Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

پتھر دل لوگ اس آیت میں بنی اسرائیل کو زجر و توبیخ کی گئی ہے کہ اس قدر زبردست معجزے اور قدرت کی نشانیاں دیکھ کر پھر بھی بہت جلد تمہارے دل سخت پتھر بن گئے ۔ اسی لئے ایمان والوں کو اس طرح کی سختی سے روکا گیا اور کہا گیا آیت ( اَلَمْ يَاْنِ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُهُمْ لِذِكْرِ اللّٰهِ وَمَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ ۙ وَلَا يَكُوْنُوْا كَالَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلُ فَطَالَ عَلَيْهِمُ الْاَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوْبُهُمْ ۭ وَكَثِيْرٌ مِّنْهُمْ فٰسِقُوْنَ ) 57 ۔ الحدید:16 ) یعنی کیا اب تک وہ وقت نہیں آیا کہ ایمان والوں کے دل اللہ تعالیٰ کے ذکر اور اللہ کے نازل کردہ حق سے کانپ اٹھیں؟ اور اگلے اہل کتاب کی طرح نہ ہو جائیں جن کے دل لمبا زمانہ گزرنے کے بعد سخت ہو گئے اور ان میں سے اکثر فاسق ہیں ۔ حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ اس مقتول کے بھتیجے نے اپنے چچا کے دوبارہ زندہ ہونے اور بیان دینے کے بعد جب مر گیا تو کہا کہ اس نے جھوٹ کہا اور پھر کچھ وقت گزر جانے کے بعد بنی اسرائیل کے دل پھر پتھر سے بھی زیادہ سخت ہو گئے کیونکہ پتھروں سے تو نہریں نکلتی اور بہنے لگتی ہیں بعض پتھر پھٹ جاتے ہیں ان سے چاہے وہ بہنے کے قابل نہ ہوں بعض پتھر خوف اللہ سے گر پڑتے ہیں لیکن ان کے دل کسی وعظ و نصیحت سے کسی پند و موعظت سے نرم ہی نہیں ہوتے ۔ یہاں سے یہ بھی معلوم ہوا کہ پتھروں میں ادراک اور سمجھ ہے اور جگہ ہے آیت ( تُـسَبِّحُ لَهُ السَّمٰوٰتُ السَّـبْعُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِيْهِنَّ ۭ وَاِنْ مِّنْ شَيْءٍ اِلَّايُسَبِّحُ بِحَمْدِهٖ وَلٰكِنْ لَّا تَفْقَهُوْنَ تَسْبِيْحَهُمْ ۭ اِنَّهٗ كَانَ حَلِــيْمًا غَفُوْرًا ) 17 ۔ الاسرآء:44 ) یعنی ساتوں آسمان اور زمینیں اور ان کی تمام مخلوق اور ہر ہر چیز اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتی ہے لیکن تم ان کی تسبیح سمجھتے نہیں ہو ۔ اللہ تعالیٰ حلم و بردباری والا اور بخشش و عفو والا ہے ۔ ابو علی جبانی نے پتھر کے خوف سے گر پڑنے کی تاویل اولوں کے برسنے سے کی ہے لیکن یہ ٹھیک نہیں رازی بھی غیر درست بتلاتے ہیں اور فی الواقع یہ تاویل صحیح نہیں کیونکہ اس میں لفظی معنی بےدلیل کو چھوڑنا لازم آیا ہے واللہ اعلم ۔ نہریں بہہ نکلنا زیادہ رونا ہے ۔ پھٹ جانا اور پانی کا نکلنا اس سے کم رونا ہے گر پڑنا دل سے ڈرنا بعض کہتے ہیں یہ مجازاً کہا گیا جیسے اور جگہ ہے یریدان ینقض یعنی دیوار گر پڑنا چاہ رہی تھی ۔ ظاہر ہے کہ یہ مجاز ہے ۔ حقیقتاً دیوار کا اردہ ہی نہیں ہوتا ۔ رازی قرطبی وغیرہ کہتے ہیں ایسی تاویلوں کی کوئی ضرورت نہیں اللہ تعالیٰ جو صفت جس چیز میں چاہے پیدا کر سکتا ہے دیکھئے اس کا فرمان ہے آیت ( اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَةَ عَلَي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالْجِبَالِ فَاَبَيْنَ اَنْ يَّحْمِلْنَهَا وَاَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْاِنْسَانُ ) 33 ۔ الاحزاب:72 ) یعنی ہم نے امانت کو آسمانوں زمینوں اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا انہوں نے اس کے اٹھانے سے مجبوری ظاہر کی اور ڈر گئے اور آیت گزر چکی کہ تمام چیزیں اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتی ہے اور جگہ ہے آیت ( والنجم والشجر یسجدان یعنی اکاس بیل اور درخت اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرتے ہیں اور فرمایا یتقیاظلالہ الخ اور فرمایا آیت ( قَالَتَآ اَتَيْنَا طَاۗىِٕعِيْنَ ) 41 ۔ فصلت:11 ) زمین و آسمان نے کہا ہم خوشی خوشی حاضر ہیں اور جگہ ہے کہ پہاڑ بھی قرآن سے متاثر ہو کر ڈر کے مارے پھٹ پھٹ جاتے اور جگہ فرمان ہے آیت ( وقالوا لجلودھم ) یعنی گناہ گار لوگ اپنے جسموں سے کہیں گے تم نے ہمارے خلاف شہادت کیوں دی؟ وہ جواب دیں گے کہ ہم سے اس اللہ نے بات کرائی جو ہر چیز کو بولنے کی طاقت عطا فرماتا ہے ایک صحیح حدیث میں ہے کہ احد پہاڑ کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ پہاڑ ہم سے محبت رکھتا ہے اور ہم بھی اس سے محبت رکھتے ہیں ایک اور حدیث میں ہے کہ جس کھجور کے تنے پر ٹیک لگا کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کا خطبہ پڑھا کرتے تھے جب منبر بنا اور وہ تنا ہٹا دیا گیا تو وہ تنا پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا ۔ صحیح مسلم شریف کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میں مکہ کے اس پتھر کو پہچانتا ہوں جو میری نبوت سے پہلے مجھے سلام کیا کرتا تھا حجر اسود کے بارے میں ہے کہ جس نے اسے حق کے ساتھ بوسہ دیا ہو گا یہ اس کے ایمان کی گواہی قیامت والے دن دے گا اور اس طرح کی بہت سی آیات اور حدیثیں ہیں جن سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان چیزوں میں ادراک و حس ہے اور یہ تمام باتیں حقیقت پر محمول ہیں نہ کہ مجاز پر ۔ آیت میں لفظ او جو ہے اس کی بابت قرطبی اور رازی تو کہتے ہیں کہ یہ تبخیر کے لئے ہے یعنی ان کے دلوں کو خواہ جیسے پتھر سمجھ لو یا اس سے بھی زیادہ سخت ۔ رازی نے ایک وجہ یہ بھی بیان کی ہے کہ یہ ابہام کے لئے ہے گویا مخاطب کے سامنے باوجود ایک بات کا پختہ علم ہونے کے دو چیزیں بطور ابہام پیش کی جا رہی ہیں ۔ بعض کا قول ہے کہ مطلب یہ ہے کہ بعض دل پتھر جیسے اور بعض اس سے زیادہ سخت ہیں واللہ اعلم ۔ اس لفظ کے جو معنی یہاں پر ہیں وہ بھی سن لیجئے اس پر تو اجماع ہے کہ آؤ شک کے لئے نہیں یا تو یہ معنی میں واو کے ہے یعنی اس کے دل پتھر جیسے اور اس سے بھی زیادہ سخت ہو گئے جیسے آیت ( وَلَا تُطِعْ مِنْهُمْ اٰثِمًا اَوْ كَفُوْرًا ) 76 ۔ الانسان:24 ) میں اور آیت ( عذرا اور نذرا ) میں شاعروں کے اشعار میں اور واؤ کے معنی میں جمع کے لئے آیا ہے یا او یہاں پر معنی میں بل یعنی بلکہ کے ہے جیسے آیت ( كَخَشْيَةِ اللّٰهِ اَوْ اَشَدَّ خَشْـيَةً ) 4 ۔ النسآء:77 ) میں اور آیت ( وَاَرْسَلْنٰهُ اِلٰى مِائَةِ اَلْفٍ اَوْ يَزِيْدُوْنَ ) 37 ۔ الصافات:147 ) میں اور آیت ( فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ اَوْ اَدْنٰى ) 53 ۔ النجم:9 ) میں بعض کا قول ہے کہ مطلب یہ ہے کہ وہ پتھر جیسے ہیں یا سختی میں تمہارے نزدیک اس سے بھی زیادہ بعض کہتے ہیں صرف مخاطب پر ابہام ڈالا گیا ہے اور یہ شاعروں کے شعروں میں بھی پایا جاتا ہے کہ باوجود پختہ علم و یقین کے صرف مخاطب پر ابہام ڈالنے کے لئے ایسا کلام کرتے ہیں قرآن کریم میں اور جگہ ہے آیت ( وَاِنَّآ اَوْ اِيَّاكُمْ لَعَلٰى هُدًى اَوْ فِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ ) 34 ۔ سبأ:24 ) یعنی ہم یا تم صاف ہدایت یا کھلی گمراہی پر ہیں تو ظاہر ہے کہ مسلمانوں کا ہدایت پر ہونا اور کفار کا گمراہی پر ہونا یقینی چیز ہے لیکن مخاطب کے ابہام کے لئے اس کے سامنے کلام مبہم بولا گیا ۔ یہ بھی مطلب ہو سکتا ہے کہ تمہارے دل ان دو سے خارج نہیں یا تو وہ پتھر جیسے ہیں یا اس سے بھی زیادہ سخت یعنی بعض ایسے اس قول کے مطابق یہ بھی ہے آیت ( كَمَثَلِ الَّذِى اسْـتَوْقَدَ نَارًا ) 2 ۔ البقرۃ:17 ) پھر فرمایا آیت ( او کصیب ) اور فرمایا ہے کسراب پھر فرمایا آیت ( او کظلمات ) مطلب یہی ہے کہ بعض ایسے اور بعض ایسے واللہ اعلم ۔ تفسیر ابن مردویہ میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ کے ذکر کے سوا زیادہ باتیں نہ کیا کرو کیونکہ کلام کی کثرت دل کو سخت کر دیتی ہے اور سخت دل والا اللہ سے بہت دور ہو جاتا ہے امام ترمذی نے بھی اس حدیث کو بیان فرمایا ہے اور اس کے ایک طریقہ کو غریب کہا ہے بزار میں حضرت انس سے مرفوعاً روایت ہے کہ چار چیزیں بدبختی اور شقاوت کی ہیں خوف اللہ سے آنکھوں سے آنسو نہ بہنا ۔ دل کا سخت ہو جانا ۔ امیدوں کا بڑھ جانا ۔ لالچی بن جانا ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

74۔ 1 یعنی گزشتہ معجزات اور یہ تازہ واقعہ کہ مقتول دوبارہ زندہ ہوگیا دیکھ کر بھی تمہارے دلوں کے اندر توبہ اور استغفار کا جذبہ۔ بلکہ اس کے برعکس تمہارے دل پتھر کی طرح سخت بلکہ اس سے بھی زیادہ سخت ہوگئے اس کے بعد اس کی اصلاح کی توقع کم اور مکمل تباہی کا اندیشہ زیادہ ہوجاتا ہے اس لئے اہل ایمان کو خاص طور پر تاکید کی گئی ہے کہ اہل ایمان ان لوگوں کی طرح نہ ہوجائیں جن کو ان سے قبل کتاب دی گئی لیکن مدت گزرنے پر ان کے دل سخت ہوگئے۔ 74۔ 2 پتھروں کی سنگینی کے باوجود ان سے جو فوائد حاصل ہوتے ہیں اور جو کیفیت ان پر گزرتی ہے اس کا بیان ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پتھروں کے اندر بھی ایک قسم کا ادراک اور احساس موجود ہے جس طرح کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔ آیت ( تُـسَبِّحُ لَهُ السَّمٰوٰتُ السَّـبْعُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِيْهِنَّ وَاِنْ مِّنْ شَيْءٍ اِلَّايُسَبِّحُ بِحَمْدِهٖ وَلٰكِنْ لَّا تَفْقَهُوْنَ تَسْبِيْحَهُمْ اِنَّهٗ كَانَ حَلِــيْمًا غَفُوْرًا) 017:044

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٨٨] یعنی یہ معجزہ اور کئی سابقہ معجزات دیکھنے کے بعد تمہارے دل میں اللہ کا خوف پیدا نہ ہوا۔ بلکہ تمہارے دل سخت سے سخت تر ہوتے چلے گئے بلکہ پتھروں سے بھی زیادہ سخت۔ کیونکہ کچھ پتھر (پہاڑ) ایسے ہیں جن سے نہریں پھوٹتی ہیں اور وہ عام لوگوں کے لیے نفع کا سبب بنتے ہیں اور کچھ ایسے ہیں جن سے کوئی چشمہ ہی جاری ہوجاتا ہے یہ پہلے کی نسبت گو کم نفع بخش ہیں تاہم نفع بخش ضرور ہیں، اور گرنے والے پتھروں میں اللہ کا خوف اور تاثر موجود ہوتا ہے مگر تم جیسے نافرمان لوگوں سے دوسروں کو کچھ فائدہ پہنچنے کی کیا توقع ہوسکتی ہے۔ جن کے دلوں میں اللہ کا ڈر قطعاً مفقود ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قَسَتْ ” قَسَا یَقْسُوْ “ (ن) ناقص واوی سے واحد مؤنث غائب کا صیغہ ہے، جب ایک شے میں دوسری شے سے متاثر ہونے کی صلاحیت ہو اور پھر کسی عارضے کے سبب وہ صلاحیت باقی نہ رہے تو عربی زبان میں اس پر ” اَلْقَاسِیْ “ کا لفظ بولا جاتا ہے۔ یہی حال انسان کے دل کا ہے کہ اس میں دلائل و آیات سے متاثر ہونے کی صلاحیت ہوتی ہے، مگر جب مختلف اسباب کی بنا پر وہ صلاحیت باقی نہیں رہتی تو اثر قبول نہ کرنے میں اسے پتھر سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی سرزنش فرمائی کہ عجیب کم بخت قوم ہو کہ مردے کا جی اٹھنا تک تو تم نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا، مگر پھر بھی تم اپنے کفر اور سرکشی پر ڈٹے رہے اور تمہارے دل نرم ہونے کے بجائے اور سخت ہوگئے، جیسے پتھر، بلکہ اس سے بھی سخت۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اہل کتاب کا سا رویہ اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے، چناچہ فرمایا : (وَلَا يَكُوْنُوْا كَالَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلُ فَطَالَ عَلَيْهِمُ الْاَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوْبُهُمْ ) [ الحدید : ١٦ ] ” اور وہ ان لوگوں کی طرح نہ ہوجائیں جنھیں ان سے پہلے کتاب دی گئی، پھر ان پر لمبی مدت گزر گئی تو ان کے دل سخت ہوگئے۔ “ (ابن کثیر)- اَوْ اَشَدُّ قَسْوَةً ) یہاں ” أَوْ “ شک کے لیے نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کو کیا شک ہوسکتا ہے، بلکہ ” بَلْ “ کے معنی میں ہے، یعنی وہ پتھر کی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ سخت ہیں۔ ” قَسْوَۃٌ“ سے اسم تفضیل ” اَقْسَی “ آتا ہے، مگر مزید سختی کے اظہار کے لیے ” اَشَدُّ قَسْوَةً “ فرمایا، ترجمہ میں اس کا خیال رکھا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کے نافرمان لوگوں کے دلوں کی سختی کو پتھروں کی سختی سے تشبیہ دینے کے بعد پتھروں کا شکوہ دور فرمایا کہ پروردگار ہم سخت ہی سہی، مگر اتنے بھی سخت نہیں کہ ان ظالموں کو ہم سے تشبیہ دی جائے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے پتھروں کی نرمی کے بیان کے لیے ان کی تین قسمیں بیان فرمائیں۔ - ’ اللہ کے ڈر سے “ اس کا تعلق پتھروں کی تینوں قسموں سے ہے۔ معلوم ہوا کہ پتھروں سے نہروں کا پھوٹ نکلنا، ان کا پھٹ جانا اور ان سے پانی کا نکلنا اور ان کا گرپڑنا اللہ کے خوف کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اگر کوئی کہے کہ پتھر تو بےجان چیز ہیں، وہ کیسے ڈرتے ہیں، تو جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عقل والی مخلوقات کے علاوہ ان میں بھی ایک شعور اور فہم رکھا ہے، جس کی حقیقت وہی جانتا ہے، اگر فلسفے کا مارا ہوا کوئی شخص انکار کرے تو کرے، اہل السنہ اس بات پر ایمان رکھتے ہیں۔ قرآن و حدیث میں اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (وَاِنْ مِّنْ شَيْءٍ اِلَّايُسَبِّحُ بِحَمْدِهٖ وَلٰكِنْ لَّا تَفْقَهُوْنَ تَسْبِيْحَهُمْ ) [ بنی إسرائیل : ٤٤ ] ” اور کوئی بھی چیز نہیں مگر اس کی حمد کے ساتھ تسبیح کرتی ہے اور لیکن تم ان کی تسبیح نہیں سمجھتے۔ “ اور فرمایا : (اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ يُسَبِّحُ لَهٗ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالطَّيْرُ صٰۗفّٰتٍ ۭ كُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَهٗ وَتَسْبِيْحَهٗ ۭ وَاللّٰهُ عَلِيْمٌۢ بِمَا يَفْعَلُوْنَ ) [ النور : ٤١ ] ” کیا تو نے نہیں دیکھا کہ بیشک اللہ، اس کی تسبیح کرتے ہیں جو آسمانوں اور زمین میں ہیں اور پرندے پر پھیلائے ہوئے، ہر ایک نے یقیناً اپنی نماز اور اپنی تسبیح جان لی ہے اور اللہ اسے خوب جاننے والا ہے جو وہ کرتے ہیں۔ “ اور فرمایا : (اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ يَسْجُدُ لَهٗ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِي الْاَرْضِ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ وَالنُّجُوْمُ وَالْجِبَالُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوَاۗبُّ وَكَثِيْرٌ مِّنَ النَّاسِ ۭ وَكَثِيْرٌ حَقَّ عَلَيْهِ الْعَذَابُ ۭ وَمَنْ يُّهِنِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنْ مُّكْرِمٍ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يَفْعَلُ مَا يَشَاۗءُ ) [ الحج : ١٨ ] ” کیا تو نے نہیں دیکھا کہ بیشک اللہ، اسی کے لیے سجدہ کرتے ہیں جو کوئی آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں اور سورج اور چاند اور ستارے اور پہاڑ اور درخت اور چوپائے اور بہت سے لوگ۔ اور بہت سے وہ ہیں جن پر عذاب ثابت ہوچکا اور جسے اللہ ذلیل کر دے پھر اسے کوئی عزت دینے والا نہیں۔ بیشک اللہ کرتا ہے جو چاہتا ہے۔ “ اور فرمایا : (اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَةَ عَلَي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالْجِبَالِ فَاَبَيْنَ اَنْ يَّحْمِلْنَهَا وَاَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْاِنْسَانُ ) [ الأحزاب : ٧٢ ] ” بیشک ہم نے امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا تو انھوں نے اسے اٹھانے سے انکار کردیا اور اس سے ڈر گئے اور انسان نے اسے اٹھا لیا۔ “ اور فرمایا : (لَوْ اَنْزَلْنَا هٰذَا الْقُرْاٰنَ عَلٰي جَبَلٍ لَّرَاَيْتَهٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْيَةِ اللّٰهِ ) [ الحشر : ٢١ ]” اگر ہم اس قرآن کو کسی پہاڑ پر اتارتے تو یقیناً تو اسے اللہ کے ڈر سے پست ہونے والا، ٹکڑے ٹکڑے ہونے والا دیکھتا۔ “ (اَوَلَمْ يَرَوْا اِلٰى مَا خَلَقَ اللّٰهُ مِنْ شَيْءٍ يَّتَفَيَّؤُا ظِلٰلُهٗ عَنِ الْيَمِيْنِ وَالشَّمَاۗىِٕلِ سُجَّدًا لِّلّٰهِ وَهُمْ دٰخِرُوْنَ ) [ النحل : ٤٨ ] ” اور کیا انھوں نے اس کو نہیں دیکھا جسے اللہ نے پیدا کیا ہے، جو بھی چیز ہو کہ اس کے سائے دائیں طرف سے اور بائیں طرفوں سے اللہ کو سجدہ کرتے ہوئے ڈھلتے ہیں، اس حال میں کہ وہ عاجز ہیں۔ “ (وَقَالُوْا لِجُلُوْدِهِمْ لِمَ شَهِدْتُّمْ عَلَيْنَا ۭ قَالُوْٓا اَنْطَقَنَا اللّٰهُ الَّذِيْٓ اَنْــطَقَ كُلَّ شَيْءٍ وَّهُوَ خَلَقَكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّاِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ ) [ حٰمٓ السجدۃ : ٢١ ] ” اور وہ اپنے چمڑوں سے کہیں گے تم نے ہمارے خلاف شہادت کیوں دی ؟ وہ کہیں گے ہمیں اس اللہ نے بلوا دیا جس نے ہر چیز کو بلوایا اور اسی نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا اور اسی کی طرف تم واپس لائے جا رہے ہو۔ “ اسی طرح صحیح احادیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” احد ایسا پہاڑ ہے جو ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔ “ [ بخاری، : ٧٣٣٣ ] اور آپ نے فرمایا : ” میں مکہ میں ایک پتھر کو پہچانتا ہوں، جو مجھے بعثت سے قبل سلام کہا کرتا تھا۔ “ [ أحمد : ٥؍٨١، ح : ٢٠٨٦٩۔ مسلم : ٢٢٧٧ ] اسی طرح کھجور کے تنے کا بآواز بلند رونے کا واقعہ۔ [ صحیح ابن حبان : ٦٥٠٧ ] اتنے واضح دلائل کے بعد انکار صاف گمراہی ہے ہم پر قرآن کے الفاظ حجت ہیں اور ان کے ظاہر معنی کی پیروی فرض ہے۔ - بِغَافِلٍ بغافل “ میں باء نفی کی تاکید کے لیے ہے، اس لیے ترجمہ ہرگز کے ساتھ کیا گیا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر :- (گذشتہ واقعات سے متاثر نہ ہونے پر شکایت کے طور پر ارشاد ہوتا ہے) ایسے ایسے واقعات کے بعد (چاہئے تھا کہ تم لوگوں کے دل بالکل نرم اور حق تعالیٰ کی عظمت سے پر ہوجاتے لیکن) تمہارے دل پھر بھی سخت ہی رہے تو (یوں کہنا چاہئے کہ) ان کی مثال پتھر کی سی ہے یا (یوں کہئے کہ وہ) سختی میں ان سے (بھی) زیادہ (ہیں) اور زیادہ سخت اس وجہ سے کہا جاتا ہے کہ بعضے پتھر تو ایسے ہیں جن سے (بڑی بڑی) نہریں پھوٹ کر چلتی ہیں اور انہی پتھروں میں بعض ایسے ہیں کہ جو شق ہوجاتے ہیں پھر ان سے (اگر زیادہ نہیں تو تھوڑا ہی) پانی نکل آتا ہے اور ان ہی پتھروں میں بعضے ایسے ہیں جو خدا تعالیٰ کے خوف سے اوپر سے نیچے لڑھک آتے ہیں (اور تمہارے قلوب میں کسی قسم کا اثر ہی نہیں ہوتا) اور (قساوت سے جو اعمال بد صادر ہوتے ہیں) حق تعالیٰ تمہارے (ان) اعمال سے بیخبر نہیں ہیں (بہت جلد تم کو سزا تک پہنچادیں گے) - فائدہ : اس جگہ پتھر کے تین اثرات بیان کئے گئے ہیں اول ان سے زیادہ پانی نکلنا دوم کم پانی نکلنا، ان دو میں تو کسی کو شبہ نہیں پڑتا، تیسری صورت یعنی خدا کے خوف سے پتھر کا نیچے آگرنا اس میں ممکن ہے کسی کو شبہ ہو کیونکہ پتھر کو تو عقل کی ضرورت نہیں کیونکہ حیوانات لایعقل میں خوف کا مشاہدہ ہوتا رہتا ہے البتہ حس کی ضرورت ہوتی ہے لیکن جمادات میں اتنی حس بھی نہ ہونے کی کوئی دلیل نہیں کیونکہ حس حیات پر موقوف ہے اور بہت ممکن ہے کہ ان میں ایسی لطیف حیات ہو جس کا ہم کو ادراک نہ ہوتا ہو جیسا جوہر دماغ کے احساس کا بہت سے عقلاء کو ادراک نہیں ہوتا، وہ محض دلائل سے اس کے قائل ہوتے ہیں تو دلائل طبیہ سے ظاہر نص قرآن کی دلالت اور قوت کسی طرح بھی کم نہیں، - پھر ہمارا یہ دعویٰ بھی نہیں کہ ہمیشہ پتھر گرنے کی علت خوف ہی ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ بعض پتھر اس وجہ سے گرجاتے ہیں سو بہت ممکن ہے کہ گرنے کے اسباب مختلف ہوں ان میں سے بعض طبعی ہوں اور ایک سبب خوف خدا بھی ہو،- اس مقام پر تین قسم کے پتھروں کے ذکر میں ترتیب نہایت لطیف اور افادہ مقصود نہایت بلیغ انداز میں کیا گیا ہے یعنی بعض پتھروں میں تاثر اتنا قوی ہے جس سے نہریں جاری ہوجاتی ہیں جن سے مخلوق خدا فائدہ اٹھاتی ہے اور ان (یہودیوں) کے دل ایسے بھی نہیں (کہ مخلوق خدا کی تکلیف و مصیبت میں پگھل جائیں) اور بعض پتھروں میں ان سے کم تاثر ہوتا ہے جس سے کم نفع پہنچتا ہے تو یہ پتھر بہ نسبت اول کے کم نرم ہوئے اور ان کے قلوب ان درجہ دوم کے پتھروں سے بھی سخت ہیں، - اور بعض پتھروں میں گو اس درجہ کا اثر نہیں مگر پھر بھی ایک اثر تو ہے (کہ خوف خدا سے نیچے گرآتے ہیں) گو درجے میں پہلی قسموں سے یہ ضعیف تر ہیں مگر ان کے قلوب میں تو کم درجہ اور ضعیف ترین جذبہ انفعال بھی نہیں

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

ثُمَّ قَسَتْ قُلُوْبُكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ فَہِىَ كَالْحِجَارَۃِ اَوْ اَشَدُّ قَسْوَۃً۝ ٠ ۭ وَاِنَّ مِنَ الْحِجَارَۃِ لَمَا يَتَفَجَّرُ مِنْہُ الْاَنْہٰرُ۝ ٠ ۭ وَاِنَّ مِنْہَا لَمَا يَشَّقَّقُ فَيَخْرُجُ مِنْہُ الْمَاۗءُ۝ ٠ ۭ وَاِنَّ مِنْہَا لَمَا يَہْبِطُ مِنْ خَشْـيَۃِ اللہِ۝ ٠ ۭ وَمَا اللہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ۝ ٧٤- قسو - القَسْوَةُ : غلظ القلب، وأصله من : حجر قَاسٍ ، والْمُقَاسَاةُ : معالجة ذلك . قال تعالی:- ثُمَّ قَسَتْ قُلُوبُكُمْ [ البقرة 74] ، فَوَيْلٌ لِلْقاسِيَةِ قُلُوبُهُمْ مِنْ ذِكْرِ اللَّهِ- [ الزمر 22] ، وقال : وَالْقاسِيَةِ قُلُوبُهُمْ [ الحج 53] ، وَجَعَلْنا قُلُوبَهُمْ قاسِيَةً [ المائدة 13] ، وقرئ : قَسِيَّةً «3» أي : ليست قلوبهم بخالصة، من قولهم : درهم قَسِيٌّ ، وهو جنس من الفضّة المغشوشة، فيه قَسَاوَةٌ ، أي : صلابة، قال الشاعر :- صاح القَسِيَّاتُ في أيدي الصيّاریف - ( ق س د ) القسوۃ کے معنی سنگ دل ہونے کے ہیں یہ اصل میں حجر قاس سے ہے جس کے معنی سخت پتھر کے ہیں ۔ المقاساۃ سختی جھیلنا ۔ قرآن میں ہے : ثُمَّ قَسَتْ قُلُوبُكُمْ [ البقرة 74] پھر ۔۔۔ تمہارے دل سخت ہوگئے ۔ فَوَيْلٌ لِلْقاسِيَةِ قُلُوبُهُمْ مِنْ ذِكْرِ اللَّهِ [ الزمر 22] پس ان پر افسوس ہے جن کے دل خدا کی یاد سے سخت ہورہے ہیں ۔ وَالْقاسِيَةِ قُلُوبُهُمْ [ الحج 53] اور جن کے دل سخت ہیں ۔ وَجَعَلْنا قُلُوبَهُمْ قاسِيَةً [ المائدة 13] اور ان کے دلوں کو سخت کردیا ۔ ایک قرات میں قسیۃ ہے یعنی ان کے دل خالص نہیں ہیں یہ درھم قسی سے مشتق ہے جس کے معنی کھوٹے درہم کے ہیں جس میں ( سکہ ) کی ملاوٹ کی وجہ سے صلابت پائی جائے ۔ شاعر نے کہا ہے ( 354) صاح القسیات فی ایدی الصیاریف کھوٹے درہم صرافوں کے ہاتھ میں آواز دیتے ہیں ۔- قلب - قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] .- ( ق ل ب ) قلب - الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ - حجر - الحَجَر : الجوهر الصلب المعروف، وجمعه :- أحجار وحِجَارَة، وقوله تعالی: وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجارَةُ [ البقرة 24]- ( ح ج ر ) الحجر - سخت پتھر کو کہتے ہیں اس کی جمع احجار وحجارۃ آتی ہے اور آیت کریمہ : وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجارَةُ [ البقرة 24] جس کا اندھن آدمی اور پتھر ہوں گے ۔ - شد - الشَّدُّ : العقد القويّ. يقال : شَدَدْتُ الشّيء :- قوّيت عقده، قال اللہ : وَشَدَدْنا أَسْرَهُمْ [ الإنسان 28] ،- ( ش دد ) الشد - یہ شدد ت الشئی ( ن ) کا مصدر ہے جس کے معنی مضبوط گرہ لگانے کے ہیں ۔ قرآں میں ہے - : وَشَدَدْنا أَسْرَهُمْ [ الإنسان 28] اور ان کے مفاصل کو مضبوط بنایا ۔ - فجر - الْفَجْرُ : شقّ الشیء شقّا واسعا كَفَجَرَ الإنسان السّكرَيقال : فَجَرْتُهُ فَانْفَجَرَ وفَجَّرْتُهُ فَتَفَجَّرَ. قال تعالی: وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُوناً [ القمر 12] ، وَفَجَّرْنا خِلالَهُما نَهَراً [ الكهف 33] ، فَتُفَجِّرَ الْأَنْهارَ [ الإسراء 91] ، تَفْجُرَ لَنا مِنَ الْأَرْضِ يَنْبُوعاً- [ الإسراء 90] ، وقرئ تفجر . وقال : فَانْفَجَرَتْ مِنْهُ اثْنَتا عَشْرَةَ عَيْناً [ البقرة 60] ، ومنه قيل للصّبح : فَجْرٌ ، لکونه فجر اللیل . قال تعالی: وَالْفَجْرِ وَلَيالٍ عَشْرٍ [ الفجر 1- 2] ، إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كانَ مَشْهُوداً [ الإسراء 78] ، وقیل : الفَجْرُ فجران : الکاذب، وهو كذَنَبِ السَّرْحان، والصّادق، وبه يتعلّق حکم الصّوم والصّلاة، قال : حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيامَ إِلَى اللَّيْلِ [ البقرة 187] .