Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

سدابہار عمل یہ مثال مومنوں کے صدقات کی دی جن کی نیتیں اللہ کو خوش کرنے کی ہوتی ہیں اور جزائے خیر ملنے کا بھی پورا یقین ہوتا ہے ، جیسے حدیث میں ہے جس شخص نے رمضان کے روزے ایمانداری کے ساتھ ثواب ملنے کے یقین پر رکھے ۔ ۔ ربوہ کہتے ہیں اونچی زمین کو جہاں نہریں چلتی ہیں اس لفظ کو بربوۃ اور بربوۃ بھی پڑھا گیا ہے ۔ وابل کے معنی سخت بارش کے ہیں ، وہ دگنا پھل لاتی ہے یعنی بہ نسبت دوسرے باغوں کی زمین کے ، یہ باغ ایسا ہے اور ایسی جگہ واقع ہے کہ بالفرض بارش نہ بھی ہو تاہم صرف شبنم سے ہی پھلتا پھولتا ہے یہ ناممکن ہے کہ موسم خالی جائے ، اسی طرح ایمانداروں کے اعمال کبھی بھی بے اجر نہیں رہتے ۔ وہ ضرور بدلہ دلواتے ہیں ، ہاں اس جزا میں فرق ہوتا ہے جو ہر ایماندار کے خلوص اور اخلاص اور نیک کام کی اہمیت کے اعتبار سے بڑھتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ پر اپنے بندوں میں سے کسی بندے کا کوئی عمل مخفی اور پوشیدہ نہیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

265۔ 1 یہ ان اہل ایمان کی مثال ہے جو اللہ کی رضا کے لئے خرچ کرتے ہیں ان کا خرچ کیا ہوا مال اس باغ کی مانند ہے جو پر فضا اور بلند چوٹی پر ہو کہ اگر زوردار بارش ہو تو اپنا پھل دوگنا دے ورنہ ہلکی سی پھوار اور شبنم بھی اسکو کافی ہوجاتی ہے اس طرح ان کے نفقات بھی چاہے کم ہو یا زیادہ عند اللہ کئی کئی گنا اجر وثواب کے باعث ہونگے۔ جَنْۃُ اس زمین کو کہتے ہیں جس میں اتنی کثرت سے درخت ہوں جو زمین کو ڈھانک لیں یا وہ باغ جس کے چاروں طرف باڑ ہو اور باڑ کی وجہ سے باغ نظروں سے پوشیدہ ہو۔ یہ جن سے ماخوذ ہے جن اس مخلوق کا نام ہے جو نظر نہیں آتی پیٹ کے بچے کو جنین کہا جاتا ہے کہ وہ بھی نظر نہیں آتا دیوانگی کو جنون سے تعبیر کرتے ہیں کہ اس میں بھی عقل پر پردہ پڑجاتا ہے اور جنت کو اس لئے جنت کہتے ہیں کہ وہ نظروں سے مستور ہے۔ رَبْوَۃَ اونچی زمین کو کہتے ہیں۔ وَابِلُ تیز بارش۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣٨١] ربوۃ ربو سے مشتق ہے جس کا معنی بڑھنا اور پھلنا پھولنا ہے اور ربوۃ سے مراد ایسی زمین ہے جس کی سطح عام زمین سے قدرے بلند ہو اور قدرے نرم ہو۔ ایسی زمین عموماً سرسبز اور شاداب ہوتی ہے۔ پنجابی زبان میں اسے میرا زمین کہتے ہیں اور وابل یا زور دار بارش سے مراد انتہائی خلوص نیت سے اللہ کی رضا کے لیے اور اپنے دل کی پوری پوری خوشی سے مال خرچ کرنا ہے اور پھوار سے مراد ایسی خیرات ہے جس میں یہ دونوں باتیں موجود تو ہوں، مگر اتنے اعلیٰ درجہ کی نہ ہوں۔ دونوں صورتوں میں اجر وثواب تو ضرور ملے گا۔ مگر پہلی صورت میں جو اجر وثواب ملے گا وہ پچھلی صورت سے بہرحال کئی گنا زیادہ ہوگا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

