Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

موت اور زندگی: ابن عباس فرماتے ہیں یہ لوگ چار ہزار تھے اور روایت میں ہے کہ آٹھ ہزار تھے ، بعض تو ہزار کہتے ہیں ، بعض چالیس ہزار بتاتے ہیں ، بعض تیس ہزار سے کچھ اوپر بتاتے ہیں ، یہ لوگ ذرو روان نامی بستی کے تھے جو واسط کی طرف ہے ، بعض کہتے ہیں اس بستی کا نام اذرعات تھا ، یہ لوگ طاعون کے مارے اپنے شہر کو چھوڑ کر بھاگے تھے ، ایک بستی میں جب پہنچے وہیں اللہ کے حکم سے سب مر گئے ، اتفاق سے ایک نبی اللہ کا وہاں سے گزرا ، ان کی دعا سے اللہ تعالیٰ نے انہیں پھر دوبارہ زندہ کر دیا ، بعض لوگ کہتے ہیں ایک چٹیل صاف ہوادار کھلے پر فضا میدان میں ٹھہرے تھے اور دو فرشتوں کی چیخ سے ہلاک کئے گئے تھے جب ایک لمبی مدت گزر چکی ان کی ہڈیوں کا بھی چونا ہو گیا ، اسی جگہ بستی بس گئی تب خرقیل نامی ایک نبی وہاں سے نکلے انہوں نے دعا کی اور اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی اور حکم دیا کہ تم کہو کہ اے بوسیدہ ہڈیو اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم سب جمع ہو جاؤ ، چنانچہ ہر ہر جسم کی ہڈیوں کا ڈھانچہ کھڑا ہو گیا پھر اللہ کا حکم ہوا ندا کرو کہ اے ہڈیو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم گوشت پوست رگیں پٹھے بھی جوڑ لو ، چنانچہ اس نبی کے دیکھتے ہوئے یہ بھی ہو گیا ، پھر آواز آئی کہ اے روحو اللہ تعالیٰ کا تمہیں حکم ہو رہا ہے کہ ہر روح اپنے اپنے قدیم جسم میں آ جائے چنانچہ یہ سب جس طرح ایک ساتھ مرے تھے اسی طرح ایک ساتھ جی اٹھے اور بےساختہ انکی زبان سے نکلا ( سبحانک لا الہ الا انت ) اے اللہ تو پاک ہے تیرے سوا کوئی معبود نہیں ، یہ دلیل ہے قیامت کے دن اسی جسم کے ساتھ دوبارہ جی اُٹھنے کی ۔ پھر فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا لوگوں پر بڑا بھاری فضل و کرم ہے کہ وہ زبردست ٹھوس نشانیاں اپنی قدرت قاہرہ کی دکھا رہا ہے لیکن باوجود اس کے بھی اکثر لوگ ناقدرے اور بےشکرے ہیں ، اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی جگہ بچاؤ اور پناہ نہیں یہ لوگ وبا سے بھاگے تھے اور زندگی کے حریص تھے تو اس کے خلاف عذاب آیا اور فوراً ہلاک ہو گئے ، مسند احمد کی اس حدیث میں ہے کہ جب حضرت عمر بن خطاب شام کی طرف چلے اور سرنح میں پہنچے تو ابو عبیدہ بن جراح وغیرہ سرداران لشکر ملے اور خبر دی کہ شام میں آج کل وبا ہے چنانچہ اس میں اختلاف ہوا کہ اب وہاں جائیں یا نہ جائیں ، بالآخر عبدالرحمن بن عوف جب آئے اور فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جب وبا کسی جگہ آئے اور تم وہاں ہو تو وہاں سے اس کے ڈر سے مت بھاگو ، اور جب تم کسی جگہ وبا کی خبر سن لو تو وہاں مت جاؤ ۔ حضرت عمر فاروق نے یہ سن کر اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کی پھر وہاں سے واپس چلے گئے ( بخاری مسلم ) ایک اور روایت میں ہے کہ یہ اللہ کا عذاب ہے جو اگلی امتوں پر ڈالا گیا تھا ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

243۔ 1 یہ واقعہ سابقہ کسی امت کا ہے جس کی تفصیل کسی حدیث میں بیان نہیں کی گئی تفسیری روایات اسے بنی اسرائیل کے زمانے کا واقعہ اور اس پغمبر کا نام جس کی دعا سے انہیں اللہ تعالیٰ نے دوبارہ زندہ کیا یہ جہاد میں قتل کے ڈر سے یا وبائی بیماری طاعون کے خوف سے اپنے گھروں سے نکل کھڑے ہوئے تھے تاکہ موت کے منہ میں جانے سے بچ جائیں اللہ تعالیٰ نے انہیں مار کر ایک تو یہ بتلا دیا کہ اللہ کی تقدیر سے تم بچ کر نہیں جاسکتے دوسرا یہ کہ انسانوں کی آخری جائے پناہ اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے تیسرا یہ کہ اللہ تعالیٰ دوبارہ پیدا کرنے پر قادر ہے اور وہ تمام انسانوں کو اسی طرح زندہ فرمائے گا جس طرح اللہ نے ان کو مار کر زندہ کردیا۔ اگلی آیت میں مسلمانوں کو جہاد کا حکم دیا جا رہا ہے اس سے پہلے اس واقعہ کے بیان میں یہی حکمت ہے کہ جہاد سے جی مت چراؤ موت وحیات تو اللہ کے قبضے میں ہے اور اس موت کا وقت بھی متعین ہے جسے جہاد سے گریز و فرار کر کے تم ٹال نہیں سکتے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣٤٠] اس آیت سے آگے جہاد کا مضمون شروع ہو رہا ہے اور بطور تمہید اس آیت میں بتلایا جا رہا ہے کہ زندگی اور موت صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ واقعہ یہ ہوا کہ بنی اسرائیل کے کچھ لوگ کسی شہر میں رہتے تھے۔ وہاں طاعون کی وبا پھیل گئی تو یہ طاعون کی وبا کا شکار ہو کر مرجانے کے خطرہ کی بنا پر اپنا بوریا بستر لپیٹ کر ہزاروں کی تعداد میں شہر سے نکل کھڑے ہوئے اور سمجھے کہ اس طرح موت سے بچ جائیں گے، ابھی کسی منزل پر بھی نہ پہنچنے پائے تھے کہ راہ میں انہیں موت نے آلیا اور سب کے سب مرگئے۔ ممکن ہے وہ طاعون کے جراثیموں سے ہی مرے ہوں۔ انہوں نے اللہ پر بھروسہ نہ کیا اور بزدلی دکھائی، لہذا اللہ تعالیٰ نے سزا کے طور پر ان سب کو ہی موت کی نیند سلا دیا اور اگر وہ اللہ کی تقدیر پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنے شہر میں مقیم رہتے تو ممکن ہے ان میں سے اکثر بچ جاتے۔ پھر کچھ مدت بعد حزقیل پیغمبر جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے تیسرے خلیفہ تھے، ادھر سے گزرے اور یہ صورت حال دیکھ کر انہوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے اپنی مہربانی سے انہیں دوبارہ زندگی عطاء کی اور ہر شخص (سُبْحَانَکَ لاَ اِلٰہَ الاَّ أنْتَ ) کہتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

یہ واقعہ سابقہ کسی امت کا ہے، جس کی تفصیل کسی صحیح حدیث میں بیان نہیں کی گئی۔ یہ لوگ دشمن کے حملے کے وقت قتل ہونے کے خوف سے ہزاروں کی تعداد میں ہونے کے باوجود مقابلہ کرنے کے بجائے شہر چھوڑ کر بھاگ پڑے، یا وبا واقع ہونے پر تقدیر پر صابر رہنے کے بجائے موت سے بچنے کے لیے گھر بار چھوڑ کر نکل گئے، لیکن وہ بھاگ کر موت سے نہ بچ سکے، بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان سب پر موت طاری کردی، پھر اللہ تعالیٰ نے ان پر کرم فرمایا اور انھیں زندہ کردیا۔ اس سے اگلی آیت ( ٢٤٤) میں اللہ کی راہ میں قتال یعنی لڑنے کا حکم دیا جا رہا ہے۔ اس حکم سے پہلے اس واقعہ کے بیان میں یہی حکمت ہے کہ جہاد سے جی مت چراؤ، موت تو اللہ کے ہاتھ میں ہے، جسے تم جہاد سے گریز اور فرار اختیار کرکے ٹال نہیں سکتے، نہ تقدیر سے بچ کر کہیں جاسکتے ہو۔ - یہ قصہ قیامت کے دن جسموں کے دوبارہ زندہ ہونے کی قطعی دلیل ہے۔ - اَلَمْ تَرَ : اس کا لفظی معنی ہے ” کیا تو نے نہیں دیکھا “ مگر مجاہد (رح) نے اس کا معنی کیا ہے : ” اَلَمْ تَعْلَمْ “ ” کیا تجھے معلوم نہیں “ [ بخاری، التفسیر، سورة ( ألم تر) ، قبل ح : ٤٩٦٤ ] مزید دیکھیے سورة فیل کے حواشی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت اترنے کے وقت ان لوگوں کا قصہ عام طور پر معروف و مشہور تھا۔ بعض اوقات کسی بات کو سننے کا شوق دلانے کے لیے بھی ” اَلَمْ تَرَ “ سے بات شروع کی جاتی ہے۔ - عبدا لرحمان بن عوف (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا : ” جب تم سنو کہ کسی زمین میں وبا پھیلی ہے تو وہاں نہ جاؤ اور جب کسی زمین میں وبا پھیل جائے اور تم وہاں موجود ہو تو اس سے فرار اختیار کرکے وہاں سے مت نکلو۔ “ [ بخاری، الطب، باب ما یذکر فی الطاعون : ٥٧٢٩ ]

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر :- (اے مخاطب) کیا تجھ کو ان لوگوں کا قصہ تحقیق نہیں ہوا جو کہ اپنے گھروں سے نکل گئے اور وہ لوگ ہزاروں ہی تھے موت سے بچنے کے لئے سو اللہ نے ان کے لئے (حکم) فرمادیا کہ مرجاؤ (سب مرگئے) پھر ان کو جلا دیا بیشک اللہ تعالیٰ بڑا فضل کرنے والے ہیں لوگوں (کے حال) پر مگر اکثر شکر نہیں کرتے اور (اس واقعہ پر غور کرکے) اللہ کی راہ میں قتال کرو اور یقین رکھو اس بات کا کہ اللہ تعالیٰ خوب سننے والے اور خوب جاننے والے ہیں (جہاد کرنے اور نہ کرنیوالوں کی باتیں سنتے اور ہر ایک کی نیت جانتے ہیں اور سب کو مناسب جزادیں گے) - معارف و مسائل :- یہ تین آیتیں جو اوپر مذکورہوئی ہیں ان میں ایک عجیب بلیغ انداز میں اللہ تعالیٰ کہ راہ میں جان ومال کی قربانی پیش کرنے کی ہدایت ہے کہ ان احکام کے بیان کرنے سے پہلے تاریخ کا ایک اہم واقعہ ذکر کیا گیا ہے جس سے واضح ہوجاتا ہے کہ موت وحیات تقدیر الہٰی کے تابع ہے جنگ و جہاد میں جانا موت کا سبب نہیں اور بزدلی سے جان چرانا موت سے بچنے کا ذریعہ نہیں، تفسیر ابن کثیر میں سلف صحابہ کرام (رض) اجمعین اور تابعین کے حوالہ سے اس واقعہ کی تشریح یہ بیان کی ہے کہ بنی اسرائیل کی کوئی جماعت ایک شہر میں بستی تھی اور وہاں کوئی وباء طاعون وغیرہ پھیلا، یہ لوگ جو تقریباً دس ہزار کی تعداد میں تھے گھبرا اٹھے اور موت کے خوف سے اس شہر کو چھوڑ کر سب کے سب دو پہاڑوں کے درمیان ایک وسیع میدان میں جاکر مقیم ہوگئے، اللہ تعالیٰ نے ان پر اور دنیا کی دوسری قوموں پر یہ واضح کرنے کے لئے موت سے کوئی شخص بھاگ کر جان نہیں چھڑا سکتا دو فرشتے بھیج دیئے جو میدان کے دونوں سروں پر آکھڑے ہوئے اور کوئی ایسی آواز دی جس سے سب کے سب بیک وقت مرے ہوئے رہ گئے ایک بھی زندہ نہ رہا، آس پاس کے لوگوں کو جب اس واقعہ کی اطلاع ہوئی یہاں پہنچے دس ہزار انسانوں کے کفن دفن کا انتظام آسان نہ تھا اس لئے ان کے گرد ایک احاطہ کھینچ کر حظیرہ جیسا بنادیا ان کی لاشیں حسب دستور گل سڑ گئیں ہڈیاں پڑی رہ گئیں ایک زمانہ دراز کے بعد بنی اسرائیل کے ایک پیغمبر جن کا نام حزقیل بتلایا گیا ہے اس مقام پر گذرے اس حظیرہ میں جگہ جگہ انسانی ہڈیوں کے ڈھانچے بکھرے ہوئے دیکھ کر حیرت میں رہ گئے بذریعہ وحی ان کو ان لوگوں کا پورا واقعہ بتلا دیا گیا۔ حضرت حزقیل (علیہ السلام) نے دعا کہ یا اللہ ان لوگوں کو پھر زندہ فرمادے اللہ تعالیٰ نے ان کی دعاء قبول فرمائی اور انھیں حکم دیا گیا کہ آپ ان شکستہ ہڈیوں کو اس طرح خطاب فرمائیں۔- ایتہا العظام البالیۃ ان اللہ یأمرک ان تجمتعی : یعنی اے پرانی ہڈیوں اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ ہر جوڑ کی ہڈی اپنی جگہ جمع ہوجائے۔- پیغمبر کی زبان سے خدا تعالیٰ کا حکم ان ہڈیوں نے سنا اور حکم کی تعمیل کی جن کو دنیا بےعقل و بےشعور سمجھتی ہے مگر دنیا کے ہر ذرہ ذرہ کی طرح وہ بھی تابع فرمان اور اپنے وجود کے مناسب عقل و ادراک رکھتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کی مطیع ہیں، قرآن کریم نے آیت اَعْطٰي كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهٗ ثُمَّ هَدٰى (٥٠: ٢٠) میں اس کی طرف اشارہ فرمایا ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو پیدا فرمایا پھر اس کو اس کے مناسب حال ہدایت فرمائی۔ مولانا رومی نے ایسے ہی امور کے متعلق فرمایا :- خاک وباد وآب وآتش بندہ اند - بامن وتو مردہ باحق زندہ اند - بہرحال ایک آواز پر ہر انسان کی ہڈیاں اپنی اپنی جگہ لگ گئیں پھر حکم ہوا کہ اب ان کو یہ آواز دو ،- ایتہا ان اللہ یأمرک ان تکتسی لحماً وعصباً وجلدا، یعنی اے ہڈیو اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ اپنا گوشت پہن لو اور پٹھے اور کھال درست کرلو۔ - یہ کہنا تھا کہ ہڈیوں کا ہر ڈھانچہ ان کے دیکھتے دیکھتے ایک مکمل لاش بن گئی پھر حکم ہوا کہ اب ارواح کو یہ خطاب کیا جائے۔- ایتہا الارواح ان اللہ یأمرک ان ترجع کل روح الی الجسد الذین کانت تعمرہ : یعنی اے ارواح تمہیں اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے کہ اپنے اپنے بدنوں میں لوٹ آئیں جن کی تعمیر وحیات ان سے وابستہ تھی۔- یہ آواز دیتے ہی ان کے سامنے سارے لاشے زندہ ہو کر کھڑے ہوگئے اور حیرت سے چار طرف دیکھنے لگے سب کی زبانوں پر تھا سبحانک لا الہ الا انت۔- یہ واقعہ ہائلہ دنیا کے فلاسفروں اور عقلاء کے لئے دعوت فکر اور منکرین قیامت پر حجت قاطعہ ہونے کے ساتھ اس ہدایت پر بھی مشتمل ہے کہ موت کے خوف سے بھاگنا خواہ جہاد سے ہو یا کسی وباء وطاعون سے اللہ تعالیٰ اور ان کی تقدیر پر ایمان رکھنے والے کے لئے ممکن نہیں جس کا یہ ایمان ہے کہ موت کا ایک وقت مقرر ہے نہ اس سے ایک سیکنڈ پہلے آسکتی ہے اور نہ ایک سیکنڈ مؤ خر ہوسکتی ہے اس لئے یہ حرکت فضول بھی ہے اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا سبب ہونے کی وجہ بھی۔- اب اس واقعہ کو قرآن کے الفاظ سے دیکھئے بیان واقعہ کے لئے قرآن نے فرمایا اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِيَارِھِمْ یعنی کیا آپ نے ان لوگوں کے واقعہ کو نہیں دیکھا جو اپنے گھروں سے بخوف موت نکل کھڑے ہوئے تھے۔- یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ یہ واقعہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے سے ہزاروں برس پہلے کا ہے اس کے دیکھنے کا حضور سے سوال ہی نہیں ہوسکتا تو یہاں اَلَمْ تَرَ فرمانے کا کیا منشاء ہے، مفسرین نے فرمایا ہے کہ ایسے تمام مواقع میں جہاں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو لفظ اَلَمْ تَرَ کے ساتھ خطاب کیا گیا ہے حالانکہ واقعہ آپ کے زمانے سے پہلے کا ہے جس کے دیکھنے کا کوئی تصور نہیں ہوسکتا ان سب مواقع میں رویت سے رویت قلبی مراد ہوتی ہے جس کے معنی ہیں علم و ادراک یعنی اَلَمْ تَرَ ایسے مواقع میں اَلَمْ تَرَ کے معنی میں ہوتا ہے لیکن اس کو لفظ اَلَمْ تَرَ سے تعبیر کرنے میں حکمت اس واقعہ کے مشہور ومشہود ہونے کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ یہ واقعہ ایسا یقینی ہے جیسے کوئی آج دیکھ رہا ہو اور دیکھنے کے قابل ہو اَلَمْ تَرَ کے بعد حرف الیٰ بڑھانے سے ازروئے زبان اس کی طرف اشارہ بھی ہوتا ہے۔- اس کے بعد قرآن میں ان کی ایک بڑی تعداد ہونے کا بیان فرمایا گیا وَھُمْ اُلُوْفٌ یعنی وہ لوگ ہزاروں کی تعداد میں تھے اس تعداد کی تعیین میں روایات مختلفہ ہیں لیکن عربی زبان کے قاعدہ سے یہ لفظ جمع کثرت ہے جس کا اطلاق دس سے کم پر نہیں ہوتا اس سے معلوم ہوا کہ ان کی تعداد دس ہزار سے کم نہ تھی۔- اس کے بعد ارشاد ہے فَقَالَ لَهُمُ اللّٰهُ مُوْتُوْا یعنی کہہ دیا ان کو اللہ تعالیٰ نے کہ مرجاؤ اللہ تعالیٰ کا یہ حکم بلاواسطہ بھی ہوسکتا ہے اور بواسطہ کسی فرشتے کے بھی جیسے دوسری آیت میں ارشاد ہے اِذَآ اَرَادَ شَـيْـــــًٔا اَنْ يَّقُوْلَ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُ (٨٢: ٣٦) - اس کے بعد فرمایا ہے اِنَّ اللّٰهَ لَذُوْ فَضْلٍ عَلَي النَّاس یعنی اللہ تعالیٰ بڑا فضل کرنے والے ہیں لوگوں پر اس میں وہ فضل بھی داخل ہے جو بنی اسرائیل کی اس قوم کو دوبارہ زندہ کرکے فرمایا اور یہ فضل بھی شامل ہے جو یہ واقعہ امت محمدیہ کو بتلا کر ان کے لئے درس عبرت بنایا۔- آخر میں غفلت شعار انسان کو بیدار کرنے کے لئے فرمایا وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَشْكُرُوْنَ یعنی اللہ تعالیٰ کے فضل و رحمت کے ہزاروں مظاہر انسان کے سامنے آتے رہتے ہیں مگر اس کے باوجود اکثر انسان شکر گذار نہیں ہوتے۔- مسائل متعلقہ :- اس آیت سے چند مسائل اور احکام مستفاد ہوئے :- تدبیر پر تقدیر غالب ہے :- اول یہ کہ تقدیر الہٰی کے مقابلے میں کوئی تدبیر کارگر نہیں ہوسکتی اور جہاد سے یا طاعون وغیرہ سے بھاگنا جان بچانے کا ذریعہ نہیں ہوسکتا اور نہ ان میں قائم رہنا موت کا باعث ہوتا ہے بلکہ موت کا ایک وقت معین ہے نہ اس میں کمی ہوسکتی ہے نہ زیادتی۔- جس بستی میں کوئی وباء طوعون وغیرہ ہو اس میں جانا یا وہاں سے بھاگ کر کہیں اور جانا دونوں ناجائز ہیں :- دوسرا مسئلہ : یہ ہے کہ جس شہر میں کوئی وبائی مرض طاعون پھیل جائے وہاں سے بھاگ کر دوسری جگہ جانا جائز نہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد میں اس پر اتنا اضافہ ہے کہ دوسرے لوگوں کو وہاں جانا بھی درست نہیں حدیث میں ہے۔- ان ھذا السقم عذب بہ الامم قبلکم فاذا سمعتم بہ فی الارض فلا تدخلوہا واذا وقع بارض وانتم بہا فلا تخرجوا فراراً (بخاری ومسلم، ابن کثیر) یعنی اس بیماری (طاعون) کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے تم سے پہلی قوموں پر عذاب نازل فرمایا ہے سو جب تم یہ سنو کہ کسی شہر میں طاعون وغیرہ وبائی مرض پھیل رہا ہے تو وہاں نہ جاؤ اور اگر کسی بستی میں یہ مرض پھیل جائے اور تم وہاں موجود ہو تو وہاں سے بھاگ کر نہ نکلو۔ - تفسیر قرطبی میں ہے کہ حضرت فاروق اعظم نے ایک مرتبہ ملک شام کے قصد سے سفر کیا سرحد شام پر تبوک کے قریب ایک مقام سَرَغ ہے وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ ملک شام میں سخت طاعون ملک شام کی تاریخ میں ایک عظیم سانحہ تھا یہ طاعون عمواس کے نام سے مشہور ہے کیونکہ اول یہ طاعون ایک بستی عمواس نامی میں شروع ہوا جو بیت المقدس کے قریب ہے پھر سارے ملک میں پھیل گیا ہزارہا انسان جن میں بہت سے صحابہ وتابعین بھی تھے اس طاعون میں شہید ہوئے۔- فاروق اعظم نے طاعون کی شدت کی خبر سنی تو اسی مقام پر ٹھہر کر صحابہ کرام سے مشورہ کیا کہ ہمیں ملک شام میں اس وقت جانا چاہیے یا واپس ہونا مناسب ہے اس وقت جتنے حضرات مشورہ میں شریک تھے ان میں کوئی ایسا نہ تھا جس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کے متعلق کوئی حکم نہ سنا ہو بعد میں حضرت عبد الرحمٰن بن عوف نے اطلاع دی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد اس معاملے کے متعلق یہ ہے :- ان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ذکر الوجع فقال رجز وعذابٌ عُذِبَ بہ الامم ثم بقی منہ بقیۃ فیذھب المرۃ ویأتی الاخرٰی فمن سمع بہ بارض فلا یقد من علیہ ومن کان بارض وقع بہا فلا یخرج فراراً منہ رواہ البخاری عن اسامۃ بن زید واخرجہ الائمۃ بمثلہ۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (طاعونی گلٹی کے) درد کا ذکر کیا تو فرمایا کہ یہ ایک عذاب ہے جس سے بعض امتوں کو عذاب دیا گیا تھا پھر اس کا کچھ بقیہ رہ گیا اب اس کا یہ حال ہے کہ کبھی چلا جاتا ہے اور پھر آجاتا ہے تو جو شخص یہ سنے کہ فلاں خطہ زمین میں یہ عذاب آیا ہوا ہے تو اس کو چاہئے کہ اس خطہ زمین میں نہ جائے اور جو شخص اس خطہ میں پہلے سے موجود ہے تو طاعون سے بھاگنے کے لئے وہاں سے نہ نکلے (بخاری وغیرہ) - حضرت فاروق اعظم نے جب یہ حدیث سنی تو رفقاء کو واپسی کا حکم دے دیا حضرت ابوعبیدہ ملک شام کے عامل و امیر (گورنر) بھی اس مجلس میں موجود تھے، فاروق اعظم کا یہ حکم سن کر فرمانے لگے : افراراً من قدر اللہ یعنی کیا آپ اللہ تعالیٰ کی تقدیر سے بھاگنا چاہتے ہیں ؟ فاروق اعظم نے جواب میں فرمایا ا بوعبیدہ کاش یہ بات کوئی اور کہتا یعنی تمہاری زبان سے ایسی بات قابل تعجب ہے اور پھر فرمایا :- نعم نفر من قدر اللہ الی قدر اللہ، بیشک ہم اللہ کی تقدیر سے اللہ ہی کی تقدیر کی طرف بھاگتے ہیں۔ مطلب یہ تھا کہ ہم جو کچھ کر رہے ہیں وہ اللہ تعالیٰ ہی کے حکم کے مطابق کر رہے ہیں جس کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیان فرمایا ہے۔- دربارہ طاعون ارشاد نبوی کی حکمتیں :- رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد مذکور سے معلوم ہوا کہ جس شہر یا بستی میں طاعون وغیرہ امراض وبائی پھیلے ہوئے ہوں باہر والوں کو وہاں جانا ممنوع ہے اور وہاں کے رہنے والوں کو اس جگہ سے بخوف موت بھاگنا ممنوع ہے۔- اور اس کے ساتھ اسلام کا بنیادی عقیدہ یہ ہے کہ نہ کسی جگہ جانا موت کا سبب ہے نہ کہیں سے بھاگنا نجات کا سبب، اس اہم عقیدہ کے ہوتے ہوئے حکم مذکور بڑی دور رس حکمتوں پر مبنی ہے باہر والوں کو وہاں جانے سے روکنے کی ایک حکمت تو یہ ہے کہ ممکن ہے وہاں پہنچ کر کسی کی عمر ختم ہوچکی ہو اور اس مرض میں مبتلا ہو کر انتقال ہوگیا تو مرنے والے کو کبھی یہ گمان ہوگا کہ اگر میں یہاں نہ آتا تو زندہ رہتا اور دوسروں کو بھی یہی خیال ہوگا کہ یہاں آنے سے اس کی موت واقع ہوئی حالانکہ جو کچھ ہوا وہ پہلے سے لکھا ہوا تھا اس کی عمر اتنی ہی تھی کہیں بھی رہتا اس وقت اس کی موت لازمی تھی اس حکم میں مسلمانوں کے عقیدہ کو تذبذب سے بچایا گیا کہ وہ غلط فہمی کا شکار نہ ہوں۔- دوسری حکمت : یہ بھی ہے کہ حق تعالیٰ نے انسان کو یہ ہدایت دی ہے کہ جس جگہ تکلیف پہنچنے کا خطرہ ہو یا جہاں ہلاکت کا اندیشہ ہو وہاں نہ جائے بلکہ مقدور بھر ایسی چیزوں سے بچنے کی فکر کرے جو اس کے لئے مضر یا ہلاکت کا سبب بن سکتی ہیں اور اپنی جان کی حفاظت ہر انسان کے ذمے پر واجب قرار دی ہے اس قاعدہ کا مقتضی بھی یہی ہے کہ تقدیر الہی پر ایمان کامل رکھتے ہوئے احتیاطی تدبیروں میں کمی نہ کرے اور ایک تدبیر یہ بھی ہے کہ ایسی جگہ نہ جائے جہاں جان کا خطرہ ہو۔ - اسی طرح اس بستی کے رہنے والوں کو بخوف موت وہاں سے بھاگنے کی ممانعت میں بھی بہت سی حکمتیں ہیں۔- ایک حکمت تو اجتماعی اور عوامی ہے کہ اگر یہ بھاگنے کا سلسلہ چلا تو امیر اور پیسے والے اور قدرت و طاقت والے آدمی تو بھاگ جائیں گے مگر بستی میں ایسے ضعفاء مرد و عورت کا بھی عادۃ ہونا لازمی ہے جو کہیں جانے پر قدرت نہیں رکھتے ان کا حشر کیا ہوگا، اول تو وہ تنہا رہ کر ہیبت ہی سے مرنے لگیں گے پھر ان میں جو بیمار ہیں ان کی خبرگیری کون کرے گا مرجائیں گے تو دفن کفن کا انتظام کیسے ہوگا۔- دوسری حکمت یہ ہے کہ جو لوگ اس جگہ موجود ہیں بعید نہیں کہ ان میں اس مرض کے جراثیم اثر کرچکے ہوں ایسی حالت میں وہ سفر کریں گے تو اور زیادہ مصیبتوں اور مشقتوں کے شکار ہوں گے، سفر کی حالت میں بیمار ہوئے تو ظاہر ہے کہ ان پر کیا گذرے گی، ابن المدینی نے علماء کا یہ قول نقل کیا ہے کہ مافر احد من الوباء فسلم (قرطبی) یعنی جو شخص وباء سے بھاگتا ہے وہ کبھی سالم نہیں رہتا۔- تیسری حکمت یہ بھی ہے کہ اگر ان میں مرض کے جراثیم سرایت کرچکے ہیں تو یہ مختلف بستیوں میں پہنچیں گے تو وہاں جراثیم پھیلیں گے اور اگر اپنی جگہ صبر و توکل کے ساتھ ٹھہرے رہے تو بہت ممکن ہے کہ مرض سے نجات حاصل ہوجائے اور بالفرض اسی مرض میں موت مقدر تھی تو ان کو اپنے صبر وثبات کی وجہ سے درجہ شہادت کا ملے گا جیسا کہ حدیث میں ارشاد ہے :- روی البخاری عن یحییٰ بن یعمر عن عائشۃ انھا اخبرتہ انھا سألت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عن الطاعون فاخبرہا النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہ کان عذاباً یبعثہ اللہ علی من یشاء فجعلہ اللہ رحمۃ للمؤ منین فلیس من عبد یقع الطاعون فیمکث فی بلدہ صابراً یعلم انہ لن یصیبہ الا ماکتب اللہ لہ الا کان لہ مثل اجر شہید وھذا تفسیر لقولہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الطاعون شہادۃ والمطعون شہید (قرطبی ص ٢٣٥ ج ٣) - امام بخاری نے یحییٰ بن یعمر کی روایت سے نقل کیا ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ نے ان کو خبر دی کہ انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے طاعون کے متعلق سوال کیا تھا، تو آپ نے ان کو بتلایا کہ یہ بیماری اصل میں عذاب کی حیثیت سے نازل ہوئی تھی اور جس قوم کو عذاب دینا منظور ہوتا تھا اس پر بھیج دی جاتی تھی، پھر اللہ تعالیٰ نے اس کو مؤمنین کے لئے رحمت بنادیا تو جو اللہ کا بندہ طاعون پھیلنے کے بعد اپنی بستی میں صبر و سکون کے ساتھ ٹھرا رہے اور یہ اعتقاد رکھے کہ اس کو صرف وہی مصیبت پہنچ سکتی ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے لکھ دی ہے تو ایسے شخص کو شہید کے برابر ثواب ملے گا۔- اور یہی تشریح ہے اس حدیث کی جس میں ارشاد ہے کہ طاعون زدہ شخص شہید ہے۔- بعض خاص صورتوں کا استثناء :- حدیث کے الفاظ میں فلا تخرجوا فرارا منہ آیا ہے اس سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص موت سے فرار کے لئے نہیں بلکہ اپنی کسی دوسری ضرورت سے دوسری جگہ چلا جائے تو وہ اس ممانعت میں داخل نہیں اسی طرح اگر کسی کا عقیدہ اپنی جگہ پختہ ہو کہ یہاں سے دوسری جگہ چلا جانا مجھے موت سے نجات نہیں دے سکتا اگر میرا وقت آگیا ہے تو جہاں جاؤں گا موت لازمی ہے اور وقت نہیں آیا تو یہاں رہنے سے بھی موت نہیں آئے گی یہ عقیدہ پختہ رکھتے ہوئے محض آب وہوا کی تبدیلی کے لئے یہاں سے چلا جائے تو وہ بھی ممانعت سے مستثنے ہے۔- اسی طرح کوئی آدمی کسی ضرورت سے اس جگہ میں داخل ہو جہاں وباء پھیلی ہوئی ہے اور عقیدہ اس کا پختہ ہو کہ یہاں آنے سے موت نہیں آئے گی وہ اللہ کی مشیت کے تابع ہے تو ایسی حالت میں اس کے لئے وہاں جانا بھی جائز ہوگا۔- تیسرا مسئلہ : اس آیت سے یہ مستفاد ہوا کہ بخوف موت جہاد سے بھاگنا بھی حرام ہے، قرآن کریم میں یہ مسئلہ دوسری جگہ زیادہ تفصیل اور وضاحت سے آیا ہے جس میں بعض خاص صورتوں کو مستثنے ٰ بھی فرمایا گیا ہے، جو مضمون اس آیت کا ہے تقریباً یہی مضمون دوسری آیت میں جہاد سے بھاگنے والوں یا اس میں شامل نہ ہونے والوں کے بارے میں آیا ہے ارشاد یہ ہے :- اَلَّذِيْنَ قَالُوْا لِاِخْوَانِھِمْ وَقَعَدُوْا لَوْ اَطَاعُوْنَا مَا قُتِلُوْ آ قُلْ فَادْرَءُوْا عَنْ اَنْفُسِكُمُ الْمَوْتَ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ (١٦٨: ٣) یعنی کچھ لوگ خود بھی جہاد میں شریک نہ ہوئے اور جہاد میں شریک ہو کر شہید ہوجانے والوں کے متعلق لوگوں سے کہتے ہیں کہ ان لوگوں نے ہماری بات نہ سنی اس لئے مارے گئے اگر یہ ہماری بات مانتے تو قتل نہ ہوتے (آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم ہوا کہ) آپ ان سے فرما دیں کہ اگر موت سے بچنا تمہارے اختیار میں ہے تو اوروں کی کیا فکر کرتے ہو تم خود اپنی فکر کرو اور اپنے آپ کو موت سے بچالو یعنی جہاد میں جانے پر موقوف نہیں تمہیں گھر بیٹھے ہوئے بھی آخر موت آئے گی، - عجائب قدرت سے ہے کہ صحابہ کرام (رض) اجمعین کے سب سے بڑے جنگی جرنیل سیف اللہ حضرت خالد بن ولید جن کی اسلامی عمر ساری جہاد ہی میں گذری ہے وہ کسی جہاد میں شہید نہیں ہوئے بیمار ہو کر گھر میں وفات پائی وفات کے قریب اپنے بستر پر مرنے کا افسوس کرتے ہوئے گھر والوں کو خطاب کرکے فرمایا کہ میں فلاں فلاں عظیم الشان جنگوں اور جہادوں میں شریک ہوا اور میرا کوئی عضو ایسا نہیں جس میں تیر یا نیزے یا چوٹ کے زخم کا اثر ونشان نہ ہو مگر افسوس ہے کہ میں اب گدھے کی طرح بستر پر مر رہا ہوں خدا تعالیٰ بزدلوں کو آرام نہ دے ان کو میری نصیحت پہنچاؤ، اس آیت میں بنی اسرائیل کا یہ واقعہ بطور تمہید لایا گیا تھا اگلی آیت میں جہاد و قتال کا حکم دیا گیا جو اس قصہ کے ذکر کرنے سے اصل مقصود تھا کہ جہاد میں جانے کو موت یا بھاگنے کو نجات نہ سمجھو بلکہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی تعمیل کرکے فلاح دارین حاصل کرو اللہ تعالیٰ تمہاری سب باتیں سننے والے اور جاننے والے ہیں۔- تیسری آیت میں اللہ تعالیٰ کی راہ میں مال خرچ کرنے کی فضیلت کا ذکر ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِيَارِھِمْ وَھُمْ اُلُوْفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ۝ ٠ ۠ فَقَالَ لَہُمُ اللہُ مُوْتُوْا۝ ٠ ۣ ثُمَّ اَحْيَاھُمْ۝ ٠ ۭ اِنَّ اللہَ لَذُوْ فَضْلٍ عَلَي النَّاسِ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَشْكُرُوْنَ۝ ٢٤٣- الف ( ا)- الألفات التي تدخل لمعنی علی ثلاثة أنواع :- نوع في صدر الکلام .- ونوع في وسطه .- ونوع في آخره .- فالذي في صدر الکلام أضرب :- الأوّل : ألف الاستخبار، وتفسیره بالاستخبار أولی من تفسیر ه بالاستفهام، إذ کان ذلک يعمّه وغیره نحو : الإنكار والتبکيت والنفي والتسوية .- فالاستفهام نحو قوله تعالی: أَتَجْعَلُ فِيها مَنْ يُفْسِدُ فِيها [ البقرة 30] ، والتبکيت إمّا للمخاطب أو لغیره نحو : أَذْهَبْتُمْ طَيِّباتِكُمْ [ الأحقاف 20] ، أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْداً [ البقرة 80] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس 91] ، أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144] ، أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخالِدُونَ [ الأنبیاء 34] ، أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً [يونس 2] ، آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام 144] .- والتسوية نحو : سَواءٌ عَلَيْنا أَجَزِعْنا أَمْ صَبَرْنا [إبراهيم 21] ، سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لا يُؤْمِنُونَ [ البقرة 6] «1» ، وهذه الألف متی دخلت علی الإثبات تجعله نفیا، نحو : أخرج ؟ هذا اللفظ ينفي الخروج، فلهذا سأل عن إثباته نحو ما تقدّم .- وإذا دخلت علی نفي تجعله إثباتا، لأنه يصير معها نفیا يحصل منهما إثبات، نحو : أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ [ الأعراف 172] «2» ، أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] ، أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد 41] ، أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَةُ [ طه 133] أَوَلا يَرَوْنَ [ التوبة :- 126] ، أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ [ فاطر 37] .- الثاني : ألف المخبر عن نفسه نحو :- أسمع وأبصر .- الثالث : ألف الأمر، قطعا کان أو وصلا، نحو : أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة 114] ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتاً فِي الْجَنَّةِ [ التحریم 11] ونحوهما .- الرابع : الألف مع لام التعریف «4» ، نحو :- العالمین .- الخامس : ألف النداء، نحو : أزيد، أي : يا زيد .- والنوع الذي في الوسط : الألف التي للتثنية، والألف في بعض الجموع في نحو : مسلمات ونحو مساکين .- والنوع الذي في آخره : ألف التأنيث في حبلی وبیضاء «5» ، وألف الضمیر في التثنية، نحو :- اذهبا .- والذي في أواخر الآیات الجارية مجری أواخر الأبيات، نحو : وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب 10] ، فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب 67] ، لکن هذه الألف لا تثبت معنی، وإنما ذلک لإصلاح اللفظ .- ا : الف با معنی کی تین قسمیں ہیں ۔ ایک وہ جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ دوسرا وہ جو وسط کلام میں واقع ہو ۔ تیسرا وہ جو آخر کلام میں آئے ۔ ( ا) وہ الف جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ اس کی چند قسمیں ہیں : ۔ (1) الف الاستخبار اسے ہمزہ استفہام کہنے کے بجائے الف استخبار کہنا زیادہ صحیح ہوگا ۔ کیونکہ اس میں عمومیت ہے جو استفہام و انکار نفی تبکیت پر زجرو تو بیخ ) تسویہ سب پر حاوی ہے۔ چناچہ معنی استفہام میں فرمایا ۔ أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ [ البقرة : 30]( انہوں نے کہا ) کیا تو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت و خون کرتا پھرے اور تبکیت یعنی سرزنش کبھی مخاطب کو ہوتی ہے اور کبھی غیر کو چناچہ ( قسم اول کے متعلق ) فرمایا :۔ (1) أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُم [ الأحقاف : 20] تم اپنی لذتیں حاصل کرچکے ۔ (2) أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا [ البقرة : 80] کیا تم نے خدا سے اقرار لے رکھا ہے ؟ (3) آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس : 91] کیا اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ؟ اور غیر مخاظب کے متعلق فرمایا :۔ (4) أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا [يونس : 2] کیا لوگوں کے لئے تعجب خیز ہے ؟ (5) أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِل [ آل عمران : 144] تو کیا اگر یہ مرجائیں یا مارے جائیں ؟ (6) أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ [ الأنبیاء : 34] بھلا اگر تم مرگئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے ؟ (7) آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام : 143] بتاؤ تو ( خدا نے ) دونوں نروں کو حرام کیا ہے ۔ یا دونوں ماديؤں کو ۔ اور معنی تسویہ میں فرمایا ، سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا [إبراهيم : 21] اب ہم گهبرائیں یا صبر کریں ہمارے حق میں برابر ہے ۔ سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ ( سورة البقرة 6) تم خواہ انہیں نصیحت کردیا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ، وہ ایمان نہیں لانے کے ۔ اور یہ الف ( استخبار ) کلام مثبت پر داخل ہو تو اسے نفی میں تبدیل کردیتا ہے ۔ جیسے اخرج ( وہ باہر نہیں نکلا ) کہ اس میں نفی خروج کے معنی پائے جائے ہیں ۔ اس لئے کہ اگر نفی کے معنی نہ ہوتے تو اس کے اثبات کے متعلق سوال نہ ہوتا ۔ اور جب کلام منفی پر داخل ہو تو اسے مثبت بنا دیتا ہے ۔ کیونکہ کلام منفی پر داخل ہونے سے نفی کی نفی ہوئی ۔ اور اس طرح اثبات پیدا ہوجاتا ہے چناچہ فرمایا :۔ أَلَسْتُ بِرَبِّكُم [ الأعراف : 172] کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ( یعنی ضرور ہوں ) أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ [ التین : 8] کیا اللہ سب سے بڑا حاکم نہیں ہے یعنی ضرور ہے ۔ أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد : 41] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کا بندوبست کرتے ہیں ۔ أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَة [ طه : 133] کیا ان کے پاس کھلی نشانی نہیں آئی ۔ أَوَلَا يَرَوْنَ [ التوبة : 126] اور کیا یہ نہیں دیکھتے أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم [ فاطر : 37] اور کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی ۔ (2) الف جو مضارع کے صیغہ واحد متکلم کے شروع میں آتا ہے اور میں " کے معنی رکھتا ہے جیسے اسمع و ابصر یعنی میں سنتاہوں اور میں دیکھتا ہوں (3) ہمزہ فعل امر خواہ قطعی ہو یا وصلي جیسے فرمایا :۔ أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ [ المائدة : 114] ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما ۔ رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ [ التحریم : 11] اے میرے پروردگار میرے لئے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا ۔ (4) الف جو لام کے ساتھ معرفہ بنانے کے لئے آیا ہے جیسے فرمایا الْعَالَمِينَ [ الفاتحة : 2] تمام جہانوں (5) الف نداء جیسے ازید ( اے زید ) ( ب) وہ الف جو وسط کلمہ میں آتا ہے اس کی پہلی قسم الف تثنیہ ہے ( مثلا رجلان ) اور دوسری وہ جو بعض اوزان جمع میں پائی جاتی ہے مثلا مسلمات و مساکین ۔ ( ج) اب رہا وہ الف جو کلمہ کے آخر میں آتا ہے ۔ وہ یا تو تانیث کے لئے ہوتا ہے جیسے حبلیٰ اور بَيْضَاءُمیں آخری الف یا پھر تثنیہ میں ضمیر کے لئے جیسا کہ اذْهَبَا [ الفرقان : 36] میں آخر کا الف ہے ۔ وہ الف جو آیات قرآنی کے آخر میں کہیں بڑھا دیا جاتا ہے جیسے وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب : 10] فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب : 67] تو یہ کوئی معنوی اضافہ نہیں کرتا بلکہ محض لفظی اصلاح ( اور صوتی ہم آہنگی ) کے لئے آخر میں بڑھا دیا جاتا ہے ( جیسا کہ ابیات کے اواخر میں الف " اشباع پڑھاد یتے ہیں )- «لَمْ»- وَ «لَمْ» نفي للماضي وإن کان يدخل علی الفعل المستقبل، ويدخل عليه ألف الاستفهام للتّقریر . نحو : أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينا وَلِيداً [ الشعراء 18] ، أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيماً فَآوی [ الضحی 6]- ( لم ( حرف ) لم ۔ کے بعد اگرچہ فعل مستقبل آتا ہے لیکن معنوی اعتبار سے وہ اسے ماضی منفی بنادیتا ہے ۔ اور اس پر ہمزہ استفہام تقریر کے لئے آنا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينا وَلِيداً [ الشعراء 18] کیا ہم نے لڑکپن میں تمہاری پرورش نہیں کی تھی ۔- رأى- والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس :- والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو :- لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] ،- والثاني : بالوهم والتّخيّل،- نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] .- والثالث : بالتّفكّر، - نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] .- والرابع : بالعقل،- وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] ،- ( ر ء ی ) رای - الرؤیتہ - کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور - قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں - ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا - جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔- ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا - جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔- (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا - جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے - ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا - جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ - دار - الدَّار : المنزل اعتبارا بدورانها الذي لها بالحائط، وقیل : دارة، وجمعها ديار، ثم تسمّى البلدة دارا، والصّقع دارا، والدّنيا كما هي دارا، والدّار الدّنيا، والدّار الآخرة، إشارة إلى المقرّين في النّشأة الأولی، والنّشأة الأخری. وقیل : دار الدّنيا، ودار الآخرة، قال تعالی: لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام 127] ، أي : الجنة، - ( د و ر ) الدار ۔- منزل مکان کو کہتے ہیں کیونکہ وہ چار دیواری سے گھرا ہوتا ہے بعض نے دراۃ بھی کہا جاتا ہے ۔ اس کی جمع دیار ہے ۔ پھر دار کا لفظ شہر علاقہ بلکہ سارے جہان پر بولا جاتا ہے اور سے نشاۃ اولٰی اور نشاہ ثانیہ میں دو قرار گاہوں کی طرف اشارہ ہے بعض نے ( باضافت ) بھی کہا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ : لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام 127] ان کے لئے ان کے اعمال کے صلے میں پروردگار کے ہاں سلامتی کا گھر ہے ۔ - حذر - الحَذَر : احتراز من مخیف، يقال : حَذِرَ حَذَراً ، وحذرته، قال عزّ وجل : يَحْذَرُ الْآخِرَةَ [ الزمر 9] ، وقرئ : وإنّا لجمیع حَذِرُون، وحاذِرُونَ 3» ، وقال تعالی: وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ- [ آل عمران 28] ، وقال عزّ وجل : خُذُوا حِذْرَكُمْ [ النساء 71] ، أي : ما فيه الحذر من السلاح وغیره، وقوله تعالی: هُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْهُمْ [ المنافقون 4] ، وقال تعالی:- إِنَّ مِنْ أَزْواجِكُمْ وَأَوْلادِكُمْ عَدُوًّا لَكُمْ فَاحْذَرُوهُمْ [ التغابن 14] ، وحَذَارِ ، أي : احذر، نحو :- مناع، أي : امنع .- ( ح ذ ر) الحذر ( س) خوف زدہ کرنے والی چیز سے دور رہنا کہا جاتا ہے حذر حذرا وحذرتہ میں اس سے دور رہا ۔ قرآن میں ہے :۔ يَحْذَرُ الْآخِرَةَ [ الزمر 9] آخرت سے ڈرتا ہو ۔ وإنّا لجمیع حَذِرُون، وحاذِرُونَاور ہم سب باسازو سامان ہیں ۔ ایک قرآت میں حذرون ہے هُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْهُمْ [ المنافقون 4] یہ تمہاری دشمن میں ان سے محتاط رہنا ۔ إِنَّ مِنْ أَزْواجِكُمْ وَأَوْلادِكُمْ عَدُوًّا لَكُمْ فَاحْذَرُوهُمْ [ التغابن 14] تمہاری عورتوں اور اولاد میں سے بعض تمہارے دشمن ( بھی ) ہیں سو ان سے بچتے رہو۔ حذر ۔ کسی امر سے محتاط رہنے کے لئے کہنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 28] اور خدا تم کو اپنے ( غضب ) سے محتاط رہنے کی تلقین کرنا ہے الحذر بچاؤ ۔ اور آیت کریمہ :۔ خُذُوا حِذْرَكُمْ [ النساء 71] جہاد کے لئے ) ہتھیار لے لیا کرو ۔ میں حذر سے مراد اسلحۃ جنگ وغیرہ ہیں جن کے ذریعہ دشمن سے بچاؤ حاصل ہوتا ہے حذار ( اسم فعل بمعنی امر ) بچو جیسے مناع بمعنی امنع - خوف - الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] - ( خ و ف ) الخوف ( س )- کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ - موت - أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة :- فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات - . نحو قوله تعالی:- يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم 19] ، وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق 11] .- الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا - [ مریم 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم 66] .- الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة .- نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] ، وإيّاه قصد بقوله : إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل 80] .- الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة،- وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَ- بِمَيِّتٍ [إبراهيم 17] .- الخامس : المنامُ ،- فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] - ( م و ت ) الموت - یہ حیات کی ضد ہے - لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں - ۔ اول قوت نامیہ - ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق 11] اور اس پانی سے ہم نے شہر مردہ یعنی زمین افتادہ کو زندہ کیا ۔- دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں - ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم 66] کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا ۔ - سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے - چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل 80] کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو بات نہیں سنا سکتے ۔- چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے - چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی معنی مراد ہیں ۔- پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے - اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے - حيى- الحیاة تستعمل علی أوجه :- الأوّل : للقوّة النّامية الموجودة في النّبات والحیوان، ومنه قيل : نبات حَيٌّ ، قال عزّ وجلّ : اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید 17] ، - الثانية : للقوّة الحسّاسة، وبه سمّي الحیوان حيوانا،- قال عزّ وجلّ : وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر 22] ،- الثالثة : للقوّة العاملة العاقلة، کقوله تعالی:- أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] - والرابعة : عبارة عن ارتفاع الغمّ ،- وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] ، أي : هم متلذّذون، لما روي في الأخبار الکثيرة في أرواح الشّهداء - والخامسة : الحیاة الأخرويّة الأبديّة،- وذلک يتوصّل إليه بالحیاة التي هي العقل والعلم، قال اللہ تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال 24] - والسادسة : الحیاة التي يوصف بها الباري،- فإنه إذا قيل فيه تعالی: هو حيّ ، فمعناه : لا يصحّ عليه الموت، ولیس ذلک إلّا لله عزّ وجلّ.- ( ح ی ی ) الحیاۃ )- زندگی ، جینا یہ اصل میں - حیی ( س ) یحییٰ کا مصدر ہے ) کا استعمال مختلف وجوہ پر ہوتا ہے ۔- ( 1) قوت نامیہ جو حیوانات اور نباتات دونوں میں پائی جاتی ہے - ۔ اسی معنی کے لحاظ سے نوبت کو حیہ یعنی زندہ کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید 17] جان رکھو کہ خدا ہی زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ - ۔ ( 2 ) دوم حیاۃ کے معنی قوت احساس کے آتے ہیں - اور اسی قوت کی بناء پر حیوان کو حیوان کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر 22] اور زندے اور مردے برابر ہوسکتے ہیں ۔ - ( 3 ) قوت عاملہ کا عطا کرنا مراد ہوتا ہے - چنانچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔- ( 4 ) غم کا دور ہونا مراد ہوتا ہے - ۔ اس معنی میں شاعر نے کہا ہے ( خفیف ) جو شخص مرکر راحت کی نیند سوگیا وہ درحقیقت مردہ نہیں ہے حقیقتا مردے بنے ہوئے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا وہ مرے ہوئے نہیں ہیں بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں ۔ میں شہداء کو اسی معنی میں احیاء یعنی زندے کہا ہے کیونکہ وہ لذت و راحت میں ہیں جیسا کہ ارواح شہداء کے متعلق بہت سی احادیث مروی ہیں ۔ - ( 5 ) حیات سے آخرت کی دائمی زندگی مراد ہوتی ہے - ۔ جو کہ علم کی زندگی کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے : قرآن میں ہے : ۔ اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال 24] خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو جب کہ رسول خدا تمہیں ایسے کام کے لئے بلاتے ہیں جو تم کو زندگی ( جادواں ) بخشتا ہے۔- ( 6 ) وہ حیات جس سے صرف ذات باری تعالیٰ متصف ہوتی ہے - ۔ چناچہ جب اللہ تعالیٰ کی صفت میں حی کہا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ ذات اقدس ہوئی ہے جس کے متعلق موت کا تصور بھی نہیں ہوسکتا ۔ پھر دنیا اور آخرت کے لحاظ بھی زندگی دو قسم پر ہے یعنی حیات دنیا اور حیات آخرت چناچہ فرمایا : ۔ فَأَمَّا مَنْ طَغى وَآثَرَ الْحَياةَ الدُّنْيا [ النازعات 38] تو جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو مقدم سمجھنا ۔- ذو - ذو علی وجهين : أحدهما : يتوصّل به إلى الوصف بأسماء الأجناس والأنواع، ويضاف إلى الظاهر دون المضمر، ويثنّى ويجمع، ويقال في المؤنّث : ذات، وفي التثنية : ذواتا، وفي الجمع : ذوات، ولا يستعمل شيء منها إلّا مضافا، قال : وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة 251] ، وقال : ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى [ النجم 6] ، وَذِي الْقُرْبى [ البقرة 83] ، وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ [هود 3] ، ذَوِي الْقُرْبى وَالْيَتامی [ البقرة 177] ، إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذاتِ الصُّدُورِ- [ الأنفال 43] ، وَنُقَلِّبُهُمْ ذاتَ الْيَمِينِ وَذاتَ الشِّمالِ [ الكهف 18] ، وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ [ الأنفال 7] ، وقال : ذَواتا أَفْنانٍ [ الرحمن 48] ، وقد استعار أصحاب المعاني الذّات، فجعلوها عبارة عن عين الشیء، جو هرا کان أو عرضا، واستعملوها مفردة ومضافة إلى المضمر بالألف واللام، وأجروها مجری النّفس والخاصّة، فقالوا : ذاته، ونفسه وخاصّته، ولیس ذلک من کلام العرب . - والثاني في لفظ ذو :- لغة لطيّئ، يستعملونه استعمال الذي، ويجعل في الرفع، والنصب والجرّ ، والجمع، والتأنيث علی لفظ واحد نحو : وبئري ذو حفرت وذو طویت - ( ذ و ) ذو ( والا ۔ صاحب )- یہ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے - ( 1) اول یہ کہ اسماء اجناس وانوع کے ساتھ توصیف کے لئے اسے ذریعہ بنایا جاتا ہے ۔ اس صورت میں اسم ضمیر کیطرف مضاف نہیں ہوتا بلکہ ہمیشہ اسم ظاہر کی طرف مضاف ہوتا ہے اور اس کا تنثیہ جمع بھی آتا ہے ۔ اور مونث کے لئے ذات کا صیغہ استعمال ہوتا ہے اس کا تثنیہ ذواتا اور جمع ذوات آتی ہے ۔ اور یہ تمام الفاظ مضاف ہوکر استعمال ہوتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة 251] لیکن خدا اہل عالم پر بڑا مہرابان ہے ۔ ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى [ النجم 6] ( یعنی جبرئیل ) طاقتور نے پھر وہ پورے نظر آئے ۔ وَذِي الْقُرْبى [ البقرة 83] اور رشتہ داروں ۔ وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ [هود 3] اور ہر ساحب فضل کو اسکی بزرگی ( کی داو ) دیگا ۔ ذَوِي الْقُرْبى وَالْيَتامی [ البقرة 177] رشتہ داروں اور یتیموں ۔ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذاتِ الصُّدُورِ [ الأنفال 43] تو دلوں تک کی باتوں سے آگاہ ہے ۔ وَنُقَلِّبُهُمْ ذاتَ الْيَمِينِ وَذاتَ الشِّمالِ [ الكهف 18] اور ہم ان کو دائیں اور بائیں کروٹ بدلاتے ہیں ۔ وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ [ الأنفال 7] اور تم چاہتے تھے کہ جو قافلہ بےشان و شوکت ( یعنی بےہتھیار ) ہے وہ تمہارے ہاتھ آجائے ۔ ذَواتا أَفْنانٍ [ الرحمن 48] ان دونوں میں بہت سے شاخیں یعنی قسم قسم کے میووں کے درخت ہیں ۔ علمائے معانی ( منطق وفلسفہ ) ذات کے لفظ کو بطور استعارہ عین شے کے معنی میں استعمال کرتے ہیں اور یہ جو ہر اور عرض دونوں پر بولاجاتا ہے اور پھر کبھی یہ مفرد یعنی بدون اضافت کت استعمال ہوتا ہے ۔ اور کبھی اسم ضمیر کی طرف مضاف ہو کر اور کبھی معرف بلالم ہوکر ۔ اور یہ لفظ بمنزلہ نفس اور خاصہ کے بولا جاتا ہے ۔ اور نفسہ وخاصتہ کی طرح ذاتہ بھی کہاجاتا ہے ۔ مگر یہ عربی زبان کے محاورات سے نہیں ہے - ( 2 ) دوم بنی طیی ذوبمعنی الذی استعمال کرتے ہیں اور یہ رفعی نصبی جری جمع اور تانیث کی صورت میں ایک ہی حالت پر رہتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ع ( الوافر ) یعنی کنواں جسے میں نے کھودا اور صاف کیا ہے ۔- فضل - الفَضْلُ : الزّيادة عن الاقتصاد، وذلک ضربان : محمود : کفضل العلم والحلم، و مذموم : کفضل الغضب علی ما يجب أن يكون عليه . والفَضْلُ في المحمود أكثر استعمالا، والفُضُولُ في المذموم، والفَضْلُ إذا استعمل لزیادة أحد الشّيئين علی الآخر - فعلی ثلاثة أضرب :- فضل من حيث الجنس، کفضل جنس الحیوان علی جنس النّبات .- وفضل من حيث النّوع، کفضل الإنسان علی غيره من الحیوان، وعلی هذا النحو قوله :- وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء 70] ، إلى قوله : تَفْضِيلًا - وفضل من حيث الذّات، کفضل رجل علی آخر . فالأوّلان جوهريّان لا سبیل للناقص فيهما أن يزيل نقصه وأن يستفید الفضل، کالفرس والحمار لا يمكنهما أن يکتسبا الفضیلة التي خصّ بها الإنسان، والفضل الثالث قد يكون عرضيّا فيوجد السّبيل علی اکتسابه، ومن هذا النّوع التّفضیل المذکور في قوله : وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل 71] ، لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء 12] ، يعني : المال وما يکتسب،- ( ف ض ل ) الفضل - کے منعی کسی چیز کے اقتضا ( متوسط درجہ سے زیادہ ہونا کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے محمود جیسے علم وحلم وغیرہ کی زیادتی مذموم جیسے غصہ کا حد سے بڑھ جانا لیکن عام طور الفضل اچھی باتوں پر بولا جاتا ہے اور الفضول بری باتوں میں اور جب فضل کے منعی ایک چیز کے دوسری پر زیادتی کے ہوتے ہیں تو اس کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں ( ۔ ) بر تری بلحاظ جنس کے جیسے جنس حیوان کا جنس نباتات سے افضل ہونا ۔ ( 2 ) بر تری بلحاظ نوع کے جیسے نوع انسان کا دوسرے حیوانات سے بر تر ہونا جیسے فرمایا : ۔ وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء 70]- اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور اپنی بہت سی مخلوق پر فضیلت دی ۔ ( 3 ) فضیلت بلحاظ ذات مثلا ایک شخص کا دوسرے شخص سے بر تر ہونا اول الذکر دونوں قسم کی فضیلت بلحاظ جو ہر ہوتی ہے ۔ جن میں ادنیٰ ترقی کر کے اپنے سے اعلٰی کے درجہ کو حاصل نہیں کرسکتا مثلا گھوڑا اور گدھا کہ یہ دونوں انسان کا درجہ حاصل نہیں کرسکتے ۔ البتہ تیسری قسم کی فضیلت من حیث الذات چونکہ کبھی عارضی ہوتی ہے اس لئے اس کا اکتساب عین ممکن ہے چناچہ آیات کریمہ : ۔ وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل 71] اور خدا نے رزق ( دولت ) میں بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے ۔ لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء 12] تاکہ تم اپنے پروردگار کا فضل ( یعنی روزی تلاش کرو ۔ میں یہی تیسری قسم کی فضیلت مراد ہے جسے محنت اور سعی سے حاصل کیا جاسکتا ہے ۔- كثر - الْكِثْرَةَ والقلّة يستعملان في الكمّيّة المنفصلة كالأعداد قال تعالی: وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] - ( ک ث ر )- کثرت اور قلت کمیت منفصل یعنی اعداد میں استعمال ہوتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] اس سے ان میں سے اکثر کی سر کشی اور کفر اور بڑ ھیگا ۔- شكر - الشُّكْرُ : تصوّر النّعمة وإظهارها، قيل : وهو مقلوب عن الکشر، أي : الکشف، ويضادّه الکفر، وهو : نسیان النّعمة وسترها۔ - والشُّكْرُ ثلاثة أضرب :- شُكْرُ القلب، وهو تصوّر النّعمة .- وشُكْرُ اللّسان، وهو الثّناء علی المنعم .- وشُكْرُ سائر الجوارح، وهو مکافأة النّعمة بقدر استحقاقه .- وقوله تعالی: اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ 13] ،- ( ش ک ر ) الشکر - کے معنی کسی نعمت کا تصور اور اس کے اظہار کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ کشر سے مقلوب ہے جس کے معنی کشف یعنی کھولنا کے ہیں ۔ شکر کی ضد کفر ہے ۔ جس کے معنی نعمت کو بھلا دینے اور اسے چھپا رکھنے کے ہیں - شکر تین قسم پر ہے - شکر قلبی یعنی نعمت کا تصور کرنا شکر لسانی یعنی زبان سے منعم کی تعریف کرنا شکر بالجوارح یعنی بقدر استحقاق نعمت کی مکافات کرنا ۔ اور آیت کریمہ : اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ 13] اسے داود کی آل میرا شکر کرو ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

طاعون سے بھاگ نکلنے کا بیان - قول باری ہے (الم تر الی الذین خرجوا من دیارھم وھم الوف حذر الموت فقال لھم اللہ موتوا ثم احیاھم، ( ) کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو اپنے گھروں سے موت کے خوف سے نکل پڑے حالانکہ ان کی تعداد ہزاروں تک پہنچتی تھی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا جائو۔ پھر انہیں زندہ کردیا) ۔- حضرت ابن عباس (رض) کا قول ہے کہ ان کی تعداد چار ہزار تھی اور یہ لوگ طاعون سے بھاگ نکلنے کے لئے اپنے گھروں سے نکل کھڑے ہوئے تھے پھر سب کے سب مرگئے۔ ان پر اللہ کے ایک نبی کا گذر ہوا۔ انہوں نے اللہ سے انہیں انہیں زندہ کردینے کی دعا کی ، اللہ نے انہیں زندہ کردیا۔ حسن بصری سے بھی منقول ہے کہ یہ لوگ طاعون سے بھاگ نکلے تھے۔ عکرمہ کا قول ہیح کہ یہ لوگ جنگ سے بھاگے تھے۔ یہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے طاعون سے ان کے بھاگ نکلنے کو ناپسند فرمایا تھا۔- اس کی نظیر یہ قول باری ہے (اینما تکونوا یدرککم الموت ولوکنتم فی بروج مشیدۃ ( ) تم جہاں کبھی ہوگے موت تمہیں آلے گی خواہ تم مضبوط برجوں میں ہی کیوں نہ ہو) اسی طرح قول باری ہے (قل ان الموت الذی تفرون منہ فانہ ملاقیکم، ( ) آپ کہہ دیجئے کہ جس موت سے تم بھاگتے ہو وہ ضرور ت میں آملے گی) ۔- اسی طرح قول باری ہے (قل لن ینفعکم الفرار ان فرر تم من الموت او لقتل، ( ) آپ کہہ دیجئے کہ فرار سے تمہیں کوئی فائدہ نہیں ہوگا اگر موت یہ قتل سے فرار اختیار کروگے) نیز ارشاد ربانی ہے (فاذا جآء اجلھم لایتاخرون ساعۃ ولا یستقدمون، ( ) پس جس وقت ان کی اجل آجائے گی تو نہ وہ ایک گھڑی پیچھے ہٹ سکیں گے اور نہ آگے بڑھ سکیں گے) ۔- جب انسانوں کے اجال موقت اور محصور ہیں کہ ان میں تقدیم و تاخیر کا کوئی امکان نہیں۔ جس کی جو اجل اللہ نے مقرر کردی ہے وہ آگے پیچھے نہیں ہوسکی۔ اب طاعون کے مقام سے جان بچانے کی خاطر بھاگ نکلنا اور اصل اس قانون خداوندی سے روگردانی کے مترادف ہے۔ بدفالی، شگون کی خاطر پرندہ اڑانے اور ستاروں کی چال پر یقین کرنے کا بھی یہی حکم ہے۔- یہ سب صورتیں دراصل اللہ تعالیٰ کی قضاء و قدر سے فرار کی شکلیں ہیں حالانکہ کسی کو اس کی قضاء و قدر سے نکلنے کا یارا نہیں ہوتا، عمرو بن جابر الحضرمی سے روایت ہے، انہوں نے حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (الفرار من الطاعون کالفرار من الزحف والصابر فیہ کالصابر فی الزحف، ( ) طاعون کے مقام سے بھاگنا اسی طرح گناہ کی بات ہے جس طرح میدان جنگ اور لشکر اسلام سے فرار ہونا اور طاعون کی وبا میں صبر کرکے اپنی جگہ مقیم انسان میدان جنگ میں ڈٹ جانے والے انسان کی طرح ہے) ۔- یحییٰ بن کثیر نے سعید بن المسیب سے، انہوں نے حضرت سعد (رض) سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ (لاعدویٰ وادطیرۃ وان تکن الطیرۃ فی شیء فھی فی الفرس ولمرأۃ والدار واذا سمعتم یالطاعون بارض و لستم بھا فلاتھیلوا علیہ واذا کان وانتم بھا فلا تخرجوانوارا عنہ ( ) چھوت اور بدفالی کی کوئی حیثیت نہیں۔ اگر کسی چیز میں بدشگونی ہوتی تو گھوڑے، عورت یا گھر میں ہوتی۔ اگر تمہیں کسی علاقے میں طاعون پھوٹ پڑنے کی خبر ملے اور تم اس علاقے کے اندر نہ ہو تو وہاں نہ جائو اور اگر کسی جگہ تمہارے ہوتے ہوئے یہ بیماری پھیل جائے تو اس سے بھاگنے کی خاطر وہاں سے نہ نکلو) ۔- حضرت ابامہ بن زید (رض) کے واسطیح سے طاعون کے متعلق حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی قسم کی حدیث مروی ہے۔ زہری نے عبدالحمید بن عبدالرحمن سے ہے، انہوں نے عبداللہ بن حارث بن عبداللہ بن نوفل سے، انہوںں نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ حضرت عمر (رض) سرزمین شام کی طرف گئے جب مقام سرغ میں پہنچے تو تاجروں نے اطلاع کردی کہ وبائی بیماری پھیلی ہوئی ہے۔- آپ نے مہاجرین و انصار رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مشورہ کیا لیکن ان حضرات کی آراء میں اختلاف تھا۔ آپ نے واپسی کا عزم کرلیا تھا اس پر امیر لشکر اسلام حضرت ابو عبیدہ بن الجراح نے حضرت عمر (رض) سے کہا کہ ” آیا یہ اللہ تعالیٰ کی قضا وقدر سے فرار نہیں ہے ؟ “ اس پر حضرت عمر (رض) نے فرمایا : ” ابو عبیدہ کا شکریہ بات تمہارے سوا کسی اور کی زبان سے نکلی ہوتی ہم اللہ کی ایک قضائو قدر سے نکل کر دوسری تضائو قدر کی طرف جارہے ہیں۔- تمہارا کیا خیال ہے کہ اگر تمہارے اونٹ ہوتے اور انہیں لے کر تم ایک وادی میں داخل ہوجاتے جس کے دو کنارے ہوتے ایک کنارا سرسبز و شاداب اور دوسرا خشک اور قحط زدہ بنجر ہوتا اگر تم سرسبز حصے میں اپنے اونٹ چراتے تو بھی اللہ کی قضائو قدر کے مطابق چراتے اور اگر خشک حصے میں چراتے تو بھی اللہ کی قضائو قدر کے مطابق چراتے۔ “- اسی دوران حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) وہاں آگئے اور فرمایا کہ میرے پاس اس بارے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد موجود ہے۔ میں نے آپ کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ (اذا سمعتم بہ فی الارض فلا تقدموا علیہ واذا وقع بارض وانتم بھا فلا تخرجوا فواراً منہ، ( ) جب تم کسی علاقے میں وباء کے متعلق سنو تو ادھر نہ جائو اور اگر تم کسی ایسی جگہ موجود ہو اور وہاں یہ وباء پھوٹ پڑیح تو اس سے بھاگ نکلنے کی خاطر وہاں سے نہ نکلو) ۔- یہ سن کر حضرت عمر (رض) نے اللہ تعالیٰ کا شکر اور حمدو ثناء کی پھر وہیں سے مدینہ منورہ لوٹ گئے ان تمام روایات میں طاعون سے بچ نکلنے کی خاطر طاعون کی جگہ سے نکل جانے کی ممانعت ہے نیز طاعون کی جگہ میں جانے کی بھی ممانعت ہے۔- اگر کوئی یہ کہے کہ جب بندوں کے آجال مقرر و محصور ہیں کہ ان میں تقدیم و تاخیر نہیں ہوسکتی تو اس کی کیا وجہ ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسی سرزمین میں داخل ہونے سے منع فرمادیا جہاں طاعون کی وبا پھیلی ہوئی ہو جبکہ آپ نے وہاں سے اس وباء کی وجہ سے نکلنے سے بھی روک دیا حالانکہ وہاں جانے اور وہاں ٹھہرے رہنے کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔- اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ نہی کی وجہ یہ ہے کہ جب کوئی شخص وہاں جائے گا تو عین ممکن ہے کہ وہ طاعون میں مبتلا ہوکر مرجائے۔ اس صورت میں کہنے والے کو یہ کہنے کا موقعہ مل جائے گا کہ اگر وہ وہاں نہ جاتا تو اس کی موت واقع نہ ہوتی۔ اس لئے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وہاں جانے سے روک دیا تاکہ ایسی بات نہ کہی جائے کیونکہ یہ بات قضاء و قدر کے خلاف ہے۔- اس کی مثال یہ قوری باری ہے (یآ یھا الذین اٰمنوا لاتکونوا کالذین کفروا وقالو لاخوانھم اذا ضربوا فی الارض اوکانوا غری لوکانوا عندنا ماماتو وما قتلوا لیجعل اللہ ذٰلک حسرۃ فی قلوبھم، ( ) اے ایمان لانے والو کافروں کی سی باتیں نہ کرو جن کے عزیز و اقارب اگر کبھی سفر پر جاتے ہیں یا جنگ میں شریک ہوتے ہیں اور وہاں کسی حادثے سے دو چار ہوجاتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ اگر وہ ہمارے پاس ہوتے تو نہ مارے جاتے اور نہ قتل ہوتے۔ اللہ اس قسم کی باتوں کو ان کے دلوں میں حسرت و اندوہ کا سبب بنادیتا ہے) ۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے پسند نہیں کیا کہ کوئی شخص ایسی جگہ پر اپنی اجل کی بنا پر مرجائے اور پھر جاہل لوگ یہ کہتے پھریں کہ اگر وہاں نہ جاتا تو نہ مرتا۔ ایک شاعر نے اس مفہم کو بہت اچھے طریقے سے اپنے ان دو شعروں میں ادا کیا ہے۔- یقولون لی لوکان بالرمل لم تمت بثنید والانبیاء یکذب قیلھا ( ) - ولوانی استودع تھا الشمس لاھتدت الیھا المنا یا عینھا ودلیلھا ( ) - لوگ مجھے کہتے ہیں کہ اگر تم مقام رمل میں ہوتے تو بثینہ نہ مرتی حالانکہ خبریں اس بات کی تکذیب کرتی ہیں۔ اگر میں بثینہ کو سورج کے اندر بھی چھپا دیتا پھر بھی اس کی موت بعینہ وہاں تک پہنچنے میں کامیاب ہوجاتی۔ ہمارے اس بیان کردہ معنی پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ قول (لایورون ذوعاھۃ علی مصح، ( ) کوئی آفت والا یعنی متعدی مرض والا کسی صحت مند کے پاس ہرگز نہ جائے) محمول کیا جائے گا جبکہ آپ کا یہ قول بھی موجود ہے (لاعدوی ولاطیرۃ ، ( ) چھوت اور بدفالی کی کوئی حیثیت نہیں ہے) ۔- تاکہ کسی صحت مند کو متعدی مرض والے کے پاس جانے کی بنا پر بیماری لگ جانے کی صورت میں یہ نہ کہا جائے کہ اسے اس بیماری کے قرب کی وجہ سے تعدیہ ہوگیا ہے یعنی بماری لگ گئی ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایک دفعہ عرض کیا گیا کہ ابتدائی خارش تو اونٹ کی تھوتھنی میں ہوتی ہے۔- لیکن دوسرے اونٹوں کو خارش کی بیماری لگ جاتی ہے۔ یعنی اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بیماری میں تعدیہ یعنی چھوت موجود ہے۔ اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (فما اعدی الاول ( ) پھر پہلے اونٹ میں کسی چیز نے چھوت پیدا کردی) ہشام بن عروہ نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ حضرت زبیر (رض) نے ایک شہر فتح کرنا چاہا ان سے کہا گیا کہ وہاں تو طاعون کی وباء پھیلی ہوئی ہے لیکن حضرت زبیر (رض) اس میں داخل ہوگئے اور فرمایا کہ ” ہم تو طعن یعنی نیزہ بازی اور طاعون کے لئے ہی آئے ہیں۔ “- یہ بھی روایت ہے کہ حضرت ابوبکر (رض) نے جب شام کی طرف عساکر اسلامی روانہ کئے تو آپ کچھ دوران کے ساتھ گئے اور یہ دعا کی کہ ” اے اللہ انہیں طعن یعنی نیزوں اور طاعون کے ذریعے فنا کر “ حضرت ابوبکر (رض) کے اس قول کی تاویل میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ کچھ کا یہ قول ہے کہ جب حضرت ابوبکر (رض) نے لشکریوں کو ایمان پر استقامت اور صحیح بصیرت، نیز کفار سے جہاد کی بےتابی کی کیفیت میں پایا تو آپ کو خطرہ لاحق ہوگیا کہ کہیں یہ کسی آزمائش میں مبتلا نہ ہوجائیں۔- دوسری طرف شام کا علاقہ طاعون کی بیماری کے لئے مشہور تھا۔ اس لئے آپ نے یہ چاہا کسان کی موت اسی حالت میں واقع ہو جس حالت میں یہ مدینے سے نکلے ہیں اور انہیں دنیا اور اس کی چمک دمک کی آزمائش میں پڑنے کا موقعہ ہی نہ آئے۔ کچھ دوسرے اہل علم کا قول ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک بار فرمایا تھا (فناء امتی بالطعن والطاعون ( ) میری امت کی موت نیزی بازی اور طاعون میں لکھی ہوئی ہے۔- یہاں لفظ امتی، سے آپ کی مراد جیل القدر صحابہ کرام ہیں۔ آپ نے یہ اطلاع دے دی کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے ہاتھوں ممالک فتح کرائے گا جن کی صفت یہ ہوگی۔ اس بنا پر حضرت ابوبکر (رض) نے یہ توقع ظاہر کی کہ شام کی طرف جانے والی فوجیں ہی وہی لوگ ہوں جن کا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ذکر فرمایا ہے۔ اور اسی لئے آپ نے دعا کے الفاظ کے ذریعے ان کی حالت کی خبر دے دی۔- یہی وجہ ہے کہ شامی محاذ کے سپہ سالار اعظم حضرت ابو عبیدہ بن الجراح (رض) نے شام کے علاقے سے نکلنا پسند نہیں کیا۔ حضرت معاذ (رض) شام میں تھے جب وہاں طاعون کی وباء پھیلی آپ نے دعا کی کہ اے اللہ ہمیں بھی اس وبا کا ایک حصہ عطا کر۔- جب آپ کی ہتھیلی میں نیزہ لگا تو آپ نے اس زخم کو چومنا شروع کردیا اور کہنے لگے کہ اگر میرے کف دست میں فلاں فلاں چیزیں ہوتیں تو مجھے خوشی نہ ہوتی لیکن نیزے کے زخم کی انتہائی خوشی ہے (چونکہ اس زخم کی بنا پر حضرت معاذ (رض) کو اپا تعلق حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی متذکرہ بالا حدیث سے نظر آنے لگا تھا۔ اسی بنا پر آپ اس خوشی کا اظہار کررہے تھے) ۔- آپ کہتے کہ ” کاش میں بچہ ہوتا کیونکہ بعض دفعہ بچے پر اللہ تعالیٰ کی برکت نازل ہوتی ہے “ اس قول سے آپ طاعون کے مرض میں مبتلا ہونے کی تمنا کا اظہار کرتے تاکہ آپ بھی ان لوگوں میں شامل ہوجائیں جن کی صفت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بیان کی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے ہاتھوں ممالک فتح کرائے گا اور ان کی وجہ سے اسلام کو غلبہ عطا کرے گا۔- آیت میں ان لوگوں کے قول کے بطلان پر دلالت موجود ہے جو عذاب قبر کے منکر ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ عذاب قبر کا اقرار دراصل تناسخ کے قول کو تسلیم کرنا ہے (تناسخ کا عقیدہ یہ ہے کہ انسانی روح فنا نہیں ہوتی بلکہ موت کے بعد وہ کوئی اور روپ دھار لیتی ہے اس کا یہ روپ اس کی پہلی زندگی کے مطابق ہوتا ہے اور پہلی زندگی میں پن یعنی نیکی غالب ہوگی تو دوسری زندگی کا یہ روپ اچھا ہوگا۔ اگر پہلی زندگی میں باپ یعنی گناہ غالب ہوگا تو دوسری زندگی کا روپ برا ہوگا۔ ہندوئوں کا یہی عقیدہ ہے) ۔- آیت میں اس قوم کا بطلان اس طرح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی کہ اس نے اس قوم کو موت سے ہمکنار کردیا پھر انہیں زندہ کردیا اسی طرح اللہ تعالیٰ انہیں قبر میں بھی زندہ کردے گا اور اگر وہ عذاب کے سزاوار ہوں گے تو انہیں وہیں عذاب بھی دے دے گا۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢٤٣) اب اللہ تعالیٰ بنی اسرائیل کی ایک جہاد والی جماعت کا ذکر کرتے ہیں، اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قرآن کریم میں آپ کو ان لوگوں کا واقعہ نہیں معلوم ہو اجو اپنے گھروں سے اپنے دشمنوں سے لڑائی کرنے کے لیے گئے تھے اور وہ تقریبا تعداد میں آٹھ ہزار تھے پھر موت کے ڈر سے انہوں نے قتال نہیں کیا، اللہ تعالیٰ نے ان سب کو اسی جگہ پر موت دے دی اور پھر آٹھ دن کے بعد ان کو حیات بخش دی اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو زندہ کرکے ان پر بڑا فضل و احسان کیا ہے مگر یہ لوگ زندگی کی قدر نہیں کرتے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