- ( ف ج ر ) الفجر - کے معنی کسی چیز کو وسیع طور پر پھا ڑ نے اور شق کردینے کے ہیں جیسے محاورہ ہے فجر الانسان السکری اس نے بند میں وسیع شکاف ڈال دیا فجرتہ فانفجرتہ فتفجر شدت کے ساتھ پانی کو پھاڑ کر بہایا قرآن میں ہے : ۔ وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُوناً [ القمر 12] اور زمین میں چشمے جاری کردیئے ۔ وَفَجَّرْنا خِلالَهُما نَهَراً [ الكهف 33] اور دونوں میں ہم نے ایک نہر بھی جاری کر رکھی تھی اور اس کے بیچ میں نہریں بہا نکالو ۔ تَفْجُرَ لَنا مِنَ الْأَرْضِ يَنْبُوعاً [ الإسراء 90] جب تک کہ ہمارے لئے زمین میں سے چشمے جاری ( نہ) کردو ۔ اور ایک قرآت میں تفجر ( بصیغہ تفعیل ) ہے ۔ فَانْفَجَرَتْ مِنْهُ اثْنَتا عَشْرَةَ عَيْناً [ البقرة 60] تو پھر اس میں سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے ۔ اور اسی سے - صبح کو فجر کہا جاتا ہے - کیونکہ صبح کی روشنی بھی رات کی تاریکی کو پھاڑ کر نمودار ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے : وَالْفَجْرِ وَلَيالٍ عَشْرٍ [ الفجر 1- 2] فجر کی قسم اور دس راتوں کی ۔ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كانَ مَشْهُوداً [ الإسراء 78] کیونکہ صبح کے وقت قرآن پڑھنا موجب حضور ( ملائکہ ) ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ فجر دو قسم پر ہے ایک فجر کا ذب جو بھیڑیئے کی دم کی طرح ( سیدھی روشنی سی نمودار ہوتی ہے دوم فجر صادق جس کے ساتھ نماز روزہ وغیرہ احکام تعلق رکھتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيامَ إِلَى اللَّيْلِ [ البقرة 187] یہاں تک کہ صبح کی سفید دھاری رات کی ) سیاہ دھاری سے الگ نظر آنے لگے پھر روزہ ( رکھ کر ) رات تک پورا کرو - نهر - النَّهْرُ : مَجْرَى الماءِ الفَائِضِ ، وجمْعُه : أَنْهَارٌ ، قال تعالی: وَفَجَّرْنا خِلالَهُما نَهَراً [ الكهف 33] ، - ( ن ھ ر ) النھر - ۔ بافراط پانی بہنے کے مجری کو کہتے ہیں ۔ کی جمع انھار آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : وَفَجَّرْنا خِلالَهُما نَهَراً [ الكهف 33] اور دونوں میں ہم نے ایک نہر بھی جاری کر رکھی تھی ۔- شق - الشَّقُّ : الخرم الواقع في الشیء . يقال : شَقَقْتُهُ بنصفین . قال تعالی: ثُمَّ شَقَقْنَا الْأَرْضَ شَقًّا[ عبس 26] ، يَوْمَ تَشَقَّقُ الْأَرْضُ عَنْهُمْ سِراعاً [ ق 44] ، وَانْشَقَّتِ السَّماءُ [ الحاقة 16] ، إِذَا السَّماءُ انْشَقَّتْ [ الانشقاق 1] ، وَانْشَقَّ الْقَمَرُ [ القمر 1] ، وقیل : انْشِقَاقُهُ في زمن النّبيّ عليه الصلاة والسلام، وقیل : هو انْشِقَاقٌ يعرض فيه حين تقرب القیامة وقیل معناه : وضح الأمروالشِّقَّةُ : القطعة الْمُنْشَقَّةُ کالنّصف، ومنه قيل : طار فلان من الغضب شِقَاقًا، وطارت منهم شِقَّةٌ ، کقولک : قطع غضبا والشِّقُّ : الْمَشَقَّةُ والانکسار الذي يلحق النّفس والبدن، وذلک کاستعارة الانکسار لها . قال عزّ وجلّ : لَمْ تَكُونُوا بالِغِيهِ إِلَّا بِشِقِّ الْأَنْفُسِ- [ النحل 7] ، والشُّقَّةُ : النّاحية التي تلحقک المشقّة في الوصول إليها، وقال : بَعُدَتْ عَلَيْهِمُ الشُّقَّةُ [ التوبة 42] ، - ( ش ق ق ) الشق - الشق ۔ شگاف کو کہتے ہیں ۔ شققتہ بنصفین میں نے اسے برابر دو ٹکڑوں میں کاٹ ڈالا ۔ قرآن میں ہے : ثُمَّ شَقَقْنَا الْأَرْضَ شَقًّا[ عبس 26] پھر ہم نے زمین کو چیرا پھاڑا ۔ يَوْمَ تَشَقَّقُ الْأَرْضُ عَنْهُمْ سِراعاً [ ق 44] اس روز زمین ( ان سے ) پھٹ جائے گی ۔ وَانْشَقَّتِ السَّماءُ [ الحاقة 16] اور آسمان پھٹ جائے گا ۔ إِذَا السَّماءُ انْشَقَّتْ [ الانشقاق 1] جب آسمان پھٹ جائیگا ۔ اور آیت کریمہ : وَانْشَقَّ الْقَمَرُ [ القمر 1] اور چاند شق ہوگیا ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ انشقاق قمر آنحضرت کے زمانہ میں ہوچکا ہے ۔ اور بعض کا قول ہے کہ یہ قیامت کے قریب ظاہر ہوگا اور بعض نے انشق القمر کے معنی وضح الاسر کئے ہیں یعنی معاملہ واضح ہوگیا ۔ الشقۃ پھاڑا ہوا ٹکڑا ۔ اسی سے محاورہ ہے ۔ طار فلان من الغضب شقاقا فلاں غصہ سے پھٹ گیا ۔ جیسا کہ قطع غضبا کا محاورہ ہے ۔ طارت منھم شقۃ ۔ ان کا ایک حصہ اڑ گیا ۔ یعنی غضب ناک ہوئے ۔ الشق اس مشقت کو کہتے ہیں جو تگ و دو سے بدن یا نفس کو ناحق ہوتی ہے جیسا کہ الانکسار کا لفظ بطور استعارہ نفس کی درماندگی کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : إِلَّا بِشِقِّ الْأَنْفُسِ [ النحل 7] زحمت شاقہ کے بغیر الشقۃ وہ منزل مقصود جس تک بہ مشقت پہنچا جائے ۔ قرآن میں ہے َبَعُدَتْ عَلَيْهِمُ الشُّقَّةُ [ التوبة 42] لیکن مسافت ان کو دور ( دراز ) نظر آئی ۔- ماء - قال تعالی: وَجَعَلْنا مِنَ الْماءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍ [ الأنبیاء 30] ، وقال : وَأَنْزَلْنا مِنَ السَّماءِ ماءً طَهُوراً [ الفرقان 48] ، ويقال مَاهُ بني فلان، وأصل ماء مَوَهٌ ، بدلالة قولهم في جمعه :- أَمْوَاهٌ ، ومِيَاهٌ. في تصغیره مُوَيْهٌ ، فحذف الهاء وقلب الواو،- ( م ی ہ ) الماء - کے معنی پانی کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا مِنَ الْماءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍ [ الأنبیاء 30] اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی سے بنائیں ۔ وَأَنْزَلْنا مِنَ السَّماءِ ماءً طَهُوراً [ الفرقان 48] پاک ( اور نتھرا ہوا پانی اور محاورہ ہے : ۔ ماء بنی فلان فلاں قبیلے کا پانی یعنی ان کی آبادی ماء اصل میں موہ ہے کیونکہ اس کی جمع امراۃ اور میاہ آتی ہے ۔ اور تصغیر مویۃ پھر ہا کو حزف کر کے واؤ کو الف سے تبدیل کرلیا گیا ہے - هبط - الهُبُوط : الانحدار علی سبیل القهر كهبوط الحجر، والهَبُوط بالفتح : المنحدر . يقال :- هَبَطْتُ أنا، وهَبَطْتُ غيري، يكون اللازم والمتعدّي علی لفظ واحد . قال تعالی: وَإِنَّ مِنْها لَما يَهْبِطُ مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ [ البقرة 74] يقال : هَبَطْتُ وهَبَطْتُهُ هَبْطاً ، وإذا استعمل في الإنسان الهُبُوط فعلی سبیل الاستخفاف بخلاف الإنزال، فإنّ الإنزال ذكره تعالیٰ في الأشياء التي نبّه علی شرفها، كإنزال الملائكة والقرآن والمطر وغیر ذلك . والهَبُوطُ ذکر حيث نبّه علی الغضّ نحو : وَقُلْنَا اهْبِطُوا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة 36] ، فَاهْبِطْ مِنْها فَما يَكُونُ لَكَ أَنْ تَتَكَبَّرَ فِيها [ الأعراف 13] ، اهْبِطُوا مِصْراً فَإِنَّ لَكُمْ ما سَأَلْتُمْ [ البقرة 61] ولیس في قوله : فَإِنَّ لَكُمْ ما سَأَلْتُمْ [ البقرة 61] تعظیم وتشریف، ألا تری أنه تعالیٰ قال :- وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ وَباؤُ بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ [ البقرة 61] ، وقال جلّ ذكره : قُلْنَا اهْبِطُوا مِنْها جَمِيعاً [ البقرة 38] ويقال : هَبَطَ المَرَضُ لحم العلیل : حطّه عنه، والهَبِيط :- الضّامر من النّوق وغیرها إذا کان ضمره من سوء غذاء، وقلّة تفقّد .- ( ھ ب ط ) الھبوط - ( ض ) کے معنی کسی چیز کے قہرا یعنی بےاختیار ی کی حالت میں نیچے اتر آنا کے ہیں جیسا کہ پتھر بلندی سے نیچے گر پڑتا ہے اور الھبوط ( بفتح لہاء ) صیغہ صفت ہے یعنی نیچے گر نے والی چیز ھبط ( فعل لازم اور متعدی دونوں طرح استعمال ہوتا ہے جیسے انا میں نیچے اتار دیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِنَّ مِنْها لَما يَهْبِطُ مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ [ البقرة 74] اور بعض پتھر ایسے بھی ( ہوتے ہیں ) جو اللہ کے ڈر سے گر پڑتے ہیں ۔ اور جب لفظ ھبوط انسان کے لئے بولا جاتا ہے تو اس میں استخفاف اور حقارت کا پہلو پایا جاتا ہے بخلاف لفظ انزال ( الا فعال کے کہ اسے اللہ تعالیٰ نے بہت سے موقعوں پر با شرف چیزوں کے لئے استعمال کیا گیا ہے جیسے ملائکہ قرآن بارش وغیرہ اور جہاں کہیں کسی چیز کے حقیر ہونے پر تنبیہ مقصؤد ہے وہاں لفظ ھبوط استعمال کیا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَقُلْنَا اهْبِطُوا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة 36] اور ہم نے حکم دیا کہ تم ( سب ) اتر جاؤ تم ایک کے دشمن ایک ۔ فَاهْبِطْ مِنْها فَما يَكُونُ لَكَ أَنْ تَتَكَبَّرَ فِيها [ الأعراف 13] تو بہشت سے نیچے اتر کیونکہ تیری ہستی نہیں کہ تو بہشت میں رہ کر شیخی مارے ۔ اهْبِطُوا مِصْراً فَإِنَّ لَكُمْ ما سَأَلْتُمْ [ البقرة 61] اچھا تو ) کسی شہر میں اتر پڑوں کہ جو مانگتے ہو ( وہاں تم کو ملے گا ۔ یہاں یہ نہ سمجھنا چاہیئے کہ سے ان کا شرف ظاہر ہوتا ہے کیونکہ اس کے مابعد کی آیت : ۔ وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ وَباؤُ بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ [ البقرة 61] اور ان پر ذلت اور محتاجی لیسدی گئی اور وہ خدا کے غضب میں آگئے ان ہم کو دور کرنے کے لئے کافی ہے ۔ قُلْنَا اهْبِطُوا مِنْها جَمِيعاً [ البقرة 38] ہم نے حکم دیا کہ تم سب کے سب ) یہاں سے اتر جاؤ محاورہ ہے ھیط المرض لھم العلیل بیمار ینے اس کے گوشت کو کم کردیا یعنی ( لاغر کردیا اور الھبط اونٹ وغیرہ کو کہتے ہیں جو غذا کے ناقص اور مالک کی بےاعتنائی کی وجہ سے لاغر ہوجائے ۔- خشی - الخَشْيَة : خوف يشوبه تعظیم، وأكثر ما يكون ذلک عن علم بما يخشی منه، ولذلک خصّ العلماء بها في قوله : إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28]- ( خ ش ی ) الخشیۃ - ۔ اس خوف کو کہتے ہیں جو کسی کی عظمت کی وجہ سے دل پر طاری ہوجائے ، یہ بات عام طور پر اس چیز کا علم ہونے سے ہوتی ہے جس سے انسان ڈرتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آیت کریمہ ؛۔ - إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28] اور خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ میں خشیت الہی کے ساتھ علماء کو خاص کیا ہے ۔ - غفل - الغَفْلَةُ : سهو يعتري الإنسان من قلّة التّحفّظ والتّيقّظ، قال تعالی: لَقَدْ كُنْتَ فِي غَفْلَةٍ مِنْ هذا[ ق 22] - ( غ ف ل ) الغفلتہ - ۔ اس سہو کو کہتے ہیں جو قلت تحفظ اور احتیاط کی بنا پر انسان کو عارض ہوجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ لَقَدْ كُنْتَ فِي غَفْلَةٍ مِنْ هذا[ ق 22] بیشک تو اس سے غافل ہو رہا تھا - عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٧٤) اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا آپ اس بات کی امید لگا کر بیٹھے ہیں کہ یہ یہودی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لے آئیں گے، ان کی تو حالت یہ ہے کہ ستر آدمیوں کی جماعت جو موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ تھی اور وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے کلام الہی پڑھنے کو سن بھی رہے تھے مگر اس کے جاننے اور سمجھنے کے بعد یہ سمجھتے ہوئے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے کلام کو بدل رہے ہیں اس کے باوجود اس کلام میں تبدیلی اور تحریف کرڈالی۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٧٤ (ثُمَّ قَسَتْ قُلُوْبُکُمْ مِّنْم بَعْدِ ذٰلِکَ ) - جب دین میں حیلے بہانے نکالے جانے لگیں اور حیلوں بہانوں سے شریعت کے احکام سے بچنے اور اللہ کو دھوکہ دینے کی کوشش کی جائے تو اس کا جو نتیجہ نکلتا ہے وہ دل کی سختی ہے۔- (فَہِیَ کَالْحِجَارَۃِ اَوْ اَشَدُّ قَسْوَۃً ط) ” “- یہ فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے بھی قرآن حکیم کا ایک بڑا عمدہ مقام ہے۔- (وَاِنَّ مِنَ الْحِجَارَۃِ لَمَا یَتَفَجَّرُ مِنْہُ الْاَنْہٰرُ ط) ” “ (وَاِنَّ مِنْہَا لَمَا یَشَّقَّقُ فَیَخْرُجُ مِنْہُ الْمَآءُ ط) ” “ (وَاِنَّ مِنْہَا لَمَا یَہْبِطُ مِنْ خَشْیَۃِ اللّٰہِ ط) (وَمَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ ) ” “ - قساوت قلبی کی یہ کیفیت اس امت کے افراد کی بیان کی جا رہی ہے جسے کبھی اہل عالم پر فضیلت عطا کی گئی تھی۔ اس امت پر چودہ سو برس ایسے گزرے کہ کوئی لمحہ ایسا نہ تھا کہ ان کے ہاں کوئی نبی موجود نہ ہو۔ انہیں تین کتابیں دی گئیں۔ لیکن یہ اپنی بدعملی کے باعث قعر مذلتّ میں جا گری۔ عقائد میں ملاوٹ ‘ اللہ اور اس کے رسول کے احکام میں میں میخ نکال کر اپنے آپ کو بچانے کے راستے نکالنے اور اعمال میں بھی ” کتاب الحِیَل “ کے ذریعے سے اپنے آپ کو ذمہ داریوں سے مبرا کرلینے کی روش کا نتیجہ پھر یہی نکلتا ہے۔ اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ کو اس انجام بد سے بچائے۔ آمین

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

54: یعنی بعض مرتبہ تو پتھروں سے چشمے نکل آتے ہیں، جیساکہ بنی اسرائیل خود دیکھ چکے تھے کہ کس طرح ایک سنگلاخ چٹان سے پانی کے چشمے بہہ پڑے تھے، (دیکھئے پیچھے آیت نمبر 60) اور بعض اوقات بھاری مقدار میں تو پانی نہیں نکلتا، مگر پتھر شق ہو کر تھوڑا بہت پانی نکال دیتا ہے ،اور کچھ پتھر اللہ کے خوف سے لڑھک بھی پڑتے ہیں، مگر ان کے دِل ایسے سخت ہیں کہ ذرا نہیں پسیجتے۔ کسی زمانے میں یہ بات کچھ لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتی تھی کہ پتھر جیسی بے جان چیز میں خوف کا کیا تصور ہوسکتا ہے؟ لیکن قرآنِ کریم نے کئی جگہوں پر یہ حقیقت واضح فرمائی ہے کہ جن چیزوں کو ہم بظاہر بے جان یا بے شعور سمجھتے ہیں ان میں بھی کچھ نہ کچھ شعور موجود ہوتا ہے۔ مثلا دیکھئے سورۂ بنی اسرائیل (27:33) اور سورۂ احزاب (27:33) لہٰذا اگر اﷲ تعالیٰ یہ فرما رہا ہے کہ کچھ پتھر اللہ کے خوف سے لڑھک جاتے ہیں تو اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔ آج تو سائنس بھی رفتہ رفتہ اس نتیجے پر پہنچ رہی ہے کہ جمادات میں بھی نمو اور شعور کی کچھ نہ کچھ صلاحیت موجود ہوتی ہے۔