ابْتِغَاۗءَ مَرْضَات اللّٰهِ : یہ ریا کاروں کے مقابلے میں مخلص مومنوں کی مثال ہے، یعنی جو لوگ محض اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لیے خرچ کرتے ہیں اور دل کے اس اطمینان کے ساتھ خرچ کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انھیں اس کا وافر اجر عطا فرمائے گا اور ان کا عمل ضائع نہیں ہوگا۔ دل کو ثابت رکھتے ہوئے خرچ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ نہ انھیں خرچ کرتے ہوئے کوئی تردد یا پریشانی ہوتی ہے نہ بعد میں کوئی پشیمانی۔ ان کے خرچ کرنے کی مثال اس باغ کی سی ہے جو کسی پر فضا اور بلند مقام پر ہو، اگر اس پر زور کی بارش ہو تو دوسرے باغوں سے دگنا پھل دے اور اگر زور کی بارش نہ بھی ہو تو ہلکی بارش ہی کافی رہے۔ یہی حالت مومن کے عمل کی ہے، وہ کسی صورت میں ضائع نہیں ہوگا، بلکہ اللہ تعالیٰ اسے قبول فرمائے گا اور ہر ایک کو اس کے عمل کے مطابق جزا دے گا۔ (ابن کثیر) شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” زور کے مینہ سے مراد زیادہ مال خرچ کرنا ہے اور ” طَلٌّ“ (کچھ شبنم) سے مراد تھوڑا مال۔ (” طَلٌّ“ پر تنوین تقلیل کی وجہ سے کچھ شبنم ترجمہ کیا ہے) سو اگر نیت درست ہے تو زیادہ خرچ کرنا زیادہ ثواب کا باعث ہے اور تھوڑا بھی کام آتا ہے، جیسے خالص زمین پر باغ ہے، جتنا مینہ برسے گا اس کا فائدہ ہے، بلکہ اوس بھی کافی ہے اور نیت درست نہیں تو جس قدر زیادہ خرچ کرے ضائع ہے، کیونکہ زیادہ مال دینے میں دکھاوا بھی زیادہ ہے، جیسے پتھر پر دانہ کہ جتنا زور کا مینہ برسے زیادہ نقصان پہنچائے کہ مٹی دھوئی جائے۔ “ (موضح)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

پانچویں آیت میں صدقہ مقبولہ اور انفاق مقبول کی ایک مثال بیان فرمائی ہے کہ جو لوگ اپنے مال خالص اللہ تعالیٰ کی رضاجوئی کی نیت سے خرچ کرتے ہیں کہ اپنے نفسوں میں پختگی پیدا کریں ان کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی باغ ہو کسی ٹیلے پر اور اس پر زور کی بارش پڑی ہو پھر وہ اپنا پھل لایا ہو دو چند اور اگر ایسے زور کی بارش بھی نہ پڑے تو ہلکی پھوار بھی اس کے لئے کافی ہے، اور اللہ تعالیٰ تمہارے کاموں کو خوب دیکھتے جانتے ہیں۔- اس میں اخلاص نیت اور رعایت شرائط مذکورہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کی بڑی فضیلت اس مثال سے واضح کردی گئی کہ نیک نیتی اور اخلاص کے ساتھ تھوڑا بھی خرچ کیا جائے تو وہ کافی اور موجب ثمرات آخرت ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَمَثَلُ الَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمُ ابْتِغَاۗءَ مَرْضَاتِ اللہِ وَتَثْبِيْتًا مِّنْ اَنْفُسِہِمْ كَمَثَلِ جَنَّۃٍؚبِرَبْوَۃٍ اَصَابَہَا وَابِلٌ فَاٰتَتْ اُكُلَہَا ضِعْفَيْنِ۝ ٠ ۚ فَاِنْ لَّمْ يُصِبْہَا وَابِلٌ فَطَلٌّ۝ ٠ ۭ وَاللہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ۝ ٢٦٥- وأمّا الابتغاء - فقد خصّ بالاجتهاد في الطلب، فمتی کان الطلب لشیء محمود فالابتغاء فيه محمود نحو : ابْتِغاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ [ الإسراء 28] ، وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل 20] - ( ب غ ی ) البغی - الا بتغاء - یہ خاص کر کوشش کے ساتھ کسی چیز کو طلب کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ اگر اچھی چیز کی طلب ہو تو یہ کوشش بھی محمود ہوگی ( ورنہ مذموم ) چناچہ فرمایا : ۔ ابْتِغَاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ ( سورة الإسراء 28) اپنے پروردگار کی رحمت ( یعنی فراخ دستی ) کے انتظار میں ۔ وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل 20] بلکہ اپنے خدا وندی اعلیٰ کی رضامندی حاصل کرنے کے لئے دیتا ہے ۔- رضي - يقال : رَضِيَ يَرْضَى رِضًا، فهو مَرْضِيٌّ ومَرْضُوٌّ. ورِضَا العبد عن اللہ : أن لا يكره ما يجري به قضاؤه، ورِضَا اللہ عن العبد هو أن يراه مؤتمرا لأمره، ومنتهيا عن نهيه، قال اللہ تعالی:- رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ [ المائدة 119] ، وقال تعالی: لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 18] ، وقال تعالی: وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ دِيناً [ المائدة 3] ، وقال تعالی: أَرَضِيتُمْ بِالْحَياةِ الدُّنْيا مِنَ الْآخِرَةِ [ التوبة 38] ، وقال تعالی: يُرْضُونَكُمْ بِأَفْواهِهِمْ وَتَأْبى قُلُوبُهُمْ- [ التوبة 8] ، وقال عزّ وجلّ : وَلا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِما آتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَ [ الأحزاب 51] ، والرِّضْوَانُ :- الرّضا الکثير، ولمّا کان أعظم الرِّضَا رضا اللہ تعالیٰ خصّ لفظ الرّضوان في القرآن بما کان من اللہ تعالی: قال عزّ وجلّ : وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها ما كَتَبْناها عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغاءَ رِضْوانِ اللَّهِ- [ الحدید 27] ، وقال تعالی: يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْواناً [ الفتح 29] ، وقال : يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوانٍ [ التوبة 21] ، وقوله تعالی: إِذا تَراضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ- [ البقرة 232] ، أي : أظهر كلّ واحد منهم الرّضا بصاحبه ورَضِيَهُ.- ( ر ض و ) رضی - ( س ) رضا فھو مرضی و مرضو ۔ راضی ہونا ۔ واضح رہے کہ بندے کا اللہ تعالیٰ سے راضی ہونا یہ ہے کہ جو کچھ قضائے الہیٰ سے اس پر وارد ہو وہ اسے خوشی سے بر داشت کرے اور اللہ تعالیٰ کے بندے پر راضی ہونے کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اسے اپنے اوامر کا بجا لانے والا اور منہیات سے رکنے والا پائے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ [ المائدة 119] اللہ تعالیٰ ان سے خوش اور وہ اللہ تعالیٰ سے خوش ۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 18] تو اللہ تعالیٰ ضرور ان مسلمانوں سے خوش ہوتا ہے وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ دِيناً [ المائدة 3] اور ہم نے تمہارے لئے دین اسلام کو پسند فرمایا : ۔ أَرَضِيتُمْ بِالْحَياةِ الدُّنْيا مِنَ الْآخِرَةِ [ التوبة 38] کیا آخرت کے بدلے دنیا کی زندگی پر قناعت کر بیٹھے ہو ۔ يُرْضُونَكُمْ بِأَفْواهِهِمْ وَتَأْبى قُلُوبُهُمْ [ التوبة 8] اپنی زبانی باتوں سے تو تم کو رضا مند کردیتے ہیں اور ان کے دل ہیں کہ ان باتوں سے انکار کرتے ہیں ۔ وَلا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِما آتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَ [ الأحزاب 51] اور آزردہ خاطر نہ ہوں گی اور جو کچھ ( بھی ) تم ان کو دوگے وہ ( لے کر سب ) راضی ہوجائیں گی ۔ الرضوان رضائے کثیر یعنی نہایت خوشنودی کو کہتے ہیں ۔ چونکہ سب سے بڑی رضا اللہ تعالیٰ کی رضا مندی ہے اس لئے قرآن پاک میں خاص کر رضا الہی ٰ کے لئے رضوان کا لفظ استعما ل ہوا ہے ۔ جیسا کہ فرمایا : ۔ وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها ما كَتَبْناها عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغاءَ رِضْوانِ اللَّهِ [ الحدید 27] اور ( لذت ) دنیا کا چھوڑ بیٹھنا جس کو انہوں نے از خود ایجاد کیا تھا ہم نے وہ طریق ان پر فرض نہیں کیا تھا مگر ( ہاں ) انہوں نے اس کو خدا ( ہی ) کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے ایجاد کیا تھا ۔ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْواناً [ الفتح 29] اور خدا کے فضل اور خوشنودی کی طلب گاری میں لگے رہتے ہیں ۔ يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوانٍ [ التوبة 21] ان کا پروردگار ان کو اپنی مہربانی اور رضامندی کی خوشخبری دیتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔۔ : إِذا تَراضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ [ البقرة 232] ، جب جائز طور پر آپس میں وہ راضی ہوجائیں ۔ میں تراضوا باب تفاعل سے ہے جس کے معنی باہم اظہار رضامندی کے ہیں ،- ثبت - الثَّبَات ضدّ الزوال، يقال : ثَبَتَ يَثْبُتُ ثَبَاتاً ، قال اللہ تعالی: يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا [ الأنفال 45]- ( ث ب ت ) الثبات - یہ زوال کی ضد ہے اور ثبت ( ن ) ثباتا کے معنی ایک حالت پر جمے رہنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا [ الأنفال 45] مومنو جب ( کفار کی ) کسی جماعت سے تمہارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو ۔- جَنَّةُ :- كلّ بستان ذي شجر يستر بأشجاره الأرض، قال عزّ وجل : لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ 15]- الجنۃ - ہر وہ باغ جس کی زمین درختوں کیوجہ سے نظر نہ آئے جنت کہلاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ 15]( اہل ) سبا کے لئے ان کے مقام بود باش میں ایک نشانی تھی ( یعنی دو باغ ایک دائیں طرف اور ایک ) بائیں طرف ۔ - رَبَا :- إذا زاد وعلا، قال تعالی: فَإِذا أَنْزَلْنا عَلَيْهَا الْماءَ اهْتَزَّتْ وَرَبَتْ [ الحج 5] ، أي : زادت زيادة المتربّي، فَاحْتَمَلَ السَّيْلُ زَبَداً رابِياً [ الرعد 17] ، فَأَخَذَهُمْ أَخْذَةً رابِيَةً [ الحاقة 10] ، وأربی عليه : أشرف عليه، ورَبَيْتُ الولد فَرَبَا من هذا، وقیل : أصله من المضاعف فقلب تخفیفا، نحو : تظنّيت في تظنّنت .