[٨٤] آدم و ابلیس کا قصہ سورة ئبقرہ، اعراف اور دیگر کئی مقامات پر پہلے ہی گزر چکا ہے۔ اور آئندہ بھی آئے گا، مگر ہر مقام پر اتنا ہی ذکر کیا گیا جتنا موقع کے لحاظ سے مناسب تھا۔ گویا اس قصہ کے مختلف اجزاء سے مختلف نتائج پیش کئے گئے ہیں۔
وَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰۗىِٕكَةِ اسْجُدُوْا ۔۔ : اس کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورة بقرہ (٣٤ تا ٣٦) اور اعراف (١١، ١٢) ۔
وَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰۗىِٕكَةِ ، یہ اس عہد کا مختصر بیان ہے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) سے لیا تھا اس میں تخلیق آدم کے بعد سب فرشتوں کو اور ان کے ضمن میں ابلیس کو بھی، کیونکہ اس وقت تک ابلیس جنت میں فرشتوں کے ساتھ رہتا سہتا تھا یہ حکم دیا گیا کہ سب کے سب آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کریں سب فرشتوں نے سجدہ کرلیا مگر ابلیس نے انکار کردیا جس کی وجہ دوسری آیات میں اس کا تکبر تھا کہ میں آگ سے بنا ہوں یہ مٹی سے، اور آگ بہ نسبت مٹی کے افضل و اشرف ہے میں اس کو سجدہ کیوں کروں، اس پر ابلیس تو ملعون ہو کر جنت سے نکالا گیا۔ حضرت آدم و حوا کے لئے جنت کے سب باغات اور ساری نعمتوں کے دروازے کھول دیئے گئے اور ہر چیز کے استعمال کی اجازت دی گئی صرف ایک معین درخت کے متعلق یہ ہدایت کی گئی کہ اس کو (یعنی اس کے پھول پھول وغیرہ کو) نہ کھائیں اور اس کے قریب بھی نہ جائیں۔ یہ مضمون بھی سورة بقرہ و اعراف کی آیتوں میں آ چکا ہے یہاں اس کا ذکر کرنے کے بجائے حق تعالیٰ نے اپنا وہ ارشاد ذکر کیا ہے جو اس عہد کے محفوظ رکھنے اور اس پر قائم رہنے کے سلسلہ میں فرمایا کہ دیکھو شیطان ابلیس جیسا کہ واقعہ سجدہ کے وقت ظاہر ہوچکا ہے تم دونوں یعنی آدم و حوا کا دشمن ہے ایسا نہ ہو کہ وہ کسی مکر و حیلے سے دھوکہ دے کر تم سے اس عہد کی خلاف ورزی کرا دے جس کا نتیجہ یہ ہو کہ تم جنت سے نکالے جاؤ۔
وَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰۗىِٕكَۃِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْٓا اِلَّآ اِبْلِيْسَ ٠ۭ اَبٰى ١١٦- ملك ( فرشته)- وأما المَلَكُ فالنحویون جعلوه من لفظ الملائكة، وجعل المیم فيه زائدة . وقال بعض المحقّقين : هو من المِلك، قال : والمتولّي من الملائكة شيئا من السّياسات يقال له : ملک بالفتح، ومن البشر يقال له : ملک بالکسر، فكلّ مَلَكٍ ملائكة ولیس کلّ ملائكة ملکاقال : وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة 17] ، عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة 102] - ( م ل ک ) الملک - الملک علمائے نحو اس لفظ کو ملا ئکۃ سے ماخوذ مانتے ہیں اور اس کی میم کو زائد بناتے ہیں لیکن بعض محقیقن نے اسے ملک سے مشتق مانا ہے اور کہا ہے کہ جو فرشتہ کائنات کا انتظام کرتا ہے اسے فتحہ لام کے ساتھ ملک کہا جاتا ہے اور انسان کو ملک ہیں معلوم ہوا کہ ملک تو ملا ئکۃ میں ہے لیکن کل ملا ئکۃ ملک نہیں ہو بلکہ ملک کا لفظ فرشتوں پر بولا جاتا ہے کی طرف کہ آیات ۔ وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة 17] اور فرشتے اس کے کناروں پر اتر آئیں گے ۔ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة 102] اور ان باتوں کے بھی پیچھے لگ گئے جو دو فرشتوں پر اتری تھیں ۔- سجد - السُّجُودُ أصله : التّطامن «3» والتّذلّل، وجعل ذلک عبارة عن التّذلّل لله وعبادته، وهو عامّ في الإنسان، والحیوانات، والجمادات،- وذلک ضربان : سجود باختیار،- ولیس ذلک إلا للإنسان، وبه يستحقّ الثواب، نحو قوله : فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم 62] ، أي : تذللوا له، - وسجود تسخیر،- وهو للإنسان، والحیوانات، والنّبات، وعلی ذلک قوله : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد 15] - ( س ج د ) السجود - ( ن ) اسکے اصل معنی فرو تنی اور عاجزی کرنے کے ہیں اور اللہ کے سامنے عاجزی اور اس کی عبادت کرنے کو سجود کہا جاتا ہے اور یہ انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ( کیونکہ )- سجود کی دو قسمیں ہیں ۔ سجود اختیاری - جو انسان کے ساتھ خاص ہے اور اسی سے وہ ثواب الہی کا مستحق ہوتا ہے جیسے فرمایا :- ۔ فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم 62] سو اللہ کے لئے سجدہ کرو اور اسی کی ) عبادت کرو ۔- سجود تسخیر ی - جو انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد 15]- اور فرشتے ) جو آسمانوں میں ہیں اور جو ( انسان ) زمین میں ہیں ۔ چار ونا چار اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں )- بلس - الإِبْلَاس : الحزن المعترض من شدة البأس، يقال : أَبْلَسَ ، ومنه اشتق إبلیس فيما قيل . قال عزّ وجلّ : وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ يُبْلِسُ الْمُجْرِمُونَ [ الروم 12] ، وقال تعالی:- أَخَذْناهُمْ بَغْتَةً فَإِذا هُمْ مُبْلِسُونَ [ الأنعام 44] ، وقال تعالی: وَإِنْ كانُوا مِنْ قَبْلِ أَنْ يُنَزَّلَ عَلَيْهِمْ مِنْ قَبْلِهِ لَمُبْلِسِينَ [ الروم 49] . ولمّا کان المبلس کثيرا ما يلزم السکوت وينسی ما يعنيه قيل : أَبْلَسَ فلان : إذا سکت وإذا انقطعت حجّته، وأَبْلَسَتِ الناقة فهي مِبْلَاس : إذا لم ترع من شدة الضبعة . وأمّا البَلَاس : للمسح، ففارسيّ معرّب «1» .- ( ب ل س )- الا بلاس ( افعال ) کے معنی سخت نا امیدی کے باعث غمگین ہونے کے ہیں ۔ ابلیس وہ مایوس ہونے کی وجہ سے مغمون ہوا بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اسی سے ابلیس مشتق ہے ۔ قرآن میں ہے : وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ يُبْلِسُ الْمُجْرِمُونَ [ الروم 12] اور جس دن قیامت بر پا ہوگی گنہگار مایوس مغموم ہوجائیں گے ۔ أَخَذْناهُمْ بَغْتَةً فَإِذا هُمْ مُبْلِسُونَ [ الأنعام 44] توہم نے ان کو نا گہاں پکڑلیا اور وہ اس میں وقت مایوس ہوکر رہ گئے ۔ وَإِنْ كانُوا مِنْ قَبْلِ أَنْ يُنَزَّلَ عَلَيْهِمْ مِنْ قَبْلِهِ لَمُبْلِسِينَ [ الروم 49] اور بیشتر تو وہ مینہ کے اترنے سے پہلے ناامید ہو رہے تھے ۔ اور عام طور پر غم اور مایوسی کی وجہ سے انسان خاموش رہتا ہے اور اسے کچھ سوجھائی نہیں دیتا اس لئے ابلس فلان کے معنی خاموشی اور دلیل سے عاجز ہونے ب کے ہیں ۔ - أبى- الإباء : شدة الامتناع، فکل إباء امتناع ولیس کل امتناع إباءا .- قوله تعالی: وَيَأْبَى اللَّهُ إِلَّا أَنْ يُتِمَّ نُورَهُ [ التوبة 32] ، وقال : وَتَأْبى قُلُوبُهُمْ [ التوبة 8] ، وقوله تعالی: أَبى وَاسْتَكْبَرَ [ البقرة 34] ، وقوله تعالی: إِلَّا إِبْلِيسَ أَبى [ طه 116]- ( اب ی )- الاباء ۔ کے معنی شدت امتناع یعنی سختی کے ساتھ انکارکرنا ہیں ۔ یہ لفظ الامتناع سے خاص ہے لہذا ہر اباء کو امتناع کہہ سکتے ہیں مگر ہر امتناع کو اباء نہیں کہہ سکتے قرآن میں ہے ۔ وَيَأْبَى اللَّهُ إِلَّا أَنْ يُتِمَّ نُورَهُ [ التوبة : 32] اور خدا اپنے نور کو پورا کئے بغیر رہنے کا نہیں ۔ وَتَأْبَى قُلُوبُهُمْ ( سورة التوبة 8) لیکن ان کے دل ان باتوں کو قبول نہیں کرتے ۔ أَبَى وَاسْتَكْبَرَ [ البقرة : 34] اس نے سخت سے انکار کیا اور تکبیر کیا إِلَّا إِبْلِيسَ أَبَى [ البقرة : 34] مگر ابلیس نے انکار کردیا ۔ ایک روایت میں ہے (3) کلکم فی الجنۃ الامن ابیٰ ( کہ ) تم سب جنتی ہو مگر وہ شخص جس نے ( اطاعت الہی سے ) انکار کیا ۔ رجل ابی ۔ خود دار آدمی جو کسی کا ظلم برداشت نہ کرے ابیت الضیر ( مضارع تابیٰ ) تجھے اللہ تعالیٰ ہر قسم کے ضرر سے محفوظ رکھے ۔ تیس آبیٰ ۔ وہ بکرا چوپہاڑی بکردں کا بول ملا ہوا پانی پی کر بیمار ہوجائے اور پانی نہ پی سکے اس کا مونث ابواء ہے
(١١٦) اور جب کہ ہم نے ان فرشتوں سے بھی کہا جو کہ زمین پر تھے کہ آدم (علیہ السلام) کے سامنے سجدہ تحیت کرو تو سوائے ان کے سردار ابلیس کے اور سب نے سجدہ کیا، ابلیس نے آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرنا اپنی بڑائی کے خلاف سمجھا اور انکار کردیا۔
اب یہاں قصہ آدم و ابلیس پانچویں مرتبہ بیان ہونے جا رہا ہے۔ اس سے پہلے سورة البقرۃ (رکوع : ٤) ‘ سورة الاعراف (رکوع : ٢) ‘ سورة بنی اسرائیل (رکوع : ٧) اور سورة الحجر (رکوع : ٣) میں اس کا ذکر ہوچکا ہے۔