59۔ 1 اس کی وضاحت ایک حدیث میں آتی ہے جو صحیح بخاری اور صحیح مسلم وغیرہ میں ہے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ان کو حکم دیا گیا کہ سجدہ کئے ہوئے داخل ہوں، لیکن وہ سروں کو زمین میں گھسیٹتے ہوئے داخل ہوئے اور حکم بجا لانے کی بجائے ان سے ان کی سرتابی و سرکشی کا جو ان کے اندر پیدا ہوگئی تھی اور احکام الہی سے تمسخر اور مذاق جس کا ارتکاب انہوں نے کیا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ واقع یہ ہے جب کوئی قوم کردار کے لحاظ سے زوال پذیر ہوجائے تو اس کا معاملہ پھر احکام الٰہی کے ساتھ اسے طرح کا ہوجاتا ہے 59۔ 2 یہ آسمانی عذاب کیا تھا ؟ بعض نے کہا غضب الٰہی، سخت پالا، طاعون۔ اس کی آخری معنی کی تائید حدیث سے ہوتی ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ طاعون اسی رجز اور عذاب کا حصہ ہے جو تم سے پہلے بعض لوگوں پر نازل ہوا۔ تمہاری موجودگی میں کسی جگہ یہ طاعون پھیل جائے تو وہاں سے مت نکلو اور اگر کسی اور علاقے کی بابت تمہیں معلوم ہو کہ وہاں طاعون ہے تو وہاں مت جاؤ۔
[٧٥] بنی اسرائیل کا فتح کے وقت تکبر :۔ مگر ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی ہدایات کو پس پشت ڈال کر اس کے بالکل الٹ کام کیے۔ بستی میں داخل ہوتے وقت سجدہ ریز ہونے کے بجائے اکڑتے ہوئے اور سرینوں کے بل گھسٹتے ہوئے داخل ہوئے، اور توبہ و استغفار کرنے کے بجائے دنیوی مال و دولت کے پیچھے پڑگئے جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں :- نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ : بنی اسرائیل کو حکم دیا گیا تھا کہ شہر کے دروازے میں جھک کر داخل ہونا اور زبان سے (حطۃ) (یعنی گناہوں کی بخشش مانگنا) لیکن وہ اپنی سرینوں کے بل گھسٹتے ہوئے داخل ہوئے اور (حِطَّۃٌ) کے بجائے حَبَّۃٌ فی شعرۃ (دانہ بالی کے اندر) کہنے لگے۔ (بخاری، کتاب التفسیر) - اور مسلم میں حبۃ فی شعرۃ کے بجائے حنطۃ فی شعرۃ (گندم اپنی بالی کے اندر) کے الفاظ ہیں۔ (مسلم، کتاب التفسیر) - طاعون کا عذاب :۔ بنی اسرائیل جب شہر پر قابض ہوئے وہاں بدکاریاں شروع کردیں جس کی سزا اللہ تعالیٰ نے انہیں یہ دی کہ آسمان سے عذاب (طاعون کی وبا کی صورت میں) نازل فرمایا جس کے نتیجہ میں ایک روایت کے مطابق ستر ہزار یہود مرگئے۔
مگر ان ظالموں نے اللہ کے اس حکم کا مذاق اڑایا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” بنی اسرائیل سے کہا گیا : (وَّادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا)” اور دروازے میں سجدہ کرتے ہوئے داخل ہوجاؤ اور کہو بخش دے۔ “ تو انھوں نے اسے بدل دیا اور اپنے سرینوں پر گھسٹتے ہوئے داخل ہوئے اور انھوں نے کہا : ( حَبَّۃٌ فِیْ شَعْرَۃٍ ) ” دانہ بالی میں “ [ بخاری، أحادیث الأنبیاء، بابٌ : ٣٤٠٣۔ مسلم : ٣٠١٥ ] بتائیے کہ اس سے بڑھ کر عناد اور حکم الٰہی کی مخالفت اور کیا ہوسکتی تھی اس عظیم نافرمانی کو قرآن نے ” فسق “ سے تعبیر فرمایا ہے جس کے معنی حدود اللہ سے کلیتاً نکل جانے کے ہیں، اس بنا پر انھیں ظالم قرار دیا اور ان کے اس ظلم کی سزا میں ان پر طاعون کا عذاب نازل فرمایا : ” رجز “ کے معنی گو مطلق عذاب کے ہیں، مگر حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مراد طاعون ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( اَلطَّاعُوْنَ رِجْسٌ اُرْسِلَ عَلٰٰی طَاءِفَۃٍ مِنْ بَنِیْ اِسْرَاءِیْلَ أَوْ عَلٰی مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ ) [ بخاری، أحادیث الأنبیاء، باب : ٣٤٣٧، عن اسامۃ بن زید ] ” طاعون ایک عذاب ہے جو بنی اسرائیل کے ایک گروہ پر یا ان لوگوں پر بھیجا گیا جو تم سے پہلے تھے۔ “ مسلم میں ” رِجْسٌ“ کی جگہ ” رِجْزٌ“ ہے۔ [ مسلم، السلام، باب الطاعون والطیرۃ ۔۔ : ٢٢١٨ ] حافظ ابن کثیر (رض) لکھتے ہیں کہ یہ قصہ سورة اعراف میں بھی مذکور ہے، مگر وہ سورت چونکہ مکی ہے، اس لیے ضمیر غائب سے اس کو ذکر کیا ہے اور یہ سورت مدنی ہے اور مدینہ میں یہود سامنے تھے، اس لیے ضمیر مخاطب لائی گئی ہے۔ الغرض ان دونوں قصوں ( بقرہ اور اعراف) کے درمیان سیاق کے اعتبار سے دس وجوہ سے فرق پایا گیا ہے، جن میں سے بعض کا تعلق الفاظ سے ہے اور بعض کا معنی سے۔ امام رازی اور امام زمخشری (رض) نے وہ دس فرق خوب تفصیل سے بیان کیے ہیں۔
