جہنمی کون؟ مطلب یہ ہے کہ جس کے اعمال سراسر بد ہیں جو نیکیوں سے خالی ہے وہ جہنمی ہے اور جو شخص اللہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے اور سنت کے مطابق عمل کرے وہ جنتی ہے ۔ جیسے ایک جگہ فرمایا آیت ( لَيْسَ بِاَمَانِيِّكُمْ وَلَآ اَمَانِيِّ اَھْلِ الْكِتٰبِ ) 4 ۔ النسآء:123 ) یعنی نہ تو تمہارے منصوبے چل سکیں گے اور نہ اہل کتاب کے ہر برائی کرنے والا اپنی برائی کا بدلہ دیا جائے گا اور ہر بھلائی کرنے والا ثواب پائے گا اپنی نیکو کاری کا اجر پائے گا مگر برے کا کوئی مددگار نہ ہو گا ۔ کسی مرد کا ، عورت کا ، بھلے آدمی کا کوئی عمل برباد نہ ہو گا ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں یہاں برائی سے مطلب کفر ہے اور ایک روایت میں ہے کہ مراد شرک ہے ابو وائل ابو العالیہ ، مجاہد ، عکرمہ ، حسن ، قتادہ ، ربیع بن انس وغیرہ سے یہی مروی ہے ۔ سدی کہتے ہیں مراد کبیرہ گناہ ہیں جو تہ بہ تہ ہو کر دل کو گندہ کر دیں حضرت ابو ہریرہ وغیرہ فرماتے ہیں مراد شرک ہے جس کے دل پر بھی قابض ہو جائے ربیع بن خثیم کا قول ہے جو گناہوں پر ہی مرے اور توبہ نصیب نہ ہو مسند احمد میں حدیث ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں گناہوں کو حقیر نہ سمجھا کرو وہ جمع ہو کر انسان کی ہلاکت کا سبب بن جاتے ہیں دیکھتے نہیں ہو کہ اگر کئی آدمی ایک ایک لکڑی لے کر آئیں تو انبار لگ جاتا ہے پھر اگر اس میں آگ لگائی جائے تو بڑی بڑی چیزوں کو جلا کر خاکستر کر دیتا ہے پھر ایمانداروں کا حال بیان فرمایا کہ جو تم ایسے عمل نہیں کرتے بلکہ تمہارے کفر کے مقابلہ میں ان کا ایمان پختہ ہے تمہاری بد اعمالیوں کے مقابلہ میں ان کے پاکیزہ اعمال مستحکم ہیں انہیں ابدی راحتیں اور ہمیشہ کی مسکن جنتیں ملیں گی اور اللہ کے عذاب و ثواب دونوں لازوال ہیں ۔
سَيِّئَةً : تنوین تنکیر کے لیے نہیں، بلکہ تعظیم کے لیے ہے، اس لیے ترجمہ ” بڑی برائی “ کیا گیا ہے، مراد اس سے کفر و شرک ہے۔ اس سے ملتا جلتا وہ واقعہ ہے کہ جب یہ آیت اتری : (اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ يَلْبِسُوْٓا اِيْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ ) [ الأنعام : ٨٢ ] تو صحابہ کرام (رض) نے : (بِظُلْمٍ ) کی تنوین کو تنکیر کے لیے سمجھ کر کہا : ” ہم میں سے کون ہے جس نے اپنے ایمان میں کسی ظلم کی آمیزش نہیں کی ؟ “ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” آیت میں ظلم سے یہ مراد نہیں ہے، کیا تم نے لقمان کی وہ نصیحت نہیں سنی جو انھوں نے اپنے بیٹے کو کی تھی : (ڼ اِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيْمٌ ) [ لقمان : ١٣ ] ” بیشک شرک یقیناً بہت بڑا ظلم ہے۔ “ [ بخاری، التفسیر، باب ( لا تشرک باللہ ۔۔ ) : ٤٧٧٦ ] تفصیل سورة انعام (٨٢) میں دیکھیں۔ اسی طرح یہاں بھی (سَيِّئَةً ) سے مراد کفر و شرک ہے۔ ابن عباس (رض) نے بھی اس سے مراد ایسا کفر لیا ہے جو ہر نیکی کو ختم کر دے۔ [ ابن أبی حاتم بسند حسن : ١؍٢١٤، ح : ٨١٢ ]- ان آیات میں یہود کے اس نظریہ کی تردید ہے کہ ہم ہر حال میں آخر کار جنت میں جائیں گے، خواہ نبی آخر الزمان پر ایمان نہ لائیں۔ چناچہ بتایا گیا کہ جس نے بڑی برائی کا ارتکاب کیا، یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے سے انکار کردیا اور اسے اس کے گناہوں نے گھیر لیا کہ اس کی کوئی نیکی باقی نہ رہی تو یہ ابدی جہنمی ہے۔ مراد اس سے یہود اور دوسرے کفار ہیں، کیوں کہ کفر ہی ایسا گناہ ہے جو تمام نیکیوں کو برباد کردیتا ہے۔ آیت : (وَقَدِمْنَآ اِلٰى مَا عَمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ فَجَـعَلْنٰهُ هَبَاۗءً مَّنْثُوْرًا) [ الفرقان : ٢٣ ] ” اور ہم اس کی طرف آئیں گے جو انھوں نے کوئی بھی عمل کیا ہوگا تو اسے بکھرا ہوا غبار بنادیں گے۔ “ اس آیت سے گناہ گار مومن مراد نہیں۔ اہل السنہ و الجماعہ کا اتفاق ہے کہ آگ میں ہمیشہ کفار و مشرکین ہی رہیں گے، کیونکہ متواتر احادیث سے ثابت ہے کہ گناہ گار کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے، وہ چاہے گا تو اپنے فضل و کرم سے ان کے گناہ معاف فرما دے گا اور چاہے گا تو شفاعت سے یا اپنی خاص رحمت سے جہنم سے نکال دے گا۔ اس لیے اس آیت میں ” سَيِّئَةً “ اور ” خَطِيْۗــــَٔــتُهٗ “ سے مراد کفر و شرک ہی ہے۔ خصوصاً اس لیے بھی کہ یہ آیت یہود کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ ابن عباس (رض) نے فرمایا، آیت : (بَلٰى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً ) ”(یہود کو خطاب ہے) کہ جس نے تمہارے اعمال جیسے عمل کیے اور تمہاری طرح کفر کیا، حتیٰ کہ اس کے کفر نے اس کی تمام نیکیوں کو گھیر لیا۔ [ ابن أبی حاتم بسند حسن : ١؍٢١٣، ح : ٨٢١ ]
خلاصہ تفسیر :- خلود فی النار کا ضابطہ :- (بجز چند روز کے تم کو آتش دوزخ) کیوں نہیں (لگے گی بلکہ ابد الآباد تک اس میں رہنا ضرور ہے کیونکہ ہمارا ضابطہ یہ کہ) جو شخص قصد ابری باتیں کرتا رہے اور اس کو اس کی خطا (و قصور اس طرح) احاطہ کرلے (کہ کہیں نیکی کا اثر تک نہ رہے) سو ایسے لوگ اہل دوزخ ہوتے ہیں اور وہ اس میں ہمیشہ (ہمیشہ) رہیں گے اور جو لوگ (اللہ و رسول پر) ایمان لاویں اور نیک کام کریں ایسے لوگ اہل بہشت ہوتے ہیں (اور) وہ اس میں ہمیشہ (ہمیشہ) رہیں گے۔- فائدہ : خطاؤں کے احاطہ کے جو معنی اور ذکر کئے گئے ہیں اس قسم کا احاطہ اس معنی کے ساتھ کفار کے ساتھ مخصوص ہے کیونکہ کفر کی وجہ سے کوئی بھی عمل صالح مقبول نہیں ہوتا بلکہ کفر کے قبل اگر کچھ نیک اعمال کئے بھی ہوں تو وہ بھی ضائع اور ضبط ہوجاتے ہیں اسی وجہ سے کفار میں سر تا پا بدی ہی بدی ہوگی جس کی جزا ابدی جہنم ہوگی بخلاف اہل ایمان کے کہ اول تو ان کا ایمان خود بہت بڑا عمل صالح ہے دوسرے اعمال فرعیہ بھی ان کے نامہ اعمال میں درج ہوتے ہیں اس لئے وہ نیکی کے اثر سے خالی نہیں پس احاطہ مذکور ان کی حالت پر صادق نہیں آتا،- خلاصہ یہ ہوا کہ جب اس ضابطہ کی رو سے کافر کا ابدی جہنمی ہونا ثابت ہوگیا تو چونکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) خاتم الانبیاء نہیں ہیں آپ کے بعد حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی نبی ہیں تو یہود ان کا انکار کرکے کافروں میں شامل ہوگئے اس لئے اس ضابطہ کی رو سے وہ بھی خالد فی النار ہوں گے تو ان کا دعویٰ مذکور دلیل قطعی سے باطل ٹھرا،
بَلٰى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَۃً وَّاَحَاطَتْ بِہٖ خَطِيْۗــــــــَٔــتُہٗ فَاُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِۚ ھُمْ فِيْہَا خٰلِدُوْنَ ٨١- كسب ( عمل رزق)- الكَسْبُ : ما يتحرّاه الإنسان مما فيه اجتلاب نفع، و تحصیل حظّ ، كَكَسْبِ المال، وقد يستعمل فيما يظنّ الإنسان أنه يجلب منفعة، ثم استجلب به مضرّة . والکَسْبُ يقال فيما أخذه لنفسه ولغیره، ولهذا قد يتعدّى إلى مفعولین، فيقال : كَسَبْتُ فلانا کذا، والِاكْتِسَابُ لا يقال إلّا فيما استفدته لنفسک، فكلّ اكْتِسَابٍ کسب، ولیس کلّ كَسْبٍ اکتسابا، وذلک نحو : خبز واختبز، وشوی واشتوی، وطبخ واطّبخ، وقوله تعالی:- أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّباتِ ما كَسَبْتُمْ [ البقرة 267] روي أنه قيل للنّبي صلّى اللہ عليه وسلم «4» : أيّ الکسب أطيب ؟ فقال عليه الصلاة والسلام، «عمل الرجل بيده» ، وقال : «إنّ أطيب ما يأكل الرجل من کسبه وإنّ ولده من كَسْبِهِ» «1» ، وقال تعالی: لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة 264] وقد ورد في القرآن في فعل الصالحات والسيئات، فممّا استعمل في الصالحات قوله : أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمانِها خَيْراً [ الأنعام 158] ، وقوله :- وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً إلى قوله : مِمَّا كَسَبُوا [ البقرة 201- 202] «2» . وممّا يستعمل في السّيّئات : أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِما كَسَبَتْ [ الأنعام 70] ، أُولئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِما كَسَبُوا[ الأنعام 70] - ( ک س ب ) الکسب - ۔ اصل میں جلب نفع یا خوش نصیبی حاصل کرنے کے لئے کسی چیز کا قصد کرنے کو کسب کہتے ہیں جیسے کسب مال وغیرہ ایسے کام کے قصد پر بولا جاتا ہ جسے انسان اس خیال پر کرے کہ اس سے نفع حاصل ہوگا لیکن الٹا اس کو نقصان اٹھا نا پڑے ۔ پس الکسب ایسا کام کرنے کو کہتے ہیں جسے انسان اپنی ذا ت اور اس کے ساتھ دوسروں کے فائدہ کے لئے کرے اسی لئے یہ کبھی دو مفعولوں کو طرف متعدی ہوتا ہے جیسے کسبت فلانا کذا میں نے فلاں کو اتنا کچھ حاصل کرکے دیا ۔ مگر الاکتساب ایسا کام کرنے کو کت ہے ہیں جس میں انسان صرف اپنے مفاد کو پیش نظر رکھے لہذا ہر اکتساب لازم نہیں ہے ۔ اور یہ خبز و اختبرزو شوٰ ی واشتویٰ ، وطبخ و طبخ کی طرف ہے ۔ اور آیت کریمہ : أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّباتِ ما كَسَبْتُمْ [ البقرة 267] جو پاکیزہ اور عمدہ مال تم کھاتے ہو ۔۔۔۔ اس میں سے راہ خدا میں خرچ کرو ۔ کے متعلق آنحضرت سے سوال کیا گیا ای الکسب اطیب کہ کونسا کسب زیادہ پاکیزہ ہے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عمل الرجل بیدہ کہ انسان کا اپنے ہاتھ سے کام کرنا اور نیز فرمایا : ان طیب مایکل الرجل من کسبہ وان ولدہ من کسبہ سب سے زیادہ پاکیزہ رزق وہ ہی جو انسان اپنے ہاتھ سے کماکر کھا اور اسکی اولاد اس کے کسب سے ہے : قرآن میں ہے : لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة 264] اسی طرح ( یہ ریا کار) لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ حاصل نہیں کرسکیں گے ۔ اور قرآن میں نیک وبددونوں قسم کے اعمال کے متعلق یہ فعل استعمال ہوا ہے ۔ چناچہ اعمال صالحہ کے متعلق فرمایا : أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمانِها خَيْراً [ الأنعام 158] یا اپنے ایمان کی حالت میں نیک عمل نہیں کئ ہونگے اور آیت کریمہ : وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً إلى قوله : مِمَّا كَسَبُوا [ البقرة 201- 202] کے بعد فرمایا : انکے کاموں کا ( حصہ ) اور اعمال بدکے متعلق فرمایا : - أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِما كَسَبَتْ [ الأنعام 70] تاکہ ( قیامت کے دن کوئی شخص اپنے اعمال کی سزا میں ہلاکت میں نہ ڈالا جائے ۔ أُولئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِما كَسَبُوا[ الأنعام 70] یہی لوگ ہیں کہ اپنے اعمال کے وبال میں ہلاکت میں ڈالے گئے ۔ - سَّيِّئَةُ :- الفعلة القبیحة، وهي ضدّ الحسنة، قال : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم 10]: بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة 81] - سَّيِّئَةُ :- اور ہر وہ چیز جو قبیح ہو اسے سَّيِّئَةُ :،- ، سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اسی لئے یہ لفظ ، ، الحسنیٰ ، ، کے مقابلہ میں آتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔ چناچہ قرآن میں ہے اور سیئۃ کے معنی برائی کے ہیں اور یہ حسنۃ کی ضد ہے قرآن میں ہے : بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة 81] جو برے کام کرے - حيط - الحائط : الجدار الذي يَحُوط بالمکان، والإحاطة تقال علی وجهين :- أحدهما : في الأجسام - نحو : أَحَطْتُ بمکان کذا، أو تستعمل في الحفظ نحو : إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُحِيطٌ [ فصلت 54] ، - والثاني : في العلم - نحو قوله : أَحاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْماً [ الطلاق 12] - ( ح و ط ) الحائط ۔- دیوار جو کسی چیز کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہو اور - احاطۃ ( افعال ) کا لفظ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) اجسام کے متعلق جیسے ۔ احطت بمکان کذا یہ کبھی بمعنی حفاظت کے آتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُحِيطٌ [ فصلت 54] سن رکھو کہ وہ ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے ۔ یعنی وہ ہر جانب سے ان کی حفاظت کرتا ہے ۔- (2) دوم احاطہ بالعلم - ہے جیسے فرمایا :۔ أَحاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْماً [ الطلاق 12] اپنے علم سے ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے ۔ - خطأ - الخَطَأ : العدول عن الجهة، وذلک أضرب :- أحدها : أن ترید غير ما تحسن إرادته فتفعله،- وهذا هو الخطأ التامّ المأخوذ به الإنسان، يقال : خَطِئَ يَخْطَأُ ، خِطْأً ، وخِطْأَةً ، قال تعالی: إِنَّ قَتْلَهُمْ كانَ خِطْأً كَبِيراً [ الإسراء 31] ، وقال : وَإِنْ كُنَّا لَخاطِئِينَ [يوسف 91] .- والثاني : أن يريد ما يحسن فعله،- ولکن يقع منه خلاف ما يريد فيقال : أَخْطَأَ إِخْطَاءً فهو مُخْطِئٌ ، وهذا قد أصاب في الإرادة وأخطأ في الفعل، وهذا المعنيّ بقوله عليه السلام : «رفع عن أمّتي الخَطَأ والنسیان» «3» وبقوله : «من اجتهد فأخطأ فله أجر» «4» ، وقوله عزّ وجلّ : وَمَنْ قَتَلَ مُؤْمِناً خَطَأً فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ [ النساء 92] .- والثّالث : أن يريد ما لا يحسن فعله - ويتّفق منه خلافه، فهذا مخطئ في الإرادة ومصیب في الفعل، فهو مذموم بقصده وغیر محمود علی فعله، - والخَطِيئَةُ والسّيّئة يتقاربان،- لکن الخطيئة أكثر ما تقال فيما لا يكون مقصودا إليه في نفسه، بل يكون القصد سببا - لتولّد ذلک الفعل منه - ( خ ط ء ) الخطاء - والخطاء ۃ کے معنی صحیح جہت سے عدول کرنے کے ہیں - اس کی مختلف صورتیں ہیں - ۔ ( 1 ) کوئی ایسا کام بالا رادہ کرے جس کا ارادہ بھی مناسب نہ ہو ۔- یہ خطا تام ہے جس پر مواخزہ ہوگا ا س معنی میں فعل خطئی یخطاء خطاء وخطاء بولا جا تا ہے قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ قَتْلَهُمْ كانَ خِطْأً كَبِيراً [ الإسراء 31] کچھ شک نہیں کہ ان کا مار ڈالنا بڑا سخت جرم ہے ۔ وَإِنْ كُنَّا لَخاطِئِينَ [يوسف 91] اور بلا شبہ ہم خطا کار تھے - ۔ ( 2 ) ارادہ تو اچھا کام کرنے کا ہو لیکن غلطی سے برا کام سرزد ہوجائے ۔- کہا جاتا ہے : ۔ اس میں اس کا ارادہ وہ تو درست ہوتا ہے مگر اس کا فعل غلط ہوتا ہے اسی قسم کی خطا کے متعلق آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ : «رفع عن أمّتي الخَطَأ والنسیان» میری امت سے خطا سے خطا اور نسیان اٹھائے گئے ہیں ۔ نیز فرمایا : وبقوله : «من اجتهد فأخطأ فله أجر» جس نے اجتہاد کیا ۔ لیکن اس سے غلطی ہوگئی اسے پھر بھی اجر ملے گا قرآن میں ہے : ۔ اور جو غلطی سے مومن کو مار ڈالے تو ایک تو غلام کو ازاد کردے - ۔ ( 3 ) غیر مستحن فعل کا ارادہ کرے لیکن اتفاق سے مستحن فعل سرزد ہوجائے ۔- اس صورت میں اس کا فعل تو درست ہے مگر ارادہ غلط ہے لہذا اس کا قصد مذموم ہوگا مگر فعل ہے لہذا اس کا قصد مذموم ہوگا مگر فعل بھی قابل ستائس نہیں ہوگا ۔- الخطیتۃ - یہ قریب قریب سیئۃ کے ہم معنی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَحاطَتْ بِهِ خَطِيئَتُهُ [ البقرة 81] اور اسکے گناہ ہر طرف سے اس کو گھیر لیں گے ۔ لیکن زیادہ تر خطئۃ کا استعمال اس فعل کے متعلق ہوتا ہے جو بزات خود مقصود نہ ہو بلکہ کسی دوسری چیز کا ارادہ اس کے صدر کا سبب بن جائے - صحب - الصَّاحِبُ : الملازم إنسانا کان أو حيوانا، أو مکانا، أو زمانا . ولا فرق بين أن تکون مُصَاحَبَتُهُ بالبدن۔ وهو الأصل والأكثر۔ ، أو بالعناية والهمّة، ويقال للمالک للشیء : هو صاحبه، وکذلک لمن يملک التّصرّف فيه . قال تعالی: إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة 40] قالَ لَهُ صاحِبُهُ وَهُوَ يُحاوِرُهُ [ الكهف 34] ، أَمْ حَسِبْتَ أَنَّ أَصْحابَ الْكَهْفِ وَالرَّقِيمِ [ الكهف 9] ، وَأَصْحابِ مَدْيَنَ [ الحج 44] ، أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة 82] ، أَصْحابُ النَّارِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة 217] ، مِنْ أَصْحابِ السَّعِيرِ [ فاطر 6] ، وأما قوله : وَما جَعَلْنا أَصْحابَ النَّارِ إِلَّا مَلائِكَةً [ المدثر 31] أي : الموکّلين بها لا المعذّبين بها كما تقدّم . وقد يضاف الصَّاحِبُ إلى مسوسه نحو : صاحب الجیش، وإلى سائسه نحو : صاحب الأمير . والْمُصَاحَبَةُ والِاصْطِحَابُ أبلغ من الاجتماع، لأجل أنّ المصاحبة تقتضي طول لبثه، فكلّ اصْطِحَابٍ اجتماع، ولیس کلّ اجتماع اصطحابا، وقوله : وَلا تَكُنْ كَصاحِبِ الْحُوتِ [ القلم 48] ، وقوله : ثُمَّ تَتَفَكَّرُوا ما بصاحبِكُمْ مِنْ جِنَّةٍ [ سبأ 46] ، وقد سمّي النبيّ عليه السلام صاحبهم تنبيها أنّكم صحبتموه، وجرّبتموه وعرفتموه ظاهره وباطنه، ولم تجدوا به خبلا وجنّة، وکذلک قوله : وَما صاحِبُكُمْ بِمَجْنُونٍ [ التکوير 22] . والْإِصحَابُ للشیء : الانقیاد له . وأصله أن يصير له صاحبا، ويقال : أَصْحَبَ فلان : إذا كَبُرَ ابنه فصار صاحبه، وأَصْحَبَ فلان فلانا : جعل صاحبا له . قال : وَلا هُمْ مِنَّا يُصْحَبُونَ [ الأنبیاء 43] ، أي : لا يكون لهم من جهتنا ما يَصْحَبُهُمْ من سكينة وروح وترفیق، ونحو ذلک ممّا يصحبه أولیاء ه، وأديم مصحب : أُصْحِبَ الشّعر الذي عليه ولم يُجَزَّ عنه .- ( ص ح ب ) الصاحب - ۔ کے معنی ہیں ہمیشہ ساتھ رہنے والا ۔ خواہ وہ کسی انسان یا حیوان کے ساتھ رہے یا مکان یا زمان کے اور عام اس سے کہ وہ مصاحبت بدنی ہو جو کہ اصل اور اکثر ہے یا بذریعہ عنایت اور ہمت کے ہو جس کے متعلق کہ شاعر نے کہا ہے ( الطوایل ) ( اگر تو میری نظروں سے غائب ہے تو دل سے تو غائب نہیں ہے ) اور حزف میں صاحب صرف اسی کو کہا جاتا ہے جو عام طور پر ساتھ رہے اور کبھی کسی چیز کے مالک کو بھی ھو صاحبہ کہہ دیا جاتا ہے اسی طرح اس کو بھی جو کسی چیز میں تصرف کا مالک ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة 40] اس وقت پیغمبر اپنے رفیق کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو ۔ پیغمبر اپنے رفیق کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو ۔ قالَ لَهُ صاحِبُهُ وَهُوَ يُحاوِرُهُ [ الكهف 34] تو اس کادوست جو اس سے گفتگو کر رہا تھا کہنے لگا ۔ أَمْ حَسِبْتَ أَنَّ أَصْحابَ الْكَهْفِ وَالرَّقِيمِ [ الكهف 9] کیا تم خیال کرتے ہو کہ غار اور لوح والے ۔ وَأَصْحابِ مَدْيَنَ [ الحج 44] اور مدین کے رہنے والے بھی ۔ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة 82] وہ جنت کے مالک ہوں گے ( اور ) ہمیشہ اس میں ( عیش کرتے ) رہیں گے ۔ وَلا تَكُنْ كَصاحِبِ الْحُوتِ [ القلم 48] اور مچھلی ) کا لقمہ ہونے والے ( یونس (علیہ السلام) کی طرح نہ ہونا ۔ اور آیت : ۔ مِنْ أَصْحابِ السَّعِيرِ [ فاطر 6]( تاکہ وہ ) دوزخ والوں میں ہوں ۔ اور آیت کریمہ : وَما جَعَلْنا أَصْحابَ النَّارِ إِلَّا مَلائِكَةً [ المدثر 31] اور ہم نے دوزخ کے دروغہ فرشتے بنائے ہیں ۔ میں اصحاب النار سے دوزخی مراد نہیں ہیں بلکہ دوزخ کے داردغے مراد ہیں جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے ۔ پھر صاحب کا لفظ کبھی ان کی طرف مضاف ہو تو ہے جو کسی کے زیر نگرانی ہوتے ہیں جیسے صاحب الجیش ( فوج کا حاکم اور کبھی حاکم کی طرف جیسے صاحب الاسیر ( بادشاہ کا وزیر ) المصاحبۃ والا صطحاب میں بنسبت لفظ الاجتماع کے مبالغہ پایا جاتا ہے کیونکہ مصاحبۃ کا لفظ عرصہ دراز تک ساتھ رہنے کو مقتضی ہے اور لفظ اجتماع میں یہ شرط نہیں ہے لہذا اصطحاب کے موقعہ پر اجتماع کا لفظ تو بول سکتے ہیں مگر اجتماع کی جگہ پر ہر مقام میں اصطحاب کا لفظ نہین بول سکتے اور آیت کریمہ : ۔ ثُمَّ تَتَفَكَّرُوا ما بصاحبِكُمْ مِنْ جِنَّةٍ [ سبأ 46] تمہارے رفیق کو سودا نہیں میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صاحبکم کہہ کر متنبہ کیا ہے کہ تم نے ان کے ساتھ زندگی بسر کی ہے ان کا تجربہ کرچکے ہو اور ان کے ظاہر و باطن سے واقف ہوچکے ہو پھر بتاؤ کہ ان میں کوئی دماغی خلل یا دیوانگی پائی جاتی ہے یہی معنی آیت وما صاحِبُكُمْ بِمَجْنُونٍ [ التکوير 22] کے ہیں ۔ الا صحاب للشئی کے معنی ہیں وہ فرمانبردار ہوگیا اصل میں اس کے معنی کسی کا مصاحب بن کر اس کے ساتھ رہنے کے ہیں ۔ چناچہ اصحب فلان اس وقت بولتے ہیں جب کسی کا بیٹا بڑا ہو کر اس کے ساتھ رہنے لگے ۔ اور اصحب فلان فلانا کے معنی ہیں وہ اس کا ساتھی بنادیا گیا قرآن میں ہے : ۔ وَلا هُمْ مِنَّا يُصْحَبُونَ [ الأنبیاء 43] اور نہ ہم سے پناہ ہی دیئے جائیں گے ۔ یعنی ہماری طرف سے ان پر سکینت تسلی کشائش وغیرہ کی صورت میں کسی قسم کا ساتھ نہیں دیا جائے گا جیسا کہ اس قسم کی چیزوں سے اولیاء اللہ کی مدد کی جاتی ہے ۔ ادیم مصحب : کچا چمڑہ جس سے بال نہ اتارے گئے ہوں ۔- نار - والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] ، - ( ن و ر ) نار - اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔ - خلد - الخُلُود : هو تبرّي الشیء من اعتراض الفساد، وبقاؤه علی الحالة التي هو عليها، والخُلُودُ في الجنّة : بقاء الأشياء علی الحالة التي عليها من غير اعتراض الفساد عليها، قال تعالی: أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة 82] ،- ( خ ل د ) الخلودُ ( ن )- کے معنی کسی چیز کے فساد کے عارضہ سے پاک ہونے اور اپنی اصلی حالت پر قائم - رہنے کے ہیں ۔ اور جب کسی چیز میں دراز تک تغیر و فساد پیدا نہ ہو۔ قرآن میں ہے : ۔ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُونَ [ الشعراء 129] شاید تم ہمیشہ رہو گے ۔ جنت میں خلود کے معنی یہ ہیں کہ اس میں تمام چیزیں اپنی اپنی اصلی حالت پر قائم رہیں گی اور ان میں تغیر پیدا نہیں ہوگا ۔ قرآن میں ہے : ۔ أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة 82] یہی صاحب جنت میں ہمشہ اسمیں رہیں گے ۔
قول باری ہے : بلی من کسب سیئۃ و احاطت بہ خطیئتہ فاولئک اصحب النار، ھم فیھا خلدون (جو بھی باری کمائے گا اور اپنی خطا کاری کے چکر میں پڑا رہے گا وہ دوزخی ہے اور وہ دوزخ ہی میں ہمیشہ رہے گا) اس آیت سے یہ بات سمجھ میں آ جاتی ہے کہ دوزخ کا استحقاق دو شرطوں کی بنا پر ہوتا ہے۔ اول یہ کہ اس بدی کی بنا پر جو وہ کمات ا ہے اور دوم یہ کہ اپنی خطا کاری کے چکر میں پڑے رہنے کی بنا پر۔ اگر ان میں سے کسی ایک شرط کا وجود ہو تو وہ دوزخ کا مستحق نہیں ہوگا۔ یہ بات اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ جو شخص طلاق یا عتاق یا کسی اور سلسلے میں دو شرطوں پر عقدیمین کرے تو ان میں سے کسی ایک شرط کے وجود کی صورت میں وہ حانث قرار نہیں پائے گا۔ جب تک دوسری شرط بھی نہ پائی جائے۔
(٨١) ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا جو بھی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائے یا اس کے شرک نے اسے ہلاک کرڈالا ہو اور وہ اسی حالت پر مرا ہے تو ایسے لوگ جہنم میں ہمیشہ کے لئے رہیں گے وہاں ان کو موت بھی نہیں آئے گی اور نہ وہ اس سے کبھی باہر نکالے جائیں گے،
آیت ٨١ (بَلٰی مَنْ کَسَبَ سَیِّءَۃً ) ‘ - لیکن اس سے مراد کبیرہ گناہ ہے ‘ صغیرہ نہیں۔ سَیِّءَۃً کی تنکیر ” تفخیم “ کا فائدہ بھی دے رہی ہے۔ - (وَّاَحَاطَتْ بِہٖ خَطِٓیْءَتُہٗ ) “ - مثلاً ایک شخص سود خوری سے باز نہیں آرہا ‘ باقی وہ نماز کا بھی پابند ہے اورّ تہجد کا بھی التزام کر رہا ہے تو اس ایک گناہ کی برائی اس کے گرد اس طرح چھا جائے گی کہ پھر اس کی یہ ساری نیکیاں ختم ہو کر رہ جائیں گی۔ ہمارے مفسرین نے لکھا ہے کہ گناہ کے احاطہ کرلینے سے مراد یہ ہے کہ گناہ اس پر ایسا غلبہ کرلیں کہ کوئی جانب ایسی نہ ہو کہ گناہ کا غلبہ نہ ہو ‘ حتیٰ کہ دل سے ایمان و تصدیق رخصت ہوجائے۔ علماء کے ہاں یہ اصول مانا جاتا ہے کہ ” اَلْمَعَاصِیْ بَرِیْدُ الْکُفْرِ “ یعنی گناہ تو کفر کی ڈاک ہوتے ہیں۔ گناہ پر مداومت کا نتیجہ بالآخر یہ نکلتا ہے کہ دل سے ایمان رخصت ہوجاتا ہے۔ ایک شخص اپنے آپ کو مسلمان سمجھتا ہے ‘ لیکن اندر سے ایمان ختم ہوچکا ہوتا ہے۔ جس طرح کسی دروازے کی چوکھٹ کو دیمک چاٹ جاتی ہے اور اوپر لکڑی کا ایک باریک پرت ( ) چھوڑ جاتی ہے۔ - (فَاُولٰٓءِکَ اَصْحٰبُ النَّارِ ج) ( ہُمْ فِیْہَا خٰلِدُوْنَ )
57: بدی کے گھیرے میں لینے کا مطلب یہ ہے کہ وہ کسی ایسے گناہ ارتکاب کریں جس کے بعد کوئی نیک عمل آخرت میں کار آمد نہ ہو، اور وہ گناہ کفر اور شرک ہے۔