117۔ 1 یہ شقا، محنت ومشقت کے معنی میں ہے، یعنی جنت میں کھانے پینے، لباس اور مسکن جو سہولتیں بغیر کسی محنت کے حاصل ہیں۔ جنت سے نکل جانے کی صورت میں ان چاروں چیزوں کے لئے محنت و مشقت کرنی پڑے گی، جس طرح کہ ہر انسان کو دنیا میں ان بنیادی ضروریات کی فراہمی کے لئے محنت کرنی پڑ رہی ہے۔ علاوہ ازیں صرف آدم (علیہ السلام) سے کہا گیا کہ محنت مشقت میں پڑجائیگا۔ دونوں کو نہیں کہا گیا حالانکہ درخت کا پھل کھانے والے آدم (علیہ السلام) و حوا دونوں ہی تھے۔ اس لئے اصل مخاطب آدم ہی تھے۔ نیز بنیادی ضروریات کی فراہمی بھی مرد ہی کی ذمہ داری ہے عورت کی نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے عورت کو اس محنت و مشقت سے بچا کر گھر کی ملکہ کا اعزاز عطا فرمایا ہے۔ لیکن آج عورت کو یہ " اعزاز الہٰی "" طوق غلامی " نظر آتا ہے جس سے آزاد ہونے کے لیے وہ بےقرار اور مصروف جہد ہے آہ اغوائے شیطانی بھی کتنا موثر اور اس کا جال بھی کتنا حسین اور دلفریب ہے۔
فَقُلْنَا يٰٓاٰدَمُ اِنَّ ھٰذَا عَدُوٌّ لَّكَ ۔۔ : عداوت کا اظہار سجدے سے انکار کے ساتھ ہی ہوگیا تھا۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے سورة اعراف (٢٢) ” فَتَشْقٰي “ تو مصیبت میں پڑجائے گا، یعنی روزی کے لیے محنت مشقت کرنا پڑے گی اور جنت کی تمام آسائشیں اور نعمتیں چھین لی جائیں گی۔ آدم (علیہ السلام) کی طرف خاص شقاوت کی نسبت اس لیے ہے کہ مرد کو عورت کا منتظم اور اس کے اخراجات کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔ اس لیے اصل آدم (علیہ السلام) ہی ہیں اور حوا [ ان کے تابع۔
فَلَا يُخْرِجَنَّكُمَا مِنَ الْجَنَّةِ فَتَشْقٰي، یعنی یہ شیطان کہیں تمہیں جنت سے نہ نکلوا دے جس کی وجہ سے تم مصیبت اور مشقت میں پڑجاؤ۔ لفظ تشقی شقاوت سے مشتق ہے۔ یہ لفظ دو معنے کے لئے استعمال ہوتا ہے ایک شقاوت آخرت، دوسرے شقاوت دنیا یعنی جسمانی مشقت و مصیبت اس جگہ یہی دوسرے معنی مراد ہو سکتے ہیں کیونکہ پہلے معنی میں کسی پیغمبر کے لئے تو کیا کسی نیک مسلمان کے لئے بھی یہ لفظ نہیں بولا جاسکتا اس لئے فراء نے اس شقاوت کی تفسیر یہ کی ہے کہ ھو ان یا کل من کد یدیہ یعنی شقاوت سے اس جگہ مراد یہ ہے کہ اپنے ہاتھوں کی محنت سے خوراک حاصل کرنا پڑے گی (قرطبی) اور اس جگہ قرینہ مقام بھی دوسرے ہی معنی کے لئے شاہد ہے کیونکہ اس کے بعد کی آیت میں جنت کی نعمتوں میں سے ان چار نعمتوں کا ذکر فرمایا ہے جو ہر انسان کی زندگی کے لئے عمودی حیثیت رکھتی ہیں اور ضروریات زندگی میں سب سے اہم ہیں۔ یعنی کھانا، پینا، لباس اور مکسن۔ اس آیت میں یہ ارشاد فرمایا ہے کہ یہ سب نعمتیں جنت میں تو بلا کسی کسب و اکتساب اور محنت و مشقت کے ملتی ہیں۔ اس میں اشارہ پایا گیا کہ یہاں سے نکل گئے تو یہ نعمتیں سلب ہوجائیں گی اور شاید اسی اشارہ کے لئے یہاں جنت کی بڑی بڑی نعمتوں کا ذکر نہیں کیا گیا بلکہ صرف ان کا ذکر کیا جن پر انسانی زندگی موقوف ہے اور اس سے ڈرایا گیا کہ شیطانی اغواء میں آ کر کہیں ایسا نہ ہو کہ جنت سے نکالے جاؤ اور یہ سب نعمتیں سلب ہوجائیں اور پھر زمین پر ان ضروریات زندگی کو ایسی محنت مشقت اٹھا کر حاصل کرنا پڑے یہ مفہوم لفظ فتشقی کا ہے جو جمہور مفسرین نے لکھا ہے۔ امام قرطبی نے اس جگہ یہ بھی ذکر کیا ہے کہ آدم (علیہ السلام) جب زمین پر تشریف لائے تو جبرئیل نے جنت سے کچھ دانے گیہوں چاول وغیرہ کے لا کردیئے کہ ان کو زمین میں کاشت کرو پھر جب یہ پودا نکلے اور اس پر دانے جمیں تو اس کو کاٹو پھر پیس کر روٹی بناؤ اور ان سب کاموں کے طریقے بھی حضرت آدم کو سمجھا دیئے اس کے مطابق آدم (علیہ السلام) نے روٹی پکائی اور کھانے کے لئے بیٹھے تھے کہ روٹی ہاتھ سے چھٹ کر پہاڑ کے نیچے لڑھک گئی آدم (علیہ السلام) اس کے یچھے چلے اور بڑی محنت کر کے واپس لائے تو جبرئیل امین نے کہا کہ اے آدم آپ کا اور آپ کی اولاد کا رزق زمین پر اسی طرح محنت مشقت سے حاصل ہوگا۔ (قرطبی)- بیوی کا نفقہ ضروریہ شوہر کے ذمہ ہے :- اس مقام پر شروع آیت میں حق تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کے ساتھ حضرت حوا کو بھی خطاب میں شریک کیا عَدُوٌّ لَّكَ وَلِزَوْجِكَ فَلَا يُخْرِجَنَّكُمَا مِنَ الْجَنَّةِ جس میں بتلایا ہے کہ شیطان آپ کا بھی دشمن ہے اور آپ کی بیوی کا بھی اور یہ کہ ایسا نہ ہو کہ تم دونوں کو یہ جنت سے نکلوا دے مگر آخر آیت میں لفظ فتشقی کو مفرد استعمال فرمایا بیوی کو اس میں شریک نہیں کیا ورنہ بمقتضائے مقام فتشقیا کہا جاتا۔ امام قرطبی نے اس سے یہ مسئلہ مستنبط کیا ہے کہ ضروریات زندگی بیوی کی مرد کے ذمہ ہیں ان کے حصول میں جو محنت و مشقت ہو اس کا تنہا ذمہ دار مرد ہے اسی لئے فتشقی بصیغہ مفرد لا کر اشارہ کردیا کہ زمین پر اتارے گئے تو ان ضروریات زندگی کی تحصیل میں جو کچھ محنت مشقت اٹھانا پڑے گی وہ حضرت آدم (علیہ السلام) پر پڑے گی کیونکہ حواء کا نفقہ اور ضروریات زندگی فراہم کرنا ان کے ذمہ ہے۔- نفقہ واجبہ صرف چار چیزیں ہیں :- قرطبی نے فرمایا کہ اسی آیت نے ہمیں یہ بھی بتلا دیا کہ عورت کا جو نفقہ مرد کے ذمہ ہے وہ صرف چار چیزیں ہیں۔ کھانا پینا اور لباس اور مسکن۔ اس سے زائد جو کچھ شوہر اپنی بیوی کو دیتا یا اس پر خرچ کرتا ہے وہ تبرع و احسان ہے واجب و لازم نہیں۔ اسی سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بیوی کے علاوہ جس کسی کا نفقہ شریعت نے کسی شخص کے ذمہ عائد کیا ہے اس میں بھی چار چیزیں اس کے ذمہ واجب ہوتی ہیں جیسے ماں باپ کا نفقہ اولاد کے ذمہ جبکہ وہ محتاج اور معذور ہوں و غیر ذلک جس کی تفصیل کتب فقہ میں مذکور ہے۔
فَقُلْنَا يٰٓاٰدَمُ اِنَّ ھٰذَا عَدُوٌّ لَّكَ وَلِزَوْجِكَ فَلَا يُخْرِجَنَّكُمَا مِنَ الْجَنَّۃِ فَتَشْقٰي ١١٧- عدو - العَدُوُّ : التّجاوز ومنافاة الالتئام، فتارة يعتبر بالقلب، فيقال له : العَدَاوَةُ والمُعَادَاةُ ، وتارة بالمشي، فيقال له : العَدْوُ ، وتارة في الإخلال بالعدالة في المعاملة، فيقال له : العُدْوَانُ والعَدْوُ. قال تعالی: فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام 108] ، وتارة بأجزاء المقرّ ، فيقال له : العَدْوَاءُ. يقال : مکان ذو عَدْوَاءَ «3» ، أي : غير متلائم الأجزاء . فمن