114۔ 1 جس کا وعدہ اور وعید حق ہے، جنت دوزخ حق ہے اور اس کی ہر بات حق ہے۔ 114۔ 2 جبرائیل (علیہ السلام) جب وحی لے کر آتے اور سناتے تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی جلدی جلدی ساتھ ساتھ پڑھتے جاتے، کہ کہیں کچھ بھول نہ جائیں، اللہ تعالیٰ نے اس سے منع فرمایا اور تاکید کی کہ غور سے، پہلے وحی کو سنیں، اس کو یاد کرانا اور دل میں بٹھا دینا ہمارا کام ہے۔ جیسا کہ سورة ق میں آئے گا۔ 114۔ 3 یعنی اللہ تعالیٰ سے زیادتی علم کی دعا فرماتے رہیں۔ اس میں علماء کے لئے بھی نصیحت ہے کہ وہ فتوٰی میں پوری تحقیق اور غور سے کام لیں، جلد بازی سے بچیں اور علم میں اضافہ کی صورتیں اختیار کرنے میں کوتاہی نہ کریں علاوہ ازیں علم سے مراد قرآن و حدیث کا علم ہے۔ قرآن میں اسی کو علم سے تعبیر کیا گیا اور ان کے حاملین کو علماء دیگر چیزوں کا علم، جو انسان کسب معاش کے لئے حاصل کرتا ہے، وہ سب فن ہیں، ہنر ہیں اور صنعت و حرفت ہیں۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس علم کے لئے دعا فرماتے تھے، وہ وحی و رسالت ہی کا علم ہے جو قرآن و حدیث میں محفوظ ہے، جس سے انسان کا ربط وتعلق اللہ تعالیٰ کے ساتھ قائم ہوتا ہے، اس کے اخلاق و کردار کی اصلاح ہوتی اور اللہ کی رضا و عدم رضا کا پتہ چلتا ہے ایسی دعاؤں میں ایک دعا یہ ہے جو آپ پڑھا کرتے تھے۔ (اللَّھُمَّ اُنْفْعُنِیْ بِمَا عَلَّمْتَنِیْ ، وَ عَلِّمْنِیْ مَا یَنْفَعُنِیْ وَ زِدْ نِیْ عِلْمًا، وَالْحمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی کُلِّ حَال) (ابن ماجہ)
[٨٢] ابتداًء جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر سیدنا جبرائیل وحی لے کر نازل ہوتے تو آپ ساتھ ہی ساتھ وحی کے الفاظ کو اس خیال سے دہرانے لگتے تھے کہ بعد میں بھول نہ جائیں۔ اس طرح وحی کے اگلے مضمون سے توجہ یا ہٹ جاتی تھی یا کٹ جاتی تھی۔ اسی بات کا ذکر سورة قیامۃ بھی آچکا تھا۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ آپ ساتھ ساتھ اس کو یاد رکھنے اور زبان چلانے کی کوشش نہ کیا کیجئے۔ تمہارے سینہ میں اسے محفوظ رکھنا اور پھر زبان سے انھیں الفاظ کی ادائیگی کروا دینا ہمارا ذمہ ہے۔ جب وحی نازل ہو رہی ہو آپ بس پوری توجہ سے اسے سنا کیجئے۔ مگر معلوم ہوتا ہے کہ ایسی عادت ابھی تک آپ میں پوری طرح راسخ نہ ہوئی تھی۔ لہذا اسی بات کا دوسرے انداز میں اعادہ کیا گیا اور یہ ہدایت بھی کی گئی کہ ساتھ ہی ساتھ آپ یہ دعا بھی کرتے رہئے کہ اللہ تعالیٰ مجھے قرآن کریم میں اور زیادہ سمجھ اور بیش از بیش علوم و معارف عطا فرما۔
فَتَعٰلَى اللّٰهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ ۔۔ :” فَتَعٰلَى“ ” عَلاَ یَعْلُوْ عُلُوًّا “ بلند ہونا۔ باب تفاعل میں تاء اور الف کے اضافے سے معنی میں مبالغہ پیدا ہوگیا ” پس بہت بلند ہے۔ “ ” الْمَلِكُ الْحَقُّ “ ” حَقَّ یَحِقُّ “ ثابت ہونا۔ لفظ حق باطل کے مقابلے میں آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی بادشاہی حقیقی، سچی اور پائدار ہے۔ دوسرے تمام بادشاہ دنیا میں نہایت محدود اختیارات کے مالک ہیں اور وہ بھی اللہ تعالیٰ کی مرضی سے، وہ نہ چاہے تو کچھ بھی نہیں کرسکتے اور آخرت میں ان کے وہ اختیار بھی ختم ہوجائیں گے۔ پھر اس میں کیا شک ہے کہ حقیقی بادشاہ اللہ تعالیٰ ہی ہے اور باقی سب باطل ہیں - سروری زیبا فقط اس ذات بےہمتا کو ہے حکمران ہے اک وہی باقی بتان آزری - صحیح بخاری (١١٢٠) میں تہجد کے لیے اٹھتے وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایک لمبی دعا مذکور ہے، اس دعا میں ہے : ( وَلَکَ الْحَمْدُ أَنْتَ الْحَقُّ وَوَعْدُکَ الْحَقُّ ، وَلِقَاءُ کَ حَقٌّ ) دعاؤں کی کسی کتاب یا اصل صحیح بخاری سے یہ مکمل دعا یاد کرلیں، یہ دعا تہجد کے وقت پڑھنا مسنون اور بیحد برکت کا باعث ہے۔