Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

یہود پہ احسانات الہیہ کی تفصیل سابقہ آیات میں بیان ہوا تھا کہ فلاں فلاں بلائیں ہم نے تم پر سے دفع کر دیں اب بیان ہو رہا ہے کہ فلاں فلاں نعمتیں بھی ہم نے تمہیں عطا فرمائیں غمام غمامتہ کی جمع ہے چونکہ یہ آسمان کو چھپا لیتا ہے اس لئے اسے غمامہ کہتے ہیں یہ ایک سفید رنگ کا بادل تھا جو وادی تیہ میں ان کے سروں پر سایہ کئے رہتا تھا جیسے نسائی وغیرہ میں ابن عباس سے ایک لمبی حدیث میں مروی ہے ، ابن ابی حاتم کہتے ہیں کہ ابن عمر ربیع بن انس ابو مجاز ضحاک اور سدی نے بھی یہی کہا ہے حسن اور قتادہ بھی یہی کہتے ہیں اور لوگ کہتے ہیں کہ یہ بادل عام بادلوں سے زیادہ ٹھنڈک والا اور زیادہ عمدہ تھا ۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں یہ وہی بادل تھا جس میں اللہ تعالیٰ قیامت کے دن آئے گا ابو حذیفہ کا قول بھی یہی ہے آیت ( ھَلْ يَنْظُرُوْنَ اِلَّآ اَنْ يَّاْتِيَهُمُ اللّٰهُ فِيْ ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَامِ وَالْمَلٰۗىِٕكَةُ وَقُضِيَ الْاَمْرُ ۭ وَاِلَى اللّٰهِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ ) 2 ۔ البقرۃ:210 ) اس آیت میں اس کا ذکر ہے کہ کیا ان لوگوں کو اس کا انتظار ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے بادل میں آئے ۔ یہی وہ بادل ہے جس میں بدر والے دن فرشتے نازل ہوئے تھے ۔ جو من ان پر اترا وہ درختوں پر اترا تھا ۔ یہ صبح جاتے تھے اور جمع کر کے کھا لیا کرتے تھے وہ گوند کی قسم کا تھا ۔ کوئی کہتا ہے شبنم کی وضع کا تھا حضرت قتادہ فرماتے ہیں اولوں کی طرح من ان کے گھروں میں اترتا تھا جو دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھا تھا ۔ صبح صادق سے لے کر آفتاب نکلنے تک اترتا رہتا تھا ہر شخص اپنے گھر بار کے لئے اتنی مقدار میں جمع کر لیتا تھا جتنا اس دن کافی ہو اگر کوئی زیادہ لیتا تو بگڑ جاتا تھا ۔ جمعہ کے دن وہ دو دن کا لے لیتے تھے جمعہ اور ہفتہ کا اس لئے کہ ہفتہ ان کا بڑا دن تھا ربیع بن انس کہتے ہیں من شہد جیسی چیز تھی جس میں پانی ملا کر پیتے تھے شعبی فرماتے ہیں تمہارا یہ شہد اس من کا سترواں حصہ ہے شعروں میں یہی من شہد کے معنی میں آیا ہے یہ سب اقوال قریب قریب ہیں غرض یہ ہے کہ ایک ایسی چیز تھی جو انہیں بلا تکلیف و تکلف ملتی تھی اگر صرف اسے کھایا جائے تو وہ کھانے کی چیز تھی اور اگر پانی میں ملا لی جائے تو پینے کی چیز تھی اور اگر دوسری چیزوں کے ساتھ مرکب کر دی جاتی تو اور چیز ہو جاتی تھی ۔ لیکن یہاں من سے مراد یہی من مشہور نہیں صحیح بخاری شریف کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کھمبی من میں سے ہے اور اس کا پانی آنکھ کے لئے شفا ہے ۔ ترمذی اسے حسن صحیح کہتے ہیں ترمذی میں ہے کہ عجوہ جو مدینہ کی کھجوروں کی ایک قسم ہے وہ جنتی چیز ہے اور اس میں زہر کا تریاق ہے اور کھمبی من میں سے ہے اور اس کا پانی آنکھ کے درد کی دوا ہے یہ حدیث حسن غریب ہے ۔ دوسرے بہت سے طریقوں سے بھی مروی ہے ۔ ابن مردویہ کی حدیث میں ہے کہ صحابہ نے اس درخت کے بارے میں اختلاف کیا جو زمین کے اوپر ہوتا ہے جس کی جڑیں مضبوط نہیں ہوتیں ۔ بعض کہنے لگے کھمبی کا درخت ہے آپ نے فرمایا کھمبی تو من میں سے ہے اور اس کا پانی آنکھ کے لئے شفا ہے سلویٰ ایک قسم کا پرند ہے چڑیا سے کچھ بڑا ہوتا ہے ۔ سرخی مائل رنگ کا جنوبی ہوائیں چلتی تھی اور ان پرندوں کو وہاں لا کر جمع کر دیتی تھیں بنی اسرائیل اپنی ضرورت کے مطابق انہیں پکڑ لیتے تھے اور ذبح کر کے کھاتے تھے اگر ایک دن گزر کر بچ جاتا تو وہ بگڑ جاتا تھا اور جمعہ کے دن دو دن کے لئے جمع کر لیتے تھے کیونکہ ہفتہ کا دن ان کے لئے عید کا دن ہوتا تھا اس دن عبادتوں میں مشغول رہنے اور شکار وغیرہ سے بچنے کا حکم تھا ۔ بعض لوگوں نے کہا ہے کہ یہ پرند کبوتر کے برابر ہوتے تھے ایک میل کی لمبائی چوڑائی میں ایک نیزے کے برابر اونچا ڈھیر ان پرندوں کا ہو جاتا تھا ۔ یہ دونوں چیزیں ان پر وادی تیہ میں اتری تھیں ۔ جہاں انہوں نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا تھا کہ اس جنگل میں ہمارے کھانے کا بندوبست کیسے ہو گا تب ان پر من و سلوی اتارا گیا اور پانی کے لئے جب حضرت موسیٰ علیہ السلام سے درخواست کی گئی تو پروردگار عالم نے فرمایا کہ اس پتھر پر اپنا عصا مارو عصا لگتے ہی اس سے بارہ چشمے جاری ہو گئے اور بنی اسرائیل کے بارہ ہی فرقے تھے ۔ ہر قبیلہ نے ایک ایک چشمہ اپنے لئے بانٹ لیا ، پھر سایہ کے طالب ہوئے کہ اس چٹیل میدان میں سایہ بغیر گزر مشکل ہے تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے طور پہاڑ کا ان پر سایہ کر دیا ، رہ گیا لباس تو قدرت الٰہی سے جو لباس وہ پہنے ہوئے تھے وہ ان کے قد کے بڑھنے کے ساتھ بڑھتا رہتا تھا ایک سال کے بچہ کا لباس جوں جوں اس کا قدوقامت بڑھتا لباس میں بڑھتا جاتا نہ پھٹتا نہ خراب ہوتا نہ میلا ہوتا ، ان تمام نعمتوں کا ذکر مختلف جگہ قرآن پاک میں موجود ہے جیسے یہ آیت اور آیت ( اذا ستسقی ) والی آیت وغیرہ ۔ بذلی کہتے ہیں کہ سلویٰ شہید کو کہتے ہیں لیکن ان کا یہ قول غلط ہے ثورج نے اور جوہری نے بھی یہی کہا ہے اور اس کی شہادت میں عرب شاعروں کے شعر اور بعض لغوی محاورے بھی پیش کئے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ ایک دوا کا نام ہے ۔ کسائی کہتے ہیں سلویٰ واحد کا لفظ ہے اور اس کی جمع سلاوی آتی ہے اور بعض کہتے ہیں کہ جمع میں اور مفرد میں یہی صیغہ رہتا ہے یعنی لفظ سلویٰ ۔ غرض یہ اللہ کی دو نعمتیں تھیں جن کا کھانا ان کے لئے مباح کیا گیا لیکن ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کی ناشکری کی اور یہی ان کا اپنی جانوں پر ظلم کرنا تھا باوجودیکہ اس سے پہلے بہت کچھ اللہ کی نعمتیں ان پر نازل ہو چکی تھیں ۔ تقابلی جائزہ بنی اسرائیل کی حالت کا یہ نقشہ آنکھوں کے سامنے رکھ کر پھر اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حالت پر نظر ڈالو کہ باوجود سخت سے سخت مصیبتیں جھیلنے اور بے انتہا تکلیفیں برداشت کرنے کے وہ اتباع نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اور عبادت الٰہی پر جمے رہے نہ معجزات طلب کئے نہ دنیا کی راحتیں مانگیں نہ اپنے تعیش کے لئے کوئی نئی چیز پیدا کرنے کی خواہش کی ، جنگ تبوک میں جبکہ بھوک کے مارے بیتاب ہو گئے اور موت کا مزہ آنے لگا تب حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ یا رسول اللہ اس کھانے میں برکت کی دعا کیجئے اور جس کے پاس جو کچھ بچا کھچا تھا جمع کر کے حاضر کر دیا جو سب مل کر بھی نہ ہونے کے برابر ہی تھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے قبول فرما کر اس میں برکت دی انہوں نے خوب کھایا بھی اور تمام توشے دان بھر لئے ، پانی کے قطرے قطرے کو جب ترسنے لگے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا سے ایک ابر آیا اور ریل پیل کر دی ، پیا پلایا اور مشیں اور مشکیزے سب بھر لئے ۔ پس صحابہ کی اس ثابت قدمی اوالوالعزمی کامل اتباع اور سچی توحید نے ان کی اصحاب موسیٰ علیہ السلام پر قطعی فضیلت ثابت کر دی ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

