Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

181۔ 1 بعض آثار میں ہے کہ یہ قرآن کریم کی آخری آیت ہے جو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہوئی، اس کے چند دن بعد ہی آپ دنیا سے رحلت فرما گئے۔ (ابن کثیر)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو دنیا کے زوال پذیر ہونے اور اس کے اموال وغیرہ کے فانی ہونے اور آخرت میں اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہونے اور ہر عمل کے محاسبے اور اس کی جزا و سزا ہونے کے ساتھ نصیحت فرمائی ہے۔ (ابن کثیر)- ابن عباس (رض) فرماتے ہیں : ” قرآن میں سب سے آخر میں جو آیت اتری وہ یہ ہے۔ “ [ السنن الکبریٰ للنسائی : ١٠؍٣٩، ٤٠، ح : ١٠٩٩١، ١٠٩٩٢، صحیح۔ ہدایۃ المستنیر : ٨٧٠ ]

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

اس کے بعد آخری آیت میں پھر روز قیامت کا خوف اور محشر کے حساب کتاب اور ثواب و عذاب کے ذکر پر احکام سود کی آیات کو ختم کیا ارشاد فرمایا :- وَاتَّقُوْا يَوْمًا تُرْجَعُوْنَ فِيْهِ اِلَى اللّٰهِ ثُمَّ تُوَفّٰى كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَھُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ یعنی ڈرو اس روز سے جس میں تم سب اللہ تعالیٰ کے سامنے پیشی میں لائے جاؤ گے پھر ہر شخص کو اپنے اپنے عمل کا پورا پورا بدلہ ملے گا۔- حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ یہ آیت نزول کے اعتبار سے سب سے آخری آیت ہے اس کے بعد کوئی آیت نازل نہیں ہوئی اس کے اکتیس روز بعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوگئی اور بعض روایات میں صرف نو دن بعد وفات ہونا مذکور ہے۔- یہاں تک ربا کے احکام سے متعلقہ سورة بقرہ کی آیات کی تفسیر آئی ہے ربا کی حرمت و ممانعت پر قرآن کریم میں سورة بقرہ میں مذکورہ سات آیتیں اور سورة آل عمران میں ایک آیت سورة نسآء میں دو آیتیں آئی ہیں اور ایک آیت سورة روم میں بھی ہے جس کی تفسیر میں اختلاف ہے، بعض حضرات نے اس کو بھی سود بیاج کے مفہوم پر محمول کیا ہے، بعض نے دوسری تفسیر بیان کی ہے اس طرح قرآن حکیم کی دس آیتیں ہیں جن میں سود وربا کے احکام مذکور ہیں۔- سود کی پوری حقیقت بتلانے سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان باقی آیات کا ترجمہ اور تفسیر بھی اسی جگہ لکھ دی جائے جو سورة آل عمران اور سورة نسآء اور سورة روم میں آئی ہیں تاکہ آیات یک جا ہو کر رباء کی حقیقت سمجھنے میں آسانی ہو۔ - يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْ كُلُوا الرِّبٰٓوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً وَاتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ (١٣٠: ٣) یعنی اے ایمان والو سود مت کھاؤ حصے سے زائد اور اللہ تعالیٰ سے ڈرو امید ہے کہ تم کامیاب ہو۔ - اس آیت کے نزول کا ایک خاص واقعہ ہے کہ جاہلیت عرب میں سود خوری کا عام طور پر یہ طریق تھا کہ ایک خاص میعاد معین کے لئے اُدھار سود پر دیا جاتا تھا اور جب وہ میعاد آگئی اور قرضدار اس کی ادائیگی پر قادر نہ ہوا تو اس کو مزید مہلت اس شرط پر دی جاتی تھی کہ سود کی مقدار بڑھا دی جائے اسی طرح دوسری میعاد پر بھی ادائیگی نہ ہوئی تو سود کی مقدار اور بڑھا دی۔ یہ واقعہ عام کتب تفسیر میں بالخصوص لباب النقول میں بروایت مجاہد مذکور ہے۔- جاہلیت عرب کی اس ملت کش رسم کو مٹانے کے لئے یہ آیت نازل ہوئی اسی لئے اس آیت میں اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً (یعنی کئی حصے زائد) فرما کر ان کے مروجہ طریقہ کی مذمت اور ملت کشی وخود غرضی پر تنبیہ فرما کر اس کو حرام قرار دیا اس کے معنی یہ نہیں کہ اضعاف ومضاعف نہ ہو تو حرام نہیں کیونکہ سورة بقرہ اور نسآء میں مطلقا ربا کی حرمت صاف صاف مذکور ہے اضعاف مضاعف ہو یا نہ ہو اس کی مثال ایسی ہے جیسے قرآن کریم میں جابجا فرمایا گیا ہے لَا تَشْتَرُوْا بِاٰيٰتِىْ ثَـمَنًا قَلِيْلًا یعنی میری آیتوں کے بدلے میں تھوڑی سی قیمت مت لو، اس میں تھوڑی سی قیمت اس لئے فرمایا کہ آیات الہیہ کے بدلے میں اگر ہفت اقلیم کی سلطنت بھی لے لے تو وہ تھوڑی ہی قیمت ہوگی اس کے یہ معنی نہیں کہ قرآن کی آیات کے بدلے میں تھوڑی قیمت لینا تو حرام ہے اور زیادہ لینا جائز، اسی طرح اس آیت میں اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً کا لفظ ان کے شرمناک طریقہ پر فکر کرنے کے لئے لایا گیا حرمت کی شرط نہیں۔- اور اگر سود کے مروجہ طریقوں پر غور کیا جائے تو یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ جب سود خوری کی عادت پڑجائے تو پھر وہ سود تنہا سود ہی نہیں رہتا بلکہ لازماً اضعاف مضاعف ہوجاتا ہے کیونکہ جو رقم سود سے حاصل ہو کر سود خور کے مال میں شامل ہوئی تو اب اس سود کی زائد رقم کو بھی سود پر چلائے گا اور یہی سلسلہ آگے چلا تو اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً ہوجائے گا، اس طرح ہر سود اضعاف مضاعفہ بن کر رہے گا۔- اور سورة نسآء میں دو آیتیں سود کے متعلق یہ ہیں فَبِظُلْمٍ مِّنَ الَّذِيْنَ هَادُوْا حَرَّمْنَا عَلَيْهِمْ طَيِّبٰتٍ اُحِلَّتْ لَهُمْ وَبِصَدِّهِمْ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ كَثِيْرًا وَّاَخْذِهِمُ الرِّبٰوا وَقَدْ نُھُوْا عَنْهُ وَاَ كْلِهِمْ اَمْوَال النَّاس بالْبَاطِلِ ۭوَاَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِيْنَ مِنْهُمْ عَذَابًا اَلِـــيْمًا (١٦١، ١٦٢: ٤) یعنی یہود کے انہی بڑے بڑے جرائم کے سبب ہم نے بہت سی پاکیزہ چیزیں جو ان کے لئے حلال تھیں ان پر حرام کردیں اور بسبب اس کے کہ وہ بہت آدمیوں کو رشد کی راہ سے مانع بن جاتے تھے اور بسبب اس کے کہ وہ سود لیا کرتے تھے حالانکہ ان کو ان سے ممانعت کی گئی تھی اور بسبب اس کے کہ وہ لوگوں کا مال ناحق طریقے سے کھا جاتے تھے اور ہم نے ان لوگوں کیلئے جو ان میں کافر ہیں درد ناک سزا کا سامان مقرر کر رکھا ہے۔- ان دونوں آیتوں سے معلوم ہوا کہ شریعت موسویہ میں بھی سود حرام تھا اور یہود نے جب اس کی مخالفت کی تو دنیا میں بھی ان کو یہ مناسب سزا دی گئی کہ انہوں نے حرص دنیا کی خاطر کھانا شروع کردیا تو اللہ تعالیٰ نے ان پر بعض حلال چیزیں بھی حرام فرمادیں۔- اور سورة روم کے چوتھے رکوع کی انتالیسویں آیت میں ہے :- وَمَآ اٰتَيْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّيَرْبُوَا۟ فِيْٓ اَمْوَال النَّاسِ فَلَا يَرْبُوْا عِنْدَ اللّٰهِ ۚ وَمَآ اٰتَيْتُمْ مِّنْ زَكٰوةٍ تُرِيْدُوْنَ وَجْهَ اللّٰهِ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُضْعِفُوْنَ (٣٩: ٣٠) یعنی جو چیز تم اس لئے دوگے کہ وہ لوگوں کے مال میں پہنچ کر زیادہ ہوجائے تو یہ اللہ کے نزدیک نہیں بڑہتا اور جو زکوٰۃ ٰدوگے جس سے اللہ کی رضا مطلوب ہو تو ایسے لوگ خدا کے پاس بڑھاتے رہیں گے۔- بعض حضرات مفسرین نے لفظ ربا اور زیادتی پر نظر کرکے اس آیت کو بھی سود بیاج پر محمول فرمایا ہے اور یہ تفسیر فرمائی ہے کہ سود بیاج کے لینے میں اگرچہ بظاہر مال کی زیادتی نظر آتی ہے مگر درحقیقت وہ زیادتی نہیں جیسے کسی شخص کے بدن پر ورم ہوجائے تو بظاہر وہ اس کے جسم میں زیادتی ہے لیکن کوئی عقل مند اس کو زیادتی سمجھ کر خوش نہیں ہوتا بلکہ اس کو ہلاکت کا مقدمہ سمجھتا ہے اس کے بالمقابل زکوٰۃ و صدقات دینے میں اگرچہ بظاہر مال میں کمی آتی ہے مگر درحقیقت وہ کمی نہیں بلکہ ہزاروں زیادتیوں کا موجب ہے جیسے کوئی مادہ فاسدہ کے اخراج کے لئے مسہل لیتا ہے یا فصد کھلوا کر خون نکلواتا ہے تو بظاہر وہ کمزور نظر آتا ہے اور اس کے بدن میں کمی محسوس ہوتی ہے مگر جاننے والوں کی نظر میں یہ کمی اس کی زیادتی اور قوت کا پیش خیمہ ہے۔- اور بعض علماء تفسیر نے اس آیت کو سود بیاج کی ممانعت پر محمول ہی نہیں فرمایا بلکہ اس کا یہ مطلب قرار دیا ہے کہ جو شخص کسی کو اپنا مال اخلاص ونیک نیتی سے نہیں بلکہ اس نیت سے دے کر میں اس کو یہ چیز دوں گا تو وہ مجھے اس کے بدلہ میں اس سے زیادہ دے گا، جیسے بہت سی برادریوں میں نوتا کی رسم ہے وہ ہدیہ کے طور پر نہیں بلکہ بدلہ لینے کی غرض سے دی جاتی ہے، یہ دینا چونکہ اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کے لئے نہیں بلکہ اپنی غرض کے لئے ہے اس لئے آیت میں فرمایا کہ اس طرح اگرچہ ظاہر میں مال بڑھ جائے مگر وہ اللہ کے نزدیک نہیں بڑہتا ہے ہاں جو زکوٰۃ صدقات اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کے لئے دیئے جائیں ان میں اگرچہ بظاہر مال گھٹتا ہے مگر اللہ کے نزدیک وہ دوگنا اور چوگنا ہوتا جاتا ہے۔- اس تفسیر پر آیت مذکورہ کا وہ مضمون ہوجائے گا جو دوسری ایک آیت میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کرکے ارشاد فرمایا ہے وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَكْثِرُ (٦: ٧٤) یعنی آپ کسی پر احسان اس نیت سے نہ کریں کہ اس کے بدلہ میں کچھ مال کی زیادتی آپ کو حاصل ہوجائے گی۔- اور سورة روم کی اس آیت میں بظاہر یہ دوسری تفسیر ہی راجح معلوم ہوتی ہے، اول تو اس لئے کہ سورة روم مکی ہے جس کے لئے اگرچہ ضروری نہیں کہ اس کی ہر آیت مکی ہو مگر غالب گمان مکی ہونے کا ضرور ہے جب تک اس کے خلاف کوئی ثبوت نہ ملے اور آیت کے مکی ہونے کی صورت میں اس کو حرمت سود کے مفہوم پر اس لئے محمول نہیں کیا جاسکتا کہ حرمت سود مدینہ میں نازل ہوئی ہے اس کے علاوہ اس آیت سے پہلے جو مضمون آیا ہے اس سے بھی دوسری تفسیر ہی کا رجحان معلوم ہوتا ہے کیونکہ اس سے پہلے ارشاد ہے :- فَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّهٗ وَالْمِسْكِيْنَ وَابْنَ السَّبِيْلِ ۭ ذٰلِكَ خَيْرٌ لِّــلَّذِيْنَ يُرِيْدُوْنَ وَجْهَ اللّٰهِ ۡ وَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ (٣٧: ٣٠) قرابت دار کو اس کا حق دیا کرو اور مسکین اور مسافر کو بھی یہ ان لوگوں کے لئے بہتر ہے جو اللہ کی رضا کے طالب ہیں۔- اس آیت میں رشتہ داروں اور مساکین اور مسافروں پر خرچ کرنے کے ثواب ہونے کے لئے شرط لگائی گئی ہے کہ اس میں نیت اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کی گئی ہو تو اس کے بعد والی آیت مذکورہ میں اس کی توضیح اس طرح کی گئی کہ اگر مال کسی کو اس غرض سے دیا جائے کہ اس کا بدلہ اس کی طرف سے زیادہ ملے گا تو یہ رضاجوئی حق تعالیٰ کے لئے خرچ نہ ہوا اس لئے اس کا ثواب نہ ملے گا۔- بہرحال ممانعت سود کے مسئلہ میں اس آیت کو چھوڑ کر بھی مذکورۃ الصدر بہت سی آیتیں آئی ہیں جن میں سے سورة آل عمران کی ایک آیت نمبر ١٣ میں اضعاف مضاعف سود کی حرمت بیان کی گئی ہے اور باقی سب آیتوں میں مطلق سود کی حرمت کا بیان ہے اس تفصیل سے یہ تو واضح ہوگیا کہ سود خواہ اضعاف مضاعف اور سود درسود ہو یا اکہر اسود بہرحال حرام ہے اور حرام بھی ایسا شدید کہ اس کی مخالفت کرنے پر اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلان جنگ سنایا گیا ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاتَّقُوْا يَوْمًا تُرْجَعُوْنَ فِيْہِ اِلَى اللہِ۝ ٠ ۤ ۣ ثُمَّ تُوَفّٰى كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَھُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ۝ ٢٨١ ۧ- تقوي - والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] - التقویٰ- اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔- رجع - الرُّجُوعُ : العود إلى ما کان منه البدء، أو تقدیر البدء مکانا کان أو فعلا، أو قولا، وبذاته کان رجوعه، أو بجزء من أجزائه، أو بفعل من أفعاله . فَالرُّجُوعُ : العود، - ( ر ج ع ) الرجوع - اس کے اصل معنی کسی چیز کے اپنے میدا حقیقی یا تقدیر ی کی طرف لوٹنے کے ہیں خواہ وہ کوئی مکان ہو یا فعل ہو یا قول اور خواہ وہ رجوع بذاتہ ہو یا باعتبار جز کے اور یا باعتبار فعل کے ہو الغرض رجوع کے معنی عود کرنے اور لوٹنے کے ہیں اور رجع کے معنی لوٹا نے کے - إلى- إلى: حرف يحدّ به النهاية من الجوانب الست، - الیٰ ۔ حرف ( جر ) ہے اور جہات ستہ میں سے کسی جہت کی نہایتہ حدبیان کرنے کے لئے آتا ہے - وُفِّيَتْ- وتَوْفِيَةُ الشیءِ : ذله وَافِياً ، واسْتِيفَاؤُهُ : تناوله وَافِياً. قال تعالی: وَوُفِّيَتْ كُلُّ نَفْسٍ ما كَسَبَتْ [ آل عمران 25] اور توفیتہ الشیئ کے معنی بلا کسی قسم کی کمی پورا پورادینے کے ہیں اور استیفاء کے معنی اپنا حق پورا لے لینے کے ۔ قرآن پا ک میں ہے : ۔ وَوُفِّيَتْ كُلُّ نَفْسٍ ما كَسَبَتْ [ آل عمران 25] اور ہر شخص اپنے اعمال کا پورا پورا بدلہ پائے گا ۔- كسب ( عمل رزق)- الكَسْبُ : ما يتحرّاه الإنسان مما فيه اجتلاب نفع، و تحصیل حظّ ، كَكَسْبِ المال، وقد يستعمل فيما يظنّ الإنسان أنه يجلب منفعة، ثم استجلب به مضرّة . والکَسْبُ يقال فيما أخذه لنفسه ولغیره، ولهذا قد يتعدّى إلى مفعولین، فيقال : كَسَبْتُ فلانا کذا، والِاكْتِسَابُ لا يقال إلّا فيما استفدته لنفسک، فكلّ اكْتِسَابٍ کسب، ولیس کلّ كَسْبٍ اکتسابا، وذلک نحو : خبز واختبز، وشوی واشتوی، وطبخ واطّبخ، وقوله تعالی:- أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّباتِ ما كَسَبْتُمْ [ البقرة 267] روي أنه قيل للنّبي صلّى اللہ عليه وسلم «4» : أيّ الکسب أطيب ؟ فقال عليه الصلاة والسلام، «عمل الرجل بيده» ، وقال : «إنّ أطيب ما يأكل الرجل من کسبه وإنّ ولده من كَسْبِهِ» «1» ، وقال تعالی: لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة 264] وقد ورد في القرآن في فعل الصالحات والسيئات، فممّا استعمل في الصالحات قوله : أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمانِها خَيْراً [ الأنعام 158] ، وقوله :- وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً إلى قوله : مِمَّا كَسَبُوا [ البقرة 201- 202] «2» . وممّا يستعمل في السّيّئات : أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِما كَسَبَتْ [ الأنعام 70] ، أُولئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِما كَسَبُوا[ الأنعام 70] - ( ک س ب ) الکسب - ۔ اصل میں جلب نفع یا خوش نصیبی حاصل کرنے کے لئے کسی چیز کا قصد کرنے کو کسب کہتے ہیں جیسے کسب مال وغیرہ ایسے کام کے قصد پر بولا جاتا ہ جسے انسان اس خیال پر کرے کہ اس سے نفع حاصل ہوگا لیکن الٹا اس کو نقصان اٹھا نا پڑے ۔ پس الکسب ایسا کام کرنے کو کہتے ہیں جسے انسان اپنی ذا ت اور اس کے ساتھ دوسروں کے فائدہ کے لئے کرے اسی لئے یہ کبھی دو مفعولوں کو طرف متعدی ہوتا ہے جیسے کسبت فلانا کذا میں نے فلاں کو اتنا کچھ حاصل کرکے دیا ۔ مگر الاکتساب ایسا کام کرنے کو کت ہے ہیں جس میں انسان صرف اپنے مفاد کو پیش نظر رکھے لہذا ہر اکتساب لازم نہیں ہے ۔ اور یہ خبز و اختبرزو شوٰ ی واشتویٰ ، وطبخ و طبخ کی طرف ہے ۔ اور آیت کریمہ : أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّباتِ ما كَسَبْتُمْ [ البقرة 267] جو پاکیزہ اور عمدہ مال تم کھاتے ہو ۔۔۔۔ اس میں سے راہ خدا میں خرچ کرو ۔ کے متعلق آنحضرت سے سوال کیا گیا ای الکسب اطیب کہ کونسا کسب زیادہ پاکیزہ ہے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عمل الرجل بیدہ کہ انسان کا اپنے ہاتھ سے کام کرنا اور نیز فرمایا : ان طیب مایکل الرجل من کسبہ وان ولدہ من کسبہ سب سے زیادہ پاکیزہ رزق وہ ہی جو انسان اپنے ہاتھ سے کماکر کھا اور اسکی اولاد اس کے کسب سے ہے : قرآن میں ہے : لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة 264] اسی طرح ( یہ ریا کار) لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ حاصل نہیں کرسکیں گے ۔ اور قرآن میں نیک وبددونوں قسم کے اعمال کے متعلق یہ فعل استعمال ہوا ہے ۔ چناچہ اعمال صالحہ کے متعلق فرمایا : أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمانِها خَيْراً [ الأنعام 158] یا اپنے ایمان کی حالت میں نیک عمل نہیں کئ ہونگے اور آیت کریمہ : وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً إلى قوله : مِمَّا كَسَبُوا [ البقرة 201- 202] کے بعد فرمایا : انکے کاموں کا ( حصہ ) اور اعمال بدکے متعلق فرمایا : - أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِما كَسَبَتْ [ الأنعام 70] تاکہ ( قیامت کے دن کوئی شخص اپنے اعمال کی سزا میں ہلاکت میں نہ ڈالا جائے ۔ أُولئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِما كَسَبُوا[ الأنعام 70] یہی لوگ ہیں کہ اپنے اعمال کے وبال میں ہلاکت میں ڈالے گئے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢٨١) اور اس دن کے عذاب سے ڈرو جس دن ہر ایک نیک وبد کو اس کی نیکی اور برائی کا پورا پورا بدلہ ملے گا نہ ان کی نیکیوں میں سے کسی کی کمی کی جائے گی اور نہ ان کی برائیوں میں کوئی اضافہ کیا جائے گا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٨١ (وَاتَّقُوْا یَوْمًا تُرْجَعُوْنَ فِیْہِ اِلَی اللّٰہِ قف) - یہاں وہ آیت یاد کیجیے جو سورة البقرۃ میں الفاظ کے معمولی فرق کے ساتھ دو بار آچکی ہے : (وَاتَّقُوْا یَوْمًا لاَّ تَجْزِیْ نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَیْءًا وَّلاَ یُقْبَلُ مِنْہَا شَفَاعَۃٌ وَّلاَ یُؤْخَذُ مِنْہَا عَدْلٌ وَّلاَ ہُمْ یُنْصَرُوْنَ ) اور ڈرو اس دن سے کہ جس دن کام نہ آسکے گی کوئی جان کسی دوسری جان کے کچھ بھی اور نہ کسی سے کوئی سفارش قبول کی جائے گی اور نہ کسی سے کوئی فدیہ وصول کیا جائے گا اور نہ انہیں کوئی مدد مل سکے گی۔ اور (وَاتَّقُوْا یَوْماً لاَّ تَجْزِیْ نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَیْءًا وَّلاَ یُقْبَلُ مِنْہَا عَدْلٌ وَّلاَ تَنْفَعُھَا شَفَاعَۃٌ وَّلاَ ہُمْ یُنْصَرُوْنَ ) اور ڈرو اس دن سے کہ جس دن کام نہ آسکے گی کوئی جان کسی دوسری جان کے کچھ بھی اور نہ کسی سے کوئی فدیہ قبول کیا جائے گا اور نہ کسی کو کوئی سفارش فائدہ پہنچا سکے گی اور نہ انہیں کوئی مدد مل سکے گی۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani