حفظ قرآن اور لین دین میں گواہ اور لکھنے کی تاکید یہ آیت قرآن کریم کی تمام آیتوں سے بڑی ہے ، حضرت سعید بن مسیب فرماتے ہیں کہ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ قرآن کی سب سے بڑی آیت یہی آیت الدین ہے ، یہ آیت جب نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سب سے پہلے انکار کرنے والے حضرت آدم ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے جب حضرت آدم کو پیدا کیا ، ان کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا اور قیامت تک کی ان کی تمام اولاد نکالی ، آپ نے اپنی اولاد کو دیکھا ، ایک شخص کو خوب تروتازہ اور نورانی دیکھ کر پوچھا کہ الٰہی ان کا کیا نام ہے؟ جناب باری نے فرمایا یہ تمہارے داؤد ہیں ، پوچھا اللہ ان کی عمر کیا ہے؟ فرمایا ساٹھ سال ، کہا اے اللہ اس کی عمر کچھ اور بڑھا ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا نہیں ، ہاں اگر تم اپنی عمر میں سے انہیں کچھ دینا چاہو تو دے دو ، کہا اے اللہ میری عمر میں سے چالیس سال اسے دئیے جائیں ، چنانچہ دے دئیے گئے ، حضرت آدم کی اصلی عمر ایک ہزار سال کی تھی ، اس لین دین کو لکھا گیا اور فرشتوں کو اس پر گواہ کیا گیا حضرت آدم کی موت جب آئی ، کہنے لگے اے اللہ میری عمر میں سے تو ابھی چالیس سال باقی ہیں ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا وہ تم نے اپنے لڑکے حضرت داؤد کو دے دئیے ہیں ، تو حضرت آدم نے انکار کیا جس پر وہ لکھا ہوا دکھایا گیا اور فرشتوں کی گواہی گزری ، دوسری روایت میں ہے کہ حضرت آدم کی عمر پھر اللہ تعالیٰ نے ایک ہزار پوری کی اور حضرت داؤد کی ایک سو سال کی ( مسند احمد ) لیکن یہ حدیث بہت ہی غریب ہے اس کے راوی علی بن زین بن جدعان کی حدیثیں منکر ہوتی ہیں ، مستدرک حاکم میں بھی یہ روایت ہے ، اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے ایماندار بندوں کو ارشاد فرمایا ہے کہ وہ ادھار کے معاملات لکھ لیا کریں تاکہ رقم اور معیاد خوب یاد رہے ، گواہ کو بھی غلطی نہ ہو ، اس سے ایک وقت مقررہ کیلئے ادھار دینے کا جواز بھی ثابت ہوا ، حضرت ابن عباس فرمایا کرتے تھے کہ معیاد مقرر کرکے قرض کے لین دین کی اجازت اس آیت سے بخوبی ثابت ہوتی ہے ، صحیح بخاری شریف میں ہے کہ مدینے والوں کا ادھار لین دین دیکھ کر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ناپ تول یا وزن مقرر کر لیا کرو ، بھاؤ تاؤ چکا لیا کرو اور مدت کا بھی فیصلہ کر لیا کرو ۔ قرآن حکیم کہتا ہے کہ لکھ لیا کرو اور حدیث شریف میں ہے کہ ہم ان پڑھ امت ہیں ، نہ لکھنا جانیں نہ حساب ، ان دونوں میں تطبیق اس طرح ہے کہ دینی مسائل اور شرعی امور کے لکھنے کی تو مطلق ضرورت ہی نہیں خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ بیحد آسان اور بالکل سہل کر دیا گیا ۔ قرآن کا حفظ اور احادیث کا حفظ قدرتاً لوگوں پر سہل ہے ، لیکن دنیوی چھوٹی بڑی لین دین کی باتیں اور وہ معاملات جو ادھار سدھار ہوں ، ان کی بابت بیشک لکھ لینے کا حکم ہوا اور یہ بھی یاد رہے کہ یہ حکم بھی وجوباً نہیں پس نہ لکھنا دینی امور کا ہے اور لکھ لینا دنیوی کام کا ہے ۔ بعض لوگ اس کے وجوب کی طرف بھی گئے ہیں ، ابن جریج فرماتے ہیں جو ادھار دے وہ لکھ لے اور جو بیچے وہ گواہ کر لے ، ابو سلیمان مرعشی جنہوں نے حضرت کعب کی صحبت بہت اٹھائی تھی انہوں نے ایک دن اپنے پاس والوں سے کہا اس مظلوم کو بھی جانتے ہو جو اللہ تعالیٰ کو پکارتا ہے اور اس کی دعا قبول نہیں ہوتی لوگوں نے کہا یہ کس طرح؟ فرمایا یہ وہ شخص ہے جو ایک مدت کیلئے ادھار دیتا ہے اور نہ گواہ رکھتا ہے نہ لکھت پڑھت کرتا ہے پھر مدت گزرنے پر تقاضا کرتا ہے اور دوسرا شخص انکار کر جاتا ہے ، اب یہ اللہ سے دعا کرتا ہے لیکن پروردگار قبول نہیں کرتا اس لئے کہ اس نے کام اس کے فرمان کیخلاف کیا ہے اور اپنے رب کا نافرمان ہوا ہے ، حضرت ابو سعید شعبی ربیع بن انس حسن ابن جریج ابن زید وغیرہ کا قول ہے کہ پہلے تو یہ واجب تھا پھر وجوب منسوخ ہوگیا اور فرمایا گیا کہ اگر ایک دوسرے پر اطمینان ہو تو جسے امانت دی گئی ہے اسے چاہئے کہ ادا کردے ، اور اس کی دلیل یہ حدیث ہے ، گو یہ واقعہ اگلی امت کا ہے لیکن تاہم ان کی شریعت ہماری شریعت ہے ۔ جب تک ہماری شریعت پر اسے انکار نہ ہو اس واقعہ میں جسے اب ہم بیان کرتے ہیں لکھت پڑھت کے نہ ہونے اور گواہ مقرر نہ کئے جانے پر شارع علیہ السلام نے انکار نہیں کیا ، دیکھئے مسند میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بنی اسرائیل کے ایک شخص نے دوسرے شخص سے ایک ہزار دینار ادھار مانگے ، اس نے کہا گواہ لاؤ ، جواب دیا کہ اللہ کی گواہی کافی ہے ، کہا ضمانت لاؤ ، جواب دیا اللہ کی ضمانت کافی ہے ، کہا تو نے سچ کہا ، ادائیگی کی معیاد مقرر ہو گئی اور اس نے اسے ایک ہزار دینار گن دئیے ، اس نے تری کا سفر کیا اور اپنے کام سے فارغ ہوا ، جب معیاد پوری ہونے کو آئی تو یہ سمندر کے قریب آیا کہ کوئی جہاز کشتی ملے تو اس میں بیٹھ جاؤں اور رقم ادا کر آؤں ، لیکن کوئی جہاز نہ ملا ، جب دیکھا کہ وقت پر نہیں پہنچ سکتا تو اس نے ایک لکڑی لی ، اسے بیچ سے کھوکھلی کر لی اور اس میں ایک ہزار دینار رکھ دئیے اور ایک پرچہ بھی رکھ دیا ، پھر منہ کو بند کر دیا اور اللہ سے دعا کی کہ پروردگار تجھے خوب علم ہے کہ میں نے فلاں شخص سے ایک ہزار دینار قرض لئے اس نے مجھ سے ضمانت طلب کی ، میں نے تجھے ضامن کیا اور وہ اس پر خوش ہو گیا ، گواہ مانگا ، میں نے گواہ بھی تجھی کو رکھا ، وہ اس پر بھی خوش ہو گیا ، اب جبکہ اپنا قرض ادا کر آؤں لیکن کوئی کشتی نہیں ملی ، اب میں اس رقم کو تجھے سونپتا ہوں اور سمندر میں ڈال دیتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ یہ رقم اسے پہنچا دے ، پھر اس لکڑی کو سمندر میں ڈال دیا اور خود چلا گیا لکین پھر بھی کشتی کی تلاش میں رہا کہ مل جائے تو جاؤں ، یہاں تو یہ ہوا ، وہاں جس شخص نے اسے قرض دیا تھا ، جب اس نے دیکھا کہ وقت پورا ہوا اور آج اسے آ جانا چاہئے تھا ، تو وہ بھی دریا کنارے آن کھڑا ہوا کہ وہ آئے گا اور میری رقم مجھے دے دے گا یا کسی کے ہاتھ بھجوائے گا ، مگر جب شام ہونے کو آئی اور کوئی کشتی اس کی طرف سے نہیں آئی تو یہ واپس لوٹا ، کنارے پر ایک لکڑی دیکھی تو یہ سمجھ کر کہ خالی ہاتھ تو جا ہی رہا ہوں ، اس لکڑی کو بھی لے چلوں ، پھاڑ کر سکھا لوں گا جلانے کے کام آئے گی ، گھر پہنچ کر جب اسے چیرتا ہے تو کھنا کھن بجتی ہوئی اشرفیاں نکلتی ہیں ، گنتا ہے تو پوری ایک ہزار ہیں ، وہیں پرچہ پر نظر پڑتی ہے ، اسے بھی اٹھا کر پڑھ لیتا ہے ، پھر ایک دن وہی شخص آتا ہے اور ایک ہزار دینار پیش کرکے کہتا ہے یہ لیجئے آپ کی رقم ، معاف کیجئے گا میں نے ہر چند کوشش کی کہ وعدہ خلافی نہ ہو لیکن کشتی کے نہ ملنے کی وجہ سے مجبور ہو گیا اور دیر لگ گئی ، آج کشتی ملی ، آپ کی رقم لے کر حاضر ہوا ، اس نے پوچھا کیا میری رقم آپ نے بھجوائی بھی ہے؟ اس نے کہا میں کہ چکا ہوں کہ مجھے کشتی نہ ملی تھی ، اس نے کہا آپ اپنی رقم لے کر خوش ہو کر چلے جاؤ ، آپ نے جو رقم لکڑی میں ڈال کر اسے توکل علی اللہ ڈالی تھی ، اسے اللہ نے مجھ تک پہنچا دیا اور میں نے اپنی رقم پوری وصول پالی ۔ اس حدیث کی سند بالکل صحیح ہے ، صحیح بخاری شریف میں سات جگہ یہ حدیث آئی ہے ۔ پھر فرمان ہے کہ لکھنے والا عدل و حق کے ساتھ لکھے ، کتابت میں کسی فریق پر ظلم نہ کرے ، ادھر ادھر کچھ کمی بیشی نہ کرے بلکہ لین دین والے دونوں متفق ہو کر جو لکھوائیں وہی لکھے ، لکھا پڑھا شخص معاملہ کو لکھنے سے انکار نہ کرے ، جب اسے لکھنے کو کہا جائے لکھ دے ، جس طرح اللہ کا یہ احسان اس پر ہے کہ اس نے اسے لکھنا سکھایا اسی طرح جو لکھنا نہ جانتے ہوں ان پر یہ احسان کرے اور ان کے معاملہ کو لکھ دیا کرے ۔ حدیث میں ہے یہ بھی صدقہ ہے کہ کسی کام کرنے والے کا ہاتھ بٹا دو ، کسی گرے پڑے کا کام کر دو ، اور حدیث میں ہے جو علم کو جان کر پھر اسے چھپائے ، قیامت کے دن اسے آگ کی لگام پہنائی جائے گی ، حضرت مجاہد اور حضرت عطا فرماتے ہیں کاتب پر لکھ دینا اس آیت کی رو سے واجب ہے ۔ جس کے ذمہ حق ہو وہ لکھوائے اور اللہ سے ڈرے ، نہ کمی بیشی کرے نہ خیانت کرے ۔ اگر یہ شخص بےسمجھ ہے اسراف وغیرہ کی وجہ سے روک دیا گیا ہے یا کمزور ہے یعنی بچہ ہے یا حواس درست نہیں یا جہالت اور کندذہنی کی وجہ سے لکھوانا بھی نہیں جانتا تو جو اس کا والی اور بڑا ہو ، وہ لکھوائے ۔ پھر فرمایا کتابت کے ساتھ شہادت بھی ہونی چاہئے تاکہ معاملہ خوب مضبوط اور بالکل صاف ہو جائے ۔ دو عورتوں کو ایک عورت کے قائم مقام کرنا عورت کے نقصان کے سبب ہے ، جیسے صحیح مسلم شریف میں حدیث ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے عورتو صدقہ کرو اور بکثرت استغفار کرتی رہو ، میں نے دیکھا ہے کہ جہنم میں تم بہت زیادہ تعداد میں جاؤ گی ، ایک عورت نے پوچھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کیوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم لعنت زیادہ بھیجا کرتی ہو اور اپنے خاوندوں کی ناشکری کرتی ہو ، میں نے نہیں دیکھا کہ باوجود عقل دین کی کمی کے ، مردوں کی عقل مارنے والی تم سے زیادہ کوئی ہو ، اس نے پھر پوچھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں دین کی عقل کی کمی کیسے ہے؟ فرمایا عقل کی کمی تو اس سے ظاہر ہے کہ دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کی گواہی کے برابر ہے اور دین کی کمی یہ ہے کہ ایام حیض میں نہ نماز ہے نہ روزہ ۔ گواہوں کی نسبت فرمایا کہ یہ شرط ہے کہ وہ عدالت والے ہوں ۔ امام شافعی کا مذہب ہے کہ جہاں کہیں قرآن شریف میں گواہ کا ذِکر ہے وہاں عدالت کی شرط ضروری ہے ، گو وہاں لفظوں میں نہ ہو اور جن لوگوں نے ان کی گواہی رَد کر دی ہے جن کا عادل ہونا معلوم نہ ہو ان کی دلیل بھی یہی آیت ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ گواہ عادل اور پسندیدہ ہونا چاہئے ۔ دو عورتیں مقرر ہونے کی حکمت بھی بیان کر دی گئی ہے کہ اگر ایک گواہی کو بھول جائے تو دوسری یاد دلا دے کی فتذکر کی دوسری قرأت فتذکر بھی ہے ، جو لوگ کہتے ہیں کہ اس کی شہادت اس کے ساتھ مل کر شہادت مرد کے کر دے گی انہوں نے مکلف کیا ہے ، صحیح بات پہلی ہی ہے واللہ اعلم ۔ گواہوں کو چاہئے کہ جب وہ بلائے جائیں انکار نہ کریں یعنی جب ان سے کہا جائے کہ آؤ اس معاملہ پر گواہ رہو تو انہیں انکار نہ کرنا چاہئے جیسے کاتب کی بابت بھی یہی فرمایا گیا ہے ، یہاں سے یہ بھی فائدہ حاصل کیا گیا ہے کہ گواہ رہنا بھی فرض کفایہ ہے ، یہ بھی کہا گیا ہے کہ جمہور کا مذہب یہی ہے اور یہ معنی بھی بیان کئے گئے ہیں کہ جب گواہ گواہی دینے کیلئے طلب کیا جائے یعنی جب اس سے واقعہ پوچھا جائے تو وہ خاموش نہ رہے ، چنانچہ حضرت ابو مجلز مجاہد وغیرہ فرماتے ہیں کہ جب گواہ بننے کیلئے بلائے جاؤ تو تمہیں اختیار ہے خواہ گواہ بننا پسند کرو یا نہ کرو یا نہ جاؤ لیکن جب گواہ ہو چکو پھر گواہی دینے کیلئے جب بلایا جائے تو ضرور جانا پڑے گا ، صحیح مسلم اور سنن کی حدیث میں ہے اچھے گواہ وہ ہیں جو بےپوچھے ہی گواہی دے دیا کریں ، بخاری و مسلم کی دوسری حدیث میں جو آیا ہے کہ بدترین گواہ وہ ہیں جن سے گواہی طلب نہ کی جائے اور وہ گواہی دینے بیٹھ جائیں اور وہ حدیث جس میں ہے کہ پھر ایسے لوگ آئیں گے جن کی قسمیں گواہیوں پر اور گواہیاں قسموں پر پیش پیش رہیں گی ، اور روایت میں آیا ہے کہ ان سے گواہی نہ لی جائے گی تاہم وہ گواہی دیں گے تو یاد رہے ( مذمت جھوٹی گواہی دینے والوں کی اور تعریف سچی گواہی دینے والوں کی ہے ) اور یہی ان مختلف احادیث میں تطبیق ہے ، حضرت ابن عباس وغیرہ فرماتے ہیں آیت دونوں حالتوں پر شامل ہے ، یعنی گواہی دینے کیلئے بھی اور گواہ رہنے کیلئے بھی انکار نہ کرنا چاہئے ۔ پھر فرمایا چھوٹا معاملہ ہو یا بڑا لکھنے سے کسمساؤ نہیں بلکہ مدت وغیرہ بھی لکھ لیا کرو ۔ ہمارا یہ حکم پورے عدل والا اور بغیر شک و شبہ فیصلہ ہو سکتا ہے ۔ پھر فرمایا جبکہ نقد خرید و فروخت ہو رہی ہو تو چونکہ باقی کچھ نہیں رہتا اس لئے اگر نہ لکھا جائے تو کسی جھگڑے کا احتمال نہیں ، لہذا کتابت کی شرط تو ہٹا دی گئی ، اب رہی شہادت تو سعید بن مسیب تو فرماتے ہیں کہ ادھار ہو یا نہ ہو ، ہر حال میں اپنے حق پر گواہ کر لیا کرو ، دیگر بزرگوں سے مروی ہے کہ ( آیت فان امن الخ ، ) فرما کر اس حکم کو بھی ہٹا دیا ، یہ بھی ذہن نشین رہے کہ جمہور کے نزدیک یہ حکم واجب نہیں بلکہ استحباب کے طور پر اچھائی کیلئے ہے اور اس کی دلیل یہ حدیث ہے جس سے صاف ثابت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خرید وفروخت کی جبکہ اور کوئی گواہ شاہد نہ تھا ، چنانچہ مسند احمد میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اعرابی سے ایک گھوڑا خریدا اور اعرابی آپ کے پیچھے پیچھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دولت خانہ کی طرف رقم لینے کیلئے چلا ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم تو ذرا جلد نکل آئے اور وہ آہستہ آہستہ آ رہا تھا ، لوگوں کو یہ معلوم نہ تھا کہ یہ گھوڑا بک گیا ہے ، انہوں نے قیمت لگانی شروع کی یہاں تک کہ جتنے داموں اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ بیچا تھا اس سے زیادہ دام لگ گئے ، اعرابی کی نیت پلٹی اور اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آواز دے کر کہا حضرت یا تو گھوڑا اسی وقت نقد دے کر لے لو یا میں اور کے ہاتھ بیچ دیتا ہوں ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ سُن کر رکے اور فرمانے لگے تو تو اسے میرے ہاتھ بیچ چکا ہے پھر یہ کیا کہہ رہا ہے؟ اس نے کہا اللہ کی قسم میں نے تو نہیں بیچا ، حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا غلط کہتا ہے ، میرے تیرے درمیان معاملہ طے ہو چکا ہے ، اب لوگ ادھر اُدھر سے بیچ میں بولنے لگے ، اس گنوار نے کہا اچھا تو گواہ لائیے کہ میں نے آپ کے ہاتھ بیچ دیا ، مسلمانوں نے ہر چند کہا کہ بدبخت آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو اللہ کے پیغمبر ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے تو حق ہی نکلتا ہے ، لیکن وہ یہی کہے چلا جائے کہ لاؤ گواہ پیش کرو ، اتنے میں حضرت خزیمہ آگئے اور اعرابی کے اس قول کو سن کر فرمانے لگے میں گواہی دیتا ہوں کہ تو نے بیچ دیا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ تو فروخت کر چکا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو کیسے شہادت دے رہا ہے ، حضرت خزیمہ نے فرمایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق اور سچائی کی بنیاد پر یہ شہادت دی ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آج سے حضرت خزیمہ کی گواہی دو گواہوں کے برابر ہے ۔ پس اس حدیث سے خرید و فروخت پر گواہی دو گواہوں کی ضروری نہ رہی ، لیکن احتیاط اسی میں ہے کہ تجارت پر بھی دو گواہ ہوں ، کیونکہ ابن مردویہ اور حاکم میں ہے کہ تین شخص ہیں جو اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں لیکن قبول نہیں کی جاتی ، ایک تو وہ کہ جس کے گھر بداخلاق عورت ہو اور وہ اسے طلاق نہ دے ، دوسرا وہ شخص جو کسی یتیم کا مال اس کی بلوغت کے پہلے اسے سونپ دے ، تیسرا وہ شخص جو کسی کو مال قرض دے اور گواہ نہ رکھے ، امام حاکم اسے شرط و بخاری و مسلم پر صحیح بتلاتے ہیں ، بخاری مسلم اس لئے نہیں لائے کہ شعبہ کے شاگرد اس روایت کو حضرت ابو موسیٰ اشعری پر موقوف بتاتے ہیں ۔ پھر فرماتا ہے کہ کاتب کا چاہئے کہ جو لکھا گیا وہی لکھے اور گواہ کو چاہئے کہ واقعہ کیخلاف گواہی نہ دے اور نہ گواہی کو چھپائے ، حسن قتادہ وغیرہ کا یہی قول ہے ابن عباس یہ مطلب بیان کرتے ہیں کہ ان دونوں کو ضرر نہ پہنچایا جائے مثلاً انہیں بلانے کیلئے گئے ، وہ کسی اپنے کام میں مشغول ہوں تو یہ کہنے لگے کہ تم پر یہ فرض ہے ۔ اپنا حرج کرو اور چلو ، یہ حق انہیں ہیں ۔ اور بہت سے بزرگوں سے بھی یہی مروی ہے ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ میں جس سے روکوں اس کا کرنا اور جو کام کرنے کو کہوں اس سے رک جانا بہ بدکاری ہے جس کا وبال تم سے چھٹے گا نہیں ۔ پھر فرمایا اللہ سے ڈرو اس کا لحاظ رکھو ، اس کی فرمانبرداری کرو ، اس کے روکے ہوئے کاموں سے رُک جاؤ ، اللہ تعالیٰ تمہیں سمجھا رہا ہے جیسے اور جگہ فرمایا آیت ( يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَتَّقُوا اللّٰهَ يَجْعَلْ لَّكُمْ فُرْقَانًا وَّيُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيِّاٰتِكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ) 8 ۔ الانفال:29 ) اے ایمان والو اگر تم اللہ سے ڈرتے رہو گے تو وہ تمہیں دلیل دے دے گا ، اور جگہ ہے ایمان لو اللہ سے ڈرتے رہو اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھو وہ تمہیں دوہری رحمتیں دے گا اور تمہیں نور عطا فرمائے گا جس کی روشنی میں تم چلتے رہو گے ۔ پھر فرمایا تمام کاموں کا انجام اور حقیقت سے ان کی مصلحتوں اور دوراندیشیوں سے اللہ آگاہ ہے اس سے کوئی چیز مخفی نہیں ، اس کا علم تمام کائنات کو گھیرے ہوئے ہے اور ہر چیز کا اسے حقیقی علم ہے ۔
282۔ 1 جب سودی نظام کی سختی سے ممانعت اور صدقات و خیرات کی تاکید بیان کی گئی تو پھر ایسے معاشرے میں (قرضوں) کی بہت ضرورت پڑتی ہے کیونکہ سود تو ویسے ہی حرام ہے اور ہر شخص صدقہ و خیرات کی استطاعت نہیں رکھتا اسی طرح ہر شخص صدقہ لینا پسند بھی نہیں کرتا پھر اپنی ضروریات و حاجات پوری کرنے کے لئے قرض ہی باقی رہ جاتا ہے۔ اسی لئے احادیث میں قرض دینے کا بڑا ثواب بیان کیا گیا ہے تاہم قرض جس طرح ایک ناگزیر ضرورت ہے اور جھگڑوں کا باعث بھی ہے اس لئے اس آیت میں جسے آیتہ الدین کہا جاتا ہے اور جو قرآن کی سب سے لمبی آیت ہے اللہ تعالیٰ نے قرض کے سلسلے میں ضروری ہدایات دی ہیں تاکہ یہ ناگزیر ضرورت لڑائی جھگڑے کا باعث نہ بنیں اس کے لئے ایک حکم یہ دیا گیا ہے کہ مدت کا تعین کرلو دوسرا یہ کہ اسے لکھ لو تیسرا یہ کہ اس پر دو مسلمان مرد کو یا ایک مرد اور دو عورتوں کو گواہ بنا لو۔ 282۔ 2 اس سے مراد ہے یعنی وہ اللہ سے ڈرتا ہوا رقم کی صحیح تعداد لکھوائے اس میں کمی نہ کرے آگے کہا جا رہا ہے کہ یہ مقروض اگر کم عقل یا کمزور بچہ یا مجنون ہے تو اس کے ولی کو چاہیے کہ انصاف کے ساتھ لکھوالے تاکہ صاحب حق (قرض دینے والے) کو نقصان نہ ہو۔ 282۔ 3 یعنی جن کی دیانتداری اور عدالت پر مطمئن ہو۔ علاوہ ازیں قرآن کی اس آیت سے معلوم ہوا کہ دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر ہے نیز مرد کے بغیر صرف اکیلی عورت کی گواہی بھی جائز نہیں سوائے ان معاملات کے جن پر عورت کے علاوہ کوئی اور مطلع نہیں ہوسکتا اس امر میں اختلاف ہے کہ مدعی کی ایک قسم کے ساتھ دو عورتوں کی گواہی پر فیصلہ کرنا جائز ہے یا نہیں ؟ جس طرح ایک مرد گواہ کے ساتھ فیصلہ کرنا جائز ہے جب کہ دوسرے گواہ کی جگہ مدعی قسم کھالے۔ فقہائے احناف کے نزدیک ایسا کرنا جائز نہیں جب کہ محدثین اس کے قائل ہیں کیونکہ حدیث سے ایک گواہ اور قسم کے ساتھ فیصلہ کرنا ثابت ہے اور دو عورتیں جب ایک مرد گواہ کے برابر ہیں تو دو عورتوں اور قسم کے ساتھ فیصلہ کرنا بھی جائز ہوگا (فتح القدیر) 282۔ 4 یہ ایک مرد کے مقابلے میں دو عورتوں کو مقرر کرنے کی علت و حکمت ہے۔ یعنی عورت عقل اور یادداشت میں مرد سے کمزور ہے (جیسا کہ صحیح مسلم کی حدیث میں بھی عورت کو ناقص العقل کہا گیا ہے) اس میں عورت کی شرم ساری اور فروتری کا اظہار نہیں ہے۔ جیسا کہ بعض لوگ باور کراتے ہیں بلکہ ایک فطرتی کمزوری کا بیان ہے جو اللہ تعالیٰ کی حکمت ومشیت پر مبنی ہے۔ مکابرۃً کوئی اس کو تسلیم نہ کرے تو اور بات ہے۔ لیکن حقائق و واقعات کے اعتبار سے یہ ناقابل تردید ہے۔ 282۔ 5 یہ لکھنے کے فوائد ہیں کہ اس سے انصاف کے تقاضے پورے ہونگے، گواہی بھی درست رہے گی (کہ گواہ اگر فوت ہوجائے) یا غائب ہوجائے تو اس صورت میں تحریر کام آئے گی، اور شک وشبہ سے بھی فریقین محفوظ رہیں گے۔ شک پڑنے کی صورت میں تحریر دیکھ کر شک دور کیا جاسکتا ہے۔ 282۔ 6 یہ وہ خریدو فروخت ہے جس میں ادھار ہو یا سودا طے ہوجانے کے بعد بھی انحراف کا خطرہ ہو ورنہ اس سے پہلے نقد سودے کو لکھنے سے مستشنٰی کردیا گیا ہے بعض نے بیع سے مکان دکان، باغ یا حیوانات کی بیع مراد لی ہے۔ 282۔ 7 ان کو نقصان پہنچانا یہ ہے کہ دور دراز کے علاقے میں ان کو بلایا جائے کہ جس سے ان کی مصروفیات میں حرج یا کاروبار میں نقصان ہو یا ان کو جھوٹی بات لکھنے یا اس کی گواہی دینے پر مجبور کیا جائے۔ 28۔ 8 یعنی جن باتوں کی تاکید کی گئی ہے ان پر عمل کرو اور جن چیزوں سے روکا گیا ہے ان سے اجتناب کرو۔
[٤٠١] یہ قرآن کی سب سے لمبی آیت ہے جس میں ادھار سے تعلق رکھنے والے معاملات کو ضبط تحریر میں لانے کی ہدایات دی جارہی ہے۔ مثلاً جائیدادوں کے بیع نامے، بیع سلم کی تحریر یا ایسے تجارتی لین دین کی تحریر جس میں پوری رقم یا اس کا کچھ حصہ ابھی قابل ادائیگی ہو۔ تاکہ بعد میں اگر کوئی نزاع پیدا ہو تو یہ تحریر شہادت کا کام دے سکے اور یہ حکم استحباباً ہے واجب نہیں۔ چناچہ اگر فریقین میں باہمی اعتماد اتناد زیادہ ہو کہ باہمی نزاع کی صورت کا امکان ہی نہ ہو یا محض قرض کا معاملہ ہو اور اس طرح موثق تحریر سے کسی فریق کے اعتماد کو ٹھیس پہنچتی ہو تو محض یادداشت کے لئے کوئی فریق اپنے پاس ہی لکھ لے تو یہ بھی کافی ہوسکتا ہے۔- [٤٠٢] ہمارے ہاں آج کل ایسی تحریروں کے سند یافتہ ماہرین موجود ہیں جنہیں وثیقہ نویس کہا جاتا ہے۔ وثیقہ نویس تقریباً انہی اصولوں کے تحت سرکاری کاغذات پر ایسے معاہدات لکھ دیتے ہیں اور چونکہ یہ ایک مستقل فن اور پیشہ بن چکا ہے۔ لہذا ان کے انکار کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ الا یہ کہ معاملہ میں کوئی قانونی سقم ہو۔ - [٤٠٣] یعنی معاہدہ کی املا اس شخص کو کروانی چاہئے جو مقروض ہو کیونکہ ادائیگی کا بار اس کے سر پر ہے۔ ہاں اگر وہ لکھوانے کی پوری سمجھ نہیں رکھتا تو اس کا ولی (سرپرست) اس کے وکیل کی حیثیت سے اس کی طرف سے لکھوا سکتا ہے۔ یہ ولی اس کا کوئی رشتہ دار بھی ہوسکتا ہے اور غیر رشتہ دار بھی۔ جو سمجھدار ہو اور مقروض کا خیر خواہ ہو یا معروف معنوں میں وکیل بھی ولی کی حیثیت سے املا کروا سکتا ہے۔- [٤٠٤] تحریر کے بعد اس تحریر پر دو ایسے مسلمان مردوں کی گواہی ہونا چاہئے جو معاشرہ میں قابل اعتماد سمجھے جاتے ہوں۔ اور اگر معاملہ ذمیوں کے درمیان ہو تو گواہ ذمی بھی ہوسکتے ہیں۔ اور اگر بوقت تحریر دو مسلمان قابل اعتماد گواہ میسر نہ آئیں تو ایک مرد اور دو عورتیں بھی گواہ بن سکتی ہیں۔ اور اگر ایک بھی مرد میسر نہ آئے تو چار عورتیں گواہ نہیں بن سکتیں۔ اور گواہی کا یہ نصاب صرف مالی معاملات کے لئے ہے۔۔ مثلاً زنا اور قذف کے لئے چار مردوں ہی کی گواہی ضروری ہے۔ چوری اور نکاح و طلاق کے لئے دو مردوں ہی کی گواہی ہوگی۔ افلاس (دیوالیہ) کے لئے اس قبیلے کے تین مردوں کی، رؤیت ہلال کے لئے صرف ایک مسلمان کی اور رضاعت کے ثبوت کے لئے صرف ایک متعلقہ عورت (دایہ) ہی گواہی کے لئے کافی ہوتی ہے۔- [٤٠٥] اس سے ایک تو یہ بات معلوم ہوئی کہ دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر رکھی گئی ہے اور حدیث کی رو سے یہ عورتوں کے نقصان عقل کی بنا پر ہے۔ اور دوسرے یہ کہ زبانی گواہی کی ضرورت اس وقت پیش آئے گی جب اس معاملہ کی ایسی جزئیات میں نزاع پیدا ہوجائے جنہیں تحریر میں نہ لایا جاسکا ہو اور معاملہ عدالت میں چلا جائے۔ ورنہ تحریر تو کی ہی اس لئے جاتی ہے کہ بعد میں نزاع پیدا نہ ہو۔ اور شہادتیں پہلے سے ہی اس تحریر پر ثبت کی جاتی ہے۔- جب سے اہل مغرب نے مساوات مرد و زن کا نعرہ لگایا ہے اور جمہوری نظام نے عورت کو ہر معاملہ میں مرد کے برابر حقوق عطا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس وقت سے اس آیت کے اس جملہ کو بھی مسلمانوں ہی کی طرف سے تاویل و تضحیک کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ کہا یہ جاتا ہے کہ دو عورتوں کی شہادت کو ایک مرد کے برابر کرکے اسلام نے عورتوں کے حقوق کی حق تلفی کی ہے۔ پاکستان میں اپوا کی مغرب زدہ مہذب خواتین نے بڑی دریدہ دہنی سے کام لیا اور اس کے خلاف ان عورتوں نے جلوس نکالے اور بینر لکھوائے گئے کہ اگر عورت کا حق مرد سے نصف ہے تو فرائض بھی نصف ہونے چاہئیں عورتوں پر اڑھائی نمازیں، پندرہ روزے اور نصف حج فرض ہونا چاہئے وغیرہ وغیرہ۔ حالانکہ یہ طبقہ اڑھائی نمازیں تو درکنار ایک نماز بھی پڑھنے کا روادار نہیں۔ وہ خود اسلام سے بیزار ہیں ہی، ایسے پراپیگنڈے سے ایک تو وہ حکومت کو مرعوب کرنا چاہتی ہیں کہ وہ ایسا کوئی قانون نہ بنائے جس سے عورت کی حق تلفی ہوتی ہو۔ دوسرے یہ کہ وہ دوسری سادہ لوح مسلمان عورتوں کو اسلام سے برگشتہ کرسکیں۔- حالانکہ یہاں حقوق و فرائض کی بحث ہے ہی نہیں۔ آیت میں یہ کہا گیا ہے کہ اگر ایک عورت بھول جائے تو دوسری عورت اسے یاد دلا دے۔ اس میں نہ عورت کے کسی حق کی حق تلفی ہوتی ہے اور نہ اس کی تحقیر ہوتی ہے۔ بات صرف نسیان کی ہے اور وہ بھی اس جزئیات میں جو تحریر میں آنے سے رہ گئی ہوں۔ اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر عورت بھول سکتی ہے تو کیا مرد نہیں بھول سکتا۔ تو اس کا جواب بالکل واضح ہے کہ اسلامی قانون عام حالات کے مطابق وضع کئے گئے ہیں اور ان کا واضع خود اللہ تعالیٰ ہے۔ جو اپنی مخلوق کی خامیوں اور خوبیوں سے پوری طرح واقف ہے۔ عورت پر حیض، نفاس اور حمل اور وضع حمل کے دوران کچھ ایسے اوقات آتے ہیں جب اس کا دماغی توازن برقرار نہیں رہ سکتا۔ اور حکمائے قدیم و جدید سب عورت کی ایسی حالت کی تائید و توثیق کرتے ہیں۔ ان مغرب زدہ خواتین کا یہ اعتراض بالکل ایسا ہی ہے جیسے کوئی یہ کہہ دے کہ مرد اپنی جسمانی ساخت اور قوت کے لحاظ سے عورت سے مضبوط ہوتا ہے۔ لہذا حمل اور وضع حمل کی ذمہ داریاں مرد پر ڈالنا چاہئے تھیں نہ کہ عورت پر جو پہلے ہی مرد سے کمزور ہے۔- اور اس مسئلہ کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ عورت اپنی اصل کے لحاظ سے ایسی عدالتی کاروائیوں سے سبکدوش قرار دی گئی ہے۔ اب یہ اسلام کا اپنا مزاج ہے کہ وہ عورت کو گھر سے باہر کھینچ لانے کو پسند نہیں کرتا۔ جبکہ موجودہ مغربی تہذیب اور نظام جمہوریت اسلام کے اس کلیہ کی عین ضد ہے۔ عورت کی گواہی کو صرف اس صورت میں قبول کیا گیا ہے جب کوئی دوسرا گواہ میسر نہ آسکے اور اگر دوسرا گواہ میسر آجائے تو اسلام عورت کو شہادت کی ہرگز زحمت نہیں دیتا۔- عورت کے اسی نسیان کی بنا پر فوجداری مقدمات میں اس کی شہادت قابل قبول نہیں کیونکہ ایسے مقدمات میں معاملہ کی نوعیت سنگین ہوتی ہے۔ مالی معاملات میں عورت کی گواہی قبول تو ہے لیکن دو عورتوں کو ایک مرد کے برابر رکھا گیا ہے۔ اور عائلی مقدمات میں چونکہ زوجین ملوث ہوتے ہیں اور وہ ان کا ذاتی معاملہ ہوتا ہے۔ جہاں نسیان کا امکان بہت ہی کم ہوتا ہے۔ لہذا ایسے مقدمات میں میاں بیوی دونوں کی گواہی برابر نوعیت کی ہوگی اور وہ معاملات جو بالخصوص عورتوں سے متعلق ہوتے ہیں۔ وہاں عورت کی گواہی کو مرد کے برابر ہی نہیں بلکہ معتبر قرار دیا گیا ہے مثلاً مرضعہ اگر رضاعت کے متعلق گواہی دے تو وہ دوسروں سے معتبر سمجھی جائے گی۔ خواہ یہ دوسرے کوئی عورت ہو یا مرد ہو۔ - ان تصریحات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت میں نہ عورت کی تحقیر بیان ہوئی ہے اور نہ کسی حق کی حق تلفی کی گئی ہے بلکہ رزاق عالم نے جو بھی قانون عطا فرمایا ہے وہ کسی خاص مصلحت اور اپنی حکمت کاملہ سے ہی عطا فرمایا ہے اور جو مسلمان اللہ کی کسی آیت کی تضحیک کرتا یا مذاق اڑاتا ہے اسے اپنے ایمان کی خیر منانا چاہئے۔ اور ایسے لوگوں کو اسلام سے منسلک رہنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ دل سے تو وہ پہلے ہی اللہ کے باغی بن چکے ہیں۔ اور یہی وہ لوگ ہیں جو اسلام کو کافروں سے بھی زیادہ نقصان پہنچا رہے ہیں۔- [٤٠٦] یعنی جب نزاع کی صورت پیدا ہو کر معاملہ عدالت میں چلا جائے اور انہیں زبانی گواہی دینے کے لئے بلایا جائے تو انہیں انکار نہیں کرنا چاہئے۔ کیونکہ یہ بات کتمان شہادت کے ذیل میں آتی ہے جو گناہ کبیرہ ہے۔- [٤٠٧] اس جملہ میں انسان کی ایک فطری کمزوری کو واضح کیا گیا ہے جو یہ ہے کہ فریقین خواہ کس قدر قابل اعتماد ہوں اور ان میں نزاع کی توقع بھی نہ ہو اور معاملہ بھی خواہ کوئی چھوٹا سا ہو تاہم بھول چوک اور نسیان کی بنا پر فریقین میں نزاع یا بدظنی پیدا ہوسکتی ہے۔ لہذا باقاعدہ دستاویز نہ سہی فریقین کو یا فریقین میں سے کسی اذیک کو یادداشت کے طور پر ضرور لکھ لینا چاہئے۔- [٤٠٨] یہ حکم صرف اس صورت میں ہے جبکہ لین دین کا کوئی اہم معاملہ ہو اور لین دین کرنے کے بعد بھی اس میں نزاع کا احتمال موجود ہو۔ - [٤٠٩] اس کی کئی صورتیں ممکن ہیں مثلاً ایک یہ کہ کسی شخص کو کاتب بننے یا گواہ بننے پر مجبور نہ کیا جائے۔ دوسرے یہ کہ کاتب یا گواہ کی گواہی اگر کسی فریق کے خلاف جاتی ہے تو انہیں تکلیف نہ پہنچائے جیسا کہ آج کل مقدمات میں اکثر ایسا ہوتا ہے اور فریق مخالف گواہوں کو یا وثیقہ نویس کو اس قدر دھمکیاں اور تکلیفیں دینا شروع کردیتا ہے کہ وہ گواہی نہ دینے میں ہی اپنی عافیت سمجھتے ہیں یا پھر غلط گواہی دینے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ اور تیسری صورت انہیں نقصان پہنچانے کی یہ ہے کہ انہیں عدالت میں بلایا تو جائے لیکن انہیں آمدورفت اور کھانے پینے کا خرچہ تک نہ دیا جائے۔
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا تَدَايَنْتُمْ بِدَيْنٍ : اس آیت کو ” آیَۃُ الدَّیْنِ “ یا ” آیَۃُ الْمُدَایَنَۃِ “ کہا جاتا ہے۔ یہ قرآن کی سب سے لمبی آیت ہے، جب سود حرام کیا گیا تو قرض کا صحیح طریقہ بیان کرنا ضروری تھا، چناچہ وہ اس آیت میں بیان فرمایا ہے اور اصولی طور پر تین باتیں ضروری قرار دی ہیں، ایک اسے لکھ لینا، دوسری مدت مقرر کرلینا، تیسری گواہ بنا لینا۔ عموماً لوگ ادھار یا قرض کے معاملے میں تحریر کو معیوب اور باہمی بےاعتمادی کی علامت سمجھتے ہیں، آیت کے آخر میں اس کی حکمت بیان فرما دی گئی کہ یہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک زیادہ انصاف والی، گواہی کو زیادہ درست رکھنے والی اور ہر قسم کے شک و شبہ سے بچانے والی چیز ہے۔ اس بنا پر ایسے معاملات میں اس قسم کی احتیاط مناسب ہے، تاکہ آئندہ جھگڑا پیدا نہ ہو سکے۔ (ابن کثیر) - اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى : اس سے ادھار کی ادائیگی کی مدت مقرر کرنا ضروری ثابت ہوا۔ عبداللہ بن عباس (رض) نے فرمایا : ” اس آیت سے بیع سلم کا جواز ثابت ہوتا ہے اور اسی کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی ہے۔ “ (شوکانی) بیع سلم یا سلف یہ ہے کہ کسی چیز کی قیمت پیشگی ادا کردی جائے اور وہ چیز مقرر کردہ وقت پر بعد میں وصول کرلی جائے۔ اس بیع کی شرائط بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیان فرما دیں، چناچہ ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ آئے تو دیکھا کہ اہل مدینہ دو سال یا تین سال کے لیے کھجور میں بیع سلف کرتے ہیں، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” جو شخص کسی چیز میں بیع سلف کرے وہ مقررہ ماپ تول میں اور مقررہ مدت تک کرے۔ “ [ بخاری، المساقاۃ، باب السلم : ١٦٠٤ ] نیز ابن عمر (رض) سے مقررہ قیمت کا بھی ذکر ہے۔- اس آیت کریمہ سے بظاہر قرض کا لکھنا واجب معلوم ہوتا ہے، مگر اس سے اگلی آیت میں (فَاِنْ اَمِنَ بَعْضُكُمْ بَعْضًا) سے معلوم ہوا کہ یہ حکم واجب نہیں مستحب ہے۔ - مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَاۗءِ : یعنی جو دیانت، امانت اور اخلاق کے اعتبار سے تم میں قابل اعتماد سمجھے جاتے ہوں، نیز وہ مسلمان ہوں، عاقل، بالغ، فرائض کے پابند اور کبیرہ گناہوں سے بچنے والے بھی ہوں، کیونکہ اہل اسلام کے ہاں یہی لوگ پسندیدہ ہیں۔ غیر مسلم کی شہادت قبول نہیں ہوگی۔ - اِلَّآ اَنْ تَكُـوْنَ تِجَارَةً حَاضِرَةً : یعنی اگر تجارت میں لین دین نقد ہو، ادھار نہ ہو تو گواہ بنا لینے ہی کافی ہیں، لکھنا ضروری نہیں، کیونکہ اس میں تکلیف ہے اور گواہ بنا لینا بھی واجب نہیں، مستحب ہے۔ ( شوکانی )- ۠وَلَا يُضَاۗرَّ كَاتِبٌ وَّلَا شَهِيْدٌ : ” اور نہ کسی لکھنے والے کو تکلیف دی جائے اور نہ کسی گواہ کو۔ “ یہ ترجمہ ” وَلَا يُضَاۗرَّ “ فعل مجہول کی صورت میں ہے۔ یہ فعل معروف بھی ہوسکتا ہے اور اس صورت میں ترجمہ ہوگا ” نہ لکھنے والا نقصان پہنچائے اور نہ گواہ “ مثلاً لکھنے والا غلط بات لکھ دے، جس سے صاحب حق یا مقروض کو نقصان پہنچے، یا گواہ شہادت میں ہیر پھیر کرکے غلط گواہی دے اور کاتب اور گواہ کو نقصان پہنچایا جانا یہ ہے کہ انھیں ان کی مشغولیت کے وقت تنگ کرکے بلایا جائے یا غلط شہادت پر مجبور کرنے کے لیے خوف زدہ کیا جائے وغیرہ۔
