلک العدۃ لاتی امر اللہ ان تطلق لھا النساء اب جبکہ اس سے مراد اوقات طہر ہے تو یہ حکم تین طلاق کو شامل ہوگیا جیسا کہ قول باری ہے ( اقم الصلوٰۃ لدلوک الشمس) اس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ تمام ایام میں غروب آفتاب کے وقت نماز کے فعل کی تکرار کی جائے۔ اسی طرح قول باری ( فطلقوھن لعدتھن) ہے چونکہ یہ فقرہ اوقات طہر سے عبارت ہے تو یہ تمام اوقات میں طلاق کی تکرار کا مقتضی ہے نیز یہ بات ہے کہ جب شوہر کے لیے پہلے طہر میں طلاق واقع کرنا جائز ہوگیا کہ وہ پاک تھی اور ہمبستری بھی نہیں ہوئی تھی اور طہر کا زمانہ بھی ایسا تھا کہ اس میں کوئی اور طلاق واقع نہیں ہوئی تھی تو اسی علت کی بنا پر دوسرے طہر میں بھی اس لیے طلاق دینا جائز ہے۔ نیز یہ بات بھی ہے کہ جب سب کا اتفاق ہے کہ اگر اس نے رجوع کرلیا ہو تو پھر بھی دوسرے طہر میں اسے طلاق دینا جائز ہوگا تو اس سے یہ ضروری ہوگیا کہ اگر اس نے رجوع نہ کیا ہو تو اس معنی کے وجود کی بنا پر جس کی وجہ سے پہلے طہر میں طلاق واقع کرنا جائز ہوگیا تھا اب بھی طلاق دینا جائز ہوجائے ۔ کیونکہ طلاق کی اباحت اور اس کی ممانعت کے سلسلے میں رجوع کے فعل کا کوئی کردار نہیں ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر شوہر نے بیوی سے رجوع کرلیا اور پھر اسی طہر میں اس سے ہمبستری بھی کرلی تو اب طہر میں طلاق دینا اس کے لیے جائز نہیں ہوگا اور طلاق کی اباحت میں رجوع کے فعل کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔- اس بنا پر یہ ضروری ہوگیا کہ دوسرے طہر میں رجوع سے قبل کے لیے طلاق دینے کا جواز ہو جس طرح کہ رجوع نہ کرنے کی صورت میں اس کا جواز تھا۔ اگر یہ کہا جائے کہ دوسری اور تیسری طلاق کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ اگر اس نے اس سے جدائی کا ارادہ ہی کرلیا تو یہ کام ایک طلاق سے بھی چل سکتا ہے وہ اس طرح کہ ایک طلاق کی عدت گزر جانے تک اسے چھوڑے رکھے، عدت گزرنے کے ساتھ ہی تعلق ختم ہوجائے گا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ( ولا تتخذوا ایات اللہ ھزوا، اللہ کی آیات کو مذاق نہ بنائو ) دوسری طلاق کی اباحت میں خواہ رجوع کرچکا ہو یا نہ کیا ہو اور رجوع کرنے کی صورت میں طلاق کی اباحت میں اور رجوع نہ کرنے کی صورت میں ان دونوں کی مخالفت میں یہی فرق ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ دوسری اور تیسری طلاق واقع کرن کے بہت سے فوائد ہیں جو شہر کو فوری طور پر حاصل ہوسکتے ہیں اور اگر وہ یہ طلاقیں نہ دے تو اسے یہ فوائد حاصل نہیں ہوسکتے ۔ - ایک تو یہ عدت گزرنے سے پہلے تیسری طلاق کے ساتھ ہی شوہر سے اس کا تعلق منقطع ہوجائے گا اور وہ اس سے علیحدہ ہوجائے گی۔ اس دوران اگر شوہر مرگیا تو وہ میراث کی حقدار نہیں ہوگی۔ پھر اس دوران شوہر بیوی کی بہت سے نکاح کرسکتا ہے اور اس ک سوار چار بیویوں کی تعداد پوری کرسکتا ہے۔ یہ مسئلے ان حضرات کے قول کی روشنی میں بتائے جا رہے ہیں جن کے نزدیک بیوی کی عدت میں شوہر کے لیے ایسا رنا جائز ہوتا ہے۔ اس لیے دوسری اور تیسری طلاق فوائد و حقوق سے خالی نہیں ہے جو شوہر کو حاصل ہوجائیں گے۔ اس لیے یہ لغو ور ٹھکرا دئیے جانے کے قابل نہیں ہے دوسری اور تیسری طلاق کی وجہ سے شوہر کے لیے پہلی طلاق کے بعد باقی دو طلاقیں اوقات سنت میں دینا جائز ہوگیا جس طرح رجوع کرنے کی صورت میں ایسا کرنا جائز تھا۔ واللہ اعلم بالصواب ۔ - طلاق کی تعداد میں کمی پیشی مرد یعنی شوہر کے لحاظ سے ہونے کے متعلق اختلاف کا ذکر - ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ سلف اور ان کے بعد آنے والے فقہا امصار میں اس پر اتفاق ہے کہ اگر میاں بیوی دونوں مملوک ہوں تو وہ اس قول باری ( الطلاق مرتان) کے حکم میں داخل نہیں ہیں۔ اس کا اس پر بھی اتفاق ہے کہ غلامی طلاق کی تعداد میں کمی کو واجب کردیتی ہے۔ حضرت علی (رض) اور حضرت عبداللہ (رض) کا قول ہے کہ عورتوں کے لحاظ سے ہے۔ یعنی جب عورت آزاد ہوگی تو اس کی طلاقوں کی تعداد تین ہوگی خواہ اس کا شوہر آزاد ہو یا غلام، اور اگر بیوی لونڈی ہوگی تو اس کی طلاقوں کی تعداد دو ہوگی خواہ اس کا شوہر آزاد ہو یا غلام۔ امام ابو حنیفہ، ابو یوسف ، زفیر، محمد ، سفیان ثوری ، حسن بن صالح کا یہی قول ہے۔ حضرت عثمان (رض) حضرت زید بن ثابت اور حضرت ابن عباس (رض) کا قول ہے کہ طلاق مردوں کے لحاظ سے ہے یعنی شوہر اگر غلام ہو تو اسے زیادہ سے زیادہ دو طلاقیں دینے کا حق ہے خواہ اس کی بیوی آزاد ہو یا لونڈی، اور شوہر اگر آزاد ہو تو تین طلاقیں دے سکتا ہے خواہ بیوی آزاد ہو یا لونڈی۔ امام مالک اور ا ام شافعی کا ہی قول ہے۔ حضرت ابن عمر (رض) کا قول ہے کہ میاں بیوی میں سے غلامی جس کے ساتھ ہوگی اس کے لحاظ سے طلاق کی تعداد میں کمی بیشی ہوگی۔ عثمان البتی کا یہی قول ہے ۔ ہشیم نے منصور سے، انہوں نے عطاء سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ طلاق کے معاملے میں آقا کے ہاتھ میں اختیار ہے۔ خواہ غلام نے اس اجازت دی ہو یا نہ دی ہو۔ پھر حضرت ابن عباس (رض) یہ آیت پڑھتے ( ضرب اللہ مثلا عبدا مملوکا لا یقدر علی شی۔ - اللہ نے ایک مثال بیان کی۔ ایک غلام ہے جو کسی کی ملکیت میں ہے اور وہ کوئی کام کرنے کی قدرت نہیں رکھتا) ۔ ہشام ابوالزبیر سے، انہوں نے ابو سعید سے جو حضرت ابن عباس (رض) کے آزاد کردہ غلام تھے روایت کی ہے کہ حضرت ابن عباس (رض) عنہ کے پاس ایک غلام تھا جس نے اپنی بیوی کو دو طلاقیں دے دی تھیں۔ حضرت ابن عباس (رض) نے اس سے کہا، تیری ماں مرے، بیوی سے رجوع کرلے کیونکہ اس معاملے کا تجھ سے کوئی تعلق نہیں ہے “ غلام نے ایسا کرنے سے انکار کردیا اس پر حضرت ابن عباس (رض) نے اس سے فرمایا : یہ تیری ہی بیوی ہے اسے جا کر بسا “۔ یہ چیز اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ حضرت ابن عباس (رض) کی رائے میں طلاق واقع ہوجاتی اگر آپ اس سے رجوع کرنے کے لیے نہ کہتے۔ - آپ کا یہ قول کہ ” ھی لک “ ( یہ تمہاری ہے) اس پر دلالت کرتا ہے کہ بیوی لونڈی تھی اور یہ جائز ہے کہ شوہر آزادہو۔ اگر دونوں مملوک ہوتے تو اس میں کوئی اختلاف نہ ہوتا کہ ان دونوں کی غلام سے طلاق کی تعداد گھٹ گئی۔ ایک اور روایت بھی ہے جو اس پر دلالت کرتی ہے کہ حضرت ابن عباس (رض) کے نزدیک غلام کی طلاق کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) اس بات کی روایت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کرتے ہیں۔ اس حدیث کی روایت ہمیں محمد بن بکر نے کی، انہیں ابودائود نے ، انہیں زہیر بن حرب نے، انہیں یحییٰ بن سعید نے، انہیں علی بن المبارک نے ، نہیں یحییٰ بن کثیر نے، انہیں عمر بن معتب نے بتایا کہ انہیں ابو حسن نے جو بنی نوفل کا آزادہ کردہ غلام تھا کہ انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے ایک غلام کے متعلق پوچھا تھا جس کی زوجیت میں ایک لونڈی تھی اور اس نے اسے دو طلاقیں دے دی تیھں پھر دونوں آزاد ہوگئے۔ آیا اب وہ اپنی سابقہ بیوی کو پیغام نکاح دے سکتا ہے ؟ حضرت ابن عباس (رض) نے اثبات میں جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی یہی فیصلہ دیا تھا۔ ابودائود کہتے ہیں کہ میں نے احمد بن حنبل سے سنا کر عبدالرزاق نے بتایا کہ ابن المبارک نے عمر میں بن معتب سے پوچھا کہ یہ ابوحسن کوفی ہے ( جس سے تم نے یہ روایت کی ہے) - اس نے تو یہ روایت کر کے ایک بھاری پتھر اپنے اوپر لاد لیا ہے۔ ابودائود کہتے ہیں کہ اس ابو حسن سے زہری نے روایت کی ہے۔ یہ فقہاء میں سے تھے۔ ابوبر جصاص کہتے ہیں کہ اجماع سے اس روایت کی تردی ہوجاتی ہے اس لیے کہ صدر اول یعنی صحابہ اور تابعین اور ان کے بعد آنے والے فقہاء میں اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ کہ میاں بیوی اگر مملوک ہوں تو شہر کی دو طلاقوں سے بیوی اس کے اوپر حرام ہوجاتی ہے اور جب تک کسی اور سے نکاح کر کے اس سے طلق نہ لے لے اس وقت تک سابق شوہر کے لیے حلال نہیں ہوتی۔ طلاق کی تعداد میں بیوی کی شرعی حیثیت کا لحاظ کیا جاتا ہے اس پر حضرت عمر (رض) اور حضرت عائشہ (رض) کی روایت دلالت کرتی ہے جو انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کی ہے۔ آپ نے فرمایا ( طلاق الامت تطلیقتان وعدتھا حیضتان۔ لونڈی کی طلاق کی تعداد دو ہے اور اس کی عدت کی مدت بھی دو حیض ہے اس روایت کی سند کے متعلق گفتگو پہلے گزر چکی ہے۔ عدت کی مدت کی کمی کے سلسلے میں امت نے ان دونوں حدیثوں پر عمل کیا ہے۔ اگرچہ یہ دونوں حدیثیں خبر واحد کی شکل میں مروی ہیں لیکن امت کے اس عمل کی وجہ سے ان کی حیثیت تواتر کے درجہ تک پہنچی ہوئی ہے۔ کیونکہ ایی سے اخبار آحاد جنھیں قبولیت عامہ حاصل ہوجائے وہ ہمارے نزدیک تواتر کے درجہ پر پہنچ جاتے ہیں۔ اس ک ثبوت میں دلائل ہم نے کئی مقامات پر بیان کر دئیے ہیں۔ - شارع علیہ الصلوٰۃ و السلام نے جب یہ فرمایا کہ ( وعدتھا حیضتان) تو یہ فرق نہیں کیا کہ اس کا شوہر آزاد ہے یا غلام ، اس سے یہ بات معلم ہوئی کہ طلاق کی تعداد میں بیوی کا اعتبار کیا جائے گا نہ کہ شوہر کا۔ ایک اور دلیل بھی ہے وہ یہ کہ جب سب کا اس پر اتفاق ہے کہ غلامی تعداد طلاق کو کم کردینے کا سبب ہے جس طر ح کہ یہ حدود، یعنی مقررہ شرعی سزائوں میں کمی کردیتی ہے۔ اب اگر کسی کو حد لک رہی ہو تو اس میں اس شخص کی غلامی کا اعتبار کیا جائے گا جسے حد لگ رہی ہو نہ کہ اس کا جو حد لگا رہا ہے۔ ٹھیک اسی طرح طلاق کی تعداد میں کمی کے اندر اس کی غلامی کا اعتبار کیا جائے گا جس پر طلاق آرہی ہو نہ کہ اس کا جو طلاق دے رہا ہو اور یہ عورت ہوتی ہے۔- اس پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ شوہر خواہ آزاد ہی ہو لیکن بیوی لونڈی ہونے کی صورت میں وہ مسنون طریقے پر تین طلاقوں کی تفریق کا مالک نہیں ہوگا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر وہ تین طلاقیں تین طہر میں دینا چاہے تو ایسا کرنا اس کے لیے ممکن نہیں ہوگا کیونکہ دو طلاقوں کے ساتھ ہی وہ عورت اس سے بائن ہوجائے گی۔ اگر شوہر تینوں طلاقوں کا مالک ہوتا تو مسنون طریقے پر انہیں متفرق طور پر دینے کا بھی مالک ہوتا جس طرح کہ بیوی کے حرہ ہونے کی صورت میں ہوتا ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ بیوی اگر لونڈی ہو تو شوہر تین طلاقوں کا مالک ہی نہیں ہوتا۔ واللہ اعلم - تین طلاقوں کے واقع ہونے کی دلیل کا ذکر جبکہ وہ اکٹھی دی جائیں - ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ تین طلاقیں ایک ساتھ دینے سے اگرچہ روکا گیا ہے لیکن قول باری ( الطلاق مرتان فامساک بمعروف او تسریح باحسان۔ ان کے واقع ہوجانے پر دلالت کرنا ہے۔ وہ اس طرح کہ قول باری ( الطلاق مرتان) نے دو طلاقوں کی صورت میں حکم باری بیان کردیا ہے جب شوہر ان الفاظ میں طلاق دے ” انت طالق انت طالق فی طھر واحد “ ایک ہی طہر میں تجھے طلاق ہے ، تجھے طلاق ہے) ہم نے پہلے یہ بیان کردیا ہے کہ اس طرح طلاق دینا خلاف سنت ہے۔ اب جبکہ آیت میں اس طریقہ پر دو طلاق کے واقع ہوجانے کے جواز کا حکم موجود ہے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اگر لفظ میں دو طلاقیں دی جاتیں توہ وہ بھی واقع ہوجائیں گی اس لیے کہ کسی نے ان دونوں صورتوں میں فرق نہیں کیا ہے۔ ایک اور وجہ سے بھی اس پر دلالت ہو رہی ہے۔ قول باری ہے ( فلا تحل لہ من بعد حتین تنلح زوجا عیرہ، وہ اس کے لیے اس وقت تک حلال نہیں ہوگی جب تک کسی اور شخص نے سے نکاح نہ کرلے) - اس میں اللہ تعالیٰ نے دو طلاقوں کے بعد تیسری طلاق پر شوہر کے لیے اس کے حرام ہوجانے کا حکم لگا دیا اور یہ فرق نہیں رکھا کہ اس نے یہ دو طلاقیں ایک طہر میں دی ہیں یا متفرق طہروں میں۔ اس لیے یہ ضرورت ہوا کہ تینوں طلاقوں کے واقع ہونے کا حکم لگا دیا جائے خواہ اس نے یہ تینوں طلاقیں مسنون طریقے سے دی ہوں یا غیر مسنون طریقے سے، مباح طور پر دی ہوں یا غیر مباح طور پر۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے ابتداء میں آپ نے بتایا تھا کہ اس سے مراد وہ طلاق ہے جس کی ترغیب دی گئی ہے اور جس کو اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اب ایک ساتھ تین طلاقیں دینا آپ کے نزذدیک غیر مسنون ہے تو آپ غیر مباح طریقے سے طلاق دینے کے حق میں اس آیت سے کیسے استدلال کرسکتے ہیں جبکہ آیت اس غیر مباح طریقے ک متضمن ہی نہیں ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ آیت ان تمام صورتوں پر دلالت کر رہی ہے جن میں شوہر نے دونوں یا تینوں طلاقیں ایک ساتھ خلاف سنت طریقے پر دی ہوں اور اس پر بھی کہ مسنون اور پسندیدہ طریقہ متفرق طور پر مختلف طہروں میں انہیں واقع کرنا ہے۔