خلاصہ تفسیر :- سو بدل ڈالا ان ظالموں نے ایک اور کلمہ جو خلاف تھا اس کلمہ کے جس (کے کہنے) کی ان سے فرمائش کی گئی تھی اس پر ہم نے نازل کی ان ظالموں پر ایک سماوی آفت اس وجہ سے کہ وہ عدول حکمی کرتے تھے،- فائدہ : یہ آیت آیت سابقہ کا تتمہ ہے وہ کلمہ خلاف یہ تھا کہ حطۃ بمعنی توبہ کی جگہ از راہ تمسخر۔ حبۃ فی شعیرۃ (یعنی غلہ درمیان جو کے) کہنا شروع کیا وہ آفت سماوی طاعون تھا جو حدیث کی رو سے بےحکموں کے لئے عذاب اور حکم برداروں کے لئے رحمت ہے اس شرارت کی ان کو یہ سزا ملی کہ ان میں طاعون پھوٹ پڑا اور بہت سے آدمی فنا ہوگئے (بعضوں نے ہلاک شدگان کی تعداد ستر ہزار تک بتائی) (قرطبی) - معارف و مسائل :- کلام میں لفظی تغیر وتبدل کا حکم شرعی :- اس آیت سے معلوم ہوا کہ بنی اسرائیل کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ اس شہر میں حطۃ یعنی توبہ توبہ کہتے ہوئے داخل ہوں انہوں نے شرارت سے ان الفاظ کو بدل کر حنطۃ کہنا اختیار کیا اس کی وجہ سے ان پر آسمانی عذاب نازل ہوا یہ الفاظ کی تبدیلی ایسی تھی کہ جس میں صرف الفاظ ہی نہیں بدلے بلکہ معنی بھی بالکل الٹ گئے حطۃ کے معنی توبہ یعنی گناہوں کو نظر انداز کرنے کے تھے اور حنطۃ کے معنی گندم کے ہیں جس کا کلمہ مامور بہا سے کوئی تعلق نہیں الفاظ کی ایسی تبدیلی خواہ قرآن میں ہو یا حدیث میں یا اور کسی امر الہی میں بلاشبہ اور بالاتفاق حرام ہے کیونکہ یہ ایک قسم کا استہزاء یا تحریف ہے اسی پر یہ عذاب نازل ہوا،- اب رہا یہ مسئلہ کہ معنی اور مقصود کو محفوظ رکھتے ہوئے صرف الفاظ کی تبدیلی کا کیا حکم ہے ؟ امام قرطبی نے اپنی تفسیر میں اس کے متعلق فرمایا ہے کہ بعض کلمات اور اقوال میں معنی کی طرح الفاظ بھی مقصود اور اداء عبارت کے لئے ضروری ہوتے ہیں ایسے اقوال میں لفظی تبدیلی بھی جائز نہیں جیسے اذان کے الفاظ مقررہ کے بجائے اسی معنی کے دوسرے الفاظ پڑھنا جائز نہیں اسی طرح نماز میں جو دعائیں مثلا سبحانک اللہم، التحیات، دعائے قنوت، یا تسبیحات رکوع و سجود جن الفاظ سے منقول ہیں انہی الفاظ میں ادا کرنا ضروری ہے دوسرے الفاظ میں اگرچہ معنی وہی محفوظ بھی رہیں مگر تبدیلی جائز نہیں اسی طرح تمام قرآن کریم کے الفاظ کا یہی حکم ہے کہ تلاوت قرآن سے جو احکام متعلق ہیں وہ صرف انہی الفاظ کے ساتھ ہیں جو قرآن کریم کے نازل ہوئے ہیں اگر کوئی ان الفاظ کا ترجمہ دوسرے لفظوں میں کرکے پڑھے جس میں معنی بالکل محفوظ رہیں اس کو اصطلاح شریعت میں تلاوت قرآن نہ کہا جائے گا اور نہ اس پر وہ ثواب حاصل ہوگا جو قرآن پڑھنے پر مقرر ہے کہ ایک حرف پر دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں کیونکہ قرآن صرف معنی کا نام نہیں بلکہ معنی اور الفاظ نازل شدہ کے مجموعہ کو قرآن کہا جاتا ہے، - آیت مذکورہ میں فَبَدَّلَ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِىْ قِيْلَ لَھُمْ کے الفاظ سے بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ ان کو توبہ کے لئے جو الفاظ حطۃ کے بتلائے گئے تھے یہ الفاظ بھی ماموربہ تھے ان کا بدلنا خود بھی گناہ تھا پھر تبدیلی ایسی کردی کہ معنی ہی الٹ گئے اس لئے عذاب آسمانی کے مستحق ہوگئے، - لیکن جن اقوال اور کلمات میں اصل معنی ہی ہیں الفاظ مقصود نہیں ان میں اگر لفظی تبدیلی ایسی کی جائے کہ معنی پر کوئی اثر نہ پڑے وہ پوری طرح محفوظ رہیں تو جمہور محدثین اور فقہا کے نزدیک یہ تبدیلی جائز نہیں۔ بعض حضرات محدثین حدیث رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں ایسی لفظی تبدیلی کو بھی جائز کہتے ہیں، قرطبی نے امام مالک، شافعی، امام اعظم ابوحنیفہ سے نقل کیا ہے کہ حدیث میں روایت بالمعنی بھی جائز ہے مگر شرط یہ ہے کہ روایت کرنے والا عربی زبان کا ماہر اور مواقع خطاب اور جس ماحول میں حدیث وارد ہوئی ہے اس سے پوری طرح واقف ہو تاکہ اس کی غلطی سے معنی میں فرق نہ آجائے،- اور ائمہ حدیث کی ایک جماعت جس طرح الفاظ حدیث سنے ہیں اسی طرح نقل کرنا ضروری سمجھتے ہیں کوئی لفظی تغیر وتبدل جائز نہیں رکھتے۔ محمد بن سیرین قاسم بن محمد وغیرہ حضرات کا بھی یہی مسلک ہے یہاں تک کہ ان میں سے بعض حضرات کا تعامل یہ ہے کہ اگر راوی حدیث نے کوئی لفظ نقل کرنے میں کوئی لغوی غلطی بھی کی ہے تو اس سے سننے والے کو اسی غلطی کے ساتھ روایت کرنا چاہئے اپنی طرف سے تغیر نہ کرے اس کے ساتھ یہ ظاہر کردے کہ میرے خیال میں صحیح لفظ اس طرح ہے مگر مجھے روایت اس طرح پہنچی ہے ان حضرات کا استدلال اس حدیث سے ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک شخص کو یہ تلقین فرمائی تھی کہ جب سونے کے لئے بستر پر جائے تو یہ دعا پڑھے : امنت بکتابک الذی انزلت ونبیک الذی ارسلت، اس شخص نے نبیک کی جگہ رسولک پڑھ دیا تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پھر یہی ہدایت فرمائی کہ لفظ نیبک پڑھا کرے جس سے معلوم ہوا کہ لفظی تبدیلی بھی جائز نہیں، - اسی طرح ایک حدیث میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے :- نضر اللہ امرا سمع مقالتی فبلغہا کما سمعہا، یعنی اللہ تعالیٰ اس شخص کو سرسبز و شاداب رکھے جس نے میرا کوئی کلام سنا اور پھر امت کو اسی طرح پہنچا دیا جس طرح سنا تھا،- مگر جمہور محدثین اور فقہاء کے نزدیک اگرچہ اولیٰ اور افضل تو یہ ہے کہ جہاں تک ہوسکے حدیث کی روایت میں ٹھیک وہی الفاظ نقل کرے جو سنے ہیں اپنے قصد سے ان میں تبدیلی نہ کرے لیکن اگر وہ الفاظ پوری طرح یاد نہیں رہے تو ان کا مفہوم اپنے الفاظ میں نقل کردینا بھی جائز ہے اور حدیث بلغہا کما سمعہا کا یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ جو مضمون سنا ہے وہی بعینہ نقل کردے،- اس کے مفہوم میں کوئی فرق نہ آوے الفاظ کی تبدیلی اس کے منافی نہیں امام قرطبی نے اس کی تائید میں فرمایا کہ خود یہی حدیث اس کی دلیل ہے کہ الفاظ کی تبدیلی بضرورت جائز ہے کیونکہ خود اس حدیث کی روایت ہی ہم تک مختلف الفاظ سے پہنچی ہے۔- اور پہلی حدیث میں جو لفظ رسولک کے بجائے نبیک ہی پڑھنے کا امر فرمایا اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ لفظ نبی میں صفت مدح بہ نسبت رسول کے زیادہ ہے کیونکہ رسول کا لفظ تو قاصد کے معنی میں دوسروں کے لئے بھی بولا جاتا ہے بخلاف لفظ نبی کے کہ وہ خاص اسی منصب کیلئے استعمال ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے مخصوص بندوں کو بذریعہ وحی خطاب کرنے کا عطا کیا جاتا ہے، - اور دوسری وجہ یہ بھی ہو کہ دعاؤں میں الفاظ منقولہ کا اتباع خواص وآثار کے اعتبار سے ایک خاص اہمیت رکھتا ہے دوسرے الفاظ میں وہ خاصیت نہیں رہتی (قرطبی) اس لئے عامل حضرات جو تعویذ گنڈے کرتے ہیں وہ اس کی بڑی رعایت کرتے ہیں کہ جو الفاظ منقول ہیں ان میں تغیر وتبدل نہ کیا جائے اس لحاظ سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ ادعیہ ماثورہ بھی اسی قسم اول میں داخل ہیں جن میں معنی کے ساتھ مخصوصہ کی حفاظت بھی مقصود ہے واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم۔
فَبَدَّلَ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِىْ قِيْلَ لَھُمْ فَاَنْزَلْنَا عَلَي الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا رِجْزًا مِّنَ السَّمَاۗءِ بِمَا كَانُوْا يَفْسُقُوْنَ ٥٩ ۧ- بدل - الإبدال والتَّبدیل والتَّبَدُّل والاستبدال : جعل شيء مکان آخر، وهو أعمّ من العوض، فإنّ العوض هو أن يصير لک الثاني بإعطاء الأول، والتبدیل قد يقال للتغيير مطلقا وإن لم يأت ببدله، قال تعالی: فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ [ البقرة 59] ، وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْناً [ النور 55] وقال تعالی: فَأُوْلئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئاتِهِمْ حَسَناتٍ [ الفرقان 70] قيل : أن يعملوا أعمالا صالحة تبطل ما قدّموه من الإساءة، وقیل : هو أن يعفو تعالیٰ عن سيئاتهم ويحتسب بحسناتهم «5» .- وقال تعالی: فَمَنْ بَدَّلَهُ بَعْدَ ما سَمِعَهُ [ البقرة 181] ، وَإِذا بَدَّلْنا آيَةً مَكانَ آيَةٍ [ النحل 101] ، وَبَدَّلْناهُمْ بِجَنَّتَيْهِمْ جَنَّتَيْنِ [ سبأ 16] ، ثُمَّ بَدَّلْنا مَكانَ السَّيِّئَةِ الْحَسَنَةَ [ الأعراف 95] ، يَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَيْرَ الْأَرْضِ [إبراهيم 48] أي : تغيّر عن حالها، أَنْ يُبَدِّلَ دِينَكُمْ [ غافر 26] ، وَمَنْ يَتَبَدَّلِ الْكُفْرَ بِالْإِيمانِ [ البقرة 108] ، وَإِنْ تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْماً غَيْرَكُمْ [ محمد 38] ، وقوله : ما يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَ [ ق 29] أي : لا يغيّر ما سبق في اللوح المحفوظ، تنبيها علی أنّ ما علمه أن سيكون يكون علی ما قد علمه لا يتغيّرعن حاله . وقیل : لا يقع في قوله خلف . وعلی الوجهين قوله تعالی: تَبْدِيلَ لِكَلِماتِ اللَّهِ [يونس 64] ، لا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ [ الروم 30] قيل : معناه أمر وهو نهي عن الخصاء . والأَبْدَال : قوم صالحون يجعلهم اللہ مکان آخرین مثلهم ماضین «1» . وحقیقته : هم الذین بدلوا أحوالهم الذمیمة بأحوالهم الحمیدة، وهم المشار إليهم بقوله تعالی: فَأُوْلئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئاتِهِمْ حَسَناتٍ [ الفرقان 70] - والبَأْدَلَة : ما بين العنق إلى الترقوة، والجمع :- البَئَادِل «2» ، قال الشاعر :- 41-- ولا رهل لبّاته وبآدله - ( ب د ل ) الا بدال والتبدیل والتبدل الاستبدال - کے معنی ایک چیز کو دوسری کی جگہ رکھنا کے ہیں ۔ یہ عوض سے عام ہے کیونکہ عوض سے عام ہے کیونکہ عوض میں پہلی چیز کے بدلہ میں دوسری چیز لینا شرط ہوتا ہے لیکن تبدیل مطلق تغیر کو کہتے ہیں ۔ خواہ اس کی جگہ پر دوسری چیز نہ لائے قرآن میں ہے فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ [ البقرة 59] تو جو ظالم تھے انہوں نے اس لفظ کو جس کا ان کو حکم دیا گیا تھا بدل کو اس کی جگہ اور لفظ کہنا شروع گیا ۔ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْناً [ النور 55] اور خوف کے بعد ان کو امن بخشے گا ۔ اور آیت : فَأُوْلئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئاتِهِمْ حَسَناتٍ [ الفرقان 70] کے معنی بعض نے یہ کئے ہیں کہ وہ ایسے نیک کام کریں جو ان کی سابقہ برائیوں کو مٹادیں اور بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے گناہوں کو معاف فرمادیگا اور ان کے نیک عملوں کا انہیں ثواب عطا کریگا فَمَنْ بَدَّلَهُ بَعْدَ ما سَمِعَهُ [ البقرة 181] تو جو شخص وصیت کو سننے کے بعد بدل ڈالے ۔ وَإِذا بَدَّلْنا آيَةً مَكانَ آيَةٍ [ النحل 101] جب ہم گوئی آیت کسی آیت کی جگہ بدل دیتے ہیں ۔ وَبَدَّلْناهُمْ بِجَنَّتَيْهِمْ جَنَّتَيْنِ [ سبأ 16] ثُمَّ بَدَّلْنا مَكانَ السَّيِّئَةِ الْحَسَنَةَ [ الأعراف 95] پھر ہم نے تکلیف کو آسودگی سے بدل دیا ۔ اور آیت کریمہ : يَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَيْرَ الْأَرْضِ [إبراهيم 48] کے معنی یہ ہیں کہ زمین کی موجودہ حالت تبدیل کردی جائے گی ۔ أَنْ يُبَدِّلَ دِينَكُمْ [ غافر 26] کہ وہ ( کہیں گی ) تہمارے دین کو ( نہ ) بدل دے ۔ وَمَنْ يَتَبَدَّلِ الْكُفْرَ بِالْإِيمانِ [ البقرة 108] اور جس شخص نے ایمان ( چھوڑ کر اس کے بدلے کفر اختیار کیا وَإِنْ تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْماً غَيْرَكُمْ [ محمد 38] 47 ۔ 38 ) اور اگر تم منہ پھروگے تو وہ تہماری جگہ اور لوگوں کو لے آئیگا ۔ اور آیت کریمہ : ما يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَ [ ق 29] ہمارے ہاں بات بدلا نہیں کرتی ۔ کا مفہوم یہ ہے کہ لوح محفوظ میں جو کچھ لکھا جا چکا ہے وہ تبدیل نہیں ہوتا پس اس میں تنبیہ ہے کہ جس چیز کے متعلق اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ وقوع پذیر ہوگی وہ اس کے علم کے مطابق ہی وقوع پذیر ہوگی اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں آسکتی ۔ بعض نے اس کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ اس کے وعدہ میں خلف نہیں ہوتا ۔ اور فرمان بار ی تعالیٰ : وَلَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِ اللهِ ( سورة الأَنعام 34) قوانین خدا وندی کو تبدیل کرنے والا نہیں ۔ لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللهِ ( سورة الروم 30) نیز : لا تبدیل لخلق اللہ فطرت الہیٰ میں تبدیل نہیں ہوسکتی ( 30 ۔ 30 ) بھی ہر دو معافی پر محمول ہوسکتے ہیں مگر بعض نے کہاں ہے کہ اس آخری آیت میں خبر بمعنی امر ہے اس میں اختصاء کی ممانعت ہے الا ابدال وہ پاکیزہ لوگ کہ جب کوئی شخص ان میں سے مرجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ دوسرے کو اس کا قائم مقام فرمادیتے ہیں ؟ درحقیقت ابدال وہ لوگ ہیں ۔ درحقیقت ابدال وہ لوگ ہیں جہنوں نے صفات ذمیمہ کی بجائے صفات حسنہ کو اختیار کرلیا ہو ۔ اور یہ وہی لوگ ہیں جنکی طرف آیت : فَأُوْلئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئاتِهِمْ حَسَناتٍ [ الفرقان 70] میں ارشاد فرمایا ہے ۔ البادلۃ گردن اور ہنسلی کے درمیان کا حصہ اس کی جمع بادل ہے ع ( طویل ) ولارھل لباتہ وبآدلہ اس کے سینہ اور بغلوں کا گوشت ڈھیلا نہیں تھا ۔- ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں - قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122]- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- غير - أن تکون للنّفي المجرّد من غير إثبات معنی به، نحو : مررت برجل غير قائم . أي : لا قائم، قال : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص 50] ،- ( غ ی ر ) غیر - اور محض نفی کے لئے یعنی اس سے کسی دوسرے معنی کا اثبات مقصود نہیں ہوتا جیسے مررت برجل غیر قائم یعنی میں ایسے آدمی کے پاس سے گزرا جو کھڑا نہیں تھا ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص 50] اور اس سے زیادہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے - نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - رجز - أصل الرِّجْزِ : الاضطراب، ومنه قيل : رَجَزَ البعیرُ رَجَزاً ، فهو أَرْجَزُ ، وناقة رَجْزَاءُ : إذا تقارب خطوها واضطرب لضعف فيها، وشبّه الرّجز به لتقارب أجزائه وتصوّر رِجْزٍ في اللسان عند إنشاده، ويقال لنحوه من الشّعر أُرْجُوزَةٌ وأَرَاجِيزُ ، ورَجَزَ فلان وارْتَجَزَ إذا عمل ذلك، أو أنشد، وهو رَاجِزٌ ورَجَّازٌ ورِجَّازَةٌ. وقوله : عَذابٌ مِنْ رِجْزٍ أَلِيمٌ [ سبأ 5] ، فَالرِّجْزُ هاهنا کالزّلزلة، وقال تعالی: إِنَّا مُنْزِلُونَ عَلى أَهْلِ هذِهِ الْقَرْيَةِ رِجْزاً مِنَ السَّماءِ [ العنکبوت 34] ، وقوله : وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ [ المدثر 5] ، قيل : هو صنم، وقیل : هو كناية عن الذّنب، فسمّاه بالمآل کتسمية النّدى شحما . وقوله : وَيُنَزِّلُ عَلَيْكُمْ مِنَ السَّماءِ ماءً لِيُطَهِّرَكُمْ بِهِ وَيُذْهِبَ عَنْكُمْ رِجْزَ الشَّيْطانِ [ الأنفال 11] ، والشّيطان عبارة عن الشّهوة علی ما بيّن في بابه . وقیل : بل أراد برجز الشّيطان : ما يدعو إليه من الکفر والبهتان والفساد . والرِّجَازَةُ : کساء يجعل فيه أحجار فيعلّق علی أحد جانبي الهودج إذا مال وذلک لما يتصوّر فيه من حرکته، واضطرابه .