Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

111۔ 1 اس لئے کہ اس روز اللہ تعالیٰ مکمل انصاف فرمائے گا اور ہر صاحب حق کو اس کا حق دلائے گا۔ حتٰی کہ اگر ایک سینگ والی بکری نے بغیر سینگ والی بکری پر ظلم کیا ہوگا، تو اس کا بھی بدلہ دلایا جائے گا، اسی لئے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسی حدیث میں یہ بھی فرمایا " لتؤدن الحقوق الی اھلھا " ہر صاحب حق کو اس کا حق دے دو ورنہ قیامت کو دینا پڑے گا۔ دوسری حدیث میں فرمایا (اِیَّاکُمْ و الظُّلْمَ فَاِنَّ الظُلْمَ ظُلُمَات، ُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ) ظلم سے بچو اس لئے کہ ظلم قیامت کے دن اندھیروں کا باعث ہوگا، سب سے نامراد وہ شخص ہوگا جس نے شرک کا بوجھ بھی لاد رکھا ہوگا، اس لئے کہ شرک ظلم عظیم بھی ہے اور ناقابل معافی بھی۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَعَنَتِ الْوُجُوْهُ لِلْحَيِّ الْقَيُّوْمِ : ” عَنَتِ “ ” عَنَا یَعْنُوْ عُنُوًّا “ (ن) سے واحد مؤنث غائب، ماضی معلوم ہے، اصل میں ” عَنَوَتْ “ تھا، ذلیل اور عاجز ہو کر جھک جانا۔ اس میں سے اسم فاعل ” عَانٍ “ یا ” اَلْعَانِیْ “ آتا ہے، جس کا معنی قیدی ہے، کیونکہ قیدی بیحد عاجز، بےبس اور ذلیل ہوتا ہے۔ یعنی اس دن صرف تمام آوازیں ہی رحمٰن کے لیے پست نہیں ہوں گی بلکہ تمام چہرے، حتیٰ کہ ان سرکش متکبر لوگوں کے چہرے بھی اس حی و قیوم کے سامنے ذلیل قیدیوں کی طرح جھکے ہوں گے جن کی پیشانی دنیا میں کبھی اللہ کے سامنے جھکی نہ تھی۔ کیونکہ وہ سب فانی و محتاج ہیں اور انھیں حی و قیوم کے سامنے جھکے بغیر کوئی چارہ ہی نہیں۔ ” لِلْحَيِّ الْقَيُّوْمِ “ کی تفسیر آیت الکرسی (بقرہ : ٢٥٥) میں دیکھیے۔- وَقَدْ خَابَ مَنْ حَمَلَ ظُلْمًا : یہاں ” ظُلْمًا “ پر تنوین تعظیم کی ہے، اس لیے ترجمہ ” بڑے ظلم کا بوجھ اٹھایا “ کیا ہے۔ بڑے ظلم سے مراد مشرک ہونا اور مسلمان نہ ہونا ہے۔ (طبری) اس کا ترجمہ ” کسی ظلم کا بوجھ اٹھایا “ درست نہیں، کیونکہ گناہ گار مومن و موحد سزا پا کر یا سزا کے بغیر اللہ کے اذن سے جنت میں چلے جائیں گے اور جنت میں پہنچ جانے والا ناکام نہیں۔ دلیل اور تفصیل کے لیے دیکھیے سورة انعام (٨٢) ، بقرہ (٢٥٤) اور یونس (١٠٦) کی تفسیر۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَعَنَتِ الْوُجُوْہُ لِلْحَيِّ الْقَيُّوْمِ۝ ٠ۭ وَقَدْ خَابَ مَنْ حَمَلَ ظُلْمًا۝ ١١١- عنت - الْمُعَانَتَةُ کالمعاندة لکن المُعَانَتَةُ أبلغ، لأنها معاندة فيها خوف وهلاك، ولهذا يقال : عَنَتَ فلان : إذا وقع في أمر يخاف منه التّلف، يَعْنُتُ عَنَتاً. قال تعالی: لِمَنْ خَشِيَ الْعَنَتَ مِنْكُمْ- [ النساء 25] ، وَدُّوا ما عَنِتُّمْ [ آل عمران 118] ، عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ [ التوبة 128] ، وَعَنَتِ الْوُجُوهُ لِلْحَيِّ الْقَيُّومِ «1» أي : ذلّت وخضعت، ويقال : أَعْنَتَهُ غيرُهُ. وَلَوْ شاءَ اللَّهُ لَأَعْنَتَكُمْ [ البقرة 220] ، ويقال للعظم المجبور إذا أصابه ألم فهاضه : قد أَعْنَتَهُ.- ( ع ن ت ) المعانتۃ - : یہ معاندۃ کے ہم معنی ہے معنیباہم عنا داوردشمنی سے کام لینا لیکن معانتۃ اس سے بلیغ تر ہے کیونکہ معانتۃ ایسے عناد کو کہتے ہیں جس میں خوف اور ہلاکت کا پہلو بھی ہو ۔ چناچہ عنت فلان ۔ ینعت عنتا اس وقت کہتے ہیں جب کوئی شخص ایسے معاملہ میں پھنس جائے جس میں تلف ہوجانیکا اندیشہ ہو ۔ قرآن پاک میں ہے لِمَنْ خَشِيَ الْعَنَتَ مِنْكُمْ [ النساء 25] اس شخص کو ہے جسے ہلاکت میں پڑنے کا اندیشہ ہو ۔ وَدُّوا ما عَنِتُّمْ [ آل عمران 118] اور چاہتے ہیں کہ ( جس طرح ہو ) تمہیں تکلیف پہنچے ۔ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ [ التوبة 128] تمہاری تکلیف ان کو گراں معلوم ہوتی ہے : اور آیت کریمہ : وَعَنَتِ الْوُجُوهُ لِلْحَيِّ الْقَيُّومِ «1»اور سب ( کے ) چہرے اس زندہ وقائم کے روبرو جھک جائیں گے ۔ میں عنت کے معنی ذلیل اور عاجز ہوجانے کے ہیں اور اعنتہ کے معنی تکلیف میں مبتلا کرنے کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : وَلَوْ شاءَ اللَّهُ لَأَعْنَتَكُمْ [ البقرة 220] اور اگر خدا چاہتا تو تم کو تکلیف میں ڈال دیتا ۔ اور جس ہڈی کو جوڑا گیا ہو اگر اسے کوئی صدمہ پہنچے اور وہ دوبارہ ٹو ٹ جائے تو ایسے موقع پر بھی اعتتہ کا لفظ استعمال ہوتا ہے ۔- وجه - أصل الوجه الجارحة . قال تعالی: فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ [ المائدة 6]- ( و ج ہ ) الوجہ - کے اصل معنی چہرہ کے ہیں ۔ جمع وجوہ جیسے فرمایا : ۔ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ [ المائدة 6] تو اپنے منہ اور ہاتھ دھو لیا کرو ۔- خاب - الخَيْبَة : فوت الطلب، قال : وَخابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِيدٍ [إبراهيم 15] ، وَقَدْ خابَ مَنِ افْتَرى [ طه 61] ، وَقَدْ خابَ مَنْ دَسَّاها [ الشمس 10] .- ( خ ی ب ) خاب - ( ض ) کے معنی ناکام ہونے اور مقصد فوت ہوجانے کے ہیں : قرآن میں ہے : ۔ وَخابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِيدٍ [إبراهيم 15] تو ہر سرکش ضدی نامراد ہوگیا ۔ وَقَدْ خابَ مَنِ افْتَرى [ طه 61] اور جس نے افتر ا کیا وہ نامراد رہا ۔ وَقَدْ خابَ مَنْ دَسَّاها [ الشمس 10] اور جس نے اسے خاک میں ملایا وہ خسارے میں رہا ۔- ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١١١) اس روز تمام چہرے اس اللہ تعالیٰ کے سامنے جھکے ہوں گے اور ایسا شخص تو ہر طرح ناکام رہے گا جو شرک لے کر آیا ہوگا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١١١ (وَعَنَتِ الْوُجُوْہُ لِلْحَیِّ الْقَیُّوْمِ ط) ” اور سب کے چہرے جھکے ہوئے ہوں گے اس ہستی کے حضور جو الحی القیوم ہے۔ “- قرآن مجید کا یہ تیسرا مقام ہے جہاں اللہ تعالیٰ کے یہ دو نام الحیّ اور القیوم ایک ساتھ آئے ہیں۔ اس سے پہلے سورة البقرۃ ‘ آیت ٢٥٥ (آیت الکرسی) اور سورة آل عمران ‘ آیت ٢ میں یہ دونوں نام اکٹھے آ چکے ہیں۔ الحی القیوم کے بارے میں عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ یہ ” اسم اللہ الاعظم “ یعنی اللہ کا عظیم ترین نام (اسم اعظم) ہے جس کے حوالے سے جو دعا کی جائے وہ ضرور قبول ہوتی ہے۔- (وَقَدْ خَابَ مَنْ حَمَلَ ظُلْمًا ) ” - یعنی کسی طرح کے شرک کا مرتکب ہوا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani