یہود کی پھر حکم عدولی جب موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو لے کر مصر سے آئے اور انہیں ارض مقدس میں داخل ہونے کا حکم ہوا جو ان کی موروثی زمین تھی ان سے کہا گیا کہ یہاں جو عمالیق ہیں ان سے جہاد کرو تو ان لوگوں نے نامردی دکھائی جس کی سزا میں انہیں میدان تیہ میں ڈال دیا گیا جیسے کہ سورۃ مائدہ میں ذکر ہے قریہ سے مراد بیت المقدس ہے ۔ سدی ، ربیع ، قتادہ ، ابو مسلم وغیرہ نے یہی کہا ہے ، قرآن میں ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا اے میری قوم اس پاک زمین میں جاؤ جو تمہارے لئے لکھ دی گئی ہے بعض کہتے ہیں اس سے مراد ریخاء ہے بعض نے کہا ہے مصر مراد ہے لیکن صحیح قول پہلا ہی ہے کہ مراد اس سے بیت المقدس ہے یہ واقعہ تیہ سے نکلنے کے بعد کا ہے جمعہ کے دن شام کو اللہ تعالیٰ نے انہیں اس پر فتح عطا کی بلکہ سورج کو ان کے لئے ذرا سی دیر ٹھہرا دیا تھا تاکہ فتح ہو جائے فتح کے بعد انہیں حکم ہوا کہ اس شہر میں سجدہ کرتے ہوئے داخل ہوں ۔ جو اس فتح کی اظہار تشکر کا مظہر ہو گا ابن عباس نے سجدے سے مراد رکوع لیا ہے ۔ راوی کہتے ہیں کہ سجدے سے مراد یہاں پر خشوع خضوع ہے کیونکہ حقیقت پر اسے محمول کرنا ناممکن ہے ۔ ابن عباس کہتے ہیں یہ دروازہ قبلہ کی جانب تھا اس کا نام باب الحطہ تھا ۔ رازی نے یہ بھی کہا ہے کہ دروازے سے مراد جہت قبلہ ہے ۔ بجائے سجدے کے اس قوم نے اپنی رانوں پر کھسکنا شروع کیا اور کروٹ کے بل داخل ہونے لگے سروں کو جھکانے کے بجائے اور اونچا کر لیا حطتہ کے معنی بخشش کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ امر حق ہے عکرمہ کہتے ہیں اس سے مراد آیت ( لا الہ الا اللہ ) کہنا ہے ابن عباس کہتے ہیں ان میں گناہوں کا اقرار ہے حسن اور قتادہ فرماتے ہیں اس کے معنی یہ ہیں اللہ ہماری خطاؤں کو ہم سے دور کر دے ۔ پھر ان سے وعدہ کیا جاتا ہے کہ اگر تم اسی طرح یہی کہتے ہوئے شہر میں جاؤ گے اور اس فتح کے وقت بھی اپنی پستی اور اللہ کی نعمت اور اپنے گناہوں کا اقرار کرو گے اور مجھ سے بخشش مانگو تو چونکہ یہ چیزیں مجھے بہت ہی پسند ہیں میں تمہاری خطاؤں سے درگزر کر لوں گا ۔ فتح مکہ کے موقع پر فرمان الٰہی سورۃ اذا جاء نازل ہوئی تھی اور اس میں بھی یہی حکم دیا گیا تھا کہ جب اللہ کی مدد آ جائے مکہ فتح ہو اور لوگ دین اللہ میں فوج در فوج آنے لگیں تو اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تم اپنے رب کی تسبیح اور حمد و ثنا بیان کرو اس سے استغفار کرو وہ توبہ قبول کرنے والا ہے ۔ اس سورت میں جہاں ذکرو استغفار کا ذکر ہے وہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری وقت کی خبر تھی ۔ حضرت ابن عباس نے حضرت عمر کے سامنے اس سورت کا ایک مطلب یہ بھی بیان کیا تھا جسے آپ نے فرمایا تھا جب مکہ فتح ہونے کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم شہر میں داخل ہوئے تو انتہائی تواضع اور مسکینی کے آثار آپ پر تھے یہاں تک کے سر جھکائے ہوئے تھے اونٹنی کے پالان سے سر لگ گیا تھا ۔ شہر میں جاتے ہی غسل کر کے صحیٰ کے وقت آٹھ رکعت نماز ادا کی جو ضحی کی نماز بھی تھی اور فتح کے شکریہ کی بھی دونوں طرح کے قول محدثین کے ہیں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب ملک ایران فتح کیا اور کسری کے شاہی محلات میں پہنچے تو اسی سنت کے مطابق آٹھ رکعتیں پڑھیں دو دو رکعت ایک سلام سے پڑھنے کا بعض کا مذہب ہے اور بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ آٹھ ایک ساتھ ایک ہی سلام سے پڑھیں واللہ اعلم ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں بنی اسرائیل کو حکم کیا گیا کہ وہ سجدہ کرتے ہوئے اور حطتہ کہتے ہوئے دروازے میں داخل ہوں لیکن انہوں نے بدل دیا اور اپنی رانوں پر گھسٹتے ہوئے اور حطتہ کے بجائے حبتہ فی شعرۃ کہتے ہوئے جانے لگے ۔ نسائی ، عبدالرزاق ، ابو داؤد ، مسلم اور ترمذی میں بھی یہ حدیث بہ اختلاف الفاظ موجود ہے اور سنداً صحیح ہے حضرت ابو سعید خدری فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جا رہے تھے ۔ ذات الحنطل نامی گھاٹی کے قریب پہنچے تو آپ نے فرمایا کہ اس گھاٹی کی مثال بھی بنی اسرائیل کے اس دروازے جیسی ہے جہاں انہیں سجدہ کرتے ہوئے اور حطتہ کہتے ہوئے داخل ہونے کو کہا گیا تھا اور ان کے گناہوں کی معافی کا وعدہ کیا گیا تھا ۔ حضرت برآء فرماتے ہیں سیقول السففھاء میں سفہاء یعنی جاہلوں سے مراد یہود ہیں جنہوں نے اللہ کی بات کو بدل دیا تھا حضرت ابن مسعود فرماتے ہیں حطتہ کے بدلے انہوں نے حنطۃ حبتہ حمراء فیھا شعیرۃ کہا تھا ان کی اپنی زبان میں ان کے الفاظ یہ تھے ھطا سمعانا ازبتہ مزبا ابن عباس بھی ان کی اس لفظی تبدیلی کو بیان فرماتے ہیں کہ رکوع کرنے کے بدلے وہ رانوں پر گھسٹتے ہوئے اور حطتہ کے بدلے حنطۃ کہتے ہوئے داخل ہوئے حضرت عطا ، مجاہد ، عکرمہ ، ضحاک ، حسن ، قتادہ ، ربیع ، یحییٰ نے بھی یہی بیان کیا ہے مطلب یہ ہے کہ جس قول و فعل کا انہیں حکم دیا گیا تھا انہوں نے مذاق اڑایا جو صریح مخالفت اور معاندت تھی اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنا عذاب نازل فرمایا ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم نے ظالموں پر ان کے فسق کی وجہ سے آسمانی عذاب نازل فرمایا ۔ رجز سے مراد عذاب ہے کوئی کہتا ہے غضب ہے کسی نے طاعون کہا ہے ایک مرفوع حدیث ہے طاعون رجز ہے اور یہ عذاب تم سے اگلے لوگوں پر اتارا گیا تھا ۔ بخاری اور مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ یہ دکھ اور بیماری رجز ہے تم سے پہلے لوگ انہی سے عذاب دئیے گئے تھے ۔
ف 1 اس بستی سے مراد جمہور مفسرین کے نزدیک بیت المقدس ہے۔ ف 2 سجدہ سے بعض حضرات نے یہ مطلب لیا ہے کہ جھکتے ہوئے داخل ہو اور بعض نے سجدہ شکر ہی مراد لیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ بارگاہ الٰہی میں عجز اور انکسار کا اظہار اور اعتراف شکر کرتے ہوئے داخل ہو۔ ف 3 حِطَّةٌ اس کے معنی ہیں ہمارے گناہ معاف فرما دے۔
[٧٤] پھر جب یہ تربیت کا عرصہ گزر گیا اور انہوں نے ایک بستی کو فتح کرلیا تو ہم نے انہیں ہدایت کی کہ اس شہر میں اللہ کے حضور سجدہ ریز ہو کر اور منکسرانہ انداز سے داخل ہونا اور اللہ تعالیٰ سے استغفار بھی کرنا (یعنی بدنی اور قولی دونوں طرح کی عبادت کرنا اور (حِطَّۃٌ) کا ایک یہ معنی بھی ہوسکتا ہے کہ جن لوگوں پر تم فتح پاؤ، ان میں قتل و غارت نہ شروع کرنا بلکہ انہیں معاف کردینا (جیسا کہ فتح مکہ کے موقعہ پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہی کچھ کیا تھا) تاکہ ہم تمہاری خطائیں معاف کر کے تمہیں انعامات سے نوازیں۔
اس شہر سے مراد کون سا شہر ہے، بعض مفسرین نے کہا ہے کہ اس سے اریحاء شہر مراد ہے۔ مگر یہ بعید ہے، کیونکہ اس وقت بنی اسرائیل بیت المقدس کی طرف جا رہے تھے اور یہ اس راستے پر نہیں ہے اور بعض نے فرعون والا مصر مراد لیا ہے، یہ قول اس سے بھی زیادہ بعید ہے۔ زیادہ صحیح قول جسے اکثر مفسرین نے اختیار کیا ہے، یہ ہے کہ اس سے بیت المقدس کا شہر ہی مراد ہے، جیسا کہ سورة مائدہ (٢١) میں ہے : (يٰقَوْمِ ادْخُلُوا الْاَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِيْ كَتَبَ اللّٰهُ لَكُمْ )” اے میری قوم اس مقدس زمین میں داخل ہوجاؤ جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دی ہے۔ “ (ابن کثیر)- یہاں یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ بیت المقدس تو موسیٰ (علیہ السلام) کی زندگی میں فتح ہی نہیں ہوسکا، حالانکہ ” فبدل “ کی فاء سے معلوم ہوتا ہے کہ اس حکم کے بعد وہ فوراً شہر میں چلے گئے۔ رازی نے اس اشکال کا حل پیش کیا ہے کہ ضروری نہیں کہ یہ حکم موسیٰ (علیہ السلام) کی زبانی دیا گیا ہو، بلکہ عین ممکن ہے کہ یوشع بن نون (علیہ السلام) کے عہد نبوت میں جب بیت المقدس فتح ہوا تو انھیں حکم دیا گیا ہو کہ اس فتح کی شکر گزاری میں اللہ تعالیٰ کے عاجز بندوں کی طرح سجدہ ریز ہو کر اپنے گناہوں کی بخشش مانگتے ہوئے شہر میں داخل ہوں۔ ابن کثیر (رض) لکھتے ہیں یہ حکم ویسے ہی تھا جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سورة نصر میں فتح کے موقع پر تسبیح و استغفار کا حکم دیا گیا ہے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ میں داخل ہونے کے بعد نماز فتح (آٹھ رکعات ) ادا کی ہے۔ - (وَسَنَزِيْدُ الْمُحْسِنِيْنَ ) یعنی گناہوں کی بخشش کے علاوہ مزید درجات حاصل ہوں گے۔ احسان کا معنی خالص اللہ کے لیے عمل کرنا ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے احسان کی حقیقت کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( أَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَأَنَّکَ تَرَاہُ فَإِنْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاہٗ فَإِنَّہٗ یَرَاکَ ) ” اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو، سو اگر تم اسے نہیں دیکھتے ہو تو یقیناً وہ تمہیں دیکھتا ہے۔ “ [ بخاری، الإیمان، باب سؤال جبریل النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔۔ : ٥٠، عن عمر (رض) ]
خلاصہ تفسیر :- اور (وہ زمانہ یاد کرو) جب ہم نے حکم کیا کہ تم لوگ اس آبادی کے اندر داخل ہو پھر کھاؤ اس کی چیزوں میں جس جگہ تم رغبت کرو بےتکلفی سے اور (یہ بھی حکم دیا کہ جب اندر جانے لگو تو) دروازہ میں داخل ہونا (عاجزی سے) جھکے جھکے اور (زبان سے یہ) کہتے جانا کہ توبہ ہے ( تو یہ ہے) ہم معاف کردیں گے تمہاری (پچھلی) خطائیں (توسب کی) اور مزید برآں اور دیں گے دل سے نیک کام کرنے والوں کو،- فائدہ : بقول شاہ عبد القادر صاحب یہ قصہ بھی زمانہ وادی تیہ کا ہے کہ جب من وسلویٰ کھاتے کھاتے اکتا گئے اور اپنے معمولی کھانے کی درخواست کی (جیسا آگے کی چوتھی آیت میں آرہا ہے) تو ان کو ایک شہر میں جانے کا حکم ہوا تھا کہ وہاں کھانے پینے کی اور معمولی چیزیں ملیں گی سو یہ حکم اس شہر کے اندر جانے کے متعلق ہے اس میں قولی اور فعلی ادب داخل ہونے کے متعلق بیان کیا گیا اور اندر جاکر کھانے پینے میں توسیع کی گئی اس قول پر بہت سے بہت یہ کہا جاسکے گا کہ قصہ کے بیان میں تقدم وتأخر ہوگیا کہ بعد کا قصہ پہلے بیان ہوا اور پہلے کا بعد میں تو یہ اشکال اس وقت ہوتا جب قرآن مجید میں خود قصوں کا بیان کرنا مقصود اصلی ہوتا اور جب نظر نتائج پر ہے تو اگر ایک قصہ کے اجزا میں ہر جزو کا نتیجہ جدا ہو اور ان نتائج کے کسی اثر کا لحاظ کرکے جزو مقدم کو مؤ خر اور جزو مؤ خر کو مقدم کردیا جائے تو اس میں نہ کوئی مضائقہ ہے اور نہ کوئی اشکال، - دیگر مفسرین حضرات نے اس حکم کو اس شہر سے متعلق سمجھا ہے جس پر جہاد کرنے کا حکم ہوا تھا اور بعد مدت تیہ کے پھر اس پر جہاد ہوا اور وہ فتح ہوا اس وقت یوشع (علیہ السلام) نبی تھے یہ حکم ان کی معرفت اس شہر کے بارے میں ہوا تھا، - قول اول کی بناء پر پچھلی خطاؤں میں وہ درخواست بھی داخل کرلینا مناسب ہے جو من وسلویٰ چھوڑ کر معمولی کھانوں کے متعلق کی گئی تھی مطلب یہ ہوگا کہ درخواست تھی تو گستاخی لیکن خیر اب اگر اس ادب اور حکم کو بجا لائے تو اس کو معاف کردیں گے اور ہر قول پر یہ معافی تو سب کہنے والوں کے لئے عام ہوگی اور جو اخلاص سے اعمال صالحہ کریں گے ان کا انعام اس کے علاوہ ہے،
وَاِذْ قُلْنَا ادْخُلُوْا ھٰذِہِ الْقَرْيَۃَ فَكُلُوْا مِنْہَا حَيْثُ شِئْتُمْ رَغَدًا وَّادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَّقُوْلُوْا حِطَّۃٌ نَّغْفِرْ لَكُمْ خَطٰيٰكُمْ ٠ ۭ وَسَنَزِيْدُ الْمُحْسِـنِيْنَ ٥٨- قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122]- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- دخل - الدّخول : نقیض الخروج، ويستعمل ذلک في المکان، والزمان، والأعمال، يقال : دخل مکان کذا، قال تعالی: ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة 58]- ( دخ ل ) الدخول - ( ن ) یہ خروج کی ضد ہے ۔ اور مکان وزمان اور اعمال سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے کہا جاتا ہے ( فلاں جگہ میں داخل ہوا ۔ قرآن میں ہے : ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة 58] کہ اس گاؤں میں داخل ہوجاؤ ۔- قرية- الْقَرْيَةُ : اسم للموضع الذي يجتمع فيه الناس، وللناس جمیعا، ويستعمل في كلّ واحد منهما . قال تعالی: وَسْئَلِ الْقَرْيَةَ [يوسف 82] قال کثير من المفسّرين معناه : أهل القرية .- ( ق ر ی ) القریۃ - وہ جگہ جہاں لوگ جمع ہو کر آباد ہوجائیں تو بحیثیت مجموعی ان دونوں کو قریہ کہتے ہیں اور جمع ہونے والے لوگوں اور جگہ انفراد بھی قریہ بولا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَسْئَلِ الْقَرْيَةَ [يوسف 82] بستی سے دریافت کرلیجئے ۔ میں اکثر مفسرین نے اہل کا لفظ محزوف مان کر قریہ سے وہاں کے با شندے مرے لئے ہیں - أكل - الأَكْل : تناول المطعم، وعلی طریق التشبيه قيل : أكلت النار الحطب، والأُكْل لما يؤكل، بضم الکاف وسکونه، قال تعالی: أُكُلُها دائِمٌ [ الرعد 35] - ( ا ک ل ) الاکل - کے معنی کھانا تناول کرنے کے ہیں اور مجازا اکلت النار الحطب کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے یعنی آگ نے ایندھن کو جلا ڈالا۔ اور جو چیز بھی کھائی جائے اسے اکل بضم کاف و سکونا ) کہا جاتا ہے ارشاد ہے أُكُلُهَا دَائِمٌ ( سورة الرعد 35) اسکے پھل ہمیشہ قائم رہنے والے ہیں ۔- حيث - حيث عبارة عن مکان مبهم يشرح بالجملة التي بعده، نحو قوله تعالی: وَحَيْثُ ما كُنْتُمْ [ البقرة 144] ، وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ [ البقرة 149] .- ( ح ی ث ) حیث - ( یہ ظرف مکان مبنی برضم ہے ) اور ) مکان مبہم کے لئے آتا ہے جس کی مابعد کے جملہ سے تشریح ہوتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَحَيْثُ ما كُنْتُمْ [ البقرة 144] اور تم جہاں ہوا کرو - شاء - والْمَشِيئَةُ عند أكثر المتکلّمين كالإرادة سواء، وعند بعضهم : المشيئة في الأصل : إيجاد الشیء وإصابته، وإن کان قد يستعمل في التّعارف موضع الإرادة، فالمشيئة من اللہ تعالیٰ هي الإيجاد، ومن الناس هي الإصابة، قال : والمشيئة من اللہ تقتضي وجود الشیء، ولذلک قيل : ( ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن) والإرادة منه لا تقتضي وجود المراد لا محالة، ألا تری أنه قال : يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] ، وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر 31] ، ومعلوم أنه قد يحصل العسر والتّظالم فيما بين الناس، قالوا : ومن الفرق بينهما أنّ إرادةالإنسان قد تحصل من غير أن تتقدّمها إرادة الله، فإنّ الإنسان قد يريد أن لا يموت، ويأبى اللہ ذلك، ومشيئته لا تکون إلّا بعد مشيئته لقوله : وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان 30] ، روي أنّه لما نزل قوله : لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير 28] ، قال الکفّار : الأمر إلينا إن شئنا استقمنا، وإن شئنا لم نستقم، فأنزل اللہ تعالیٰ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ وقال بعضهم : لولا أن الأمور کلّها موقوفة علی مشيئة اللہ تعالی، وأنّ أفعالنا معلّقة بها وموقوفة عليها لما أجمع الناس علی تعلیق الاستثناء به في جمیع أفعالنا نحو : سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات 102] ، سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف 69] ، يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود 33] ، ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف 69] ، قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف 188] ، وَما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ رَبُّنا [ الأعراف 89] ، وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف 24] .- ( ش ی ء ) الشیئ - المشیئۃ اکثر متکلمین کے نزدیک مشیئت اور ارادہ ایک ہی صفت کے دو نام ہیں لیکن بعض کے نزدیک دونوں میں فرق سے ( 1 ) مشیئت کے اصل معنی کسی چیز کی ایجاد یا کسی چیز کو پا لینے کے ہیں ۔ اگرچہ عرف میں مشیئت ارادہ کی جگہ استعمال ہوتا ہے پس اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے معنی اشیاء کو موجود کرنے کے ہیں اور لوگوں کی مشیئت کے معنی کسی چیز کو پالینے کے ہیں پھر اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کو چاہنا چونکہ اس کے وجود کو مقتضی ہوتا ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے ۔ ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن کہ جو اللہ تعالیٰ چاہے وہی ہوتا ہے اور جو نہ چاہے نہیں ہوتا ۔ ہاں اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کا ارادہ کرنا اس کے حتمی وجود کو نہیں چاہتا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا ۔ وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر 31] اور خدا تو بندوں پر ظلم کرنا نہیں چاہتا ۔ کیونکہ یہ واقعہ ہے کہ لوگوں میں عسرۃ اور ظلم پائے جاتے ہیں ۔ ( 2 ) اور ارادہ میں دوسرا فرق یہ ہے کہ انسان کا ارادہ تو اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے بغیر ہوسکتا ہے مثلا انسان چاہتا ہے کہ اسے موت نہ آئے لیکن اللہ تعالیٰ اس کو مار لیتا ہے ۔ لیکن مشیئت انسانی مشئیت الہیٰ کے بغیروجود ہیں نہیں آسکتی جیسے فرمایا : ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان 30] اور تم کچھ بھی نہیں چاہتے مگر وہی جو خدائے رب العلمین چاہے ایک روایت ہے کہ جب آیت : ۔ لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير 28] یعنی اس کے لئے جو تم میں سے سیدھی چال چلنا چاہے ۔ نازل ہوئی تو کفار نے کہا ہے یہ معاملہ تو ہمارے اختیار میں ہے کہ ہم چاہیں تو استقامت اختیار کریں اور چاہیں تو انکار کردیں اس پر آیت کریمہ ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ «1» نازل ہوئی ۔ بعض نے کہا ہے کہ اگر تمام امور اللہ تعالیٰ کی مشیئت پر موقوف نہ ہوتے اور ہمارے افعال اس پر معلق اور منحصر نہ ہوتے تو لوگ تمام افعال انسانیہ میں انشاء اللہ کے ذریعہ اشتشناء کی تعلیق پر متفق نہیں ہوسکتے تھے ۔ قرآن میں ہے : ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّه مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات 102] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابروں میں پائے گا ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف 69] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابر پائیں گے ۔ يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود 33] اگر اس کو خدا چاہے گا تو نازل کریگا ۔ ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف 69] مصر میں داخل ہوجائیے خدا نے چاہا تو ۔۔۔۔۔۔۔ قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف 188] کہدو کہ میں اپنے فائدے اور نقصان کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتا مگر جو خدا چاہے وما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّہُ رَبُّنا [ الأعراف 89] ہمیں شایان نہیں کہ ہم اس میں لوٹ جائیں ہاں خدا جو ہمارا پروردگار ہے وہ چاہے تو ( ہم مجبور ہیں ) ۔ وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف 24] اور کسی کام کی نسبت نہ کہنا کہ میں اسے کل کروں گا مگر ان شاء اللہ کہہ کر یعنی اگر خدا چاہے ۔