Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

خصومت جبرائیل علیہ السلام موجب کفر و عصیان امام جعفر طبری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں اس پر تمام مفسرین کا اتفاق ہے کہ جب یہودیوں نے حضرت جبرائیل کو اپنا دشمن اور حضرت میکائیل کو اپنا دوست بتایا تھا اس وقت ان کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی لیکن بعض کہتے ہیں کہ امر نبوت کے بارے میں جو گفتگو ان کی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوئی تھی اس میں انہوں نے یہ کہا تھا ۔ بعض کہتے ہیں عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ سے ان کا جو مناظرہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے بارے میں ہوا تھا اس میں انہوں نے یہ کہا تھا ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں یہودیوں کی ایک جماعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہا کہ ہم آپ سے چند سوال کرتے ہیں جن کے صحیح جواب نبی کے سوا اور کوئی نہیں جانتا اگر آپ سچے نبی ہیں تو ان کے جوابات دیجئے آپ نے فرمایا بہتر ہے جو چاہو پوچھو مگر عہد کرو کہ اگر میں ٹھیک ٹھیک جواب دوں گا تو تم میری نبوت کا اقرار کر لو گے اور میری فرمانبرداری کے پابند ہو جاؤ گے انہوں نے آپ سے وعدہ کیا اور عہد دیا ۔ اس کے بعد آپ نے حضرت یعقوب کی طرح اللہ جل شانہ کی شہادت کے ساتھ ان سے پختہ وعدہ لے کر انہیں سوال کرنے کی اجازت دی ، انہوں نے کہا پہلے تو یہ بتائے کہ توراۃ نازل ہونے سے پہلے حضرت اسرائیل علیہ السلام نے اپنے نفس پر کس چیز کو حرام کیا تھا ؟ آپ نے فرمایا جب حضرت یعقوب علیہ السلام عرق السناء کی بیماری میں سخت بیمار ہوئے تو نذر مانی کہ اگر اللہ مجھے اس مرض سے شفا دے تو میں اپنی کھانے کے سب سے زیادہ مرغوب چیز اور سب سے زیادہ محبوب چیز پینے کی چھوڑ دوں گا جب تندرست ہو گئے تو اونٹ کا گوشت کھانا اور اونٹنی کا دودھ پینا جو آپ کو پسند خاطر تھا چھوڑ دیا ، تمہیں اللہ کی قسم جس نے حضرت موسیٰ پر تورات اتاری بتاؤ یہ سچ ہے؟ ان سب نے قسم کھا کر کہا کہ ہاں حضور سچ ہے بجا ارشاد ہوا اچھا اب ہم پوچھتے ہیں کہ عورت مرد کے پانی کی کیا کیفیت ہے؟ اور کیوں کبھی لڑکا پیدا ہوتا ہے اور کبھی لڑکی؟ آپ نے فرمایا سنو مرد کا پانی گاڑھا اور سفید ہوتا ہے اور عورت کا پانی پتلا اور زردی مائل ہوتا ہے جو بھی غالب آ جائے اسی کے مطابق پیدائش ہوتی ہے اور شبیہ بھی ۔ جب مرد کا پانی عورت کے پانی پر غالب آ جائے تو حکم الٰہی سے اولاد نرینہ ہوتی ہے اور جب عورت کا پانی مرد کے پانی پر غالب آ جائے تو حکم الٰہی سے اولاد لڑکی ہوتی ہے تمہیں اللہ تعالیٰ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں سچ بتاؤ میرا جواب صحیح ہے؟ سب نے قسم کھا کر کہا بیشک آپ نے بجا ارشاد فرمایا آپ نے ان دو باتوں پر اللہ تعالیٰ کو گواہ بنایا ۔ انہوں نے کہا اچھا یہ فرمائیے کہ تورات میں جس نبی امی کی خبر ہے اس کی خاص نشانی کیا ہے؟ اور اس کے پاس کونسا فرشتہ وحی لے کر آتا ہے؟ آپ نے فرمایا کس خاص نشانی یہ ہے کہ اس کی آنکھیں جب سوئی ہوئی ہوں اس وقت میں اس کا دل جاگتا رہتا ہے تمہیں اس رب کی قسم جس نے حضرت موسیٰ کو توراۃ دی بتاؤ تو میں نے ٹھیک جواب دیا ؟ سب نے قسم کھا کر کہا آپ نے بالکل صحیح جواب دیا ۔ اب ہمارے اس سوال کی دوسری شق کا جواب بھی عنایت فرما دیجئے اسی پر بحث کا خاتمہ ہے ۔ آپ نے فرمایا میرا ولی جبرائیل ہے وہی میرے پاس وحی لاتا ہے اور وحی تمام انبیاء کرام کے پاس پیغام باری تعالیٰ لاتا رہا ۔ سچ کہو اور قسم کھا کر کہو کہ میرا یہ جواب بھی درست ہے؟ انہوں نے قسم کھا کر کہا کہ جواب تو درست ہے لیکن چونکہ جبرائیل ہمارا دشمن ہے وہ سختی اور خون ریزی وغیرہ لے کر آتا رہتا ہے اس لئے ہم اس کی نہیں مانیں گے نہ آپ کی مانیں ہاں اگر آپ کے پاس حضرت میکائیل وحی لے کر آتے جو رحمت ، بارش ، پیداوار وغیرہ لے کر آتے ہیں اور ہمارے دوست ہیں تو ہم آپکی تابعداری اور تصدیق کرتے اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔ بعض روایتوں میں ہے کہ انہوں نے یہ بھی سوال کیا تھا کہ رعد کیا چیز ہے؟ آپ نے فرمایا وہ ایک فرشتہ ہے جو بادلوں پر مقرر ہے جو اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق انہیں ادھر ادھر لے جاتا ہے ۔ انہوں نے کہا یہ گرج کی آواز کیا ہے؟ آپ نے فرمایا یہ اسی فرشتے کی آواز ہے ملاحظہ ہو مسند احمد وغیرہ ۔ صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ جب حضور علیہ السلام مدینہ میں تشریف لائے اس وقت حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے باغ میں تھے اور یہودیت پر قائم تھے ۔ انہوں نے جب آپ کی آمد کی خبر سنی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرمائے کہ قیامت کی پہلی شرط کیا ہے؟ اور جنتیوں کا پہلا کھانا کیا ہے؟ اور کونسی چیز بچہ کو کبھی ماں کی طرف کھینچتی ہے اور کبھی باپ کی طرف ، آپ نے فرمایا ان تینوں سوالوں کے جواب ابھی ابھی جبرائیل نے مجھے بتلائے ہیں سنو ، حضرت عبداللہ بن سلام نے کہا وہ تو ہمارا دشمن ہے ۔ آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی پھر فرمایا پہلی نشانی قیامت کی ایک آگ ہے جو لوگوں کے پیچھے لگے گی اور انہیں مشرق سے مغرب کی طرف اکٹھا کر دے گی ۔ جنتیوں کی پہلی خوراک مچھلی کی کلیجی بطور ضیافت ہو گی ۔ جب مرد کا پانی عورت کے پانی پر سبقت کر جاتا ہے تو لڑکا پیدا ہوتا ہے اور جب عورت کا پانی مرد کے پانی سے سبق لے جاتا ہے تو لڑکی ہوتی ہے یہ جواب سنتے ہی حضرت عبداللہ مسلمان ہو گئے اور پکار اٹھے حدیث ( اشھدان لا الہ الا اللہ وانک رسولہ اللہ ) پھر کہنے لگے حضور یہودی بڑے بیوقوف لوگ ہیں ۔ اگر انہیں میرا اسلام لانا پہلے معلوم ہو جائے گا تو وہ مجھے کہیں گے آپ پہلے انہیں ذرا قائل کر لیجئے ۔ اس کے بعد آپ کے پاس جب یہودی آئے تو آپ نے ان سے پوچھا کہ عبداللہ بن سلام تم میں کیسے شخص ہیں؟ انہوں نے کہا بڑے بزرگ اور دانشور آدمی ہیں بزرگوں کی اولاد میں سے ہیں وہ تو ہمارے سردار ہیں اور سرداروں کی اولاد میں سے ہیں آپ نے فرمایا اچھا اگر وہ مسلمان ہو جائیں پھر تو تمہیں اسلام قبول کرنے میں کوئی تامل تو نہیں ہو گا ؟ کہنے لگے اعوذ باللہ اعوذ باللہ وہ مسلمان ہی کیوں ہونے لگے؟ حضرت عبداللہ جو اب تک چھپے ہوئے تھے باہر آ گئے اور زور سے کلمہ پڑھا ۔ تو تمام کے تمام شور مچانے لگے کہ یہ خود بھی برا ہے اس کے باپ دادا بھی برے تھے یہ بڑا نیچے درجہ کا آدمی ہے خاندانی کمینہ ہے ۔ حضرت عبداللہ نے فرمایا حضور صلی اللہ علیہ وسلم اسی چیز کا مجھے ڈر تھا ۔ صحیح بخاری میں ہے حضرت عکرمہ فرماتے ہیں جبر ، میک ، اسراف ، کے معنی عبد یعنی بندے کے ہیں اور ایل کے معنی اللہ کے ہیں تو جبرائیل وغیرہ کے معنی عبداللہ ہوئے بعض لوگوں نے اس کے معنی الٹ بھی کئے ہیں وہ کہتے ہیں ایل کے معنی عبد کے ہیں اور اس سے پہلے کے الفاظ اللہ کے نام ہیں ، جیسے عربی میں عبداللہ عبدالرحمٰن عبدالملک عبدالقدوس عبدالسلام عبدالکافی عبدالجلیل وغیرہ لفظ عبد ہر جگہ باقی رہا اور اللہ کے نام بدلتے رہے اس طرح ایل ہر جگہ باقی ہے اور اللہ کے اسماء حسنہ بدلتے رہتے ہیں ۔ غیر عربی زبان میں مضاف الیہ پہلے آتا ہے اور مضاف بعد میں ۔ اسی قاعدے کے مطابق ان ناموں میں بھی ہے جیسے جبرائیل میکائیل اسرافیل عزرائیل وغیرہ ۔ اب مفسرین کی دوسری جماعت کی دلیل سنئے جو لکھتے ہیں کہ یہ گفتگو جناب عمر سے ہوئی تھی شعبہ کہتے ہیں حضرت عمر روحاء میں آئے ۔ دیکھا کہ لوگ دوڑ بھاگ کر ایک پتھروں کے تودے کے پاس جا کر نماز ادا کر رہے ہیں پوچھا کہ یہ کیا بات ہے جواب ملا کہ اس جگہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ادا کی ہے ، آپ بہت ناراض ہوئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو جہاں کہیں نماز کا وقت آتا تھا پڑھ لیا کرتے تھے پہلے چلے جایا کرتے تھے اب ان مقامات کو متبرک سمجھ کر خواہ مخواہ وہیں جا کر نماز ادا کرنا کس نے بتایا ؟ پھر آپ اور باتوں میں لگ گئے فرمانے لگے میں یہودیوں کے مجمع میں کبھی کبھی چلا جایا کرتا اور یہ دیکھتا رہتا تھا کہ کس طرح قرآن توراۃ کی اور توراۃ قرآن کو سچائی کی تصدیق کرتا ہے یہودی بھی مجھ سے محبت ظاہر کرنے لگے اور اکثر بات چیت ہوا کرتی تھی ۔ ایک دن میں ان سے باتیں کر ہی رہا تھا تو راستے سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نکلے انہوں نے مجھ سے کہا تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم وہ جا رہے ہیں ۔ میں نے کہا میں ان کے پاس جاتا ہوں لیکن تم یہ تو بتاؤ تمہیں اللہ وحدہ کی قسم اللہ جل شانہ بر حق کو مدنظر رکھو اس کی نعمتوں کا خیال کرو ۔ اللہ تعالیٰ کی کتاب تم میں موجود ہے رب کی قسم کھا کر بتاؤ کیا تم حضور کو رسول نہیں مانتے؟ اب سب خاموش ہو گئے ان کے بڑے عالم نے جو ان سب میں علم میں بھی کامل تھا اور سب کا سردار بھی تھا اس نے کہا اس شخص نے اتنی سخت قسم دی ہے تم صاف اور سچا جواب کیوں نہیں دیتے؟ انہوں نے کہا حضرت آپ ہی ہمارے بڑے ہیں ذرا آپ ہی جواب دیجئے ۔ اس بڑے پادری نے کہا سنئے جناب آپ نے زبردست قسم دی ہے لہذا سچ تو یہی ہے کہ ہم دل سے جانتے ہیں کہ حضور اللہ تعالیٰ کے سچے رسول ہیں میں نے کہا افسوس جب یہ جانتے ہو تو پھر مانتے کیوں نہیں کہا صرف اس وجہ سے کہ ان کے پاس آسمانی وحی لے کر آنے والے جبرائیل ہیں جو نہایت سختی ، تنگی ، شدت ، عذاب اور تکلیف کے فرشتے ہیں ہم ان کے اور وہ ہمارے دشمن ہیں اگر وحی لے کر حضرت میکائیل آتے جو رحمت و رافت تخفیف و راحت والے فرشتے ہیں تو ہمیں ماننے میں تامل نہ ہوتا ۔ میں نے کہا اچھا بتاؤ تو ان دونوں کی اللہ کے نزدیک کیا قدر و منزل ہے؟ انہوں نے کہا ایک تو جناب باری کے داہنے بازو ہے اور دوسرا دوسری طرف میں نے کہا اللہ کی قسم جس کے سوا اور کوئی معبود نہیں جو ان میں سے کسی کا دشمن ہو ۔ اس کا دشمن اللہ بھی ہے اور دوسرا فرشتہ بھی کیونکہ جبرائیل کے دشمن سے میکائیل دوستی نہیں رکھ سکتے اور میکائیل کا دشمن جبرائیل کا دوست نہیں ہو سکتا ۔ نہ ان میں سے کسی ایک کا دشمن اللہ تبارک و تعالیٰ کا دوست ہو سکتا ہے نہ ان دونوں میں سے کوئی ایک باری تعالیٰ کی اجازت کے بغیر زمین پر آ سکتا ہے نہ کوئی کام کر سکتا ہے ۔ واللہ مجھے نہ تم سے لالچ ہے نہ خوف ۔ سنو جو شخص اللہ تعالیٰ کا دشمن ہو اس کے فرشتوں اس کے رسولوں اور جبرائیل و میکائیل کا دشمن ہو تو اس کافر کا اللہ وحدہ لاشریک بھی دشمن ہے اتنا کہہ کر میں چلا آیا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا تو آپ نے مجھے دیکھتے ہی فرمایا اے ابن خطاب مجھ پر تازہ وحی نازل ہوئی ہے میں نے کہا حضور سنائیے ، آپ نے یہی آیت پڑھ کر سنائی ۔ میں نے کہا حضور آپ پر میرے ماں باپ قربان ہوں یہی باتیں ابھی ابھی یہودیوں سے میری ہو رہی تھیں ۔ میں تو چاہتا ہی تھا بلکہ اسی لئے حاضر خدمت ہوا تھا کہا آپ کو اطلاع کروں مگر میری آنے سے پہلے لطیف و خبیر سننے دیکھنے والے اللہ نے آپ کو خبر پہنچا دی ملاحظہ ہو ابن ابی حاتم وغیرہ مگر یہ روایت منقطع ہے سند متصل نہیں شعبی نے حضرت عمر کا زمانہ نہیں پایا ۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ جبرائیل علیہ السلام اللہ کے امین فرشتے ہیں اللہ کے حکم سے آپ کے دل میں اللہ کی وحی پہنچانے پر مقرر ہیں ۔ وہ فرشتوں میں سے اللہ کے رسول ہیں کسی ایک رسول سے عداوت رکھنے والا سب رسولوں سے عداوت رکھنے والا ہوتا ہے جیسے ایک رسول پر ایمان سب رسولوں پر ایمان لانے کا نام ہے اور ایک رسول کے ساتھ کفر تمام نبیوں کے ساتھ کفر کرنے کے برابر ہے خود اللہ تعالیٰ نے بعض رسولوں کے نہ ماننے والوں کو کافر فرمایا ہے ۔ فرماتا ہے آیت ( اِنَّ الَّذِيْنَ يَكْفُرُوْنَ بِاللّٰهِ وَرُسُلِهٖ وَيُرِيْدُوْنَ اَنْ يُّفَرِّقُوْا بَيْنَ اللّٰهِ وَرُسُلِهٖ وَيَقُوْلُوْنَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَّنَكْفُرُ بِبَعْضٍ ۙ وَّيُرِيْدُوْنَ اَنْ يَّتَّخِذُوْا بَيْنَ ذٰلِكَ سَبِيْلًا ) 4 ۔ النسآء:150 ) یعنی جو لوگ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اور اس کے رسولوں کے ساتھ کفر کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسولوں کے درمیان تفریق کرنا چاہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم بعض کو مانتے ہیں اور بعض کو نہیں مانتے دوسری آیت کے آخر تک پس ان آیتوں میں صراحتاً لوگوں کو کافر کہا جو کسی ایک رسول کو بھی نہ مانیں ۔ اسی طرح جبرائیل کا دشمن اللہ کا دشمن ہے کیونکہ وہ اپنی مرضی سے نہیں آتے قرآن فرماتا ہے ( وما نتنزل الا بامر ربک ) فرماتا ہے آیت ( وَاِنَّهٗ لَتَنْزِيْلُ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ) 26 ۔ الشعرآء:192 ) یعنی ہم اللہ کے حکم کے سوا نہیں اترتے ہیں نازل کیا ہوا رب العالمین کا ہے جسے لے کر روح الامین آتے ہیں اور تیرے دل میں ڈالتے ہیں تاکہ تو لوگوں کو ہوشیار کر دے صحیح بخاری کی حدیث قدسی میں ہے میرے دوستوں سے دشمنی کرنے والا مجھ سے لڑائی کا اعلان کرنے والا ہے ۔ قرآن کریم کی یہ بھی ایک صفت ہے کہ وہ اپنے سے پہلے کے تمام ربانی کلام کی تصدیق کرتا ہے اور ایمانداروں کے دلوں کی ہدایت اور ان کے لئے جنت کی خوش خبری دیتا ہے جیسے فرمایا آیت ( قُلْ هُوَ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا هُدًى وَّشِفَاۗءٌ ) 41 ۔ فصلت:44 ) فرمایا آیت ( وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا هُوَ شِفَاۗءٌ وَّرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ ۙ وَلَا يَزِيْدُ الظّٰلِمِيْنَ اِلَّا خَسَارًا ) 17 ۔ الاسرآء:82 ) یعنی یہ قرآن ایمان والوں کے لئے ہدیات و شفا ہے رسولوں میں انسانی رسول اور ملکی رسول سب شامل ہیں جیسے فرمایا آیت ( اَللّٰهُ يَصْطَفِيْ مِنَ الْمَلٰۗىِٕكَةِ رُسُلًا وَّمِنَ النَّاسِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ سَمِيْعٌۢ بَصِيْرٌ ) 22 ۔ الحج:75 ) اللہ تعالیٰ فرشتوں میں سے اور انسانوں میں سے اپنے رسول چھانٹ لیتا ہے جبرائیل اور میکائیل بھی فرشتوں میں ہیں لیکن ان کا خصوصاً نام لیا تاکہ مسئلہ بالکل صاف ہو جائے اور یہ بھی جان لیں کہ ان میں سے ایک کا دشمن دوسرے کا دشمن ہے بلکہ اللہ بھی اس کا دشمن ہے حضرت میکائیل بھی کبھی کبھی انبیاء کے پاس آتے رہے ہیں جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شروع شروع میں تھے لیکن اس کام پر مقرر حضرت جبرائیل ہیں جیسے حضرت میکائیل روئیدگی اور بارش وغیرہ پر اور جیسے حضرت اسرافیل صور پھونکنے پر ۔ ایک صحیح حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو جب تہجد کی نماز کے لئے کھڑے ہوتے تب یہ دعا پڑھتے ۔ دعا ( اللھم رب جبرائیل و بیکائیل و اسرافیل فاطر السموت والارض علم الغیب و الشھادۃ انت تحکم بین عبادک فیما کانوا فیہ یختلفون اھدنی لما اختلف فیہ من الحق باذنک انک تھدی من تشاء الی صراط مستقیم ) اے اللہ اے جبرأایل میکائیل اسرافیل کے رب اے زمین و آسمان کے پیدا کرنے والے اے ظاہر باطن کو جاننے والے اپنے بندوں کے اختلاف کا فیصلہ تو ہی کرتا ہے ، اے اللہ اختلافی امور میں اپنے حکم سے حق کی طرف میری رہبری کر تو جسے چاہے سیدھی راہ دکھا دیتا ہے ۔ لفظ جبرائیل وغیرہ کی تحقیق اور اس کے معانی پہلے بیان ہو چکے ہیں ۔ حضرت عبدالعزیز بن عمر فرماتے ہیں فرشتوں میں حضرت جبرائیل کا نام خادم اللہ ہے ۔ ابو سلیمان دارانی یہ سن کر بہت ہی خوش ہوئے اور فرمانے لگے یہ ایک روایت میری روایتوں کے ایک دفتر سے مجھے زیادہ محبوب ہے ۔ جبرائیل اور میکائیل کے لفظ میں بہت سارے لغت ہیں اور مختلف قرأت ہیں جن کے بیان کی مناسب جگہ کتب لغت ہیں ہم کتاب کے حجم کو بڑھانا نہیں چاہتے کیونکہ کسی معنی کی سمجھ یا کسی حکم کا مفاد ان پر موقف نہیں ۔ اللہ ہماری مدد کرے ۔ ہمارا بھروسہ اور توکل اسی کی پاک ذات پر ہے ۔ آیت کے خاتمہ میں یہ نہیں فرمایا کہ اللہ بھی ان لوگوں کا دشمن ہے بلکہ فرمایا اللہ کافروں کا دشمن ہے ۔ اس میں ایسے لوگوں کا حکم بھی معلوم ہو گیا اسے عربی میں مضمر کی جگہ مظہر کہتے ہیں اور کلام عرب میں اکثر اس کی مثالیں شعروں میں بھی پائی جاتی ہیں گویا یوں کہا جاتا ہے کہ جس نے اللہ کے دوست سے دشمنی کی اس نے اللہ سے دشمنی کی اور جو اللہ کا دشمن اللہ بھی اس کا دشمن اور جس کا دشمن خود اللہ قادر مطلق ہو جائے اس کے کفر و بربادی میں کیا شبہ رہ گیا ؟ صحیح بخاری کی حدیث پہلے گزر چکی کہ اللہ فرماتا ہے میرے دوستوں سے دشمنی رکھنے والے کو میں اعلان جنگ دیتا ہوں میں اپنے دوستوں کا بدلہ لے لیا کرتا ہوں اور حدیث میں ہی ہے جس کا دشمن میں ہو جاؤں وہ برباد ہو کر ہی رہتا ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

97۔ 1 احادیث میں ہے کہ چند یہودی علماء نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور کہا کہ اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کا صحیح جواب دے دیا تو ہم ایمان لے آئیں گے، کیونکہ نبی کے علاوہ کوئی ان کا جواب نہیں دے سکتا۔ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے سوالوں کا صحیح جواب دے دیا تو انہوں نے کہا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی کون لاتا ہے ؟ آپ نے فرمایا، جبرائیل۔ یہود کہنے لگے جبرائیل تو ہمارا دشمن ہے، وہی تو عذاب لے کر اترتا ہے۔ اور اس بہانے سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت ماننے سے انکار کردیا (ابن کثیر و فتح القدیر)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١١٤] یہود کی جبریل دشمنی کی وجہ :۔ یہود یہ سمجھتے تھے کہ جبرئیل ہمارا دشمن ہے۔ وہ کہتے تھے کہ یہی وہ فرشتہ ہے جو کئی بار ہم پر عذاب اور ہمارے دشمنوں کو ہم پر غالب کرتا رہا ہے۔ چناچہ عبداللہ بن سلام (رضی اللہ عنہ) نے جب مدینہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تشریف لانے کی خبر سنی تو اس وقت وہ باغ میں میوہ چن رہے تھے۔ اسی وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور کہا میں آپ سے تین باتیں پوچھتا ہوں جنہیں پیغمبر کے سوا کوئی نہیں بتاسکتا آپ بتائیے کہ : قیامت کی پہلی نشانی کیا ہے ؟ اور بہشتی لوگ بہشت میں جا کر سب سے پہلے کیا کھائیں گے ؟ اور بچہ اپنے ماں باپ سے صورت میں کیوں ملتا جلتا ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ؟ ابھی ابھی جبریل نے مجھے یہ باتیں بتائی ہیں عبداللہ بن سلام نے کہا : جبرائیل نے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہاں، ابن سلام نے کہا : سارے فرشتوں میں سے وہی تو یہودیوں کا دشمن ہے۔ اس وقت آپ نے یہ آیت پڑھی :- آیت (مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِيْلَ 97 ؀) 2 ۔ البقرة :97) (بخاری، کتاب التفسیر، سورة البقرۃ) - [١١٥] یعنی جب جبریل ہی نے یہ قرآن اتارا ہے جو تمہاری کتاب تورات کی تصدیق کرتا ہے تو پھر جبریل سے دشمنی رکھنے کے کیا معنی ؟

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

یہودی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عداوت میں یہاں تک چلے گئے کہ انھوں نے جبریل (علیہ السلام) کو بھی اپنا دشمن قرار دے دیا، کیونکہ وہی آپ پر وحی لے کر آئے تھے۔ جب کہ ان کے خیال میں انھیں بنی اسرائیل کے کسی شخص پر وحی لے کر آنا چاہیے تھا۔ اس کے لیے انھوں نے ایک بہانا بنایا، چناچہ ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ یہودی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور کہنے لگے : ” اے ابا القاسم ہم آپ سے چند سوال کرتے ہیں، اگر آپ نے ان کے جواب دے دیے تو ہم پہچان جائیں گے کہ آپ واقعی نبی ہیں اور آپ کے پیروکار بن جائیں گے۔ “ ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ آپ نے ان سے عہد لیا جیسا کہ اسرائیل (علیہ السلام) نے اپنے بیٹوں سے لیا تھا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے یہاں تک کہا کہ اللہ اس پر جو ہم کہہ رہے ہیں وکیل ہے۔ (سوالات کے صحیح صحیح جوابات پانے کے بعد) یہود کہنے لگے : ” اچھا یہ بتائیے کہ فرشتوں میں سے آپ کے پاس آنے والا کون ہے ؟ کیونکہ ہر نبی کے پاس کوئی نہ کوئی فرشتہ خبر لے کر آتا ہے۔ یہی آخری بات ہے، اگر آپ بتادیں گے تو ہم آپ کے پیروکار بن جائیں گے۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” وہ جبریل ہے۔ “ انھوں نے کہا : ” وہ تو لڑائی اور جنگ لے کر اترتا ہے، وہ ہمارا دشمن ہے۔ اگر تم میکائیل بتاتے تو ہم ایمان لے آتے، کیونکہ وہ نباتات، بارش اور رحمت لے کر آتا ہے۔ “ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں : (قُلْ مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِيْلَ ) [ تفسیر ابن ابی حاتم : ١؍٢٥٢، ح : ٩٥٣، بسند حسن ]- اسی طرح صحیح بخاری میں ہے کہ عبداللہ بن سلام (رض) نے آپ سے تین سوال پوچھے، آپ نے فرمایا : ” مجھے ابھی ابھی جبریل (علیہ السلام) نے ان کے جواب بتائے ہیں۔ “ تو وہ کہنے لگے : ” وہ تو فرشتوں میں سے یہود کا دشمن ہے۔ “ اس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت پڑھی۔ [ بخاری، التفسیر، باب (من کان عدوا لجبریل ) : ٤٤٨٠ ]- اللہ تعالیٰ نے یہود کے اس بہانے کے کئی جواب دیے، پہلا یہ کہ جبریل (علیہ السلام) کا اس میں کیا قصور ہے، اس نے تو اللہ کے حکم سے اسے آپ کے دل پر نازل کیا ہے، تمہاری عداوت تو پھر اللہ تعالیٰ سے ہوئی۔ دوسرا یہ کہ اگر جبریل نے تمہاری کتاب کے خلاف یا گمراہی اور عذاب والی کوئی بات کی ہوتی تو بیشک تم اس سے عداوت رکھتے، مگر جب اس کی لائی ہوئی وحی تمہاری کتاب کی تصدیق کر رہی ہے اور ایمان والوں کے لیے ہدایت اور بشارت ہے تو پھر تمہیں دشمنی رکھنے کا کیا حق ہے ؟ تیسرا یہ کہ تمہارا کہنا کہ میکائیل سے تمہاری دوستی ہے، یہ کیسے درست ہوسکتا ہے، جب کہ تم جبریل سے دشمنی رکھتے ہو۔ دشمن کا دوست بھی دشمن ہوتا ہے۔ لہٰذا تمہاری دشمنی صرف جبریل سے نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ سے، اس کے فرشتوں سے، اس کے رسولوں سے اور جبرئیل و میکائیل سبھی سے ہے، کیونکہ یہ سب جبریل کے دوست ہیں اور سن لو کہ جو ان سب کا دشمن ہے تو ایسے کافروں کا اللہ بھی دشمن ہے۔ ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( اِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی قَالَ مَنْ عَادَی لِیْ وَلِیًّا فَقَدْ آذَنْتُہٗ بالْحَرْبِ ) [ بخاری، الرقاق، باب التواضع : ٦٥٠٢ ] ” اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جس نے میرے کسی دوست سے دشمنی رکھی تو میں اس کے ساتھ جنگ کا اعلان کرتا ہوں۔ “ - 3 فرقہ غرابیہ کے لوگوں کا کہنا ہے کہ جبریل (علیہ السلام) علی (رض) پر وحی لے کر آئے تھے، مگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور علی (رض) کی شکل آپس میں ملتی جلتی تھی، جبریل نے علی (رض) کے بجائے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی نازل کردی۔ (تحفہ اثنا عشریہ) جبریل سے عداوت اور ان کی گستاخی میں یہ فرقہ بھی یہود سے ملتا جلتا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر :- اور (بعض یہود نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا تھا کہ آپ پر کوئی ایسی دلیل واضح نازل نہ ہوئی جس کو ہم بھی جانتے پہچانتے اس کے جواب میں کہا جاتا ہے کہ وہ تو ایک ہی واضح دلیل کو لئے پھر تے ہیں) ہم نے تو آپ کے پاس بہت سے دلائل واضحہ نازل کئے ہیں (جن کو وہ بھی خوب جانتے پہچانتے ہیں سو ان کا انکار نہ جانے کی بنا پر نہیں بلکہ یہ انکار عدول حکمی کی عادت کی وجہ سے ہے) اور (قاعدہ کلیہ ہے کہ) کوئی انکار نہیں کیا کرتا (ایسے دلائل کا) مگر صرف وہی لوگ جو عدول حکمی کے عادی ہیں ،

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

رکوع نمبر 12- قُلْ مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِيْلَ فَاِنَّہٗ نَزَّلَہٗ عَلٰي قَلْبِكَ بِـاِذْنِ اللہِ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْہِ وَھُدًى وَّبُشْرٰى لِلْمُؤْمِنِيْنَ۝ ٩٧- عدو - العَدُوُّ : التّجاوز ومنافاة الالتئام، فتارة يعتبر بالقلب، فيقال له : العَدَاوَةُ والمُعَادَاةُ ، وتارة بالمشي، فيقال له : العَدْوُ ، وتارة في الإخلال بالعدالة في المعاملة، فيقال له : العُدْوَانُ والعَدْوُ. قال تعالی: فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام 108] ، وتارة بأجزاء المقرّ ، فيقال له : العَدْوَاءُ. يقال : مکان ذو عَدْوَاءَ أي : غير متلائم الأجزاء . فمن المُعَادَاةِ يقال :- رجلٌ عَدُوٌّ ، وقومٌ عَدُوٌّ. قال تعالی: بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه 123]- ( ع د و ) العدو - کے معنی حد سے بڑھنے اور باہم ہم آہنگی نہ ہونا ہیں اگر اس کا تعلق دل کی کیفیت سے ہو تو یہ عداوۃ اور معاداۃ کہلاتی ہے اور اگر رفتار سے ہو تو اسے عدو کہا جاتا ہے اور اگر عدل و انصاف میں خلل اندازی کی صورت میں ہو تو اسے عدوان اور عدو کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام 108] کہ یہ بھی کہیں خدا کو بےادبی سے بےسمجھے برا نہ کہہ بیٹھیں ۔ اور اگر اس کا تعلق کسی جگہ کے اجزاء کے ساتھ ہو تو اسے عدواء کہہ دیتے ہیں جیسے مکان ذوعدوء ناہموار مقام چناچہ معاداۃ سے اشتقاق کے ساتھ کہا جاتا ہے رجل عدو وقوم عدو اور یہ واحد جمع دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه 123] اب سے تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔ - نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - قلب - قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] .- ( ق ل ب ) قلب - الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ - وأَذِنَ :- استمع، نحو قوله : وَأَذِنَتْ لِرَبِّها وَحُقَّتْ [ الانشقاق 2] ، ويستعمل ذلک في العلم الذي يتوصل إليه بالسماع، نحو قوله : فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ [ البقرة 279] .- ( اذ ن) الاذن - اور اذن ( الیہ ) کے معنی تو جہ سے سننا کے ہیں جیسے فرمایا ۔ وَأَذِنَتْ لِرَبِّهَا وَحُقَّتْ ( سورة الِانْشقاق 2 - 5) اور وہ اپنے پروردگار کا فرمان سننے کی اور اسے واجب بھی ہے اور اذن کا لفظ اس علم پر بھی بولا جاتا ہے جو سماع سے حاصل ہو ۔ جیسے فرمایا :۔ فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللهِ وَرَسُولِهِ ( سورة البقرة 279) تو خبردار ہوجاؤ کہ ندا اور رسول سے تمہاری چنگ ہے ۔ - صدق - الصِّدْقُ والکذب أصلهما في القول، ماضیا کان أو مستقبلا، وعدا کان أو غيره، ولا يکونان بالقصد الأوّل إلّا في القول، ولا يکونان في القول إلّا في الخبر دون غيره من أصناف الکلام، ولذلک قال : وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ص دق) الصدق ۔- یہ ایک الکذب کی ضد ہے اصل میں یہ دونوں قول کے متعلق استعمال ہوتے ہیں خواہ اس کا تعلق زمانہ ماضی کے ساتھ ہو یا مستقبل کے ۔ وعدہ کے قبیل سے ہو یا وعدہ کے قبیل سے نہ ہو ۔ الغرض بالذات یہ قول ہی کے متعلق استعمال - ہوتے ہیں پھر قول میں بھی صرف خبر کے لئے آتے ہیں اور اس کے ماسوا دیگر اصناف کلام میں استعمال نہیں ہوتے اسی لئے ارشاد ہے ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ وہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ - «بَيْن»يدي - و «بَيْن» يستعمل تارة اسما وتارة ظرفا، فمن قرأ : بينكم [ الأنعام 94] ، جعله اسما، ومن قرأ : بَيْنَكُمْ جعله ظرفا غير متمکن وترکه مفتوحا، فمن الظرف قوله : لا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ [ الحجرات 1] ، وقوله : فَقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْواكُمْ صَدَقَةً [ المجادلة 12] ، فَاحْكُمْ بَيْنَنا بِالْحَقِّ [ ص 22] ، وقوله تعالی: فَلَمَّا بَلَغا مَجْمَعَ بَيْنِهِما [ الكهف 61] ، فيجوز أن يكون مصدرا، أي :- موضع المفترق . وَإِنْ كانَ مِنْ قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ مِيثاقٌ [ النساء 92] . ولا يستعمل «بين» إلا فيما کان له مسافة، نحو : بين البلدین، أو له عدد ما اثنان فصاعدا نحو : الرجلین، وبین القوم، ولا يضاف إلى ما يقتضي معنی الوحدة إلا إذا کرّر، نحو : وَمِنْ بَيْنِنا وَبَيْنِكَ حِجابٌ [ فصلت 5] ، فَاجْعَلْ بَيْنَنا وَبَيْنَكَ مَوْعِداً [ طه 58] ، ويقال : هذا الشیء بين يديك، أي : متقدما لك، ويقال : هو بين يديك أي :- قریب منك، وعلی هذا قوله : ثُمَّ لَآتِيَنَّهُمْ مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ [ الأعراف 17] ، ولَهُ ما بَيْنَ أَيْدِينا وَما خَلْفَنا [ مریم 64] ، وَجَعَلْنا مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ سَدًّا وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا [يس 9] ، مُصَدِّقاً لِما بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْراةِ [ المائدة 46] ، أَأُنْزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِنْ بَيْنِنا [ ص 8] ، أي : من جملتنا، وقوله : وَقالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَنْ نُؤْمِنَ بِهذَا الْقُرْآنِ وَلا بِالَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ [ سبأ 31] ، أي : متقدّما له من الإنجیل ونحوه، وقوله : فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَصْلِحُوا ذاتَ بَيْنِكُمْ [ الأنفال 1] ، أي : راعوا الأحوال التي تجمعکم من القرابة والوصلة والمودة .- ويزاد في بين «ما» أو الألف، فيجعل بمنزلة «حين» ، نحو : بَيْنَمَا زيد يفعل کذا، وبَيْنَا يفعل کذا،- بین کا لفظ یا تو وہاں استعمال ہوتا ہے ۔ جہاں مسافت پائی جائے جیسے ( دو شہروں کے درمیان ) یا جہاں دو یا دو سے زیادہ چیزیں موجود ہوں جیسے اور واھد کی طرف مضاف ہونے کی صورت میں بین کو مکرر لانا ضروری ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَمِنْ بَيْنِنا وَبَيْنِكَ حِجابٌ [ فصلت 5] اور ہمارے اور تمہارے درمیان پردہ ہے فَاجْعَلْ بَيْنَنا وَبَيْنَكَ مَوْعِداً [ طه 58] ۔ تو ہمارے اور اپنے درمیان ایک وقت مقرر کرلو ۔ اور کہا جاتا ہے : یعنی یہ چیز تیرے قریب اور سامنے ہے ۔ اسی معنی میں فرمایا : ۔ ثُمَّ لَآتِيَنَّهُمْ مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ [ الأعراف 17] پھر ان کے آگے ۔۔۔۔۔ ( غرض ہر طرف سے ) آؤنگا ۔ ولَهُ ما بَيْنَ أَيْدِينا وَما خَلْفَنا [ مریم 64] جو کچھ ہمارے آگے ہے اور جو پیچھے ۔۔۔ سب اسی کا ہے ۔ وَجَعَلْنا مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ سَدًّا وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا [يس 9] اور ہم نے ان کے آگے بھی دیوار بنادی ۔ اور ان کے پیچھے بھی ۔ مُصَدِّقاً لِما بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْراةِ [ المائدة 46] جو اپنے سے پہلے کی کتاب تورات کی تصدیق کرتے تھے ۔ أَأُنْزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِنْ بَيْنِنا [ ص 8] کیا ہم سب میں سے اسی نصیحت ۃ ( کی کتاب ) اتری ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَقالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَنْ نُؤْمِنَ بِهذَا الْقُرْآنِ وَلا بِالَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ [ سبأ 31] اور جو کافر ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم نہ تو اس قرآن کو مانیں گے اور نہ ان کتابوں ) کو جو اس سے پہلے کی ہیں ۔ میں سے انجیل اور دیگر کتب سماویہ مراد ہیں اور آیت کریمہ : ۔ فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَصْلِحُوا ذاتَ بَيْنِكُمْ [ الأنفال 1] خدا سے ڈرو اور آپس میں صلح رکھو ۔ کے معنی یہ ہیں کہ صلہ رحمی ، قرابت ، دوستی وغیرہ باہمی رشتوں کا لحاظ کرد جو باہم تم سب کے درمیان مشترک ہیں اور بین کے م، ابعد یا الف کا اضافہ کرکے حین کے معنی میں استعمال کرلینے ہیں - هدى- الهداية دلالة بلطف،- وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه :- الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل،- والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى- [ طه 50] .- الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء،- وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا - [ الأنبیاء 73] .- الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی،- وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن 11] - الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ- بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43]. - ( ھ د ی ) الھدایتہ - کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔- انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے - ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے - اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی - ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت - کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ - ( 3 ) سوم بمعنی توفیق - خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔- ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا - مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43] میں فرمایا ۔- بشر - واستبشر :- إذا وجد ما يبشّره من الفرح، قال تعالی: وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران 170] ، يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ [ آل عمران 171] ، وقال تعالی: وَجاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ [ الحجر 67] . ويقال للخبر السارّ : البِشارة والبُشْرَى، قال تعالی: هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس 64] ، وقال تعالی: لا بُشْرى يَوْمَئِذٍ لِلْمُجْرِمِينَ [ الفرقان 22] ، وَلَمَّا جاءَتْ رُسُلُنا إِبْراهِيمَ بِالْبُشْرى [هود 69] ، يا بُشْرى هذا غُلامٌ [يوسف 19] ، وَما جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرى [ الأنفال 10] .- ( ب ش ر ) البشر - التبشیر - کے معنی ہیں اس قسم کی خبر سنانا جسے سن کر چہرہ شدت فرحت سے نمٹما اٹھے ۔ مگر ان کے معافی میں قدر سے فرق پایا جاتا ہے ۔ تبیشتر میں کثرت کے معنی ملحوظ ہوتے ہیں ۔ اور بشرتہ ( مجرد ) عام ہے جو اچھی وبری دونوں قسم کی خبر پر بولا جاتا ہے ۔ اور البشرتہ احمدتہ کی طرح لازم ومتعدی آتا ہے جیسے : بشرتہ فابشر ( یعنی وہ خوش ہوا : اور آیت کریمہ : إِنَّ اللهَ يُبَشِّرُكِ ( سورة آل عمران 45) کہ خدا تم کو اپنی طرف سے بشارت دیتا ہے میں ایک قرآت نیز فرمایا : لا تَوْجَلْ إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ عَلِيمٍ قالَ : أَبَشَّرْتُمُونِي عَلى أَنْ مَسَّنِيَ الْكِبَرُ فَبِمَ تُبَشِّرُونَ قالُوا : بَشَّرْناكَ بِالْحَقِّ [ الحجر 53- 54] مہمانوں نے کہا ڈریے نہیں ہم آپ کو ایک دانشمند بیٹے کی خوشخبری دیتے ہیں وہ بولے کہ جب بڑھاپے نے آپکڑا تو تم خوشخبری دینے لگے اب کا ہے کی خوشخبری دیتے ہو انہوں نے کہا کہ ہم آپ کو سچی خوشخبری دیتے ہیں ۔ فَبَشِّرْ عِبَادِ ( سورة الزمر 17) تو میرے بندوں کو بشارت سنادو ۔ فَبَشِّرْهُ بِمَغْفِرَةٍ وَأَجْرٍ كَرِيمٍ ( سورة يس 11) سو اس کو مغفرت کے بشارت سنادو استبشر کے معنی خوش ہونے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران 170] اور جو لوگ ان کے پیچھے رہ گئے ( اور شہید ہوکر ) ان میں شامل ہیں ہوسکے ان کی نسبت خوشیاں منا رہے ہیں ۔ يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ [ آل عمران 171] اور خدا کے انعامات اور فضل سے خوش ہورہے ہیں ۔ وَجاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ [ الحجر 67] اور اہل شہر ( لوط کے پاس ) خوش خوش ( دورے ) آئے ۔ اور خوش کن خبر کو بشارۃ اور بشرٰی کہا جاتا چناچہ فرمایا : هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس 64] ان کے لئے دنیا کی زندگی میں بھی بشارت ہے اور آخرت میں بھی ۔- لا بُشْرى يَوْمَئِذٍ لِلْمُجْرِمِينَ [ الفرقان 22] اس دن گنہگاروں کے لئے کوئی خوشی کی بات نہیں ہوگی ۔- وَلَمَّا جاءَتْ رُسُلُنا إِبْراهِيمَ بِالْبُشْرى [هود 69] اور جب ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس خوشخبری سے کرآئے ۔ يا بُشْرى هذا غُلامٌ [يوسف 19] زہے قسمت یہ تو حسین ) لڑکا ہے ۔ وَما جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرى [ الأنفال 10] اس مدد کو تو خدا نے تمہارے لئے رذریعہ بشارت ) بنایا - أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٩٧) ان یہودیوں میں سے عبداللہ بن صوریا کہتا تھا کہ جبریل (علیہ السلام) ہمارے دشمن ہیں، اس پر یہ آیت اتری یعنی اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمادیجئے جو اس بات کا قائل ہو وہ اللہ تعالیٰ کا دشمن ہے، کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حکم سے جبریل امین (علیہ السلام) کے ذریعہ سے قرآن کریم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اتارا ہے اور یہ قرآن حکیم توحید کے متعلق پہلی کتب کی تصدیق کرنے والا اور گراہیوں سے سیدھی راہ پر لانے والا اور جنت کی خوشخبری سنانے والا ہے۔- شان نزول : (آیت) ” قل من کان عدولجبریل “۔ (الخ)- حضرت امام بخاری (رح) نے حضرت انس (رض) سے روایت کی ہے کہ حضرت عبداللہ بن سلام (رض) نے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تشریف آوری کی خبر سنی، حضرت عبداللہ بن سلام (رض) ایک زمین سے پھل چن رہے تھے وہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کرنے لگے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تین باتیں پوچھنا چاہتا ہوں، جن کا علم نبی کے علاوہ اور کسی کو نہیں ہوسکتا۔- ١۔ علامات قیامت کیا ہیں۔- ٢۔ اہل جنت کا سب سے پہلا کھانا کیا ہوگا۔- ٣۔ لڑکا اپنے باپ یا اپنی ماں کے مشابہ کیوں ہوتا ہے۔- آنحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ان تینوں باتوں کے جواب کے متعلق ابھی جبریل امین نے مجھے آگاہ کیا ہے، عبداللہ بن سلام کہنے لگے جبریل (علیہ السلام) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہاں جبریل (علیہ السلام) نے، عبداللہ بن سلام کہنے لگے فرشتوں میں سے جبریل تو یہودیوں کے دشمن ہیں، اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔ (آیت) ” قل من کان عدوالجبریل “۔ (الخ)- شیخ الاسلام حافظ ابن حجر عسقلانی (رح) فتح الباری میں لکھتے ہیں کہ حدیث کے سیاق وسباق سے یہ بات معلوم ہورہی ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہودیوں کی تردید کے لیے اس آیت کی تلاوت فرمائی اور اس تلاوت سے عبداللہ بن سلام (رض) کے واقعہ کے علاوہ اور دوسرا واقعہ موجود ہے، چناچہ امام احمد (رح) اور ترمذی (رح) اور نسائی (رح) نے بکر بن شہاب (رح) اور سعید بن جبیر (رض) کے حوالہ سے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ یہودیوں کی ایک جماعت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آئی اور کہنے لگے اے ابوالقاسم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم آپ سے پانچ باتوں کے متعلق پوچھنا چاہتے ہیں اگر وہ پانچوں باتیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بتلا دیں تو ہم یہ پہچان لیں گے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سچے نبی ہیں۔ اور بقیہ حدیث کو بیان کیا جس میں یہ بھی ہے کہ یہودیوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کی بنی اسرائیل نے اپنے اور کن چیزوں کو حرام کیا تھا اور علامات نبوت کون سی ہیں اور گرج اور اس کی آواز کی حقیقت کیا ہے اور بچہ مذکر ومونث کیوں ہوتا ہے اور آسمان سے وحی کون لے کر آتا ہے، حتی کہ یہودی کہنے لگے ہمیں بتلائیے کہ آپ کے پاس وحی کون لے کر آتا ہے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جبریل (علیہ السلام) امین، یہودی کہنے لگے یہ تو جنگ و قتال اور عذاب الہی کے احکام لے کر آتے ہیں ہمارے دشمن ہیں، اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میکائل (علیہ السلام) کا نام لیتے جو رحمت، بارش، سبزہ وشادابی کو ساتھ لے کر آتے ہیں، تو یہ زیادہ اچھا ہوتا۔ تب یہ آیت نازل ہوئی۔- اسحاق بن راہویہ (رح) نے اپنی مسند میں اور ابن جریر (رح) نے شعبی (رح) سے روایت کیا ہے کہ حضرت عمر فاروق (رض) یہودیوں کے ہاں آتے اور ان سے توریت سن کر اس بات سے خوش ہوتے کہ توریت سے مضامین قرآن کریم کی کس طرح تصدیق ہوتی ہے، حضرت عمر (رض) کہتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان یہودیوں کے پاس سے گزرے۔- حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے یہودیوں سے کہا کہ میں تم لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا تم لوگ یہ بات جانتے ہو کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں، ان کا ایک عالم کہنے لگا کہ بےہم یہ بات جانتے ہیں کہ آپ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں۔ میں نے کہا تو پھر کیوں تم آپ کی اتباع نہیں کرتے، یہودی کہنے لگے کہ ہم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا تھا کہ آپ کے پاس وحی کون لے کر آتا ہے، آپ نے فرمایا جبریل ، (علیہ السلام) وہ ہمارے دشمن ہیں، جو شدت، عذاب، لڑائی اور تباہی و بربادی کے احکامات لے کر آتے ہیں۔ میں نے کہا تو فرشتوں میں سے کس سے تمہارے تعلقات محبت کے ہیں وہ بولے میکائیل (علیہ السلام) سے جو باران رحمت لے کر آتے ہیں۔ میں نے کہا جبرائیل (علیہ السلام) و میکائیل (علیہ السلام) کا ان کے پروردگار کے یہاں کیا مقام ہے ؟ کہنے لگے کہ ایک ان میں سے اللہ تعالیٰ کے دائیں جانب ہے اور دوسرا بائیں جانب ہے، میں نے کہا جبرائیل امین (علیہ السلام) کے لئے یہ چیز جائز نہیں کہ وہ میکائیل سے دشمنی رکھیں اور میکائل (علیہ السلام) کے حق میں اس چیز کا تصور محال ہے کہ وہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کے دشمن سے دوستی رکھیں اور جبرائیل (علیہ السلام) و میکائیل (علیہ السلام) اور ان کے پروردگار کی نظر میں وہ حضرات پسندیدہ ہیں جو ان سے محبت کریں اور وہ لوگ مبغوض ہیں جو ان سے دشمنی اور بغض رکھیں۔- حضرت عمر فاروق (رض) فرماتے ہیں کہ اس کے بعد حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاں حاضر ہوا تاکہ اس واقعہ سے آپ کو مطلع کر دوں جب میں آپ کے پاس پہنچا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا میں تجھے ان آیتوں کے بارے میں بتاؤں جو ابھی مجھ پر اتری ہیں، میں نے عرض کیا ضرور یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو آپ نے (آیت) ” من کان عدوا لجبریل “۔ سے کافرین “۔ تک ان آیتوں کی تلاوت فرمائی، میں نے عرض کیا اللہ کی قسم یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں یہودیوں کے پاس سے اسی ارادہ سے آیا تھا تاکہ ان کے اور میرے درمیان جو گفتگو ہوئی وہ آپ کو بتا دوں مگر میں آکر یہ منظر دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے میرے آنے سے پہلے ہی آپ کو باخبر کردیا۔- اس حدیث کی امام شعبی (رح) تک سند صحیح ہے مگر امام شعبی (رح) نے حضرت عمر فاروق (رض) کا زمانہ نہیں پایا اور اسی روایت کو ابن جریر (رح) نے سدی (رح) نے کے حوالہ سے حضرت عمر (رض) سے اور ایسے ہی قتادۃ (رح) کے واسطہ سے حضرت عمر فاروق (رض) سے روایت کیا ہے مگر ان دونوں کی بھی سندیں منقطع ہیں اور ابن ابی حاتم (رح) نے دوسرے طریق سے عبدالرحمن بن ابی لیلی (رض) سے روایت کیا ہے کہ یہودی حضرت عمر فاروق (رض) سے ملے اور کہنے لگے کہ جبریل (علیہ السلام) جن کا تمہارے نبی ذکر کرتے ہیں وہ ہمارے دشمن ہیں، حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ جو شخص اللہ تعالیٰ تعالیٰ اور اس کے فرشتوں اور اس کے رسولوں اور جبرائیل (علیہ السلام) اور میکائیل (علیہ السلام) کا دشمن ہو تو اللہ تعالیٰ اس کا دشمن ہے، چناچہ حضرت عمر فاروق (رض) کی زبان سے جو کلمات ادا ہوئے تھے اسی کے موافق اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ اتاری، ان سندوں بعض کو بعض سندوں کے ساتھ تقویت حاصل ہورہی ہے اور ابن جریر (رض) نے اس بات پر اجماع نقل کیا ہے کہ اس آیت کا یہی شان نزول ہے۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

جیسا کہ قبل ازیں عرض کیا جا چکا ہے ‘ ٌ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت یہود کے لیے بہت بڑی آزمائش ثابت ہوئی۔ ان کا خیال تھا کہ آخری نبوت کا وقت قریب ہے اور یہ نبی بھی حسب سابق بنی اسرائیل میں سے مبعوث ہوگا۔ لیکن نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت بنی اسماعیل میں سے ہوگئی۔ یہود جس احساس برتری کا شکار تھے اس کی رو سے وہ بنی اسماعیل کو حقیر سمجھتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ اُمّی لوگ ہیں ‘ اَن پڑھ ہیں ‘ ان کے پاس نہ کوئی کتاب ہے نہ شریعت ہے اور نہ کوئی قانون اور ضابطہ ہے ‘ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے ان میں سے ایک شخص کو کیسے چن لیا ؟ ان کا خیال تھا کہ یہ سب جبرائیل کی شرارت ہے کہ وہ وحی لے کر محمد عربی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس چلا گیا۔ لہٰذا وہ حضرت جبرائیل کو اپنا دشمن تصور کرتے تھے اور انہیں گالیاں دیتے تھے۔ - یہ بات شاید آپ کو بڑی عجیب لگے کہ اہل تشیع میں سے فرقہ غرابیہ کا عقیدہ بھی کچھ اسی طرح کا تھا۔ حضرتّ مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی (رح) نے اپنے مکاتیب میں اس فرقے کے بارے میں لکھا ہے کہ ان کا عقیدہ یہ تھا کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت علی (رض) دونوں کی ارواح ایک دوسرے کے بالکل ایسے مشابہ تھیں جیسے ایک غرابّ (کو ا) دوسرے غراب کے مشابہ ہوتا ہے۔ چناچہ حضرت جبرائیل ( علیہ السلام) دھوکہ کھا گئے۔ اللہ نے تو وحی بھیجی تھی حضرت علی (رض) کے پاس ‘ لیکن وہ لے گئے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس۔ یہود کے ہاں یہ عقیدہ موجود تھا کہ اللہ نے تو جبرائیل (علیہ السلام) کو بنی اسرائیل میں سے کسی کے پاس بھیجا تھا ‘ لیکن وہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس چلے گئے ‘ اور یہی مفروضہ ان کی حضرت جبرائیل ( علیہ السلام) سے دشمنی کی بنیاد تھا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا : (لَیَاْتِیَنَّ عَلٰی اُمَّتِیْ مَا اَتٰی عَلٰی بَنِیْ اِسْرَاءِ یْلَ حَذْوَ النَّعْلِ بالنَّعْلِ ) (١٢) میری امت پر بھی وہ تمام احوال لازماً وارد ہو کر رہیں گے جو بنی اسرائیل پر وارد ہوئے تھے ‘ جیسے ایک جوتا دوسرے جوتے کے مشابہ ہوتا ہے۔ چناچہ امت مسلمہ میں سے کسی فرقے کا اس طرح کے عقائد اپنا لینا کچھ بعید نہیں ہے۔ اس سے اس حدیث کی حقیقت منکشف ہوتی ہے۔- آیت ٩٧ (قُلْ مَنْ کَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِیْلَ ) (فَاِنَّہٗ نَزَّلَہٗ عَلٰی قَلْبِکَ بِاِذْنِ اللّٰہِ ) - اس معاملے میں جبرائیل ( علیہ السلام) کو تو کچھ اختیار حاصل نہیں۔ فرشتے جو کچھ کرتے ہیں اللہ کے حکم سے کرتے ہیں ‘ اپنے اختیار سے کچھ نہیں کرتے۔- (مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ ) (وَہُدًی وَّبُشْرٰی لِلْمُؤْمِنِیْنَ ) ۔ - اس کے بعد اب فرمایا جا رہا ہے کہ اللہ ‘ اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اس کے ملائکہ سب ایک حیاتیاتی وحدت ( ) کی حیثیت رکھتے ہیں ‘ یہ ایک جماعت ہیں ‘ ان میں کوئی اختلاف یا افتراق نہیں ہوسکتا۔ اگر کوئی جبرائیل ( علیہ السلام) کا دشمن ہے تو وہ اللہ کا دشمن ہے ‘ اور اگر کوئی اللہ کے سچے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دشمن ہے تو وہ اللہ کا بھی دشمن ہے اور جبرائیل ( علیہ السلام) کا بھی دشمن ہے

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورہ الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :100 یہُودی صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آپ پر ایمان لانے والوں ہی کو بُرا نہ کہتے تھے ، بلکہ خدا کے برگزیدہ فرشتے جبریل کو بھی گالیاں دیتے تھے اور کہتے تھے کہ وہ ہمارا دشمن ہے ۔ وہ رحمت کا نہیں ، عذاب کا فرشتہ ہے ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :101 یعنی اس بنا پر تمہاری گالیاں جبریل پر نہیں بلکہ خداوندِ برتر کی ذات پر پڑتی ہیں ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :102 مطلب یہ ہے کہ یہ گالیاں تم اسی لیے تو دیتے ہو کہ جبریل یہ قرآن لے کر آیا ہے اور حال یہ ہے کہ یہ قرآن سراسر تورات کی تائید میں ہے ۔ لہٰذا تمہاری گالیوں میں تورات بھی حصّے دار ہوئی ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :103 اِس میں لطیف اشارہ ہے اس مضمون کی طرف کہ نادانو ، اصل میں تمہاری ساری ناراضی ہدایت اور راہِ راست کے خلاف ہے ۔ تم لڑ رہے ہو اس صحیح رہنمائی کے خلاف ، جسے اگر سیدھی طرح مان لو ، تو تمہارے ہی لیے کامیابی کی بشارت ہو ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

65:: بعض یہودیوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا تھا کہ آپ کہ پاس جبرئیل (علیہ السلام) وحی لاتے ہیں وہ چونکہ ہمارے لئے بڑے سخت احکام لایاکرتے تھے اس لئے ہم انہیں اپنا دشمن سمجھتے ہیں، اگر کوئی اور فرشتہ وحی لارہا ہو تو ہم کچھ غور کرسکتے تھے، یہ آیت اس کے جواب میں نازل ہوئی ہے اور جواب کا حاصل یہ ہے کہ جبرئیل (علیہ السلام) تو محض پیغام پہنچانے والے ہیں، جو کچھ لاتے ہیں اللہ کے حکم سے لاتے ہیں، لہذا نہ ان سے دشمنی کی کوئی معقول وجہ ہے اور نہ اس کی و جہ سے اللہ کے کلام کو رد کرنے کا کوئی معنی ہے۔