- اور اسی سے ربا ہے جس کے معنی بڑھنے اور بلند ہونے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَإِذا أَنْزَلْنا عَلَيْهَا الْماءَ اهْتَزَّتْ وَرَبَتْ [ الحج 5] پھر جب ہم اس پر پانی بر سادیتے ہیں تو وہ لہلانے اور ابھرنے لگتی ہے ۔ فَاحْتَمَلَ السَّيْلُ زَبَداً رابِياً [ الرعد 17] پھر نالے پر پھولا ہوا اجھاگ آگیا ۔ فَأَخَذَهُمْ أَخْذَةً رابِيَةً [ الحاقة 10] تو خدا نے بھی انہیں بڑا سخت پکڑا ۔ اربی علیہ کسی پر بلند ہونا یا کسی کی نگرانی کرنا ۔ ربیت الوالد فربا میں نے بچے کی تربیت کی چناچہ وہ بڑھ گیا ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں ربیت ہے تخفیف کے لئے ایک باء حذف کردی گئی ہے ۔ جیسا کہ تظنیت کہ اصل میں تظننت ہے تحقیقا ایک نون کو یاء سے تبدیل کردیا ہے ۔- أتى- الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام 40]- ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی " آنا " ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو۔- أكل - الأَكْل : تناول المطعم، وعلی طریق التشبيه قيل : أكلت النار الحطب، والأُكْل لما يؤكل، بضم الکاف وسکونه، قال تعالی: أُكُلُها دائِمٌ [ الرعد 35] - ( ا ک ل ) الاکل - کے معنی کھانا تناول کرنے کے ہیں اور مجازا اکلت النار الحطب کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے یعنی آگ نے ایندھن کو جلا ڈالا۔ اور جو چیز بھی کھائی جائے اسے اکل بضم کاف و سکونا ) کہا جاتا ہے ارشاد ہے أُكُلُهَا دَائِمٌ ( سورة الرعد 35) اسکے پھل ہمیشہ قائم رہنے والے ہیں ۔- ضعف ( دوگنا)- ضِّعْفُ هو من الألفاظ المتضایفة التي يقتضي وجود أحدهما وجود الآخر، کالنّصف والزّوج، وهو تركّب قدرین متساويين، ويختصّ بالعدد، فإذا قيل : أَضْعَفْتُ الشیءَ ، وضَعَّفْتُهُ ، وضَاعَفْتُهُ : ضممت إليه مثله فصاعدا . قال بعضهم : ضَاعَفْتُ أبلغ من ضَعَّفْتُ ولهذا قرأ أكثرهم : يُضاعَفْ لَهَا الْعَذابُ ضِعْفَيْنِ [ الأحزاب 30] ، وَإِنْ تَكُ حَسَنَةً يُضاعِفْها[ النساء 40] - ( ض ع ف ) الضعف - الضعف ۔ یہ اسمائے متضایقہ سے ہے یعنی وہ الفاظ جو اپنے مفہوم ومعنی کے تحقیق میں ایک دوسرے پر موقوف ہوتے ہیں جیسے نصف وزوج اور ضعف ( دوگنا) کے معنی ہیں ایک چیز کے ساتھ اس کے مثل کامل جانا اور یہ اسم عدد کے ساتھ مخصوص ہے ۔ اور اضعفت الشئی وضعتہ وضاعفتہ کے معنی ہیں کسی چیز کو دو چند کردینا بعض نے کہا ہے کہ ضاعفت ( مفاعلۃ ) میں ضعفت ( تفعیل ) سے زیادہ مبالغہ پایا جاتا ہے آیت کریمہ : ۔ يُضاعَفْ لَهَا الْعَذابُ ضِعْفَيْنِ [ الأحزاب 30] ان کو دگنی سزادی جائے گی ۔ اور آیت : ۔ وَإِنْ تَكُ حَسَنَةً يُضاعِفْها[ النساء 40] اور اگر نیکی ( رکی ) ہوگی تو اس کو دو چند کر دیگا ۔ میں یضاعف ( مفاعلۃ پڑھا ہے اور کہا ہے کہ اس سے نیکیوں کے دس گناہ ہونے کی طرف اشارہ ہے - طلل - الطَّلُّ : أضعف المطر، وهو ماله أثر قلیل . قال تعالی: فَإِنْ لَمْ يُصِبْها وابِلٌ فَطَلٌ- [ البقرة 265] ، وطَلَّ الأرضَ ، فهي مَطْلُولَةٌ ، ومنه : طُلَّ دمُ فلانٍ : إذا قلّ الاعتداد به، ويصير أثره كأنّه طَلٌّ ، ولما بينهما من المناسبة قيل لأثر الدّار : طَلَلٌ ، ولشخص الرّجل المترائي : طَلَلٌ ، وأَطَلَّ فلانٌ: أشرف طَلَلُهُ- ( ط ل ل ) الطل کے معنی بہت ہلکی سی بارش کے ہیں جس کا معمولی سا اثر ہو قرآن میں ہے : ۔ فَإِنْ لَمْ يُصِبْها وابِلٌ فَطَلٌ [ البقرة 265] اگر مینہ نہ بھی پڑے تو خیر پھوہار ہی سہی ۔ اور طل الارض فھی مطلوبۃ کے معنی زمین پر اوس پڑنے کے ہیں اسی سے جس خون کی پر واہ نہ کی جائے اور اسے اوس کی طرح معمولی سمجھا جائے اس کے متعلق کہا جاتا ہے ۔ طل دم فلان یعنی فلاں کا خون باطل کردیا گیا اور شبنم کا چونکہ ہلکا سا اثر ہوتا ہے اس مناسبت سے گھروں کے باقی ماندہ نشانات کو طلل کہدیتے ہیں اطل فلانا جھانکنا دور سے نظر آتا ۔- عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢٦٥) اور ان لوگوں کے اموال کی مثال جو خالص اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور اپنے نفوس کو سچائی کے لیے ثواب ملنے کا یقین کامل رکھتے ہوئے خرچ کرتے ہیں، ایک باغ کی طرح ہے جو کسی صاف بلند مقام پر ہو اور اس پر خوب زور کی بارش ہو، جس کی وجہ سے باغوں میں دو چند وہ پھل لایا اور اگر ایسی زور کی بارش نہ ہو تو ہلکی سی پھوار کی طرح بارش بھی اس کے لیے کافی ہے۔- یعنی مومن کی اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی مثال ہے، خواہ وہ کم خرچ کرے یا زیادہ، جب کہ اخلاص اور خشیت خداوندی کے ساتھ ہو اللہ تعالیٰ اس ثواب کو دوگنا فرماتا ہے، جیسا کہ ایسے باغ کے پھلوں کو زیادہ کرتا ہے اور جو تم خرچ کرتے ہو اللہ تعالیٰ اسے اچھی طرح دیکھتے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٦٥ (وَمَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَہُمُ ابْتِغَآءَ مَرْضَات اللّٰہِ ) (وَتَثْبِیْتًا مِّنْ اَنْفُسِہِمْ ) (کَمَثَلِ جَنَّۃٍم بِرَبْوَۃٍ ) - جیسا کہ میں عرض کرچکا ہوں کہ قدرتی باغ کا یہی تصور ہوتا تھا کہ ذرا اونچائی پر واقع ہے ‘ اس کے دامن میں کوئی ندی بہہ رہی ہے جس سے خود بخود آب پاشی ہو رہی ہے اور وہ سیراب ہو رہا ہے۔- [ قادیانیوں نے اسی لفظ ربوہ کے نام پر پاکستان میں اپنا شہر بنایا۔ ]- (اَصَابَہَا وَابِلٌ) (فَاٰتَتْ اُکُلَہَا ضِعْفَیْنِ ج ) (فَاِنْ لَّمْ یُصِبْہَا وَابِلٌ فَطَلٌّ ط) (وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ )- لہٰذا تم دروں بینی ( ) کرتے رہا کرو کہ تم جو یہ مال خرچ کر رہے ہو واقعتا خلوص دل اور اخلاص نیت کے ساتھ اللہ ہی کے لیے کر رہے ہو۔ کہیں غیر شعوری طور پر تمہارا کوئی اور جذبہ اس میں شامل نہ ہوجائے۔ چناچہ اپنے گریبانوں میں جھانکتے رہو۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :306 ”زور کی بارش“ سے مراد وہ خیرات ہے ، جو انتہائی جذبہ خیر اور کمال درجے کی نیک نیتی کے ساتھ کی جائے ۔ اور ایک ہلکی پھوار سے مراد ایسی خیرات ہے ، جس کے اندر جذبہ خیر کی شدت نہ ہو ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani