Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

انسان کو انسان کیوں کہا جاتا ہے ؟ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں انسان کو انسان اس لئے کہا جاتا ہے کہ اسے جو حکم سب سے پہلے فرمایا گیا یہ اسے بھول گیا ۔ مجاہد اور حسن فرماتے ہیں اس حکم کو حضرت آدم علیہ السلام نے چھوڑ دیا ۔ پھر حضرت آدم علیہ السلام کی شرافت وبزرگی کا بیان ہو رہا ہے کہ سورۃ بقرۃ سورۃ اعراف سورۃ حجر اور سورۃ کہف میں شیطان کے سجدہ نہ کرنے والے واقعہ کی پوری تفسیر بیان کی جاچکی ہے اور سورۃ ص میں بھی اس کا بیان آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ ۔ ان تمام سورتوں میں حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش کا پھر ان کی بزرگی کے اظہار کے لئے فرشتوں کو انہیں سجدہ کرنے کے حکم کا اور ابلیس کی مخفی عداوت کے اظہار کا بیان ہوا ہے ، اس نے تکبر کیا اور حکم الٰہی کا انکار کردیا ۔ اس وقت حضرت آدم علیہ السلام کو سمجھا دیا گیا کہ دیکھ یہ تیرا اور تیری بیوی حضرت حوا علیہ السلام کا دشمن ہے اس کے بہکاوے میں نہ آنا ورنہ محروم ہو کر جنت سے نکال دیے جاؤ گے اور سخت مشقت میں پڑ جاؤ گے ۔ روزی کی تلاش کی محنت سر پڑجائے گی ۔ یہاں تو بےمحنت ومشقت روزی پہنچ رہی ہے ۔ یہاں تو ناممکن ہے کہ بھوکے رہو ناممکن ہے کہ ننگے رہو اس اندورنی اور بیرونی تکلیف سے بچے ہوئے ہو ۔ پھریہاں نہ پیاس کی گرمی اندرونی طور سے ستائے ، نہ دھوپ کی تیزی کی گرمی بیرونی طور پر پریشان کرے اگر شیطان کے بہکاوے میں آگئے تو یہ راحتیں چھین لی جائیں گی اور ان کے مقابل کی تکلیفیں سامنے آجائیں گی ۔ لیکن شیطان نے اپنے جال میں انہیں پھانس لیا اور مکاری سے انہیں اپنی باتوں میں لے لیا قسمیں کھا کھا کر انہیں اپنی خیر خواہی کا یقین دلادیا ۔ پہلے ہی سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان سے فرما دیا تھا کہ جنت کے تمام میوے کھانا لیکن اس درخت کے نزدیک نہ جانا ۔ مگر شیطان نے انہیں اس قدر پھسلایا کہ آخرکار یہ اس درخت میں سے کھا بیٹھے ۔ اس نے دھوکہ کرتے ہوئے ان سے کہا کہ جو اس درخت کو کھا لیتا ہے وہ ہمیشہ یہیں رہتا ہے ۔ صادق ومصدوق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جنت میں ایک درخت ہے جس کے سائے تلے سوار سو سال تک چلا جائے گا لیکن تاہم وہ ختم نہ ہو گا اس کا نام شجرۃ الخلد ہے ( مسند احمد وابوداؤد طیالسی ) دونوں نے درخت میں سے کچھ کھایا ہی تھا کہ لباس اتر گیا اور اعضا ظاہر ہو گئے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو گندمی رنگ کا لمبے قدوقامت والازیادہ بالوں والا بنایا تھا کھجور کے درخت جتنا قد تھا ممنوع درخت کو کھاتے ہی لباس چھن گیا ۔ اپنے ستر کو دیکھتے ہی مارے شرم کے ادھر ادھر چھپنے لگے ، ایک درخت میں بال الجھ گئے ، جلدی سے چھڑانے کی کوشیش کر رہے تھے جب اللہ تعالیٰ نے آواز دی کہ آدم کیا مجھ سے بھاگ رہا ہے ؟ کلام رحمان سن کر ادب سے عرض کیا کہ اے اللہ مارے شرمندگی کے سرچھپانا چاہتا ہوں ۔ اچھا اب یہ تو فرما دے کہ توبہ اور رجوع کے بعد بھی جنت میں پہنچ سکتا ہوں ؟ جواب ملا کہ ہاں ۔ یہی معنی ہیں اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے ۔ آدم نے اپنے رب سے چند کلمات لے لئے جس کی بنا پر اللہ نے اسے پھر سے اپنی مہربانی میں لے لیا ۔ یہ روایت منقطع ہے اور اس کے مرفوع ہونے میں بھی کلام ہے ۔ جب حضرت آدم علیہ السلام و حضرت حوا علیہ السلام سے لباس چھن گیا تو اب جنت کے درختوں کے پتے اپنے جسم پر چپکانے لگے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہم فرماتے ہیں انجیر کے پتوں سے اپنا آپ چھپانے لگے ۔ اللہ کی نافرمانی کی وجہ سے راہ راست سے ہٹ گئے ۔ لیکن آخرکار اللہ تعالیٰ نے پھر ان کی رہنمائی کی ۔ توبہ قبول فرمائی اور اپنے خاص بندوں میں شامل کر لیا ۔ صحیح بخاری شریف وغیرہ میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت آدم علیہ السلام میں گفتگو ہوئی ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام فرمانے لگے آپ نے اپنے گناہ کی وجہ سے تمام انسانوں کو جنت سے نکلوا دیا اور انہیں مشقت میں ڈال دیا ۔ حضرت آدم علیہ السلام جواب دیا اے موسیٰ آپ کو اللہ تعالیٰ نے اپنی رسالت سے اور اپنے کلام سے ممتاز فرمایا آپ مجھے اس بات پر الزام دیتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے میری پیدائش سے پہلے مقدر اور مقرر کرلیا تھا ۔ پس حضرت آدم علیہ السلام نے اس گفتگو میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو لاجواب کردیا ۔ اور روایت میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا یہ فرمان بھی ہے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا تھا اور آپ میں آپ کی روح اس نے پھونکی تھی ۔ اور آپ کے سامنے اپنے فرشتوں کو سجدہ کرایا تھا اور آپ کو اپنی جنت میں بسایا تھا ۔ حضرت آدم علیہ السلام کے اس جواب میں یہ بھی مروی ہے کہ اللہ نے آپ کو وہ تختیاں دیں جن میں ہر چیز کا بیان تھا اور سرگوشی کرتے ہوئے آپ کو قریب کر لیا بتلاؤ اللہ نے تورات کب لکھی تھی؟ جواب دیا آپ سے چالیس سال پہلے پوچھا کیا اس میں یہ لکھا ہوا تھا کہ حضرت آدم علیہ السلام نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور راہ بھول گیا کہا ہاں ۔ فرمایا پھر تم مجھے اس امر کا الزام کیوں دیتے ہو؟ جو میری تقدیر میں اللہ تعالیٰ نے میری پیدائش سے بھی چالیس سال پہلے لکھ دیا تھا ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