خلاصہ تفسیر :- اے ایمان والوں جب معاملہ کرنے لگو ادھار کا (خواہ دام ادھار ہوں یا جو چیز خریدنا ہے وہ ادھار ہو جیسے بیع سلم میں) ایک میعاد معین تک ( کے لئے) تو اس (کی یاد داشت ودستاویز) کو لکھ لیا کرو اور یہ ضرور ہے کہ تمہارے آپس میں (جو) کوئی لکھنے والا (ہو وہ) انصاف کے ساتھ لکھے (یعنی کسی کی رعایت کرکے مضمون میں کمی بیشی نہ کرے) اور لکھنے والا لکھنے سے انکار بھی نہ کرے جیسا کہ خدا نے اس کو (لکھنا) سکھایا ہے، اس کو چاہئے کہ لکھ دیا کرے اور (کاتب کو) وہ شخص (بتلادے اور) لکھوا دے جس کے ذمہ وہ حق واجب ہو (کیونکہ دستاویز کا حاصل اقرار حق کا ہوتا ہے، تو جس کے ذمہ حق ہے اسی کا اقرار ضرور ٹھرا) اور (لکھاتے وقت) اللہ تعالیٰ سے جو اس کا پروردگار ہے ڈرتا رہے اور اس (حق) میں سے ذرہ برابر (بتلانے میں) کمی نہ کرے، پھر جس شخص کے ذمہ حق واجب تھا وہ اگر ضعیف العقل (یعنی معتوہ یا مجنون) ہو یا ضیعف البدن (یعنی نابالغ یا پیر فرتوت) ہو یا (اور کسی اتفاقی امر سے) خود (بیان کرنے کی اور) لکھانے کی قدرت نہ رکھتا ہو، (مثلا گونگا ہے اور لکھنے والا اس کا اشارہ نہیں سمجھتا یا مثلا دوسرے ممالک کا رہنے والا ہے اور زبان غیر رکھتا ہے اور لکھنے والا اس کی بولی نہیں سمجھتا) تو (ایسی حالت میں) اس کا کارکن ٹھیک ٹھیک طور پر لکھوا دے اور دو شخصوں کو اپنے مردوں میں سے گواہ (بھی) کرلیا کرو (اور شرعا اصل مدار ثبوت دعویٰ کا یہی گواہ ہیں گو دستاویز نہ ہو اور خالی دستاویز بدون گواہوں کے ایسے معاملات میں حجت اور معتبر نہیں۔ دستاویز لکھنا صرف یاد داشت کی آسانی کے لئے رہے کہ اس کا مضمون دیکھ کر اور سن کر طبعی طور پر اکثر تمام واقعہ یاد آجاتا ہے جیسا عنقریب قرآن ہی میں آتا ہے) پھر اگر وہ گواہ مرد (میسر) نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں (گواہ بنالی جائیں) ایسے گواہوں میں سے جن کو تم (ان کے معتبر ہونے کی وجہ سے) پسند کرتے ہو (اور ایک مرد کی جگہ دو عورتیں اس لئے تجویز کی گئیں) تاکہ ان دونوں عورتوں میں سے کوئی ایک بھی (شہادت کے کسی حصہ کو خواہ ذہن سے یا شہادت کے وقت بیان کرنے سے) بھول جائے تو ایک دوسری کو یاد دلادے (اور یاد دلانے کے بعد شہادت کا مضمون مکمل ہوجائے) اور گواہ بھی انکار نہ کریں جب (گواہ بننے کے لئے) بلائے جایا کریں (کہ اس میں اعانت ہے اپنے بھائی کی) اور تم اس (دین) کے (بار بار) لکھنے سے اکتایا مت کرو خواہ وہ (معاملہ دین کا) چھوٹا ہو یا بڑا ہو یہ لکھ لینا انصاف کا زیادہ قائم رکھنے والا ہے اللہ کے نزدیک اور شہادت کا زیادہ درست رکھنے والا ہے اور زیادہ سزا وار ہے اس بات کا کہ تم (معاملہ کے متعلق) کسی شبہ میں نہ پڑو (اس لئے لکھ ہی لینا اچھا ہے) مگر یہ کہ کوئی سودا دست بدست ہو جس کو باہم لیتے دیتے ہو تو اس کے نہ لکھنے میں تم پر کوئی الزام (اور مضرت) نہیں اور (اتنا اس میں بھی ضرور کیا کرو کہ اس کے) خریدو فروخت کے وقت گواہ کرلیا کرو (شاید کل کو کوئی بات نکل آئے، مثلاً بائع کہنے لگے کہ مجھ کو دام ہی وصول نہیں ہوئے یا یہ چیز میں نے فروخت ہی نہیں کی یا مشتری کہنے لگے کہ میں نے تو واپسی کا اختیار بھی لے لیا تھا یا ابھی تو مبیع پوری میری پاس نہیں پہنچی) اور (جس طرح ہم نے اوپر کاتب اور گواہ کو منع کیا ہے کہ کتابت اور شہادت سے انکار نہ کریں اسی طرح ہم تم کو بھی تاکید کرتے ہیں کہ تمہاری طرف سے) کسی کاتب کو تکلیف نہ دی جائے اور نہ کسی گواہ کو (مثلا اپنی مصلحت کے لئے ان کی طرف سے) کسی مصلحت میں خلل ڈالا جائے) اور اگر تم ایسا کرو گے تو اس میں تم کو گناہ ہوگا اور خدا تعالیٰ سے ڈرو (اور جن کاموں سے اس نے منع کیا ہے وہ مت کرو) اور اللہ تعالیٰ (کا تم پر احسان ہے کہ) تم کو (احکام مفیدہ کی) تعلیم فرماتا ہے اور اللہ تعالیٰ سب چیزوں کے جاننے والے ہیں (تو وہ مطیع اور عاصی کو بھی جانتے ہیں ہر ایک کو مناسب جزاء دیں گے) اور اگر تم (دین کا معاملہ کرانے کے وقت) کہیں سفر میں ہو اور (دستاویز لکھنے کے واسطے وہاں) کوئی کاتب نہ پاؤ سو (ایسی حالت میں اطمینان کا ذریعہ) رہن رکھنے کی چیزیں (ہیں) جو مدیون کی طرف سے صاحب حق کے) قبضہ میں دے دیجائیں اور اگر (ایسے وقت میں بھی) ایک دوسرے کا اعتبار کرتا ہو ( اور اس لئے رہن کی ضرورت نہ سمجھے) تو جس شخص کا اعتبار کرلیا گیا ہے (یعنی مدیون) اس کو چاہئے کہ دوسرے کا حق (پورا پورا) ادا کردے اور اللہ تعالیٰ سے جو اس کا پروردگار ہے ڈرے ( اور اس کا حق نہ مارے) اور شہادت کا اخفاء مت کرو اور جو شخص اس کا اخفاء کرے گا اس کا قلب گنہگار ہوگا اور اللہ تعالیٰ تمہارے کئے ہوئے کاموں کو خوب جانتے ہیں (سو اگر کوئی اخفاء کرے گا اللہ تعالیٰ کو اس کا علم ضرور ہے سو وہ سزا دیں گے۔- معارف و مسائل :- قرض اور ادھار کے لئے اقرار نامہ لکھنے کی ہدایت اور متعلقہ احکام :- آیات مذکورہ میں قانون معاملات جن کو آجکل کے قانون میں معاہدات کہا جاتا ہے اس کے اہم اصول کا بیان ہے اور اس کے بعد ضابطہ شہادت کے خاص اصول کا ذکر ہے۔- آجکل تو زمانہ لکھنے لکھانے کا ہے اور تحریر ہی انسان کی زبان کی قائم مقام بن گئی ہے لیکن آپ چودہ سو سال پہلے زمانہ کی طرف مڑ کر دیکھئے تو اس وقت دنیا کا سب کاروبار صرف زبانی ہوتا تھا لکھنے لکھانے اور دستاویز مہیا کرنے کا اصول نہ تھا سب سے پہلے قرآن نے اس طرف توجہ دلائی اور فرمایا :- اِذَا تَدَايَنْتُمْ بِدَيْنٍ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكْتُبُوْهُ یعنی جب تم آپس میں ادھار کا معاملہ کیا کرو کسی معین مدت کے لئے تو اس کو لکھ لیا کرو۔ - اس میں ایک اصول تو یہ بتلا دیا کہ ادھار کے معاملات کی دستاویز لکھنی چاہئے تاکہ بھول چوک یا انکار کے وقت کام آئے۔- دوسرا مسئلہ یہ بیان فرمایا گیا کہ ادھار کا معاملہ جب کیا جائے تو اس کی میعاد ضرور مقرر کی جائے غیر معین مدت کے لئے ادھار دینا لینا جائز نہیں کیونکہ اس سے جھگڑے فساد کا دروازہ کھلتا ہے اسی وجہ سے فقہاء نے فرمایا کہ میعاد بھی ایسی مقرر ہونا چاہئے جس میں کوئی ابہام نہ ہو مہینہ اور تاریخ کے ساتھ معین کی جائے کوئی مبہم میعاد نہ رکھیں، جیسے کھیتی کٹنے کے وقت کیونکہ وہ موسم کے اختلاف سے آگے پیچھے ہوسکتا ہے اور چونکہ لکھنا اس زمانے میں عام نہ تھا اور آج بھی عام ہونے کے بعد دنیا کی بیشتر آبادی وہی ہے جو لکھنا نہیں جانتی تو یہ ممکن تھا کہ لکھنے والا کچھ کا کچھ لکھ دے جس سے کسی کا نفع اور کسی کا نقصان ہوجائے اس لئے اس کے بعد ارشاد فرمایا :- وَلْيَكْتُبْ بَّيْنَكُمْ كَاتِبٌۢ بِالْعَدْلِ یعنی یہ ضروری ہے کہ تمہارے درمیان کوئی لکھنے والا انصاف کے ساتھ لکھے۔- اس میں ایک تو اس طرف ہدایت کی گئی کہ کاتب کسی فریق کا مخصوص آدمی نہ ہو بلکہ غیر جانبدار ہو تاکہ کسی کو شبہ اور خلجان نہ رہے، دوسرے کاتب کو ہداہت کی گئی کہ انصاف کے ساتھ لکھے دوسرے کے فانی نفع کے لئے اپنا دائمی نقصان نہ کرے اس کے بعد کاتب کو اس کی ہدایت کی گئی کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو یہ ہنر دیا ہے کہ وہ لکھ سکتا ہے اس کا شکرانہ یہ ہے کہ وہ لکھنے سے انکار نہ کرے۔- اس کے بعد یہ بتلایا گیا کہ دستاویز کی کتابت کس کی طرف سے ہو تو فرمایا :- وَلْيُمْلِلِ الَّذِيْ عَلَيْهِ الْحَقُّ یعنی لکھوا دے وہ آدمی جس کے ذمہ حق ہے مثلاً سودا خریدا اور قیمت کا ادھار کیا تو جس کے ذمہ ادھار ہے وہ دستاویز کا مضمون لکھوا دے کیونکہ یہ اس کی طرف سے اقرار نامہ ہوگا، اور لکھوانے میں بھی یہ احتمال تھا کہ کوئی کمی بیشی کردے اس لئے فرمایا وَلْيَتَّقِ اللّٰهَ رَبَّهٗ وَلَا يَبْخَسْ مِنْهُ شَـيْــــًٔـا یعنی اللہ تعالیٰ سے جو اس کا پروردگار ہے ڈرتا رہے اور حق کے لکھوانے میں ذرہ برابر کمی نہ کرے معاملات میں کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ جس شخص پر حق عائد ہو وہ خفیف العقل یا سٹھیا ہوا بوڑھا یا نابالغ بچہ یا گونگا ہو یا کوئی دوسری زبان بولنے والا ہو جس کو کاتب نہیں سمجھتا اس لئے دستاویز لکھوانے پر اس کو قدرت نہیں ہوتی اس لئے اس کے بعد فرمایا کہ اگر ایسی صورت پیش آئے تو ان کی طرف سے ان کا ولی لکھوا دے مجنون اور نابالغ کی طرف سے تو ولی کا ہونا ظاہر ہے کہ ان کے سارے معاملات ولی ہی کی معرفت ہوا کرتے ہیں اور گونگے یا دوسری زبان بولنے والے کا ولی بھی یہ کام کرسکتا ہے اور اگر وہ کسی کو اپنا وکیل بنادے تو بھی ہوسکتا ہے۔ قرآن میں اس جگہ لفظ ولی دونوں معنے ٰ پر حاوی ہے۔- ضابطہ شہادت کے چند اہم اصول :- یہاں تک معاملات میں دستاویز لکھنے اور لکھوانے کے اہم اصول کا بیان تھا۔ آگے یہ بتلایا گیا کہ دستاویز کی صرف تحریر کو کافی نہ سمجھیں بلکہ اس پر گواہ بھی بنالیں کہ اگر کسی وقت باہمی نزاع پیش آجائے تو عدالت میں ان گواہوں کی گواہی سے فیصلہ ہوسکے، یہی وجہ ہے کہ فقہاء رحمہم اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ محض تحریر حجت شرعی نہیں جب تک کہ اس پر شہادت شرعی موجود نہ ہو خالی تحریر پر کوئی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا، آج کل کی عام عدالتوں کا بھی یہی دستور ہے کہ تحریر پر زبانی تصدیق و شہادت کے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کرتیں۔- گواہی کے لئے دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتیں ہونا ضروری ہیں :- اس کے بعد ضابطہ شہادت کے چند اہم اصول بتلائے گئے مثلا (١) گواہ دو مرد یا ایک مرد دو عورتیں ہونا ضروری ہیں ایک اکیلا مرد یا صرف دو عورتیں عام معاملات کی گواہی کے لئے کافی نہیں۔- گواہوں کی شرائط :- (٢) دوسرے یہ کہ گواہ مسلمان ہوں، لفظ مِنْ رِّجَالِكُمْ میں اس کی طرف ہدایت کی گئی ہے (٣) تیسرے یہ کہ گواہ ثقہ اور عادل ہوں جن کے قول پر اعتماد کیا جاسکے فاسق وفاجر نہ ہوں مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَاۗءِ میں یہ حکم مذکور ہے۔- گواہی دینے سے بلا عذر شرعی انکار کرنا گناہ ہے :- اس کے بعد لوگوں کو یہ ہدایت کی گئی کہ جب ان کو کسی معاملہ میں گواہ بنانے کے لئے بلایا جائے تو وہ آنے سے انکار نہ کریں کیونکہ شہادت ہی احیائے حق کا ذریعہ اور جھگڑے چکانے کا طریقہ ہے اس لئے اس کو اہم قومی خدمت سمجھ کر تکلیف برداشت کریں اس کے بعد پھر معاملات کی دستاویز لکھنے کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ معاملہ چھوٹا ہو یا بڑا سب کو لکھنا چاہئے اس میں اکتائیں نہیں کیونکہ معاملات کا قلم بند کرلینا انصاف کو قائم رکھنے اور صحیح دینے اور شک وشبہ سے بچنے کے لئے بہترین ذریعہ ہے، ہاں اگر کوئی معاملہ دست بدست ہو ادھار نہ ہو اس کو اگر نہ لکھیں تب بھی کچھ حرج نہیں مگر اتنا اس میں بھی کیا جائے کہ معاملہ پر گواہ بنالیں کہ شاید کسی وقت فریقین میں کوئی نزاع واختلاف پیش آجائے۔ مثلا بائع کہے کہ قیمت وصول نہیں ہوئی یا مشتری کہے کہ مجھے مبیع پوری وصول نہیں ہوئی تو اس جھگڑے کے فیصلہ میں شہادت کام آئے گی۔- اسلام میں عدل و انصاف قائم کرنے کا اہم اصول کہ گواہوں کو کوئی نقصان یا تکلیف نہ پہونچے :- آیت کے شروع میں لکھنے والوں کو یہ ہدایت کی گئی ہے کہ وہ لکھنے یا شاہد بننے سے انکار نہ کریں تو یہاں یہ احتمال تھا کہ لوگ ان کو پریشان کریں گے اس لئے آخر آیت میں فرمایا وَلَا يُضَاۗرَّ كَاتِبٌ وَّلَا شَهِيْدٌ یعنی کسی لکھنے والے یا گواہی دینے والے کو نقصان نہ پہنچایا جائے یعنی ایسا نہ کریں کہ اپنی مصلحت اور فائدہ کے لئے ان کی مصلحت اور فائدہ میں خلل ڈالیں۔ پھر فرمایا وَاِنْ تَفْعَلُوْا فَاِنَّهٗ فُسُوْقٌۢ بِكُمْ یعنی اگر تم نے لکھنے والے یا گواہ کو نقصان پہنچایا تو اس میں تم کو گناہ ہوگا۔- اس سے معلوم ہوا کہ لکھنے والے یا گواہ کو نقصان پہنچانا حرام ہے، اسی لئے فقہاء نے فرمایا کہ اگر لکھنے والا اپنے لکھنے کی مزدوری مانگے یا گواہ اپنی آمد ورفت کا ضروری خرچ طلب کرے تو یہ اس کا حق ہے اس کو ادا نہ کرنا بھی اس کو نقصان پہنچانے میں داخل اور ناجائز ہے، اسلام نے اپنے نظام عدالت میں جس طرح گواہ کو گواہی دینے پر مجبور کیا ہے اور گواہی چھپانے کو سخت گناہ قرار دیا ہے اس طرح اس کا بھی انتظام کیا کہ لوگ گواہی سے بچنے پر مجبور نہ ہوجائیں اسی دو طرفہ احتیاط کا یہ اثر تھا کہ ہر معاملہ میں سچے بےغرض گواہ مل جاتے اور فیصلے جلد اور آسان حق کے مطابق ہوجاتے۔ آج کی دنیا نے اس قرآنی اصول کو نظر انداز کردیا ہے تو سارا نظام عدالت برباد ہوگیا۔ واقعہ کے اصلی اور سچے گواہ ملنا تقریبا مفقود ہوگیا ہر شخص گواہی سے جان چرانے پر مجبور ہوگیا، وجہ یہ کہ جس کا نام گواہی میں آگیا اگر معاملہ پولیس اور فوجداری کا ہے تو روز وقت بےوقت تھانیدار صاحب اس کو بلا بھیجتے ہیں اور بعض اوقات گھنٹوں بٹھائے رکھتے ہیں، دیوانی عدالتوں میں بھی گواہ کے ساتھ ایسا معاملہ کیا جاتا ہے جیسے یہ کوئی مجرم ہے پھر روز روز مقدمہ کی پیشیاں بدلتی ہیں تاریخیں لگتی ہیں گواہ بیچارہ اپنا کاروبار اور مزدوری اور ضروریات چھوڑ کر آنے پر مجبور ہے ورنہ وارنٹ کے ذریعہ گرفتار کیا جائے اس لئے کوئی شریف کاروباری آدمی کسی معاملہ کا گواہ بننا اپنے لئے ایک عذاب سمجھنے اور مقدور بھر اس سے بچنے پر مجبور کردیا گیا صرف پیشہ ور گواہ ملتے ہیں جن کے ہاں جھوٹ سچ میں کوئی امتیاز نہیں ہوتا۔ قرآن حکیم نے ان بنیادی ضروریات کو اہمیت کے ساتھ بتلا کر ان تمام خرابیوں کا انسداد فرمایا۔ آیت کے آخر میں ارشاد ہے واتَّقُوا اللّٰهَ ۭ وَيُعَلِّمُكُمُ اللّٰهُ ۭ وَاللّٰهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ یعنی ڈرو اللہ سے اور اللہ تعالیٰ تمہیں اصول صحیہ کی تعلیم دیتا ہے (یہ اس کا احسان ہے) اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کا جاننے والا ہے چونکہ اس آیت میں بہت سے احکام آئے ہیں بعض فقہاء نے بیس اہم مسائل فقہی اس آیت سے نکالے ہیں اور قرآن کریم کی عام عادت ہے کہ قانون بیان کرنے سے آگے اور پیچھے خوف خدا اور خوف روز جزاء دلا کر لوگوں کے ذہنوں کو تعمیل حکم کے لئے آمادہ کرتا ہے، اسی طریقہ کے مطابق اس آیت کا خاتمہ خوف خداوندی پر کیا اور یہ بتلایا کہ اللہ تعالیٰ پر کوئی چیز چھپی ہوئی نہیں اگر تم کسی ناجائز حیلہ سے بھی کوئی خلاف ورزی کرو گے تو خدا کو دھوکہ نہیں دے سکتے۔- دوسری آیت میں دو اہم مضمون بیان فرمائے گئے۔ ایک یہ کہ ادھار کے معاملہ میں اگر کوئی یہ چاہے کہ اعتماد کے لئے کوئی چیز گروی رکھ لے تو اس کی بھی اجازت ہے، مگر اس میں لفظ مقبوضۃ سے اس طرف اشارہ پایا جاتا ہے کہ شئے مرہونہ سے نفع اٹھانا اس کے لئے جائز نہیں مرتہن کو صرف اتنا حق ہے کہ اپنے قرض وصول ہونے تک اس کی چیز پر اپنا قبضہ رکھے اور منافع اس کے وہ سب اصل مالک کا حق ہیں۔- دوسرا مضمون یہ ارشاد فرمایا کہ جس شخص کو کسی نزاعی معاملہ کا صحیح علم ہو وہ شہادت کو نہ چھپائے اور اگر اس نے چھپایا تو اس کا دل گنہگار ہے، دل کو اس لئے گنہگار فرمایا کہ کوئی شخص اس کو خالی زبان ہی کا گناہ نہ سمجھے کیونکہ اول ارادہ تو دل ہی سے ہوا ہے، اس لئے اول گناہ دل ہی کا ہے۔
-
ادھار لین دین کا بیان - قول باری ہے (یآیھا الذین اٰمنوا اذا تداینتم بدین الیٰ اجل مسمی فاکتبوہ ( ) اے ایمان والو جب کسی مقرر مدت کے لئے تم آپس میں ادھار لین دین کرو تو اسے لکھ لیا کرو)- ابو بکر جصاص کہتے ہیں کہ کچھ لوگوں کا مسلک یہ ہے کہ مقرر مدت کے لئے ادھار لین دین کے متعلق تحریر اور گواہی اس قول باری (فاکتبوہ) ( ) تا قول باری (فاستشھدوا شھیدین من رجالکم ( ) اپنے مردوں میں سے دو گواہ مقرر کرلو) کی بنا پر واجب تھی پھر یہ وجوب اس قول باری (فان امن بعضکم بعضا فلیود الذی ائوتمن امانتہ۔ ( ) اگر تم میں سے کوئی شخص دوسرے پر بھروسہ کرکے اس کے ساتھ کوئی معاملہ کرے تو جس پر بھروسہ کیا گیا ہے اسے چاہیے کہ امانت ادا کردے)- یہ تفسیر حضرت ابو سعید خدری (رض) ، شعبی، حسن بصری وغیرہم سے مروی ہے۔ بعض دوسروں کا قول ہے کہ یہ آیت منسوخ نہیں ہوئی بلکہ محکم یعنی غیر منسوخ ہے۔ عاصم احول اور دائود بن ابی ہند نے عکرمہ سے روایت کی ہے کہ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا تھا کہ : ” خدا کی قسم قرض کی آیت محکم ہے اور اس کا کوئی حصہ منسوخ نہیں ہوا۔ “- شعبہ نے فراس سے، انہوں نے شعبی سے، انہوں نے ابو بردہ سے، انہوں نے حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) سے روایت کی ہے۔ آپ نے فرمایا : تین آدمی ایسے ہیں جو اللہ سے فریاد کرتے ہیں مگر ان کی فریاد سنی نہیں جاتی ایک وہ شخص جس کی بیوی بدخلق ہو اور وہ اسے طلاق نہ دے، دوسرا وہ شخص جو یتیم کے بالغ ہونے سے پہلے اس کا مال اس کے حوالے کردے۔- حالانکہ قول باری ہے (ولا توتوا السفھاء اموالکم۔ ( ) تم بیوقوفوں کو اپنا مال نہ دو ) تیسرا وہ شخص جو کسی کو اپنا ماض قرض دے اور اس پر گواہ نہ بنائے۔ “- ابو بکر جصاص کہتے ہیں کہ یہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مرفوعاً بھی مروی ہے۔ جویبر نے ضحاک سے روایت کی کہ ایسے شخص کا حق اگر ضائع ہوجائے تو اس پر اسے اجر نہیں ملے گا۔ اور اگر یہ حق مار لینے والے کے خلاف بددعا بھی کرے گا تو اس کی بددعا قبول نہیں ہوگی کیونکہ یہ اللہ کے حق کے ترک کا مرتکب ہوا ہے اور اس نے اس کے حکم کی پرواہ نہیں کی ہے۔- سعید بن جبیر کا قول ہے کہ (واشھدو اذاتیایعتم ( ) اور تجارتی معاملے طے کرتے وقت گواہ کرلیا کرو) یعنی اپنے حقوق پر گواہ کرلیا کرو جبکہ ان کی ادائیگی کے لئے مدت مقرر کی گئی ہو یا مدت مقرر نہ کی گئی ہو۔ بہرحال تمہیں ہر حال میں اپنے حقوق پر گواہ کرلینے چاہئیں۔ ابن جریج کہتے ہیں کہ کسی شخص نے عطاء بن ابی رباح سے پوچھا کہ اگر کوئی شخص آدھے درہم کے بدلے کوئی چیز خریدے تو اس پر بھی گواہی قائم کرے۔- عطاء نے اثبات میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ قول باری (واشھدوا اذا تایعتم) ( ) کی یہی تفسیر ہے۔ مغیرہ نے ابراہیم نخعی سے روایت کی ہے کہ ایک مٹھے سبزی کے سودے پر بھی گواہ بنائے۔ حسن بصری اور شعبی سے مروی ہے کہ اگر چاہے تو گواہ کرلے اور اگر چاہے تو نہ کرے کیونکہ قول باری ہے (فان امن بعضکم بعضاً ) ( ) - لیث نے مجاہد سے روایت کی ہے کہ حضرت ابن عمر (رض) جب کوئی چیز فروخت کرتے تو گواہ بنالیتے لیکن تحریر نہ کرتے۔ یہ اس پر دالی ہے کہ حضرت ابن عمر (رض) اسے مستحب سمجھتے تھے کیونکہ اگر اسے واجب سمجھتے تو گواہی کے ساتھ ساتھ تحریر بھی ضروری ہوتی اس لئے کہ آیت میں ان دونوں باتوں کا حکم دیا گیا ہو۔- ابو بکر جصاص کہتے ہیں کہ آیت (فاکتبوہ) ( ) تا آیت (واستشھدوا شھیدین من رجالکم) نیز قول باری (واشھدوا اذا تبایعتم) ( ) یا تو اپنے نزول کے وقت سے ہی مقرر مدت کے لئے ادھار یعنی دین پر گواہی اور تحریر دونوں کو واجب کرتی تھیں۔ پھر ان کا یہ حکم ثابت اور مستقر رہا یہاں تک کہ ان کے وجوب کا نسخ قول باری (فان امن بعضکم بعضاً فلیود الذی ائوتمن امانتہ) ( ) کی صورت میں وارد ہوگیا یا یہ کہ وجوب کا حکم اور اس کا نسخ دونوں کا نزول ایک ساتھ ہوگیا۔- اگر دوسری بات ہو تو اس صورت میں یہ درست نہیں ہوگا کہ تحریر اور گواہی سے ان کا وجوب مراد لیا جائے کیونکہ ایک ہی چیز کے متعلق ناسخ اور منسوخ دونوں کا اکٹھے ورود ممتنع ہے اس لئے کہ جب تک ایک حکم اسقرار نہ پکڑلے یعنی لوگوں کو اس پر عمل کرنے کا موقعہ نہ مل جائے اس وقت تک اس کا نسخ جائز نہیں ہوتا۔- اب جبکہ ہمارے پاس ان دونوں آیتوں (واشھدوا اذا تبایعتم) ( ) اور فان امن بعضکم بعضاً ) ( ) میں مندرج دونوں حکموں کے نزول کی تاریخوں کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ تو یہ ضروری ہوگا کہ ہم ان کے اکٹھے نزول کا حکم عائد کردیں۔ یعنی تحریر اور گواہی کا حکم اس حکم (فان امن بعضکم بعضا فلیودالذی ائوتمن امانتہ) ( ) کے مقرون نازل ہوا۔ جس سے یہ ثابت ہوگیا کہ کت اور شہادت کا حکم مسحب ہے واجب نہیں ہے۔- حضرت ابن عباس (رض) سے جو یہ مروی ہے کہ ” آیۃ الدین “ ( ) (زیر بحث آیت جس میں ادھار لین دین کا ذکر ہے) محکمہ ہے یعنی اس کا کوئی حصہ منسوخ نہیں ہوا تو اس روایت کی اس پر کوئی دلالت نہیں ہے کہ حضرت ابن عباس (رض) گواہ قائم کرنے کو واجب سمجھتے تھے۔ کیونکہ اس میں یہ گنجائش ہے کہ آپ کی مراد یہ ہو کہ یہ سب کی سب ایک ساتھ نازل ہوئیں اس طرح ترتیب تلاوت میں وہ بات موجود ہے جو گواہ مقرر کرنے کو مستحب قرار دیتی ہے۔ اور وہ بات اس قول باری کی صورت میں د ہے (واشھدوا اذا تبایعتم) ( ) ۔- حضرت ابن عمر (رض) سے یہ روایت ہے کہ آپ گواہ کرلیا کرتے تھے اور ابراہیم نخعی اور عطاء بن ابی رباح سے یہ روایت کہ وہ تھوڑی سی چیز کے سودے پر بھی گواہ کرلیتے تھے۔ ہمارے نزدیک اس پر محمول ہے کہ وہ اسے مستحب سمجھتے تھے۔ واجب نہیں قرار دیتے تھے۔ حضرت ابو موسیٰ (رض) سے تین شخصوں کی فریاد کی عدم قبولیت کے متعلق، جن میں سے ایک وہ ہے جس کا کسی پر قرض ہو لیکن اس نے کسی کو گواہ نہ بنایا ہو، جو روایت ہے تو اس میں یہ دلالت موجود نہیں ہے کہ آپ اسے واجب سمجھتے ہیں۔- آپ نہیں دیکھتے کہ اس روایت میں ایسے شخص کا بھی ذکر ہے جس کی بیوی بڑی بدخلق ہو اور وہ اسے طلاق نہ دے جبکہ اہل علم کے درمیان اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ شوہر پر اپنی بداخلاق بیوی کو طلاق دے دینا واجب نہیں ہے ۔ حضرت ابو موسیٰ (رض) کا یہ قول اس معنی پر محمول ہے کہ ایسا شخص دراصل احتیاط کو نظرا نداز کرنے والا اور اللہ تعالیٰ نے اس کی گلو خلاصی کے لئے جو سبیل مقرر کی ہے وہ اس تک پہنچنے میں کوتاہی کا مرتکب ہے۔- فقہاء امصار میں اس پر کوئی اختلاف نہیں ہے کہ آیت زیر بحث میں تحریر، گواہی اور رہن سے متعلقہ حکم دراصل اس راستے کو اختیار کرنے کی ترغیب اور اس کی طرف رہنمائی ہے جس میں ہمارے لئے بھلائی اور ہماری شرکت موجود ہے۔ نیز جس میں ہمارے دین اور دنیا دونوں کے لحاظ سے احتیاطی پہلو بھی واضح ہے۔ تاہم ان میں سے کوئی چیز بھی واجب نہیں ہے۔- امت نے سلف سے لے کر خلف تک یہ نقل کی ہے کہ مسلمانوں کے شہروں میں ادھار سودے، مشروبات کی تجارت اور خریدو فروخت کے سودے ہوتے رہے لیکن گواہیاں قائم نہیں کی جاتیں۔ دوسری طرف ان شہروں میں رہنے والے فقہاء کو بھی اس کا علم ہوتا لیکن ان کی طرف سے اس طرز عمل کے خلاف نہ کوئی آواز اٹھتی اور نہ کوئی تنقید ہوتی۔ اگر گواہی قائم کرنا واجب ہوتا تو فقہاء اس کے ترک پر لوگوں کے خلاف ضرور آواز بلند کرتے۔- یہ بات اس پر دال ہے کہ فقہاء کے نزدیک یہ چیز مندوب یعنی مستحب تھی۔ یہ بات حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے سے آج تک منقول چلی آرہی ہے۔ اگر صحابہ کرام اور تابعین عظام اپنے سودوں اور مشروبات وغیرہ کی تجارت کے معاملات پر گواہ مقرر کرتے تو اس سلسلے میں تواتر کی حد تک روایات منقول ہوتیں اور اس طرح گواہی قائم نہ کرنے والے پر بھرپور تنقید ہوتی۔- اب جبکہ ان حضرات سے بکثرت روایات کے ذریعے گواہی قائم کرنا ثابت نہیں اور نہ ہی اس امر کے تارک پر ان کی تنقید موجود ہے تو اس سے یہ ثابت ہوا کہ مدانیت کے عقود اور خریدو فروخت کی صورتوں میں تحریر اور گواہی واجب نہیں ہیں اور قول باری (فاکتبوہ) ( ) کا خطاب ان لوگوں کی طرف ہے جن کا آیت کے شروع میں ان الفاظ میں ذکر ہوا ہے (یآ یھا الذین امنوا اذا تداینتم بدین) ( ) گویا یہ حکم متداینین یعنی ادھار لین دین کرنے والوں کے لئے ہے۔- اگر یہ کہا جائے کہ پھر قول باری (بدین) ( ) کی کیا وجہ تاویل ہے جبکہ تداین دین کے بغیر نہیں ہوتا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ لفظ (بدین) ( ) کا ذکر اس لئے کیا گیا ہے کہ قول باری (تداینتم) ( ) ایک مشترک لفظ ہے جس میں یہ احتمال ہے کہ لفظ دین بمعنی جزا یعنی بدلہ سے ماخوذ ہو جس طرح کہ قول باری ہے (مالک یوم الدین) ( ) یعنی یوم الجزاء (بدلے کے دن کا مالک ہے) اس میں لفظ (تداینتم) ( ) بمعنی تجازیتم ( ) (ایک دوسرے کو جب بدلہ دو ) ہوگا۔- اللہ تعالیٰ نے اپنے قول (بدین) ( ) کے ذریعے اس لفظی اشتراک کو دور کردیا اور اسے ادھار لین دین میں منحصر کردیا۔ اس میں یہ تاویل بھی ممکن ہے کہ لفظ (بدین) ( ) تاکید کے طور پر بیان ہوا ہے اور اس کا مقصد اس معنی کو لوگوں کے ذہن نشین کرنا ہے۔- قول باری (اذا تداینتم بدین الی اجل مسمی) ( ) ادھار لین دین کے ان تمام عقود پر مشتمل ہے جن میں مدت مقرر کرنا درست معلوم ہوتا ہے تاہم اس میں ایسی کوئی دلالت موجود نہیں ہے جس سے تمام دیون میں تاجیل کے جواز کا ثبوت ملتا ہو کیونکہ آیت میں تمام دیون کے اندر تاجیل کے جواز کا بیان نہیں ہے اس میں تو صرف موجل دین کی صورت میں گواہ مقرر کرنے کا حکم ہے۔ دین میں تاجیل کے جواز اور امتناع کے ثبوت کے لئے کسی اور دلالت کی ضرورت ہے۔- آپ نہیں دیکھتے کہ آیت دین کے بدلے دین پر اجل یعنی مدت کے دخول کی متقاضی نہیں ہے کہ پھر اس طرح یہ دونوں دین یعنی مبیع اور ثمن موجل بن جائیں۔ اس کی حیثیت بعینہ وہی ہے جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس قول کی ہے کہ (من اسلم فیسلم فی کیل معلوم ووزن معلوم الی اجل معلوم۔ ( ) جو شخص بیع سلم کرنا چاہے تو وہ معلوم کیل اور معلوم وزن میں معلوم مدت تک سلم کرلے) ۔- اس قول میں تمام مکیلات اور موزونات میں معلوم مدتوں تک بیع مسلم کرنے کے جواز پر کوئی دلالت موجود نہیں ہے۔ بلکہ یہاں ایسے مکیل اور موزون ہیں جس کی جنس، نوعیت اور صفت معلوم ہو۔ بیع سلم کے جواز کا ثبوت کسی اور دلالت کے ذریعہ مہیا کیا جائے گا اور جب سلم کی کسی صورت میں یہ ثابت ہوجائے کہ اس میں بیع سلم درست ہے تو اس کے بعد ہمیں ضرورت ہوگی کہ ہم ایک معلوم مدت کے لئے اس میں بیع سلم کرلیں۔- اور جس طرح آیت ادھار والے عقود کے جواز پر دلالت کرتی ہے اور اس کے عموم سے ادھار والے تمام عقود کی اجازت پر استدلال نہیں ہوسکتا کیونکہ آیت میں تو عقد مدانیت کی صحت کی صورت میں صرف گواہ مقرر کرنے کا حکم ہے اسی طرح آیت تمام دیون میں اجل کی شرط کے جواز پر دلالت نہیں کرتی اس میں صرف گواہ مقرر کرنے کا حکم ہے۔ جب قرض کا معاملہ اور اس میں مدت مقرر کرنا دونوں درست ہوں۔- بعض لوگوں نے آیت سے قرض میں تاجیل کے جواز پر استدلال کیا ہے کیونکہ آیت نے قرض اور ادھار کے دوسرے تمام لین دین والے عقود میں کوئی فرق نہیں کیا ہے اور ہمیں یہ معلوم ہے کہ دین کا اسم قرض کو بھی شامل ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ہمارے نزدیک یہ بات اس طرح نہیں جیسا کہ مذکورہ بالا استدلال میں بیان ہوئی۔ کیونکہ آیت میں ہر دین کے جواز اور تمام دیون میں تاجیل کے جواز کی کوئی دلالت نہیں ہے۔- بلکہ اس میں ایسے ادھار پر گواہی قائم کرنے کا حکم ہے جس میں تاجیل یعنی مدت کا تقرر ثابت ہوچکا ہو۔ اس لئے کہ اس سے ایسے دیون پر گواہ قائم کرنے کا مفہوم مراد لینا محال ہے جو ثابت نہیں ہوئے اور نہ ہی ان کی مدتیں ثابت ہوئیں۔ اس لئے آیت سے یہ مراد لینا واجب ہے۔ ” لوگو جب تم آپس میں ادھار کا معاملہ کرو جس میں مدت کا تقرر ثابت ہوچکا ہو تو اسے قید تحریر میں لے آئو۔ “ اس لئے آیت سے قرض میں تاجیل کے جواز پر استدلال کرنے والا دراصل اپنے استدلال میں غفلت اور کوتاہ اندیشی کا شکار ہے۔- قول باری (اذا تداینتم بدین) ( ) ادھار کے معاملہ کا متقاضی ہے اور قرض ایسا عقد نہیں ہے جو مدانیت یعنی ادھار لین دین کے ضمن میں آئے کیونکہ قرض صرف عقد کی بنا پر قبضہ کے بغیر دین نہیں بنتا اس لئے ضروری ہے کہ قرض عقد مدانیت سے خارج ہو اس طرح یہ قول باری اس پر دال ہے کہ قرض عقد مدانیت میں داخل نہیں ہے۔- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ قول باری (اذا تداینتم بدین الیٰ اجل مسمی) ( ) ہر اس دین پر مشتمل ہے جس کا ثبوت ہو اور جس میں مدت کا تقرر ہو خواہ اس کا بدل عین یعنی نقد ہو یا دین یعنی ادھار۔ اس لئے جس شخص نے کوئی مکان یا غلام ایک ہزار درہم ادھار میں ایک مقرر مدت کے لئے خریدا تو وہ آیت کے مقتضیٰ کے تحت تحریر لکھنے اور گواہ قائم کرنے پر مامور ہوگا۔- آیت کی اس پر بھی دلالت ہے کہ اس کا حکم اس دین تک محدود ہے جس میں دو یعنی مبیع اور ثمن کی جگہ لینے والوں میں سے ایک بدل میں، نہ کو دونوں میں، مدت کا تعین و تقرر کیا گیا ہو۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا (اذا تداینتم بدین الی اجل مسمی) ( ) یہ نہیں فرمایا کہ ” تداینتم بدینین ( ) (جب تم دو ادھاروں کا معاملہ کرو) یہ فرماکر اللہ تعالیٰ نے دونوں بدل یعنی مبیع اور ثمن میں سے ایک کے اندر اجل یعنی مدت کو ثابت کردیا۔ اس لیے دونوں بدل میں اجل کا وجود جائز نہیں رہا۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دین کے بدلے دین کے سودے سے منع فرمایا ہے (یعنی ایسا سودا جس میں مبیع اور ثمن دونوں ادھار ہوں۔ کوئی عین یعنی نقد نہ ہو) لیکن اگر عقد میں دونوں بدل یعنی مبیع اور ثمن ادھار ہوں تو یہ صورت بیع سلم اور بیع صرف یعنی سونے چاندی کی بیع میں جائز ہے لیکن اس کا جواز صرف مجلس عقد تک محدود ہے (یعنی مجلس عقد کے اختتام سے پہلے پہلے دونوں بدل میں سے ایک کا عین یعنی نقد کی صورت میں وجود میں آجانا ضروری ہے)- اس میں کوئی امتناع نہیں کہ آیت میں بیع سلم مراد ہو اس لئے کہ سلم میں دونوں بدل میں سے ایک کے اندر تاجیل یعنی مدت کا تعین و تقرر ہوتا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ نے ایسے ادھار لین دین پر گواہ مقرر کرنے کا حکم دیا ہے جو کسی موجل دین کا موجب ہو، اسی کا نام بیع سلم ہے۔ قتادہ نے ابو حسان سے ، انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں گواہی دیتا ہوں کہ بیع سلم جس میں مدت کا تعین ہوتا ہے کتاب اللہ میں مذکور ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے اپنی کتاب میں طویل ترین آیت نازل کی ہے۔- (یآ یھا الذین اٰمنوا اذا تداینتم بدین الی اجل مسمی فاکتبوہ) ( ) حضرت ابن عباس (رض) نے بتادیا کہ موجل بیل سلم آیت کے عموم کے تحت موجود ہے۔ اس بنا پر ہر ایسا دین جس کا ثبوت موجود ہو اور جس میں مدت کا تعین ہو وہ آیت میں مراد ہے خواہ وہ منافع یا اعیان کے بدل کی صورت میں ہو مثلاً اجارے کے عقود میں موجل اجرت اور مہر نوجل، اسی طرح خلع اور قتل عمد میں صلح اور غلام کو مکاتب بنادینا جس میں مکاتب بنانے کے بدل کے طور پر غلام کی طرف سے ادا کی جانے والی رقم موجل ہو اس لئے کہ درج بالا تمام صورتیں موجل دیون کی شکلیں ہیں جو ادھار لین دین کے تحت کی گئی ہیں۔- اور ہم نے یہ بیان کردیا ہے کہ زیر بحث آیت اس حکم کا تقاضا اس صورت میں کرتی ہے جبکہ ایک بدل (مبیع یا ثمن) موجل ہو۔ دونوں بدل کے موجل ہونے کی صورت میں اس حکم کا تقاضا نہیں کرتی۔ اس لئے کہ قول باری ہے (اذا تداینتم بدین الی اجل) ( ) اس لئے جو عقد بھی اس آیت کے تحت آئے گا یہ وہ عقد ہوگا جس کے نتیجے میں موجل دین ثابت ہوجائے۔- آیت نے اس میں فرق نہیں کیا کہ یہ دین منافع یا اعیان کا بدل ہو۔ اس لئے ضروری ہوگیا کہ اس عقد کو ضبط تحریر میں لانے اور گواہ قائم کرنے کی تمام ترغیبات میں اس قسم کے تمام عقود مراد ہوں اور گواہوں کی تعداد اور گواہی کے اوصاف کا جو ذکر ہوا ہے ان سب کا ان تمام عقود میں اعتبار کیا جائے۔ کیونکہ لفظ میں ایسی کوئی بات نہیں ہے جس سے ان عقود کی کسی خاص صوت کی تخفیص ہو اور دوسری صورت کی نہ ہو۔ یہ چیز اس بات کو ضروری کردیتی ہے کہ نکاح میں ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی قائم کی جائے جبکہ مہر موجل دین کی صورت میں ہو۔- اسی طرح خلع، قتل عمد پر صلح اور تمام ایسے عقود جو اسی قسم کے ہوں ان کا حکم بھی یہی ہو یہ بات درست نہیں ہے کہ ان احکام کو دیون موجلہ کی بعض صورتوں تک محدود کردیا جائے اور دوسری صورتوں کو ان میں شامل نہ کیا جائے جبکہ آیت ان تمام صورتوں کو شامل ہے۔- قول باری (الی اجل مسمی) ( ) کا معنی معلوم مدت ہے۔ سلف کی ایک جماعت سے ہی مروی ہے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے (من اسلم فلیسم فی کیل معلوم و وزن معلوم الی اجل معاوم ( ) جو شخص بیع سلم کرنا چاہے وہ معلوم کیل، معلوم وزن اور معلوم مدت تک سلم کرے)- قرض لینا دینا لکھا جائے - قول باری ہے (ولیکتب بینکم کاتب بالعدل ( ) اور تمہارے درمیان دستاویز لکھنے والا انصاف کے ساتھ ) اس میں اس شخص کے لئے حکم ہے جو لوگوں کے درمیان دستاویزات لکھتا ہے کہ وہ انہیں لوگوں کے درمیان انصاف کرتے ہوئے لکھے۔ یہ تحریر اگرچہ حتمی چیز نہیں ہوتی تاہم اس کا طریقہ یہ ہے کہ جب یہ لکھی جائے تو لکھنے والا اسے پورے انصاف ، احتیاط اور ان امور کے متعق پوری تسلیم کرلینے کے بعد لکھے جن کی خاطر یہ تحریر لکھی جارہی ہے وہ اس طرح کہ اس میں تحریر شدہ شرط درست ہو اور شرعی لحاظ سے جائز اور تقاضائے شریعت کے مطابق ہو۔- وہ اس دستاویز میں ایسی عبارت آرائی سے پرہیز کرے جس میں کئی معانی کا احتمال ہو اسی طرح مشترک الفاظ کے استعمال سے گریز کرے اور معانی کو ایسے الفاظ کے ذریعے ذہن نشین کرانے کی کوشش کرے جو واضح اور احتمال و اشتراک سے مبرا ہوں اسی طرح وہ حتی الامکان فقہاء کے خلاف جانے سے گریز کرے تاکہ عقد مدانیت کرنے والوں کے دلوں میں اعتماد اور احتیاط پیدا ہوجائے جن کا اس آیت میں حکم دیا گیا ہے۔- اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے حکم تحریر دینے کے فوراً بعد یہ فرمایا (ولا یاب کاتب ان یکتب کما علمہ اللہ۔ ( ) اور لکھنے والا اس طرح لکھنے سے انکار نہ کرے جس طرح اللہ تعالیٰ نے اسے سکھایا ہے) یعنی ۔۔۔ واللہ اعلم ۔۔۔ اللہ تعالیٰ نے عقود صحیحہ اور ادھار لین دین کی جائز اور ثابت صورتوں کے جو احکام بیان کئے ہیں ان کے مطابق دستاویز تیار کرنے سے انکار نہ کرے۔ تاکہ ادھار لین دین کرنے والے طرفین میں سے ہر ایک نے اس سودے کی تصحیح کا جو ارادہ کیا ہے وہ پورا ہوجائے۔- کیونکہ دستاویز لکھنے والا اگر ان احکامات سے ناواقف ہوگا تو وہ ایسی تحریر لکھنے سے محفوظ نہیں رہ سکے گا جس کی بنا پر متعاقدین کا نہ صرف مطلوب و مقصود فاسد ہوجائے بلکہ ان کا ایک ہوا عقد بھی باطل ہوجائے۔ اگرچہ کوئی حتمی چیز نہیں ہوتی بلکہ یہ ایک مستحب صورت ہے اور اس میں محتاط طریقے کی طرف رہنمائی ہوتی ہے پھر بھی اگر یہ لکھی جائے تو ضروری ہے کہ اس طریقے اور شرط پر لکھی جائے۔- اس کی مثال یہ قول باری ہے (یآ یھا الذین اٰمنوا اذا قمتم الی الصلوٰۃ فاغسلوا وجوھکم وایدیکم الی المرافق۔ ( ) اے ایمان والو جب تم نماز کے لئے کھڑے ہو تو اپنے چہروں کو اور اپنے ہاتھ کہنیوں تک دھولیا کرو) یہ آیت فرض اور نفلی دونوں قسم کی نمازوں کو شامل ہے۔ یہ بات تو معلوم ہے کہ نفل نماز واجب نہیں ہوتی لیکن جب کوئی شخص اس کی ادائیگی کا ارادہ کرے گا تو حدیث کی صورت میں نماز کی تمام شرطوں یعنی طہارت اور دوسرے تمام ارکان کو پورا کرنے کے ساتھ اس کی ادائیگی کرسکے گا یا جس طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بیع سلم کے متعلق ارشاد ہے : (من اسلم فلیسلم فی کیل معلوم ووزن معلوم الی اجل معلوم) ۔ ( ) - اب بیع سلم واجب نہیں ہے لیکن اگر کوئی شخص بیع سلم کرنا چاہے تو اس پر ان شرائط کو پورا کرنا واجب ہوگا۔ اسی طرح دین کے سلسلے میں دستاویز کی تحریر و تیاری اور گواہوں کا قیام واجب نہیں ہیں لیکن اگر یہ دستاویز لکھی جائے تو لکھنے والے کے لئے ضروری ہے کہ وہ اسے اس طریقے پر لکھے جس پر لکھنے کا اللہ تعالیٰ نے اسے حکم دیا ہے۔ نیز اس کی صحت کی تمام شرطیں پوری کرے تاکہ اس کی اس تحریر سے اصلی مقصد حاصل ہوسکے۔- لکھنے والے پر اس دستاویز کا لکھنا لازم ہے یا نہیں اس بارے میں سلف کے درمیان اختلاف رائے ہے۔ شعبی سے مروی ہے کہ جہاد کی طرح یہ بھی واجب علی الکفایہ ہے یعنی اگر کوئی لکھنے والا یہ لکھ دے تو باقی ماندہ کے تبین سے اس کی ذمہ داری ختم ہوجائے گی۔ سدی کا قول ہے کہ اگر کاتب فارغ ہو تو اس پر لکھنا واجب ہوگا۔ عطاء اور مجاہد کا قول ہے کہ یہ واجب ہے۔ ضحاک کا قول ہے کہ اس حکم کو قول باری (ولا یضار کاتب ولا شھید ( ) کاتب اور گواہ کو ضرر نہ پہنچایا جائے) نے منسوخ کردیا ہے۔- ابو بکر جصاص کہتے ہیں کہ ہم نے بیان کردیا ہے کہ عقد مدانیت کرنے والوں پر بنیادی طور پر دستاویز کی تحریر واجب نہیں ہے تو یہ ایک اجنبی اور غیر متعلق شخص پر کیسے واجب ہوسکتی ہے جس کا اس عقد میں اپنا کوئی کردار نہیں ہے اور نہ کوئی تعلق ہے۔ ہوسکتا ہے کہ جو شخص اس کی کتابت کو واجب سمجھتا ہے اس کا مسلک یہ ہو کہ بنیادی طور پر تحریر واجب ہے اسی طرح جو شخص اچھی تحریر کا مالک ہو اس پر بھی اس کے نزدیک یہ واجب ہو۔- ہمارے نزدیک اگرچہ بنیادی طور پر یہ واجب نہیں تاہم عقد مدانیت کرنے والے اگر کتابت کے ذریعے اس امر کو پختہ کرنے کا مستحب عمل کرنا چاہیں اور انہیں اس کا علم نہ ہو تو پھر اس کے جاننے والے کا فرض بنتا ہے کہ وہ اسے ان کے لئے واضح کردے۔ اس کے لئے اسے تحریر میں لانا ضروری نہیں ہے لیکن اسے چاہے کہ عاقدین کے سامنے اس کی اس طرح وضاحت کردے کہ وہ خود لکھ لیں یا خود اجرت لے کر یا فی سبیل اللہ ان کو لکھ کر دے دے یا کسی سے لکھوادے۔- جس طرح کہ کوئی شخص نفلی روزہ رکھنا چاہے یا نفل نماز پڑھنا چاہے اور ان کے احکام کا علم نہ ہو تو ان کا علم رکھنے والے کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ سائل کو ان احکام سے واقف کردے اگرچہ یہ روزہ یا نماز فرض نہیں ہے تاہم علماء کا فرض ہے کہ جس طرح وہ فرائض کو بیان کرتے ہیں اسی طرح اگر کوئی ان سے نفلی عبادادت کے متعلق پوچھے تو وہ سائل کو ان کی وضاحت کردیں۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بھی نوافل اور مستحبات کا بیان اسی طرح فرض تھا جس طرح فرائض کا بیان : قول باری (یآ یھا الرسول بلغ ما انزل الیک من ربک ( ) اے رسول آپ پر آپ کے رب کی طرف سے جو کچھ نازل ہوا اسے بندوں تک پہنچا دیجئے) اسی طرح ارشاد باری (لتبین للناس ما ننزل الیھم۔ ( ) تاکہ آپ لوگوں سے وہ تمام باتیں بیان کردیں جو ان کے لئے نازل کی گئی ہیں) اللہ تعالیٰ نے آپ جو کچھ نازل فرمایا اس میں نوافل کے احکام بھی تھے اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر امت کے لئے ان کا بیان بھی واجب تھا۔- جس طرح کہ فرائض کا بیان واجب تھا۔ پھر امت نے اپنے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مستحبات کا بیان بھی اسی طرح نقل کیا جس طرح فرائض کا بیان، اس صورت حال کے پیش نظر جس شخص کو کسی نفل یا فرض کا علم ہو اور پھر اس کے اس بارے میں پوچھاجائے تو اس پر اس کا بیان کردینا فرض قرار پائے گا۔- چنانچہ ارشاد باری ہے ( واذا خذ اللہ میثاق الذین اوتو الکتباب لتبینتہ للناس ولا تکتمونہ فنبذہ وراء ظھورھم اور جب اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں سے پختہ وعدہ لیا جنہیں کتاب دی گئی تھی کہ تم اسے ضرور لوگوں کے سامنے بیان کرو گے اور اسے چھپائو گے نہیں پھر انہوں نے اسے اپنی پشت کے نیچے پھینک دیا۔- مسئلے بتانے سے گریز، ناز جہنم کا باعث ہے - اسی طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قول ہے ( من سئل عن علم فکتمہ الجم یوم القیمۃ بلجام من نار جس شخص سے کسی علم یعنی مسئلے کے متعلق پوچھا جائے اور وہ اسے چھپا جائے تو قیامت کے دن اس کے منہ میں لگام ڈالی جائے گی) اس بنا پر جس شخص کو دستاویز نویسی اور اس کی شرائط کا علم ہو اس پر اس کا بیان مسائل کے لیے اسی طرح لازم ہے جس طرح دین اور شریعت کے تمام علوم کا یہ بات لوگوں کے فرض علی الکفایہ کے طورپر لازم ہے کہ اگر ایک آدمی اسے سرانجام دے دے گا تو باقی لوگوں سے اس کا لزوم ساقط ہوجائے گا۔- رہی یہ بات کہ اپنے ہاتھ سے اس کی تحریم لازم ہو تو مجھے یہ نہیں معلوم کہ کوئی اہل علم اس کا قائل ہے۔ ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ اگر کوئی لکھنے والا موجود نہ ہو تو ایسی صورت میں کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ جسے تحریر آتی ہو وہ اسے اپنے ہاتھ سے لکھے اور اس کا لکھنا اس پر لازم ہے۔ اگر لکھنے والے پر ہر صورت میں لکھنا فرض ہوتا تو پھر تحریر کے لیے اجرت پر کسی کو رکھ لینا جائز نہ ہوتا کیونکہ فرض کی ادائیگی کے لیے اجرت پر کسی کو رکھنا باطل ہے اور ایسا کرنا درست نہیں ہوتا۔ اب جبکہ فقہاء کا اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ دستاویز کی تحریر کی اجرت لینا جائز ہے تو یہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ اس کا لکھنا تو فرض علی الکفایہ ہے اور نہ ہی فرض علی التعین ۔- قول باری ہے ( ولا یاب کاتب ان یکتب کما علمہ اللہ) اس میں کاتب کو عدل اور انصاف کے خلاف لکھنے سے منع کردیا گیا ہے اور یہ ممانعت و جوب کے طورپر ہوگی۔ اگر اس سے مراد ایسی تحریر ہے جو اس صورت کے خلاف ہو جسے احکام شرع واجب کرتے ہیں جس طرح کہ آپ یہ کہیں۔” طہارت اور ستر پوشی کے بغیر نفل نہ پڑھو “۔ اس فقرے میں نہ تو نفل نماز کی ادائیگی کا حکم ہے اور نہ ہی اس کی ادائیگی سے مطلقاً نہی ہے بلکہ اس میں نماز کی شرائط کے بغیر جو ادائے صلوۃ کے لیے ضروری ہیں، ادائیگی سے نہی ہے۔- اسی طرح قول باری ( ولا یاب کاتب ان یکتب کما علمہ اللہ فلیکتب) میں جائز طریقے سے ہٹ کر کتابت کی نہی ہے کیونکہ بنیادی طور پر اس کی کتابت واجب نہیں ہے۔ آپ نہیں دیکھتے ک کسی قائل کا یہ کہنا کہ ” طہارت اور ستر پوشی کے ساتھ نفل نماز ادا کرنے سے انکار نہ کرو “۔ اس میں نفل نماز کو مخاطب پر واجب کرنے والی کوئی بات نہیں ہے ٹھیک اسی طرح دستاویز کی تحریر کا بھی معاملہ ہے۔- قول باری ہے ( ولیملل الذی علیہ الحق ولیتق اللہ ربہ ولا یبخس منہ شیئاً اور املا وہ شخص کرائے جس پر حق آتا ہے ( یعنی قرض لینے والا) اور اسے اللہ، اپنے رب سے ڈرنا چاہیے کہ جو معاملہ طے ہو اس میں کوئی کمی بیشی نہ کرے) اس میں اس شخص کے اقرار کا اثبات ہے جس پر حق آتا ہے اور جس چیز کا اس نے اقرار کیا ہے اسکی سند جواز ہے نیز اس پر اسے لازم کرنا ہے کیونکہ اگر اقرار کی صورت میں اس کے اقرار کا جواز نہ ہوتا تو پھر اس کا املاء یعنی دستاویز لکھوانا دوسرے کسی انسان کے املاء کے مقابلے میں اولیٰ نہ ہوتا۔- یہ اس بات کو متضمن ہے کہ جو شخص اپنے اوپر کسی حق کا اقرار کرلے اس کا یہ اقرار درست اور جائز ہوگا۔ قول باری (ولیتق اللہ ربہ ولا یبخس منہ شیئاً ) اس پر دلالت کرتا ہے کہ جو شخص کسی اور شخص کے لیے کسی شے کا اقرار کرے گا تو اس بارے میں اس کا ہی قول معتبر ہوگا کیونکہ نجس کا معنی نقص اور کمی ہے جب اللہ تعالیٰ نے اسے نقص اور کمی بیشی ترک کرنے کی نصیحت فرمائی تو یہ اس بات کی دلیل ہوگئی کہ اگر وہ کمی بیشی کرے گا تو اس بارے میں اس کو قول قابل قبول ہوگا۔- اس کی نظیر یہ قول باری ہے ( ولا یکتمن ما خلق اللہ فی ارحامھن اور یہ عورتیں اس حمل کو نہ چھپائیں جو اللہ تعالیٰ نے ان کے رحم میں پیدا کردیا ہے جب اللہ تعالیٰ نے انہیں کتمان کے متعلق نصیحت فرمائی تو یہ اس کی دلیلی ہوگئی کہ اس بارے میں ان عورتوں کے قول کی طرف رجوع کیا جائے گا۔- اس کی نظیر یہ قول باری ہے ( ولا تکتمو الشھادۃ ومن یکتمھا فانہ اتم قلبہ اور گواہی کو نہ چھپائو اور جو شخص گواہی کو چھپائے گا تو در حقیقت اس کا دل گنہگار ہوگا) یہ آیت اس پر دلالت کر رہی ہے کہ جب یہ لوگ گواہی کو چھپائیں گے تو اس بارے میں ان کا قول ناقابل اعتبار ہوگا۔ اسی طرح اللہ نے اس شخص کو نصیحت کی جس پر حق آتا ہے کہ وہ نجس یعنی طے شدہ معاملے میں کمی بیشی ترک کردے۔- یہ بات اس بات کی دلیل ہے کہ اس پر آنے والے حق کے متعلق اس کے قول کی طرف رجوع کیا جائے گا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی ایسی روایت منقول ہے جو اسی مضمون پر دلالت کر رہی ہے جس پر کتاب اللہ دلالت کرتا ہے۔ آپ کا ارشاد ہے ( البینۃ علی المدعی والیمین علی المدعی علیہ مدعی کے ذمہ ثبوت مہیا کرنا اور مدعا علیہ پر قسم ہے)- آپ نے اس ارشاد کے ذریعے اس شخص کے قول کا اعتبار کیا جس پر دعویٰ کیا ہو یعنی مدعا علیہ اور اس پر قسم واجب کردی۔ مدعی یعنی دعویٰ کرنے والے کے قول کا اعتبار نہیں کیا۔ یہی مطلب اس قول باری ( ولا یبخس منہ شیئاً ) کا ہے یعنی اس کے قول کی طرف رجوع کرنا واجب کردیا گیا ہے۔- بعض لوگوں نے آیت سے یہ استدلال کیا ہے کہ مدت کے متعلق مطلوب یعنی قرض لینے والے کے قول کا اعتبار کیا جائے گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے املاء یعنی لکھوانے کا کام اس کی طرف لوٹایا ہے اور کمی نہ کرنے کے سلسلے میں اسے اپنے اس ارشاد ( ولا یبخس منہ شیئاً ) کے ذریعے یہ نصیحت بھی کی ہے کہ وہ رقم کی مقدار کے متعلق سچائی کی راہ اختیار کرے۔- اس لیے اب صرف مدت کی بات رہ گئی جس میں اختلاف ہوسکتا ہے۔ اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ اللہ تعالیٰ نے تو اسے صرف نجس کے متعلق نصیحت فرمائی ہے جس کے معنی کمی اور نقص کے ہیں۔ اب یہ بات محال ہے کہ مطلوب یعنی مقروض کو مدت کی کمی کے متعلق نصیحت کی جائے حالانکہ اگر وہ مدت کے ثبوت کے بعد بھی ساری مدت کو ساقط کردے تو اس سے مدت باطل ہوجائے گی جس طرح کہ طالب یعنی قرض دینے والے کو اس کی رقم کی کمی کے متعلق نصیحت نہیں کی جاسکتی کیونکہ اگر وہ مطلوب کو پوری رقم سے بری الزمہ قرار دے دے تو اس کا یہ عمل درست ہوگا۔- اس وضاحت کی روشنی میں ہمیں یہ بات معلوم ہوگئی کہ نجس یا کمی سے مراد قرضوں کی رقوم میں کمی ہے مدت میں کمی نہیں ہے۔ اس لیے آیت میں کوئی ایسی دلیل نہیں ہے جس سے یہ ثابت ہوسکے کہ مدت کے متعلق مطلوب کے قول کا اعتبار کیا جائے گا۔- اگر یہ کہا جائے کہ مال یعنی قرض میں دی گئی رقم کے اندر مدت کا اثبات اس کی کمی کو واجب کردیتا ہے اب جب کہ رقم کی مقدار میں کمی کے متعلق مطلوب یعنی مقروض کے قول کا اعتبار کیا جاتا ہے تو اس سے یہ ضروری ہوگیا کہ مدت کے متعلق بھی اس کے قول کا اعتبار کیا جائے کیونکہ مدت کی وجہ سے مال میں کمی اور نقص واقع ہوجاتا ہے۔- آیت اس بات کو متضمن ہے کہ نجس کے متعلق مطلوب کے قول کی تصدیق کی جائے۔ اب نجس کبھی تو رقم کی مقدار میں کمی کے ذریعے ہوتا ہے اور کبھی اقرار کردہ رقم کے سکوں کے گھٹیا ہونے کی وجہ سے معیار میں کمی کی بنا پر ہوتا ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ جب اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا دیا ( ولیملل الذی علیہ الحق ولیتق اللہ ربہ ولا یبخس منہ شیئاً ) تو اس ارشاد کا تقاضا یہ ہوگیا کہ مطلوب کو نفس حق میں کمی کی ممانعت ہوجائے گویا کہ قول باری کی اصل عبارت یوں ہوگئی ” وہ یعنی قرض لینے والا قر ض کی رقم میں کمی نہ کرے “۔- اب ظاہر ہے کہ مدت میں کمی کا دعویدار قرض کی رقم میں کمی کرنے والا نیز اسے گھٹا نے والا قرار نہیں دیا جاسکتا۔ کیونکہ قرض میں نجس کا مطلب اس کی مقدار میں کمی کرنا ہے اور مدت کو قرض کا نام نہیں دیا جاسکتا اور نہ وہ قرض کا ایک حصہ ہوتی ہے۔ اس صورت حال کے پیش نظر آیت میں ایسی کوئی بات نہیں ہے جو مطلوب کے اس دعوے پر دلالت کرتی ہو جو وہ مدت کے متعلق کرے۔- ہماری یہ بات کہ مدت قرض کا حصہ نہیں ہوتی اس پر یہ حقیقت دلالت کرتی ہے کہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ قرض ادا کردیاجاتا ہے اور مقررہ مدت ساقط اور باطل ہوجاتی ہے اور صرف قرض کی حیثیت باقی رہ جاتی ہے اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ مدت ساقط ہوجاتی ہے اور قر ض کی ادائیگی میں تعجیل کرلی جاتی ہے اس صورت حال میں جس چیز کے لیے تعجیل کی جاتی ہے وہ یہ قرض ہوتا ہے جو موجل تھا۔- اس صورت حال کے ساتھ قول باری ( ولا یبخس منہ شیئاً ) پر غور کرنے سے صاف ظاہر ہوگا کہ یہاں مراد یہ ہے کہ وہ یعنی مقروض قرض میں کسی قسم کی کمی نہ کرے۔ اس طرح آیت نہ تو مدت کو شامل ہے اور نہ ہی اس پر دلالت کرتی ہے ایک اور پہلو سے دیکھئے۔- مدت کی وجہ سی اگر قرض کی رقم میں کمی آتی ہے تو وہ صرف معنوی طورپر آتی ہے کیونکہ مدت گزر جانے سے قبل اور گزر جانے کے بعد اگر قبضے میں آئی ہوئی رقم معیار کے اعتبار سے یکساں درجے کی حامل ہو تو اس سے یہ بات معلوم ہوجائے گی کہ رقم کی کمی میں مدت کا کوئی اثر اور دخل نہیں اور اگر اس کے متعلق یہ کہاجائے کہ اس میں کمی ہوگئی ہے تو یہ بات برسبیل مجاز کہی جائے گی۔ حقیقت کے طورپر نہیں کہی جائے گی یعنی اس قول کا مطلب یہ ہوگا کہ رقم میں معنوی طورپر کمی واقع ہوئی ہے کہ مدت کی وجہ سے اس کی قیمت میں کمی آگئی ہے۔- جبکہ آیت جس نجس اور کمی کا ذکر کر رہی ہے وہ حقیقی معنی پر محمول ہے یعنی مقدار میں کمی۔ اگر سکوں یعنی درہم و دینا ر کے گھٹیا ہونے یا غبن کرلینے یا کسی اور وجہ سے مقدار میں کمی آ جائے مثلاً قرض لینے والے کا یہ اقرار کہ سکے کھوٹے تھے یا گندم بےکار قسم کی تھی تو ان تمام صورتوں میں نجس یا کمی حقیقی طورپر پائی جائے گی کیونکہ ان صورتوں میں معیار اور صفت میں اختلاف ہوجاتا ہے۔- اس لیے یہ درست نہیں ہوگا کہ لفظ نجس مدت کے ایک حصے پر بھی دلالت کرے اور یہ اس لفظ کے مدلول کے دائرے میں آ جائے کیونکہ مدت کا مفہوم اس لفظ کا مجازی طورپر مدلول ہے نہ کہ حقیقی طورپر ۔ اور قاعدہ یہ ہے کہ جب لفظ سے اس کے حقیقی مراد ہوں تو اس صورت میں مجازی معنی لینے کی گنجائش ختم ہوجاتی ہے۔- اس آیت میں یہ دلالت موجود ہے کہ مدت کے متعلق طالب یعنی قرض دینے والے کے قول کا اعتبار کیا جائے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے خطاب کی ابتداء اپنے اس قول سے فرمائی کہ ( اذا تداینتم بدین الی اجل مسمی فاکتبوہ) تا قول باری ( واستشھدوا شھدین من رجالکم) آیت متدایئین یعنی ادھار لینے اور دینے والے دونوں سے گواہی قائم کرنے کا تقاضا کرتی ہے جبکہ ادھار کی مدت مقرر کردی ہو۔ اگر مدت کے متعلق ادھار لینے والے کے قول کا اعتبار ہوتا تو پھر ادھار دینے والے کو گواہی قائم کرنے کی کوئی ضرورت نہ ہوتی۔- اب جبکہ مدت کے تعین کے سلسلے میں ادھار دینے والے پر گواہی قائم کرنا واجب کردیا گیا تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ اس کے قول کا اعتبار کیا جائے گا اور مطلوب کے قول کی تصدیق نہیں کی جائے گی کیونکہ مطلوب یعنی مقروض کے قول کی تصدیق کی صورت میں طالب کے لیے گواہی قائم کرنے کا کوئی معنی اور مطلب نہیں۔- اگر کوئی شخص یہ کہے کہ گواہی قائم کرنے کا حکم مطلوب تک محدود ہے طالب اس میں داخل نہیں تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بات آیت کے متقضی کے خلاف ہے اس لیے کہ ارشاد باری ہے ( اذا تداینتم بدین الی اجل مسمیً فاکتبوہ) پھر اس پر اس قول کو عطف کیا ( واستشھدو ا شھدین من رجالکم) اس طرح ادھار لین دین کرنے والے دونوں افراد کو خطاب کرکے گواہی قائم کرنے کا حکم دیا گیا۔ اگر کسی قائل کے لئے یہ کہنا درست ہوسکتا ہے کہ اس خطاب کے ساتھ مطلوب ہی مخصوص ہے تو کسی دوسرے قائل کے لیے بھی یہ کہنا درست ہوگا ۔- یہ خطاب، طالب یعنی قرض یا ادھار دینے والے تک محدود ہے، لینے والا اس میں شامل نہیں ہے جب یہ تاویل درست نہیں ہے تو اس سے لازم ہوگیا کہ ظاہر آیت سے دونوں پر گواہی قائم کرنے کا عمل واجب ہے اور دونوں کو ہی اس کی ترغیب دی گئی ہے جب یہ بات ثابت ہوگئی تو پھر موجل دین کی صورت میں قرض دینے والے پر گواہی قائم کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا، کیونکہ مدت کی نفی کے سلسلے میں طالب کے قول کا ہی اعتبار کیا جائے گا۔- یہ بات اس چیز پر دلالت کرتی ہے کہ مدت کے بارے میں طالب کے قول ہی کی طرف رجوع کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے املاء یعنی لکھوانے کی ذمہ داری مطلوب پر ڈالی ہے جبکہ مطلوب یہ کام احسن طریقے سے سرانجام دے سکتا ہو۔- اگر کوئی اور شخص املاء کرائے اور مطلوب اس کی توثیق کردے تو یہ بھی جائز ہوگا کیونکہ یہ بات اقرار کے سلسلے میں زیادہ پائیدار ہوگی اور اس کی وجہ سے گواہوں کی یادداشت اور بڑھ جائے گی جب وہ گواہی کو اپنے ذہنوں میں بٹھائیں گے۔ املا یا دداشت کا سبب بن جائے گا جس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے دو عورتوں کو گواہ بنانے کا اس لیے حکم دیا کہ ایک عورت دوسری کو یاد کرادے۔- نادان اور بیوقوف کے تصرفات پر پابندی کا بیان - قول باری ہے ( فان کان الذی علیہ الحق سفیھاً او ضعیفاً اولا یستطیع ان یمل ھو فلیملل ولیہ بالعدل۔ لیکن اگر قرض لینے والا خود نادان یا ضعیف ہو یا املا نہ کراسکتا ہو تو اس کا ولی انصاف کے ساتھ املا کرائے۔- نادان اور بیوقوف انسان پر پابندی لگانے کے قائلین اور منکرین میں سے ہر ایک فریق نے اس آیت سے استدلال کیا ہے۔ قائلین نے آیت سے یہ بات اخذ کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ولی کو اس کی سرپرستی کے تحت آنے والے نادان کی طرف سے املاء کرانے کی اجازت دے دی۔- دوسری طرف پابندی کو تسلیم نہ کرنے والوں نے آیت ( یآیھا الذین اٰمنو ا اذا تداینتم بدین الی اجل مسمی فاکتبوہ) تا قول باری ( فان کان الذی علیہ الحق سفیھاً او ضعیفاً ) سے یہ اخذ کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نادان انسان کو ادھار لین دین کرنے کی اجازت دے دی اور اس قسم کے سودوں میں اس کے اقرار کی صحت کا بھی حکم لگا دیا ہے۔- تاہم آیت میں اس کے املاء کرانے اور کسی اور کے املاء کرانے میں فرق اس واسطے رکھا ہے کہ اسے اتنی سمجھ نہیں ہے کہ تحریری دستاویز کے جو لوازم اور تقاضے ہیں انہیں وہ پورا کرسکے یعنی اپنے مفادات کا پوری طرح خیال رکھ سکے اور اپنی ذمہ داریاں نبھا سکے۔- ان کا قول ہے کہ ارشاد باری ( فلیملل ولیہ بالعدل) سے مراد وہ ولی ہے جس کا تعلق دین اور قرضے سے ہے سلف کی ایک جماعت سے یہی مروی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ آیت میں مذکورہ ولی سے نادان کا کوئی اس معنی میں مراد لینا درست نہیں ہے کہ نادان پر تو پابندی ہو اور نادان کا ولی اگر نادان کے ذمہ آنے والے کسی قرض کا اقرار کرے تو یہ اقرار درست ہوجائے۔- ان کی دلیل یہ ہے کہ جس شخص کے تصرفات پر پابندی لگی ہوئی ہ اس کے ولی کا اس پر لازم ہونے والے دین کے متعلق اقرار کسی کے نزدیک بھی درست نہیں ہوتا۔ اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوگئی کہ ولی سے مراد نادان کا ولی نہیں بلکہ قرض کا ولی ہے۔ اسے دستاویز لکھوانے کا حکم دیا گیا تاکہ مطلوب یعنی قرض لینے والا اس دستاویز کی اپنے اقرار کے ذریعے توثیق کردے۔- ابو بکر حصاص کہتے ہیں کہ آیت میں مراد سفیہ یعنی نادان کے مفہوم میں سلف کے درمیان اختلاف رائے ہے۔ کچھ کا قول ہے کہ اس سے مراد بچہ ہے ۔ حسن بصری سے قول باری ( ولا تولو السفھاء اموالکم، اور تم نادانوں کو اپنے ا موال حوالے نہ کرو) کی تفسیر میں یہی منقول ہے۔ چناچہ انہوں نے کہا ہے کہ اس سے مراد بچہ اور عورت ہے۔ مجاہد کا قول ہے کہ عورتیں مراد ہیں۔- شعبی نے کہا کہ بچی کا اس کا مال حوالے نہیں کی جائے گا خواہ اسے قرآن مجید اور تورات پڑھنا کیوں نہ آتا ہو۔ ان کا یہ قول اس معنی پر محمول ہے کہ اس سے مراد وہ بچی ہے جو اپنے مال وغیرہ کی حفاظت نہ کرسکتی ہو۔ کیونکہ اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے اگر لڑکی بالغ ہو اور نکاح کی صورت میں شوہر کے ساتھ ہمبستری بھی ہوچکی ہو اور وہ اپنے معاملات کو سنبھالنے اور اپنے مال کی حفاظت کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو تو اس کا مال اس کے حوالے کیا جاسکتا ہے۔- حضرت عمر (رض) سے مروی ہے کہ کسی عورت کو اس وقت تک کسی عطیے وغیرہ کی ملکیت سونپ دینا جائز نہیں ہے جب تک وہ اپنے شوہر کے گھر ایک سال گزار نہ لے یا ایک دفعہ بچے کو جنم دینے کے مرحلے سے نہ گزر جائے۔ حسن بصری سے بھی اسی قسم کی روایت ہے۔ ابو الشعشاء کا قول ہے کہ عورت کے ہاں جب تک بچے کی پیدائش نہ ہوجائے یا اہلیت نہ پائی جائے اس وقت تک اس کی ملکیت میں کوئی چیز نہ دی جائے۔