کفر اور بڑھاپا صحیح بخاری شریف میں ہے کہ امیرالمومنین حضرت عمر بن خطاب نے ایک دن صحابہ سے پوچھا جانتے ہو کہ یہ آیت کس کے بارے میں نازل ہوئی؟ انہوں نے کہا اللہ زیادہ جاننے والا ، آپ نے ناراض ہو کر فرمایا تم جانتے ہو یا نہیں؟ اس کا صاف جواب دو ، حضرت ابن عباس نے فرمایا امیرالمومنین میرے دِل میں ایک بات ہے آپ نے فرمایا بھتیجے کہو اور اپنے نفس کو اتنا حقیر نہ کرو ، فرمایا ایک عمل کی مثال دی گئی ہے ، پوچھا کون سا عمل؟ کہا ایک مالدار شخص جو اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کے کام کرتا ہے پھر شیطان اسے بہکاتا ہے اور وہ گناہوں میں مشغول ہو جاتا ہے اور اپنے نیک اعمال کو کھو دیتا ہے ، پس یہ روایت اس آیت کی پوری تفسیر ہے اس میں بیان ہو رہا ہے کہ ایک شخص نے ابتداء اچھے عمل کئے پھر اس کے بعد اس کی حالت بدل گئی اور برائیوں میں پھنس گیا اور پہلے کی نیکیوں کا ذخیرہ برباد کردیا ، اور آخری وقت جبکہ نیکیوں کی بہت زیادہ ضرورت تھی یہ خیال ہاتھ رہ گیا ، جس طرح ایک شخص ہے جس نے باغ لگایا پھل اتارتا ہو ، لیکن جب بڑھاپے کے زمانہ کو پہنچا چھوٹے بچے بھی ہیں آپ کسی کام کاج کے قابل بھی نہیں رہا ، اب مدارِ زندگی صرف وہ ایک باغ ہے اتفاقاً آندھی چلی پھر برائیوں پر اتر آیا اور خاتمہ اچھا نہ ہوا تو جب ان نیکیوں کے بدلے کا وقت آیا تو خالی ہاتھ رہ گیا ، کافر شخص بھی جب اللہ کے ہاں جاتا ہے تو وہاں تو کچھ کرنے کی طاقت نہیں جس طرح اس بڈھے کو ، اور جو کیا ہے وہ کفر کی آگ والی آندھی نے برباد کردیا ، اب پیچھے سے بھی کوئی اسے فائدہ نہیں پہنچا سکتا جس طرح اس بڈھے کی کم سن اولاد اسے کوئی کام نہیں دے سکتی ، مستدرک حاکم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک دعا یہ بھی تھی ( اللھم اجعل اوسع رزقک علی عند کبر سنی و انقضاء عمری ) اے اللہ اپنی روزی کو سب سے زیادہ مجھے اس وقت عنایت فرما جب میری عمر بڑی ہو جائے اور ختم ہونے کو آئے ۔ اللہ تعالیٰ نے تمہارے سامنے یہ مثالیں بیان فرما دیں ، تم بھی غور و فکر تدبر و تفکر کرو ، سوچو سمجھو اور عبرت و نصیحت حاصل کرو جیسے فرمایا ( آیت وتلک الامثال نضربھا للناس وما یعقلھا الا العالمون ) ان مثالوں کو ہم نے لوگوں کیلئے بیان فرما دیا ۔ انہیں علماء ہی خوب سمجھ سکتے ہیں ۔
266۔ 1 اسی ریاکاری کے نقصانات کو واضح کرنے اور اس سے بچنے کے لیے مزید مثال دی جا رہی ہے جس طرح ایک شخص کا باغ ہو جس میں ہر طرح کے پھل ہوں (یعنی بھرپور آمدنی کی امید ہو) وہ شخص بوڑھا ہوجائے اور اس کے چھوٹے چھوٹے بچے ہوں ضعیفی کی وجہ سے محنت اور مشقت سے عاجز ہوچکا ہو اور اولاد بھی اسکے بڑھاپے کا بوجھ اٹھانے کی بجائے خود اپنا بوجھ اٹھانے کے قابل بھی نہ ہو اس حالت میں تیز اور تند ہوائیں چلیں اور سارا باغ جل جائے اب نہ وہ خود دوبارہ اس باغ کو آباد کرنے کے قابل رہا اور نہ اس کی اولاد یہی حال ان ریاکار خرچ کرنے والوں کا قیامت کے دن ہوگا کہ نفاق و ریاکاری کی وجہ سے ان کے سارے اعمال اکارت چلے جائیں گے۔ جب کہ وہاں نیکیوں کی شدید ضرورت ہوگی اور دوبارہ اعمال خیر کرنے کی مہلت و فرصت نہیں ہوگی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کیا تم چاہتے ہو کہ تمہارا یہی حال ہو ؟ حضرت ابن عباس (رض) اور حضرت عمر (رض) نے اس مثال کا مصداق ان لوگوں کو بھی قرار دیا ہے جو ساری عمر نیکیاں کرتے ہیں اور آخر عمر میں شیطان کے جال میں پھنس کر اللہ کے نافرمان ہوجاتے ہیں جس سے عمر بھر کی نیکیاں برباد ہوجاتی ہیں (صحیح بخاری، کتاب التفسیر، فتح القدیر للشوکانی تفسیر ابن جریر طبری) ۔
