108۔ 1 یعنی جس دن اونچے نیچے پہاڑ، وادیاں، فلک بوس عمارتیں، سب صاف ہوجائیں گی، سمندر اور دریا خشک ہوجائیں گے، اور ساری زمین صاف چٹیل میدان ہو جائی گی۔ پھر ایک آواز آئیگی، جس کے پیچھے سارے لوگ لگ جائیں گے یعنی جس طرف وہ بلائے گا، جائیں گے۔ 108۔ 2 یعنی اس بلانے والے سے ادھر ادھر نہیں ہو نگے۔ 108۔ 3 یعنی مکمل سناٹا ہوگا سوائے قدموں کی آہٹ اور کھسر پھسر کے کچھ سنائی نہیں دے گا۔
[٧٦] یہ داعی اللہ کا مقرر کردہ فرشتہ اسرافیل ہوگا۔ اس دنیا میں تو ان لوگوں نے اللہ کے داعی کی بات کو سننا بھی گوارا نہ کیا بلکہ اس کی مخالفت ہی کرتے رہے مگر اس دن اللہ کے داعی کی آواز پر سراپا عمل بن جائیں گے اور جو کچھ وہ کہے گا ٹھیک اسی طرح کرتے جائیں گے۔ وہ کہے گا کہ چلو میدان حشر کی طرف تو سب ادھر دوڑ پڑیں گے۔ اور اس داعی کی آواز اور حکم کو پوری طرح سمجھ بھی رہے ہوں گے۔- ] ـ٧٧] اس دن سب لوگ اللہ تعالیٰ کی یا اس فرشتہ کی آواز اور حکم کو ہمہ تن گوش بن کر سن رہے ہوں گے، کسی کو اونچی آواز سے کسی دوسرے سے کوئی بات پوچھنے کی بھی ہمت نہ رہے گی۔ اس دن یا تو ان کے قدموں کی چاپ کی آواز سنائی دے سکے گی یا اس کھسر پسر اور کانا پوسی کی آواز جو وہ اس دن کی ہولناکیوں سے بچنے کے لئے آپس میں کریں گے۔
ۭيَوْمَىِٕذٍ يَّتَّبِعُوْنَ الدَّاعِيَ ۔۔ : یعنی قیامت کے دن سب لوگ حشر کے لیے قبروں سے نکل کر پکارنے والے کی آواز کی طرف نہایت تیزی کے ساتھ سر اٹھائے ہوئے دوڑتے جائیں گے، جیسا کہ فرمایا : ( مُهْطِعِيْنَ مُقْنِعِيْ رُءُوْسِهِمْ ) [ إبراہیم : ٤٣ ] ” اس حال میں کہ تیز دوڑنے والے، اپنے سروں کو اوپر اٹھانے والے ہوں گے۔ “ اس کی طرف جانے میں کوئی کجی نہ ہوگی، یعنی تیر کی طرح سیدھے جائیں گے اور ذرہ بھر ادھر ادھر نہ ہوں گے۔ اس حالت کا نقشہ سورة ابراہیم (٤٢، ٤٣) ، سورة قمر (٦ تا ٨) اور سورة قٓ (٤١، ٤٢) میں دیکھیے۔ ” لَا عِوَجَ لَهٗ “ کا دوسرا معنی یہ ہے کہ پکارنے والے کی پکار میں کوئی کجی نہ ہوگی کہ کسی تک پہنچے اور کسی تک نہ پہنچے، ہر شخص تک سیدھی پہنچے گی۔ ۚ وَخَشَعَتِ الْاَصْوَاتُ ۔۔ : یعنی اتنی بیشمار مخلوق کے دوڑنے اور اکٹھے ہونے پر کوئی شور و غل نہ ہوگا۔ سب آوازیں رحمٰن کے لیے پست ہوجائیں گی۔ ” رحمان “ کے لیے پست ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس بیحد رحم والے رب کی رحمت اور اس کے کرم کی طلب میں سب عاجزی سے خاموش ہوں گے۔ ” هَمْسًا “ ہلکی سے ہلکی آواز یا قدموں کی ہلکی سے ہلکی آہٹ، کھسکھساہٹ۔
يَوْمَىِٕذٍ يَّتَّبِعُوْنَ الدَّاعِيَ لَا عِوَجَ لَہٗ ٠ۚ وَخَشَعَتِ الْاَصْوَاتُ لِلرَّحْمٰنِ فَلَا تَسْمَعُ اِلَّا ہَمْسًا ١٠٨- تبع - يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلك - قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] ، - ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ - کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے - دعا - الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ، - ( د ع و ) الدعاء ( ن )- کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ - خشع - الخُشُوع : الضّراعة، وأكثر ما يستعمل الخشوع فيما يوجد علی الجوارح . والضّراعة أكثر ما تستعمل فيما يوجد في القلب ولذلک قيل فيما روي : روي : «إذا ضرع القلب خَشِعَتِ الجوارح» «2» . قال تعالی: وَيَزِيدُهُمْ خُشُوعاً [ الإسراء 109] ، وقال : الَّذِينَ هُمْ فِي صَلاتِهِمْ خاشِعُونَ [ المؤمنون 2] ، وَكانُوا لَنا خاشِعِينَ [ الأنبیاء 90] ، وَخَشَعَتِ الْأَصْواتُ [ طه 108] ، خاشِعَةً أَبْصارُهُمْ [ القلم 43] ، أَبْصارُها خاشِعَةٌ [ النازعات 9] ، كناية عنها وتنبيها علی تزعزعها کقوله : إِذا رُجَّتِ الْأَرْضُ رَجًّا [ الواقعة 4] ، وإِذا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزالَها [ الزلزلة 1] ، يَوْمَ تَمُورُ السَّماءُ مَوْراً وَتَسِيرُ الْجِبالُ سَيْراً [ الطور 9- 10] .- ( خ ش ع ) الخشوع - ۔ ( ان ) کے معنی ضواعۃ یعنی عاجزی کرنے اور جھک جانے کے ہیں ۔ مگر زیادہ تر خشوع کا لفظ جوارح اور ضراعت کا لفظ قلب کی عاجزی پر بولا جاتا ہے ۔ اسی لئے ایک روایت میں ہے :۔ (112) اذا ضرعت القلب خشعت الجوارح جب دل میں فروتنی ہو تو اسی کا اثر جوارح پر ظاہر ہوجاتا ہے قرآن میں ہے : وَيَزِيدُهُمْ خُشُوعاً [ الإسراء 109] اور اس سے ان کو اور زیادہ عاجزی پید اہوتی ہے ۔ الَّذِينَ هُمْ فِي صَلاتِهِمْ خاشِعُونَ [ المؤمنون 2] جو نماز میں عجز و نیاز کرتے ہیں ۔ وَكانُوا لَنا خاشِعِينَ [ الأنبیاء 90] اور ہمارے آگے عاجزی کیا کرتے تھے ۔ وَخَشَعَتِ الْأَصْواتُ [ طه 108] آوازیں پست ہوجائیں گے ۔ ان کی آنکھیں جھکی ہوئی ہوں گی ۔ أَبْصارُها خاشِعَةٌ [ النازعات 9] یہ ان کی نظروں کے مضطرب ہونے سے کنایہ ہے ۔ جیسا کہ زمین وآسمان کے متعلق بطور کنایہ کے فرمایا ۔ إِذا رُجَّتِ الْأَرْضُ رَجًّا [ الواقعة 4] جب زمین بھونچال سے لرزنے لگے ۔ وإِذا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزالَها [ الزلزلة 1] جب زمین بھونچال سے ہلا دی جائے گی ۔ يَوْمَ تَمُورُ السَّماءُ مَوْراً وَتَسِيرُ الْجِبالُ سَيْراً [ الطور 9- 10] جس دن آسمان لرزنے لگے کپکپا کر۔ اور پہاڑ اڑانے لگیں ( اون ہوکر )- صوت - الصَّوْتُ : هو الهواء المنضغط عن قرع جسمین، وذلک ضربان : صَوْتٌ مجرّدٌ عن تنفّس بشیء کالصَّوْتِ الممتدّ ، وتنفّس بِصَوْتٍ ما .- والمتنفّس ضربان - : غير اختیاريّ : كما يكون من الجمادات ومن الحیوانات، واختیاريّ : كما يكون من الإنسان، وذلک ضربان : ضرب بالید کصَوْتِ العود وما يجري مجراه، وضرب بالفم .- والذي بالفم ضربان : نطق وغیر نطق، وغیر النّطق کصَوْتِ النّاي، والنّطق منه إما مفرد من الکلام، وإمّا مركّب، كأحد الأنواع من الکلام . قال تعالی: وَخَشَعَتِ الْأَصْواتُ لِلرَّحْمنِ فَلا تَسْمَعُ إِلَّا هَمْساً [ طه 108] ، وقال : إِنَّ أَنْكَرَ الْأَصْواتِ لَصَوْتُ الْحَمِيرِ [ لقمان 19] ، لا تَرْفَعُوا أَصْواتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِ [ الحجرات 2] ، و تخصیص الصَّوْتِ بالنّهي لکونه أعمّ من النّطق والکلام، ويجوز أنه خصّه لأنّ المکروه رفع الصَّوْتِ فوقه، لا رفع الکلام، ورجلٌ صَيِّتٌ: شدید الصَّوْتِ ، وصَائِتٌ: صائح، والصِّيتُ خُصَّ بالذّكر الحسن، وإن کان في الأصل انتشار الصَّوْتِ.- والإِنْصَاتُ :- هو الاستماع إليه مع ترک الکلام . قال تعالی: وَإِذا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا [ الأعراف 204] ، وقال : يقال للإجابة إِنْصَاتٌ ، ولیس ذلک بشیء، فإنّ الإجابة تکون بعد الإِنْصَاتِ ، وإن استعمل فيه فذلک حثّ علی الاستماع لتمکّن الإجابة .- ( ص و ت ) الصوات - ( آواز ) اس ہوا کو کہتے ہیں جو وہ جسموں کے ٹکرانے سے منضغظ یعنی دب جائے اس کی دو قسمیں ہیں ( 1 ) وہ صورت جو ہر قسم کے تنفس سے خالی ہوتا ہے جیسے صورت جو ہر قسم کے تنفس سے خالی ہوتا ہے جیسے صورت ممتد ( 2 ) وہ صورت جو تنفس کے ساتھ ملا ہوتا ہے پھر صورت متنفس دو قسم پر ہے ایک غیر اختیاری جیسا کہ جمادات حیوانات سے سرز د ہوتا ہے ۔ - دو م اختیاری - جیسا کہ انسان سے صادر ہوتا ہے جو صورت انسان سے صادر ہوتا ہے پھر دو قسم پر ہے ایک وہ جو ہاتھ کی حرکت سے پیدا ہو جیسے عود ( ستار ) اور اس قسم کی دوسری چیزوں کی آواز ۔ دوم وہ جو منہ سے نکلتا ہے اس کی پھر دو قسمیں ہیں ایک وہ جو نطق کے ساتھ ہو دوم وہ جو بغیر نطق کے ہو جیسے نے یعنی بانسری کی آواز پھر نطق کی دو صورتیں ہیں ایک مفرد دوم مرکب جو کہ انواع کلام میں سے کسی ایک نوع پر مشتمل ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَخَشَعَتِ الْأَصْواتُ لِلرَّحْمنِ فَلا تَسْمَعُ إِلَّا هَمْساً [ طه 108] اور خدا کے سامنے آوازیں لسبت ہوجائیں گی تو تم آواز خفی کے سوا کوئی اور آواز نہ سنو گے إِنَّ أَنْكَرَ الْأَصْواتِ لَصَوْتُ الْحَمِيرِ [ لقمان 19] ان انکر الا ضوات لصوات الحمیر کیوں کہ سب آوازوں سے بری آواز گدھوں کی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَرْفَعُوا أَصْواتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِ [ الحجرات 2] اپنی آوازیں پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آواز سے بلند کرنے سے منع کیا گیا ہے کیونکہ یہ نطق و کلام سے عام ہے اور ہوسکتا ہے کہ ممانعت کا تعلق صوت یعنی محض آواز کے ساتھ ہو نہ کہ بلند آؤاز کے ساتھ کلام کرنے سے نیز اس کی وجہ تخصیص یہ بھی ہوسکتی ہے کہ آنحضرت کے آواز سے بلند آواز کرنے کی کراہت ظاہر کرنا مقصود ہو اور مطلق بلند آوازو الا آدمی رجل صائت چیخنے والا الصیت کے اصل منعی مشہور ہونے کے ہیں مگر استعمال میں اچھی شہرت کے ستاھ مخصوص ہوچکا ہے - الانصات - کے معنی چپ کر کے توجہ کے کسی کی بات سننا کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا [ الأعراف 204] اور جب قرآن پڑھا جائے تو توجہ سے سنا کرو اور خاموش رہا کرو بعض نے کیا ہے کہ انصات کے معنی جواب دینا بھی آتے ہیں لیکن یہ آیت نہیں ہے کیونکہ جواب تو انصات یعنی بات سننے کے بعد ہوتا ہے اور اگر اس معنی میں استعمال بھی ہو تو آیت میں اس امر پر تر غیب ہو کی کہ کان لگا کر سنوتا کہ اسے قبول کرنے پر قوت حاصل ہو ۔- همس - الْهَمْسُ : الصوت الخفيّ ، وهَمْسُ الأقدام : أخفی ما يكون من صوتها . قال تعالی: فَلا تَسْمَعُ إِلَّا هَمْساً [ طه 108] .- ( ھ م س )- الھمس کے معنی خفی آواز کے ہیں اور ھمس الااقدام کے معنی ہیں پاؤں کی ہلکی آہٹ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَلا تَسْمَعُ إِلَّا هَمْساً [ طه 108] تو تم خفی آواز کے سوا کوئی آواز نہ سنو گے ۔
(١٠٨) قیامت کے دن سب خدائی بلانے والے کے ساتھ تیزی سے ہو لیں گے اس کے سامنے کوئی دائیں اور بائیں جانب نہیں مڑے گا اور تمام آوازیں اللہ تعالیٰ کی ہیبت اور جلال کی وجہ سے دب جائیں گی، آپ ماسوا پاؤں کی آہٹ کے جیسا کہ اونٹوں کے پیروں کی آواز ہوتی ہے اور کچھ آواز نہ سنیں گے۔
آیت ١٠٨ (یَوْمَءِذٍ یَّتَّبِعُوْنَ الدَّاعِیَ لَا عِوَجَ لَہٗ ج) ” - تمام انسانوں کو اس دن جب اکٹھے ہونے کے لیے پکارا جائے گا تو ہر کوئی اس پکار پر لبیک کہے گا۔ کسی کے لیے ممکن نہیں ہوگا کہ اس حکم کو نظر انداز کر کے ادھر ادھر ہو سکے۔
سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :84 اصل میں لفظ ہَمْس استعمال ہوا ہے ، جو قدموں کی آہٹ ، چپکے چپکے بولنے کی آواز ، اونٹ کے چلنے کی آواز اور ایسی ہی ہلکی آوازوں کے لیے بولا جاتا ہے ۔ مراد یہ ہے کہ وہاں کوئی آواز ، بجز چلنے والوں کے قدموں کی آہٹ اور چپکے چپکے بات کرنے والوں کی کھسر پسر کے نہیں سنی جائے گی ۔ ایک پر ہیبت سماں بندھا ہوا ہو گا ۔