110۔ 1 گزشتہ آیت میں شفاعت کے لیے جو اصول بیان فرمایا گیا ہے اس میں اس کی وجہ اور علت بیان کردی گئی ہے کہ چونکہ اللہ کے سوا کسی کو بھی کسی کی بابت پورا علم نہیں ہے کہ کون کتنا بڑا مجرم ہے ؟ اور وہ اس بات کا مستحق ہے بھی یا نہیں کہ اس کی سفارش کی جاسکے ؟ اس لیے اس بات کا فیصلہ بھی اللہ تعالیٰ ہی فرمائے گا کہ کون کون لوگ انبیاء وصلحا کی سفارش کے مستحق ہیں ؟ کیونکہ ہر شخص کے جرائم کی نوعیت و کیفیت کو اس کے سواء کوئی نہیں جانتا اور نہ جان ہی سکتا ہے۔
[٧٩] اس آیت میں سفارش پر عائد کردہ پابندیوں کی وجہ بیان فرما دی گئی ہے کہ لوگوں کے اعمال اور ان کے حالات جن میں وہ اعمال سرزد ہوئے اور ان کی نیتوں کا علم تو صرف اللہ کو ہے۔ دوسرے کسی کو نہیں ہوسکتا۔ اس کی مثال یوں سمجھئے جیسے ایک شخص کسی افسر کو جاکر کہے کہ آپ کا فلاں ماتحت آدمی میرا دوست ہے لہذا اس کا فلاں قصور معاف کردیجئے تو وہ جواب میں کہے گا کہ آپ واقعی میرے دوست ہیں لیکن یہ شخص پہلے جتنے قصور کرچکا اس کا آپ کو علم ہے ؟ اس کا ریکارڈ پہلے ہی بہت گندا ہے۔ لہذا اسے معاف کرنا بھی ظلم کے مترادف ہے۔ بالکل یہی اصول وہاں بھی کارفرما ہوگا یہ ممکن نہ ہوگا کہ کوئی بزرگ اللہ کے حضور یوں سفارش کرنے لگیں کہ حضور اسے معاف فرما دیں کیونکہ یہ میرا خاص آدمی ہے۔ اس طرح سفارش کے اس عقیدہ کی جڑ کٹ جاتی ہے جو عام لوگوں نے اپنی معبودوں یا پیروں سے وابستہ کر رکھا ہے کہ وہ چونکہ اللہ مقرب ہیں لہذا سفارش کرکے ہمیں بچا لیں گے۔
يَعْلَمُ مَا بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ : دیکھیے آیت الکرسی (بقرہ : ٢٥٥) کی تفسیر۔- وَلَا يُحِيْطُوْنَ بِهٖ عِلْمًا : ” بِهٖ “ کی ضمیر کے مرجع کے لحاظ سے اس کے تین مطلب ہوسکتے ہیں اور تینوں صحیح ہیں۔ ایک یہ کہ ” بِهٖ “ میں ” ہٖ “ ضمیر اللہ تعالیٰ کے لیے قرار دی جائے۔ معنی یہ ہوگا کہ کسی کا علم اتنا نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات کا احاطہ کرسکے، مخلوق کا محدود علم خالق کا احاطہ کیسے کرسکتا ہے ؟ دوسرا یہ کہ یہ ضمیر ” يَعْلَمُ “ کے مصدر ” عِلْمٌ“ کے لیے قرار دی جائے۔ اس صورت میں معنی یہ ہوگا کہ کوئی شخص اللہ کے علم کا احاطہ نہیں کرسکتا اور اس صورت میں یہ آیت الکرسی کے جملہ ” وَلَا يُحِيْطُوْنَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهٖٓ اِلَّا بِمَا شَاۗءَ “ کا ہم معنی ہوگا۔ تیسرا یہ ہے کہ ” ہٖ “ ضمیر ” مَا بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ “ میں موجود ” مَا “ کی طرف لوٹ رہی ہو۔ اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ ان میں سے کسی کا علم بھی اس کا احاطہ نہیں کرسکتا، جو لوگوں کے سامنے ہے اور جو ان کے پیچھے ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کو (چاہے وہ فرشتے ہوں یا جن یا انسان یا کوئی اور) لوگوں کے اگلے پچھلے حال کا پورا علم نہیں ہے کہ جان سکیں کہ کس کے حق میں شفاعت کرنی چاہیے اور کس کے حق میں نہیں کرنی چاہیے، اس لیے شفاعت کو اللہ تعالیٰ کے اذن (اجازت) پر موقوف رکھا گیا ہے۔ اس میں ان لوگوں کے لیے تنبیہ ہے جو فرشتوں یا انبیاء و اولیاء اور بزرگوں کی پرستش اس امید پر کرتے ہیں کہ وہ قیامت کے دن ہماری سفارش کریں گے۔
يَعْلَمُ مَا بَيْنَ اَيْدِيْہِمْ وَمَا خَلْفَہُمْ وَلَا يُحِيْطُوْنَ بِہٖ عِلْمًا ١١٠- علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا اور راک کرنا - خلف ( پیچھے )- خَلْفُ : ضدّ القُدَّام، قال تعالی: يَعْلَمُ ما بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَما خَلْفَهُمْ [ البقرة 255] ، وقال تعالی: لَهُ مُعَقِّباتٌ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ [ الرعد 11]- ( خ ل ف ) خلف ( پیچھے )- یہ قدام کی ضد ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ يَعْلَمُ ما بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَما خَلْفَهُمْ [ البقرة 255] جو کچھ ان کے روبرو ہو راہا ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہوچکا ہے اسے سب معلوم ہے ۔ لَهُ مُعَقِّباتٌ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ [ الرعد 11] اس کے آگے پیچھے خدا کے جو کیدار ہیں ۔- حيط - الحائط : الجدار الذي يَحُوط بالمکان، والإحاطة تقال علی وجهين :- أحدهما : في الأجسام - نحو : أَحَطْتُ بمکان کذا، أو تستعمل في الحفظ نحو : إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُحِيطٌ [ فصلت 54] ، - والثاني : في العلم - نحو قوله : أَحاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْماً [ الطلاق 12] - ( ح و ط ) الحائط ۔- دیوار جو کسی چیز کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہو اور - احاطۃ ( افعال ) کا لفظ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) اجسام کے متعلق جیسے ۔ احطت بمکان کذا یہ کبھی بمعنی حفاظت کے آتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُحِيطٌ [ فصلت 54] سن رکھو کہ وہ ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے ۔ یعنی وہ ہر جانب سے ان کی حفاظت کرتا ہے ۔- (2) دوم احاطہ بالعلم - ہے جیسے فرمایا :۔ أَحاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْماً [ الطلاق 12] اپنے علم سے ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے ۔
(١١٠) اللہ تعالیٰ امور آخرت میں سے فرشتوں کے تمام اگلے احوال کو اور امور دنیا میں سے تمام پچھلے احوال کو جانتا ہے اور فرشتوں کا علم اس کی معلومات کا احاطہ نہیں کرسکتا مگر جس چیز کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ان کو بتا دیا ہو۔
آیت ١١٠ (یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْہِمْ وَمَا خَلْفَہُمْ وَلَا یُحِیْطُوْنَ بِہٖ عِلْمًا ) ” - یہی بات سورة البقرۃ ‘ آیت ٢٥٥ (آیت الکرسی) میں الفاظ کے تھوڑے سے فرق کے ساتھ اس طرح بیان فرمائی گئی ہے : (یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْہِمْ وَمَا خَلْفَہُمْج وَلاَ یُحِیْطُوْنَ بِشَیْءٍ مِّنْ عِلْمِہٖٓ الاَّ بِمَاشَآءَج ) ” وہ جانتا ہے جو کچھ ان کے سامنے ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہے ‘ اور وہ احاطہ نہیں کرسکتے اس کے علم کا کچھ بھی ‘ مگر یہ کہ جو وہ خود چاہے۔ “
سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :86 یہاں وجہ بتائی گئی ہے کہ شفاعت پر یہ پابندی کیوں ہے ۔ فرشتے ہوں یا انبیاء یا اولیاء ، کسی کو بھی یہ معلوم نہیں ہے اور نہیں ہو سکتا کہ کس کا ریکارڈ کیسا ہے ، کون دنیا میں کیا کرتا رہا ہے ، اور اللہ کی عدالت میں کس سیرت و کردار اور کیسی کیسی ذمہ داریوں کے بار لے کر آیا ہے ۔ اس کے برعکس اللہ کو ہر ایک کے پچھلے کارناموں اور کرتوتوں کا بھی علم ہے اور وہ یہ بھی جانتا ہے کہ اب اس کا موقف کیا ہے ۔ نیک ہے تو کیسا نیک ہے اور مجرم ہے تو کس درجے کا مجرم ہے ۔ معافی کے قابل ہے یا نہیں ۔ پوری سزا کا مستحق ہے یا تخفیف اور رعایت بھی اس کے ساتھ کی جا سکتی ہے ۔ ایسی حالت میں یہ کیونکر صحیح ہو سکتا ہے کہ ملائکہ اور انبیاء اور صلحاء کو سفارش کی کھلی چھٹی دے دی جائے اور ہر ایک جس کے حق میں جو سفارش چاہے کر دے ۔ ایک معمولی افسر اپنے ذرا سے محکمے میں اگر اپنے ہر دوست یا عزیز کی سفارشیں سننے لگے تو چار دن میں سارے محکمے کا ستیاناس کر کے رکھ دے گا ۔ پھر بھلا زمین و آسمان کے فرمانروا سے یہ کیسے توقع کی جا سکتی ہے کہ اس کے ہاں سفارشوں کا بازار گرم ہو گا ، اور ہر بزرگ جا جا کر جس کو چاہیں گے بخشوا لائیں گے ، درآنحالیکہ ان میں سے کسی بزرگ کو بھی یہ معلوم نہیں ہے کہ جن لوگوں کی سفارش وہ کر رہے ہیں ان کے نامۂ اعمال کیسے ہیں ۔ دنیا میں جو افسر کچھ بھی احساس ذمہ داری رکھتا ہے اس کی روش یہ ہوتی ہے کہ اگر اس کا کوئی دوست اس کے کسی قصور وار ماتحت کی سفارش لے کر جاتا ہے تو وہ اس سے کہتا ہے کہ آپ کو خبر نہیں ہے کہ یہ شخص کتنا کام چور ، نافرض شناس ، رشوت خوار اور خلق خدا کو تنگ کرنے والا ہے ، میں اس کے کرتوتوں سے واقف ہوں ، اس لیے آپ براہ کرم مجھ سے اس کی سفارش نہ فرمائیں ۔ اسی چھوٹی سی مثال پر قیاس کر کے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اس آیت میں شفاعت کے متعلق جو قاعدہ بیان کیا گیا ہے وہ کس قدر صحیح ، معقول اور مبنی بر انصاف ہے ۔ خدا کے ہاں شفاعت کا دروازہ بند نہ ہو گا ۔ نیک بندے ، جو دنیا میں خلق خدا کے ساتھ ہمدردی کا برتاؤ کرنے کے عادی تھے ، انہیں آخرت میں بھی ہمدردی کا حق ادا کرنے کا موقع دیا جائے گا ۔ لیکن وہ سفارش کرنے سے پہلے اجازت طلب کریں گے ، اور جس کے حق میں اللہ تعالیٰ انہیں بولنے کی اجازت دے گا صرف اسی کے حق میں وہ سفارش کر سکیں گے ۔ پھر سفارش کے لیے بھی شرط یہ ہو گی کہ وہ مناسب اور مبنی برحق ہو ، جیسا کہ : وَقَالَ صَوَاباً ( اور بات ٹھیک کہے ) کا ارشاد ربانی صاف بتا رہا ہے ۔ بونگی سفارشیں کرنے کی وہاں اجازت نہ ہو گی کہ ایک شخص دنیا میں سینکڑوں ، ہزاروں بندگان خدا کے حقوق مار آیا ہو اور کوئی بزرگ اٹھ کر سفارش کر دیں کہ حضور اسے انعام سے سر فراز فرمائیں یہ میرا خاص آدمی ہے ۔