15۔ 1 نسیان، (بھول جانا) ہر انسان کی سرشت میں داخل ہے اور ارادے کی کمزوری یعنی فقدان عزم۔ یہ بھی انسانی خصلت میں بالعموم پائی جاتی ہے۔ یہ دونوں کمزوریاں ہی شیطان کے وسوسوں میں پھنس جانے کا باعث بنتی ہیں۔ اگر ان کمزوریوں میں اللہ کے حکم سے بغاوت و سرکشی کا جذبہ اور اللہ کی نافرمانی کا عزم مصمم شامل نہ ہو، تو بھول اور ضعف ارادہ سے ہونے والی غلطی عصمت و کمال نبوت کے منافی نہیں، کیونکہ اس کے بعد انسان فوراً نادم ہو کر اللہ کی بارگاہ میں جھک جاتا اور توبہ و استفغار میں مصروف ہوجاتا ہے۔ (جیسا کہ حضرت آدم (علیہ السلام) نے کیا) حضرت آدم (علیہ السلام) کو اللہ نے سمجھایا تھا کہ شیطان تیرا اور تیری بیوی کا دشمن ہے، یہ تمہیں جنت سے نہ نکلوا دے گا۔ یہی وہ بات ہے جسے یہاں عہد سے تعبیر کیا گیا ہے۔ آدم (علیہ السلام) اس عہد کو بھول گئے اور اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو ایک درخت کے قریب جانے یعنی اس سے کچھ کھانے سے منع فرمایا تھا۔ حضرت آدم (علیہ السلام) کے دل میں یہ بات تھی کہ وہ اس درخت کے قریب نہیں جائیں گے۔ لیکن جب شیطان نے اللہ کی قسمیں کھا کر انھیں یہ باور کرایا کہ اس کا پھل تو یہ تاثیر رکھتا ہے کہ جو کھا لیتا ہے، اسے زندگی جاوداں اور دائمی بادشاہت مل جاتی ہے۔ تو ارادے پر قائم نہ رہ سکے اور اس فقدان عزم کی وجہ سے شیطانی وسوسے کا شکار ہوگئے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٨٣] یہاں سیدنا آدم (علیہ السلام) کے بھولنے کا ذکر، ذکر کی مناسبت سے فرمایا۔ یعنی چونکہ بھول جانا انسان کی فطرت میں داخل ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بار بار ذکر یا یاددہانی نازل کی جاتی رہی ہے۔ اور اس فطرت انسان کا آغاز ان کے باوا آدم سے ہی ہوگیا تھا۔ ان کا عزم اتنا مضبوط نہ تھا کہ وہ ہر وقت اللہ سے کئے ہوئے عہد کو یاد رکھتے۔ چناچہ ایک طویل مدت کے بعد جب کہ سیدنا آدم (علیہ السلام) اس عہد کو بھول ہی چکے تھے۔ شیطان کا داؤ چل گیا اور آپ شیطان کے فریب میں آگئے۔ اس مطلب سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بھول چوک انسان کی فطرت میں داخل ہے اور اس کا دوسرا مطلب یہ یہی بیان کیا جاتا ہے کہ انہوں نے بھول چوک کر اللہ کی نافرمانی کی تھی۔ ان کا ارادہ نافرمانی کا ہرگز نہیں تھا۔ اور اس مطلب کا نتیجہ آدم (علیہ السلام) کی سرکشی سے بریت ہے۔ ربط مضمون کے لحاظ سے پہلا مطلب ہی درست معلوم ہوتا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَلَقَدْ عَهِدْنَآ اِلٰٓى اٰدَمَ ۔۔ : ” عَھِدَ إِلَیْہِ “ کا معنی ” أَوْصَاہُ “ ہے کہ اس نے اسے تاکید کی۔ تاکید سے مراد مخصوص درخت کے قریب نہ جانے کا حکم ہے۔ ” نَسِیَ “ کا معنی عام طور پر ” وہ بھول گیا “ آتا ہے، مگر یہاں مراد جان بوجھ کر عمل ترک کرنا ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ ابلیس نے آدم و حوا ( علیہ السلام) کے دل میں یہ وسوسہ ڈالا اور ان دونوں کے لیے اپنے خیر خواہ ہونے کی قسم اٹھائی تھی : (مَا نَهٰىكُمَا رَبُّكُمَا عَنْ هٰذِهِ الشَّجَرَةِ اِلَّآ اَنْ تَكُوْنَا مَلَكَيْنِ اَوْ تَكُوْنَا مِنَ الْخٰلِدِيْنَ ) [ الأعراف : ٢٠ ] ” تم دونوں کے رب نے تمہیں اس درخت سے منع نہیں کیا مگر اس لیے کہ کہیں تم دونوں فرشتے بن جاؤ یا ہمیشہ رہنے والوں میں سے ہوجاؤ۔ “ معلوم ہوا کہ آدم (علیہ السلام) کو وہ درخت کھاتے وقت اللہ تعالیٰ کا حکم یاد تھا، مگر شیطان کے وسوسے سے لالچ میں آ کر حکم عدولی کر بیٹھے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے فعل کو عصیان (نافرمانی) قرار دیا، فرمایا : (وَعَصٰٓى اٰدَمُ رَبَّهٗ فَغَوٰى) [ طٰہٰ : ١٢١ ] ” اور آدم نے اپنے رب کی نافرمانی کی تو وہ بھٹک گیا۔ “ بھول کر کیے ہوئے عمل کو نافرمانی نہیں کہا جاتا۔ طبری نے حسن سند کے ساتھ ابن عباس (رض) کا قول نقل فرمایا ہے کہ ” فَنَسِيَ یَقُوْلُ فَتَرَکَ “ یعنی ” فَنَسِيَ “ کا معنی ” اس نے عمل ترک کردیا “ ہے۔ اس واقعہ کی تفصیل آگے آرہی ہے۔ - قرآن میں آدم (علیہ السلام) کا یہ قصہ چھٹی بار بیان ہو رہا ہے، اول سورة بقرہ، دوم اعراف، سوم حجر، چہارم بنی اسرائیل، پنجم کہف اور ششم یہاں اور ہر جگہ ایک خاص مقصد کے تحت مختلف انداز سے اس قصے کو دہرایا گیا ہے۔ یہاں ماقبل سے اس کی مناسبت کے سلسلہ میں چند وجوہ بیان کی گئی ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ اس کا تعلق آیت : (كَذٰلِكَ نَقُصُّ عَلَيْكَ مِنْ اَنْۢبَاۗءِ مَا قَدْ سَبَقَ ۚ ) [ طٰہٰ : ٩٩ ] (اسی طرح ہم تجھ سے ان چیزوں کی کچھ خبریں بیان کرتے ہیں جو پہلے گزر چکیں) سے ہے، یعنی اس آیت میں اشارہ فرمایا ہے کہ ہم قصے بیان فرمائیں گے، چناچہ اس کے تحت آدم (علیہ السلام) کا قصہ بیان فرما دیا۔ ایک مناسبت یہ ہے کہ ” رَّبِّ زِدْنِيْ عِلْمًا “ کہنے کا حکم دینے کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے علم میں اضافے کے لیے آدم (علیہ السلام) کا قصہ بیان فرمایا اور ایک مناسبت وہ ہے جو اوپر شاہ عبد القادر (رض) کی توضیح میں گزر چکی ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اور اس سے (بہت زمانہ) پہلے ہم آدم (علیہ السلام) کو ایک حکم دے چکے تھے (جس کا بیان آگے آتا ہے) سو ان سے غفلت (اور بےاحتیاطی) ہوگئی اور ہم نے (اس حکم کے اہتمام میں) ان میں پختگی (اور ثابت قدمی) نہ پائی اور (اس اجمال کی تفصیل اگر مطلوب ہو تو) وہ وقت یاد کرو جبکہ ہم نے فرشتوں سے ارشاد فرمایا کہ آدم (علیہ السلام) کے سامنے سجدہ (تحیت) کرو سب نے سجدہ کیا بجز ابلیس کے (کہ) اس نے انکار کیا پھر ہم نے (آدم سے) کہا کہ اے آدم (یاد رکھو) یہ بلاشبہ تمہارا اور تمہاری بی بی کا (اس وجہ سے) دشمن ہے (کہ تمہارے معاملہ میں مرد و ہوا) سو کہیں تم دونوں کو جنت سے نہ نکلوا دے (یعنی اس کے کہنے سے کوئی ایسا کام مت کر بیٹھنا کہ جنت سے باہر کئے جاؤ) پھر مصیبت (اکتساب معاش) میں پڑجاؤ ( اور ساتھ میں تمہاری بی بی بھی مگر زیادہ حصہ مصیبت کا تم کو بھگتنا پڑے اور) یہاں جنت میں تو تمہارے لئے یہ (آرام) ہے کہ تم نہ کبھی بھوکے ہو گے ( جس سے تکلیف ہو یا اس کی تدبیر میں دیر اور پریشانی ہو) اور نہ ننگے ہوں گے ( کہ کپڑا نہ ملے یا احتیاج کے اتنی دیر بعد ملے کہ تکلیف ہونے لگے) اور نہ یہاں پیاسے ہوگے (کہ پانی نہ ملے یا دیر ہونے سے تکلیف ہو) اور نہ دھوپ میں تپو گے (کیونکہ جنت میں دھوپ ہی نہیں اور مکان بھی ہر طرح پناہ کے ہیں بخلاف اس حالت کے کہ اگر جنت سے نکل کر دنیا میں گئے تو ساری مصیبتیں پیش آویں گی اس لئے ان امور کو پیش نظر رکھ کر خوب ہی ہوشیاری و بیداری سے رہنا) پھر ان کو شیطان نے (جھانسہ دیا یعنی) بہکایا، کہنے لگا کہ اے آدم کیا میں تم کو ہمیشگی (کی خاصیت) کا درخت بتلا دوں (کہ اس کے کھانے سے ہمیشہ شاد و آباد رہو اور ایسی بادشاہی جس میں کبھی ضعف نہ آوے سو ( اس کے بہکانے سے) دونوں نے اس درخت سے کھالیا (جس سے ممانعت ہوئی تھی اور شیطان نے اس کو شجرة الخلد کہہ کر بہکایا تھا) تو (اس کے کھاتے ہی) ان دونوں کے ستر ایک دوسرے کے سامنے کھل گئے اور (اپنا بدن ڈھانکنے کو) دونوں اپنے (بدن کے) اوپر جنت (کے درختوں) کے پتے چپکانے لگے اور آدم سے اپنے رب کا قصور ہوگیا سو (جنت میں ہمیشہ رہنے کا مقصد حاصل کرنے کے باب میں) غلطی میں پڑگئے پھر (جب انہوں نے معذرت کی تو) ان کے رب نے (زیادہ) مقبول بنا لیا سو ان پر (مہربانی سے) توجہ فرمائی اور راہ (راست) پر ہمیشہ قائم رکھا (کہ پھر ایسی خطا نہیں ہوئی اور جب درخت کھالیا تو) اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ دونوں کے دونوں جنت سے اترو (اور دنیا میں) ایسی حالت سے جاؤ کہ (تمہارے فرزندوں میں) ایک کا دشمن ایک ہوگا پھر اگر تمہارے پاس میری طرف سے کوئی ہدایت (کا ذریعہ یعنی رسول یا کتاب) پہنچے تو (تم میں) جو شخص میری اس ہدایت کا اتباع کرے گا تو وہ نہ (دنیا میں) گمراہ ہوگا اور نہ (آخرت میں) شقی ہوگا اور جو شخص میری اس نصیحت سے اعراض کرے گا تو اس کے لئے (قیامت) سے پہلے دنیا اور قبر میں) تنگی کا جینا ہوگا اور قیامت کے روز ہم اس کو اندھا کر کے (قبر سے) اٹھائیں گے وہ (تعجب سے) کہے گا کہ اے میرے رب آپ نے مجھ کو اندھا کر کے کیوں اٹھایا میں تو (دنیا میں) آنکھوں والا تھا ( مجھ سے ایسی کیا خطا ہوئی) ارشاد ہوگا کہ (جیسی تجھ کو سزا ہوئی ہے) ایسا ہی (تجھ سے عمل ہوا تھا وہ یہ کہ) تیرے پاس (انبیاء و علماء کے واسطے سے) ہمارے احکام پہنچے تھے پھر تو نے ان کا کچھ خیال نہ کیا اور ایسا ہی آج تیرا کچھ خیال نہ کیا جاوے گا (جیسا تو نے خیال نہ کیا تھا) اور (جس طرح کہ یہ سزا مناسب عمل دی گئی) اسی طرح (ہر) اس شخص کو ہم (مناسب عمل) سزا دیں گے جو حد (اطاعت) سے گزر جاوے اور اپنے رب کی آیتوں پر ایمان نہ لاوے اور واقعی آخرت کا عذاب ہے بڑا سخت اور بڑا دیرپا (کہ اس کے کہیں انتہا ہی نہیں تو اس سے بچنے کا بہت ہی اہتمام کرنا واجب ہے۔ )- معارف و مسائل - ربط :- یہاں سے حضرت آدم (علیہ السلام) کا قصہ بیان ہوتا ہے یہ قصہ اس سے پہلے سورة بقرہ اور اعراف میں پھر کچھ سورة حجر اور سورة کہف میں گزر چکا ہے اور آخر میں سورة صٓ میں آئے گا، ہر مقام پر اس کے مناسب اجزاء قصہ کو مع ہدایات متعلقہ کے بیان کیا گیا ہے۔- اس مقام پر اس قصہ کی مناسبت پچھلی آیات سے حضرات مفسرین نے مختلف پہلوؤں سے بیان فرمائی ہے ان میں سب سے زیادہ روشن اور بےغبار بات یہ ہے کہ سابقہ آیات میں یہ ارشاد آیا ہے كَذٰلِكَ نَقُصُّ عَلَيْكَ مِنْ اَنْۢبَاۗءِ مَا قَدْ سَبَقَ ، اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کر کے فرمایا گیا ہے کہ آپ کی نبوت و رسالت کے اثبات اور آپ کی امت کو متنبہ کرنے کے لئے ہم انبیاء سابقین کے حالات و واقعات آپ سے بیان کرتے ہیں جن میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا تفصیلی قصہ اس آیت سے پہلے بیان ہوچکا ہے اور ان تمام قصوں میں سب سے پہلا اور بعض حیثیات میں سب سے اہم حضرت آدم (علیہ السلام) کا قصہ ہے۔ یہاں سے اس کو شروع کیا گیا ہے جس میں امت محمدیہ کو اس پر تنبیہ کرنا ہے کہ شیطان تمام بنی آدم کا پرانا دشمن ہے اس نے سب سے پہلے تمہارے ماں باپ سے اپنی دشمنی نکالی اور طرح طرح کے حیلوں بہانوں اور ہمدردانہ مشوروں کے جال پھیلا کر ان کو ایک لغزش میں مبتلا کردیا جس کے نتیجہ میں جنت سے اترنے کے احکام جاری ہوئے اور جنت کی پوشاک ان سے سلب ہوگئی پھر حق تعالیٰ کی طرف رجوع اور لغزش کی معافی ہو کر ان کو رسالت و نبوت کا مقام بلند عطا ہوا۔ اس لئے تمام بنی آدم کو اغواء شیطانی سے کبھی بےفکر نہ ہونا چاہئے، احکام دین کے معاملے میں شیطانی وساوس اور حیلوں سے بچنے کا بڑا اہمتام کرنا چاہئے۔- وَلَقَدْ عَهِدْنَآ اِلٰٓى اٰدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهٗ عَزْمًا، اس میں لفظ عہدنا امرنا یا وصینا کے معنے میں ہے (بحر محیط) مطلب یہ ہے کہ ہم نے اس واقعہ کے متعلق آپ سے بہت پہلے آدم (علیہ السلام) کو ایک وصیت کی تھی یعنی تاکیدی حکم دیا تھا (جس کا ذکر سورة بقرہ وغیرہ میں بھی آ چکا ہے اور آگے بھی کچھ آ رہا ہے کہ ایک درخت کو معین کر کے بتلا دیا تھا کہ اس درخت کو یعنی اس کے پھل پھول یا کسی جز کو نہ کھانا اور اس کے قریب بھی نہ جانا، باقی ساری جنت کے باغات اور نعمتیں تمہارے لئے کھلی ہوئی ہیں ان کو استعمال کرتے رہو اور جیسا کے آگے آتا ہے یہ بھی بتلا دیا تھا کہ ا بلیس تمہارا دشمن ہے کہیں اس کے بہکانے میں نہ آجانا کہ تمہارے لئے مصیبت بنے مگر آدم (علیہ السلام) بھول گئے اور انہیں ہم نے ارادہ کی پختگی نہ پائی۔ یہاں دو لفظ آئے ہیں ایک نسیان دوسرے عزم، نسیان کے معنی مشہور ہیں بھول جانا، غفلت میں پڑجانا اور عزم کے لفظی معنے کسی کام کے لئے اپنے ارادے کو مضبوط باندھنے کے ہیں۔ ان دونوں لفظوں سے مراد اس جگہ کیا ہے اس کے سمجھنے سے پہلے یہ جان لینا ضروری ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے اوالعزم پیغمبروں میں سے ہیں اور پیغمبر سب کے سب گناہوں سے معصوم ہوتے ہیں۔- پہلے لفظ میں حضرت آدم (علیہ السلام) پر نسیان اور بھول طاری ہوجانے کا ذکر ہے اور چونکہ بھول اور نسیان غیر اختیاری امر ہے اس لئے اس کو گناہ ہی میں شمار نہیں کیا گیا جیسا کہ حدیث صحیح میں ہے رفع عن امتی الخطا و النسیان یعنی میری امت سے خطا اور نسیان کا گناہ معاف کردیا گیا ہے اور قرآن کریم کا ارشاد عام ہے لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا یعنی اللہ تعالیٰ کسی شخص کو ایسا حکم نہیں دیتے جو اس کے اختیار وقدرت سے باہر ہو۔ لیکن یہ بھی سب کو معلوم ہے کہ حق تعالیٰ نے اس عالم میں ایسے اسباب بھی رکھے ہیں کہ ان کو پوری احتیاط کے ساتھ استعمال کیا جائے تو انسان بھول اور خطا سے بچ سکتا ہے انبیاء (علیہم السلام) چونکہ حق تعالیٰ کے مقربین خاص ہیں ان سے اتنی بات پر بھی مواخذہ ہوسکتا ہے کہ ان اسباب اختیاریہ سے کیوں کام نہ لیا جن کے ذریعہ اس بھول سے بچ سکتے تھے۔ بسا اوقات ایک وزیر سلطنت کے لئے وہ کام قابل مواخذہ سمجھا جاتا ہے جو عام نوکروں کے لئے قابل انعام ہوتا ہے۔ اسی کو حضرت جنید بغدادی (رح) نے فرمایا ہے حسنات الابرار سیات المقربین، یعنی امت کے صالحین اور نیک لوگوں کے بہت سے نیک عمل مقربان بارگاہ الٰہی کے حق میں سیات اور لغزش قرار دی جاتی ہے۔- حضرت آدم (علیہ السلام) کا یہ واقعہ اول تو نبوت و رسالت سے پہلے کا ہے جس میں کسی گناہ کا صدور انبیاء سے بعض علمائے اہل سنت کے نزدیک عصمت کے خلاف نہیں۔ دوسرے درحقیقت یہ بھول ہے جو گناہ نہیں مگر حضرت آدم (علیہ السلام) کے مقام بلند اور تقرب حق سبحانہ و تعالیٰ کے لحاظ سے اس کو بھی ان کے حق میں ایک لغزش قرار دی گئی جس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے عتاب ہوا اور ان کو متنبہ کرنے کے لئے اس لغزش کو عصیان کے لفظ سے تعبیر کیا گیا جیسا کہ آگے آتا ہے۔- دوسرا لفظ عزم ہے اور اسی آیت میں یہ فرمایا کہ آدم (علیہ السلام) میں عزم نہ پایا گیا اوپر معلوم ہوچکا ہے کہ عزم کے معنی کسی کام کے ارادہ پر مضبوطی سے قائم رہنے کے ہیں۔ حضرت آدم (علیہ السلام) حکم ربانی کی تعمیل کا مکمل فیصلہ اور قصد کئے ہوئے تھے مگر شیطانی وساوس سے اس قصد کی مضبوطی میں فرق آ گیا اور بھول نے اس پر قائم نہ رہنے دیا۔ واللہ اعلم

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلَقَدْ عَہِدْنَآ اِلٰٓى اٰدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَہٗ عَزْمًا۝ ١١٥ۧ- عهد - العَهْدُ : حفظ الشیء ومراعاته حالا بعد حال، وسمّي الموثق الذي يلزم مراعاته عَهْداً.- قال : وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كانَ مَسْؤُلًا[ الإسراء 34] ، أي : أوفوا بحفظ الأيمان، قال : لا يَنالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ [ البقرة 124] - ( ع ھ د ) العھد - ( ض ) کے معنی ہیں کسی چیز کی پیہم نگہہ داشت اور خبر گیری کرنا اس بنا پر اس پختہ وعدہ کو بھی عھد کہاجاتا ہے جس کی نگہداشت ضروری ہو ۔ قرآن میں ہے : وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كانَ مَسْؤُلًا[ الإسراء 34] اور عہد کو پورا کرو کہ عہد کے بارے میں ضرور پرسش ہوگی ۔ یعنی اپنی قسموں کے عہد پورے کرو ۔ لا يَنالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ [ البقرة 124] کہ ظالموں کے حق میں میری ذمہ داری پوری نہیں ہوسکتی ۔- آدم - آدم أبو البشر، قيل : سمّي بذلک لکون جسده من أديم الأرض، وقیل : لسمرةٍ في لونه . يقال : رجل آدم نحو أسمر، وقیل : سمّي بذلک لکونه من عناصر مختلفة وقوی متفرقة، كما قال تعالی: مِنْ نُطْفَةٍ أَمْشاجٍ نَبْتَلِيهِ [ الإنسان 2] . ويقال : جعلت فلاناً أَدَمَة أهلي، أي : خلطته بهم وقیل : سمّي بذلک لما طيّب به من الروح المنفوخ فيه المذکور في قوله تعالی: وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر 29] ، وجعل له العقل والفهم والرّوية التي فضّل بها علی غيره، كما قال تعالی: وَفَضَّلْناهُمْ عَلى كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقْنا تَفْضِيلًا [ الإسراء 70] ، وذلک من قولهم : الإدام، وهو ما يطيّب به الطعام وفي الحدیث : «لو نظرت إليها فإنّه أحری أن يؤدم بينكما» أي : يؤلّف ويطيب .- ( ادم ) ادم - ۔ ابوالبشیر آدم (علیہ السلام) بعض نے کہا ہے ۔ کہ یہ ادیم لارض سے مشتق ہے اور ان کا نام آدم اس لئے رکھا گیا ہے کہ ان کے جسم کو بھی ادیم ارض یعنی روئے زمین کی مٹی سے پیدا کیا گیا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ ادمۃ سے مشتق ہے جس کے معنی گندمی رنگ کے ہیں ۔ چونکہ آدم (علیہ السلام) بھی گندمی رنگ کے تھے اس لئے انہیں اس نام سے مسوسوم کیا گیا ہے چناچہ رجل آدم کے معنی گندمی رنگ مرد کے ہیں ۔ اور بعض آدم کی وجہ تسمیہ بیان ہے کہ وہ مختلف عناصر اور متفرق قویٰ کے امتزاج سے پیدا کئے گئے تھے ۔ جیسا کہ آیت أَمْشَاجٍ نَبْتَلِيهِ ( سورة الإِنْسان 2) مخلوط عناصر سے ۔۔۔۔ کہ اسے آزماتے ہیں ۔ سے معلوم ہوتا ہے۔ چناچہ محاورہ ہے جعلت فلانا ادمہ اھلی میں فلاں کو اپنے اہل و عیال میں ملالیا مخلوط کرلیا ۔ بعض نے کہا ہے کہ آدم ادام سے مشتق ہے اور ادام ( سالن وغیرہ ہر چیز کو کہتے ہیں جس سے طعام لو لذیز اور خوشگوار محسوس ہو اور آدم میں بھی اللہ تعالیٰ نے اپنی روح ڈال کر اسے پاکیزہ بنا دیا تھا جیسے کہ آیت و نفخت فیہ من روحی (38 ۔ 72) اور اس میں اپنی روح پھونک دوں ۔ میں مذکور ہے اور پھر اسے عقل و فہم اور فکر عطا کرکے دوسری مخلوق پر فضیلت بھی دی ہے جیسے فرمایا : وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَى كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا ( سورة الإسراء 70) اور ہم نے انہیں اپنی بہت سی مخلوق پر فضیلت دی ۔ اس بناء پر ان کا نام آدم رکھا گیا ہے اور حدیث میں ہے (8) لو نظرت الیھا فانہ احری ان یودم بینکما اگر تو اسے اپنی منگیرکو ایک نظر دیکھ لے تو اس سے تمہارے درمیان الفت اور خوشگواری پیدا ہوجانے کا زیادہ امکان ہے ۔- نسی - النِّسْيَانُ : تَرْكُ الإنسانِ ضبطَ ما استودِعَ ، إمَّا لضَعْفِ قلبِهِ ، وإمَّا عن غفْلةٍ ، وإمَّا عن قصْدٍ حتی يَنْحَذِفَ عن القلبِ ذِكْرُهُ ، يقال : نَسِيتُهُ نِسْيَاناً. قال تعالی: وَلَقَدْ عَهِدْنا إِلى آدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْماً [ طه 115] ، فَذُوقُوا بِما نَسِيتُمْ [ السجدة 14] ، فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَما أَنْسانِيهُ إِلَّا الشَّيْطانُ [ الكهف 63] ، لا تُؤاخِذْنِي بِما نَسِيتُ [ الكهف 73] ، فَنَسُوا حَظًّا مِمَّا ذُكِّرُوا بِهِ [ المائدة 14] ، ثُمَّ إِذا خَوَّلَهُ نِعْمَةً مِنْهُ نَسِيَ ما کانَ يَدْعُوا إِلَيْهِ مِنْ قَبْلُ [ الزمر 8] ، سَنُقْرِئُكَ فَلا تَنْسى[ الأعلی 6] إِخبارٌ وضَمَانٌ من اللهِ تعالیٰ أنه يجعله بحیث لا يَنْسَى ما يسمعه من الحقّ ، وكلّ نسْيانٍ من الإنسان ذَمَّه اللهُ تعالیٰ به فهو ما کان أصلُه عن تعمُّدٍ. وما عُذِرَ فيه نحو ما رُوِيَ عن النبيِّ صلَّى اللَّه عليه وسلم : «رُفِعَ عَنْ أُمَّتِي الْخَطَأُ وَالنِّسْيَانُ» فهو ما لم يكنْ سَبَبُهُ منه . وقوله تعالی: فَذُوقُوا بِما نَسِيتُمْ لِقاءَ يَوْمِكُمْ هذا إِنَّا نَسِيناكُمْ [ السجدة 14] هو ما کان سببُهُ عن تَعَمُّدٍ منهم، وترْكُهُ علی طریقِ الإِهَانةِ ، وإذا نُسِبَ ذلك إلى اللہ فهو تَرْكُهُ إيّاهم استِهَانَةً بهم، ومُجازاة لِما ترکوه . قال تعالی: فَالْيَوْمَ نَنْساهُمْ كَما نَسُوا لِقاءَ يَوْمِهِمْ هذا[ الأعراف 51] ، نَسُوا اللَّهَ فَنَسِيَهُمْ [ التوبة 67] وقوله : وَلا تَكُونُوا كَالَّذِينَ نَسُوا اللَّهَ فَأَنْساهُمْ أَنْفُسَهُمْ [ الحشر 19] فتنبيه أن الإنسان بمعرفته بنفسه يعرف اللَّهَ ، فنسیانُهُ لله هو من نسیانه نَفْسَهُ. وقوله تعالی: وَاذْكُرْ رَبَّكَ إِذا نَسِيتَ [ الكهف 24] . قال ابن عباس : إذا قلتَ شيئا ولم تقل إن شاء اللَّه فَقُلْهُ إذا تذكَّرْتَه «2» ، وبهذا أجاز الاستثناءَ بعد مُدَّة، قال عکرمة «3» : معنی «نَسِيتَ» : ارْتَكَبْتَ ذَنْباً ، ومعناه، اذْكُرِ اللهَ إذا أردتَ وقصدتَ ارتکابَ ذَنْبٍ يكنْ ذلک دافعاً لك، فالنِّسْيُ أصله ما يُنْسَى کالنِّقْضِ لما يُنْقَض، - ( ن س ی ) النسیان - یہ سنیتہ نسیانا کا مصدر ہے اور اس کے معنی کسی چیز کو ضبط میں نہ رکھنے کے ہیں خواہ یہ ترک ضبط ضعف قلب کی وجہ سے ہو یا ازارہ غفلت ہو یا قصدا کسی چیز کی یاد بھلا دی جائے حتیٰ کہ وہ دل سے محو ہوجائے قرآن میں ہے : ۔ وَلَقَدْ عَهِدْنا إِلى آدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْماً [ طه 115] ہم نے پہلے آدم (علیہ السلام) سے عہد لیا تھا مگر وہ اسے بھول گئے اور ہم نے ان میں صبر وثبات نہ دیکھا ۔ فَذُوقُوا بِما نَسِيتُمْ [ السجدة 14] سو اب آگ کے مزے چکھو اس لئے کہ تم نے اس دن کے آنے کو بھلا رکھا تھا ۔ فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَما أَنْسانِيهُ إِلَّا الشَّيْطانُ [ الكهف 63] تو میں مچھلی وہیں بھول گیا ۔ اور مجھے آپ سے اس کا ذکر کرنا شیطان نے بھلا دیا ۔ لا تُؤاخِذْنِي بِما نَسِيتُ [ الكهف 73] کہ جو بھول مجھ سے ہوئی اس پر مواخذاہ نہ کیجئے فَنَسُوا حَظًّا مِمَّا ذُكِّرُوا بِهِ [ المائدة 14] مگر انہوں نے بھی اس نصیحت کا جوان کو کی گئی تھی ایک حصہ فراموش کردیا ۔ ثُمَّ إِذا خَوَّلَهُ نِعْمَةً مِنْهُ نَسِيَ ما کانَ يَدْعُوا إِلَيْهِ مِنْ قَبْلُ [ الزمر 8] پھر جب وہ اس کو اپنی طرف سے کوئی نعمت دے دیتا ہے تو جس کام کے لئے پہلے اس کو پکارتا ہے اسے بھول جاتا ہے اور آیت سَنُقْرِئُكَ فَلا تَنْسى[ الأعلی 6] ہم تمہیں پڑھائیں گے کہ تم فراموش نہ کرو گے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس بات کی ضمانت دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ تجھے ایسا بنادے گا کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے سنو گے اسے بھولنے نہیں پاؤ گے پھر ہر وہ نسیان جو انسان کے قصد اور ارداہ سے ہو وہ مذموم ہے اور جو بغیر قصد اور ارادہ کے ہو اس میں انسان معزور ہے اور حدیث میں جو مروی ہے رفع عن امتی الخطاء والنیان کہ میری امت کو خطا اور نسیان معاف ہے تو اس سے یہی دوسری قسم کا نسیان مراد ہے یعنیوی جس میں انسان کے ارادہ کو دخل نہ ہو اور آیت کریمہ : ۔ فَذُوقُوا بِما نَسِيتُمْ لِقاءَ يَوْمِكُمْ هذا إِنَّا نَسِيناكُمْ [ السجدة 14] سو اب آگ کے مزے چکھو اس لئے کہ تم نے اس دن کے آنے کو بھلا رکھا تھا ۔ میں نسیان بمعنی اول ہے یعنی وہ جس میں انسان کے قصد اور ارادہ کو دخل ہو اور کسی چیز کو حقیر سمجھ کرا سے چھوڑ دیا جائے ۔ پھر جب نسیان کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو اس سے ازراہ اہانث انسان کو چھوڑ ینے اور احکام الہیٰ کے ترک کرنے کی وجہ سے اسے سزا دینے کے معنی مراد ہوتے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَالْيَوْمَ نَنْساهُمْ كَما نَسُوا لِقاءَ يَوْمِهِمْ هذا[ الأعراف 51] تو جس طرح یہ لوگ اس دن کے آنے کو بھولے ہوئے تھے اس طرح آج ہم بھی انہیں بھلا دیں گے ۔ نَسُوا اللَّهَ فَنَسِيَهُمْ [ التوبة 67] انہوں نے خدا کو بھلا یا تو خدا نے بھی ان کو بھلا دیا ۔ وَلا تَكُونُوا كَالَّذِينَ نَسُوا اللَّهَ فَأَنْساهُمْ أَنْفُسَهُمْ [ الحشر 19] اور ان لوگوں جیسے نہ ہونا جنہوں نے خدا کو بھلا دیا تو خدا نے انہیں ایسا کردیا کہ خود اپنے تئیں بھول گئے ۔ میں متنبہ کیا ہے کہ انسان اپنے نفس کی معرفت حاصل کرنے سے ہی معرفت الہیٰ حاصل کرسکتا ہے لہذا انسان کا اللہ تعالیٰ کو بھلا دینا خود اپنے آپکو بھال دینے کے مترادف ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَاذْكُرْ رَبَّكَ إِذا نَسِيتَ [ الكهف 24] اور جب خدا کا نام لینا بھال جاؤ تو یاد آنے پر لے لو ۔ کے ابن عباس نے یہ معنی کئے ہیں کہ جب تم کوئی بات کہو اور اس کے ساتھ انشاء اللہ کہنا بھول جاؤ تو یاد آنے پر انشاء اللہ کہہ لیا کرو ۔ اسی لئے ابن عباس کے نزدیک حلف میں کچھ مدت کے بعد بھی انشاء اللہ کہنا جائز ہے اور عکرمہ نے کہا ہے کہ نسیت بمعنی ارتکبت ذنبا کے ہے ۔ اور آیت کے معنی یہ ہیں ۔ کہ جب تمہیں کسی گناہ کے ارتکاب کا خیال آئے تو اس وسوسہ کو دفع کرنے کے لئے خدا کے ذکر میں مشغول ہوجایا کرو تاکہ وہ وسوسہ دفع ہوجائے ۔ النسی کے اصل معنی ماینسیٰ یعنی فراموش شدہ چیز کے ہیں جیسے نقض بمعنی ماینقض آتا ہے ۔ مگر عرف میں نسی اس معمولی چیز کو کہتے ہیں جو در خود اعتناء نہ سمجھی جائے - وجد - الوجود أضرب : وجود بإحدی الحواسّ الخمس . نحو : وَجَدْتُ زيدا، ووَجَدْتُ طعمه .- ووجدت صوته، ووجدت خشونته . ووجود بقوّة الشّهوة نحو : وَجَدْتُ الشّبع . ووجود بقوّة الغضب کو جود الحزن والسّخط . ووجود بالعقل، أو بواسطة العقل کمعرفة اللہ تعالی، ومعرفة النّبوّة، وما ينسب إلى اللہ تعالیٰ من الوجود فبمعنی العلم المجرّد، إذ کان اللہ منزّها عن الوصف بالجوارح والآلات . نحو : وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف 102] . - ( و ج د ) الو جود - ( ض) کے معنی کسی چیز کو پالینا کے ہیں اور یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے حواس خمسہ میں سے کسی ایک حاسہ کے ساتھ اور اک کرنا جیسے وجدت طعمہ ( حاسہ ذوق ) وجدت سمعہ ( حاسہ سمع ) وجدت خثومتہ حاسہ لمس ) قوی باطنہ کے ساتھ کسی چیز کا ادراک کرنا ۔ جیسے وجدت الشبع ( میں نے سیری کو پایا کہ اس کا تعلق قوت شہو یہ کے ساتھ ہے ۔ وجدت الحزن وا لسخط میں نے غصہ یا غم کو پایا اس کا تعلق قوت غضبہ کے ساتھ ہے ۔ اور بذریعہ عقل کے کسی چیز کو پالیتا جیسے اللہ تعالیٰ یا نبوت کی معرفت کہ اسے بھی وجدان کہا جاتا ہے ۔ جب وجود پالینا ) کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی جائے تو اس کے معنی محض کسی چیز کا علم حاصل کرلینا کے ہوتے ہیں کیونکہ ذات باری تعالیٰ جوارح اور آلات کے ذریعہ کسی چیز کو حاصل کرنے سے منزہ اور پاک ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف 102] اور ہم نے ان میں سے اکثروں میں عہد کا نباہ نہیں دیکھا اور ان میں اکثروں کو ( دیکھا تو ) بد عہد دیکھا ۔