- رغد - عيش رَغَدٌ ورَغِيدٌ: طيّب واسع، قال تعالی: وَكُلا مِنْها رَغَداً [ البقرة 35] ، يَأْتِيها رِزْقُها رَغَداً مِنْ كُلِّ مَكانٍ [ النحل 112] ، وأَرْغَدَ القوم : حصلوا في رغد من العیش، وأَرْغَدَ ماشیتَهُ. فالأوّل من باب جدب وأجدب «1» ، والثّاني من باب دخل وأدخل غيره «2» ، والمِرْغَادُ من اللّبن : المختلط الدّالّ بکثرته علی رغد العیش .- ( رغ د ) رغد - ا ورغیدا ۔ آسودہ زندگی قرآن میں ہے : ۔ وَكُلا مِنْها رَغَداً [ البقرة 35] اور اس میں سے تم دونوں بافراغت کھاؤ ۔ يَأْتِيها رِزْقُها رَغَداً مِنْ كُلِّ مَكانٍ [ النحل 112] ہر طرف سے ان کا رزق بافراغت ان کے پاس چلا آتا تھا ۔ ارغد القوم آرام راحت میں بسر کرنا ۔ ارغد ماشیتۃ اس سے اپنے مویشی چراگاہ میں آزاد چھوڑ دیئے ۔ ان میں اول یعنی ارغد القوم جدب واجدب کی طرح لازم ہے اور دوسرا یعنی ارغد ماشیتہ ادخل کی طرح متعدی ہے ۔ المر غاد ایک قسم کا کھانا جو دودھ میں خرما وغیرہ ڈال کر بنا یا جاتا ہے اور وافر ہونے کی وجہ سے زندگی کی آسودگی پر دلالت کرتا تھا - دخل - الدّخول : نقیض الخروج، ويستعمل ذلک في المکان، والزمان، والأعمال، يقال : دخل مکان کذا، قال تعالی: ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة 58]- ( دخ ل ) الدخول - ( ن ) یہ خروج کی ضد ہے ۔ اور مکان وزمان اور اعمال سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے کہا جاتا ہے ( فلاں جگہ میں داخل ہوا ۔ قرآن میں ہے : ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة 58] کہ اس گاؤں میں داخل ہوجاؤ ۔- باب - البَاب يقال لمدخل الشیء، وأصل ذلک : مداخل الأمكنة، کباب المدینة والدار والبیت، وجمعه : أَبْوَاب . قال تعالی: وَاسْتَبَقَا الْبابَ وَقَدَّتْ قَمِيصَهُ مِنْ دُبُرٍ وَأَلْفَيا سَيِّدَها لَدَى الْبابِ [يوسف 25] ، وقال تعالی: لا تَدْخُلُوا مِنْ بابٍ واحِدٍ وَادْخُلُوا مِنْ أَبْوابٍ مُتَفَرِّقَةٍ [يوسف 67] ، ومنه يقال في العلم : باب کذا، وهذا العلم باب إلى علم کذا، أي : به يتوصل إليه . وقال صلّى اللہ عليه وسلم : «أنا مدینة العلم وعليّ بابها» «1» . أي : به يتوصّل، قال الشاعر : أتيت المروءة من بابها«2» وقال تعالی: فَتَحْنا عَلَيْهِمْ أَبْوابَ كُلِّ شَيْءٍ [ الأنعام 44] ، وقال عزّ وجل : بابٌ باطِنُهُ فِيهِ الرَّحْمَةُ [ الحدید 13] وقد يقال : أبواب الجنّة وأبواب جهنم للأشياء التي بها يتوصّل إليهما . قال تعالی: فَادْخُلُوا أَبْوابَ جَهَنَّمَ [ النحل 29] ، وقال تعالی: حَتَّى إِذا جاؤُها وَفُتِحَتْ أَبْوابُها وَقالَ لَهُمْ خَزَنَتُها سَلامٌ عَلَيْكُمْ [ الزمر 73] ، وربما قيل : هذا من بَابَة كذا، أي : ممّا يصلح له، وجمعه : بابات، وقال الخلیل : بابة «3» في الحدود، وبَوَّبْتُ بابا، أي : عملت، وأبواب مُبَوَّبَة، والبَوَّاب حافظ البیت، وتَبَوَّبْتُ بوابا : اتخذته، وأصل باب : بوب .- الباب ہر چیز میں داخل ہونے کی جگہ کو کہتے ہیں ۔ دراصل امکنہ جیسے شہر ، مکان ، گھر وغیرہ میں داخل ہونے کی جگہ کو باب کہتے ہیں ۔ اس کی جمع ابواب ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ ۔ وَاسْتَبَقَا الْبابَ وَقَدَّتْ قَمِيصَهُ مِنْ دُبُرٍ وَأَلْفَيا سَيِّدَها لَدَى الْبابِ [يوسف 25] اور دونوں دروازون کی طرف بھاگے اور عورت نے ان کا کرتہ پیچھے سے ( پکڑ کر جو کھینچا تو ) چھاڑ ڈالا ۔ اور دونوں کو دروازں کے پاس عورت کا خاوند مل گیا ۔ لا تَدْخُلُوا مِنْ بابٍ واحِدٍ وَادْخُلُوا مِنْ أَبْوابٍ مُتَفَرِّقَةٍ [يوسف 67] ایک ہی دروازے سے داخل نہ ہونا بلکہ جدا جدادروازوں سے داخل ہونا ۔ اور اسی سے ( مجازا ) علم میں باب کذا کا محاورہ ہے ۔ نیز کہا جاتا ہے کہ یعنی یہ علم فلاں تک پہنچنے کا ذریعہ ہے ۔ ایک حدیث میں آنحضرت نے فرمایا : ۔ یعنی میں علم کا شہرہوں اور علی اس کا دروازہ ہے ۔ کسی شاعر نے کہا ہے ( رجہ ) تم نے جو انمردی کو اسی کی جگہ سے حاصل کیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَتَحْنا عَلَيْهِمْ أَبْوابَ كُلِّ شَيْءٍ [ الأنعام 44] تو ہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کھول دیئے بابٌ باطِنُهُ فِيهِ الرَّحْمَةُ [ الحدید 13] جس میں ایک دروازہ ہوگا جو اس کی جانب اندرونی ہے اس میں تو رحمت ہے۔ اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ابواب جنۃ اور ابوب جہنم سے مراد وہ باتیں ہیں جو ان تک پہنچنے کا ذریعے بنتی ہیں قرآن میں ہے : ۔ فَادْخُلُوا أَبْوابَ جَهَنَّمَ [ النحل 29] کہ دوزخ کے دروازوں میں داخل ہوجاؤ ۔ حَتَّى إِذا جاؤُها وَفُتِحَتْ أَبْوابُها وَقالَ لَهُمْ خَزَنَتُها سَلامٌ عَلَيْكُمْ [ الزمر 73] یہاں تک کہ جب اس کے پاس پہنچ جائیں گے تو اسکے دروازے کھول دیئے جائیں گے ۔ تو اسکے دراغہ ان سے کہیں کے کم تم پر سلام ۔ اور جو چیز کسی کام کے لئے صلاحیت رکھتی ہو اس کے متعلق کہا جاتا ہے ۔ کہ یہ اس کے مناسب ہے اس کی جمع بابت ہے خلیل کا قول ہے کہ بابۃ کا لفظ حدود ( اور حساب میں ) استعمال ہوتا ہے بوبت بابا : میں نے دروازہ بنایا ۔ نے بنے ہوئے دروازے قائم کئے ہوئے دروازے ۔ البواب دربان تبوبت بابا میں نے دروازہ بنایا ۔ باب اصل میں بوب ہے اور اس میں الف واؤ سے مبدل ہے ۔- سجد - السُّجُودُ أصله : التّطامن «3» والتّذلّل، وجعل ذلک عبارة عن التّذلّل لله وعبادته، وهو عامّ في الإنسان، والحیوانات، والجمادات،- وذلک ضربان : سجود باختیار،- ولیس ذلک إلا للإنسان، وبه يستحقّ الثواب، نحو قوله : فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم 62] ، أي : تذللوا له، - وسجود تسخیر،- وهو للإنسان، والحیوانات، والنّبات، وعلی ذلک قوله : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد 15] - ( س ج د ) السجود - ( ن ) اسکے اصل معنی فرو تنی اور عاجزی کرنے کے ہیں اور اللہ کے سامنے عاجزی اور اس کی عبادت کرنے کو سجود کہا جاتا ہے اور یہ انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ( کیونکہ )- سجود کی دو قسمیں ہیں ۔ سجود اختیاری - جو انسان کے ساتھ خاص ہے اور اسی سے وہ ثواب الہی کا مستحق ہوتا ہے جیسے فرمایا :- ۔ فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم 62] سو اللہ کے لئے سجدہ کرو اور اسی کی ) عبادت کرو ۔- سجود تسخیر ی - جو انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد 15]- اور فرشتے ) جو آسمانوں میں ہیں اور جو ( انسان ) زمین میں ہیں ۔ چار ونا چار اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں )- حطَّ- الحَطّ : إنزال الشیء من علو، وقد حططت الرجل، وجارية محطوطة المتنین، أي : ملساء غير مختلفة ولا داخلة، أي : مستوية الظهر، وقوله تعالی: وَقُولُوا حِطَّةٌ- [ البقرة 58] ، كلمة أمر بها بنو إسرائيل، ومعناه : حطّ عنا ذنوبنا وقیل : معناه : قولوا صوابا .- ( ح ط ط ) الحط ( ن ) کے معنی کسی چیز کو اوپر سے نیچے اتارنے کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے حططت الرحل ( میں نے سواری سے پالاں اتار کر نیچے رکھ دیا ) جاریتہ محطوطتہ المتن دوختر پست شکم کہ پشت دی درازو ہموار باشد ) اور آیت کریمہ : وَقُولُوا حِطَّةٌ [ البقرة 58] اور حطتہ کہنا میں بنی اسرائیل کو یہ کلمہ کہنے کا حکم دیا گیا تھا جس کے معنی ہیں اے اللہ ہمارے گناہ ہم سے اتار دے بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی قولوا صوابا کے ہیں یعنی صحیح بات کہنا ۔- غفر - الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285]- ( غ ف ر ) الغفر - ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ - خطأ - الخَطَأ : العدول عن الجهة، وذلک أضرب :- أحدها : أن ترید غير ما تحسن إرادته فتفعله،- وهذا هو الخطأ التامّ المأخوذ به الإنسان، يقال : خَطِئَ يَخْطَأُ ، خِطْأً ، وخِطْأَةً ، قال تعالی: إِنَّ قَتْلَهُمْ كانَ خِطْأً كَبِيراً [ الإسراء 31] ، وقال : وَإِنْ كُنَّا لَخاطِئِينَ [يوسف 91] .- والثاني : أن يريد ما يحسن فعله،- ولکن يقع منه خلاف ما يريد فيقال : أَخْطَأَ إِخْطَاءً فهو مُخْطِئٌ ، وهذا قد أصاب في الإرادة وأخطأ في الفعل، وهذا المعنيّ بقوله عليه السلام : «رفع عن أمّتي الخَطَأ والنسیان» «3» وبقوله : «من اجتهد فأخطأ فله أجر» «4» ، وقوله عزّ وجلّ : وَمَنْ قَتَلَ مُؤْمِناً خَطَأً فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ [ النساء 92] .- والثّالث : أن يريد ما لا يحسن فعله - ويتّفق منه خلافه، فهذا مخطئ في الإرادة ومصیب في الفعل، فهو مذموم بقصده وغیر محمود علی فعله، - والخَطِيئَةُ والسّيّئة يتقاربان،- لکن الخطيئة أكثر ما تقال فيما لا يكون مقصودا إليه في نفسه، بل يكون القصد سببا - لتولّد ذلک الفعل منه - ( خ ط ء ) الخطاء - والخطاء ۃ کے معنی صحیح جہت سے عدول کرنے کے ہیں - اس کی مختلف صورتیں ہیں - ۔ ( 1 ) کوئی ایسا کام بالا رادہ کرے جس کا ارادہ بھی مناسب نہ ہو ۔- یہ خطا تام ہے جس پر مواخزہ ہوگا ا س معنی میں فعل خطئی یخطاء خطاء وخطاء بولا جا تا ہے قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ قَتْلَهُمْ كانَ خِطْأً كَبِيراً [ الإسراء 31] کچھ شک نہیں کہ ان کا مار ڈالنا بڑا سخت جرم ہے ۔ وَإِنْ كُنَّا لَخاطِئِينَ [يوسف 91] اور بلا شبہ ہم خطا کار تھے - ۔ ( 2 ) ارادہ تو اچھا کام کرنے کا ہو لیکن غلطی سے برا کام سرزد ہوجائے ۔- کہا جاتا ہے : ۔ اس میں اس کا ارادہ وہ تو درست ہوتا ہے مگر اس کا فعل غلط ہوتا ہے اسی قسم کی خطا کے متعلق آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ : «رفع عن أمّتي الخَطَأ والنسیان» میری امت سے خطا سے خطا اور نسیان اٹھائے گئے ہیں ۔ نیز فرمایا : وبقوله : «من اجتهد فأخطأ فله أجر» جس نے اجتہاد کیا ۔ لیکن اس سے غلطی ہوگئی اسے پھر بھی اجر ملے گا قرآن میں ہے : ۔ اور جو غلطی سے مومن کو مار ڈالے تو ایک تو غلام کو ازاد کردے - ۔ ( 3 ) غیر مستحن فعل کا ارادہ کرے لیکن اتفاق سے مستحن فعل سرزد ہوجائے ۔- اس صورت میں اس کا فعل تو درست ہے مگر ارادہ غلط ہے لہذا اس کا قصد مذموم ہوگا مگر فعل ہے لہذا اس کا قصد مذموم ہوگا مگر فعل بھی قابل ستائس نہیں ہوگا ۔- الخطیتۃ - یہ قریب قریب سیئۃ کے ہم معنی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَحاطَتْ بِهِ خَطِيئَتُهُ [ البقرة 81] اور اسکے گناہ ہر طرف سے اس کو گھیر لیں گے ۔ لیکن زیادہ تر خطئۃ کا استعمال اس فعل کے متعلق ہوتا ہے جو بزات خود مقصود نہ ہو بلکہ کسی دوسری چیز کا ارادہ اس کے صدر کا سبب بن جائے - زاد - الزِّيادَةُ : أن ينضمّ إلى ما عليه الشیء في نفسه شيء آخر، يقال : زِدْتُهُ فَازْدَادَ ، وقوله وَنَزْداد كَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف 65] - ( زی د ) الزیادۃ - اس اضافہ کو کہتے ہیں جو کسی چیز کے پورا کرنے کے بعد بڑھا جائے چناچہ کہاجاتا ہے ۔ زدتہ میں نے اسے بڑھا یا چناچہ وہ بڑھ گیا اور آیت :۔ وَنَزْدادُكَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف 65] اور ( اس کے حصہ کا ) ایک بار شتر غلہ اور لیں گے ۔ - احسان - الإحسان فوق العدل، وذاک أنّ العدل هو أن يعطي ما عليه، ويأخذ أقلّ مما له، والإحسان أن يعطي أكثر مما عليه، ويأخذ أقلّ ممّا له «3» .- فالإحسان زائد علی العدل، فتحرّي العدل - واجب، وتحرّي الإحسان ندب وتطوّع، وعلی هذا قوله تعالی: وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء 125] ، وقوله عزّ وجلّ : وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة 178] ، ولذلک عظّم اللہ تعالیٰ ثواب المحسنین، فقال تعالی: وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت 69] ، وقال تعالی:إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة 195] ، وقال تعالی: ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة 91] ، لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل 30] .- ( ح س ن ) الحسن - الاحسان ( افعال )- احسان عدل سے بڑھ کر چیز ہے کیونکہ دوسرے کا حق پورا دا کرنا اور اپنا حق پورا لے لینے کا نام عدل ہے لیکن احسان یہ ہے کہ دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دیا جائے اور اپنے حق سے کم لیا جائے لہذا احسان کا درجہ عدل سے بڑھ کر ہے ۔ اور انسان پر عدل و انصاف سے کام لینا تو واجب اور فرض ہے مگر احسان مندوب ہے ۔ اسی بنا پر فرمایا :۔ وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء 125] اور اس شخص سے کس کا دین اچھا ہوسکتا ہے جس نے حکم خدا قبول کیا اور وہ نیکو کا ر بھی ہے ۔ اور فرمایا ؛ وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة 178] اور پسندیدہ طریق سے ( قرار داد کی ) پیروی ( یعنی مطالبہ خونہار ) کرنا ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محسنین کے لئے بہت بڑے ثواب کا وعدہ کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت 69] اور خدا تو نیکو کاروں کے ساتھ ہے ۔ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة 195] بیشک خدا نیکی کرنیوالوں کو دوست رکھتا ہے ۔ ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة 91] نیکو کاروں پر کسی طرح کا الزام نہیں ہے ۔ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل 30] جنہوں نے اس دنیا میں نیکی کی ان کے لئے بھلائی ہے ۔
(٥٨) اور جس وقت ہم نے کہا کہ اس ” اریحا “ نامی بستی میں داخل ہو اور جہاں سے چاہو کھاؤ تمہارے لیے فراخی اور وسعت ہے اور اس بستی کے دروازہ سے جھکتے ہوئے اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہوئے یا لاالہ الا اللہ “۔ کہتے ہوئے داخل ہونا، ہم تمہارے گناہوں کی معافی کے ساتھ، تمہاری نیکیوں میں بھی اضافہ کریں گے۔
آیت ٥٨ (وَاِذْ قُلْنَا ادْخُلُوْا ہٰذِہِ الْقَرْیَۃَ فَکُلُوْا مِنْہَا حَیْثُ شِءْتُمْ رَغَدًا) (وَّادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَّقُوْلُوْا حِطَّۃٌ نَّغْفِرْ لَکُمْ خَطٰیٰکُمْ ط) (وَسَنَزِیْدُ الْمُحْسِنِیْنَ ) - بنی اسرائیل کے صحرائے سینا میں آنے اور تورات عطا کیے جانے کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ہی کے زمانے میں انہیں جہاد اور قتال کا حکم ہوا ‘ لیکن اس سے پوری قوم نے انکار کردیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے ان پر یہ سزاّ مسلط کردی کہ یہ چالیس برس تک اسی صحرا میں بھٹکتے پھریں گے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر یہ ابھی جہاد اور قتال کرتے تو ہم پورا فلسطین ان کے ہاتھ سے ابھی فتح کرا دیتے ‘ لیکن چونکہ انہوں نے بزدلی دکھائی ہے لہٰذا اب ان کی سزا یہ ہے : (فَاِنَّھَا مُحَرَّمَۃٌ عَلَیْھِمْ اَرْبَعِیْنَ سَنَۃً ج یَتِیْھُوْنَ فِی الْاَرْضِ ط) (المائدۃ : ٢٦) یعنی ارض فلسطین جو ان کے لیے ارض موعود تھی وہ ان پر چالیس سال کے لیے حرام کردی گئی ہے ‘ اب یہ چالیس سال تک اسی صحرا میں بھٹکتے پھریں گے۔ صحرا نوردی کے اس عرصے میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا بھی انتقال ہوگیا اور حضرت ہارون (علیہ السلام) کا بھی۔ اس عرصے میں ایک نئی نسل پیدا ہوئی اور وہ نسل جو مصر سے غلامی کا داغ اٹھائے ہوئے آئی تھی وہ پوری کی پوری ختم ہوگئی۔ غلامی کا یہ اثر ہوتا ہے کہ غلام قوم کے اندر اخلاق و کردار کی کمزوریاں پیدا ہوجاتی ہیں۔ صحرا نوردی کے زمانے میں جو نسل پیدا ہوئی اور صحرا ہی میں پروان چڑھی وہ ایک آزاد نسل تھی جو ان کمزوریوں سے پاک تھی اور ان میں ایک جذبہ تھا۔ بنی اسرائیل کی اس نئی نسل نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے خلیفہ یوشع بن نون [ تورات میں ان کا نام یشوع ( ) آیا ہے ] کی قیادت میں قتال کیا اور پہلا شہر جو فتح ہوا وہ ” اریحا “ تھا۔ یہ شہر آج بھی جریکو ( ) کے نام سے موجود ہے۔ - یہاں پر اس فتح کے بعد کا تذکرہ ہو رہا ہے کہ یاد کرو جبکہ ہم نے تم سے کہا تھا کہ اس شہر میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہوجاؤ اور پھر جو کچھ نعمتیں یہاں ہیں ان سے متمتعّ ہو ‘ خوب کھاؤ پیو ‘ لیکن شہر کے دروازے سے سجدہ کرتے ہوئے داخل ہونا۔ مراد یہ ہے کہ جھک کر ‘ سجدۂ شکر بجا لاتے ہوئے داخل ہونا۔ ایسا نہ ہو کہ تکبر کی وجہ سے تمہاری گردنیں اکڑ جائیں۔ اللہ کا احسان مانتے ہوئے گردنیں جھکا کر داخل ہونا۔ یہ نہ سمجھنا کہ یہ فتح تم نے بزور بازو حاصل کی ہے۔ اس کا نقشہ ہمیں ٌ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شخصیت میں نظر آتا ہے کہ جب فتح مکہ کے موقع پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ میں داخل ہوئے تو جس سواری پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیٹھے ہوئے تھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیشانی مبارک اس کی گردن کے ساتھ جڑی ہوئی تھی۔ یہ وقت ہوتا ہے جبکہ ایک فاتح تکبرّ اور تعلّی کا مظاہرہ کرتا ہے ‘ لیکن بندۂ مؤمن کے لیے یہی وقت تواضع کا اور جھکنے کا ہے۔- اس کے ساتھ ہی انہیں حکم دیا گیا : (وََقُوْلُوْا حِطَّۃٌ) ” اور کہتے جاؤ مغفرت مغفرت “۔ حِطَّۃٌ کا وزن فِعْلَۃٌ اور مادہ ” ح ط ط “ ہے۔ حَطَّ یَحُطُّ حَطًّا کے متعدد معنی ہیں ‘ جن میں سے ایک ” پتے جھاڑنا “ ہے۔ مثلاً کہیں گے حَطَّ وَرَقَ الشَّجَرِ (اس نے درخت کے ّ پتے جھاڑ دیے) ۔ حِطَّۃٌ کے معنی ” استغفار ‘ طلب مغفرت اور توبہ “ کے کیے جاتے ہیں۔ گویا اس میں گناہوں کو جھاڑ دینے اور خطاؤں کو معاف کردینے کا مفہوم ہے۔ چناچہ ” وَقُوْلُوْا حِطَّۃٌ“ کا مفہوم یہ ہوگا کہ مفتوح بستی میں داخل ہوتے وقت جہاں تمہاری گردنیں عاجزی کے ساتھ جھکی ہونی چاہئیں وہیں تمہاری زبان پر بھی استغفار ہونا چاہیے کہ اے اللہ ہمارے گناہ جھاڑ دے ‘ ہماری مغفرت فرما دے ‘ ہماری خطاؤں کو بخش دے اگر تم ہمارے اس حکم پر عمل کرو گے تو ہم تمہاری خطائیں معاف فرما دیں گے ‘ اور تم میں جو محسن اور نیکوکار ہوں گے انہیں مزید فضل و کرم اور انعام و اکرام سے نوازیں گے۔
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :74 یہ ابھی تک تحقیق نہیں ہو سکا ہے کہ اس بستی سے مراد کونسی بستی ہے ۔ جس سلسلہء واقعات میں یہ ذکر ہو رہا ہے وہ اس زمانے سے تعلق رکھتا ہے ، جبکہ بنی اسرائیل ابھی جزیرہ نمائے سینا ہی میں تھے ۔ لہٰذا اغلب یہ ہے کہ یہ اسی جزیرہ نما کا کوئی شہر ہو گا ۔ مگر یہ بھی ممکن ہے کہ اس سے مراد شِطّیم ہو ، جو یَرِْیْحُو کے بالمقابل دریائے اُرْدُن کے مشرقی کنارے پر آباد تھا ۔ بائیبل کا بیان ہے کہ اس شہر کو بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ ؑ کی زندگی کے اخیر زمانے میں فتح کیا اور وہاں بڑی بدکاریاں کیں جن کے نتیجے میں خدا نے ان پر وبا بھیجی اور ۲٤ ہزار آدمی ہلاک کر دیے ۔ ( گنتی - باب ۲۵ ، آیت ۸-۱ ) سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :75 یعنی حکم یہ تھا کہ جابر و ظالم فاتحوں کی طرح اَکڑتے ہوئے نہ گھُسنا ، بلکہ خدا ترسوں کی طرح منکسرانہ شان سے داخل ہونا ، جیسے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکّہ کے موقع پر مکّہ میں داخل ہوئے ۔ اور حِطَّۃٌ کے دو مطلب ہو سکتے ہیں: ایک یہ کہ خدا سے اپنی خطاؤں کی معافی مانگتے ہوئے جانا ، دوسرے یہ کہ لوٹ مار اور قتلِ عام کے بجائے بستی کے باشندوں میں درگذر اور عام معافی کا اعلان کرتے جانا ۔