اللہ کی راہ میں خرچ کرو: پھر پروردگار اپنے بندوں کو اپنی راہ میں خرچ کرنے کی ترغیب دے رہا ہے جو جگہ بہ جگہ دی جاتی ہے ، حدیث نزول میں بھی ہے کون ہے جو ایسے اللہ کو قرض دے جو نہ مفلس ہے نہ ظالم ، اس آیت کو سن کر حضرت ابو الاصداح انصاری نے کہا تھا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا اللہ تعالیٰ ہم سے قرض طلب فرماتا ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں ۔ فرمایا اپنا ہاتھ دیجئے ، پھر ہاتھ میں ہاتھ لے کر کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں اپنا باغ جس میں چھ کھجور کے درخت ہیں اللہ کو قرض دیا اور وہاں سے سیدھے اپنے باغ میں آئے اور باہر ہی کھڑے رہ کر اپنی بیوی صاحبہ کو آواز دی کہ بچوں کو لے کر باہر آ جاؤ میں نے یہ باغ اللہ کی راہ میں دے دیا ہے ( ابن ابی حاتم ) قرض حسن سے مراد فی سبیل اللہ خرچ ہے اور بال بچوں کا خرچ بھی ہے اور تسبیح و تقدیس بھی ہے ۔ پھر فرمایا کہ اللہ اسے دوگنا چوگنا کر کے دے گا جیسے اور جگہ ہے آیت ( مَثَلُ الَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ اَنْۢبَتَتْ سَـبْعَ سَـنَابِلَ فِيْ كُلِّ سُنْۢبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍ ) 2 ۔ البقرۃ:261 ) یعنی اللہ کی راہ کے خرچ کی مثال اس دانہ جیسی ہے جس کی سات بالیں نکلیں اور ہر بال میں سات دانے ہوں اور اللہ اس سے بھی زیادہ جسے چاہے دیتا ہے ۔ اس آیت کی تفسیر بھی عنقریب آئے گی انشاء اللہ تعالیٰ ، حضرت ابو ہریرہ سے ابو عثمان نہدی پوچھتے ہیں میں نے سنا ہے کہ آپ فرماتے ہیں کہ ایک ایک نیکی کا بدلہ ایک ایک لاکھ نیکیوں کا ملتا ہے ، آپ نے فرمایا اس میں تعجب کیا کرتے ہو ، میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ ایک نیکی کا بدلہ دو لاکھ کے برابر ملتا ہے ( مسند احمد ) لیکن یہ حدیث غریب ہے ، ابن ابی حاتم میں ہے کہ حضرت ابو عثمان نہدی فرماتے ہیں مجھ سے زیادہ حضرت ابو ہریرہ کی خدمت میں کوئی نہیں رہتا تھا ، آپ حج کو گئے پھر پیچھے سے میں بھی گیا ، بصرے پہنچ کر میں نے سنا کہ وہ لوگ حضرت ابو ہریرہ کی روایت سے مندرجہ بالا حدیث بیان کرتے ہیں میں نے ان سے کہا اللہ کی قسم سب سے زیادہ آپ کا صحبت یافتہ میں ہوں میں نے تو کبھی بھی آپ سے یہ حدیث نہیں سنی ، پھر میرے جی میں آئی کہ چلو چل کر خود حضرت ابو ہریرہ سے پوچھ لوں ، چنانچہ میں وہاں سے چلا یہاں آیا تو معلوم ہوا کہ وہ حج کو گئے ہیں ، میں صرف اس ایک حدیث کی خاطر مکہ کو چل کھڑا ہوا ، وہاں آپ سے ملاقات ہوئی میں نے کہا حضرت یہ بصرہ والے آپ سے کیسی روایت کرتے ہیں ، آپ نے فرمایا واہ اس میں تعجب کی کون سی بات ہے ، پھر یہی آیت پڑھی اور فرمایا کے ساتھ ہی یہ قول باری بھی پڑھو آیت ( فَمَا مَتَاعُ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا فِي الْاٰخِرَةِ اِلَّا قَلِيْلٌ ) 9 ۔ التوبہ:38 ) یعنی ساری دنیا کا اسباب بھی آخرت کے مقابلہ میں حقیر چیز ہے ۔ اللہ کی قسم میں نے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ ایک نیکی کے بدلے اللہ تعالیٰ دو لاکھ نیکیاں عطا فرماتا ہے ۔ اسی مضمون کی ترمذی کی یہ حدیث بھی ہے کہ جو شخص بازار میں جائے اور وہاں دعا ( لا الہ الا اللہ واحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد و ھو علی کلی شئی قدیر ) پڑھے ، اللہ تعالیٰ اس کے لئے ایک لاکھ نیکیاں لکھتا ہے اور ایک لاکھ گناہ معاف فرماتا ہے ، ابن ابی حاتم میں ہے آیت ( مثل الذین ) الخ ، کی آیت اتری آپ نے پھر بھی یہی دعا کی تو آیت ( انما یوفی الصابرون اجرھم بغیر حساب ) کی آیت اتری ، حضرت کعب احبار سے ایک شخص نے کہا میں نے ایک شخص سے یہ سنا ہے کہ جو شخص سورۃ آیت ( قل ھو اللہ ) الخ ، کو ایک دفعہ پڑھے اس کیلئے موتی اور یاقوت کے دس لاکھ محل جنت میں بنتے ہیں ، کیا میں اسے سچ مان لوں ، آپ نے فرمایا اس میں تعجب کی کون سی بات ہے ، بلکہ بیس اور بھی اور بیس لاکھ اور بھی اور اس قدر کہ ان کی گنتی بجز جناب باری کے کسی کو معلوم ہی نہ ہو ، پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت کی اور فرمایا جب اللہ تعالیٰ آیت ( اضعافا کثیرۃ ) فرماتا ہے تو پھر مخلوق اس کی گنتی کی طاقت کیسے رکھے گی؟ پھر فرمایا رزق کی کمی بیشی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے ، اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہوئے بخیلی نہ کرو ، وہ جسے دے اس میں بھی حکمت ہے اور نہ دے اس میں بھی مصلحت ہے ، تم سب قیامت کے دن اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے ۔
245۔ 1 قرض حسنہ سے مراد اللہ کی راہ میں اور جہاد میں مال خرچ کرنا یعنی جان کی طرح مالی قربانی میں بھی تامل مت کرو۔ رزق کی کشادگی اور کمی بھی اللہ کے اختیار میں ہے اور وہ دونوں طریقوں سے تمہاری آزمائش کرتا ہے کبھی رزق میں کمی کر کے اور کبھی اس میں فراوانی کر کے۔ پھر اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے تو کمی بھی نہیں ہوتی اللہ تعالیٰ اس میں کئی کئی گنا اضافہ فرماتا ہے کبھی ظاہری طور پر کبھی معنوی و روحانی طور پر اس میں برکت ڈال کر اور آخرت میں تو یقینا اس میں اضافہ حیران کن ہوگا۔
[٣٤٢] قرض حسنہ سے مراد ایسا قرضہ ہے جو محض اللہ کی رضا کے لیے فقراء اوراقربا و مساکین کو دیا جائے اور ادائیگی کے لیے انہیں تنگ نہ کیا جائے، نہ ہی قرضہ دینے کے بعد انہیں جتلایا جائے اور نہ ہی ان سے کسی قسم کی بیگار لی جائے اور اگر مقروض فی الواقعہ تنگ دست اور ادائیگی سے معذور ہو تو اسے معاف ہی کردیا جائے اور اللہ کو قرض حسنہ دینے کا مفہوم اس سے وسیع ہے۔ جس میں انفاق فی سبیل اللہ کی تمام صورتیں آجاتی ہیں اور اس میں جہاد کی تیاری پر خرچ کرنا اور مجاہدین کی مالی امداد بھی شامل ہے اور مضمون کی مناسبت سے یہاں یہی صورت درست معلوم ہوتی ہے۔ ایسے قرضہ کو اللہ تعالیٰ سات سو گنا تک بلکہ اس سے بھی زیادہ تک بڑھا دیتے ہیں اور اس بڑھوتی کا انحصار دو باتوں پر ہوتا ہے۔ ایک یہ کہ خالصتاً اللہ تعالیٰ کی رضامندی کے لیے خرچ کیا جائے اور دوسرے یہ کہ دل کی پوری خوشی کے ساتھ دیا جائے۔ نیز ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتلا دیا کہ خرچ کرنے سے تمہیں مال میں کمی آجانے سے نہ ڈرنا چاہیے۔ کیونکہ مال میں کمی بیشی ہونا تو صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے اور قرآن میں ہی ایک دوسرے مقام پر (٣٤ : ٣٩) فرمایا کہ جو کچھ تم اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے اللہ تمہیں اس کا نعم البدل عطا کر دے گا۔
