سو گنا زیادہ ثواب اس آیت میں بیان ہو رہا ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی رضامندی کی طلب میں اپنے مال کو خرچ کرے ، اسے بڑی برکتیں اور بہت بڑے ثواب ملتے ہیں اور نیکیاں سات سو گنا کرکے دی جاتی ہیں ، تو فرمایا یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کی راہ میں یعنی اللہ کی فرمانبرداری میں جہاد کے گھوڑوں کو پالنے میں ، ہتھیار خریدنے میں ، حج کرنے کرانے میں خرچ کرتے ہیں ۔ اللہ کے نام دئیے ہوئے کی مثال کس پاکیزگی سے بیان ہو رہی ہے جو آنکھوں میں کھپ جائے اور دِل میں گھر کر جائے ، ایک دم یوں فرما دیتا ہے کہ ایک کے بدلے سات سو ملیں گے اس سے بہت زیادہ لطافت اس کلام اور اس کی مثال میں ہے اور پھر اس میں اشارہ ہے کہ اعمال صالحہ اللہ کے پاس بڑھتے رہتے ہیں جس طرح تمہارے بوئے ہوئے بیج کھیت میں بڑھتے رہتے ہیں مسند احمد میں حدیث ہے کہ رسول اللہ احمد مجتبیٰ محمد صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو شخص اپنی بچی ہوئی چیز فی سبیل اللہ دیتا ہے اسے سات سو کا ثواب ملتا ہے اور جو شخص جان پر اور اپنے اہل و عیال پر خرچ کرے اسے دس گنا ملتا ہے اور بیمار کی عیادت کا ثواب بھی دس گنا ملتا ہے ۔ روزہ ڈھال ہے ، جب تک کہ اسے خراب نہ کرے ، جس شخص پر کوئی جسمانی بلا مصیبت دکھ درد بیماری آئے وہ اس کے گناہوں کو جھاڑ دیتی ہے ۔ یہ حدیث حضرت ابو عبیدہ نے اس وقت بیان فرمائی تھی جب کہ آپ سخت بیمار تھے اور لوگ عیادت کیلئے گئے تھے ، آپ کی بیوی صاحبہ سرہانے بیٹھی تھیں ، ان سے پوچھا کہ رات کیسی گزری؟ انہوں نے کہا نہایت سختی سے ، آپ کا منہ اس وقت دیوار کی جانب تھا ، یہ سنتے ہی لوگوں کی طرف منہ کیا اور فرمایا میری یہ رات سختی کی نہیں گزری ، اس لئے کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا ہے ، مسند احمد کی اور حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے نکیل والی اونٹنی خیرات کی ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ قیامت کے دن سات سو نکیل والی اونٹنیاں پائے گا ، مسند کی ایک اور حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ابن آدم کی ایک نیکی کو دس نیکیوں کے برابر کر دیا ہے اور وہ بڑھتی رہتی ہیں ، سات سو تک ، مگر روزہ ، کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وہ خاص میرے لئے ہے اور میں آپ کو اس کا اجر و ثواب دوں گا ، روزے دار کو دو خوشیاں ہیں ایک افطار کے وقت ، دوسری قیامت کے دن روزے دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کو مشک کی خوشبو سے زیادہ پسند ہے ، دوسری حدیث میں اتنی زیادتی اور ہے کہ روزے دار اپنے کھانے پینے کو صرف میری وجہ سے چھوڑتا ہے ، آخر میں ہے روزہ ڈھال ہے روزہ ڈھال ہے ، مسند کی اور حدیث میں ہے نماز روزہ اللہ کا ذِکر اللہ کی راہ کے خرچ پر سات سو گنا بڑھ جاتے ہیں ، ابن ابی حاتم کی حدیث میں ہے کہ جو شخص جہاد میں کچھ مالی مدد دے ، گو خود نہ جائے تاہم اسے ایک کے بدلے سات سو کے خرچ کرنے کا ثواب ملتا ہے اور خود بھی شریک ہوا تو ایک درہم کے بدلے سات لاکھ درہم کے خرچ کا ثواب ملتا ہے ، پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت کی ( ۭوَاللّٰهُ يُضٰعِفُ لِمَنْ يَّشَاۗءُ ۭ وَاللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ ) 2 ۔ البقرۃ:261 ) یہ حدیث غریب ہے اور حضرت ابو ہریرہ والی حدیث ( مَنْ ذَا الَّذِيْ يُقْرِضُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضٰعِفَهٗ لَهٗٓ اَضْعَافًا كَثِيْرَةً ) 2 ۔ البقرۃ:245 ) کی تفسیر میں پہلے گزر چکی ہے جس میں ہے کہ ایک کے بدلے میں دو کروڑ کا ثواب ملتا ہے ، ابن مردویہ میں ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو نبی علیہ صلواۃ اللہ نے دعا کی کہ اے اللہ میری امت کو کچھ اور زیادتی عطا فرما تو ( مَنْ ذَا الَّذِيْ يُقْرِضُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضٰعِفَهٗ لَهٗٓ اَضْعَافًا كَثِيْرَةً ) 2 ۔ البقرۃ:245 ) والی آیت اتری اور آپ نے پھر بھی یہی دعا کی تو آیت ( اِنَّمَا يُوَفَّى الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ ) 39 ۔ الزمر:10 ) اتری ، پس ثابت ہوا کہ جب قدر اخلاص عمل میں ہو اسی قدر ثواب میں زیادتی ہوتی ہے ، اللہ تعالیٰ بڑے وسیع فضل و کرم والا ہے ، وہ جانتا بھی ہے کہ کون کس قدر مستحق ہے اور کسے استحقاق نہیں فسبحان اللہ والحمداللہ ۔
261۔ 1 یہ نفاق فی سبیل اللہ کی فضیلت ہے اس سے مراد اگر جہاد ہے تو اس کے معنی یہ ہونگے کہ جہاد میں خرچ کی گئی رقم کا یہ ثواب ہوگا اور اگر اس سے مراد تمام مصارف خیر ہیں تو یہ فضیلت نفقات و صدقات نافلہ کی ہوگی اور دیگر نیکیوں کی۔ اور ایک نیکی کا اجر دس گنا کی ذیل میں آئے گا۔ (فتح القدیر) گویا نفقات و صدقات کا عام اجر وثواب دیگر امور خیر سے زیادہ ہے۔ انفاق فی سبیل اللہ کی اس اہمیت و فضیلت کی وجہ بھی واضح ہے کہ جب تک سامان و اسلحہ جنگ کا انتظام نہیں ہوگا فوج کی کارکردگی بھی صفر ہوگی اور سامان اور اسلحہ رقم کے بغیر مہیا نہیں کیے جاسکتے۔
[٣٧٦] اسی سورة کی آیت نمبر ٢٥٤ میں اہل ایمان کو انفاق فی سبیل اللہ کی ترغیب دی گئی تھی کہ قیامت کے دن یہی چیز کام آنے والی ہے۔ درمیان میں اللہ کی معرفت اور تصرف فی الامور کے چند واقعات کا ذکر کرنے کے بعد اب اسی مضمون کی طرف رجوع کیا جا رہا ہے اور بتلایا جا رہا ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کس طرح ان صدقات کو سینکڑوں گنا بڑھا کر اس کا اجر عطا فرمائے گا اسی اضافے کو اللہ تعالیٰ یہاں ایک ایسی مثال سے واضح فرما رہے ہیں جسے سب لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں یعنی اگر اللہ چاہے تو سات سے زیادہ بالیاں بھی اگ سکتی ہیں اور ایک بالی میں سو سے زیادہ دانے بھی ہوسکتے ہیں۔ اس طرح صدقہ کا اجر وثواب سات سو گنا سے بھی بڑھ جاتا ہے۔ ایسے اجر کے حصول کے لیے چند باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ مثلاً :۔- ١۔ بیج یا دانہ جس قدر تندرست اور قوی ہوگا اتنی ہی فصل اچھی ہوگی۔ انفاق فی سبیل اللہ میں بیج یا دانہ انسان کی نیت ہے وہ جس قدر خالص اللہ کی رضا کے لیے ہوگی۔ اسی قدر آپ کا صدقہ زیادہ پھل لائے گا۔ نیز یہ صدقہ حلال مال سے ہونا چاہیے۔ کیونکہ حرام مال کا صدقہ قبول ہی نہیں ہوتا۔- ٢۔ بیج کی کاشت کے بعد پیداوار حاصل کرنے کے لیے اس کی آبیاری اور کیڑوں مکوڑوں سے حفاظت بھی ضروری ہے۔ ورنہ فصل یا تو برباد ہوجائے گی یا بہت کم فصل پیدا ہوگی۔ اسی طرح صدقہ کے بعد اس کی حفاظت بھی کی جانی چاہیے اور اسے احسان جتلا کر یا بےگار لے کر ضائع نہ کردینا چاہیے جیسا کہ اگلی آیت میں آ رہا ہے۔- ٣۔ بعض دفعہ فصل تیار ہوجاتی ہے تو اس پر کوئی ایسی ارضی و سماوی آفت آپڑتی ہے جو فصل کو بالکل تباہ و برباد کر کے رکھ دیتی ہے۔ انسان کے اعمال میں یہ آفات شرک کی مختلف اقسام ہیں۔ اگر آپ نے بالکل درست نیت سے صدقہ کیا۔ پھر آبیاری اور حفاظت بھی کرتے رہے۔ لیکن کسی وقت کوئی شرک کا کام کرلیا تو آپ کے اعمال برباد ہوجائیں گے۔ اسی طرح اگر وہ کام سنت کے خلاف (یعنی بدعت) ہوگا تو بھی وہ اجر کے بجائے عذاب کا مستحق ہوگا۔- ہاں جو شخص ان امور کا خیال رکھے تو اسے فی الواقعہ اتنا ہی اجر ملے گا جو اس آیت میں مذکور ہے جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ صرف پاک مال قبول کرتا ہے تو جس نے اپنے پاک مال میں سے ایک کھجور برابر صدقہ کیا۔ اللہ تعالیٰ اسے اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے اور اس کی یوں نشوونما کرتا ہے جیسے تم اپنے بچھڑے کی نشوونما کرتے ہو حتیٰ کہ وہ کھجور پہاڑ کے برابر ہوجاتی ہے۔ (بخاری، کتاب الزکاۃ، باب لا یقبل اللہ صدقہ من غلول۔ اور باب الصدقہ من کسب طیب لقولہ تعالیٰ یمحق اللہ الربوا ویر بی الصدقات الایہ، مسلم، کتاب الزکوۃ، باب الحث علی الصدقہ ولو بشق تمرۃ او کلمہ طیبہ۔۔ الخ) - [٣٧٧] یعنی جتنا زیادہ اجر وثواب دینا چاہے دے سکتا ہے اور وہ یہ بھی جانتا ہے کہ کتنے خلوص نیت سے تم نے یہ کام کیا تھا۔
فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ : قرآن مجید میں ” ْ سَبِيْلِ اللّٰهِ “ کا لفظ عام یعنی اسلام کے معنی میں بھی آیا ہے، جیسے فرمایا : (اِنَّ كَثِيْرًا مِّنَ الْاَحْبَارِ وَالرُّهْبَانِ لَيَاْكُلُوْنَ اَمْوَال النَّاس بالْبَاطِلِ وَيَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ) [ التوبۃ : ٣٤ ] ” بیشک بہت سے عالم اور درویش یقیناً لوگوں کا مال باطل طریقے سے کھاتے ہیں اور اللہ کے راستے سے روکتے ہیں۔ “ اس صورت میں اسلام کے ہر کام میں خرچ کرنا فی سبیل اللہ خرچ کرنا ہے اور خاص معنوں میں بھی آیا ہے، جیسا کہ سورة توبہ (٦٠) میں صدقات خرچ کرنے کی جگہوں میں ایک ” فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ “ ہے۔ وہاں ” فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ “ سے خاص جہاد مراد ہے، نیز صحیح بخاری میں حج کو بھی اس میں شمار کیا ہے۔ یہاں اگرچہ عام معنی بھی مراد لیا جاسکتا ہے مگر جیسا کہ شاہ عبد القادر (رض) نے فرمایا : ” جہاد مراد لینا گزشتہ اور آئندہ آیات کے لحاظ سے زیادہ مناسب ہے۔ “
خلاصہ تفسیر :- جو لوگ اللہ کی راہ میں (یعنی امور خیر میں) اپنے مالوں کو خرچ کرتے ہیں ان کے خرچ کئے ہوئے مالوں کی حالت (عنداللہ) ایسی ہے جیسے ایک دانہ کی حالت جس سے (فرض کرو) سات بالیں جن میں (اور) ہر بالی کے اندر سو دانے ہوں (اسی طرح اللہ تعالیٰ ان کا ثواب سات سو حصہ تک بڑھاتا ہے) اور یہ افزونی اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے (بقدر اس کے اخلاص اور مشقت کے) عطا فرماتا ہے اور خدا تعالیٰ بڑی وسعت والے ہیں (ان کے یہاں کسی چیز کی کمی نہیں وہ سب کو یہ افزونی دے سکتے ہیں مگر ساتھ ہی) جاننے والے (بھی) ہیں (اس لئے اخلاص نیت وغیرہ کو دیکھ کر عطا فرماتے ہیں) جو لوگ اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں پھر خرچ کرنے کے بعد نہ تو (جس کو دیا ہے اس پر زبان سے) احسان جتلاتے ہیں اور نہ (برتاؤ سے اس کو) آزار پہنچاتے ہیں ان لوگوں کو ان (کے عمل) کا ثواب ملے گا ان کے پروردگار کے پاس (جاکر) اور نہ (قیامت کے دن) ان پر کوئی خطرہ ہوگا اور نہ یہ مغموم ہوں گے (ناداری کے وقت جواب میں معقول و) مناسب بات کہہ دینا اور (اگر سائل بدتمیزی سے غصہ دلاوے یا اصرار سے تنگ کرے تو اس سے) درگذر کرنا (ہزار درجہ) بہتر ہے ایسی خیرات (دینے) سے جس کے بعد آزار پہنچایا جائے اور اللہ تعالیٰ (خود) غنی ہیں (کسی کے مال کی ان کو حاجت نہیں جو کوئی خرچ کرتا ہے اپنے واسطے پھر آزار کس بناء پر پہنچایا جائے اور آزار دینے پر جو فوراً سزا نہیں دیتے اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ) حلیم (بھی) ہیں۔ اے ایمان والو تم احسان جتلا کر یا ایذاء پہنچا کر اپنی خیرات (کے ثواب بڑہنے) کو برباد مت کرو جس طرح وہ شخص (خودخیرات کے اصل ثواب ہی کو برباد کردیتا ہے) جو اپنا مال خرچ کرتا ہے (محض) لوگوں کو دکھلانے کی غرض سے اور ایمان نہیں رکھتا اللہ پر اور یوم قیامت پر (مراد اس سے بقرینہ نفی ایمان کے منافق ہے) سو اس شخص کی حالت ایسی ہے جیسے ایک چکنا پتھر (فرض کرو اس پر) جب کچھ مٹی (آگئی) ہو ( اور اس مٹی میں کچھ گھاس پھونس جم آیا ہو) پھر اس پر زور کی بارش پڑجائے سو اس کو (جیسا تھا ویسا ہی) بالکل صاف کردے (اسی طرح اس منافق کے ہاتھ سے اللہ کی راہ میں کچھ خرچ ہوگیا جو ظاہر میں ایک نیک عمل جس میں امید ثواب ہو معلوم ہوتا ہے لیکن اس کے نفاق نے اس شخص کو ویسا ہی کو را ثواب سے خالی چھوڑ دیا۔ چناچہ قیامت میں) ایسے لوگوں کو اپنی کمائی ذرا بھی ہاتھ نہ لگے گی (کیونکہ کمائی نیک عمل ہے اور اس کا ہاتھ لگنا ثواب کا ملنا ہے اور ثواب ملنے کی شرط ایمان اور اخلاص ہے اور ان لوگوں میں یہ مفقود ہے کیونکہ ریاکار بھی ہیں اور کافر بھی ہیں) اور اللہ تعالیٰ کافر لوگوں کو (قیامت کے روز ثواب کے گھر یعنی جنت کا) راستہ نہ بتلائیں گے (کیونکہ کفر کی وجہ سے ان کا کوئی عمل مقبول نہیں ہوا جس کا ثواب آخرت میں ذخیرہ ہوتا اور وہاں حاضر ہو کر اس کے صلہ میں جنت میں پہنچائے جاتے) اور ان لوگوں کے خرچ کئے ہوئے مال کی حالت جو اپنے مالوں کو خرچ کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کی رضاجوئی کی غرض سے (جو کہ خاص اس عمل سے ہوگی) اور اس غرض سے کہ اپنے نفسوں (کو اس عمل شاق کا خوگر بنا کر ان) میں پختگی پیدا کریں (تاکہ دوسرے اعمال صالحہ سہولت سے پیدا ہوا کریں پس ان لوگوں کے نفقات و صدقات کی حالت) مثل حالت ایک باغ کے ہے جو کسی ٹیلے پر ہو کہ (اس جگہ کی ہوا لطیف اور بارآور ہوتی ہے اور) اس پر زور کی بارش پڑی ہو پھر وہ (باغ لطافت ہوا اور بارش کے سبب اور باغوں سے یا اور دفعوں سے) دونا (چوگنا) پھل لایا ہو اور اگر ایسے زور کا مینھ نہ پڑے تو ہلکی پھوار (یعنی خفیف بارش) بھی اس کو کافی ہے (کیونکہ زمین اور موقع اس کا اچھا ہے) اور اللہ تعالیٰ تمہارے کاموں کو خوب دیکھتے ہیں (اس لئے جب وہ اخلاص دیکھتے ہیں ثواب بڑھا دیتے ہیں) بھلا تم میں سے کسی کو یہ بات پسند ہے کہ اس کا ایک باغ ہو کھجوروں کا اور انگوروں کا (یعنی زیادہ درخت اس میں ان کے ہوں اور) اس (باغ) کے (درختوں کے) نیچے نہریں چلتی ہوں (جس سے وہ خوب سرسبز و شاداب ہوں) اور اس شخص کے یہاں اس باغ میں (علاوہ کھجوروں اور انگوروں کے) اور بھی ہر قسم کے (مناسب) میوے ہوں اور اس شخص کا بڑھاپا آگیا ہو (جو کہ زمانہ زیادہ احتیاج کا ہوتا ہے) اور اس کے اہل و عیال بھی ہوں جن میں (کمانے کی) قوت نہیں (اس صورت میں اہل و عیال سے بھی اس کی توقع خبر گیری کی نہیں ہوگی بس وجہ معاش صرف وہی باغ ہوا) سو (ایسی حالت میں یہ قصہ ہو کہ) اس باغ پر ایک بگولہ آئے جس میں آگ (کا مادہ) ہو پھر (اس سے) وہ جل جائے (ظاہر بات ہے کسی کو اپنے لئے یہ بات پسند نہیں آسکتی پھر اسی کے مشابہ تو یہ بات بھی ہے کہ اول صدقہ دیا یا کوئی اور نیک کام کیا جس کے قیامت میں کارآمد ہونے کی امید ہو جو کہ وقت ہوگا غایت احتیاج کا اور زیادہ مدار قبول ہوگا انہیں طاعات پر پھر ایسے وقت میں معلوم ہوگا کہ ہمارے احسان جتلانے یا غریب کو ایذاء دینے سے ہماری طاعات باطل یا بےبرکت ہوگئیں اس وقت کیسی سخت حسرت ہوگی کہ کیسی کیسی آرزوؤں کا خون ہوگیا پس جب تم مثال کے واقعہ کو پسند نہیں کرتے تو ابطال طاعات کو کیسے گوارا کرتے ہو) اللہ تعالیٰ اسی طرح نظائر بیان فرماتے ہیں تمہارے (سمجھانے کے) لئے تاکہ تم سوچا کرو (اور سوچ کر اس کے موافق عمل کیا کرو) - معارف و مسائل :- یہ سورة بقرہ کا چھتیسواں رکوع ہے جو آیت نمبر ٢٦١ سے شروع ہوتا ہے اب سورة بقرہ کے پانچ رکوع باقی ہیں جن میں آخری رکوع میں تو کلیات اور اہم اصولی چیزوں کا بیان ہے اس سے پہلے چار رکوع میں آیت نمبر ٢٦١ سے ٢٨٣ تک کل ٢٣ آیات ہیں جن میں مالیات سے متعلق خاص ہدایات اور ایسے ارشادات ہیں کہ اگر دنیا آج ان پر پوری طرح عامل ہوجائے تو معاشی نظام کا وہ مسئلہ خود بخود حل ہوجائے جس میں آج کی دنیا چار سو بھٹک رہی ہے کہیں سرمایہ داری کا نظام ہے تو کہیں اس کا ردعمل اشتراکیت اور اشمالیت کا نظام ہے اور ان نظاموں کے باہمی ٹکراؤ نے دنیا کو قتل و قتال اور جنگ وجدال کا ایک جہنم بنا رکھا ہے، ان آیات میں اسلام کے معاشی نظام کے ایک اہم پہلو کا بیان ہے جس کے دو حصے ہیں۔- (١) اپنی ضرورت سے زائد مال کو اللہ کی رضا کے لئے حاجت مند مفلس لوگوں پر خرچ کرنے کی تعلیم جس کو صدقہ و خیرات کہا جاتا ہے۔- (٢) دوسرے سود کے لین دین کو حرام قرار دے کر اس سے بچنے کی ہدایات، ان میں سے پہلے دو رکوع صدقہ و خیرات کے فضائل اور اس کی ترغیب اور اس کے متعلقہ احکام و ہدایات پر مشتمل ہیں اور آخری دو رکوع سودی کاروبار کی حرمت و ممانعت اور قرض ادھار کے جائز طریقوں کے بیان میں ہیں۔- جو آیات اوپر لکھی گئی ہیں ان میں اول اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے فضائل کا بیان فرمایا گیا ہے اس کے بعد ایسی شرائط کا بیان ہے جن کے ذریعے صدقہ خیرات اللہ کے نزدیک قابل قبول اور موجب ثواب بن جائے پھر ایسی چیزوں کا بیان ہے جو انسان کے صدقہ و خیرات کو برباد کرکے نیکی برباد گناہ لازم کا مصداق بنا دیتی ہیں۔- اس کے بعد دو مثالیں بیان کی گئی ہیں ایک ان نفقات و صدقات کی جو اللہ کے نزدیک مقبول ہوئی دوسرے ان نفقات و صدقات کی جو غیرمقبول اور فاسد ہوں،- یہ پانچ مضمون ہیں جو اس رکوع میں بیان ہوئے ہیں۔- یہاں ان مضامین میں پہلے یہ جان لینا ضروری ہے کہ قرآن کریم نے اللہ کے راستے میں مال خرچ کرنے کو کہیں بہ لفظ انفاق بیان فرمایا ہے کہیں بہ لفظ اطعام کہیں بہ لفظ صدقہ اور کہیں بہ لفظ ایتاء الزکوٰۃ ان الفاظ قرآنی اور ان کے جگہ جگہ استعمال پر نظر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ لفظ انفاق، اطعام، صدقہ عام ہیں جو ہر قسم کے صدقہ خیرات اور رضائے الہی حاصل کرنے کے لئے ہر قسم کے خرچ پر حاوی ہے خواہ فرض وواجب ہوں یا نفلی اور مستحب، اور زکوٰۃ فرض کے لئے قرآن نے ایک ممتاز لفظ ایتاء الزکوۃ استعمال فرمایا ہے جس میں اس کی طرف اشارہ ہے کہ اس خاص صدقہ کے لئے حاصل کرنے اور خرچ کرنے دونوں میں کچھ خصوصیات ہیں۔- اس رکوع میں اکثر لفظ انفاق سے اور کہیں لفظ صدقہ سے تعبیر کی گئی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ یہاں عام صدقات ومبرات کا بیان ہے اور جو احکام یہاں ذکر کئے گئے ہیں وہ ہر قسم کے صدقات اور اللہ کے لئے خرچ کرنے کی سب صورتوں کو شامل اور حاوی ہیں۔- اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی ایک مثال :- پہلی آیت میں ارشاد فرمایا ہے کہ جو لوگ اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں یعنی حج میں یا جہاد میں یا فقراء و مساکین اور بیواؤں اور یتیموں پر یا بہ نیت امداد اپنے عزیزوں دوستوں پر اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص ایک دانہ گیہوں کا عمدہ زمین میں بوئے اس دانہ سے گیہوں کا ایک پودا نکلے جس میں سات خوشے گیہوں کے پیدا ہوں اور ہر خوشے میں سو دانے ہوں جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک دانہ سے سات سو دانے حاصل ہوگئے۔- مطلب یہ ہوا کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے کا اجروثواب ایک سے لے کر سات سو تک پہنچتا ہے ایک پیسہ خرچ کرے تو سات سو پیسوں کا ثواب حاصل ہوسکتا ہے۔- صحیح ومتعبر احادیث میں ہے کہ ایک نیکی کا ثواب اس کا دس گنا ملتا ہے اور سات سو گنے تک پہنچ سکتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے فرمایا کہ جہاد اور حج میں ایک درہم خرچ کرنے کا ثواب سات سو درہم کے برابر ہے، یہ روایت ابن کثیر نے بحوالہ مسنداحمد بیان کی ہے۔- الغرض اس آیت نے بتلایا کہ اللہ کی راہ میں ایک روپیہ خرچ کرنے والے کا ثواب سات سو روپے کے خرچ کے برابر ملتا ہے۔- قبولیت صدقات کی مثبت شرائط :- لیکن قرآن حکیم نے اس مضمون کو بجائے مختصر اور صاف لفظوں میں بیان کرنے کے دانہ گندم کی مثال کی صورت میں بیان فرمایا جس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جس طرح کاشتکار ایک دانہ گندم سے سات سو دانے اسی وقت حاصل کرسکتا ہے جب کہ یہ دانہ عمدہ ہو خراب نہ ہو اور دانہ ڈالنے والا کاشتکار بھی کاشتکاری کے فن سے پورا واقف ہو اور جس زمین میں ڈالے وہ بھی عمدہ زمین ہو کیونکہ ان میں سے اگر ایک چیز بھی کم ہوگئی تو یا یہ دانہ ضائع ہوجائے گا ایک دانہ بھی نہ نکلے گا اور یا پھر ایسا بارآور نہ ہوگا کہ ایک دانہ سے سات سو دانے بن جائیں۔- اسی طرح عام صالحہ اور خصوصاً انفاق فی سبیل اللہ کی مقبولیت اور زیادتی اجر کے لئے بھی یہی تین شرطیں ہیں کہ جو مال اللہ کی راہ میں خرچ کرے وہ پاک اور حلال ہو کیونکہ حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ پاک اور حلال مال کے سوا کسی چیز کو قبول نہیں فرماتے، دوسرے خرچ کرنے والا بھی نیک نیت اور صالح ہو بدنیتی یا نام ونمود کے لئے خرچ کرنے والا، اس ناواقف کاشتکار کی طرح ہے جو دانہ کو کسی ایسی جگہ ڈال دے کہ وہ ضائع ہوجائے۔- تیسرے جس پر خرچ کرے وہ بھی صدقہ کا مستحق ہو کسی نااہل پر خرچ کرکے ضائع نہ کرے اس طرح اس مثال سے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی بہت بڑی فضیلت بھی معلوم ہوگئی اور ساتھ ہی اس کی تین شرطیں بھی کہ مال حلال سے خرچ کرے اور خرچ کرنے کا طریقہ بھی سنت کے مطابق ہو اور مستحقین کو تلاش کرکے ان پر خرچ کرے محض جیب سے نکال ڈالنے سے یہ فضیلت حاصل نہیں ہوتی ،
مَثَلُ الَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ كَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنْۢبَتَتْ سَـبْعَ سَـنَابِلَ فِيْ كُلِّ سُنْۢبُلَۃٍ مِّائَۃُ حَبَّۃٍ ٠ ۭ وَاللہُ يُضٰعِفُ لِمَنْ يَّشَاۗءُ ٠ ۭ وَاللہُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ ٢٦١- مثل - والمَثَلُ عبارة عن قول في شيء يشبه قولا في شيء آخر بينهما مشابهة، ليبيّن أحدهما الآخر ويصوّره . فقال : وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر 21] ، وفي أخری: وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت 43] .- ( م ث ل ) مثل ( ک )- المثل کے معنی ہیں ایسی بات کے جو کسی دوسری بات سے ملتی جلتی ہو ۔ اور ان میں سے کسی ایک کے ذریعہ دوسری کا مطلب واضح ہوجاتا ہو ۔ اور معاملہ کی شکل سامنے آجاتی ہو ۔ مثلا عین ضرورت پر کسی چیز کو کھودینے کے لئے الصیف ضیعت اللبن کا محاورہ وہ ضرب المثل ہے ۔ چناچہ قرآن میں امثال بیان کرنے کی غرض بیان کرتے ہوئے فرمایا : ۔ وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر 21] اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں تاکہ وہ فکر نہ کریں ۔- نفق - نَفَقَ الشَّيْءُ : مَضَى ونَفِدَ ، يَنْفُقُ ، إِمَّا بالبیع نحو : نَفَقَ البَيْعُ نَفَاقاً ، ومنه : نَفَاقُ الأَيِّم، ونَفَقَ القَوْمُ : إذا نَفَقَ سُوقُهُمْ ، وإمّا بالمَوْتِ نحو : نَفَقَتِ الدَّابَّةُ نُفُوقاً ، وإمّا بالفَنَاءِ نحو : نَفِقَتِ الدَّرَاهِمُ تُنْفَقُ وأَنْفَقْتُهَا . والإِنْفَاقُ قد يكون في المَالِ ، وفي غَيْرِهِ ، وقد يكون واجباً وتطوُّعاً ، قال تعالی: وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة 195] ، وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة 254] - ( ن ف ق ) نفق - ( ن ) س الشئی کے منعی کسی چیز کے ختم ہونے یا چلے جانے کے ہیں ۔ اور چلے جانے کی مختلف صورتیں ہیں ( 1 ) خوب فروخت ہونے سے جیسے نفق البیع ( سامان کا ) خوب فروخت ہونا اسی سے نفاق الایتیم ہے جس کے معنی بیوہ عورت سے نکاح کے طلب گاروں کا بکثرت ہونا کے ہیں ۔ نفق القوم بازار کا پر رونق ہونا ۔ ( 2 ) بذیعہ مرجانے کے جیسے نفقت الدابۃ نفوقا جانور کا مرجانا ۔ ( 3 ) بذریعہ فنا ہوجانے کے جیسے نفقت الدراھم درواہم خرچ ہوگئے ۔ انفق تھا ان کو خرچ کردیا ۔ الا نفاق کے معنی مال وغیرہ صرف کرنا کے ہیں اور یہ کبھی واجب ہوتا ہے ۔ اور کبھی مستحب اور مال اور غیر مال یعنی علم وغیرہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا ۔ وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة 195] اور خدا کی راہ میں مال خرچ کرو ۔ وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة 254] اور جو مال ہم نے تم کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرلو ۔- ميل - المَيْلُ : العدول عن الوسط إلى أَحَد الجانبین، والمَالُ سُمِّي بذلک لکونه مائِلًا أبدا وزَائلا،- ( م ی ل ) المیل - اس کے معنی وسط سے ایک جانب مائل ہوجانے کے ہیں اور المال کو مال اس لئے کہا جاتا ہے ۔ کہ وہ ہمیشہ مائل اور زائل ہوتا رہتا ہے ۔ - سبل - السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] - ( س ب ل ) السبیل - ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] دریا اور راستے ۔- حب ( دانه)- الحَبُّ والحَبَّة يقال في الحنطة والشعیر ونحوهما من المطعومات، والحبّ والحبّة في بزور الریاحین، قال اللہ تعالی: كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنابِلَ فِي كُلِّ سُنْبُلَةٍ مِائَةُ حَبَّةٍ [ البقرة 261] ، وقال : وَلا حَبَّةٍ فِي ظُلُماتِ الْأَرْضِ [ الأنعام 59] ، وقال تعالی: إِنَّ اللَّهَ فالِقُ الْحَبِّ وَالنَّوى [ الأنعام 95] ، وقوله تعالی: فَأَنْبَتْنا بِهِ جَنَّاتٍ وَحَبَّ الْحَصِيدِ [ ق 9] ، أي : الحنطة وما يجري مجراها ممّا يحصد، وفي الحدیث : «كما تنبت الحبّة في حمیل السیل» - ( ج ب ب ) الحب والحبۃ ( فتحہ حاء ) گندم ۔ جو وغیرہ مطعومات کے دانہ کو کہتے ہیں ۔ اور خوشبو دار پودوں اور پھولوں کے بیج کو حب وحبۃ کہا جاتا ہے قرآن میں ہے :۔ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنابِلَ فِي كُلِّ سُنْبُلَةٍ مِائَةُ حَبَّةٍ [ البقرة 261]( ان کے دلوں ) کی مثال اس دانے کی سی ہے جس سے سات بالیں اگیں اور ہر ایک بالی میں سو سودانے ہوں ۔ وَلا حَبَّةٍ فِي ظُلُماتِ الْأَرْضِ [ الأنعام 59] اور زمین کے اندھیروں میں کوئی دانہ ایسا نہیں ہے ۔ إِنَّ اللَّهَ فالِقُ الْحَبِّ وَالنَّوى [ الأنعام 95] بیشک خدا ہی دانے اور گھٹلی کو پھاڑ کر ( ان سے درخت اگاتا ہے ۔ ) اور آیت کریمۃ ؛۔ فَأَنْبَتْنا بِهِ جَنَّاتٍ وَحَبَّ الْحَصِيدِ [ ق 9] اور اس باغ سے دلبستان اگائے اور اناج ۔ میں حب الحصید سے گندم وغیرہ مراد ہے جو کاٹا جاتا ہے اور حدیث میں ہے ۔ کما تنبت الحبۃ فی جمیل السیل ۔ جیسے گھاس پات کے بیج جو سیلاب کے بہاؤ میں آگ آتے ہیں ۔- نبت - النَّبْتُ والنَّبَاتُ : ما يخرج من الأرض من النَّامِيات، سواء کان له ساق کا لشجر، أو لم يكن له ساق کالنَّجْم، لکن اختَصَّ في التَّعارُف بما لا ساق له، بل قد اختصَّ عند العامَّة بما يأكله الحیوان، وعلی هذا قوله تعالی: لِنُخْرِجَ بِهِ حَبًّا وَنَباتاً [ النبأ 15] ومتی اعتبرت الحقائق فإنّه يستعمل في كلّ نام، نباتا کان، أو حيوانا، أو إنسانا، والإِنْبَاتُ يستعمل في كلّ ذلك . قال تعالی: فَأَنْبَتْنا فِيها حَبًّا وَعِنَباً وَقَضْباً وَزَيْتُوناً وَنَخْلًا وَحَدائِقَ غُلْباً وَفاكِهَةً وَأَبًّا[ عبس 27- 31]- ( ن ب ت ) النبت والنبات - ۔ ہر وہ چیز جو زمین سے اگتی ہے ۔ اسے نبت یا نبات کہا جاتا ہے ۔ خواہ وہ تنہ دار ہو جیسے درخت ۔ یا بےتنہ جیسے جڑی بوٹیاں لیکن عرف میں خاص کر نبات اسے کہتے ہیں ہیں جس کے تنہ نہ ہو ۔ بلکہ عوام تو جانوروں کے چاراہ پر ہی نبات کا لفظ بولتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ لِنُخْرِجَ بِهِ حَبًّا وَنَباتاً [ النبأ 15] تاکہ اس سے اناج اور سبزہ پیدا کریں ۔ میں نبات سے مراد چارہ ہی ہے ۔ لیکن یہ اپانے حقیقی معنی کے اعتبار سے ہر پڑھنے والی چیز کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور بناتات حیوانات اور انسان سب پر بولاجاتا ہے ۔ اور انبات ( افعال ) کا لفظ سب چیزوں کے متعلق اسستعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ فَأَنْبَتْنا فِيها حَبًّا وَعِنَباً وَقَضْباً وَزَيْتُوناً وَنَخْلًا وَحَدائِقَ غُلْباً وَفاكِهَةً وَأَبًّا[ عبس 27- 31] پھر ہم ہی نے اس میں اناج اگایا ور انگور اور ترکاری اور زیتون اور کھجوریں اور گھنے گھے باغ ور میوے ور چارہ ۔ - سُّنْبُلَةُ- والسُّنْبُلَةُ جمعها سَنَابِلُ ، وهي ما علی الزّرع، قال : سَبْعَ سَنابِلَ فِي كُلِّ سُنْبُلَةٍ [ البقرة 261] ، وقال : سَبْعَ سُنْبُلاتٍ خُضْرٍ [يوسف 46] ، وأَسْبَلَ الزّرعُ : صار ذا سنبلة، نحو : أحصد وأجنی، والْمُسْبِلُ اسم القدح الخامس - السنبلۃ : بال ۔ اس کی جمع سنابل آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ سَبْعَ سَنابِلَ فِي كُلِّ سُنْبُلَةٍ [ البقرة 261] سات بالیں ہر بال میں ۔ سَبْعَ سُنْبُلاتٍ خُضْرٍ [يوسف 46] سات سبز بالیں ۔ اسبل الزرع کھیتی میں بالیں پڑگئیں ( ماخذہ کے ساتھ متصف ہونا کے معنی پائے جاتے ہیں ) جیسے احصد الزرع واجنی النخل کا محاورہ ہے : ۔ المسبل جوئے کے تیروں میں سے پانچواں تیر ۔- مئة- المِائَة : الثالثةُ من أصول الأَعداد، وذلک أنّ أصول الأعداد أربعةٌ: آحادٌ ، وعَشَرَاتٌ ، ومِئَاتٌ ، وأُلُوفٌ. قال تعالی: فَإِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ مِائَةٌ صابِرَةٌ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ [ الأنفال 66] ، وَإِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ مِائَةٌ يَغْلِبُوا أَلْفاً مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 65] ومائة آخِرُها محذوفٌ ، يقال :- أَمْأَيْتُ الدَّراهِمَ فَأَمَّأَتْ هي، أي : صارتْ ذاتَ مِائَةٍ.- م ی ء ) المائۃ - ( سو ) یہ اصول میں تیسری اکائی کا نام ہے کیونکہ اصول اعداد چار ہیں آحا د عشرت مئات اور الوف ۔۔۔ قرآن پاک میں ہے :۔ فَإِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ مِائَةٌ صابِرَةٌ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ [ الأنفال 66] پس اگر تم میں ایک سو ثابت قدم رہنے والے ہوں گے تو دو سو پر غالب رہیں گے ۔ وَإِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ مِائَةٌ يَغْلِبُوا أَلْفاً مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 65] اور اگر سو ( ایسے ) ہوں گے تو ہزاروں پر غالب رہیں گے ۔ اور مائۃ کا آخر ی حرف یعنی لام کلمہ مخذوف ہے ۔ اما یت الدرھم فا ماتھی یعنی میں نے دراہم کو سو کیا تو وہ سو ہوگئے ۔ - ضعف ( دوگنا)- ضِّعْفُ هو من الألفاظ المتضایفة التي يقتضي وجود أحدهما وجود الآخر، کالنّصف والزّوج، وهو تركّب قدرین متساويين، ويختصّ بالعدد، فإذا قيل : أَضْعَفْتُ الشیءَ ، وضَعَّفْتُهُ ، وضَاعَفْتُهُ : ضممت إليه مثله فصاعدا . قال بعضهم : ضَاعَفْتُ أبلغ من ضَعَّفْتُ ولهذا قرأ أكثرهم : يُضاعَفْ لَهَا الْعَذابُ ضِعْفَيْنِ [ الأحزاب 30] ، وَإِنْ تَكُ حَسَنَةً يُضاعِفْها[ النساء 40] - ( ض ع ف ) الضعف - الضعف ۔ یہ اسمائے متضایقہ سے ہے یعنی وہ الفاظ جو اپنے مفہوم ومعنی کے تحقیق میں ایک دوسرے پر موقوف ہوتے ہیں جیسے نصف وزوج اور ضعف ( دوگنا) کے معنی ہیں ایک چیز کے ساتھ اس کے مثل کامل جانا اور یہ اسم عدد کے ساتھ مخصوص ہے ۔ اور اضعفت الشئی وضعتہ وضاعفتہ کے معنی ہیں کسی چیز کو دو چند کردینا بعض نے کہا ہے کہ ضاعفت ( مفاعلۃ ) میں ضعفت ( تفعیل ) سے زیادہ مبالغہ پایا جاتا ہے آیت کریمہ : ۔ يُضاعَفْ لَهَا الْعَذابُ ضِعْفَيْنِ [ الأحزاب 30] ان کو دگنی سزادی جائے گی ۔ اور آیت : ۔ وَإِنْ تَكُ حَسَنَةً يُضاعِفْها[ النساء 40] اور اگر نیکی ( رکی ) ہوگی تو اس کو دو چند کر دیگا ۔ میں یضاعف ( مفاعلۃ پڑھا ہے اور کہا ہے کہ اس سے نیکیوں کے دس گناہ ہونے کی طرف اشارہ ہے - شاء - والْمَشِيئَةُ عند أكثر المتکلّمين كالإرادة سواء، وعند بعضهم : المشيئة في الأصل : إيجاد الشیء وإصابته، وإن کان قد يستعمل في التّعارف موضع الإرادة، فالمشيئة من اللہ تعالیٰ هي الإيجاد، ومن الناس هي الإصابة، قال : والمشيئة من اللہ تقتضي وجود الشیء، ولذلک قيل : ( ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن) والإرادة منه لا تقتضي وجود المراد لا محالة، ألا تری أنه قال : يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] ، وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر 31] ، ومعلوم أنه قد يحصل العسر والتّظالم فيما بين الناس، قالوا : ومن الفرق بينهما أنّ إرادةالإنسان قد تحصل من غير أن تتقدّمها إرادة الله، فإنّ الإنسان قد يريد أن لا يموت، ويأبى اللہ ذلك، ومشيئته لا تکون إلّا بعد مشيئته لقوله : وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان 30] ، روي أنّه لما نزل قوله : لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير 28] - ( ش ی ء ) الشیئ - المشیئۃ اکثر متکلمین کے نزدیک مشیئت اور ارادہ ایک ہی صفت کے دو نام ہیں لیکن بعض کے نزدیک دونوں میں فرق ہے - ( 1 ) مشیئت کے اصل معنی کسی چیز کی ایجاد یا کسی چیز کو پا لینے کے ہیں ۔ اگرچہ عرف میں مشیئت ارادہ کی جگہ استعمال ہوتا ہے پس اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے معنی اشیاء کو موجود کرنے کے ہیں اور لوگوں کی مشیئت کے معنی کسی چیز کو پالینے کے ہیں پھر اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کو چاہنا چونکہ اس کے وجود کو مقتضی ہوتا ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے ۔ ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن کہ جو اللہ تعالیٰ چاہے وہی ہوتا ہے اور جو نہ چاہے نہیں ہوتا ۔ ہاں اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کا ارادہ کرنا اس کے حتمی وجود کو نہیں چاہتا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا ۔ وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر 31] اور خدا تو بندوں پر ظلم کرنا نہیں چاہتا ۔ کیونکہ یہ واقعہ ہے کہ لوگوں میں عسرۃ اور ظلم پائے جاتے ہیں ۔ - ( 2 ) اور ارادہ میں دوسرا فرق یہ ہے کہ انسان کا ارادہ تو اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے بغیر ہوسکتا ہے مثلا انسان چاہتا ہے کہ اسے موت نہ آئے لیکن اللہ تعالیٰ اس کو مار لیتا ہے ۔ لیکن مشیئت انسانی مشئیت الہیٰ کے بغیروجود ہیں نہیں آسکتی جیسے فرمایا : ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان 30] اور تم کچھ بھی نہیں چاہتے مگر وہی جو خدائے رب العلمین چاہے ایک روایت ہے کہ جب آیت : ۔ لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير 28] یعنی اس کے لئے جو تم میں سے سیدھی چال چلنا چاہے ۔
(٢٦١) اب اس کے بعد اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کو بیان کرتے ہیں کہ ان لوگوں کے مالوں کی مثال جو اپنے اموال کو اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، ایک دانہ کی مثال ہے کہ اس سے سات بالیاں اگتی ہیں اور ہر بالی میں ایک سو دانے ہوتے ہیں۔- اسی طرح اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے اللہ کی راہ میں خرچ کیے ہوئے اموال کو سات سو گنا تک بڑھاتا ہے اور جو اس کا اہل ہو یا جس کا صدقہ قبول کیا جائے اسے اس سے زیادہ ثواب عطا کرتا ہے۔- اور ثواب دینے میں اللہ تعالیٰ بڑی وسعت اور فراخی والے ہیں اور مسلمانوں کے خرچ کرنے اور ان کی نیتوں کو جاننے والے ہیں۔
اب جو دو رکوع آ رہے ہیں ‘ ان کا موضوع انفاق فی سبیل اللہ ہے ‘ اور اس موضوع پر یہ قرآن مجید کا ذروۃ السنام ( ) ہے۔ ان کے مطالعہ سے پہلے یہ بات نوٹ کر لیجیے کہ اللہ تعالیٰ کی رضاجوئی کے لیے اپنا مال خرچ کرنے کے لیے دین میں کئی اصطلاحات ہیں۔ سب سے پہلی اطعام الطّعام (کھانا کھلانا) ہے : (وَیُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسْکِیْنًا وَّیَتِیْمًا وَّاَسِیْرًا ) (الدھر) دوسری اصطلاح ایتائے مال ہے : (وَاٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ ذَوِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنَ ۔۔ الخ) (البقرۃ : ١٧٧) پھر اس سے آگے صدقہ ‘ زکوٰۃ ‘ انفاق اور قرض حسنہ جیسی اصطلاحات آتی ہیں۔ یہ پانچ چھ اصطلاحات ( ) ہیں ‘ لیکن ان کے اندر ایک تقسیم ذہن میں رکھیے۔ اللہ تعالیٰ کی رضاجوئی کے لیے مال خرچ کرنے کی دو بڑی بڑی مدیں ہیں۔ ایک مد ابنائے نوع پر خرچ کرنے کی ہے۔ یعنی قرابت دار ‘ غرباء ‘ یتامیٰ ‘ مساکین محتاج اور بیواؤں پر خرچ کرنا۔ یہ آپ کے معاشرے کے اجزاء ہیں ‘ آپ کے بھائی بند ہیں ‘ آپ کے عزیز و اقرباء ہیں۔ ان کے لیے خرچ کرنا بھی اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے اور اس کا اجر ملے گا۔ یہ بھی گویا آپ نے اللہ تعالیٰ ہی کے لیے خرچ کیا۔ جبکہ دوسری مد ہے عین اللہ کے دین کے لیے خرچ کرنا۔ - قرآن حکیم میں انفاق اور قرض حسنہ کی اصطلاحیں اس دوسری مد کے لیے آتی ہیں اور پہلی مد کے لیے اطعام الطعام ‘ ایتائے مال ‘ صدقہ و خیرات اور زکوٰۃ کی اصطلاحات ہیں۔ چناچہ انفاق مال یا انفاق فی سبیل اللہ سے مراد ہے اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ‘ اللہ کے دین کی دعوت کو عام کرنے اور اللہ کی کتاب کے پیغام کو عام کرنے کے لیے خرچ کرنا۔ اللہ کے دین کی دعوت کو اس طرح ابھارنا کہ باطل کے ساتھ زور آزمائی کرنے والی ایک طاقت پیدا ہوجائے ‘ ایک جماعت وجود میں آئے۔ اس جماعت کے لیے ساز و سامان فراہم کرنا تاکہ غلبۂ دین کے ہر مرحلے کے جو تقاضے اور ضرورتیں ہیں وہ پوری ہو سکیں ‘ اس کام میں جو مال صرف ہوگا وہ ہے انفاق فی سبیل اللہ یا اللہ کے ذمہّ قرض حسنہ۔ تو یہاں اصل میں اس انفاق کی بات ہو رہی ہے۔ عام طور پر فی سبیل اللہ کا مفہوم بہت عام سمجھ لیا جاتا ہے اور پانی کی کوئی سبیل بنا کر اسے بھی فی سبیل اللہ قرار دے دیا جاتا ہے۔ ٹھیک ہے ‘ وہ بھی سبیل تو ہے ‘ نیکی کا وہ بھی راستہ ہے ‘ سبیل اللہ ہے ‘ لیکن انفاق فی سبیل اللہ کا مفہوم بالکل اور ہے۔ فقراء و مساکین اور اہل حاجت کے لیے صدقات و خیرات ہیں۔ زکوٰۃ بھی اصلاً غریبوں کا حق ہے ‘ لیکن اس میں بھی ایک مد فی سبیل اللہ کی رکھی گئی ہے۔ اگر آپ کے عزیز و اقارب اور قرب و جوار میں اہل حاجت ہیں ‘ غرباء ہیں تو صدقہ و زکوٰۃ میں ان کا حق فائق ہے ‘ پہلے ان کو دیجیے۔ اس کے بعد اس میں سے جو بھی ہے وہ دین کے کام کے لیے لگایئے۔ جب دین یتیمی کی حالت کو آگیا ہو تو سب سے بڑایتیم دین ہے۔ اور آج واقعتا دین کی یہی حالت ہے۔ اب ہم ان آیات کا مطالعہ کرتے ہیں : آیت ٢٦١ (مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَہُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ کُلِّ سُنْبُلَۃٍ مِّاءَۃُ حَبَّۃٍ ط) - اس طرح ایک دانے سے سات سو دانے وجود میں آگئے۔ یہ اس اضافے کی مثال ہے جو اللہ کی راہ میں خرچ کیے ہوئے مال کے اجر وثواب میں ہوگا۔ جو کوئی بھی اللہ کے دین کے لیے اپنا مال خرچ کرے گا اللہ تعالیٰ اس کے مال میں اضافہ کرے گا ‘ اس کو جزا دے گا اور اپنے یہاں اس اجر وثواب کو بڑھاتا رہے گا۔- (وَاللّٰہُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآءُ ط) ۔ - یہ سات سو گنا اضافہ تو تمہیں تمثیلاً بتایا ہے ‘ اللہ اس سے بھی زیادہ اضافہ کرے گا جس کے لیے چاہے گا۔ صرف سات سو گنا نہیں ‘ اور بھی جتنا چاہے گا بڑھاتا چلا جائے گا۔- (وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ ) ۔ - اس کے خزانوں میں کوئی کمی نہیں اور اس کا علم ہر شے کو محیط ہے۔
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :298 ”اب پھر سلسلہ کلام اسی مضمون کی طرف عود کرتا ہے ، جو رکوع ۳۲ میں چھیڑا گیا تھا ۔ اس تقریر کی ابتدا میں اہل ایمان کو دعوت دی گئی تھی کہ جس مقصد عظیم پر تم ایمان لائے ہو ، اس کی خاطر جان و مال کی قربانیاں برداشت کرو ۔ مگر کوئی گروہ جب تک کہ اس کا معاشی نقطہ نظر بالکل ہی تبدیل نہ ہو جائے ، اس بات پر آمادہ نہیں کیا جا سکتا کہ وہ اپنی ذاتی یا قومی اغراض سے بالاتر ہو کر محض ایک اعلیٰ درجے کے اخلاقی مقصد کی خاطر اپنا مال بے دریغ صرف کرنے لگے ۔ مادہ پرست لوگ ، جو پیسہ کمانے کے لیے جیتے ہوں اور پیسے پیسے پر جان دیتے ہوں اور جن کی نگاہ ہر وقت نفع و نقصان کی میزان ہی پر جمی رہتی ہو ، کبھی اس قابل نہیں ہو سکتے کہ مقاصد عالیہ کے لیے کچھ کر سکیں ۔ وہ بظاہر اخلاقی مقاصد کے لیے کچھ خرچ کرتے بھی ہیں ، تو پہلے اپنی ذات یا اپنی برادری یا اپنی قوم کے مادی منافع کا حساب لگا لیتے ہیں ۔ اس ذہنیت کے ساتھ اس دین کی راہ پر انسان ایک قدم بھی نہیں چل سکتا جس کا مطالبہ یہ ہے کہ دنیوی فائدے اور نقصان سے بے پروا ہو کر محض اللہ کا کلمہ بلند کرنے کے لیے اپنا وقت ، اپنی قوتیں اور اپنی کمائیاں خرچ کرو ۔ ایسے مسلک کی پیروی کے لیے تو دوسری ہی قسم کے اخلاقیات درکار ہیں ۔ اس کے لیے نظر کی وسعت ، حوصلے کی فراخی ، دل کی کشادگی اور سب سے بڑھ کر خالص خدا طلبی کی ضرورت ہے ، اور اجتماعی زندگی کے نظام میں ایسی تبدیلی کی ضرورت ہے کہ افراد کے اندر مادہ پرستانہ اخلاقیات کے بجائے یہ اخلاقی اوصاف نشونما پائیں ۔ چنانچہ یہاں سے مسلسل تین رکوعوں تک اسی ذہنیت کی تخلیق کے لیے ہدایات دی گئی ہیں ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :299 مال کا خرچ خواہ اپنی ضروریات کی تکمیل میں ہو ، یا اپنے بال بچوں کا پیٹ پالنے میں ، یا اپنے اعزہ و اقربا کی خبر گیری میں ، یا محتاجوں کی اعانت میں ، یا رفاہ عام کے کاموں میں ، یا اشاعت دین اور جہاد کے مقاصد میں ، بہرحال اگر وہ قانون الہٰی کے مطابق ہو اور خالص خدا کی رضا کے لیے ہو تو اس کا شمار اللہ ہی کی راہ میں ہو گا ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :300 یعنی جس قدر خلوص اور جتنے گہرے جذبے کے ساتھ انسان اللہ کی راہ میں مال خرچ کرے گا ، اتنا ہی اللہ کی طرف سے اس کا اجر زیادہ ہوگا ۔ جو خدا ایک دانے میں اتنی برکت دیتا ہے کہ اس سے سات سو دانے اگ سکتے ہیں ، اس کے لیے کچھ مشکل نہیں کہ تمہاری خیرات کو بھی اسی طرح نشونما بخشے اور ایک روپے کے خرچ کو اتنی ترقی دے کہ اس کا اجر سات سو گونہ ہو کر تمہاری طرف پلٹے ۔ اس حقیقت کو بیان کرنے کے بعد اللہ کی دو صفات ارشاد فرمائی گئ ہیں ۔ ایک یہ کہ وہ فراخ دست ہے ، اس کا ہاتھ تنگ نہیں ہے کہ تمہارا عمل فی الواقع جتنی ترقی اور جتنے اجر کا مستحق ہو ، وہ نہ دے سکے ۔ دوسرے یہ کہ وہ علیم ہے ، بے خبر نہیں ہے کہ جو کچھ تم خرچ کرتے ہو اور جس جذبے سے کرتے ہو ، اس سے وہ ناواقف رہ جائے اور تمہارا اجر مارا جائے ۔
178: اللہ کے راستے میں خرچ کرنے سے سات سوگنا ثواب ملتا ہے، اور اﷲ تعالیٰ جس کا ثواب چاہیں اور بڑھا سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ ’’اللہ کے راستے میں خرچ‘‘ کا قرآنِ کریم نے بار بار ذکر کیا ہے، اور اس سے مراد ہر وہ خرچ ہے جو اﷲ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے کیا جائے۔ اس میں زکوٰۃ، صدقات، خیرات سب داخل ہیں۔