- وَلَا تَعْجَلْ بالْقُرْاٰنِ ۔۔ : یہ وہی مضمون ہے جو سورة قیامہ (١٦ تا ١٩) میں بیان ہوا ہے۔ یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب ایک دفعہ جلدی کرنے اور جبریل (علیہ السلام) کے ساتھ ساتھ پڑھنے سے منع فرما دیا، تو دوبارہ اس حکم کی کیا ضرورت تھی ؟ شاہ عبد القادر (رض) نے اسے یوں حل فرمایا ہے : ” جبرئیل جب قرآن لاتے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے پڑھنے کے ساتھ پڑھنے لگتے کہ بھول نہ جاویں۔ اس کو پہلے منع فرمایا تھا سورة قیامہ میں اور تسلی کردی تھی کہ اس کا یاد رکھوانا اور لوگوں تک پہنچوانا ذمہ ہمارا ہے، لیکن بندہ بشر ہے، شاید بھول گئے ہوں، پھر تقید کیا اور بھولنے پر مثل فرمائی آدم (علیہ السلام) کی۔ “ (موضح)- وَقُلْ رَّبِّ زِدْنِيْ عِلْمًا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جبرئیل (علیہ السلام) کے ساتھ ساتھ جلدی پڑھنے کے پیچھے اصل جذبہ زیادہ سے زیادہ علم کے حصول اور حفظ کا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے صرف جلدی کرنے سے منع فرمایا، مگر اصل جذبے کی تعریف کی اور اس کی تکمیل کے لیے دعا سکھائی، جیسا کہ ابوبکرہ (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نماز پڑھاتے ہوئے رکوع کی حالت میں پایا تو صف میں ملنے سے پہلے ہی رکوع میں چلے گئے اور پھر اسی حالت میں رکوع میں مل گئے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( زَادَکَ اللّٰہُ حِرْصًا وَلَا تَعُدْ ) [ بخاري، الأذان، باب إذا رکع دون الصف : ٧٨٣ ]” اللہ تمہاری حرص زیادہ کرے اور دوبارہ ایسا نہ کرنا۔ “ دوبارہ ایسی جلدی سے منع کرنے کے ساتھ نیکی میں حرص کی تعریف فرمائی۔ ” رَّبِّ زِدْنِيْ عِلْمًا “ میں ” عِلْمًا “ عام ہے اور اس سے مراد علم نافع ہے۔ دین یعنی قرآن و حدیث کا علم ہو یا دنیا کا ایسا علم جو دنیا و آخرت دونوں میں نافع ہو، کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دعا فرمایا کرتے تھے : ( اَللّٰھُمَّ انْفَعْنِيْ بِمَا عَلَّمْتَنِيْ وَ عَلِّمْنِيْ مَا یَنْفَعُنِیْ وَ زِدْنِيْ عِلْمًا ) [ ترمذي، الدعوات، باب سبق المفردون ۔۔ : ٣٥٩٩، عن أبي ہریرہ (رض) و صححہ الألباني ] ” اے اللہ مجھے اس کے ساتھ نفع دے جس کا تو نے مجھے علم دیا اور مجھے اس کا علم دے جو مجھے نفع دے اور مجھے علم میں زیادہ کر۔ “ انس (رض) فرماتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اکثر دعا یہ تھی : ( اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّ فِي الْآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَاب النَّارِ ) [ بخاري، الدعوات، باب قول النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : ربنا آتنا۔۔ : ٦٣٨٩ ] ” اے اللہ اے ہمارے رب ہمیں دنیا میں بھلائی عطا کر اور آخرت میں بھلائی عطا کر اور ہمیں دوزخ سے بچا۔ “ مسلمانوں پر دنیا کی ہر ضرورت کا علم حاصل کرنا فرض کفایہ ہے، تاکہ انھیں غیر مسلموں کا محتاج نہ ہونا پڑے اور وہ دنیا میں اسلام کو غالب رکھ سکیں، مثلاً طب، زراعت، ہیئت، جغرافیہ، ہندسہ، سائنس، اسلحہ سازی وغیرہ۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جو بھی نئی چیز معلوم ہوتی اس سے جہاد میں فائدہ اٹھایا کرتے تھے، جیسا کہ جنگ احزاب میں خندق تیار فرمائی اور صحابہ اور تابعین مجاہدین نے جنگوں میں منجنیق کا استعمال فرمایا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسلمانوں کے بحری جہاد کی خوشخبری دی اور امیر معاویہ (رض) نے بحری بیڑا تیار کیا، جس کے نتیجے میں بحر روم پر مسلمانوں کا غلبہ ہوگیا اور جدید سے جدید ایجادات اور تدابیر کے نتیجے میں سلطان محمد الفاتح (رح) نے قسطنطنیہ کو فتح کیا۔ ظاہر ہے کہ تیس فیصد خشکی پر بھی اسی کی حکومت ہوگی جو ستر فیصد سمندر پر اپنا تسلط منوا سکے۔ داؤد (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے زرہ سازی کا فن سکھایا اور اسے بطور احسان قرآن مجید میں ذکر فرمایا۔ قرآن مجید میں احکام کی آیات اتنی نہیں جتنی زمین و آسمان، سورج، چاند، بحر و بر، نباتات و جمادات و حیوانات اور اللہ تعالیٰ کی مخلوقات میں غور کرنے کی تاکید والی آیات ہیں۔ مسلمانوں نے اس میں غفلت کی اور کفار نے ان پر محنت کرکے جدید سے جدید ایجادات، مثلاً مشین، موٹر، ریل، ہوائی جہاز، بجلی، بارود، بم، میزائل، ایٹم، کمپیوٹر وغیرہ تیار کرکے مسلمانوں کو اپنا محتاج بلکہ غلام بنا لیا۔ اب مسلمانوں پر لازم ہے کہ ان تمام علوم میں مہارت حاصل کریں جو کفار کے ساتھ جہاد کے لیے ضروری ہیں اور اس طرح یہ سب کچھ علم دنیا ہونے کے باوجود علم آخرت بن جائے گا، کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کے حکم ” وَاَعِدُّوْا لَهُمْ مَّا اسْـتَـطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّةٍ “ کی تعمیل ہوگی۔ البتہ اس بات کا اہتمام نہایت ضروری ہے کہ یہ علوم سیکھنے والے قرآن و حدیث کے علم سے آراستہ اور یقین و ایمان اور جہاد فی سبیل اللہ کے جذبے سے سرشار ہوں، تاکہ وہ سائنس پڑھتے پڑھتے کفار سے متاثر ہو کر محض دنیا پرست اور ملحد نہ بن جائیں۔ کیونکہ یہ سب کچھ اس وقت مذموم ہوجائے گا جب اس سے مقصود صرف دنیا ہو اور آخرت سے غفلت اختیار کی جائے۔ ایسی صورت میں یہ تمام علوم رکھنے والا اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق بےعلم ہوگا، جیسا کہ فرمایا : (وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ يَعْلَمُوْنَ ظَاهِرًا مِّنَ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا ښ وَهُمْ عَنِ الْاٰخِرَةِ هُمْ غٰفِلُوْنَ ) [ الروم : ٦، ٧ ] ” اور لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے (علم نہیں رکھتے) ۔ وہ دنیا کی زندگی کے ظاہر کا علم رکھتے ہیں اور وہ آخرت سے وہی غافل ہیں۔ “ اور فرمایا : (فَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّقُوْلُ رَبَّنَآ اٰتِنَا فِي الدُّنْيَا وَمَا لَهٗ فِي الْاٰخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ ) [ البقرۃ : ٢٠٠ ] ” پھر لوگوں میں سے کوئی تو وہ ہے جو کہتا ہے، اے ہمارے رب ہمیں دنیا میں دے دے اور آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہیں۔ “ ان لوگوں کا علم، علم نافع نہیں، اس لیے اس سے پناہ مانگنی چاہیے، جیسا کہ زید بن ارقم (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ دعا کیا کرتے تھے : ( اَللّٰھُمَّ إِنِّيْ أَعُوْذُ بِکَ مِنْ عِلْمٍ لَّا یَنْفَعُ وَ مِنْ قَلْبٍ لَّا یَخْشَعُ وَمِنْ نَفْسٍ لَّا تَشْبَعُ وَمِنْ دَعْوَۃٍ لَّا یُسْتَجَابُ لَھَا ) [ مسلم، الذکر و الدعاء، باب في الأدعیۃ : ٢٧٢٢ ] ” اے اللہ بیشک میں تیری پناہ چاہتا ہوں ایسے علم سے جو نفع نہ دے اور ایسے دل سے جو خشوع نہ رکھے اور ایسے نفس سے جو سیر نہ ہو اور ایسی دعا سے جو قبول نہ کی جائے۔ “
وَلَا تَعْجَلْ بالْقُرْاٰنِ مِنْ قَبْلِ اَنْ يُّقْضٰٓى اِلَيْكَ وَحْيُهٗ ، صحیح حدیث میں حضرت ابن عباس سے منقول ہے کہ ابتداء وحی میں جب جبرئیل امین کوئی آیت قرآن لے کر آتے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سناتے تو آپ ان کے ساتھ ساتھ آیت کو پڑھنے کی بھی کوشش فرماتے تھے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ یاد سے نکل جائے اس میں آپ پر دوہری مشقت ہوتی تھی اول قرآن کو جبرئیل سے سننے اور سمجھنے کی اس کے ساتھ اس کو یاد رکھنے کے لئے اپنی زبان سے ادا کرنے کی حق تعالیٰ نے اس آیت میں نیز سورة قیامہ کی آیت لَا تُحَرِّكْ بِهٖ لِسَانَكَ میں آپ کے لئے آسانی یہ پیدا فرما دی کہ جو آیات قرآن آپ پر نازل کی جاتی ہیں ان کا یاد رکھنا آپ کی ذمہ داری نہیں وہ ہمارے ذمہ ہے ہم خود آپ کو یاد کرا دیں گے اس لئے آپ کو جبرئیل امین کے ساتھ ساتھ پڑھنے اور زبان کو حرکت دینے کی ضرورت نہیں آپ اس وقت صرف اطمینان کے ساتھ سنا کریں البتہ یہ دعا کرتے رہیں کہ رب زدنی علما یعنی اے میرے پروردگار میرا علم بڑھا دیجئے اس جامع دعا میں نازل شدہ قرآن کا یاد رکھنا بھی داخل ہے اور غیر نازل شدہ کی طلب بھی اور اس کے سمجھنے کی توفیق بھی۔
فَتَعٰلَى اللہُ الْمَلِكُ الْحَقُّ ٠ۚ وَلَا تَعْجَلْ بِالْقُرْاٰنِ مِنْ قَبْلِ اَنْ يُّقْضٰٓى اِلَيْكَ وَحْيُہٗ ٠ۡوَقُلْ رَّبِّ زِدْنِيْ عِلْمًا ١١٤- علي - العُلْوُ : ضدّ السُّفْل، والعَليُّ : هو الرّفيع القدر من : عَلِيَ ، وإذا وصف اللہ تعالیٰ به في قوله : أَنَّ اللَّهَ هُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ [ الحج 62] ، إِنَّ اللَّهَ كانَ عَلِيًّا كَبِيراً [ النساء 34] ، فمعناه : يعلو أن يحيط به وصف الواصفین بل علم العارفین . وعلی ذلك يقال : تَعَالَى، نحو : تَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ النمل 63] - ( ع ل و ) العلو - العلی کے معنی بلند اور بر تر کے ہیں یہ علی ( مکسر اللام سے مشتق ہے جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ کی صفت - واقع ہو جیسے : ۔ أَنَّ اللَّهَ هُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ [ الحج 62] إِنَّ اللَّهَ كانَ عَلِيًّا كَبِيراً [ النساء 34] تو اس کے معنی ہوتے ہیں وہ ذات اس سے بلند وبالا تر ہے کوئی شخص اس کا وصف بیان کرسکے بلکہ عارفین کا علم بھی وہاں تک نہیں پہچ سکتا ۔- ملك) بادشاه)- المَلِكُ : هو المتصرّف بالأمر والنّهي في الجمهور - وَالمِلْكُ ضربان :- مِلْك هو التملک والتّولّي، ومِلْك هو القوّة علی ذلك، تولّى أو لم يتولّ. فمن الأوّل قوله : إِنَّ الْمُلُوكَ إِذا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوها[ النمل 34] ، ومن الثاني قوله : إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنْبِياءَ وَجَعَلَكُمْ مُلُوكاً [ المائدة 20]- ( م ل ک ) الملک - ۔ بادشاہ جو پبلک پر حکمرانی کرتا ہے ۔ یہ لفظ صرف انسانوں کے منتظم کے ساتھ خاص ہے .- اور ملک کا لفظ دو طرح پر ہوتا ہے - عملا کسی کا متولی اور حکمران ہونے کو کہتے ہیں ۔- دوم حکمرانی کی قوت اور قابلیت کے پائے جانے کو کہتے ہیں - ۔ خواہ نافعل اس کا متولی ہو یا نہ ہو ۔ چناچہ پہلے معنی کے لحاظ سے فرمایا : ۔ إِنَّ الْمُلُوكَ إِذا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوها[ النمل 34] بادشاہ جب کسی ملک میں داخل ہوتے ہیں ۔ تو اس کو تباہ کردیتے ہیں ۔ - اور دوسرے معنی کے لحاظ سے فرمایا : ۔ إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنْبِياءَ وَجَعَلَكُمْ مُلُوكاً [ المائدة 20] کہ اس نے تم میں پیغمبر کئے اور تمہیں بادشاہ بنایا ۔ - حقَ- أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة .- والحقّ يقال علی أوجه :- الأول :- يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس 32] .