پھر فرمایا کہ جس طرح ان لوگوں کا بھاگنا انہیں موت سے نہ بچا سکا اسی طرح جہاد سے منہ موڑنا بھی بیکار ہے ۔ اجل اور رزق دونوں قسمت میں مقرر ہو چکے ہیں ، رزق نہ بڑھے نہ گھٹے موت نہ پہلے آئے نہ پیچھے ہٹے ، اور جگہ ارشاد ہے کہ جو لوگ اللہ کی راہ میں اٹک بیٹھے ہیں اور اپنے ساتھیوں سے بھی کہتے ہیں کہ یہ مجاہد شہداء بھی اگر ہماری طرح رہتے تو مارے نہ جاتے ، ان سے کہو اگر تم سچے ہو تو ذرا اپنی جانوں سے بھی موت کو ہٹا دو اور جگہ ہے کہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ ، الہ ہم پر لڑائی کیوں لکھ دی کیوں نہ ہمیں ایک وقت تک فرصت دی ، جس کے جواب میں فرمایا کہ مضبوط برج بھی موت کے سامنے ہیچ ہیں ، اس موقع پر اسلامی لشکروں کے جیوٹ سردار اور بہادروں کے پیشوا اللہ کی تلوار اسلام کے پشت پناہ ابو سلیمان خالد بن ولید کا وہ فرمان وارد کرنا بالکل مناسب وقت ہوگا جب آپ نے عین اپنے انتقال کے وقت فرمایا تھا کہ کہاں ہیں موت سے ڈرنے والے ، لڑائی سے جی چرانے والے نامرد ، وہ دیکھیں کہ میرا جوڑ جوڑ اللہ تعالیٰ کی راہ میں زخمی ہو چکا ہے ، سارے جسم میں کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں تلوار نیزہ برچھا نہ لگا ہو لیکن دیکھو کہ آج میں بستر میں فوت ہو رہا ہوں ، میدان جنگ میں نہ رہا ۔
[٣٤١] اس آیت میں موت سے نہ ڈرنے اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے کی ترغیب دی جا رہی ہے۔ اس سے پہلی آیت کا مفہوم یہ تھا کہ زندگی اور موت صرف اور صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے وہ چاہے تو جہاد میں جانے والے کو بھی موت کے منہ سے بچا لے اور چاہے تو کسی کو گھر بیٹھے بیٹھے ہی موت دے دے یا جو موت سے بھاگ کر نکل کھڑا ہو اسے راہ میں ہی موت کی نیند سلا دے اور چاہے تو مردہ کو ازسر نو زندہ کر دے، موت اور زندگی صرف اسی کے اختیار میں ہے۔ لہذا تمہیں اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے جہاد کرنا چاہیے۔ چناچہ حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس نے زندگی بھر جہاد نہ کیا ہو اور نہ ہی اس کے دل میں جہاد کرنے کا خیال پیدا ہوا وہ منافق کی موت مرا (مسلم، کتاب الجہاد والسیر، باب ذم من مات ولم یغز ولم یحدث نفسہ بالغزو )
وَقَاتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰه : حافظ ابن کثیر (رض) نے فرمایا، جس طرح جان بچانا تقدیر سے نہیں بچاتا، اسی طرح جہاد سے فرار اور اجتناب سے نہ موت قریب ہوتی ہے نہ دور، بلکہ اجل اور رزق کا فیصلہ ہوچکا ہے، اس میں کمی یا زیادتی نہیں ہوسکتی۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (اَلَّذِيْنَ قَالُوْا لِاِخْوَانِھِمْ ۔۔ ) [ آل عمران : ١٦٨ ] اور فرمایا : (اَيْنَ مَا تَكُوْنُوْا يُدْرِكْكُّمُ الْمَوْتُ وَلَوْ كُنْتُمْ فِيْ بُرُوْجٍ مُّشَـيَّدَةٍ ) “ [ النساء : ٧٨ ] ” تم جہاں کہیں بھی ہو گے موت تمہیں پالے گی، خواہ تم مضبوط قلعوں میں ہو۔ “
وَقَاتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللہِ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ ٢٤٤- قتل - أصل القَتْلِ : إزالة الروح عن الجسد کالموت، لکن إذا اعتبر بفعل المتولّي لذلک يقال : قَتْلٌ ، وإذا اعتبر بفوت الحیاة يقال : موت . قال تعالی: أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144] - ( ق ت ل ) القتل - ( ن ) الموت کی طرح اس کے معنی بھی جسم سے روح کو زائل کرنے کے ہیں لیکن موت اور قتل میں فرق یہ ہے کہ اگر اس فعل کو سرا انجام دینے والے کا اعتبار کیا جائے تو اسے قتل کہا جاتا ہے اور اگر صرف روح کے فوت ہونے کا اعتبار کیا جائے تو اسے موت کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں قرآن میں ہے : ۔ أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144]- سبل - السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] - ( س ب ل ) السبیل - ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] دریا اور راستے ۔- علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا
قول باری ہے (وقاتلوا فی سبیل اللہ واعلموٓا ان اللہ سمیع علیم۔ ( ) اور اللہ کے راستے میں قتال کرو اور جان لو کہ اللہ تعالیٰ سننے والا جاننے والا ہے) اس آیت میں اللہ کے راستے میں قتال کا حکم ہے لیکن یہ حکم مجمل ہے کیونکہ اس میں اس سبیل کا ذکر نہیں ہے جس کے ذریعے قتال کیا جائے۔ البتہ دوسرے مواقع میں اس کا ذکر ہے۔ ہم جب ان مواقع میں پہنچیں گے تو انشاء اللہ تفصیل سے گفتگو کریں گے۔
(٢٤٤) ان کو زندہ کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت وفرمانبرداری میں اپنے دشمن کے ساتھ لڑائی کرو، اللہ تعالیٰ تمہاری باتوں کو سننے والا ہے اور تمہاری نیتوں کو جاننے والا ہے اگر تم اس چیز پر عمل نہ کرو جس کا تمہیں حکم دیا گیا ہے تو اس پر تمہاری سزا کو بھی اچھی طرح جاننے والا ہے۔