- ( ر ج ز ) الرجز اس کے اصل معنی اضطراب کے ہیں اور اسی سے رجز البعیر ہے جس کے معنی ضعف کے سبب چلتے وقت اونٹ کی ٹانگوں کے کپکپائی اور چھوٹے چھوٹے قدم اٹھانے کے ہیں ایسے اونٹ کو ارجز اور ناقہ کو رجزاء کہا جاتا ہے اور شعر کے ایک بحر کا نام بھی رجز ہے جس میں شعر پڑھنے سے زبان میں اضطراب سا معلوم ہوتا ہے اور جو قصیدہ اس بحر میں کہا جائے اسے ارجوزۃ کہا جاتا ہے اس کی جمع اراجیز آتی ہے اور رجز فلان وارتجز کے معنی بحر رجز پر شعر بنانے يا ارجوه پڑہنے کے ہیں اور رجز گو شاعر کو راجز ، رجاز اور رجازۃ کہا جاتا ہے ۔ اور آیت : ۔ عَذابٌ مِنْ رِجْزٍ أَلِيمٌ [ سبأ 5]( ان کیلئے ) عذاب دردناک کی سزا ہے ۔ میں لفظ رجز زلزلہ کی طرح عذاب سے کنایہ ہے ۔ اور فرمایا : ۔ إِنَّا مُنْزِلُونَ عَلى أَهْلِ هذِهِ الْقَرْيَةِ رِجْزاً مِنَ السَّماءِ [ العنکبوت 34] ہم ان پر ایک آسمانی آفت نازل کرنے والے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ [ المدثر 5] اور نجاست سے الگ رہو ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ رجز سے بت مراد ہیں ۔ بعض نے اس سے ہر وہ عمل مراد لیا ہے جس کا نتیجہ عذاب ہو اور گناہ کو بھی مآل کے لحاظ سے عذاب کہا جاسکتا ہے جیسے ندی بمعنی شحم آجاتا ہے اور آیت : ۔ وَيُنَزِّلُ عَلَيْكُمْ مِنَ السَّماءِ ماءً لِيُطَهِّرَكُمْ بِهِ وَيُذْهِبَ عَنْكُمْ رِجْزَ الشَّيْطانِ [ الأنفال 11] اور آسمانوں سے تم پر پانی برسا رہا تھا تاکہ اس کے ذریعہ سے تم کو پاک کرے اور شیطانی گندگی کو تم سے دور کرے ۔ میں رجز الشیطان سے مراد خواہشات نفسانی ہیں جیسا کہ اس کے محل میں بیان کیا گیا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ اس سے کفر بہتان طرازی فساد انگیزی وغیرہا گناہ مراد ہیں جن کی کہ شیطان ترغیب دیتا ہے ۔ رجازۃ وہ کمبل جس میں پتھر وغیرہ باندھ کر اونٹ کے ہودہ کا توازن قائم رکھنے کیلئے ایک طرف باندھ دیتے ہیں اس میں بھی حرکت و اضطراب کے معنی ملحوظ ہیں ۔- سما - سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه، قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] ، - ( س م و ) سماء - ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔- فسق - فَسَقَ فلان : خرج عن حجر الشّرع، وذلک من قولهم : فَسَقَ الرُّطَبُ ، إذا خرج عن قشره «3» ، وهو أعمّ من الکفر . والفِسْقُ يقع بالقلیل من الذّنوب وبالکثير، لکن تعورف فيما کان کثيرا، وأكثر ما يقال الفَاسِقُ لمن التزم حکم الشّرع وأقرّ به،- ( ف س ق ) فسق - فسق فلان کے معنی کسی شخص کے دائر ہ شریعت سے نکل جانے کے ہیں یہ فسق الرطب کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی گدری کھجور کے اپنے چھلکے سے باہر نکل آنا کے ہیں ( شرعا فسق کا مفہوم کفر سے اعم ہے کیونکہ فسق کا لفظ چھوٹے اور بڑے ہر قسم کے گناہ کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اگر چہ عرف میں بڑے گناہوں کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اور عام طور پر فاسق کا لفظ اس شخص کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو احکام شریعت کا التزام اور اقرار کر نیکے بعد تمام یا بعض احکام کی خلاف ورزی کرے۔