ابراہیم علیہ السلام اور نمرود کا آمنا سامنا اس بادشاہ کا نام نمرود بن کنعان بن سام بن نوح تھا اس کا پایہ تخت بابل تھا اس کے نسب میں کچھ اختلاف بھی ہے ، حضرت مجاہد فرماتے ہیں دنیا کی مشرق مغرب کی سلطنت رکھنے والے چار ہوئے جن میں سے دو مومن اور دو کافر ، حضرت سلیمان بن داؤد اور حضرت ذوالقرنین ، اور کافروں میں نمرود اور بخت نصر ، فرمان ہوتا ہے کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تم نے اسے نہیں دیکھا ، جو حضرت ابراہیم سے وجود باری تعالیٰ میں مباحثہ کرنے لگا ، یہ شخص خود اللہ ہونے کا مدعی تھا ، جیسا اس کے بعد فرعون نے بھی اپنے والوں میں دعویٰ کیا تھا کہ میں اپنے سوا کسی کو تمہارا رب نہیں جانتا ، چونکہ ایک مدت مدید اور عرصہ بعید سے یہ بادشاہ چلا آتا تھا اس لئے دماغ میں رعونت اور انانیت آ گئی تھی ، سرکشی اور تکبر ، نخوت اور غرور طبیعت میں سما گیا تھا ، بعض لوگ کہتے ہیں چار سو سال تک حکومت کرتا رہا تھا ، حضرت ابراہیم سے جب اس نے وجود باری تعالیٰ پر دلیل مانگی تو آپ نے نیست سے ہست اور ہست سے نیست کرنے کی دلیل دی جو ایک بدیہی اور مثل آفتاب روشن دلیل تھی کہ موجودات کا پہلے کچھ نہ ہونا پھر ہونا پھر مٹ جانا کھلی دلیل ہے ۔ موجد اور پیدا کرنے والے کے موجود ہونے کی اور وہی اللہ ہے ، نمرود نے جواباً کہا کہ یہ تو میں بھی کرتا ہوں ، یہ کہہ کر دو شخصوں کو اس نے بلوایا جو واجب القتل تھے ، ایک کو قتل کر دیا اور دوسرے کو رہا کر دیا ، دراصل یہ جواب اور دعویٰ کس قدر لچر اور بےمعنی ہے اس کے بیان کی بھی ضرورت نہیں ، حضرت ابراہیم نے تو صفات باری میں سے ایک صفت پیدا کرنا اور پھر نیست کر دینا بیان کی تھی اور اس نے نہ تو انہیں پیدا کیا اور نہ ان کی یا اپنی موت حیات پر اسے قدرت ، لیکن جہلاء کو بھڑکانے کیلئے اور اپنی علمیت جتانے کیلئے باوجود اپنی غلطی اور مباحثہ کے اصول سے طریقہ فرار کو جانتے ہوئے صرف ایک بات بنالی ، ابراہیم بھی اس کو سمجھ گئے اور آپ نے کند ذہن کے سامنے ایسی دلیل پیش کر دی کہ صورتاً بھی اس کی مشابہت نہ کرسکے ، چنانچہ فرمایا کہ جب تو پیدائش اور موت تک کا اختیار رکھتا ہے تو مخلوق پر تصرف تیرا پورا ہونا چاہئے ، میرے اللہ نے تو یہ تصرف کیا کہ سورج کو حکم دے دیا ہے کہ وہ مشرق کی طرف سے نکلا کرے چنانچہ وہ نکل رہا ہے ، اب تو اسے حکم دے کہ وہ مغرب کی طرف سے نکلے اس کا کوئی ظاہری ٹوٹا پھوٹا جواب بھی نہ اس سے بن پڑا اور بےزبان ہو کر اپنی عاجزی کا معترف ہو گیا اور اللہ کی حجت اس پر پوری ہو گئی لیکن چونکہ ہدایت نصیب نہ تھی راہ یافتہ نہ ہو سکا ، ایسے بدوضع لوگوں کو اللہ کوئی دلیل نہیں سمجھاتا اور وہ حق کے مقابلے میں بغلیں جھانکتے ہی نظر آتے ہیں ، ان پر اللہ کا غضب و غصہ اور ناراضگی ہوتی ہے اور اس کیلئے اس جہاں میں بھی سخت عذات ہوتے ہیں ، بعض منطقیوں نے کہا ہے کہ حضرت خلیل اللہ نے یہاں ایک واضح دلیل کے بعد دوسری اس سے بھی زیادہ واضح دلیل پیش کر دی ، لیکن درحقیت یوں نہیں بلکہ پہلی دلیل دوسری کا مقدمہ تھی اور ان دونوں میں سے نمرود کے دعویٰ کا بطلان بالکل واضح ہو گیا ، اصل دلیل پیدائش و موت ہی ہے چونکہ اس کا دعویٰ اس ناسمجھ مشت خاک نے بھی کیا تو لازم تھا کہ جو بنانے بگاڑنے پر نہ صرف قادر ہو بلکہ بناؤ بگاڑ کا بھی خالق ہو اس کی ملکیت پوری طرح اسی کے قبضہ میں ہونی چاہئے اور جس طرح موت و حیات کے احکام اس کے جاری ہو جاتے ہیں اسی طرح دوسرے احکام بھی جاری ہو جائیں ، پھر کیا وجہ ہے کہ سورج جو کہ ایک مخلوق ہے اس کی فرمانبرداری اور اطاعت گزاری نہ کرے اور اس کے کہنے سے مشرق کی بجائے مغرب سے نہ نکلے؟ پس ابراہیم نے اس پر اس مباحثہ میں کھلا غلبہ پایا اور اسے بالکل لاجواب کر دیا فالحمدللہ ۔ حضرت سدی فرماتے ہیں یہ مناظرہ حضرت ابراہیم کے آگ سے نکل آنے کے بعد ہوا تھا اس سے پہلے آپ کی اس ظالم بادشاہ سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی تھی ، زید بن اسلم کا قول ہے کہ قحط سالی تھی ، لوگ نمرود کے پاس جاتے تھے اور غلہ لے آتے تھے ، حضرت خلیل اللہ بھی گئے ، وہاں یہ مناظرہ ہو گیا بدبخت نے آپ کو غلہ نہ دیا ، آپ خالی ہاتھ واپس آئے ، گھر کے قریب پہنچ کر آپ نے دونوں بوریوں میں ریت بھر لی کہ گھر والے سمجھیں کچھ لے آئے ، گھر آتے ہی بوریاں رکھ کر سو گئے ، آپ کی بیوی صاحبہ حضرت سارہ اٹھیں بوریوں کو کھولا تو دیکھا کہ عمدہ اناج سے دونوں پر ہیں ، کھانا پکا کر تیار کیا ، آپ کی بھی آنکھ کھلی دیکھا کہ کھانا تیار ہے ، پوچھا اناج کہاں سے آیا ، کہا دو بوریاں جو آپ بھر کر لائے ہیں ، انہیں میں سے یہ اناج نکالا تھا ، آپ سمجھ گئے کہ یہ اللہ جل شانہ کی طرف سے برکت اور اس کی رحمت ہے ، اس ناہنجار بادشاہ کے پاس اللہ نے ایک فرشتہ بھیجا اس نے آکر اسے توحید کی دعوت دی لیکن اس نے قبول نہ کی ، دوبارہ دعوت دی لیکن انکار کیا تیسری مرتبہ اللہ کی طرف بلایا لیکن پھر بھی یہ منکر ہی رہا ۔ اس بار بار کے انکار کے بعد فرشتے نے اس سے کہا اچھا تو اپنا لشکر تیار کر میں بھی اپنا لشکر لے آتا ہوں ، نمرود نے بڑا بھاری لشکر تیار کیا اور زبردست فوج کو لے کر سورج نکلنے کے میدان میں آ ڈٹا ، ادھر اللہ تعالیٰ نے مچھروں کا ایک دروازہ کھول دیا ، بڑے بڑے مچھر اس کثرت سے آئے کہ لوگوں کو سورج بھی نظر نہ آتا تھا ، اللہ کی یہ فوج نمرودیوں پر گری اور تھوڑی دیر میں ان کا خون تو کیا ان کا گوشت پوست سب کھا گئی اور سارے کے سارے یہیں ہلاک ہوگئے ، ہڈیوں کا ڈھانچہ باقی رہ گیا ، انہی مچھروں میں سے ایک نمرود کے نتھنے میں گھس گیا اور چارسو سال تک اس کا دماغ چاٹتا رہا ایسے عذاب میں وہ رہا کہ اس سے موت ہزاروں درجے بہتر تھی اپنا سر دیواروں اور پتھروں پر مارتا پھرتا تھا ، ہتھوڑوں سے کچلواتا تھا ، یونہی رینگ رینگ کر بدنصیب نے ہلاکت پائی ۔ اعاذنا اللہ ۔
[٣٦٨] یہ شخص نمرود بادشاہ عراق تھا اور اس کا دارالخلافہ بابل تھا جہاں آج کل کوفہ آباد ہے خدائی کا دعویدار تھا یہ خود اور اس کی رعایا سب مشرک تھے۔ نمرود کی خدائی کس قسم کی تھی ؟ یہ جاننے کے لیے تھوڑی سی تفصیل ضروری معلوم ہوتی ہے۔ شرک کی تین اقسام ہیں :۔- ١۔ شرک فی الربوبیت :۔ ایسا شرک عموماً کوئی بھی نہیں کرتا۔ مشرکین مکہ ہوں یا نمرود ہو یا فرعون ہو کسی سے بھی پوچھا جائے کہ یہ آسمان و زمین کس نے بنائے۔ زمین سے پیداوار کون اگاتا ہے۔ کائنات کو کس نے پیدا کیا اور شمس و قمر کا نظام چلانے والا کون ہے تو سب یہی جواب دیں گے کہ اللہ تعالیٰ ہے۔ البتہ ربوبیت کے منکر ضرور موجود رہے ہیں یعنی دہریہ قسم کے لوگ یا فلکیات کے ماہرین جو ساری کائنات کو مادہ کی بدلی ہوئی شکلیں اور ارتقائی پیداوار کا نتیجہ سمجھتے ہیں۔- دوسری قسم شرک فی الصفات ہے۔ آگے اس کی پھر دو قسمیں ہیں، ایک وہ جس کا تعلق مافوق الفطری اسباب سے ہوتا ہے۔ مثلاً دعائیں سننا اور انہیں قبول کرنا، حاجت روائی اور مشکل کشائی کسی کے رزق میں تنگی اور فراخی پیدا کرنا، بارش برسانا، کسی کو اولاد دینا وغیرہ وغیرہ، ایسا شرک عام پایا جاتا ہے۔ مشرکین مکہ کے ہوں یا عراق کے ہوں، مصر کے ہوں یا ہندوستان کے، انہوں نے ایسے کاموں کے لیے لاتعداد دیوی یا دیوتا بنا رکھے تھے اور مندرجہ بالا کام انہیں کے سپرد تھے اور ان کے بتوں اور مجسموں کی پوجا کی جاتی تھی۔ اس قسم کا شرک ہم مسلمانوں میں بھی عام پایا جاتا ہے۔ فرق صرف یہ ہے ہم نے امور اپنے پیروں فقیروں اور بزعم خود اولیاء اللہ کے سپرد کر رکھے ہیں خواہ وہ زندہ ہوں یا مردہ ہوچکے ہوں۔- اور شرک کی تیسری قسم وہ ہے جس کا تعلق شرک فی الصفات کی دوسری قسم سے ہے اور وہ فطری اسباب سے ہوتا ہے۔ بالفاظ دیگر طاغوت یا طواغیت سے ہوتا ہے جس کا ذکر پچھلی آیت میں آیا ہے جو اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں اپنی حکمرانی تسلیم کرواتے ہیں۔ آج کی زبان میں اسے اقتدار اعلیٰ کہتے ہیں۔ نمرود بھی اس قسم کا خدا تھا اور فرعون بھی اور ان جیسے اور بھی کئی خدائی کے وعدے کرچکے اور کر رہے ہیں۔ پھر اقتدار اعلیٰ کی بھی دو قسمیں ہیں، قانونی اقتدار اعلیٰ اور سیاسی اقتدار اعلیٰ دونوں قسم کا یہ اقتدار اعلیٰ ایسے حکمرانوں کے پاس ہی ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کا ہر لفظ قانون ہوتا ہے اور ان کے حکم کے آگے کسی کو دم مارنے کی مجال نہیں ہوتی اور ایسے ممالک جہاں آج کل جمہوریت رائج ہے وہاں بھی اکثر شرک کی یہ قسم پائی جاتی ہے۔ کیونکہ ان ملکوں میں سیاسی اقتدار اعلیٰ تو عوام کے پاس ہوتا ہے یعنی طاقت کا سرچشمہ عوام ہوتے ہیں۔ وہی جسے چاہیں اپنی رائے سے نمائندہ یا حکمران بنادیں اور قانونی اقتدار اعلیٰ اسمبلی یا پارلیمنٹ کے پاس ہوتا ہے (یہ بات ملحوظ رکھنی چاہیے کہ جمہوریت میں اقتدار اعلیٰ اسمبلی یا پارلیمنٹ کے پاس ہوتا ہے (یہ بات ملحوظ رکھنی چاہیے کہ جمہوریت میں اقتدار اعلیٰ کوئی انسان یا کوئی ادارہ ہی ہوسکتا ہے) جبکہ اسلامی نقطہ نظر سے قانونی اور سیاسی مقتدر اعلیٰ کوئی فرد یا ادارہ ہو ہی نہیں سکتا۔ ایسا مقتدر اعلیٰ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ جمہوری ممالک میں کوئی بڑی سے بڑی عدالت بھی پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے قانون کے سامنے دم نہیں مار سکتی۔ اس لحاظ سے نمرود کی خدائی اور جمہوریت کی خدائی میں کوئی فرق نہیں ہے۔ نمرود ہی کے دربار میں حضرت ابراہیم کا باپ شاہی مہنت تھا جو بت گر بھی تھا اور بت فروش بھی اور نمرود کے مقربین میں سے تھا۔ اسی بنا پر باپ نے حضرت ابراہیم کو گھر سے نکالا تھا اور جب حضرت ابراہیم نے ان لوگوں کے بت توڑے تھے تو اسی باپ نے اپنے بیٹے کا مقدمہ نمرود کے دربار میں پیش کیا تھا۔- [٣٦٩] دربار میں پیشی ہوئی تو زیر بحث مسئلہ خدائی ہی کا تھا۔ دوران بحث حضرت ابراہیم نے کہا کہ میرا رب وہ ہے جو زندہ کرتا اور مارتا ہے تو نمرود کہنے لگا کہ یہ دونوں کام تو میں بھی کرسکتا ہوں۔ چناچہ اس نے ایک بےقصور آدمی کو بلاوجہ قتل کروا دیا اور ایک ایسے قیدی کو جسے سزائے موت ہوچکی تھی آزاد کردیا۔- [٣٧٠] حضرت ابراہیم نمردو کے اس کام کا یہ جواب دے سکتے تھے کہ جس شخص کو تو نے مروا ڈالا ہے اسے زندہ کر کے دکھا تو جانیں۔ مگر حضرت ابراہیم نے اس میدان کو چھوڑ دیا اور ربوبیت کے میدان میں آگئے اور کہا کہ میرا رب سورج کو مشرق سے نکالتا ہے تو اسے مغرب سے نکال کے دکھا۔ اب چونکہ نمرود یہ سمجھتا تھا کہ کائنات کے نظام میں میرا کوئی دخل اور اختیار نہیں۔ لہذا وہ فوراً لاجواب ہوگیا۔ حالانکہ اگر وہ سوچتا تو کہہ سکتا تھا کہ اگر میں سورج کو مغرب سے نہیں نکال سکتا تو تم اپنے رب سے کہو کہ مغرب سے نکال کے دکھائے، اور اس صورت میں عین ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کوئی ایسا معجزہ دکھلا بھی دیتے۔ مگر چونکہ نمرود کا پختہ عقیدہ تھا کہ کائنات کا نظام اللہ ہی چلاتا ہے اور وہ چاہے تو ایسا بھی کرسکتا ہے۔ لہذا سوائے خاموشی اور حیرانگی کے اس سے کچھ بھی بن نہ پڑا اس طرح ابراہیم (علیہ السلام) نے بھرے دربار میں نمرود پر یہ بات واضح کردی کہ میرا خدا یا معبود تو نہیں، بلکہ وہ معبود حقیقی ہے جس کا پوری کائنات میں تصرف و اختیار چلتا ہے اس مباحثہ میں لاجواب ہونے کے باوجود نمرود کو کسی قیمت پر بھی اپنے خدائی کے دعوے سے دستبردار ہونا اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ہدایت پر توجہ کرنا گوارا نہ ہوا اور جو لوگ گمراہی میں اس حد تک آگے بڑھ چکے ہوں انہیں ہدایت کی راہ نصیب بھی نہیں ہوتی۔
اَنْ اٰتٰىهُ اللّٰهُ الْمُلْكَ : یعنی اس بادشاہ کے رب تعالیٰ کے متعلق ابراہیم (علیہ السلام) سے جھگڑے کی وجہ یہ ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے اسے حکومت عطا فرمائی، اس کا شکر اس نے یہ ادا کیا کہ خود رب بن بیٹھا اور جس نے اسے حکومت عطا فرمائی تھی اس کا انکار کردیا۔ اگر اللہ تعالیٰ اسے فقیر بنا دیتا تو کبھی یہ جسارت نہ کرتا۔ - ابراہیم (علیہ السلام) عراق کے رہنے والے تھے، ان کے زمانے میں عراق کے اندر شرک تقریباً اپنی ساری صورتوں کے ساتھ موجود تھا، بتوں کو وہ پوجتے تھے، سورج، چاند اور ستاروں کی پرستش وہ کرتے تھے اور ان کے ساتھ ساتھ بادشاہ وقت کو بھی رب مانتے تھے۔ ابراہیم (علیہ السلام) کے ذمے ان سب صورتوں کی تردید کرکے لوگوں کو اکیلے رب کی عبادت کی دعوت دینا تھا۔ چناچہ انھوں نے اپنے والد اور قوم کو بت پرستی چھوڑ کر ایک رب کی عبادت کی دعوت دی، نتیجے میں گھر سے نکلنا پڑا، پھر نہایت حکیمانہ طریقے سے سورج، چاند اور ستاروں کا رب نہ ہونا ایسا واضح کیا کہ قوم لاجواب ہوگئی۔ ( دیکھیے انعام : ٧٦ تا ٨٢ ) نتیجے میں قوم کے جھگڑے اور سورج، چاند اور ستاروں کے غضب کا نشانہ بننے کی دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ جب ابراہیم (علیہ السلام) نے سمجھا کہ محض نصیحت سے بتوں کی بےبسی ماننے پر یہ لوگ تیار نہیں تو میلے والے دن ان کے بڑے بت کو چھوڑ کر باقی سارے بت توڑ دیے۔ تفتیش ہوئی، ابراہیم (علیہ السلام) مجرم قرار پائے، اس موقع پر ساری قوم کے سامنے بتوں کی بےبسی ایسی واضح فرمائی کہ وہ اپنے دلوں میں مان گئے کہ ظالم وہ خود ہی ہیں، ابراہیم (علیہ السلام) کا کچھ قصور نہیں۔ اب حق کو قبول کرنے کے بجائے الٹاکہنے لگے کہ اسے جلا دو اور اپنے خداؤں کی مدد کرو۔ (دیکھیے انبیاء : ٥١ تا ٧٠) اب ظاہر ہے کہ عوام جتنے بھی ہوں کسی کو سزا دینا تو حکومت کا کام ہے، اس لیے انھیں وقت کے بادشاہ کے سامنے پیش کیا گیا، وہ اپنی سلطنت میں بت پرستی، ستارہ پرستی کو برداشت کرتا تھا، بلکہ اس کی پشت پناہی کرتا تھا، کیونکہ وہ خود بھی مشرک تھا اور اپنے رب ہونے کا بھی دعویدار تھا۔ اس موقع پر بادشاہ کے ساتھ یہ مناظرہ ہوا، جس میں لاجواب ہو کر اس نے ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ میں پھنکوا دیا۔ - یہ واقعہ اور بعد والے دونوں واقعات اس بات کی مثال اور دلیل ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے دوستوں کو کس طرح اندھیرے سے روشنی کی طرف لاتا ہے اور طاغوت اپنے دوستوں کو کس طرح روشنی سے اندھیرے کی طرف لے جاتے ہیں۔ - ابراہیم (علیہ السلام) نے جب اس بادشاہ کے رب ہونے سے انکار کیا تو اس نے پوچھا : ” تمہارا رب کون ہے ؟ “ آپ نے فرمایا : ” میرا رب وہ ہے جو زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے۔ “ اس نے کہا : ” میں زندہ کرتا ہوں اور مارتا ہوں۔ “ بعض تابعین سے منقول ہے کہ اس نے دو قیدی منگوائے، ایک کو قتل کردیا، ایک کو چھوڑ دیا اور کہا : ” دیکھو انھیں زندہ رکھنا یا مارنا میرے ہاتھ میں ہے۔ “ تابعین کی بات اسرائیلی روایت ہی ہوسکتی ہے کیونکہ وہ خود تو اس وقت موجود نہیں تھے اور اس کی ضرورت اس وقت ہے جب وہ بادشاہ متقی اور ہمیشہ سچ بولنے والا ہو۔ ایک جھوٹا شخص کوئی غلط بات کہے تو اسے تاویل کے ساتھ صحیح ثابت کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ جو شخص یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ میں رب ہوں، اسے یہ دعویٰ کرنے میں کیا چیز مانع ہے کہ میں ہی سب کو زندہ کرتا ہوں اور میں ہی مارتا ہوں۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ جب ابراہیم (علیہ السلام) نے دیکھا کہ یہ کج بحثی پر اترا ہوا ہے تو پہلی دلیل چھوڑ کر دوسری دلیل سورج والی دی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے پہلی دلیل چھوڑی نہیں، بلکہ اس کے ذریعے سے اس کے منہ سے اس دعویٰ کا اقرار کروا لیا کہ میں زندہ کرتا ہوں اور مارتا ہوں۔ اب اس دعویٰ پر دوسری دلیل کی بنیاد رکھی کہ جب تم میں اتنی قوت ہے کہ تمھی سب کو پیدا کرتے ہو اور تمھی مارتے ہو تو اس کے مقابلے میں ایک معمولی سا کام کرکے دکھاؤ، یہ کہ اللہ تعالیٰ سورج کو مشرق سے طلوع کرتا ہے، جب سارا اختیار تمہارے پاس ہے تو سورج کو مغرب سے طلوع کرکے دکھا دو ، اس پر وہ بےایمان حیرت زدہ ہو کر بالکل لاجواب ہوگیا اور ایسے ظالموں کو اللہ تعالیٰ بھی راہ راست پر آنے کی توفیق نہیں دیتا۔ - نمرود کی ناک میں مچھر کے گھسنے اور چار سو سال تک ہتھوڑوں سے اپنے آپ کو پٹوانے کے واقعات نہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منقول ہیں نہ کسی صحابی سے۔
خلاصہ تفسیر :- (اے مخاطب) کیا تجھ کو اس شخص کا قصہ تحقیق نہیں ہوا (یعنی نمرود کا) جس نے ابراہیم (علیہ السلام) سے مباحثہ کیا تھا اپنے پروردگار کے (وجود کے) بارے میں (یعنی توبہ توبہ وہ خدا کے وجود ہی کا منکر تھا) اس وجہ سے کہ خدا تعالیٰ نے اس کو سلطنت دی تھی (یعنی چاہئے تو یہ تھا کہ نعمت سلطنت پر احسان مانتا اور ایمان لاتا اس کے برعکس انکار اور کفر شروع کردیا اور یہ مباحثہ اس وقت شروع ہوا تھا) جب ابراہیم (علیہ السلام) نے (اس کے پوچھنے پر کہ خدا کیسا ہے جواب میں) فرمایا کہ میرا پروردگار ایسا ہے کہ وہ جلاتا ہے اور مارتا ہے (یعنی زندہ کرنا اور مارنا اس کی قدرت میں ہے وہ کوڑھ مغز جلانے مارنے کا مطلب تو سمجھا نہیں) کہنے لگا کہ (یہ کام تو میں بھی کرسکتا ہوں کہ) میں بھی جلاتا اور مارتا ہوں (چنانچہ جس کو چاہوں قتل کردوں یہ تو مارنا ہے اور جس کو چاہوں قتل سے معاف کردوں یہ جلانا ہے) ابراہیم (علیہ السلام) نے (جب دیکھا کہ بالکل ہی بھدّی عقل کا ہے کہ اس کو جلانا اور مارنا سمجھتا ہے حالانکہ جلانے کی حقیقت بےجان چیز میں جان ڈال دینا ہے اسی طرح مارنے کا معاملہ سمجھو اور قرائن سے یہ معلوم ہوگیا کہ یہ جلانے اور مارنے کی حقیقت سمجھے گا نہیں اس لئے اس ضرورت سے دوسرے جواب کی طرف متوجہ ہوئے اور) فرمایا کہ (اچھا) اللہ تعالیٰ آفتاب کو (روزانہ) مشرق سے نکالتا ہے تو (ایک ہی دن) مغرب سے نکال (کر دکھلا) اس پر متحیر رہ گیا وہ کافر (اور کچھ جواب نہ بن آیا اس کا متقضی یہ تھا کہ وہ ہدایت کو قبول کرتا مگر وہ اپنی گمراہی پر جما رہا اس لئے ہدایت نہ ہوئی) اور اللہ تعالیٰ (کی عادت ہے کہ) ایسے بےجا راہ چلنے والوں کو ہدایت نہیں فرماتے۔- معارف و مسائل : - اس آیت سے معلوم ہوا کہ جب اللہ تعالیٰ کسی کافر کو دنیاوی عزت وشرف اور ملک و سلطنت عطاء کردیں تو اس نام سے تعبیر کرنا جائز ہے نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ضرورت کے وقت مناظرہ اور مجادلہ کرنا بھی جائز ہے تاکہ حق و باطل میں فرق ظاہر ہوجائے۔ (قرطبی) - بعضوں کو یہ شبہ ہوا کہ اس کو یہ کہنے کی گنجائش تھی کہ اگر خدا موجود ہے وہی مغرب سے نکالے دفع اس شبہ کا یہ ہے کہ اس کے قلب میں بلا اختیار یہ بات پڑگئی کہ خدا ضرور ہے اور یہ مشرق سے نکالنا اسی کا فعل ہے اور وہ مغرب سے بھی نکال سکتا ہے اور یہ شخص پغمبر ہے اس کے کہنے سے ضرور ایسا ہوگا اور ایسا ہونے سے انقلاب عظیم عالم میں پیدا ہوگا کہیں اور لینے کے دینے نہ پڑجائیں مثلا لوگ اس معجزے کو دیکھ کر مجھ سے منحرف ہو کر ان کی راہ پر ہولیں ذرا سی حجت میں سلطنت جاتی رہے، یہ جواب تو اس لئے نہ دیا اور دوسرا کوئی جواب تھا نہیں اس لئے حیران رہ گیا (بیان القرآن )
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْ حَاۗجَّ اِبْرٰھٖمَ فِيْ رَبِّہٖٓ اَنْ اٰتٰىہُ اللہُ الْمُلْكَ ٠ ۘ اِذْ قَالَ اِبْرٰھٖمُ رَبِّيَ الَّذِيْ يُـحْيٖ وَيُمِيْتُ ٠ ۙ قَالَ اَنَا اُحْيٖ وَاُمِيْتُ ٠ ۭ قَالَ اِبْرٰھٖمُ فَاِنَّ اللہَ يَاْتِيْ بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَاْتِ بِہَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُہِتَ الَّذِيْ كَفَرَ ٠ ۭ وَاللہُ لَا يَہْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِـمِيْنَ ٢٥٨ ۚ- الف ( ا)- الألفات التي تدخل لمعنی علی ثلاثة أنواع :- نوع في صدر الکلام .- ونوع في وسطه .- ونوع في آخره .- فالذي في صدر الکلام أضرب :- الأوّل : ألف الاستخبار، وتفسیره بالاستخبار أولی من تفسیر ه بالاستفهام، إذ کان ذلک يعمّه وغیره نحو : الإنكار والتبکيت والنفي والتسوية .- فالاستفهام نحو قوله تعالی: أَتَجْعَلُ فِيها مَنْ يُفْسِدُ فِيها [ البقرة 30] ، والتبکيت إمّا للمخاطب أو لغیره نحو : أَذْهَبْتُمْ طَيِّباتِكُمْ [ الأحقاف 20] ، أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْداً [ البقرة 80] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس 91] ، أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144] ، أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخالِدُونَ [ الأنبیاء 34] ، أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً [يونس 2] ، آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام 144] .- والتسوية نحو : سَواءٌ عَلَيْنا أَجَزِعْنا أَمْ صَبَرْنا [إبراهيم 21] ، سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لا يُؤْمِنُونَ [ البقرة 6] «1» ، وهذه الألف متی دخلت علی الإثبات تجعله نفیا، نحو : أخرج ؟ هذا اللفظ ينفي الخروج، فلهذا سأل عن إثباته نحو ما تقدّم .- وإذا دخلت علی نفي تجعله إثباتا، لأنه يصير معها نفیا يحصل منهما إثبات، نحو : أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ [ الأعراف 172] «2» ، أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] ، أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد 41] ، أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَةُ [ طه 133] أَوَلا يَرَوْنَ [ التوبة :- 126] ، أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ [ فاطر 37] .- الثاني : ألف المخبر عن نفسه نحو :- أسمع وأبصر .- الثالث : ألف الأمر، قطعا کان أو وصلا، نحو : أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة 114] ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتاً فِي الْجَنَّةِ [ التحریم 11] ونحوهما .- الرابع : الألف مع لام التعریف «4» ، نحو :- العالمین .- الخامس : ألف النداء، نحو : أزيد، أي : يا زيد .- والنوع الذي في الوسط : الألف التي للتثنية، والألف في بعض الجموع في نحو : مسلمات ونحو مساکين .- والنوع الذي في آخره : ألف التأنيث في حبلی وبیضاء «5» ، وألف الضمیر في التثنية، نحو :- اذهبا .- والذي في أواخر الآیات الجارية مجری أواخر الأبيات، نحو : وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب 10] ، فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب 67] ، لکن هذه الألف لا تثبت معنی، وإنما ذلک لإصلاح اللفظ .- ا : الف با معنی کی تین قسمیں ہیں ۔ ایک وہ جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ دوسرا وہ جو وسط کلام میں واقع ہو ۔ تیسرا وہ جو آخر کلام میں آئے ۔ ( ا) وہ الف جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ اس کی چند قسمیں ہیں : ۔ (1) الف الاستخبار اسے ہمزہ استفہام کہنے کے بجائے الف استخبار کہنا زیادہ صحیح ہوگا ۔ کیونکہ اس میں عمومیت ہے جو استفہام و انکار نفی تبکیت پر زجرو تو بیخ ) تسویہ سب پر حاوی ہے۔ چناچہ معنی استفہام میں فرمایا ۔ أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ [ البقرة : 30]( انہوں نے کہا ) کیا تو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت و خون کرتا پھرے اور تبکیت یعنی سرزنش کبھی مخاطب کو ہوتی ہے اور کبھی غیر کو چناچہ ( قسم اول کے متعلق ) فرمایا :۔ (1) أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُم [ الأحقاف : 20] تم اپنی لذتیں حاصل کرچکے ۔ (2) أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا [ البقرة : 80] کیا تم نے خدا سے اقرار لے رکھا ہے ؟ (3) آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس : 91] کیا اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ؟ اور غیر مخاظب کے متعلق فرمایا :۔ (4) أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا [يونس : 2] کیا لوگوں کے لئے تعجب خیز ہے ؟ (5) أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِل [ آل عمران : 144] تو کیا اگر یہ مرجائیں یا مارے جائیں ؟ (6) أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ [ الأنبیاء : 34] بھلا اگر تم مرگئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے ؟ (7) آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام : 143] بتاؤ تو ( خدا نے ) دونوں نروں کو حرام کیا ہے ۔ یا دونوں ماديؤں کو ۔ اور معنی تسویہ میں فرمایا ، سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا [إبراهيم : 21] اب ہم گهبرائیں یا صبر کریں ہمارے حق میں برابر ہے ۔ سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ ( سورة البقرة 6) تم خواہ انہیں نصیحت کردیا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ، وہ ایمان نہیں لانے کے ۔ اور یہ الف ( استخبار ) کلام مثبت پر داخل ہو تو اسے نفی میں تبدیل کردیتا ہے ۔ جیسے اخرج ( وہ باہر نہیں نکلا ) کہ اس میں نفی خروج کے معنی پائے جائے ہیں ۔ اس لئے کہ اگر نفی کے معنی نہ ہوتے تو اس کے اثبات کے متعلق سوال نہ ہوتا ۔ اور جب کلام منفی پر داخل ہو تو اسے مثبت بنا دیتا ہے ۔ کیونکہ کلام منفی پر داخل ہونے سے نفی کی نفی ہوئی ۔ اور اس طرح اثبات پیدا ہوجاتا ہے چناچہ فرمایا :۔ أَلَسْتُ بِرَبِّكُم [ الأعراف : 172] کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ( یعنی ضرور ہوں ) أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ [ التین : 8] کیا اللہ سب سے بڑا حاکم نہیں ہے یعنی ضرور ہے ۔ أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد : 41] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کا بندوبست کرتے ہیں ۔ أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَة [ طه : 133] کیا ان کے پاس کھلی نشانی نہیں آئی ۔ أَوَلَا يَرَوْنَ [ التوبة : 126] اور کیا یہ نہیں دیکھتے أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم [ فاطر : 37] اور کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی ۔ (2) الف جو مضارع کے صیغہ واحد متکلم کے شروع میں آتا ہے اور میں " کے معنی رکھتا ہے جیسے اسمع و ابصر یعنی میں سنتاہوں اور میں دیکھتا ہوں (3) ہمزہ فعل امر خواہ قطعی ہو یا وصلي جیسے فرمایا :۔ أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ [ المائدة : 114] ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما ۔ رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ [ التحریم : 11] اے میرے پروردگار میرے لئے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا ۔ (4) الف جو لام کے ساتھ معرفہ بنانے کے لئے آیا ہے جیسے فرمایا الْعَالَمِينَ [ الفاتحة : 2] تمام جہانوں (5) الف نداء جیسے ازید ( اے زید ) ( ب) وہ الف جو وسط کلمہ میں آتا ہے اس کی پہلی قسم الف تثنیہ ہے ( مثلا رجلان ) اور دوسری وہ جو بعض اوزان جمع میں پائی جاتی ہے مثلا مسلمات و مساکین ۔ ( ج) اب رہا وہ الف جو کلمہ کے آخر میں آتا ہے ۔ وہ یا تو تانیث کے لئے ہوتا ہے جیسے حبلیٰ اور بَيْضَاءُمیں آخری الف یا پھر تثنیہ میں ضمیر کے لئے جیسا کہ اذْهَبَا [ الفرقان : 36] میں آخر کا الف ہے ۔ وہ الف جو آیات قرآنی کے آخر میں کہیں بڑھا دیا جاتا ہے جیسے وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب : 10] فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب : 67] تو یہ کوئی معنوی اضافہ نہیں کرتا بلکہ محض لفظی اصلاح ( اور صوتی ہم آہنگی ) کے لئے آخر میں بڑھا دیا جاتا ہے ( جیسا کہ ابیات کے اواخر میں الف " اشباع پڑھاد یتے ہیں )- «لَمْ»- وَ «لَمْ» نفي للماضي وإن کان يدخل علی الفعل المستقبل، ويدخل عليه ألف الاستفهام للتّقریر . نحو : أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينا وَلِيداً [ الشعراء 18] ، أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيماً فَآوی [ الضحی 6]- ( لم ( حرف ) لم ۔ کے بعد اگرچہ فعل مستقبل آتا ہے لیکن معنوی اعتبار سے وہ اسے ماضی منفی بنادیتا ہے ۔ اور اس پر ہمزہ استفہام تقریر کے لئے آنا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينا وَلِيداً [ الشعراء 18] کیا ہم نے لڑکپن میں تمہاری پرورش نہیں کی تھی ۔- رأى- والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس :- والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو :- لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] ،- والثاني : بالوهم والتّخيّل،- نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] .- والثالث : بالتّفكّر، - نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] .- والرابع : بالعقل،- وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] ،- ( ر ء ی ) رای - الرؤیتہ - کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور - قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں - ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا - جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔- ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا - جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔- (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا - جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے - ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا - جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ - حاجَّة- : أن يطلب کلّ واحد أن يردّ الآخر عن حجّته ومحجّته، قال تعالی: وَحاجَّهُ قَوْمُهُ قالَ : أَتُحاجُّونِّي فِي اللَّهِ [ الأنعام 80] ، فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِنْ بَعْدِ ما جاءَكَ [ آل عمران 61] ، وقال تعالی: لِمَ تُحَاجُّونَ فِي إِبْراهِيمَ [ آل عمران 65] ، وقال تعالی: ها أَنْتُمْ هؤُلاءِ حاجَجْتُمْ فِيما لَكُمْ بِهِ عِلْمٌ فَلِمَ تُحَاجُّونَ فِيما لَيْسَ لَكُمْ بِهِ عِلْمٌ [ آل عمران 66] ، وقال تعالی: وَإِذْ يَتَحاجُّونَ فِي النَّارِ [ غافر 47] ، وسمّي سبر الجراحة حجّا، قال الشاعر :- 105 ۔ يحجّ مأمومة في قعرها لجف - ۔ الحاجۃ - ۔ اس جھگڑے کو کہتے ہیں جس میں ہر ایک دوسرے کو اس کی دلیل اور مقصد سے باز رکھنے کی کوشش کرتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَحاجَّهُ قَوْمُهُ قالَ : أَتُحاجُّونِّي فِي اللَّهِ [ الأنعام 80] اور ان کی قوم ان سے بحث کرنے لگی تو انہوں نے کہا کہ تم مجھ سے خدا کے بارے میں ( کیا بحث کرتے ہو ۔ فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِنْ بَعْدِ ما جاءَكَ [ آل عمران 61] پھر اگر یہ عیسیٰ کے بارے میں تم سے جھگڑا کریں اور تم حقیقت الحال تو معلوم ہو ہی چکی ہے ۔ لِمَ تُحَاجُّونَ فِي إِبْراهِيمَ [ آل عمران 65] تم ابراہیم کے بارے میں کیوں جھگڑتے ہو ۔ ها أَنْتُمْ هؤُلاءِ حاجَجْتُمْ فِيما لَكُمْ بِهِ عِلْمٌ فَلِمَ تُحَاجُّونَ فِيما لَيْسَ لَكُمْ بِهِ عِلْمٌ [ آل عمران 66] دیکھو ایسی بات میں تو تم نے جھگڑا کیا ہی تھا جس کا تمہیں کچھ علم تھا بھی مگر ایسی بات میں کیوں جھگڑتے ہو جس کا تم کو کچھ بھی علم نہیں ۔ وَإِذْ يَتَحاجُّونَ فِي النَّارِ [ غافر 47] اور جب وہ دوزخ میں جھگڑیں گے ۔ اور حج کے معنی زخم کی گہرائی ناپنا بھی آتے ہیں شاعر نے کہا ہے ع ( بسیط) یحج مامومۃ فی قھرھا لجف وہ سر کے زخم کو سلائی سے ناپتا ہے جس کا قعر نہایت وسیع ہے ۔- رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- إِيتاء - : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة 247]- الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی - ملك) بادشاه)- المَلِكُ : هو المتصرّف بالأمر والنّهي في الجمهور - وَالمِلْكُ ضربان :- مِلْك هو التملک والتّولّي، ومِلْك هو القوّة علی ذلك، تولّى أو لم يتولّ. فمن الأوّل قوله : إِنَّ الْمُلُوكَ إِذا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوها[ النمل 34] ، ومن الثاني قوله : إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنْبِياءَ وَجَعَلَكُمْ مُلُوكاً [ المائدة 20]- ( م ل ک ) الملک - ۔ بادشاہ جو پبلک پر حکمرانی کرتا ہے ۔ یہ لفظ صرف انسانوں کے منتظم کے ساتھ خاص ہے .- اور ملک کا لفظ دو طرح پر ہوتا ہے - عملا کسی کا متولی اور حکمران ہونے کو کہتے ہیں ۔- دوم حکمرانی کی قوت اور قابلیت کے پائے جانے کو کہتے ہیں - ۔ خواہ نافعل اس کا متولی ہو یا نہ ہو ۔ چناچہ پہلے معنی کے لحاظ سے فرمایا : ۔ إِنَّ الْمُلُوكَ إِذا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوها[ النمل 34] بادشاہ جب کسی ملک میں داخل ہوتے ہیں ۔ تو اس کو تباہ کردیتے ہیں ۔ - اور دوسرے معنی کے لحاظ سے فرمایا : ۔ إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنْبِياءَ وَجَعَلَكُمْ مُلُوكاً [ المائدة 20] کہ اس نے تم میں پیغمبر کئے اور تمہیں بادشاہ بنایا ۔ - حيى- الحیاة تستعمل علی أوجه :- الأوّل : للقوّة النّامية الموجودة في النّبات والحیوان، ومنه قيل : نبات حَيٌّ ، قال عزّ وجلّ : اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید 17] ، - الثانية : للقوّة الحسّاسة، وبه سمّي الحیوان حيوانا،- قال عزّ وجلّ : وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر 22] ،- الثالثة : للقوّة العاملة العاقلة، کقوله تعالی:- أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] - والرابعة : عبارة عن ارتفاع الغمّ ،- وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] ، أي : هم متلذّذون، لما روي في الأخبار الکثيرة في أرواح الشّهداء - والخامسة : الحیاة الأخرويّة الأبديّة،- وذلک يتوصّل إليه بالحیاة التي هي العقل والعلم، قال اللہ تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال 24] - والسادسة : الحیاة التي يوصف بها الباري،- فإنه إذا قيل فيه تعالی: هو حيّ ، فمعناه : لا يصحّ عليه الموت، ولیس ذلک إلّا لله عزّ وجلّ.- ( ح ی ی ) الحیاۃ )- زندگی ، جینا یہ اصل میں - حیی ( س ) یحییٰ کا مصدر ہے ) کا استعمال مختلف وجوہ پر ہوتا ہے ۔- ( 1) قوت نامیہ جو حیوانات اور نباتات دونوں میں پائی جاتی ہے - ۔ اسی معنی کے لحاظ سے نوبت کو حیہ یعنی زندہ کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید 17] جان رکھو کہ خدا ہی زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ - ۔ ( 2 ) دوم حیاۃ کے معنی قوت احساس کے آتے ہیں - اور اسی قوت کی بناء پر حیوان کو حیوان کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر 22] اور زندے اور مردے برابر ہوسکتے ہیں ۔ - ( 3 ) قوت عاملہ کا عطا کرنا مراد ہوتا ہے - چنانچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔- ( 4 ) غم کا دور ہونا مراد ہوتا ہے - ۔ اس معنی میں شاعر نے کہا ہے ( خفیف ) جو شخص مرکر راحت کی نیند سوگیا وہ درحقیقت مردہ نہیں ہے حقیقتا مردے بنے ہوئے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا وہ مرے ہوئے نہیں ہیں بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں ۔ میں شہداء کو اسی معنی میں احیاء یعنی زندے کہا ہے کیونکہ وہ لذت و راحت میں ہیں جیسا کہ ارواح شہداء کے متعلق بہت سی احادیث مروی ہیں ۔ - ( 5 ) حیات سے آخرت کی دائمی زندگی مراد ہوتی ہے - ۔ جو کہ علم کی زندگی کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے : قرآن میں ہے : ۔ اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال 24] خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو جب کہ رسول خدا تمہیں ایسے کام کے لئے بلاتے ہیں جو تم کو زندگی ( جادواں ) بخشتا ہے۔- ( 6 ) وہ حیات جس سے صرف ذات باری تعالیٰ متصف ہوتی ہے - ۔ چناچہ جب اللہ تعالیٰ کی صفت میں حی کہا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ ذات اقدس ہوئی ہے جس کے متعلق موت کا تصور بھی نہیں ہوسکتا ۔ پھر دنیا اور آخرت کے لحاظ بھی زندگی دو قسم پر ہے یعنی حیات دنیا اور حیات آخرت چناچہ فرمایا : ۔ فَأَمَّا مَنْ طَغى وَآثَرَ الْحَياةَ الدُّنْيا [ النازعات 38] تو جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو مقدم سمجھنا ۔- موت - أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة :- فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات - . نحو قوله تعالی:- يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم 19] ، وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق 11] .- الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا - [ مریم 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم 66] .- الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة .- نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] ، وإيّاه قصد بقوله : إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل 80] .- الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة،- وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَ- بِمَيِّتٍ [إبراهيم 17] .- الخامس : المنامُ ،- فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] - ( م و ت ) الموت - یہ حیات کی ضد ہے - لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں - ۔ اول قوت نامیہ - ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق 11] اور اس پانی سے ہم نے شہر مردہ یعنی زمین افتادہ کو زندہ کیا ۔- دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں - ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم 66] کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا ۔ - سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے - چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل 80] کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو بات نہیں سنا سکتے ۔- چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے - چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی مین مراد ہیں ۔- پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے - اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے - أتى- الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام 40]- ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی " آنا " ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو۔- شمس - الشَّمْسُ يقال للقرصة، وللضّوء المنتشر عنها، وتجمع علی شُمُوسٍ. قال تعالی: وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَها [يس 38] ، وقال :- الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبانٍ [ الرحمن 5] ، وشَمَسَ يومَنا، وأَشْمَسَ : صار ذا شَمْسٍ ، وشَمَسَ فلان شِمَاساً : إذا ندّ ولم يستقرّ تشبيها بالشمس في عدم استقرارها .- ( ش م س ) الشمس - کے معنی سورج کی نکیر یا وہوپ کے ہیں ج شموس قرآن میں ہے ۔ وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَها [يس 38] اور سورج اپنے مقرر راستے پر چلتا رہتا ہے ۔ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبانٍ [ الرحمن 5] سورج اور چاند ایک حساب مقرر سے چل رہے ہیں ۔ شمس یومنا واشمس ۔ دن کا دھوپ ولا ہونا شمس فلان شماسا گھوڑے کا بدکنا ایک جگہ پر قرار نہ پکڑناز ۔ گویا قرار نہ پکڑنے ہیں میں سورج کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے ۔- شرق - شَرَقَتِ الشمس شُرُوقاً : طلعت، وقیل : لا أفعل ذلک ما ذرّ شَارِقٌ وأَشْرَقَتْ : أضاءت . قال اللہ : بِالْعَشِيِّ وَالْإِشْراقِ [ ص 18] أي : وقت الإشراق . والْمَشْرِقُ والمغرب إذا قيلا بالإفراد فإشارة إلى ناحیتي الشَّرْقِ والغرب، وإذا قيلا بلفظ التّثنية فإشارة إلى مطلعي ومغربي الشتاء والصّيف، وإذا قيلا بلفظ الجمع فاعتبار بمطلع کلّ يوم ومغربه، أو بمطلع کلّ فصل ومغربه، قال تعالی: رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ [ الشعراء 28]- ( ش ر ق )- شرقت ( ن ) شروقا ۔ الشمس آفتاب طلوع ہوا ۔ مثل مشہور ہے ( مثل ) الاافعل ذالک ماذر شارق واشرقت جب تک آفتاب طلوع ہوتا رہیگا میں یہ کام نہیں کروں گا ۔ یعنی کبھی بھی نہیں کروں گا ۔ قرآن میں ہے : بِالْعَشِيِّ وَالْإِشْراقِ [ ص 18] صبح اور شام یہاں اشراق سے مراد وقت اشراق ہے ۔ والْمَشْرِقُ والمغربجب مفرد ہوں تو ان سے شرقی اور غربی جہت مراد ہوتی ہے اور جب تثنیہ ہوں تو موسم سرما اور گرما کے دو مشرق اور دو مغرب مراد ہوتے ہیں اور جمع کا صیغہ ہو تو ہر روز کا مشرق اور مغرب مراد ہوتا ہے یا ہر موسم کا قرآن میں ہے : رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ [ الشعراء 28] وہی مشرق اور مغرب کا مالک ( ہے ) - غرب - الْغَرْبُ : غيبوبة الشّمس، يقال : غَرَبَتْ تَغْرُبُ غَرْباً وغُرُوباً ، ومَغْرِبُ الشّمس ومُغَيْرِبَانُهَا . قال تعالی: رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ [ الشعراء 28] ، رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ [ الرحمن 17] ، بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج 40] ، وقد تقدّم الکلام في ذكرهما مثنّيين ومجموعین «4» ، وقال : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور 35] ، وقال : حَتَّى إِذا بَلَغَ مَغْرِبَ الشَّمْسِ وَجَدَها تَغْرُبُ [ الكهف 86] ، وقیل لكلّ متباعد :- غَرِيبٌ ، ولكلّ شيء فيما بين جنسه عدیم النّظير : غَرِيبٌ ، وعلی هذا قوله عليه الصلاة والسلام : «بدأ الإسلام غَرِيباً وسیعود کما بدأ» «5» وقیل : العلماء غُرَبَاءُ ، لقلّتهم فيما بين الجهّال، والغُرَابُ سمّي لکونه مبعدا في الذّهاب . قال تعالی: فَبَعَثَ اللَّهُ غُراباً يَبْحَثُ- [ المائدة 31] ، وغَارِبُ السّنام لبعده عن المنال، وغَرْبُ السّيف لِغُرُوبِهِ في الضّريبة «6» ، وهو مصدر في معنی الفاعل، وشبّه به حدّ اللّسان کتشبيه اللّسان بالسّيف، فقیل : فلان غَرْبُ اللّسان، وسمّي الدّلو غَرْباً لتصوّر بعدها في البئر، وأَغْرَبَ الساقي : تناول الْغَرْبَ ، والْغَرْبُ : الذّهب «1» لکونه غَرِيباً فيما بين الجواهر الأرضيّة، ومنه : سهم غَرْبٌ: لا يدری من رماه . ومنه : نظر غَرْبٌ: ليس بقاصد، و، الْغَرَبُ : شجر لا يثمر لتباعده من الثّمرات، وعنقاء مُغْرِبٌ ، وصف بذلک لأنه يقال : کان طيرا تناول جارية فَأَغْرَبَ «2» بها . يقال عنقاء مُغْرِبٌ ، وعنقاء مُغْرِبٍ بالإضافة . والْغُرَابَانِ : نقرتان عند صلوي العجز تشبيها بِالْغُرَابِ في الهيئة، والْمُغْرِبُ : الأبيض الأشفار، كأنّما أَغْرَبَتْ عينُهُ في ذلک البیاض . وَغَرابِيبُ سُودٌ- [ فاطر 27] ، قيل : جَمْعُ غِرْبِيبٍ ، وهو المُشْبِهُ لِلْغُرَابِ في السّواد کقولک : أسود کحلک الْغُرَابِ.- ( غ رب ) الغرب - ( ن ) سورج کا غائب ہوجانا غربت نغرب غربا وغروبا سورج غروب ہوگیا اور مغرب الشمس ومغیر بانھا ( مصغر ) کے معنی آفتاب غروب ہونے کی جگہ یا وقت کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ [ الشعراء 28] وہی ) مشرق اور مٖغرب کا مالک ہے ۔ رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ [ الرحمن 17] وہی دونوں مشرقوں اور مغربوں کا مالک ہے ۔ بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج 40] مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی قسم ۔ ان کے تثنیہ اور جمع لانے کے بحث پہلے گذر چکی ہے ۔ نیز فرمایا : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور 35] کہ نہ مشرق کی طرف سے اور نہ مغرب کی طرف ۔ حَتَّى إِذا بَلَغَ مَغْرِبَ الشَّمْسِ وَجَدَها تَغْرُبُ [ الكهف 86] یہاں تک کہ جب سورج کے غروب ہونے جگہ پہنچا ۔ اور ہر اجنبی کو غریب کہاجاتا ہے اور جو چیز اپنی ہم جنس چیزوں میں بےنظیر اور انوکھی ہوا سے بھی غریب کہہ دیتے ہیں ۔ اسی معنی میں آنحضرت نے فرمایا (58) الاسلام بدء غریبا وسعود کمابدء کہ اسلام ابتداء میں غریب تھا اور آخر زمانہ میں پھر پہلے کی طرح ہوجائے گا اور جہلا کی کثرت اور اہل علم کی قلت کی وجہ سے علماء کو غرباء کہا گیا ہے ۔ اور کوے کو غراب اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ بھی دور تک چلا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَبَعَثَ اللَّهُ غُراباً يَبْحَثُ [ المائدة 31] اب خدا نے ایک کو ابھیجا جو زمین کریدٹے لگا ۔ اور غارب السنام کے معنی کو ہاں کو بلندی کے ہیں کیونکہ ( بلندی کی وجہ سے ) اس تک پہنچنا مشکل ہوتا ہے اور غرب السیف کے معنی تلوار کی دھار کے ہیں کیونکہ تلوار بھی جسے ماری جائے اس میں چھپ جاتی ہے لہذا ی مصدر بمعنی فاعل ہے ۔ پھر جس طرح زبان کو تلوار کے ساتھ تشبیہ دی جاتی ہے اسی طرح زبان کی تیزی کو بھی تلوار کی تیزی کے ساتھ تشبیہ دے کر فلان غرب اللسان ( فلاں تیز زبان ہے ) کہاجاتا ہے اور کنوئیں میں بعد مسافت کے معنی کا تصور کرکے ڈول کو بھی غرب کہہ دیا جاتا ہے اور اغرب الساقی کے معنی ہیں پانی پلانے والے ڈول پکڑا اور غرب کے معنی سونا بھی آتے ہیں کیونکہ یہ بھی دوسری معدنیات سے قیمتی ہوتا ہے اور اسی سے سھم غرب کا محاورہ ہے یعنی دہ تیر جس کے متعلق یہ معلوم نہ ہو کہ کدھر سے آیا ہے ۔ اور بلا ارادہ کسی طرف دیکھنے کو نظر غرب کہاجاتا ہے اور غرب کا لفظ بےپھل درخت پر بھی بولا جاتا ہے گویا وہ ثمرات سے دور ہے ۔ بیان کیا جاتا ہے کہ عنقاء جانور ایک لڑکی کو اٹھا کر دوردروازلے گیا تھا ۔ اس وقت سے اس کا نام عنقاء مغرب اوعنقاء مغرب ( اضافت کے ساتھ ) پڑگیا ۔ الغرابان سرینوں کے اوپر دونوں جانب کے گڑھے جو ہیت میں کوے کی طرح معلوم ہوتے ہیں ۔ المغرب گھوڑا جس کا کر انہ ، چشم سفید ہو کیونکہ اس کی آنکھ اس سفیدی میں عجیب و غریب نظر آتی ہے ۔ اور آ یت کریمہ : وَغَرابِيبُ سُودٌ [ فاطر 27] کہ غرابیب کا واحد غربیب ہے اور اس کے معنی کوئے کی طرح بہت زیادہ سیاہ کے ہیں جس طرح کہ اسود کحلک العراب کا محاورہ ہے ۔ ( یعنی صفت تاکیدی ہے اور اس میں قلب پایا جاتا ہے اصل میں سود غرابیب ہے ۔- بهت - قال اللہ عزّ وجل : فَبُهِتَ الَّذِي كَفَرَ [ البقرة 258] ، أي : دهش وتحيّر، وقد بَهَتَهُ.- قال عزّ وجل : هذا بُهْتانٌ عَظِيمٌ [ النور 16] أي : كذب يبهت سامعه لفظاعته . قال تعالی: وَلا يَأْتِينَ بِبُهْتانٍ يَفْتَرِينَهُ بَيْنَ أَيْدِيهِنَّ وَأَرْجُلِهِنَّ [ الممتحنة 12] ، كناية عن الزنا «2» ، وقیل : بل ذلک لکل فعل مستبشع يتعاطینه بالید والرّجل من تناول ما لا يجوز والمشي إلى ما يقبح، ويقال : جاء بالبَهِيتَةِ ، أي : بالکذب .- ( ب ھ ت ) بھت ( س ) حیران وششدرہ جانا نا سے مبہوث کردیا : قرآن میں ہے فَبُهِتَ الَّذِي كَفَرَ [ البقرة 258] یہ سن کر کافر حیران رہ گیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ هذا بُهْتانٌ عَظِيمٌ [ النور 16] یہ تو ( بہت ) بڑا بہتان ہے ۔ میں بہتان کے معنی ایسے الزام کے ہیں جسے سن کر انسان ششد ر و حیرانوی جائے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَلا يَأْتِينَ بِبُهْتانٍ يَفْتَرِينَهُ بَيْنَ أَيْدِيهِنَّ وَأَرْجُلِهِنَّ [ الممتحنة 12] نہ اپنے ہاتھ پاؤں میں کوئی بہتان باندھ لائیں گی ۔ میں بہتان زنا سے کنایہ ہے ۔ بعض نے کہا ہے نہیں بلکہ اس سے ہر وہ عمل شنیع مراد ہے جسے ہا اور پاؤں سے سر انجام دیا جائے ۔ مثلا ہاتھ سے کسی نادا چیز کو پکڑنا یا کسی عمل شنیع کا ارتکاب کرنے کے لئے اس کی طرف چل کر جانا اس نے جھوٹ بولا ۔- هدى- الهداية دلالة بلطف،- وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه :- الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل،- والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى- [ طه 50] .- الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء،- وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا - [ الأنبیاء 73] .- الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی،- وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن 11] - الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ- بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43]. - ( ھ د ی ) الھدایتہ - کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔- انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے - ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے - اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی - ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت - کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ - ( 3 ) سوم بمعنی توفیق - خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔- ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا - مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43] میں فرمایا ۔- قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] - ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں
(٢٥٨) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس شخص کا واقعہ یاد نہیں، جس نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے ان کے پروردگار کے دین کے بارے میں جھگڑا کیا تھا اس بنا پر کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو حکومت وسلطنت عطا کی تھی اور وہ نمرود بن کنعان ہے - حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا اللہ تعالیٰ مردوں کو زندہ اور زندوں کو موت دیتا ہے اس نے بھی یہی دعوی کیا تھا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا اس کا ثبوت پیش کرو، چناچہ اس نے قید خانہ سے دو آدمی بلائے، ایک کو قتل کردیا اور دوسرے کو سزا معاف کرکے چھور دیا اور کہنے لگا یہ اس بات کی دلیل ہے، اب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) دوسری دلیل کی جانب متوجہ ہو کر فرمانے لگے کہ اللہ تعالیٰ سورج مشرق سے نکالتا ہے تو مغرب سے نکال کر دکھا، تو یہ کافر بغیر کسی دلیل کے خاموش ہوگیا، اور کافروں یعنی نمرود کو دلیل کی رسائی نہیں ہوئی۔
آیت ٢٥٨ (اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْ حَآجَّ اِبْرٰھٖمَ فِیْ رَبِّہٖٓ اَنْ اٰتٰٹہ اللّٰہُ الْمُلْکَ ٧ ) - یہ بابل (عراق) کا بادشاہ نمرود تھا۔ یہ ذہن میں رکھیے کہ نمرود اصل میں لقب تھا ‘ کسی کا نام نہیں تھا۔ جیسے فرعون (ج فراعنہ) مصر کے بادشاہوں کا لقب ہوتا تھا اسی طرح نمرود (ج نماردہ) بابل (عراق) کے بادشاہوں کا لقب تھا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی پیدائش ار میں ہوئی تھی جو بابل ‘ ( ) کا ایک شہر تھا اور وہاں نمرود کی بادشاہت تھی۔ جیسے فرعون نے مصر میں اپنی بادشاہت اور اپنی خدائی کا دعویٰ کیا تھا اسی طرح کا دعویٰ نمرود کا بھی تھا۔ فرعون اور نمرود کا خدائی کا دعویٰ درحقیقت سیاسی بادشاہت اور اقتدار کا دعویٰ تھا کہ اختیار مطلق ہمارے ہاتھ میں ہے ‘ ہم جس چیز کو چاہیں غلط قرار دے دیں اور جس چیز کو چاہیں صحیح قرار دے دیں۔ یہی اصل میں خدائی اختیار ہے جو انہوں نے ہاتھ میں لے لیا تھا۔ تحلیل و تحریم اللہ تعالیٰ کا حق ہے ‘ کسی شے کو حلال کرنے یا کسی شے کو حرام کرنے کا اختیار واحد اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اور جس شخص نے بھی قانون سازی کا یہ اختیار اللہ کے قانون سے آزاد ہو کر اپنے ہاتھ میں لے لیا وہی طاغوت ہے ‘ وہی شیطان ہے ‘ وہی نمرود ہے ‘ وہی فرعون ہے۔ ورنہ فرعون اور نمرود نے یہ دعویٰ تو نہیں کیا تھا کہ یہ دنیا ہم نے پیدا کی ہے۔- ( اِذْ قَالَ اِبْرٰہٖمُ رَبِّیَ الَّذِیْ یُحْیٖ وَیُمِیْتُ لا قال اَنَا اُحْیٖ وَاُمِیْتُ ط ) - نمرود نے جیل سے سزائے موت کے دو قیدی منگوائے ‘ ان میں سے ایک کی گردن وہیں اڑا دی اور دوسرے کی سزائے موت معاف کرتے ہوئے اسے رہا کردیا اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے کہنے لگا کہ دیکھو ‘ میں نے جس کو چاہا زندہ رکھا اور جس کو چاہا مار دیا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے دیکھا کہ یہ کٹ حجتی پر اترا ہوا ہے ‘ اسے ایسا جواب دیا جانا چاہیے جو اس کو چپ کرا دے۔ - (قَالَ اِبْرٰہٖمُ فَاِنَّ اللّٰہَ یَاْتِیْ بالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَاْتِ بِہَا مِنَ الْمَغْرِبِ ) (فَبُہِتَ الَّذِیْ کَفَرَ ط) - اب اس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ وہ یہ بات سن کر بھونچکا اور ششدر ہو کر رہ گیا۔- (وَاللّٰہُ لاَ یَہْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ )- اللہ نے اسے راہ یاب نہیں کیا ‘ لیکن وہ چپ ہوگیا ‘ اس سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی بات کا کوئی جواب نہیں بن پڑا۔ اس کے بعد اس نے بت کدے کے پجاریوں کے مشورے سے یہ فیصلہ کیا کہ ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ میں جھونک دیا جائے۔