- اس میں کوئی امتناع نہیں ہے کہ یہ تمام صوریں آیت میں مراد ہوں۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر یہ کہا جاتا کہ تین طلاقں متفرق طہروں میں دے دو اور اگر تینوں ایک ساتھ دے دو گے تو واقع ہوجائیں گی “۔ تو ایسا کہنا جائز ہوتا۔ جب یہ دونوں ایک دوسری کی منافی نہیں ہیں اور آیت میں بھی ان دونوں احتمال ہے تو آیت کو ان دونوں باتوں پر محمول کرنا واجب ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ اسی آیت کا جوب معنی ہے اسے قول باری ( فطلقوھن بعدتھن) کے معنی پر محمول کیا جانا چاہیے ۔ جس کی تشریح شارع (علیہ الصلوۃ والسلام) نے ان الفاظ میں کردی ہے کہ عدت پر طلاق دینے کا یہ مطلب ہے کہ اگر شوہر تین طلاقیں دینا چاہے تو تین طہروں میں دے۔ شوہر جب اس طریقے کی خلاف ورزی کرے گا تو اس کی طلاق واقع ہی نہیں ہوگی۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ہم ان تمام احکام پر عمل پیرا ہوتے ہیں جن کی یہ دونوں آیتیں متقاضی ہیں ہم یہ کہتے ہیں کہ مسنون اور پسندیدہ طریقہ یہ ہے کہ عدت پر طلاق دی جائے جس طرح کہ آیت میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے۔ لیکن اگر اس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک ساتھ تین طلاق دے دیتا ہے تو ان کے واقع ہونے میں کوئی شک نہیں کیونکہ دوسری آیت ( الطلاق مرتان) کا یہی مقتضی ہے۔ - نیز قول باری ( فان طلقھا فلا تحل لہ من بعد حتیٰ تنکح زوجا غیرہ) بھی اسی کا متقاضی ہے۔ اس لیے کہ قول باری ( فطلقوھن) میں اس دوسری آیت کے مقتضیٰ کی نفی نہیں ہے بلکہ جس آیت میں عدت پر طلاق دینے کا ذکر اس کا ف حوالے کلام، غیر عدت پر طلاق کی صورت میں، اس کے واقع ہوجائے پر دلالت کر رہا ہے۔ چناچہ قول باری ہے ( فطلقوھن بعدتھن) تا قول باری ( وتلک حدود اللہ ومن یتعبد حدود اللہ فقد ظلم نفسہ، یہ اللہ کے حدود ہیں اور جو شخص حدود اللہ کو پھلانگنے کی کوشش کرے گا وہ اپنے ہی نفس پر ظلم کرے گا) اگر غیر عدت پر دی ہوئی طلاق واقع نہ ہوتی تو شوہر یہ طلاقیں دے کر اپنے اوپر ظلم کرنے والا نہ قرار دیا جاتا اور نہ ہی طلاق کی وجہ سے وہ ظالم ٹھہرتا اسی آیت میں غیر عدت پر دی ہوئی طلاق کے واقع ہوجانے کی دلالت موجود ہے۔ - اللہ تعالیٰ نے خطاب کے سیاق میں فرمایا ( ومن یتق اللہ یعجل لہ مخرجا) یعنی اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ جب شوہر اللہ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق طلاق دے گا تو اس کے لیے ندامت سے نکلنے کا راستہ موجود ہوگا اور وہ ہے رجوع کرلینا۔ اس معنی پر حضرت ابن عباس (رض) نے اس آفت کی تاویل کرتے ہوئے مسئلہ پوچھنے والے سے جس نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی تھیں کہا تھا کہ تو نے چونکہ تقویٰ اختیار نہیں کیا اس لیے مجھے تیرے لیے کوئی راہ نظر نہیں آرہی ہے تو نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور تیری بیوی تجھ سے علیحدہ ہوگئی۔ اس لیے حضرت علی (رض) نے بھی فرمایا تھا کہ اگر لوگ طلاق کا صحیح طریقہ بھی اپنا لیتے تو کوئی شخص اپنی بیوی کو طلاق دینے کے بعد نادم نہ ہوتا۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس نے چونکہ ایک ساتھ تین طلاق دے کر گناہ کا کام کیا ہے اس بنا پر یہ طلاقیں واقع نہیں ہوئیں کیونکہ یہ طلاقیں وہ نہیں ہیں جن کا اسے حکم دیا گیا ہے جس طرح کہ اگ کوئی شخص کسی کو تین طلاقیں تین طہروں میں دینے کے لیے اپنا وکیل بناتا ہے۔ اگر وکیل تینوں طلاقیں ایک ساتھ ایک طہر میں دے دے گا تو یہ طلاقیں واقع نہیں ہوگی۔- اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ تین طلاقیں ایک ساتھ دینے کی وجہ سے ان کا گنہگار ہونا ان طلاقوں کے واقع ہونے کی صحت میں مانع نہیں ہے جیسا کہ پچھلے صفحات میں ہم نے مدلل طریقے سے اسے لکھ دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ظہار کو ناپسندیدہ بات، اور جھوٹ قرار دینے کے باوجود اس کے واقع ہوجانے کی صحت کا حکم لگا دیا ہے۔ بندے کا گنہگار ہونا طلاق کے حکم کے لزوم سے مانع نہیں ہوتا۔ ایک شخص مرتد ہو کر خدا کی نافرمانی اور گناہ کا مرتکب ہوجاتا ہے لیکن یہ بات طلاق ک لزوم اور اس سے اس کی بیوی کی علیحدگی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتی۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے طلاق رجعی دینے والے شوہر کو اس بات سے روک دیا ہے کہ وہ بیوی کو نقصان پہنچانے کی نیت سے رجوع نہ کرے۔ چناچہ ارشاد باری ہے ( ولا تمسکوھن ضرارا لتعتدوا) لیکن اگر شوہر نے اسی نیت سے اس سے رجوع کرلیا تو اس کا رجوع درست ہوگا اور اس کا حکم ثابت ہوجائے گا۔ ایک شخص اور اس کے وکیل کے درمیان فرق ہوتا ہے وہ یہ کہ وکیل کسی غیر کی طرف سے طلاق دیتا ہے اور غیر ہی کی طرف سے ان سک تعبیر کرتا ہے وہ اپنے لیے طلاق نہیں دیتا اور جو طلاق وہ دے رہا ہے اس کا وہ خود مالک نہیں ہوتا۔ - کیا آپ نہیں دیکھتے کہ طلاق کے احکام اور حقوق میں سے کوئی چیز اس سے متعلق نہیں ہوتی۔ اب چونکہ جو طلاق وہ واقع کر رہا ہے اس کا وہ خود مالک نہیں ہوتا اور اس کا واقع کرنا دوسرے شخص کی طرف سے دیے گئے حکم کے تحت درست ہو رہا ہے کیونکہ اس کے احکام کا تعلق اس دیے گئے حکم کے ساتھ ہے نہ کہ اس شخص کے ساتھ اس لیے طلاق واقع کرنے والا شخص یعنی وکیل جس وقت اس حکم کی خلاف ورزی کرے گا طلاق واقع نہیں ہوگی۔ اس کے برعکس شوہر طلاق کا خود مالک ہوتا ہے۔ اور اس کے تماماحکام کا تعلق اس کی ذات سے ہوتا ہے۔ نیز وہ کسی اور کی طرف سے طلاق نہیں دیتا ہے اس لیے تین طلاقوں کا مالک ہونے کی حیثیت سے یہ واجب ہے کہ اس کی دی ہوئی تینوں طلاقیں واقع ہوجائیں۔ رہ گیا سنت کے خلاف طلاق دے کر گناہ کا مرتکب ہونا تو یہ چیز طلاق کے واقع ہونے سے مانع نہیں ہوتی جیسا کہ ابھی ہم نے ظہار، ارتداد اور رجوع وغیرہ نیز دوسرے تمام معاصی کے سلسلے میں بیان کیا ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر اس نے شبہ میں اپنی بیوی کی ماں کے ساتھ ہمبستری کرلی اس کی بیوی اس پر حرام ہوجائے گی۔- گزشتہ سطور میں ہم نے وہ وجوہ بیان کیے ہیں جن سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ شوہر تین طلاقوں کا مالک ہے۔ یہی چیز اس پر بھی دال ہے کہ اگر شوہر ایک ساتھ واقع کر دے تو یہ واقع ہوجائیں گی کیونکہ وہ ایسی چیز واقع کر رہا ہے جس کا وہ مالک ہے۔ سنت کی جہت سے بھی اس کی تائید ہو رہی ہے۔ حضرت ابن عمر (رض) کی وہ حدیث جس کی سندھ ہم بیان کرچکے ہیں۔ انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا تھا کہ اگر میں اسے تین طلاق دے دوں تو کیا میرے لیے رجوع کرنے کی گنجائش باقی رہ جائے گی۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ سن کر ارشاد فرمایا تھا ( لا، کانت تبین ویکون معصیۃ نیں وہ بائن ہوجائے گی اور ایسا کرنا معصیت قرار پائے گا) ہمیں محمد بن بکر نے حدیث بیان کی۔ انہیں ابودائود نے، انہیں سلیمان بن دائود نے، انہیں جریر بن جازم نے زبیر بن سعید سے، انہوں نے عبداللہ بن علی بن یزید بن رکانہ سے ، انہوں نے اپنے والے اور انہوں نے دادا سے روایت بیان کی کہ انہوں نے اپنیی بیوی کو طلاق دے تدی اور طلاق کے لیے لفظ ” البتہ “ استعمال کیا تھا ( یہ لفظ یقیناً کا معنی دیتا ہے اور اصطلاح فقہا میں طلاق ئن کیلئے استعمال ہوتا ہے ) وہ شخص حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ نے اس سے پوچھا کہ تم نے ” البتہ “ کہہ کر کس چیز کا ارادہ کیا ہے ان نے کہا ” ایک طلاق کا “ حضور نے فرمایا : ” اللہ “ ( یعنی تہ یہ بات خدا کو حاضر و نظر جان کر کہہ رہے ہو) اس نے جواب میں کہا : ” اللہ “ اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کہ جو تم نے ارادہ کیا وہی واقع ہوگیا۔ - (اس آیت کی بقیہ تفسیر اگلی آیت میں ملاحظہ فرمائیں)
(٢٢٩) یعنی طلاق رجعی دو ہیں، اب تیسری طلاق یاعدت میں، تیسرے حیض آنے سے پہلے حسن صحبت اور معاشرت کے ساتھ اسے روک لویا اس کے حقوق ادا کرتے ہوئے اسے تیسری طلاق دے دو ۔- اور جو مال تم نے ان کو مہر میں دیا ہو وہ طلاق دینے کے وقت ان سے لینا حلال نہیں، مگر خلع کی شکل میں جب کہ میاں بیوی احکام الہیہ کی ادائیگی نہ کرسکیں، لہٰذا جب احکام الہیہ کی پابندی نہ کرسکیں تو خاص طور پر مرد پر کوئی گناہ نہیں، اس مال کے لینے میں جو عورت اپنی مرضی سے خاوند کو دے کر اپنی جان چھڑانا چاہ رہی ہے، یہ آیت ثابت بن قیس بن شماش (رض) اور ان کی بیوی جمیلہ بنت عبداللہ (رض) کے متعلق نازل ہوئی، انہوں نے اپنا مہر دے کر اپنے خاوند سے اپنی جان چھڑالی تھی، یہ زوجین کے درمیان احکام خداوندی ہیں، لہٰذا جن باتوں کو اللہ تعالیٰ نے منع کیا ہے ان کی طرف تجاوز نہ کرو اور جو احکام الہیہ سے ان چیزوں کی طرف تجاوز کریں گے جن سے اللہ تعالیٰ نے منع کیا ہے تو وہ خود اپنے آپ کو نقصان پہنچانے والے ہوں گے۔- شان نزول : (آیت) ” الطلاق مرتن “ (الخ)- امام ترمذی (رح) امام حاکم (رح) وغیرہ نے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ آدمی اپنی بیوی کو جتنی چاہتا طلاقیں دے لیتا تھا اور جس وقت اس سے عدت میں رجوع کرلیتا وہ پھر بھی اسی کی بیوی رہتی، خواہ اسے سویا اس سے زیادہ طلاقیں دے دے، یہاں تک کہ ایک شخص نے اپنی بیوی سے کہا کہ خدا کی قسم میں تجھے نہ کبھی ایسی طلاق دوں گا کہ تو مجھ سے جدا ہوجائے اور نہ تجھ کو سکون سے رہنے ہی دوں گا، اس کی بیوی نے کہا یہ کس طرح ممکن ہوگا وہ کہنے لگا میں تجھے طلاق دیتا رہوں گا، جب بھی تیری عدت کی مدت ختم ہونے والی ہوگی، پھر تجھ سے رجوع کرلیا کروں گا اس پر اس عورت نے جاکر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں سارا واقعہ کہہ سنایا، آپ سن کر خاموش ہوگئے تاآنکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی یہ آیت اتار دی۔ (آیت) ” الطلاق مرتن “۔ (الخ) یعنی وہ طلاق جس میں رجوع کرنا درست ہے وہ دو مرتبہ کی ہے۔- فرمان خداوندی (آیت) ” ولا یحل لکم “۔ (الخ) امام ابوداؤد (رح) نے ناسخ ومنسوخ میں حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ انسان اپنی بیوی کا تمام مال کھا جاتا تھا، خواہ اس نے اسے دیا ہو، یا نہ دیا ہوتا اور یہ نہیں سمجھتا تھا کہ اس صورت میں اس پر کوئی گناہ نہیں ہے، تب اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل فرمایا تمہارے لیے یہ حلال نہیں ہے کہ کچھ لو اس مال میں سے تو تم نے اپنی عورتوں کو دیا ہے۔- اور ابن جریر (رح) نے ابن جریج (رض) سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت ثابت بن قیس (رض) اور حبیبہ (رض) کے متعلق نازل ہوئی ہے، حبیبہ (رض) نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں جا کر شکایت عرض کی تھی، آپ نے اس کو فرمایا، کیا تو چاہتی ہے کہ تیری باغ تجھے واپس کردیا جائے، وہ کہنے لگیں جی ہاں آپ نے ان کے خاوند کو بلا کر ان سے اس چیز کا ذکر کیا وہ کہنے لگے کیا وہ اس بات پر راضی ہے۔ آپ نے فرمایا ہاں، راضی ہے۔ ان کے خاوند کہنے لگے تو میں نے ایسا ہی کردیا، تب اس پر یہ آیت اتری (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )
اب ہم اگلی آیات کا مطالعہ کرتے ہیں :- آیت ٢٢٩ (اَلطَّلاَقُ مَرَّتٰنِ ص ) ۔ - یعنی ایک شوہر کو دو مرتبہ طلاق دے کر رجوع کرلینے کا حق ہے۔ ایک دفعہ طلاق دی اور عدت کے اندر اندر رجوع کرلیا تو ٹھیک ہے۔ پھر طلاق دے دی اور عدت کے اندر اندر رجوع کرلیا تو بھی ٹھیک ہے۔ تیسری مرتبہ طلاق دے دی تو اب وہ رجوع نہیں کرسکتا۔ - (فَاِمْسَاکٌم بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِیْحٌم بِاِحْسَانٍ ط) ۔ - یعنی دو مرتبہ طلاق دینے کے بعد اب فیصلہ کرو۔ یا تو اپنی بیوی کو نیکی اور بھلائی کے ساتھ گھر میں روک لو ‘ تنگ کرنے اور پریشان کرنے کے لیے نہیں ‘ یا پھر بھلے طریقے سے ‘ بھلے مانسوں کی طرح اسے رخصت کر دو ۔ - (وَلاَ یَحِلُّ لَکُمْ اَنْ تَاْخُذُوْا مِمَّآ اٰتَیْتُمُوْہُنَّ شَیْءًا) - جب تم طلاق دے رہے ہو تو تم نے انہیں جو مہر دیا تھا اس میں سے کچھ واپس نہیں لے سکتے۔ ہاں اگر عورت خود طلاق مانگے تو اسے اپنے مہر میں سے کچھ چھوڑنا پڑ سکتا ہے۔ لیکن جب مرد طلاق دے رہا ہو تو وہ اس میں سے کچھ بھی واپس نہیں لے سکتا جو وہ اپنی بیوی کو دے چکا ہے۔ سورة النساء (آیت ٢٠) میں یہاں تک الفاظ آئے ہیں کہ اگرچہ تم نے سونے کا ڈھیر (قِنطَار) دے دیا ہو پھر بھی اس میں سے کچھ واپس نہ لو۔- (اِلَّآ اَنْ یَّخَافَآ اَلاَّ یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰہِ ط) ۔ - مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ازدواجی زندگی کے ضمن میں جو اہداف و مقاصد معینّ فرمائے ہیں ‘ اس کے لیے جو احکام دیے ہیں اور جو آداب بتائے ہیں ‘ فریقین اگر یہ محسوس کریں کہ ہم انہیں ملحوظ نہیں رکھ سکتے تو یہ ایک استثنائی صورت ہے ‘ جس میں عورت کوئی مال یا رقم فدیہ کے طور پردے کر ایسے شوہر سے خلاصی حاصل کرسکتی ہے۔- (فَاِنْ خِفْتُمْ اَلاَّ یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰہِ لا فلاَ جُنَاحَ عَلَیْہِمَا فِیْمَا افْتَدَتْ بِہٖ ط) ۔ - یعنی ایسی صورت میں عورت اگر فدیہ کے طور پر کچھ دے دلا کر اپنے آپ کو چھڑا لے تو اس میں فریقین پر کوئی گناہ نہیں۔ مثلاً کسی عورت کا مہر دس لاکھ تھا ‘ وہ اس میں سے پانچ لاکھ شوہر کو واپس دے کر اس سے خلع لے لے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔- (تِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ فَلاَ تَعْتَدُوْہَا ج) ۔ - دیکھئے روزے وغیرہ کے ضمن میں حدود اللہ کے ساتھ (فَلَا تَقْرَبُوْھَا) فرمایا تھا۔ یہاں فرمایا : (فَلاَ تَعْتَدُوْہَا ج) اس لیے کہ ان معاملات میں لوگ بڑے دھڑلے ّ سے اللہ کی مقرر کردہ حدود کو پامال کر جاتے ہیں۔ اگرچہ قانون باقی رہ جاتا ہے مگر اس کی روح ختم ہوجاتی ہے۔
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :250 اس مختصر سی آیت میں ایک بہت بڑی معاشرتی خرابی کی ، جو عرب جاہلیت میں رائج تھی ، اصلاح کی گئی ہے ۔ عرب میں قاعدہ یہ تھا کہ ایک شخص اپنی بیوی کو بے حد و حساب طلاق دینے کا مجاز تھا ۔ جس عورت سے اس کا شوہر بگڑ جاتا اس کو وہ بار بار طلاق دے کر رجوع کرتا رہتا تھا ، تاکہ نہ تو وہ غریب اس کے ساتھ بس ہی سکے اور نہ اس سے آزاد ہو کر کسی اور سے نکاح ہی کر سکے ۔ قرآن مجید کی یہ آیت اسی ظلم کا دروازہ بند کرتی ہے ۔ اس آیت کی رو سے ایک مرد ایک رشتہ نکاح میں اپنی بیوی پر حد سے حد دو ہی مرتبہ طلاق رجعی کا حق استعمال کر سکتا ہے ۔ جو شخص اپنی منکوحہ کو دو مرتبہ طلاق دے کر اس سے رجوع کر چکا ہو ، وہ اپنی عمر میں جب کبھی اس کو تیسری بار طلاق دے گا ، عورت اس سے مستقل طور پر جدا ہو جائے گی ۔ طلاق کا صحیح طریقہ ، جو قرآن و حدیث سے معلوم ہوتا ہے ، یہ ہے کہ عورت کو حالت طہر میں ایک مرتبہ طلاق دی جائے ۔ اگر جھگڑا ایسے زمانے میں ہوا ہو ، جبکہ عورت ایام ماہواری میں ہو تو اسی وقت طلاق دے بیٹھنا درست نہیں ہے ، بلکہ ایام سے اس کے فارغ ہونے کا انتظار کرنا چاہیے ۔ پھر ایک طلاق دینے کے بعد اگر چاہے ، تو دوسرے طہر میں دوبارہ ایک طلاق اور دیدے ، ورنہ بہتر یہی ہے کہ پہلی ہی طلاق پر اکتفا کرے ۔ اس صورت میں شوہر کو حق حاصل رہتا ہے کہ عدت گزرنے سے پہلے پہلے جب چاہے رجوع کر لے ، اور عدت گزر بھی جائے ، تو دونوں کے لیے موقع باقی رہتا ہے کہ پھر باہمی رضامندی سے دوبارہ نکاح کرلیں ۔ لیکن تیسرے طہر میں تیسری بار طلاق دینے کے بعد نہ تو شوہر کو رجوع کا حق باقی رہتا ہے اور نہ اس کا ہی کوئی موقع رہتا ہے کہ دونوں کا پھر نکاح ہو سکے ۔ رہی یہ صورت کہ ایک ہی وقت میں تین طلاقیں دے ڈالی جائیں ، جیسا کہ آج کل جہلا کا عام طریقہ ہے ، تو یہ شریعت کی رو سے سخت گناہ ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بڑی مذمت فرمائی ہے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے یہاں تک ثابت ہے کہ جو شخص بیک وقت اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیتا تھا ، آپ اس کو درے لگاتے تھے ۔ تاہم گناہ ہونے کے باوجود ، ائمہ اربعہ کے نزدیک تینوں طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں اور طلاق مغلظ ہو جاتی ہے ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :251 یعنی مہر اور وہ زیور اور کپڑے وغیرہ ، جو شوہر اپنی بیوی کو دے چکا ہو ، ان میں سے کوئی چیز بھی واپس مانگنے کا اسے حق نہیں ہے ۔ یہ بات ویسے بھی اسلام کے اخلاقی اصولوں کی ضد ہے کہ کوئی شخص کسی ایسی چیز کو ، جسے وہ دوسرے شخص کو ہبہ یا ہدیہ و تحفہ کے طور پر دے چکا ہو ، واپس مانگے ۔ اس ذلیل حرکت کو حدیث میں اس کتے کے فعل سے تشبیہ دی گئی ہے ، جو اپنی ہی قے کو خود چاٹ لے ۔ مگر خصوصیت کے ساتھ ایک شوہر کے لیے تو یہ بہت ہی شرمناک ہے کہ وہ طلاق دے کر رخصت کر تے وقت اپنی بیوی سے وہ سب کچھ رکھوا لینا چاہے جو اس نے کبھی اسے خود دیا تھا ۔ اس کے برعکس اسلام نے یہ اخلاق سکھائے ہیں کہ آدمی جس عورت کو طلاق دے ، اسے رخصت کرتے وقت کچھ نہ کچھ دے کر رخصت کرے ۔ جیسا کہ آگے آیت ۲٤۱ میں ارشاد فرمایا گیا ہے ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :252 شریعت کی اصطلاح میں اسے” خلع“ کہتے ہیں ، یعنی ایک عورت کا اپنے شوہر کو کچھ دے دلا کر اس سے طلاق حاصل کرنا ۔ اس معاملے میں اگر عورت اور مرد کے درمیان گھر کے گھر ہی میں کوئی معاملہ طے ہو جائے ، تو جو کچھ طے ہوا ہو ، وہی نافذ ہو گا ۔ لیکن اگر عدالت میں معاملہ جائے ، تو عدالت صرف اس امر کی تحقیق کرے گی کہ آیا فی الواقع یہ عورت اس مرد سے اس حد تک متنفر ہو چکی ہے کہ اس کے ساتھ اس کا نباہ نہیں ہو سکتا ۔ اس کی تحقیق ہوجانے پر عدالت کو اختیار ہے کہ حالات کے لحاظ سے جو فدیہ چاہے ، تجویز کرے ، اور اس فدیے کو قبول کر کے شوہر کو اسے طلاق دینا ہو گا ۔ بالعموم فقہا نے اس بات کو پسند نہیں کیا ہے کہ جو مال شوہر نے اس عورت کو دیا ہو ، اس کی واپسی سے بڑھ کر کوئی فدیہ اسے دلوایا جائے ۔ خلع کی صورت میں جو طلاق دی جاتی ہے ، وہ رجعی نہیں ہے ، بلکہ بائنہ ہے ۔ چونکہ عورت نے معاوضہ دے کر اس طلاق کو گویا خریدا ہے ، اس لیے شوہر کو یہ حق باقی نہیں رہتا کہ اس طلاق سے رجوع کر سکے ۔ البتہ اگر یہی مرد و عورت پھر ایک دوسرے سے راضی ہو جائیں اور دوبارہ نکاح کرنا چائیں ، تو ایسا کرنا ان کے لیے بالکل جائز ہے ۔ جمہور کے نزدیک خلع کی عدت وہی ہے جو طلاق کی ہے ۔ مگر ابوداؤد ، ترمذی اور ابن ماجہ وغیرہ میں متعدد روایات ایسی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی عدت ایک ہی حیض قرار دی تھی اور اسی کے مطابق حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ایک مقدمہ کا فیصلہ کیا ( ابن کثیر ، جلد اوّل ، ص ۲۷٦ ) ۔
151: اس آیت نے ایک ہدایت تو یہ دی ہے کہ اگر طلاق دینی ہی پڑجائے تو زیادہ سے زیادہ دو طلاقیں دینی چاہئیں، کیونکہ اس طرح میاں بیوی کے درمیان تعلقات بحال ہونے کا امکان رہتا ہے ؛ چنانچہ عدت کے دوران شوہر کو طلاق سے رجوع کرنے کا حق رہتا ہے، اور عدت کے بعد دونوں کی باہمی رضا مندی سے نیا نکاح نئے مہر کے ساتھ ہوسکتا ہے، لیکن جیسا کہ اگلی آیت میں فرمایا گیا ہے کہ تین طلاقوں کے بعد دونوں راستے بند ہوجاتے ہیں اور تعلقات کی بحالی کا کوئی طریقہ باقی نہیں رہتا، دوسری ہدایت یہ دی گئی ہے کہ شوہر طلاق سے رجوع کا فیصلہ کرے یا علیحدگی کا، دونوں صورتوں میں معاملات خوش اسلوبی سے طے کرنے چاہئیں، عام حالات میں شوہر کے لئے حلال نہیں ہے کہ وہ طلاق کے بدلے مہر واپس کرنے یا معاف کرنے کا مطالبہ کرے، ہاں اگر طلاق کا مطالبہ عورت کی طرف سے ہو اور شوہر کی کسی زیادتی کے بغیر ہو، مثلاً بیوی شوہر کو پسند نہ کرتی ہو اور اس بنا پر دونوں کو یہ اندیشہ ہو کہ وہ خوشگواری کے ساتھ نکاح کے حقوق ادا نہ کرسکیں گے تو اس صورت یہ جائز قرار دے دیا گیا ہے کہ عورت مالی معاوضے کے طور پر مہر یا اس کا کچھ حصہ واپس کردے یا اگر اس وقت تک وصول نہ کیا ہو تو معاف کردے۔