- ابراہیم نخعی سے بھی یہی مروی ہے ۔ یہ تمام اقوال اس معنی پر محمول ہیں کہ اہلیت نہ پائے جانے کی صورت میں ایسا کیا جائے۔ کیونکہ اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اس کا مال اس کے حوالے کرنے کے استحقاق کے لیے درج بالا اقوال حد فاصل کا کام نہیں دیتے اس لیے کہ یہ ہوسکتا ہے کہ عورت اپنے شوہر کے گھر میں ایک سال گزار لے اور کئی دفعہ بچوں کو جنم دے لے۔- لیکن اس کے باوجود اس میں اہلیت اور سمجھ بوجھ کا فقدان ہو اور وہ اپنے معاملات کو درست نہ رکھ سکتی ہو۔ ایسی صورت میں اسے اس کا مال حوالے نہیں کیا جائے گا۔ اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوگئی کہ ان حضرات نے وہ عورت مراد لی ہے جس میں اہلیت اور سمجھ بوجھ کا فقدان ہو۔- اللہ تعالیٰ نے سفہ یعنی نادانی اور بےوقوفی کا ذکر کئی مواقع پر فرمایا ہے۔ بعض مواقع پر اس سے مراد دین کے متعلق نادانی اور جہالت ہے چناچہ ارشاد باری ہے ( الا انھم ھم السفھاء آگاہ رہو لوگ بیوقوف اور نادان ہیں) اسی طرح ارشاد باری ہے۔ ( سیقول السفھاء من الناس عنقریب نادان لوگ کہیں گے) ۔- آ یات میں سفاہت سے مراد دین کے متعلق نادانی اور جہل ہے اور غیر سنجیدہ انداز میں اسے لینا ہے۔ اسی طرح قول باری ہے ( ولا تولو السفھاء اموالکم) کچھ لوگوں نے اس کی تاویل یہ کی ہے کہ اموال سے مراد ان نادانوں کے اموال ہیں۔- جس طرح اللہ تعالیٰ کا یہ قول ہے ( ولا تقتلوا انفسکم تم اپنے آپ کو قتل نہ کرو) یعنی تم ایک دوسرے کو قتل نہ کرو۔ اسی طرح ایک اور قول باری ہے۔ ( فاقتلو انفسکم اپنے آپ کو قتل کرو) یعنی تم میں سے بعض بعض کو قتل کرے۔ درج بالا قول در حقیقت لفظ کو اس کے حقیقی معنی سے ہٹانے کے مترادف ہے اور کسی دلالت کے بغیر اس کے ظاہر سے انحراف کرے۔- کیونکہ قول باری ہے ( ولا تولو السفھاء اموالکم) دو قسم کے لوگوں کے بیان پر مشتمل ہے اور ہر فریق لفظاً دوسرے فریق سے بالکل ممیز اور الگ تھلگ رکھا گیا ہے۔ اب درج بالا قول باری کا خطاب ان میں سے ایک گروہ سے ہے اور دوسرا فریق نادانوں کا ہے جس کا پہلے فریق کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔- اب جب اللہ تعالیٰ نے ( اموالکم) فرمایا تو یہ ضروری ہوگیا کہ خطاب کا رخ مخاطبین کے اموال کی طرف ہو، نادانوں کے اموال کی طرف نہ ہو۔ اس سے مراد سفہاء لینا بھی درست نہیں ہے اس لیے کہ خطاب کا رخ سفہاء کی طرف کسی لحاظ سے بھی نہیں ہے بلکہ اس کا ر خ عقلاء کی طرف ہے جنہیں مخاطب بنایا گیا ہے۔- اس قول باری کی مثال میں ( فاقتلو ا انفسکم) اور ( ولا تقتلوا انفسکم) کا ذکر درست نہیں ہے کیونکہ تمام قاتلین اور مقتولین ایک ہی خطاب کے تحت آئے ہوئے ہیں اور جہاں تک مخاطبت کا تعلق ہے ایک فریق کو دوسرے سے ممیز نہیں کیا گیا ہے۔ اسی لیے اس سے یہ مراد لینا درست ہوگیا کہ تم میں سے بعض بعض کو قتل کرے۔ــ“- ایک قول ہے کہ سفہ کا اصل معنی خفت یعنی ہلکا پن ہے۔ شاعر کا شعر ہے۔- ؎ مشین کما اھتزت رماغ تسفھت اعالیھا مرالریاح النوسم - یہ اس طرح چلیں جس طرح وہ نیزے جھومتے ہوں جن کے بالائی حصوں کو بادسیم کے جھونکوں نے ہلکا پھلکا بنادیا ہو۔- یعنی ہوائوں نے انہیں ہلکا پھلکا بنادیا۔ ایک اور شاعر کا قول ہے ؎- نخاف ان تسفہ احلامنا فنحمل الدھر مع الحامل - ہمی ڈر رہتا ہے کہ کہیں ہمارے خواب اور ہماری آرزوئیں ہلکی پھلکی نہ ہوجائیں یعنی ان کا معیار گر نہ جائے کہ جس کے نتیجے میں ہم بھی زمانے کو اپنی گردنوں پر سوار کرلیں جس طرح دوسروں نے کیا ہے یعنی کہیں ہمارے خواب ہلکے نہ ہوجائیں۔ جاہل کو سفیہ کہا جاتا ہے کیونکہ وہ عقل کا ہلکا اور ناقص ہوتا ہے اس لیے جن لوگوں پر لفظ سفیہ کا اطلاق ہوگا ان میں جہالت کا معنی بھی ضرور شامل ہوگا۔- دین کے معاملے میں نادان اور سفیہ وہ شخص ہوتا ہے جو دین سے بےبہرہ اور جاہل ہوتا ہے اور مال کے معاملے میں سفیہ وہ شخص ہوتا ہے جو اس کی حفاظت اور اس کے برتنے اور خرچ کرنے کے معاملے میں جاہل ہوتا ہے۔ عورتوں اور بچوں پر سفہاء کے لفظ کا اطلاق اس لیے ہوتا ہے کہ ان میں عقل اور سمجھ کی کمی بنا پر ناواقفیت اور جہالت ہوتی ہے۔ رائے کے لحاظ سے سفیہ وہ ہوتا ہے جس کی رائے میں سمجھ کم اور جہالت زیادہ ہوتی ہے۔- بد زبان انسان کو سفیہ کہاجاتا ہے کیونکہ اس کا گزر صرف جاہل اور کم عقل لوگوں میں ہوسکتا ہے۔ جب لفظ سفیہ میں ان تمام وجوہات کا احتمال ہے تو آئیے ان کی روشنی میں ہم آیت کے متقضی پر غور کریں۔ قول باری ( فان کان الذی علیہ الحق سفیھاً ) اس میں یہ احتمال ہے کہ اس سے مراد شرط لکھوانے کے بارے میں جہالت ہو۔ اگرچہ وہ عاقل سمجھ دار، اسراف نہ کرنے والا اور مال کو ضائع نہ کرنے والا ہو۔- پھر ولی دین کو اجازت دی گئی کہ وہ املاء کرائے تآنکہ سفیہ جس پر حق آتا ہے یعنی قرض لینے والا، اس دستاویز کی اپنے اقرار کے ذریعے توثیق کردے۔ آیت کے معنی کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ تفسیر اولیٰ ہے۔ اس لیے کہ وہ شخص جس پر حق آتا ہے اس کا ہی ذکر آیت مدانیت کی ابتدا ہوا ہے اگر اس پر پابندی ہوتی تو پھر اس کا ادھار لین دین درست نہ ہوتا۔- ایک اور پہلو سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ جس شخص کے تصرفات پر پابندی ہو اس کے ولی کے لئے یہ جائز ہی نہیں ہے کہ وہ اس پر کسی قرض وغیرہ کا اقرار کرے جو لوگ پابندی لگانے کے قائل ہیں ان کے قول کے مطابق بھی صرف یہ جائز ہے کہ قاضی یا عدالت ہی سفیہ کے ذمہ عائد ہونے والے دین دین اور خریدوفروخت کی مجاز ہے۔- ولی کے متعلق ہمیں کسی کے قول کا علم نہیں جس میں اس کے تصرفات کا جواز موجود ہو یا کسی ایسے اقرار کو درست کہا گیا ہے جس کے نتیجے میں ذمہ داری سفیہ پر عائد ہوتی ہے اس وضاحت میں یہ دلیل موجود ہے کہ آیت میں سفیہ کا ولی مراد نہیں ہے بلکہ ولی دین مراد ہے یہ بات ربیع بن انس سے مروی ہے اور فتراء بھی اسی کے قائل ہیں۔- قول باری ہے ( اوضعیفاً ) اس کے متعلق ایک قول ہے کہ اس سے مراد ضعیف العقل انسان یا بچہ ہے جسے تصرفات کی اجازت ملی ہوئی ہو۔ اس لیے کہ آیت کی ابتداء اس چیز کی متقاضی ہے کہ وہ شخص جس پر حق آتا ہے یعنی یعنی قرض لینے والا اس کا ادھار لین دین جائز ہو اور تصرف بھی درست ہو۔ اس طر ان تمام لوگوں کے تصرفات کو جائز قرار دے دیا گیا۔- جب خطاب باری دستاویز لکھوانے اور گواہی قائم کرنے کے ذکر پر پہنچا تو یہاں اس شخص کے متعلق وضاحت کردی گئی جو دستاویز کی شرط سے عدم واقفیت یا ضعف عقل کی بنا پر جس کے ہوتے ہوئے وہ لکھانے کا کام احسن طریقے سے سرانجام نہیں دے سکتا اگرچہ اس کا یہ نقص اس پر پابندی لگانا ضروری قرار نہیں دیتا اور یہ بتادیا گیا کہ وہ اس کام کے لیے موزوں نہیں ہے۔ اس ناموزونیت کی ایک وجہ کم عمری بھی ہوسکتی ہے خوف بھی اور بڑھاپا بھی۔- اس لیے کہ قول باری (او ضعیفاً ) ان دونوں معنوں کا احتمال رکھتا ہے اور ان دونوں پر مشتمل ہے۔ یعنی ایسا شخص جو ضعیف العقل ہو یا ایسا بچہ جسے تصرفات کی اجازت ملی ہوئی ہو پھر ان دونوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اس شخص کا ذکر فرمایا جو خود املا نہ کراسکتا ہو تو اس لیے کہ وہ انتہائی بوڑھا ہو اور املا کرانے کے لیے اس کی زبان پوری طرح نہ چلتی ہو یا اس میں گونگے پن کا نقصان ہو یا کہ وہ کسی بیماری میں مبتلا ہو۔- لفظ میں ان تمام معانی کا احتمال ہے اور یہ جائز ہے کہ یہ تمام وجوہ اللہ کی مراد ہوں اس لیے کہ لفظ میں ان سب کا احتمال موجود ہے۔ البتہ ان وجوہ میں سے کوئی وجہ ایسی نہیں ہے جو اس پر دلالت کرتی ہو کہ سفید اس کا مستحق ہے کہ اس کے تصرفات پر پابندی لگا دی جائے۔- نیز جن لوگوں پر لفظ سفیہ کا اطلاق ہوتا ہے ان میں سے بعض بھی اگر پابندی کے مستحق قرار پاتے تو اس مقصد کے لیے پابندی کے اثبات کی خاطر اس آیت سے استدلال درست نہ ہوتا وہ اس لیے کہ یہ بات ثابت کی جاچکی ہے کہ سفہ کا لفظ ایک ایسا مشترک لفظ ہے جس کا مختلف معانی پر اطلاق ہوتا ہے۔- ان میں سے چند کا ہم نے ذکر کیا ہے مثلاً دین کے متعلق نادانی اور ناسمجھی۔ اس کی وجہ سے کوئی شخص پابندی کا مستحق قرار نہیں پاتا اس لیے کہ کفار اور منافقین سب کے برسفہاء اور نادان ہیں لیکن ان میں سے کسی پر اس کے اپنے مال میں تصرف کی پابندی نہیں لگائی جاسکتی۔ یا مثلاً سفہ بمعنی بد زبانی اور فحشگوئی میں جلد بازی۔- اس قسم کا سفیہ اور نادان انسان بعض دفعہ اپنے مال اور جائیداد کا پورا پورا خیال رکھنے والا ہوتا ہے۔ اس میں اپنے مال کو تباہ کرنے یا اڑانے والی کوئی بات نہیں ہوتی۔ یا مثلاً قول باری ہے ( الا من سفہ نفسہ سوائے اس شخص کے جو اپنے آپ کو نادانی اور کم عقلی میں مبتلا کردے)- اس کی تفسیر کے سلسلے میں ابو عبیدہ کا قول ہے کہ ” جس نے اپنی جان کو ہلاک اور اسے تباہ کیا “۔ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے مروی ہے کہ آپ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا ” مجھے یہ بات پسند ہے کہ میرے سر میں تیل لگا ہو، میری قمیص دھلی ہوئی ہو اور میرے جوتوں کے تسمے نئے ہوں، حضور کہیں میری یہ خواہش کبر اور غرور کی بنا پر تو نہیں ہیں ؟ “ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نفی میں جواب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا ( انما الکبر من سفہ الحق وغمص الناس کبر اور غرور اس شخص کا ہوتا ہے جو حق کے بارے میں جاہل اور نادان ہو اور لوگوں کی عیب جوئی کرے۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد اس معنی سے قریب ہے کہ سفہ سے مراد جہالت ہو یعنی اس شخص میں غرور ہوتا ہے جو حق کے بارے میں جاہل ہو اور اس لیے کہ جہل پر بھی لفظ سفہ کا اطلاق ہوتا ہے۔ واللہ اعلم - سفیہ پر پابندی عائد کرنے کے متعلق فقہاء امصار کے اختلاف کا ذکر - حضرت امام ابوحنیفہ کی رائے یہ تھی کہ ایک عاقل بالغ آزاد انسان پر اس کی نادانی اور بیوقوفی یا فضول خرچی یا فرض اور دیوالیہ ہونے کی بنا پر پابندی نہیں لگائی جاسکتی۔ اگر قاضی یا عدالت نے اس پر پابندی عائد کردی ہو اور پھر وہ اپنے اوپر کسی قرض کا اقرار کرلے یا اپنے مال میں خریدوفروخت یا ہبہ کے ذریعہ یا کسی اور طریقے سے تصرف کرلے تو اس کا یہ تصرف درست ہوگا۔- اگر اس میں معاملات کی اہلیت اور سمجھداری کے آثار نظر نہ آئیں تو اس کے تصرفات باطل ہوں گے اور اسے اس کا مال خرچ کرنے نہیں دیا جائے گا لیکن اس کے باوجود اگر وہ اپنے اوپر کسی انسان کے حق کا اقرار کرلے گا یا اس کے ہاتھ کوئی چیز فروخت کرے گا تو اس کا یہ تصرف جائز ہوگا۔ اس کا مال اس وقت تک اس کے حوالے نہیں کیا جائے گا جب تک وہ پچیس برس کا نہیں ہوجائے گا۔- اس کے بعد خواہ اس میں اہلیت اور سمجھداری کے آثار نظر نہ بھی آئیں ، اس کا مال اس کے حوالے کردیا جائے گا۔ پابندی کے متعلق عبیداللہ بن الحسن کا قول بھی امام ابوحنیفہ کے قول کی طرح ہے۔ شعبہ نے منیرہ کے واسطے سے ابراہیم نخعی سے روایت کی ہے کہ آزاد انسان پر کسی قسم کی پابندی نہیں لگائی جائے گی۔ ابن عون نے محمد بن سیرین سے روایت کی ہے کہ آزاد کے تصرفات پر کوئی پابندی نہیں۔ پابندی صرف غلام پر لگائی جاتی ہے۔- حسن بصری سے بھی اسی قسم کی روایت ہے۔ امام ابو یوسف کا قول ہے کہ جب کوئی شخص سفیہ ہوگا اس پر پابندی لگادوں گا۔ اور جب کسی کو مفلس یعنی دیوالیہ قرار دے کر اسے قید کردوں گا تو اس پر پابندی لگادوں گا اور اس کے بیع و شراء اور قرض کے متعلق اقرار کو جائز قرار نہیں دوں گا۔ البتہ اگر وہ ثبوت پیش کرے گا کہ اس نے یہ تصرف پابندی لگنے سے پہلے کیا ہے تو اس صورت میں اس کا یہ تصرف جائز قرار دیاجائے گا۔- طحاوی نے ابن ابی عمران سے، انہوں نے ابن سماعہ سے اور انہوں نے امام محمد سے پابندی لگانے کے متعلق امام ابو یوسف جیسا قول نقل کیا ہے اور مزید یہ کہا ہے کہ جب ایک شخص کی حالت ایسی ہوجائے جس کی بنا پر وہ پابندی لگائے جانے کا مستحق قرار پائے تو خواہ قاضی یا عدالت اس پر پابندی لگائے یا نہ لگائے، اس پر پابندی عائد ہوجائے گی۔- امام ابو یوسف کا قول یہ تھا کہ ایسے حالات پیدا ہونے کی بنا پر اس پر اس وقت تک پابندی نہیں لگے گی جب تک قاضی اس پر پابندی عائد نہیں کرے گا۔ قاضی کے حکم سے وہ پابند شمار ہوگا۔ امام محمد کا قول ہے کہ اگر ایک شخص بالغ ہوجائے لیکن اس میں سمجھداری اور اہلیت کے آثار نظر نہ آئیں تو اس کا مال اس کے حوالے نہ کیا جائے گا اور اس کی خرید و فروخت اور ہبہ وغیرہ کوئی چیز جائز قرار نہیں دی جائے گی۔ اس کی حیثیت ایک نابالغ کی سی ہوگی۔- اس کی بیع و شراء حاکم کے سامنے پیش کی جائے گی اگر حاکم مناسب سمجھے گا تو اسے جائز قرار دے سکے گا۔ اس کے اندر جب تک سمجھداری اور اہلیت کے آثار نظر نہیں آئیں گے اس وقت تک اس کی حیثیت اس بچے کی سی ہوگی جو ابھی بالغ نہیں ہوا۔ البتہ نابالغ کے باپ کی طرف سے مقرر کردہ وصی ( جسے نابالغ کی نگہداشت کی وصیت کی گئی ہو) کے لیے نابالغ کی طرف سے خریدو فروخت کی اجازت ہے لیکن بالغ ہونے کی صورت میں وصی کے لیے اسکی اجازت صرف حاکم کے حکم کے ذریعے ہوگی۔- ابن الحکم اور ابن القاسم نے امام مالک سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا : جو شخص اپنے زیوتولیت فرد پر پابندی لگاناچا ہے تو سلطان کے پاس جاکر یہ پابندی لگائے تاکہ سلطان لوگوں کو اس سے آگاہ کردے اور اپنی مجلس میں اس کی یہ بات سن کر اس پر گواہ مقرر کردے۔ اس کے بعد سلطان اس سفیہ کے لیے ہوئے تمام لین دین اور قرض وغیرہ کو رد کرنے کا حکم جاری کرے گا۔ اس کے بعد اسکی حالت درست ہونے پر بھی اس کے ذمہ کوئی چیز عائد نہیں ہوگی۔- سفیہ اگر غلام ہو تو اس کا مسئلہ مختلف ہوگا۔ اگر زیر تولیت سفیہ وفات پا جائے اور اس نے قرض لے رکھا ہو تو ولی اس کی طرف سے قر ض ادا کرنے کا پابند نہیں ہوگا۔ اس کی موت کے بعد ولی کی حیثیت وہی ہوگی جو اس کی زندی میں تھی۔ البتہ سفیہ اپنے تہائی مال میں قر ض کی ادائیگی کی وصیت کرسکتا ہے اس صورت میں ولی اس کی طرف سے ادائیگی کرے گا۔- جب لڑکا بالغ ہوجائے تو اسے اپنے باپ کی طرف سے لین دین کرنے کی اجازت ہوگی۔ خواہ با پ بوڑھا اور کمزور ہی کیوں نہ ہو۔ البتہ اگر بیٹا باپ کے زیر تولیت ہو یا سفیہ یا ضعیف العقل ہو تو وہ اپنے باپ کی طرف کوئی لین دین نہیں کرسکتا۔ فریابی نے سفیان ثوری سے قول باری ( وابتلوالیتامی حتیٰ اذا بلغ النکاح فان انستم منھم رشدًا فادفعو الیھم اموالھم اور یتیموں کی آزمائش کرتے رہو یہاں تک کہ وہ نکاح کی عمر کو پہنچ جائیں پھر اگر تم ان کے اندر اہلیت پائو تو ان کے مال ان کے حوالے کردو کی تفسیر کے سلسلے میں یہ منقول ہے کہ رشد سے مراد سمجھ اور عقل اور مال کی حفاظت ہے۔- سفیان ثوری کہا کرتے تھے کہ جب یتیم میں دو باتیں پیدا ہوجائیں تو پھر اسے کوئی دھوکا نہیں دے سکتا۔ اول بلوغت دوم مال کی حفاظت۔ مزنی نے امام شافعی سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے یتیموں کا مال ان کے حوالے کرنے کا حکم دو باتوں پر دیا ہے ان دو باتوں کی موجودگی کے بغیر ان کا مال ان کے حوالے نہیں کیا جاسکتا۔- اول بلوغت، دوم رشد، رشد سے مراد دینی لحاظ سے اہلیت کا نام ہے کہ اس کی گواہی جائز ہوجائے۔ ساتھ ساتھ مال کی دیکھ بھال اور سنبھال کر رکھنے کی اہلیت بھی ہو۔ اسی طرح عورت کے اندر اگر رشد یا اہلسنت کا رنظر آ جائے تو اسے اس کا مال حوالے کردیاجائے گا خواہ اس کا نکاح ہوچکا ہو یا نہ ہوا ہو جس طرح کہ لڑکے کا مسئلہ ہے کہ بلوغت اور صلاحیت کی موجودگی پر اس کا مال اس کے حوالے کردیاجائے گا خواہ اس کا نکاح ہوچکا ہو یا نہ ہوا ہو۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کے حکم میں یکسانیت رکھی ہے اور نکاح کا ذکر نہیں کیا ہے۔- اگر امام یا حاکم اس کی نادانی اور مال لٹانے کی بنا پر اس پر پابندی لگائے گا تو اس پر گواہ بھی مقرر کردے گا۔ اس کے بعد جو شخص اس کے ساتھ لین دین کرے گا وہ اپنا مال ضائع کرے گا۔ اگر پابندی ہٹائے جانے کے بعد اس کی پھر والیپہلی حالت ہوجائے تو اس پر دوبارہ پابندی لگا دی جائے گی اور جب اس کی حالت بہتر ہوجائے کہ پابندی کی ضرورت باقی نہ رہے تو پھر اس پر سے پابندی ہٹا لی جائے گی۔- ابوبکر حصاص کہتے ہیں کہ ہم نے آیت مدانیت سے ان لوگوں کی دلیل کا ذکر کردیا ہے جو پابندی کے قائل ہیں اور ان لوگوں کی دلیل کا بھی جو اس کے قائل نہیں ہیں اور ہم نے وہاں یہ بھی کہہ دیا تھا کہ زیادہ واضح بات یہ ہے کہ پابندی نہیں ہونی چاہیے اور تصرفات کا جواز ہونا چاہیے۔ پابندی کے قائلین کا استدلال اس روایت سے ہے جو ہشام بن عروہ نے اپنے والد سے کی ہے کہ عبداللہ بن جعفر حضرت زبیر (رض) کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ میں نے ایک سودا کیا لیکن علی (رض) مجھ پر پابندی لگانا چاہتے ہیں۔- یہ سن کر حضرت زبیر (رض) نے فرمایا : اس سودے میں میں تمہارا شریک بن جاتا ہو، پھر حضرت علی (رض) امیر المومنین حضرت عثمان (رض) کے پاس آئے اور عبداللہ بن جعفر پر پابندی لگانے کے متعلق ان سے بات کی۔ حضرت زبیر (رض) بھی وہاں موجود تھے فرمانے لگے اس سودے میں میں اس کا شریک ہوں۔- یہ سن کر حضرت عثمان (رض) نے فرمایا، میں اس پر کیسے پابندی لگا سکتا ہوں جس کا شریک زبیر جیسے انسان ہیں۔ استدلال کرنے والوں کا یہ کہنا ہے کہ ان تمام حضرات نے پابندی کو جائز سمجھا نیز انہوں نے اسے پابندی سے بچانے کی خاطر حضرت زبیر (رض) کی مشارکت کو بھی درست جانا۔ یہ واقعہ صحابہ کرام کے سامنے ہوا اور کسی کی طرف سے اس کی مخالفت نہیں ہوئی۔- ابو بکر حصاص کہتے ہیں کہ اس واقعہ میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جو اس پر دلالت کرتی ہو کہ حضرت زبیر (رض) بھی حجر یعنی پابندی لگانے کے قائل تھے۔ اس سے صرف یہ بات معلوم ہوئی کہ وہ حضرت عثمان کی طرف سے لگائی جانے والی پابندی کو گوارہ کر رہے تھے لیکن یہ بات اس پر دلالت نہیں کرتی کہ وہ اس معاملے میں حضرت عثمان (رض) کے ہم خیال بھی تھے کیونکہ تمام اجتہادی مسائل میں اختلافی اقوال کا یہی حکم ہے نیز پابندی کی بھی دو قسمیں ہیں۔ ایک تصرفات اور اقرار پر پابندی اور دوسری مال حوالے کرنے پر پابندی۔- اب یہ ممکن ہے کہ حضرت علی (رض) اور حضرت عثمان (رض) جس پابندی کے قائل تھے وہ دوسری قسم کی پابندی ہو کیونکہ ہوسکتا ہے کہ اس وقت عبداللہ بن جعفر کی عمر پچیس برس کی نہ ہو۔ امام ابوحنیفہ بھی اس کے قائل ہیں، اس عمر کو پہنچنے سے اس میں سمجھداری اور اہلیت کے آثار نظر نہ آنے پر اسے اس کا مال حوالے نہ کیا جائے۔ خود عبداللہ بن جعفر جو صحافی ہیں، پابندی کے قائل نہیں ہیں اس لیے یہ دعویٰ کرنا مشکل ہے کہ اس مسئلے میں صحابہ کرام کا اتفاق تھا۔- پابندی کے قائلین کا استدلال اس حدیث سے بھی ہے جس کی زہری نے عروہ سے اور انہوں نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جب انہیں یہ اطلاع ملی کہ حضرت عبداللہ بن الزبیر (رض) نے یہ سن کر انہوں (حضرت عائشہ (رض) ) نے اپنی جائیدا کے کچھ حصے فروخت کردئیے ہیں، کہا ہے کہ عائشہ (رض) اس کام سے رک جائیں ورنہ میں (بحیثیت خلیفہ) ان پر پابندی عائد کردوں گا۔- تو یہ فرمایا : میں اللہ کی خاطر اپنے اوپر لازم کرتی ہوں کہ آئندہ ان سے کبھی بات نہ کروں گی “۔ اس سے پابندی کے قائلین نے یہ استدلال کیا ہے کہ حضرت عبداللہ بن الزبیر (رض) اور حضرت عائشہ (رض) دونوں ہی پابندی کے قائل تھے۔ حضرت عائشہ (رض) نے صرف اس لیے اسے ناپسند کیا تھا کہ حضرت عبداللہ بن الزبیر (رض) نے انہیں بھی ان لوگوں میں شمار کرلیا تھا جو پابند کردیے جانے کے مستحق تھے۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو حضرت عائشہ (رض) حضرت ابن الزبیر (رض) کی تردید کرتے ہوئے صاف کہہ دیتیں کہ حجر یعنی پابندی لگانا کسی طرح جائز نہیں ہے۔- ابوبکر حصاص کہتے ہیں کہ پابندی لگانے کے سلسلے میں حضرت عائشہ (رض) کی ناپسندیدگی اور تنقید ظاہر ہوچکی ہے جو اس پر دلالت کرتی ہے کہ وہ حجر کو جائز نہیں سمجھتی تھیں۔ اگر یہ بات نہ ہوتی اور اس معاملے میں اجتہاد کی گنجائش ہوتی تو حضرت عائشہ (رض) اسے ہرگز ناپسند نہ کرتیں ۔ ان کی تنقید اس پر دلالت کرتی ہے کہ وہ اس معاملے میں اجتہاد کی گنجائش کو بھی تسلیم نہیں کرتی تھیں۔- اگر یہ کہا جائے کہ حضرت عائشہ (رض) اپنی ذات پر پابندی کو پسند نہیں کرتی تھیں، لیکن مطلقاً پابندی کے متعلق ان کی رائے یہ نہیں تھی۔ اگر وہ حجر کے متعلق اجتہاد کی گنجائش کو تسلیم نہ کرتیں تو یہ کہہ دیتیں کہ حجر جائز نہیں ہے اور ان کا اتنا ہی کہنا اپنے اوپر پابندی کی نا پسندیدگی کے اظہار کے لیے کافی ہوتا۔ اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ حضرت عائشہ (رض) نے حجر کو علی الاطلاق مسترد کردیا ہے۔- اس کی دلیل ان کا یہ قول ہے کہ :” میں اللہ کی خاطر اپنے اوپر یہ لازم کرتی ہوں کہ میں ان سے کبھی نہیں بولوں گی :“ اس قول میں کوئی ایسی دلالت موجود نہیں جس سے یہ معلوم ہوسکے کہ انہوں نے صرف اپنی ذات پر پابندی کو مسترد کردیا تھا اور اسے علی الاطلاق مسترد نہیں کیا تھا۔- حجر یعنی پابندی کے بطلان پر وہ روایت دلالت کرتی ہے جسے ہمیں محمد بن بکر نے بیان کی ہے، انہیں ابو دائود نے، انہیں القعینی نے مالک سے، انہوں نے عبداللہ بن دینار سے اور انہوں نے حضرت ابن عمر (رض) سے کہ ایک شخص نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ ذکر کیا کہ مجھے خریدو فروخت میں ٹھگ دیا جاتا ہے، یہ سن کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب تم خریدو فروخت کرو تو یہ کہہ دیا کرو کہ : لا خلابۃ ( کوئی ٹھگی نہیں)- چنانچہ وہ شخص خرید و فروخت کرتے ہوئے یہ فقرہ کہہ دیا کرتا تھا ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی انہیں ابو دائود نے انہیں محمد بن عبداللہ الارزی اور ابراہیم بن خالد ابو ثور کلبی نے، انہیں عبدالوہاب نے کہ انہیں سعید نے قتادہ سے، انہوں نے حضرت انس بن مالک (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں ایک شخص خریدو فروخت کیا کرتا تھا لیکن وہ حساب کتاب میں بڑا کمزور تھا۔ اس کے رشتے دار اسے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں لے آئے اور اس پر پابندی لگانے کی اس بنا پر درخواست کی کہ وہ حساب و کتاب میں کمزور ہے ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے بلا کر بیع سے روک دیا۔- اس نے عرض کیا کہ میں بیع کے بغیر رہ نہیں سکتا۔ اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اگر تم بیع سے باز نہیں رہ سکتے تو سودے کرتے وقت یہ کہہ دیا کہ ھاوھا ولا خلابۃ ( اتنی اتنی قیمت ہے اور اس میں کوئی ٹھگی نہیں)- پہلی حدیث میں یہ ذکر ہوا کہ اسے سودوں میں ٹھگ دیاجاتا تھا لیکن آپ نے اسے نہ تو خریدو فروخت سے روکا اور نہ ہی اس کے تصرفات پر پابندی عائد کی۔ اگر پابندی لگانا ضروری ہوتا تو آپ اس شخص کو خریدوفروخت کے لئے آزاد نہ چھوڑتے اور جس پابندی کا وہ مستحق تھا اسے اس پر عائد کردیتے۔- اگر کوئی یہ کہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے یہ فرمایا تھا کہ جب تم سودے کرنے لگو تو یہ کہہ دیا کرو کہ ” کوئی ٹھگی نہیں ہے “ گویا آپ نے اسے خریدو فروخت کی اس شرط پر اجازت دے دی تھی کہ وہ پورا بدل نقصان اٹھائے بغیر وصول کرلیا کرے تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ پھر پابندی کے اثبات کے قائلین کو ہماری طرف سے اس بات پر راضی ہونا چاہیے جس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سفیہ کے لیے راضی ہوگئے تھے جسے بیع و شرا میں ٹھگ دیا جاتا تھا۔ جبکہ فقہاء میں سے کوئی بھی سفیہ اور نادان قسم کے انسان پر یہ شرط عائد نہیں کرتا نہ تو قائلین میں سے کوئی اور نہ ہی اسے تسلیم نہ کرنے والوں میں سے کوئی۔ اس لیے کہ جو فقہاء حجر کے قائل ہیں ان کا کہنا یہ ہے کہ حاکم وقت اس پر پابندی لگائے گا اور اسے تصرفات میں روک دے گا۔ وہ اس بات کے قائل نہیں ہیں کہ ایسے شخص کو مطلقاً تصرفات سے روک کر یہ گنجائش دے دی جائے گی خریدو فروخت کے وقت وہ یہ کہہ دیا کرے کہ ” لا خلابۃ “ جبکہ حجر کو تسلیم نہ کرنے والے بہرصورت اس کے تصرف کو جائز قرار دیتے ہیں۔ اس لیے اس حدیث سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ سفیہ اگر عاقل ہو تو اس پر پابندی لگانا باطل ہے۔ نیز اگر سفیہ کے بارے میں یہ اعتماد جائز ہے کہ وہ اس شرط کی پابندی کرے گا اور ہر قسم کے سودے کے وقت وہ یہ جملہ ( لا خطابۃ) کہے گا تو پھر اس کے متعلق یہ ا عتماد بھی جائز ہوگا کہ وہ خریدو فروخت کے تمام عقود درست طریقے سے کرے گا اور ان میں نقصان اٹھانے سے بچے گا۔- حدیث میں وارد لفظ ( اذا بایعت فقل خلابۃ جب تم سودا کرنے لگو تو لا خلابۃ کا فقرہ کہہ دیا کرو) کا مدلولو امام محمد کے مسلک کے لحاظ سے پوری طرح درست رہتا ہے۔ ان کا قول ہے کہ سفیہ جب بالغ ہوجائے اور اس کا معاملہ حاکم کے سامنے پیش کردیا جائے تو وہ اسے عقودا ور سودوں کی اجازت دے دے جس میں نقصان اور گھاٹے کا امکان نہ ہو لیکن باقی ماندہ حضرات جو حجر کے قائل ہیں وہ اس چیز کا اعتبار نہیں کرتے۔- ابو بکر حصاص کہتے ہیں کہ یہ کہنا درست ہے کہ امام محمد کا مسلک بھی حدیث کے خلاف ہے اس لیے کہ امام محمد محجور علیہ یعنی حجرزدہ شخص کے لین دین کو جائز قرار نہیں دیتے بلکہ یہ کہتے ہیں کہ یہ معاملہ قاضی عدالت کے سامنے پیش ہوگا اور عدالت اس کے جواز کا سرٹیفکیٹ دے گی۔ اس طرح امام محمد ایسے شخص کے بیع کو قاضی کی اجازت تک موقوف رکھتے ہیں جس طرح کہ ایک اجنبی شخص اس کی اجازت کے بغیر اس کی طرف سے کوئی سودا کرلے تو اس کا یہ سودا اس کی اجازت تک موقوف رہے گا۔- دوسری طرف حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس شخص کی بیع کو موقوف نہیں کیا تھا جسے آپ نے فرمایا تھا کہ جب بیع کرنے لگو تو کہہ دیا کرو ” لا خلابۃ “ بلکہ آپ نے اس کی بیع کو اس فقرہ کے کہہ دینے پر جائز اور نافذ قرار دیا تھا اس بنا پر حجر کے اثبات کے قائلین کا مسلک اس روایت کے خلاف ہے۔- حضرت انس (رض) کی حدیث سے دونوں فریق استدلال کرتے ہیں۔ اثبات کے قائلین کا استدلال یہ ہے کہ حدیث میں مذکورہ شخص کے رشتہ دار سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں لے کر آئے تھے اور عرض کیا تھا کہ اس پر پابندی لگا دی جائے کیونکہ یہ حساب کتاب میں کمزور ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان لوگوں کی یہ بات ناپسند نہیں کی بلکہ اس شخص کو بیع و شرا سے روک دیا لیکن جب اس نے یہ کہا کہ میں خریدوفروخت کے بغیر رہ نہیں سکتا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے کہہ دیا کہ جب سودا طے کرنے لگو تو لاخلابۃ کہہ دیا کرو۔- اس طر ح آپ نے نقصان نہ اٹھانے اور نقصان نہ پہنچانے کی شرط پر اسے بیع و شراء کی اجازت دیدی۔ حجر کو تسلیم نہ کرنے والے اس حدیث سے اس طرح استدلال کرتے ہیں کہ جب اس شخص نے عرص کیا کہ میں بیع و شراء کے بغیر نہیں رہ سکتا تو آپ نے اس کے تصرفات سے پابندی اٹھا کر اسے اجازت دیدی اور فرمایا کہ جب بیع و شراء کرنے لگو تو لا خلابۃ کا فقرہ کہہ دیا کرو۔- اگر پابندی لگانا واجب ہوتا تو اس کا یہ کہنا کہ ” میں بیع و شراء کے بغیر رہ نہیں سکتا “ اس سے پابندی کو دور نہیں کرسکتا تھا۔ اس لیے کہ پابندی کے قائلین میں سے کوئی بھی اس بنا پر اس سے پابندی ہٹانے کا روادار نہیں ہے کہ وہ بیع و شراء کے بغیر رہ نہیں سکتا۔- جس طرح بچہ اور مجنون دونوں سب کے نزدیک پابندی کے مستحق ہیں۔ ان پر لگی ہوئی پابندی اس بنا پر ختم نہیں ہوسکتی کہ وہ یہ کہیں ہم بیع و شراء کے بغیر رہ نہیں سکتے۔ اور ان سے کبھی نہیں کہا جائے گا کہ جب تم خریدوفروخت کروتو لا خلابۃ کا فقرہ کہہ دیا کرو۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے اس شخص کو آپ کی لگائی ہوئی شرط پر بیع و شراء کے لیے کھلی اجازت اس بات کی دلیل ہے کہ حجر واجب نہیں ہے۔- آپ کا اس شخص کو پہلے بیع سے روک دینا اور پھر یہ کہنا کہ لاخلابۃ کا فقرہ کہہ کر بیع و شراء کرلو، اس کے ساتھ ہمدردی کرنے اور مال کے بارے میں احتیاط برتنے کی خاطر تھا۔ جس طرح کہ کسی ایسے شخص کو جو سمندر کے راستے یا خطرناک شاہراہ کے ذریعے تجارت کرنے جارہا ہو یہ کہیں کہ ” اپنا مال خطرے میں نہ ڈالو اور اس کی حفاظت کرو “۔ یا اسی قسم کا کوئی اور جملہ ادا کریں تو آپ کا یہ کہنا اس پر پابندی لگانے کے مترادف نہ ہوگا بلکہ یہ ایک نیک مشورہ اور اس سے ہمدردی کا اظہار ہوگا۔- حجر کے بطلان پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ کسی کا اس میں اختلاف نہیں ہے کہ سفیہ اگر ایسی بات کا اقرار کرے جو حدا اور قصاص کی موجب ہو تو اس کا یہ اقرار درست ہوگا۔ حالانکہ حد اور قصاص شبہ کی بنا پر ساقط ہوجاتے ہیں۔ اس لیے انسانوں کے حقوق کے متعلق جو شبہ کی بنا پر ساقط نہیں ہوتے اس کا اقرار بطریق اولیٰ درست ہونا چاہیے۔- اگر درج بالا دلیل پر کوئی یہ اعتراض کرے کہ مریض اگر حد اور قصاص واجب کرنے والا اقرار کرے تو وہ درست ہوگا لیکن اس کا کوئی مالی اقرار یا ہبہ اس صورت میں جائز نہیں ہوگا جبکہ اس پر اس قدر قرض ہو جس کی ادائیگی میں اس کا سارا مال صرف ہوجائے۔ اس بناء پر حد اور قصاص میں اس کے اقرار کا جواز اس کے مالی اقرار اور مال میں اس کے تصرف کے جواز کی دلیل نہیں بن سکتا تو اسی کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ ہمارے نزدیک مریض کا ہر قسم کا اقرار جائز ہے۔- ہم اس کے اقرار کو اس وقت باطل قرار دیں گے جب مرض الموت میں وہ ایسا کرے کیونکہ بیماری کے دوران کیے ہوئے تصرفات کے حتمی فیصلے کے لیے انتظار کیا جائے گا اور اس سلسلے میں اس کی موت کا اعتبار کیا جائے گا اگر وہ اسی بیماری میں وفات پا گیا جس میں اس نے تصرفات کیے تھے۔ تو اس کے یہ تمام تصرفات اس کے غیروں کے حق میں چلے جائیں گے جو اس سے بڑھ کر ان تصرفات کے حق دار تھے اور یہ ہیں اس کے قرض خواہ اور ورثاء گویا ان تصرفات کا جواز اب لوگوں کی اجازت پر موقوف ہوگا۔- تاہم جب تک اس پر موت کی کیفیت طاری کردینے والی بیماری لگ نہ جائے اس وقت تک وہ اپنی موجودہ حالت میں تصرف کرسکتا ہے اور اس کے تمام تصرفات جائز ہوں گے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ ہم اس کے کیے ہوئے ہبہ کو فسخ نہیں کرتے اور اس کے آزاد کردہ غلاموں کو کام کرکے اپنی آزادی کے لئے پیسے بھرنے پر مجبور نہیں کرتے جب تک اس کا انتقال نہیں ہوجاتا۔ دوسرے الفاظ میں اگر اس بیماری سے وہ صحت یاب ہوگیا تو اس کے تمام تصرفات برقرار رہیں گے اور اگر وفات پر گیا تو منسوخ ہوجائیں گے۔- تاہم آزاد کردہ غلاموں کو دوبارہ غلام نہیں بنایاجائے گا بلکہ ان سے کہا جائے گا کہ محنت مزدوری کرکے اپنی قیمت ورثاء اور قرض خواہوں کو بھردو اور آزادی لے لو اس لیے زندگی کی حالت میں (جبکہ وہ مرض الموت میں گرفتارنہ ہو) حد اور قصاص کے اقرار اور مالی اقرار کی حیثیت یکساں ہے اس میں کوئی فرق ہے۔- حجر کے اثبات کے قائلین درج ذیل آیات قرآنی سے استدلال کرتے ہیں۔ قول باری ہے ( ولا تبذیراً اور تبذیر یعنی بےجا خرچ نہ کرو) نیز قول باری ہے ( ولا تجعل یدک مغلولۃ الی غمتک اور اپنے ہاتھ اپنی گردن سے بندھا ہوا نہ رکھ) یعنی بخل سے کنارہ کش رہو)- پہلی آیت میں تبذیر سے روکا گیا ہے اور اس کی مذمت کی گئی ہے اس لیے امام وقت پر لازم ہے کہ وہ تبذیر کرنے والوں پر پابندی لگادے اور انہیں مالی تصرفات سے روک دے۔ اسی طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مال کو ضائع کرنے سے منع فرمایا ہے۔ اس ارشاد کا بھی تقاضا یہی ہے کہ اس پر پابندی لگا کر اسے اپنا مال ضائع کرنے سے روک دیاجائے۔- ہم کہتے ہیں کہ درج بالا استدلال میں حجر کے اثبات کی کوئی بات نہیں ہے۔ اس لیے کہ ہم یہ کہتے ہیں کہ تبذیر کی ممانعت ہے اور تبذیر کرنے والے کو اس سے روکا گیا ہے لیکن تبذیر کی ممانعت میں ایسی کوئی بات نہیں ہے جو حجر کو واجب کردے اس لیے کہ اس نہی سے تبذیر کی ممانعت تو ہوجاتی ہے لیکن یہ بات کہ نہی اسے اپنے مال میں ت صرف کرنے سے روکتی ہے اور اس کے کیے ہوئے بیع و شراء کو باطل کردیتی ہے۔- اسی طرح اس کے تمام اقراروں اور تصرف کی تمام صورتوں کو ناجائز قرار دیتی ہے تو یہ ایسا نکتہ ہے جس پر ہم اور ہمارے مخالفین کے درمیان اختلاف رائے ہے۔ آیت میں ایسی کوئی بات نہیں ہے جو ان میں سے کسی بات کی ممانعت کرتی ہو۔ وہ اس طرح کہ فی نفسہ اقرار کا تبذیر کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ اگر وہ تبذیر کرنے والا ہوتا تو پھر تمام اقرار کرنے والوں کو ان کے اقرار سے روک دینا واجب ہوجاتا۔- اسی طرح اس بیع میں بھی کوئی تبذیر نہیں ہے جو کسی کی مد د کی خاطر اس کے ساتھ کی جائے اس لیے کہ اگر یہ تبذیر کی صورت ہوتی تو تمام لوگوں کو اس سے روک دینا واجب ہوتا۔ یہی بات ہبہ اور صدقہ میں بھی پائی جاتی ہے۔ اس لیے آیت جس چیز کی متقضی ہے و ہ صرف یہ ہے کہ تبذیر کی ممانعت کی گئی ہے اور تبذیر کرنے والے کی مذمت بھی کی گئی ہے۔ اب اس سے ان عفود میں حجر کے اثبات پر استدلال کرنا کہاں تک درست ہوگا جن میں کوئی تبذیر کی صورت ہوتی نہیں ہے۔- البتہ آیت سے امام محمد کے مسلک کے لیے استدلال درست ہے اس لیے کہ آپ سفیہ کے ان عقود کے جواز کے قائل ہیں جن میں محابات یعنی دوسرے کی رعایت اور مدد کا پہلو نہ ہو اور نہ ہی اپنے کو تلف کرنے کی کوئی صورت ہو۔ تاہم اتنی بات ضرور ہے کہ آیت میں صرف تبذیر کرنے والوں کی مذمت اور تبذیر سے ممانعت ہے جو شخص حجر کا قائل نہیں اس کا کہنا یہ ہے کہ تبذیر قابل مذمت ہے اور اس کی ممانعت ہے لیکن حجر اور تصرف کی ممانعت کو واجب کرنے والی کوئی چیز آیت میں موجود نہیں ہے۔- آپ نہیں دیکھتے کہ انسان کو بحری سفر اور پرخطر راستوں کے ذریعے تجارت کی غرض سے اپنا مال لے جانے سے روکا گیا ہے کہ کہیں اس کا مال ضائع نہ ہوجائے لیکن حاکم وقت اسے پابندی لگانے کے طورپر اس کا م سے روک نہیں سکتا۔ اسی طرح اگر کوئی شخص اپنے کھجور کے درختوں اور دیگر درختوں اور فصلوں کو یونہی پڑا رہنے دے اور ان کی آبپاشی نہ کرے اور اپنی زمینوں اور مکانات کو آباد نہ کرے تو امام کو یہ اختیار نہیں ہوگا کہ وہ اسے ان چیزوں پر پیسے خرچ کرنے پر مجبور کرے تاکہ اس کا یہ مال اور جائیداد تباہ ہونے سے بچ جائے۔- ٹھیک اسی طرح وہ ایک شخص کے لین دین پر پابندی نہیں لگا سکتا جس میں اسے مالی نقصان اٹھانے کا خطرہ ہو۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے مال ضائع کرنے کی ممانعت پر پابندی کے جواز پر دلالت نہیں کرتی جیسا کہ ہم تبذیر کی وضاحت کے سلسلے میں بیان کر آئے ہیں۔- حجر کے بطلان اور محجور علیہ کے تصرف کے جواز پر ایک اور بات دلالت کرتی ہے وہ یہ کہ جب کسی عاقل بالغ سے نادانی اور تبذیر کا ظہور ہوجائے امام محمد بن الحسن کے علاوہ باقی تما م ایسے فقہاء جو حجر کے وجوب کے قائل ہیں یہ کہتے ہیں کہ ایسے شخص پر قاضی یا عدالت کی طرف سے اگر پابندی لگا جائے تو اس صورت میں پابندی لگنے کے بعد اس کے کیے ہوئے تمام لین دین اور اقرار باطل ہوجائیں گے - اب جب کہ ایسے شخص کے حجر سے قبل کے تصرفا کو جائز قرار دے دیا گیا ہو تو حجر کا مطلب یہ ہوگا کہ قاضی کی طرف سے یہ کہاجائے گا کہ ” میں نے اس کے آئندہ کے تمام لین دین اور اقرار کو باطل قرار دیا ہے “ لیکن یہ چیز درست نہیں ہے اس لیے اس میں ایک ایسے عقد یا سودے کو فسخ کردینے کا حکم دیا گیا ہے جو ابھی تک وجود میں نہیں آیا ہے۔ اس کی حیثیت اس شخص کے قول کی طرح ہے جو کسی سے اس طرح گویا ہو کہ :- ” ہر وہ بیع جو تو میرے ہاتھوں کرے گا اور ہر وہ عقد جو تو میرے ساتھ کرے گا میں اسے فسخ کرتا ہوں “۔ یا ہر وہ خیار جو بیع میں میری شرط پر ہوگا اسے میں باطل کرتا ہوں۔ “ یا کوئی عورت کسی سے یوں کہے کہ : ہر وہ معاملہ جو مستقبل میں تو میرے لیے کرنے والا ہے اسے میں باطل کرتی ہوں “۔ یہ تمام صورتیں باطل ہیں کیونکہ ایسے عقود کو فسخ کرنے کا کوئی جواز ہی نہیں ہے جو مستقبل کے اندر وجود میں آنے والے ہوں۔- امام ابو یوسف اور امام محمد کی حجر کے متعلق جو رائے ہیں اس کی وجہ سے ان کے خلاف یہ بات جاتی ہے کہ یہ دونوں حضرات ایسے شخص کے نکاح کو جائز سمجھتے ہیں جو وہ پابندی لگنے کے بعد مہرمثل کے عوض کسی عورت سے کرلے حالانکہ اس جواز میں حجرکا ابطال موجود ہے اس لیے کہ حجر کا وجوب اگر اس وجہ سے تھا کہ وہ اپنا مال ضائع نہ کرے تو وہ نکاح کرکے مال ضائع کرنے کے راستے پر لگ گیا ہے۔- وہ اس طرح کہ ایسا شخص کسی عورت سے مہر مثل کے عوض نکاح کرلیتا ہے اور ہم بستری سے قبل ہی اسے طلاق دے دیتا ہے اس صورت میں نصف مہر کی ادائیگی اس پر لازم ہوگی۔ پھر وہ مسلسل نکاح کیے جاتا اور دخول سے پہلے طلاب دیے جاتا ہے اور مہر مثل کا نصف ادا کرے کرتے اپنا سارا مال ضائع کردیتا ہے۔ اس طریقے سے اس پر لگی ہوئی پابندی سے اس کے مال کو اتلاف سے بچانے کے سلسلے میں کوئی فائدہ نہیں ہوا۔- قول باری ہے ( واستشھد واشھدین من رجالکم اپنے مردوں میں سے دو گواہ بنالو) ابوبکر حصاص کہتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو خطاب کی ابتداء ( یایھا الذین امنو اذا تداینھم الی اجل) سے کی اور پھر اس پر ( واستشھدوا شھدین من رجالکم) کو عطف کیا تو اس سے دو باتوں پر دلالت ہوئی۔ اول گواہوں کی صفت پر کیونکہ انہیں صفت ایمان کے ساتھ مخاطب کیا گیا تھا۔- پھر جب سلسلہ خطاب میں (من رجالکم) فرمایا تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ ” من رجال المومنین ( اہل ایمان کے مردوں میں سے) اس لیے اس قول باری کا متقضی میں دو وجوہ سے اس شرط پر دلالت موجود ہے۔ اول قول باری ( اذا تداینتم بدین) تا قول باری ( ولیملل الذی علیہ الحق) میں جو بات کہی گئی ہے اس کا تعلق احرار سے ہے غلاموں سے نہیں ہے۔- اس کی دلیل یہ ہے کہ غلام ادھار لین دین کرنے کا مجاز نہیں ہوتا ہے اور اگر وہ کسی چیز کا اقرار کرتا ہے تو اپنے آقا کے اذن کے بغیر وہ ایسا نہیں کرسکتا جبکہ آیت میں خطاب کا تعلق ایسے لوگوں سے ہے جو کسی دوسرے کی اجازت کے بغیر علی الاطلاق ایسا کرسکتے ہوں۔ اس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ اس گواہی کی ایک شرط آزادی ہے۔- دوم قول باری ( من رجالکم) میں خطاب کی اس معنی پر دلالت ہورہی ہے کیونکہ اس قول باری کا ظاہر اس کا متقاضی ہے کہ یہ مرد احرار یعنی ازاد لوگ ہوں۔ غلام نہ ہوں اس کی مثال یہ قول باری ہے ( وانکو الایامی منکم اور تم میں سے جو مجرد ہوں ان کے نکاح کردو) یعنی آزاد مرد۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اس پر اللہ تعالیٰ نے اپنے اس قول ( والصالحین من عبادکم وامالکم اور تمہارے لونڈی غلاموں میں سے جو صالح ہوں) کو عطف کیا۔- اس لیے قول باری ( منکم) میں غلام داخل نہیں ہوئے۔ اس میں یہ دلیل موجود ہے کہ اس گواہی کی شرط اسلام اور حریت دونوں ہیں اور یہ کہ غلام کی گواہی جائز نہیں ہے اس لیے کہ اللہ کے اوامر وجوب کا معنی دیتے ہیں اور اللہ نے آزاد لوگوں کو گواہ بنانے کا امر کیا اس لیے دوسرے لوگوں یعنی غلاموں کی گواہی جائز نہیں ہوگی۔ مجاہد سے قول باری ( واستشھد واشھدین من رجالکم) کی تفسیر میں منقول ہے کہ اس سے مراد احرار ہیں۔- اگر یہ کہاجائے کہ آپ کی درج بالا تفسیر اس پر دلالت کرتی ہے کہ غلام آیت میں داخل نہیں ہیں۔ اس میں ایسی کوئی دلالت نہیں ہے کہ ان کی گواہی باطل ہے۔ اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ جب فحوائے خطاب سے یہ ثابت ہوگیا کہ آیت میں احرام مراد ہیں تو قول باری ( واستشھدو اشھدین من رجالکم میں مذکورامر ایجاب کا متقاضی ہوگا۔- گویا اس کا مفہوم یہ ہوگا کہ : آزاد مردوں میں سے دوگواہ مقرر کرلو “ اس لیے حریت کی شرط کو ساقط کرنا کسی کے لیے جائز نہیں ہوگا کیونکہ اگر یہ جائز ہوجائے تو پھر عدد کو ساقط کرنا بھی جائز ہوجائے گا۔ اس میں یہ دلیل موجود ہے کہ آیت غلام کی گواہی کے بطلان کو متضمن ہے۔- (آیت ھذا کی بقیہ تفسیر اگلی آیت کے ذیل میں)
(٢٨٢) اب اللہ تعالیٰ ادھار کے معاملات کرنے کا طریقہ بتلاتے ہیں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان رکھنے والو جب وقت مقرر کے لیے قرض کا معاملہ کرو تو قرض دار اور قرض دینے والے کے بیچ میں جو معاملہ ہوا ہے اسے انصاف کے ساتھ کاغذ پر لکھ لیا کرو اور لکھنے والا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو سکھایا ہے وہ ان دونوں کے درمیان لکھنے سے انکار نہ کرے۔- اور وہ بغیر کسی قسم کی زیادتی اور کمی کے اس دستاویز کو لکھے اور کاتب کو وہ شخص بتلادے جس پر قرض ہے اور قرض دار اللہ تعالیٰ سے ڈرے اور قرض کی رقم لکھوتے وقت اس میں کسی قسم کی کمی نہ کرے اور اگر قرض دار لکھوانے کے معاملہ میں جاہل ہے یا کاتب کو لکھوانے سے عاجز ہے یا اچھی طرح اس چیز کو نہیں لکھوا سکتا تو پھر قرض دینے والا بغیر کسی زیادتی کے ٹھیک ٹھیک لکھوا دے۔- اور اپنے ان حقوق کے اجراء کے لیے دو آزاد مسلمان پسندیدہ لوگوں کو گواہ بھی کرلیا کرو اور اگر مرد نہ ہوں تو پسندیدہ اور معتبر عورتوں میں سے ایک مراد اور دو عورتوں کو گواہ کرلیا کرو کیونکہ ان دونوں عورتوں میں اگر ایک عورت بھول جائے تو دوسری بھولنے والی کو یہ شہادت یاد دلا دے اور گواہوں کو جب حاکموں کے پاس بلایا جائے تو وہ بھی انکار نہ کیا کریں، (یعنی جانے سے انکار نہ کریں بلکہ گواہی کے لیے گواہی کے لیے حاضر ہوں)- اور تم اس قرض کا معاملہ لکھنے میں خواہ چھوٹا ہو یا بڑا اکتاہٹ کا شکار نہ ہوا کرو اور یہ قرض کی دستاویز لکھنے کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک عدل و انصاف کو زیادہ قائم رکھنے والا اور شہادت کو زیادہ واضح کرنے والا ہے جب کہ شاہد شہادت کو بھول جائے۔- اور تمہارے لیے یہ چیز زیادہ لازم ہے کہ تم قرض کے معاملہ میں اور اس کی مدت میں شک میں نہ پڑو۔ ہاں اگر کوئی سودا فورا دست بدست ہو تو اس کے نہ لکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں اور اگر اس میں مدت مقرر کرو تو گواہ کرلیا کرو کتاب کو کتابت پر اور گواہ کو گواہی پر مت تنگ کرو اور اگر تکلیف پہنچاؤ گے تو تمہیں گناہ ہوگا، لہٰذا اس تکلیف پہنچانے سے ہماری مغفرت فرمائیے جیسا کہ قارون کو زمین میں دھنسایا گیا اور سنگسار کردینے سے بھی ہم پر رحم فرمائیے جیسا کہ حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم کو پتھروں سے سنگسار کیا گیا، جب انہوں نے یہ دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے دل کی غیر اختیاری باتوں اور بھول چوک سے مواخذہ کو اٹھا لیا اور سنگسار کردینے سے بھی ان کو اور ان کی پیروی کرنے والوں کو محفوظ رکھا۔
آیت ٢٨٢ ‘ جو زیر مطالعہ ہے ‘ قرآن حکیم کی طویل ترین آیت ہے اور اسے آیت دین یا آیت مُدَایَنَۃ کا نام دیا گیا ہے۔ اس آیت میں ہدایت کی گئی ہے کہ کوئی قرض کا باہم لین دین ہو یا آپس میں کاروباری معاملہ ہو تو اسے باقاعدہ طور پر لکھ لیا جائے اور اس پر دو گواہ مقرر کیے جائیں۔ ہمارے ہاں عام طور پر اس قرآنی ہدایت کو نظر انداز کیا جاتا ہے اور کسی بھائی ‘ دوست یا عزیز کو قرض دیتے ہوئے یا کوئی کاروباری معاملہ کرتے ہوئے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس سے کیا لکھوانا ہے ‘ وہ کہے گا کہ انہیں مجھ پر اعتماد نہیں ہے۔ چناچہ تمام معاملات زبانی طے کرلیے جاتے ہیں ‘ اور بعد میں جب معاملات میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے تو پھر لوگ شکوہ و شکایت اور چیخ و پکار کرتے ہیں۔ اگر شروع ہی میں قرآنی ہدایات کے مطابق مالی معاملات کو تحریر کرلیا جائے تو نوبت یہاں تک نہ پہنچے گی۔ حدیث نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مفہوم ہے کہ جو شخص قرض دیتے ہوئے یا کوئی مالی معاملہ کرتے ہوئے لکھواتا نہیں ہے ‘ اگر اس کا مال ضائع ہوجاتا ہے تو اسے اس پر کوئی اجر نہیں ملتا ‘ اور اگر وہ مقروض کے حق میں بددعا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی فریاد نہیں سنتا ‘ کیونکہ اس نے اللہ تعالیٰ کے واضح حکم کی خلاف ورزی کی ہے۔- آیت ٢٨٢ (یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا تَدَایَنْتُمْ بِدَیْنٍ الآی اَجَلٍ مُّسَمًّی فَاکْتُبُوْہُ ط) - آیت کے اس ٹکڑے سے دو حکم معلوم ہوتے ہیں۔ ایک یہ کہ قرض کا وقت معینّ ہونا چاہیے کہ یہ کب واپس ہوگا اور دوسرے یہ کہ اسے لکھ لیا جائے۔ فَاکْتُبُوْہُ فعل امر ہے اور امر وجوب کے لیے ہوتا ہے۔ - (وَلْیَکْتُبْ بَّیْنَکُمْ کَاتِبٌم بالْعَدْلِ ) ۔ - لکھنے والا کوئی ڈنڈی نہ مار جائے ‘ اسے چاہیے کہ وہ صحیح صحیح لکھے۔- (وَلاَ یَاْبَ کَاتِبٌ اَنْ یَّکْتُبَ کَمَا عَلَّمَہُ اللّٰہُ فَلْیَکْتُبْ ج) - یہ ہدایت تاکید کے ساتھ کی گئی ‘ اس لیے کہ اس معاشرے میں پڑھے لکھے لوگ بہت کم ہوتے تھے۔ اب بھی مالی معاملات اور معاہدات بالعموم وثیقہ نویس تحریر کرتے ہیں۔- (وَلْیُمْلِلِ الَّذِیْ عَلَیْہِ الْحَقُّ ) - یعنی جس نے قرض لیا ہے وہ دستاویز لکھوائے کہ میں کیا ذمہّ داری لے رہا ہوں ‘ جس کا مال ہے وہ نہ لکھوائے۔ - (وَلْیَتَّقِ اللّٰہَ رَبَّہٗ ) اور وہ اللہ سے ڈرتا رہے اپنے رب سے - (وَلاَ یَبْخَسْ مِنْہُ شَیْءًا ط) ۔ - (فَاِنْ کَانَ الَّذِیْْ عَلَیْہِ الْحَقُّ سَفِیْہًا اَوْ ضَعِیْفًا) - (اَوْلاَ یَسْتَطِیْعُ اَنْ یُّمِلَّ ہُوَ ) - (فَلْیُمْلِلْ وَلِیُّہٗ بالْعَدْلِ ط) ۔ - اگر قرض لینے والا ناسمجھ ہو ‘ ضعیف ہو یا دستاویز نہ لکھوا سکتا ہو تو اس کا کوئی ولی ‘ کوئی وکیل یا مختار ( )- اس کی طرف سے انصاف کے ساتھ دستاویز تحریر کرائے۔ یہاں املال املا کے معنی میں آیا ہے۔- (وَاسْتَشْہِدُوْا شَہِیْدَیْنِ مِنْ رِّجَالِکُمْ ج) (فَاِنْ لَّمْ یَکُوْنَا رَجُلَیْنِ فَرَجُلٌ وَّامْرَاَتٰنِ ) (مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّہَدَآءِ ) - جن کی گواہی ہر دو فریق کے نزدیک مقبول ہو اور ان پر دونوں کو اعتماد ہو۔ اگر مذکورہ صفات کے دو مرد دستیاب نہ ہو سکیں تو گواہی کے لیے ایک مرد اور دو عورتوں کا انتخاب کرلیا جائے۔ یعنی گواہوں میں ایک مرد کا ہونا لازم ہے ‘ محض عورت کی گواہی نہیں چلے گی۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا ہر قسم کے معاملات میں دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر ہے یا یہ معاملہ صرف قرض اور مالی معاملات میں دستاویز تحریر کرتے وقت کا ہے ‘ اس کی تفصیل فقہاء کے ہاں ملتی ہے۔- (اَنْ تَضِلَّ اِحْدٰٹہُمَا فَتُذَکِّرَ اِحْدٰٹہُمَا الْاُخْرٰی ط) ۔ - یہاں عقلی سوال پیدا ہوگیا کہ کیا مرد نہیں بھول سکتا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ واقعتا اللہ تعالیٰ نے عورت کے اندر نسیان کا مادّہ زیادہ رکھا ہے۔ (اَلَا یَعْلَمُ مَنْ خَلَقَط وَھُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ ) (الملک) کیا وہی نہ جانے گا جس نے پیدا کیا ہے ؟ وہ بڑا باریک بین اور ہر شے کی خبر رکھنے والا ہے۔ جس نے پیدا کیا ہے وہ خوب جانتا ہے کہ کس میں کون سا مادّہ زیادہ ہے۔ عورت میں نسیان کا مادّہ کیوں زیادہ رکھا گیا ہے ‘ یہ بھی سمجھ لیجیے۔ یہ بڑی عقلی اور منطقی بات ہے۔ دراصل عورت کو مرد کے تابع رہنا ہوتا ہے ‘ لہٰذا اس کے احساسات کو کبھی ٹھیس پہنچ سکتی ہے ‘ اس کے جذبات کے اوپر کبھی کوئی کدورت آتی ہے۔ اس اعتبار سے اللہ تعالیٰ نے ان کے اندر بھول جانے کا مادہ سیفٹی والو کے طور پر رکھا ہوا ہے۔ ورنہ تو ان کا معاملہ اس شعر کے مصداق ہوجائے - یاد ماضی عذاب ہے یارب - چھین لے اب مجھ سے حافظہ میرا - چنانچہ یہ نسیان بھی اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے ‘ ورنہ تو کوئی صدمہ دل سے اترنے ہی نہ پائے ‘ کوئی غصہ کبھی ختم ہی نہ ہو۔ بہرحال خواہ کسی حکم کی علتّ یا حکمت سمجھ میں آئے یا نہ آئے ‘ اللہ کا حکم تو بہرصورت ماننا ہے۔- (وَلاَ یَاْبَ الشُّہَدَآءُ اِذَا مَا دُعُوْا ط) ۔ - گواہوں کو جب گواہی کے لیے بلایا جائے تو آکر گواہی دیں ‘ اس سے انکار نہ کریں۔ اسی سورة مبارکہ کی آیت ١٤٠ میں ہم پڑھ آئے ہیں : (وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ کَتَمَ شَہَادَۃً عِنْدَہٗ مِنَ اللّٰہِ ط) اور اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جس کے پاس اللہ کی طرف سے ایک شہادت موجود ہو اور وہ اسے چھپائے ؟- (وَلَا تَسْءَمُوْٓا اَنْ تَکْتُبُوْہُ صَغِیْرًا اَوْ کَبِیْرًا الآی اَجَلِہٖ ط) ۔ - قرض خواہ چھوٹا ہو یا بڑا ‘ اس کی دستاویز تحریر ہونی چاہیے کہ میں اتنی رقم لے رہا ہوں اور اتنے وقت میں اسے لوٹا دوں گا۔ اس کے بعد قرض خواہ اس مدت کو بڑھا بھی سکتا ہے ‘ مزیدمہلت دے سکتا ہے ‘ بلکہ معاف بھی کرسکتا ہے۔ لیکن قرض دیتے وقت اس کی مدت معینّ ہونی چاہیے۔ - (ذٰلِکُمْ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰہِ ) - (وَاَقْوَمُ للشَّہَادَۃِ ) - معاملہ ضبط تحریر میں آجائے گا تو بہت واضح رہے گا ‘ ورنہ زبانی یادداشت کے اندر تو کہیں تعبیر ہی میں فرق ہوجاتا ہے۔- (وَاَدْنآی الاَّ تَرْتَابُوْا) - (اِلَّآ اَنْ تَکُوْنَ تِجَارَۃً حَاضِرَۃً تُدِیْرُوْنَہَا بَیْنَکُمْ ) - مثلاً آپ کسی دکاندار سے کوئی شے خریدتے ہیں اور نقد پیسے ادا کرتے ہیں تو ضروری نہیں کہ آپ اس کا کیش میمو بھی لیں۔ اگر آپ چاہیں تو دکاندار سے کیش میمو طلب کرسکتے ہیں۔- (فَلَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ اَلاَّ تَکْتُبُوْہَا ط) (وَاَشْہِدُوْٓا اِذَا تَبَایَعْتُمْ ) - بیع سلم جو ہوتی ہے یہ مستقبل کا سودا ہے ‘ اور یہ بھی ایک طرح کا قرض ہے۔ مثال کے طور پر آپ کسی زمیندار سے طے کرتے ہیں کہ آئندہ فصل کے موقع پر آپ اس سے اتنے روپے فی من کے حساب سے پانچ سو من گندم خریدیں گے۔ یہ بیع سلم کہلاتی ہے اور اس میں لازم ہے کہ آپ پوری قیمت ابھی ادا کردیں اور آپ کو گندم فصل کے موقع پر ملے گی۔ اس طرح کا لین دین بھی باقاعدہ تحریر میں آجانا چاہیے اور اس پر دو گواہ مقرر ہونے چاہئیں۔- (وَلاَ یُضَآرَّ کَاتِبٌ وَّلاَ شَہِیْدٌ ط) - یُضَآرَّمیں یہ دونوں مفہوم موجود ہیں۔ اس لیے کہ یہ معروف بھی ہے اور مجہول بھی۔ - (وَاِنْ تَفْعَلُوْا فَاِنَّہٗ فُسُوْقٌم بِکُمْ ط) (وَاتَّقُوا اللّٰہَ ط) (وَیُعَلِّمُکُمُ اللّٰہُ ط) (وَاللّٰہُ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ ) - یہ ایک آیت مکمل ہوئی ہے۔ میرا خیال ہے کہ آخری پارے کی چار پانچ چھوٹی سورتیں جمع کرلیں تو ان کا حجم اس ایک آیت کے برابر ہوگا۔ میں عرض کرچکا ہوں کہ آیات کی تعیین توقیفی ہے۔ اس کا ہمارے حساب کتاب سے ‘ گرامر سے ‘ منطق سے اور علم بیان سے کوئی تعلق نہیں۔
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :325 اس سے یہ حکم نکلتا ہے کہ قرض کے معاملے میں مدت کی تعیین ہونی چاہیے ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :326 عموماً دوستوں اور عزیزوں کے درمیان قرض کے معاملات میں دستاویز لکھنے اور گواہیاں لینے کو معیوب اور بے اعتمادی کی دلیل خیال کیا جاتا ہے ۔ لیکن اللہ کا ارشاد یہ ہے کہ قرض اور تجارتی قراردادوں کو تحریر میں لانا چاہیے اور اس پر شہادت ثبت کرا لینی چاہیے تا کہ لوگوں کے درمیان معاملات صاف رہیں ۔ حدیث میں آتا ہے کہ تین قسم کے آدمی ایسے ہیں ، جو اللہ سے فریاد کرتے ہیں ، مگر ان کی فریاد سنی نہیں جاتی ۔ ایک وہ شخص جس کی بیوی بد خلق ہو اور وہ اس کو طلاق نہ دے ۔ دوسرا وہ شخص جو یتیم کے بالغ ہونے سے پہلے اس کا مال اس کے حوالے کر دے ۔ تیسرا وہ شخص جو کسی کو اپنا مال قرض دے اور اس پر گواہ نہ بنائے ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :327 یعنی مسلمان مردوں میں سے ، اس سے معلوم ہوا کہ جہاں گواہ بنانا اختیاری فعل ہو وہاں مسلمان صرف مسلمانوں ہی کو اپنا گواہ بنائیں ۔ البتہ ذمیوں کے گواہ ذمی بھی ہو سکتے ہیں ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :328 “مطلب یہ ہے کہ ہر کس و ناکس گواہ ہونے کے لیے موزوں نہیں ہے ، بلکہ ایسے لوگوں کو گواہ بنایا جائے جو اپنے اخلاق و دیانت کے لحاظ سے بالعموم لوگوں کے درمیان قابل اعتماد سمجھے جاتے ہوں ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :329 مطلب یہ ہے کہ اگرچہ روز مرہ کی خرید و فروخت میں بھی معاملہ بیع کا تحریر میں آجانا بہتر ہے ، جیسا کہ آج کل کیش میمو لکھنے کا طریقہ رائج ہے ، تاہم ایسا کرنا لازم نہیں ہے ۔ اسی طرح ہمسایہ تاجر ایک دوسرے سے رات دن جو لین دین کرتے رہتے ہیں ، اس کو بھی اگر تحریر میں نہ لایا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :330 اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ کسی شخص کو دستاویز لکھنے یا اس پر گواہ بننے کے لیے مجبور نہ کیا جائے ، اور یہ بھی کہ کوئی فریق کاتب یا گواہ کو اس بنا پر نہ ستائے کہ وہ اس کے مفاد کے خلاف صحیح شہادت دیتا ہے ۔
187: یہ قرآنِ کریم کی سب سے طویل آیت ہے، اور اس میں سود کی حرمت بیان کرنے کے بعد اُدھار خرید وفروخت کے سلسلے میں اہم ہدایات دی گئی ہیں، جن کا مقصد یہ ہے کہ تمام معاملات صفائی کے ساتھ ہوں۔ اگر کوئی اُدھار کسی کے ذمے واجب ہورہا ہو تو اسے ایسی تحریر لکھنی یا لکھوانی چاہئے جو معاملے کی نوعیت کو واضح کردے۔ اس تحریر میں پوری بات لاگ لپیٹ کے بغیر لکھنی چاہئے اور کسی کا حق مارنے کے لئے تحریر میں کتر بیونت سے پرہیز کرنا چاہئے۔