[٣٨٢] ایک دفعہ حضرت عمر (رض) نے صحابہ (رض) سے اس آیت کا مطلب پوچھا : صحابہ (رض) نے کہا واللہ اعلم حضرت عمر (رض) نے غصہ سے کہا (یہ کیا بات ہوئی) صاف کہو کہ ہمیں معلوم ہے یا نہیں معلوم۔ اس وقت ابن عباس (رض) کہنے لگے : امیر المومنین میرے دل میں ایک بات آئی ہے آپ نے کہا : بھتیجے بیان کرو اور اپنے آپ کو چھوٹا نہ سمجھو۔ ابن عباس (رض) کہنے لگے : اللہ نے یہ عمل کی مثال بیان کی ہے۔ حضرت عمر (رض) نے پوچھا : کون سے عمل کی ؟ ابن عباس (رض) اس کا کچھ جواب نہ دے سکے تو حضرت عمر (رض) نے کہا : یہ ایک مال دار شخص کی مثال ہے جو اللہ کی اطاعت میں عمل کرتا رہتا ہے۔ پھر اللہ شیطان کو اس پر غالب کردیتا ہے وہ گناہوں میں مصروف ہوجاتا ہے اور اس کے نیک اعمال سب کے سب فنا ہوجاتے ہیں۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) - یعنی ایسے شخص کی حالت یہ ہوتی ہے کہ اسے بڑھاپے میں باغ کی پیداوار کی انتہائی ضرورت ہوتی ہے اور از سر نو باغ لگانے کا موقع بھی نہیں ہوتا اور اس کے بچے اس کی مدد بھی نہیں کرسکتے وہ تو خود اس سے بھی زیادہ محتاج ہوتے ہیں۔ لہذا کوئی نیک عمل مثلاً خیرات کرنے کے بعد اس کی پوری پوری محافظت کرنا بھی ضروری ہے۔ یعنی احسان جتانے، بیگار لینے یا شرک کر بیٹھنے سے اپنے باغ کو جلا نہ ڈالے کہ آخرت میں اسے اپنے اعمال میں سے کوئی چیز بھی ہاتھ نہ آئے جبکہ اس کو اعمال کی شدید ضرورت ہوگی اور اس حدیث میں شیطان کے غالب کرنے سے مراد یہ ہے کہ انسان حصول مال میں اس قدر مگن ہوجاتا ہے کہ اللہ کی اطاعت سے لاپروا ہوجاتا ہے۔ یا ایسی نافرمانیاں اور کفر و شرک کے کام کرتا ہے جس سے اس کے اعمال ضائع ہوجاتے ہیں۔
اَيَوَدُّ اَحَدُكُمْ اَنْ تَكُوْنَ لَهٗ جَنَّةٌ۔۔ : یعنی بڑھاپے میں باغ جلنے پر نہ خود اس میں اتنی طاقت ہے کہ باغ دوبارہ لگا سکے اور نہ اس کی اولاد اس قابل ہے کہ اس کی مدد کرسکے، اسی طرح منافق صدقہ و خیرات کرتا ہے مگر ریا کاری سے کام لیتا ہے تو قیامت کے دن، جو نہایت احتیاج کا وقت ہوگا، اس کا ثواب ضائع ہوجائے گا اور اس وقت ثواب حاصل کرنے کے لیے دوبارہ نیکی کا وقت بھی نہیں ہوگا۔ صحیح بخاری میں ابن عباس (رض) سے اس کی ایک دوسری تفسیر آئی ہے، جس کی تائید عمر (رض) نے کی ہے۔ اس کا حاصل یہ ہے کہ یہ مثال اس شخص کی ہے جو عمر بھر نیک عمل کرتا رہتا ہے، لیکن آخر عمر میں اس کی سیرت بدل جاتی ہے اور نیک عمل کے بجائے برے عمل کرنے لگتا ہے۔ اس طرح وہ اپنی پہلی نیکیاں بھی برباد کرلیتا ہے اور قیامت کے دن، جو بہت تنگی کا وقت ہوگا، وہ نیکی اس کے کچھ کام نہ آئے گی اور اس نازک وقت میں اس کا عمل اس سے خیانت کرے گا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” بندہ لوگوں کی نگاہ میں جنتیوں کے سے عمل کرتا ہے، حالانکہ وہ دوزخی ہوتا ہے اور بعض دفعہ بندہ لوگوں کی نگاہ میں دوزخیوں کے سے عمل کرتا ہے حالانکہ وہ جنتی ہوتا ہے اور اعمال کا دارومدار تو آخری وقت کے اعمال پر ہے۔ “ [ بخاری، الرقاق، باب الأعمال بالخواتیم ۔۔ : ٦٤٩٣، عن سہل بن سعد (رض) ]- مِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ ۙ : میں ” مِنْ “ تبعیضیہ اور ” كُلِّ الثَّمَرٰتِ ۙ“ کی وجہ سے ” ہر قسم کے کچھ نہ کچھ پھل “ ترجمہ کیا گیا ہے۔
چھٹی آیت میں صدقہ و خیرات میں شرائط مذکورہ کی خلاف ورزی کرنے پر صدقہ کے باطل و مردود ہونے کا بیان بھی ایک مثال میں اس طرح واضح فرمایا کہ کیا تم میں سے کسی کو یہ بات پسند ہے کہ اس کا ایک باغ ہو کھجور اور انگوروں کا اس کے نیچے نہریں بہتی ہوں اور اس شخص کے باغ میں ہر قسم کے میوے ہوں اور اس شخص کا بڑھاپا آگیا ہو اور اس کے اہل و عیال بھی ہوں جن میں قوت نہیں ان حالات میں اس باغ پر ایک بگولہ آوے میں جس میں آگ ہو پھر وہ باغ جل جاوے اللہ تعالیٰ اسی طرح نظائر بیان فرماتے ہیں تمہارے لئے تاکہ تم سوچا کرو۔ - مطلب یہ ہے کہ خلاف شرائط صدقہ کرنے کی مثال ایسی ہی ہے کہ بظاہر وہ صدقہ کرکے آخرت کے لئے بہت سا ذخیرہ جمع کر رہا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ ذخیرہ کچھ بھی کام نہیں آتا۔