- لقی - اللِّقَاءُ : مقابلة الشیء ومصادفته معا، وقد يعبّر به عن کلّ واحد منهما، يقال : لَقِيَهُ يَلْقَاهُ لِقَاءً ولُقِيّاً ولُقْيَةً ، ويقال ذلک في الإدراک بالحسّ ، وبالبصر، وبالبصیرة . قال : لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ [ آل عمران 143] ، وقال : لَقَدْ لَقِينا مِنْ سَفَرِنا هذا نَصَباً [ الكهف 62] . ومُلَاقَاةُ اللہ عز وجل عبارة عن القیامة، وعن المصیر إليه . قال تعالی:- وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ [ البقرة 223] - ( ل ق ی ) لقیہ ( س)- یلقاہ لقاء کے معنی کسی کے سامنے آنے اور اسے پالینے کے ہیں اور ان دونوں معنی میں سے ہر ایک الگ الگ بھی بولاجاتا ہے اور کسی چیز کا حس اور بصیرت سے ادراک کرلینے کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ [ آل عمران 143] اور تم موت ( شہادت ) آنے سے پہلے اس کی تمنا کیا کرتے تھے اور ملاقات الہی سے مراد قیامت کا بپا ہونا اور اللہ تعالیٰ کے پاس چلے جانا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ [ البقرة 223] اور جان رکھو کہ ایک دن تمہیں اس کے دوبرو حاضر ہونا ہے ۔- رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- رجع - الرُّجُوعُ : العود إلى ما کان منه البدء، أو تقدیر البدء مکانا کان أو فعلا، أو قولا، وبذاته کان رجوعه، أو بجزء من أجزائه، أو بفعل من أفعاله . فَالرُّجُوعُ : العود، - ( ر ج ع ) الرجوع - اس کے اصل معنی کسی چیز کے اپنے میدا حقیقی یا تقدیر ی کی طرف لوٹنے کے ہیں خواہ وہ کوئی مکان ہو یا فعل ہو یا قول اور خواہ وہ رجوع بذاتہ ہو یا باعتبار جز کے اور یا باعتبار فعل کے ہو الغرض رجوع کے معنی عود کرنے اور لوٹنے کے ہیں اور رجع کے معنی لوٹا نے کے۔
اذکار کے توقیفی ہونے کی دلیل - قول باری ہے : فبذل الذین ظلموا قولا غیر الذی قیل لھم (مگر جو بات کہی گئی تھی ظالموں نے اسے بدل کر کچھ اور کردیا) اس آیت میں اذکار و اقوال کے سلسلے میں جس توقیف، یعنی جوں کے توں رکھنے کا جو ذکر ہے اس سے یہ استدلال کیا جاتا ہے کہ اذکار و اقوال میں تغیر و تبدل جائز نہیں ہے۔ اس سے بعض دفعہ ہمارے مخالفین ہمارے اس قول کے خلاف استدلال کرتے ہیں کہ ہم تعظیم و تسبیح کے الفاظ سے تحریمہ صلوۃ جائز قرار دیتے ہیں۔ اسی طرح امام ابوحنیفہ کے نزدیک نماز کے اندر فارسی میں قرأت کا جواز ہے، نیز ہم تملیک کے لفظ سے بیع اور اسی طرح کے دوسرے عقود کے جواز کے قائل ہیں، لیکن ہمارے مخالفین کا یہ استدلال ہم پر الزم نہیں ہوتا اس لئے کہ زیر بحث آیت ان لوگوں کے متعلق ہے جن سے کہا گیا تھا کہ : ادخلوا الباب سجداً وقولوا حطۃ (بستی کے دروازے میں سجدہ ریز ہوتے داخل ہونا اور کہتے جانا حطۃ ، حطۃ ) یعنی خدا سے اپنی خطائوں کی معانفی مانگتے ہوئے جانا۔ حسن اور قتادہ نے کہا ہے کہ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ انہیں حکم دیا گیا تھا کہ وہ استغفار کرتے ہوئے بستی میں داخل ہوں۔ حضرت ابن عباس سے یہ بھی مروی ہے کہ انہیں یہ کہنے کا حکم دیا گیا تھا کہ ” یہ بات برحق ہے اور اسی طرح ہے جیسے تم سے کہی گئی تھی، عکرمہ کے قول کے مطابق انہیں : لا الہ الا اللہ کہنے کا حکم ملا تھا، لیکن انہوں نے اس کے بجائے تجاہل اور استہزاء سے کام لیتے ہوئے، ” حنطۃ حمراء “ (سرخ گندم) کہنا شروع کردیا۔ حضرت ابن عباس اور دیگر صحابہ کرام نیز حسن بصری سے منقول ہے کہ یہ لوگ صرف اس لئے قابل مذمت گردانے گئے کہ انہوں نے امر شدہ افاظ کو ایسے الفاظ سے بدل ڈالا تھا جو معنی کے اعتبار سے ان کے اضداد تھے۔ انہیں توبہ اور استغفار کا حکم دیا گیا تھا، لیکن یہ لوگ اپنے گناہوں پر اصرار اور حکم الٰہی کے استہزاء کی راہ پر چل پڑے۔ جہاں تک معنی میں ترادف کے ساتھ الفاظ میں تبدیلی کا تعلق ہے تو زیر بحث آیت میں اس صورت سے کوئی تعرض نہیں کیا ہے، کیونکہ آیت تو ان لوگوں کی حکایت بیان کر رہی ہے جنہوں نے الفاظ و معانی دونوں میں تبدیلی پیدا کردی تھی اور اس کے نتیجے میں انہیں مذمت لاحق ہوگئی تھی۔ اب اس مذمت کے اندر ان کے ساتھ صرف ویہ لوگ شریک ہوں گے جو ہو بہو ان جیسا فعل کریں گے۔ لیکن جو شخص لفظ میں تبدیلی کر کے سابقہ معنی باقی رہنے دے تو آیت ایسے شخص کو اپنے دائرے میں نہیں لیتی۔