یہودی کردار کا تجزیہ اس گمراہ قوم یہود کے ایمان سے اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کو ناامید کر رہے ہیں جب ان لوگوں نے اتنی بڑی نشانیاں دیکھ کر بھی اپنے دل سخت پتھر جیسے بنا لئے اللہ تعالیٰ کے کلام کو سن کر سمجھ کر پھر بھی اس کی تحریف اور تبدیلی کر ڈالی تو ان سے تم کیا امید رکھتے ہو؟ ٹھیک اس آیت کی طرح اور جگہ فرمایا ( فَبِمَا نَقْضِهِمْ مِّيْثَاقَهُمْ لَعَنّٰهُمْ وَجَعَلْنَا قُلُوْبَهُمْ قٰسِـيَةً ) 5 ۔ المائدہ:13 ) یعنی ان کی عہد شکنی کی وجہ سے ہم نے ان پر لعنت کی اور ان کے دل سخت کر دئے یہ اللہ کے کلام کو رد و بدل کر ڈالا کرتے تھے ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں یہاں اللہ تعالیٰ نے کلام اللہ سننے کو فرمایا اس سے مراد حضرت موسیٰ کے صحابیوں کی وہ جماعت ہے جنہوں نے آپ سے اللہ کا کلام اپنے کانوں سے سننے کی درخواست کی تھی اور جب وہ پاک صاف ہو کر روزہ رکھ کر حضرت موسیٰ کے ساتھ طور پہاڑ پر پہنچ کر سجدے میں گر پڑے تو اللہ تعالیٰ نے انیں اپنا کلام سنایا جب یہ واپس آئے اور نبی اللہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کا یہ کلام بنی اسرائیل میں بیان کرنا شروع کیا تو ان لوگوں نے اس کی تحریف اور تبدیلی شروع کر دی ۔ سدی فرماتے ہیں ان لوگوں نے توراۃ میں تحریف کی تھی یہی عام معنی ٹھیک ہیں جس میں وہ لوگ بھی شامل ہو جائیں گے اور اس بدخصلت والے دوسرے یہودی بھی ۔ قرآن میں ہے فاجرہ حتی یسمع کلام اللہ یعنی مشرکوں میں سے کوئی اگر تجھ سے پناہ طلب کرے تو تو اسے پناہ دے یہاں تک کہ وہ کلام اللہ سن لے تو اس سے یہ مراد نہیں کہ اللہ کا کلام اپنے کانوں سے سنے بلکہ قرآن سنے تو یہاں بھی کلام اللہ سے مراد توراۃ ہے ۔ یہ تحریف کرنے والے اور چھپانے والے ان کے علماء تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جو اوصاف ان کی کتاب میں تھے ان سب میں انہو نے تاویلیں کر کے اصل مطلب دور کر دیا تھا اسی طرح حلال کو حرام ، حرام کو حلال ، حق کو باطل ، باطل کو حق لکھ دیا کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے آیت ( وَقَالَتْ طَّاۗىِٕفَةٌ مِّنْ اَھْلِ الْكِتٰبِ اٰمِنُوْا بِالَّذِيْٓ اُنْزِلَ عَلَي الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَجْهَ النَّهَارِ وَاكْفُرُوْٓا اٰخِرَهٗ لَعَلَّھُمْ يَرْجِعُوْنَ ) 3 ۔ آل عمران:72 ) یعنی اہل کتاب کی ایک جماعت نے کہا ایمان والوں پر جو اترا ہے اس پر دن کے شروع حصہ میں ایمان لاؤ پھر آخر میں کفر کرو تاکہ خود ایمان والے بھیاس دین سے پھر جائیں ۔ یہ لوگ اس فریب سے یہاں کے راز معلوم کرنا اور انہیں اپنے والوں کو بتانا چاہتے تھے اور مسلمانوں کو بھی گمراہ کرنا چاہتے تھے مگر ان کی یہ چالاکی نہ چلی اور یہ راز اللہ نے کھول دیا جب یہ یہاں ہوتے اور اپنا ایمان اسلام و ظاہر کرتے تو صحابہان سے پوچھتے کیا تمہاری کتاب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت وغیرہ نہیں؟ وہ اقرار کرتے ۔ جب اپنے بڑوں کے پاس جاتے تو وہ انہیں ڈانٹتے اور کہتے اپنی باتیں ان سے کہہ کر کیوں ان کی اپنی مخالفت کے ہاتھوں میں ہتھیار دے رہے ہو؟ مجاہد فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قریظہ والے دن یہودیوں کے قلعہ تلے کھڑے ہو کر فرمایا اے بندر اور خنزیر اور طاغوت کے کے عابدوں کے بھائیو تو وہ آپس میں کہنے لگے یہ ہمارے گھر کی باتیں انہیں کس نے بتا دیں خبردار اپنی آپس کی خبریں انہیں نہ دو ورنہ انہیں اللہ کے سامنے تمہارے خلاف دلائل میسر آ جائیں گے اب اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ گو تم چھپاؤ لیکن مجھ سے تو کوئی چیز چھپ نہیں سکتی تم جو چپکے چپکے اپنوں سے کہتے ہو کہ اپنی باتیں ان تک نہ پہنچاؤ اور اپنی کتاب کی باتیں کو چھپاتے ہو تو میں تمھارے اس برے کام سے بخوبی آگاہ ہوں ۔ تم جو اپنے ایمان کا اظہار کرتے ہو ۔ تمہارے اس اعلان کی حقیقت کا علم بھی مجھے اچھی طرح ہے ۔
75۔ 1 اہل ایمان کو خطاب کر کے یہودیوں کے بارے کہا جا رہا ہے کیا تمہیں ان کے ایمان لانے کی امید ہے حالانکہ ان کے پچھلے لوگوں میں ایک فرق ایسا بھی تھا جو کلام الٰہی جانتے بوجھتے تحریف کرتا تھا۔ یہ استفہام انکاری ہے یعنی ایسے لوگوں کے ایمان لانے کی قطعا امید نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو لوگ دنیوی مفادات یا حزبی تعصبات کی وجہ سے کلام الٰہی میں تحریف تک کرنے سے گریز نہیں کرتے وہ گمراہی کی ایسی دلدل میں پھنس جاتے ہیں کہ اس سے نکل نہیں پاتے۔ امت محمدیہ کے بہت سے علماء و مشائخ بھی بدقسمتی سے قرآن اور حدیث میں تحریف کے مرتکب ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس جرم سے محفوظ رکھے۔
[٨٩] نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے متعلقہ آیات کو چھپانا اور ان میں تحریف :۔ یہ خطاب دراصل مدینہ کے سادہ دل نو مسلموں سے ہے جو یہود سے کئی بار یہ سن چکے تھے کہ ایک نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آنے والا ہے اور جو لوگ ان کا ساتھ دیں گے وہ ساری دنیا پر چھا جائیں گے۔ اب یہ لوگ تو ایمان لے آئے مگر یہود نے یہ کام کیا کہ تورات میں جو حلیہ نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مذکور تھا۔ اس میں تحریف کر ڈالی اور ایمان نہ لانے کی وجہ یہ بتائی کہ اس کا حلیہ تورات میں مذکور حلیہ سے مختلف ہے۔
یہ خطاب مسلمانوں سے ہے کہ یہود سے ایمان کی توقع بےسود ہے، ان کے پہلے بزرگ یہ ہیں کہ وہ دیدہ و دانستہ اللہ کے کلام یعنی تورات میں تحریف کر ڈالتے تھے۔ اس جگہ لفظ تحریف لفظی اور معنوی دونوں قسم کی تحریف کو شامل ہے۔ انھوں نے تورات کے الفاظ بھی بدل ڈالے تھے، مگر زیادہ تر غلط تاویلوں سے معانی تبدیل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ موجودہ یہود نے تورات کی ان آیات کو بدل ڈالا جن میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اوصاف کا ذکر تھا اور اپنے دل سے حرام کو حلال اور حلال کو حرام ٹھہرا لیا۔ (ابن کثیر۔ قرطبی) آج کل کے باطل پرست علماء بھی اپنے خود ساختہ مسائل کو درست ثابت کرنے کے لیے ہر قسم کے حوالہ جات قرآن و حدیث سے تراش رہے ہیں اور شریعت میں تحریف کا ارتکاب کر رہے ہیں۔
خلاصہ تفسیر :- (مسلمان یہودیوں کو مومن بنانے کی جو کوشش کر رہے تھے اور اس میں کلفت اٹھاتے تھے تو یہود کے حالات و واقعات بتا اور سنا کر مسلمانوں کو امید کا انقطاع کرکے ان کی کلفت اس آیت کے ذریعہ فرماتے ہیں) - (اے مسلمانو ) کیا (یہ سارے قصے سن کر) اب بھی تم توقع رکھتے ہو کہ یہ (یہودی) تمہارے کہنے سے ایمان لے آویں گے حالانکہ (ان سب مذکورہ قصوں سے بڑھ کر ایک اور بات بھی ان سے ہوچکی ہے کہ) ان میں کچھ لوگ ایسے گذرے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا کلام سنتے تھے اور اس کو کچھ کا کچھ کر ڈالتے تھے (اور) اس کو سمجھنے کے بعد (ایسا کرتے) اور لطف یہ کہ یہ بھی) جانتے تھے (کہ ہم برا کر رہے ہیں محض اغراض نفسانیہ اس کاروائی کا باعث ہوتیں) - فائدہ : مطلب یہ کہ جو لوگ ایسے بیباک اور اغراض نفسانی کے اسیر ہوں اور کسی کے کہنے سننے سے کب باز آنے والے اور کسی کی کب سننے والے ہیں، - اور کلام اللہ سے مراد یا تو تورات ہے اور سماع سے مراد بواسطہ انبیاء (علیہم السلام) کے ہے اور تحریف سے مراد اس کے بعض کلمات یا تفاسیر یا دونوں بدل ڈالنا ہیں اور یا کلام سے مراد وہ کلام ہے جو ان ستر آدمیوں نے بطور تصدیق موسیٰ (علیہ السلام) کوہ طور پر سنا تھا، اور سماع سے مراد بلاواسطہ اور تحریف سے مراد قوم سے یہ نقل کردینا کہ اخیر میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرما دیا تھا کہ جو حکم تم سے ادا نہ ہوسکے وہ معاف ہے،- امور مذکورہ بالا میں سے کسی امر کا صدور گو ان یہودیوں سے نہ ہوا ہو جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں موجود تھے لیکن چونکہ یہ لوگ بھی اپنے اسلاف کے ان اعمال پر انکار ونفرت نہ رکھتے تھے اس لئے حکما یہ بھی ویسے ہی ہوئے،
اَفَتَطْمَعُوْنَ اَنْ يُّؤْمِنُوْا لَكُمْ وَقَدْ كَانَ فَرِيْقٌ مِّنْھُمْ يَسْمَعُوْنَ كَلٰمَ اللہِ ثُمَّ يُحَرِّفُوْنَہٗ مِنْۢ بَعْدِ مَا عَقَلُوْہُ وَھُمْ يَعْلَمُوْنَ ٧٥- الف ( ا)- الألفات التي تدخل لمعنی علی ثلاثة أنواع :- نوع في صدر الکلام .- ونوع في وسطه .- ونوع في آخره .- فالذي في صدر الکلام أضرب :- الأوّل : ألف الاستخبار، وتفسیره بالاستخبار أولی من تفسیر ه بالاستفهام، إذ کان ذلک يعمّه وغیره نحو : الإنكار والتبکيت والنفي والتسوية .- فالاستفهام نحو قوله تعالی: أَتَجْعَلُ فِيها مَنْ يُفْسِدُ فِيها [ البقرة 30] ، والتبکيت إمّا للمخاطب أو لغیره نحو : أَذْهَبْتُمْ طَيِّباتِكُمْ [ الأحقاف 20] ، أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْداً [ البقرة 80] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس 91] ، أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144] ، أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخالِدُونَ [ الأنبیاء 34] ، أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً [يونس 2] ، آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام 144] .