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :289 اوپر دعویٰ کیا گیا تھا کہ مومن کا حامی و مددگار اللہ ہوتا ہے اور وہ اسے تاریکیوں سے روشنی میں نکال لاتا ہے اور کافر کے مددگار طاغوت ہوتے ہیں اور وہ اسے روشنی سے تاریکیوں کی طرف کھینچ لے جاتے ہیں ۔ اب اسی کی توضیح کے لیے تین واقعات مثال کے طور پر پیش کیے جارہےہیں ۔ ان میں سے پہلی مثال ایک ایسے شخص کی ہے ، جس کے سامنے واضح دلائل کے ساتھ حقیقت پیش کی گئی اور وہ اس کے سامنے لاجواب بھی ہوگیا ۔ مگر چونکہ اس نے طاغوت کے ہاتھ میں اپنی نکیل دے رکھی تھی ، اس لیے وضوح حق کے بعد بھی وہ روشنی میں نہ آیا اور تاریکیوں ہی میں بھٹکتا رہ گیا ۔ بعد کی دو مثالیں دو ایسے اشخاص کی ہیں ، جنہوں نے اللہ کا سہارا پکڑا تھا ، سو اللہ ان کو تاریکیوں سے اس طرح روشنی میں نکال لایا کہ پردہ غیب میں چھپی ہوئی حقیقتوں تک کا ان کو عینی مشاہدہ کرا دیا ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :290 اس شخص سے مراد نمرود ہے ، جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے وطن ( عراق ) کا بادشاہ تھا ۔ جس واقعے کا یہاں ذکر کیا جا رہا ہے ، اس کی طرف کوئی اشارہ بائیبل میں نہیں ہے ۔ مگر تَلْموُد میں یہ پورا واقعہ موجود ہے اور بڑی حد تک قرآن کے مطابق ہے ۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا باپ نمرود کے ہاں سلطنت کے سب سے بڑے عہدے دار ( ) کا منصب رکھتا تھا ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب کھلم کھلا شرک کی مخالفت اور توحید کی تبلیغ شروع کی اور بت خانے میں گھس کر بتوں کو توڑ ڈالا ، تو ان کے باپ نے خود ان کا مقدمہ بادشاہ کے دربار میں پیش کیا اور پھر وہ گفتگو ہوئی ، جو یہاں بیان کی گئی ہے ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :291 یعنی اس جھگڑنے میں جو بات ما بہ النزاع تھی ، وہ یہ تھی کہ ابراہیم علیہ السلام اپنا رب کس کو مانتے ہیں ۔ اور یہ نزاع اس وجہ سے پیدا ہوئی تھی کہ اس جھگڑنے والے شخص ، یعنی نمرود کو خدا نے حکومت عطا کر رکھی تھی ۔ ان دو فقروں میں جھگڑے کی نوعیت کی طرف جو اشارہ کیا گیا ہے ، اس کو سمجھنے کے لیے حسب ذیل حقیقتوں پر نگاہ رہنی ضروری ہے: ( ۱ ) قدیم ترین زمانے سے آج تک تمام مشرک سوسائیٹیوں کی یہ مشترک خصوصیت رہی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو رب الارباب اور خدائے خدائیگان کی حیثیت سے تو مانتے ہیں ، مگر صرف اسی کو رب اور تنہا اسی کو خدا اور معبود نہیں مانتے ۔ ( ۲ ) خدائی کو مشرکین نے ہمیشہ دو حصوں میں تقسیم کیا ہے ۔ ایک فوق الفطری ( ) خدائی ، جو سلسلہ اسباب پر حکمراں ہے اور جس کی طرف انسان اپنی حاجات اور مشکلات میں دستگیری کے لیے رجوع کرتا ہے ۔ اس خدائی میں وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ارواح اور فرشتوں اور جنوں اور سیاروں اور دوسری بہت سی ہستیوں کو شریک ٹھیراتے ہیں ، ان سے دعائیں مانگتے ہیں ، ان کے سامنے مراسم پرستش بجا لاتے ہیں ، اور ان کے آستانوں پر نذر و نیاز پیش کرتے ہیں ۔ دوسری تمدنی اور سیاسی معاملات کی خدائی ( یعنی حاکمیت ) ، جو قوانین حیات مقرر کر نے کی مجاز اور اطاعت امر کی مستحق ہو ، اور جسے دنیوی معاملات میں فرماں روائی کے مطلق اختیارات حاصل ہوں ۔ اس دوسری قسم کی خدائی کو دنیا کے تمام مشرکین نے قریب قریب ہر زمانے میں اللہ تعالیٰ سے سلب کر کے ، یا اس کے ساتھ ، شاہی خاندانوں اور مذہبی اور سوسائیٹی کے اگلے پچھلے بڑوں میں تقسیم کر دیا ہے ۔ اکثر شاہی خاندان اسی دوسرے معنی میں خدائی کے مدعی ہوئے ہیں ، اور اسے مستحکم کرنے کے لیے انہوں نے بالعموم پہلے معنی والے خداؤں کی اولاد ہونے کا دعویٰ کیا ہے ، اور مذہبی طبقے اس معاملے میں ان کے ساتھ شریک سازش رہے ہیں ۔ ( ۳ ) نمرود کا دعوائے خدائی بھی اسی دوسری قسم کا تھا ۔ وہ اللہ تعالیٰ کے وجود کا منکر نہ تھا ۔ اس کا دعویٰ یہ نہیں تھا کہ زمین و آسمان کا خالق اور کائنات کا مدبر وہ خود ہے ۔ اس کا کہنا یہ نہیں تھا کہ اسباب عالم کے پورے سلسلے پر اسی کی حکومت چل رہی ہے ۔ بلکہ اسے دعویٰ اس امر کا تھا کہ اس ملک عراق کا اور اس کے باشندوں کا حاکم مطلق میں ہوں ، میری زبان قانون ہے ، میرے اوپر کوئی بالاتر اقتدار نہیں ہے جس کے سامنے میں جواب دہ ہوں ، اور عراق کا ہر وہ باشندہ باغی و غدار ہے جو اس حیثیت سے مجھے اپنا رب نہ مانے یا میرے سوا کسی اور کو رب تسلیم کرے ۔ ( ٤ ) ابراہیم علیہ السلام نے جب کہا کہ میں صرف ایک رب العالمین ہی کو خدا اور معبود اور رب مانتا ہوں ، اور اس کے سوا سب کی خدائی اور ربوبیت کا قطعی طور پر منکر ہوں ، تو سوال صرف یہی پیدا نہیں ہوا کہ قومی مذہب اور مذہبی معبودوں کے بارے میں ان کا یہ نیا عقیدہ کہاں تک قابل برداشت ہے ، بلکہ یہ سوال بھی اٹھ کھڑا ہوا کہ قومی ریاست اور اس کے مرکزی اقتدار پر اس عقیدے کی جو زد پڑتی ہے ، اسے کیونکر نظر انداز کیا جا سکتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام جرم بغاوت کے الزام میں نمرود کے سامنے پیش کیے گئے ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :292 اگرچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پہلے فقرے ہی سے یہ بات واضح ہو چکی تھی کہ رب اللہ کے سوا کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا ، تاہم نمرود اس کا جواب ڈھٹائی سے دے گیا ۔ لیکن دوسرے فقرے کے بعد اس کے لیے مزید ڈھٹائی سے کچھ کہنا مشکل ہو گیا ۔ وہ خود بھی جانتا تھا کہ آفتاب و ماہتاب اسی خدا کے زیر فرمان ہیں ، جس کو ابراہیم علیہ السلام نے رب مانا ہے ۔ پھر وہ کہتا ، تو آخر کیا کہتا ؟ مگر اس طرح جو حقیقت اس کے سامنے بے نقاب ہو رہی تھی ، اس کو تسلیم کر لینے کے معنی اپنی مطلق العنان فرماں روائی سے دست بردار ہو جانے کے تھے ، جس کے لیے اس کے نفس کا طاغوت تیار نہ تھا ۔ لہٰذا وہ صرف ششدر ہی ہو کر رہ گیا ، خود پرستی کی تاریکی سے نکل کر حق پرستی کی روشنی میں نہ آیا ۔ اگر اس طاغوت کے بجائے اس نے خدا کو اپنا ولی و مددگار بنایا ہوتا ، تو اس کے لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس تبلیغ کے بعد راہ راست کھل جاتی ۔ تلمود کا بیان ہے کہ اس کے بعد اس بادشاہ کے حکم سے حضرت ابراہیم علیہ السلام قید کر دیے گئے ۔ دس روز تک وہ جیل میں رہے ۔ پھر بادشاہ کی کونسل نے ان کو زندہ جلانے کا فیصلہ کیا اور ان کے آگ میں پھینکے جانے کا وہ واقعہ پیش آیا ، جو سورہ انبیاء ، رکوع ۵ ، العنکبوت ، رکوع ۳-۲ ، اور الصافات ، رکوع ٤ میں بیان ہوا ہے ۔
174: یہ بابل کا بادشاہ نمرود تھا جو خدائی کا بھی دعوے دار تھا، اس نے جو دعوی کیا کہ میں زندگی اور موت دیتا ہوں اس کا مطلب یہ تھا کہ بادشاہ ہونے کی وجہ سے جس کو چاہوں موت کے گھاٹ اتاردوں اور جس کو چاہوں موت کا مستحق ہونے کے باوجود معاف کرکے آزاد کردوں، اور اس طرح اسے زندگی دے دوں، ظاہر ہے کہ اس کا جواب قطعی طور پر غیر متعلق تھا، اس لئے کہ گفتگو زندگی اور موت کے اسباب سے نہیں ان کی تخلیق سے ہورہی تھی ؛ لیکن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے دیکھا کہ وہ یا تو موت اور حیات کی تخلیق کا مطلب ہی نہیں سمجھتا یا کٹ حجتی پر اترآیا ہے، اس لئے انہوں نے ایک ایسی بات فرمائی جس کا اس کے پاس کوئی جواب نہ تھا، مگر لاجواب ہو کر حق کو قبول کرنے کے بجائے اس نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو قید کیا، پھر آگ میں ڈالنے کا حکم دیا، جس کا ذکر قرآن کریم نے سورۃ انبیاء (٦٨ تا ٧١) سورۂ عنکبوت (٢٤) اور سورۂ صافات (٩٧) میں فرمایا ہے۔