(مَنْ ذَا الَّذِيْ يُقْرِضُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا ) اس سے پہلی آیت میں اللہ کے راستے میں لڑنے کا حکم تھا، اب جہاد میں مال خرچ کرنے کی ترغیب ہے۔ قرض حسن سے مراد یہ ہے کہ خالص اللہ تعالیٰ کی رضا اور ثواب حاصل کرنے کے لیے مال خرچ کرے اور اس میں ریاکاری یا کسی کو ستانے اور اس پر احسان رکھنے کی نیت نہ ہو۔ اللہ کا کرم دیکھیے کہ خود ہی سب کچھ عطا کرکے بندوں سے مانگ رہا ہے اور اسے اپنے ذمے قرض قرار دے رہا ہے۔ سورة توبہ میں مال کے ساتھ جان کا بھی ذکر ہے، فرمایا : (اِنَّ اللّٰهَ اشْتَرٰي مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اَنْفُسَھُمْ وَاَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّةَ ) [ التوبۃ : ١١١ ] ” بیشک اللہ نے مومنوں سے ان کی جانیں اور ان کے اموال خرید لیے ہیں، اس کے بدلے کہ یقیناً ان کے لیے جنت ہے۔ “ سورة بقرہ (٢٦١) ہی میں ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ اس قرض حسن کو کئی گنا بڑھا کر واپس کریں گے۔
خلاصہ تفسیر :- جہاد وغیرہ کار خیر میں انفاق کی ترغیب :- کون شخص ہے (ایسا) جو اللہ تعالیٰ کو قرض دے اچھے طور پر قرض دینا (یعنی اخلاص کے ساتھ) پھر اللہ تعالیٰ اس (قرض کے ثواب) کو بڑھا کر بہت سے حصے کو دیوے اور (اس کا اندیشہ مت کرو کہ خرچ کرنے سے مال کم ہوجائے گا کیونکہ یہ تو) اللہ (ہی کے قبضہ میں ہے وہی) کمی کرتے ہیں (وہی) فراخی کرتے ہیں (کچھ خرچ کرنے نہ کرنے پر اس کا اصلی مدار نہیں) اور تم اسی کی طرف (بعد مرنے کے) لے جائے جاؤ گے (سو اس وقت نیک کام میں خرچ کرنے کی جزاء اور واجب موقع پر خرچ نہ کرنے کی سزا تم کو ملے گی) - معارف و مسائل :- (١) مَنْ ذَا الَّذِيْ يُقْرِضُ اللّٰهَ قَرْضًا قرض سے مراد نیک عمل کرنا اور اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنا ہے اس کو قرض مجازًا کہہ دیا ورنہ سب اللہ تعالیٰ ہی کی ملک ہے مطلب یہ ہے کہ جیسے قرض کا عوض ضروری دیا جاتا ہے اسی طرح تمہارے انفاق کا عوض ضروری ملے گا اور بڑھانے کا بیان ایک حدیث میں آیا ہے کہ ایک خرما اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کیا جاوے تو اللہ تعالیٰ اس کو اتنا بڑھاتے ہیں کہ وہ احد پہاڑ سے بڑا ہوجاتا ہے۔- اللہ تعالیٰ کو قرض دینے کا یہ بھی مطلب بیان کیا گیا ہے کہ اس کے بندوں کو قرض دیا جائے اور ان کی حاجت برآری کی جائے، چناچہ حدیث میں قرض دینے کی بہت فضیلت وارد ہوئی ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :- ما من مسلم یقرض مسلماً قرضاً مرۃ الا کان کصدقتہ مرتین (مظہری بحوالہ ابن ماجہ) - جو مسلمان دوسرے مسلمان کو قرض دے دیتا ہے یہ قرض دینا اللہ تعالیٰ کے راستے میں اس مال کے دو دفعہ صدقہ کرنے کے برابر ہے۔- (٢) ابن عربی فرماتے ہیں اس آیت کو سن کر لوگوں کے تین فرقے ہوگئے، پہلا فرقہ ان بدنصیب لوگوں کا ہے جنہوں نے یہ آیت سن کر کہا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا رب ہماری طرف محتاج ہے اور ہم غنی ہیں اس کا جواب قرآن کریم کی ایک اور آیت لَقَدْ سَمِعَ اللّٰهُ قَوْلَ الَّذِيْنَ قَالُوْٓا اِنَّ اللّٰهَ فَقِيْرٌ وَّنَحْنُ اَغْنِيَاۗءُ (١٨١: ٣) سے دیا، دوسرا فرقہ ان لوگوں کا ہے جنہوں نے اس آیت کو سن کر اس کے خلاف کیا اور بخل ہی کو اختیار کرلیا مال کی طرف زیادہ رغبت اور اس کی حرص نے ان کو اس طرح باندھ لیا کہ ان کو اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنے کی توفیق ہی نہیں ہوئی تیسرا فرقہ ان مخلص مسلمانوں کا ہے جنہوں نے فوراً ہی اس آیت پر عمل کرلیا اور اپنا پسندیدہ مال اللہ کے راستے میں دے دیا جیسا کہ ابوالدحداح وغیرہ، جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضرت ابوالدحداح نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے پوچھا اللہ کے رسول میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں کیا اللہ تعالیٰ ہم سے قرض مانگتے ہیں، حالانکہ وہ قرض سے مستثنیٰ ہیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہاں اللہ تعالیٰ یہ چاہتے ہیں کہ اس کے ذریعے سے تم کو جنت میں داخل کردیں۔ ابوالدحداح نے یہ سن کر کہا اللہ تعالیٰ کے رسول ہاتھ بڑھائیں آپ نے اپنا ہاتھ بڑھا دیا ابوالدحداح نے کہنا شروع کیا۔- آپ نے ان سے فرمایا ایک اللہ کے راستے میں وقف کردو اور دوسرا اپنے اہل و عیال کی معاشی ضرورت کے لئے باقی رکھو، ابوالدحداح نے کہا آپ گواہ رہئے ان دونوں میں سے بہترین باغ جس میں کھجور کے چھ سو درخت ہیں اس کو میں اللہ کے راستے میں خرچ کرتا ہوں، آپ نے فرمایا اللہ تمہیں اس کے بدلے میں جنت عطا کریں گے،- ابوالدحداح اپنے گھر آئے اور بیوی کو اس کی اطلاع دے دیتو وہ بھی ابوالدحداح کے اس بہترین سودے پر بہت خوش ہوئیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا،- کم من عذق رداح ودار فیاح لأ بی الدحداح (قرطبی) کھجوروں سے لبریز بیشمار درخت اور کشادہ محلات کس قدر ابوالدحداح کے لئے تیار ہیں (یعنی جنت میں) - (٣) قرض میں واپسی کے وقت اگر زیادتی کی شرط نہ ٹھہرائی گئی ہو اور اپنی طرف سے قرض سے کچھ زیادہ ادا کردیا تو یہ پسندیدہ ہے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا،- ان خیارکم احسنکم قضاء (تم میں بہترین شخص وہ ہے جو اپنے حق (قرض) کو اچھے طریقے سے ادا کرے۔- لیکن اگر زیادتی کی شرط ٹھرائی گئی تو وہ حرام ہے اور سود ہے۔
مَنْ ذَا الَّذِيْ يُقْرِضُ اللہَ قَرْضًا حَسَـنًا فَيُضٰعِفَہٗ لَہٗٓ اَضْعَافًا كَثِيْرَۃً ٠ ۭ وَاللہُ يَـقْبِضُ وَيَبْصُۜطُ ٠ ۠ وَاِلَيْہِ تُرْجَعُوْنَ ٢٤٥- قرض - القَرْضُ : ضرب من القطع، وسمّي قطع المکان وتجاوزه قَرْضاً ، كما سمّي قطعا . قال : وَإِذا غَرَبَتْ تَقْرِضُهُمْ ذاتَ الشِّمالِ [ الكهف 17] ، أي : تجوزهم وتدعهم إلى أحد الجانبین، وسمّي ما يدفع إلى الإنسان من المال بشرط ردّ بدله قَرْضاً ، قال : مَنْ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضاً حَسَناً [ البقرة 245] ، وسمّي المفاوضة في الشّعر مُقَارَضَةً ، والقَرِيضُ للشّعر، مستعار استعارة النّسج والحوک .