سو سال بعد اوپر جو واقعہ حضرت ابراہیم کے مباحثہ کا گزرا ، اس پر اس کا عطف یہ ، یہ گزرنے والے یا تو حضرت عزیز تھے جیسا کہ مشہور ہے یا ارمیا بن خلقیا تھے اور یہ نام حضرت خضر کا ہے ، یا خرقیل بن بوار تھے ، یا بنی اسرائیل میں کا ایک شخص تھا ، یہ بستی بیت المقدس تھی اور یہی قول مشہور ہے ، بخت نصر نے جب اسے اجاڑا یہاں کے باشندوں کو تہ تیغ کیا ، مکانات گرا دئیے اور اس آباد بستی کو بالکل ویران کر دیا ، اس کے بعد یہ بزرگ یہاں سے گزرے ، انہوں نے دیکھا کہ ساری بستی تہ و بالا ہو گئی ہے ، نہ مکان ہے نہ مکین ، تو وہاں ٹھہر کر سوچنے لگے کہ بھلا ایسا بڑا پررونق شہر جو اس طرح اُجڑا ہے یہ پھر کیسے آباد ہوگا ؟ اللہ تعالیٰ نے خود ان پر موت نازل فرمائی ، تو اسی حالت میں رہے اور وہاں ستر سال کے بعد بیت المقدس پھر آباد ہو گیا ، بھاگے ہوئے بنی اسرائیل بھی پھر آپہنچے اور شہر کھچا کھچ بھر گیا ، وہی اگلی سی رونق اور چہل پہل ہو گئی ، اب سو سال کامل کے بعد اللہ تعالیٰ نے انہیں زندہ کیا اور سب سے پہلے روح آنکھوں میں آئی تاکہ اپنا جی اُٹھنا خود دیکھ سکیں ، جب سارے بدن میں روح پھونک دی گئی تو اللہ تعالیٰ نے فرشتے کے ذریعے پچھوایا کہ کتنی مدت تک تم مردہ رہے؟ جس کے جواب میں کہا کہ ابھی تک ایک دن بھی پورا نہ ہوا ، وجہ یہ ہوئی کہ صبح کے وقت ان کی روح نکلی تھی اور سو سال کے بعد جب جئے ہیں تو شام کا وقت تھا ، خیال کیا کہ یہ وہی دن ہے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم ایک سو سال کامل تک مردہ رہے ، اب ہماری قدرت دیکھو کہ تمہارا توشہ بھتا جو تمہارے ساتھ تھا ، باوجود سو سال گزر جانے کے بھی ویسا ہی ہے ، نہ سڑا نہ خراب ہوا ہے ۔ یہ توشہ انگور اور انجیر اور عصیر تھا نہ تو یہ شیرہ بگڑا تھا نہ انجیر کھٹے ہوئے تھے نہ انگور خراب ہوئے تھے بلکہ ٹھیک اپنی اصلی حالت پر تھے ، اب فرمایا یہ تیرا گدھا جس کی بوسیدہ ہڈیاں تیرے سامنے پڑی ہیں ، انہیں دیکھ تیرے دیکھتے ہوئے ہم اسے زندہ کرتے ہیں ، ہم خد تیری ذات کو لوگوں کیلئے دلیل بنانے والے ہیں کہ انہیں قیامت کے دن اپنے دوبارہ جی اٹھنے پر یقین کامل ہو جائے ، چنانچہ ان کے دیکھتے ہوئے ہڈیاں اٹھیں اور ایک ایک کے ساتھ جڑیں ، مستدرک حاکم میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قرأت ننشزھا زے کے ساتھ ہے اور ننشزھا رے کے ساتھ بھی پڑھا گیا ہے یعنی زندہ کریں گے ، مجاہد کی قرأت یہی ہے ، سدی وغیرہ کہتے ہیں یہ ہڈیاں ان کے دائیں بائیں پھیل پڑی تھیں اور بوسیدہ ہونے کی وجہ سے ان کی سفیدی چمک رہی تھی ، ہوا سے یہ سب یکجاں ہو گئیں ، پھر ایک ایک ہڈی اپنی اپنی جگہ جڑ گئی اور ہڈیوں کا پورا ڈھانچہ قائم ہو گیا جس پر گوشت مطلق نہ تھا ، پھر اللہ تعالیٰ نے اسے گوشت ، رگیں ، پٹھے ، اور کھال پہنا دی ، پھر فرشتے کو بھیجا جس نے اس کے نتھنے میں پھونک ماری ، بس اللہ کے حکم سے اسی وقت ندہ ہو گیا اور آواز نکالنے لگا ، ان تمام باتوں کو دیکھ کر حضرت عزیز دیکھتے رہے اور مدت کی یہ ساری کاریگری ان کی آنکھوں کے سامنے ہی ہوئی ، جب یہ سب کچھ دیکھ چکے تو کہنے لگے اس بات کا علم تو مجھے تھاہی کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے لیکن اب میں نے اپنی آنکھوں سے بھی دیکھ لیا ، تو میں اپنے زمانے کے تمام لوگوں سے زیادہ علم و یقین والا ہوں ، بعض لوگوں نے اعلم کو اعلم بھی پڑھا ہے ، یعنی اللہ مقتدر نے فرمایا کہ جان لے کہ اللہ تعالیٰ کو ہر چیز پر قدرت ہے ۔
259۔ 1 او کالذی کا عطف پہلے واقعہ پر ہے اور مطلب یہ ہے کہ آپ نے پہلے واقعہ کی طرح اس شخص کے قصے پر نظر نہیں ڈالی جو ایک بستی سے گزرا یہ شخص کون تھا اس کی بابت بہت سے اقوال نقل کیے جا چکے ہیں زیادہ مشہور حضرت عزیر (علیہ السلام) کا نام ہے جس کے بعض صحابہ وتابعین قائل ہیں۔ واللہ اعلم۔ اس سے پہلے واقعہ (حضرت ابراہیم (علیہ السلام) و نمرود) میں صانع یعنی باری تعالیٰ کا اثبات تھا اور اس دوسرے واقعہ میں اللہ تعالیٰ کی قدرت احیائے موتی کا اثبات ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اس شخص کو اور اس کے گدھے کو سو سال کے بعد زندہ کردیا حتی کہ اس کے کھانے پینے کی چیزوں کو بھی خراب نہیں ہونے دیا۔ وہی اللہ تعالیٰ قیامت والے دن تمام انسانوں کو دوبارہ زندہ فرمائے گا جب وہ سو سال کے بعد زندہ کرسکتا ہے تو ہزاروں سال کے بعد بھی زندہ کرنا اس کے لئے مشکل نہیں۔ 259۔ 2 کہا جاتا ہے کہ جب وہ مذکورہ شخص مرا اس وقت کچھ دن چڑھا ہوا تھا جب زندہ ہوا تو ابھی شام نہیں ہوئی تھی اس سے اس نے اندازہ لگایا کہ اگر میں یہاں کل آیا تھا تو ایک دن گزر گیا ہے اگر یہ آج ہی کا واقعہ ہے تو دن کا کچھ حصہ ہی گزرا ہے۔ جب کہ واقعہ یہ تھا کی اس کی موت پر سو سال گزر چکے تھے۔ 259۔ 3 یعنی یقین تو مجھے پہلے ہی تھا لیکن اب عینی مشاہدے کے بعد میرے یقین اور علم میں مزید پختگی اور اضافہ ہوگیا ہے۔
[٣٧١] اشیائے کائنات میں اللہ تعالیٰ کس کس طرح کے محیر العقول تصرف کرسکتا ہے ؟ یہ بتلانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرا واقعہ بیان فرمایا۔ یہ واقعہ حضرت عزیر (علیہ السلام) سے تعلق رکھتا ہے جن کے متعلق مشہور ہے کہ انہیں ساری تورات زبانی یاد تھی۔ بخت نصر نے شام پر حملہ کر کے بیت المقدس کو ویران کیا اور بہت سے اسرائیلیوں کو قید کر کے اپنے ہاں بابل لے گیا تو ان میں حضرت عزیر (علیہ السلام) بھی تھے۔ کچھ مدت بعد رہائی ہوئی اور واپس اپنے وطن آ رہے تھے کہ راہ میں ایک اجڑا ہوا شہر دیکھا جو بخت نصر کے حملہ کے نتیجہ میں ہی ویران ہوا تھا۔ اسے دیکھ کر دل ہی میں یہ خیال آیا کہ اللہ اب اس بستی کو کب اور کیسے آباد کرے گا ؟ اس وقت آپ ایک گدھے پر سوار تھے اور خوردو نوش کا سامان ساتھ تھا۔ اس خیال کے آتے ہی اللہ نے آپ کی روح قبض کرلی۔- [٣٧٢] اور پورے سو سال موت کی نیند سلا کر پھر انہیں زندہ کر کے پوچھا : بتلاؤ کتنی مدت اس حال میں پڑے رہے ؟ اب عزیر (علیہ السلام) کے پاس ماسوائے سورج کے، وقت معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ نہ تھا جب جا رہے تھے تو پہلا پہر تھا اور اب دوسرا پہر کہنے لگے : یہی بس دن کا کچھ حصہ اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ دوسرا دن ہو ۔ کیونکہ اس سے زیادہ انسان کبھی نہیں سوتا۔[٣٧٣] اللہ تعالیٰ نے فرمایا : دیکھو تم سو سال یہاں پڑے رہے ہو جب عزیر (علیہ السلام) نے اپنے بدن اور جسمانی حالت کی طرف اور اپنے سامان خوردو نوش کی طرف دیکھا تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یہ وہی دن ہے جب ان پر نیند طاری ہوئی تھی۔ پھر جب اپنے گدھے کی طرف دیکھا کہ اس کی ہڈیاں تک بوسیدہ ہوگئی ہیں تو سمجھے کہ واقعی سو سال گزر چکے ہوں گے۔ ان کے دیکھتے ہی دیکھتے ہڈیوں میں حرکت پیدا ہوئی، پھر وہ جڑنے لگیں۔ پھر ہڈیوں کے اس پنجر پر گوشت پوست چڑھا اور ان کے دیکھتے ہی دیکھتے گدھا زندہ ہو کر کھڑا ہوگیا۔ پھر اس بستی کی طرف نظر دوڑائی جسے دیکھ کر ایسا خیال آیا تھا تو وہ بھی آباد ہوچکی تھی۔- اب دیکھئے اس واقعہ میں درج ذیل معجزات وقوع پذیر ہوئے۔- ١۔ حضرت عزیر خود بھی ان کا گدھا بھی اور وہ بستی بھی مرنے کے بعد زندہ ہوئے۔ گویا اللہ تعالیٰ نے حضرت عزیر کے خیال تین طریقوں سے جواب دیا۔ جس سے آپ کو عین الیقین حاصل ہوگیا۔- ٢۔ اس سو سال کی مدت کا نہ آپ کی ذات پر کچھ اثر ہوا، نہ آپ کے سامان خوردو نوش پر۔- چناچہ جب آپ واپس اپنے گھر پہنچے تو آپ کے بیٹے اور پوتے تو بوڑھے ہوچکے تھے اور آپ خود ان کی نسبت جوان تھے۔ اس طرح آپ کی ذات بھی تمام لوگوں کے لیے ایک معجزہ بن گئی۔ غالباً اسی وجہ سے یہودیوں کا ایک فرقہ انہیں ابن اللہ کہنے لگا تھا۔- ٣۔ لیکن گدھے پر سو سال کا عرصہ گزرنے کے جملہ اثرات موجود تھے۔ یہ تضاد زمانی بھی ایک بہت بڑا حیران کن معاملہ اور معجزہ تھا۔- ٤۔ آپ کی آنکھوں کے سامنے گدھے کی ہڈیوں کا جڑنا، اس کا پنجر مکمل ہونا، اس پر گوشت پوست چڑھنا پھر اس کا زندہ ہونا اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ پر بہت بڑی دلیل ہے۔