- والتسوية نحو : سَواءٌ عَلَيْنا أَجَزِعْنا أَمْ صَبَرْنا [إبراهيم 21] ، سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لا يُؤْمِنُونَ [ البقرة 6] «1» ، وهذه الألف متی دخلت علی الإثبات تجعله نفیا، نحو : أخرج ؟ هذا اللفظ ينفي الخروج، فلهذا سأل عن إثباته نحو ما تقدّم .- وإذا دخلت علی نفي تجعله إثباتا، لأنه يصير معها نفیا يحصل منهما إثبات، نحو : أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ [ الأعراف 172] «2» ، أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] ، أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد 41] ، أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَةُ [ طه 133] أَوَلا يَرَوْنَ [ التوبة :- 126] ، أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ [ فاطر 37] .- الثاني : ألف المخبر عن نفسه نحو :- أسمع وأبصر .- الثالث : ألف الأمر، قطعا کان أو وصلا، نحو : أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة 114] ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتاً فِي الْجَنَّةِ [ التحریم 11] ونحوهما .- الرابع : الألف مع لام التعریف «4» ، نحو :- العالمین .- الخامس : ألف النداء، نحو : أزيد، أي : يا زيد .- والنوع الذي في الوسط : الألف التي للتثنية، والألف في بعض الجموع في نحو : مسلمات ونحو مساکين .- والنوع الذي في آخره : ألف التأنيث في حبلی وبیضاء «5» ، وألف الضمیر في التثنية، نحو :- اذهبا .- والذي في أواخر الآیات الجارية مجری أواخر الأبيات، نحو : وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب 10] ، فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب 67] ، لکن هذه الألف لا تثبت معنی، وإنما ذلک لإصلاح اللفظ .- ا : الف با معنی کی تین قسمیں ہیں ۔ ایک وہ جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ دوسرا وہ جو وسط کلام میں واقع ہو ۔ تیسرا وہ جو آخر کلام میں آئے ۔ ( ا) وہ الف جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ اس کی چند قسمیں ہیں : ۔ (1) الف الاستخبار اسے ہمزہ استفہام کہنے کے بجائے الف استخبار کہنا زیادہ صحیح ہوگا ۔ کیونکہ اس میں عمومیت ہے جو استفہام و انکار نفی تبکیت پر زجرو تو بیخ ) تسویہ سب پر حاوی ہے۔ چناچہ معنی استفہام میں فرمایا ۔ أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ [ البقرة : 30]( انہوں نے کہا ) کیا تو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت و خون کرتا پھرے اور تبکیت یعنی سرزنش کبھی مخاطب کو ہوتی ہے اور کبھی غیر کو چناچہ ( قسم اول کے متعلق ) فرمایا :۔ (1) أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُم [ الأحقاف : 20] تم اپنی لذتیں حاصل کرچکے ۔ (2) أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا [ البقرة : 80] کیا تم نے خدا سے اقرار لے رکھا ہے ؟ (3) آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس : 91] کیا اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ؟ اور غیر مخاظب کے متعلق فرمایا :۔ (4) أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا [يونس : 2] کیا لوگوں کے لئے تعجب خیز ہے ؟ (5) أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِل [ آل عمران : 144] تو کیا اگر یہ مرجائیں یا مارے جائیں ؟ (6) أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ [ الأنبیاء : 34] بھلا اگر تم مرگئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے ؟ (7) آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام : 143] بتاؤ تو ( خدا نے ) دونوں نروں کو حرام کیا ہے ۔ یا دونوں ماديؤں کو ۔ اور معنی تسویہ میں فرمایا ، سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا [إبراهيم : 21] اب ہم گهبرائیں یا صبر کریں ہمارے حق میں برابر ہے ۔ سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ ( سورة البقرة 6) تم خواہ انہیں نصیحت کردیا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ، وہ ایمان نہیں لانے کے ۔ اور یہ الف ( استخبار ) کلام مثبت پر داخل ہو تو اسے نفی میں تبدیل کردیتا ہے ۔ جیسے اخرج ( وہ باہر نہیں نکلا ) کہ اس میں نفی خروج کے معنی پائے جائے ہیں ۔ اس لئے کہ اگر نفی کے معنی نہ ہوتے تو اس کے اثبات کے متعلق سوال نہ ہوتا ۔ اور جب کلام منفی پر داخل ہو تو اسے مثبت بنا دیتا ہے ۔ کیونکہ کلام منفی پر داخل ہونے سے نفی کی نفی ہوئی ۔ اور اس طرح اثبات پیدا ہوجاتا ہے چناچہ فرمایا :۔ أَلَسْتُ بِرَبِّكُم [ الأعراف : 172] کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ( یعنی ضرور ہوں ) أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ [ التین : 8] کیا اللہ سب سے بڑا حاکم نہیں ہے یعنی ضرور ہے ۔ أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد : 41] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کا بندوبست کرتے ہیں ۔ أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَة [ طه : 133] کیا ان کے پاس کھلی نشانی نہیں آئی ۔ أَوَلَا يَرَوْنَ [ التوبة : 126] اور کیا یہ نہیں دیکھتے أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم [ فاطر : 37] اور کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی ۔ (2) الف جو مضارع کے صیغہ واحد متکلم کے شروع میں آتا ہے اور میں " کے معنی رکھتا ہے جیسے اسمع و ابصر یعنی میں سنتاہوں اور میں دیکھتا ہوں (3) ہمزہ فعل امر خواہ قطعی ہو یا وصلي جیسے فرمایا :۔ أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ [ المائدة : 114] ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما ۔ رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ [ التحریم : 11] اے میرے پروردگار میرے لئے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا ۔ (4) الف جو لام کے ساتھ معرفہ بنانے کے لئے آیا ہے جیسے فرمایا الْعَالَمِينَ [ الفاتحة : 2] تمام جہانوں (5) الف نداء جیسے ازید ( اے زید ) ( ب) وہ الف جو وسط کلمہ میں آتا ہے اس کی پہلی قسم الف تثنیہ ہے ( مثلا رجلان ) اور دوسری وہ جو بعض اوزان جمع میں پائی جاتی ہے مثلا مسلمات و مساکین ۔ ( ج) اب رہا وہ الف جو کلمہ کے آخر میں آتا ہے ۔ وہ یا تو تانیث کے لئے ہوتا ہے جیسے حبلیٰ اور بَيْضَاءُمیں آخری الف یا پھر تثنیہ میں ضمیر کے لئے جیسا کہ اذْهَبَا [ الفرقان : 36] میں آخر کا الف ہے ۔ وہ الف جو آیات قرآنی کے آخر میں کہیں بڑھا دیا جاتا ہے جیسے وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب : 10] فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب : 67] تو یہ کوئی معنوی اضافہ نہیں کرتا بلکہ محض لفظی اصلاح ( اور صوتی ہم آہنگی ) کے لئے آخر میں بڑھا دیا جاتا ہے ( جیسا کہ ابیات کے اواخر میں الف " اشباع پڑھاد یتے ہیں )- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - ( قَدْ )- : حرف يختصّ بالفعل، والنّحويّون يقولون : هو للتّوقّع . وحقیقته أنه إذا دخل علی فعل ماض فإنما يدخل علی كلّ فعل متجدّد، نحو قوله : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف 90] ، قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران 13] ، قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة 1] ، لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 18] ، لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة 117] ، وغیر ذلك، ولما قلت لا يصحّ أن يستعمل في أوصاف اللہ تعالیٰ الذّاتيّة، فيقال : قد کان اللہ علیما حكيما، وأما قوله : عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل 20] ، فإنّ ذلک متناول للمرض في المعنی، كما أنّ النّفي في قولک :- ما علم اللہ زيدا يخرج، هو للخروج، وتقدیر ذلک : قد يمرضون فيما علم الله، وما يخرج زيد فيما علم الله، وإذا دخل ( قَدْ ) علی المستقبَل من الفعل فذلک الفعل يكون في حالة دون حالة .- نحو : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور 63] ، أي : قد يتسلّلون أحيانا فيما علم اللہ .- و ( قَدْ ) و ( قط) «2» يکونان اسما للفعل بمعنی حسب، يقال : قَدْنِي كذا، وقطني كذا، وحكي : قَدِي . وحكى الفرّاء : قَدْ زيدا، وجعل ذلک مقیسا علی ما سمع من قولهم : قدني وقدک، والصحیح أنّ ذلک لا يستعمل مع الظاهر، وإنما جاء عنهم في المضمر .- ( قد ) یہ حرف تحقیق ہے اور فعل کے ساتھ مخصوص ہے علماء نحو کے نزدیک یہ حرف توقع ہے اور اصل میں جب یہ فعل ماضی پر آئے تو تجدد اور حدوث کے معنی دیتا ہے جیسے فرمایا : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف 90] خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے ۔ قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران 13] تمہارے لئے دوگرہوں میں ۔۔۔۔ ( قدرت خدا کی عظیم الشان ) نشانی تھی ۔ قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة 1] خدا نے ۔۔ سن لی ۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 18] ( اے پیغمبر ) ۔۔۔۔۔ تو خدا ان سے خوش ہوا ۔ لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة 117] بیشک خدا نے پیغمبر پر مہربانی کی ۔ اور چونکہ یہ فعل ماضی پر تجدد کے لئے آتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کے اوصاف ذاتیہ کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا ۔ لہذا عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل 20] کہنا صحیح نہیں ہے اور آیت : اس نے جانا کہ تم میں بعض بیمار بھی ہوتے ہیں ۔ میں قد لفظا اگر چہ علم پر داخل ہوا ہے لیکن معنوی طور پر اس کا تعلق مرض کے ساتھ ہے جیسا کہ ، ، میں نفی کا تعلق خروج کے ساتھ ہے ۔ اور اس کی تقدریروں ہے اگر ، ، قد فعل مستقل پر داخل ہو تو تقلیل کا فائدہ دیتا ہے یعنی کبھی وہ فعل واقع ہوتا ہے اور کبھی واقع نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور 63] خدا کو یہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں ۔ کی تقدیریوں ہے قد یتسللون احیانا فیما علم اللہ ( تو یہ بہت آیت بھی ماسبق کی طرح موؤل ہوگی اور قد کا تعلق تسلل کے ساتھ ہوگا ۔ قدوقط یہ دونوں اسم فعل بمعنی حسب کے آتے ہیں جیسے محاورہ ہے قد فی کذا اوقطنی کذا اور قدی ( بدون نون وقایہ ا کا محاورہ بھی حکایت کیا گیا ہے فراء نے قدنی اور قدک پر قیاس کرکے قدر زید ا بھی حکایت کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ قد ( قسم فعل اسم ظاہر کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا بلکہ صرف اسم مضمر کے ساتھ آتا ہے ۔- فریق - والفَرِيقُ : الجماعة المتفرّقة عن آخرین،- قال : وَإِنَّ مِنْهُمْ لَفَرِيقاً يَلْوُونَ أَلْسِنَتَهُمْ بِالْكِتابِ [ آل عمران 78] - ( ف ر ق ) الفریق - اور فریق اس جماعت کو کہتے ہیں جو دوسروں سے الگ ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِنَّ مِنْهُمْ لَفَرِيقاً يَلْوُونَ أَلْسِنَتَهُمْ بِالْكِتابِ [ آل عمران 78] اور اہل کتاب میں بعض ایسے ہیں کہ کتاب تو راہ کو زبان مروڑ مروڑ کر پڑھتے ہیں ۔ - سمع - السَّمْعُ : قوّة في الأذن به يدرک الأصوات، وفعله يقال له السَّمْعُ أيضا، وقد سمع سمعا .- ويعبّر تارة بالسمّع عن الأذن نحو : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ- [ البقرة 7] ، وتارة عن فعله كَالسَّمَاعِ نحو : إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء 212] ، وقال تعالی: أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق 37] ، وتارة عن الفهم، وتارة عن الطاعة، تقول : اسْمَعْ ما أقول لك، ولم تسمع ما قلت، وتعني لم تفهم، قال تعالی: وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال 31] ، - ( س م ع ) السمع ۔ قوت سامعہ - ۔ کا ن میں ایک حاسہ کا نام ہے جس کے ذریعہ آوازوں کا اور اک ہوتا ہے اداس کے معنی سننا ( مصدر ) بھی آتے ہیں اور کبھی اس سے خود کان مراد لیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة 7] خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ اور کبھی لفظ سماع کی طرح اس سے مصدر ی معنی مراد ہوتے ہیں ( یعنی سننا ) چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء 212] وہ ( آسمائی باتوں کے ) سننے ( کے مقامات ) سے الگ کردیئے گئے ہیں ۔ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق 37] یا دل سے متوجہ ہو کر سنتا ہے ۔ اور کبھی سمع کے معنی فہم و تدبر اور کبھی طاعت بھی آجاتے ہیں مثلا تم کہو ۔ اسمع ما اقول لک میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو لم تسمع ماقلت لک تم نے میری بات سمجھی نہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال 31] اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں ( یہ کلام ) ہم نے سن لیا ہے اگر چاہیں تو اسی طرح کا ( کلام ) ہم بھی کہدیں ۔ - كلم - الكلْمُ : التأثير المدرک بإحدی الحاسّتين، فَالْكَلَامُ : مدرک بحاسّة السّمع، والْكَلْمُ : بحاسّة البصر، وكَلَّمْتُهُ : جرحته جراحة بَانَ تأثيرُها،- ( ک ل م ) الکلم ۔- یہ اصل میں اس تاثیر کو کہتے ہیں جس کا ادراک دو حاسوں میں سے کسی ایک کے ساتھ ہوسکے چناچہ کلام کا ادراک قوت سامعہ کیساتھ ہوتا ہے ۔ اور کلم ( زخم ) کا ادراک قوت بصر کے ساتھ ۔ محاورہ ہے ۔ کلمتہ ۔ میں نے اسے ایسا زخم لگایا ۔ جس کا نشان ظاہر ہوا اور چونکہ یہ دونوں ( یعنی کلام اور کلم ) معنی تاثیر میں مشترک ہیں ۔- تحریف الکلام :- أن تجعله علی حرف من الاحتمال يمكن حمله علی الوجهين، قال عزّ وجلّ : يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَواضِعِهِ [ النساء 46] ، ويُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ مِنْ بَعْدِ مَواضِعِهِ [ المائدة 41] ، وَقَدْ كانَ فَرِيقٌ- مِنْهُمْ يَسْمَعُونَ كَلامَ اللَّهِ ثُمَّ يُحَرِّفُونَهُ مِنْ بَعْدِ ما عَقَلُوهُ [ البقرة 75] ، والحِرْف : ما فيه حرارة ولذع، كأنّه محرّف عن الحلاوة والحرارة، وطعام حِرِّيف، وروي عنه صلّى اللہ عليه وسلم : «نزل القرآن علی سبعة أحرف» «1» وذلک مذکور علی التحقیق في «الرّسالة المنبّهة علی فوائد القرآن» «2» .- التحریف - الشئ ) کے معنی ہیں کسی چیز کو ایک جانب مائل کردینا ۔ جیسے تحریف القم قلم کو ٹیڑھا لگانا ۔ اور تحریف الکلام کے معنی ہیں کلام کو اس کے موقع و محل سے پھیر دینا کہ اس میں دو احتمال پیدا ہوجائیں ۔ قرآن میں ہے :۔ يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَواضِعِهِ [ النساء 46] یہ لوگ کلمات ( کتاب) کو اپنے مقامات سے بدل دیتے ہیں ۔ اور دوسرے مقام پر ويُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ مِنْ بَعْدِ مَواضِعِهِ [ المائدة 41] ہے یعنی ان کے محل اور صحیح مقام پر ہونے کے بعد ۔ مِنْهُمْ يَسْمَعُونَ كَلامَ اللَّهِ ثُمَّ يُحَرِّفُونَهُ مِنْ بَعْدِ ما عَقَلُوهُ [ البقرة 75]( حالانکہ ) ان میں سے کچھ لوگ کلام خد ( یعنی تو رات ) کو سنتے پھر اس کے کچھ لینے کے بعد اس کو ( جان بوجھ کر ) بدل دیتے رہے ہیں ۔ الحرف ۔ وہ چیز جس میں تلخی اور حرارت ہوگو یا وہ حلاوت اور حرارت سے پھیر دی گئی ہے ۔ طعام حزیف چر چراہٹ ( الاکھانا ) ایک روایت میں ہے ۔ (76) کہ قرآن سات حروف پر نازل ہوا ہے ۔ اس کی تحقیق ہمارے رسالہ المنبھۃ علی فوائد القرآن میں ملے گی ۔- عقل - العَقْل يقال للقوّة المتهيّئة لقبول العلم، ويقال للعلم الذي يستفیده الإنسان بتلک القوّة عَقْلٌ ، وهذا العقل هو المعنيّ بقوله : وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت 43] ،- ( ع ق ل ) العقل - اس قوت کو کہتے ہیں جو قبول علم کے لئے تیار رہتی ہے اور وہ علم جو اس قوت کے ذریعہ حاصل کیا جاتا ہے ۔ اسے بھی عقل کہہ دیتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت 43] اور سے توا ہل دانش ہی سمجھتے ہیں - علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا
قول باری ہے : افتطمعون ان یومنوا لکم و قد کان فریق منھم یسمعون کلام اللہ ثم یحرفونہ من بعدما عقلوہ وھم یعلمون (اے مسلمانو اب کیا ان لوگوں سے تم یہ توقع رکھتے ہو کہ یہ تمہاری دعوت پر ایمان لے آئیں گے حلان کہ ان میں سے ایک گروہ کا شیوہ یہ رہا ہے کہ اللہ کا کلام سنا اور پھر خوب سمجھ بوجھ کر دانستہ اس میں تحریف کی) یہ قول باری اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ حق کا علم رکھنے کے باوجود اس سے معاندت برتنے والا شخص ایک جاہل انسان کی بہ نسبت رشد و ہدایت سے زیادہ دور ہتا ہے اور اس کے سدھر جانے کے امکانات جاہل کے مقابل ی میں کم ہوتے ہیں۔ اس لئے کہ قول باری ہے : افتطمعون ان یومنوا لکم ان کے رشد و ہدایت کی توقع ختم ہوجانے کی خبر دے رہا ہے۔ کیونکہ انہوں نے حق کا علم ہوجانے کے بعد اسے جھٹلانے اور اس کے خلاف محاذ قائم کرنے کی کوشش کی۔
(٧٥) اب یہود میں سے جو لوگ منافقین ہیں یا نچلے طبقہ کے لوگ ہیں، اللہ تعالیٰ ان کا ذکر فرماتے ہیں کہ جب یہ لوگ حضرت ابوبکر صدیق (رض) اور جماعت صحابہ (رض) سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم تمہارے نبی پر ایمان لائے اور ان کی جو نشانیاں ہماری کتابوں میں درج ہیں اس کی ہم تصدیق کرتے ہیں اور جب یہ نچلے طبقہ کے لوگ اپنے سرداروں کے پاس جاتے ہیں تو ان کے سردار جب ان سے پوچھتے ہیں کہ کیا تم حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ کرام (رض) کے پاس وہ باتیں بیان کرتے ہو جو اللہ تعالیٰ نے تمہاری کتاب میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق اور آپ کے اوصاف کے متعلق بیان فرمائی ہیں تاکہ وہ تمہارے پروردگار کے سامنے تم سے جھگڑیں کیا تم سمجھ داری سے بالکل ہی عاری ہو ؟۔
اب تک ہم نے سورة البقرۃ کے آٹھ رکوع اور ان پر مستزاد تین آیات کا مطالعہ مکمل کیا ہے۔َ سابقہ امت مسلمہ یعنی بنی اسرائیل کے ساتھ خطاب کا سلسلہ سورة البقرۃ کے دس رکوعوں پر محیط ہے۔ یہ سلسلہ پانچویں رکوع سے شروع ہوا تھا اور پندرہویں رکوع کے آغاز تک چلے گا۔ اس سلسلۂ خطاب کے بارے میں یہ بات اچھی طرح ذہن نشین رہنی چاہیے کہ اس میں سے پہلا رکوع دعوت پر مشتمل ہے اور وہ بہت فیصلہ کن ہے ‘ جبکہ اگلے رکوع سے اسلوب کلام تبدیل ہوگیا ہے اور تہدید اور دھمکی کا انداز اختیار کیا گیا ہے۔ میں نے عرض کیا تھا کہ پانچواں رکوع اس پورے سلسلۂ خطاب میں بمنزلۂ فاتحہ بہت اہم ہے اور جو بقیہ نو (٩) رکوع ہیں ان کے آغاز و اختتام پر بریکٹ کا انداز ہے کہ دو آیتوں سے بریکٹ شروع ہوتی ہے اور انہی دو آیتوں پر بریکٹ ختم ہوتی ہے ‘ جبکہ پانچویں رکوع کے مضامین اس پورے سلسلۂ خطاب سے ضرب کھا رہے ہیں۔ ان رکوعوں میں بنی اسرائیل کے خلاف ایک مفصل فرد قرارداد جرم عائد کی گئی ہے ‘ جس کے نتیجے میں وہ اس منصب جلیلہ سے معزول کردیے گئے جس پر دو ہزار برس سے فائز تھے اور ان کی جگہ پر اب نئی امت مسلمہ یعنی امت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اس منصب پر تقرر عمل میں آیا اور اس مسند نشینی کی تقریب ) کے طور پر تحویل قبلہ کا معاملہ ہوا۔ یہ ربط کلام اگر سامنے نہ رہے تو انسان قرآن مجید کی طویل سورتوں کو پڑھتے ہوئے کھو جاتا ہے کہ بات کہاں سے چلی تھی اور اب کدھر جا رہی ہے۔ - ان نو رکوعوں کے مضامین میں کچھ تو تاریخ بنی اسرائیل کے واقعات بیان ہوئے ہیں کہ تم نے یہ کیا ‘ تم نے یہ کیا لیکن ان واقعات کو بیان کرتے ہوئے بعض ایسے عظیم ابدی حقائق اور بیان ہوئے ہیں کہ ان کا تعلق کسی وقت سے ‘ کسی قوم سے یا کسی خاص گروہ سے نہیں ہے۔ وہ تو ایسے اصول ہیں جنہیں ہمّ سنت اللہ کہہ سکتے ہیں۔ اس کائنات میں ایک تو قوانین طبیعیہ ( ) ہیں ‘ جبکہ ایک ہیں جو اللہ کی طرف سے اس دنیا میں کارفرما ہیں۔ سورة البقرۃ کے زیر مطالعہ نو رکوعوں میں تاریخ بنی اسرائیل کے واقعات کے بیان کے دوران تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد ایسی آیات آتی ہیں جو اس سلسلۂ کلام کے اندر انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔ ان میں درحقیقت موجودہ امت مسلمہ کے لیے راہنمائی پوشیدہ ہے۔ مثال کے طور پر اس سلسلۂ خطاب کے دوران آیت ٦١ میں وارد شدہ یہ الفاظ یاد کیجیے : (وَضُرِبَتْ عَلَیْہِمُ الذِّلَّۃُ وَالْمَسْکَنَۃُ ق وَبَآءُ ‘ وْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ ط) ” اور ان پر ذلت و خواری اور محتاجی و کم ہمتی تھوپ دی گئی اور وہ اللہ کا غضب لے کر لوٹے “۔ معلوم ہوا کہ ایسا ہوسکتا ہے کہ ایک مسلمان امت جس پر اللہ کے بڑے فضل ہوئے ہوں ‘ اسے بڑے انعام و اکرام سے نوازا گیا ہو ‘ اور پھر وہ اپنی بےعملی یا بدعملی کے باعث اللہ تعالیٰ کے غضب کی مستحق ہوجائے اور ذلتّ و مسکنت اس پر تھوپ دی جائے۔ یہ ایک ابدی حقیقت ہے جو ان الفاظ میں بیان ہوگئی۔ امت مسلمہ کے لیے یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے کہ کیا آج ہم تو اس مقام پر نہیں پہنچ گئے ؟- دوسرا اسی طرح کا مقام گزشتہ آیت (٧٤) میں گزرا ہے ‘ جہاں ایک عظیم ابدی حقیقت بیان ہوئی ہے :- (ثُمَّ قَسَتْ قُلُوْبُکُمْ مِّنْم بَعْدِ ذٰلِکَ فَہِیَ کَالْحِجَارَۃِ اَوْ اَشَدُّ قَسْوَۃً ط) ” پھر تمہارے دل سخت ہوگئے اس سب کے بعد ‘ پس اب تو وہ پتھروں کی مانند ہیں ‘ بلکہ سختی میں ان سے بھی شدید تر ہیں گویا اسی امت مسلمہ کا یہ حال بھی ہوسکتا ہے کہ ان کے دل اتنے سخت ہوجائیں کہ سختی میں پتھروں اور چٹانوں کو مات دے جائیں۔ حالانکہ یہ وہی امت ہے جس کے بارے میں فرمایا : (وَاَنِّیْ فَضَّلْتُکُمْ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ ) ع ” ببیں تفاوتِ رہ از کجاست تابہ کجا “ البتہ یہاں ایک بات واضح رہے کہ اس قساوت قلبی میں پوری امت مبتلا نہیں ہوا کرتی ‘ بلکہ اس کیفیت میں امت کے قائدین مبتلا ہوجاتے ہیں اور امت مسلمہ کے قائدین اس کے علماء ہوتے ہیں۔ چناچہ سب سے زیادہ شدت کے ساتھ یہ خرابی ان میں درآتی ہے۔ اس لیے کہ باقی لوگ تو پیروکار ہیں ‘ ان کے پیچھے چلتے ہیں ‘ ان پر اعتماد کرتے ہیں کہ یہ اللہ کی کتاب کے پڑھنے والے اور اس کے جاننے والے ہیں۔ لیکن جو لوگ جان بوجھ کر اللہ کی کتاب میں تحریف کر رہے ہوں اور جانتے بوجھتے حق کو پہچان کر اس کا انکار کر رہے ہوں انہیں تو پتا ہے کہ ہم کیا کر رہے ہیں درحقیقت یہ سزا ان پر آتی ہے۔ یہ بات ان آیات میں جو آج ہم پڑھنے چلے ہیں ‘ بہت زیادہ واضح ہوجائے گی (اِن شاء اللہ) ۔ فرمایا :- آیت ٧٥ (اَفَتَطْمَعُوْنَ اَنْ یُّؤْمِنُوْا لَکُمْ ) - عام مسلمانوں کو یہ توقع تھی کہ یہود دین اسلام کی مخالفت نہیں کریں گے۔ اس لیے کہ مشرکین مکہ تو دین توحید سے بہت دور تھے ‘ رسالت کا ان کے ہاں کوئی تصور ہی نہیں تھا ‘ کوئی کتاب ان کے پاس تھی ہی نہیں۔ جبکہ یہود تو اہل کتاب تھے ‘ حاملین تورات تھے ‘ موسیٰ (علیہ السلام) کے ماننے والے تھے ‘ توحید کے علمبردار تھے اور آخرت کا بھی اقرار کرتے تھے۔ چناچہ عام مسلمانوں کا خیال تھا کہ انہیں توٌ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ‘ کی دعوت کو جھٹ پٹ مان لینا چاہیے۔ تو مسلمانوں کے دلوں میں یہود کے بارے میں جو حسن ظن تھا ‘ یہاں اس کا پردہ چاک کیا جا رہا ہے اور مسلمانوں کو اس کی حقیقت سے آگاہ کیا جا رہا ہے کہ مسلمانو تمہیں بڑی طمع ہے ‘ تمہاری یہ خواہش ہے ‘ آرزو ہے ‘ تمناّ ہے ‘ تمہیں توقع ہے کہ یہ تمہاری بات مان لیں گے۔- (وَقَدْ کَانَ فَرِیْقٌ مِّنْہُمْ یَسْمَعُوْنَ کَلٰمَ اللّٰہِ ثُمَّ یُحَرِّفُوْنَہٗ مِنْم بَعْدِ مَا عَقَلُوْہُ وَہُمْ یَعْلَمُوْنَ ) “ - ظاہر بات ہے وہ گروہ ان کے علماء ہی کا تھا۔ عام آدمی تو اللہ کی کتاب میں تحریف نہیں کرسکتا۔- اب اگلی آیت میں بڑی عجیب بات سامنے آرہی ہے۔ جس طرح مسلمانوں کے درمیان منافقین موجود تھے اسی طرح یہود میں بھی منافقین تھے۔ یہود میں سے کچھ لوگ ایسے تھے کہ جب ان پر حق منکشف ہوگیا تو اب وہ اسلام کی طرف آنا چاہتے تھے۔ لیکن ان کے لیے اپنے خاندان کو ‘ گھر بار کو ‘ اپنے کاروبار کو اور اپنے قبیلے کو چھوڑنا بھی ممکن نہیں تھا ‘ جبکہ قبیلوں کی سرداری ان کے علماء کے پاس تھی۔ ایسے لوگوں کے دل کچھ کچھ اہل ایمان کے قریب آ چکے تھے۔ ایسے لوگ جب اہل ایمان سے ملتے تھے تو کبھی کبھی وہ باتیں بھی بتا جاتے تھے جو انہوں نے علماء یہود سے نبی آخرالزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کی تعلیمات کے بارے میں سن رکھی تھیں کہ تورات ان کی گواہی دیتی ہے۔ اس کے بعد جب وہ اپنے ” شیاطین “ یعنی علماء کے پاس جاتے تھے تو وہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرتے تھے کہ بیوقوفو یہ کیا کر رہے ہو ؟ تم انہیں یہ باتیں بتا رہے ہو تاکہ اللہ کے ہاں جا کر وہ تم پر حجت قائم کریں کہ انہیں پتا تھا اور پھر بھی انہوں نے نہیں مانا
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :86 یہ خطاب مدینے کے ان نَو مسلموں سے ہے جو قریب کے زمانے ہی میں نبی عربی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے تھے ۔ ان لوگوں کے کان میں پہلے سے نبوّت ، کتاب ، ملائکہ ، آخرت ، شریعت وغیرہ کی جو باتیں پڑی ہوئی تھیں ، وہ سب انہوں نے اپنے ہمسایہ یہودیوں ہی سے سُنی تھیں ۔ اور یہ بھی انہوں نے یہودیوں ہی سے سُنا تھا کہ دنیا میں ایک پیغمبر اور آنے والے ہیں ، اور یہ کہ جو لوگ ان کا ساتھ دیں گے وہ ساری دنیا پر چھا جائیں گے ۔ یہی معلومات تھیں جن کی بنا پر اہل مدینہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوّت کا چرچا سُن کر آپ ؐ کی طرف خود متوجہ ہوئے اور جُوق در جُوق ایمان لائے ۔ اب وہ متوقع تھے کہ جو لوگ پہلے ہی سے انبیا اور کُتب آسمانی کے پیرو ہیں اور جن کی دی ہوئی خبروں کی بدولت ہی ہم کو نعمتِ ایمان میسّر ہوئی ہے ، وہ ضرور ہمارا ساتھ دیں گے ، بلکہ اس راہ میں پیش پیش ہوں گے ۔ چنانچہ یہی توقعات لے کر یہ پُر جوش نَو مسلم اپنے یہودی دوستوں اور ہمسایوں کے پاس جاتے تھے اور ان کو اسلام کی دعوت دیتے تھے ۔ پھر جب وہ اس دعوت کا جواب انکار سے دیتے تو منافقین اور مخالفینِ اسلام اس سے یہ استدلال کرتے تھے کہ معاملہ کچھ مشتبہ معلوم ہوتا ہے ، ورنہ اگر یہ واقعی نبی ہوتے تو آخر کیسے ممکن تھا کہ اہل کتاب کے علما اور مشائخ اور مقدس بزرگ جانتے بُوجھتے ایمان لانے سے منہ موڑتے اور خواہ مخواہ اپنی عاقبت خراب کر لیتے ۔ اس بنا پر بنی اسرائیل کی تاریخی سرگزشت بیان کرنے کے بعد اب ان سادہ دل مسلمانوں سے کہا جا رہا ہے کہ جن لوگوں کی سابق روایات یہ کچھ رہی ہیں ان سے تم کچھ بہت زیادہ لمبی چوڑی توقعات نہ رکھو ، ورنہ جب ان کے پتھر دلوں سے تمہاری دعوت حق ٹکرا کر واپس آئے گی ، تو دل شکستہ ہو جاؤ گے ۔ یہ لوگ تو صدیوں کے بگڑے ہوئے ہیں ۔ اللہ کی جن آیات کو سُن کر تم پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے ، انہی سے کھیلتے اور تمسخر کرتے ان کی نسلیں بیت گئی ہیں ۔ دین حق کو مسخ کر کے یہ اپنی خواہشات کے مطابق ڈھال چکے ہیں اور اسی مسخ شدہ دین سے یہ نجات کی اُمیدیں باندھے بیٹھے ہیں ۔ ان سے یہ توقع رکھنا فضول ہے کہ حق کی آواز بلند ہوتے ہی یہ ہر طرف سے دَوڑے چلے آئیں گے ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :87 ”ایک گروہ“ سے مراد ان کے علما اور حاملینِ شریعت ہیں ۔ ” کلام اللہ“ سے مراد تورات ، زَبور اور وہ دُوسری کتابیں ہیں جو ان لوگوں کو ان کے انبیا کے ذریعے سے پہنچیں ۔ ”تحریف “ کا مطلب یہ ہے کہ بات کو اصل معنی و مفہُوم سے پھیر کر اپنی خواہش کے مطابق کچھ دُوسرے معنی پہنا دینا ، جو قائل کے منشا کے خلاف ہوں ۔ نیز الفاظ میں تغیّر و تبدّل کرنے کو بھی تحریف کہتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ علماء بنی اسرائیل نے یہ دونوں طرح کی تحریفیں کلام الہٰی میں کی ہیں ۔