Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

معمہ حیات و موت حضرت ابراہیم کے اس سوال کی بہت سی وجوہات تھیں ، ایک تو یہ کہ چونکہ یہی دلیل آپ نے نمرود مردود کے سامنے پیش کی تھی تو آپ نے چاہا کہ علم الیقین سے عین الیقین حاصل ہو جائے ، جانتا تو ہوں ہی لیکن دیکھ بھی لیں ، صحیح بخاری شریف میں اس آیت کے موقع کی ایک حدیث ہے جس میں ہے کہ ہم شک کے حقدار بہ نسبت حضرت ابراہیم کے زیادہ ہیں جبکہ انہوں نے کہا آیت ( وَاِذْ قَالَ اِبْرٰھٖمُ رَبِّ اَرِنِيْ كَيْفَ تُـحْيِ الْمَوْتٰى ) 2 ۔ البقرۃ:260 ) ، تو اس سے کوئی جاہل یہ نہ سمجھے کہ حضرت خلیل اللہ کو اللہ کی اس صفت میں شک تھا ، اس حدیث کے بہت سے جواب ہیں جن میں سے ایک یہ ہے ۔ ( شاید یہ ہوگا کہ ہم خلیل اللہ سے کمزور ایمان والے ہونے کے باوجود خلاق عالم کی اس صفت میں شک نہیں کرتے تو خلیل اللہ کو شک کیوں ہوگا ؟ مترجم ) اب رب العالمین خالق کل فرماتا ہے کہ چار پرندے لے لو ، مفسرین کے اس بارے میں کئی قول ہیں کہ کون کون سے پرندے حضرت ابراہیم نے لئے تھے؟ لیکن ظاہر ہے کہ اس کا علم ہمیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا اور اس کا نہ جاننا ہمیں کوئی نقصان نہیں پہنچاتا ، کوئی کہتا ہے وہ کلنگ اور مور اور مرغ اور کبوتر تھے ، کوئی کہتا ہے وہ مرغابی اور سیمرغ کا بچہ اور مرغ اور مور تھے ، کوئی کہتا ہے کبوتر ، مرغ ، مور اور کوا تھے ، پھر انہیں کاٹ کر ان کے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالو ، حضرت ابن عباس یہی فرماتے ہیں اور روایت میں ہے اپنے پاس رکھ لیا ، جب ہل گئے انہیں ذبح کر دیا ، پھر ٹکڑے ٹکڑے الگ الگ کر دئیے ، پس آپ نے چار پرند لئے ، ذبح کرکے ان کے ٹکڑے کئے پھر اکھیڑ دئیے اور سارے مختلف ٹکڑے آپس میں ملا دئیے ، پھر چاروں پہاڑوں پر وہ ٹکڑے رکھ دئیے اور سب پرندوں کے سر اپنے ہاتھ میں رکھے ، پھر بحکم الہ انہیں بلانے لگے جس جانور کو آواز دیتے اس کے بکھرے ہوئے پر ادھر ادھر سے اڑتے اور آپس میں جڑتے اسی طرح خون خون کے ساتھ ملتا اور باقی اجزاء بھی جس جس پہاڑ پر ہوتے آپس میں مل جاتے اور پرندہ اڑتا ہوا آپ کے پاس آتا ، آپ اسے دوسرے پرند کا سر دیتے تو وہ قبول نہ کرتا ، خود اس کا سر دیتے تو وہ بھی جڑ جاتا ، یہاں تک کہ ایک ایک کرکے یہ چاروں پرند زندہ ہو کر اُڑ گئے اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کا اور مردوں کے زندہ ہونے کا یہ ایمان افروز نظارہ خلیل اللہ نے اپنی آنکھوں دیکھ لیا ، پھر فرماتا ہے کہ جان لے اللہ غالب ہے کوئی چیز اسے عاجز نہیں کر سکتی ، جس کام کو چاہے بےروک ہو جاتا ہے ، ہر چیز اس کے قبضے میں ہے ، وہ اپنے اقوال و افعال میں حکیم ہے اسی طرح اپنے انتظام میں اور شریعت کے مقرر کرنے میں بھی ، حضرت عبداللہ بن عباس فرمایا کرتے تھے کہ ابراہیم سے جناب باری کا یہ سوال کرنا کہ کیا تو ایمان نہیں لایا اور حضرت خلیل اللہ کا یہ جواب دینا کہ ہاں ایمان تو ہے لیکن دِلی اطمینان چاہتا ہوں ، یہ آیت مجھے تو اور تمام آیتوں سے زیادہ امید دلانے والی معلوم ہوتی ہے ، مطلب یہ ہے کہ ایک ایماندار کے دِل میں اگر کوئی خطرہ وسوسہ شیطانی پیدا ہو تو اس پر پکڑ نہیں ، حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص کی ملاقات ہوتی ہے تو پوچھتے ہیں کہ قرآن میں سب سے زیادہ امید پیدا کرنے والی آیت کون سی ہے؟ عبداللہ بن عمرو فرماتے ہیں آیت ( قُلْ يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ ) 39 ۔ الزمر:53 ) والی آیت جس میں ارشاد ہے کہ اے میرے گنہگار بندو میری رحمت سے ناامید نہ ہونا میں سب گناہوں کو بخش دیتا ہوں ، ابن عباس نے فرمایا میرے نزدیک تو اس امت کیلئے سب سے زیادہ ڈھارس بندھانے والی آیت حضرت ابراہیم کا یہ قول ، پھر رب دو عالم کا سوال اور آپ کا جواب ہے ( عبدالرزاق و ابن ابی حاتم وغیرہ )

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

260۔ 1 یہ احیائے موتی کا دوسرا واقعہ ہے جو ایک نہایت جلیل القدر پیغمبر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی خواہش اور ان کے اطمینان قلب کے لئے دکھایا گیا یہ چار پرندے کون کون سے تھے ؟ مفسرین نے مختلف نام ذکر کئے ہیں لیکن ناموں کی تعین کا کوئی فائدہ نہیں اس لئے اللہ نے بھی ان کے نام ذکر نہیں کیے بس یہ چار مختلف پرندے تھے بس ان کو مانوس کرلے اور پہچان لے تاکہ پکارنے پر وہ دوبارہ زندہ ہو کر آپ کے پاس آجائیں اور پہچان سکے کہ یہ وہی پرندے ہیں ابراہیم (علیہ السلام) نے احیائے موتیٰ کے مسئلے میں شک نہیں کیا اگر انہوں نے شک کا اظہار کیا ہوتا تو ہم یقینا شک کرنے میں ان سے زیادہ حقدار ہوتے (مزید وضاحت کے لئے دیکھئے (فتح القدیر) ۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣٧٤] غیب پر انبیاء کا ایمان جس قدر پختہ ہوتا ہے دوسروں کا نہیں ہوسکتا مگر جس مشن کے لیے انہیں کھڑا کیا جاتا ہے۔ اس کا ایک تقاضا یہ بھی ہوتا ہے کہ انہیں عین الیقین حاصل ہو، تاکہ وہ دوسرے لوگوں کو آنکھوں دیکھی حقیقت کی بنیاد پر ایمان بالغیب کی پرزور دعوت دے سکیں اسی لیے اکثر انبیاء کو ملکوت السموت والارض کی سیر بھی کرا دی جاتی ہے اور کسی حد تک مافوق الفطری اسباب پر مطلع بھی کردیا جاتا ہے اور پچھلے واقعہ میں حضرت عزیر کو ایسے اسباب دکھلائے گئے۔ اب یہاں اسی نوعیت کا سوال حضرت ابراہیم اپنے پروردگار کے حضور پیش فرما رہے ہیں۔ اور اپنا دلی اطمینان چاہتے ہیں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو معراج کے دوران ملکوت السموات والارض کی سیر کرائی گئی تھی۔ نیز ایک دفعہ خواب میں اور ایک دفعہ نماز کسوف پڑھاتے وقت آپ کو جنت اور دوزخ دکھلائے گئے تھے۔