اَوْ كَالَّذِيْ مَرَّ عَلٰي قَرْيَةٍ : اس ” اَوْ “ کا عطف اس سے پہلی آیت (اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْ ) میں مذکور ” الَّذِيْ “ پر ہے، یعنی کیا تو نے اس شخص کو نہیں دیکھا جس نے ابراہیم سے ۔۔ ، یا کیا تو نے اس جیسے شخص کو نہیں دیکھا۔۔ ” اَلَمْ تَر “ کا معنی ” اَلَمْ تَعْلَمْ “ ہوتا ہے۔ (دیکھیے سورة فیل کے حواشی) اور ” اَلَمْ تَرَ “ سے مقصود کوئی عجیب واقعہ بیان کرنے سے پہلے اس کے سننے کا شوق دلانا ہوتا ہے۔ - خَاوِيَةٌ : یہ باب ” ضَرَبَ “ سے اسم فاعل ہے، مادہ ” خ و ی “ ہے، جس کا معنی کھوکھلا ہونا ہے۔ چونکہ کھوکھلا ہونے کا نتیجہ گرپڑنا ہے، اس لیے اس کا معنی گرپڑنا بھی آتا ہے، عموماً پہلے چھت گرتی ہے پھر دیواریں اس پر گر پڑتی ہیں، اس لیے فرمایا : ” چھتوں پر گری ہوئی تھی۔ “- لَمْ يَتَسَـنَّهْ ۚ: اس لفظ کا مادہ یا تو ” س ن ن “ ہے، جس کا معنی بدبو دار ہونا ہے، جیسے فرمایا : (مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ ) [ الحجر : ٢٦ ] ” جو بدبودار، سیاہ کیچڑ سے تھی۔ “ باب تفعل میں ” لَمْ یَتَسَنَّنْ “ ہوگیا، پھر آخری نون کو ” ہاء “ سے بدل دیا، جیسے : ” لَمْ یَتَقَضَّضِ الْبَازِیْ “ (باز تیزی سے نہیں جھپٹا) کو ” لَمْ یَتَقَضَّہْ “ کردیتے ہیں۔ یا پھر اس کا مادہ ” سن ن ہ “ ہے، اس سے باب تفعل ” تَسَنَّہَ “ کا معنی روٹی کا بدبودار ہونا ہے، اس صورت میں ” ہاء “ اصل ہے، تو ” لَمْ يَتَسَـنَّهْ ۚ“ کا معنی ہے، بدبودار نہیں ہوا۔ - پہلے قصے سے کائنات کو بنانے والے کا ایک ہونا (یعنی توحید) بیان کرنا مقصود تھا، جبکہ اس قصے اور اس کے بعد والے قصے سے حشر و نشر ثابت کرنا مقصود ہے۔ اس آیت میں مذکور شخص سے متعلق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یا صحابہ کرام (رض) سے صحیح سند کے ساتھ کوئی ذکر نہیں ملتا کہ وہ کون تھا۔ بعض تابعین نے اس کا نام عزیر (علیہ السلام) بتایا ہے اور بعض نے ارمیا اور ظاہر ہے کہ اس کا ماخذ وہ اسرائیلی روایات ہیں جنھیں نہ سچا کہا جاسکتا ہے نہ ہی جھوٹا۔ واللہ اعلم - البتہ یہ بات یقینی ہے کہ وہ اللہ کے نبی تھے۔ اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا ان سے پوچھنا اور پھر اصل مدت بتانا ہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب وہ اللہ کے نبی تھے تو انھوں نے اللہ تعالیٰ کا اس بستی کو دوبارہ زندہ کرنا بعید کیوں سمجھا ؟ جواب اس کا یہ ہے کہ انھوں نے بعید سمجھ کر یہ سوال نہیں کیا تھا اور نہ انھیں قیامت اور دوبارہ زندہ ہونے میں کوئی شک تھا، بلکہ اس سے اطمینان حاصل کرنا مقصود تھا اور وہ دوبارہ زندہ ہونے کا مشاہدہ کرنا چاہتے تھے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ انبیاء کو بعض حقیقتوں کا آنکھوں سے مشاہدہ کروا دیتا ہے۔ ان دونوں واقعات سے یہ بتانا مقصود ہے کہ جس شخص کا دوست اور کار ساز اللہ تعالیٰ ہوتا ہے اسے کس طرح اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لے آتا ہے۔ (رازی)- معلوم ہوتا ہے کہ جب اس نبی نے وفات پائی تھی تو اس وقت کچھ دن چڑھا ہوا تھا اور جب دوبارہ زندہ ہوئے تو سورج غروب ہونے کو تھا، اس لیے انھوں نے سو سال گزرنے کے باوجود یہ سمجھا کہ ایک دن یا اس کا کچھ حصہ گزرا ہے۔
خلاصہ تفسیر :- اَوْ كَالَّذِيْ مَرَّ عَلٰي قَرْيَةٍ وَّهِيَ خَاوِيَةٌ (الی ٰ قولہ) اَنَّ اللّٰهَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ کیا تم کو اس طرح کا قصہ بھی معلوم ہے جیسے ایک شخص تھا کہ (چلتے چلتے) ایک بستی پر ایسی حالت میں اس کا گذر ہوا کہ اس کے مکانات اپنی چھتوں پر گرگئے تھے (یعنی پہلے چھتیں گریں پھر ان پر دیواریں گر گئیں مراد یہ ہے کہ کسی حادثہ سے وہ بستی ویران ہوگئی تھی، اور سب آدمی مر مرا گئے وہ شخص یہ حالت دیکھ کر حیرت سے) کہنے لگا کہ (معلوم نہیں) اللہ تعالیٰ اس بستی کو (یعنی اس کے مردوں کو) اس کے مرے پیچھے کس کیفیت سے (قیامت میں) زندہ کریں گے (یہ تو یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ میں مردوں کو جلادیں گے، مگر اس وقت کے جلانے کا جو خیال غالب ہوا تو بوجہ اس امر کے عجیب ہونے کے ایک حیرت سی دل میں غالب ہوگئی اور چونکہ خدا تعالیٰ ایک کام کو کئی طرح کرسکتے ہیں اس لئے طبیعت اس کی متلاشی ہوئی کہ خدا جانے جلا دینا کس صورت سے ہوگا ؟ اللہ تعالیٰ کو منظور ہوا کہ اس کا تماشا اس کو دنیا ہی میں دکھلا دیں تاکہ ایک نظیر کے واقع ہوجانے سے لوگوں کو زیادہ ہدایت ہو) سو (اس لئے) اللہ تعالیٰ نے اس شخص (کی جان قبض کرکے اس کو) سو برس تک مردہ رکھا پھر (سو برس کے بعد) اس کو زندہ اٹھایا (اور پھر) پوچھا کہ تو کتنی مدت اس حالت میں رہا ؟ اس شخص نے جواب دیا کہ ایک دن رہا ہوں گا یا ایک دن سے بھی کم (کنایہ ہے مدت قلیل سے) اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ نہیں بلکہ تو (اس حالت میں) سو برس رہا ہے (اور اگر آپ نے بدن کے اندر تغیر نہ ہونے سے تعجب ہو) تو اپنے کھانے پینے (کی) چیز کو دیکھ لے کہ (ذرا) نہیں سڑی گلی (ایک قدرت تو ہماری یہ ہے) اور (دوسری قدرت دیکھنے کے واسطے) اپنے (سواری کے) گدھے کی طرف نظر کر (کہ گل سڑ کر کیا حال ہوگیا ہے اور ہم عنقریب اس کو تیرے سامنے زندہ کئے دیتے ہیں) اور (ہم نے تجھ کو اس لئے مار کر زندہ کیا ہے) تاکہ ہم تجھ کو (اپنی قدرت کی) ایک نظیر لوگوں کے لئے بنادیں (کہ اس نظیر سے بھی قیامت کے روز زندہ ہونے پر استدلال کرسکیں) اور (اب اس گدھے کی) ہڈیوں کی طرف نظر کر کہ ہم ان کو کس طرح ترکیب دیئے دیتے ہیں پھر ان پر گوشت چڑھا دیتے ہیں (پھر اس میں جان ڈال دیتے ہیں غرض یہ سب امور یوں ہی کردیئے گئے) پھر جب یہ سب کیفیت اس شخص کو (مشاہدہ سے) واضح ہوگئی تو (بےاختیار جوش میں آکر) کہہ اٹھا کہ میں (دل سے) یقین رکھتا ہوں کہ بیشک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر پوری قدرت رکھتے ہیں۔