- ( ق ر ض ) القرض - ( کرتا ) یہ قطع کی ایک قسم ہے پھر جس طرح کسی جگہ سے گزر نے اور تجاوز کر نیکے لئے قطع المکان کا محاورہ استعمال ہوتا ہے اس طرح قرض المکان بھی کہتے بھی ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا غَرَبَتْ تَقْرِضُهُمْ ذاتَ الشِّمالِ [ الكهف 17] اور جب غروب ہو تو اس سے بائیں طرف کترا جائے ۔ یعنی غروب کے وقت انہیں ایک جانب چھوڑتا ہو اگزر جاتا ہے ۔ اور قرض اس مال کو بھی کہتے ہیں جو کسی کو اس کی ضرورت پوری کرنے کے لئے دیا جائے اس شرط پر کہ وہ واپس مل جائیگا ۔ قرآن میں ہے : ۔ مَنْ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضاً حَسَناً [ البقرة 245] کوئی ہے خدا کو قرض حسنہ دے ؟ اور شعر گوئی ۔۔۔ کو بھی مقارضۃ کہا جاتا ہے اور شعر کو بطور استعارہ قریض کہا جاتا ہے جس طرح کہ تسبیح اور حو ک کے الفاظ اس معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔- حسن - الحُسْنُ : عبارة عن کلّ مبهج مرغوب فيه، وذلک ثلاثة أضرب :- مستحسن من جهة العقل .- ومستحسن من جهة الهوى.- ومستحسن من جهة الحسّ.- والحسنةُ يعبّر عنها عن کلّ ما يسرّ من نعمة تنال الإنسان في نفسه وبدنه وأحواله، فقوله تعالی: وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78]- ( ح س ن ) الحسن - ہر خوش کن اور پسندیدہ چیز کو حسن کہا جاتا ہے اس کی تین قسمیں ہیں ۔ ( 1) وہ چیز جو عقل کے اعتبار سے مستحسن ہو ۔ ( 2) وہ جو خواہش نفسانی کی رو سے پسندیدہ ہو ۔ ( 3) صرف نگاہ میں بھی معلوم ہو ۔ الحسنتہ ہر وہ نعمت جو انسان کو اس کے نفس یا بدن یا اس کی کسی حالت میں حاصل ہو کر اس کے لئے مسرت کا سبب بنے حسنتہ کہلاتی ہے اس کی ضد سیئتہ ہے اور یہ دونوں الفاظ مشترکہ کے قبیل سے ہیں اور لفظ حیوان کی طرح مختلف الواع کو شامل ہیں چناچہ آیت کریمہ ۔ وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78] اور ان لوگوں کو اگر کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے اور اگر کوئی گزند پہنچتا ہے ۔ - ضعف ( دوگنا)- ضِّعْفُ هو من الألفاظ المتضایفة التي يقتضي وجود أحدهما وجود الآخر، کالنّصف والزّوج، وهو تركّب قدرین متساويين، ويختصّ بالعدد، فإذا قيل : أَضْعَفْتُ الشیءَ ، وضَعَّفْتُهُ ، وضَاعَفْتُهُ : ضممت إليه مثله فصاعدا . قال بعضهم : ضَاعَفْتُ أبلغ من ضَعَّفْتُ ولهذا قرأ أكثرهم : يُضاعَفْ لَهَا الْعَذابُ ضِعْفَيْنِ [ الأحزاب 30] ، وَإِنْ تَكُ حَسَنَةً يُضاعِفْها[ النساء 40] - ( ض ع ف ) الضعف - الضعف ۔ یہ اسمائے متضایقہ سے ہے یعنی وہ الفاظ جو اپنے مفہوم ومعنی کے تحقیق میں ایک دوسرے پر موقوف ہوتے ہیں جیسے نصف وزوج اور ضعف ( دوگنا) کے معنی ہیں ایک چیز کے ساتھ اس کے مثل کامل جانا اور یہ اسم عدد کے ساتھ مخصوص ہے ۔ اور اضعفت الشئی وضعتہ وضاعفتہ کے معنی ہیں کسی چیز کو دو چند کردینا بعض نے کہا ہے کہ ضاعفت ( مفاعلۃ ) میں ضعفت ( تفعیل ) سے زیادہ مبالغہ پایا جاتا ہے آیت کریمہ : ۔ يُضاعَفْ لَهَا الْعَذابُ ضِعْفَيْنِ [ الأحزاب 30] ان کو دگنی سزادی جائے گی ۔ اور آیت : ۔ وَإِنْ تَكُ حَسَنَةً يُضاعِفْها[ النساء 40] اور اگر نیکی ( رکی ) ہوگی تو اس کو دو چند کر دیگا ۔ میں یضاعف ( مفاعلۃ پڑھا ہے اور کہا ہے کہ اس سے نیکیوں کے دس گناہ ہونے کی طرف اشارہ ہے - قبض - القَبْضُ : تناول الشیء بجمیع الکفّ. نحو : قَبَضَ السّيفَ وغیرَهُ. قال تعالی: فَقَبَضْتُ قَبْضَةً- [ طه 96] ، فَقَبْضُ الید علی الشیء جمعها بعد تناوله، وقَبْضُهَا عن الشیء جمعها قبل تناوله، وذلک إمساک عنه، ومنه قيل لإمساک الید عن البذل : قَبْضٌ. قال : يَقْبِضُونَ أَيْدِيَهُمْ- [ التوبة 67] ، أي : يمتنعون من الإنفاق، ويستعار الْقَبْضُ لتحصیل الشیء وإن لم يكن فيه مراعاة الكفّ ، - ( ق ب ض ) القبض - ( ض ) کے معنی چٹکی سے کوئی چیز لینے کے ہیں اور جو چیز چٹکی سے لی گئی ہو اسے قبض وقبیصۃ کہا جاتا ہے اس لئے قمیص حقیر چیز کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اور آیت : ۔ فَقَبَضْتُ قَبْضَةً [ طه 96] تو میں نے ایک مٹھی بھر لی ۔ میں ایک قرات فقبضت قبصۃ ( صاد مہلہ ) کے ساتھ بھی ہے ۔ قبوص سبک رفتار اور چست گھوڑا جو دوڑتے وقت صرف سم ہی زمین پر لگائے ۔ اور تیز رفتار گھوڑے پر اس کا اطلاق مجازی سرعت رفتاری کے لئے قبض کا لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ ( ق ب ض ) القبض کے معنی کسی چیز کو پورے پنجے کے ساتھ پکڑنے کے ہیں جیسے قبض السیف وغیرہ تلوار کو پکڑنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَقَبَضْتُ قَبْضَةً [ طه 96] تو میں نے فرشتے کے نقش پا سے مٹی کی ایک مٹھی میں لے لینے کے ہیں اور قبضھا عن الشئی کے منعی کسی چیز کو پکڑنے سے ہاتھ سکیڑ لینے کے ہیں اسی مفہوم کے لحاظ سے مال خرچ کرنے سے ہاتھ روک لینے کو بھی قبض کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ يَقْبِضُونَ أَيْدِيَهُمْ [ التوبة 67] اور خرچ کرنے سے ہاتھ بند کئے رہتے ہیں ۔ یعنی خرچ نہیں کرتے ۔ اور استعارہ کے طور پر کیس چیز کے حاصل کرلینے کو بھی قبض کہا جاتا ہے اگر چہ اسے ہاتھ سے نہ پکڑا جائے - بسط - بَسْطُ الشیء : نشره وتوسیعه، قال اللہ تعالی: وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ بِساطاً [ نوح 19] والبِسَاط : الأرض المتسعة وبَسِيط الأرض : مبسوطه، واستعار قوم البسط لکل شيء لا يتصوّر فيه تركيب وتأليف ونظم، قال اللہ تعالی: وَاللَّهُ يَقْبِضُ وَيَبْصُطُ [ البقرة 245] ، - ( ب س ط )- بسط الشئ کے معنی کسی چیز کو پھیلانے اور توسیع کرنے کے ہیں ۔ پھر استعمال میں کبھی دونوں معنی ملحوظ ہوتے ہیں اور کبھی ایک معنی متصور ہوتا ہے ۔ چناچہ محاورہ ہے بسط لثوب ( اس نے کپڑا پھیلایا ) اسی سے البساط ہے جو ہر پھیلائی ہوئی چیز پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ بِساطاً [ نوح 19] اور خدا ہی نے زمین کو تمہارے لئے فراش بنایا ۔ اور بساط کے معنی وسیع زمین کے ہیں اور بسیط الارض کے معنی ہیں کھلی اور کشادہ زمین ۔ ایک گروہ کے نزدیک بسیط کا لفظ بطور استعارہ ہر اس چیز پر بولا جاتا ہے جس میں ترکیب و تالیف اور نظم متصور نہ ہوسکے ۔ اور بسط کبھی بمقابلہ قبض آتا ہے ۔ جیسے وَاللَّهُ يَقْبِضُ وَيَبْصُطُ [ البقرة 245] خدا ہی روزی کو تنگ کرتا ہے اور ( وہی اسے ) کشادہ کرتا ہے ۔- رجع - الرُّجُوعُ : العود إلى ما کان منه البدء، أو تقدیر البدء مکانا کان أو فعلا، أو قولا، وبذاته کان رجوعه، أو بجزء من أجزائه، أو بفعل من أفعاله . فَالرُّجُوعُ : العود، - ( ر ج ع ) الرجوع - اس کے اصل معنی کسی چیز کے اپنے میدا حقیقی یا تقدیر ی کی طرف لوٹنے کے ہیں خواہ وہ کوئی مکان ہو یا فعل ہو یا قول اور خواہ وہ رجوع بذاتہ ہو یا باعتبار جز کے اور یا باعتبار فعل کے ہو الغرض رجوع کے معنی عود کرنے اور لوٹنے کے ہیں اور رجع کے معنی لوٹا نے کے
قول باری ہے (من ذا الذین یقرض اللہ قرضاً حسناً فیضاعفہ لہ اضعافاً کثیرۃ، ( ) کون ہے جو اللہ کو قرض حسنہ دے کہ پھر اللہ اسے اس کے لئے کئی گنا کردے) آیت میں لطیف ترین کلام اور بلیغ ترین پیرایہ بیان کے ذریعے نیکی کے کاموں اور بھلائی کی راہوں میں اتفاق کی دعوت دی گئی ہے۔ اسے قرض نام دیا تاکہ نیکی کے کاموں پر ثواب کے استحقاق کی تاکید ہوجائے۔ کیونکہ قرض کا لازمی طورپر عوض ہوت ہے جس کا قرض دینے والا مستحق ہوتا ہے۔- یہود کو اس لطیف نکتے کی خبر نہ ہوسکی یا انہوں نے جان بوجھ کر جاہل بننے کی کوشش کی چناچہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو کہنے لگے کہ اللہ تعالیٰ ہم سے قرض مانگ رہا ہے گویا ہم دولتمند ہیں اور وہ (نعوذ باللہ) ہمارا محتاج ہے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی (لقد سمع اللہ قول الذین قالوا ان اللہ فقیر ونحن اغنیاء، ( ) بیشک اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی بات سن لی ہے جنہوں نے یہ کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ فقیر ہے اور ہم مال دار ہیں) ۔- لیکن دوسری طرف اہل اسلام نے اس نکتے کو اچھی طرح سمجھ لیا اور انہیں اللہ کی طرف سے دیئے جانے والے ثواب اور کئے جانے والے وعدے کا پورا وثوق ہوگیا جس کے نتیجے میں وہ صدقات و خیرات میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے میں کوشاں ہوگئے۔ روایت ہے کہ آپ پر جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضرت ابوال حد (رض) اح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کرنے لگے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو کچھ عطا کیا ہے اس میں سے قرض مانگ رہا ہے اور میرے پاس دو زمینیں ہیں ایک اوپر کی طرف یعنی عالیہ میں اور دوسری نیچے کی جانب یعنی سافلہ میں۔ اب میں اس میں سے بہتر زمین کو اللہ کی راہ میں صدقہ کرتا ہوں۔
(٢٤٥) اب اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے مومنین کو صدقہ و خیرات کی ترغیب دی جو شخص صدقہ وثواب کی امید رکھ کر خلوص اور سچائی کے ساتھ ہوجائے تو اللہ تعالیٰ ایک نیکی کو بڑھا کر ہزاروں تک پہنچا دیتا ہے اور دنیا میں جس پر اللہ تعالیٰ چاہتا ہے، مال کی تنگی اور فراخی کردیتا ہے اور مرنے کے بعد جب حاضری ہوگی تو وہ تمہارے اعمال کا ثواب دے گا، یہ آیت مبارکہ ایک انصاری شخص ابوالدحداح یا ابو الدحداحتہ کے بارے میں اتری ہے۔- شان نزول : من ذالذی یقرض اللہ “۔ (الخ)- ابن حبان (رح) نے اپنی صحیح میں اور ابن ابی حاتم (رح) اور ابن مردویہ (رح) نے حضرت ابن عمر (رض) سے روایت کیا ہے کہ جب یہ آیت کریمہ ”۔ مثل الذین ینفقون اموالھم “۔ (الخ) یعنی سات سو تک ثواب کی زیادتی والی آیت نازل ہوئی، تو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعا فرمائی کہ اے رب میری امت کو اور زیادہ ثواب دیجیے، اس پر یہ آیت کریمہ ”۔ من ذالذی یقرض “۔ (الخ) نازل ہوئی، یعنی جو شخص خدا کے راستے میں حسن نیت کے ساتھ خرچ تو اللہ تعالیٰ اسے بڑھا کر اور بہت زیادہ کردیتا ہے۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )
آیت ٢٤٥ (مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا فَیُضٰعِفَہٗ لَہٗ اَضْعَافًا کَثِیْرَۃً ط) - جو انفاق خالص اللہ تعالیٰ کے دین کے لیے کیا جاتا ہے اسے اللہ اپنے ذمے ّ قرض حسنہ سے تعبیر کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ تم میرے دین کو غالب کرنا چاہتے ہو ‘ میری حکومت قائم کرنا چاہتے ہو ‘ تو جو کچھ اس پر خرچ کرو گے وہ مجھ پر قرض ہے ‘ جسے میں کئی گنا بڑھا چڑھا کر واپس کروں گا۔ - (وَاللّٰہُ یَقْبِضُ وَیَبْصُطُ ) اور اللہ تنگ دستی بھی دیتا ہے اور کشادگی بھی دیتا ہے۔ - اللہ ہی کے اختیار میں ہے کسی چیز کو سکیڑ دینا اور کھول دینا ‘ کسی کے رزق کو تنگ کردینا یا اس میں کشائش کردینا۔ - (وَاِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ ) - یہاں دیکھئے جہاد بالنفس اور جہاد بالمال دونوں چیزوں کا تذکرہ کیا جا رہا ہے۔ جہاد بالنفس کی آخری شکل قتال ہے اور جہاد بالمال کے لیے پہلے لفظ انفاق آ رہا تھا ‘ اب قرض حسنہ لایا جا رہا ہے۔
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :267 ”قرض حسن“ کا لفظی ترجمہ”اچھا قرض“ ہے اور اس سے مراد ایسا قرض ہے ، جو خالص نیکی کے جذبے سے بے غرضانہ کسی کو دیا جائے ۔ اس طرح جو مال راہ خدا میں خرچ کیا جائے ، اسے اللہ تعالیٰ اپنے ذمے قرض قرار دیتا ہے اور وعدہ کرتا ہے کہ میں نہ صرف اصل ادا کر دوں گا ، بلکہ اس سے کئی گنا زیادہ دوں گا ۔ البتہ شرط یہ ہے کہ وہ ہو قرض حسن ، یعنی اپنی کسی نفسانی غرض کے لیے نہ دیا جائے ، بلکہ محض اللہ کی خاطر ان کاموں میں صرف کیا جائے ، جن کو وہ پسند کر تا ہے ۔
164: اللہ کو قرض دینے سے مراد اﷲ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنا ہے۔ اس میں غریبوں کی امداد بھی داخل ہے، اور جہاد کے مقاصد میں خرچ کرنا بھی، اسے قرض مجازاً کہا گیا ہے ، کیونکہ اس کا بدلہ ثواب کی صورت میں دیا جائے گا۔ اور ’’اچھے طریقے‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ اِخلاص کے ساتھ اﷲ تعالیٰ کو راضی کرنے کے لئے دیا جائے، دِکھاوا یا دنیا میں بدلہ لینا مقصود نہ ہو، اور اگر جہاد کے لئے یا کسی غریب کی مدد کے طور پر قرض ہی دیا جائے تو اس پر کسی سود کا مطالبہ نہ ہو۔ کفار اپنی جنگی ضروریات کے لئے سود پر قرض لیتے تھے۔ مسلمانوں کو تأکید کی گئی ہے اوّل تو وہ قرص کے بجائے چندہ دیں، اور اگر قرض ہی دیں تو اصل سے زیادہ کا مطالبہ نہ کریں، کیونکہ اگرچہ دنیا میں تو انہیں سود نہیں ملے گا ؛ لیکن آخرت میں اﷲ تعالیٰ اس کا ثواب اصل سے بدرجہا زیادہ عطا فرمائیں گے۔ جہاں تک اس خطرے کا تعلق ہے کہ اس طرح خرچ کرنے سے مال میں کمی ہوجائے گی، اس کے جواب میں فرمایا گیا ہے کہ تنگی اور وسعت اللہ ہی کے قبضے میں ہیں۔ جو شخص اللہ کے دِین کے خاطر اپنا مال خرچ کرے گا، اﷲ تعالیٰ اس کو تنگی پیش آنے نہیں دیں گے بشرطیکہ وہ اللہ کے حکم کے مطابق خرچ کرے۔