بنی اسرائیل پر ایک اور احسان جس نبی کا یہاں ذِکر ہے ان کا نام حضرت قتادہ نے حضرت یوشع بن نون بن افرایم بن یوسف بن یعقوب بتایا ہے ، لیکن یہ قول ٹھیک معلوم نہیں ہوتا اس لئے کہ یہ واقعہ حضرت موسیٰ کے بعد کا حضرت داؤد کے زمانے کا ہے ، جیسا کہ صراحتاً وارد ہوا ہے ، اور حضرت داؤد اور حضرت موسیٰ کے درمیان ایک ہزار سال سے زیادہ کا فاصلہ ہے واللہ اعلم ، سدی کا قول ہے کہ یہ پیغمبر حضرت شمعون ہیں ، مجاہد کہتے ہیں یہ شمویل بن یالی بن علقمہ بن صفیہ بن علقمہ با ابو ہاشف بن قارون بن یصہر بن فاحث بن لاوی بن یعقوب بن اسحق بن ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام ہیں ، واقعہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰ کے بعد کچھ زمانہ تک تو بنی اسرائیل راہِ حق پر رہے ، پھر شرک و بدعت میں پڑ گئے مگر تاہم ان میں پے درپے انبیاء مبعوث ہوتے رہے یہاں تک کہ بنی اسرائیل کی بےباکیاں حد سے گزر گئیں ، اب اللہ تعالیٰ نے ان کے دشمنوں کو ان پر غالب کر دیا ، خوب پٹے کٹے ، اور اجڑے گئے ، پہلے تو توراۃ کی موجودگی تابوت سکینہ کی موجودگی جو حضرت موسیٰ سے موروثی چلی آ رہی تھی ان کیلئے باعث غلبہ ہوتی تھی ، مگر ان کی سرکشی اور بدترین گناہوں کی وجہ سے اللہ جل شانہ کی یہ نعمت بھی ان کے ہاتھوں چھن گئی اور نبوت بھی ان کے گھرانے میں ختم ہوئی ، لاوی جن کی اولاد میں پیغمبری کی جل شانہ کی یہ نعمت بھی ان کے ہاتھوں سے چھن گئی اور نبوت بھی ان کے گھرانے میں ختم ہوئی ، لاوی جن کی اولاد میں پیغمبری کی نسل چل آ رہی تھی ، وہ سارے کے سارے لڑائیوں میں مر کھپ گئے ، ان میں سے صرف ایک حاملہ عورت رہ گئی تھی ، ان کے خاوند بھی قتل ہو چکے تھے اب بنی اسرائیل کی نظریں اس عورت پر تھیں ، انہیں امید تھی کہ اللہ اسے لڑکا دے گا اور وہ لڑکا نبی بنے ، خود ان بیوی صاحبہ کی بھی دن رات یہی دعا تھی جو اللہ نے قبول فرمائی اور انہیں لڑکا دیا جن کا نام شمویل یا شمعون رکھا ، اس کے لفظی معنی ہیں کہ اللہ نے میری دعا قبول فرما لی ، نبوت کی عمر کو پہنچ کر انہیں بھی نبوت ملی ، جب آپ نے دعوت نبوت دی تو قوم نے درخواست کی کہ آپ ہمارا بادشاہ مقرر کر دیجئے تاکہ ہم اس کی ماتحتی میں جہاد کریں ، بادشاہ تو ظاہر ہو ہی گیا تھا لیکن پیغمبر نے اپنا کھٹکا بیان کیا کہ تم پھر جہاد سے جی نہ چراتے؟ قوم نے جواب دیا کہ حضرت ہمارے ملک ہم سے چھین لئیے گئے ، ہمارے بال بچے گرفتار کئے گئے اور پھر بھی کیا ہم ایسے بےحمیت ہیں کہ مرنے مارنے سے ڈریں؟ اب جہاد فرض کر دیا گیا اور حکم ہوا کہ بادشاہ کے ساتھ اٹھو ، بس سنتے ہی سُن ہو گئے اور سوائے معدودے چند کے باقی سب نے منہ موڑ لیا ، ان سے یہ کوئی نئی بات نہیں تھی ، جس کا اللہ کو علم نہ ہو ۔
246۔ 1 ملاء کسی قوم کے ان اشراف سردار اور اہل حل و عقد کو کہا جاتا ہے جو خاص مشیر اور قائد ہوتے ہیں جن کے دیکھنے سے آنکھیں اور دل رعب سے بھر جاتے ہیں ملا کے لغوی معنی (بھرنے کے ہیں) (ایسرالتفسیر) جس پیغمبر کا یہاں ذکر ہے اس کا نام شمویل بتلایا جاتا ہے۔ ابن کثیر وغیرہ مفسرین نے جو واقعہ بیان کیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ بنو اسرائیل حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد کچھ عرصے تک تو ٹھیک رہے، پھر ان میں انحراف آگیا دین میں بدعات ایجاد کرلیں حتیٰ کہ بتوں کی پوجا بھی شروع کردی انبیاء ان کو روکتے رہے لیکن یہ معصیت اور شرک سے بعض نہ آئے اس کے نتیجے میں اللہ نے ان کے دشمنوں کو ان پر مسلط کردیا جنہوں نے ان کے علاقے بھی چھین لئے اور ان کی ایک بڑی تعداد کو قیدی بھی بنا لیا ان میں نبوت وغیرہ کا سلسلہ بھی ختم ہوگیا بلآخر بعض لوگوں کی دعاؤں سے شمویل نبی پیدا ہوئے جنہوں نے دعوت اور تبلیغ کا کام شروع کیا۔ انہوں نے پیغمبر سے یہ مطالبہ کیا کہ ہمارے لئے ایک بادشاہ مقرر کردیں جس کی قیادت میں ہم دشمنوں سے لڑیں پیغمبر نے ان کے سابقہ کردار کے پیش نظر کہا کہ تم مطالبہ تو کر رہے ہو لیکن میرا اندازہ یہ ہے کہ تم اپنی بات پر قائم نہیں رہو گے۔ چناچہ ایسا ہی ہوا جیسا قرآن نے بیان کیا ہے۔ 246۔ 2 نبی کی موجودگی میں بادشاہ کا مطالبہ بادشاہت کے جواز کی دلیل ہے کیونکہ اگر بادشاہت جائز نہ ہوتی تو اللہ تعالیٰ اس مطالبے کو رد فرما دیتا لیکن اللہ نے اس معاملے کو رد نہیں فرمایا بلکہ طالوت کو ان کے لئے بادشاہ مقرر کردیا جیسے کہ آگے آرہا ہے اس سے معلوم ہوا کہ بادشاہ اگر مطلق العنان نہیں ہے اور وہ احکام الٰہی کا پابند اور عدل و انصاف کرنے والا ہے تو اس کی بادشاہت جائز ہی نہیں بلکہ مطلوب و محبوب بھی ہے مزید دیکھئے سورة المائدہ آیت۔ 20 کا حاشیہ۔
[٣٤٣] بنی اسرائیل میں یہ دستور رہا ہے کہ ان کے حکمران بھی انبیاء ہی ہوا کرتے تھے۔ انہیں کے پاس مقدمات کے فیصلے ہوتے اور انہیں کی سر کردگی میں جہاد کیا جاتا تھا۔ گویا ان لوگوں میں صحیح نظام خلافت رائج تھا اور یہی وہ سیاسی نظام ہے جو اسلام کا جزولاینفک ہے۔ مگر ان لوگوں نے دوسرے ممالک کی دیکھا دیکھی جن میں نظام ملوکیت رائج تھا۔ اپنے بوڑھے نبی سموئیل (علیہ السلام) سے مطالبہ کردیا کہ ہمارے لیے ایک بادشاہ مقرر کردو تاکہ ہم اس کی قیادت میں جہاد کریں اور حقیقتاً ان کا یہ مطالبہ محض جہاد سے راہ فرار کی ایک صورت تھی جو ان کی بزدلی پر دلالت کرتی تھی۔ جسے انہوں نے اس رنگ میں پیش کیا کہ تم تو بوڑھے ہوگئے اور ہمیں ایک نوجوان قائد درکار ہے اور قائدان کی مادہ پرست نظروں میں وہی ہوسکتا تھا جو بادشاہوں کی طرح کا ٹھاٹھ باٹھ رکھتا ہو۔ - [٣٤٤] ان کے نبی سموئیل کو چونکہ اصل مرض کا علم تھا۔ لہذا اس نے ان سے پختہ عہد لیا کہ اگر بادشاہ مقرر کردیا جائے تو پھر تو جہاد سے راہ فرار اختیار نہ کرو گے ؟ جس کے جواب میں انہوں نے یقین دلایا کہ ہم ہرگز ایسا نہیں کریں گے اور کر بھی کیسے سکتے ہیں جبکہ ہم پہلے ہی بےگھر ہوچکے ہیں۔ دشمنوں نے ہمارے ملک چھین لیے، ہمارے بیوی بچوں کو لونڈی غلام بنا رکھا ہے۔ لہذا ہم کیوں نہ ان سے لڑیں گے۔ لیکن اس کے باوجود جب ان پر جہاد فرض ہوا تو مختلف حیلوں بہانوں اور کٹ حجتیوں سے اپنے کئے ہوئے عہد سے پھرنے لگے۔
الْمَلَاِ : یہ ” مَلَأَ یَمْلَأُ (ف) “ یعنی ” پُر کرنا، بھرنا “ سے ہے۔ قوم کے سردار بھی اپنی ہیبت اور رعب سے آنکھیں بھر دیتے ہیں، اس لیے ان کو ” مَلَأٌ“ کہا جاتا ہے۔ - اَلَمْ تَرَ “ سے ابتدا کر کے موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد بنی اسرائیل کا ایک عجیب قصہ ذکر کرنا مقصود ہے کہ جب ان کی بزدلی اور ترک جہاد کی وجہ سے انھیں ان کے وطن سے نکال دیا گیا، ان کے بچوں اور عورتوں کو لونڈیاں اور غلام بنا لیا گیا تو ان کے سرداروں نے وقت کے نبی سے درخواست کی کہ آپ ہمارے لیے ایک بادشاہ مقرر کردیں، تاکہ ہم اللہ کی راہ میں لڑیں۔ نبی کو ان کے مزاج اور عادات کا اندازہ تھا، انھوں نے کہا، اچھی طرح دیکھ لو جب تم پر قتال فرض ہوگیا تو تم نہیں لڑو گے۔ انھوں نے کہا، ہم اللہ کی راہ میں کیوں نہیں لڑیں گے، جب کہ ہمیں ہمارے گھروں اور بیٹوں سے نکال دیا گیا۔ آخر نبی کا اندازہ درست نکلا، لڑنے کے لیے چند لوگ ہی رہ گئے، مگر اللہ تعالیٰ نے جہاد میں استقامت کی بدولت ان کو بھی فتح عطا فرما دی۔ اس سے ترک جہاد کا نقصان یعنی وطن اور سلطنت سے محرومی اور اہل و عیال کا دشمن کی غلامی میں چلا جانا بیان کرنا مقصود ہے اور اس کا علاج بھی کہ یہ کھوئی ہوئی عزت جہاد کے بغیر کسی صورت دوبارہ حاصل نہیں ہوسکتی۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مسلمان اگر اپنا وطن حاصل کرنے کے لیے لڑیں تو یہ بھی جہاد فی سبیل اللہ ہے، کیونکہ زمین پر کفار کے قبضے سے اللہ کا کلمہ نیچا اور مسلمانوں کے قبضے سے اللہ کا کلمہ بلند ہوتا ہے۔ کچھ نادان بھارت کے زیر تسلط کشمیر میں لڑائی کو وطن کے لیے لڑائی قرار دے کر اس کے فی سبیل اللہ قتال ہونے سے انکار کرتے ہیں، انھیں ان آیات پر غور کرنا چاہیے۔- جب ان پر قتال فرض ہوا تو نبی کے اندیشے کے مطابق اکثر لوگ لڑائی سے پیچھے ہٹ گئے، یہ ان کا اپنی جانوں پر ظلم تھا۔ ” بِالظّٰلِمِيْنَ “ میں الف لام عہد کا ہے، اس لیے ترجمہ ” ان ظالموں کو “ کیا گیا ہے۔
خلاصہ تفسیر :- ربط آیات :- مقصود اس مقام میں زیادہ ترغیب قتال کی ہے اوپر کا قصہ اسی کی تمہید ہے انفاق فی سبیل اللہ کا مضمون اسی کی تائید ہے آگے طالوت و جالوت کا قصہ اسی کی تاکید ہے نیز اللہ تعالیٰ نے اس قصے میں قبض وبسط کا بھی مشاہدہ کرا دیا جس کا ذکر ماقبل کی آیت واللّٰهُ يَـقْبِضُ وَيَبْصُطُ میں آیا ہے کہ فقیر کو بادشاہ بنانا اور بادشاہ سے باداشاہت چھین لینا سب اسی کے اختیار میں ہے۔- طالوت اور جالوت کا قصہ :- (اے مخاطب) کیا تجھ کو بنی اسرائیل کی جماعت کا قصہ جو موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد ہوا ہے تحقیق نہیں ہوا (جس سے پہلے ان پر کافر جالوت غالب آچکا تھا اور ان کے کئی صوبے دبالئے تھے) جب کہ ان لوگوں نے اپنے ایک پیغمبر سے کہا کہ ہمارے لئے ایک بادشاہ مقرر کردیجئے کہ ہم (اس کے ساتھ ہوکر) اللہ تعالیٰ کی راہ میں (جالوت سے) قتال کریں اس پیغمبر نے فرمایا کہ کیا یہ احتمال ہے اگر تم کو جہاد کا حکم دیا جائے کہ تم (اس وقت) جہاد نہ کرو وہ لوگ کہنے لگے کہ ہمارے واسطے ایسا کونسا سبب ہوگا کہ ہم اللہ کی راہ میں جہاد نہ کریں حالانکہ (جہاد کے لئے ایک محرک بھی ہے وہ یہ کہ) ہم (ان کافروں کے ہاتھوں) اپنی بستیوں اور اپنے فرزندوں سے بھی جدا کردیئے گئے ہیں (کیونکہ ان کی بعض بستیاں بھی کافروں نے دبالی تھیں اور ان کی اولاد کو بھی قید کرلیا گیا تھا) پھر جب ان لوگوں کو جہاد کا حکم ہوا تو باستثناء ایک قلیل مقدار کے (باقی) سب پھرگئے (جیسا کہ آگے جہاد کی غرض سے بادشاہ کے مقرر ہونے کا اور ان لوگوں کے پھرجانے کا تفصیلا بیان آتا ہے) اور اللہ تعالیٰ ظالموں کو (یعنی خلاف حکم کرنے والوں کو) خوب جانتے ہیں (سب کو مناسب سزا دیں گے) اور ان لوگوں سے ان کے پیغمبر نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر طالوت کو بادشاہ مقرر فرمایا کہنے لگے ان کو ہم پر حکمرانی کا کیسے حق حاصل ہوسکتا ہے حالانکہ بہ نسبت ان کے ہم حکمرانی کے زیادہ مستحق ہیں اور ان کو کچھ مالی وسعت بھی نہیں دی گئی (کیونکہ طالوت غریب آدمی تھے) ان پیغمبر نے (جواب میں) فرمایا کہ (اول تو) اللہ تعالیٰ نے تمہارے مقابلے میں ان کو منتخب فرمایا ہے (اور انتخاب کی مصلحتوں کو اللہ تعالیٰ خوب جانتے ہیں) اور (دوسرے) علم (سیاست وحکمرانی) اور جسامت میں اس کو زیادتی دی ہے (اور بادشاہ ہونے کے لئے اس علم کی زیادہ ضرورت ہے تاکہ ملکی انتظام پر قادر ہو اور جسامت بھی بایں معنی ہے کہ موافق و مخالف کے قلب میں وقعت وہیبت ہو) اور (تیسرے) اللہ تعالیٰ (مالک الملک ہیں) اپنا ملک جس کو چاہیں دیں (ان سے کوئی سوال کا منصب نہیں رکھتا) اور (چوتھے) اللہ تعالیٰ وسعت دینے والے ہیں (ان کو مال دیدینا کیا مشکل ہے جس کے اعتبار سے تم کو شبہ ہو اور) جاننے والے ہیں (کہ کون لیاقت سلطنت کی رکھتا ہے) اور (جب ان لوگوں نے پیغمبر سے یہ درخواست کی کہ اگر کوئی ظاہری حجت بھی ان کو منجانب اللہ بادشاہ ہونے کی ہم مشاہدہ کرلیں تو اور زیادہ اطمینان ہوجاوے اس وقت) ان سے ان کے پیغمبر نے فرمایا کہ ان کے (منجانب اللہ) بادشاہ ہونے کی یہ علامت ہے کہ تمہارے پاس وہ صندوق (بدون تمہارے لائے ہوئے) آجائے گا جس میں تسکین (اور برکت) کی چیز ہے تمہارے رب کی طرف سے (یعنی تورات، اور تورات کا منجانب اللہ ہونا ظاہر ہے) اور کچھ بچی ہوئی چیزیں ہیں جن کو حضرت موسیٰ و حضرت ہارون (علیہما السلام) چھوڑ گئے ہیں (یعنی ان حضرات کے کچھ ملبوسات وغیرہ، غرض) اس صندوق کو فرشتے لے آویں گے اس (طرح کے صندوق کے آجانے) میں تم لوگوں کے واسطے پوری نشانی ہے اگر تم یقین لانے والے ہو، پھر جب (بنی اسرائیل نے طالوت کو بادشاہ تسلیم کرلیا اور جالوت کے مقابلے کے لئے جمع ہوگئے اور) طالوت فوجوں کو لے کر (اپنے مقام یعنی بیت المقدس سے عمالقہ کی طرف) چلے تو انہوں نے اپنے ( ہمراہی پیغمبر کی وحی کے ذریعے دریافت کرکے ساتھیوں سے) کہا کہ اب حق تعالیٰ (استقلالی وبے استقلالی میں) تمہارا امتحان کریں گے ایک نہر کے ذریعے (جو راہ میں آوے گی اور تم شدت تشنگی کے وقت اس پر گذرو گے) سو جو شخص اس سے (افراط کے ساتھ) پانی پیوے گا وہ تو میرے ساتھیوں میں نہیں اور جو اس کو زبان پر بھی نہ رکھے (اور اصل حکم یہی ہے) وہ میرے ساتھیوں میں ہے لیکن جو شخص اپنے ہاتھ سے ایک چلو بھر لے (تو اتنی رخصت ہے غرض وہ نہر راستے میں آئی پیاس کی تھی شدت) سو سب نے اس سے (بےتحاشا) پینا شروع کردیا مگر تھوڑے سے آدمیوں نے ان میں سے (احتیاط کی کسی نے بالکل نہ پیا ہوگا کسی نے چلو سے زیادہ نہ پیا ہوگا) سو جب طالوت اور جو مؤمنین ان کے ہمراہ تھے نہر سے پار اتر گئے (اور اپنے مجمع کو دیکھا تو تھوڑے سے آدمی رہ گئے اس وقت بعضے آدمی آپس میں) کہنے لگے کہ آج تو (ہمارا مجمع اتنا کم ہے کہ اس حالت سے) ہم جالوت اور اس کے لشکر کے مقابلے کی طاقت نہیں معلوم ہوتی (یہ سن کر) ایسے لوگ جن کو یہ خیال (پیش نظر) تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے روبرو پیش ہونے والے ہیں کہنے لگے کہ کثرت سے (ایسے واقعات ہوچکے ہیں کہ) بہت سی چھوٹی چھوٹی جماعتیں بڑی بڑی جماعتوں پر خدا کے حکم سے غالب آگئی ہیں (اصل چیز استقلال ہے) اور اللہ تعالیٰ استقلال والوں کا ساتھ دیتے ہیں اور جب (دیار عمالقہ میں پہنچے اور) جالوت اور اس کی فوجوں کے سامنے میدان میں آگئے تو (دعاء میں حق تعالیٰ سے) کہنے لگے کہ اے ہمارے پروردگار ہم پر (یعنی ہمارے قلوب پر) استقلال (غیب سے) نازل فرمائیے اور (مقابلہ کے وقت) ہمارے قدم جمائے رکھئے اور ہم کو اس کافر قوم پر غالب کیجئے پھر طالوت والوں نے جالوت والوں کو اللہ تعالیٰ کے حکم سے شکست دے دی اور داؤد (علیہ السلام) نے (جو کہ اس وقت طالوت کے لشکر میں تھے اور اس وقت تک نبوت وغیرہ نہ ملی تھی) جالوت کو قتل کر ڈالا (اور مظفر ومنصور واپس آئے) اور اس کے بعد) ان کو (یعنی داؤد (علیہ السلام) کو) اللہ تعالیٰ نے سلطنت اور حکمت (یہاں حکمت سے مراد نبوت ہے) عطاء فرمائی اور بھی جو منظور ہوا انکو تعلیم فرمایا (جیسے بغیر آلات کے زرہ بنانا اور جانوروں کی بولی سمجھنا۔ آگے اس واقعہ کی مصلحت عامہ فرماتے ہیں) اور اگر یہ بات نہ ہوتی کہ اللہ تعالیٰ بعض آدمیوں کو (جو کہ مفسد ہوں) بعضوں کے ذریعے سے (جو کہ مصلح ہوں وقتا فوقتا دفع کرتے رہا کرتے ہیں (یعنی اگر مصلحین کو مفسدین پر غالب نہ کرتے رہتے) تو سر زمین (تمام تر) فساد سے پر ہوجاتی لیکن اللہ تعالیٰ بڑے فضل والے ہیں جہان والوں پر (اس لئے وقتا فوقتا اصلاح فرماتے رہتے ہیں) - معارف و مسائل :- (١) اِذْ قَالُوْا لِنَبِىٍّ لَّهُمُ ابْعَثْ لَنَا مَلِكًا نُّقَاتِلْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۔ ان بنی اسرائیل نے حق تعالیٰ کے احکام کو چھوڑ دیا تھا کفار عمالقہ پر مسلط کردئیے گئے اس وقت ان لوگوں کو اصلاح کی فکر اور جس نبی کا یہاں ذکر ہے ان کا نام شموئیل مشہور ہے۔- (٢) اَنْ يَّاْتِيَكُمُ التَّابُوْتُ بنی اسرائیل میں ایک صندوق چلا آتا تھا اس میں برکات تھے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) وغیرہ انبیاء (علیہم السلام) کے، بنی اسرائیل اس صندوق کو لڑائی میں آگے رکھتے اللہ تعالیٰ اس کی برکت سے فتح دیتا جب جالوت بنی اسرائیل پر غالب آیا تو یہ صندوق بھی وہ لے گیا تھا جب اللہ تعالیٰ کو صندوق کا پہنچانا منظور ہوا تو یہ کیا کہ وہ کافر جہاں صندوق کو رکھتے وہیں وباء اور بلاء آئی پانچ شہر ویران ہوگئے ناچار ہو کردو بیلوں پر اس کو لاد کر ہانک دیا، فرشتے بیلوں کو ہانک کر طالوت کے دروازے پر پہنچا گئے، بنی اسرائیل اس نشانی کو دیکھ کر طالوت کی بادشاہت پر یقین لائے اور طالوت نے جالوت پر فوج کشی کردی اور موسم نہایت گرم تھا۔
اَلَمْ تَرَ اِلَى الْمَلَاِ مِنْۢ بَنِىْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ مِنْۢ بَعْدِ مُوْسٰى ٠ ۘ اِذْ قَالُوْا لِنَبِىٍّ لَّہُمُ ابْعَثْ لَنَا مَلِكًا نُّقَاتِلْ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ ٠ ۭ قَالَ ھَلْ عَسَيْتُمْ اِنْ كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ اَلَّا تُقَاتِلُوْا ٠ ۭ قَالُوْا وَمَا لَنَآ اَلَّا نُقَاتِلَ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ وَقَدْ اُخْرِجْنَا مِنْ دِيَارِنَا وَاَبْنَاۗىِٕنَا ٠ ۭ فَلَمَّا كُتِبَ عَلَيْہِمُ الْقِتَالُ تَوَلَّوْا اِلَّا قَلِيْلًا مِّنْہُمْ ٠ ۭ وَاللہُ عَلِيْمٌۢ بِالظّٰلِـمِيْنَ ٢٤٦- ملأ - المَلَأُ : جماعة يجتمعون علی رأي، فيملئون العیون رواء ومنظرا، والنّفوس بهاء وجلالا . قال تعالی: أَلَمْ تَرَ إِلَى الْمَلَإِ مِنْ بَنِي إِسْرائِيلَ [ البقرة 246] - ( م ل ء ) الملاء - ( م ل ء ) الملاء ۔ جماعت جو کسی امر پر مجتمع ہوتونظروں کو ظاہری حسن و جمال اور نفوس کو ہیبت و جلال سے بھردے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَلَمْ تَرَ إِلَى الْمَلَإِ مِنْ بَنِي إِسْرائِيلَ [ البقرة 246] نھلا تم نے بنی اسرائیل کی ایک جماعت کو نہیں دیکھا ۔ - اِسْرَاۗءِيْلَ- ( بني) ، جمع ابن، والألف في ابن عوض من لام الکلمة المحذوفة فأصلها بنو .- (إسرائيل) ، علم أعجمي، وقد يلفظ بتخفیف الهمزة إسراييل، وقد تبقی الهمزة وتحذف الیاء أي إسرائل، وقد تحذف الهمزة والیاء معا أي : إسرال .- موسی - مُوسَى من جعله عربيّا فمنقول عن مُوسَى الحدید، يقال : أَوْسَيْتُ رأسه : حلقته .- نبی - النبيُّ بغیر همْز، فقد قال النحويُّون : أصله الهمْزُ فتُرِكَ همزُه، واستدلُّوا بقولهم : مُسَيْلِمَةُ نُبَيِّئُ سَوْءٍ. وقال بعض العلماء : هو من النَّبْوَة، أي : الرِّفعة وسمّي نَبِيّاً لرِفْعة محلِّه عن سائر الناس المدلول عليه بقوله : وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم 57] . فالنَّبِيُّ بغیر الهمْز أبلغُ من النَّبِيء بالهمْز، لأنه ليس كلّ مُنَبَّإ رفیعَ القَدْر والمحلِّ ، ولذلک قال عليه الصلاة والسلام لمن قال : يا نَبِيءَ اللہ فقال : «لَسْتُ بِنَبِيءِ اللہ ولكنْ نَبِيُّ اللهِ» لمّا رأى أنّ الرّجل خاطبه بالهمز ليَغُضَّ منه . والنَّبْوَة والنَّبَاوَة : الارتفاع، ومنه قيل : نَبَا بفلان مکانُهُ ، کقولهم : قَضَّ عليه مضجعه، ونَبَا السیفُ عن الضَّرِيبة : إذا ارتدَّ عنه ولم يمض فيه، ونَبَا بصرُهُ عن کذا تشبيهاً بذلک .- ( ن ب و ) النبی - بدون ہمزہ کے متعلق بعض علمائے نحو نے کہا ہے کہ یہ اصل میں مہموز ہے لیکن اس میں ہمزہ متروک ہوچکا ہے اور اس پر وہ مسلیمۃ بنی سوء کے محاورہ سے استدلال کرتے ہیں ۔ مگر بعض علما نے کہا ہے کہ یہ نبوۃ بمعنی رفعت سے مشتق ہے اور نبی کو نبی اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ لوگوں کے اندر معزز اور بلند اقداد کا حامل ہوتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ :۔ وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم 57] اور ہم نے ان کو بلند در جات سے نوازا کے مفہوم سے سمجھاتا ہے پس معلوم ہوا کہ نبی بدوں ہمزہ ( مہموز ) سے ابلغ ہے کیونکہ ہر منبا لوگوں میں بلند قدر اور صاحب مرتبہ نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ جب ایک شخص نے آنحضرت کو ارہ بغض ا نبی اللہ کہہ کر کر پکارا تو آپ نے فرمایا لست ینبی اللہ ولکن نبی اللہ کہ میں نبی اللہ نہیں ہوں بلکہ نبی اللہ ہوں ۔ النبوۃ والنباوۃ کے معنی بلندی کے ہیں اسی سے محاورہ ہے ۔ نبا بفلان مکا نہ کہ اسے یہ جگہ راس نہ آئی جیسا کہ قض علیہ مضجعۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی بےچینی سے کروٹیں لینے کے ہیں نبا السیف عن لضربیۃ تلوار کا اچٹ جانا پھر اس کے ساتھ تشبیہ دے کر نبا بصر ہ عن کذا کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز سے کرا ہت کرنے کے ہیں ۔- بعث - أصل البَعْث : إثارة الشیء وتوجيهه، يقال : بَعَثْتُهُ فَانْبَعَثَ ، ويختلف البعث بحسب اختلاف ما علّق به، فَبَعَثْتُ البعیر : أثرته وسيّرته، وقوله عزّ وجل : وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام 36] ، أي : يخرجهم ويسيرهم إلى القیامة، - فالبعث ضربان :- بشريّ ، کبعث البعیر، وبعث الإنسان في حاجة .- وإلهي، وذلک ضربان :- أحدهما : إيجاد الأعيان والأجناس والأنواع لا عن ليس وذلک يختص به الباري تعالی، ولم يقدر عليه أحد .- والثاني : إحياء الموتی، وقد خص بذلک بعض أولیائه، كعيسى صلّى اللہ عليه وسلم وأمثاله، ومنه قوله عزّ وجل : فَهذا يَوْمُ الْبَعْثِ [ الروم 56] ، يعني : يوم الحشر - ( ب ع ث ) البعث ( ف ) اصل میں بعث کے معنی کسی چیز کو ابھارنے اور کسی طرف بیجھنا کے ہیں اور انبعث در اصل مطاوع ہے بعث کا مگر متعلقات کے لحاظ سے اس کے معنی مختلف ہوتے رہتے ہیں مثلا بعثت البعیر کے معنی اونٹ کو اٹھانے اور آزاد چھوڑ دینا کے ہیں اور مردوں کے متعلق استعمال ہو تو قبروں سے زندہ کرکے محشر کی طرف چلانا مراد ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام 36] اور مردوں کو تو خدا ( قیامت ہی کو ) اٹھایا جائے گا - پس بعث دو قمخ پر ہے - بعث بشری یعنی جس کا فاعل انسان ہوتا ہے جیسے بعث البعیر ( یعنی اونٹ کو اٹھاکر چلانا ) کسی کو کسی کام کے لئے بھیجنا ) - دوم بعث الہی یعنی جب اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو پھر اس کی بھی دوقسمیں ہیں اول یہ کہ اعیان ، اجناس اور فواع کو عدم سے وجود میں لانا ۔ یہ قسم اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے اور اس پر کبھی کسی دوسرے کو قدرت نہیں بخشی ۔ - دوم مردوں کو زندہ کرنا ۔ اس صفت کے ساتھ کبھی کبھی اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو بھی سرفراز فرمادیتا ہے جیسا کہ حضرت عیسٰی (علیہ السلام) اور ان کے ہم مثل دوسری انبیاء کے متعلق مذکور ہے اور آیت کریمہ : ۔ فَهذا يَوْمُ الْبَعْثِ [ الروم 56] اور یہ قیامت ہی کا دن ہے ۔ بھی اسی قبیل سے ہے یعنی یہ حشر کا دن ہے - ملك ( فرشته)- وأما المَلَكُ فالنحویون جعلوه من لفظ الملائكة، وجعل المیم فيه زائدة . وقال بعض المحقّقين : هو من المِلك، قال : والمتولّي من الملائكة شيئا من السّياسات يقال له : ملک بالفتح، ومن البشر يقال له : ملک بالکسر، فكلّ مَلَكٍ ملائكة ولیس کلّ ملائكة ملکاقال : وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة 17] ، عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة 102] - ( م ل ک ) الملک - الملک علمائے نحو اس لفظ کو ملا ئکۃ سے ماخوذ مانتے ہیں اور اس کی میم کو زائد بناتے ہیں لیکن بعض محقیقن نے اسے ملک سے مشتق مانا ہے اور کہا ہے کہ جو فرشتہ کائنات کا انتظام کرتا ہے اسے فتحہ لام کے ساتھ ملک کہا جاتا ہے اور انسان کو ملک ہیں معلوم ہوا کہ ملک تو ملا ئکۃ میں ہے لیکن کل ملا ئکۃ ملک نہیں ہو بلکہ ملک کا لفظ فرشتوں پر بولا جاتا ہے کی طرف کہ آیات ۔ وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة 17] اور فرشتے اس کے کناروں پر اتر آئیں گے ۔ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة 102] اور ان باتوں کے بھی پیچھے لگ گئے جو دو فرشتوں پر اتری تھیں ۔- سبل - السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] - ( س ب ل ) السبیل - ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] دریا اور راستے ۔- عسی - عَسَى طَمِعَ وترجّى، وكثير من المفسّرين فسّروا «لعلّ» و «عَسَى» في القرآن باللّازم، وقالوا : إنّ الطّمع والرّجاء لا يصحّ من الله، وفي هذا منهم قصورُ نظرٍ ، وذاک أن اللہ تعالیٰ إذا ذکر ذلک يذكره ليكون الإنسان منه راجیا لا لأن يكون هو تعالیٰ يرجو، فقوله : عَسى رَبُّكُمْ أَنْ يُهْلِكَ عَدُوَّكُمْ [ الأعراف 129] ، أي : کونوا راجین - ( ع س ی ) عسیٰ- کے معنی توقع اور امید ظاہر کرنا کے ہیں ۔ اکثر مفسرین نے قرآن پاک میں اس کی تفسیر لازم منعی یعنی یقین سے کی ہے وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حق میں طمع اور جا کا استعمال صحیح نہیں ہے مگر یہ ان کی تاہ نظری ہے کیونکہ جہاں کہیں قرآن میں عسی کا لفظ آیا ہے وہاں اس کا تعلق انسان کے ساتھ ہے نہ کہ اللہ تعالیٰ کیساتھ لہذا آیت کریمہ : ۔ عَسى رَبُّكُمْ أَنْ يُهْلِكَ عَدُوَّكُمْ [ الأعراف 129] کے معنی یہ ہیں کہ تم اللہ تعالیٰ سے امید رکھو کہ تمہارے دشمن کو ہلاک کردے - كتب ( فرض)- ويعبّر عن الإثبات والتّقدیر والإيجاب والفرض والعزم بِالْكِتَابَةِ ، ووجه ذلك أن الشیء يراد، ثم يقال، ثم يُكْتَبُ ، فالإرادة مبدأ، والکِتَابَةُ منتهى. ثم يعبّر عن المراد الذي هو المبدأ إذا أريد توكيده بالکتابة التي هي المنتهى، قال : كَتَبَ اللَّهُ لَأَغْلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِي - [ المجادلة 21] ، وقال تعالی: قُلْ لَنْ يُصِيبَنا إِلَّا ما كَتَبَ اللَّهُ لَنا [ التوبة 51] ، لَبَرَزَ الَّذِينَ كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقَتْلُ [ آل عمران 154] - نیز کسی چیز کے ثابت کردینے اندازہ کرنے ، فرض یا واجب کردینے اور عزم کرنے کو کتابہ سے تعبیر کرلیتے ہیں اس لئے کہ پہلے پہل تو کسی چیز کے متعلق دل میں خیال پیدا ہوتا ہے پھر زبان سے ادا کی جاتی ہے اور آخر میں لکھ جاتی ہے لہذا ارادہ کی حیثیت مبداء اور کتابت کی حیثیت منتھیٰ کی ہے پھر جس چیز کا ابھی ارادہ کیا گیا ہو تاکید کے طورپر اسے کتب س تعبیر کرلیتے ہیں جو کہ دراصل ارادہ کا منتہیٰ ہے ۔۔۔ چناچہ فرمایا : كَتَبَ اللَّهُ لَأَغْلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِي[ المجادلة 21] خدا کا حکم ناطق ہے کہ میں اور میرے پیغمبر ضرور غالب رہیں گے ۔ قُلْ لَنْ يُصِيبَنا إِلَّا ما كَتَبَ اللَّهُ لَنا [ التوبة 51] کہہ دو کہ ہم کو کوئی مصیبت نہیں پہنچ سکتی بجز اس کے کہ جو خدا نے ہمارے لئے مقدر کردی ہے ۔ لَبَرَزَ الَّذِينَ كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقَتْلُ [ آل عمران 154] تو جن کی تقدیر میں مار جانا لکھا تھا ۔ وہ اپنی اپنی قتل گاہوں کی طرف ضرو ر نکل آتے ۔ - دار - الدَّار : المنزل اعتبارا بدورانها الذي لها بالحائط، وقیل : دارة، وجمعها ديار، ثم تسمّى البلدة دارا، والصّقع دارا، والدّنيا كما هي دارا، والدّار الدّنيا، والدّار الآخرة، إشارة إلى المقرّين في النّشأة الأولی، والنّشأة الأخری. وقیل : دار الدّنيا، ودار الآخرة، قال تعالی: لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام 127] ، أي : الجنة، - ( د و ر ) الدار ۔- منزل مکان کو کہتے ہیں کیونکہ وہ چار دیواری سے گھرا ہوتا ہے بعض نے دراۃ بھی کہا جاتا ہے ۔ اس کی جمع دیار ہے ۔ پھر دار کا لفظ شہر علاقہ بلکہ سارے جہان پر بولا جاتا ہے اور سے نشاۃ اولٰی اور نشاہ ثانیہ میں دو قرار گاہوں کی طرف اشارہ ہے بعض نے ( باضافت ) بھی کہا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ : لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام 127] ان کے لئے ان کے اعمال کے صلے میں پروردگار کے ہاں سلامتی کا گھر ہے ۔ - ( ابْنُ )- أصله : بنو، لقولهم في الجمع :- أَبْنَاء، وفي التصغیر : بُنَيّ ، قال تعالی: يا بُنَيَّ لا تَقْصُصْ رُؤْياكَ عَلى إِخْوَتِكَ [يوسف 5] ، يا بُنَيَّ إِنِّي أَرى فِي الْمَنامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ [ الصافات 102] ، يا بُنَيَّ لا تُشْرِكْ بِاللَّهِ [ لقمان 13] ، يا بنيّ لا تعبد الشیطان، وسماه بذلک لکونه بناء للأب، فإنّ الأب هو الذي بناه وجعله اللہ بناء في إيجاده، ويقال لكلّ ما يحصل من جهة شيء أو من تربیته، أو بتفقده أو كثرة خدمته له أو قيامه بأمره : هو ابنه، نحو : فلان ابن الحرب، وابن السبیل للمسافر، وابن اللیل، وابن العلم، قال الشاعر - أولاک بنو خير وشرّ كليهما - وفلان ابن بطنه وابن فرجه : إذا کان همّه مصروفا إليهما، وابن يومه : إذا لم يتفكّر في غده . قال تعالی: وَقالَتِ الْيَهُودُ : عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ ، وَقالَتِ النَّصاری: الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّهِ [ التوبة 30] - وقال تعالی: إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي [هود 45] ، إِنَّ ابْنَكَ سَرَقَ [يوسف 81] ، وجمع ابْن : أَبْنَاء وبَنُون، قال عزّ وجل : وَجَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَزْواجِكُمْ بَنِينَ وَحَفَدَةً [ النحل 72] ، وقال عزّ وجلّ : يا بَنِيَّ لا تَدْخُلُوا مِنْ بابٍ واحِدٍ [يوسف 67] ، يا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ [ الأعراف 31] ، يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف 27] ، ويقال في مؤنث ابن : ابْنَة وبِنْت، وقوله تعالی: هؤُلاءِ بَناتِي هُنَّ أَطْهَرُ لَكُمْ [هود 78] ، وقوله : لَقَدْ عَلِمْتَ ما لَنا فِي بَناتِكَ مِنْ حَقٍّ [هود 79] ، فقد قيل : خاطب بذلک أکابر القوم وعرض عليهم بناته «1» لا أهل قریته كلهم، فإنه محال أن يعرض بنات له قلیلة علی الجمّ الغفیر، وقیل : بل أشار بالبنات إلى نساء أمته، وسماهنّ بنات له لکون کلّ نبيّ بمنزلة الأب لأمته، بل لکونه أكبر وأجل الأبوین لهم كما تقدّم في ذکر الأب، وقوله تعالی: وَيَجْعَلُونَ لِلَّهِ الْبَناتِ [ النحل 57] ، هو قولهم عن اللہ : إنّ الملائكة بنات اللہ .