57۔ 1 اکثر مفسرین کے نزدیک یہ مصر اور شام کے درمیان میدان تیہ کا واقعہ ہے۔ جب انہوں نے حکم الٰہی عمالقہ کی بستی میں داخل ہونے سے انکار کردیا اور بطور سزا بنو اسرائیل چالیس سال تک تیہ کے میدان میں پڑے رہے۔ بعض کے نزدیک یہ تخصیص صحیح نہیں۔ یہ صحرائے سینا میں اترنے کے بعد جب سب سے پہلے پانی اور کھانے کا مسئلہ درپیش آیا تو اسی وقت یہ انتظام کیا گیا۔ 58۔ 1 بعض کے نزدیک اوس جو درخت اور پتھر پر گرتی شہد کی طرح میٹھی ہوتی اور خشک ہو کر گوند کی طرح ہوجاتی۔ بعض کے نزدیک شہد یا میٹھا پانی ہے۔ بخاری و مسلم وغیرہ میں حدیث ہے کھمبی مَن کی اس قسم سے ہے جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی، اس کا مطلب یہ ہے جس طرح بنی اسرائیل کو وہ کھانا بلادقت پہنچ جاتا تھا اسی طرح کھمبی بغیر کسی کے بوئے کے پیدا ہوجاتی ہے۔ سلوا بٹیر یا چڑیا کی طرح کا ایک پرندہ تھا جسے ذبح کر کے کھالیتے تھے۔ (فتح القدیر)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٧٣] بنی اسرائیل کا جہاد سے انکار :۔ یہ واقعہ تفصیل سے سورة مائدہ میں آئے گا۔ مختصر یہ کہ موسیٰ (علیہ السلام) جب بنی اسرائیل کو لے کر وادی سینا میں پہنچے تو اس وقت یہ قوم لاکھوں کی تعداد میں تھی۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے ملک شام پر حملہ کرنے کے لیے کہا ( یہی وہ ملک تھا جس کا ان سے وعدہ کیا گیا تھا) تو کہنے لگے موسیٰ وہاں تو جابر قسم کے لوگ رہتے ہیں۔ لہذا ہم ان کے مقابلہ کی سکت نہیں رکھتے، اور اگر یہ حملہ ایسا ہی ضروری ہے تو تم اور تمہارا پروردگار دونوں جا کر ان سے جنگ کرو ہم تو یہاں ہی بیٹھتے ہیں۔ ان کا یہ جواب دراصل اس بزدلی کی وجہ سے تھا جو مدتوں فرعون کی غلامی میں رہنے کی وجہ سے ان میں پیدا ہوچکی تھی۔- جہاد سے انکار کی سزا :۔ اس جواب پر اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے ملک شام کی فتح چالیس سال تک کے لئے موخر کردی۔ تاکہ اس عرصہ میں یہ بزدل نسل مر کھپ جائے اور آئندہ جو نسل اس بیابان اور آزادانہ فضا میں پیدا ہو۔ اس میں کچھ ہمت اور جرأت پیدا ہو اور جہاد کے قابل بن جائیں۔ اب سوال یہ تھا کہ اس بیابان میں نہ کوئی مکان تھے اور نہ سامان خوردو نوش اور لوگ لاکھوں کی تعداد میں تھے۔- ابر من وسلویٰ اور بارہ چشمے :۔ اندریں صورت اللہ تعالیٰ نے اس طویل مدت کے لیے آسمان کو ابر آلود رکھا، ورنہ یہ سارے لوگ دھوپ کی شدت سے تباہ و برباد ہوجاتے اور خوراک کا یہ انتظام فرمایا کہ کثیر تعداد میں من وسلویٰ نازل فرمایا۔ من ایک میٹھی چیز تھی جو دھنیے کے بیج جیسی تھی اور رات کو اوس کی شکل میں نازل ہوتی تھی اور سلویٰ بٹیر کی قسم کے پرندے تھے جنہیں یہ لوگ بھون کر اور کباب بنا کر کھاتے تھے اور یہ غذائیں بلامشقت انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کثیر مقدار میں اس طویل عرصہ میں ملتی رہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کے اس قوم پر خاص انعامات تھے۔ ورنہ جو مایوس کن جواب انہوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کو دیا تھا۔ اگر اللہ چاہتا تو اس کی پاداش میں انہیں ہلاک کردیتا اور پھر اس جزیرہ میں اس طرح زندگی بسر کرنا بھی ان کے اپنے کرتوتوں کی وجہ سے ہوا تھا۔ اسی جنگل میں سیدنا ہارون (علیہ السلام) کی وفات ہوئی۔ پھر ایک سال بعد سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کی بھی وفات ہوئی تھی۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

صحرائے سینا میں ان کے پاس کھانے کے لیے کچھ نہ تھا اور صحرا کی دھوپ انھیں جلائے دیتی تھی تو اللہ تعالیٰ نے ان پر خاص قسم کے بادل کا سایہ کردیا اور کھانے کے لیے من وسلویٰ کا انتظام فرما دیا۔ ” مَنَّ “ کی تفسیر میں سب سے صحیح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تفسیر ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (اَلْکَمَأَۃُ مِنَ الْمَنِّ وَمَاءُھَا شِفَاءٌ لِلْعَیْنِ ) [ بخاری، الطب، باب المن شفاء للعین : ٥٧٠٨۔ مسلم : ٢٠٦٩، عن سعید بن زید (رض) ] ” کھنبی ” مَنَّ “ میں سے ہے اور اس کا پانی آنکھ کے لیے شفا ہے۔ “ اس سے معلوم ہوا کہ ” مَنَّ “ متعدد چیزیں تھیں جو صحرا میں خود بخود پیدا ہوتی تھیں، ان میں سے ایک کھنبی بھی تھی۔ اسی طرح وہ میٹھی گوند بھی ” مَنَّ “ کی ایک قسم تھی جو ابن عباس (رض) اور مجاہد (رح) سے ” مَنَّ “ کی تفسیر میں آئی ہے۔ ”(السَّلْوٰى) اسم جنس ہے، اس کا واحد ” سَلْواۃٌ“ آتا ہے، بٹیر یا بٹیر سے ملتا جلتا پرندہ ہے۔ صحرا میں اللہ کے حکم سے بیشمار پرندے آجاتے اور وہ انھیں پکڑ کر کھالیتے تھے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر :- اور سایہ فگن کیا ہم نے تم پر ابر کو (میدان تیہ میں) اور (خزانہ غیب سے) پہنچایا ہم نے تمہارے پاس ترنجین اور بٹیریں (اور تم کو اجازت دی کہ) کھاؤ نفیس چیزوں سے جو کہ ہم نے تم کو دی ہیں (مگر وہ لوگ اس میں بھی خلاف بات کر بیٹھے) اور (اس سے) انہوں نے ہمارا کوئی نقصان نہیں کیا لیکن اپنا ہی نقصان کرتے تھے،- فائدہ : دونوں قصے وادی تیہ میں واقع ہوئے وادی تیہ کی حقیقت یہ ہے کہ بنی اسرائیل کا اصلی وطن ملک شام ہے حضرت یوسف (علیہ السلام) کے وقت میں مصر آئے تھے اور یہاں ہی رہ پڑے اور ملک شام میں عمالقہ نامی قوم کا تسلط ہوگیا فرعون جب غرق ہوگیا اور یہ لوگ مطمئن ہوگئے تو اللہ تعالیٰ کا ان کو حکم ہوا کہ عمالقہ سے جہاد کرو اور اپنی اصلی جگہ کو ان کے قبضہ سے چھڑا لو بنی اسرائیل اس ارادہ پر مصر سے چلے اور ان کی حدود میں پہنچ کر جب عمالقہ کے زور وقوت کا حال معلوم ہوا تو ہمت ہار بیٹھے اور جہاد سے صاف انکار کردیا اللہ تعالیٰ نے ان کو اس انکار کی یہ سزا دی کہ چالیس برس تک ایک میدان میں سرگرداں و پریشان پھرتے رہے گھر پہنچنا بھی نصیب نہ ہوا، - یہ میدان کچھ بہت بڑا رقبہ نہ تھا بلکہ مصر اور شام کے درمیان پانچ چھ کوس یعنی تقریباً دس میل کا رقبہ تھا روایت یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے وطن مصر جانے کے لئے دن بھر سفر کرتے اور رات کو کسی منزل پر اترتے صبح کو دیکھتے کہ جہاں سے چلے تھے وہیں ہیں اسی طرح چالیس سال سرگرداں و پریشان اس میدان میں پھرتے رہے اسی لئے میدان کو وادی تیہ کہا جاتا ہے۔ تیہ کے معنی ہیں سرگردانی اور پریشانی کے یہ وادی تیہ ایک کھلا میدان تھا نہ اس میں کوئی عمارت تھی نہ درخت جس کے نیچے دھوپ اور سردی اور گرمی سے بچا جاسکے اور نہ یہاں کوئی کھانے پینے کا سامان تھا نہ پہننے کے لئے لباس مگر اللہ تعالیٰ نے معجزہ کے طور پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا سے اسی میدان میں ان کی تمام ضروریات کا انتظام فرما دیا بنی اسرائیل نے دھوپ کی شکایت کی تو اللہ تعالیٰ نے ایک سفید رقیق ابر کا سایہ کردیا اور بھوک کا تقاضا ہوا تو من وسلوٰی نازل فرما دیا یعنی درختوں پر ترنجین جو ایک شیریں چیز ہے بکثرت پیدا کردی یہ لوگ اس کو جمع کرلیتے اسی کو من کہا گیا ہے اور بٹیریں ان کے پاس جمع ہوجاتیں ان سے بھاگتی نہ تھیں یہ ان کو پکڑ لیتے اور ذبح کرکے کھاتے اسی کو سلویٰ کہا گیا ہے یہ لوگ دونوں لطیف چیزوں سے پیٹ بھر لیتے چونکہ جرنجین کی کثرت معمول سے زائد تھی اور بٹیروں کا وحشت نہ کرنا یہ بھی معمول کے خلاف ہے لہذا اس حیثیت سے دونوں چیزیں خزانہ غیب سے قرار دی