- اور اس کی مثال میں جو چند قیدیں بڑھائی گئیں کہ اس کا بڑھاپا آگیا اس کے اولاد بھی ہے اور اولاد بھی چھوٹے بچے جو ضعیف کمزور ہیں ان قیدوں کا مقصد یہ ہے کہ جوانی کی حالت میں کسی کا باغ یا کھیتی جل جائے تو اسے یہ امید ہوسکتی ہے کہ پھر باغ لگالوں گا، اور جس شخص کے اولاد نہ ہو اور اس کو دوبارہ باغ لگانے کی امید بھی نہ ہو تو باغ جل جانے کے بعد بھی اس کو کوئی خاص فکر معاش کی نہیں ہوتی، اکیلا آدمی جس طرح چاہے تنگی ترشی سے گذارا کرسکتا ہے اور اگر اولاد بھی ہو مگر جوان صالح ہوں جن سے یہ توقع کی جائے کہ وہ باپ کا ہاتھ بٹائیں گے اور مدد کریں گے ایسی صورت میں بھی انسان کو باغ کے جل جانے یا لٹ جانے پر بھی کچھ زیادہ صدمہ نہیں ہوتا کیونکہ اولاد کی فکر سے فارغ ہے بلکہ اولاد اس کا بھی بوجھ اٹھا سکتی ہے، غرض یہ تینوں قیدیں شدت احتیاج کو بیان کرنے کے لئے لائی گئیں، کی ایسا شخص جس نے اپنا مال اور محنت خرچ کرکے ایک باغ لگایا اور وہ باغ تیار ہو کر پھل بھی دینے لگا اور اسی حالت میں اس کا بڑھاپا اور کمزوری کا زمانہ بھی آگیا اور یہ شخص صاحب عیال بھی ہے اور عیال بھی چھوٹے اور کمزور بچے ہیں تو ان حالات میں اگر لگایا ہوا باغ جل جائے تو صدمہ شدید ہوگا اور تکلیف بےحد ہوگی۔- اسی طرح جس شخص نے ریاء کاری سے صدقہ و خیرات کیا یہ گویا اس نے باغ لگایا پھر موت کے بعد اس کی حالت اس بوڑھے جیسی ہوگئی جو کمانے اور دوبارہ باغ لگانے کی قدرت نہیں رکھتا، کیونکہ موت کے بعد انسان کا کوئی عمل ہی نہیں رہا اور جس طرح عیال دار بوڑھا اس کا بہت محتاج ہوتا ہے کہ پچھلی کمائی محفوظ ہو تاکہ ضعیفی میں کام آئے اور اگر اس اس حالت میں اس کا باغ اور مال و متاع جل جائے تو اس کے دکھ اور درد کی انتہا نہ رہے گی اسی طرح یہ صدقہ و خیرات جو ریاء ونمود کے لئے کیا گیا تھا عین ایسے وقت ہاتھ سے جاتا رہے گا جب کہ وہ اس کا بہت حاجتمند ہوگا۔- اس پوری آیت کا خلاصہ یہ ہوا کہ صدقہ و خیرات کے اللہ کے نزدیک مقبول ہونے کی ایک بڑی شرط اخلاص ہے کہ خالص اللہ تعالیٰ کی رضاجوئی کے لئے خرچ کیا جائے کسی نام ونمود کا اس میں دخل نہ ہو۔ - اب اس پورے رکوع کی تمام آیات پر مکرر نظر ڈالئے تو ان سے انفاق فی سبیل اللہ اور صدقہ و خیرات کے اللہ کے نزدیک مقبول ہونے کی چھ شرائط معلوم ہوں گی۔- اول اس مال کا حلال ہونا جو اللہ کی راہ میں خرچ کیا جائے، دوسرے طریق سنت کے مطابق خرچ کرنا، تیسرے صحیح مصرف میں خرچ کرنا، چوتھے خیرات دے کر احسان نہ جتلانا، پانچویں ایسا کوئی معاملہ نہ کرنا جس سے ان لوگوں کی تحقیر ہو جن کو یہ مال دیا گیا ہے، چھٹے جو کچھ خرچ کیا جائے اخلاص نیت کے ساتھ خالص اللہ تعالیٰ کی رضاجوئی کے لئے ہو نام ونمود کے لئے نہ ہو۔ - دوسری شرط یعنی طریق سنت کے مطابق خرچ کرنا اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرتے وقت اس کا لحاظ رہے کہ کسی حقدار کی حق تلفی نہ ہو اپنے عیال کے ضروری اخراجات بغیر ان کی رضامندی کے بند یا کم کرکے صدقہ و خیرات کرنا کوئی امر ثواب نہیں، حاجتمند وارثوں کو محروم کرکے سارے مال کو صدقہ و خیرات یا وقف کردینا تعلیم سنت کے خلاف ہے پھر اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی ہزاروں صورتیں ہیں۔- طریق سنت یہ ہے کہ مصرف کی اہمیت اور ضرورت کی شدت کا لحاظ کرکے مصرف کا انتخاب کیا جائے عام طور پر خرچ کرنے والے اس کی رعایت نہیں کرتے۔- تیسری شرط کا حاصل یہ ہے کہ ثواب ہونے کے لئے صرف اتنی بات کافی نہیں کہ اپنے خیال میں کسی کام کو نیک سمجھ کر نیک نیتی سے اس میں صرف کردے بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ وہ مصرف شریعت کی رو سے جائز اور مستحسن بھی ہو کوئی شخص ناجائز کھیل تماشوں کے لئے اپنی جائیداد وقف کردے تو وہ بجائے ثواب کے عذاب کا مستحق ہوگا یہی حال تمام ان کاموں کا ہے جو شریعت کی رو سے مستحسن نہیں ہیں۔
اَيَوَدُّ اَحَدُكُمْ اَنْ تَكُوْنَ لَہٗ جَنَّۃٌ مِّنْ نَّخِيْلٍ وَّاَعْنَابٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ ٠ ۙ لَہٗ فِيْہَا مِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ ٠ ۙ وَاَصَابَہُ الْكِبَرُ وَلَہٗ ذُرِّيَّۃٌ ضُعَفَاۗءُ ٠ ۠ۖ فَاَصَابَہَآ اِعْصَارٌ فِيْہِ نَارٌ فَاحْتَرَقَتْ ٠ ۭ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللہُ لَكُمُ الْاٰيٰتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُوْنَ ٢٦٦ ۧ- ودد - الودّ : محبّة الشیء، وتمنّي كونه، ويستعمل في كلّ واحد من المعنيين علی أن التّمنّي يتضمّن معنی الودّ ، لأنّ التّمنّي هو تشهّي حصول ما تَوَدُّهُ ، وقوله تعالی: وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً [ الروم 21]- ( و د د ) الود ۔