- عزم - العَزْمُ والعَزِيمَةُ : عقد القلب علی إمضاء الأمر، يقال : عَزَمْتُ الأمرَ ، وعَزَمْتُ عليه، واعْتَزَمْتُ. قال : فَإِذا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ [ آل عمران 159] ، وَلا تَعْزِمُوا عُقْدَةَ النِّكاحِ [ البقرة 235] ، وَإِنْ عَزَمُوا الطَّلاقَ [ البقرة 227] ، إِنَّ ذلِكَ لَمِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ [ الشوری 43] ، وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْماً [ طه 115] ، أي : محافظة علی ما أمر به وعَزِيمَةً علی القیام . والعَزِيمَةُ : تعویذ، كأنّه تصوّر أنّك قد عقدت بها علی الشّيطان أن يمضي إرادته فيك . وجمعها : العَزَائِمُ.- ( ع ز م ) العزم - والعزیمۃ کسی کام کو قطعی اور حتمی طور پر کرنے کا ارادہ کرنا عزمت الامر وعزمت علیہ واعتزمت میں نے اس کام کو قطعی طور پر کرنے کا ارادہ کرلیا قرآن میں ہے : ۔ فَإِذا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ [ آل عمران 159] جب کسی کام کا عزم مصمم کرلو تو خدا پر بھروسہ رکھو ۔ وَلا تَعْزِمُوا عُقْدَةَ النِّكاحِ [ البقرة 235] اور نکاح کا پختہ ارادہ نہ کرنا ۔ وَإِنْ عَزَمُوا الطَّلاقَ [ البقرة 227] اور اگر طلاق کا ارادہ کرلیں إِنَّ ذلِكَ لَمِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ [ الشوری 43] بیشک یہ بڑی ہمت کے کام ہیں ۔ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْماً [ طه 115] اور ہم نے ان میں صبر وثبات نہ پایا ۔ یعنی جس کا انہیں حکم دیا گیا تھا اسکی حفاظت کرنے اور اسے بجا لانے میں ثابت قدم نہ پایا ۔ العزیمۃ ایک قسم کا گنڈہ اور تعویز جس میں اس خیال سے گر ہیں لگائی جاتی تھیں کہ گویا شیطان کو ایزا رسانی سے روک دیا گیا ہے عزیمۃ کی جمع عذایم آتی ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١١٥) اور حضرت آدم (علیہ السلام) کے اس درخت میں سے کھانے سے پہلے یا یہ کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے ہم حضرت آدم (علیہ السلام) کو ایک حکم دے چکے تھے تو ان سے اس حکم کی بجا آوری میں غفلت اور بےاحتیاطی ہوگی اور ہم نے ان میں (مردوں والی) پختگی اور ثابت قدمی نہ پائی۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١١٥ (وَلَقَدْ عَہِدْنَآ اِلآی اٰدَمَ مِنْ قَبْلُ ) ” - یعنی مخصوص درخت کے پاس نہ جانے کا عہد ‘ جس کا ذکر قرآن میں متعدد بار ہوا ہے۔- (فَنَسِیَ وَلَمْ نَجِدْ لَہٗ عَزْمًا ) ” - آیت زیر نظر میں ” عزم “ کے دو ترجمے کیے گئے ہیں اور دونوں صحیح ہیں۔ ایک ارادے کی پختگی۔ اس لحاظ سے وَلَمْ نَجِدْ لَہٗ عَزْمًا کا مفہوم یہ ہوگا کہ ہم نے آدم ( علیہ السلام) کے اندر ارادے کی پختگی ‘ ہمت اور عزیمت نہیں پائی۔ وہ اللہ سے کیے گئے اپنے عہد کو نبھا نہ سکے اور اس اعتبار سے انہوں نے کمزوری کا مظاہرہ کیا۔ یہ دراصل انسانی خلقت کے اندر موجود اس کمزوری کی طرف اشارہ ہے جس کا ذکر سورة النساء میں اس طرح آیا ہے : (وَخُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِیْفًا ) کہ انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے۔- اس کا دوسرا ترجمہ یہ کیا گیا ہے کہ ہم نے اس کے اندر (سرکشی کا) ارادہ نہیں پایا۔ یعنی آدم ( علیہ السلام) نے جان بوجھ کر اس عہد کی خلاف ورزی نہیں کی تھی۔ ہم نے ان ( علیہ السلام) کی نیت میں سرکشی ‘ بغاوت اور نافرمانی کا کوئی ارادہ نہیں دیکھا۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ بھول گئے تھے ‘ ان پر نسیان طاری ہوگیا تھا ‘ جس کی وجہ سے انہیں وقتی طور پر اللہ کا وہ عہد یاد نہیں رہا تھا۔ نسیان دراصل انسان کی ایک فطری کمزوری ہے اور اسی حوالے سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ عظیم دعا سکھائی ہے : (رَبَّنَا لاَ تُؤَاخِذْنَآ اِنْ نَّسِیْنَآ اَوْ اَخْطَاْنَا ج) (البقرۃ : ٢٨٦) کہ اے ہمارے پروردگار ہمارا مواخذہ نہ کرنا اگر ہم بھول جائیں یا ہم سے خطا ہوجائے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :92 جیسا کہ ابھی بتایا جا چکا ہے ، یہاں سے ایک الگ تقریر شروع ہوتی ہے جو اغلباً اوپر والی تقریر کے بعد کسی وقت نازل ہوئی ہے اور مضمون کی مناسبت سے اس کے ساتھ ملا کر ایک ہی سورہ میں جمع کر دی گئی ہے ۔ مضمون کی مناسبتیں متعدد ہیں ۔ مثلاً یہ کہ: 1 ) وہ بھولا ہوا سبق جسے قرآن یاد دلا رہا ہے وہی سبق ہے جو نوع انسانی کو اس کی پیدائش کے آغاز میں دیا گیا تھا اور جسے یاد دلاتے رہنے کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا تھا ، اور جسے یاد دلانے کے لیے قرآن سے پہلے بھی بار بار ذکر آتے رہے ہیں ۔ 2 ) انسان اس سبق کو بار بار شیطان کے بہکانے سے بھولتا ہے ، اور یہ کمزوری وہ آغاز آفرینش سے برابر دکھا رہا ہے ۔ سب سے پہلی بھول اس کے اولین ماں باپ کو لاحق ہوئی تھی اور اس کے بعد سے اس کا سلسلہ برابر جاری ہے ، اسی لیے انسان اس کا محتاج ہے کہ اس کو پیہم یاد دہانی کرائی جاتی رہے ۔ 3 ) یہ بات کہ انسان کی سعادت و شقاوت کا انحصار بالکل اس برتاؤ پر ہے جو اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے اس ذکر کے ساتھ وہ کرے گا ، آغاز آفرینش ہی میں صاف صاف بتا دی گئی تھی آج یہ کوئی نئی بات نہیں کہی جا رہی ہے کہ اس کی پیروی کرو گے تو گمراہی و بد بختی سے محفوظ رہو گے ورنہ دنیا و آخرت دونوں میں مبتلا ئے مصیبت ہو گے ۔ 4 ) ایک چیز ہے بھول اور عزم کی کمی اور ارادے کی کمزوری جس کی وجہ سے انسان اپنے ازلی دشمن شیطان کے بہکائے میں آجائے اور غلطی کر بیٹھے ۔ اس کی معافی ہو سکتی ہے بشرطیکہ انسان غلطی کا احساس ہوتے ہی اپنے رویے کی اصلاح کر لے اور انحراف چھوڑ کر اطاعت کی طرف پلٹ آئے ۔ دوسری چیز ہے وہ سرکشی اور سرتابی اور خوب سوچ سمجھ کر اللہ کے مقابلے میں شیطان کی بندگی جس کا ارتکاب فرعون اور سامری نے کیا ۔ اس چیز کے لیے معافی کا کوئی امکان نہیں ہے ۔ اس کا انجام وہی ہے جو فرعون اور سامری نے دیکھا اور یہ انجام ہر وہ شخص دیکھے گا جو اس روش پر چلے گا ۔ سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :93 آدم علیہ السلام کا قصہ اس سے پہلے سورہ بقرہ ، سورہ اعراف ( دو مقامات پر ) ، سورہ حجر ، سورہ بنی اسرائیل اور سورہ کہف میں گزر چکا ہے ۔ یہ ساتواں موقع ہے جبکہ اسے دہرایا جا رہا ہے ۔ ہر جگہ سلسلہ بیان سے اس کی مناسبت الگ ہے اور ہر جگہ اسی مناسبت کے لحاظ سے قصے کی تفصیلات مختلف طریقے سے بیان کی گئی ہیں ۔ قصے کے جو اجزاء ایک جگہ کے موضوع بحث سے مناسبت رکھتے ہیں وہ اسی جگہ بیان ہوئے ہیں ، دوسری جگہ وہ نہ ملیں گے ، یا طرز بیان ذرا مختلف ہو گا ۔ پورے قصے کو اور اس کی پوری معنویت کو سمجھنے کے لیے ان تمام مقامات پر نگاہ ڈال لینی چاہیے ۔ ہم نے ہر جگہ اس کے ربط و تعلق اور اس سے نکلنے والے نتائج کو اپنے حواشی میں بیان کر دیا ہے ۔ سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :94 یعنی اس نے بعد میں اس حکم کے ساتھ جو معاملہ کیا وہ استکبار اور قصدی و ارادی سرکشی کی بنا پر نہ تھا بلکہ غفلت اور بھول میں پڑ جانے اور عزم و ارادے کی کمزوری میں مبتلا ہونے کی وجہ سے تھا ۔ اس نے حکم کی خلاف ورزی کچھ اس خیال اور نیت کے ساتھ نہیں کی تھی کہ میں خدا کی کیا پروا کرتا ہوں ، اس کا حکم ہے تو ہوا کرے ، جو کچھ میرا جی چاہے گا کروں گا ، خدا کون ہوتا ہے کہ میرے معاملات میں دخل دے ۔ اس کے بجائے اس کی نافرمانی کا سبب یہ تھا کہ اس نے ہمارا حکم یاد رکھنے کی کوشش نہ کی ، بھول گیا کہ ہم نے اسے کیا سمجھایا تھا ، اور اس کے ارادے میں اتنی مضبوطی نہ تھی کہ جب شیطان اسے بہکانے آیا اس وقت وہ ہماری پیشگی تنبیہ اور نصیحت و فہمائش کو ( جس کا ذکر ابھی آگے آتا ہے ) یاد کرتا اور اس کے دیے ہوئے لالچ کا سختی کے ساتھ مقابلہ کرتا ۔ بعض لوگوں نے اس نے عزم نہ پایا کا مطلب یہ لیا ہے کہ ہم نے اس میں نافرمانی کا عزم نہ پایا ، یعنی اس نے جو کچھ کیا بھولے سے کیا ، نافرمانی کے عزم کی بنا پر نہیں کیا ۔ لیکن یہ خواہ مخواہ کا تکلف ہے ۔ یہ بات اگر کہنی ہوتی تو : لَمْ نَجِدْ لَہ عَزْماً عَلَ الْعِصْیَانِ کہا جاتا نہ کہ محض : لَمْ نَجِدْلَہ عَزْماً ۔ آیت کے الفاظ صاف بتا رہے ہیں کہ فقدان عزم سے مراد اطاعت حکم کے عزم کا فقدان ہے ، نہ کہ نافرمانی کے عزم کا فقدان ۔ علاوہ بریں اگر موقع و محل اور سیاق و سباق کی مناسبت کو دیکھا جائے تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہاں اللہ تعالیٰ آدم علیہ السلام کی پوزیشن صاف کرنے کے لیے یہ قصہ بیان نہیں کر رہا ہے ، بلکہ یہ بتانا چاہتا ہے کہ وہ بشری کمزوری کیا تھی جس کا صدور ان سے ہوا اور جس کی بدولت صرف وہی نہیں بلکہ ان کی اولاد بھی اللہ تعالیٰ کی پیشگی تنبیہات کے با وجود اپنے دشمن کے پھندے میں پھنسی اور پھنستی رہی ہے ۔ مزید براں ، جو شخص بھی خالی الذہن ہو کر اس آیت کو پڑھے گا اس کے ذہن میں پہلا مفہوم یہی آئے گا کہ ہم نے اس میں اطاعت امر کا عزم ، یا مضبوط ارادہ نہ پایا ۔ دوسرا مفہوم اس کے ذہن میں اس وقت تک نہیں آسکتا جب تک وہ آدم علیہ السلام کی طرف معصیت کی نسبت کو نامناسب سمجھ کر آیت کے کسی اور معنی کی تلاش شروع نہ کر دے ۔ یہی رائے علامہ آلوسی نے بھی اس موقع پر اپنی تفسیر میں ظاہر فرمائی ہے ۔ وہ کہتے ہیں : لکن لا یخفٰی علیک ان ھٰذا التفسیر غیر متبادرٍ ولا کثیر المناسبۃ للمقامِ ، مگر تم سے یہ بات پوشیدہ نہ ہو گی کہ یہ تفسیر آیت کے الفاظ سن کر فوراً ذہن میں نہیں آتی اور نہ موقع و محل کے ساتھ کچھ زیادہ مناسبت رکھتی ہے ۔ ( ملاحظہ ہو روح المعانی ۔ جلد 16 ۔ صفحہ 243 ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

49: جس تاکید کا یہاں ذکر ہے، اس سے مراد ایک خاص درخت کا پھل نہ کھانے کی تاکید ہے۔ اس واقعے کی تفصیل اور اس سے متعلق سوالات کا جواب سورۃ بقرہ : 34 تا 39 میں گذر چکا ہے۔ اور یہاں آدم (علیہ السلام) کے بارے میں جو فرمایا گیا ہے کہ ہم نے ان میں عزم نہیں پایا، اس کا ایک مطلب بعض مفسرین نے یہ بیان فرمایا ہے کہ ان سے درخت کا پھل کھانے کے سلسلے میں جو غلطی ہوئی، اس میں ان کے عزم کو دخل نہیں تھا، یعنی انہوں نے نافرمانی کے ارادے سے حکم کی خلاف ورزی نہیں کی، بلکہ ان سے بھول ہوگئی۔ اور دوسرے مفسرین نے اس کا مطلب یہ لیا ہے کہ ان میں ایسا پختہ عزم نہیں تھا کہ شیطان کے بہکائے میں نہ آتے۔ اس سے انسان کی اس سرشت کی طرف اشارہ ہے جس میں شیطان اور نفس کے بہکائے میں آنے کی صلاحیت موجود ہے۔ چونکہ قرآن کریم نے عزم کی نفی کو بھول ہوجانے کے ساتھ ملا کر ذکر کیا ہے، اس لیے یہاں پہلے معنی زیادہ بہتر معلوم ہوتے ہیں۔