المُعَادَاةِ يقال :- رجلٌ عَدُوٌّ ، وقومٌ عَدُوٌّ. قال تعالی: بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه 123]- ( ع د و ) العدو - کے معنی حد سے بڑھنے اور باہم ہم آہنگی نہ ہونا ہیں اگر اس کا تعلق دل کی کیفیت سے ہو تو یہ عداوۃ اور معاداۃ کہلاتی ہے اور اگر رفتار سے ہو تو اسے عدو کہا جاتا ہے اور اگر عدل و انصاف میں خلل اندازی کی صورت میں ہو تو اسے عدوان اور عدو کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام 108] کہ یہ بھی کہیں خدا کو بےادبی سے بےسمجھے برا نہ کہہ بیٹھیں ۔ اور اگر اس کا تعلق کسی جگہ کے اجزاء کے ساتھ ہو تو اسے عدواء کہہ دیتے ہیں جیسے مکان ذوعدوء ناہموار مقام چناچہ معاداۃ سے اشتقاق کے ساتھ کہا جاتا ہے رجل عدو وقوم عدو اور یہ واحد جمع دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه 123] اب سے تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔ - زوج - يقال لكلّ واحد من القرینین من الذّكر والأنثی في الحیوانات الْمُتَزَاوِجَةُ زَوْجٌ ، ولكلّ قرینین فيها وفي غيرها زوج، کالخفّ والنّعل، ولكلّ ما يقترن بآخر مماثلا له أو مضادّ زوج . قال تعالی:- فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى[ القیامة 39] - ( ز و ج ) الزوج - جن حیوانات میں نرا اور پایا جاتا ہے ان میں سے ہر ایک دوسرے کا زوج کہلاتا ہے یعنی نرا اور مادہ دونوں میں سے ہر ایک پر اس کا اطلاق ہوتا ہے ۔ حیوانات کے علا وہ دوسری اشیائیں سے جفت کو زوج کہا جاتا ہے جیسے موزے اور جوتے وغیرہ پھر اس چیز کو جو دوسری کی مما ثل یا مقابل ہونے کی حثیت سے اس سے مقترن ہو وہ اس کا زوج کہلاتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى[ القیامة 39] اور خر کار اس کی دو قسمیں کیں ( یعنی مرد اور عورت ۔- خرج - خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] ،- ( خ رج ) خرج ۔ ( ن)- خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ - جَنَّةُ :- كلّ بستان ذي شجر يستر بأشجاره الأرض، قال عزّ وجل : لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ 15]- الجنۃ - ہر وہ باغ جس کی زمین درختوں کیوجہ سے نظر نہ آئے جنت کہلاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ 15]( اہل ) سبا کے لئے ان کے مقام بود باش میں ایک نشانی تھی ( یعنی دو باغ ایک دائیں طرف اور ایک ) بائیں طرف ۔ - حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جنات جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ بہشت سات ہیں ۔ (1) جنۃ الفردوس (2) جنۃ عدن (3) جنۃ النعیم (4) دار الخلد (5) جنۃ المآوٰی (6) دار السلام (7) علیین ۔- شقي - الشَّقَاوَةُ : خلاف السّعادة، وقد شَقِيَ «2» يَشْقَى شَقْوَة، وشَقَاوَة، وشَقَاءً ،- . قال عزّ وجلّ : فَمَنِ اتَّبَعَ هُدايَ فَلا يَضِلُّ وَلا يَشْقى[ طه 123] - ( ش ق و ) اشقاوۃ - ( بدبختی ) یہ سعادت کی ضد ہے اور شقی ( س) شقوۃ وشقاوۃ وشقاء کے معنی بدبخت ہونے کے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ۔: فَمَنِ اتَّبَعَ هُدايَ فَلا يَضِلُّ وَلا يَشْقى[ طه 123] وہ نہ گمراہ ہوگا اور نہ تکلیف میں پڑے گا ۔