گئیں ان کو پانی کی ضرورت پیش آئی تو موسیٰ (علیہ السلام) کو ایک پتھر پر لاٹھی مارنے کا حکم دیا گیا اس پتھر سے چشمے پھوٹ پڑے جیسا کہ دوسری آیات قرآنی میں مذکور ہے ان لوگوں نے رات کی اندھیری کا شکوہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے غیب سے ایک روشنی عمودی شکل میں ان کے محلہ کے درمیان قائم فرمادی کپڑے میلے ہوئے اور پھٹنے لگے اور لباس کی ضرورت ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے بطور اعجاز یہ صورت کردی کہ ان کے کپڑے نہ میلے ہوں نہ پھٹیں اور بچوں کے بدن پر جو کپڑے ہیں وہ ان کے بدن کے بڑہنے کے ساتھ ساتھ اسی مقدار میں بڑہتے رہیں (تفسیر قرطبی) - اور ان لوگوں کو یہ بھی حکم ہوا تھا کہ بقدر خرچ لے لیا کریں، آئندہ کے لئے جمع کرکے نہ رکھیں مگر ان لوگوں نے حرص کے مارے اس میں بھی خلاف کیا تو رکھا ہوا گوشت سڑنا شروع ہوگیا اسی کو فرمایا ہے کہ اپنا ہی نقصان کرتے تھے،

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَظَلَّلْنَا عَلَيْكُمُ الْغَمَامَ وَاَنْزَلْنَا عَلَيْكُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوٰى۝ ٠ ۭ كُلُوْا مِنْ طَيِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ۝ ٠ ۭ وَمَا ظَلَمُوْنَا وَلٰكِنْ كَانُوْٓا اَنْفُسَھُمْ يَظْلِمُوْنَ۝ ٥٧- ظلل - الظِّلُّ : ضدُّ الضَّحِّ ، وهو أعمُّ من الفیء، فإنه يقال : ظِلُّ اللّيلِ ، وظِلُّ الجنّةِ ، ويقال لكلّ موضع لم تصل إليه الشّمس : ظِلٌّ ، ولا يقال الفیءُ إلّا لما زال عنه الشمس، ويعبّر بِالظِّلِّ عن العزّة والمنعة، وعن الرّفاهة، قال تعالی: إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي ظِلالٍ [ المرسلات 41] ، أي :- في عزّة ومناع،- ( ظ ل ل ) الظل - ۔ سایہ یہ الضح ( دهوپ ) کی ضد ہے اور فیی سے زیادہ عام ہے کیونکہ ( مجازا الظل کا لفظ تورات کی تاریکی اور باغات کے سایہ پر بھی بولا جاتا ہے نیز ہر وہ جگہ جہاں دہوپ نہ پہنچنے اسے ظل کہہ دیا جاتا ہے مگر فییء صرف اس سے سایہ کو کہتے ہیں جوز وال آفتاب سے ظاہر ہو ہے اور عزت و حفاظت اور ہر قسم کی خش حالی کو ظل سے تعبیر کرلیتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي ظِلالٍ [ المرسلات 41] کے معنی یہ ہیں کہ پرہیز گار ہر طرح سے عزت و حفاظت میں ہوں گے ۔ - غم - الغَمُّ : ستر الشیء، ومنه : الغَمَامُ لکونه ساترا لضوء الشمس . قال تعالی: يَأْتِيَهُمُ اللَّهُ فِي ظُلَلٍ مِنَ الْغَمامِ [ البقرة 210] . والغَمَّى مثله، ومنه : غُمَّ الهلالُ ، ويوم غَمٌّ ، ولیلة غَمَّةٌ وغُمَّى، قال : ليلة غمّى طامس هلالها وغُمَّةُ الأمر . قال : ثُمَّ لا يَكُنْ أَمْرُكُمْ عَلَيْكُمْ غُمَّةً [يونس 71] ، أي : كربة . يقال : غَمٌ وغُمَّةٌ. أي : كرب وکربة، والغَمَامَةُ : خرقة تشدّ علی أنف النّاقة وعینها، وناصية غَمَّاءُ : تستر الوجه .- ( غ م م ) الغم - ( ن ) کے بنیادی معنی کسی چیز کو چھپا لینے کی ہیں اسی سے الغمیٰ ہے جس کے معنی غبار اور تاریکی کے ہیں ۔ نیز الغمیٰ جنگ کی شدت الغمام کہتے ہیں کیونکہ وہ سورج کی روشنی کو ڈھانپ لیتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : يَأْتِيَهُمُ اللَّهُ فِي ظُلَلٍ مِنَ الْغَمامِ [ البقرة 210] کہ خدا کا عذاب بادلوں کے سائبانوں میں آنازل ہوا ۔ اسی سے غم الھلال ( چاند ابر کے نیچے آگیا اور دیکھا نہ جاسکا ۔ ویوم غم ( سخت گرم دن ولیلۃ غمۃ وغمی ٰ ( تاریک اور سخت گرم رات ) وغیرہ ہا محاورات ہیں کسی شاعر نے کہا ہے ( جز ) ( 329) لیلۃ غمی ٰ طامس ھلالھا تاریک رات جس کا چاند بےنور ہو ۔ اور غمۃ الامر کے معنی کسی معاملہ کا پیچدہ اور مشتبہ ہونا ہیں ، قرآن پاک میں ہے : ۔ ثُمَّ لا يَكُنْ أَمْرُكُمْ عَلَيْكُمْ غُمَّةً [يونس 71] پھر تمہارا معاملہ تم پر مشتبہ نہ رہے ۔ یعنی پھر وہ معاملہ تمہارے لئے قلق و اضطراب کا موجب نہ ہو اور غم وغمۃ کے ایک ہی معنی ہیں یعنی حزن وکرب جیسے کرب وکربۃ اور غمامۃ اس چیتھڑے کو کہتے ہیں جو اونٹنی کی ناک اور آنکھوں پر باندھ دیا جاتا ہے تاکہ کسی چیز کو دیکھ یاسونگھ نہ سکے ) اور ناصیۃ غماء پیشانی کے لمبے بال جو چہرے کو چھالیں ۔- نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - منّ ( من و سلوي)- في قوله : وَأَنْزَلْنا عَلَيْكُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوى[ البقرة 57] فقد قيل : المنّ شيء کالطّلّ فيه حلاوة يسقط علی الشجر، والسّلوی: طائر، وقیل : المنّ والسّلوی، كلاهما إشارة إلى ما أنعم اللہ به عليهم، وهما بالذّات شيء واحد لکن سماه منّا بحیث إنه امتنّ به عليهم، وسماه سلوی من حيث إنّه کان لهم به التّسلّي . ومَنْ عبارة عن النّاطقین، ولا يعبّر به عن غير النّاطقین إلا إذا جمع بينهم وبین غيرهم، کقولک : رأيت مَنْ في الدّار من النّاس والبهائم، أو يكون تفصیلا لجملة يدخل فيهم النّاطقون، کقوله تعالی: فَمِنْهُمْ مَنْ يَمْشِي الآية [ النور 45] . ولا يعبّر به عن غير النّاطقین إذا انفرد،- بعض نے کہا ہے منۃ بالقول بھی اسی سے ہے کیونکہ احسان جتلانے نعمت کو قطع کر دیاتا ہے اور شکر گزرای کئ انقطاع کو مقتضی ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَأَنْزَلْنا عَلَيْكُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوى[ البقرة 57] اور تمہارے لئے من سلوی اتارتے رہے ۔ میں من سے شبنمی گوند مراد ہے جو رات کو درخت کو درخت کے پے وں پر چم جاتی تھی اور سلویٰ ایک پرند کا نام ہے بعض نے کہا ہے کہ من اور سلوی سے احسانات کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے ان پر کئے تھے اور یہ دونوں اصل میں ایک ہی چیز سے عبارت ہیں ؛لیکن ان پر احسان کرنے کے لحاظ سے اسے من کہا ہے اور اس لحاظ سے کہ وہ نعمت ان کے لئے باعث اطمینا ن تھی اسے سلویٰ فرمایا ہے جو کہ تسلی سے ماخوذ ہے ۔ اس سے ذوی العقول مراد ہوتے ہیں اور غیر ذوی العقول پر اس کا اطلاق یا تو اس وقت ہوتا ہے ۔ جب وہ ذوی العقول کے ملتبع مراد ہوں مثلا رایت من فی الدار کہہ کر گھر کے لوگ اور بہا ئم دونوں مراد لئے جائیں ۔ اور یا اس وقت جب اہل نطق کے ساتھ شامل کر کے پھر ان کی تفصیل بیان کرنا مقصود ہوتی ہے جیسے فرمایا : ۔ فَمِنْهُمْ مَنْ يَمْشِي الآية [ النور 45] تو ان میں سے بعض ایسے ہیں جو پیٹ کے بل چلتے ہیں اور بعض ایسے ہیں جو دو پاؤں پر چلتے ہیں اور یہ یہ تنہا غیر ذوی العقول کے لئے استعمال نہیں ہوتا - أكل - الأَكْل : تناول المطعم، وعلی طریق التشبيه قيل : أكلت النار الحطب، والأُكْل لما يؤكل، بضم الکاف وسکونه، قال تعالی: أُكُلُها دائِمٌ [ الرعد 35] - ( ا ک ل ) الاکل - کے معنی کھانا تناول کرنے کے ہیں اور مجازا اکلت النار الحطب کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے یعنی آگ نے ایندھن کو جلا ڈالا۔ اور جو چیز بھی کھائی جائے اسے اکل بضم کاف و سکونا ) کہا جاتا ہے ارشاد ہے أُكُلُهَا دَائِمٌ ( سورة الرعد 35) اسکے پھل ہمیشہ قائم رہنے والے ہیں ۔- طيب - يقال : طَابَ الشیءُ يَطِيبُ طَيْباً ، فهو طَيِّبٌ. قال تعالی: فَانْكِحُوا ما طاب لَكُمْ [ النساء 3] ، فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ [ النساء 4] ، وأصل الطَّيِّبِ : ما تستلذّه الحواسّ ، وما تستلذّه النّفس، والطّعامُ الطَّيِّبُ في الشّرع : ما کان متناولا من حيث ما يجوز، ومن المکان الّذي يجوز فإنّه متی کان کذلک کان طَيِّباً عاجلا وآجلا لا يستوخم، وإلّا فإنّه۔ وإن کان طَيِّباً عاجلا۔ لم يَطِبْ آجلا، وعلی ذلک قوله : كُلُوا مِنْ طَيِّباتِ ما رَزَقْناكُمْ [ البقرة 172] - ( ط ی ب ) طاب ( ض )- الشئی یطیب طیبا فھم طیب ( کے معنی کسی چیز کے پاکیزہ اور حلال ہونے کے ہیں ) قرآن میں ہے : : فَانْكِحُوا ما طاب لَكُمْ [ النساء 3] تو ان کے سوا عورتیں تم کو پسند ہوں ان سے نکاح کرلو ۔ ، فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ [ النساء 4] ہاں اگر وہ اپنی خوشی سے تم کو چھوڑدیں ۔ اصل میں طیب اسے کہا جاتا ہے جس سے انسان کے حواس بھی لذت یاب ہوں اور نفس بھی اور شریعت کی رو سے الطعام الطیب اس کھانے کو کہا جائے گا جو جائز طریق سے حاصل کیا جائے اور جائز جگہ سے جائز انداز کے مطابق لیا جائے کیونکہ جو غذا اس طرح حاصل کی جائے وہ دنیا اور آخرت دونوں میں خوشگوار ثابت ہوگی ورنہ دنیا کی خوشگوار چیزیں آخرت میں نقصان وہ ثابت ہونگی اسی بنا پر قرآن طیب چیزوں کے کھانے کا حکم دیتا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ كُلُوا مِنْ طَيِّباتِ ما رَزَقْناكُمْ [ البقرة 172] جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تمہیں عطا فرمائی ہیں اور ان کو کھاؤ ۔- رزق - الرِّزْقُ يقال للعطاء الجاري تارة، دنیويّا کان أم أخرويّا، وللنّصيب تارة، ولما يصل إلى الجوف ويتغذّى به تارة ، يقال : أعطی السّلطان رِزْقَ الجند، ورُزِقْتُ علما، قال : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] ، أي : من المال والجاه والعلم، - ( ر ز ق) الرزق - وہ عطیہ جو جاری ہو خواہ دنیوی ہو یا اخروی اور رزق بمعنی نصیبہ بھی آجاتا ہے ۔ اور کبھی اس چیز کو بھی رزق کہاجاتا ہے جو پیٹ میں پہنچ کر غذا بنتی ہے ۔ کہاجاتا ہے ۔ اعطی السلطان رزق الجنود بادشاہ نے فوج کو راشن دیا ۔ رزقت علما ۔ مجھے علم عطا ہوا ۔ قرآن میں ہے : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] یعنی جو کچھ مال وجاہ اور علم ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے صرف کرو - ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں - نفس - الَّنْفُس : ذاته وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، - ( ن ف س ) النفس - کے معنی ذات ، وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٥٧) اور ہم نے وادی تیہ میں تم پر بادل کو سایہ فگن کیا اور بٹیر تمہارے پاس وادی تیہ میں پہنچائے اور یہ حلال روزیاں ہم نے تمہیں کھانے کو دیں مگر کل کے لیے اس میں سے جمع کرکے مت رکھو لیکن تم نے ایسا ہی کیا اور ہم نے ان کے ذخیرہ بنانے کی وجہ سے کوئی کمی نہیں مگر کل کے لئے اس میں سے جمع کرکے مت رکھو لیکن تم نے ایسا ہی کیا اور ہم نے ان کے ذخیرہ بنانے کی وجہ سے کوئی کمی نہیں مگر خود انہوں نے اپنے آپ کو نقصان پہنچایا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥٧ (وَظَلَّلْنَا عَلَیْکُمُ الْغَمَامَ )- جزیرہ نمائے سینا کے لق و دق صحرا میں چھ لاکھ کا قافلہ چل رہا ہے ‘ کوئی اوٹ نہیں ‘ کوئی سایہ نہیں ‘ دھوپ کی تپش سے بچنے کا کوئی انتظام نہیں۔ ان حالات میں ان پر اللہ تعالیٰ کا یہ فضل ہوا کہ تمام دن ایک بادل ان پر سایہ کیے رہتا اور جہاں جہاں وہ جاتے وہ بادل ان کے ساتھ ساتھ ہوتا۔ - (وَاَنْزَلْنَا عَلَیْکُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوٰی ط) “ - صحرائے سینا میں بنی اسرائیل کے پاس کھانے کو کچھ نہیں تھا تو ان کے لیے مَنّ وسلویٰ نازل کیے گئے۔ ” مَنّ “ رات کے وقت شبنم کے قطروں کی مانند اترتا تھا ‘ جس میں شیرینی بھی ہوتی تھی ‘ اور اس کے قطرے زمین پر آکر جم جاتے تھے اور دانوں کی صورت اختیار کرلیتے تھے۔ یہ گویا ان کا اناج ہوگیا ‘ جس سے کاربوہائیڈریٹس کی ضرورت پوری ہوگئی۔ ” سلویٰ “ ایک خاص قسم کا بٹیر کی شکل کا پرندہ تھا۔ شام کے وقت ان پرندوں کے بڑے بڑے جھنڈ آتے اور جہاں بنی اسرائیل ڈیرہ ڈالے ہوتے اس کے گرد اتر آتے تھے۔ رات کی تاریکی میں یہ ان پرندوں کو آسانی سے پکڑ لیتے تھے اور بھون کر کھاتے تھے۔ چناچہ ان کی پروٹین کی ضرورت بھی پوری ہو رہی تھی۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کو مکمل غذا فراہم کردی تھی۔ - (کُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰکُمْ ط) ” (ہم نے کہا) کھاؤ ان پاکیزہ چیزوں کو جو ہم نے تم کو عطا کی ہیں۔ “ - (وَمَا ظَلَمُوْنَا وَلٰکِنْ کَانُوْٓا اَنْفُسَہُمْ یَظْلِمُوْنَ ) “ - ہر قدم پر نافرمانی اور ناشکری بنی اسرائیل کا وطیرہ تھی۔ چناچہ انہوں نے ” مَنّ وسلویٰ “ جیسی نعمت کی قدر بھی نہ کی اور ناشکری کی روش اپنائے رکھی۔ اس کا ذکر اگلی آیات میں آجائے گا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :72 یعنی جزیرہ نمائے سینا میں جہاں دھوپ سے بچنے کے لیے کوئی جائے پناہ تمہیں میسّر نہ تھی ، ہم نے ابر سے تمہارے بچاؤ کا انتظام کیا ۔ اس موقع پر خیال رہے کہ بنی اسرائیل لاکھوں کی تعداد میں مصر سے نکل کر آئے تھے اور سینا کے علاقے میں مکانات کا تو کیا ذکر ، سر چھُپانے کے لیے ان کے پاس خیمے تک نہ تھے ۔ اس زمانے میں اگر خدا کی طرف سے ایک مدّت تک آسمان کو اَبر آلود نہ رکھا جاتا ، تو یہ قوم دھوپ سے ہلاک ہو جاتی ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :73 مَنّ و سَلْویٰ وہ قدرتی غذائیں تھیں ، جو اس مہاجرت کے زمانے میں ان لوگوں کو چالیس برس تک مسلسل ملتی رہیں ۔ مَنّ دھنیے کے بیج جیسی ایک چیز تھی ، جو اُوس کی طرح گرتی اور زمین پر جم جاتی تھی ۔ اور سَلْویٰ بٹیر کی قسم کے پرندے تھے ۔ خدا کے فضل سے ان کی اتنی کثرت تھی کہ ایک پُوری کی پُوری قوم محض انہی غذاؤں پر زندگی بسر کرتی رہی اور اسے فاقہ کشی کی مصیبت نہ اُٹھانی پڑی ، حالانکہ آج کسی نہایت متمدّن ملک میں بھی اگر چند لاکھ مہاجر یکایک آپڑیں ، تو ان کی خوراک کا انتظام مشکل ہو جاتا ہے ۔ ( مَنّ اور سَلْویٰ کی تفصیلی کیفیّت کے لیے ملاحظہ ہو بائیبل ، کتاب خرُوج ، باب ۱٦- گنتی ، باب ۱۱ ، آیت ۹-۷ و ۳۲-۳۱ و یشوع ، باب ۵- آیت ۱۲ )

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

44 : جیسا کہ سورۂ مائدہ میں آئے گا، بنی اسرائیل نے جہاد کے ایک حکم کی نافرمانی کی تھی جس کی پاداش میں انہیں صحرائے سینا میں مقید کردیا گیا تھا ،لیکن اس سزا یابی کے دوران بھی اﷲ تعالیٰ نے انہیں جن نعمتوں سے نوازا یہاں ان کا ذکر ہورہا ہے۔ صحرا میں چونکہ کوئی چھت ان کے سروں پر نہیں تھی اس لئے ان کو دُھوپ کی تمازت سے بچانے کے لئے اﷲ تعالیٰ نے یہ انتظام فرمایا کہ ایک بادل ان پر مسلسل سایہ کئے رہتا تھا۔ اسی صحرا میں جہاں کوئی غذا دستیاب نہیں تھی، اﷲ تعالیٰ نے غیب سے من وسلویٰ کی شکل میں انہیں بہترین خوراک مہیا فرمائی۔ بعض روایات کے مطابق من سے مراد ترنجبین ہے جو اس علاقے میں افراط سے پیدا کردی گئی تھی، اور سلویٰ سے مراد بٹیریں ہیں جو بنی اسرائیل کی قیام گاہوں کے آس پاس کثرت سے منڈلاتی رہتیں، اور کوئی انہیں پکڑنا چاہتا تو وہ بالکل مزاحمت نہیں کرتی تھیں۔ بنی اسرائیل نے ان تمام نعمتوں کی بُری طرح ناقدری کی اور اس طرح خود اپنی جانوں پر ظلم کیا۔