اب جو دو رکوع زیر مطالعہ آ رہے ہیں یہ اس اعتبار سے بہت اہم ہیں کہ ان میں اس جنگ کا تذکرہ ہے جس کی حیثیت گویا تاریخ بنی اسرائیل کے غزوۂ بدر کی ہے۔ قبل ازیں یہ بات ذکر کی جا چکی ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد بنی اسرائیل نے یوشع بن نون کی سرکردگی میں جہاد و قتال کیا تو فلسطین فتح ہوگیا۔ لیکن انہوں نے ایک مستحکم حکومت قائم کرنے کی بجائے چھوٹی چھوٹی بارہ حکومتیں بنا لیں اور آپس میں لڑتے بھی رہے۔ لیکن تین سو برس کے بعد پھر یہ صورت حال پیدا ہوئی کہ جب ان کے اوپر دنیا تنگ ہوگئی اور آس پاس کی کافر اور مشرک قوموں نے انہیں دبا لیا اور بہت سوں کو ان کے گھروں اور ان کے ملکوں سے نکال دیا تو پھر تنگ آکر انہوں نے اس وقت کے نبی سے کہا کہ ہمارے لیے کوئی بادشاہ ‘ یعنی سپہ سالار مقرر کردیجیے ‘ اب ہم اللہ کی راہ میں جنگ کریں گے۔ چناچہ وہ جو جنگ ہوئی ہے طالوت اور جالوت کی ‘ اس کے بعد گویا بنی اسرائیل کا دور خلافت راشدہ شروع ہوا۔ - بنی اسرائیل کی تاریخ کا یہ دور جسے میں خلافت راشدہ سے تعبیر کر رہا ہوں ‘ ان کے رسول ( علیہ السلام) کے انتقال کے تین سو برس بعد شروع ہوا ‘ جبکہ اس امت مسلمہ کی خلافت راشدہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے کے ساتھّ متصل ہے۔ اس لیے کہ صحابہ کرام (رض) نے جانیں دیں ‘ خون دیا ‘ قربانیاں دیں اور اس کے نتیجے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی ہی میں دین غالب ہوگیا اور اسلامی ریاست قائم ہوگئی۔ نتیجتاً آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے انتقال کے بعد خلافت کا دور شروع ہوگیا ‘ لیکن وہاں تین سو برس گزرنے کے بعد ان کا دور خلافت آیا ہے۔ اس میں بھی تین خلافتیں تو متفق علیہ ہیں۔ یعنی حضرت طالوت ‘ حضرت داؤد اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی خلافت۔ لیکن چوتھی خلافت پر آکر تقسیم ہوگئی۔ جیسے حضرت علی (رض) خلیفۂ رابع کے زمانے میں عالم اسلام منقسم ہوگیا کہ مصر اور شام نے حضرت علی (رض) کی خلافت کو تسلیم نہیں کیا۔ اسی طرح فلسطین کی مملکت حضرت سلیمان ( علیہ السلام) کے دو بیٹوں میں تقسیم ہوگئی ‘ اور اسرائیل اور یہودیہ کے نام سے دو ریاستیں وجود میں آگئیں۔ قرآن حکیم میں اس مقام پر طالوت اور جالوت کی اس جنگ کا تذکرہ آ رہا ہے جس کے بعد تاریخ بنی اسرائیل میں اسلام کے غلبے اور خلافت راشدہ کا آغاز ہو رہا ہے۔ یہ درحقیقت صحابہ کرام (رض) کو ایک آئینہ دکھایا جا رہا ہے کہ اب یہی مرحلہ تمہیں درپیش ہے ‘ غزوۂ بدر پیش آیا چاہتا ہے۔ - آیت ٢٤٣ (اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِیَارِہِمْ ) (وَہُمْ اُلُوْفٌ) (حَذَرَ الْمَوْتِ ) - یعنی جب کفار اور مشرکین نے ان پر غلبہ کرلیا اور یہ دہشت زدہ ہو کر ‘ اپنے ملک چھوڑ کر ‘ اپنے گھروں سے نکل بھاگے۔- (فَقَالَ لَہُمُ اللّٰہُ مُوْتُوْاقف) ( ثُمَّ اَحْیَاہُمْ ط) - یہاں موت سے مراد خوف اور بزدلی کی موت بھی ہوسکتی ہے جو ان پر بیس برس طاری رہی ‘ پھر سیموئیل نبی کی اصلاح و تجدید کی کوششوں سے ان کی نشأۃِ ثانیہ ہوئی اور اللہ نے ان کے اندر ایک جذبہ پیدا کردیا۔ گویا یہاں پر موت اور احیاء سے مراد معنوی اور روحانی و اخلاقی موت اور احیاء ہے۔ لیکن بالفعل جسدی موت اور احیاء بھی اللہ کے اختیار سے باہر نہیں ‘ اس کی قدرت میں ہے ‘ وہ سب کو مار کر بھی دوبارہ زندہ کرسکتا ہے۔- (اِنَّ اللّٰہَ لَذُوْ فَضْلٍ عَلَی النَّاسِ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لاَ یَشْکُرُوْنَ ) - اکثر لوگ شکر گزاری کی روش اختیار کرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کے احسانات کی ناقدری کرتے ہیں۔- اب سابقہ امت مسلمہ کے غزوۂ بدر کا حال بیان کرنے سے پہلے مسلمانوں سے گفتگو ہو رہی ہے۔ اس لیے کہ یہ سب کچھ ان کی ہدایت کے لیے بیان ہو رہا ہے ‘ تاریخ بیان کرنا قرآن کا مقصد نہیں ہے۔ یہ توٌ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی انقلابیّ جدوجہدُ کی تحریک جس مرحلے سے گزر رہی تھی اور انقلابی عمل جس سٹیج پر پہنچ چکا تھا اس کی مناسبت سے سابقہ امت مسلمہ کی تاریخ سے واقعات بھی لائے جا رہے ہیں اور اسی کی مناسبت سے احکام بھی دیے جا رہے ہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :265 یہاں سے ایک دوسرا سلسلہ تقریر شروع ہوتا ہے ، جس میں مسلمانوں کو راہ خدا میں جہاد اور مالی قربانیاں کرنے پر ابھارا گیا ہے اور انہیں ان کمزوریوں سے بچنے کی ہدایت فرمائی گئی ہے ، جن کی وجہ سے آخر کار بنی اسرائیل زوال و انحطاط سے دوچار ہوئے ۔ اس مقام کو سمجھنے کے لیے یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ مسلمان اس وقت مکے سے نکالے جا چکے تھے ، سال ڈیڑھ سال سے مدینے میں پناہ گزیں تھے ، اور کفار کے مظالم سے تنگ آکر خود بار بار مطالبہ کر چکے تھے کہ ہمیں لڑنے کی اجازت دی جائے ۔ مگر جب انہیں لڑائی کا حکم دے دیا گیا ، تو اب ان میں بعض لوگ کسمسا رہے تھے ، جیسا کہ چھبیسویں رکوع کے آخر میں ارشاد ہوا ہے ۔ اس لیے یہاں بنی اسرائیل کی تاریخ کے دو اہم واقعات سے انہیں عبرت دلائی گئی ہے ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :266 یہ اشارہ بنی اسرائیل کے واقعہ خروج کی طرف ہے ۔ سورہ مائدہ کے چوتھے رکوع میں اللہ تعالیٰ نے اس کی تفصیل بیان کی ہے ۔ یہ لوگ بہت بڑی تعداد میں مصر سے نکلے تھے ۔ دشت و بیاباں میں بے خانماں پھر رہے تھے ۔ خود ایک ٹھکانے کے لیے بے تاب تھے ۔ مگر جب اللہ کے ایما سے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان کو حکم دیا کہ ظالم کنعانیوں کو ارض فلسطین سے نکال دو اور اس علاقے کو فتح کر لو ، تو انہوں نے بزدلی دکھائی اور آگے بڑھنے سے انکار کر دیا ۔ آخر کار اللہ نے انہیں چالیس سال تک زمین میں سرگرداں پھرنے کے لیے چھوڑ دیا یہاں تک کہ ان کی ایک نسل ختم ہو گئی اور دوسری نسل صحراؤں کی گود میں پل کر اٹھی ۔ تب اللہ تعالیٰ نے انہیں کنعانیوں پر غلبہ عطا کیا ۔ معلوم ہوتا ہے کہ اسی معاملے کو موت اور دوبارہ زندگی کے الفاظ سے تعبیر فرمایا گیا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

163: یہاں سے آیت نمبر : ۰۶۲ تک دو مضمون ایک ساتھ بیان ہوئے ہیں۔ بنیادی مقصد جہاد کی ترغیب دینا ہے، لیکن بعض منافقین اور کمزور طبیعت کے لوگ جہاد میں جانے سے اس لئے کتراتے تھے کہ انہیں موت کا خوف تھا۔ اس لئے دوسرا مضمون ساتھ ساتھ بیان ہوا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ موت اور زندگی اﷲ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے، وہ چاہے توجنگ کے بغیر بھی موت دیدے، اور چاہے تو شدید جنگ کے درمیان بھی انسانوں کی حفاظت کرلے، بلکہ اس کی قدرت میں یہ بھی ہے کہ وہ مرنے کے بعد بھی انسانوں کو زندہ کردے۔ اس قدرت کا عمومی مظاہرہ تو آخرت میں ہوگا، لیکن اﷲ تعالیٰ نے اس دنیا میں بھی چند ایسے نمونے دنیا کو دکھادئیے ہیں جن میں بعض لوگوں کو مرنے کے بعد بھی زندہ کیا گیا ہے، اس کی ایک مثال اس آیت ۳۴۲ میں دی گئی ہے، ایک اشارہ آیت نمبر : ۳۵۲ میں حضرت عیسی علیہ السلام کی طرف کیا گیا ہے جن کے ہاتھوں اﷲ تعالیٰ نے کئی مردوں کو زندہ کیا، تیسرا حوالہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور نمرود کے مکالمے (آیت نمبر : ۸۵۲) میں اﷲ تعالیٰ کے موت اور زندگی دینے سے متعلق ہے، چوتھا واقعہ آیت نمبر : ۹۵۲ میں حضرت عزیر (علیہ السلام) کا بیان فرمایا گیا ہے۔ اور اس سے اگلی آیت (نمبر ۰۶۲) میں پانچواں واقعہ پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ہے جس میں انہوں نے اﷲ تعالیٰ سے عرض کیا تھا کہ اﷲ تعالیٰ مردوں کو کیسے زندہ کرتے ہیں۔ زیر نظر آیت (243) میں جو واقعہ بیان ہوا ہے اس کی تفصیل قرآنِ کریم نے بیان نہیں فرمائی۔ صرف اتنا بتایا ہے کہ کسی زمانے میں کوئی قوم جو ہزاروں کی تعداد میں تھی، موت سے بچنے کے لئے اپنے گھروں سے نکل کھڑی ہوئی تھی، مگر اﷲ تعالیٰ نے انہیں موت دے دی، اور پھر زندہ کر کے یہ دکھا دیا کہ اگر موت سے بچنے کے لئے کوئی شخص اﷲ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کوئی تدبیر اختیار کرے تو ضروری نہیں کہ موت سے بچ ہی جائے، اﷲ تعالیٰ اسے پھر بھی موت کے گھاٹ اتار سکتا ہے۔ یہ لوگ کون تھے؟ کس زمانے میں تھے؟ وہ موت کا خوف کیا تھا جس کی بنا پر یہ بھاگ کھڑے ہوئے تھے؟ یہ تفصیل قرآنِ کریم نے بیان نہیں فرمائی، کیونکہ قرآنِ کریم کوئی تاریخ کی کتاب نہیں ہے، اس میں جو واقعات بیان ہوتے ہیں، وہ کوئی سبق دینے کے لئے ہوتے ہیں، لہٰذا اکثر ان کا صرف اتنا حصہ بیان کیا جاتا ہے جس سے وہ سبق مل جائے۔ اور اس واقعے سے مذکورہ بالا سبق لینے کے لئے اتنی بات کافی ہے جو یہاں بیان ہوئی ہے۔ البتہ جس انداز سے قرآنِ کریم نے اس واقعے کی طرف اشارہ کیا ہے اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہ قصہ اس وقت لوگوں میں مشہور ومعروف تھا۔ آیت کے شروع میں یہ الفاظ کہ : کیا تمہیں ان لوگوں کا حال معلوم نہیں ہوا؟ اس قصے کی شہرت پر دلالت کر رہے ہیں۔ چنانچہ حافظ ابن جریر طبری رحمۃ اﷲ علیہ نے یہاں حضرت عبداللہ بن عباسؓ اور بعض تابعین سے کئی روایتیں نقل کی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ بنو اسرائیل کے لوگوں کا ہے جو ہزاروں کی تعداد میں ہونے کے باوجود یا تو کسی دُشمن کے مقابلے سے کترا کر اپنا گھر بار چھوڑ گئے تھے یا طاعون کی وبا سے گھبرا کر نکل کھڑے ہوئے تھے۔ جب یہ اس جگہ پہنچے جسے وہ پناہ گاہ سمجھتے تھے تو اللہ کے حکم سے موت نے وہیں ان کو آلیا۔ بعد میں جب وہ بوسیدہ ہڈیوں میں تبدیل ہوگئے تو حضرت حزقیل علیہ السلام کا وہاں سے گذر ہوا، اور اﷲ تعالیٰ نے ان کو حکم دیا کہ وہ ان ہڈیوں سے خطاب کریں، اور ان کے خطاب کے بعد وہ ہڈیاں پھر سے انسانی شکل میں زندہ ہو کر کھڑی ہوگئیں۔ حضرت حزقیل علیہ السلام کا یہ قصہ موجودہ بائبل میں بھی مذکور ہے (دیکھئے : حزقی ایل 1:37 تا 15) اس لئے کچھ بعید نہیں ہے کہ یہ واقعہ مدینہ منورہ کے یہودیوں کے ذریعے مشہور ہوگیا ہو۔ واقعے کی یہ تفصیلات مستند ہوں یا نہ ہوں، لیکن اتنی بات قرآنِ کریم کے صاف اور صریح الفاظ سے واضح ہے کہ ان لوگوں کو حقیقی طور پر موت کے بعد زندہ کیا گیا تھا۔ ہمارے زمانے کے بعض مصنفین نے مردوں کے زندہ ہونے کو بعید از قیاس سمجھتے ہوئے اس آیت میں یہ تأویل کی ہے کہ یہاں موت سے مراد سیاسی اور اخلاقی موت ہے، اور دوبارہ زندہ ہونے سے مراد سیاسی غلبہ ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ تاویل قرآنِ کریم کے صریح الفاظ سے میل نہیں کھاتی۔ اور عربیت اور قرآنِ کریم کے اسلوب سے بھی بہت بعید ہے۔ سیدھی سی بات یہ ہے کہ اگر اﷲ تعالیٰ کی قدرت پر ایمان ہے تو اس قسم کے واقعات میں تعجب کی کیا بات ہے، جس کی بنا پر یہ دور از کار تاویلیں کی جائیں؟ بالخصوص یہاں سے آیت 260 تک جو سلسلۂ کلام چل رہا ہے، اور جس کی تفصیل اوپر بیان ہوئی ہے، اس کی روشنی میں یہاں موت اور زندگی سے حقیقی معنیٰ مراد ہونا ہی قرین قیاس ہے۔