- کے معنی کسی چیز سے محبت اور اس کے ہونے کی تمنا کرنا کے ہیں یہ لفظ ان دونوں معنوں میں الگ الگ بھی استعمال ہوتا ہے ۔ اس لئے کہ کسی چیز کی تمنا اس کی محبت کے معنی کو متضمعن ہوتی ہے ۔ کیونکہ تمنا کے معنی کسی محبوب چیز کی آرزو کرنا کے ہوتے ہیں ۔ اور آیت : ۔ وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً [ الروم 21] اور تم میں محبت اور مہربانی پیدا کردی ۔- نخل - النَّخْلُ معروف، وقد يُستعمَل في الواحد والجمع . قال تعالی: كَأَنَّهُمْ أَعْجازُ نَخْلٍ مُنْقَعِرٍ- [ القمر 20] وقال : كَأَنَّهُمْ أَعْجازُ نَخْلٍ خاوِيَةٍ [ الحاقة 7] ، وَنَخْلٍ طَلْعُها هَضِيمٌ- [ الشعراء 148] ، وَالنَّخْلَ باسِقاتٍ لَها طَلْعٌ نَضِيدٌ [ ق 10] وجمعه : نَخِيلٌ ، قال : وَمِنْ ثَمَراتِ النَّخِيلِ [ النحل 67] والنَّخْلُ نَخْل الدّقيق بِالْمُنْخُل، وانْتَخَلْتُ الشیءَ : انتقیتُه فأخذْتُ خِيارَهُ.- ( ن خ ل ) النخل - ۔ کھجور کا درخت ۔ یہ واحد جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : كَأَنَّهُمْ أَعْجازُ نَخْلٍ خاوِيَةٍ [ الحاقة 7] جیسے کھجوروں کے کھوکھلے تنے ۔ كَأَنَّهُمْ أَعْجازُ نَخْلٍ مُنْقَعِرٍ [ القمر 20] اور کھجوریں جن کے خوشے لطیف اور نازک ہوتے ہیں ۔ وَالنَّخْلَ باسِقاتٍ لَها طَلْعٌ نَضِيدٌ [ ق 10] اور لمبی لمبی کھجوریں جن کا گا بھاتہ بہ تہ ہوتا ہے اس کی جمع نخیل آتی ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَمِنْ ثَمَراتِ النَّخِيلِ [ النحل 67] اور کھجور کے میووں سے بھی ۔ النخل ( مصدر کے معنی چھلنی سے آٹا چھاننے کے ہیں اور انتخلت الشئی کے معنی عمدہ چیز منتخب کرلینے کے ؛- عنب - العِنَبُ يقال لثمرة الکرم، وللکرم نفسه، الواحدة : عِنَبَةٌ ، وجمعه : أَعْنَابٌ. قال تعالی:- وَمِنْ ثَمَراتِ النَّخِيلِ وَالْأَعْنابِ [ النحل 67] ، وقال تعالی: جَنَّةٌ مِنْ نَخِيلٍ وَعِنَبٍ- [ الإسراء 91] ، وَجَنَّاتٍ مِنْ أَعْنابٍ [ الرعد 4] ،- ( عن ن ب ) العنب - ( انگور ) یہ انگور کے پھل اور نفس کے لئے بھی بولا جات ا ہے اس کا واحد عنبۃ ہے اور جمع اعناب قرآن میں ہے : وَمِنْ ثَمَراتِ النَّخِيلِ وَالْأَعْنابِ [ النحل 67] اور کھجور اور انگور کے میووں سے بھی ۔ جَنَّةٌ مِنْ نَخِيلٍ وَعِنَبٍ [ الإسراء 91] کھجوروں اور انگوروں کا کوئی باغ ہو ۔ وَجَنَّاتٍ مِنْ أَعْنابٍ [ الرعد 4] اور انگوروں کے باغ ۔ - جری - الجَرْي : المرّ السریع، وأصله كمرّ الماء، ولما يجري بجريه . يقال : جَرَى يَجْرِي جِرْيَة وجَرَيَاناً. قال عزّ وجل : وَهذِهِ الْأَنْهارُ تَجْرِي مِنْ تَحْتِي [ الزخرف 51] وقال تعالی: جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمُ الْأَنْهارُ [ الكهف 31] ، وقال : وَلِتَجْرِيَ الْفُلْكُ [ الروم 46] ، وقال تعالی: فِيها عَيْنٌ جارِيَةٌ [ الغاشية 12] ، وقال : إِنَّا لَمَّا طَغَى الْماءُ حَمَلْناكُمْ فِي الْجارِيَةِ [ الحاقة 11] ، أي : السفینة التي تجري في البحر، وجمعها : جَوَارٍ ، قال عزّ وجلّ : وَلَهُ الْجَوارِ الْمُنْشَآتُ [ الرحمن 24] ، وقال تعالی: وَمِنْ آياتِهِ الْجَوارِ فِي الْبَحْرِ كَالْأَعْلامِ [ الشوری 32] ، ويقال للحوصلة : جِرِّيَّة إمّا لانتهاء الطعام إليها في جريه، أو لأنها مجری الطعام . والإِجْرِيَّا : العادة التي يجري عليها الإنسان، والجَرِيُّ : الوکيل والرسول الجاري في الأمر، وهو أخصّ من لفظ الرسول والوکيل، وقد جَرَيْتُ جَرْياً. وقوله عليه السلام : «لا يستجرینّكم الشّيطان» يصح أن يدّعى فيه معنی الأصل . أي : لا يحملنّكم أن تجروا في ائتماره وطاعته، ويصح أن تجعله من الجري، أي : الرسول والوکيل ومعناه : لا تتولوا وکالة الشیطان ورسالته، وذلک إشارة إلى نحو قوله عزّ وجل : فَقاتِلُوا أَوْلِياءَ الشَّيْطانِ [ النساء 76] ، وقال عزّ وجل : إِنَّما ذلِكُمُ الشَّيْطانُ يُخَوِّفُ أَوْلِياءَهُ [ آل عمران 175] .- ( ج ر ی ) جریٰ ( ض)- جریۃ وجریا وجریا نا کے معنی تیزی سے چلنے کے ہیں ۔ اصل میں یہ لفظ پانی اور پانی کی طرح چلنے والی چیزوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَهذِهِ الْأَنْهارُ تَجْرِي مِنْ تَحْتِي [ الزخرف 51] اور یہ نہریں جو میرے ( محلوں کے ) نیچے بہ رہی ہیں ۔ میری نہیں ہیں ۔ جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمُ الْأَنْهارُ [ الكهف 31] باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں ۔ وَلِتَجْرِيَ الْفُلْكُ [ الروم 46] اور تاکہ کشتیاں چلیں فِيها عَيْنٌ جارِيَةٌ [ الغاشية 12] اس میں چشمے بہ رہے ہوں گے اور آیت کریمہ ؛ إِنَّا لَمَّا طَغَى الْماءُ حَمَلْناكُمْ فِي الْجارِيَةِ [ الحاقة 11] جب پانی طغیانی پر آیا تو ہم نے تم لو گوں کو کشتی میں سوار کرلیا ۔ - میں جاریۃ سے مراد کشتی ہے اس کی جمع جوار آتی ہے جیسے فرمایا ؛۔ وَلَهُ الْجَوارِ الْمُنْشَآتُ [ الرحمن 24] اور جہاز جو اونچے کھڑے ہوتے ہیں ۔ وَمِنْ آياتِهِ الْجَوارِ فِي الْبَحْرِ كَالْأَعْلامِ [ الشوری 32] اور اسی کی نشانیوں میں سے سمندر کے جہاز ہیں ( جو ) گویا یا پہاڑ ہیں ۔ اور پرند کے سنکدانہ کو جریۃ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ کھانا چل کر وہاں پہنچتا ہے اور یا اس لئے کہ وہ طعام کا مجریٰ بنتا ہے ۔ الاجریات عاوت جس پر انسان چلتا ہے ۔ الجری وکیل ۔ یہ لفظ رسول اور وکیل سے اخص ہی ۔ اور جرمت جریا کے معنی وکیل بنا کر بھینے کے ہیں اور حدیث میں ہے :۔ یہاں یہ لفظ اپنے اصل معنی پر بھی محمول ہوسکتا ہے یعنی شیطان اپنے حکم کی بجا آوری اور اطاعت میں بہ جانے پر تمہیں بر انگیختہ نہ کرے اور یہ بھی ہوسکتا ہے ۔ کہ جری بمعنی رسول یا وکیل سے مشتق ہو اور معنی یہ ہونگے کہ شیطان کی وکالت اور رسالت کے سرپر ست مت بنو گویا یہ آیت کریمہ ؛ فَقاتِلُوا أَوْلِياءَ الشَّيْطانِ [ النساء 76] شیطان کے مددگاروں سے لڑو ۔ کے مضمون کی طرف اشارہ ہے اور فرمایا :إِنَّما ذلِكُمُ الشَّيْطانُ يُخَوِّفُ أَوْلِياءَهُ [ آل عمران 175] یہ ( خوف دلانے والا ) تو شیطان ہے جو اپنے دوستوں سے ڈرتا ہے ۔- تحت - تَحْت مقابل لفوق، قال تعالی: لَأَكَلُوا مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ [ المائدة 66] ، وقوله تعالی: جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهارُ [ الحج 23] ، تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمْ [يونس 9] ، فَناداها مِنْ تَحْتِها [ مریم 24] ، يَوْمَ يَغْشاهُمُ الْعَذابُ مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ [ العنکبوت 55] . و «تحت» : يستعمل في المنفصل، و «أسفل» في المتصل، يقال : المال تحته، وأسفله أغلظ من أعلاه، وفي الحدیث : «لا تقوم الساعة حتی يظهر التُّحُوت» «4» أي : الأراذل من الناس . وقیل : بل ذلک إشارة إلى ما قال سبحانه : وَإِذَا الْأَرْضُ مُدَّتْ وَأَلْقَتْ ما فِيها وَتَخَلَّتْ [ الانشقاق 3- 4] .- ( ت ح ت) تحت - ( اسم ظرف ) یہ فوق کی ضد ہے قرآن میں ہے :۔ لَأَكَلُوا مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ [ المائدة 66] تو ( ان پر رزق مینہ کی طرح برستا کہ اپنے اوپر سے اور پاؤں کے نیچے سے کھاتے ۔ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهارُ [ الحج 23] ( نعمت کے ) باغ میں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں ۔ فَناداها مِنْ تَحْتِها [ مریم 24] اس وقت ان کے نیچے کی جانب سے آواز دی ۔ تحت اور اسفل میں فرق یہ ہے کہ تحت اس چیز کو کہتے ہیں جو دوسری کے نیچے ہو مگر اسفل کسی چیز کے نچلا حصہ کو جیسے ۔ المال تحتہ ( مال اس کے نیچے ہے ) اس کا نچلا حصہ اعلیٰ حصہ سے سخت ہے ) حدیث میں ہے (48) لاتقوم الساعۃ حتیٰ یظھر النحوت کہ قیامت قائم نہیں ہوگی ۔ تا وقی کہ کمینے لوگ غلبہ حاصل نہ کرلیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ حدیث میں آیت کریمہ ؛۔ وَإِذَا الْأَرْضُ مُدَّتْ وَأَلْقَتْ ما فِيها وَتَخَلَّتْ [ الانشقاق 3- 4] اور جب یہ زمین ہموار کردی جائے گی اور جو کچھ اس میں سے اسے نکلا کر باہر ڈال دے گی ۔ کے مضمون کی طرف اشارہ ہے ۔- نهر - النَّهْرُ : مَجْرَى الماءِ الفَائِضِ ، وجمْعُه : أَنْهَارٌ ، قال تعالی: وَفَجَّرْنا خِلالَهُما نَهَراً [ الكهف 33] ، - ( ن ھ ر ) النھر - ۔ بافراط پانی بہنے کے مجری کو کہتے ہیں ۔ کی جمع انھار آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : وَفَجَّرْنا خِلالَهُما نَهَراً [ الكهف 33] اور دونوں میں ہم نے ایک نہر بھی جاری کر رکھی تھی ۔- ثمر - الثَّمَرُ اسم لكلّ ما يتطعم من أحمال الشجر، الواحدة ثَمَرَة، والجمع : ثِمَار وثَمَرَات، کقوله تعالی: أَنْزَلَ مِنَ السَّماءِ ماءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَراتِ رِزْقاً لَكُمْ [ البقرة 22]- ( ث م ر ) الثمر - اصل میں درخت کے ان اجزاء کو کہتے ہیں جن کو کھایا جاسکے اس کا واحد ثمرۃ اور جمع ثمار وثمرات آتی ہے قرآن میں ہے :۔ أَنْزَلَ مِنَ السَّماءِ ماءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَراتِ رِزْقاً لَكُمْ [ البقرة 22] اور آسمان سے مبینہ پرسا کر تمہارے کھانے کے لئے انواع و اقسام کے میوے پیدا کیے ۔ - ذر - الذّرّيّة، قال تعالی: وَمِنْ ذُرِّيَّتِي [ البقرة 124]- ( ذ ر ر) الذریۃ ۔- نسل اولاد ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي [ البقرة 124] اور میری اولاد میں سے بھی - ضعف - والضَّعْفُ قد يكون في النّفس، وفي البدن، وفي الحال، وقیل :- الضَّعْفُ والضُّعْفُ لغتان . قال تعالی: وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضَعْفاً [ الأنفال 66]- ( ض ع ف ) الضعف - اور الضعف رائے کی کمزوری پر بھی بولا جاتا ہے اور بدن اور حالت کی کمزوری پر بھی اور اس میں ضعف اور ضعف ( ولغت ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضَعْفاً [ الأنفال 66] اور معلوم کرلیا کہ ابھی تم میں کس قدر کمزور ی ہے ۔ - عصر - العَصْرُ : مصدرُ عَصَرْتُ ، والمَعْصُورُ : الشیءُ العَصِيرُ ، والعُصَارَةُ : نفاية ما يُعْصَرُ. قال تعالی:إِنِّي أَرانِي أَعْصِرُ خَمْراً [يوسف 36] ، وقال : وَفِيهِ يَعْصِرُونَ [يوسف 49] ، أي : يستنبطون منه الخیر، وقرئ : (يُعْصَرُونَ ) أي : يمطرون، واعْتَصَرْتُ من کذا : أخذت ما يجري مجری العُصَارَةِ ، قال الشاعر : وإنّما العیش بربّانه ... وأنت من أفنانه مُعْتَصِرٌ وَأَنْزَلْنا مِنَ الْمُعْصِراتِ ماءً ثَجَّاجاً [ عم 14] ، أي : السحائب التي تَعْتَصِرُ بالمطر . أي : تصبّ ، وقیل : التي تأتي بالإِعْصَارِ ، والإِعْصَارُ : ريحٌ تثیر الغبار . قال تعالی: فَأَصابَها إِعْصارٌ [ البقرة 266] . والاعْتِصَارُ : أن يغصّ فَيُعْتَصَرَ بالماء، ومنه : العَصْرُ ، والعَصَرُ : الملجأُ ، والعَصْرُ والعِصْرُ : الدّهرُ ، والجمیع العُصُورُ. قال : وَالْعَصْرِ إِنَّ الْإِنْسانَ لَفِي خُسْرٍ [ العصر 1- 2] ، والعَصْرُ : العشيُّ ، ومنه : صلاة العَصْرِ وإذا قيل : العَصْرَانِ ، فقیل : الغداة والعشيّ وقیل : اللّيل والنهار، وذلک کالقمرین للشمس والقمر والمعْصِرُ : المرأةُ التي حاضت، ودخلت في عَصْرِ شبابِهَا - ( ع ص ر ) العصر - ( ع ص ر ) العصر یہ عصرت الشئی کا مصدر ہے جس کے معنی ہیں نچوڑ نا المعصور : أَعْصِرُ خَمْراً [يوسف 36] انی اعصر خمرا ( دیکھتا کیو ہوں ) کہ شراب ( کے لئے انگور ) نچوڑ رہا ہوں ۔ وَفِيهِ يَعْصِرُونَ [يوسف 49] اور لوگ اسی میں رس نچوڑیں گے ۔ یعنی اس میں خیرو برکت حاصل ہوگی ایک قرات میں یعصرون ہے یعنی اسی سال خوب بارش ہوگی اعتصرت من کزا کے معنی کسی چیز سے خیرو برکت حاصل کرنا کے ہیں شاعر نے کہا ہے ( 312 ) وانما العیش بربانہ وانت من افنانہ معتصر زندگی کا لطف تو اٹھتی جوانی کے ساتھ ہے جب کی تم اس کی شاخوں سے رس نچوڑتے ہو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَأَنْزَلْنا مِنَ الْمُعْصِراتِ ماءً ثَجَّاجاً [ عم 14] اور نچڑتے بادلوں سے موسلا دھار مینہ بر سایا ۔ میں معصرات سے مراد بادلوں ہیں جو پانی نچوڑتے یعنی گراتے ہیں ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ معصرات ان بادلوں کو کہا جاتا ہے جو اعصار کے ساتھ آتے ہیں اور اعصار کے معنی ہیں گردو غبار والی تند ہوا قرآن میں ہے : ۔ فَأَصابَها إِعْصارٌ [ البقرة 266] تو ( ناگہاں ) اس باغ پر ۔۔۔۔۔۔۔ بگولہ چلے ۔ الاعتصار کے معنی کیس چیز کو دبا کر اس سے دس نچوڑنے کے ہیں اسی سے عصروعصر ہے جس کے معنی جائے پناہ کے ہیں العصر والعصروقت اور زمانہ اس کی جمع عصور ہے قرآن میں : ۔ وَالْعَصْرِ إِنَّ الْإِنْسانَ لَفِي خُسْرٍ [ العصر 1- 2] زمانہ کی قسم کہ انسان نقصان میں ہے ۔ العصر کے معنی العشی بھی آتے ہیں یعنی زوال آفتاب سے غروب شمس تک کا زمانہ اسی سے صلاۃ العصر ( نماز عصر ) ہے العصران صبح شام رات دن اور یہ القمران کی طرح ہے جس کے معنی ہیں چاند اور سورج المعصر وہ عورت جسے حیض آجائے اور جوانی کی عمر کو پہنچ گئی ہو ۔- نار - والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] ، - ( ن و ر ) نار - اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔ - حرق - يقال : أَحْرَقَ كذا فاحترق، والحریق : النّار، وقال تعالی: وَذُوقُوا عَذابَ الْحَرِيقِ [ الحج 22] ، وقال تعالی: فَأَصابَها إِعْصارٌ فِيهِ نارٌ فَاحْتَرَقَتْ [ البقرة 266] ، وقالُوا : حَرِّقُوهُ وَانْصُرُوا آلِهَتَكُمْ [ الأنبیاء 68] ، لَنُحَرِّقَنَّهُ [ طه 97] ، و ( لنحرقنّه) قرئا معا، فَحَرْقُ الشیء :إيقاع حرارة في الشیء من غير لهيب، کحرق الثوب بالدّق ۔- ( ح ر ق )- احرق کذا ۔ کسی چیز کو جلانا ) احترق ( جلنا ) الحریق ( آگ) قرآن میں ہے :۔ وَذُوقُوا عَذابَ الْحَرِيقِ [ الحج 22] کہ عذاب ( آتش ) سوزاں کے مزے چکھتے رہو ۔ فَأَصابَها إِعْصارٌ فِيهِ نارٌ فَاحْتَرَقَتْ [ البقرة 266] تو ( ناگہاں ) اس باغ پر آگ کا بھرا ہوا بگولا چلے اور وہ جل ( کر راکھ کا ڈھیرہو ) جائے ۔ وقالُوا : حَرِّقُوهُ وَانْصُرُوا آلِهَتَكُمْ [ الأنبیاء 68] ( تب ) وہ کہنے لگے ۔۔۔۔ تو اس کو جلادو اور اپنے معبودوں کی مدد کرو ۔ لَنُحَرِّقَنَّهُ [ طه 97] ہم اسے جلا دیں گے ۔ ایک قرآت میں لنحرقنہ ہے ۔ پس حرق الشئ کے معنی کسی چیز میں بغیر اشتعال کے جلن پیدا کرنے کے ہیں جیسے دھوبی کے پٹخنے سے کپڑے کا پھٹ جانا ۔- الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . - ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ - - الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- لعل - لَعَلَّ : طمع وإشفاق، وذکر بعض المفسّرين أنّ «لَعَلَّ» من اللہ واجب، وفسّر في كثير من المواضع ب «كي» ، وقالوا : إنّ الطّمع والإشفاق لا يصحّ علی اللہ تعالی، و «لعلّ» وإن کان طمعا فإن ذلك يقتضي في کلامهم تارة طمع المخاطب، وتارة طمع غيرهما . فقوله تعالیٰ فيما ذکر عن قوم فرعون : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء 40] - ( لعل ) لعل - ( حرف ) یہ طمع اور اشفاق ( دڑتے ہوئے چاہنے ) کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ اپنے لئے استعمال کرے تو اس کے معنی میں قطیعت آجاتی ہے اس بنا پر بہت سی آیات میں لفظ کی سے اس کی تفسیر کی گئی ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ کے حق میں توقع اور اندیشے کے معنی صحیح نہیں ہیں ۔ اور گو لعل کے معنی توقع اور امید کے ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا تعلق مخاطب سے ہوتا ہے اور کبھی متکلم سے اور کبھی ان دونوں کے علاوہ کسی تیسرے شخص سے ہوتا ہے ۔ لہذا آیت کریمہ : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء 40] تاکہ ہم ان جادو گروں کے پیرو ہوجائیں ۔ میں توقع کا تعلق قوم فرعون سے ہے ۔- فكر - الْفِكْرَةُ : قوّة مطرقة للعلم إلى المعلوم، والتَّفَكُّرُ : جولان تلک القوّة بحسب نظر العقل، وذلک للإنسان دون الحیوان، قال تعالی: أَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوا فِي أَنْفُسِهِمْ ما خَلَقَ اللَّهُ السَّماواتِ [ الروم 8] ، أَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوا ما بصاحبِهِمْ مِنْ جِنَّةٍ [ الأعراف 184] ، إِنَّ فِي ذلِكَ لَآياتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ [ الرعد 3]- ( ف ک ر ) الفکرۃ - اس قوت کو کہتے ہیں جو علم کو معلوم کی طرف لے جاتی ہے اور تفکر کے معنی نظر عقل کے مطابق اس قوت کی جو لانی دینے کے ہیں ۔ اور غور فکر کی استعداد صرف انسان کو دی گئی ہے دوسرے حیوانات اس سے محروم ہیں اور تفکرفیہ کا لفظ صرف اسی چیز کے متعلق بولا جاتا ہے جس کا تصور دل ذہن میں حاصل ہوسکتا ہے ۔ قرآن میں ہے : أَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوا فِي أَنْفُسِهِمْ ما خَلَقَ اللَّهُ السَّماواتِ [ الروم 8] کیا انہوں نے اپنے دل میں غو ر نہیں کیا کہ خدا نے آسمانوں کو پیدا کیا ہے ۔