(١١٧) پھر ہم نے کہا اے آدم یاد رکھو کہ یہ تمہارا اور تمہاری بیوی حضرت ” حوا “ کا دشمن ہے اس کے کہنے سے کوئی کام ایسا نہ کرنا کہ جنت سے باہر نکال دیے جاؤ اور مصیبت میں پڑجاؤ۔
سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :95 یہاں وہ اصل حکم بیان نہیں کیا گیا ہے جو آدم علیہ السلام کو دیا گیا تھا ، یعنی یہ کہ اس خاص درخت کا پھل نہ کھانا ۔ وہ حکم دوسرے مقامات پر قرآن مجید میں بیان ہو چکا ہے ۔ اس مقام پر چونکہ بتانے کی اصل چیز صرف یہ ہے کہ انسان کس طرح اللہ تعالیٰ کی پیشگی تنبیہ اور فہمائش کے باوجود اپنے جانے بوجھے دشمن کے اغوا سے متاثر ہو جاتا ہے ، اور کس طرح اس کی یہی کمزوری اس سے وہ کام کرا لیتی ہے جو اس کے اپنے مفاد کے خلاف ہوتا ہے ، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اصل حکم کا ذکر کرنے کے بجائے یہاں اس فہمائش کا ذکر کیا ہے جو اس حکم کے ساتھ حضرت آدم کو کی گئی تھی ۔ سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :96 دشمنی کا مظاہرہ اسی وقت ہو چکا تھا ۔ آدم اور حوا علیہما السلام خود دیکھ چکے تھے کہ ابلیس نے ان کو سجدہ کرنے سے انکار کیا ہے اور صاف صاف یہ کہہ کر کیا ہے کہ : اَنَا خَیْرٌ مِّنْہُ خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّ خلقْتَہ مِنْ طِیْنٍ ، میں اس سے بہتر ہوں ، تو نے مجھ کو آگ سے پیدا کیا ہے اور اس کو مٹی سے ( اعراف ۔ آیت 12 ۔ ص ۔ آیت 76 ) ۔ اَرَاَیْتَکَ ھٰذَا الَّذِیْ کَرَّ مْتَ عَلَیَّ ، ذرا دیکھ تو سہی یہ ہے وہ ہستی جس کو تو نے مجھ پر فضیلت دی ہے :ءَاَسْجُدُ لِمَنْ خَلَقْتَ طِیْناً ، اب کیا میں اسے سجدہ کروں جس کو تو نے مٹی سے بنایا ہے ؟ ( بنی اسرائیل ۔ آیات 61 ۔ 62 ) ۔ پھر اتنے ہی پر اس نے اکتفا نہ کیا کہ کھلم کھلا اپنے حسد کا اظہار کر دیا ، بلکہ اللہ تعالیٰ سے اس نے مہلت بھی مانگی کہ مجھے اپنی فضیلت اور اس کی نااہلی ثابت کرنے کا موقع دیجیے ، میں اسے بہکا کر آپ کو دکھا دوں گا کہ کیسا ہے یہ آپ کا خلیفہ ۔ اعراف ، حجر اور بنی اسرائیل میں اس کا یہ چیلنج گزر چکا ہے اور آگے سورہ ’ص‘ میں بھی آ رہا ہے ۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے جب یہ فرمایا کہ یہ تمہارا دشمن ہے ، تو یہ محض ایک امر غیب کی اطلاع نہ تھی ، بلکہ ایک ایسی چیز تھی جسے عین برسر موقع دونوں میاں بیوی اپنی آنکھوں دیکھ چکے اور اپنے کانوں سن چکے تھے ۔ سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :97 اس طرح یہ بھی دونوں کو بتا دیا گیا کہ اگر اس کے بہکانے میں آ کر تم نے حکم کی خلاف ورزی کی تو جنت میں نہ رہ سکو گے اور وہ تمام نعمتیں تم سے چھن جائیں گی جو تم کو یہاں حاصل ہیں ۔
50: اس آیت کو اگلی آیت سے ملا کر پڑھا جائے تو مطلب یہ ہے کہ جنت میں تو تمہیں زندگی کی ساری ضروریات یعنی خوراک، کپڑا اور رہنے کے لیے گھر بغیر کسی محنت کے حاصل ہے، جنت سے نکل گئے تو ان چیزوں کو حاصل کرنے کے لیے محنت اور مشقت اٹھانی پڑے گی۔