تابوت سکینہ اور جنگ طالوت و جالوت نبی فرما رہے ہی کہ طالوت کی بادشاہت کی پہلی علامت برکت یہ ہے کہ کھویا ہوا تابوت سکینہ انہیں پھر مل جائے گا ، جس میں وقار و عزت دلجمعی اور جلالت رافت و رحمت ہے جس میں اللہ کی نشانیاں ہیں جنہیں تم بخوبی جانتے ہو ، بعض کا قول ہے کہ سکینہ ایک سونے کا طشت تھا جس میں انبیاء کے دِل دھوئے جاتے تھے جو حضرت موسیٰ کو ملا تھا اور جس میں آپ نے توراۃ کی تختیاں رکھی تھیں ، کسی نے کہا ہے اس کا منہ بھی تھا جیسے انسان کا منہ ہوتا ہے اور روح بھی تھی ، ہاتھ بھی تھا ، دو سر تھے ، دو پر تھے اور دُم بھی تھی ، وہب کہتے یہں مردہ بلی کا سر تھا جب وہ تابوت میں بولتا تو انہیں نصرت کا یقین ہو جاتا اور لڑائی فتح ہو جاتی ، یہ قول بھی ہے کہ یہ ایک روح تھی اللہ کی طرف سے جب کبھی بنی اسرائیل میں کوئی اختلاف پڑتا یا کسی بات کی اطلاع نہ ہوتی تو وہ کہہ دیا کرتی تھی ۔ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون کے ورثے کے باقی حصے سے مراد لکڑی اور توراۃ کی تختیاں اون اور کچھ ان کے کپڑے اور جوتی ہیں ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ فرشتے آسمان و زمین کے درمیان اس تابوت کو اٹھائے ہوئے سب لوگوں کے سامنے لائے اور حضرت طالوت بادشاہ کے سامنے لا رکھا ، اس تابوت کو ان کے ہاں دیکھ کر انہیں نبی کی نبوت اور طالوت کی بادشاہت کا یقین ہو گیا ، یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ گائے کے اوپر لایا گیا ، بعض کہتے ہیں کہ کفار نے جب یہودیوں پر غلبہ پایا تو تابوت سکینہ کو ان سے چھین لیا اور اریحا میں لے گئے اور اپنے بڑے بت کے نیچے رکھ دیا جب اللہ کو اسے واپس بنی اسرائیل تک پہنچانا تھا ، تب وہ کفار صبح کو جب بت خانے میں گئے تو دیکھا بت نیچے ہے اور تابوت اوپر ہے ، انہں نے پھر بت کو اوپر کر دیا لیکن دوسری صبح دیکھا کہ پھر وہی معاملہ ہے انہوں نے پھر بت کو اوپر کر دیا ، صبح جو گئے تو دیکھا بت ایک طرف ٹوٹا پھوٹا پڑا ہے ، تو یقین ہو گیا کہ یہ قدرت کے کرشمے ہیں چنانچہ انہوں نے تابوت کو یہاں سے لے جا کر کسی اور چھوٹی سی بستی میں رکھ دیا ، وہاں ایک وبائی بیماری پھیلی ، آخر بنی اسرائیل کی ایک عورت نے جو وہاں قید تھی ، اس نے کہا کہ اسے واپس بنی اسرائیل پہنچا دو تو تمہیں اس سے نجات ملے گی ، ان لوگوں نے دو گائیوں پر تابوت کو رکھ کر بنی اسرائیل کے شہر کی طرف بھیج دیا ، شہر کے قریب پہنچ کر گائیں تو رسیاں تڑوا کر بھاگ گئیں اور تابوت وہیں رہا جسے بنی اسرائیل لے آئے ، بعض کہتے ہیں دو نوجوان اسے پہنچا گئے واللہ اعلم ، ( لیکن الفاظ قرآن میں یہ موجود ہیں کہ اسے فرشتے اٹھا لائیں گے ( مترجم ) یہ بھی کہا گیا کہ ہے کہ فلسطین کی بستیوں میں سے ایک بستی میں تھا جس کا نام ازدوہ تھا ۔ پھر فرماتا ہے میری نبوت کی دلیل اور طالوت کی بادشاہت کی دلیل یہ بھی ہے کہ تابوت فرشتے پہنچا جائیں گے ، اگر تمہیں اللہ عزوجل اور قیامت پر ایمان ہو ۔
248۔ 1 صندوق یعنی تابوت جو توب سے ہے جس کے معنی رجوع کرنے کے ہیں کیونکہ بنی اسرائیل تبرک کے لئے اس کی طرف رجوع کرتے تھے (فتح القدیر) اس تابوت میں حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون (علیہ السلام) کے تبرکات تھے یہ تابوت بھی ان کے دشمن چھین کرلے گئے تھے اللہ تعالیٰ نے نشانی کے طور پر فرشتوں کے ذریعے سے حضرت طالوت کے دروازے پر پہنچا دیا جسے دیکھ کر بنو اسرائیل خوش بھی ہوئے اور اسے طالوت کی بادشاہی کے لئے منجانب اللہ نشانی بھی سمجھا اور اللہ تعالیٰ نے بھی اسے ان کے لئے ایک اعجاز (آیت) اور فتح و سکینت کا سبب قرار دیا سکینت کا مطلب اللہ تعالیٰ کی طرف سے خاص نصرت کا ایسا نزول ہے جو وہ اپنے خاص بندوں پر نازل فرماتا ہے اور جس کی وجہ سے جنگ کی خون ریز معرکہ آرائیوں میں جس سے بڑے بڑے شیر دل بھی کانپ کانپ اٹھتے ہیں وہاں اہل ایمان کے دل دشمن کے خوف اور ہیبت سے خالی اور فتح و کامرانی کی امید سے لبریز ہوتے ہیں۔
[٣٤٦] اس صندوق کو بنی اسرائیل عہد کا صندوق کہتے تھے جس میں آل موسیٰ و ہارون کے تبرکات رکھے ہوئے تھے۔ مثلاً پتھر کی وہ تختیاں جو کوہ طور پر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو عطا کی تھیں اور تورات کا وہ اصل نسخہ جسے موسیٰ (علیہ السلام) نے خود لکھوایا تھا اور ایک بوتل میں من تھا جو بنی اسرائیل پر نازل ہوتا رہا۔ نیز اس میں وہ عصائے موسیٰ بھی تھا جو سانپ بن جاتا تھا۔ یہ کچھ تھا بنی اسرائیل کے سکون قلب کا سامان جو اس صندوق میں محفوظ تھا اور یہ ہر وقت ان کے پاس رہتا تھا اور جب دشمن سے جنگ ہوتی تو اس صندوق کو آگے رکھتے اور اس کی وساطت سے فتح و نصرت کی دعا کرتے۔ ایک لڑائی کے موقعہ پر مشرک بادشاہ جالوت نے ان پر غالب آ کر ان سے وہ صندوق چھین لیا اور وہ لوگ اسے اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ اس صندوق کے چھن جانے کو بنی اسرائیل اپنی نحوست و ادبار کی علامت تصور کرتے تھے اور اس کی موجودگی کو فتح و نصرت کا نشان سمجھتے تھے۔- [٣٤٧] اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو یہ بتلایا کہ اگر طالوت کے دور حکومت میں وہ چھنا ہوا صندوق تمہیں واپس مل جائے تو سمجھ لینا کہ طالوت کو فی الواقع اللہ تعالیٰ ہی نے بادشاہ مقرر کیا ہے۔ چناچہ ہوا یہ کہ ان چھیننے والے مشرکوں کے شہر میں وبائیں پھوٹ پڑیں۔ انہوں نے اسی صندوق کو غالباً اپنی نحوست کی علامت سمجھا اور ایک بیل گاڑی پر اس صندوق کو رکھ کر اسے ہانک دیا۔ چناچہ فرشتے اس بیل گاڑی کو ہانک کر بنی اسرائیل تک لے آئے اور اسے طالوت کے گھر کے سامنے چھوڑ گئے۔ اس طرح ایک طرف تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بنی اسرائیل پر اتمام حجت ہوگئی اور دوسری طرف بنی اسرائیل کے حوصلے بڑھ گئے اور انہوں نے طالوت کو اپنا بادشاہ تسلیم کرلیا۔
اَنْ يَّاْتِيَكُمُ التَّابُوْتُ ۔۔ : بنی اسرائیل کا حوصلہ بڑھانے کے لیے اور طالوت کی بادشاہت پر یقین میں اضافے کے لیے نبی نے طالوت کے بادشاہ مقرر ہونے کی ایک نشانی بیان فرمائی کہ وہ تابوت (جو دشمن تم سے چھین کرلے گیا تھا) جس کے ہوتے ہوئے تمہیں (دشمن کے مقابلے کے وقت) سکون و اطمینان حاصل رہتا تھا اور جس میں آل موسیٰ اور آل ہارون کی چند باقی ماندہ چیزیں تھیں، وہ تابوت تمہارے پاس آجائے گا، جسے فرشتے اٹھا لائیں گے۔ چناچہ اس تابوت (صندوق) کے آجانے سے بنی اسرائیل کے حوصلے بلند ہوگئے اور وہ لڑنے کے لیے تیار ہوگئے۔
وَقَالَ لَہُمْ نَبِيُّہُمْ اِنَّ اٰيَۃَ مُلْكِہٖٓ اَنْ يَّاْتِــيَكُمُ التَّابُوْتُ فِيْہِ سَكِيْنَۃٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَبَقِيَّۃٌ مِّمَّا تَرَكَ اٰلُ مُوْسٰى وَاٰلُ ھٰرُوْنَ تَحْمِلُہُ الْمَلٰۗىِٕكَۃُ ٠ ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَۃً لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ ٢٤٨ ۧ- تابوت - التَّابُوت فيما بيننا معروف، أَنْ يَأْتِيَكُمُ التَّابُوتُ [ البقرة 248] ، قيل : کان شيئا منحوتا من الخشب فيه حكمة . وقیل : عبارة عن القلب، والسکينة عمّا فيه من العلم، وسمّي القلب سفط العلم، وبیت الحکمة، وتابوته، ووعاء ه، وصندوقه، وعلی هذا قيل : اجعل سرّك في وعاء غير سرب . وعلی تسمیته بالتابوت قال عمر لابن مسعود رضي اللہ عنهما : (كنيف ملیء علما)- ( ت ب ت ) التابوت - کے معنی صندوق کے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ أَنْ يَأْتِيَكُمُ التَّابُوتُ [ البقرة 248] کہ تمہارے پاس ایک صندوق آئے گا ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ وہ صندوق لکڑی کا تھا جس میں حکمت کی کتابین تھیں ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ تابوت سے مراد دل ہے اور اس میں سکینت سے مراد علم ہے اس لئے دل کو سقط العلم و بیت الحکمۃ وتابوت العلم وصندوقہ کہا جاتا ہے ۔ چناچہ کہا گیا ہے :۔ اجعل سرک فی وعآء غیر سرب ۔ کہ اپنے بھید کو ایسے برتن میں رکھو جو ٹپکتا نہ ہو اور دل کا نام تابوت ہونے کہ وجہ سے حضرت عمر نے عبد اللہ بن مسعود کے متعلق فرمایا (47) ھو کنیت ملئ علما وہ ایک ایسا برتن ہے جو علم سے پر ہے ۔- سَّكِينَةَ- والسَّكْنُ :- سُكَّانُ الدّار، نحو سفر في جمع سافر، وقیل في جمع ساکن : سُكَّانٌ ، وسكّان السّفينة : ما يسكّن به، والسِّكِّينُ سمّي لإزالته حركة المذبوح، وقوله تعالی: أَنْزَلَ السَّكِينَةَ فِي قُلُوبِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 4] ، فقد قيل : هو ملك يُسَكِّنُ قلب المؤمن ويؤمّنه كما روي أنّ أمير المؤمنین عليه السلام قال : (إنّ السَّكِينَةَ لتنطق علی لسان عمر) وقیل : هو العقل، وقیل له سكينة إذا سكّن عن المیل إلى الشّهوات، وعلی ذلک دلّ قوله تعالی: وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُمْ بِذِكْرِ اللَّهِ [ الرعد 28] . وقیل : السَّكِينَةُ والسَّكَنُ واحد، وهو زوال الرّعب، وعلی هذا قوله تعالی: أَنْ يَأْتِيَكُمُ التَّابُوتُ فِيهِ سَكِينَةٌ مِنْ رَبِّكُمْ [ البقرة 248] ، وما ذکر أنّه شيء رأسه كرأس الهرّ فما أراه قولا يصحّ والْمِسْكِينُ قيل : هو الذي لا شيء له، وهو أبلغ من الفقیر، وقوله تعالی: أَمَّا السَّفِينَةُ فَكانَتْ لِمَساكِينَ [ الكهف 79] ، فإنه جعلهم مساکين بعد ذهاب السّفينة، أو لأنّ سفینتهم غير معتدّ بها في جنب ما کان لهم من المسکنة، وقوله : ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ [ البقرة 61] ، فالمیم في ذلک زائدة في أصحّ القولین .- السکین ( چھری ) کو سکیں اس لئے کہا جاتا ہے ( وہ مذبوح کی حرکت کو زائل کردیتی ہے ) تو یہ سکون سے فعیل کے وزن پر اسم مشتق ہے ) اور آیت : أَنْزَلَ السَّكِينَةَ فِي قُلُوبِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 4] ( وہی تو ہے ) جس نے مومنوں کے دلوں پر تسلی نازل فرمائی ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ سکینۃ سے مراد وہ فرشتے ہیں جو مومن کے دل کو تسکین دیتے ہیں ۔ جیسا کہ امیر المومنین ( حضرت علی (رض) ) سے راویت ہے (إن السکينة لتنطق علی لسان عمر) حضرت عمر (رض) کی زبا ن پر سکینۃ گویا ہے اور بعض نے اس سے عقل انسانی مراد لی ہے اور عقل کو بھی جب کہ وہ شہوات کی طرف مائل ہونے سے روک دے سکینۃ کہا جاتا ہے اور آیت : ۔ وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُمْ بِذِكْرِ اللَّهِ [ الرعد 28] اور جن کے دل یاد خدا سے آرام پاتے ہیں ۔ بھی اس معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ سکینۃ اور سکن کے ایک ہی معنی ہیں یعنی رعب اور خوف کا زائل ہونا اور آیت : ۔ أَنْ يَأْتِيَكُمُ التَّابُوتُ فِيهِ سَكِينَةٌ مِنْ رَبِّكُمْ [ البقرة 248] کہ تمہارے پاس ایک صندوق آئیگا اس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے تسلی ہوگی ۔ میں بھی یہی معنی مراد ہیں اور بعض مفسرین نے جو یہ ذکر کیا ہے کہ وہ چیز تھی جس کا سر بلی کے سر کے مشابہ تھا وغیرہ تو ہمارے نزدیک یہ قول صحیح نہیں ہے ۔ المسکین بعض نے اس کی تفسیر الذي لا شيء له ( یعنی جس کے پاس کچھ بھی نہ ہو ) کے ساتھ کی ہے اور یہ فقر سے ابلغ ہے ( یعنی بنسبت فقیر کے زیادہ نادار ہوتا ہے ) لیکن آیت : أَمَّا السَّفِينَةُ فَكانَتْ لِمَساكِينَ [ الكهف 79] اور کشتی غریب لوگوں کی تھی ۔ میں باوجود کشتی کا مالک ہونے کے انہیں مسکین قرار دینا ما یؤول کے لحاظ سے ہے یعنی کشتی کے چلے جانے کے بعد کی حالت کے لحاظ سے انہیں مسکین کہا گیا ہے ۔ یا اس لئے کہ ان کی احتیاج اور مسکنت کے مقابلہ میں کشتی کی کچھ بھی حیثیت نہ تھی ۔ اور آیت : ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ [ البقرة 61] اور آخر کار ذلت و رسوائی اور محتاجی ( و بےنوائی ) ان سے چمٹا دی گئی ۔ میں اصح قول کے لحاظ سے مسکنۃ کی میم زائد ہے ( اور یہ سکون سے ہے ۔ )- رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- ترك - تَرْكُ الشیء : رفضه قصدا واختیارا، أو قهرا واضطرارا، فمن الأول : وَتَرَكْنا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ [ الكهف 99] ، وقوله : وَاتْرُكِ الْبَحْرَ رَهْواً [ الدخان 24] ، ومن الثاني : كَمْ تَرَكُوا مِنْ جَنَّاتٍ [ الدخان 25] - ( ت ر ک) ترک - الشیئء کے معنی کسی چیز کو چھوڑ دینا کے ہیں خواہ وہ چھوڑنا ارادہ اختیار سے ہو اور خواہ مجبورا چناچہ ارادۃ اور اختیار کے ساتھ چھوڑنے کے متعلق فرمایا : ۔ وَتَرَكْنا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ [ الكهف 99] اس روز ہم ان کو چھوڑ دیں گے کہ ور وئے زمین پر پھل کر ( ایک دوسری میں گھسن جائیں وَاتْرُكِ الْبَحْرَ رَهْواً [ الدخان 24] اور دریا سے ( کہ ) خشک ( ہورہا ہوگا ) پاور ہوجاؤ ۔ اور بحالت مجبوری چھوڑ نے کے متعلق فرمایا : كَمْ تَرَكُوا مِنْ جَنَّاتٍ [ الدخان 25] وہ لوگ بہت سے جب باغ چھوڑ گئے ۔- حمل - الحَمْل معنی واحد اعتبر في أشياء کثيرة، فسوّي بين لفظه في فعل، وفرّق بين كثير منها في مصادرها، فقیل في الأثقال المحمولة في الظاهر کا لشیء المحمول علی الظّهر : حِمْل .- وفي الأثقال المحمولة في الباطن : حَمْل، کالولد في البطن، والماء في السحاب، والثّمرة في الشجرة تشبيها بحمل المرأة، قال تعالی:- وَإِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلى حِمْلِها لا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ [ فاطر 18] ،- ( ح م ل ) الحمل - ( ض ) کے معنی بوجھ اٹھانے یا لادنے کے ہیں اس کا استعمال بہت سی چیزوں کے متعلق ہوتا ہے اس لئے گو صیغہ فعل یکساں رہتا ہے مگر بہت سے استعمالات میں بلحاظ مصاد رکے فرق کیا جاتا ہے ۔ چناچہ وہ بوجھ جو حسی طور پر اٹھائے جاتے ہیں ۔ جیسا کہ کوئی چیز پیٹھ لادی جائے اس پر حمل ( بکسرالحا) کا لفظ بولا جاتا ہے اور جو بوجھ باطن یعنی کوئی چیز اپنے اندر اٹھا ہے ہوئے ہوتی ہے اس پر حمل کا لفظ بولا جاتا ہے جیسے پیٹ میں بچہ ۔ بادل میں پانی اور عورت کے حمل کے ساتھ تشبیہ دے کر درخت کے پھل کو بھی حمل کہہ دیاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ - وَإِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلى حِمْلِها لا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ [ فاطر 18] اور کوئی بوجھ میں دبا ہوا پنا بوجھ ہٹانے کو کسی کو بلائے تو اس میں سے کچھ نہ اٹھائے گا ۔- فرشته - الملائكة، ومَلَك أصله : مألك، وقیل : هو مقلوب عن ملأك، والمَأْلَك والمَأْلَكَة والأَلُوك : الرسالة، ومنه : أَلَكَنِي إليه، أي : أبلغه رسالتي، والملائكة تقع علی الواحد والجمع . قال تعالی: اللَّهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلائِكَةِ رُسُلًا [ الحج 75] . قال الخلیل : المَأْلُكة : الرسالة، لأنها تؤلک في الفم، من قولهم : فرس يَأْلُكُ اللّجام أي : يعلك .- ( ا ل ک ) الملئکۃ ( فرشتے ) اور ملک اصل میں مالک ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ ملاک سے معلوب ہے اور مالک وما لکۃ والوک کے معنی رسالت یعنی پیغام کے ہیں اسی سے لکنی کا محاورہ ہے جس کے معنی ہیں اسے میرا پیغام پہنچادو ، ، ۔ الملائکۃ کا لفظ ( اسم جنس ہے اور ) واحد و جمع دونوں پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ اللهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلَائِكَةِ رُسُلًا ( سورة الحج 75) خدا فرشتوں میں سے پیغام پہنچانے والے منتخب کرلیتا ہے ۔ خلیل نے کہا ہے کہ مالکۃ کے معنی ہیں پیغام اور اسے ) مالکۃ اس لئے کہتے ہیں کہ وہ بھی منہ میں چبایا جاتا ہے اور یہ فرس یالک اللجام کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں گھوڑے کا منہ میں لگام کو چبانا ۔- الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔
(٢٤٨) شموئیل (علیہ السلام) نے فرمایا ان کی بادشاہت اللہ کی طرف سے ہونے کی یہ نشانی ہے کہ وہ صندوق جو تم سے لیا گیا تھا تمہارے پاس آجائے گا اس میں رحمت اور طمانیت ہوگی اور سکینہ کے معنی نصرت اور مدد کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں یعنی اس میں اس قسم کی زردی ہوگی جیسے انسان کی صورت ہوتی ہے، اور اس میں کچھ چیزیں بھی ہوں گی جن کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) چھوڑ گئے یعنی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی کتاب اور الواح (تختیاں) اور ان کا عصا اور جو ہارون (علیہ السلام) چھوڑ گئے ہیں جیسے ان کی چادر اور اس کا صافہ (پگڑی) اس صندوق کو تمہارے پاس فرشتے اٹھا کر لائیں گے اور صندوق کو تمہارے پاس لوٹائے جانے میں اس بات کی اور نشانی ہوگی کہ طالوت کی بادشاہت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، اگر تم اس بات کی تصدیق کرو، جب یہ صندوق ان کے پاس پہنچ گیا تو ان لوگوں نے طالوت کی حکمرانی اور بادشاہت کو قبول کرلیا اور ان کے ساتھ جہاد کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔
آیت ٢٤٨ (وَقَالَ لَہُمْ نَبِیُّہُمْ اِنَّ اٰیَۃَ مُلْکِہٖٓ اَنْ یَّاْتِیَکُمُ التَّابُوْتُ فِیْہِ سَکِیْنَۃٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَبَقِیَّۃٌ مِّمَّا تَرَکَ اٰلُ مُوْسٰی وَاٰلُ ہٰرُوْنَ تَحْمِلُہُ الْمَلآءِکَۃُ ط) - طالوت کی امارت اور بادشاہی کی علامت کے طور پر وہ صندوق تمہارے پاس واپس آجائے گا۔ اصل میں یہ تابوت سکینہ لکڑی کا ایک بہت بڑا صندوق تھا ‘ جس میں بنی اسرائیل کے انبیاء کرام (علیہ السلام) کے تبرکات محفوظ تھے۔ یہودیوں کا دعویٰ ہے کہ یہ صندوق اب بھی مسجد اقصیٰ کے نیچے سرنگ میں موجود ہے۔ انہوں نے بعض ذرائع سے فوٹو لے کر اس کی دستاویزی فلم بھی دکھا دی ہے۔ یہ تابوت سکینہ حضرت سلیمان ( علیہ السلام) کے تعمیر کردہ ہیکل کے تہہ خانے میں رکھا ہوا تھا اور وہیں پر ربائیّ (رَبَّانِیِّیْنَ ) بھی موجود تھے۔ جب اس ہیکل کو منہدم کیا گیا تو وہ اسی میں دب گئے۔ وہ تہہ خانہ چاروں طرف سے بند ہوگیا ہوگا اور ان کی لاشیں اور تابوت سکینہ اس کے اندر ہی ہوں گے۔ تابوت سکینہ میں بنی اسرائیل کے لیے بہت بڑی روحانی تسکین کا سامان تھا کہ ہمارے پاس حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون (علیہ السلام) کے تبرکات ہیں۔ اس میں عصائے موسیٰ بھی تھا اور وہ الواح بھی جو حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کو کوہ طور پر دی گئی تھیں اور جن پر تورات لکھی ہوئی تھی۔ اس تابوت کو دیکھ کر بنی اسرائیل کو اسی طرح تسکین ہوتی تھی جیسے ایک مسلمان کو خانۂ کعبہ کو دیکھ کر تسکین ہوتی ہے۔ اسرائیلیوں کو جب ان کے پڑوسی ملکوں نے شکست دی تو وہ تابوت سکینہ بھی چھین کرلے گئے۔ پوری قوم نے اس عظیم سانحے پر ماتم کیا اور اسے بنی اسرائیل سے ساری عزت و حشمت چھن جانے سے تعبیر کیا گیا۔ چناچہ اس سے ان کے حوصلے مزید پست ہوگئے۔ اب جبکہ اسرائیلیوں نے جنگ کا ارادہ کیا اور وقت کے نبی حضرت سیموئیل ( علیہ السلام) نے طالوت کو ان کا امیر مقرر کیا تو انہیں یہ بھی بتایا کہ طالوت کو اللہ کی طرف سے نامزد کیے جانے کی ایک علامت یہ ہوگی کہ تمہاری تسکین کا سامان تابوت سکینہ جو تم سے چھن گیا تھا ‘ ان کے عہد امارت میں تمہیں واپس مل جائے گا اور اس وقت وہ فرشتوں کی تحویل میں ہے۔ ہوا یہ کہ ان کے دشمن جب تابوت چھین کرلے گئے تو وہ ان کے لیے ایک مصیبت بن گیا۔ وہ اسے جہاں رکھتے وہاں طاعون اور دوسری وبائیں پھوٹ پڑتیں۔ بالآخر انہوں نے اسے نحوست کا باعث سمجھتے ہوئے ایک چھکڑے پر رکھا اور بیلوں کو ہانک دیا کہ جدھر چاہیں لے جائیں۔ بیل سیدھے چلتے چلتے اسے بنی اسرائیل کے علاقے میں لے آئے۔ ظاہر ہے کہ یہ معاملہ فرشتوں کی راہنمائی سے ہوا۔ اس طرح وہ تابوت سکینہ ان کے پاس واپس پہنچ گیا جو برسوں پہلے ان سے چھن چکا تھا۔
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :270 بائیبل کا بیان اس باب میں قرآن سے کسی حد تک مختلف ہے ۔ تاہم اس سے اصل واقع کی تفصیلات پر کافی روشنی پڑتی ہے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ صندوق ، جسے بنی اسرائیل اصطلاحاً ” عہد کا صندوق “ کہتے تھے ، ایک لڑائی کے موقع پر فلسطینی مشرکین نے بنی اسرائیل سے چھین لیا تھا ، لیکن یہ مشرکین کے جس شہر اور جس بستی میں رکھا گیا ، وہاں وبائیں پھوٹ پڑیں ۔ آخر کار انہوں نے خوف کے مارے اسے ایک بیل گاڑی پر رکھ کر گاڑی کو ہانک دیا ۔ غالباً اسی معاملے کی طرف قرآن ان الفاظ میں اشارہ کرتا ہے کہ اس وقت وہ صندوق فرشتوں کی حفاظت میں تھا ، کیونکہ وہ گاڑی بغیر کسی گاڑی بان کے ہانک دی گئی تھی اور اللہ کے حکم سے یہ فرشتوں ہی کا کام تھا کہ وہ اسے چلا کر بنی اسرائیل کی طرف لے آئے ۔ رہا یہ ارشاد کہ ”اس صندوق میں تمہارے لیے سکون قلب کا سامان ہے“ ، تو بائیبل کے بیان سے اس کی حقیقت یہ معلوم ہوتی ہے کہ بنی اسرائیل اس کو بڑا متبرک اور اپنے لیے فتح و نصرت کا نشان سمجھتے تھے ۔ جب وہ ان کے ہاتھ سے نکل گیا ، تو پوری قوم کی ہمت ٹوٹ گئی اور ہر اسرائیلی یہ خیال کرنے لگا کہ خدا کی رحمت ہم سے پھر گئی ہے اور اب ہمارے برے دن آگئے ہیں ۔ پس اس صندوق کا واپس آنا اس قوم کے لئے بڑی تقویت قلب کا موجب تھا اور یہ ایک ایسا ذریعہ تھا ، جس سے ان کی ٹوٹی ہوئی ہمّیں پھر بن سکتی تھیں ۔ ”آلِ موسی علیہ السلام اور آل ہارون علیہ السلام کے چھوڑے ہوئے تبرکات “ جو اس صندوق میں رکھے ہوئے تھے ، ان سے مراد پتھر کی وہ تختیاں ہیں ، جو طور سینا پر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دی تھیں ۔ اس کےعلاوہ تورات کا وہ اصل نسخہ بھی اس میں تھا ، جسے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے خود لکھوا کر بنی لاوی کے سپرد کیا تھا ۔ نیز ایک بوتل میں من بھی بھر کر اس میں رکھ دیا گیا تھا تاکہ آئندہ نسلیں اللہ تعالیٰ کے اس احسان کو یاد کریں ، جو صحرا میں اس نے ان کے باپ دادا پر کیا تھا ۔ اور غالباً حضرت موسیٰ علیہ السلام کا وہ عصا بھی اس کے اندر تھا ، جو خدا کے عظیم الشان معجزات کا مظہر بنا تھا ۔
166: جب بنی اسرائیل نے طالوت کو بادشاہ ماننے سے انکار کیا اور ان کے بادشاہ مقرر ہونے پر کوئی نشانی طلب کی تو اللہ تعالیٰ نے حضرت سموئیل (علیہ السلام) سے کہلوایا کہ ان کے منجانب اللہ ہونے کی نشانی یہ ہوگی کہ اشدودی قوم کے لوگ جو متبرک صندوق اٹھاکر لے گئے تھے ان کے زمانے میں، اللہ کے فرشتے وہ صندوق تمہارے پاس اٹھاکر لے آئیں گے، اسرائیلی روایات کے مطابق اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ اشدودیوں نے وہ صندوق ایک مندر میں لے جاکر رکھا مگر اس کے بعد وہ طرح طرح کی مصیبتوں سے دوچار ہونا شروع ہوگئے، کبھی ان کے بت اوندھے پڑے ہوئے ملتے، کبھی گلٹیوں کی وبا پھیل جاتی، کبھی چوہوں کی کثرت پریشان کرتی، آخر کار ان کے نجومیوں نے انہیں یہ مشورہ دیا کہ یہ ساری آفتیں اس صندوق کی وجہ سے ہیں ؛ چنانچہ انہوں نے وہ صندوق بیل گاڑیوں پر رکھ کر انہیں شہر سے باہر ہنکادیا، بائبل میں فرشتوں کے صندوق لانے کا ذکر نہیں ہے، مگر قرآن کریم نے صاف کہا ہے کہ اسے فرشتے لے کر آئیں گے، اگر بائبل کی یہ روایت درست مانی جائے کہ ان لوگوں نے خود صندوق کو باہر نکال دیا تھا تو ممکن ہے کہ بیل گاڑیوں نے اسے شہر سے باہر چھوڑدیا ہو اور وہاں سے اسے فرشتے اٹھاکر بنی اسرائیل کے پاس لے آئے ہوں اور یہ بھی ممکن ہے کہ بیل گاڑیوں پر ہنکانے کا قصہ ہی غلط ہو اور فرشتے اسے براہ راست اٹھالائے ہوں، واللہ اعلم۔