(٢٦٦) بھلا تم میں سے کسی شخص کو یہ بات اچھی لگتی ہے کہ اس کے پاس انگوروں کا باغ ہو اور درختوں اور مکانات کے نیچے سے نہریں بہتی ہوں اور اس باغ میں مختلف قسموں کے پھل ہوں پھر وہ بڑھاپے کی وجہ سے کسی کام کا نہ رہے اور اچانک یہ باغ ایک گرم یا ٹھنڈے بگولے کی لپیٹ میں آجائے، جس سے وہ بالکل ختم ہوجائے (تم میں سے کوئی بھی شخص یہ چیز گوارا نہیں کرسکتا) اللہ تعالیٰ اوامرو نواہی کی یہ نشانیاں بیان فرماتے ہیں تاکہ قرآنی مثالوں پر غور کرو، آخرت میں کافروں کی یہی مثال ہوگی کہ وہاں بغیر کسی تدبیر کے باقی رہ جائے گا اور نہ دنیا ہی میں پھر لوٹ کر آنے کا موقع ملے گا جیسا کہ بوڑھا بغیر تدبیر کے رہ جاتا ہے کہ اب جوانی کی قوت و طاقت بھی واپس نہیں لاسکتا۔
آیت ٢٦٦ (اَیَوَدُّ اَحَدُکُمْ اَنْ تَکُوْنَ لَہٗ جَنَّۃٌ مِّنْ نَّخِیْلٍ وَّاَعْنَابٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ لا) - اہل عرب کے نزدیک یہ ایک آئیڈیل باغ کا نقشہ ہے ‘ جس میں کھجور کے درخت بھی ہوں اور انگور کی بیلیں بھی ہوں ‘ پھر اس میں آب پاشی کا قدرتی انتظام ہو۔- (لَہٗ فِیْہَا مِنْ کُلِّ الثَّمَرٰتِ لا) - (وَاَصَابَہُ الْکِبَرُ وَلَہٗ ذُرِّیَّۃٌ ضُعَفَآءُص) (فَاَصَابَہَآ اِعْصَارٌ فِیْہِ نَارٌ فَاحْتَرَقَتْ ط) - یعنی ایک انسان ساری عمر یہ سمجھتا رہا کہ میں نے تو نیکیوں کے انبار لگائے ہیں ‘ میں نے خیراتی ادارے قائم کیے ‘ میں نے فاؤنڈیشن بنائی ‘ میں نے مدرسہ قائم کیا ‘ میں نے یتیم خانہ بنادیا ‘ لیکن جب اس کا نامہ اعمال پیش ہوگا تو اچانک اسے معلوم ہوگا کہ یہ تو کچھ بھی نہ تھا۔ ع جب آنکھ کھلی گل کی تو موسم تھا خزاں کا بس باد سموم کا ایک بگولا آیا اور سب کچھ جلا گیا۔ اس لیے کہ اس میں اخلاص تھا ہی نہیں ‘ نیت میں کھوٹ تھا ‘ اس میں ریاکاری تھی ‘ لوگوں کو دکھانا مقصود تھا۔ پھر اس کا حال وہی ہوگا جس طرح کہ وہ بوڑھا اب کف افسوس مل رہا ہے جس کا باغ جل کر خاک ہوگیا اور اس کے کمسن بچے ابھی کسی لائق نہیں۔ وہ خود بوڑھا ہوچکا ہے اور اب دوبارہ باغ نہیں لگا سکتا۔ اس شخص کی مہلت عمر بھی ختم ہوچکی ہوگی اور سوائے کف افسوس ملنے کے اس کے پاس کوئی چارہ نہ ہوگا۔
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :307 یعنی اگر تم یہ پسند کرتے کہ تمہاری عمر بھر کی کمائی ایک ایسے نازک موقع پر تباہ ہوجائے ، جبکہ تم اس سے فائدہ اٹھانے کے سب سے زیادہ محتاج ہو اور ازسر نو کمائی کرنے کا موقع بھی باقی نہ رہا ہو ، تو یہ بات تم کیسے پسند کر رہے ہو کہ دنیا میں مدت العمر کام کرنے کے بعد آخرت کی زندگی میں تم اس طرح قدم رکھو کہ وہاں پہنچ کر یکایک تمہیں معلوم ہو کہ تمہارا پورا کارنامہ حیات یہاں کوئی قیمت نہیں رکھتا ، جو کچھ تم نے دنیا کے لیے کمایا تھا ، وہ دنیا ہی میں رہ گیا ، آخرت کے لیے کچھ کما کر لائے ہی نہیں کہ یہاں اس کے پھل کھا سکو ۔ وہاں تمہیں اس کا کوئی موقع نہ ملے گا کہ ازسرنو اب آخرت کے لیے کمائی کرو ۔ آخرت کے لیے کام کرنے کا جو کچھ بھی موقع ہے ، اسی دنیا میں ہے ۔ یہاں اگر تم آخرت کی فکر کیے بغیر ساری عمر دنیا ہی کی دھن میں لگے رہے اور اپنی تمام قوتیں اور کوششیں دنیوی فائدے تلاش کرنے ہی میں کھپاتے رہے ، تو آفتاب زندگی کے غروب ہونے پر تمہاری حالت بعینہ اس بڈھے کی طرح حسرت ناک ہوگی ، جس کی عمر بھر کی کمائی اور جس کی زندگی کا سہارا ایک باغ تھا اور وہ باغ عین عالم پیری میں اس وقت جل گیا ، جبکہ نہ وہ خود نئے سرے سے باغ لگا سکتا ہے اور نہ اس کی اولاد ہی اس قابل ہے کہ اس کی مدد کر سکے ۔
181: صدقات کو برباد کرنے کی یہ دوسری مثال ہے۔ جس طرح ایک آگ سے بھرا بگولا ہرے بھرے باغ کو یکایک تباہ کر ڈالتا ہے، اسی طرح ریاکاری یا صدقہ دے کر احسان جتلانا یا کسی اور طرح غریب آدمی کو ستانا صدقے کے عظیم ثواب کو برباد کرڈالتا ہے۔