98۔ 1 یہود کہتے تھے کہ میکائیل ہمارا دوست ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : یہ سب میرے مقبول بندے ہیں جو ان کا یا ان میں سے کسی ایک کا بھی دشمن ہے، وہ اللہ کا بھی دشمن ہے حدیث میں ہے، جس نے میرے کسی دوست سے دشمنی رکھی، اس نے میرے ساتھ اعلان جنگ کیا، گویا کہ اللہ کے کسی ایک ولی سے دشمنی سارے اولیاء اللہ سے، بلکہ اللہ تعالیٰ سے بھی دشمنی ہے۔ اس سے واضح ہوا کہ اولیاء اللہ کی محبت اور ان کی تعظیم نہایت ضروری اور ان سے بغض وعناد اتنا بڑا جرم ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے خلاف اعلان جنگ فرماتا ہے۔ اولیاء اللہ کون ہیں ؟ اس کے لئے ملاحظہ ہو (اَلَآ اِنَّ اَوْلِيَاۗءَ اللّٰهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ 62 ښ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَكَانُوْا يَتَّقُوْنَ 63ۭ ) 010:062 ، 063 لیکن محبت اور تعظیم کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ان کے مرنے کے بعد ان کی نام کی نذر ونیاز اور قبروں کو غسل دیا جائے اور ان پر چادریں چڑھائی جائیں اور انہیں حاجت روا، مشکل کشا، نافع وضار سمجھا جائے، ان کی قبروں پر دست بستہ قیام اور ان کی چوکھٹوں پر سجدہ کیا جائے وغیرہ جیسا کہ بدقسمتی سے اولیاء اللہ کی محبت کے نام پر یہ کاروبار لات ومنات فروغ پذیر ہے حالانکہ یہ محبت نہیں ہے ان کی عبادت ہے جو شرک اور ظلم عظیم ہے اللہ تعالیٰ اس فتنہ عبادت قبور سے محفوظ رکھے۔
[١١٦] جبریل دشمنی کا جواب :۔ وجہ یہ ہے کہ فرشتے تو اللہ کے حکم کے بغیر کوئی کام کر ہی نہیں سکتے اور جو فرشتوں کا دشمن ہے وہ دراصل اللہ کا دشمن اور کافر ہے، اور اللہ خود فرشتوں سے دشمنی رکھنے والے کافروں کا دشمن ہے۔
خلاصہ تفسیر :- (بعض یہود کو جو وہ عہد یاد دلایا گیا جو ان سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے کے باب میں توراۃ میں لیا گیا تھا تو انہوں نے خود عہد لینے ہی سے صاف انکار کردیا اس کے متعلق ارشاد ہوتا ہے کہ) کیا (اس عہد لینے سے ان کو انکار ہے) اور ان کی تو یہ حالت ہے کہ انہوں نے اپنے مسلم عہدوں کو بھی کبھی پورا نہیں کیا بلکہ جب کبھی بھی ان لوگوں نے (دین کے متعلق) کوئی عہد کیا ہوگا (ضرور) اس کو ان میں سے کسی نہ کسی فریق نے نظر انداز کردیا ہوگا بلکہ ان (تعمیل عہد نہ کرنے والوں) میں زیادہ تو ایسے ہی نکلیں گے جو (سرے سے اس عہد کا) یقین ہی نہیں رکھتے (سو تعمیل نہ کرنا تو فسق تھا ہی یہ یقین نہ کرنا اس سے بڑھ کر کفر ہے) - فائدہ : اور ایک جماعت کی تخصیص اس لئے کی گئی کہ بعض ان میں ان عہود کو پورا بھی کرتے تھے حتیٰ کہ اخیر میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بھی ایمان لے آئے،
مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِّلہِ وَمَلٰۗىِٕكَتِہٖ وَرُسُلِہٖ وَجِبْرِيْلَ وَمِيْكٰىلَ فَاِنَّ اللہَ عَدُوٌّ لِّلْكٰفِرِيْنَ ٩٨- عدو - العَدُوُّ : التّجاوز ومنافاة الالتئام، فتارة يعتبر بالقلب، فيقال له : العَدَاوَةُ والمُعَادَاةُ ، وتارة بالمشي، فيقال له : العَدْوُ ، وتارة في الإخلال بالعدالة في المعاملة، فيقال له : العُدْوَانُ والعَدْوُ. قال تعالی: فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام 108] ، وتارة بأجزاء المقرّ ، فيقال له : العَدْوَاءُ. يقال : مکان ذو عَدْوَاءَ أي : غير متلائم الأجزاء . فمن المُعَادَاةِ يقال :- رجلٌ عَدُوٌّ ، وقومٌ عَدُوٌّ. قال تعالی: بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه 123]- ( ع د و ) العدو - کے معنی حد سے بڑھنے اور باہم ہم آہنگی نہ ہونا ہیں اگر اس کا تعلق دل کی کیفیت سے ہو تو یہ عداوۃ اور معاداۃ کہلاتی ہے اور اگر رفتار سے ہو تو اسے عدو کہا جاتا ہے اور اگر عدل و انصاف میں خلل اندازی کی صورت میں ہو تو اسے عدوان اور عدو کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام 108] کہ یہ بھی کہیں خدا کو بےادبی سے بےسمجھے برا نہ کہہ بیٹھیں ۔ اور اگر اس کا تعلق کسی جگہ کے اجزاء کے ساتھ ہو تو اسے عدواء کہہ دیتے ہیں جیسے مکان ذوعدوء ناہموار مقام چناچہ معاداۃ سے اشتقاق کے ساتھ کہا جاتا ہے رجل عدو وقوم عدو اور یہ واحد جمع دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه 123] اب سے تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔ - ملك ( فرشته)- وأما المَلَكُ فالنحویون جعلوه من لفظ الملائكة، وجعل المیم فيه زائدة . وقال بعض المحقّقين : هو من المِلك، قال : والمتولّي من الملائكة شيئا من السّياسات يقال له : ملک بالفتح، ومن البشر يقال له : ملک بالکسر، فكلّ مَلَكٍ ملائكة ولیس کلّ ملائكة ملکاقال : وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة 17] ، عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة 102] - ( م ل ک ) الملک - الملک علمائے نحو اس لفظ کو ملا ئکۃ سے ماخوذ مانتے ہیں اور اس کی میم کو زائد بناتے ہیں لیکن بعض محقیقن نے اسے ملک سے مشتق مانا ہے اور کہا ہے کہ جو فرشتہ کائنات کا انتظام کرتا ہے اسے فتحہ لام کے ساتھ ملک کہا جاتا ہے اور انسان کو ملک ہیں معلوم ہوا کہ ملک تو ملا ئکۃ میں ہے لیکن کل ملا ئکۃ ملک نہیں ہو بلکہ ملک کا لفظ فرشتوں پر بولا جاتا ہے کی طرف کہ آیات ۔ وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة 17] اور فرشتے اس کے کناروں پر اتر آئیں گے ۔ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة 102] اور ان باتوں کے بھی پیچھے لگ گئے جو دو فرشتوں پر اتری تھیں ۔- كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔
(٩٨) جو آدمی بھی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں اور جبریل (علیہ السلام) و میکائل (علیہ السلام) کا دشمن ہو تو ایسے یہودیوں کا اللہ تعالیٰ ، اس کے رسول اور جبرائیل (علیہ السلام) اور میکائیل (علیہ السلام) اور تمام ایمان والے بھی دشمن ہیں