- والثاني :- يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] ،- والثالث :- في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] .- والرابع :- للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا :- فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] - ( ح ق ق) الحق ( حق )- کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور - لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے - ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ - (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو - ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔- (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا - جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی - ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے - اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔- عجل - العَجَلَةُ : طلب الشیء وتحرّيه قبل أوانه، وهو من مقتضی الشّهوة، فلذلک صارت مذمومة في عامّة القرآن حتی قيل : «العَجَلَةُ من الشّيطان» «2» . قال تعالی: سَأُرِيكُمْ آياتِي فَلا تَسْتَعْجِلُونِ [ الأنبیاء 37] ،- ( ع ج ل ) العجلۃ - کسی چیز کو اس کے وقت سے پہلے ہی حاصل کرنے کی کوشش کرنا اس کا تعلق چونکہ خواہش نفسانی سے ہوتا ہے اس لئے عام طور پر قرآن میں اس کی مذمت کی گئی ہے حتی کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا العجلۃ من الشیطان ( کہ جلد بازی شیطان سے ہے قرآن میں ہے : سَأُرِيكُمْ آياتِي فَلا تَسْتَعْجِلُونِ [ الأنبیاء 37] میں تم لوگوں کو عنقریب اپنی نشانیاں دکھاؤ نگا لہذا اس کے لئے جلدی نہ کرو ۔ - قرآن - والْقُرْآنُ في الأصل مصدر، نحو : کفران ورجحان . قال تعالی:إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة 17- 18] قال ابن عباس : إذا جمعناه وأثبتناه في صدرک فاعمل به، وقد خصّ بالکتاب المنزّل علی محمد صلّى اللہ عليه وسلم، فصار له کالعلم کما أنّ التّوراة لما أنزل علی موسی، والإنجیل علی عيسى صلّى اللہ عليهما وسلم . قال بعض العلماء : ( تسمية هذا الکتاب قُرْآناً من بين كتب اللہ لکونه جامعا لثمرة كتبه) بل لجمعه ثمرة جمیع العلوم، كما أشار تعالیٰ إليه بقوله : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف 111] ، وقوله : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل 89] ، قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر 28] ، وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ [ الإسراء 106] ، فِي هذَا الْقُرْآنِ [ الروم 58] ، وَقُرْآنَ الْفَجْرِ[ الإسراء 78] أي :- قراء ته، لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة 77]- ( ق ر ء) قرآن - القرآن ۔ یہ اصل میں کفران ورحجان کی طرف مصدر ہے چناچہ فرمایا :إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة 17- 18] اس کا جمع کرنا اور پڑھوانا ہمارے ذمہ جب ہم وحی پڑھا کریں تو تم ( اس کو سننا کرو ) اور پھر اسی طرح پڑھا کرو ۔ حضرت ابن عباس نے اس کا یہ ترجمہ کیا ہے کہ جب ہم قرآن تیرے سینہ میں جمع کردیں تو اس پر عمل کرو لیکن عرف میں یہ اس کتاب الہی کا نام ہے جو آنحضرت پر نازل ہوگئی ا وریہ اس کتاب کے لئے منزلہ علم بن چکا ہے جیسا کہ توراۃ اس کتاب الہی کو کہاجاتا ہے جو حضرت موسیٰ ٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی ۔ اور انجیل اس کتاب کو کہا جاتا ہے جو حضرت عیسیٰ پر نازل کی گئی ۔ بعض علماء نے قرآن کی وجہ تسمیہ یہ بھی بیان کی ہے کہ قرآن چونکہ تمام کتب سماویہ کے ثمرہ کو اپنے اندر جمع کئے ہوئے ہے بلکہ تمام علوم کے ماحصل کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے اس لئے اس کا نام قرآن رکھا گیا ہے جیسا کہ آیت : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف 111] اور ہر چیز کی تفصیل کرنے والا ۔ اور آیت کریمہ : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل 89] کہ اس میں ہر چیز کا بیان مفصل ہے ۔ میں اس کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے ۔ مزید فرمایا : قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر 28] یہ قرآن عربی ہے جس میں کوئی عیب ( اور اختلاف ) نہیں ۔ وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ [ الإسراء 106] اور ہم نے قرآن کو جزو جزو کرکے نازل کیا تاکہ تم لوگوں کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھ کر سناؤ ۔ فِي هذَا الْقُرْآنِ [ الروم 58] اس قرآن اور آیت کریمہ : وَقُرْآنَ الْفَجْرِ [ الإسراء 78] اور صبح کو قرآن پڑھا کرو میں قرآت کے معنی تلاوت قرآن کے ہیں ۔ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة 77] یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے ۔- قضی - الْقَضَاءُ : فصل الأمر قولا کان ذلک أو فعلا، وكلّ واحد منهما علی وجهين : إلهيّ ، وبشريّ. فمن القول الإلهيّ قوله تعالی:- وَقَضى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] أي : أمر بذلک،- ( ق ض ی ) القضاء - کے معنی قولا یا عملا کیس کام کا فیصلہ کردینے کے ہیں اور قضاء قولی وعملی میں سے ہر ایک کی دو قسمیں ہیں قضا الہیٰ اور قضاء بشری چناچہ قضاء الہیٰ کے متعلق فرمایا : ۔ وَقَضى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] اور تمہارے پروردگار نے ارشاد فرمایا کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ - وحی - أصل الوحي : الإشارة السّريعة، ولتضمّن السّرعة قيل : أمر وَحْيٌ ، وذلک يكون بالکلام علی سبیل الرّمز والتّعریض، وقد يكون بصوت مجرّد عن التّركيب، وبإشارة ببعض الجوارح، وبالکتابة، وقد حمل علی ذلک قوله تعالیٰ عن زكريّا : فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم 11] وقوله : وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس 87] فوحيه إلى موسیٰ بوساطة جبریل، ووحيه تعالیٰ إلى هرون بوساطة جبریل وموسی،- ( و ح ی ) الوحی - کے اصل معنی جلدی سے اشارہ کرنا کے ہیں ۔ اور اس کے معنی سرعت کو متضمن ہو نیکی وجہ سے ہر تیز رفتار معاملہ کو امر وحی کہا جاتا ہے اور یہ وحی کبھی رمزوتعریض کے طور پر بذریعہ کلام کے ہوتی ہے اور کبھی صوت مجرد کی صورت میں ہوتی ہے یعنی اس میں ترکیب الفاظ نہیں ہوتی اور کبھی بذیعہ جوارح کے اور کبھی بذریعہ کتابت کے اس بنا پر آیت : ۔ فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم 11] پھر وہ عبادت کے حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے تو ان سے اشارے سے کہا کہ صبح وشام خدا کو یاد کرتے رہو ۔- اور آیت : ۔ وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس 87] اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کی طرف وحی بھیجی میں موسیٰ اور ان کے بھائی کی طرف یکساں قسم کی وحی بھیجنا مراد نہیں ہے بلکہ موسیٰ علیہ اسلام کی طر وحی تو حضرت جبریل کی وسا طت سے آتی تھی مگر ہارون (علیہ السلام) کی طرف حضرت موسیٰ اور جبریل (علیہ السلام) دونوں کی وساطت سے وحی کی جاتی ہے - رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- زاد - الزِّيادَةُ : أن ينضمّ إلى ما عليه الشیء في نفسه شيء آخر، يقال : زِدْتُهُ فَازْدَادَ ، وقوله وَنَزْداد كَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف 65] - ( زی د ) الزیادۃ - اس اضافہ کو کہتے ہیں جو کسی چیز کے پورا کرنے کے بعد بڑھا جائے چناچہ کہاجاتا ہے ۔ زدتہ میں نے اسے بڑھا یا چناچہ وہ بڑھ گیا اور آیت :۔ وَنَزْدادُكَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف 65] اور ( اس کے حصہ کا ) ایک بار شتر غلہ اور لیں گے ۔
(١١٤) سو اللہ تعالیٰ جو بادشاہ حقیقی ہے وہ شریک اور اولاد سے پاک ہے اور اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ قرآن حکیم پڑھنے میں اس سے پہلے کہ آپ اس کی وحی پوری نازل ہوچکے جلدی نہ کیا کیجیے کیوں کہ جبریل امین (علیہ السلام) جس وقت آپ کے پاس کوئی آیت قرآنیہ لے کر آتے، تو جبریل امین اس آیت کی قرأت سے فارغ نہیں ہوپاتے تھے، یہاں تک کہ رسوک اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسی آیت کو شروع سے پڑھنا شروع کردیتے اس خیال سے کہ کہیں اس آیت کو میں بھول نہ جاؤں تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس سے روک دیا اور فرمایا کہ آپ تو یہ دعا کیا کیجیے اے میرے رب قرآن کریم کے بارے میں میرے حافظہ فہم اور حکمت اور بڑھا دے۔- شان نزول : ( آیت) ”۔ ولا تعجل بالقران “۔ (الخ)- ابن ابی حاتم (رح) نے سدی (رح) سے روایت کیا ہے کہ جبریل امین (علیہ السلام) رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جب قرآن کریم لے کر آتے تو آپ اس کے یاد کرنے کی فکر میں اپنے آپ کو مشقت میں ڈال دیتے یہاں تک کہ آپ کو اس سے تکلیف ہونے لگتی، محض اس خوف کی بنا پر کہ کہیں جبریل امین (علیہ السلام) میرے یاد کرنے سے قبل تشریف نہ لے جائیں گے، اس پر یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی یعنی آپ قرآن کریم پڑھنے کے قبل اس کے کہ آپ پر اس کی وحی پوری نازل ہوچکے جلدی نہ کیا کیجیے، امام سیوطی (رح) فرماتے ہیں کہ اس آیت کے بارے میں سورة نساء میں دوسرا شان نزول بھی گزر چکا ہے مگر یہ زیادہ صحیح ہے۔
(وَلَا تَعْجَلْ بالْقُرْاٰنِ مِنْ قَبْلِ اَنْ یُّقْضٰٓی اِلَیْکَ وَحْیُہٗز) ” - ” عجلت “ کا مضمون یہاں چوتھی مرتبہ آیا ہے۔ (وضاحت کے لیے ملاحظہ ہو آیت نمبر ٨٣ کی تشریح) ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا جا رہا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قرآن کے معاملے میں جلدی نہ کریں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا شوق بجا مگر وحی سے متعلق تمام معاملات (وقت ‘ مقدار ‘ مضمون وغیرہ) اللہ کی حکمت اور مشیت کے مطابق طے پائیں تو اسی میں خیر اور بہتری ہے۔- (وَقُلْ رَّبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا ) ” - جیسے جیسے قرآن نازل ہو رہا ہے ‘ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے اسرار و رموز سے متعلق اپنے فہم و تدبر اور بصیرت باطنی میں اضافے کے لیے اللہ تعالیٰ سے مسلسل دعا کرتے رہیں۔
سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :90 اس طرح کے فقرے قرآن میں بالعموم ایک تقریر کو ختم کرتے ہوئے ارشاد فرمائے جاتے ہیں ، اور مقصود یہ ہوتا ہے کہ کلام کا خاتمہ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا پر ہو ۔ انداز بیان اور سیاق و سباق پر غور کرنے سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہاں ایک تقریر ختم ہو گئی ہے اور : وَلَقَدْ عَھِدْنَآ اِلٰیٓ اٰدَمَ ۔ سے دوسری تقریر شروع ہوتی ہے ۔ اغلب یہ ہے کہ یہ دونوں تقریریں مختلف اوقات میں نازل ہوئی ہوں گی اور بعد میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم الہٰی کے تحت ان کو ایک سورہ میں جمع کر دیا ہو گا ۔ جمع کرنے کی وجہ دونوں کے مضمون کی مناسبت ہے جس کو ابھی ہم واضح کریں گے ۔ سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :91 فَتَعٰلَی اللہُ الْمَلِکُ الْحَقُّ ، پر تقریر ختم ہو چکی تھی ۔ اس کے بعد رخصت ہوتے ہوئے فرشتہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک بات پر خبردار کرتا ہے جو وحی نازل کرنے کے دوران میں اس کے مشاہدے میں آئی ۔ بیچ میں ٹوکنا مناسب نہ سمجھا گیا ، اس لیے پیغام کی ترسیل مکمل کرنے کے بعد اب وہ اس کا نوٹس لے رہا ہے ۔ بات کیا تھی جس پر یہ تنبیہ کی گئی ، اسے خود تنبیہ کے الفاظ ہی ظاہر کر رہے ہیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم وحی کا پیغام وصول کرنے کے دوران میں اسے یاد کرنے اور زبان سے دہرانے کی کوشش فرما رہے ہوں گے ۔ اس کوشش کی وجہ سے آپ کی توجہ بار بار بٹ جاتی ہو گی ۔ سلسلۂ اخذ وحی میں خلل واقع ہو رہا ہو گا ۔ پیغام کی سماعت پر توجہ پوری طرح مرکوز نہ ہو رہی ہو گی ۔ اس کیفیت کو دیکھ کر یہ ضرورت محسوس کی گئی کہ آپ کو پیغام وحی وصول کرنے کا صحیح طریقہ سمجھایا جائے ، اور بیچ بیچ میں یاد کرنے کی کوشش جو آپ کرتے ہیں اس سے منع کر دیا جائے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سورۂ طٰہ کا یہ حصہ ابتدائی زمانے کی وحیوں میں سے ہے ۔ ابتدائی زمانہ میں جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ابھی اخذ وحی کی عادت اچھی طرح نہ پڑی تھی ، آپ سے کئی مرتبہ یہ فعل سرزد ہوا ہے اور ہر موقع پر کوئی نہ کوئی فقرہ اس پر آپ کو متنبہ کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ارشاد فرمایا گیا ہے ۔ سورۂ قیامہ کے نزول کے موقع پر بھی یہی ہوا تھا اور اس پر سلسلۂ کلام کو توڑ کر آپ کو ٹوگا گیا کہ : لَا تُحَرِّکْ بِہ لِسَانَکَ لِتَعْجَلَ بِہ ، اِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہ وَقُرْاٰنَہ ، فَاِذَا قَرَأ نٰہُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَہ ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَہٗ ۔ اسے یاد کرنے کی جلدی میں اپنی زبان کو بار بار حرکت نہ دو ، اسے یاد کرا دینا اور پڑھوا دینا ہمارے ذمہ ہے ، لہٰذا جب ہم اسے سنا رہے ہوں تو غور سے سنتے رہو ، پھر اس کا مطلب سمجھا دینا بھی ہمارے ہی ذمہ ہے ۔ سورۂ اعلیٰ میں بھی آپ کو اطمینان دلایا گیا ہے کہ ہم اسے پڑھوا دیں گے اور آپ بھولیں گے نہیں ، : سَنْقْرئُکَ فَلَا تَنْسٰی ۔ بعد میں جب آپ کو پیغامات وحی وصول کرنے کی اچھی مہارت حاصل ہو گئی تو اس طرح کی کیفیات آپ پر طاری ہونی بند ہو گئیں ۔ اسی وجہ سے بعد کی سورتوں میں ایسی کوئی تنبیہ ہمیں نہیں ملتی ۔
47: جب حضرت جبرئیل علیہ السلام قرآنِ کریم کی آیتیں وحی کے ذریعے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پر نازل کرتے، تو آپ اس ڈر سے کہ کہیں بھول نہ جائیں، ساتھ ساتھ ان آیتوں کو دہراتے رہتے تھے، جس سے ظاہر ہے کہ آپ کو سخت مشقت ہوتی تھی۔ اس آیت میں آپ سے فرمایا گیا ہے کہ آپ کو یہ محنت اٹھانے کی ضرورت نہیں ہے، اﷲ تعالیٰ خود ہی قرآنِ کریم کو آپ کے سینہ مبارک میں محفوظ فرما دے گا۔ یہی بات سورۂ قیامہ (۷۵:۱۶-۱۸)میں بھی فرمائی گئی ہے۔ 48: آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو اس دُعا کی تلقین فرما کر یہ حقیقت واضح کی گئی ہے کہ علم ایک ایسا سمندر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں، اور اِنسان کو علم کے کسی بھی درجے پر قناعت کر کے نہیں بیٹھنا چاہئے، بلکہ ہر وقت علم میں ترقی کی کوشش اور دعا کرتے رہنا چاہئے، اس دُعا میں یاد داشت کی قوت کی دُعا بھی شامل ہے، اور معلومات کی زیادتی اور ان کی صحیح سمجھ کی بھی۔