- آیت میں مذکورہ لوگوں کے فعل بد کی نظیر ان لوگوں کا فعل ہے جو اس قول باری : الا علی ازواجھم او ما ملکت ایمانھم (مگر اپنی بیویوں اور اپنی لونڈیوں) کی موجودگی میں متعہ کے جواز کے قائل ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے تو اس آیت کے ذریعے عورت کی شرمگاہ کو صرف دو صورتوں کے اندر مباح کرنے کی رہنمائی کردی ہے۔ اس لئے جو شخص متعہ کے ذریعے جو معنی اور لفظ دونوں کے اعتبار مباح کرنے کی رہنمائی کردی ہے۔ اس لئے جو شخص متعہ کے ذریعے جو معنی اور لفظ دونوں کے اعتبار سے نکاح اور ملک یمین کے خلاف ہے، عورت کی شرمگاہ کو مباح قرار دے گا اسے زیر بحث آیت کے حکم کے تحت مذکورہ بالا مذمت لاحق ہوجائے گی۔
(٥٩) چناچہ ان اصحاب حطہ نے جو اپنے حق میں ظالم تھے ہمارے حکم کو تبدیل کرڈالا اور حطۃ (یعنی توبہ) کہنے کے بجائے بطور مذاق کے حنطۃ سمعانا ، (یعنی سرخ گیہوں کہنا) شروع کردیا، نتیجہ یہ نکلا کہ ان اصحاب حطہ پر جنہوں نے ہمارے حکم میں تبدیلی کی تھی، ہم نے اس حکم عدولی کی بنا پر ان پر طاعون کی بیماری مسلط کردی۔
آیت ٥٩ (فَبَدَّلَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا قَوْلاً غَیْرَ الَّذِیْ قِیْلَ لَہُمْ ) “- ان میں سے جو ظالم تھے ‘ بدکردار تھے انہوں نے ایک اور قول اختیار کرلیا اس قول کی جگہ جو ان سے کہا گیا تھا۔ ان سے کہا گیا تھا کہ ” حِطَّۃٌ حِطَّۃٌ“ کہتے ہوئے داخل ہونا ‘ لیکن انہوں نے اس کی بجائے ” حِنْطَۃٌ حِنْطَۃٌ“ کہنا شروع کردیا ‘ یعنی ہمیں تو گیہوں چاہیے ‘ گیہوں چاہیے اگلے رکوع میں یہ بات آجائے گی کہ مَنّ وسلویٰ کھاتے کھاتے بنی اسرائیل کی طبیعتیں بھر گئی تھیں ‘ ایک ہی چیز کھا کھا کر وہ اکتا گئے تھے اور اب وہ کہہ رہے تھے کہ ہمیں زمین کی روئیدگی اور پیداوار میں سے کوئی چیز کھانے کو ملنی چاہیے۔ اس خواہش کا اظہار ان کی زبانوں پر ” حِنْطَۃٌ حِنْطَۃٌ“ کی صورت میں آگیا۔ اس طرح انہوں نے اللہ تعالیٰ کے اس حکم کا استہزاء و تمسخر کیا جو انہیں ” وَقُوْلُوْا حِطَّۃٌ“ کے الفاظ میں دیا گیا تھا۔ اسی طرح شہر میں سجدہ ریز ہوتے ہوئے داخل ہونے کی بجائے انہوں نے اپنے سرینوں پر پھسلنا شروع کیا۔- (فَاَنْزَلْنَا عَلَی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا رِجْزًا مِّنَ السَّمَآءِ ) “ - جن ظالموں نے اللہ تعالیٰ کے حکم کا استہزاء و تمسخر کیا تھا ان پر آسمان سے ایک بہت بڑا عذاب نازل ہوا۔ تورات سے معلوم ہوتا ہے کہ اریحا شہر میں پہنچنے کے بعد انہیں طاعون کی وبا نے آلیا اور جنہوں نے یہ حرکت کی تھی وہ سب کے سب ہلاک ہوگئے۔- (بِمَا کَانُوْا یَفْسُقُوْنَ ) ” “ - یہ ان نافرمانیوں اور حکم عدولیوں کی سزا تھی جو وہ کر رہے تھے۔
45 : اسی صحرا میں رہتے ہوئے جب مدت گزر گئی اور بنی اسرائیل من وسلوی سے بھی اکتا گئے توانہوں نے یہ مطالبہ کیا کہ ہم ایک ہی قسم کے کھانے پر گزارہ نہیں کرسکتے، ہم زمین کی ترکاریاں وغیرہ کھانا چاہتے ہیں، ان کا یہ مطالبہ آگے آیت نمبر : ٦١ میں آرہا ہے، اس موقع پر ان کی یہ خواہش بھی پوری کی گئی اور یہ اعلان فرمایا گیا کہ اب تمہیں صحرا کی خاک چھاننے سے نجات دی جاتی ہے، سامنے ایک شہر ہے اس میں چلے جاؤ؛ لیکن اپنے گناہوں پر ندامت کے اظہار کے طور پر سر جھکائے ہوئے اور معافی مانگتے ہوئے شہر میں داخل ہو، وہاں اپنی رغبت کے مطابق جو حلال غذا چاہو کھاسکوگے، لیکن ان ظالموں نے پھر ضد کا مظاہرہ کیا، شہر میں داخل ہوتے ہوئے سرتو کیا جھکاتے سینے تان تان کر داخل ہوئے اور معافی مانگنے کے لئے انہیں جو الفاظ کہنے کی تلقین کی گئی تھی ان کا مذاق بناکر ان سے ملتے جلتے ایسے نعرے لگاتے ہوئے داخل ہوئے جس کا مقصد مسخرہ پن کے سوا کچھ نہ تھا، جو لفظ انہیں معافی مانگنے کے لئے سکھایا گیا تھا وہ تھا حطۃ (یا اللہ ہمارے گناہ بخش دے) انہوں نے اسے بدل کر جس لفظ کے نعرے لگائے تھے وہ تھا حنطۃ یعنی گندم۔