- [٣٧٥] اس آیت کی جزئیات میں مفسرین نے بہت اختلاف کیا ہے۔ مثلاً یہ کہ چاروں پرندے ایک ہی جنس کے تھے۔ یا الگ الگ جنسوں کے، جزء اً سے مراد ان کو ذبح کر کے اور قیمہ بنا کر چاروں پرندوں کے گوشت کو ملا دینا ہے یا فقط ٹکڑے کردینا ہی کافی ہے یا ملا دینا بھی ضروری ہے۔ یہ پہاڑ بھی آیا چار ہی تھے جن پر ایک ایک حصہ رکھا گیا یا کم و بیش تھے جن پر بانٹ کر ہر حصہ رکھا گیا۔ کیا ان پرندوں کے سر حضرت ابراہیم نے ان حصوں میں ہی ملا دیئے تھے یا اپنے ہی پاس رکھے تھے۔ یہ سب تفصیلات مقصد کے لحاظ سے بےمعنی ہیں۔ مقصد تو صرف یہ تھا کہ موت کے بعد مردہ جسم کی کوئی بھی پیچیدہ سے پیچیدہ صورت بن جائے تو اللہ تعالیٰ اس پر قادر ہے کہ وہ ہر طرح کے مردہ کو زندہ کر کے دکھلا دے۔- یہ واقعہ بھی چونکہ خرق عادات اور معجزہ ہے۔ لہذا عقل پرستوں اور منکرین معجزات کو اس کی بھی مضحکہ خیز قسم کی تاویل کرنا پڑی۔ چناچہ پرویز صاحب اس آیت کا ترجمہ یا مفہوم یوں بیان فرماتے ہیں :۔- حضرت ابراہیم نے اللہ سے کہا کیا یہ ممکن ہے کہ اس قسم کی مردہ قوم بھی از سر نو زندہ ہوجائے اور اگر یہ ممکن ہے تو مجھے یہ بتلا دیجئے کہ اس کے لیے کیا طریق کار اختیار کیا جائے (یہ سب کچھ (کَیْفَ تُحْیِی الْمَوْتیٰ ) کا ترجمہ یا مفہوم ہے آپ نے موتیٰ کا ترجمہ مردہ قوم ارنی کا ترجمہ مجھے بتلاؤ اور کیف تحی کا ترجمہ مردہ قوم کے از سر نو زندہ ہونے کا طریق کار کیا ہے (اللہ نے فرمایا پہلے یہ تو بتلاؤ کہ تمہارا اس پر ایمان ہے کہ مردہ قوم کو حیات نو مل سکتی ہے ؟ ابراہیم نے کہا : اس پر تو میرا ایمان ہے لیکن میں اس کا اطمینان چاہتا ہوں۔ اللہ نے کہا تم چار پرندے لو۔ شروع میں وہ تم سے دور بھاگیں گے۔ انہیں اس طرح آہستہ آہستہ سدھاؤ کہ وہ تم سے مانوس ہوجائیں۔ آخرالامر ان کی یہ حالت ہوجائے گی کہ اگر تم انہیں الگ الگ مختلف پہاڑیوں پر چھوڑ دو اور انہیں آواز دو تو وہ اڑتے ہوئے تمہاری طرف آجائیں گے۔ بس یہی طریقہ ہے حق سے نامانوس لوگوں میں زندگی پیدا کرنے کا۔ تم انہیں اپنے قریب لاؤ اور نظام خداوندی سے روشناس کراؤ (یہ (واعلم) کا ترجمہ ہے) یہ نظام اپنے اندر اتنی قوت اور حکمت رکھتا ہے کہ اسے چھوڑ کر یہ کہیں نہ جاسکیں گے۔ یہ (اِنَّ اللّٰهَ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ ٢٢٠۔ ) 2 ۔ البقرة :220) کا ترجمہ ہے۔ (مفہوم القرآن ص ١٠٣) اب دیکھئے کہ :۔- ١۔ حضرت ابراہیم تو اللہ سے مردوں کو زندہ کرنے کی بات پوچھ رہے ہیں۔ لیکن پرویز صاحب نے مردہ قوموں کی دوبارہ زندگی کے اسرار ورموز بیان کرنا شروع کردیئے ہیں۔- ٢۔ مردہ قوموں کی دوبارہ زندگی کے لیے آپ نے جو ہدایات حضرت ابراہیم سے منسوب فرمائی ہیں ان کی حضرت ابراہیم سے کوئی تخصیص نہیں۔ یہ تو تبلیغ کا عام طریقہ ہے جسے تمام انبیاء اپناتے رہے ہیں۔ مردوں کو زندہ کرنے اور بالخصوص حضرت ابراہیم کے دلی اطمینان کی اس میں کیا بات ہے ؟- ٣۔ حق سے مانوس شدہ لوگوں کو ٹیسٹ کرنے کا یہ طریقہ بھی کیسا شاندار ہے کہ پہلے نبی ایسے لوگوں کو الگ الگ پہاڑیوں پر چھوڑ آیا کریں۔ پھر انہیں بلائیں، اس سے پہلے نہ بلائیں بہرحال وہ نبی کی آواز سن کر دوڑتے ہوئے ان کے پاس پہنچ جائیں گے۔ کیا مردہ قوموں کی دوبارہ زندگی کا یہی طریقہ ہے ؟- ٤۔ اِعْلَمْ کا ترجمہ یا مفہوم تم انہیں نظام خداوندی سے روشناس کراؤ۔ پرویز صاحب جیسے مفسر قرآن کا ہی حصہ ہوسکتا ہے۔- ٥۔ اس آیت میں لفظ جزء اً کا معنی حصہ یا ٹکڑا ہے اور پرندوں کا حصہ یا ٹکڑا اسی صورت میں ہوسکتا ہے جبکہ انہیں ذبح کردیا جائے یا کاٹ دیا جائے جس سے ان کی زندگی ختم ہوجائے اور یہی مَوْتٰی کا مفہوم ہے۔ لیکن پرویز صاحب نے اس کا مفہوم مردہ قوموں کو مانوس کرنا پھر انہیں الگ الگ کردینا بتلایا۔ اور اللہ کے عزیز حکیم ہونے کو نظام خداوندی کے قوت اور حکمت والا ہونے سے تعبیر کر کے اس واقعہ کے معجزہ ہونے سے بہرحال گلوخلاصی کرا ہی لی۔ اور یہ ثابت کردیا اللہ مردوں کو زندہ نہیں کیا کرتا ہے بلکہ مردہ قوموں کو زندہ کرتا ہے۔ وہ اپنے پیغمبروں کو ہدایت دیتا ہے کہ وہ پہلے لوگوں کو مانوس کریں۔ پھر پہاڑوں پر چھوڑ آیا کریں۔ پھر انہیں بلائیں ورنہ یہ مردہ قومیں کبھی زندہ نہ ہو سکیں گی۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

ابراہیم (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے پیغمبر تھے، اللہ تعالیٰ کے فرشتے اور احکام ان کے پاس آتے رہتے تھے، ان کو مردوں کے جی اٹھنے میں کوئی شک نہ تھا مگر انھوں نے آنکھوں سے دیکھ لینا چاہا، انسانی عادت ہے کہ وہ علم کے بعد آنکھوں سے دیکھنا چاہتا ہے، چناچہ ابراہیم (علیہ السلام) نے علم الیقین کے بعد عین الیقین کا مرتبہ حاصل کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ (ابن کثیر )- فَصُرْھُنَّ : یہ ” صَارَ یَصُوْرُ “ یا ” یَصِیْرُ “ (اجوف واوی یا یائی) سے ہے۔ اس لفظ کے معنی عموماً ” اَمِلْھُنَّ “ کیے گئے ہیں، یعنی ” ان کو ہلالے۔ “ شاہ عبد القادر (رض) اپنے فائدے میں لکھتے ہیں : ” ابراہیم (علیہ السلام) کو ہلانے کو اس لیے فرمایا گیا تاکہ وہ زندہ ہونے کے بعد خوب پہچانے جاسکیں کہ واقعی وہی ہیں جو ذبح کرکے پہاڑ پر رکھے گئے ہیں اور کوئی شبہ نہ رہے۔ اس صورت میں ” ثُمَّ اجْعَلْ “ سے پہلے ” ثُمَّ قَطِّعْھُنَّ “ محذوف ماننا پڑے گا اور کہا جائے گا کہ بعد کا جملہ چونکہ اس پر دلالت کر رہا ہے، اس لیے اسے حذف کردیا گیا۔ (بیضاوی) صحابہ و تابعین اور اہل لغت کی ایک جماعت نے ” فَصُرْھُنَّ “ کے معنی ” قَطِّعْھُنَّ “ بھی بتائے ہیں، یعنی ” ان کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے۔ “ چناچہ ابن جریر اور طبری نے اس معنی پر بہت سے شواہد پیش کیے ہیں۔ اصل میں یہ لفظ ” صَارَ یَصُوْرُ “ یا ” یَصِیْرُ “ سے امر کا صیغہ ہے، جس کے معنی قطع کرنا بھی آئے ہیں اور مائل کرنا بھی اور اس میں قراءت کے اختلاف نے اور زیادہ اشتباہ اور وسعت پیدا کردی اور علمائے لغت نے اسے اضداد میں ذکر کیا ہے۔ (اُضداد ابی الطیب، مجاز ابی عبیدۃ) ہمارے استاذ شیخ محمد عبدہ (رض) فرماتے ہیں : ” اس جگہ سوال و جواب کے انداز اور سیاق کلام سے ” قطع “ کے معنی راجح معلوم ہوتے ہیں اور اس پر سلف مفسرین بھی تقریباً متفق نظر آتے ہیں۔ “ (واللہ اعلم) - بندۂ عاجز نے ترجمہ ” اَمِلْہُنَّ “ کیا ہے، یعنی ان کو اپنی طرف ہلا لے، مانوس کرلے۔ اس کی وجہ ایک تو استاذ مرحوم کا فائدے کے شروع میں فرمانا ہے کہ عموماً اس کا معنی یہی کیا جاتا ہے، چناچہ شاہ ولی اللہ اور ان کے دونوں فرزندان ارجمند اور بہت سے علماء نے یہی ترجمہ کیا ہے۔ دوسری وجہ یہ کہ ” فَصُرْھُنَّ “ کے بعد ” اِلَيْكَ “ (اپنی طرف) سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ البتہ ذبح کرکے ان کے ٹکڑے پہاڑوں پر رکھنے میں کوئی شک نہیں۔ - ان چار جانوروں کی تعیین میں علمائے تفسیر کا اختلاف ہے، بعض نے مرغ، مور، کوا اور کبوتر بتائے ہیں اور بعض نے دوسرے نام ذکر کیے ہیں اور پھر چار پہاڑوں پر ان کو الگ الگ رکھنے اور ان کے درمیان کھڑے ہو کر ہر ایک کا نام لے کر پکارنے کی کیفیت بھی بعض تابعین سے منقول ہے، مگر حافظ ابن کثیر (رض) لکھتے ہیں کہ جانوروں کی یہ تعیین بےفائدہ ہے، اس کی کچھ اہمیت ہوتی تو قرآن خاموش نہ رہتا۔- عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ: آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ کی صفات پر مشتمل الفاظ ساری آیت کا خلاصہ ہوتے ہیں، یہ قرآنی اعجاز ہے۔ اس آیت میں مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر غالب ہے مردوں کو زندہ کرنے پر اسے کامل غلبہ و قدرت حاصل ہے ” حَكِيْمٌ“ کمال حکمت والا ہے، جس کے مطابق اس نے زندوں کی موت کے لیے اور مردوں کو زندہ کرنے کے لیے ایک وقت مقرر رکھا ہے۔- شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں کہ یہ تین قصے بیان فرمائے ہیں اس پر کہ اللہ خود ہدایت کرنے والا ہے جس کو چاہے، اگر شبہ پڑے تو ساتھ ہی جواب سمجھا دیتا ہے۔ اب آگے پھر جہاد کا ذکر ہے اور اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے کا۔ (موضح)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر :- اور اس وقت (کے واقعہ) کو یاد کرو جبکہ ابراہیم (علیہ السلام) نے (حق تعالیٰ سے) عرض کیا کہ اے میرے پروردگار مجھ کو (یہ) دکھلا دیجئے کہ آپ مردوں کو (قیامت میں مثلا) کس کیفیت سے زندہ کریں گے (یعنی زندہ کرنے کا یقین ہے لیکن زندہ کرنے کی مختلف صورتیں اور کیفیتیں ہوسکتی ہیں وہ معلوم نہیں اس لئے وہ معلوم کرنے کو دل چاہتا ہے اس سوال سے کسی کم سمجھ آدمی کو اس کا شبہ ہوسکتا تھا کہ معاذ اللہ ابراہیم (علیہ السلام) کو مرنے کے بعد زندہ ہونے پر ایمان و یقین نہیں اس لئے حق تعالیٰ نے خود یہ سوال قائم کرکے بات کھول دی۔ چناچہ ابراہیم (علیہ السلام) سے اس سوال کے جواب میں اول) ارشاد فرمایا کہ کیا تم (اس پر) یقین نہیں لاتے انہوں نے (جواب میں) عرض کیا کہ یقین کیوں نہ لاتا لیکن اس غرض سے یہ درخواست کرتا ہوں تاکہ میرے قلب کو (معین صورت زندہ کرنے کی مشاہدہ کرنے سے) سکون ہوجاوے (ذہن دوسرے احتمالات سے چکر میں نہ پڑے) ارشاد ہوا کہ اچھا تو تم چار پرندے لو پھر ان کو (پال کر) اپنے لئے ہلالو، (تاکہ ان کی خوب شناخت ہوجاوے) پھر سب کو ذبح کرکے اور ہڈیوں پروں سمیت ان کا قیمہ سا کرکے اس کے کئی حصے کرو اور کئی پہاڑ اپنی مرضی سے انتخاب کرکے) ہر پہاڑ پر ان میں سے ایک ایک حصہ رکھ دو (اور) پھر ان سب کو بلاؤ (دیکھو) تمہارے پاس زندہ ہوکر) دوڑے دوڑے چلے آویں گے اور خوب یقین رکھو اس بات کا کہ حق تعالیٰ زبردست (قدرت والے) ہیں (سب کچھ کرسکتے ہیں پھر بھی بعض باتیں نہیں کرتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ) حکمت والے (بھی) ہیں (ہر کام حکمت و مصلحت کے مطابق کرتے ہیں) - معارف و مسائل :- حضرت خلیل اللہ کی درخواست حیات بعد الموت کا مشاہدہ اور شبہات کا ازالہ :- یہ تیسرا قصہ ہے جو آیت مذکورہ میں بیان فرمایا گیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ خلیل اللہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے حق تعالیٰ سے یہ درخواست کی کہ مجھے اس کا مشاہدہ کرا دیجئے کہ آپ مردوں کو کس طرح زندہ کریں گے ؟ حق تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اس درخواست کی کیا وجہ ہے ؟ کیا آپ کو ہماری قدرت کاملہ پر یقین نہیں کہ وہ ہر چیز پر حاوی ہے، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنا واقعی حال عرض کیا کہ یقین تو کیسے نہ ہوتا کیونکہ آپ کی قدرت کاملہ کے مظاہر ہر لحظہ ہر آن مشاہدہ میں آتے رہتے ہیں اور غور وفکر کرنے والے کے لئے جس کام کا مشاہدہ نہ ہو خواہ وہ کتنا ہی یقینی ہو اس میں اس کے خیالات منتشر رہتے ہیں کہ یہ کیسے اور کس طرح ہوگا ؟ یہ ذہنی انتشار سکون قلب اور اطمینان میں خلل انداز ہوتا ہے اس لئے یہ مشاہدہ کی درخواست کی گئی کہ احیاء موتی کی مختلف صورتوں اور کیفیتوں میں ذہنی انتشار واقع نہ ہو کر قلب کو سکون و اطمینان حاصل ہوجائے۔