نوعیت شفاعت اور روز قیامت ۔ قیامت کے دن کسی کی مجال نہ ہو گی کہ دوسرے کے لئے شفاعت کرے ہاں جسے اللہ اجازت دے ۔ نہ آسمان کے فرشتے بے اجازت کسی کی سفارش کرسکیں نہ اور کوئی بزرگ بندہ ۔ سب کو خود خوف لگا ہوگا بے اجازت کسی کی سفارش نہ ہو گی ۔ فرشتے اور روح صف بستہ کھڑے ہوں گے ، بے اجازت الٰہی کوئی لب نہ کھول سکے گا ۔ خود سید الناس اکرم الناس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی عرش تلے اللہ کے سامنے سجدے میں گر پڑیں گے اللہ کی خوب حمد وثنا کریں گے دیر تک سجدے میں پڑے رہیں گے پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنا سر اٹھاؤ کہو تمہاری بات سنی جائے گی ، تمہاری شفاعت قبول کی جائے گی پھر حد مقرر ہو گی آپ ان کی شفاعت کرکے جنت میں لے جائیں گے پھر لوٹیں گے پھر یہی ہو گا چار مرتبہ یہی ہو گا ۔ صلوات اللہ وسلامہ علیہ وعلی سائر الانبیاء ۔ اور حدیث میں ہے کہ حکم ہو گا کہ جہنم سے ان لوگوں کو بھی نکال لاؤ جن کے دل میں مثقال ایمان ہو ۔ پس بہت سے لوگوں کو نکال لائیں گے پھر فرمائے گا جس کے دل میں آدھا مثقال ایمان ہو اسے بھی نکال لاؤ ۔ جس کے دل میں بقدر ایک ذرے کے ایمان ہو اسے بھی نکال لاؤ ۔ جس کے دل میں اس سے بھی کم ایمان ہو اسے بھی جہنم سے آزاد کرو ، الخ ۔ اس نے تمام مخلوق کا اپنے علم سے احاطہ کررکھا ہے مخلوق اس کے علم کا احاطہ کر نہیں سکتی ۔ جیسے فرمان ہے اس کے علم میں سے صرف وہی معلوم کرسکتے ہیں جو وہ چاہے ۔ تمام مخلوق کے چہرے عاجزی پستی ذلت ونرمی کے ساتھ اس کے سامنے پست ہیں اس لئے کہ وہ موت وفوت سے پاک ہے ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ ہی رہنے والا ہے وہ نہ سوئے نہ اونگھے ۔ خود اپنے آپ قائم رہنے والا اور ہر چیز کو اپنی تدبیر سے قائم رکھنے والا ہے سب کی دیکھ بھال حفاظت اور سنبھال وہی کرتا ہے ، وہ تمام کمالات رکھتا ہے اور ساری مخلوق اس کی محتاج ہے بغیر رب کی مرضی کے نہ پیدا ہو سکے نہ باقی رہ سکے ۔ جس نے یہاں ظلم کئے ہوں گے وہ وہاں برباد ہو گا ۔ کیونکہ ہر حق دار کو اللہ تعالیٰ اس دن اس کا حق دلوائے گا یہاں تک کہ بےسینگ کی بکری کو سینگ والی بکری سے بدلہ دلوایا جائے گا ۔ حدیث قدسی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ عزوجل فرمائے گا مجھے اپنی عزت وجلال کی قسم کسی ظالم کے ظلم کو میں اپنے سامنے سے نہ گزرنے دوں گا ۔ صحیح حدیث میں ہے لوگوظلم سے بچو ۔ ظلم قیامت کے دن اندھیرے بن کر آئے گا اور سب سے بڑھ کرنقصان یافتہ وہ ہے جو اللہ سے شرک کرتا ہوا مرا وہ تباہ وبرباد ہوا ، اس لئے کہ شرک ظلم عظیم ہے ۔ ظالموں کا بدلہ بیان فرما کر متقیوں کا ثواب بیان ہو رہا ہے کہ نہ ان کی برائیاں بڑھائی جائیں نہ ان کی نیکیاں گھٹائی جائیں ۔ گناہ کی زیادتی اور نیکی کی کمی سے وہ بےکھٹکے ہیں ۔
109۔ 1 یعنی اس دن کسی کی سفارش کسی کو فائدہ نہیں پہنچائے گی، سوائے ان کے جن کو رحمٰن شفاعت کرنے کی اجازت دے گا، اور وہ بھی ہر کسی کی سفارش نہیں کریں گے بلکہ صرف ان کی سفارش کریں گے جن کی بابت سفارش کو اللہ پسند فرمائے گا اور یہ کون لوگ ہونگے ؟ صرف اہل توحید، جن کے حق میں اللہ تعالیٰ سفارش کرنے کی اجازت دے گا۔ یہ مضمون قرآن میں متعدد جگہ بیان فرمایا گیا ہے۔ مثلا سورة نجم، 2 6 ، سورة انبیاء، 28۔ سورة سباء، 23۔ سورة النباء 38۔ اور آیت الکرسی۔
[٧٨] یعنی اس دن سفارش ہوگی ضرور مگر اس کے لئے تین شرائط ہوں گی۔ ایک تو وہی شخص سفارش کرسکے گا جس کو اللہ کی طرف سے سفارش کرنے کی اجازت مل جائے۔ دوسرے اسی شخص کے حق میں کرسکے گا جس کے حق میں سفارش اللہ کو منظور ہوگی۔ تیسرے وہ صرف ایسی بات کے لئے ہی سفارش کرسکے گا جسے اللہ سننا پسند فرمائے گا۔
يَوْمَىِٕذٍ لَّا تَنْفَعُ الشَّفَاعَةُ ۔۔ : اس آیت میں اس دن کی مزید ہیبت اور عظمت بیان ہوئی ہے کہ مشرکین کا کہنا کہ ہمارے معبود ہماری سفارش کرکے ہمیں بچا لیں گے، بالکل غلط ہے۔ وہاں کوئی سفارش نفع نہ دے گی۔ - اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَهُ الرَّحْمٰنُ ۔۔ : اس کے دو مطلب ہیں، دونوں مراد ہیں اور دونوں کی تائید آیات قرآن سے ہوتی ہے۔ یہ قرآن کا اعجاز ہے کہ نہایت مختصر لفظوں میں بہت زیادہ معانی ہوتے ہیں۔ ایک معنی یہ ہے کہ اس دن سفارش نفع نہ دے گی مگر اس کی جس کو رحمٰن سفارش کرنے کی اجازت دے اور جس کے بات کرنے کو پسند فرمائے۔ دوسرا یہ کہ اس دن سفارش نفع نہ دے گی مگر اس کو جس کے حق میں رحمٰن سفارش کی اجازت دے اور جس کے حق میں بات کرنے کو پسند فرمائے۔ دیکھیے سورة مریم (٨٧) ، سبا (٢٣) ، زخرف (٨٦) ، نجم (٢٦) اور نبا (٣٨) ۔
يَوْمَىِٕذٍ لَّا تَنْفَعُ الشَّفَاعَۃُ اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَہُ الرَّحْمٰنُ وَرَضِيَ لَہٗ قَوْلًا ١٠٩- نفع - النَّفْعُ : ما يُسْتَعَانُ به في الوُصُولِ إلى الخَيْرَاتِ ، وما يُتَوَصَّلُ به إلى الخَيْرِ فهو خَيْرٌ ، فَالنَّفْعُ خَيْرٌ ، وضِدُّهُ الضُّرُّ. قال تعالی: وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً [ الفرقان 3] - ( ن ف ع ) النفع - ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس سے خیرات تک رسائی کے لئے استعانت حاصل کی جائے یا وسیلہ بنایا جائے پس نفع خیر کا نام ہے اور اس کی ضد ضر ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً [ الفرقان 3] اور نہ اپنے نقصان اور نفع کا کچھ اختیار رکھتے ہیں ۔- شَّفَاعَةُ- : الانضمام إلى آخر ناصرا له وسائلا عنه، وأكثر ما يستعمل في انضمام من هو أعلی حرمة ومرتبة إلى من هو أدنی. ومنه : الشَّفَاعَةُ في القیامة . قال تعالی: لا يَمْلِكُونَ الشَّفاعَةَ إِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمنِ عَهْداً- [ مریم 87] ، لا تَنْفَعُ الشَّفاعَةُ إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمنُ [ طه 109] ، لا تُغْنِي شَفاعَتُهُمْ شَيْئاً [ النجم 26] ، وَلا يَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ارْتَضى[ الأنبیاء 28] ، فَما تَنْفَعُهُمْ شَفاعَةُ الشَّافِعِينَ [ المدثر 48] ، أي : لا يشفع لهم، وَلا يَمْلِكُ الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ الشَّفاعَةَ [ الزخرف 86] ، مِنْ حَمِيمٍ وَلا شَفِيعٍ [ غافر 18] ، مَنْ يَشْفَعْ شَفاعَةً حَسَنَةً- [ النساء 85] ، وَمَنْ يَشْفَعْ شَفاعَةً سَيِّئَةً [ النساء 85] ، أي : من انضمّ إلى غيره وعاونه، وصار شَفْعاً له، أو شَفِيعاً في فعل الخیر والشّرّ ، فعاونه وقوّاه، وشارکه في نفعه وضرّه .- وقیل : الشَّفَاعَةُ هاهنا : أن يشرع الإنسان للآخر طریق خير، أو طریق شرّ فيقتدي به، فصار كأنّه شفع له، وذلک کما قال عليه السلام : «من سنّ سنّة حسنة فله أجرها وأجر من عمل بها، ومن سنّ سنّة سيّئة فعليه وزرها ووزر من عمل بها» «1» أي : إثمها وإثم من عمل بها، وقوله : ما مِنْ شَفِيعٍ إِلَّا مِنْ بَعْدِ إِذْنِهِ [يونس 3] ، أي :- يدبّر الأمر وحده لا ثاني له في فصل الأمر إلّا أن يأذن للمدبّرات، والمقسّمات من الملائكة فيفعلون ما يفعلونه بعد إذنه . واسْتَشْفَعْتُ بفلان علی فلان فَتَشَفَّعَ لي، وشَفَّعَهُ : أجاب شفاعته، ومنه قوله عليه السلام : «القرآن شَافِعٌ مُشَفَّعٌ» «2» والشُّفْعَةُ هو : طلب مبیع في شركته بما بيع به ليضمّه إلى ملكه، وهو من الشّفع، وقال عليه السلام : «إذا وقعت الحدود فلا شُفْعَةَ»- الشفاعۃ - کے معنی دوسرے کے ساتھ اس کی مدد یا شفارش کرتے ہوئے مل جانے کے ہیں ۔ عام طور پر کسی بڑے با عزت آدمی کا اپنے سے کم تر کے ساتھ اسکی مدد کے لئے شامل ہوجانے پر بولا جاتا ہے ۔ اور قیامت کے روز شفاعت بھی اسی قبیل سے ہوگی ۔ قرآن میں ہے َلا يَمْلِكُونَ الشَّفاعَةَ إِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمنِ عَهْداً [ مریم 87]( تو لوگ) کسی کی شفارش کا اختیار رکھیں گے مگر جس نے خدا سے اقرار لیا ہو ۔ لا تَنْفَعُ الشَّفاعَةُ إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمنُ [ طه 109] اس روز کسی کی شفارش فائدہ نہ دے گی ۔ مگر اس شخص کی جسے خدا اجازت دے ۔ لا تُغْنِي شَفاعَتُهُمْ شَيْئاً [ النجم 26] جن کی شفارش کچھ بھی فائدہ نہیں دیتی ۔ وَلا يَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ارْتَضى[ الأنبیاء 28] وہ اس کے پاس کسی کی سفارش نہیں کرسکتے مگر اس شخص کی جس سے خدا خوش ہو ۔ فَما تَنْفَعُهُمْ شَفاعَةُ الشَّافِعِينَ [ المدثر 48]( اس حال میں ) سفارش کرنے والوں کی سفارش ان کے حق میں کچھ فائدہ نہ دے گی ۔ یعنی جن معبودوں کو یہ اللہ کے سو سفارش کیلئے پکارتے ہیں ۔ وہ ان کی سفارش نہیں کرسکیں گے ۔ مِنْ حَمِيمٍ وَلا شَفِيعٍ [ غافر 18] کوئی دوست نہیں ہوگا اور نہ کوئی سفارشی جس کی بات قبول کی جائے ۔ مَنْ يَشْفَعْ شَفاعَةً حَسَنَةً [ النساء 85] جو شخص نیک بات کی سفارش کرے تو اس کو اس ( کے ثواب ) میں سے حصہ ملے گا ۔ اور جو بری بات کی سفارش کرے اس کو اس ( کے عذاب ) میں سے حصہ ملے گا ۔ یعنی جو شخص اچھے یا برے کام میں کسی کی مدد اور سفارش کرے گا وہ بھی اس فعل کے نفع ونقصان میں اس کا شریک ہوگا ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہاں شفاعت سے مراد یہ ہے کہ ایک شخص دوسرے کے لئے کسی اچھے یا برے مسلک کی بنیاد رکھے اور وہ اس کی اقتداء کرے تو وہ ایک طرح سے اس کا شفیع بن جاتا ہے ۔ جیسا کہ آنحضرت نے فرمایا :«من سنّ سنّة حسنة فله أجرها وأجر من عمل بها، ومن سنّ سنّة سيّئة فعليه وزرها ووزر من عمل بها» کہ جس شخص نے اچھی رسم جاری کی اسے اس کا ثواب ملے گا اور اس پر عمل کرنے والوں کا بھی اسے اجر ملے گا اور جس نے بری رسم جاری کی اس پر اس کا گناہ ہوگا ۔ اور جو اس پر عمل کرے گا اس کے گناہ میں بھی وہ شریک ہوگا ۔ اور آیت کریمہ ؛ما مِنْ شَفِيعٍ إِلَّا مِنْ بَعْدِ إِذْنِهِ [يونس 3] کوئی ( اس کے پاس ) اس کا اذن لیے بغیر کسی کی سفارش نہیں کرسکتا ۔ کے معنی یہ ہیں کہ وہ اکیلا ہی ہر کام کی تدبیر کرتا ہے اور نظام کائنات کے چلانے میں کوئی اس کا ساجھی نہیں ہے ۔ ہاں جب وہ امور کی تدبیر و تقسیم کرنے والے فرشتوں کو اجازت دیتا ہے تو وہ اس کی اجازت سے تدبیر امر کرتے ہیں ۔ واسْتَشْفَعْتُ بفلان علی فلان فَتَشَفَّعَ لي، میں نے فلاں سے مدد طلب کی تو اس نے میری مدد لی ۔ وشَفَّعَهُ : ۔ کے معنی کسی کی شفارش قبول کرنے کے ہیں ۔ اور اسی سے (علیہ السلام) کافرمان ہے (196) «القرآن شَافِعٌ مُشَفَّعٌ» کہ قرآن شافع اور مشفع ہوگا یعنی قرآن کی سفارش قبول کی جائے گی ۔ الشُّفْعَةُ کے معنی ہیں کسی مشترکہ چیز کے فروخت ہونے پر اس کی قیمت ادا کر کے اسے اپنے ملک میں شامل کرلینا ۔ یہ شفع سے مشتق ہے ۔ آنحضرت نے فرمایا :«إذا وقعت الحدود فلا شُفْعَةَ» جب حدود مقرر ہوجائیں تو حق شفعہ باقی نہیں رہتا ۔- وأَذِنَ :- استمع، نحو قوله : وَأَذِنَتْ لِرَبِّها وَحُقَّتْ [ الانشقاق 2] ، ويستعمل ذلک في العلم الذي يتوصل إليه بالسماع، نحو قوله : فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ [ البقرة 279] .- ( اذ ن) الاذن - اور اذن ( الیہ ) کے معنی تو جہ سے سننا کے ہیں جیسے فرمایا ۔ وَأَذِنَتْ لِرَبِّهَا وَحُقَّتْ ( سورة الِانْشقاق 2 - 5) اور وہ اپنے پروردگار کا فرمان سننے کی اور اسے واجب بھی ہے اور اذن کا لفظ اس علم پر بھی بولا جاتا ہے جو سماع سے حاصل ہو ۔ جیسے فرمایا :۔ فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللهِ وَرَسُولِهِ ( سورة البقرة 279) تو خبردار ہوجاؤ کہ ندا اور رسول سے تمہاری چنگ ہے ۔ - رضي - يقال : رَضِيَ يَرْضَى رِضًا، فهو مَرْضِيٌّ ومَرْضُوٌّ. ورِضَا العبد عن اللہ : أن لا يكره ما يجري به قضاؤه، ورِضَا اللہ عن العبد هو أن يراه مؤتمرا لأمره، ومنتهيا عن نهيه، قال اللہ تعالی:- رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ [ المائدة 119] ، وقال تعالی: لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 18] ، وقال تعالی: وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ دِيناً [ المائدة 3] ، وقال تعالی: أَرَضِيتُمْ بِالْحَياةِ الدُّنْيا مِنَ الْآخِرَةِ [ التوبة 38] ، وقال تعالی: يُرْضُونَكُمْ بِأَفْواهِهِمْ وَتَأْبى قُلُوبُهُمْ- [ التوبة 8] ، وقال عزّ وجلّ : وَلا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِما آتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَ [ الأحزاب 51] ، والرِّضْوَانُ :- الرّضا الکثير، ولمّا کان أعظم الرِّضَا رضا اللہ تعالیٰ خصّ لفظ الرّضوان في القرآن بما کان من اللہ تعالی: قال عزّ وجلّ : وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها ما كَتَبْناها عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغاءَ رِضْوانِ اللَّهِ- [ الحدید 27] ، وقال تعالی: يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْواناً [ الفتح 29] ، وقال : يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوانٍ [ التوبة 21] ، وقوله تعالی: إِذا تَراضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ- [ البقرة 232] ، أي : أظهر كلّ واحد منهم الرّضا بصاحبه ورَضِيَهُ.- ( ر ض و ) رضی - ( س ) رضا فھو مرضی و مرضو ۔ راضی ہونا ۔ واضح رہے کہ بندے کا اللہ تعالیٰ سے راضی ہونا یہ ہے کہ جو کچھ قضائے الہیٰ سے اس پر وارد ہو وہ اسے خوشی سے بر داشت کرے اور اللہ تعالیٰ کے بندے پر راضی ہونے کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اسے اپنے اوامر کا بجا لانے والا اور منہیات سے رکنے والا پائے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ [ المائدة 119] اللہ تعالیٰ ان سے خوش اور وہ اللہ تعالیٰ سے خوش ۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 18] تو اللہ تعالیٰ ضرور ان مسلمانوں سے خوش ہوتا ہے وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ دِيناً [ المائدة 3] اور ہم نے تمہارے لئے دین اسلام کو پسند فرمایا : ۔ أَرَضِيتُمْ بِالْحَياةِ الدُّنْيا مِنَ الْآخِرَةِ [ التوبة 38] کیا آخرت کے بدلے دنیا کی زندگی پر قناعت کر بیٹھے ہو ۔ يُرْضُونَكُمْ بِأَفْواهِهِمْ وَتَأْبى قُلُوبُهُمْ [ التوبة 8] اپنی زبانی باتوں سے تو تم کو رضا مند کردیتے ہیں اور ان کے دل ہیں کہ ان باتوں سے انکار کرتے ہیں ۔ وَلا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِما آتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَ [ الأحزاب 51] اور آزردہ خاطر نہ ہوں گی اور جو کچھ ( بھی ) تم ان کو دوگے وہ ( لے کر سب ) راضی ہوجائیں گی ۔ الرضوان رضائے کثیر یعنی نہایت خوشنودی کو کہتے ہیں ۔ چونکہ سب سے بڑی رضا اللہ تعالیٰ کی رضا مندی ہے اس لئے قرآن پاک میں خاص کر رضا الہی ٰ کے لئے رضوان کا لفظ استعما ل ہوا ہے ۔ جیسا کہ فرمایا : ۔ وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها ما كَتَبْناها عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغاءَ رِضْوانِ اللَّهِ [ الحدید 27] اور ( لذت ) دنیا کا چھوڑ بیٹھنا جس کو انہوں نے از خود ایجاد کیا تھا ہم نے وہ طریق ان پر فرض نہیں کیا تھا مگر ( ہاں ) انہوں نے اس کو خدا ( ہی ) کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے ایجاد کیا تھا ۔ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْواناً [ الفتح 29] اور خدا کے فضل اور خوشنودی کی طلب گاری میں لگے رہتے ہیں ۔ يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوانٍ [ التوبة 21] ان کا پروردگار ان کو اپنی مہربانی اور رضامندی کی خوشخبری دیتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔۔ : إِذا تَراضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ [ البقرة 232] ، جب جائز طور پر آپس میں وہ راضی ہوجائیں ۔ میں تراضوا باب تفاعل سے ہے جس کے معنی باہم اظہار رضامندی کے ہیں ،
(١٠٩) اور قیامت کے دن فرشتوں کی شفاعت کسی کو نفع نہیں دے گی مگر ایسے شخص کی شفاعت فائدہ مند ہوگی، جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے اجازت دے دی ہو اور اس کا کلمہ طیبہ اللہ تعالیٰ نے قبول فرما لیا ہو۔
سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :85 اس آیت کے دو ترجمے ہو سکتے ہیں ۔ ایک وہ جو متن میں کیا گیا ہے ۔ دوسرا یہ کہ اس روز شفاعت کارگر نہ ہو گی الا یہ کہ کسی کے حق میں رحمان اس کی اجازت دے اور اس کے لیے بات سننے پر راضی ہو ۔ الفاظ ایسے جامع ہیں جو دونوں مفہوموں پر حاوی ہیں ۔ اور حقیقت بھی یہی ہے کہ قیامت کے روز کسی کو دم مارنے تک کی جرأت نہ ہو گی کجا کہ کوئی سفارش کے لیے بطور خود زبان کھول سکے ۔ سفارش وہی کر سکے گا جسے اللہ تعالیٰ بولنے کی اجازت دے ، اور اسی کے حق میں کر سکے گا جس کے لیے بارگاہ الہٰی سے سفارش کرنے کی اجازت مل جائے ۔ یہ دونوں باتیں قرآن میں متعدد مقامات پر کھول کر بتا دی گئی ہیں ۔ ایک طرف فرمایا : مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہ اِلَّا بِاِذْنِہ ، کون ہے جو اس کی اجازت کے بغیر اس کے حضور سفارش کر سکے ( بقرہ ۔ آیت 255 ) ۔ اور : یَوْمَ یَقُوْمُ الرَّوْحُ وَالْمَلٰٓئِکَۃُ صَفًّا ، لَّا یَتَکَلَّمُوْنَ اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَہُ الرَّحْمٰنُ وَقَالَ صَوَاباً ، وہ دن جبکہ روح اور ملائکہ سب صف بستہ کھڑے ہوں گے ، ذرا بات نہ کریں گے ، صرف وہی بول سکے گا جسے رحمان اجازت دے اور جو ٹھیک بات کہے ( النبا ۔ آیت 38 ) ۔ دوسری طرف ارشاد ہوا : وَلَا یَشْفَعُوْنَاِ الَّا لِمَنِ ارْتَضٰی وَھُمْ مِّنْ خَشْیَتِہ مُشْفِقُوْنَ ، اور وہ کسی کی سفارش نہیں کرتے بجز اس شخص کے جس کے حق میں سفارش سننے پر ( رحمان ) راضی ہو ، اور وہ اس کے خوف سے ڈرے ڈرے رہتے ہیں ( الانبیاء ۔ آیت 28 ) ۔ اور : کَمْ مِّنْ مَّلَکٍ فِی السَّمٰوٰتِ لَا تُغْنِیْ شَفَاعَتُھُمْ شَیْئًا اِلَّا مِنْ بَعْدِ اَنْ یَّاْذَنَ اللہُ لِمَنْ یَّشَآءُ وَیَرْضٰی ، کتنے ہی فرشتے آسمانوں میں ہیں جن کی سفارش کچھ بھی مفید نہیں ہو سکتی بجز اس صورت کے کہ اللہ سے اجازت لینے کے بعد کی جائے اور ایسے شخص کے حق میں کی جائے جس کے لیے وہ سفارش سننا چاہے اور پسند کرے ( النجم ، آیت 26 ) ۔