- الابن ۔- یہ اصل میں بنو ہے کیونکہ اس کی جمع ابناء اور تصغیر بنی آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : يا بُنَيَّ لا تَقْصُصْ رُؤْياكَ عَلى إِخْوَتِكَ [يوسف 5] کہ بیٹا اپنے خواب کا ذکر اپنے بھائیوں سے نہ کرنا ۔ يا بُنَيَّ إِنِّي أَرى فِي الْمَنامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ [ الصافات 102] کہ بیٹا میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ ( گویا ) تم کو ذبح کررہاہوں ۔ يا بُنَيَّ لا تُشْرِكْ بِاللَّهِ [ لقمان 13] کہ بیٹا خدا کے ساتھ شریک نہ کرنا ۔ يا بنيّ لا تعبد الشیطانبیٹا شیطان کی عبادت نہ کرنا ۔ اور بیٹا بھی چونکہ اپنے باپ کی عمارت ہوتا ہے اس لئے اسے ابن کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ باپ کو اللہ تعالٰٰ نے اس کا بانی بنایا ہے اور بیٹے کی تکلیف میں باپ بمنزلہ معمار کے ہوتا ہے اور ہر وہ چیز جو دوسرے کے سبب اس کی تربیت دیکھ بھال اور نگرانی سے حاصل ہو اسے اس کا ابن کہا جاتا ہے ۔ نیز جسے کسی چیز سے لگاؤ ہوا است بھی اس کا بن کہا جاتا جسے : فلان ابن حرب ۔ فلان جنگ جو ہے ۔ ابن السبیل مسافر ابن اللیل چور ۔ ابن العلم پروردگار وہ علم ۔ شاعر نے کہا ہے ع ( طویل ) یہ لوگ خیر وزر یعنی ہر حالت میں اچھے ہیں ۔ فلان ابن بطنہ پیٹ پرست فلان ابن فرجہ شہوت پرست ۔ ابن یومہ جو کل کی فکر نہ کرے ۔ قرآن میں ہے : وَقالَتِ الْيَهُودُ : عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ ، وَقالَتِ النَّصاری: الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّهِ [ التوبة 30] اور یہود کہتے ہیں کہ عزیز خدا کے بیٹے ہیں اور عیسائی کہتے میں کہ مسیح خدا کے بیٹے ہیں ۔ إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي [هود 45] میرا بیٹا بھی میرے گھر والوں میں ہے ۔ إِنَّ ابْنَكَ سَرَقَ [يوسف 81] کہ اب آپکے صاحبزادے نے ( وہاں جاکر ) چوری کی ۔ ابن کی جمع ابناء اور بنون آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَزْواجِكُمْ بَنِينَ وَحَفَدَةً [ النحل 72] اور عورتوں سے تمہارے بیٹے اور پوتے پیدا کئے يا بَنِيَّ لا تَدْخُلُوا مِنْ بابٍ واحِدٍ [يوسف 67] کہ بیٹا ایک ہی دروازے سے داخل نہ ہونا ۔ يا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ [ الأعراف 31] ( 3 ) اے نبی آدم ہر نماز کے وقت اپنے تیئں مزین کیا کرو ۔ يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف 27] اے نبی آدم ( دیکھنا کہیں ) شیطان تمہیں بہکانہ دے ۔ اور ابن کی موئث ابنۃ وبنت اور ان کی جمع اور ابن کی موئث ابنۃ وبنت اور ان کی جمع بنات آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ هؤُلاءِ بَناتِي هُنَّ أَطْهَرُ لَكُمْ [هود 78] ( جو ) میری ) قوم کی ) لڑکیاں ہیں تمہارے لئے جائز اور ) پاک ہیں ۔ لَقَدْ عَلِمْتَ ما لَنا فِي بَناتِكَ مِنْ حَقٍّ [هود 79] تمہاری ۃ قوم کی ) بیٹیوں کی ہمیں کچھ حاجت نہیں ۔ بعض کہتے ہیں کہ حضرت لوط (علیہ السلام) نے اکابر قوم خطاب کیا تھا اور ان کے سامنے اپنی بیٹیاں پیش کی تھیں ۔ مگر یہ ناممکن سی بات ہے کیونکہ نبی کی شان سے بعید ہے کہ وہ اپنی چند لڑکیاں مجمع کثیر کے سامنے پیش کرے اور بعض نے کہا ہے کہ بنات سے ان کی قوم کی عورتیں مراد ہیں اور ان کو بناتی اس لئے کہا ہے کہ ہر نبی اپنی قوم کے لئے بمنزلہ باپ کے ہوتا ہے بلکہ والدین سے بھی اس کا مرتبہ بڑا ہوتا ہے جیسا کہ اب کی تشریح میں گزر چکا ہے اور آیت کریمہ : وَيَجْعَلُونَ لِلَّهِ الْبَناتِ [ النحل 57] اور یہ لوگ خدا کے لئے تو بیٹیاں تجویز کرتے ہیں ۔ کے مونی یہ ہیں کہ وہ فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتی ہیں ۔- ولي - وإذا عدّي ب ( عن) لفظا أو تقدیرا اقتضی معنی الإعراض وترک قربه .- فمن الأوّل قوله :- وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة 51] ، وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة 56] . - ومن الثاني قوله :- فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران 63] ،- ( و ل ی ) الولاء والتوالی - اور جب بذریعہ عن کے متعدی ہو تو خواہ وہ عن لفظوں میں مذکورہ ہو ایا مقدرو اس کے معنی اعراض اور دور ہونا کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ تعد یہ بذاتہ کے متعلق فرمایا : ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة 51] اور جو شخص تم میں ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة 56] اور جو شخص خدا اور اس کے پیغمبر سے دوستی کرے گا ۔ اور تعدیہ بعن کے متعلق فرمایا : ۔ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران 63] تو اگر یہ لوگ پھرجائیں تو خدا مفسدوں کو خوب جانتا ہے ۔ - قل - القِلَّةُ والکثرة يستعملان في الأعداد، كما أنّ العظم والصّغر يستعملان في الأجسام، ثم يستعار کلّ واحد من الکثرة والعظم، ومن القلّة والصّغر للآخر . وقوله تعالی: ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب 60] - ( ق ل ل ) القلۃ - والکثرۃ بلحاظ اصل وضع کے صفات عدد سے ہیں جیسا کہ عظم اور صغر صفات اجسام سے ہیں بعد کثرت وقلت اور عظم وصغڑ میں سے ہر ایک دوسرے کی جگہ بطور استعارہ استعمال ہونے لگا ہے اور آیت کریمہ ؛ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب 60] پھر وہاں تمہارے پڑوس میں نہیں رہ سکیں گے مگر تھوڑے دن ۔ میں قلیلا سے عرصہ قلیل مراد ہے ۔ - ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں
(٢٤٦) اے مخاطب تجھے اس قوم تجھے اس قوم کا واقعہ معلوم ہے، جس وقت انہوں نے اپنے نبی شموئیل (علیہ السلام) سے کہا کہ ہمارے لشکر پر ایک بادشاہ مقرر کردیجیے کہ جس کے حکم سے ہم اپنے دشمن (جالوت) سے اللہ کی راہ میں لڑائی کریں ان کے نبی نے فرمایا کیا تم اس کی طاقت رکھتے ہو (اور اگر عسیتم “ ، سین کے زیر کے ساتھ پڑھا جائے تو مطلب یہ ہوگا کیا تم یہ سمجھتے ہو) اگر تم پر تمہارے دشمن کے ساتھ جہاد کو فرض قرار دیا جائے تو تم جہاد جہاد نہیں کرسکو گے وہ کہنے لگے ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ ہم خدا کے راستے میں جہاد نہ کریں دراصل ہم اپنی بستیوں سے نکال دیئے گئے اور ہمارے بیٹوں کو بھی قیدی بنا لیا گیا، چناچہ جب ان پر قتال فرض ہوا تو تقریبا تین سو تیرہ آدمیوں کے علاوہ سب اپنے دشمنوں سے قتال کرنے سے منکر ہوگئے، اور جنھوں نے اپنے دشمن سے قتال نہ کیا، اللہ تعالیٰ ان کو اچھی طرح جانتا ہے۔
آیت ٢٤٦ (اَلَمْ تَرَ اِلَی الْمَلَاِ مِنْم بَنِیْ اِسْرَآءِ یْلَ مِنْم بَعْدِ مُوْسٰی ٧ ) - (اِذْ قَالُوْا لِنَبِیٍّ لَّہُمُ ابْعَثْ لَنَا مَلِکًا نُّقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ط) - یہاں بادشاہ سے مراد امیر اور سپہ سالار ہے۔ ظاہر بات ہے کہ نبی کی موجودگی میں بلندترین مرتبہ تو نبی ہی کا رہے گا ‘ لیکن ایک ایسا امیر نامزد کردیجیے جو نبی کے تابع ہو کر جنگ کی سپہ سالاری کرسکے۔ میں حدیث بیان کرچکا ہوں کہ بنی اسرائیل میں حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) سے لے کر حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) تک کوئی نہ کوئی نبی ضرور موجود رہا ہے۔ اس وقت سیموئیل نبی تھے جن سے سرداران بنی اسرائیل نے یہ فرمائش کی تھی۔- (قَالَ ہَلْ عَسَیْتُمْ اِنْ کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِتَالُ اَلاَّ تُقَاتِلُوْا ط) - یعنی ابھی تو تمہارے بڑے دعوے ہیں ‘ بڑے جوش و خروش اور بہادری کا اظہار کر رہے ہو ‘ لیکن کہیں ایسا تو نہیں ہوگا کہ میں اللہ تعالیٰ سے جنگ کی اجازت بھی لوں اور تمہارے لیے کوئی سپہ سالار یا بادشاہ بھی مقرر کر دوں اور پھر تم جنگ سے کنی کترا جاؤ ؟- (قَالُوْا وَمَا لَنَآ اَلاَّ نُقَاتِلَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ) (وَقَدْ اُخْرِجْنَا مِنْ دِیَارِنَا وَاََبْنَآءِنَا ط) - دشمنوں نے ان کے بیٹوں کو غلام اور ان کی عورتوں کو باندیاں بنا لیا تھا اور یہ اپنے ملکوں سے خوف کے مارے بھاگے ہوئے تھے۔ چناچہ انہوں نے کہا کہ اب ہم جنگ نہیں کریں گے تو کیا کریں گے ؟- (فَلَمَّا کُتِبَ عَلَیْہِمُ الْقِتَالُ ) (تَوَلَّوْا الاَّ قَلِیْلاً مِّنْہُمْ ط) - یہ گویا مسلمانوں کو تنبیہہ کی جا رہی ہے کہ تم بھی بہت کہتے رہے ہو کہ حضور ہمیں جنگ کی اجازت ملنی چاہیے ‘ لیکن ایسا نہ ہو کہ جب جنگ کا حکم آئے تو وہ تمہیں ناگوار گزرے۔ آیت ٢١٦ میں ہم یہ الفاظ پڑھ چکے ہیں : (کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِتَالُ وَھُوَ کُرْہٌ لَّکُمْ ج) تم پر جنگ فرض کی گئی ہے اور وہ تمہیں ناگوار ہے۔
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :268 یہ تقریباً ایک ہزار برس قبل مسیح کا واقعہ ہے ۔ اس وقت بنی اسرائیل پر عمالقہ چیرہ دست ہوگئے تھے اور انہوں نے اسرائیلیوں سے فلسطین کے اکثر علاقے چھین لیے تھے ۔ سموئیل نبی اس زمانے میں بنی اسرائیل کے درمیان حکومت کرتے تھے ، مگر وہ بہت بوڑھے ہو چکے تھے ۔ اس لیے سرداران بنی اسرائیل نے یہ ضرورت محسوس کی کہ کوئی اور شخص ان کا سربراہ کار ہو ، جس کی قیادت میں وہ جنگ کر سکیں ۔ لیکن اس وقت بنی اسرائیل میں اس قدر جاہلیت آچکی تھی اور وہ غیر مسلم قوموں کے طور طریقوں سے اتنے متاثر ہوچکے تھے کہ خلافت اور پادشاہی کا فرق ان کے ذہنوں سے نکل گیا تھا ۔ اس لیے انھوں نے درخواست جو کی ، وہ خلیفہ کے تقرر کی نہیں ، بلکہ ایک بادشاہ کے تقرر کی تھی ۔ اس سلسلے میں بائیبل کی کتاب سموئیل اول میں جو تفصیلات بیان ہوئی ہیں ، وہ حسب ذیل ہیں: ”سموئیل زندگی بھر اسرائیلیوں کی عدالت کرتا رہا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تب سب اسرائیلی بزرگ جمع ہو کر رامہ میں سموئیل کے پاس آئے اور اس سے کہنے لگے کہ دیکھ ، تو ضعیف ہے اور تیرے بیٹے تیری راہ پر نہیں چلتے ۔ اب تو کسی کو ہمارا بادشاہ مقرر کر دے ، جو اور قوموں کی طرح ہماری عدالت کرے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ بات سموئیل کو بری لگی اور سموئیل نے خداوند سے دعا کی اور خدا نے سموئیل سے کہا کہ جو کچھ یہ لوگ تجھ سے کہتے ہیں تو اس کو مان کیونکہ انہوں نے تیری نہیں بلکہ میری حقارت کی ہے کہ میں ان کا بادشاہ نہ رہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور سموئیل نے ان لوگوں کو ، جو اس سے بادشاہ کے طالب تھے ، خداوند کی سب باتیں کہہ سنائیں اور اس نے کہا کہ جو بادشاہ تم پر سلطنت کرے گا ، اس کا طریقہ یہ ہوگا کہ وہ تمہارے بیٹوں کو لے کر اپنے رتھوں کے لیے اور اپنے رسالے میں نوکر رکھے گا اور وہ اس کے رتھوں کے آگے دوڑیں گے اور وہ ان کو ہزار ہزار کے سردار اور پچاس پچاس کے جمعدار بنائے گا اور بعض سے ہل جتوائے گا اور فصل کٹوائے گا اور اپنے لیے جنگ کے ہتھیار اور رتھوں کے ساز بنوائے گا اور تمہاری بیٹیوں کو گندھن اور باورچن اور نان پز بنائے گا اور تمہارے کھیتوں اور تاکستانوں اور زیتون کے باغوں کو ، جو اچھے سے اچھے ہوں گے ، لے کر اپنے خدمت گاروں کو عطا کرے گا اور تمہارے کھیتوں اور تاکستانوں کا دسواں حصہ لے کر اپنے خواجوں اور خادموں کو دے گا اور تمہارے نوکر چاکر اور لونڈیوں اور تمہارے شکیل جوانوں اور تمہارے گدھوں کو لے کر اپنے کام پر لگائے گا اور وہ تمہاری بھیڑ بکریوں کا بھی دسواں حصہ لے گا ۔ سو تم اس کے غلام بن جاؤ گے اور تم اس دن اس بادشاہ کے سبب سے ، جسے تم نے اپنے لیے چنا ہوگا فریاد کرو گے ، پر اس دن خداوند تم کو جواب نہ دے گا ۔ تو بھی لوگوں نے سموئیل کی بات نہ سنی اور کہنے لگے نہیں ، ہم تو بادشاہ چاہتے ہیں ، جو ہمارے اوپر ہو تاکہ ہم بھی اور قوموں کی مانند ہوں اور ہمارا بادشاہ ہماری عدالت کرے اور ہمارے آگے آگے چلے اور ہماری طرف سے لڑائی کرے ۔ ۔ ۔ ۔ خداوند نے سموئیل کو فرمایا ، تو ان کی بات مان لے اور ان کے لیے ایک بادشاہ مقرر کر ۔ “ ( باب ۷ آیت ۱۵ تا باب ۸ آیت ۲۲ ) ”پھر سموئیل لوگوں سے کہنے لگا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب تم نے دیکھا بنی عمون کا بادشاہ ناحس تم پر چڑھ آیا ، تو تم نے مجھ سے کہا کہ ہم پر کوئی بادشاہ سلطنت کرے ، حالانکہ خداوند تمہارا خدا تمہارا بادشاہ تھا ۔ سو اب اس بادشاہ کو دیکھو ، جسے تم نے چن لیا اور جس کے لیے تم نے درخواست کی تھی ۔ دیکھو خداوند نے تم پر بادشاہ مقرر کر دیا ہے ۔ اگر تم خداوند سے ڈرتے اور اس کی پرستش کرتے اور اس کی بات مانتے رہو اور خداوند کے حکم سے سرکشی نہ کرو اور تم اور وہ بادشاہ بھی ، جو تم پر سلطنت کرتا ہے ، خداوند اپنے خدا کے پیرو بنے رہو ، تو خیر ، پر اگر تم خداوند کی بات نہ مانو ، بلکہ خداوند کے حکم سے سرکشی کرو ، تو خداوند کا ہاتھ تمہارے خلاف ہو گا ، جیسے وہ تمہارے باپ داد ا کے خلاف ہوتا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور تم جان لو گے اور دیکھ بھی لو گے کہ تم نے خداوند کے حضور اپنے لیے بادشاہ مانگنے سے کتنی بڑی شرارت کی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اب رہا میں ، سو خدا نہ کرے کہ تمہارے لیے دعا کرنے سے باز آکر خداوند کا گنہگار ٹھیروں ، بلکہ میں وہی راہ ، جو اچھی اور سیدھی ہے ، تم کو بتاؤں گا ۔ “ ( باب ۱۲ ۔ آیت ۱۲ تا ۲۳ ) کتاب سموئیل کی ان تصریحات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ بادشاہت کے قیام کا یہ مطالبہ اللہ اور اس کے نبی کو پسند نہ تھا ۔ اب رہا یہ سوال کہ قرآن مجید میں اس مقام پر سرداران بنی اسرائیل کے اس مطالبے کی مذمت کیوں نہیں کی گئی ، تو اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہاں اس قصے کا ذکر جس غرض کے لیے کیا ہے ، اس سے یہ مسئلہ غیر متعلق ہے کہ ان کا مطالبہ صحیح تھا یا نہ تھا ۔ یہاں تو یہ بتانا مقصود ہے کہ بنی اسرائیل کس قدر بزدل ہو گئے تھے اور ان میں کس قدر نفسانیت آگئی تھی اور ان کے اندر اخلاقی انضباط کی کتنی کمی تھی ، جس کے سبب سے آخر کار وہ گر گئے ۔ اور اس ذکر کی غرض یہ ہے کہ مسلمان اس سے عبرت حاصل کریں اور اپنے اندر یہ کمزوریاں پرورش نہ کریں ۔
165: یہاں نبی سے مراد حضرت سموئیل علیہ السلام ہیں جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے تقریبا ساڑھے تین سو سال بعد پیغمبر بنائے گئے تھے، سورہ مائدہ (۵: ۴۲) میں مذکور ہے کہ فرعون سے نجات پانے کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو ان عمالقہ سے جہاد کرنے کی دعوت دی تھی جو بنی اسرائیل کے وطن فلسطین پر قابض ہوگئے تھے مگر بنی اسرائیل نے انکار کردیا، جس کی سزا میں انہیں صحرائے سینا میں محصور کردیا گیا، اور اسی حالت میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وفات ہوگئی، بعد میں حضرت یوشع علیہ السلام کی قیادت میں فلسطین کا ایک بڑا علاقہ فتح ہوا۔ حضرت یوشع علیہ السلام آخر عمر تک ان کی نگرانی کرتے رہے، اور ان کے معاملات کے تصفیے کے لئے قاضی مقررکئے۔ تقریبا تین سو سال تک نظام اسی طرح چلتا رہا کہ بنی اسرائیل کا کوئی بادشاہ یا حکمران نہیں تھا، بلکہ قبیلوں کے سردار حضرت یوشع علیہ السلام کے مقرر کئے ہوئے نظام کے تحت قاضی ہوا کرتے تھے، اسی لئے اس دور کو قاضیوں کا زمانہ کہا جاتا تھا۔ بائبل کی کتاب قضا میں اسی زمانے کی تاریخ بیان کی گئی ہے۔ چونکہ اس دور میں پوری قوم کا کوئی متفقہ حکمران نہیں تھا، اس لئے آس پاس کی قومیں ان پر حملہ آور ہوتی رہتی تھیں۔ آخر میں فلسطین کی بت پرست قوم نے ان پر حملہ کرکے انہیں سخت شکست دی اور وہ متبرک صندوق بھی اٹھا کرلے گئے جس میں حضرت موسی اور حضرت ہارون علیہما السلام کی کچھ یادگاریں، تورات کا نسخہ اور آسمانی غذا’’ من‘‘ کا مرتبان محفوظ تھا، اور جسے بنی اسرائیل تبرک کے لئے جنگوں کے موقع پر آگے رکھا کرتے تھے۔ حالات کے اس پس منظر میں ایک قاضی حضرت سموئیل علیہ السلام کو نبوت کا منصب عطا ہوا، ان کے دور میں بھی فلسطینیوں کا ظلم وستم جاری رہا توبنی اسرائیل نے ان سے درخواست کی کہ ان پر کوئی بادشاہ مقرر کردیاجائے۔ اس کے نتیجے میں طالوت کو بادشاہ بنایا گیا جس کا واقعہ یہاں مذکور ہے۔ بائبل میں دوکتابیں حضرت سموئیل علیہ السلام کی طرف منسوب ہیں، ان میں سے پہلی کتاب میں بنی اسرائیل کی طرف سے بادشاہ مقرر کرنے کی فرمائش بھی ذکر کی گئی ہے، مگر بادشاہ کا نام طالوت کے بجائے ساول مذکور ہے۔ نیز بعض تفصیلات میں فرق بھی ہے۔