پھر ارشاد ہے کہ جب کوئی شخص اپنی بیوی کو دو طلاقیں دے چکنے کے بعد تیسری بھی دے دے تو وہ اس پر حرام ہو جائے گی یہاں تک کہ دوسرے سے باقاعدہ نکاح ہو ، ہم بستری ہو ، پھر وہ مر جائے یا طلاق دے دے ۔ پس اگر نکاح کے مثلاً لونڈی بنا کر وطی بھی کر لے تو بھی اگلے خاوند کیلئے حلال نہیں ہو سکتی ۔ اسی طرح گو نکاح باقاعدہ ہو لیکن اس دوسرے خاوند نے مجامعت نہ کی ہو تو بھی پہلے شوہر کیلئے حلال نہیں ۔ اکثر فقہاء میں مشہور ہے کہ حضرت سعید بن مسیب مجرم ( صرف ) و عقد کے حلال کہتے ہیں گو میل نہ ہوا ہو ، لیکن یہ بات ان سے ثابت نہیں ۔ ایک حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ ایک شخص ایک عورت سے نکاح کرتا ہے اور دخول سے پہلے ہی طلاق دے دیتا ہے ، وہ دوسرا نکاح کرتی ہے وہ بھی دخول سے پہلے ہی طلاق دے دیتا ہے ، تو کیا اگلے خاوند کو اب اس سے نکاح کرنا حلال ہے؟ آپ نے فرمایا نہیں نہیں ، جب تک کہ یہ اس سے اور وہ اس سے لطف اندوز نہ ہو لیں ( مسند احمد ابن ماجہ وغیرہ ) اس روایت کے راوی حضرت ابن عمر سے خود امام بن مسیب ہیں ، پس کیسے ممکن ہے کہ وہ روایت بھی کریں اور پھر مخالفت بھی کریں اور پھر وہ بھی بلادلیل ۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ عورت رخصت ہو کر جاتی ہے ، ایک مکان میں میاں بیوی جاتے ہیں ، پردہ ڈال دیا جاتا ہے لیکن آپس میں صحبت نہیں ہوتی ، جب بھی یہی حکم ہے ۔ خود آپ کے زمانہ میں ایسا واقعہ ہوا ، آپ سے پوچھا گیا مگر آپ نے پہلے خاوند کی اجازت نہ دی ( بخاری مسلم ) ایک روایت میں ہے کہ حضرت رفاعہ قرظی کی بیوی صاحب تمیمہ بنت وہب کو جب انہوں نے آخری تیسری طلاق دے دی تو ان کا نکاح حضرت عبدالرحمن بن زیبر سے ہوا لیکن یہ شکایت لے کر دربارِ رسالت مآب میں آئیں اور کہا وہ عورت کے مطلب کے نہیں ، مجھے اجازت ہو کہ میں اگلے خاوند کے گھر چلی جاؤں ۔ آپ نے فرمایا یہ نہیں ہو سکتا جب تک کہ تمہاری کسی اور خاوند سے مجامعت نہ ہو ، ان احادیث کی بہت سی سندیں ہیں اور مختلف الفاظ سے مروی ہیں ( فصل ) یہ یاد رہے کہ مقصود دوسرے خاوند سے یہ ہے کہ خود اسے رغبت ہو اور ہمیشہ بیوی بنا کر رکھنے کا خواہش مند ہو ، کیونکہ نکاح سے مقصود یہی ہے ، یہ نہیں کہ اگلے خاوند کیلئے محض حلال ہو جائے اور بس ، بلکہ امام مالک فرماتے ہیں کہ یہ بھی شرط ہے کہ یہ مجامعت بھی مباح اور جائز طریق پر ہو مثلاً عورت روزے سے نہ ہو ، احرام کی حالت میں نہ ہو ، اعتکاف کی حالت میں نہ ہو ، حیض یا نفاس کی حالت میں نہ ہو ، اسی طرح خاوند بھی روزے سے نہ ہو ، محرم یا معتکف نہ ہو ، اگر طرفین میں سے کسی کی یہ حالت ہو اور پھر چاہے وطی بھی ہو جائے پھر بھی پہلے شوہر پر حلال نہ ہو گی ۔ اسی طرح اگر دوسرا خاوند ذمی ہو تو بھی اگلے خاوند کیلئے حلال نہ ہو گی کیونکہ امام صاحب کے نزدیک کفار کے آپس کے نکاح باطل ہیں ۔ امام حسن بصری تو یہ بھی شرط لگاتے ہیں کہ انزال بھی ہو کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ سے بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ جب تک کہ وہ تیرا اور تو اس کا مزہ نہ چکھے ، اور اگر یہی حدیث ان کے پیشِ نظر ہو جائے تو چاہئے کہ عورت کی طرف سے یہ بھی یہ شرط معتبر ہو لیکن حدیث کے لفظ عسیلہ سے منی مراد نہیں ، یہ یاد رہے ، کیونکہ مسند احمد اور نسائی میں حدیث ہے کہ عسیلہ سے مراد جماع ہے ۔ اگر دوسرے خاوند کا ارادہ اس سے نکاح سے یہ ہے کہ یہ عورت پہلے خاوند کیلئے حلال ہو جائے تو ایسے لوگوں کی مذمت بلکہ ملعون ہونے کی تصریح احادیث میں آ چکی ہے ، مسند احمد میں ہے گودنے والی ، گدوانے والی ، بال ملانے والی ، ملوانے والی عورتیں ملعون ، حلال کرنے والی اور جس کیلئے حلالہ کیا جاتا ہے ان پر بھی اللہ کی پھٹکار ہے ۔ سود خور اور سود کھلانے والے بھی لعنتی ہیں ۔ امام ترمذی فرماتے ہیں صحابہ کا عمل اسی پر ہے ۔ عمر ، عثمان اور ابن عمر کا یہی مذہب تابعین فقہاء بھی یہی کہتے ہیں ، علی ابن مسعود اور ابن عباس کا بھی یہی فرمان ہے اور روایت میں ہے کہ بیاج کی گواہی دینے والوں اور اس کے لکھنے پر بھی لعنت ہے ۔ زکوٰۃ کے نہ دینے والوں اور لینے میں زیادتی کرنے والوں پر بھی لعنت ہے ، ہجرت کے بعد لوٹ کر اعرابی بننے والے پر بھی پھٹکار ہے نوحہ کرنا بھی ممنوع ہے ، ایک حدیث میں ہے میں تمہیں یہ بتاؤں کہ ادھار لیا ہوا سانڈ کون سا ہے؟ لوگوں نے کہا ہاں ۔ فرمایا جو حلالہ کرے یعنی طلاق والی عورت سے اس لئے نکاح کرے کہ وہ اگلے خاوند کیلئے حلال ہو جائے ، اس پر اللہ کی لعنت ہے اور جو اپنے لئے ایسا کرائے وہ بھی ملعون ہے ( ابن ماجہ ) ایک روایت میں ہے کہ ایسے نکاح کی بابت حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا یہ نکاح ہی نہیں جس میں مقصود اور ہو اور ظاہر اور ہو ، جس میں اللہ کی کتاب کے ساتھ مذاق اور ہنسی ہو ، نکاح صرف وہی ہے جو رغبت کے ساتھ ہو ، مستدرک حاکم میں ہے کہ ایک شخص نے حضرت عبداللہ بن عمر سے سوال کیا کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو تیسری طلاق دے دی ، اس کے بعد اس کے بھائی نے بغیر اپنے بھائی کے کہے ازخود اس سے اس ارادے سے نکاح کر لیا کہ یہ میرے بھائی کیلئے حلال ہو جائے ، تو آیا نہ نکاح صحیح ہو گیا ۔ آپ نے فرمایا ہرگز نہیں ، ہم تو اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں زنا شمار کرتے تھے ۔ نکاح وہی ہے جس میں رغبت ہو ، اس حدیث کے پچھے جملے نے گو اِسے موقوف سے حکم میں مرفوع کر دیا ، بلکہ ایک اور روایت میں ہے کہ امیرالمنین حضرت عمر فاروق نے ایسے نکاح میں تفریق کر دی ، اسی طرح حضرت علی اور حضرت ابن عباس وغیرہ بہت سے صحابہ کرام سے بھی یہی مروی ہے ۔ پھر فرمان ہے کہ اگر دوسرا خاوند نکاح اور وطی کے بعد طلاق دے تو پہلے خاوند پر پھر اسی عورت سے نکاح کر لینے میں کوئی گناہ نہیں جبکہ یہ اچھی طرح گزر اوقات کرلیں اور یہ بھی جان لیں کہ وہ دوسرا نکاح صرف دھوکہ اور مکروفریب کا نہ تھا بلکہ حقیقت تھی ۔ یہ ہیں احکام شرعی جنہیں علم والوں کیلئے اللہ نے واضح کر دیا ، آئمہ کا اس میں بھی اختلاف ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو دو یا ایک طلاق دے دی ، پھر چھوڑے رہا یہاں تک کہ وہ عدت سے نکل گئی ، پھر اس نے دوسرے سے گھر بسا لیا ، اس سے ہم بستری بھی ہوئی ، پھر اس نے بھی طلاق دے دی اور اس کی عدت ختم ہو چکی ، پھر اگلے خاوند نے اس سے نکاح کر لی تو اسے تین میں سے جو طلاقیں یعنی ایک یا دو جو باقی ہیں صرف انہی کا اختیار رہے گا یا پہلے کی طرح طلاقیں گنتی سے ساقط ہو جائیں گی اور اسے از سر نو تینوں طلاقوں کا حق حاصل ہو جائے گا ، پہلا مذہب تو ہے امام مالک امام شافعی اور امام احمد کا اور صحابہ کی ایک جماعت کا ، دوسرا مذہب ہے امام ابو حنیفہ اور ان کے ساتھیوں کا اور ان کی دلیل یہ ہے کہ جب اس طرح تیسری طلاق ہو ، گنتی میں نہیں آئی تو پہلی دوسری کیا آئے گی ، واللہ اعلم ۔
اس طلاق سے تیسری طلاق مراد ہے یعنی تیسری طلاق کے بعد خاوند اب نہ رجوع کرسکتا ہے اور نہ نکاح البتہ عورت کسی اور جگہ نکاح کرلے اور دوسرا خاوند اپنی مرضی سے اسے طلاق دے دے یا فوت ہوجائے تو اس کے بعد اس سے نکاح جائز ہے لیکن اس کے لئے جو حلالہ کا طریقہ رائج ہے یہ لعنتی فعل ہے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حلالہ کرنے والے اور کروانے والے دونوں پر لعنت فرمائی ہے حلالہ کی غرض سے کیا گیا نکاح نکاح نہیں ہے زناکاری ہے۔ اس نکاح سے عورت پہلے خاوند کے لئے حلال نہیں ہوگی۔
[٣١٢] خاوند نے جب تیسری بار طلاق دے دی۔ تو اب وہ اس کے لیے حرام ہوگئی۔ عورت پر عدت تو ہوگی، مگر مرد اس عدت میں رجوع نہیں کرسکتا۔ اب ان دونوں کے ملاپ کی صرف یہ صورت ہے کہ عدت گزرنے کے بعد کسی دوسرے شخص سے نکاح کرے پھر کسی وقت وہ مرد از خود اس عورت کو طلاق دے دے یا وہ مرد فوت ہوجائے تو پھر عدت گزرنے کے بعد یہ عورت اپنے پہلے خاوند سے نکاح کرسکتی ہے۔- احادیث صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص محض اپنی مطلقہ بیوی کو حلال کرنے کی خاطر کسی سے اس کا اس شرط پر نکاح کرائے کہ وہ نکاح کے بعد دوسرے یا تیسرے دن اسے طلاق دے دے گا۔ تاکہ یہ عورت پھر اپنے پہلے خاوند کے لیے حلال ہو سکے (جسے شرعی اصطلاح میں حلالہ کہتے ہیں) تو یہ نکاح درست نہیں بلکہ یہ بدکاری ہوگی۔ اس طرح کے سازشی نکاح و طلاق سے وہ عورت اپنے پہلے شوہر کے لیے ہرگز حلال نہ ہوگی۔ نبی نے اس طرح حلالہ نکانے والے اور نکلوانے والے پر لعنت فرمائی ہے اور حلالہ نکالنے والے کو تیس مستعار (کرایہ کا سانڈ) کہا ہے (ابو داؤد، کتاب النکاح باب فی التحلیل) اور حضرت عمر (رض) نے حکم دیا تھا کہ ایسے حلالہ نکالنے والے اور نکلوانے والے دونوں کو زنا کی سزا دی جائے۔ (بیہقی ج ٧ ص ٣٣٧) - اس مسئلہ کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ بیک وقت تین طلاق دینے کا جرم تو مرد کرتا ہے لیکن اس کے جرم کی سزا نکاح حلالہ کی صورت میں عورت کو دی جاتی ہے۔ مرد کو تو اہل علم و فتویٰ سرزنش تک کرنے کے روادار نہیں ہوتے۔ مگر بیوی کو کسی کرایہ کے سانڈ کے ہاں شب بسری کی راہ دکھلائی جاتی ہے۔ کرے کوئی اور بھرے کوئی اس سے زیادہ واضح اور کوئی مثال ہوسکتی ہے ؟ اس بےبس اور غیرت مند عورت نے اس ظلم و زیادتی کا اپنے طلاق دینے والے خاوند سے اور اپنے رشتہ داروں سے یوں انتقام لیا کہ رات ہی رات میں وہ حلالہ نکالنے والے مرد سے سیٹ ہوگئی اور اس نئے جوڑے نے عہد و پیمان کے ذریعہ رات کی رات کے نکاح کو پائیدار بنا لیا اور حلالہ نکلوانے والوں کی سب امیدیں خاک میں ملا دیں اور ایسے واقعات آئے دن اخبارات و رسائل میں چھپتے رہتے ہیں۔
یعنی تیسری طلاق کے بعد جب تک عورت کسی دوسرے خاوند سے نکاح نہ کرلے اور وہ خاوند اس سے جماع نہ کرلے اور پھر وہ اسے از خود طلاق نہ دے، یا فوت نہ ہوجائے تو پہلے خاوند کے لیے اس سے نکاح حلال نہیں۔ اس کا معنی یہ نہیں کہ دوسرے خاوند سے اس غرض سے نکاح کرے کہ پہلے خاوند کے لیے حلال ہوجائے، کیونکہ ایسا نکاح کرنے اور کروانے والے پر تو احادیث میں لعنت آئی ہے۔ عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں : ” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حلالہ کرنے والے اور حلالہ کروانے والے پر لعنت فرمائی۔ “ [ نسائی، الطلاق، باب إحلال المطلقۃ ۔۔ : ٣٤٤٥، و حسنہ الألبانی۔ ترمذی : ١١١٩، مختصرًا ] بلکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حلالہ کرنے والے کو ” اَلتَّیْسُ الْمُسْتَعَارُ “ (کرائے کا سانڈ) کہا ہے۔ - [ ابن ماجہ، النکاح، باب المحلل والمحلل لہ : ١٩٣٦، عن عقبۃ بن عامر و حسنہ الألبانی ] - ایک ہی وقت میں تین طلاقیں دینا منع ہے، لیکن اگر کوئی دے دے تو ایک ہی طلاق واقع ہوگی۔ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ابوبکر (رض) کے زمانے میں اور عمر (رض) کی خلافت کے ابتدائی دو سالوں میں تین طلاقیں ایک ہی طلاق شمار ہوتی تھیں، پھر لوگوں نے اس کام میں جلدی شروع کردی تو عمر (رض) نے فرمایا : ” لوگوں نے ایسے کام میں جلدی کرنا شروع کردی ہے جس میں ان کے لیے مہلت تھی، تو اب ہم ان پر کیوں نہ تینوں طلاقیں ہی نافذ کردیں۔ “ چناچہ انھوں نے اسے نافذ کردیا۔ [ مسلم، الطلاق، باب الطلاق الثلاث : ١٤٧٢ ] نیز دیکھیے فتاویٰ ابن تیمیہ ( ٣٣ ؍١٣، ٢٥، ٨٥ تا ٨٧) ۔
یہ مسئلہ ضمنی بیان فرمانے کے بعد پھر تیسری طلاق کا ذکر اس طرح فرمایا : فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلَا تَحِلُّ لَهٗ مِنْۢ بَعْدُ حَتّٰي تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهٗ یعنی اگر اس شخص نے تیسری طلاق بھی دے ڈالی (جو شرعا پسندیدہ نہ تھی) تو اب نکاح کا معاملہ بالکلیہ ختم ہوگیا اس کو رجعت کرنے کا کوئی اختیار نہ رہا اور چونکہ اس نے شرعی حدود سے تجازو کیا کہ بلاوجہ تیسری طلاق دے دیتو اس کی سزا یہ ہے کہ اب اگر یہ دونوں راضی ہو کر پھر آپس میں نکاح کرنا چاہیں تو بھی نہیں کرسکتے اب ان کے آپس میں دوبارہ نکاح کے لئے شرط یہ ہے کہ یہ عورت (عدت طلاق پوری کرکے) کسی دوسرے مرد سے نکاح کرے اور حقوق زوجیت ادا کرکے دوسرے شوہر کے ساتھ رہے پھر اگر اتفاق سے وہ دوسرا شوہر بھی طلاق دیدے (یا مرجائے) تو اس کی عدت پوری کرنے کے بعد پہلے شوہر سے نکاح ہوسکتا ہے آیت کے آخری جملے فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلَاجُنَاحَ عَلَيْھِمَآ اَنْ يَّتَرَاجَعَآ کا یہی مطلب ہے۔- تین طلاق اور اس کے بعد احکام کی تفصیل :- یہاں قرآن کریم کے اسلوب بیان پر غور کرنے سے یہ بات پوری وضاحت کے ساتھ سامنے آجاتی ہے کہ طلاق دینے کا اصل شرعی طریقہ یہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ دو طلاق تک پہنچا جائے، تیسری طلاق تک نوبت پہونچانا مناسب نہیں الفاظ آیت الطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ کے بعد تیسری طلاق کو حرف ان کے ساتھ فَاِنْ طَلَّقَھَا فرمانے میں اس کی طرف اشارہ موجود ہے ورنہ سیدھی تعبیر یہ تھی کہ الطَّلَاقُ ثَلٰثٌ کہا جاتا اس کو چھوڑ کر یہ تعبیر اختیار کرنے میں واضح اشارہ ہے کہ تیسری طلاق تک پہنچنا نہیں چاہئے یہی وجہ ہے کہ امام مالک اور بہت سے فقہاء نے تیسری طلاق کی اجازت ہی نہیں دی وہ اس کو طلاق بدعت کہتے ہیں، اور دوسرے فقہاء نے تین طلاق کو صرف اس شرط کے ساتھ جائز قرار دیا ہے کہ الگ الگ تین طہروں میں تین طلاقیں دی جائیں ان فقہاء کی اصطلاح میں اس کو بھی طلاق سنت کے لفظ سے تعبیر کردیا گیا ہے مگر اس کا یہ مطلب کسی کے نزدیک نہیں ہے کہ اس طرح تین طلاقیں دینا مسنون اور محبوب ہے بلکہ طلاق بدعت کے مقابلے میں اس کو طلاق سنت اس معنی سے کہہ دیا گیا کہ یہ صورت بھی بدعت میں داخل نہیں۔- قرآن وسنت کے ارشادات اور تعامل صحابہ کرام (رض) اجمعین وتابعین سے عدد طلاق کے متعلق جو کچھ ثابت ہوتا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ جب طلاق دینے کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں رہے تو طلاق کا احسن طریقہ یہ ہے کہ صرف ایک طلاق حالت طہر میں دیدے جس میں مجامعت نہ کی ہو اور یہ ایک طلاق دے کر چھوڑ دے عدت ختم ہونے کے ساتھ رشتہ نکاح خود ٹوٹ جائے گا اس کو فقہاء نے طلاق احسن کہا ہے، اور حضرات صحابہ کرام (رض) اجمعین نے اسی کو طلاق کا بہتر طریق قرار دیا ہے۔- ابن ابی شیبہ نے اپنے مصنف میں حضرت ابراہیم نخعی سے نقل کیا ہے کہ صحابہ کرام (رض) اجمعین طلاق دینے میں اس کو پسند کرتے تھے کہ صرف ایک طلاق دے کر چھوڑ دی جائے اور عدت طلاق تین حیض پورے ہونے دیئے جائیں تاکہ عورت آزاد ہوجائے۔- قرآن کریم کے الفاظ مذکورہ سے اس کی بھی اجازت نکلتی ہے کہ دو طلاق تک دے دیجائیں مگر مَرَّتٰانِ کے لفظ میں اس طرف اشارہ فرما دیا گیا ہے کہ دو طلاق بیک لفظ وبیک وقت نہ ہوں بلکہ دو طہروں میں الگ الگ ہوں الطَّلَاقُ طَلَاقاَنِ سے بھی طلاق کی اجازت ثابت ہوسکتی تھی مگر مَرَّتٰنِ ایک ترتیب وتراخی کی طرف مشیر ہے جس سے مستفاد ہوتا ہے کہ دو طلاقیں ہوں تو الگ الگ ہوں مثال سے یوں سمجھئے کہ کوئی شخص کسی کو دو روپیہ ایک دفعہ دیدے تو اس کو دو مرتبہ دینا نہیں کہتے، الفاظ قرآن میں دو مرتبہ دینے کا مقصد یہی ہے کہ الگ الگ طہر میں دو طلاق دی جائیں (روح المعانی) - بہرحال دو طلاقوں تک قرآن حکیم کے الفاظ سے ثابت ہے اس لئے باتفاق ائمہ وفقہاء یہ طلاق سنت میں داخل ہے یعنی بدعت نہیں، تیسری طلاق کے غیر مستحسن ہونے کی طرف تو خود اسلوب قرآن میں واضح اشارہ پایا جاتا ہے اس کے غیر مستحسن ہونے میں کسی کا بھی اختلاف نہیں اور حدیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ایک ارشاد سے تیسری طلاق کا مبغوض و مکروہ ہونا ثابت ہوتا ہے امام نسائی نے بروایت محمود بن لبید نقل کیا ہے :- اخبر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عن رجل طلق امرأتہ ثلاث تطلیقات جمیعا فقام غضباناً ثم قال ایلعب بکتاب اللہ وانا بین اظہرکم حتیٰ قام رجل وقال یا رسول اللہ الا اقتلہ (نسائی کتاب الطلاق ص ٩٨ جلد ٢) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک آدمی کے متعلق خبر دی گئی جس نے اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاقیں دی تھی آپ غصہ ہو کر کھڑے ہوگئے اور فرمایا کیا اللہ کی کتاب کیساتھ کھیل کیا جاتا ہے حالانکہ میں تمہارے درمیان موجود ہوں، اتنے میں ایک آدمی کھڑا ہوگیا اور کہنے لگا اے اللہ کے رسول کیا میں اس کو قتل نہ کردوں ؟- اس حدیث کی اسناد کو حافظ ابن قیم نے صحیح علیٰ شرط مسلم قرار دیا ہے (زاد المعاد) اور جوہر نقی میں علامہ ماوردی نے اس حدیث کی سند کو صحیح اور ابن کثیر نے اسناد جید، ابن حجر نے رواتہ موثقون فرمایا ہے۔- اسی بناء پر حضرت امام مالک اور بعض دوسرے ائمہ فقہاء نے تیسری طلاق کو مطلقا ناجائز اور طلاق بدعت قرار دیا ہے دوسرے ائمہ نے تین طہروں میں تین طلاقوں کو اگرچہ طلاق سنت میں داخل کہہ کر طلاق بدعت سے نکال دیا ہے مگر اس کے غیر مستحسن ہونے میں کسی کو اختلاف نہیں۔- خلاصہ یہ ہے کہ شریعت اسلام نے جو طلاق کے تین درجے تین طلاقوں کی صورت میں رکھے ہیں اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ان تینوں درجوں کو عبور کرنا ضروری یا بہتر ہے بلکہ منشاء شریعت کا تو یہ ہے کہ اول تو طلاق پر اقدام ہی ایک مبغوض و مکروہ فعل ہے اگر بمجبوری اس اقدام کی نوبت آجائے تو اس کے کم سے کم درجے یعنی ایک طلاق پر اکتفاء کیا جائے اور عدت گذرنے دیں تو عدت ختم ہوتے ہی یہی ایک طلاق رشتہ زوجیت قطع کرنے کے لئے کافی ہوجائے گی اور عورت آزاد ہو کر دوسرے شخص سے نکاح کرسکے گی یہی طریقہ طلاق احسن کہلاتا ہے اس طریقہ میں یہ حکمت اور فائدہ بھی ہے کہ صریح الفاظ طلاق سے ایک طلاق دینے کی صورت میں طرفین کے لئے مصالحت کی راہیں کھلی رہیں گی عدت ختم ہونے سے پہلے پہلے تو صرف طلاق سے رجوع کرلینا بقاء نکاح کے لئے کافی ہوگا اور عدت ختم ہوجانے کے بعد اگرچہ نکاح ٹوٹ چکے گا اور عورت آزاد ہوجائے گی مگر پھر بھی یہ گنجائش باقی رہے گی کہ اگر دونوں میں اب مصالحت ہوجائے اور باہم نکاح کرنا چاہیں تو نکاح جدید اسی وقت ہوسکتا ہے۔- لیکن اگر کوئی شخص اس طلاق احسن کے طریقے پر اکتفاء نہ کرے دوران عدت میں مزید ایک طلاق صریح اور صاف لفظوں میں دیدے تو اس نے قطع نکاح کے دو درجے طے کرلئے جس کی ضرورت نہ تھی اور ایسا کرنا شرعا پسندیدہ بھی نہ تھا مگر بہرحال دو درجے طے ہوگئے مگر ان دو درجوں کے طے ہوجانے تک بھی بات وہیں رہی کہ دوران عدت میں رجعت کا اختیار باقی ہے اور عدت ختم ہوجانے کے بعد بتراضی طرفین نکاح جدید ہوسکتا ہے فرق صرف اتنا ہے کہ دو طلاق تک پہنچنے میں شوہر نے اپنے اختیارات کی ایک کڑی اور توڑ ڈالی اور اس سرحد پر پہنچ گیا کہ اگر اب ایک مرتبہ بھی طلاق دیدے تو معاملہ ہمیشہ کے لئے ختم ہوجائے۔- جس شخص نے یہ دو درجے طلاق کے طے کرلئے اس کے لئے آگے یہ ہدایت دی گئی فَاِمْسَاكٌۢ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِيْحٌۢ بِاِحْسَانٍ اس میں فَاِمْسَاكٌۢ بِمَعْرُوْفٍ کے لفظوں میں دو حکم بتلائے گئے اول یہ کہ عدت کے دوران رجعت کرلینا نکاح جدید کا محتاج نہیں بلکہ صرف امساک یعنی طلاق سے رجعت کرکے روک لینا کافی ہے اگر ایسا کرلیا تو سابق نکاح ہی کی بنیاد پر تعلق زوجیت بحال ہوجائے گا۔- دوسرے اس میں شوہر کو یہ ہدایت دی گئی کہ اگر اس کا ارادہ اصلاح حال اور صلح و صفائی کے ساتھ زندگی گذارنے کا ہے تب تو رجعت پر اقدام کرے ورنہ چھوڑ دے کہ عدت گذر کر تعلق زوجیت ختم ہوجائے ایسا نہ ہو کہ بغیر ارادہ اصلاح کے محض عورت کو پریشان کرنے کے لئے رجعت کرے۔- اسکے بالمقابل اَوْ تَسْرِيْحٌۢ بِاِحْسَانٍ فرمایا تسریح کے معنے کھول دینے اور چھوڑ دینے کے ہیں اس سے اشارہ کردیا کہ قطع تعلق کے لئے کسی مزید طلاق یا دوسرے کسی عمل کی ضرورت نہیں بغیر رجعت کے عدت ختم ہوجانا ہی تعلقات زوجیت ختم کرنے کے لئے کافی ہے۔ امام حدیث ابوداؤد نے بروایت ابو رزین اسدی نقل کیا ہے کہ اس آیت کے نزول پر ایک شخص نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے الطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ فرمایا تیسری طلاق کا یہاں کیوں ذکر نہیں کیا ؟ آپنے فرمایا کہ اَوْ تَسْرِيْحٌۢ بِاِحْسَانٍ جو بعد میں مذکور ہے وہی تیسری طلاق ہے، (روح المعانی) مطلب اس کا جمہور علماء کے نزدیک یہ ہے کہ جو کام تعلقات زوجیت کے کلی انقطاع کا تیسری طلاق سے ہوتا وہی کام اس طرز عمل سے ہوجائیگا کہ عدت کے اندر رجعت نہ کرے اور جس طرح فَاِمْسَاكٌۢ کے ساتھ بِمَعْرُوْفٍ کی قید لگا کر یہ ہدایت فرمادی کی رجعت کرکے بیوی کو روکا جائے تو حسن سلوک کے ساتھ روکا جائے اسی طرح تَسْرِيْحٌۢ کے ساتھ بِاِحْسَانٍ کی قید لگا کر یہ ہدایت دے دی کہ طلاق ایک معاملہ کا فسخ ہے شریف انسان کا کام یہ ہے کہ جس طرح معاملہ اور معاہدہ خوش دلی اور حسن سلوک کے ساتھ کیا جاتا ہے اسی طرح اگر فسخ معاہدہ کی ضرورت پیش آجائے تو اس کو بھی غصہ یا لڑائی جھگڑے کے ساتھ نہ کریں بلکہ وہ بھی احسان و سلوک کے ساتھ کریں کہ رخصت کے وقت مطلقہ بیوی کو کچھ تحفہ کپڑے وغیرہ دے کر رخصت کریں جس کا ذکر قرآن کریم کی دوسری آیت میں ہے مَتِّعُوْھُنَّ ۚ عَلَي الْمُوْسِعِ قَدَرُهٗ وَعَلَي الْمُقْتِرِ قَدَرُهٗ (٢٣٦: ٢) یعنی مطلقہ بیوی کو کچھ جوڑا کپڑے کا دے کر رخصت کریں مالی حیثیت کے مطابق۔- اور اگر اس نے اس پر بھی ایسا نہ کیا بلکہ تیسری طلاق بھی دے ڈالی تو اب اس نے اپنے سارے اختیارات شریعت کی دی ہوئی آسانیوں کو نظر انداز کرکے بلاوجہ اور بلا ضرورت ختم کردیئے تو اب اس کی سزا یہ ہے کہ نہ رجعت ہوسکے اور نہ بغیر دوسری شادی کے آپس میں نکاح ہوسکے۔- اگر کسی نے غیر مستحسن یا غیر مشروع طریقہ سے تین طلاق دے دیتو اس کا اثر کیا ہوگا ؟- اس کا جواب عقلی اور عرفی طور پر تو یہی ہے کہ کسی فعل کا جرم و گناہ اس کے مؤ ثر ہونے میں کہیں بھی مانع نہیں ہوتا قتل ناحق جرم و گناہ ہے مگر جس کو گولی یا تلوار مار کر قتل کیا گیا ہے وہ تو قتل ہو ہی جاتا ہے اس کی موت تو اس کا انتظار نہیں کرتی کہ یہ گولی جائز طریقہ سے ماری گئی ہے یا ناجائز طریقہ سے، چوری کرنا باتفاق مذاہب جرم و گناہ ہے مگر جو مال اس طرح غائب کردیا گیا وہ تو ہاتھ سے نکل ہی جاتا ہے اسی طرح تمام معاصی اور جرائم کا یہی حال ہے کہ ان کا جرم و گناہ ہونا ان کے مؤ ثر ہونے میں مانع نہیں ہوتا۔- اس اصول کا مقتضیٰ یہی ہے کہ شریعت کی دی ہوئی آسانیوں کو نظر انداز کرنا اور بلاوجہ اپنے سارے اختیارات طلاق کو ختم کرکے تین طلاق تک پہنچنا اگرچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ناراضی کا سبب ہوا جیسا کہ سابقہ روایت میں لکھا جاچکا ہے اور اسی لئے جمہور امت کے نزدیک یہ فعل غیر مستحسن اور بعض کے نزدیک ناجائز ہے مگر ان سب باتوں کے باوجود جب کسی نے ایسا اقدام کرلیا تو اس کا وہی اثر ہونا چاہئے جو جائز طلاق کا ہوتا یعنی تین طلاق واقع ہوجائیں اور رجعت ہی کا اختیار نہیں نکاح جدید کا اختیار بھی سلب ہوجائے۔- اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فیصلہ اس پر شاہد ہے کہ اظہار غضب کے باوجود آپ نے تینوں طلاقوں کو نافذ فرمایا جس کے بہت سے واقعات کتب حدیث میں مذکور ہیں اور جن علماء نے اس مسئلہ پر مستقل کتابیں لکھی ہیں ان میں ان واقعات کو جمع کردیا ہے، حال میں مولانا ابوالزاہد محمد سرفراز صاحب کی کتاب عمدۃ الاثاث بھی اس مسئلہ پر شائع ہوگئی ہے جو بالکل کافی ہے یہاں صرف دو تین حدیثیں نقل کی جاتی ہیں۔- محمود بن لبید کی روایت جو بحوالہ نسائی اوپر لکھی گئی ہے اس میں تین طلاقیں بیک وقت دینے پر انتہائی ناراضگی کا اظہار تو منقول ہے یہاں تک کہ بعض صحابہ کرام (رض) اجمعین نے اس شخص کو مستوجب قتل سمجھا مگر یہ کہیں منقول نہیں کہ آپ نے اس کی طلاق کو ایک رجعی قرار دے کر بیوی اس کے حوالے کردی ہو۔ - بلکہ دوسری روایت جو آگے آتی ہے جس طرح اس میں اس کی تصریح موجود ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عویمر کی بیک وقت تین طلاق کو باوجود ناراضی کے نافذ فرمادیا اسی طرح مذکورہ حدیث محمود بن لبید کے متعلق قاضی ابوبکر بن عربی نے یہ الفاظ بھی نقل کئے ہیں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عویمر کی تین طلاقوں کی طرح اس کی بھی تین طلاقوں کو نافذ فرما دیا تھا ان کے الفاظ یہ ہیں :- فلم یردہ النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بل امضاہ کما فی حدیث عویمر العجلانی فی اللعان حیث امضی طلاقہ الثلاث ولم یردہٗ (تھذیب سنن ابی داؤد طبع مصر ص ١٢٩ جلد ٣) تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے رد نہیں کیا بلکہ اسے نافذ فرمادیا جیسا کہہ عویمر عجلانی کی لعان والی حدیث میں ہے کہ آپ نے ان کی تین طلاقوں کو نافذ فرمادیا تھا اور رد نہیں کیا تھا۔- دوسری حدیث صدیقہ عائشہ کی صحیح بخاری میں بالفاظ ذیل ہے :- ان رجلا طلق امرأ تہ ثلاثا فتزوجت فلطق فسئل النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اتحل للاول قال لا حتیٰ یذوق عسیلتہا کما ذاقہا الاول، (صحیح بخاری، ص ٧٩١ ج ٢) ایک آدمی نے اپنی بیوی کو تین طلاق دی اس عورت نے دوسری جگہ نکاح کیا تو اس دوسرے شوہر نے بھی اسے طلاق دے دینبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا گیا کیا یہ عورت پہلے شوہر کے لئے حلال ہے ؟ آپ نے فرمایا نہیں جب تک کہ دوسرا شوہر اس سے ہم بستری کرکے لطف اندوز نہ ہوجائے جس طرح پہلے شوہر نے کیا تھا اس وقت تک طلاق دینے سے پہلے شوہر کے لئے حلال نہیں ہوگی۔- الفاظ روایت سے ظاہر یہی ہے کہ یہ تینوں طلاق بیک وقت دی گئی تھیں شروح حدیث فتح الباری عمدۃ قسطلانی وغیرہ میں روایت کا مفہوم یہی قرار دیا گیا ہے کہ بیک وقت تین طلاق دی تھیں اور حدیث میں یہ فیصلہ مذکور ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان تین طلاق کو نافذ قرار دے کر حکم دیا کہ جب تک شوہر ثانی سے ہمبستری اور صحبت نہ ہوجائے تو اس کے طلاق دینے سے شوہر اول کے لئے حلال نہیں ہوگی۔- تیسری روایت حضرت عویمر عجلانی کی ہے کہ انہوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے اپنی بیوی سے لعان کیا اور اس کے بعد عرض کیا :- فلما فرغا قال عمویمر کذبت علیہا یارسول اللہ ان امسک تھا فطلقہا ثلاثاً قبل ان یامرہ النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (صحیح بخاری مع فتح الباری ص ٣٠١ ج ٩ صحیح مسلم ص ٢٨٩ ج ١) پس جب وہ دونوں لعان سے فارغ ہوگئے تو عویمر نے کہا اے اللہ کے رسول میں اس پر جھوٹ بولنے والا ہوں گا اگر میں نے اس کو اپنے پاس رکھ لیا، تو عویمر نے اس کو تین طلاقیں دے دیقبل اس کے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انھیں حکم دیتے۔- اور ابوذر نے اس واقعہ کو بروایت حضرت سہل بن سعد نقل کرکے یہ الفاظ نقل کئے ہیں :- فانفذہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وکان ماصنع عند رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سنۃ قال سعد حضرت ھذٰا عند رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فمضت السنۃ بعد فی المتلاعنین ان یفرق بینہما ثم لا یجتمعان ابدا (ابوداؤد ص ٣٠٢ طبع اصح المطالبع) تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے نافذ فرمادیا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے جو کچھ پیش آیا وہ سنت قرار پایا، سعد فرماتے ہیں اس موقع پر میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس حاضر تھا پس اس کے بعد لعان کرنے والوں کے بارے میں یہ طریقہ رائج ہوگیا کہ ان کے درمیان تفریق کردی جائے اور پھر وہ کبھی بھی جمع نہ ہوں۔- اس حدیث میں پوری وضاحت کے ساتھ ثابت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عویمر کی بیک وقت تین طلاق کو تین ہی قرار دے کر نافذ فرمایا ہے۔- اور محمود بن لبید کی سابقہ روایت میں بھی ابوبکر ابن عربی کی روایت کے مطابق تین طلاقوں کو نافذ کرنے کا ذکر موجود ہے اور بالفرض یہ بھی نہ ہوتا یہ کہیں منقول نہیں کہ آپ نے اس کو ایک طلاق رجعی قرار دے کر بیوی اس کے سپرد کردی ہو۔ - الحاصل مذکورہ تینوں احادیث سے یہ ثابت ہوگیا کہ اگرچہ تین طلاق بیک وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نزدیک سخت ناراضی کا موجب تھیں مگر بہرحال اثر ان کا یہی ہوا کہ تینوں طلاقیں واقع قراردی گیئں۔- حضرت فاروق اعظم کا واقعہ اور اس پر اشکال و جواب :- مذکور الصدر تحریر سے یہ ثابت ہوا کہ بیک وقت تین طلاق کو تین قرار دینا خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فیصلہ تھا مگر یہاں ایک اشکال حضرت فاروق اعظم کے ایک واقعہ سے پیدا ہوتا ہے جو صحیح مسلم اور اکثر کتب حدیث میں منقول ہے اس کے الفاظ یہ ہیں :- عن ابن عباس قال کان الطلاق علیٰ عھد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وابی بکر وسنتین من خلافۃ عمر طلاق الثلاث واحدۃ فقال عمر بن الخطاب ان الناس قد استعجلوا فی امر کانت لہم فیہ اناۃ فلو امضینا علیہم فامضاہ علیہم (صحیح مسلم ص ٤٧٧ جلد ١) - حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں حضرت ابوبکر کے عہد خلافت میں اور حضرت عمر کی خلافت کے ابتدائی دو سالوں میں طلاق کا یہ طریقہ تھا کہ تین طلاقوں کو ایک قرار دیا جاتا تھا تو حضرت عمر نے فرمایا کہ لوگ جلدی کرنے لگے ہیں ایک ایسے معاملہ میں جس میں ان کے لئے مہلت تھی تو مناسب رہے گا ہم اس کو ان پر نافذ کردیں تو آپ نے ان پر نافذ کردیا۔- فاروق اعظم کا یہ اعلان فقہاء صحابہ کرام (رض) اجمعین کے مشورہ سے صحابہ وتابعین کے مجمع عام میں ہوا کسی سے اس پر انکار یا تردد منقول نہیں اسی لئے حافظ حدیث امام ابن عبد البر مالکی نے اس پر اجماع نقل کیا ہے زرقانی شرح مؤ طاء میں یہ الفاظ ہیں :- والجمہور علیٰ وقوع الثلاث بل حکیٰ ابن عبد البر الاجماع قائلا ان خلافہ لا یلتفت الیہ (زرقانی شرح مؤ طاء ص ١٦٧ ج ٣) - اور جمہور امت تین طلاقوں کے واقع ہونے پر متفق ہیں بلکہ ابن عبد البر نے اس پر اجماع نقل کرکے فرمایا کہ اس کا خلاف شاذ ہے جس کی طرف التفات نہیں کیا جائے گا۔- اور شیخ الاسلام نووی نے شرح مسلم میں فرمایا :- فخاطب عمر بذلک الناس جمیعاً وفیہم اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (رض) الذین قد علموا ما تقدم من ذلک فی زمن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فلم ینکر علیہ منہم منکر ولم یدفعہ دافع (شرح معانی الآثارص ٢٩ ج ٢) - پس حضرت عمر (رض) نے اس کے ساتھ لوگوں کو مخاطب فرمایا اور ان لوگوں میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وہ صحابہ کرام (رض) اجمعین بھی تھے جن کو اس سے پہلے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے کے طریقے کا علم تھا تو ان میں سے کسی انکار کرنے والے نے انکار نہیں کیا اور کسی رد کرنے والے نے اسے رد نہیں کیا۔- مذکورہ واقعہ میں اگرچہ امت کے لئے عمل کی راہ باجماع صحابہ کرام (رض) اجمعین وتابعین مقرر ہوگئی کہ تین طلاقیں بیک وقت دینا اگرچہ غیر مستحسن اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ناراض کا سبب ہے مگر اس کے باوجود جس نے اس غلطی کا ارتکاب کیا اس کی بیوی اس پر حرام ہوجائے گی اور بغیر دوسرے شخص سے نکاح و طلاق کے اس کے لئے حلال نہ ہوگی۔- لیکن علمی اور نظری طور پر یہاں دو سوال پیدا ہوتے ہیں اول تو یہ کہ سابقہ تحریر میں متعدد روایات حدیث کے حوالے سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ تین طلاق بیک وقت دینے والے پر خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تین طلاق کو نافذ فرمایا ہے اس کو رجعت یا نکاح جدید کی اجازت نہیں دی پھر اس واقعہ میں حضرت عبداللہ ابن عباس کے اس کلام کا کیا مطلب ہوگا کہ عہد رسالت میں اور عہد صدیقی میں اور دو سال تک عہد فاروقی میں تین طلاق کو ایک ہی مانا جاتا تھا فاروق اعظم نے تین طلاق کا فیصلہ فرمایا ؟ - دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر واقعہ اسی طرح تسلیم کرلیا جائے کہ عہد رسالت عہد صدیقی میں تین طلاق کو ایک مانا جاتا تھا تو فاروق اعظم (رض) نے اس فیصلہ کو کیسے بدل دیا اور بالفرض ان سے کوئی غلطی بھی ہوگئی تھی تو تمام صحابہ کرام (رض) اجمعین نے اس کو کیسے تسلیم کرلیا ؟- ان دونوں سوالوں کے حضرات فقہاء ومحدثین نے مختلف جوابات دیئے ہیں ان میں صاف اور بےتکلف جواب وہ ہے جسکو امام نووی نے شرح مسلم میں اصح کہہ کر نقل کیا ہے کہ فاروق اعظم کا یہ فرمان اور اس پر صحابہ کرام (رض) اجمعین کا اجماع طلاق ثلاث کی ایک خاص صورت کے متعلق قرار دیا جائے وہ یہ کہ کوئی شخص تین مرتبہ تجھ کو طلاق، تجھ کو طلاق، تجھ کو طلاق، کہے یا میں نے طلاق دی، طلاق دی، طلاق دی کہے۔- یہ صورت ایسی ہے کہ اس کے معنی میں دو احتمال ہوتے ہیں ایک یہ کہ کہنے والے نے تین طلاق دینے کی نیت سے یہ الفاظ کہے ہوں دوسرے یہ کہ تین مرتبہ محض تاکید کے لئے مکرر کہا ہو تین طلاق کی نیت نہ ہو اور یہ ظاہر ہے کہ نیت کا علم کہنے والے ہی کے اقرار سے ہوسکتا ہے، رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد مبارک میں صدق ودیانت عام اور غالب تھی اگر ایسے الفاظ کہنے کے بعد کسی نے یہ بیان کیا کہ میری نیت تین طلاق کی نہیں تھی بلکہ محض تاکید کے لئے یہ الفاظ مکرر بولے تھے تو آپ اس کے حلفی بیان کی تصدیق فرما دیتے اور اس کو ایک ہی طلاق قرار دیتے تھے۔- اس کی تصدیق حضرت رکانہ (رض) کی حدیث سے ہوتی ہے جس میں مذکور ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو لفظ البتۃ کے ساتھ طلاق دے دیتھی یہ لفظ عرب کے عرف عام میں تین طلاق کے لئے بولا جاتا تھا مگر تین اس کا مفہوم صریح نہیں تھا اور حضرت رکانہ نے کہا کہ میری نیت تو اس لفظ سے تین طلاق کی نہیں تھی بلکہ ایک طلاق دینے کا قصد تھا، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو قسم دی انہوں نے اس پر حلف کرلیا تو آپ نے ایک ہی طلاق قرار دیدی۔- یہ حدیث ترمذی، ابوداؤد، ابن ماجہ، دارمی میں مختلف سندوں اور مختلف الفاظ کے ساتھ منقول ہے بعض الفاظ میں یہ بھی ہے کہ حضرت رکانہ نے اپنی بیوی کو تین طلاق دے دیتھی مگر ابوداؤد نے ترجیح اس کو دی ہے کہ دراصل رکانہ نے لفظ البتۃ سے طلاق دی تھی یہ لفظ چونکہ عام طور پر تین طلاق کے لئے بولا جاتا تھا اس کے کسی راوی نے اس کو تین طلاق سے تعبیر کردیا ہے۔- بہرحال اس حدیث سے یہ بات باتفاق ثابت ہے کہ حضرت رکانہ کی طلاق کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک اس وقت قرار دیا جب کہ انہوں نے حلف کے ساتھ بیان دیا کہ میری نیت تین طلاق کی نہیں تھی اس سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ انہوں نے تین طلاق کے الفاظ صریح اور صاف نہیں کہے تھے ورنہ پھر تین کی نیت نہ کرنے کا کوئی احتمال ہو کہ تین کی نیت کی ہے یا ایک ہی کی تاکید ان میں آپ نے حلفی بیان پر ایک قرار دے دیا کیونکہ زمانہ صدق دیانت کا تھا اس کا احتمال بہت بعید تھا کہ کوئی شخص جھوٹی قسم کھالے۔- صدیق اکبر کے عہد میں اور فاروق اعظم کے ابتدائی عہد میں دو سال تک یہی طریقہ جاری رہا پھر حضرت فاروق اعظم نے اپنے زمانے میں یہ محسوس کیا کہ اب صدق ودیانت کا معیار گھٹ رہا ہے اور آئندہ حدیث کی پیشنگوئی کے مطابق اور گھٹ جائے گا، دوسری طرف ایسے واقعات کی کثرت ہوگئی کہ تین مرتبہ الفاظ طلاق کہنے والے اپنی نیت صرف ایک طلاق کی بیان کرنے لگے تو یہ محسوس کیا گیا کہ اگر آئندہ اسی طرح طلاق دینے والے کے بیان نیت کی تصدیق کرکے ایک طلاق قرار دی جاتی رہی تو بعید نہیں کہ لوگ شریعت کی دی ہوئی سہولت کو بےجا استعمال کرنے لگیں اور بیوی کو واپس لینے کے لئے جھوٹ کہہ دیں کہ نیت ایک ہی کی تھی فاروق اعظم کی فراست اور انتظام دین میں دور بینی کو سبھی صحابہ کرام (رض) اجمعین نے درست سمجھ کر اتفاق کیا یہ حضرات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مزاج شناس تھے انہوں نے سمجھا کہ اگر ہمارے اس دور میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) موجود ہوتے تو یقینا وہ بھی اب دلوں کی مخفی نیت اور صاحب معاملہ کے بیان پر مدار رکھ کر فیصلہ نہ فرماتے اس لئے قانون یہ بنادیا کہ اب جو شخص تین مرتبہ لفظ طلاق کا تکرار کرے گا اس کی تین ہی طلاقیں قرار دی جائیں گی اس کی یہ بات نہ سنی جائے گی کہ اس نے نیت صرف ایک طلاق کی کی تھی۔- حضرت فاروق اعظم کے مذکور الصدر واقعہ میں جو الفاظ منقول ہیں وہ بھی اسی مضمون کی شہادت دیتے ہیں انہوں نے فرمایا۔- ان الناس قد استجلوا فی امر کانت لہم فیہ اناۃ فلو امضینا علیہم : لوگ جلدی کرنے لگے ہیں ایک ایسے معاملہ میں جس میں ان کے لئے مہلت تھی تو مناسب رہے گا کہ ہم اس کو ان پر نافذ کردیں۔- حضرت اعظم کے اس فرمان اور اس پر صحابہ کرام (رض) اجمعین کے اجماع کی یہ توجہیہ جو بیان کی گئی ہے اس کی تصدیق روایات حدیث سے بھی ہوتی ہے اور اس سے ان دونوں سوالوں کا خود بخود حل نکل آتا ہے کہ روایات حدیث میں خود آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تین طلاق کو تین ہی قرار دے کر نافذ کرنا متعدد واقعات سے ثابت ہے، حضرت ابن عباس کا یہ فرمانا کیسے صحیح ہوسکتا ہے کہ عہد رسالت میں تین کو ایک ہی مانا جاتا تھا کیونکہ معلوم ہوا کہ ایسی طلاق جو تین کے لفظ سے دی گئی یا تکرار طلاق تین کی نیت سے کیا گیا اس میں عہد رسالت میں بھی تین ہی قرار دی جاتی تھی ایک قرار دینے کا تعلق ایسی طلاق سے ہے جس میں ثلاث کی تصریح نہ ہو یا تین طلاق دینے کا اقرار نہ ہو بلکہ تین بطور تاکید کے کہنے کا دعویٰ ہو۔ - اور یہ سوال بھی ختم ہوجاتا ہے کہ جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تین کو ایک قرار دیا تھا تو فاروق اعظم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دی ہوئی سہولت کے بےجا استعمال سے روکا ہے معاذ اللہ آپ کے کسی فیصلہ کے خلاف کا یہاں کوئی شائبہ نہیں۔- اس طرح تمام اشکالات رفع ہوگئے والحمد للہ، اس جگہ مسئلہ طلاق ثلاث کی مکمل بحث اور اس کی تفصیلات کا احاطہ مقصود نہیں وہ شروح حدیث میں بہت مفصل ہے، اور بہت سے علماء نے اس کو مفصل رسالوں میں بھی واضح کردیا ہے سمجھنے کے لئے بھی کافی ہے۔ واللہ الموفق والمعین۔
فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلَا تَحِلُّ لَہٗ مِنْۢ بَعْدُ حَتّٰي تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَہٗ ٠ ۭ فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْھِمَآ اَنْ يَّتَرَاجَعَآ اِنْ ظَنَّآ اَنْ يُّقِيْمَا حُدُوْدَ اللہِ ٠ ۭ وَتِلْكَ حُدُوْدُ اللہِ يُبَيِّنُھَا لِقَوْمٍ يَّعْلَمُوْنَ ٢٣٠- طلق - أصل الطَّلَاقِ : التّخليةُ من الوثاق، يقال : أَطْلَقْتُ البعیرَ من عقاله، وطَلَّقْتُهُ ، وهو طَالِقٌ وطَلِقٌ بلا قيدٍ ، ومنه استعیر : طَلَّقْتُ المرأةَ ، نحو : خلّيتها فهي طَالِقٌ ، أي : مُخَلَّاةٌ عن حبالة النّكاح . قال تعالی: فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَ [ الطلاق 1] - ( ط ل ق ) - ا لطلاق دراصل اس کے معنی کسی بندھن سے آزاد کرنا کے ہیں ۔ محاورہ الطلقت البعر من عقالہ وطلقۃ میں نے اونٹ کا پائے بند کھول دیا طالق وطلق وہ اونٹ جو مقید نہ ہو اسی سے خلی تھا کی طرح طلقت المرءۃ کا محاورہ مستعار ہے یعنی میں نے اپنی عورت کو نکاح کے بندھن سے آزادکر دیا ایسی عورت کو طائق کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَ [ الطلاق 1] تو ان کی عدت کے شروع میں طلاق دو ۔ - نكح - أصل النِّكَاحُ للعَقْدِ ، ثم استُعِيرَ للجِماع، ومُحالٌ أن يكونَ في الأصلِ للجِمَاعِ ، ثمّ استعیر للعَقْد، لأَنَّ أسماءَ الجِمَاعِ كلَّهَا كِنَايَاتٌ لاسْتِقْبَاحِهِمْ ذكرَهُ كاسْتِقْبَاحِ تَعَاطِيهِ ، ومحال أن يَسْتَعِيرَ منَ لا يَقْصِدُ فحْشاً اسمَ ما يَسْتَفْظِعُونَهُ لما يَسْتَحْسِنُونَهُ. قال تعالی: وَأَنْكِحُوا الْأَيامی - [ النور 32] ، إِذا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِناتِ [ الأحزاب 49] ، فَانْكِحُوهُنَّ بِإِذْنِ أَهْلِهِنَ [ النساء 25] إلى غير ذلک من الآیات .- ( ن ک ح ) اصل میں نکاح بمعنی عقد آتا ہے اور بطور استعارہ جماع کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے یہ ناممکن ہے کہ یہ اصل میں بمعنی جماع ہو اور پھر عقد میں بطور استعارہ استعمال ہوا ہو کیوں کہ عربی زبان میں جماع کے معنی میں تمام الفاظ کنائی ہیں ۔ کیونکہ نفس فعل کی طرح صراحتا اس کا تذکرہ بھی مکروہ سمجھا جاتا ہے لہذا یہ نہیں ہوسکتا کہ زبان ذکر فحش سے اس قدر گریزا ہو وہ ایک مستحن امر کے لئے قبیح لفظ استعمال کرے قرآن پاک میں ہے : ۔ وَأَنْكِحُوا الْأَيامی[ النور 32] اور اپنی قوم کی بیوہ عورتوں کے نکاح کردیا کرو ۔ إِذا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِناتِ [ الأحزاب 49] جب تم مومن عورتوں سے نکاح کر کے فَانْكِحُوهُنَّ بِإِذْنِ أَهْلِهِنَ [ النساء 25] تو ان لونڈیوں کے ساتھ ان کے مالکوں سے اجازت حاصل کر کے نکاح کرلو ۔ علٰی ہذا لقیاس متعد آیات ہیں جن میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے ۔- زوج - يقال لكلّ واحد من القرینین من الذّكر والأنثی في الحیوانات الْمُتَزَاوِجَةُ زَوْجٌ ، ولكلّ قرینین فيها وفي غيرها زوج، کالخفّ والنّعل، ولكلّ ما يقترن بآخر مماثلا له أو مضادّ زوج . قال تعالی: فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى[ القیامة 39] ، وقال : وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ- [ البقرة 35] ، وزَوْجَةٌ لغة رديئة، وجمعها زَوْجَاتٌ ، قال الشاعر : فبکا بناتي شجوهنّ وزوجتي وجمع الزّوج أَزْوَاجٌ. وقوله : هُمْ وَأَزْواجُهُمْ [يس 56] ، احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات 22] ، أي : أقرانهم المقتدین بهم في أفعالهم، وَلا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلى ما مَتَّعْنا بِهِ أَزْواجاً مِنْهُمْ [ الحجر 88] ، أي : أشباها وأقرانا . وقوله : سُبْحانَ الَّذِي خَلَقَ الْأَزْواجَ [يس 36] ، وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنا زَوْجَيْنِ [ الذاریات 49] ، فتنبيه أنّ الأشياء کلّها مركّبة من جو هر وعرض، ومادّة وصورة، وأن لا شيء يتعرّى من تركيب يقتضي كونه مصنوعا، وأنه لا بدّ له من صانع تنبيها أنه تعالیٰ هو الفرد، وقوله : خَلَقْنا زَوْجَيْنِ [ الذاریات 49] ، فبيّن أنّ كلّ ما في العالم زوج من حيث إنّ له ضدّا، أو مثلا ما، أو تركيبا مّا، بل لا ينفكّ بوجه من تركيب، وإنما ذکر هاهنا زوجین تنبيها أنّ الشیء۔ وإن لم يكن له ضدّ ، ولا مثل۔ فإنه لا ينفكّ من تركيب جو هر وعرض، وذلک زوجان، وقوله : أَزْواجاً مِنْ نَباتٍ شَتَّى [ طه 53] ، أي : أنواعا متشابهة، وکذلک قوله : مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان 10] ، ثَمانِيَةَ أَزْواجٍ [ الأنعام 143] ، أي : أصناف . وقوله : وَكُنْتُمْ أَزْواجاً ثَلاثَةً [ الواقعة 7] ، أي : قرناء ثلاثا، وهم الذین فسّرهم بما بعد وقوله : وَإِذَا النُّفُوسُ زُوِّجَتْ [ التکوير 7] ، فقد قيل : معناه : قرن کلّ شيعة بمن شایعهم في الجنّة والنار، نحو : احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات 22] ، وقیل : قرنت الأرواح بأجسادها حسبما نبّه عليه قوله في أحد التّفسیرین : يا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلى رَبِّكِ راضِيَةً مَرْضِيَّةً [ الفجر 27- 28] ، أي : صاحبک . وقیل : قرنت النّفوس بأعمالها حسبما نبّه قوله : يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ ما عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَراً وَما عَمِلَتْ مِنْ سُوءٍ [ آل عمران 30] ، وقوله : وَزَوَّجْناهُمْ بِحُورٍ عِينٍ [ الدخان 54] ، أي : قرنّاهم بهنّ ، ولم يجئ في القرآن زوّجناهم حورا، كما يقال زوّجته امرأة، تنبيها أن ذلک لا يكون علی حسب المتعارف فيما بيننا من المناکحة .- ( ز و ج ) الزوج جن حیوانات میں نر اور مادہ پایا جاتا ہے ان میں سے ہر ایک دوسرے کا زوج کہلاتا ہے یعنی نر اور مادہ دونوں میں سے ہر ایک پر اس کا اطلاق ہوتا ہے ۔ حیوانات کے علاوہ دوسری اشیاء میں جفت کو زوج کہا جاتا ہے جیسے موزے اور جوتے وغیرہ پھر اس چیز کو جو دوسری کی مماثل یا مقابل ہونے کی حثیت سے اس سے مقترن ہو وہ اس کا زوج کہلاتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى [ القیامة 39] اور ( آخر کار ) اس کی دو قسمیں کیں ( یعنی ) مرد اور عورت ۔ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ [ البقرة 35] اور تیری بی بی جنت میں رہو ۔ اور بیوی کو زوجۃ ( تا کے ساتھ ) کہنا عامی لغت ہے اس کی جمع زوجات آتی ہے شاعر نے کہا ہے فبکا بناتي شجوهنّ وزوجتیتو میری بیوی اور بیٹیاں غم سے رونے لگیں ۔ اور زوج کی جمع ازواج آتی ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ هُمْ وَأَزْواجُهُمْ [يس 56] وہ اور ان کے جوڑے اور آیت : ۔ احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات 22] جو لوگ ( دنیا میں ) نا فرمانیاں کرتے رہے ہیں ان کو اور ان کے ساتھیوں کو ( ایک جگہ ) اکٹھا کرو ۔ میں ازواج سے ان کے وہ ساتھی مراد ہیں جو فعل میں ان کی اقتدا کیا کرتے تھے اور آیت کریمہ : ۔ إِلى ما مَتَّعْنا بِهِ أَزْواجاً مِنْهُمْ [ الحجر 88] اس کی طرف جو مختلف قسم کے لوگوں کو ہم نے ( دنیاوی سامان ) دے رکھے ہیں ۔ اشباہ و اقران یعنی ایک دوسرے سے ملتے جلتے لوگ مراد ہیں اور آیت : ۔ سُبْحانَ الَّذِي خَلَقَ الْأَزْواجَ [يس 36] پاک ہے وہ ذات جس نے ( ہر قسم کی ) چیزیں پیدا کیں ۔ نیز : ۔ وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنا زَوْجَيْنِ [ الذاریات 49] اور تمام چیزیں ہم نے دو قسم کی بنائیں ۔ میں اس بات پر تنبیہ کی ہے ۔ کہ تمام چیزیں جوہر ہوں یا عرض مادہ و صورت سے مرکب ہیں اور ہر چیز اپنی ہیئت ترکیبی کے لحا ظ سے بتا رہی ہے کہ اسے کسی نے بنایا ہے اور اس کے لئے صائع ( بنانے والا ) کا ہونا ضروری ہے نیز تنبیہ کی ہے کہ ذات باری تعالیٰ ہی فرد مطلق ہے اور اس ( خلقنا زوجین ) لفظ سے واضح ہوتا ہے کہ روئے عالم کی تمام چیزیں زوج ہیں اس حیثیت سے کہ ان میں سے ہر ایک چیز کی ہم مثل یا مقابل پائی جاتی ہے یا یہ کہ اس میں ترکیب پائی جاتی ہے بلکہ نفس ترکیب سے تو کوئی چیز بھی منفک نہیں ہے ۔ پھر ہر چیز کو زوجین کہنے سے اس بات پر تنبیہ کرنا مقصود ہے کہ اگر کسی چیز کی ضد یا مثل نہیں ہے تو وہ کم از کم جوہر اور عرض سے ضرور مرکب ہے لہذا ہر چیز اپنی اپنی جگہ پر زوجین ہے ۔ اور آیت أَزْواجاً مِنْ نَباتٍ شَتَّى [ طه 53] طرح طرح کی مختلف روئیدگیاں ۔ میں ازواج سے مختلف انواع مراد ہیں جو ایک دوسری سے ملتی جلتی ہوں اور یہی معنی آیت : ۔ مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان 10] ہر قسم کی عمدہ چیزیں ( اگائیں ) اور آیت کریمہ : ۔ ثَمانِيَةَ أَزْواجٍ [ الأنعام 143]( نر اور مادہ ) آٹھ قسم کے پیدا کئے ہیں ۔ میں مراد ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَكُنْتُمْ أَزْواجاً ثَلاثَةً [ الواقعة 7] میں ازواج کے معنی ہیں قرناء یعنی امثال ونظائر یعنی تم تین گروہ ہو جو ایک دوسرے کے قرین ہو چناچہ اس کے بعد اصحاب المیمنۃ سے اس کی تفصیل بیان فرمائی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِذَا النُّفُوسُ زُوِّجَتْ [ التکوير 7] اور جب لوگ باہم ملا دیئے جائیں گے ۔ میں بعض نے زوجت کے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ ہر پیروکار کو اس پیشوا کے ساتھ جنت یا دوزخ میں اکٹھا کردیا جائیگا ۔ جیسا کہ آیت : ۔ احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات 22] میں مذکور ہوچکا ہے اور بعض نے آیت کے معنی یہ کئے ہیں کہ اس روز روحوں کو ان کے جسموں کے ساتھ ملا دیا جائیگا جیسا کہ آیت يا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلى رَبِّكِ راضِيَةً مَرْضِيَّةً [ الفجر 27- 28] اے اطمینان پانے والی جان اپنے رب کی طرف لوٹ آ ۔ تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی ۔ میں بعض نے ربک کے معنی صاحبک یعنی بدن ہی کئے ہیں اور بعض کے نزدیک زوجت سے مراد یہ ہے کہ نفوس کو ان کے اعمال کے ساتھ جمع کردیا جائیگا جیسا کہ آیت کریمہ : ۔ يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ ما عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَراً وَما عَمِلَتْ مِنْ سُوءٍ [ آل عمران 30] جب کہ ہر شخص اپنے اچھے اور برے عملوں کو اپنے سامنے حاضر اور موجود پائیگا ۔ میں بھی اس معنی کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَزَوَّجْناهُمْ بِحُورٍ عِينٍ [ الدخان 54] اور ہم انہیں حورعین کا ساتھی بنا دیں گے ۔ میں زوجنا کے معنی باہم ساتھی اور رفیق اور رفیق بنا دینا ہیں یہی وجہ ہے کہ قرآن نے جہاں بھی حور کے ساتھ اس فعل ( زوجنا ) کا ذکر کیا ہے وہاں اس کے بعد باء لائی گئی ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ حوروں کے ساتھ محض رفاقت ہوگی جنسی میل جول اور ازواجی تعلقات نہیں ہوں گے کیونکہ اگر یہ مفہوم مراد ہوتا تو قرآن بحور کی بجائے زوجناھم حورا کہتا جیسا کہ زوجتہ امرءۃ کا محاورہ ہے یعنی میں نے اس عورت سے اس کا نکاح کردیا ۔- غير - أن تکون للنّفي المجرّد من غير إثبات معنی به، نحو : مررت برجل غير قائم . أي : لا قائم، قال : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص 50] ،- ( غ ی ر ) غیر - اور محض نفی کے لئے یعنی اس سے کسی دوسرے معنی کا اثبات مقصود نہیں ہوتا جیسے مررت برجل غیر قائم یعنی میں ایسے آدمی کے پاس سے گزرا جو کھڑا نہیں تھا ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص 50] اور اس سے زیادہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے - رجع - الرُّجُوعُ : العود إلى ما کان منه البدء، أو تقدیر البدء مکانا کان أو فعلا، أو قولا، وبذاته کان رجوعه، أو بجزء من أجزائه، أو بفعل من أفعاله . فَالرُّجُوعُ : العود، - ( ر ج ع ) الرجوع - اس کے اصل معنی کسی چیز کے اپنے میدا حقیقی یا تقدیر ی کی طرف لوٹنے کے ہیں خواہ وہ کوئی مکان ہو یا فعل ہو یا قول اور خواہ وہ رجوع بذاتہ ہو یا باعتبار جز کے اور یا باعتبار فعل کے ہو الغرض رجوع کے معنی عود کرنے اور لوٹنے کے ہیں اور رجع کے معنی لوٹا نے کے - ظن - والظَّنُّ في كثير من الأمور مذموم، ولذلک قال تعالی: وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس 36] ، وَإِنَّ الظَّنَ [ النجم 28] ، وَأَنَّهُمْ ظَنُّوا كَما ظَنَنْتُمْ [ الجن 7] ،- ( ظ ن ن ) الظن - اور ظن چونکہ عام طور پر برا ہوتا ہے اس لئے اس کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا : وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس 36] اور ان میں کے اکثر صرف ظن کی پیروی کرتے ہیں ۔ - قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11]
(سابقہ آیت کی بقیہ تفسیر :)- اگر اس شخص کے ارادے کے تحت تین طلاقوں کے واقع ہوجانے کی گنجائش نہ ہوتی تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے حلفاً یہ نہ کہلواتے کہ اس نے صرف ایک کا ارادہ کیا۔ اس سلسلے میں ہم نے سلف کے اقوال نقل کر دئیے ہیں اور یہ واضح کردیا ہے کہ اگرچہ یہ طریقہ معصیت کا طریقہ ہے لیکن اس سے طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ اس لیی کتاب و سنت اور اجماع امت ایک ساتھ دی گئی تین طلاقوں کے واقع وہ جانے کو واجب کر رہے ہیں اگرچہ اس طرح طلاق دینا معصیت ہے۔ بشرین الولید نے امام ابویوسف سے نقل کیا ہ کہ ان کے قول کے مطابق حجاج بنارطاۃ اس مسئلے میں بڑے سخت تھے اور کہا کرتے تھے کہ تین طلاق کوئی چیز نہیں ہے ۔- محمد بن اسحاق کا قول ہے کہ تین طلاق کو ایک طلاق کی طرف لوٹا دیا جائے گا۔ انہوں نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے ہے جو انہوں نے دائون بن حصین سے، انہوں نے عکرمہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ حضرت رکانہ بن عبد یزید (رض) نے اپنی بیوی کو ایک مجلس میں تین طلاقیں دے دیں لیکن انہیں اس کا بڑا صدمہ ہوا۔ انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ذکر کیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دریافت فرمایا کہ تم ن طلاق کس کیفیت سے دی ہے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ ” تین طلاقیں دی ہیں “۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا کہ ” کیا ایک مجلس میں دی ہیں ؟ “ اس نے اثبات میں جو اب دیا، اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ایک مجلس میں دی گئی یہ تین طلاقیں حقیت میں ایک طلاق ہے، اگر رجوع کرنا چاہو تو جائو جا کر رجوع کرلو، چناچہ حضرت رکانہ نے رجوع کرلیا۔ اسی طرح اس حدیث سے بھی استدلال کیا ہے جو بو عاصم نے ابن جریج سے، انہوں نے طائوس کے ایک بیٹے سے اور انہوں نے اپنے والد طائوس سے روایت کی ہے ابوالصہباء نے حضرت ابن عباس (رض) سے عرض کیا کہ آپ کو معلوم نہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، حضرت ابوبکر (رض) اور حضرت عمر (رض) کی خلافت کے ابتدائی دور میں تین طلاقوں کو صرف ایک طلاق کی طرف لوٹا دیا جاتا تھا۔ حضرت ابن عباس (رض) نے اثبات میں اس کا جوا دیا۔- ان دونوں روایتوں کے متعلق کہا گیا کہ یہ منکر ہیں۔ سعید بن جبیر، مالک بن الحارث، محمد بن ایاز اور نعمان بن ابی عیاش سب نے حضرت ابن عباس (رض) سے اپنی بیوی کو تین طلاق دینے والے کے متعلق روایت کی ہے کہ اس نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور اس کی بیوی اس سے علیحدہ ہوگئی۔ ابوالصہباء کی یہ حدیث اور ایک سند سے بھی روایت کی گئی ہے کہ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، حضرت ابوبکر (رض) اور حضرت عمر (رض) کی خلاف کے ابتدائی دور میں تین طلاقیں ایک شمار ہوتی تھی۔ پھر حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ ن تین طلاقوں کو تین ہی رکھیں ( تو بہتر ہوگا) ہمارے نزدیک اس قول کا مطلب یہ ہے کہ لوگ تین طلاقیں دیا کرتے تھے۔ حضرت عمر (رض) نے ان تینوں کو اسی طرح تین رہنے دیا۔ ابن وہب نے کہا ہے کہ انہیں عیاش بن عبداللہ فہری نے ابن شہاب سے، انہوں نے حضرت سہل بن سعد (رض) سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب عویمر (رض) عجلانی اور اس کی بیوی کے درمیان لعان کرا دیا تو عویمر نے کہا کہ اگر میں اسے اپنی زوجیت میں رکھوں گا تو میں جھوٹا قرار پائوں گا اس لیے میں اسے تین طلاق دیتا ہوں۔ اس طرح عویمر (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد سے پہلے ہی اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان طقالوں کو نافذ کردیا۔ - کیا حالت حیض میں طلاق واقع ہوجاتی ہے ؟- آیت سنت اور اجماع امت کے جو دلائل ہم پچھلے صفحات میں بیان کر آئے ہیں وہ حیض کی حالت میڈ دی گئی طلاق کے واقع ہوجانے کو واجب کردیتے ہیں اگرچہ حیض کی حالت میں طلاق دینا خود معصیت ہے۔ بعض جاہلوں کا یہ خیال ہے کہ حیض میں دی گئی طلاق واقع نہیں ہوتی۔ انہوں نے اس روایت سے استدلال کیا ہے جو ہمیں محمد بن بکر نے، نہیں ابودائود نے انہیں امد بن صالح نے، انہیں عبدالرزاق نے ، انہیں ابن جریج نے، انہیں ابو الزبیر نے بیان کیا کہ انہوں نے عروہ بن الزبیر کے آزادہ کردہ غلام عبدالرحمن بن ایمن کو حضرت ابن عمر (رض) سے پوچھتے ہوئے سنا جبکہ ابوالزبیر بھی یہ گفتگو سن رہے تھے کہ اس شخص کے متعلق کیا حکم ہے جس نے حالت حیض میں اپنی بیوی کو طلاق دے دی ہو۔ حضرت ابن عمر (رض) نے جواب دیا کہ ابن عمر (رض) یعنی مییں نے اپنی بیوی کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں حالت حیض میں طلاق دے دی تھی۔- حضرت عمر (رض) نے جا کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مسئلہ دریافت کیا تو آپ نے میری بیوی مجھے لوٹا دی اور اس دی ہوئی طلاق کو آپ نے طلاق ہی شمار نہیں کیا اور فرمایا کہ جب حیض سے پاک ہوجائے تو پھر اس کی مرضی ہے اسے اپنے عقد زوجیت میں رکھے یا طلاق دے دے۔ اس استدلال کے جواب میں کہاجائے گا کہ روایت میں ذکر کردہ یہ بات غلط ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس طلاق کو طلاق ہی شمار نہیں کیا تھا بلکہ حضرت ابن عمر (رض) سے ایک گروہ نے یہ روایت کی ہے کہ انہوں نے اس طلاق کو شمار کیا تھا۔ ہمیں روایت محمد بن بکر سے سنائی، انہیں ابودائود نے، انہیں القعنبی نے، انہیں یزید بن ابراہیم نے محمد بن سیرین سے، انہوں نے کہا کہ ہمیں یونس بن جبیر نے یہ سنایا کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے پوچھا تھا کہ ایک شخص نے اپنی بیویو کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی ہو تو اس کا کیا حکم ہے۔ - اس پر انہوں نے فرمایا ” تم ابن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جانتے ہو “ اس نے اثبات میں جواب دیا۔ انہوں نے فرمایا کہ ابن عمر (رض) نے بھی اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دی تھی، پھر حضرت عمر (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مسئلہ پوچھا تھا، آپ نے فرمایا تھا کہ اس سے کہو رجوع کرلے اور پھر عدت سے پہلے طہر میں اسے طلاق دے دے۔ راوی کہتے ہیں کہ میں نے ابن سیرین سے پوچھا کہ پھر اس طلاق کو شمار بھی کرے گا۔ ابن سیرین نے جوا دیا ” ذرا سوچ سمجھ کر بات کرو “ کیا تمہارا یہ خیال ہے کہ حضرت ابن عمر (رض) اتنے عاجز اور اتنے احمق بن گئے تھے ؟ “ اس حدیث میں حضرت ابن عمر (رض) کے متعلق یہ خبر دی گئی ہے کہ انہوں نے اس طلاق کو شمار کیا تھا تاہم اس کے باوجود حضرت ابن عمر (رض) سے مروی تمام روایتوں میں یہ بیان ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں رجوع کرنے کا حکم دیا تھا۔ اب ظاہر بات ہے کہ اگر طلاق واقع نہ ہوئی ہوتی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم انہیں رجوع کرنے کا حکم دیتے اور نہ ہی ان کے رجوع کا عمل درست ہوتا۔ - کیونکہ یہ بات تو درست نہیں ہے کہ ان سے کہا جاتا کہ اپنی بیوی سے رجوع کرلو جبکہ انہوں نے سرے سے پانی بیوی کو طلاق ہی نہ دی ہو۔ کیونکہ رجوع کا عمل تو طلاق کے بعد ہوتا ہے۔ اگر اس روایت میں مذکورہ یہ بات درست ہوتی کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی دی ہوئی طلاق ہی شمار نہ کیا تو اس کا معنی یہ ہوتا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس طلاق کی وجہ سے ان کی بیوی کو الگ نہ کیا اور نہ ہی زوجیت واقع ہوئی۔ قول باری ہے ( فامساک بمعروف او تسیح باحسان) ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ چونکہ حرف فاء تعقیب کے لیے آتاے اور قول باری ہے ( الطلاق مرتان فامساک بمعروف او تسریح باحسان) تو اس کا مقتضیٰ یہ ہے کہ آیت میں مذکور امساک طلاق کے بعد ہو۔- اب یہ امساک رجوع کرنے کی صورت میں ہوگا اس لیے کہ یہ طلاق کی ضد ہے اور طلاق واقع ہونے کا موجب عدت کے خاتمہ پر علیحدگی ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے رجوع کرلینے کا نام امساک رکھا کیونکہ اسی کے ذریعے تین حیض گزرنے کے بعد نکاح باقی رہ جاتا ہے اور عدت گزرنے کے بعد علیحدگی کا لگنے والا حکم مرتفع ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایک شرط پر امساک کو شوہر کے لیے مباح کردیا اور وہ معروف کی شرط ہے یعنی امساک بھلے اور معروف طریقے سے ہو اور اس کے ذریعے عورت کو نقصان پہنچانے کا ارادہ نہ وہ جیسا کہ اس قول ( ولام تمسکوھن صرارا لتعتدوا) میں ذکر فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے شرط کے ساتھ رجوع کے عمل کو اس لیے مباح قرار دیا۔ اب اگر وہ غیر معروف طریقے سے رجوع کرے گا تو گنہگار ہوگا لیکن اس کے رجوع کا یہ عمل درست ہوگا۔ اس کی دلیل قول باری ( ومن یفعل ذلک فقد ظلم نفسہ) ہے۔ اگر رجوع کا عمل درست نہ ہوتا تو وہ اپنے نفس پر ظلم کرنے والا قرار نہ دیا جانا۔ قول باری ( فامساک بمعروف) میں جماع ک ذریعے رجوع کے عمل کی صحت پر دلالت ہو رہی ۔ اس لیے کہ نکاح کے ذریعے امساک کا معنی جماع اور اس کے متعلقات مثال لمس اور بوسہ وغیرہ ہیں۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ جس عورت سے کسی مرد کی ہمبستری ہمیشہ کے لیے حرام ہو اس کے ساتھ عقد نکاح بھی درست نہیں ہوتا ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ نکاح کی بنا پر امساک جماعے ساتھ خاص ہے اور اس کے ذریعے ہی نکاح کرنے والا اس عورت کو مملک یعنی روک رکھنے والا بنے گا۔ اسی طرح لمس، بوس و کنار، اور شہوت کے تحت اس کے اندام نہائی پر نظر وغیرہ کا بھی یہی حکم ہے کیونکہ عقد نکاح کی صحت ان باتوں کے مباح ہونے پر مبنی ہوتی ہے۔- اس لیے جب بھی وہ ان میں سے کسی بات پر عمل کرے گا ممسک قرار قائے گا کیونکہ قول باری ( فمساک بمعروف ) میں عموم ہے اور قول باری ( او تسریح باحسان) میں دو قول ہیں ایک تو یہ کہ اس سے مراد تیسری طلاق ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایک حدیث مرو ہے جو روایات کے اصول کی روشنی میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت تسلیم نہیں ہوسکتی اور ظاہراً بھی وہ قابل رو ہے۔ اس کی روایت ہمیں عبداللہ بن اسحاق مروزی نے کی، انہیں حسن بن ابی الربیع جرجانی نے، انہیں عبدالرزاق نے، انہیں ثوری نے اسماعیل بن سمیع سے، انہوں نے ابورزین سے کہ ایک شخص نے عرض کیا اے اللہ کے رسول اللہ تعالیٰ ن ( الطلاق مرتان فامساک بمعروف او تسریح باحسان) کے ذریعے دو طلاقوں کی بات سنا دی۔ اب تیسری طلاق کا ذکر کہاں ہے ؟ آپ نے فرمایا اس کا ذکر ( او تسریح باحسان) میں ہے۔ سلف کی ایک جماعت سے جس میں سدی اور ضحاک شامل ہیں، یہ مروی ہے کہ اس کا معنی یہ ہے کہ دو طلاقیں دینے کے بعد اسے چھوڑے رکھے یہاں تک کہ عدت گزر جائے۔ آیت کی یہ تاویل زیادہ صحیح ہے کیونکہ اوپر بیان کی ہوئی روایت جو اس آیت کی تفسیر میں منقول ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت نہیں ہے۔ اس کے کئی وجوہ ہیں ایک یہ ہے کہ وہ تمام مواقعجن میں اللہ تعالیٰ نے طلاق کے بعد امساک اور علیحدگی کا ذکر کیا ہے تو وہاں اس سے مراد یہ ہے کہ رجوع نہ کیا جائے جائے یہاں تک کہ اس کی عدت گزر جائے ۔- قول باری ہے ( واذا طلقتم النساء فبلغن اجلھن فامسکوھن بمعروف او سرحولھن بمعروف) یہاں تسریح سے مراد رجوع نہ کرنا ہے کیونکہ یہ بات تو واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مراد یہ نہیں ہے کہ فامسکوھن بمعروف اور طلقوھن واحدۃ اخری “ ( انہیں معروف طریقے سے روک لو یا انہیں ایک اور طلاق دے دو ) اس معنی میں یہ قول باری ہے ( فامسکوھن بمعروف او فارقوھن بمعروف) اس سے اللہ نے مزید طلاق واقع کرنا مراد نہیں لیا ہے بلکہ یہ مراد ہے کہ اسے چھوڑے رکھو حتیٰ کہ اس کی عدت گزر جائے ۔ ایک اور وجہ بھی ہے کہ تیسری طلاق کا ذکر سیاق خطاب میں موجود ہے۔ - وہ یہ قول باری ہے ( فان طلقھا فلا تحل لہ من بعد حتیٰ تنکح زوجا غیرہ) اگر تیسری طلاق کا ذکر اس خطاب کی ابتداء میں ہوتا جس سے اس علیحدگی کی خبر ملتی جو موجب تحرم ہے الا یہ کسی اور شخص سے نکاح ہوجائے تو پھر قول باری ( او تسریح باحسان) کو نئے معنی پر محمول کرنا واجب ہوتا اور وہ نیا معنی دو طلاقوں کے بعد عدت گزرنے پر بینونت یعنی علیحدگی کا واقع ہونا ہے۔ نیز جب یہ بات واضح ہے کہ آیت کا مقصد حرمت کو واجب کرنے والی طلاق کی تعداد کا بیان اور سابق میں لا تعداد طلاق دینے کے رواج کی منسوخی ہے تو اگر ( او تسریح باحسان) سے مراد تیسری طلاق ہو تو یہ الفاظ تین طلاقوں کے ذریع تحریم واقع ہوجانے کی صورت کو بیان نہیں کرسکتے۔ کیونکہ اگر ( او تسریح باحسان) پر اقتصار کرلیا جاتا تو یہ اس بینونت یا علیحدگی کو ہرگز بیان نہ کرتا جو اس عورت کو اس مرد کے لیے حرام کر دین والی ہے الا یہ کہ عورت کسی اور مرد سے نکاح کرلے۔ جبکہ تحریم کا علم ہمیں در حقیقت اس قول باری ( فان طلقھا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ) کے ذریعے ہوا ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نکلا کہ ( او تسریح باحسان) سے تیسری طلاق مراد نہ لینا ضروری ہے نیز اگر آیت کا یہ ٹکڑا تیسری طلاق کو ظاہر کرتا تو پر قول باری ( فان طلقھا) جو اس کے بعد آ رہا ہے چوتھی طلاق کے لیے ہوتا۔- اس لیے کہ فاء تعقیب کے لیے ہے جو گزری ہوئی طلاقوں کے بعد ایک اور طلاق کا مقتضی ہے جو ان کے بعد آئے۔ اس بحث سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ ( او تسریح باحسان) سے مراد مطلقہ عورت کو چھوڑے رکھنا ہے حتیٰ کہ اس عدت گزر جائے۔ قول باری ( فان طلقھا فلا تحل لہ من بعدحتیٰ تنکح زوجا غییرہ اگر وہ اسے پھر طلاق دے دے تو اس کے بعد وہ اس وقت تک حلال نہیں ہوگی جب تک کسی اور مرد سے نکا ح نہ کرلے) کئی معانی پر مشتمل ہے۔ ایک تو یہ کہ تیسری طلاق کے بعد عورت اس پر حرام ہوجائے گی الا یہ کہ کسی اور مرد سے نکاح کرلے۔ یہ لفظ اس معنی کو ظاہر کر رہا ہے تین طلاقوں کی وجہ سے پیدا ہونے والی حرمت اس وقت ختم ہوسکتی ہے جب دوسرے مرد سے عقد نکاح بھی ہو اور ہمبستری بھی ہو ۔ کیونکہ نکاح کا حقیقی معنی وطی ہے اور زوج کا ذکر عقد کے معنی کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ قرآن کی ایجاز بیان ہے اور سمجھ میں آ جانے والے کنایہ پر اقتصار ہے جو بہرحال تصریح سے زیادہ بلیغ اور اس کی ضرورت سے مستغنی کردینے والا ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کثت سے روایات ہیں جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ طلاق ثلاثہ کی صورت میں مطلقہ عورت اس وقت تک پہلے خاوند کے لیے حلال نہیں ہوگی جب تک دوسرا خاوند عقد نکاح کے بعد اس کے ساتھ ہمبستری نہ کرے۔ زہری نے عروہ سے اور انہوں نے حضرت عائشہ (رض) سے بیان کیا کہ رفاعہ القرظی نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں۔- اس عورت نے عبدالرحمن بن الزبیر سے نکاح کرلیا اور پھر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ میں رفاعہ کے عقد میں تھی اس نے مجھے آخری طلاقیں یعنی تین طلاقیں دے دیں۔ پھر میں نے اس کے بعد عبدالرحمن بن الزبیر سے نکاح کرلیا اس کی قوت مردی اس قدر کم ہے جس طرح کپڑے کا چھوڑ یعنی جھالر ہو۔ یہ سن کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسکر دیے اور فرمایا کہ شاید تم واپس رفاعہ کے پاس جانا چاہتی ہو نہیں ایسا نہیں ہوسکتا جب تک کہ تم اپنے نئے شوہر کا اور نیا شوہر تمہارا خط نہ اٹھا لے یعنی ہمبستری نہ ہوجائے۔ حضرت ابن عمر (رض) اور حضرت انس (رض) بن مالک نے بھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی قسم کی روایت کی ہے ۔ البتہ انہوں نے رفاعہ کی بیوی کا واقعہ بیان نہیں کیا۔- یہ وہ روایات ہیں جنہیں مقبولیت عامہ حاصل ہوئی اور فقہاء بھی ان پر عمل پیرا ہونے پر متفق ہیں اس بنا پر ہمارے نزدیک ان روایات کی حیثیت یہ ہے کہ یہ تواتر کے درجے پر پہنچی ہوئی ہیں۔ اس مسئلے میں ف قہاء کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے۔ البتہ ایک بات سعید بن المسیب سے مروی ہے کہ مطلقہ عورت طلاق دینے والے خاوند کے لیے دوسرے مرد سے عقد نکاح کے ساتھ ہی حلال ہوجائے گی، دوسرے خاوند سے ہمبستری کی ضرورت نہیں ہوگی۔ لیکن اس قول کی کسی نے متابعت نہیں کی اس بنا پر اسے شاز قرار دیا جائے گا۔ قول باری ( حتی تنکح زوجا غیرہ) میں تین طلاقوں کی وجہ سے واقع ہونے والی حرمت کی انتہا بیان کردی گئی ہے ۔ اگر دوسرا شوہر اس سے ہمبستری کرلیتا ہے تو حرمت مرتفع ہوجاتی ہے لیکن اس وجہ سے حرمت باقی رہتی ہے کہ وہ ابھی ایک شخص کے عقد میں ہے جس طرح تمام دوسری بیاہی عورتوں کا حال ہے۔ اب جب دوسرا شوہر سے طلاق دے کر علیحدگی اختیار کرلے گا اور عدت گزر جائے گی تو پھر جا کر یہ پہلے شوہر کے لیے حلال ہوگی۔ قول باری ہے ( فلا جناح علیھما ان یتروجما ( تو رجوع کرلینے میں ان دونوں پر کوئی گناہ نہیں ہے) - یہ قول باری مدخول بہا ایسی عورت جس سے ہمبستری ہوچکی ہو) پر عدت واجب کرنے والے حکم پر مرتب ہے یہ حکم اس قول باری ( والمطلقات یتربصن بانفسھن ثلاثۃ قروء) اور قول باری ( ولا تعزموا عقدۃ النکاح حتیٰ یبلغ الکتاب اجلہ اور تم اس وقت تک عقد نکاح باندھنے کا عزم نہ کرو جب تک کہ عدت پوری نہ ہوجائے) ۔ نیز ایسی اور آیات کے ذریعے بتادیا گیا ہے جو عدت میں نکاح کی ممانعت پر دلالت کرتی ہیں اور قول باری ( فان طلقھا فلا جناح علیھما ان یتراجعا) طلاق کے ذکر کے لیے منصوص ہے ۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ پہلے شوہر کے لیے اس عورت کی اباحت کا حکم صرف طلاق تک محدود نہیں ہے۔ بلکہ ایسی تمام باتیں جن کی وجہ سے دوسرے شوہر سے علیحدگی عمل میں آسکتی ہے مثلاً موت ارتداد یا تحریم وغیرہ یہ بھی بمنزلہ طلاق کے ہیں۔ اگرچہ آیت میں صرف طلاق کا ذکر ہے۔ اس میں ولی کے بغیر نکاح کے جواز پر بھی دلالت ہو رہی ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے رجوع کرنے کے فعل کی نسبت مزد اور عورت کی طرف کی ہے، ولی کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ اس آیت میں اور بھی احکام ہیں جن کا ہم خلع کے بیان کے سلسلے میں ذکر کریں گے۔ لیکن ہم نے تیسری طلاق کا ذکر اس لیے مقدم کردیا کہ یہ معنوی طور پر دو طلاقوں کے ذکر کے ساتھ متصل ہے اگرچہ خلع کا ذکر ان دونوں کے درمیان آگیا ہے۔ - خُلع کا بیان - قول باری ہے اولا یحل لکھ ان تاخذوا مما اتیتموھن شیئا الا ان یخافا الا یقیما حدود اللہ اور تمہارے لیے حلال نہیں ہے کہ جو تم نے اپنی بیویوں کو دیا ہے اس میں سے کوئی چیز واپس لے لو، الا یہ کہ میاں بیوی کو یہ خوف پیدا ہوجائے کہ وہ کہیں اللہ کے حدود کو قائم نہ رکھ سکیں۔ اس آیت کے ذریعے مرد پر پابندی لگا دی گئی کہ وہ بیوی کو دی ہوئی چیز میں سے کوئی شے واپس لے لے البتہ مذکورہ شرت کے ساتھ واپس لے سکتا ہے۔ ضمنی طور پر یہ بات بھی سمجھ میں آ گئی کہ شوہر نے جو چیز بیوی کو نہ دی ہو اس کی واپسی کا مطالبہ اس کے لیے جائز نہیں ہے۔ اگرچہ آیت میں ذکر اس چیز کا ہے جو اس نے بیوی کو دی ہو۔ - جس طرح کہ قول باری ( ولا تقل تھما اف ، ماں بات کو اُف تک بھی نہ کہو) اس پر دلالت کرتا ہے کہ اُف کہنے سے بڑھ کر جو چیز ہے مثلاً مار پیٹ اور گالی گلوچ وہ بھی ممنوع ہے۔ قول باری ( الا ان یخافا ان لا یقیما حدود اللہ) کی تفسیر میں طائوس کا قول ہے کہ حدود اللہ سے مراد وہ معاشرت اور رفاقت ہے جو اللہ تعالیٰ نے ان دونوں پر فرض کردیا تھا۔ قاسم بن محمد نے بھی یہی بات کہی ہے۔ حسن بصری کا قول ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ مثلاً عورت کہے کہ ” بخدا میں تیری خاطر جنابت سے کبھی غسل نہیں کروں گی “۔ اہل لغت نے ( الا ان یخافا) کا معنی ” الا ان یظنا “ کیا ہے یعنی میاں بیوی دونوں کو خیال ہو کہ وہ حدود اللہ کو قائم نہیں رکھ سکیں گے۔ ابو معجن ثقضی کا قول ہے فراء نے انہیں یہ دو شعر سنائے تھے۔ - اذا مت فادفنی الی جذب کو مۃ تروی عظامی بعد موتی عروقھا - ولا تدفنی بالعراء فا نمی اخاف اذا مامت ان لا ازوقھا - جب میں مر جائوں تو مجھے انگور کی بیل کے پہلو میں دفن کردینا تا کہ میری موت کے بعد اس کی جڑیں میر ہڈیوں کو سیرات کرتی رہیں۔ مجھے کھلے میدان میں ہرگز دفن نہ کرنا کیونکہ مجھے ڈر ہے کہ مرنے کے بعد کہیں میں انگور یعنی شراب سے بھی محروم نہ ہو جائوں۔ ایک اور شاعر کا شعر ہے :- اتنا فی کلام عن نصیب یقولہ وما خقت یا سلام مرانک عائبی - مجھے نصیب کی کچھ باتیں پہنچی ہیں لیکن اے سلام یعنی نصیب میں نہیں خیال کرتا کہ تو مجھ میں کیڑے نکالے گا۔ یہاں ’ ما خفت ‘ کا معنی ’ ما ظننت ‘ ہے یعنی میں نہیں سمجھتا یا خیال کرتا، حدود اللہ کو قائم نہ رکھ سکنے کے متعلق اس اندیشے کی دو صورتں ہیں۔ ایک صورت تو یہ کہ میاں بوی میں سے ایک بد خلق ہو یا دونوں اس طرح کے ہوں جس ک نتیجے میں نکاح کے حقوق کے تحت ان پر لازم ہونے والے حدود اللہ کو وہ قائم نہ رکھ سکیں ان حقوق کا ذکر اس قول باری میں ہے۔ ( ولھن مثل الذی علیھن بالمعروف) دوسری صورت یہ ہے کہ ایک کے دل میں دوسرے کی طرف سے نفرت اور بغض ہو جس کی وجہ سے معاشرت اور باہمی افہام و تفہیم اور حسن سلوک متاثر ہوجائے جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے لازم ہونے والے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی ہی ہوجائے اور شوہر کو اپنی ایک بوی سے ہٹ کر دوسری بیویوں کی طرف میلان کے اظہار کی جو ممانعت ہے اس میں کوتاہی ہوجائے ۔ اس کی ممانعت اس قول باری میں ہے ( فلا تمیلوا کل المثل فتذروھا کالملقۃ) جب ان دونوں میں سے کوئی صورت پیش آ جائے اور دونوں کو اندیشہ پیدا ہوجائے کہ وہ شاید اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ حدود کو قائم نہ رکھ سکیں تو اس صورت میں خلع کرلینا حلال ہوجائے گا۔- جابر جعفی نے عبداللہ ہن یحییٰ سے اور انہوں نے حضرت علی (رض) سے روایت کی ہے کہ چند فقرے ایسے ہیں کہ اگر عورت انہیں اپنی زبان سے نکال بیٹھے تو اس کے لیے خلع کرا لینا حلال ہوجائے گا مثلاً وہ شوہر سے یہ کہے کہ ” میں تیری بات نہیں مانوں گی “ یا ” تیری کوئی قسم پوری نہیں کروں گی “۔ یا کبھی تیری خاطر جنابت سے نہیں نہائوں گی “ وغیرہ ۔ مغیرہ نے ابراہیم نخعی سے روایت کی ہے کہ مرد کے لیے حلال نہیں ہے کہ وہ اپنی بیوی سے فدیہ لے مگر اس صورت میں وہ ایسا کرسکتا ہے ۔ جب وہ اس کی نافرمانی پر اتر آئے اور اس کی کوئی قسم پوری نہ ہونے دے۔ جب وہ ایسی حرکتیں کرنے لگے تو اس صورت میں مرد کے لیے اس سے فدیہ لینا جائز ہوگا۔ اور اگر شوہر فدیہ لینے پر رضا مند نہ ہو اور عورت فدیہ ادا کرنے پر اڑ جائے تو ایسی صورت میں شوہر اپنے خاندان سے اور بیوی اپنے خاندان سے ایک ایک حکم یعنی ثالث منتخب کرلیں پھر یہ دونوں حکم جو فیصلہ کردیں اسے قبول کرلیں۔- علی ابن ابی طلحہ نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ عورت کی طرف سے اللہ کے حدود کو قائم نہ کرنے کی یہ صورت ہے کہ وہ زوج کے حق کے استخقاف کی مرتکب ہو اور اس کے ساتھ بد خلقی سے پیش آئے مثلاً یوں کہے ” بخدا میں تیری کوئی قسم بھی پوری نہیں کروں گی اور کبھی تیرے ساتھ بستر پر نہیں لیٹوں گی اور تیری کوئی بات نہیں مانوں گی “۔ ایسی صورت میں مرد کے لیے اس سے فدیہ لے لینا حلال ہوجائے گا لیکن مرد اس سے دی ہوئی چیز یا رقم سے زائد وصول نہیں کرے گا اور فدیہ لینے کے بعد اس کے راستے سے ہٹ جائے گا۔ خواہ بد خلقی اور بری معاشرت کا مظاہرہ عورت کی طرف سے کیوں نہ ہوا ہو۔ پھر قول باری ہے ( فان طبن لکھ عن شی منہ نفسا فکلوہ ھیئاً مریا۔ البتہ اگر خود وہ اپنی خوشی سے مہر کا کوئی حصہ تمہیں معاف کردیں تو اسے تم مزے سے کھا سکتے ہو) یعنی اگر یہ معافی بزور یا بذریعہ فریب و دھوکہ دہی حاصل نہ کی گئی ہو تو پھر اس معافی کے تحت ملنے والا مال خوشگوار اور پر لطف ہوگا۔ اس آیت کے منسوخ ہوجانے کے متعلق اختلاف ہے۔ حجاج نے عقبہ بن ابی الصہباء سے روایت کی ہے کہ میں نے بکر بن عبداللہ سے ایک شخص کے متعلق دریافت کیا جس کی بیوی اس سے خلع کرانا چاہتی ہے۔ - انہوں نے جواب دیا کہ مرد کے لیے اس سے کوئی چیز لینا حلال نہیں ہے۔ میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ( فلا جناح علیھما فیما افتدت بہ، ان دونوں پر اس چیز کے لیے لینے میں کوئی گناہ نہیں جو عورت فدیہ کے طور پردے دے۔ انہوں نے جواب دیا کہ یہ آیت قول باری ( وان اردتم استبدال زوج مکان زوج واتیتم احدا ھن قنطارا فلا تاخذوا منہ شیئا، اور اگر تم ایک بیوی کو دوسری بےبدلنا چاہو اور تم نے کسی اور کو ڈھیروں مال دے دیا ہو تو اس میں سے کوئی چیز واپس نہ لو منسوخ ہوچکی ہے۔ ابوعاصم نے ابن جریج سے روایت کی ہے ک میں نے عطاء بن ابی رباح سے دریافت کیا کہ اگر بیوی ظالم اور بد خلق ہو شوہر اسے خلع کرلینے کے لیے کہے کیا یہ بات شوہر کے لیے جائز ہوگی عطاء نے نفی میں جواب دیتے ہوئے کہا یا تو شوہر اس سے راضی ہو کر اسے عقد زوجیت میں رکھے اور یا اسے رخصت کر دے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ یہ قول شافہ ہے۔ ظاہر کتاب اور سنت اور اتفاق سلف اس کی تردید کر رہے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود بھی قول باری ( وان اردتم استبدال زوج مکان زوج) میں ایسی کوئی بات نہیں ہے جو قول باری ( فلا جناح علیھما فیما افتدت بہ) کو منسوخ کرنا واجب کرتی ہو۔ کیونکہ ہر آیت کا حکم اس حالت تک محدود ہے جو آیت میں مذکور ہے اس لیے کہ خلع کی ممانعت اس صورت میں ہے جبکہ بدسلوکی شوہر کی جانب سے ہو اور شوہر ایک بیوی کی جگہ دوسری بیوی لانا چاہتا ہو۔ - اس کے برعکس خلع کی اباحت کا حکم اس صورت میں دیا گیا ہے جب کہ میاں بیوی کو یہ اندیشہ ہو کہ وہ اللہ کے حدود کو قائم نہیں رکھ سکیں گے اور وہ اس طرح کہ بیوی کو شوہر سے نفرت ہو یا بیوی بدخلق ہو یا شوہر بد خلقی کا مظاہرہ کرتا ہو لیکن اس کے دل میں بیویی کو نقصان پہنچانے کا کوئی ارادہ نہ ہوتا ہم دونوں کو ان حقوق میں حدود اللہ قائم نہ رکھ سکنے کا اندیشہ ہو جن کا تعلق نکاح کی وجہ سے لازم آنے والے امور سے ہو مثلاً حسن معاشرت اور ایک دوسرے کے حقوق پورا کرنا وغیرہ۔ یہ حالت درج بالا حالت سے مختلف ہے اس لیے ایک آیت میں ایسی حالت کا بیان نہیں ہے جو دوسری آیت کی حالت سے ٹکراتی ہو اور اس کی منسوخیت یا تخصیص کو واجب کرتی ہو اس لیے کہ ہر آیت پر اس کے نزول کے پس منظر میں عمل ہو رہا ہے۔ - اسی طرح قول باری ( ولا تعضلوھن لتذھبوا ببعض ما اتیتموھن اور نہ یہ حلال ہے کہ تم انہیں تنگ کر کے اس کا کچھ حصہ اڑا لینے کی کوشش کرو جو تم انہیں دے چکے ہو) کی تاویل ہے اگر خطاب شوہروں سے ہے۔ ان پر عورت کے مال میں سے کوئی چیز لینے کی ممانعت کردی گئی ہے اگر بدسلوکی اور نفرت کا مظاہرہ شوہر کی طرف سے ہو اور وہ بیوی کو نقصان پہنچانا چاہتا ہو۔ البتہ اگر عورت صریح بد چلنی کا مرتکب پائی جائے تو شوہر کو اسے تنگ کرنے کا حق ہے ابن سیرین اور ابو قلابہ نے کہا ہے کہ صریح بدچلنی سے مراد یہ کہ شوہر کو اس کب بدکاری کا پتہ چل جائے۔ عطاء زہری اور عمرو بن شعیب سے مروی ہے کہ خلع صرف اس سے حلال ہے جو بدسلوکی اور نفرت کا مظاہرہ کرے۔ اس لیے ان آیات میں نسخ کہیں نہیں ہے اور تمام قابل عمل ہیں۔ واللہ اعلم ۔ - خلع کی صورت میں مرد کے لیے کیا لینا حلال ہے اس بارے میں سلف اور فقہاء امصار کے اختلاف کا ذکر - حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ آپ نے ناپسند کیا ہے کہ مرد اس سے زیادہ لے لے جو اس نے بیوی کو دیا ہو۔ یہی سعید بن المسیب، حسن بصری، طائوس اور سعید بن جبیر کا قول ہے، حضرت عمر (رض) حضرت عثمان (رض) ، حضرت ابن عمر (رض) اور حضرت ابن عباس (رض) ، مجاہد، ابرہیم نخعی، حسن بصری سے ایک اور روایت کے مطابق یہ مروی ہے کہ شوہر کے لیے اپنے دیے ہوئے مال سے زائد لے کر خلع قبول کرلینا جائز ہے۔ اگرچہ یہ عورت کے بالوں کی چوٹی ہی کیوں نہ ہو۔ امام ابوحنیفہ ، ابویوسف ، محمد زفر کا قول ہے کہ اگر بدسلوکی اور نافرمانی عورت کی طرف سے ہو تو مرد کے لیے اپنا دیا ہوا مال واپس لے لینا جائز ہے۔ لیکن وہ اس سے زائد نہیں لے سکتا۔ اور اگر یہ بدسلوکی شوہر کی طرف سے ہو تو اس صورت میں اسے کوئی چیز لینا حلال نہیں ہوگا۔ لیکن اگر اس نے کچھ لے لیا تو قضاًء درست ہوگا۔ ابن شبرمہ کا قول ہے کہ شوہر کی بیوی سے علیحدگی جائز ہوگی اگر شوہر اس کے ذریعے اسے نقصان پہنچانے کا ارادہ نہ رکھتا ہو۔ اگر نقصان کا ارادہ رکھتا ہو تو ایسا کرنا جائز نہیں ہو گ۔ ابن وہب نے امام مالک سے روایت کی ہے کہ جب یہ بات معلوم ہوجائے کہ اس کا شوہر اسے نقصان پہنچا رہا ہے اور اسے تنگ کر رہا ہے اور اس کے ساتھ ظلم و زیادتی کر رہا ہے تو طلاق کا فیصلہ کردیا جائے گا اور اس کا مال اسے واپس کردیا جائے گا۔ ابن القاسم نے مالک سے روایت کی ہے کہ شوہر کے لیے جائز ہے کہ وہ خلع میں اس سے زائد مال لے لے جتنا اس نے اسے دیا ہے اور اگر بدسلوکی مرد کی طرف سے ہو تو خلع کرانے کے لیے عورت برضا و رغبت اسے جو کچھ دے دے اسے لے لینا مرد کے لیے حلال ہے بشرطیکہ اس میں مرد کی جانب سے عورت کو نقصان پہنچنے کا کوئی احتمال نہ ہو ۔- لیث بن سعد سے اسی قسم کی روایت ہے۔ سفیان ثوری کا قول ہے کہ اگر خلع عورت کی جانب سے ہو تو اس صورت میں مرد اگر اس سے کچھ لے لے تو اس میں حرج نہیں ہے اور اگر خلع کی کوشش مرد کی طرف سے ہو تو اس صورت میں عورت سے کچھ بھی لینا جائز نہیں ہے، اوزاعی کا قول ہے کہ اگر شوہر بیوی سے خلع کرلے اور بیوی بیمار ہو اب اگر بدسلوکی اور نافرمانی بیوی کی طرف سے نہ ہو تو شوہر مال واپس کر دے گا اور مرد کا رجوع کرنے کا حق حاصل ہوگا اگر ہمبستری سے پہلے مہر کی پوری رقم پر مرد بیوی سے خلع کرلے جبکہ عورت کی طرف سے نافرمانی اور بدسلوکی کا مظاہرہ نہ ہوا ہو اور دونوں فسخ نکاح پر متفق ہوجائیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ حسن بن حی نے کہا ہے کہ اگر بدسلوکی شہر کی طرف سے ہو تو اس کے لیے تھوڑا یا بہت مال لے کر خلع قبول کرلینا جائز نہیں ہوگا۔- اور اگر بدسلوکی اور نافرمانی بیوی کی جانب سے ہو جس سے شوہر کے حقوق معطل ہو کر رہ جائیں تو شوہر کو اجازت ہوگی کہ وہ اس مال پر خلع قبول کرلے جس پر دونوں رضا مند ہوجائیں۔ یہی عثمان البتی کا بھی قول ہے۔ امام شافعی کا قول ہے کہ اگر بیوی ان حقوق کی ادائیگی سے باز رہے جو شوہر کی جانب سے اس پر لازم ہیں تو شوہر کے لیے فدیہ لینا جائز ہوجائے گا اور جب شوہر کے لیے و مال کھا لینا جائز ہے جو عورت بخوشی اسے دے دے اور علیحدگی کا کوئی مسئلہ نہ ہو تو علیحدگی کے لیے جو مال وہ بخوشی اسے دے دے اس کا کھا لینا بھی اسے جائز ہوگا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے خلع کے سلسلے میں کئی آیتیں نازل کی ہیں۔ ایک یہ قول باری ہے ( وان اردتم استبدالزوج مکان زوج و اتیتم اجداھن قنطارا فلا تاخذوا منہ شیئا اتاخذونہ بھتانا و اثما مبینا) یہ آیت مرد کو عورت سے کوئی چیز لینے سے روک رہی ہے جبکہ بدسلوکی اور نفرت کا مظاہرہ مرد کی جانب سے ہو ۔ اس بنا پر ہمارے اصحاب نے کہا ہے کہ ایس صورت میں مرد کے لیے عورت سے کچھ لینا حلال نہیں ہے۔ ایک اور آیت ہے ( ولا یخل لکھ ان تاخذو مما اتیتموھن شیعئاً الا ان یخافا الا یقیما حدود اللہ) اس میں اللہ تعالیٰ نے کچھ لے لینے کو مباح کردیا ہے اگر دونوں کو حدود اللہ قائم نہ رکھ سکنے کا اندیشہ ہو اس کی صورت جیسا کہ ہم بیان کر آئے ہیں یہ ہے کہ عورت کو اپنے شوہر سے نفرت ہو اور وہ بدخلقی کا مظاہرہ کرے یا دونوں ایک دوسرے سے نفرت کرتے اور بدسلوکی پر اتر آئے ہوں تو ان تمام صورتوں میں مرد کے لئے وہ مال واپس لے لینا جائز ہے جو اس نے عورت کو دیا ہو، لیکن اس سے زائد نہ لے۔- ظاہر کا تقاضا تو یہ ہے کہ شوہر بیوی سے سب چکھ لے لے لیکن زائد کی تخصیص سنت سے ہوئی ہے۔ ایک اور آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا (لا یحل لکوان ترثوا النساء کرھا و لا تعضلوھن لتذھبوا بعبض ما اتیتمو ھن الا ان یاتین بفاحشۃ مبینۃ) ایک قول ہے کہ اس میں شوہر سے خطاب ہے اور اسے بیوی کو دیئے ہوئے مال میں سے کوئی چیز بھی واپس لینے سے منع کردیا گیا ہے۔ البتہ اگر بیوی کی طرف سے صریح بدچلنی کا مظاہرہ ہو جس کے متعلق ایک قول ہے کہ یہ زنا ہے اور ایک قول ہے کہ یہ نفرت اور نافرمانی کا اظہار ہے۔ یہ آیت اس قول باری (فان خفتم الا یقیما حدود اللہ فلا جناح علیھما فیمافتدت بہ) کی نظیر ہے۔ ایک اور آیت میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (و ان خفتم شقاق بینھما فابعثوا حکماً من اھلہ و حکما من اھلھا) اگر تمہیں ان دونوں کی ناانتفاقی کا خطرہ ہو تو شوہر کے خاندان اور بیوی کے خاندان سے ایک ایک ثالث مقرر کرلو)- ہم انشاء اللہ اس آیت کے حکم پر روشنی ڈالیں گے جب ہم اس پر پہنچ جائیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں نہیں بلکہ ایک دوسری آیت میں مہر کی رقم واپس لینے کی اباحت کا ذکر کیا ہے لیکن اس میں خلع کی صورت کا ذکر نہیں ہے۔ قول باری ہے (واتوا النساء صدقاتھن نحلۃ فان طبن لکم عن شیء منہ نفسا فکلوہ ھنیا مریا) اسی رطح ارشاد ہے (و ان طلقتم ھن من قبل ان تمسوھن و قد فرضتم لھن فریضۃ فنصف ما فرضتم الا ان یعفون او یعفوالذی بیدہ عقدۃ النکاح، اگر تم انہیں ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دے دو جبکہ تم نے ان کے لئے مہر مقرر کیا ہو تو مقرر شدہ مہر کا آدھا ادا کرو الا یہ کہ وہ تمہیں معاف کردیں یا وہ شخص معاف کر دے جس کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہو)- یہ تمام آیات اپنے اپنے احکام کے مقتضیات کے مطابق مستعمل ہیں۔ یعنی اس پر عمل ہو رہا ہے۔ اب ہم کہتے ہیں کہ جب بدسلوک یاور نفرت کا اظہار شوہر کی جانب سے ہو تو اس کے لئے چکھ بھی لینا حلال نہیں ہوگا کیونکہ قول باری ہے (فلا تاخذوا منہ شیئا) نیز قول باری ہے (ولا تعضلو ھن لتذھبوا ببعض ما اتتموھن)- اگر بدسلوکی اور نافرمانی کا مظاہرہ بیوی کی جانب سے ہو یا عورت کی بدخلقی یا ایک دوسرے سے نفرت کا خدشہ ہو اور یہ خطرہ ہو کہ ان حالات کے تحت وہ دونوں اللہ کے حدود کی پاسدار ی نہیں کرسکیں گے تو شوہر کے لئے بیوی کو دیا ہوا مال واپس لے لینا جائز ہوگا لیکن وہ اس سے زائد نہیں لے گا۔ اسی طرح قول باری ہے (ولا تعضلوھن لتذھبوا ببعض ما اتیتموھن الا ان یاتین بفاحشۃ میتۃ ض اس کی ایک تاویل یہ کی ہے کہ اس سے مراد عورت کی بدسلوکی اور اظہار نفرت ہے۔ اس صور ت میں مرد کے لئے اپنا دیا ہوا مال واپس لے لینا جائز ہوگا۔ قول باری (فان طبن لکم من شیء منہ نفسا فکلوہ ھیئا مریا) اس حالت سے تعلق رکھتا ہے جو خلع کی نہ ہو بلکہ رضامندی اور اپنی خوشی سے وہ مہر کا ایک حصہ چھوڑ دے۔ امام شافعی کا یہ قول درست نہیں ہے کہ جب خلع کی حالت کے بغیر بیوی کا مال لے لینا درست ہے تو خلع میں ایسا کرنا درست ہونا چاہیے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے دو مقامات پر مخصوص طریقے سے اس طرح ذکر فرمایا ہے کہ ایک مقام پر تو ممانعت ہے اور دوسرے مقام پر اباحت ہے۔- ممانعت کی آیتیں یہ ہیں (و ان اردتم استبدال زوج مکان زوج) اور (ولا یحل لکم ان تاخذوا مما اتیتموھن شیئا الا ان یخافا الا یقیما حدود اللہ) اور اباحت کی آیت یہ ہے (فان طین لکم عن شیء منہ نفسا فکاوہ ھیئا مریا) اس لئے یہ کہنا غلط ہے کہ جب رضا مندی کی حالت میں اس کا مال کھا لینا جائز ہے تو خلع کی حالت میں بھی جائز ہونا چاہیے۔ یہ بات نص کتاب اللہ کے خلاف ہے۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خلچ کے سلسلے میں ایک روایت ہے جو ہمیں محمد بن بکر نے بیان کی انہیں ابو دائود نے، انہیں القعنبی نے مالک سے، انہوں نے یحییٰ بن سعید سے، انہوں نے عمرہ بنت عبدالرحمن بن سعد بن ذرارہ سے، انہوں نے حبیبہ (رض) بنت سہل انصاریہ سے کہ وہ ثابت بن قیس بن شماس کے عقد می تھیں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک دن منہ اندھیرے باہر تشریف لے گئے تو دیکھا کہ دروازے پر حبیبہ بنت سہل صبح کی ہلکی تاریکی میں کھڑی ہے۔- حضور نے پوچھا کون ہے ؟ جواب ملا حبیبہ بنت سہل، پھر پوچھا کیا بات ہے۔ جوا بملا کہ نہ تو مجھے سکون ہے اور نہ ہی میرے شوہر ثابت بن قیس کو جب آپ نے شوہر کو بلوا بھیجا تو اس سے فرمایا : ” یہ حبیبہ بنت سہل ہے “۔ اس کے بعد حبیبہ جو کچھ کہہ سکتی تھی کہہ گزر یاور آخر میں کہنے لگی : ” اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے شوہر نے جو کچھ مجھے دیا ہے وہ میرے پاس ہے۔ “ یہ سن کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ثابت سے کہا کہ اپنی بیوی سے یہ لے لو۔ اس کے بعد حبیبہ اپنے خاندان میں جا کر بیٹھ رہی۔ بعض روایات میں یہ الفاظ ہیں کہ ” اس کے راستے سے ہٹ جائو “۔ بعض میں ہے کہ ” اس سے علیحدگی اختیار کرلو “۔- فقہاء کا یہ قول کہ شوہر کو زائد لینے کی گنجائش نہیں ہے اس روایت کی بنا پر ہے جو ہمیں عبدالباقی بن قانع نے سنائی ہے۔ انہیں عبداللہ بن احمد بن حنبل نے، انہیں محمد بن یحییٰ بن ابی سمیتہ نے، انہیں الولید بن مسلم نے ابن جریج سے، انہوں نے عطاء سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے کہ ایک شخص اپنی بیوی کا جھگڑا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لے کر آیا۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عورت سے فرمایا کہ کیا تو وہ سب کچھ واپس کر دے گی جو اس نے تجھے دیا ہے “ اس نے جواب دیا : ” ہاں اور اس سے کچھ زائد “۔ یہ سن کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” زائد لینے کی اجازت نہیں ہے “۔ ہمارے اصحاب کا اس حدیث کی بنئا پر یہ قول ہے کہ شوہر بیوی سے زائد مال نہیں لے گا۔ انہوں نے ظاہر آیت کی اس حدیث کی بنا پر تخصیص کردی ہے۔- اب آیت کی خبر واحد کی بنا پر تخصیص اس وجہ سے جائز ہوئی کہ قول باری (فان خفتم الا یقیما حدود اللہ فلا جناح علیھما فیما افتدت بہ) میں کئی معانی کا احتمال اور اس میں رائے زنی یعنی اجتہاد کی گنجائش ہے اور سلف سے اس سلسلے میں مختلف وجوہ منقول ہیں۔- اسی طرح قول باری (ولا تعضلوھن لتذھبوا ببعض ما اتیتموھن الا ان یاتین بفاحشۃ مسینۃ) میں بھی کئی معانی کا احتمال ہے جیسا کہ ہم بیان کر آئے ہیں۔ اس لئے خبر واحد کے ذریعہ اس کی تخصیص جائز ہے۔ اس کی مثال یہ قول باری ہے (اولا مستم النساء) یا و ان طلقتموھن من قبل ان تمسوھن) جب آیت میں کئی احتمالات تھے اور سلف میں بھی اس کے معنی مراد میں اختلاف تھا اس لئے کہ معنی مراد کے لئے خبر واحد کو قبول کرنا جائز ہوگیا۔- ہمارے اصحاب کا جو یہ قول ہے کہ جب شوہر دیئے ہوئے مال سے زائد پر یا کچھ مال پر خلع کرنے پر رضامند ہوجائے جبکہ بدسلوکی اور نفرت اسی کی جانب سے ہو رہی ہو تو یہ دنیاوی حکم کے لحاظ سے درست ہوگا اگرچہ فیما بینہ و بین الللہ اس کی گنجائش نہیں ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ مال بیوی اپنی خوش دلی سے دے رہی ہے اور اسے اس پر مجبور نہیں کیا گیا ہے۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد بھی ہے کہ (لا یحل مال امری مسلم الابطیبۃ من نفسہ، کسی مسلمان کا مال لینا حلال نہیںے الا یہ کہ وہ اپنی خوشی سے دے دے) نیز ایک وجہ یہ بھی ہے کہ نہی کا تعلق نفس عقد کے کسی مفہو سے نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق اس کے سوا اور چیز سے ہے اور وہ یہ ہے کہ شوہر نے اسے اتنا نہیں دیا جتنا کہ اس سے لے لیا۔ اگر وہ اس قدر اسے دے چکا ہوتا تو پھر اس کا اس طرح لینا مکروہ نہ ہوتا۔- اب جب کہ نہی کا تعلق عقد کے اندر پائے جانے والے کسی معنی سے نہیں ہے تو یہ بات جواز عقد کے لئے مانع نہیں بن سکتی مثلاً اذان جمعہ کے وقت کوئی سودا کرنا یا شہر میں رہنے والے کسی شخص کا باہر سے آنے والے کسی شخص سے کوء یچیز خرید لینا یا تجارتی قافلے کو شہر سے باہر ہی جا کر مل لینا اور سودے طے کرلینا وغیرہ۔ اسی طرح غلام کو تھوڑے یا زیادہ مال کے بدلے آزاد کردینا جائز ہے۔ نیز قتل عمد میں تھوڑے یا زیادہ مال پر صلح کرلینا جائز ہے، تو طلاق کا معاملہ بھی اسی طرح جائز وہنا چاہیے۔ پھر جب مہر مثل سے زائد رقم پر نکاح جائز ہے جبکہ وہ عورت کی ذات یعنی بضع کا بدل ہے اسی طرح اگر عور تاپنے مہر مثل سے زائد رقم دے کر اپنی جان چھڑا لے تو یہ بھی جائز ہونا چاہیے کیونکہ نکاح اور ضلع دونوں صورتوں میں یہ رقم اس کی ذات یعنی بضع کا بدل ہوتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ جب خلع فسخ نکاح ہوتا ہے تو اس میں اس رقم سے زائد لینا جائز نہیں ہونا چاہیے جس پر عقد نکاح ہوا تھا جس طرح کہ اقالہ کی صور ت میں ثمن سے زئاد رقم لینا درست نہیں ہوتا (اگر سودا طے ہونے کے بعد اسے ختم کردیا جائے تو فقہی اصطلاح میں اسے اقالہ کہتے ہیں) اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ معترض کا یہ کہنا کہ خلع فسخ عقد نکاح ہے، غلط بات ہے بلکہ یہ نئے سرے سے اسی طرح کی طلاق ہے جس طرح کوء یبدل یعنی رقم کے بغیر طلاق دی جائے۔- اس کے ساتھ یہ بات بھی ہے کہ خلع کسی طرح بھی بمنزلہ اقالہ نہیں ہے کیونکہ اگر شوہر دیئے ہوئے مال سے کم لے کر خلع پر آمادہ ہوجائے تو یہ صورت بالاتفاق جائز ہے جب کہ ثمن سے کم رقم لے کر اقالہ جائز نہیں ہوتا۔ اسی طرح کچھ لئے بغیر بھی خلع بالاتفاق جائز ہوتا ہے۔ حاکم کے واسطے کے بغیر خلع کے متعلق اختلاف ہے۔ حسن اور ابن سیرین سے مروی ہے کہ خلع صرف سلطان یعنی حاکم کے پاس جا کر ہی درست ہوسکتا ہے سعید بن جبیر کا قول ہے کہ جب تک شوہر بیوی کو سمجھا بجھا نہ لے اس وقت تک خلچ کا عم ل نہیں ہوگا۔- اگر بیوی سمجھ جائے تو فبہا ورنہ اس سے کنارہ کشی اختیار کرے، اگر پھر بھی نہ سمجھے تو اس کی پٹائی کرے، اگر پھر بھی نہ سمجھے تو معاملہ سلطان کے پاس لے جائے (یا عدالت میں پیش کر دے) سلطان میاں اور بیوی کے خاندانوں سے ایک ایک ثالث مقرر کر دے۔ یہ دونوں ثالث جو کچھ سنیں سلطان سے بیان کردیں اس کے بعد اگر سلطان کی رائے ان دونوں کو علیحدہ کردینے کی ہوجائے تو علیحدہ کر دے اور اگر دونوں کو اکٹھا کرنے کی ہوجائے تو اکٹھا کر دے۔- حضرت علی (رض) ، حضرت عمر (رض) ، حضرت عثمان (رض) ، حضرت ابن عمر (رض) ، قاضی شریح، طائوس اور زہری اور بہت سے دوسرے حضرات کا قول ہے کہ سلطان کے واسطے کے بغیر بھی خلع جائز ہے۔ سعید نے قتادہ سے روایت کی ہے کہ گورنرکوفہ و بصرہ زیادہ پہلا شخص تھا جس نے سلطان کے بغیر خلع کے نفاذ کو رد کردیا تھا۔- تاہم فقہائے امصار کے درمیان سلطان کے واسطے کے بغیر خلع کے جواز کے متعلق کوئی اختلاف نہیں ہے کتاب اللہ بھی اس کے جواز کو واجب کرتی ہے۔ قول باری ہے (ولا جناح علیھما فیما افتدل بہ) نیز (ولا تعضلوھن لتذھبوا ببعض ما اتیتموھن الا ان یاتین بفاحشۃ مبینۃ)- اس میں اللہ تعالیٰ ن یدونوں کی باہمی رضا مندی سے بیوی سے مال لے کر خلع کو مباح کردیا ہے اور اس میں سلطان کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ اسی طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ثابت بن قیس کی بیوی سے فرمایا تھا کہ ” کیا تو اس کا باغ لوٹا دے گی “۔ خاتون نے اثبات میں جواب دیا تھا۔ اس پر آپ نے شوہر سے کہا تھا کہ باغ لے لو اور اس سے علیحدہ ہو جائو۔- آپ کا یہ ارشاد بھی اس پر دلالت کرتا ہے کہ خلع کا عمل سلطان کے واسطے کے بغیر بھی درست ہے کیونکہ اگر خلع کا معاملہ سلطان کے ہاتھ میں ہوتا خواہ زوجین خلع کرنا چاہتے یا انکار کرتے جبکہ سلطان کو اس کا علم ہوجاتا کہ یہ دونوں اللہ کے حدود کو قائم رکھنے کے متعلق اندیشے میں مبتلا ہیں تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان دونوں میاں بیوی سے اس بارے میں استفسار نہ کرتے اور نہ ہی شوہر کو خطاب کر کے یہ کہتے کہ خلع کرلو بلکہ آپ خود خلع کا عمل سرانجام دے کر اس کا باغ اسیلوٹا دیتے خواہ دونوں اس بات کو قبول کرنے سے انکار کردیتے یا ان میں سے ایک انکاری ہوجاتا۔ جس طرح کہ لعان کی صورت میں میاں بیوی کے درمیان علیحدگی کا معاملہ سلطان کے ہاتھ میں ہوتا ہے تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لعان کرنے والے مرد سے یہ نہیں کہا کہ اب اس کے راستے سے ہٹ جائو بلکہ خود دونوں کے درمیان علیحدگی کرا دی جیسا کہ حضرت سہل بن سعد (رض) نے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لعان کرنے والے زوجین کے درمیان علیحدگی کردی تھی۔- جس طرح کہ ایک اور حدیث میں ہے کہ آپ نے شوہر سے کہا اب بیوی تک رسائی کا تمہارے لئے کوئی راستہ نہیں رہ گیا۔ آپ نے یہ معاملہ شوہر کے ہاتھ میں نہیں دیا۔ اس بیان سے یہ واضح ہوگیا کہ خلع سلطان کے بغیر بھی جائز ہے اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد بھی دلالت کرتا ہے کہ (لا یحل مال امرء مسلم الا بطیبۃ من نفسہ) ۔- کیا خلع طلاق ہے ؟- خلع طلاق ہے یا نہیں اس کے متعلق اختلاف ہے۔ حضرت عمر (رض) ، حضرت عبداللہ، حضرت عثمان (رض) ، حسن بصری، ابو سلمہ، قاضی شریح، ابراہیم نخعی، شعبی اور مکحول سے مروی ہے کہ خلع ایک طلاق بائن ہے۔ یہی فقاء امصار کا قول ہے اور اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ یہ طلاق نہیں ہے۔- ہمیں عبدالباقی نے روایت سنائی، انہیں علی بن محمد نے، انہیں ابوالولید نے، انہیں شعبہ نے، انہیں عبدالملک بن میسرہ نے کہ ایک شخص نے طائوس سے خلع کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ اس سے کچھ نہیں ہوتا یعنی طلاق واقع نہیں ہوتی۔ اس پر عبدالملک بن میسرہ نے کہا کہ آپ اس بارے میں ایسی بات کہتے ہیں جو ہم نے کہیں اور نہیں سنی۔ اس پر طائوس نے خدا کی قسم کھا کر کہا کہ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے شوہر اور بیوی کو دو طلاقوں اور خلع کے بعد بھی میاں بیوی رہنے دیا۔- اس روایت کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ اس میں طائوس کو غلطی لگ گئی ہے کیونکہ طائوس باوجود اپنی جلالت شان، فضل اور تقویٰ و پرہیز گاری کے روایت میں بہت غلطیاں کرتے تھے۔ اور بہت سی ایسی باتیں بھی انہوں نے روایت کی ہیں جو سرے سے ناقابل قبول ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ حضرت ابن عباس (رض) نے کہا جس شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں وہ ایک شمار ہوگی۔- حالانکہ حضرت ابن عباس (رض) سے متعدد طرق سے مروی ہے کہ جس شخص نے اپنی بیوی کو ستاروں کی تعداد کے برابر طلاق دی وہ تین طلاقوں کی وجہ سے اس پر بائن ہوجائے گی۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ ایوب جو مشہور محدث تھے طائوس کی غلطیوں کی کثرت پر تعجب کیا کرتے تھے۔ ابن ابی نجیع نے طائوس سے نقل کیا ہے کہ خلع طلاق نہیں ہے۔ اہل مکہ نے یہ سن کر ان کی تردید کی جس پر انہوں نے کچھ لوگوں کو جمع کر کے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ میں نے حضر تابن عباس (رض) کو یہ کہتے ہوئے سنا تھا۔- ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی، انہیں احمد بن الحسن عبدالجبار نے انہیں ابو ہمام نے، انہیں الولید نے ابو سعید روح بن خباح سے، انہوں نے کہا کہ میں نے زمعہ بن ابی عبدالرحمن سے سنا وہ کہتے تھے کہ میں نے سعید بن المسیب کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خلع کو ایک طلاق قرا ردیا ہے۔ خلع طلاق ہے۔- اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ قول بھی دلالت کرتا ہے جو آپ نے ثابت بن قیس کو فرمایا تھا جب کہ اس کی بیوی نے اس کی نافرمانی کی تھی کہ ” اس کے راستے سے ہٹ جائو “ یا بعض روایت میں ہے کہ اس سے جدا ہو جائو “ اور بیوی سے فرمایا کہ ثابت کا باغ اسے واپس کر دو ، بیوی نے عرض کیا۔ ” میں نے ایسا کرلیا۔ “ اب یہ بات واضح ہے کہ جو شخص اپنی بیوی سے یہ کہے کہ ” میں تجھ سے جدا ہوگیا “ یا ” میں نے تیرا راستہ چھوڑ دیا۔ “ اور اس کی نیت اس سے علیحدگی کی ہو تو یہ طلاق ہوگی۔- یہ اس بات کی دلیل ہے کہ شارع (علیہ السلام) کے حکم سے ثابت کا اپنی بیوی سے خلع کرلینا دراصل طلاق کی صورت تھی۔ نیز اس بات میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اگر شوہر اپنی بیوی سے یہ کہے ” میں تجھے کچھ مال ک یبدلے طلاق دیتا ہوں “۔ یا ” میں تیرا معاملہ کچھ مال کے بدلے تیرے ہاتھ میں دیتا ہوں۔ “ تو یہ طلاق ہوگی۔- اسی طرح اگر شوہر یہ کہے۔ ” میں نے کسی مال کے بغیر تجھ سے خلع قبول کرلیا۔ ” یہ کہتے ہوئے اس کی نیت فرقت یعنی علیحدگی کی ہو تو یہ طلاق ہوگی اس لئے اگر وہ کچھ مال لے کر خلع قبول کرلے تو یہ صورت بھ یطلاق کی ہونی چاہیے۔- اگر یہ کہا جائے کہ ایک شخص اگر خلع کا کہے تو بمنزلہ اقالہ ہوگا جو بیع میں ہوا کرتا ہے اور اقالہ فسخ بیع ہوتا ہے نئے سرے سے بیع نہیں ہوتا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ مال لئے بغیر خلع کے جواز میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اسی طرح مہر سے کم رقم پر بھی بالاتفاق خلع ہوسکتا ہے۔- جبکہ اقالہ اس ثمن کو واپس کئے بغیر نہیں ہوسکتا جو سودے میں طے شدہ قول کے مطابق ادا کیا گیا تھا۔ اگر خلع بھی اقالہ کی طرح فسخ عقد نکاح ہوتا تو وہ نکاح میں مقرر شدہ مہر کے بدلے ہوتا۔ اب جبکہ تمام لوگوں کا اتفاق ہے کہ خلع مال کے بغیر یا مہر سے کم مال پر ہوسکتا ہے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ خلع دراصل مال لے کر طلاق دینے کی شکل ہے اور یہ فسخ نہیں ہے۔ اور میں اور شورہ کے اس قول میں کہ ” میں نے تجھے اس مال کے بدلے طلاق دے دی، کوئی فرق نہیں ہے۔- جن لوگوں کا یہ قول ہے کہ خلع طلاق نہیں ہے ان کا استدلال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب یہ فرمایا (الطلاق مرتان فامساک بمعروف او تسریح باحسان) پھر اس کے بعد یہ فرمایا (ولا یحل لکم ان تاخذوا مما اتیتموھن شیئا) اور اسی سیاق میں یہ فرمایا (فان طلقھا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ) اور خلع کے بعد تیسری طلاق کو ثابت کردیا تو اس سے یہ دلالت ہوگئی کہ خلع طلاق نہیں ہے کیونکہ اگر یہ طلاق ہوتا تو پھر (فان طلقھا) چوتھی طلاق ہوتی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے دو طلاقوں کے ذکر کے بعد خلع کا ذکر کیا پھر اس کے بعد تیسری طلاق کا ذکر فرمایا۔- اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ہمارے نزدیک یہ بات اس طرح نہیں ہے وہ اس لئے کہ قول باری (الطلاق مرتان فامساک بمعروف او تسریح باحسان) دو ایسی طلاقوں کی خبر دے رہا ہے جو خلع کی صورت میں نہ دی گئی ہوں اور پھر ان کے ساتھ رجوع کی گنجائش بھی ثابت رکھی جس کے لئے فرمایا (فامساک بمعروف) ۔- پھر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں طلاقوں کا حکم بیان فرمایا اگر یہ خلع کی شکل میں ہوں اور اس میں ممانعت اور اباحت کی صورتیں بھی بتلا دیں اور وہ حالت بھی بیان کردی جس میں خلع کے بدلے مال لینا جائز ہے یا جائز نہیں ہے۔ پھر اس پورے بیان پر اس قول کو عطف کیا (فان طلقھا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ) اور اس کے ذریعے پھر ان ہی دو طلاقوں کی طرف روئے سخن کرلیا جن کا ذکر پہلے کبھی بصورت خلع ہوا تھا اور کبھی کسی اور صورت میں۔- اس تشریح کی روشنی میں یہ دلالت نہیں ملتی کہ خلع دو طلاقوں کے بعد ہوتا ہے اور خلع کے بعد جو تیسری طلاق ہے وہ دراصل چوتھی طلاق بن جاتی ہے۔ اس سے اس امر پر بھی دلالت ہوتی ہے کہ ضلع حاصل کرلینے والی عورت کو طلاق لاحق ہوجاتی ہے۔ اس لئے فقہاء امصار کا درج بالا آیات کی اس ترتیب اور تشریح پر اتفاق ہے جو ہم نے ابھی اوپر کی سطور میں بیان کی ہے اور خلع کے بعد تیسری طلاق ہوگئی جس کی صحت کا حکم اللہ نے دے دیا اور جس کے بعد بیوی کو ہمیشہ کے لئے اس پر حرام کردیا الا یہ کہ کسی اور مرد سے نکاح کرے تو یہ اس بات کی دلیل بن گئی کہ خلع حاصل کرنے والی عورت کو جب تک وہ عدت میں ہے طلاق لاحق ہوسکتی ہے۔- تیسری طلاق خلع کے بعد ہوتی ہے اس پر ترتیب آیات میں یہ قول باری (فان طلقھا فلا جناح علیما ان یتراجعا ان ظنا ان یقیما حدود اللہ) دلالت کرتا ہے جسے ماقبل کے بیان اور اس قول باری (ولا یحل لکم ان تاخذوا مما اتیتموھن شیئا الا ان یخافا الا یقیما حدود اللہ) پر عطف کیا گیا ہے۔- اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے تیسری طلاق کے بعد ایک دوسرے سے رجوع کرلینے کو مباح کردیا ہے بشرطیکہ حدود اللہ کو قائم نہ رکھ سکنے کا خوف زائل ہوجائے۔ اس لئے کہ یہ ممکن ہے کہ جدائی کے بعد دونوں اپنے کئے پر پشیمان ہوجائیں اور ہر ایک کا دل الفت اور رفاقت کی طرف واپس آ جانا چاہیے۔ یہ بات اس حقیقت پر دلالت کرتی ہے کہ تیسری طلاق جس کا ذکر یہاں وا ہے وہ خلع کے بعد ہے۔ قول باری (ان ظنا ان یقیما حدود اللہ) حوادث یعنی پش آمدہ امور کے احکام میں اجتہاد کے جواز پر دلالت کرتا ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے اباحت کو ظن کے ساتھ متعلق کردیا ہے۔- اگر یہ کہا جائے کہ قول باری (فلا تحل لہ من بعد) قول باری (الطلاق مرتان) کی طرف راجع ہے۔ اس فدیہ کی طرف راجع نہیں ہے جس کا ذکر اس کے بعد ہوا ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بات کئی وجوہ سے فاسد ہے۔ ایک یہ کہ قول باری (ولا یحل لکم ان تاخذوا مما آتیتموھن شیئا) دو طلاقوں کے ذکر کے بعد نئے سرے سے شروع کیا گیا خطاب ہے اور یہ ان دونوں طلاقوں پر مرتب نہیں ہے کیونکہ یہ خطاب ان دونوں پر معطوف ہے۔- جب ایک طرف یہ بات ہے اور دوسری طرف فدیہ کے ذکر کے بعد فرمایا (فان طلقھا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ) تو یہ ضروری ہوگیا کہ یہ قول فدیہ پر مرتب ہو کیونکہ حرف فاء تعقیب کے لئے ہوتا ہے اور یہ بات درست نہیں ہے کہ اسے ان دو طلاقوں پر مرتب تسلیم کیا جائے جن کا ذکر ابتدا میں ہوا ہے اور اس کے متصل فقرے پر اسے عطف نہ کیا جائے۔ یہ بات صرف اسی وقت درست ہوسکتی ہے جب کوئی ایسی دلالت موجود ہو جو اس کا تقاضا کر رہی ہو اور اسے ضروری قرار دے رہی ہو۔ جیسا کہ تخصیص کے لفظ کے ساتھ استثناء کی صورت میں آپ یہ کہتے ہیں کہ یہ اس کے متصل حکم کی طرف عائد ہوتا ہے اور کسی دلالت کے بغیر ماقبل پروارد نہیں ہوتا۔- آپ نہیں دیکھتے کہ قول باری (وربائکم اللاتی فی حجورکم من نسائکم اللاتی دخلتم بھن فان لم تکونوا دخلتم بھن فلا جناح علیکم اور تمہاری بیویوں کی لڑکیاں جنہوں نے تمہاری گودوں میں پرورش پائی ہے۔ ان بیویوں کی لڑکیاں جن سے تمہارا تعلق زن و شو قائم ہوچکا ہو ورنہ اگر صرف نکاح ہوا ہو اور تعلق زن و شو نہ ہوا ہو تو انہیں چھوڑ کر ان کی لڑکیوں سے نکاح کرلینے میں تم پر کوئی مواخذہ نہیں ہے) میں دخول کی شرط ربائب (گودوں میں پرورش پانے والی لڑکیوں) کی طرف راجع ہے۔ امہات نساء یعنی بیویوں کی مائوں کی طرف راجع نہیں ہے۔ کیونکہ حرف فاء کے ذریعے عطف ان سے متصل ہے، امہات نساء کے متصل نہیں ہے حالانکہ یہ بات معترض کے ذکر کردہ بات کے مقابلے میں اقرب ہے کہ (فان طلقھا) کا عطف قول باری (الطلاق مرتان) پر ہے، فدیہ پر نہیں ہے جو اس کے متصل ہے۔- کیونکہ معترض اسے فدیہ پر عطف نہیں مانتا جو کہ اس کے متصل ہے بلکہ اسے اس کے ماقبل پر عطف تسلیم کرتا ہے۔ ان دونوں کے درمیان آنے والی بات یعنی فدیہ کے ذکر پر اسے عطف نہیں کرتا۔ نیز ہم (فان طلقھا) کو پورے بیان یعنی فدیہ اور فدیہ سے قبل ذکر ہونے والی دو طلاقوں پر جو بطور فدیہ نہیں ہیں پر عطف کرتے ہیں۔ اس صورت میں اس کے تحت دو فائدے بیان ہوجائیں گے ایک تو یہ کہ دو طلاقوں کے ذریعے خلع کے بعد بھی طلاق کا جواز ہوتا ہے اور دوسرے یہ کہ خلع کی صورت کے علاوہ دی گئی دو طلاقوں کے بعد طلاق کا جواز ہوتا ہے۔ واللہ اعلم
(٢٣٠) اب پھر اللہ تعالیٰ (آیت) ” الطلاق مرتن “۔ والے مضمون کی طرف آتے ہیں کہ اگر تیسری طلاق دے دے، تو پھر یہ عورتیں تیسری طلاق کے بعد اس مرد کے لیے حلال نہیں رہی جب تک کہ یہ عورت دوسرے شوہر سے شادی کرلے اور وہ دوسرا خاوند اس کے ساتھ ہم بستری بھی کرلے، پھر اس کے بعد اگر وہ دوسرا شوہر طلاق دے دے، یہ آیت عبدالرحمن بن زبیر (رض) کے بارے میں اتری ہے، تو اب پہلے خاوند اور اس عورت پر عدت گزرنے کے بعد آپس میں مہر کے ساتھ نیا نکاح کرنے میں کوئی حرج نہیں، اگر یہ جانتے ہوں کہ میاں بیوی کے درمیاں جو حقوق ہیں ان کی پورے طریقہ پر ادائیگی کریں گے، یہ اللہ تعالیٰ کے احکام اور اس کے فرائض ہیں، ان کو ماننا اور تصدیق کرنا ضروری ہے۔- شان نزول : (آیت ) ” فان طلقہا “۔ (الخ)- ابن مندر (رح) نے مقاتل بن حیان (رح) سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت عائشہ بنت عبدالرحمن عتیک (رض) کے بارے میں اتری ہے وہ اپنے چچازاد بھائی رفاعہ بن وہب بن عتیک (رض) کے نکاح میں تھیں، رفاعہ نے ان کو طلاق بائنہ دے دی تھی ،- اس کے بعد انہوں نے عبدالرحمن بن زبیر قرظی (رض) سے شادی کرلی، انہوں نے بھی ان کو طلاق دے دی یہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور کہنے لگیں کہ عبدالرحمن نے صحبت کرنے سے پہلے ہی مجھے طلاق دے دی ہے تو کیا اب میں پہلے خاوند سے نکاح کرسکتی ہوں آپ نے فرمایا نہیں تاوقتیکہ وہ تم سے ہم بستری کرے اور یہ آیت نازل ہوئی (آیت) ” فان طلقھا “۔ (الخ) یعنی تیسری طلاق کے بعد دوسرے خاوند سے نکاح اور ہمبستری کیے بغیر پہلے خاوند کے لیے اس عورت کا نکاح کرنا حلال نہیں۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )
آیت ٢٣٠ (فَاِنْ طَلَّقَہَا فَلاَ تَحِلُّ لَہٗ مِنْم بَعْدُ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہٗ ط) ۔- تیسری طلاق دے چکنے کے بعد اگر کوئی شخص پھر اسی عورت سے نکاح کرنا چاہے تو جب تک وہ عورت کسی دوسرے شخص سے نکاح نہ کرے اور وہ اسے طلاق نہ دے اس وقت تک یہ عورت اپنے پہلے شوہر کے لیے حلال نہیں ہوسکتی۔ اسے حلالہ کہا جاتا ہے۔ لیکن حلالہ کے نام سے ہمارے ہاں جو مکروہ دھندا مروّج ہے کہ ایک معاہدے کے تحت عورت کا نکاح کسی مرد سے کیا جاتا ہے کہ تم پھر اسے طلاق دے دینا ‘ اس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لعنت فرمائی ہے۔ - (فَاِنْ طَلَّقَہَا) - یعنی وہ عورت دوسری جگہ پر شادی کرلے ‘ لیکن دوسرے شوہر سے بھی اس کی نہ بنے اور وہ بھی اس کو طلاق دے دے ۔- (فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْہِمَآ اَنْ یَّتَرَاجَعَآ) - اب وہ عورت اپنے سابقہ شوہر سے نکاح کرسکتی ہے۔ دوسرے شوہر سے نکاح کے بعد عورت کو شاید عقل آجائے کہ زیادتی میری ہی تھی کہ پہلے شوہر کے ہاں بس نہیں سکی۔ اب دوسری مرتبہ تجربہ ہونے پر ممکن ہے اسے اپنی غلطی کا احساس ہوجائے۔ اب اگر وہ دوبارہ اپنے سابقہ شوہر کی طرف رجوع کرنا چاہے تو اس کی اجازت ہے کہ وہ پھر سے نکاح کرلیں۔ - (اِنْ ظَنَّآ اَنْ یُّقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰہِ ط) ۔ - ازدواجی زندگی میں اللہ تعالیٰ نے جو حدود مقرر کی ہیں اور جو احکام دیے ہیں ان کو بہرحالّ مدنظر رکھنا ہے اور تمام معاملات پر فائق رکھنا ہے ۔- (وَتِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ یُبَیِّنُہَا لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ ) - یَعْلَمُوْنَکا ترجمہ ہے جو جانتے ہیں یعنی جنہیں علم حاصل ہے ‘ لیکن یہاں اس کا مفہوم ہے جو علم کے طالب ہیں۔ بعض اوقات فعل کو طلب فعل کے معانی میں استعمال کیا جاتا ہے
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :253 احادیث صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص محض اپنی مطلقہ بیوی کو اپنے لیے حلال کر نے کے خاطر کسی سے سازش کے طور پر اس کا نکاح کرائے اور پہلے سے یہ طے کرے کہ وہ نکاح کے بعد اسے طلاق دے دے گا ، تو یہ سراسر ناجائز فعل ہے ۔ ایسا نکاح ، نکاح نہ ہوگا ، بلکہ محض ایک بدکاری ہوگی اور ایسے سازشی نکاح و طلاق سے عورت ہرگز اپنے سابق شوہر کے لیے حلال نہ ہوگی ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اور عُقّبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کی مُتّفقَہ روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طریقہ سے حلالہ کرنے اور حلالہ کرانے والے پر لعنت فرمائی ہے ۔