اَوْ كَالَّذِيْ مَرَّ عَلٰي قَرْيَۃٍ وَّہِيَ خَاوِيَۃٌ عَلٰي عُرُوْشِہَا ٠ ۚ قَالَ اَنّٰى يُـحْيٖ ھٰذِہِ اللہُ بَعْدَ مَوْتِہَا ٠ ۚ فَاَمَاتَہُ اللہُ مِائَـۃَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَہٗ ٠ ۭ قَالَ كَمْ لَبِثْتَ ٠ ۭ قَالَ لَبِثْتُ يَوْمًا اَوْ بَعْضَ يَوْمٍ ٠ ۭ قَالَ بَلْ لَّبِثْتَ مِائَۃَ عَامٍ فَانْظُرْ اِلٰى طَعَامِكَ وَشَرَابِكَ لَمْ يَتَسَـنَّہْ ٠ ۚ وَانْظُرْ اِلٰى حِمَارِكَ وَلِنَجْعَلَكَ اٰيَۃً لِّلنَّاسِ وَانْظُرْ اِلَى الْعِظَامِ كَيْفَ نُنْشِزُھَا ثُمَّ نَكْسُوْھَا لَحْــمًا ٠ ۭ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَہٗ ٠ ۙ قَالَ اَعْلَمُ اَنَّ اللہَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ ٢٥٩- مرر - المُرُورُ : المضيّ والاجتیاز بالشیء . قال تعالی: وَإِذا مَرُّوا بِهِمْ يَتَغامَزُونَ- [ المطففین 30] ، وَإِذا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِراماً [ الفرقان 72] تنبيها أنّهم إذا دفعوا إلى التّفوّه باللغو کنّوا عنه، وإذا سمعوه تصامموا عنه، وإذا شاهدوه أعرضوا عنه، وقوله : فَلَمَّا كَشَفْنا عَنْهُ ضُرَّهُ مَرَّ كَأَنْ لَمْ يَدْعُنا - [يونس 12] فقوله : مَرَّ هاهنا کقوله : وَإِذا أَنْعَمْنا عَلَى الْإِنْسانِ أَعْرَضَ وَنَأى بِجانِبِهِ [ الإسراء 83] وأمْرَرْتُ الحبلَ : إذا فتلته، والمَرِيرُ والمُمَرُّ :- المفتولُ ، ومنه : فلان ذو مِرَّةٍ ، كأنه محکم الفتل . قال : ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى- [ النجم 6] . ويقال : مَرَّ الشیءُ ، وأَمَرَّ : إذا صار مُرّاً ، ومنه - ( م ر ر ) المرور - ( م ر ر ) المرور کے معنی کسی چیز کے پاس سے گزر جانے کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : وَإِذا مَرُّوا بِهِمْ يَتَغامَزُونَ [ المطففین 30] اور جب ان کے پاس سے گزرتے تو باہم آنکھوں سے اشارہ کرتے ۔ وَإِذا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِراماً [ الفرقان 72] اور جب ان کو بیہودہ چیزوں کے پاس سے گزرنے کا اتفاق ہو تو شریفانہ انداز سے گزرجاتے ہیں ۔ نیز آیت کریمہ میں اس بات پر بھی متنبہ کیا ہے کہ اگر انہیں بیہودہ بات کہنے پر مجبوری بھی کیا جائے تو کنایہ سے بات کرتے ہیں اور لغوبات سن کر اس سے بہرے بن جاتے ہیں اور مشاہدہ کرتے ہیں تو اعراض کرلیتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : فَلَمَّا كَشَفْنا عَنْهُ ضُرَّهُ مَرَّ كَأَنْ لَمْ يَدْعُنا[يونس 12] پھر جب ہم اس تکلیف کو اس سے دور کردیتے ہیں ( تو بےلحاظ ہوجاتا اور ) اس طرح گزرجاتا ہے کہ گویا تکلیف پہنچنے پر ہمیں کبھی پکارا ہی نہیں تھا ۔ میں مربمعنی اعرض ہے ۔ جیسے فرمایا : وَإِذا أَنْعَمْنا عَلَى الْإِنْسانِ أَعْرَضَ وَنَأى بِجانِبِهِ [ الإسراء 83] اور جب ہم انسان کو نعمت بخشتے ہیں تو روگردان ہوجاتا اور پہلو پھیر لیتا ہے ۔ امررت الحبل کے معنی رسی بٹنے کے ہیں ۔ اور بٹی ہوئی رسی کو مریر یاممر کہاجاتا ہے اسی سے فلان ذومرکہاجاتا ہے اسی سے فلان ذومرۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی طاقت ور اور توانا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى[ النجم 6] طاقتور نے ۔ مرالشئی وامر کسی چیز کا تلخ ہونا ۔ اسی سے محاورہ ہے۔ فلان مایمر سو مایحلی کہ فلاں نہ تو کڑوا ہے اور نہ میٹھا ۔ یعنی نہ تو اس سے کسی کو فائدہ پہنچتا ہے اور نہ ہی نقصان ۔ اور آیت کریمہ حَمَلَتْ حَمْلًا خَفِيفاً فَمَرَّتْ بِهِ [ الأعراف 189]( تو ) اسے ہلکا ساحمل رہ جاتا ہے ۔ اور وہ اس کے ساتھ چلتی پھرتی ہے ۔ میں مرت بمعنی استمرت ہے ۔ یعنی وہ اسے اٹھائے چلتی پھرتی رہتی ہے ۔ مرۃ ( فعلۃ ) ایک بار مرتان ض ( تثنیہ ) دو بار قرآن میں ہے : يَنْقُضُونَ عَهْدَهُمْ فِي كُلِّ مَرَّةٍ [ الأنفال 56] پھر وہ ہر بار اپنے عہد کو توڑ ڈالتے ہیں ۔ وَهُمْ بَدَؤُكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ [ التوبة 13] اور انہوں نے تم سے پہلی بار ( عہد شکنی کی ) ابتداء کی ۔إِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً [ التوبة 80] اگر آپ ان کے لئے ستربار بخشیں طلب فرمائیں ۔ إِنَّكُمْ رَضِيتُمْ بِالْقُعُودِ أَوَّلَ مَرَّةٍ [ التوبة 83] تم پہلی مرتبہ بیٹھ رہنے پر رضامند ہوگئے ۔ سَنُعَذِّبُهُمْ مَرَّتَيْنِ [ التوبة 101] ہم ان کو دو بار عذاب دیں گے ۔ ثَلاثَ مَرَّاتٍ [ النور 58] تین دفعہ ( یعنی تین اوقات ہیں ۔- قرية- الْقَرْيَةُ : اسم للموضع الذي يجتمع فيه الناس، وللناس جمیعا، ويستعمل في كلّ واحد منهما . قال تعالی: وَسْئَلِ الْقَرْيَةَ [يوسف 82] قال کثير من المفسّرين معناه : أهل القرية .- ( ق ر ی ) القریۃ - وہ جگہ جہاں لوگ جمع ہو کر آباد ہوجائیں تو بحیثیت مجموعی ان دونوں کو قریہ کہتے ہیں اور جمع ہونے والے لوگوں اور جگہ انفراد بھی قریہ بولا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَسْئَلِ الْقَرْيَةَ [يوسف 82] بستی سے دریافت کرلیجئے ۔ میں اکثر مفسرین نے اہل کا لفظ محزوف مان کر قریہ سے وہاں کے با شندے مرے لئے ہیں - خوی - أصل الخَوَاء : الخلا، يقال خَوَى بطنه من الطعام يَخْوِي خَوًى وخَوَى الجوز خَوًى تشبيها به، وخَوَتِ الدار تَخْوِي خَوَاءً ، وخَوَى النجم وأَخْوَى: إذا لم يكن منه عند سقوطه مطر، تشبيها بذلک، وأخوی أبلغ من خوی، كما أن أسقی أبلغ من سقی. والتّخوية : ترک ما بين الشيئين خالیا .- ( خ و ی ) الخوا ء - کے معنی خالی ہونے کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے : ۔ یعنی اس کا پیٹ طعام سے خالی ہوگیا ۔ اور تشبیہ کے طور پر خوی الجواز کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے ۔ جسکے معنی خالی ہونے کے ہیں ۔ خوت خواء الدار گھر ویران ہوکر گر پڑا اور جب ستارے کے گرنے پر بارش نہ ہو تو تشبیہ کے طور پر کہا جاتا ہے یہاں خوی کی نسبت آخویٰ کے لفظ میں زیادہ مبالغہ پایا جاتا ہے جیسا کہ سقی اور اسقیٰ میں ۔ التخویۃ دو چیزوں کے درمیان جگہ خالی چھوڑ نا ۔- عرش - العَرْشُ في الأصل : شيء مسقّف، وجمعه عُرُوشٌ. قال تعالی: وَهِيَ خاوِيَةٌ عَلى عُرُوشِها[ البقرة 259] والعَرْشُ : شبهُ هودجٍ للمرأة شبيها في الهيئة بِعَرْشِ الکرمِ ، وعَرَّشْتُ البئرَ : جعلت له عَرِيشاً. وسمّي مجلس السّلطان عَرْشاً اعتبارا بعلوّه . قال : وَرَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ [يوسف 100]- ( ع رش ) العرش - اصل میں چھت والی چیز کو کہتے ہیں اس کی جمع عروش ہے ۔ قرآن میں ہے : وَهِيَ خاوِيَةٌ عَلى عُرُوشِها[ البقرة 259] اور اس کے مکانات اپنی چھتوں پر گرے پڑے تھے ۔ العرش چھولدادی جس کی ہیت انگور کی ٹٹی سے ملتی جلتی ہے اسی سے عرشت لبئر ہے جس کے معنی کو یں کے اوپر چھولداری سی بنانا کے ہیں بادشاہ کے تخت کو بھی اس کی بلندی کی وجہ سے عرش کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَرَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ [يوسف 100] اور اپنے والدین کو تخت پر بٹھایا ۔ - مئة- المِائَة : الثالثةُ من أصول الأَعداد، وذلک أنّ أصول الأعداد أربعةٌ: آحادٌ ، وعَشَرَاتٌ ، ومِئَاتٌ ، وأُلُوفٌ. قال تعالی: فَإِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ مِائَةٌ صابِرَةٌ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ [ الأنفال 66] ، وَإِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ مِائَةٌ يَغْلِبُوا أَلْفاً مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 65] ومائة آخِرُها محذوفٌ ، يقال :- أَمْأَيْتُ الدَّراهِمَ فَأَمَّأَتْ هي، أي : صارتْ ذاتَ مِائَةٍ.- م ی ء ) المائۃ - ( سو ) یہ اصول میں تیسری اکائی کا نام ہے کیونکہ اصول اعداد چار ہیں آحا د عشرت مئات اور الوف ۔۔۔ قرآن پاک میں ہے :۔ فَإِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ مِائَةٌ صابِرَةٌ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ [ الأنفال 66] پس اگر تم میں ایک سو ثابت قدم رہنے والے ہوں گے تو دو سو پر غالب رہیں گے ۔ وَإِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ مِائَةٌ يَغْلِبُوا أَلْفاً مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 65] اور اگر سو ( ایسے ) ہوں گے تو ہزاروں پر غالب رہیں گے ۔ اور مائۃ کا آخر ی حرف یعنی لام کلمہ مخذوف ہے ۔ اما یت الدرھم فا ماتھی یعنی میں نے دراہم کو سو کیا تو وہ سو ہوگئے ۔ - عام - العَامُ کالسّنة، لکن كثيرا ما تستعمل السّنة في الحول الذي يكون فيه الشّدّة أو الجدب . ولهذا يعبّر عن الجدب بالسّنة، والْعَامُ بما فيه الرّخاء والخصب، قال : عامٌ فِيهِ يُغاثُ النَّاسُ وَفِيهِ يَعْصِرُونَ [يوسف 49] ، وقوله : فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ إِلَّا خَمْسِينَ عاماً- [ العنکبوت 14] ، ففي كون المستثنی منه بالسّنة والمستثنی بِالْعَامِ لطیفة موضعها فيما بعد هذا الکتاب إن شاء الله، - ( ع و م ) العام ( سال ) اور السنۃ کے ایک ہی معنی ہیں ۔ لیکن السنۃ کا لفظ عموما اس سال پر بولا جاتا ہے جس میں تکلیف یا خشک سالی ہو اس بنا پر قحط سالی کو سنۃ سے تعبیر کرلیتے ہیں اور عامہ اس سال کو کہا جاتا ہے جس میں وسعت اور فروانی ہو قرآن پاک میں ہے : ۔ عامٌ فِيهِ يُغاثُ النَّاسُ وَفِيهِ يَعْصِرُونَ [يوسف 49] اس کے بعد ایک ایسا سال آئیگا جس میں خوب بارش ہوگی اور لوگ اس میں نچوڑیں گے اور آیت کریمہ : ۔ فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ إِلَّا خَمْسِينَ عاماً [ العنکبوت 14] تو وہ ان میں پچاس برس کم ہزار برس رہے ۔ میں لفظ سنۃ کو مستثنی منہ اور لفظ عام کو مستثنی لانے میں ایک لطیف نکتہ ہے جسے ہم اس کتاب کے بعد کسی دوسرے موقع پر بیان کریں گے انشا اللہ - بعث - أصل البَعْث : إثارة الشیء وتوجيهه، يقال : بَعَثْتُهُ فَانْبَعَثَ ، ويختلف البعث بحسب اختلاف ما علّق به، فَبَعَثْتُ البعیر : أثرته وسيّرته، وقوله عزّ وجل : وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام 36] ، أي : يخرجهم ويسيرهم إلى القیامة، - فالبعث ضربان :- بشريّ ، کبعث البعیر، وبعث الإنسان في حاجة .- وإلهي، وذلک ضربان :- أحدهما : إيجاد الأعيان والأجناس والأنواع لا عن ليس وذلک يختص به الباري تعالی، ولم يقدر عليه أحد .- والثاني : إحياء الموتی، وقد خص بذلک بعض أولیائه، كعيسى صلّى اللہ عليه وسلم وأمثاله، ومنه قوله عزّ وجل : فَهذا يَوْمُ الْبَعْثِ [ الروم 56] ، يعني : يوم الحشر - ( ب ع ث ) البعث ( ف ) اصل میں بعث کے معنی کسی چیز کو ابھارنے اور کسی طرف بیجھنا کے ہیں اور انبعث در اصل مطاوع ہے بعث کا مگر متعلقات کے لحاظ سے اس کے معنی مختلف ہوتے رہتے ہیں مثلا بعثت البعیر کے معنی اونٹ کو اٹھانے اور آزاد چھوڑ دینا کے ہیں اور مردوں کے متعلق استعمال ہو تو قبروں سے زندہ کرکے محشر کی طرف چلانا مراد ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام 36] اور مردوں کو تو خدا ( قیامت ہی کو ) اٹھایا جائے گا - پس بعث دو قمخ پر ہے - بعث بشری یعنی جس کا فاعل انسان ہوتا ہے جیسے بعث البعیر ( یعنی اونٹ کو اٹھاکر چلانا ) کسی کو کسی کام کے لئے بھیجنا ) - دوم بعث الہی یعنی جب اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو پھر اس کی بھی دوقسمیں ہیں اول یہ کہ اعیان ، اجناس اور فواع کو عدم سے وجود میں لانا ۔ یہ قسم اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے اور اس پر کبھی کسی دوسرے کو قدرت نہیں بخشی ۔ - دوم مردوں کو زندہ کرنا ۔ اس صفت کے ساتھ کبھی کبھی اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو بھی سرفراز فرمادیتا ہے جیسا کہ حضرت عیسٰی (علیہ السلام) اور ان کے ہم مثل دوسری انبیاء کے متعلق مذکور ہے اور آیت کریمہ : ۔ فَهذا يَوْمُ الْبَعْثِ [ الروم 56] اور یہ قیامت ہی کا دن ہے ۔ بھی اسی قبیل سے ہے یعنی یہ حشر کا دن ہے - كم - كَمْ : عبارة عن العدد، ويستعمل في باب الاستفهام، وينصب بعده الاسم الذي يميّز به نحو : كَمْ رجلا ضربت ؟ ويستعمل في باب الخبر، ويجرّ بعده الاسم الذي يميّز به . نحو : كَمْ رجلٍ. ويقتضي معنی الکثرة، وقد يدخل «من» في الاسم الذي يميّز بعده . نحو : وَكَمْ مِنْ قَرْيَةٍ أَهْلَكْناها[ الأعراف 4] ، وَكَمْ قَصَمْنا مِنْ قَرْيَةٍ كانَتْ ظالِمَةً [ الأنبیاء 11] ، والکُمُّ : ما يغطّي الید من القمیص، والْكِمُّ ما يغطّي الثّمرةَ ، وجمعه : أَكْمَامٌ. قال : وَالنَّخْلُ ذاتُ الْأَكْمامِ [ الرحمن 11] . والْكُمَّةُ : ما يغطّي الرأس کالقلنسوة .- کم یہ عدد سے کنایہ کے لئے آتا ہے اور یہ دو قسم پر ہے ۔ استفہامیہ اور خبریہ ۔ استفہامیہ ہوتا اس کا مابعد اسم تمیزبن کر منصوب ہوتا ( اور اس کے معنی کتنی تعداد یا مقدار کے ہوتے ہیں ۔ جیسے کم رجلا ضربت اور جب خبریہ ہو تو اپنی تمیز کی طرف مضاف ہوکر اسے مجرور کردیتا ہے اور کثرت کے معنی دیتا ہے یعنی کتنے ہی جیسے کم رجل ضربت میں نے کتنے ہی مردوں کو پیٹا اور اس صورت میں کبھی اس کی تمیز پر من جارہ داخل ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَكَمْ مِنْ قَرْيَةٍ أَهْلَكْناها[ الأعراف 4] اور کتنی ہی بستیاں ہیں کہ ہم نے تباہ کروالیں ۔ وَكَمْ قَصَمْنا مِنْ قَرْيَةٍ كانَتْ ظالِمَةً [ الأنبیاء 11] اور ہم نے بہت سے بستیوں کو جو ستم گار تھیں ہلاک کر ڈالا ۔- لبث - لَبِثَ بالمکان : أقام به ملازما له . قال تعالی: فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ [ العنکبوت 14] ،- ( ل ب ث ) لبث بالمکان - کے معنی کسی مقام پر جم کر ٹھہرنے اور مستقل قیام کرنا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ [ العنکبوت 14] تو وہ ان میں ۔ ہزار برس رہے ۔- يوم - اليَوْمُ يعبّر به عن وقت طلوع الشمس إلى غروبها . وقد يعبّر به عن مدّة من الزمان أيّ مدّة کانت، قال تعالی: إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران 155] ، - ( ی و م ) الیوم - ( ن ) ی طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک کی مدت اور وقت پر بولا جاتا ہے اور عربی زبان میں مطلقا وقت اور زمانہ کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ خواہ وہ زمانہ ( ایک دن کا ہو یا ایک سال اور صدی کا یا ہزار سال کا ہو ) کتنا ہی دراز کیوں نہ ہو ۔ قرآن میں ہے :إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران 155] جو لوگ تم سے ( احد کے دن ) جب کہہ دوجماعتیں ایک دوسرے سے گتھ ہوگئیں ( جنگ سے بھاگ گئے ۔ - نظر - النَّظَرُ : تَقْلِيبُ البَصَرِ والبصیرةِ لإدرَاكِ الشیءِ ورؤيَتِهِ ، وقد يُرادُ به التَّأَمُّلُ والفَحْصُ ، وقد يراد به المعرفةُ الحاصلةُ بعد الفَحْصِ ، وهو الرَّوِيَّةُ. يقال : نَظَرْتَ فلم تَنْظُرْ. أي : لم تَتَأَمَّلْ ولم تَتَرَوَّ ، وقوله تعالی: قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس 101] أي : تَأَمَّلُوا . والنَّظَرُ : الانْتِظَارُ. يقال : نَظَرْتُهُ وانْتَظَرْتُهُ وأَنْظَرْتُهُ. أي : أَخَّرْتُهُ. قال تعالی: وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود 122] ، وقال : إِلى طَعامٍ غَيْرَ ناظِرِينَ إِناهُ [ الأحزاب 53] أي :- منتظرین،- ( ن ظ ر ) النظر - کے معنی کسی چیز کو دیکھنے یا اس کا ادراک کرنے کے لئے آنکھ یا فکر کو جو لانی دینے کے ہیں ۔ پھر کبھی اس سے محض غو ر وفکر کرنے کا معنی مراد لیا جاتا ہے اور کبھی اس معرفت کو کہتے ہیں جو غور وفکر کے بعد حاصل ہوتی ہے ۔ چناچہ محاور ہ ہے ۔ نظرت فلم تنظر۔ تونے دیکھا لیکن غور نہیں کیا ۔ چناچہ آیت کریمہ : قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس 101] ان کفار سے کہو کہ دیکھو تو آسمانوں اور زمین میں کیا کیا کچھ ہے ۔- اور النظر بمعنی انتظار بھی آجاتا ہے ۔ چناچہ نظرتہ وانتظرتہ دونوں کے معنی انتظار کرنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود 122] اور نتیجہ اعمال کا ) تم بھی انتظار کرو ۔ ہم بھی انتظار کرتے ہیں - طعم - الطَّعْمُ : تناول الغذاء، ويسمّى ما يتناول منه طَعْمٌ وطَعَامٌ. قال تعالی: وَطَعامُهُ مَتاعاً لَكُمْ [ المائدة 96] ، قال : وقد اختصّ بالبرّ فيما روی أبو سعید «أنّ النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم أمر بصدقة الفطر صاعا من طَعَامٍ أو صاعا من شعیر» «2» . قال تعالی: وَلا طَعامٌ إِلَّا مِنْ غِسْلِينٍ [ الحاقة 36] ، - ( ط ع م ) الطعم - ( س) کے معنی غذا کھانے کے ہیں ۔ اور ہر وہ چیز جو بطورغذا کھائی جائے اسے طعم یا طعام کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَطَعامُهُ مَتاعاً لَكُمْ [ المائدة 96] اور اس کا طعام جو تمہارے فائدہ کے لئے ۔ اور کبھی طعام کا لفظ خاص کر گیہوں پر بولا جاتا ہے جیسا کہ ابوسیعد خدری سے ۔ روایت ہے ان النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) امر بصدقۃ الفطر صاعا من طعام اوصاعا من شعیر ۔ کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صدقہ فطر میں ایک صحابی طعام یا ایک صاع جو د ینے کے حکم دیا ۔ قرآن میں ہے : وَلا طَعامٌ إِلَّا مِنْ غِسْلِينٍ [ الحاقة 36] اور نہ پیپ کے سوا ( اس کے ) لئے کھانا ہے - شرب - الشُّرْبُ : تناول کلّ مائع، ماء کان أو غيره . قال تعالیٰ في صفة أهل الجنّة : وَسَقاهُمْ رَبُّهُمْ شَراباً طَهُوراً [ الإنسان 21] ، وقال في صفة أهل النّار : لَهُمْ شَرابٌ مِنْ حَمِيمٍ [يونس 4] ، وجمع الشَّرَابُ أَشْرِبَةٌ- ( ش ر ب ) الشراب - کے معنی پانی یا کسی اور مائع چیز کو نوش کرنے کے ہیں ۔ قرآن نے ہی جنت کے متعلق فرمایا : ۔ وَسَقاهُمْ رَبُّهُمْ شَراباً طَهُوراً [ الإنسان 21] اور ان کا پروردگار انہیں نہایت پاکیزہ شراب پلائیگا ۔ اور اہل دوزخ کے متعلق فرمایا : ۔ لَهُمْ شَرابٌ مِنْ حَمِيمٍ [يونس 4] ان کے لئے پینے کو کھولتا ہوا پانی ۔ شراب کی جمع اشربۃ ہے اور شربتہ شربا وشربا کے معنی پینے کے ہیں - (يتسنّه)- ، الهاء في الفعل أصلية، فهي ثابتة وصلا ووقفا، وقیل هي للسکت وأنّ لام الکلمة واو، والفعل مجزوم بحذف حرف العلّة ويجوز أن يكون الفعل مشتقّ من التسنّن الذي هو التغيّر وأصله لم يتسنّن، مأخوذ من الحمأ المسنون، فأبدلت النون الأخيرة حرف علّة، وفي هذه الحال تکون الهاء للسکت ليس غير . وقوله : لَمْ يَتَسَنَّهْ [ البقرة 259] ، معناه : لم يتغيّر، والهاء للاستراحة- لم یتسنہ۔ نفی حجد ہلم۔ واحد مذکر غائب۔ ( باوجود سالہا گزر جانے کے) تمہارا مشروب یا طعام خراب نہیں ہوا۔ تسنن ( باب تفعل) مصدر سے۔ عمر رسیدہ ہونا۔ پرانا ہونا۔ خوراک کا بس ہوجانا ۔ خوارک کو پھپھوندی لگ جانا۔ س ن ن حروف مادہ ہیں۔ یتسن اصل میں یتسنن تھا۔ چونکہ تین نون جمع ہوگئے تھے اخیر کو ی سے بدلا۔ پھر ی کو الف سے بدلا الف جزم کی وجہ سے حذف ہوگیا۔ ہ استراحت یعنی سکتہ کی ہے۔ مادہ س ن ہ سے سنہ یسنہ سنہ ( باب سمع) سے بھی انہی معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ بمعنی بہت سالوں والا ہونا۔ طعام یا شراب کا متغیر ہوجانا۔ بگڑ جانا۔ - حمر - الحِمَار : الحیوان المعروف، وجمعه حَمِير وأَحْمِرَة وحُمُر، قال تعالی: وَالْخَيْلَ وَالْبِغالَ وَالْحَمِيرَ [ النحل 8] ، ويعبّر عن الجاهل بذلک، کقوله تعالی: كَمَثَلِ الْحِمارِ يَحْمِلُ أَسْفاراً [ الجمعة 5] ، وقال تعالی: كَأَنَّهُمْ حُمُرٌ مُسْتَنْفِرَةٌ [ المدثر 50] ، وحمار قبّان :- دويّبة، والحِمَارَان : حجران يجفّف عليهما الأقط شبّه بالحمار في الهيئة، والمُحَمَّر :- الفرس الهجين المشبّه بلادته ببلادة الحمار . والحُمْرَة في الألوان، وقیل : ( الأحمر والأسود) للعجم والعرب اعتبارا بغالب ألوانهم، وربما قيل : حمراء العجان والأحمران : اللحم والخمر اعتبارا بلونيهما، والموت الأحمر أصله فيما يراق فيه الدم، وسنة حَمْرَاء : جدبة، للحمرة العارضة في الجوّ منها، وکذلک حَمَّارَة القیظ : لشدّة حرّها، وقیل :- وِطَاءَة حَمْرَاء : إذا کانت جدیدة، ووطاءة دهماء : دارسة .- ( ح م ر ) الحمام ( گدھا ) اس کی حمر وحمیر واحمرتہ آتی ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَالْخَيْلَ وَالْبِغالَ وَالْحَمِيرَ [ النحل 8] اور گھوڑے خچر اور گدھے ۔ کبھی حمار کے لفظ سے جاہل اور بےعلم آدمی بھی مراد ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا ۔ كَمَثَلِ الْحِمارِ يَحْمِلُ أَسْفاراً [ الجمعة 5] ان کی مثال گدھے کی سی ہے جس پر بڑی بڑی کتابیں لدی ہوں ۔ كَأَنَّهُمْ حُمُرٌ مُسْتَنْفِرَةٌ [ المدثر 50] گویا گدھے ہیں جو بدک جاتے ہیں ۔ حمار قبان ایک قسم کا کیڑا ( جسے فارسی میں خرک کہا جاتا ہے ) الجمار ( ان دو پتھر جن پر پنیر خشک کیا جاتا ہے ہیئت میں حمار سے تشبیہ کے طور پر کہا جاتا ہے اور گدھے کے ساتھ جلاوت میں تشبیہ دیکر و غلی نسلی کے گھوڑے کو بھی المحمر کہا جاتا ہے الحمرۃ سرخی ۔ الاحمر الاسود ( عرب ) وعجم ( اس میں عمومی رنگت کا لحاظ کیا گیا ہے ) اور کبھی حمراء العجان ( کنایہ ازعجم ) بھی کہا جاتا ہے ۔ الاحمران ۔ گوشت اور شراب الموت الاحمر سخت موت ، وہ موت جو قبل راقع ہو سنۃ حمراء قحط سالی کیونکر اس میں فضا کا رنگ سرخ نظر آتا ہے اسی بنا پر سخت گرمی کو حمرۃ القیط کہا جاتا ہے ۔ وطاءۃ حمراء قدم کا تازہ نشان س کے بالمقابل مٹے ہوئے نسان کو وطاءۃ دھماء بولتے ہیں ۔- جعل - جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها،- ( ج ع ل ) جعل ( ف )- یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔- الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- عظم - العَظْمُ جمعه : عِظَام . قال تعالی: عِظاماً فَكَسَوْنَا الْعِظامَ لَحْماً [ المؤمنون 14] ، وقرئ : عظاما «1» فيهما، ومنه قيل : عَظْمَة الذّراع لمستغلظها،- ( ع ظ م ) العظم - کے معنی ہڈی کے ہیں اس کی جمع عظا م آتی ہے ۔ قرآن پا ک میں ہے : ۔ عِظاماً فَكَسَوْنَا الْعِظامَ لَحْماً [ المؤمنون 14] ہڈیاں ( بنائیں ) پھر ہڈیوں پر گوشت ( پوست ) چڑھا یا ۔ ایک قرات میں دونوں جگہ عظم ہے اور اسی سے عظمۃ الذراع ہے جس کے معنی بازو کا موٹا حصہ کے ہیں عظم الرجل بغیر تنگ کے پالان کی لکڑی عظم الشئی کے اصل معنی کسی چیز کی ہڈی کے بڑا ہونے کے ہیں مجازا ہر چیز کے بڑا ہونے پر بولا جاتا ہے خواہ اس کا تعلق حس سے ہو یا عقل سے ۔- نشز - النَّشْزُ : المُرْتَفِعُ من الأرضِ ، ونَشَزَ فلانٌ: إذا قصد نَشْزاً ، ومنه : نَشَزَ فلان عن مقرِّه : نَبا، وكلُّ نابٍ نَاشِزٌ. قال تعالی: وَإِذا قِيلَ انْشُزُوافَانْشُزُوا [ المجادلة 11] ويعبّر عن الإحياء بِالنَّشْزِ والإِنْشَازِ ، لکونه ارتفاعا بعد اتِّضاع . قال تعالی: وَانْظُرْ إِلَى الْعِظامِ كَيْفَ نُنْشِزُها[ البقرة 259] ، وقُرِئَ بضَمِّ النون وفَتْحِهَا وقوله تعالی: وَاللَّاتِي تَخافُونَ نُشُوزَهُنَ [ النساء 34] ونُشُوزُ المرأة : بُغْضُها لزَوْجها ورفْعُ نفسِها عن طاعتِه، وعَيْنِها عنه إلى غيره، وبهذا النَّظر قال الشاعر :إِذَا جَلَسَتْ عِنْدَ الإمامِ كأَنَّهَا ... تَرَى رُفْقَةً من ساعةٍ تَسْتَحِيلُهَا وعِرْقٌ نَاشِزٌ. أيْ : نَاتِئٌ.- ( ن ش ز ) النشز۔ بلند زمین کو کہتے ہیں ۔ اور نشز فلان کے معنی بلند زمین کا قصد کرنے کے ہیں ۔ اسی سے نشز فلان عن مقرہ کا محاورہ ہے جس کے معنی کسی کے اپنی قرارگاہ سے اوپر ابھر آنے کے ہیں ۔ اور ہر اوپر اٹھنے والی چیز کو ناشز کہاجاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَإِذا قِيلَ انْشُزُوافَانْشُزُوا [ المجادلة 11] اور جب کہاجائے کہ اٹھ کھڑے ہو تو اٹھ کھڑے ہوا کرو۔ اور نشز ونشاز کے معنی زندہ کرنا ۔۔۔ بھی آتے ہیں ۔ کیونکہ زندگی میں بھی ایک طرح کا ابھار پایا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : وَانْظُرْ إِلَى الْعِظامِ كَيْفَ نُنْشِزُها[ البقرة 259] اور ( وہاں ) گدھے کی ہڈیوں کو دیکھو کہ ہم ان کو کیونکہ جوڑ دیتے ہیں اور ان پر ( کس طرح ) گوشت ( پوست) چڑھادیتے ہیں ۔ اور نشرھا کے نون پر ضمہ اور فتحۃ دونوں جائز ہیں ۔ اور نشوزا المرءۃ کے معنی عورت کے اپنے شوہر کو برا سمجھنے اور سرکشی کرنے اور کسی دوسرے مرد پر نظر رکھنے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَاللَّاتِي تَخافُونَ نُشُوزَهُنَ [ النساء 34] اور جن عورتوں کی نسبت تمہیں معلوم ہو کہ سرکشی ( اور بدخوئی ) کرنے لگی ہیں ۔ چناچہ اسی معنی کے پیش نظر شاعر نے کہا ہے ( الطویل ) (426) اذا جلست عندا الامام کانھا تریٰ رفقۃ من ساعۃ تستحیلھا اور عرق ناشز کے معنی پھولی ہوئی رگ کے ہیں - كسا - الكِسَاءُ والْكِسْوَةُ : اللّباس . قال تعالی: أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ [ المائدة 89] ، وقد كَسَوْتُهُ واكْتَسَى. قال : وَارْزُقُوهُمْ فِيها وَاكْسُوهُمْ [ النساء 5] ، فَكَسَوْنَا الْعِظامَ لَحْماً- [ المؤمنون 14] - ( ک س و ) الکساء والکسوۃ کے معنی لباس کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ [ المائدة 89] یا ان کو کپڑا دینا کسوتہ ۔ میں نے اسے لباس پہنایا ۔ اکتسیٰ ( افتعال ) اس نے پہن لیا ۔ قرآن میں ہے ۔ وَارْزُقُوهُمْ فِيها وَاكْسُوهُمْ [ النساء 5] ہاں اس میں سے ان کو کھلاتے اور پہناتے رہو ۔ فَكَسَوْنَا الْعِظامَ لَحْماً [ المؤمنون 14] پھر ہڈیوں پر گوشت پوست چڑھا تا ۔- لحم - اللَّحْمُ جمعه : لِحَامٌ ، ولُحُومٌ ، ولُحْمَانٌ. قال : وَلَحْمَ الْخِنْزِيرِ [ البقرة 173] . ولَحُمَ الرّجل : كثر عليه اللّحم فضخم، فهو لَحِيمٌ ، ولَاحِمٌ وشاحم : صار ذا لَحْمٍ وشحم . نحو :- لابن وتامر، ولَحِمَ : ضري باللّحم، ومنه : باز لَحِمٌ ، وذئب لحم . أي : كثيرُ أَكْلِ اللّحم . وبیت لَحْمٍ : أي : فيه لحم، وفي الحدیث : «إنّ اللہ يبغض قوما لَحِمِينَ» «1» . وأَلْحَمَهُ : أطعمه اللّحم، وبه شبّه المرزوق من الصّيد، فقیل : مُلْحِمٌ ، وقد يوصف المرزوق من غيره به، وبه شبّه ثوب مُلْحَمٌ: إذا تداخل سداه «2» ، ويسمّى ذلک الغزل لُحْمَةٌ تشبيها بلحمة البازي، ومنه قيل : «الولاء لُحْمَةٌ کلحمة النّسب» «3» . وشجّة مُتَلَاحِمَةٌ:- اکتست اللّحم، ولَحَمْتُ اللّحم عن العظم :- قشرته، ولَحَمْتُ الشیءَ ، وأَلْحَمْتُهُ ، ولَاحَمْتُ بين الشّيئين : لأمتهما تشبيها بالجسم إذا صار بين عظامه لحمٌ يلحم به، واللِّحَامُ : ما يلحم به الإناء، وأَلْحَمْتُ فلانا : قتلته وجعلته لحما للسّباع، وأَلْحَمْتُ الطائر : أطعمته اللّحم، وأَلْحَمْتُكَ فلانا : أمکنتک من شتمه وثلبه، وذلک کتسمية الاغتیاب والوقیعة بأكل اللَّحْمِ. نحو قوله تعالی: أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتاً [ الحجرات 12] ، وفلان لَحِيمٌ فعیل كأنّه جعل لحما للسّباع، والمَلْحَمَةُ : المعرکة، والجمع المَلَاحِمُ.- ( ل ح م ) اللحم - ( گوشت ) کی جمع لحام ، لحوم ، اور لحمان آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : وَلَحْمَ الْخِنْزِيرِ [ البقرة 173] اور سور کا گوشت لحم الرجل فھولحیم کے معنی ہیں وہ پر گوشت اور موٹا ہوگیا ۔ اور ہوئے چربی چڑھے ہوئے آدمی کو لاحم شاحم کہاجاتا ہے جیسے : لابن وتامر ۔ لحم ( س) کے معنی گوشت کھانے کا حریص ہونا کے ہیں اسی سے بہت زیادہ گوشت خور باز یا بھیڑیئے کو لحم کہاجاتا ہے ۔ بیت لحم ۔ وہ گھر جہاں لوگوں کی اکثر غیبتیں کی جائیں ۔ حدیث میں ہے ۔ (107) ان اللہ یبغض قوما لحمین کہ اللہ تعالیٰ بہت گوشت خور لوگوں کو ناپسند کرتا ہے ۔ یعنی جو ہر وقت لوگوں کی غیبت کرتے رہتے ہیں ۔ الحمہ کے معنی کسی کو گوشت کھلانے کے ہیں ۔ اور اسی سے تشبیہ کے طور پر اس آدمی کو جس کی گزراں شکار پر ہو رجل ملحم کہاجاتا ہے ۔ پھر مطلقا تشبیہا ہر کھاتے پییتے آدمی کو ملحم کہہ دیتے ہیں اور اسی سے ثوب ملحم لگا محاورہ ہے جس کے معنی بنے ہوئے کپڑا کے ہیں کپڑے کے بانا کو لحمہ کہاجاتا ہے جو کہ لحمہ البازی سے مشتق ہے ۔ اسی سے کہاجاتا ہے ؛ (108) الولآء لحمۃ کلحمۃ النسب کہ والا کا رشتہ بھی نسب کے رشتہ کیطرح ہے شجۃ متلاحمۃ رخم جس پر گوشت چڑھ گیا ہو ۔ لحمت اللحم عن العظم میں نے ہڈی سے گوشت کو الگ کردیا ۔ لحمت الشیئین میں نے ایک چیز کو دوسری کے ساتھ اس طرح گھتی کردیا ۔ جیسے ہڈی گے ساتھ گوشت پیوست ہوتا ہے ۔ اللحام ۔ وہ چیز جس سے برتن کو ٹا نکا لگا جائے ۔ الحمت فلانا کسی کو قتل کرکے اس کا گوشت درندوں کو کھلا دیا ۔ الحمت الطائر ۔ میں نے پرند کا گوشت کھلایا ۔ الحمتک فلانا ۔ میں نے فلاں کی غیبت کا موقع دیا ۔ اور یہ ایسے ہی ہے جیسے غیبت وبدگوئی کو اکل اللحم یعنی گوشت کھانے سے تعبیر کرلیتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتاً [ الحجرات 12] کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرے گا کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے ۔ فلان لحیم فلاں کو قتل کردیا گیا ۔ گویا اسے درندوں کی خوراک بنادیا گیا ۔ الملحمۃ معرکن ملاحم ۔ - قَدِيرُ :- هو الفاعل لما يشاء علی قَدْرِ ما تقتضي الحکمة، لا زائدا عليه ولا ناقصا عنه، ولذلک لا يصحّ أن يوصف به إلا اللہ تعالی، قال : إِنَّ اللَّهَ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ [ البقرة 20] . والمُقْتَدِرُ يقاربه نحو : عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر 55] ، لکن قد يوصف به البشر، وإذا استعمل في اللہ تعالیٰ فمعناه القَدِيرُ ، وإذا استعمل في البشر فمعناه : المتکلّف والمکتسب للقدرة، يقال : قَدَرْتُ علی كذا قُدْرَةً. قال تعالی: لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة 264] .- القدیر - اسے کہتے ہیں جو اقتضائے حکمت کے مطابق جو چاہے کرسکے اور اس میں کمی بیشی نہ ہونے دے ۔ لہذا اللہ کے سوا کسی کو قدیر نہیں کہہ سکتے ۔ قرآن میں ہے : اور وہ جب چاہے ان کے جمع کرلینے پر ۔۔۔۔ قادر ہے ۔ اور یہی معنی تقریبا مقتقدر کے ہیں جیسے فرمایا : عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر 55] ہر طرح کی قدرت رکھنے والے بادشاہ کی بار گاہ میں ۔ فَإِنَّا عَلَيْهِمْ مُقْتَدِرُونَ [ الزخرف 42] ہم ان پر قابو رکھتے ہیں ۔ لیکن مقتدر کے ساتھ کبھی انسان بھی متصف ہوجاتا ہے ۔ اور جب اللہ تعالیٰ کے متعلق مقتدر کا لفظ استعمال ہو تو یہ قدیر کے ہم معنی ہوتا ہے اور جب انسان کا وصف واقع ہو تو اس کے معنی تکلیف سے قدرت حاصل کرنے والا کے ہوتے ہیں ۔ محاورہ ہے : قدرت علی کذا قدرۃ کہ میں نے فلاں چیز پر قدرت حاصل کرلی ۔ قرآن میں ہے : ( اسی طرح ) یہ ریا کار ) لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ نہیں لے سکیں گے۔
قول باری ہے (قال لبثت یوماً او بعض یوم قال بل لبثت مائۃ عام، ( ) اس نے کہا میں ایک دن یا دن کا کچھ حصہ گزارا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمای تو نے یہاں ایک سو برس گزارے ہیں) اس قائل کا قول کذب بیانی نہیں ہے اللہ تعالیٰ نے تو اسے ایک سو برسوں تک موت کی حالت میں رکھا تھا، اس نے اپنے خیال کے مطابق یہ کہا تھا گویا اس نے یوں کہا تھا کہ ” میرے خیال میں میں ایک دن یا دن کا بعض حصہ گزارا ہوں۔ “ اس کی نظیر اصحاب کہف کی زبان سے ادا ہونے والا فقرہ ہے جس کی حکایت اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں کی ہے (قال قائل منھم کم لبثتم قالوا لبثنا یوماً او بعض یوم) ( ) حالانکہ انہوں نے تین سو نو سال گزارے تھے، انہوں نے اپنے خیال کے مطابق جو بات کہی تھی اس میں انہیں کاذب قرار نہیں دیا جاسکتا گویا انہوں نے یوں کہا تھا۔ ” ہمارے خیال میں ہم نے ایک دن یا دن کا کچھ حصہ گزارا ہے۔ اس کی نظیر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وہ قول ہے جو آپ نے اس وقت فرمایا تھا جب چار رکعتوں والی ایک فرض نماز کی آپ نے دو رکعتیں ادا کیں اور اس پر ایک صحابی ذوالیدین (رض) نے عرض کیا تھا کہ آیا نماز مختصر کردی گئی ہے یا آپ بھول گئے ہیں ؟ آپ نے فرمایا (لم تقصرولم انس، ( ) نہ نماز مختصر ہوئی اور نہ ہی میں بھولا ہوں) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے اس قول میں سچے تھے کیونکہ آپ نے اس بات کی اطلاع دی تھی جو آپ کے اپنے ظن اور گمان کے مطابق تھا۔ آپ کے گمان میں یہ تھا کہ آپ نے نماز پوری ادا کی ہے۔- کلام کے اندر اس بات کی گنجائش ہوتی ہے کہ جب کوئی شخص اپنے ظن و تخمین کے مطابق کسی بات کی اطلاع دے تو وہ قابل گرفت نہیں ہوتی۔ البتہ حقیقت نفس الامری کے متعلق اطلاع نہ دے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے لغو قسم کھانے والے کو درگذر کردیا ہے اور روایت کے مطابق اس کی صورت یہ ہے کہ کوئی شخص کسی سے پوچھے کہ آیا فلاں بات یا فلاں واقعہ پیش آیا ہے ؟ جس کے جواب میں وہ شخص اپنے خیال کے مطابق کہے کہ ” نہیں بخدا نہیں “ یا یوں کہے کہ ” بخدا کیوں نہیں “ اگرچہ حقیقت نفس الامری اس کے خلاف ہو۔ اس شخص کی گرفت نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس نے قسم کھاکر جو جواب دیا تھا وہ اس کے عقیدے اور ضمیر کے مطابق تھا۔ واللہ الموفق۔
(٢٥٩) اور اسی طرح عزیر بن شرحیاء کا واقعہ ہے جن کا ” دیر ہرقل “ بستی پر سے گزرنا ہوا وہ بستی چھتوں کے بل گری پڑی تھی، کہنے لگے اللہ تعالیٰ ان بستی والوں کو ان کے مرنے کے بعد کی سے زندہ کرے گا اللہ تعالیٰ نے ان کو اسی جگہ پر سو سال تک سلا دیا، اس کے بعد دن کے اخیر حصہ میں اللہ تعالیٰ نے ان کو بیدار کیا۔- پھر ارشاد ہوا عزیر کتنا قیام ہوا کہنے لگے ایک دن لیکن جب سورج پر نظر پڑی تو بولے دن کا کچھ حصہ ارشاد ہوا کہ سو سال تک انجیر، انگور اور اس کے شیرے کو دیکھو، اس میں اتنی مدت میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں ہوئی اور اپنے گدھے کی ہڈیاں بھی دیکھو کیسی سفید چمک رہی ہیں (اللہ تعالیٰ نے یہ اس لیے کیا) تاکہ ہم مردوں کے زندہ کرنے میں تمہاری ایک علامت اور نشانی کردیں۔- جس صورت پر انسان مرتا ہے اسی حالت میں اللہ تعالیٰ اس کو زندہ کردیتا ہے، چناچہ حضرت عزیر (علیہ السلام) پر جوانی کی حالت میں اللہ تعالیٰ نے موت طاری کردی تھی اور پھر جوانی کی حالت میں ہی زندہ کردیا۔- اور ایک تفسیر یہ بھی ہے کہ لوگوں کے لیے ایک عبرت کی نشانی بنادیا کیوں کہ جب وہ زندہ ہوئے تو وہ چالیس سال کی عمر کے تھے اور ان کا لڑکا ایک سو بیس سال کا تھا، اور اب اس گدھے کی ہڈیوں کی طرف دیکھ کر کہ ہم کس طرح اسے ترکیب دیے دیتے ہیں اور اگر لفظ ” ننشزھا “۔ کو راء کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ کس طرح ہم اس کو پیدا کرتے ہیں کہ اس میں پٹھے، رگیں، گوشت، کھال، اور بال یہ تمام چیزیں پیدا کرتے ہیں پھر اس کے بعد اس میں جان ڈالتے ہیں، جب یہ باتیں مشاہدہ کے طور پر واضح ہوگئیں کہ اللہ تعالیٰ مردوں کی ہڈیوں کو جمع کرکے کس طرح ان میں روح ڈالتے ہیں تو حضرت عزیز (علیہ السلام) بےاختیار جوش میں آکر کہہ اٹھے کہ میں یقین رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ موت وحیات اور ہر ایک چیز پر قادر ہے۔
آیت ٢٥٩ (اَوْ کَالَّذِیْ مَرَّ عَلٰی قَرْیَۃٍ وَّہِیَ خَاوِیَۃٌ عَلٰی عُرُوْشِہَا ج) - تفاسیر میں اگرچہ اس واقعے کی مختلف تعبیرات ملتی ہیں ‘ لیکن یہ دراصل حضرت عزیر (علیہ السلام) کا واقعہ ہے جن کا گزر یروشلم شہر پر ہوا تھا جو تباہ و برباد ہوچکا تھا۔ بابل (عراق) کے بادشاہ بخت نصر ( ) نے ٥٨٦ ق م میں فلسطین پر حملہ کیا تھا اور یروشلم کو تاخت و تاراج کردیا تھا۔ اس وقت بھی عراق اور اسرائیل کی آپس میں بدترین دشمنی ہے۔ یہ دشمنی درحقیقت ڈھائی ہزار سال پرانی ہے۔ بخت نصر کے حملے کے وقت یروشلم بارہ لاکھ کی آبادی کا شہر تھا۔ بخت نصر نے چھ لاکھ نفوس کو قتل کردیا اور باقی چھ لاکھ کو بھیڑ بکریوں کی طرح ہانکتا ہوا قیدی بنا کرلے گیا۔ یہ لوگ ڈیڑھ سو برس تک اسیری ( ) میں رہے ہیں اور یروشلم اجڑا رہا ہے۔ وہاں کوئی متنفسّ زندہ نہیں بچا تھا۔ بخت نصر نے یروشلم کو اس طرح تباہ و برباد کیا تھا کہ کوئی دو اینٹیں سلامت نہیں چھوڑیں۔ اس نے ہیکل سلیمانی کو بھی مکمل طور پر شہید کردیا تھا۔ یہودیوں کے مطابق ہیکل کے ایک تہہ خانے میں تابوت سکینہ بھی تھا اور وہاں ان کے ربائی بھی موجود تھے۔ ہیکل مسمار ہونے پر وہیں ان کی موت واقع ہوئی اور تابوت سکینہ بھی وہیں دفن ہوگیا۔ تو جس زمانے میں یہ بستی اجڑی ہوئی تھی ‘ حضرت عزیر (علیہ السلام) کا ادھر سے گزر ہوا۔ انہوں نے دیکھا کہ وہاں کوئی متنفسّ زندہ نہیں اور کوئی عمارت سلامت نہیں۔- ( قَالَ اَنّٰی یُحْیٖ ہٰذِہِ اللّٰہُ بَعْدَ مَوْتِہَاج ) - ان کا یہ سوال اظہار حیرت کی نوعیت کا تھا کہ اس طرح اجڑی ہوئی بستی میں دوبارہ کیسے احیا ہوسکتا ہے ؟ دوبارہ کیسے اس میں لوگ آکر آباد ہوسکتے ہیں ؟ اتنی بڑی تباہی و بربادی کہ کوئی متنفس باقی نہیں ‘ کوئی دو اینٹیں سلامت نہیں - (فَاَمَاتَہُ اللّٰہُ ماءَۃَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَہٗ ط) - (قَالَ کَمْ لَبِثْتَ ط) - (قَالَ لَبِثْتُ یَوْمًا اَوْ بَعْضَ یَوْمٍ ط) ۔ - ان کو ایسا محسوس ہوا جیسے تھوڑی دیر کے لیے سویا تھا ‘ شاید ایک دن یا دن کا کچھ حصہ میں یہاں رہا ہوں۔- (قَالَ بَلْ لَّبِثْتَ ماءَۃَ عَامٍ ) (اللہ تعالیٰ نے) فرمایا بلکہ تم پورے سو سال اس حال میں رہے ہو - (فَانْظُرْ اِلٰی طَعَامِکَ وَشَرَابِکَ لَمْ یَتَسَنَّہْ ج) ۔ - ان میں سے کوئی شے گلی سڑی نہیں ‘ ان کے اندر کوئی خرابی پیدا نہیں ہوئی۔- (وَانْظُرْ اِلٰی حِمَارِکَ ) - حضرت عزیر (علیہ السلام) کی سواری کا گدھا اس عرصے میں بالکل ختم ہوچکا تھا ‘ اس کی بوسیدہ ہڈیاں ہی باقی رہ گئی تھیں ‘ گوشت گل سڑ چکا تھا۔ - (وَلِنَجْعَلَکَ اٰیَۃً لِّلنَّاسِ ) - یعنی اے عزیر ( علیہ السلام) ہم نے تو خود تمہیں لوگوں کے لیے ایک نشانی بنانا ہے ‘ اس لیے ہم تمہیں اپنی یہ نشانی دکھا رہے ہیں تاکہ تمہیں دوبارہ اٹھائے جانے پر یقین کامل حاصل ہو۔- (وَانْظُرْ اِلَی الْعِظَامِ کَیْفَ نُنْشِزُہَا) (ثُمَّ نَکْسُوْہَا لَحْمًا ط) - چنانچہ حضرت عزیر ( علیہ السلام) کے دیکھتے ہی دیکھتے ان کے گدھے کی ہڈیاں جمع ہو کر اس کا ڈھانچہ کھڑا ہوگیا اور پھر اس پر گوشت بھی چڑھ گیا۔- (فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہٗ لا) - حضرت عزیر (علیہ السلام) نے بچشم سر ایک مردہ جسم کے زندہ ہونے کا مشاہدہ کرلیا۔- (قَالَ اَعْلَمُ اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ ) - انہیں یقین ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ اس اجڑی ہوئی بستی کو بھی دوبارہ آباد کرسکتا ہے ‘ اس کی آبادی اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔- حضرت عزیر (علیہ السلام) کو بنی اسرائیل کی نشاۃأثانیہ ( ) کے نقیب کی حیثیت حاصل ہے۔ بابل کی اسارت کے دوران یہود اخلاقی زوال کا شکار تھے۔ جب حضرت عزیر (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے متذکرہ بالا مشاہدات کرا دیے تو آپ ( علیہ السلام) نے وہاں جا کر یہود کو دین کی تعلیم دی اور ان کے اندر روح دین کو بیدار کیا۔ اس کے بعد ایران کے بادشاہ کیخورس ( ) نے جب بابل (عراق) پر حملہ کیا تو یہودیوں کو اسارت ( ) سے نجات دی اور انہیں دوبارہ فلسطین میں جا کر آباد ہونے کی اجازت دے دی۔ اس طرح یروشلم کی تعمیر نو ہوئی اور یہ بستی ١٣٦ سال بعد دوبارہ آباد ہوئی۔ پھر یہودیوں نے وہاں ہیکل سلیمانی دوبارہ تعمیر کیا جس کو وہ معبد ثانی ( )- کہتے ہیں۔ پھر یہ ہیکل ٧٠ عیسوی میں رومن جنرل ٹائٹس کے ہاتھوں تباہ ہوگیا اور اب تک دوبارہ تعمیر نہیں ہوسکا۔ دو ہزار برس ہونے کو آئے ہیں کہ ان کا کعبہ زمین بوس ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج دنیا بھر کے یہودیوں کے دلوں میں آگ سی لگی ہوئی ہے اور وہ مسجد اقصیٰ کو مسمار کر کے وہاں ہیکل سلیمانی (معبد ثالث) تعمیر کرنے کے لیے بےتاب ہیں۔ اس کے نقشے بھی تیار ہوچکے ہیں۔ بس کسی دن کوئی ایک دھماکہ ہوگا اور خبر آجائے گی کہ کسی جنونی ( ) نے وہاں جا کر بم رکھ دیا تھا ‘ جس کے نتیجے میں مسجد اقصیٰ شہید ہوگئی ہے۔ آپ کے علم میں ہوگا کہ ایک جنونی یہودی ڈاکٹر نے مسجد الخلیل میں ٧٠ مسلمانوں کو شہید کر کے خود بھی خود کشی کرلی تھی۔ اسی طرح کوئی جنونی یہودی مسجد اقصیٰ میں بم نصب کر کے اس کو گرا دے گا اور پھر یہودی کہیں گے کہ جب مسجد مسمار ہو ہی گئی ہے تو اب ہمیں یہاں ہیکل تعمیر کرنے دیں۔ جیسے ایودھیا میں بابری مسجد کے انہدام کے بعد ہندوؤں کا موقف تھا کہ جب مسجد گر ہی گئی ہے تو اب یہاں پر ہمیں رام مندر بنانے دو بہرحال یہ حضرت عزیر (علیہ السلام) کا واقعہ تھا۔ اب اسی طرح کا ایک معاملہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا مشاہدہ ہے۔
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :293 یہ ایک غیر ضروری بحث ہے کہ وہ شخص کون تھا اور وہ بستی کون سی تھی ۔ اصل مدعا جس کے لیے یہاں یہ ذکر لایا گیا ہے ، صرف یہ بتانا ہے کہ جس نے اللہ کو اپنا ولی بنایا تھا ، اسے اللہ نے کس طرح روشنی عطا کی ۔ شخص اور مقام ، دونوں کی تعیین کا نہ ہمارے پاس کوئی ذریعہ ، نہ اس کا کوئی فائدہ ۔ البتہ بعد کے بیان سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جن صاحب کا یہ ذکر ہے ، وہ ضرور کوئی نبی ہوں گے ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :294 اس سوال کے یہ معنی نہیں ہیں کہ وہ بزرگ حیات بعد الموت کے منکر تھے یا انہیں اس میں شک تھا ، بلکہ دراصل وہ حقیقت کا عینی مشاہدہ چاہتے تھے ، جیسا کہ انبیا کو کرایا جاتا رہا ہے ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :295 ایک ایسے شخص کا زندہ پلٹ کر آنا جسے دنیا سو ( ۱۰۰ ) برس پہلے مردہ سمجھ چکی تھی ، خود اس کو اپنے ہم عصروں میں ایک جیتی جاگتی نشانی بنا دینے کے لیے کافی تھا ۔
175: آیت نمبر : ٢٥٩ اور ٢٦٠ میں اللہ تعالیٰ نے دو ایسے واقعے ذکر فرمائے ہیں جن میں اس نے اپنے دو خاص بندوں کو اس دنیا ہی میں مردوں کو زندہ کرنے کا مشاہدہ کرایا، پہلے واقعے میں ایک ایسی بستی کا ذکر ہے جو مکمل طور پر تباہ ہوچکی تھی اس کے تمام باشندے مرکھپ چکے تھے اور مکانات چھتوں سمیت گر کر مٹی میں مل گئے تھے ایک صاحب کا وہاں سے گزر ہوا تو انہوں نے دل میں سوچا کہ اللہ تعالیٰ اس ساری بستی کو کس طرح زندہ کرے گا، بظاہر اس سوچ کا منشاء خدانخواستہ کوئی شک کرنا نہیں تھا بلکہ حیرت کا اظہار تھا، اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی قدرت کا مشاہدہ اس طرح کرایا جس کا اس آیت میں ذکر ہے، یہ صاحب کون تھے اور یہ بستی کونسی تھی یہ بات قرآن کریم نے نہیں بتائی، اور کوئی مستند روایت بھی ایسی نہیں ہے جس کے ذریعے یقینی طور پر ان باتوں کا تعین کیا جاسکے۔ بعض حضرات نے کہا ہے کہ یہ بستی بیت المقدس تھی۔ اور یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب بخت نصر نے اس پر حملہ کر کے اسے تباہ کر ڈالا تھا، اور یہ صاحب حضرت عزیر یا حضرت ارمیا علیہم السلام تھے۔ لیکن نہ یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے، نہ اس کھوج میں پڑنے کی ضرورت ہے۔ قرآن کریم کا مقصد اس کے بغیر بھی واضح ہے۔ البتہ یہ بات تقریباً یقینی معلوم ہوتی ہے کہ یہ صاحب کوئی نبی تھے، کیونکہ اول تو اس آیت میں صراحت ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سے ہم کلام ہوئے، نیز اس طرح کے واقعات انبیائے کرام ہی کے ساتھ پیش آتے ہیں۔