- حق تعالیٰ نے ان کی درخواست قبول فرما کر ان کے مشاہدہ کی بھی ایک ایسی عجیب صورت تجویز فرمائی جس میں منکرین کے تمام شبہات وخدشات کے ازالہ کا بھی مشاہدہ ہوجائے وہ صورت یہ تھی کہ آپ کو حکم دیا گیا کہ چار پرندے جانور اپنے پاس جمع کرلیں پھر ان کو پاس رکھ کر ہلالیں کہ وہ ایسے ہل جائیں کہ آپ کے بلانے سے آجایا کریں اور ان کی پوری طرح شناخت بھی ہوجائے یہ شبہ نہ رہے کہ شاید کوئی دوسرا پرندہ آگیا ہو پھر ان چاروں کو ذبح کرکے اور ہڈیوں اور پروں سمیت ان کا خوب قیمہ سا کرکے اس کے کئی حصے کردیں اور پھر اپنی تجویز سے مختلف پہاڑوں پر اس قیمہ کا ایک ایک حصہ رکھ دیں پھر ان کو بلائیں تو وہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ سے زندہ ہو کر دوڑے دوڑے آپ کے پاس آجائیں گے۔- تفسیر روح المعانی میں بسند ابن المنذر حضرت حسن سے روایت ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ایسا ہی کیا پھر ان کو پکارا تو فوراً ہڈی سے ہڈی پر سے پر خون سے خون گوشت سے گوشت مل ملا کر سب اپنی اپنی اصلی ہیئت میں زندہ ہو کر دوڑتے ہوئے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس آگئے۔ حق تعالیٰ نے فرمایا کہ اے ابراہیم قیامت کے روز اسی طرح سب اجزاء واجساد کو جمع کرکے ایک دم سے ان میں جان ڈالدوں گا۔- قرآن کے الفاظ میں يَاْتِيْنَكَ سَعْيًا آیا ہے کہ یہ پرندے دوڑتے ہوئے آئیں گے، جس سے معلوم ہوا کہ اڑ کر نہیں آئیں گے کیونکہ آسمان میں اڑ کر آنے میں نظروں سے اوجھل ہو کر بدل جانے کا شبہ ہوسکتا ہے زمین پر چل کر آنے میں یہ بالکل سامنے رہیں گے، اس واقعہ میں حق تعالیٰ نے قیامت کے بعد حیات بعد الموت کا ایسا نمونہ حضرت خلیل اللہ کو دکھلا دیا جس نے مشرکین اور منکرین کے سارے شبہات کا ازالہ مشاہدہ سے کرادیا۔- حیات بعد الموت اور عالم آخرت کی زندگی پر سب سے بڑا اشکال منکرین کو یہی ہوتا ہے کہ انسان مرنے کے بعد مٹی ہوجاتا ہے پھر یہ مٹی کہیں ہوا کے ساتھ اڑ جاتی ہے کہیں پانی کے ساتھ بہہ جاتی ہے کہیں درختوں اور کھیتوں کی شکل میں برآمد ہوتی ہے، پھر کہیں ذرہ ذرہ دنیا کے اطراف بعیدہ میں پھیل جاتا ہے ان منتشر ذروں اور اجزاء انسانی کو جمع کردینا اور پھر ان میں روح ڈال دینا سطحی نظر والے انسان کی اس لئے سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ سب کو اپنی قدرت و اپنی حیثیت پر قیاس کرتا ہے وہ اپنے سے مافوق اور ناقابل قیاس قدرت میں غور نہیں کرتا، حالانکہ اگر وہ ذرا سا اپنے ہی وجود میں غور کرلے تو اسے نظر آئے گا کہ آج بھی اس کا وجود ساری دنیا میں بکھرے ہوئے اجزاء وذرات کا مجموعہ ہے انسان کی آفرینش جن ماں اور باپ کے ذریعے ہوتی ہے اور جن غذاؤں سے ان کا خون اور جسم بنتا ہے وہ خود جہان کے مختلف گوشوں سے سمٹے ہوئے ذرات ہوتے ہیں پھر پیدائش کے بعد انسان جس غذا کے ذریعے نشوونما پاتا ہے جس سے اس کا خون اور گوشت پوست بنتا ہے اس میں غور کرے تو اس کی غذاؤں میں ایک ایک چیز ایسی ہے جو تمام دنیا کے مختلف ذرات سے بنی ہوئی ہے دودھ پیتا ہے تو وہ کسی گائے، بھینس یا بکری کے اجزاء ہیں اور ان جانوروں میں یہ اجزاء اس گھاس دانے سے پیدا ہوئے جو انہوں نے کھائے ہیں یہ گھاس دانے معلوم نہیں کس کس خطہ زمین میں سے آئے ہیں اور ساری دنیا میں پھرنے والی ہواؤں نے کہاں کہاں کے ذرات کو ان کی تربیت میں شامل کردیا ہے اسی طرح دنیا کا دانہ دانہ اور پھل اور ترکاریاں اور انسان کی تمام غذائیں اور دوائیں جو اس کے بدن کا جزو بنتی ہیں وہ کس کس گوشہ عالم سے کس کس طرح حق تعالیٰ کی قدرت کاملہ اور نظام محکم نے ایک انسان کے بدن میں جمع فرما دیئے اگر غافل اور کوتاہ نظر انسان دنیا کو چھوڑ کر اپنے ہی تن بدن کی تحقیق (ریسرچ) کرنے بیٹھ جائے تو اس کو یہ نظر آئے گا کہ اس کا وجود خود ایسے بیشمار اجزاء سے مرکب ہے جو کوئی مشرق کا ہے کوئی مغرب کا کوئی جنوبی دنیا کا کوئی شمالی حصہ کا، آج بھی دنیا بھر میں پھیلے ہوئے اجزاء قدرت کے نظام محکم نے اس کے بدن میں جمع فرمادئیے ہیں اور مرنے کے بعد یہ اجزاء پھر اسی طرح منتشر ہوجائیں گے تو اب دوسری مرتبہ پھر ان کا جمع فرمادینا اس کی قدرت کاملہ کے لئے کیا دشوار ہے جس نے پہلی مرتبہ اس کے وجود میں ان منتشر ذرات کو جمع فرما دیا تھا۔- واقعہ مذکورہ پر چند سوالات مع جوابات :- آیت متذکرہ بالا کے مضمون میں چند سوالات پیدا ہوتے ہیں۔- اول : یہ کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو یہ سوال ہی کیوں پیدا ہوا جبکہ وہ حق تعالیٰ کی قدرت کاملہ پر ایمان لانے میں اس وقت کی ساری دنیا سے زیادہ یقین پر تھے ؟- اس کا جواب اس تقریر کے ضمن میں آچکا ہے جو اوپر کی گئی ہے کہ درحقیقت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا سوال کسی شک وشبہ کی بناء پر تھا ہی نہیں بلکہ سوال کا منشاء صرف یہ تھا کہ حق تعالیٰ قیامت میں مردوں کو زندہ کریں گے ان کی قدرت کاملہ سے یہ کسی طرح بھی مستبعد یا حیرت انگیز نہیں بلکہ یقینی ہے لیکن مردہ کو زندہ کرنے کا کام انسان کی طاقت سے باہر ہے اس نے کبھی کسی مردہ کو زندہ ہوتے ہوئے دیکھا نہیں اور مردہ کو زندہ کرنے کی کیفیات اور صورتیں مختلف ہوسکتی ہیں انسان کی فطرت ہے کہ جو چیز اس کے مشاہدہ میں نہ ہو اس کی کیفیات کی کھوج لگانے کی فکر میں رہا کرتا ہے اس میں اس کا خیال مختلف راہوں پر چلتا ہے، جس میں ذہنی انتشار کی تکلیف بھی برداشت کرتا ہے اس ذہنی انتشار کو رفع کرکے قلب کو سکون مل جانے ہی کا نام اطمینان ہے اسی کے لئے حضرت خلیل اللہ نے یہ درخواست پیش فرمائی تھی۔- اسی سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ ایمان اور اطمینان میں کیا فرق ہے ایمان اس اختیاری یقین کا نام ہے جو انسان کو رسول کے اعتماد پر کسی غیب کی بات کے متعلق حاصل ہوجائے اور اطمینان سکون قلب کا نام ہے بعض اوقات نظروں سے غائب کسی چیز پر یقین کامل تو ہوتا ہے مگر قلب کو سکون اس لئے نہیں ہوتا کہ اس کی کیفیات کا علم نہیں ہوتا یہ سکون صرف مشاہدہ سے حاصل ہوسکتا ہے۔ حضرت خلیل اللہ کو بھی حیات بعد الموت پر تو کامل ایمان و یقین تھا سوال صرف کیفیت احیاء کے متعلق تھا۔- دوسرا سوال : یہ ہے کہ جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا سوال زندہ کرنے کی کیفیت سے متعلق تھا اصل حیات بعد الموت میں کوئی شک وشبہ نہ تھا تو پھر ارشاد ربانی اَوَلَمْ تُؤ ْمِنْ یعنی کیا آپ کو یقین نہیں فرمانے کا کوئی موقع نہیں رہتا ؟ - جواب یہ ہے کہ جو سوال حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے پیش فرمایا کہ اصل واقعہ میں کوئی شک نہیں لیکن اس سوال کا ایک مفہوم تو یہی ہے کہ زندہ کرنے کی کیفیت دریافت کرنا منظور ہے۔- انہی الفاظ سوال کا ایک دوسرا مفہوم بھی ہوسکتا ہے جو اصل قدرت میں شبہ یا انکار سے پیدا ہوا کرتا ہے جیسے آپ کسی بوجھ کے متعلق یہ یقین رکھتے ہیں کہ فلاں آدمی اس کو نہیں اٹھا سکتا اور آپ اس کا عاجز ہونا ظاہر کرنے کے لئے کہیں کہ دیکھیں تم کیسے اس بوجھ کو اٹھا تے ہو چونکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے سوال کا یہ غلط مفہوم بھی کوئی لے سکتا تھا اس لئے حق تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اس غلط بات سے بری ثابت کرنے کے لئے ہی یہ ارشاد فرمایا اَوَلَمْ تُؤ ْمِنْ تاکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اس کے جواب میں بلیٰ فرما کر افتراء پردازوں کی زد سے نکل جائیں۔- تیسرا سوال : یہ ہے کہ اس سوال ابراہیمی سے کم ازکم اتنا تو معلوم ہوا کہ ان کو حیات بعد الموت پر اطمینان حاصل نہ تھا حالانکہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا کہ اگر عالم غیب سے پردہ اٹھا دیا جائے تو میرے یقین و اطمینان میں کوئی زیادتی نہ ہوگی کیونکہ مجھے ایمان بالغیب ہی سے اطمینان کامل حاصل ہے تو جب بعض امتیوں کو درجہ اطمینان حاصل ہے تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اللہ کے خلیل کو اطمینان کا درجہ حاصل نہ ہو ؟- اس کے متعلق یہ سمجھ لینا چاہئے کہ اطمینان کے بھی بہت سے درجات ہیں ایک وہ اطمینان ہے جو اولیاء اللہ اور صدیقین کو حاصل ہوتا ہے اور ایک اس سے اعلیٰ مقام اطمینان ہے جو عام انبیاء کو حاصل ہوتا ہے اور ایک اس سے بھی مافوق ہے جو خاص خاص کو بصورت مشاہدہ عطا فرمایا جاتا ہے۔- حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو جو درجہ اطمینان کا حاصل تھا وہ بلاشبہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو حاصل تھا بلکہ اس سے اعلیٰ درجہ اطمینان کا حاصل جو مقام نبوت کے ساتھ خاص ہے اس اطمینان میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور سب امتیوں سے فائق تھے، پھر جس کو وہ طلب فرما رہے ہیں وہ سب سے اعلیٰ مقام اطمینان ہے جو خاص خاص انبیاء (علیہم السلام) کو عطا فرمایا جاتا ہے جیسے سرور کائنات سید الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جنت و دوزخ کا مشاہدہ کرا کر اطمینان خاص بخشا گیا۔- الغرض اس سوال کی وجہ سے یہ کہنا بھی صحیح نہیں کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اطمینان حاصل نہ تھا یہاں یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ اطمینان کامل جو مشاہدہ سے حاصل ہوا کرتا ہے وہ نہ تھا اسی کے لئے یہ درخواست فرمائی تھی۔- آیت کے آخر میں اَنَّ اللّٰهَ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ یعنی اللہ تعالیٰ زبردست ہیں اور حکمت والے ہیں، زبردست ہونے میں قدرت کاملہ کا بیان فرمایا اور حکمت والا کہہ کر اس کی طرف اشارہ کردیا کہ بمقتضائے حکمت ہر ایک کو حیات بعد الموت کا مشاہدہ نہیں کرایا جاتا ورنہ حق جل شانہ کے لئے کوئی دشوار نہیں کہ ہر انسان کو مشاہدہ کرادیں مگر پھر ایمان بالغیب کی جو فضیلت ہے وہ قائم نہیں رہ سکتی۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاِذْ قَالَ اِبْرٰھٖمُ رَبِّ اَرِنِيْ كَيْفَ تُـحْيِ الْمَوْتٰى۝ ٠ ۭ قَالَ اَوَلَمْ تُؤْمِنْ۝ ٠ ۭ قَالَ بَلٰي وَلٰكِنْ لِّيَطْمَىِٕنَّ قَلْبِىْ۝ ٠ ۭ قَالَ فَخُـذْ اَرْبَعَۃً مِّنَ الطَّيْرِ فَصُرْھُنَّ اِلَيْكَ ثُمَّ اجْعَلْ عَلٰي كُلِّ جَبَلٍ مِّنْہُنَّ جُزْءًا ثُمَّ ادْعُہُنَّ يَاْتِيْنَكَ سَعْيًا۝ ٠ ۭ وَاعْلَمْ اَنَّ اللہَ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ۝ ٢٦٠ ۧ- قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122]- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- كيف - كَيْفَ : لفظ يسأل به عمّا يصحّ أن يقال فيه : شبيه وغیر شبيه، كالأبيض والأسود، والصحیح والسّقيم، ولهذا لا يصحّ أن يقال في اللہ عزّ وجلّ : كيف، وقد يعبّر بِكَيْفَ عن المسئول عنه كالأسود والأبيض، فإنّا نسمّيه كيف، وكلّ ما أخبر اللہ تعالیٰ بلفظة كَيْفَ عن نفسه فهو استخبار علی طریق التنبيه للمخاطب، أو توبیخا نحو : كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ [ البقرة 28] ، كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ [ آل عمران 86] ، كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ [ التوبة 7] ، انْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثالَ [ الإسراء 48] ، فَانْظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ [ العنکبوت 20] ، أَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللَّهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ [ العنکبوت 19] .- ( ک ی ف ) کیف ( اسم استفہام ) اس چیز کی حالت در یافت کرنے کے لئے آتا ہے جس پر کہ شیبہ اور غیر شیبہ کا لفظ بولا جاسکتا ہو جیسے ابیض ( سفید اسود ( سیاہی ) صحیح ( تندرست ) سقیم ( بیمار ) وغیرہ ۔ لہذا اللہ تعالیٰ کے متعلق اس کا استعمال جائز نہیں ہے اور کبھی اس چیز پر بھی کیف کا اطلاق کردیتے ہیں جس کے متعلق سوال کر نا ہو مثلا کہا جاتا ہے کہ اسود اور ابیض مقولہ کیف سے ہیں اور جہاں کہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق کیف کا لفظ استعمال کیا ہے تو وہ تنبیہ یا قو بیخ کے طور پر مخاطب سے استخبار کے لئے لایا گیا ہے جیسے فرمایا : ۔ كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ [ البقرة 28] کافرو تم خدا سے کیونکر منکر ہوسکتے ہو ۔ كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ [ آل عمران 86] خدا ایسے لوگوں کو کیونکر ہدایت دے ۔ كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ [ التوبة 7] بھلا مشرکوں کے لئے کیونکر قائم رہ سکتا ہے ۔ انْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثالَ [ الإسراء 48] دیکھو انہوں نے کس کس طرح کی تمہارے بارے میں باتیں بنائیں ۔ فَانْظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ [ العنکبوت 20] اور دیکھو کہ اس نے کس طرح خلقت کو پہلی مر تبہ پیدا کیا ۔ أَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللَّهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ [ العنکبوت 19] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ خدا کسی طرح خلقت کو پہلی بار پیدا کرتا پھر کس طرح اس کو بار بار پیدا کرتا رہتا ہے ۔- طمن - الطُّمَأْنِينَةُ والاطْمِئْنَانُ : السّكونُ بعد الانزعاج . قال تعالی: وَلِتَطْمَئِنَّ بِهِ قُلُوبُكُمْ [ الأنفال 10] ، وَلكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي[ البقرة 260] ، يا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ [ الفجر 27] ، وهي أن لا تصیر أمّارة بالسّوء، وقال تعالی: أَلا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ [ الرعد 28] ، تنبيها أنّ بمعرفته تعالیٰ والإکثار من عبادته يکتسب اطْمِئْنَانَ النّفسِ المسئول بقوله : وَلكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي 106] - ( ط م ن ) الطمانینۃ - والاطمینان کے معنی ہیں خلجان کے بعد نفس کا سکون پذیر ہونا قرآن میں ہے : ۔ - وَلِتَطْمَئِنَّ بِهِ قُلُوبُكُمْ [ الأنفال 10] یعنی اسلئے کہ تمہارے دلوں کو اس سے تسلی حاصل ہو ۔ - وَلكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي[ البقرة 260] لیکن ( میں دیکھنا ) اس لئے چاہتا ہوں کہ میرا دل اطمینان کامل حاصل کرلے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ يا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ [ الفجر 27] میں نفسی مطمئنہ سے مردا وہ نفس ہے جسے برائی کی طرف کیس طور بھی رغبت نہ ہو اور آیت کریمہ : ۔ أَلا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ [ الرعد 28] سن رکھو کہ خدا کی یاد سے دل آرام پاتے ہیں ۔ میں اس امر تنبیہ کی گئی ہے کہ معرفت الہیٰ اور کثرت عبادت سے ہی قلبی عبادت سے ہی قلبہ سکون حاصل ہوتا ہے ۔ جس کی تسکین کا کہ آیت وَلكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي[ البقرة 260] میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے سوال کیا تھا ۔- قلب - قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] .- ( ق ل ب ) قلب - الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ - طير - الطَّائِرُ : كلُّ ذي جناحٍ يسبح في الهواء، يقال : طَارَ يَطِيرُ طَيَرَاناً ، وجمعُ الطَّائِرِ : طَيْرٌ «3» ، كرَاكِبٍ ورَكْبٍ. قال تعالی: وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ [ الأنعام 38] ، وَالطَّيْرَ مَحْشُورَةً- [ ص 19] ، وَالطَّيْرُ صَافَّاتٍ [ النور 41] وَحُشِرَ لِسُلَيْمانَ جُنُودُهُ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ وَالطَّيْرِ- [ النمل 17] ، وَتَفَقَّدَ الطَّيْرَ [ النمل 20] - ( ط ی ر ) الطائر - ہر پر دار جانور جو فضا میں حرکت کرتا ہے طار یطیر طیرا نا پرند کا اڑنا ۔ الطیر ۔ یہ طائر کی جمع ہے جیسے راکب کی جمع رکب آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ [ الأنعام 38] یا پرند جو اپنے پر دل سے اڑتا ہے ۔ وَالطَّيْرَ مَحْشُورَةً [ ص 19] اور پرندوں کو بھی جو کہ جمع رہتے تھے ۔ وَالطَّيْرُ صَافَّاتٍ [ النور 41] اور پر پھیلائے ہوئے جانور بھی ۔ وَحُشِرَ لِسُلَيْمانَ جُنُودُهُ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ وَالطَّيْرِ [ النمل 17] اور سلیمان کے لئے جنون اور انسانوں اور پرندوں کے لشکر جمع کئے گئے ۔ وَتَفَقَّدَ الطَّيْرَ [ النمل 20] انہوں نے جانوروں کا جائزہ لیا ۔ - فَصُرْهُنَ- وقوله تعالی: فَخُذْ أَرْبَعَةً مِنَ الطَّيْرِ فَصُرْهُنَ أي : أَمِلْهُنَّ من الصَّوْرِ ، أي : المیل، وقیل : قَطِّعْهُنَّ صُورَةً صورة، وقرئ : صرهن وقیل : ذلک لغتان، يقال : صِرْتُهُ وصُرْتُهُ وقال بعضهم : صُرْهُنَّ ، أي : صِحْ بِهِنَّ ، وذکر الخلیل أنه يقال : عصفور صَوَّارٌ وهو المجیب إذا دعي، وذکر أبو بکر النّقاش أنه قرئ : ( فَصُرَّهُنَّ ) بضمّ الصّاد وتشدید الرّاء وفتحها من الصَّرِّ ، أي :- الشّدّ ، وقرئ : ( فَصُرَّهُنَّ ) من الصَّرِيرِ ، أي : الصّوت، ومعناه : صِحْ بهنّ.- اور آیت کریمہ : ۔ فَخُذْ أَرْبَعَةً مِنَ الطَّيْرِ فَصُرْهُنَ«2» میں صرھن کے معنی یہ ہیں کہ ان کو اپنی طرف مائل کرلو اور ہلالو اور یہ صور سے مشتق ہے جس کے معنی مائل ہونے کے ہیں بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی پارہ پارہ کرنے کے ہیں ایک قرات میں صرھن ہے بعض کے نزدیک صرتہ وصرتہ دونوں ہم معنی ہیں اور بعض نے کہا ہے کہ صرھن کے معنی ہیں انہیں چلا کر بلاؤ چناچہ خلیل نے کہا ہے کہ عصفور صؤار اس چڑیا کو کہتے ہیں جو بلانے والے کی آواز پر آجائے ابوبکر نقاش نے کہا ہے کہ اس میں ایک قرات فصرھن ضاد کے ضمہ اور مفتوحہ کے ساتھ بھی ہے یہ صر سے مشتق ہے اور معنی باندھنے کے ہیں اور ایک قرات میں فصرھن ہے جو صریربمعنی آواز سے مشتق ہے اور معنی یہ ہیں کہ انہیں بلند آواز دے کر بلاؤ۔ - جبل - الجَبَل جمعه : أَجْبَال وجِبَال، وقال عزّ وجل :- أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِهاداً وَالْجِبالَ أَوْتاداً [ النبأ 6- 7] - ( ج ب ل )- قرآن میں ہے : ۔ أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِهاداً وَالْجِبالَ أَوْتاداً [ النبأ 6- 7] کیا ہم نے زمین کو بچھونا نہیں بنایا " ۔ اور پہاڑوں کو ( اس کی میخیں ) نہیں ٹھہرایا ؟- جزء - جُزْءُ الشیء : ما يتقوّم به جملته، كأجزاء السفینة، وأجزاء البیت، وأجزاء الجملة من الحساب قال تعالی: ثُمَّ اجْعَلْ عَلى كُلِّ جَبَلٍ مِنْهُنَّ جُزْءاً [ البقرة 260] ، وقال عزّ وجل :- لِكُلِّ بابٍ مِنْهُمْ جُزْءٌ مَقْسُومٌ [ الحجر 44] ، أي : نصیب، وذلک جزء من الشیء، وقال تعالی: وَجَعَلُوا لَهُ مِنْ عِبادِهِ جُزْءاً [ الزخرف 15] ، وقیل : ذلک عبارة عن الإناث، من قولهم : أَجْزَأَتِ المرأة : أتت بأنثی «1» . وجَزَأَ الإبل : مَجْزَءاً وجَزْءاً : اکتفی بالبقل عن شرب الماء . وقیل : اللّحم السمین أجزأ من المهزول «2» ، وجُزْأَة السکين : العود الذي فيه السیلان، تصوّرا أنه جزء منه .- ( ج ز ء)- جزء الشئی چیز کا وہ ٹکڑا جس سے وہ چیز مل کر بنے ۔ جیسے اجزاء السفینۃ اجزاء البیت اور حساب میں اجزا الجملۃ ( یعنی کل مجموعہ کے اجزاء ) وغیرہ محاورات بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ ثُمَّ اجْعَلْ عَلى كُلِّ جَبَلٍ مِنْهُنَّ جُزْءاً [ البقرة 260] پھر ان کا ایک ایک ٹکڑا ہرا یک پہاڑ پر رکھو اور ۔ لِكُلِّ بابٍ مِنْهُمْ جُزْءٌ مَقْسُومٌ [ الحجر 44] ہر ایک دروازے کے لئے ان میں ایک حصہ تقسیم کردیا گیا ہے ۔ وَجَعَلُوا لَهُ مِنْ عِبادِهِ جُزْءاً [ الزخرف 15] اور انہوں نے اس کے بندوں میں سے اس کے لئے اولاد مقرر کی ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ جزاء ا سے مراد انا ث ہیں میں انہوں نے فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں قرار دیا اور یہ اجزات المرءۃ کے محاورہ سے مشتق ہے جس کے معنی مادیتہ اولاد کو جنم دینا کے ہیں ۔ جزء الابل مجزء وجزا اونٹ ترگھاس کھانے کی وجہ سے پانی سے بےنیاز ہوگئے محاورہ ہے :۔ الحم السمین اجزء من المھزول موٹا گوشت وبلے گوشت سے زیادہ کفایت کرنے والا ہوتا ہے ۔ جزءۃ السلین چھری کا وستہ کیونکہ وہ اس کا ایک حصہ ہوتا ہے ۔- أتى- الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام 40]- ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی " آنا " ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو۔- عزیز - ، وَالعَزيزُ : الذي يقهر ولا يقهر . قال تعالی: إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت 26] ، يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف 88] - ( ع ز ز ) العزیز - العزیز وہ ہے جو غالب ہو اور مغلوب نہ ہو قرآن ، میں ہے : ۔ إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت 26] بیشک وہ غالب حکمت والا ہے ۔ يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف 88] اے عزیز میں اور ہمارے اہل و عیال کو بڑی تکلیف ہورہی ہے ۔ اعزہ ( افعال ) کے معنی کسی کو عزت بخشے کے ہیں ۔ ) - حكم - والحُكْم بالشیء : أن تقضي بأنّه كذا، أو ليس بکذا، سواء ألزمت ذلک غيره أو لم تلزمه، قال تعالی: وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء 58]- ( ح ک م ) حکم - الحکم کسی چیز کے متعلق فیصلہ کرنے کا نام حکم ہے یعنی وہ اس طرح ہے یا اس طرح نہیں ہے خواہ وہ فیصلہ دوسرے پر لازم کردیا جائے یا لازم نہ کیا جائے ۔ قرآں میں ہے :۔ وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء 58] اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢٦٠) اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بھی عرض کیا تھا کہ پروردگار آپ کس طرح مرے ہوئے لوگوں کو زندہ کریں گے ارشاد باری ہوا کیا تم اس پر یقین نہیں لائے، عرض کیا میں کیوں نہ لاتا لیکن اس لیے گزارش ہے تاکہ (مشاہدہ کرکے) میرے دل کو اطمینان ہوجائے اور بطور مشاہدہ کے یہ چیز بھی واضح ہوجائے کہ میں آپ کا دوست مستجاب الدعوت ہوں، ارشاد ہوا کہ مختلف قسم کے چار پرندے لے لو یعنی مور، مرغا، کوا اور بطخ اور پھر ان سب کا اچھی طرح باریک قیمہ کرکے اور ان کو اچھی طرح ملا کر چار پہاڑوں پر ان میں سے ایک ایک حصہ رکھ دو پھر ان کا نام لے کر بلاؤ وہ سب زندہ ہو کر دوڑتے ہوئے چلے آئیں گے۔- اور ابراہیم (علیہ السلام) کو کہا گیا کہ اس بات کا خوب یقین رکھو کہ جو شخص مردوں کے زندہ کرنے پر ایمان نہ لائے اللہ تعالیٰ اس پر عذاب نازل کرنے میں زبردست ہیں اور مردوں کی ہڈیاں جمع کرنے اور پھر ان کے زندہ کرنے میں جیسا کہ ان پرندوں کو زندہ کیا ہے حکمت والے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٦٠ (وَاِذْ قَالَ اِبْرٰہٖمُ رَبِّ اَرِنِیْ کَیْفَ تُحْیِ الْمَوْتٰی ط) (قَالَ اَوَلَمْ تُؤْمِنْ ط) (قَالَ بَلٰی (وَلٰکِنْ لِّیَطْمَءِنَّ قَلْبِیْ ط) - یہ تمام انبیاء کرام ( علیہ السلام) کا معاملہ ہے کہ انہیں عین الیقین اور حق الیقین کے درجے کا ایمان عطا کیا جاتا ہے۔ انہیں چونکہ ایمان اور یقین کی ایک ایسی بھٹیّ ( ) بنانا ہوتا ہے کہ جس سے ایمان اور یقین دوسروں میں سرایت کرے ‘ تو ان کے ایمان و یقین کے لیے ان کو ایسے مشاہدات کروا دیے جاتے ہیں کہ ایمان ان کے لیے صرف ایمان بالغیب نہیں رہتا بلکہ وہ ایمان بالشہادۃ بھی ہوجاتا ہے۔ سورة الانعام میں صراحت کے ساتھ فرمایا گیا ہے کہ ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو آسمانوں اور زمین کے نظام حکومت کا مشاہدہ کرایا تاکہ وہ کامل یقین کرنے والوں میں سے ہوجائے۔ٌمحمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو شب معراج میں آسمانوں پر لے جایا گیا کہ وہ ہر شے کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں۔ ان مشاہدات سے انبیاء کو ان ایمانی حقائق پر یقین کامل ہوجاتا ہے جن کی وہ لوگوں کو دعوت دیتے ہیں۔ گویا وہ خود ایمان اور یقین کی ایک بھٹیّ بن جاتے ہیں۔ - (قَالَ فَخُذْ اَرْبَعَۃً مِّنَ الطَّیْرِ فَصُرْہُنَّ اِلَیْکَ ) - انہیں اپنے ساتھ اس طرح مانوس کرلو کہ وہ تمہاری آواز سن کر تمہارے پاس آجایاکریں۔- (ثُمَّ اجْعَلْ عَلٰی کُلِّ جَبَلٍ مِّنْہُنَّ جُزْءً ‘ ا) - (ثُمَّ ادْعُہُنَّ یَاْتِیْنَکَ سَعْیًا ط) ۔ - اس کی تفصیل میں آتا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے چاروں پرندوں کے سر ‘ دھڑ ‘ ٹانگیں اور ان کے َ پر علیحدہ علیحدہ کیے۔ پھر ایک پہاڑ پر چاروں کے سر ‘ دوسرے پہاڑ پر چاروں کے دھڑ ‘ تیسرے پہاڑ پر چاروں کی ٹانگیں اور چوتھے پہاڑ پر چاروں کے َ پر رکھ دیے۔ اس طرح انہیں مختلف اجزاء میں تقسیم کردیا۔ پھر انہیں پکارا تو ان کے اجزاء مجتمع ہو کر چاروں پرندے اپنی سابقہ ہیئت میں زندہ ہو کر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس دوڑتے ہوئے آگئے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :296 یعنی وہ اطمینان ، جو مشاہدہ عینی سے حاصل ہوتا ہے ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :297 اس واقعے اور اوپر کے واقعے کی بعض لوگوں نے عجیب عجیب تاویلیں کی ہیں لیکن انبیا علیہم السلام کے ساتھ اللہ کا جو معاملہ ہے ، اسے اگر اچھی طرح ذہن نشین کر لیا جائے ، تو کسی کھینچ تان کی ضرورت پیش نہیں آسکتی ۔ عام اہل ایمان کو اس زندگی میں جو خدمت انجام دینی ہے ، اس کے لیے تو محض ایمان بالغیب ( بے دیکھے ماننا ) کافی ہے ۔ لیکن انبیا کو جو خدمت اللہ نے سپرد کی تھی اس کے لیے ضروری تھا کہ وہ اپنی آنکھوں سے وہ حقیقتیں دیکھ لیتے جن پر ایمان لانے کی دعوت انہیں دنیا کو دینی تھی ۔ ان کو دنیا سے پورے زور کے ساتھ یہ کہنا تھا کہ تم لوگ تو قیاسات دوڑاتے ہو ، مگر ہم آنکھوں دیکھی بات کہہ رہےہیں ۔ تمہارے پاس گمان ہے اور ہمارے پاس علم ہے ، تم اندھے ہو اور ہم بینا ہیں ۔ اسی لیے انبیا کے سامنے فرشتے عیاناً آئے ہیں ، ان کو آسمان و زمین کے نظام حکومت ( ملکوت ) کا مشاہدہ کرایا گیا ہے ، ان کو جنت اور دوزخ آنکھوں سے دکھائی گئی ہے ، اور بعث بعد الموت کا ان کے سامنے مظاہرہ کر کے دکھا یا گیا ہے ۔ ایمان بالغیب کی منزل سے یہ حضرات منصب نبوت پر مامور ہونے سے پہلے گزر چکے ہوتے ہیں ۔ نبی ہونے کےبعد ان کو ایمان بالشہادۃ کی نعمت دی جاتی ہے اور یہ نعمت انہی کے ساتھ مخصوص ہے ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم ، صفحہ نمبر ۳۳۰ و ۳۳٤ ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

176: اس سوال وجواب کے ذریعے اﷲ تعالیٰ نے یہ بات صاف کردی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یہ فرمائش خدانخواستہ کسی شک کی وجہ سے نہیں تھی، انہیں اﷲ تعالیٰ کی قدرت کاملہ پر پورا یقین تھا۔ لیکن آنکھوں سے دیکھنے کی بات ہی کچھ اور ہوتی ہے۔ اس سے نہ صرف مزید اطمینان حاصل ہوتا ہے، بلکہ اس کے بعد انسان دوسروں سے یہ کہہ سکتا ہے کہ جو کچھ کہہ رہا ہوں، دلائل سے اس کا علم حاصل کرنے کے علاوہ آنکھوں سے دیکھ کر کہہ رہا ہوں۔ 177: یعنی اگرچہ اﷲ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ ہر وقت مردے کو زندہ کرنے کا مشاہدہ کراسکتی ہے، مگر اس کی حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ ہر ایک کو یہ مشاہدہ نہ کرایا جائے۔ اور بات دراصل یہ ہے کہ یہ دُنیا چونکہ امتحان کی جگہ ہے، اس لئے یہاں اصل قیمت ایمان بالغیب کی ہے، اور انسان سے مطلوب یہ ہے کہ وہ ان حقائق پر آنکھوں سے دیکھے بغیر دلائل کی بنیاد پر ایمان لائے۔ البتہ انبیائے کرام کا معاملہ عام لوگوں سے مختلف ہے۔ وہ جب غیب کے حقائق پر غیر متزلزل ایمان لا کر یہ ثابت کرچکے ہوتے ہیں کہ ان کا ایمان نہ کسی شک کی گنجائش رکھتا ہے اور نہ وہ آنکھ کے کسی مشاہدے پر موقوف ہے تو ان کے ایمان بالغیب کا امتحان اسی دُنیا میں پورا ہوجاتا ہے۔ پھر انہیں حکمت خداوندی کے تحت بعض غیبی حقائق آنکھوں سے بھی دِکھا دئیے جاتے ہیں، تاکہ ان کے علم واطمینان کا معیار عام لوگوں سے زیادہ ہو، اور وہ ڈنکے کی چوٹ یہ کہہ سکیں کہ وہ جس بات کی دعوت دے رہے ہیں اس کی حقانیت انہوں نے آنکھوں سے بھی دیکھ رکھی ہے۔ بعض وہ لوگ جو خلافِ عادت باتوں کا اعتراف کرتے ہوئے ہچکچاتے ہیں، انہوں نے اس آیت میں بھی ایسی کھینچ تان کی ہے جس سے یہ نہ ماننا پڑے کہ وہ پرندے واقع مر کر زندہ ہوگئے تھے۔ لیکن قرآنِ کریم کا پورا سیاق اور جو الفاظ استعمال کئے گئے ہیں ان کا اُسلوب ایسی تأویلات کی تردید کرتا ہے۔ جو شخص عربی زبان کے محاورات اور اَسالیب سے واقف ہو وہ ان آیات کا اس کے سوا کوئی مطلب نہیں نکالے گا جو ترجمے میں بیان کیا گیا ہے۔