Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

نہر الشریعہ اب واقعہ بیان ہو رہا ہے کہ جب ان لوگوں نے طالوت کی بادشاہت تسلیم کر لی اور وہ انہیں لے کر جہاد کو چلے ، حضرت سدی کے قول کے مطابق ان کی تعداد اسی ہزار تھی ، راستے میں طالوت نے کہا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں ایک نہر کے ساتھ آزمانے والا ہے ، حضرت ابن عباس کے قول کے مطابق یہ نہر اردن اور فلسطین کے درمیان تھی اس کا نام نہر الشریعہ تھا ، طالوت نے انہیں ہوشیار کر دیا کہ کوئی اس نہر کا پانی نہ پیئے ، اگر پی لے گا تو میرے ساتھ نہ چگے ، ایک آدھ گھونٹ اگر کسی نے پی لی تو کچھ حرج نہیں ، لیکن جب وہاں پہنچے پیاس کی شدت تھی ، نہر پر جھک پڑے اور خوب پیٹ بھر کر پانی پی لیا مگر کچھ لوگ ایسے پختہ ایمان والے بھی تھے کہ جنہوں نے نہ پیا ایک چلو پی لیا ، بقول ابن عباس کے ایک چلو پینے والوں کی تو پیاس بھی بجھ گئی اور وہ جہاد میں بھی شامل رہے لیکن پوری پیاس پینے والوں کی نہ تو پیاس بجھی نہ وہ قابل جہاد رہے ، سدی فرماتے ہیں اسی ہزار میں سے چھہتر ہزار نے پانی پی لیا صرف چار ہزار آدمی حقیقی فرمانبردار نکلے ۔ حضرت براء بن عازب فرماتے ہیں کہ اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم اکثر فرمایا کرتے تھے کہ بدر کی لڑائی والے دن ہماری تعداد اتنی ہی تھی جتنی تعداد حضرت طالوت بادشاہ کے اس فرمانبردار لشکر کی تھی ، جو آپ کے ساتھ نہر سے پار ہوا تھا یعنی تین سو تیرہ یہاں سے پار ہوتے ہی نافرمانوں کے چھکے چھوٹ گئے اور نہایت بزدلانہ پن سے انہوں نے جہاد سے انکار کر دیا اور دشمنوں کی زیادتی نے ان کے حوصلے توڑ دئیے ، صاف جواب دے بیٹھے کہ آج تو ہم جالوت کے لشکر سے لڑنے کی طاقت اپنے میں نہیں پاتے ، گو سرفروش مجاہد علماء کرام نے انہیں ہر طرح ہمت بندھوائی ، وعظ کہے ، فرمایا کہ قلت و کثرت پر فتح موقوف نہیں صبر اور نیک نیتی پر ضرور اللہ کی امداد ہوتی ہے ۔ بار ہا ایسا ہوا ہے کہ مٹھی بھر لوگوں نے بڑی بڑی جماعتوں کو نیچا دکھا دیا ہے ، تم صبر کرو ، طبیعت میں استقلال اور عزم رکھو ، اللہ کے وعدوں پر نظریں رکھو ، اس صبر کے بدلے اللہ تمہارا ساتھ دے گا لیکن تاہم ان کے سرد دِل نہ گرمائے اور ان کی بزدلی دور نہ ہوئی ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

249۔ 1 یہ نہر اردن اور فلسطین کے درمیان ہے (ابن کثیر) 249۔ 2 اطاعت امیر ہر حال میں ضروری ہے تاہم دشمن سے معرکہ آرائی کے وقت تو اس کی اہمیت دو چند بلکہ صد چند ہوجاتی ہے دوسرے جنگ میں کامیابی کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ فوجی اس دوران بھوک پیاس اور دیگر تکلیفات کو نہایت حوصلے سے برداشت کرے۔ چناچہ ان دونوں باتوں کی تربیت اور امتحان کے لئے طالوت نے کہا کہ نہر پر تمہاری پہلی آزمائش ہوگی لیکن تنبیہ کے باوجود اکثریت نے پانی پی لیا۔ اس طرح نہ پینے والوں کی تعداد 313 بتائی گئی ہے جو اصحاب بدر کی تعداد ہے۔ واللہ عالم۔ 249۔ 3 ان اہل ایمان نے بھی ابتداء جب دشمن کی بڑی تعداد دیکھی تو اپنی قلیل تعداد کے پیش نظر اس رائے کا اظہار کیا جس پر ان کے علماء جو ان سے زیادہ پختہ یقین رکھنے والے تھے انہوں نے کہا کہ کامیابی تعداد کی کثرت اور اسلحہ کی فروانی پر منحصر نہیں بلکہ اللہ کی مشعیت اور اس کے اذن پر موقوف ہے اور اللہ کی تائید کے لئے صبر کا اہتمام ضروری ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣٤٨] چناچہ بادشاہ طالوت کی قیادت میں بنی اسرائیل کا ایک لشکر جرار جالوت کے مقابلہ میں نکل کھڑا ہوا۔ طالوتنے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ جس نے بزدلی دکھانا ہو وہ ہمارے ساتھ نہ نکلے۔ بنی اسرائیل زبانی باتوں میں بڑے دلیر تھے۔ چناچہ ان کی تعداد ستر ہزار ہوگئی راستہ میں ایک منزل پر پانی نہ ملا تو طالوت سے شکایت کی۔ طالوت نے کہا آگے ایک نہر آتو رہی ہے مگر تم لوگ اس میں سے سیر ہو کر پانی نہ پینا، صرف ایک آدھ گھونٹ پی لینا اور یہ تمہارے پروردگار کی طرف سے آزمائش ہے۔ کہ اگر تم اپنی پیاس بھی برداشت نہ کرسکے تو لڑائی میں کیا کارنامے سر انجام دو گے ؟ لہذا میں تو صرف اس آدمی کو اپنے ساتھ لے جاؤں گا جو اپنی پیاس کو برداشت کرے گا۔ چناچہ جب وہ نہر آئی تو سب نے سیر ہو کر پانی پی لیا اور بعضوں نے تو منہ ہی نہر میں ڈال دیا اور مویشیوں کی طرح پینے لگے۔ اس طرح یکدم کثیر مقدار میں پانی پینے سے ان کے بدن ٹوٹنے لگے اور تھوڑا سا فاصلہ چل کر گرپڑے اور کہنے لگے کہ اب ہمیں جالوت اور اس کے لشکر سے لڑنے کی تاب نہیں رہی۔- [٣٤٩] اور جن لوگوں نے اپنی پیاس برداشت کی تھی ان کی تعداد صرف تین سو تیرہ یا اس کے لگ بھگ تھی۔ انہیں صبر کرنے والوں میں بوڑھے نبی سموئیل، حضرت داؤد، ان کے باپ اور ان کے چھ بھائی شامل تھے اور بروایت براء بن عازب یہ وہی تعداد باقی رہ گئی تھی جتنی اصحاب بدر کی تھی (بخاری، کتاب المغازی، باب عدۃ اصحاب بدر) کجا ان زبانی شیخی بگھارنے والوں کی تعداد ستر ہزار تھی اور کجا ان میں سے خالص تین سو تیرہ رہ گئے، یعنی ہر دو ہزار میں سے صرف نو آدمی سچے مجاہد ثابت ہوئے۔ ان لوگوں کے حوصلے بلند تھے۔ صبر کرنے والے اور توکل کرنے والے تھے۔ وہ آپس میں کہنے لگے کہ اگر ہم تھوڑے سے باقی رہ گئے ہیں تو کوئی بات نہیں فتح و شکست اور زندگی اور موت سب اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ کئی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ اللہ تھوڑی سی صبر کرنے والی جماعت کو بہت بڑے لشکر کے مقابلہ میں فتح عطا کردیتا ہے کیونکہ اللہ کی مدد ان کے شامل حال ہوتی ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

فَلَمَّا فَصَلَ طَالُوْتُ بالْجُنُوْدِ ” بِالْجُنُوْدِ “ (لشکروں) کے لفظ سے ظاہر ہے کہ بنی اسرائیل کی بہت بڑی تعداد لڑنے کے لیے نکلی تھی۔ طالوت نے ان کی اطاعت، جفاکشی، بھوک پیاس اور میدان جنگ میں صبر کا امتحان لینا ضروری سمجھا، تاکہ صرف وہ شخص ساتھ جائے جس میں یہ صفات موجود ہوں، مگر اس امتحان میں تھوڑے سے لوگ کامیاب ہوئے، باقی نا کام ہوگئے۔ کامیاب ہونے والے نہر سے پار ہوئے تو دشمن کی تعداد دیکھ کر ان میں سے کچھ کمزور ایمان والے کہہ اٹھے کہ ہم میں آج جالوت اور اس کے لشکروں کے مقابلے کی طاقت نہیں، مگر پختہ ایمان والوں نے، جنھیں اللہ سے ملاقات کا یقین تھا، ان کی ہمت بندھائی کہ لڑائی میں قلت و کثرت فیصلہ کن نہیں ہوتی، اللہ کا حکم فیصلہ کن ہوتا ہے۔ بہت دفعہ ایسا ہوا ہے کہ جب اللہ کا حکم ہوتا ہے تو تھوڑی جماعتیں صبر و استقامت کی وجہ سے بڑی جماعتوں پر غالب آجاتی ہیں، کیونکہ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ امت محمدیہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں اس قسم کے بیشمار واقعات موجود ہیں۔ بدر، احد، خندق کو دیکھ لیجیے۔ جنگ موتہ میں مسلمان تین ہزار اور دشمن دو لاکھ تھا۔ (الرحیق المختوم، معرکہ موتہ) - براء بن عازب (رض) فرماتے ہیں، مجھے اصحاب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بتایا، جو بدر میں شریک تھے کہ ان کی تعداد طالوت کے ساتھیوں کے برابر تھی جو نہر سے پار ہوئے تھے، تین سو دس سے کچھ زیادہ۔ براء کہتے ہیں، اللہ کی قسم اس کے ساتھ کسی مومن کے سوا کوئی پار نہیں ہوا۔ [ بخاری، المغازی، باب عدۃ أصحاب بدر : ٣٩٥٧ ]

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(٣) قَالَ اِنَّ اللّٰهَ مُبْتَلِيْكُمْ بِنَهَرٍ اس امتحان کی حکمت اور توجیہ احقر کے ذوق میں یہ معلوم ہوتی ہے کہ ایسے مواقع پر جوش و خروش میں بھیڑ بھڑکا بہت ہوجایا کرتا ہے لیکن وقت پر جمنے والے کم ہوتے ہیں اور اس وقت ایسوں کا اکھڑ جانا باقی لوگوں کے پاؤں بھی اکھاڑ دیتا ہے، اللہ تعالیٰ کو ایسے لوگوں کا علیحدہ کرنا منظور تھا اس کا یہ امتحان مقرر کیا گیا جو کہ نہایت ہی مناسب ہے کیونکہ قتال میں ضرورت استقلال وجفاکشی کی ہوتی ہے سو شدت پیاس کے وقت بےمنت پانی ملنے پر ضبط کرنا دلیل استقلال کی اور اندھے باؤ لوں کی طرح جا گرنا دلیل بےاستقلالی کی ہے، آگے خرق عادت ہے کہ زیادہ پانی پینے والے غیبی طور پر بھی زیادہ بیکار اور ازکار رفتہ ہوگئے جیسا روح المعانی میں بسند ابن ابی حاتم حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے اور اس قصے میں جو احوال و اقوال مذکور ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں تین قسم کے لوگ تھے، ناقص الایمان جو امتحان میں پورے نہ اترے اور کامل جو امتحان میں پورے اترے مگر اپنی قلت کی فکر ہوئی اور اکمل جن کو یہ بھی فکر نہیں ہوئی۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَلَمَّا فَصَلَ طَالُوْتُ بِالْجُـنُوْدِ۝ ٠ ۙ قَالَ اِنَّ اللہَ مُبْتَلِيْكُمْ بِنَہَرٍ۝ ٠ ۚ فَمَنْ شَرِبَ مِنْہُ فَلَيْسَ مِنِّىْ۝ ٠ ۚ وَمَنْ لَّمْ يَطْعَمْہُ فَاِنَّہٗ مِنِّىْٓ اِلَّا مَنِ اغْتَرَفَ غُرْفَۃًۢ بِيَدِہٖ۝ ٠ ۚ فَشَرِبُوْا مِنْہُ اِلَّا قَلِيْلًا مِّنْہُمْ۝ ٠ ۭ فَلَمَّا جَاوَزَہٗ ھُوَوَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ۝ ٠ ۙ قَالُوْا لَا طَاقَۃَ لَنَا الْيَوْمَ بِجَالُوْتَ وَجُنُوْدِہٖ۝ ٠ ۭ قَالَ الَّذِيْنَ يَظُنُّوْنَ اَنَّہُمْ مُّلٰقُوا اللہِ۝ ٠ ۙ كَمْ مِّنْ فِئَۃٍ قَلِيْلَۃٍ غَلَبَتْ فِئَۃً كَثِيْرَۃًۢ بِـاِذْنِ اللہِ۝ ٠ ۭ وَاللہُ مَعَ الصّٰبِرِيْنَ۝ ٢٤٩- لَمَّا - يستعمل علی وجهين :- أحدهما : لنفي الماضي وتقریب الفعل . نحو : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران 142] . والثاني : عَلَماً للظّرف نحو : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف 96] أي : في وقت مجيئه، وأمثلتها تکثر .- ( لما ( حرف ) یہ دوطرح پر استعمال ہوتا ہے زمانہ ماضی میں کسی فعل کی نفی اور اس کے قریب الوقوع ہونے کے لئے جیسے فرمایا : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران 142] حالانکہ ابھی خدا نے تم میں سے جہاد کرنے والوں کو اچھی طرح معلوم کیا ہی نہیں ۔ اور کبھی یہ اسم ظرف ک طورپر استعمال ہوتا ہے ۔ اور یہ قرآن میں بکژت آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف 96] جب خوشخبری دینے والا آپہنچا۔- طلت - طَالُوتٌ اسمٌ أعجميٌّ.- جند - يقال للعسکر الجُنْد اعتبارا بالغلظة، من الجند، أي : الأرض الغلیظة التي فيها حجارة ثم يقال لكلّ مجتمع جند، نحو : «الأرواح جُنُودٌ مُجَنَّدَة» «2» . قال تعالی: إِنَّ جُنْدَنا لَهُمُ الْغالِبُونَ [ الصافات 173] - ( ج ن د ) الجند - کے اصل معنی سنگستان کے ہیں معنی غفلت اور شدت کے اعتبار سے لشکر کو جند کہا جانے لگا ہے ۔ اور مجازا ہر گروہ اور جماعت پر جند پر لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے ( حدیث میں ہے ) کہ ارواح کئ بھی گروہ اور جماعتیں ہیں قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ جُنْدَنا لَهُمُ الْغالِبُونَ [ الصافات 173] اور ہمارا لشکر غالب رہے گا ۔- ابتلاء - وإذا قيل : ابْتَلَى فلان کذا وأَبْلَاهُ فذلک يتضمن أمرین : أحدهما تعرّف حاله والوقوف علی ما يجهل من أمره، والثاني ظهور جو دته ورداء ته، وربما قصد به الأمران، وربما يقصد به أحدهما، فإذا قيل في اللہ تعالی: بلا کذا وأبلاه فلیس المراد منه إلا ظهور جو دته ورداء ته، دون التعرف لحاله، والوقوف علی ما يجهل من أمره إذ کان اللہ علّام الغیوب، وعلی هذا قوله عزّ وجل : وَإِذِ ابْتَلى إِبْراهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِماتٍ فَأَتَمَّهُنَّ [ البقرة 124] .- ويقال : أَبْلَيْتُ فلانا يمينا : إذا عرضت عليه الیمین لتبلوه بها «3» .- ( کسی کا امتحان کرنا ) یہ دو امر کو متضمن ہوتا ہے ( 1) تو اس شخص کی حالت کو جانچنا اور اس سے پوری طرح باخبر ہونا مقصود ہوتا ہے دوسرے ( 2 ) اس کی اچھی یا بری حالت کو دوسروں کے سامنے ظاہر کرنا ۔ پھر کبھی تو یہ دونوں معنی مراد ہوتے ہیں اور کبھی صرف ایک ہی معنی مقصود ہوتا ہے ۔ جب اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف تو صرف دوسرے معنی مراد ہوتے ہیں یعنی اس شخص لہ خوبی یا نقص کو دوسروں کے سامنے ظاہر کرنا مقصود ہوتا ہے ۔ کیونکہ ذات ہے اسے کسی کی حالت سے باخبر ہونے کی ضرورت نہیں لہذا آیت کریمہ : وَإِذِ ابْتَلى إِبْراهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِماتٍ فَأَتَمَّهُنَّ [ البقرة 124] اور پروردگار نے چند باتوں میں ابراھیم کی آزمائش کی تو وہ ان میں پورے اترے ۔ دوسری معنی پر محمول ہوگی ( یعنی حضرت ابراھیم کے کمالات کو دوسروں کے سامنے ظاہر کرنا مقصود تھا ) ابلیت فلانا یمینا کسی سے آزمائش قسم لینا ۔- نهر - النَّهْرُ : مَجْرَى الماءِ الفَائِضِ ، وجمْعُه : أَنْهَارٌ ، قال تعالی: وَفَجَّرْنا خِلالَهُما نَهَراً [ الكهف 33] ، - ( ن ھ ر ) النھر - ۔ بافراط پانی بہنے کے مجری کو کہتے ہیں ۔ کی جمع انھار آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : وَفَجَّرْنا خِلالَهُما نَهَراً [ الكهف 33] اور دونوں میں ہم نے ایک نہر بھی جاری کر رکھی تھی ۔- شرب - الشُّرْبُ : تناول کلّ مائع، ماء کان أو غيره . قال تعالیٰ في صفة أهل الجنّة : وَسَقاهُمْ رَبُّهُمْ شَراباً طَهُوراً [ الإنسان 21] ، وقال في صفة أهل النّار : لَهُمْ شَرابٌ مِنْ حَمِيمٍ [يونس 4] ، وجمع الشَّرَابُ أَشْرِبَةٌ- ( ش ر ب ) الشراب - کے معنی پانی یا کسی اور مائع چیز کو نوش کرنے کے ہیں ۔ قرآن نے ہی جنت کے متعلق فرمایا : ۔ وَسَقاهُمْ رَبُّهُمْ شَراباً طَهُوراً [ الإنسان 21] اور ان کا پروردگار انہیں نہایت پاکیزہ شراب پلائیگا ۔ اور اہل دوزخ کے متعلق فرمایا : ۔ لَهُمْ شَرابٌ مِنْ حَمِيمٍ [يونس 4] ان کے لئے پینے کو کھولتا ہوا پانی ۔ شراب کی جمع اشربۃ ہے اور شربتہ شربا وشربا کے معنی پینے کے ہیں - طعم - الطَّعْمُ : تناول الغذاء، ويسمّى ما يتناول منه طَعْمٌ وطَعَامٌ. قال تعالی: وَطَعامُهُ مَتاعاً لَكُمْ [ المائدة 96] ، قال : وقد اختصّ بالبرّ فيما روی أبو سعید «أنّ النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم أمر بصدقة الفطر صاعا من طَعَامٍ أو صاعا من شعیر» «2» . قال تعالی: وَلا طَعامٌ إِلَّا مِنْ غِسْلِينٍ [ الحاقة 36] ، - ( ط ع م ) الطعم - ( س) کے معنی غذا کھانے کے ہیں ۔ اور ہر وہ چیز جو بطورغذا کھائی جائے اسے طعم یا طعام کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَطَعامُهُ مَتاعاً لَكُمْ [ المائدة 96] اور اس کا طعام جو تمہارے فائدہ کے لئے ۔ اور کبھی طعام کا لفظ خاص کر گیہوں پر بولا جاتا ہے جیسا کہ ابوسیعد خدری سے ۔ روایت ہے ان النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) امر بصدقۃ الفطر صاعا من طعام اوصاعا من شعیر ۔ کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صدقہ فطر میں ایک صحابی طعام یا ایک صاع جو د ینے کے حکم دیا ۔ قرآن میں ہے : وَلا طَعامٌ إِلَّا مِنْ غِسْلِينٍ [ الحاقة 36] اور نہ پیپ کے سوا ( اس کے ) لئے کھانا ہے - غرف - الْغَرْفُ : رفع الشیء وتناوله، يقال : غَرَفْتُ الماء والمرق، والْغُرْفَةُ : ما يُغْتَرَفُ ، والْغَرْفَةُ للمرّة، والْمِغْرَفَةُ : لما يتناول به . قال تعالی:إِلَّا مَنِ اغْتَرَفَ غُرْفَةً بِيَدِهِ [ البقرة 249] ، ومنه استعیر : غَرَفْتُ عرف الفرس : إذا جززته «3» ، وغَرَفْتُ الشّجرةَ ، والْغَرَفُ : شجر معروف، وغَرَفَتِ الإبل : اشتکت من أكله «4» ، والْغُرْفَةُ : علّيّة من البناء، وسمّي منازل الجنّة غُرَفاً. قال تعالی: أُوْلئِكَ يُجْزَوْنَ الْغُرْفَةَ بِما صَبَرُوا[ الفرقان 75] ، وقال : لَنُبَوِّئَنَّهُمْ مِنَ الْجَنَّةِ غُرَفاً [ العنکبوت 58] ، وَهُمْ فِي الْغُرُفاتِ آمِنُونَ [ سبأ 37] .- ( غ ر ف ) الغرف ( ض) کے معنی کسی چیز کو اٹھانے اور کڑنے کے ہیں جیسے غرفت الماء لنا لمرق ہیں نے پانی یا شوربہ لیا ) اور غرفۃ کے معنی چلو پھر پانی کے ہیں اور الغرفۃ ایک مرتبہ چلو سے پانی نکالنا المخرفۃ چمچہ وغیرہ جس سے شوربہ وغیرہ نکال کر برتن میں ڈالا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے :إِلَّا مَنِ اغْتَرَفَ غُرْفَةً بِيَدِهِ [ البقرة 249] ہاں اگر کوئی ہاتھ سے چلو پھر پانی لے لے ( تو خیر) اسی سے بطور استعارہ کہاجاتا ہے غرفت عرف الفرس میں نے گھوڑے کی پیشانی کے بال کاٹ ڈالے غرفت الشجرۃ میں نے درخت کی ٹہنیوں کو کاٹ ڈالا ۔ الغرف ایک قسم کا پودا جس سے چمڑے کو دباغت دی جاتی ہے ) غرفت الابل اونٹ غرف کھا کر بیمار ہوگئے ۔ الغرفۃ بلا خانہ ( جمع غرف وغرفات قرآن میں ) جنت کے منازل اور درجات کو الغرف کہا گیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : أُوْلئِكَ يُجْزَوْنَ الْغُرْفَةَ بِما صَبَرُوا[ الفرقان 75] ان صفات کے لوگوں کو ان کے صبر کے بدلے اونچے اونچے محل دیئے جائیں گے ۔ لَنُبَوِّئَنَّهُمْ مِنَ الْجَنَّةِ غُرَفاً [ العنکبوت 58] ان کو ہم بہشت کے اونچے اونچے محلوں میں جگہ دیں گے ۔ وَهُمْ فِي الْغُرُفاتِ آمِنُونَ [ سبأ 37] اور وہ خاطر جمع سے بالا خانوں میں بیٹھے ہوں گے ۔- يد - الْيَدُ : الجارحة، أصله : وقوله : فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم 9] ،- ( ی د ی ) الید - کے اصل معنی تو ہاتھ کے ہیں یہ اصل میں یدی ( ناقص یائی ) ہے کیونکہ اس کی جمع اید ویدی اور تثنیہ یدیان اور آیت کریمہ : ۔ فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم 9] تو انہوں نے اپنے ہاتھ ان کے مونہوں پر رکھ دئے ۔ - جاوز - قال تعالی: فَلَمَّا جاوَزَهُ هُوَ [ البقرة 249] ، أي : تجاوز جوزه، وقال : وَجاوَزْنا بِبَنِي إِسْرائِيلَ الْبَحْرَ [ الأعراف 138] ، وجَوْزُ الطریق : وسطه، وجاز الشیء كأنه لزم جوز الطریق، وذلک عبارة عمّا يسوغ، وجَوْزُ السماء : وسطها، والجوزاء قيل : سمیت بذلک لاعتراضها في جوز السماء، وشاة جوزاء أي : ابیضّ وسطها، وجُزْتُ المکان : ذهبت فيه، وأَجَزْتُهُ :- أنفذته وخلّفته، وقیل : استجزت فلانا فأجازني :- إذا استسقیته فسقاک، وذلک استعارة، والمَجَاز - من الکلام ما تجاوز موضعه الذي وضع له، والحقیقة ما لم يتجاوز ذلك .- ( ج و ز )- جو ز اطریق کے معنی راستہ کے وسط کے ہیں اسی سے جازاشئیء ہے جو کسی چیز کے جائز یا خوشگوار ہونے کی ایک تعبیر ہے گو یا ۔ اس نے وسط طریق کو لازم پکرا ۔ جو اسماء وسط آسمان ۔ الجوزاء آسمان کے ایک برج کا نام ہے کیونکہ وہ بھی وسط آسمان میں ہے سیاہ بھیڑ جس کے وسط میں سفیدی ہو ۔ ( جاوزہ کسی چیز کے وسط میں سفیدی ہو ۔ ( جاوزہ کسی چیز کے وسط سے آگے گزر جانا ؟ قرآن میں ہے فَلَمَّا جاوَزَهُ هُوَ [ البقرة 249] پھر جب وہ حضرت طالوت ) اس دریا کے وسط سی آگے گزر گئے یعنی پار ہوگئے ۔ وَجاوَزْنا بِبَنِي إِسْرائِيلَ الْبَحْرَ [ الأعراف 138] اور ہم نے بنی اسرائیل کو دریا سے پار کردیا ۔ جزت المکان کسی جگہ میں گزرنا ۔ اجزتہ میں نے اسے نافذ کردیا اس کو پیچھے چھوڑدیا ۔ ( میں نے اس سے ( جانوروں یا کھیتی کے لئے ) پانی طلب کیا چناچہ اس نے مجھے دے دیا ۔ یہ بطور استعارہ استعمال ہوتا ہے ۔ اور کسی لفظ کا حقیقی معنی وہ ہوتا ہے جو اپنے وضعی معنی میں استعمال ہو اور اس سے تجاوز نہ کرے ورنہ اسے مجازا کہتے ہیں )- طاقت - وقد يعبّر بنفي الطَّاقَةِ عن نفي القدرة . وقوله : وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعامُ مِسْكِينٍ [ البقرة 184] ، ظاهره يقتضي أنّ المُطِيقَ له يلزمه فدية أفطر أو لم يفطر، لکن أجمعوا أنه لا يلزمه إلّا مع شرط آخر وروي :( وعلی الّذين يُطَوَّقُونَهُ ) أي : يُحَمَّلُونَ أن يَتَطَوَّقُوا .- اور کبھی طاقتہ کی نفی سے قدرت کا انکار مراد ہوتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعامُ مِسْكِينٍ [ البقرة 184] اور جو لوگ روزہ رکھنے کی طاقت رکھیں ( لیکن رکھیں نہیں ) وہ روزے کے بدلے محتاج کو کھانا کھلا دیں ۔ کے بظاہر معنی تو یہی ہیں کہ جو شخص روزہ کی طاقت رکھتا ہو اس پر فدیہ لازم ہے خواہ روزہ رکھے یا نہ رکھے مگر اس امر پر اجماع ہوچکا ہے کہ صرف دوسری شروط کے ساتھ فدیہ یعنی جن پر ذمہ داری ڈالی گئی ہے کہ وہ مشقت روزہ رکھیں ۔- جلت - قال تعالی: وَلَمَّا بَرَزُوا لِجالُوتَ وَجُنُودِهِ [ البقرة 250] ، وذلک أعجميّ لا أصل له في العربية . ( ج ل ت ) جالوت یہ اسم عجمی ہے عربی میں اس کی اصل نہیں قرآن میں ہے : ۔ وَلَمَّا بَرَزُوا لِجالُوتَ وَجُنُودِهِ [ البقرة 250] اور جب وہ لوگ جالوت اور اس کے لشکر کے مقابل میں آئے ۔- ظن - والظَّنُّ في كثير من الأمور مذموم، ولذلک قال تعالی: وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس 36] ، وَإِنَّ الظَّنَ [ النجم 28] ، وَأَنَّهُمْ ظَنُّوا كَما ظَنَنْتُمْ [ الجن 7] ،- ( ظ ن ن ) الظن - اور ظن چونکہ عام طور پر برا ہوتا ہے اس لئے اس کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا : وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس 36] اور ان میں کے اکثر صرف ظن کی پیروی کرتے ہیں ۔ - لقی - اللِّقَاءُ : مقابلة الشیء ومصادفته معا، وقد يعبّر به عن کلّ واحد منهما، يقال : لَقِيَهُ يَلْقَاهُ لِقَاءً ولُقِيّاً ولُقْيَةً ، ويقال ذلک في الإدراک بالحسّ ، وبالبصر، وبالبصیرة . قال : لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ [ آل عمران 143] ، وقال : لَقَدْ لَقِينا مِنْ سَفَرِنا هذا نَصَباً [ الكهف 62] . ومُلَاقَاةُ اللہ عز وجل عبارة عن القیامة، وعن المصیر إليه . قال تعالی:- وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ [ البقرة 223] - ( ل ق ی ) لقیہ ( س)- یلقاہ لقاء کے معنی کسی کے سامنے آنے اور اسے پالینے کے ہیں اور ان دونوں معنی میں سے ہر ایک الگ الگ بھی بولاجاتا ہے اور کسی چیز کا حس اور بصیرت سے ادراک کرلینے کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ [ آل عمران 143] اور تم موت ( شہادت ) آنے سے پہلے اس کی تمنا کیا کرتے تھے اور ملاقات الہی سے مراد قیامت کا بپا ہونا اور اللہ تعالیٰ کے پاس چلے جانا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ [ البقرة 223] اور جان رکھو کہ ایک دن تمہیں اس کے دوبرو حاضر ہونا ہے ۔- كم - كَمْ : عبارة عن العدد، ويستعمل في باب الاستفهام، وينصب بعده الاسم الذي يميّز به نحو : كَمْ رجلا ضربت ؟ ويستعمل في باب الخبر، ويجرّ بعده الاسم الذي يميّز به . نحو : كَمْ رجلٍ. ويقتضي معنی الکثرة، وقد يدخل «من» في الاسم الذي يميّز بعده . نحو : وَكَمْ مِنْ قَرْيَةٍ أَهْلَكْناها[ الأعراف 4] ، وَكَمْ قَصَمْنا مِنْ قَرْيَةٍ كانَتْ ظالِمَةً [ الأنبیاء 11] ، والکُمُّ : ما يغطّي الید من القمیص، والْكِمُّ ما يغطّي الثّمرةَ ، وجمعه : أَكْمَامٌ. قال : وَالنَّخْلُ ذاتُ الْأَكْمامِ [ الرحمن 11] . والْكُمَّةُ : ما يغطّي الرأس کالقلنسوة .- کم یہ عدد سے کنایہ کے لئے آتا ہے اور یہ دو قسم پر ہے ۔ استفہامیہ اور خبریہ ۔ استفہامیہ ہوتا اس کا مابعد اسم تمیزبن کر منصوب ہوتا ( اور اس کے معنی کتنی تعداد یا مقدار کے ہوتے ہیں ۔ جیسے کم رجلا ضربت اور جب خبریہ ہو تو اپنی تمیز کی طرف مضاف ہوکر اسے مجرور کردیتا ہے اور کثرت کے معنی دیتا ہے یعنی کتنے ہی جیسے کم رجل ضربت میں نے کتنے ہی مردوں کو پیٹا اور اس صورت میں کبھی اس کی تمیز پر من جارہ داخل ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَكَمْ مِنْ قَرْيَةٍ أَهْلَكْناها[ الأعراف 4] اور کتنی ہی بستیاں ہیں کہ ہم نے تباہ کروالیں ۔ وَكَمْ قَصَمْنا مِنْ قَرْيَةٍ كانَتْ ظالِمَةً [ الأنبیاء 11] اور ہم نے بہت سے بستیوں کو جو ستم گار تھیں ہلاک کر ڈالا ۔- فِئَةُ ( جماعت)- والفِئَةُ : الجماعة المتظاهرة التي يرجع بعضهم إلى بعض في التّعاضد . قال تعالی:- إِذا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا [ الأنفال 45] ، كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً [ البقرة 249] ، فِي فِئَتَيْنِ الْتَقَتا[ آل عمران 13] ، فِي الْمُنافِقِينَ فِئَتَيْنِ [ النساء 88] ، مِنْ فِئَةٍ يَنْصُرُونَهُ [ القصص 81] ، فَلَمَّا تَراءَتِ الْفِئَتانِ نَكَصَ عَلى عَقِبَيْهِ [ الأنفال 48]- الفئۃ اس جماعت کو کہتے ہیں جس کے افراد تعاون اور تعاضد کے لئے ایک دوسرے کیطرف لوٹ آئیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِذا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا [ الأنفال 45] جب ( کفار کی ) کسی جماعت سے تمہارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو ۔ كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً [ البقرة 249] بسا اوقات تھوڑی سی جماعت نے ۔۔۔۔۔ بڑی جماعت پر فتح حاصل کی ۔ فِي فِئَتَيْنِ الْتَقَتا[ آل عمران 13] دو گر ہوں میں جو ( جنگ بدد میں ) آپس میں بھڑ گئے ۔ فِي الْمُنافِقِينَ فِئَتَيْنِ [ النساء 88] کہ تم منافقوں کے بارے میں دو گر وہ ۔ مِنْ فِئَةٍ يَنْصُرُونَهُ [ القصص 81] کوئی جماعت اس کی مددگار نہ ہوسکی فَلَمَّا تَراءَتِ الْفِئَتانِ نَكَصَ عَلى عَقِبَيْهِ [ الأنفال 48] جب یہ دونوں فوجیں ایک دوسرے کے مقابلے میں صف آر ہوئیں ۔- غلب - الغَلَبَةُ القهر يقال : غَلَبْتُهُ غَلْباً وغَلَبَةً وغَلَباً «4» ، فأنا غَالِبٌ. قال تعالی: الم غُلِبَتِ الرُّومُ فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ [ الروم 1- 2- 3]- ( غ ل ب ) الغلبتہ - کے معنی قہرا اور بالادستی کے ہیں غلبتہ ( ض ) غلبا وغلبتہ میں اس پر مستول اور غالب ہوگیا اسی سے صیغہ صفت فاعلی غالب ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ الم غُلِبَتِ الرُّومُ فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ [ الروم 1- 2- 3] الم ( اہل ) روم مغلوب ہوگئے نزدیک کے ملک میں اور وہ مغلوب ہونے کے بعد عنقریب غالب ہوجائیں گے - وأَذِنَ :- استمع، نحو قوله : وَأَذِنَتْ لِرَبِّها وَحُقَّتْ [ الانشقاق 2] ، ويستعمل ذلک في العلم الذي يتوصل إليه بالسماع، نحو قوله : فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ [ البقرة 279] .- ( اذ ن) الاذن - اور اذن ( الیہ ) کے معنی تو جہ سے سننا کے ہیں جیسے فرمایا ۔ وَأَذِنَتْ لِرَبِّهَا وَحُقَّتْ ( سورة الِانْشقاق 2 - 5) اور وہ اپنے پروردگار کا فرمان سننے کی اور اسے واجب بھی ہے اور اذن کا لفظ اس علم پر بھی بولا جاتا ہے جو سماع سے حاصل ہو ۔ جیسے فرمایا :۔ فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللهِ وَرَسُولِهِ ( سورة البقرة 279) تو خبردار ہوجاؤ کہ ندا اور رسول سے تمہاری چنگ ہے ۔ - صبر - الصَّبْرُ : الإمساک في ضيق، والصَّبْرُ : حبس النّفس علی ما يقتضيه العقل والشرع، أو عمّا يقتضیان حبسها عنه، وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب 35] ، وسمّي الصّوم صبرا لکونه کالنّوع له، وقال عليه السلام :«صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر»- ( ص ب ر ) الصبر - کے معنی ہیں کسی کو تنگی کی حالت میں روک رکھنا ۔ لہذا الصبر کے معنی ہوئے عقل و شریعت دونوں یا ان میں سے کسی ایک کے تقاضا کے مطابق اپنے آپ کو روک رکھنا ۔ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب 35] صبر کرنے والے مرو اور صبر کرنے والی عورتیں اور روزہ کو صبر کہا گیا ہے کیونکہ یہ بھی ضبط نفس کی ایک قسم ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا «صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر»- ماه رمضان اور ہر ماہ میں تین روزے سینہ سے بغض کو نکال ڈالتے ہیں

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے (فمن شرب منہ فلیس منی ومن لم یطعمہ فانہ منی لا من اغترف غرفۃ بیدہ، ( ) جو اس کا پانی پئے گا وہ میرا ساتھی نہیں۔ میرا ساتھی صرف وہ ہے جو اس سے پیاس نہ بجھائے۔ ہاں ایک آدھ کلو کوئی پی لے تو پی لے) آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ دریا سے پینے سے مراد منہ لگاکر اور اپنے ہونٹ پانی پر رکھ کر پنا ہے۔ اس لئے کہ آیت میں دریا سے پینے اور پیاس بجھانے کی ممانعت تھی۔ البتہ ایک آدھ چلو بھر لینے کی اجازت تھی۔- یہ تشریح امام ابوحنیفہ کے قول کی صحت پر دلالت کرتی ہے کہ اگر کوئی شخص یہ کہے۔ ” میں نے اگر دریائے فرات سے پانی پی لیا تو میرا غلام آزاد ہے۔ “ تو اسے منہ لگاکر پینے پر محمول کیا جائے گا۔ اگر اس نے چلو بھر کر یا کسی برتن میں ڈال کر دریا کا پانی پی لیا تو حانث نہیں ہوگا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آیت میں انہیں دریا سے پانی پینے کی ممانعت کردی تھی اور اس کے ساتھ ساتھ پیاس بجھانے سے بھی انہیں روک دیا گیا تھا۔ لیکن اس سے چلو بھر لینے کو مستثنیٰ کردیا گیا تھا۔ اس لئے شرب یعنی پانی پینے کی ممانعت بحالہ باقی رہی اس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ چلو بھر لینا شرب میں داخل نہیں ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢٤٩) جب حضرت طالوت لشکر لے کر روانہ ہوئے تو انہیں چٹیل زمین سے واسطہ پڑا جہاں گرمی اور پیاس کی سخت شدت تھی، انہوں نے پانی مانگا، طالوت نے کہا کہ اللہ تعالیٰ ایک جاری نہر سے تمہیں آزمائے گا، سو جو شخص اس نہر سے زیادہ پانی پیئے گا وہ تو میرے ساتھ میرے دشمن کے مقابلے کے لیے نہیں جائے گا اور نہ اس نہر کو پار کرسکے گا - اور جو اس میں سے نہیں پیئے گا وہ میرے ساتھ ہوگا لیکن جو شخص اپنے ہاتھ سے ایک چلو بھر لے، (آیت) ” غرفۃ “۔ غین کی زبر کے ساتھ پڑھا جائے تو اس میں ایک چلو مراد ہوگا، جو ان کی پیاس اور ان کے جانوروں کے لیے کافی ہوجائے گا، چناچہ جب لوگ نہر پر پہنچے تو نہر تو نہر کے کنارے پر کھڑے ہو کر سب نے بہت زیادہ پانی پینا شروع کردیا مگر تین سو تیرہ آدمیوں نے احتیاط کی اور حکم الہی کے مطابق انہوں نے اس میں سے پانی پیا، چناچہ جب طالوت اور سچے حضرات نے نہر کو پار کرلیا تو آپس میں کہنے لگے کہ آج تو جالوت کے مقابلہ کی طاقت معلوم نہیں ہوتی، لیکن جن حضرات کو اس بات کا علم اور یقین تھا کہ مرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہونا ہے، وہ کہنے لگے کہ ایسے واقعات بہت گزر چکے ہیں کہ حکم الہی سے بہت سی اہل حق کی چھوٹی جماعتیں باطل کے بڑے بڑے لشکروں پر غالب آگئی ہیں اور لڑائی میں استقامت والوں کے ساتھ اللہ کی مدد شامل حال ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٤٩ ( فَلَمَّا فَصَلَ طَالُوْتُ بالْجُنُوْدِ لا) (قَالَ اِنَّ اللّٰہَ مُبْتَلِیْکُمْ بِنَہَرٍج ) (فَمَنْ شَرِبَ مِنْہُ فَلَیْسَ مِنِّیْ ج ) (وَمَنْ لَّمْ یَطْعَمْہُ فَاِنَّہٗ مِنِّیْ ) ( اِلاَّ مَنِ اغْتَرَفَ غُرْفَۃًم بِیَدِہٖج ) - اصل میں ہر کمانڈر کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ کسی بھی بڑی جنگ سے پہلے اپنے ساتھیوں کے جوش و جذبہ اور عزم و حوصلہ ‘ ( ) کو پرکھے اور نظم ‘ ( ) کی حالت کو دیکھے۔ چناچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی غزوۂ بدر سے قبل مشاورت کی تھی کہ مسلمانو ایک طرف جنوب سے کیل کانٹے سے لیس ایک لشکر آ رہا ہے اور دوسری طرف شمال سے مال و اسباب سے لدا پھندا ایک قافلہ آ رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ ان دونوں میں سے ایک تمہیں ضرور ملے گا۔ بتاؤ کدھر چلیں ؟ کچھ لوگ جو کمزوری دکھا رہے تھے انہوں نے کہا کہ چلیں پہلے قافلہ لوٹ لیں اور جو لوگ باہمت تھے انہوں نے کہا حضور جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارادہ ہو ‘ جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ‘ کی منشا ہو ‘ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے مطابق فیصلہ فرمایئے ‘ ہم حاضر ہیں تو یہاں بھی طالوت نے اپنے لشکریوں کا ٹیسٹ لیا کہ وہ میرے حکم کی پابندی کرتے ہیں یا نہیں کرتے۔- (فَشَرِبُوْا مِنْہُ ) (اِلاَّ قَلِیْلاً مِّنْہُمْ ط) (فَلَمَّا جَاوَزَہٗ ہُوَ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ لا) - واضح رہے کہ سب سے پہلی سکریننگ قبل ازیں ہوچکی تھی۔ ان میں سے جو قتال ہی کے منکر ہوگئے ‘ تھے وہ پہلے ہی الگ ہوچکے تھے۔ اب یہ دوسری چھلنی تھی۔ جو اس میں سے نہیں نکل سکے وہ پانی پی کر بےسدھ ہوگئے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے غزوۂ احد میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ایک ہزار آدمی مدینہ منورہ سے نکلے تھے اور پھر عین وقت پر تین سو افراد ساتھ چھوڑ کر چلے گئے۔ تو جب طالوت اور ان کے ان ساتھیوں نے جو ایمان پر ثابت قدم رہے تھے ‘ دریا پار کرلیا۔۔- (قَالُوْا لاَ طَاقَۃَ لَنَا الْیَوْمَ بِجَالُوْتَ وَجُنُوْدِہٖ ط) ۔ - جالوت ‘ ( ) بڑا قوی ہیکل اور گرانڈیل انسان تھا۔ زرہ بکتر میں اس کا پورا جسم اس طرح چھپا ہوا تھا کہ سوائے آنکھ کے سوراخ کے جسم کا کوئی حصہ کھلا نہیں تھا۔ اس کی مبارزت کے جواب میں کوئی بھی مقابلے پر نہیں آ رہا تھا۔- (قَالَ الَّذِیْنَ یَظُنُّوْنَ اَنَّہُمْ مُّلٰقُوا اللّٰہِ لاکَمْ مِّنْ فِءَۃٍ قَلِیْلَۃٍ غَلَبَتْ فِءَۃً کَثِیْرَۃًم بِاِذْنِ اللّٰہِ ط) ۔- سو تم آگے بڑھو ‘ ہمت کرو ‘ اپنی کم ہمتی کا ثبوت نہ دو ۔ اللہ تعالیٰ کی نصرت اور مدد سے تمہیں فتح حاصل ہوجائے گی۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :271 ممکن ہے اس سے مراد دریائے اردن ہو یا کوئی اور ندی یا نالہ ۔ طالوت بنی اسرائیل کے لشکر کو لے کر اس کے پار اترنا چاہتا تھا ، مگر چونکہ اسے معلوم تھا کہ اس کی قوم کے اندر اخلاقی انضباط بہت کم رہ گیا ہے ، اس لیے اس نے کار آمد اور ناکارہ لوگوں کو ممیز کرنے کے لیے یہ آزمائش تجویز کی ۔ ظاہر ہے کہ جو لوگ تھوڑی دیر کے لیے اپنی پیاس تک ضبط نہ کر سکیں ، ان پر کیا بھروسہ کیا جا سکتا ہے کہ اس دشمن کے مقابلے میں پامردی دکھائیں گے جس سے پہلے ہی وہ شکست کھا چکے ہیں ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :272 غالباً یہ کہنے والے وہی لوگ ہوں گے ، جنہوں نے دریا پر پہلے ہی اپنی بے صبری کا مظاہرہ کر دیا تھا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

167: یہ دریائے اردن تھا اور یہ امتحان بظاہر یہ دیکھنے کے لئے لیا گیا تھا کہ لشکر کے کتنے لوگ ہیں جو اپنے امیر کی اطاعت کا ایسا جذبہ رکھتے ہیں کہ اس پر اپنی خواہشات کو بھی قربان کردیں کیونکہ اس طرح کی جنگ میں ایسی مضبوط اطاعت کے بغیر کام نہیں چلتا۔