Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

ویرانوں سے عبرت حاصل کرو ۔ جو لوگ تجھے نہیں مان رہے اور تیری شریعت کا انکار کر رہے ہیں کیا وہ اس بات سے بھی عبرت حاصل نہیں کرتے کہ ان سے پہلے جنہوں نے یہ ڈھنگ نکالے تھے ہم نے انہیں تباہ وبرباد کردیا ؟ آج ان کی ایک آنکھ جھپکتی ہوئی اور ایک سانس چلتا ہوا اور ایک زبان بولتی ہوئی باقی نہیں بچی ، ان کے بلند وبالا پختہ اور خوبصورت کشادہ اور زینت دار محل ویران کھنڈر پڑے ہوئے ہیں جہاں سے ان کی آمد ورفت رہتی ہے اگر یہ علقمند ہوتے تو یہ سامان عبرت ان کے لئے بہت کچھ تھا ۔ کیا یہ زمین میں چل پھر کر قدرت کی ان نشانیوں پر دل سے غور فکر نہیں کرتے ؟ کیا کانوں سے ان کے درد ناک فسانے سن کر عبرت حاصل نہیں کرتے ؟ کیا ان اجڑی ہوئی بستیاں دیکھ کر بھی آنکھیں نہیں کھولتے ؟ یہ آنکھوں کے ہی اندھے نہیں بلکہ دل کے بھی اندھے ہیں سورۃ الم السجدہ میں بھی مندرجہ بالل آیت جیسی آیت ہے ۔ اللہ تعالیٰ یہ بات مقرر کرچکا ہے کہ جب تک بندوں پر اپنی حجت ختم نہ کردے انہیں عذاب نہیں کرتا ۔ ان کے لئے اس نے ایک وقت مقرر کردیا ہے ، اسی وقت ان کو ان کے اعمال کی سزا ملے گی ۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو ادھر گناہ کرتے ادھر پکڑ لئے جاتے ۔ تو ان کی تکذیب پر صبر کر ، ان کی بےہودہ باتوں پر برداشت کر ۔ تسلی رکھ یہ میرے قبضے سے باہر نہیں ۔ سورج نکلنے سے پہلے سے مراد تو نماز فجر ہے اور سورج ڈوبنے سے پہلے سے مراد نماز عصر ہے ۔ بخاری مسلم میں ہے کہ ہم ایک مرتبہ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے آپ نے چودھویں رات کے چاند کو دیکھ کر فرمایا کہ تم عنقریب اپنے رب کو اسی طرح دیکھو گے جس طرح اس چاند کو بغیر مزاحمت اور تکلیف کے دیکھ رہے ہو پس اگر تم سے ہوسکے تو سورج نکلنے سے پہلے کی اور سورج غروب ہونے سے پہلی کی نماز کی پوری طرح حفاظت کرو ۔ پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی ۔ مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا ان دونوں وقتوں کی نماز پڑھنے والا آگ میں نہ جائے گا ۔ مسند اور سنن میں ہے کہ آپ نے فرمایا سب سے ادنی درجے کا جنتی وہ ہے جو ہزار برس کی راہ تک اپنی ہی اپنی ملکیت دیکھے گا سب سے دور کی چیز بھی اس کے لئے ایسی ہی ہو گی جیسے سب سے نزدیک کی اور سب سے اعلیٰ منزل والے تو دن میں دو دو دفعہ دیدار الٰہی کریں گے پھر فرماتا ہے رات کے وقتوں میں بھی تہجد پڑھا کر ۔ بعض کہتے ہیں اس سے مراد مغرب اور عشاء کی نماز ہے ۔ اور دن کے وقتوں میں بھی اللہ کی پاکیزگی بیان کیا کر ۔ تاکہ اللہ کے اجر و ثواب سے تو خوش ہو جا ۔ جیسے فرمان ہے کہ عنقریب تیرا اللہ تجھے وہ دے گا کہ تو خوش ہوجائے گا ۔ صحیح حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ فرمائے گا اے جنتیو وہ کہیں گے لبیک ربنا وسعدیک ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کیا تم خوش ہو گئے ؟ وہ کہیں گے اے اللہ ہم بہت ہی خوش ہیں تونے ہمیں وہ نعمتیں عطاء فرما رکھی ہیں جو مخلوق میں سے کسی کو نہیں دیں ۔ پھر کیا وجہ کہ ہم راضی نہ ہوں ۔ جناب باری ارحم الراحمین فرمائے گا لو میں تمہیں ان سب سے افضل چیز دیتا ہوں ۔ پوچھیں گے اے اللہ اس سے افضل چیز کیا ہے؟ فرمائے گا میں تمہیں اپنی رضامندی دیتا ہوں کہ اب کسی وقت بھی میں تم سے ناخوش نہ ہوں گا ۔ اور حدیث میں ہے کہ جنتیوں سے فرمایا جائے گا کہ اللہ نے تم سے جو وعدہ کیا تھا وہ اسے پورا کرنے والا ہے کہیں گے اللہ کے سب وعدے پورے ہوئے ہمارے چہرے روشن ہیں ہماری نیکیوں کا پلہ گراں رہا ہمیں دوزخ سے ہٹا دیا گیا ۔ جنت میں داخل کردیا گیا اب کون سی چیز باقی ہے؟ اسی وقت حجاب اٹھ جائیں گے اور دیدار الٰہی ہوگا ۔ اللہ کی قسم اس سے بہتر اور کوئی نعمت نہ ہوگی یہی زیادتی ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٩٣] اس آیت کے مخاطب مشرکین مکہ ہیں۔ جن میں سابقہ اقوام کی ہلاکت کے چرچے زبان زد تھے اور وہ اپنے تجارتی سفروں کے دوران ان کے تباہ شدہ کھنڈرات بحشم خود ملاحظہ بھی کرسکتے تھے۔ اگر وہ ان کے حالات میں کچھ بھی غور وفکر کرتے تو انھیں معلوم ہوسکتا تھا کہ بالآخر ان کا اپنا بھی ویسا ہی انجام ہوسکتا ہے۔ لہذا وہ چاہتے تو انھیں واقعات سے کافی عبرت حاصل کرسکتے تھے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اَفَلَمْ يَهْدِ لَهُمْ ۔۔ :” ھَدٰی یَھْدِیْ “ راہنمائی کرنا۔ ” الْقُرُوْنِ “ ” قَرْنٌ“ کی جمع ہے۔ قرن کا معنی متعین کرنے کے لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان سب سے زیادہ معتبر ہے، جو آپ نے عبداللہ بن بسر (رض) کے متعلق فرمایا، آپ نے فرمایا : ( یَعِیْشُ ھٰذَا الْغُلَامُ قَرْنًا، فَعَاش ماءَۃَ سَنَۃٍ ) [ سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ : ٦؍١٥٩، ح : ٢٦٦٠ ] ” یہ لڑکا ایک قرن زندہ رہے گا “ تو وہ سو سال زندہ رہے۔ “ سلسلہ صحیحہ کی اس روایت میں ابن عساکر کے حوالے سے مزید یہ ہے کہ عبداللہ بن بسر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کی : ” یا رسول اللہ میرے ماں باپ قربان قرن کتنا ہوتا ہے ؟ “ فرمایا : ” سو سال۔ “ عبداللہ بن بشر (رض) نے فرمایا کہ میں پچانوے برس جی چکا ہوں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات پوری ہونے میں پانچ برس رہ گئے ہیں۔ محمد بن قاسم کہتے ہیں کہ ہم نے بعد میں پانچ سال گنے، پھر وہ فوت ہوگئے۔ - 3 قرون سے مراد عاد وثمود ہیں، کیونکہ عرب لوگ یمن، نجران اور اس کے گرد و نواح کی طرف جاتے ہوئے قوم عاد کے رہنے کی جگہوں سے گزرتے تھے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (رض) تبوک کے سفر میں ثمود کے مکانات سے گزرے تھے۔ اسی طرح ان سفروں میں قوم لوط اور اہل مدین کی تباہ شدہ بستیاں سب سے بڑی شاہراہ پر واقع تھیں، جہاں سے وہ صبح و شام گزرتے تھے۔ دیکھیے سورة حجر (٧٦ تا ٧٩) اور صافات (٣٣ تا ٣٨) ۔- 3 اس سورت میں پیغمبروں کو جھٹلانے والے لوگوں کا اور ان کے بدترین انجام کا ذکر گزر چکا ہے۔ حق یہ تھا کہ اہل عرب تاریخ سے سبق حاصل کرتے اور کفر و شرک سے باز آجاتے، مگر وہ اپنی سرکشی پر جمے رہے۔ اس لیے بطور تعجب فرمایا کہ کیا اس بات نے ان کی رہنمائی نہیں کی کہ ہم نے ان سے پہلے کتنی ہی قوموں کو ہلاک کر ڈالا، جن کے رہنے کی جگہوں میں یہ چلتے پھرتے ہیں اور جنھیں دیکھنے سے صاف نظر آتا ہے کہ وہ لوگ قد و قامت، صنعت و زراعت اور قوت و مہارت میں ان سے بہت زیادہ ترقی یافتہ تھے۔ مدائن صالح، اہرام مصر اور دوسرے آثار قدیمہ شاہد ہیں کہ اس قوت کے لوگ پھر پیدا نہیں ہوئے۔ دیکھیے سورة فجر (٦ تا ١٤) اور سورة روم (٩، ١٠) ان لوگوں کے آثار آنکھوں سے دیکھ کر اور اپنے آبا و اجداد سے تواتر کے ساتھ ان کی قوت وہیبت اور عذاب الٰہی سے بربادی کے واقعات سن کر بھی کیا ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ اگر یہ لوگ بھی ان کی روش پر اڑے رہے تو ان کا انجام کیا ہوگا ؟ - اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّاُولِي النُّهٰى : ” النُّهٰى“ کی تفسیر اسی سورت کی آیت (٥٤) میں دیکھیے۔ ” النُّهٰى“ جمع ہونے کی وجہ سے ترجمہ ” عقلوں والے “ کیا ہے اور ” لَاٰيٰتٍ “ پر تنوین تعظیم کی وجہ سے ترجمہ ” کئی عظیم نشانیاں “ کیا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - (یہ معترضین جو اعراض پر اصرار کر رہے ہیں تو) کیا ان لوگوں کو (اب تک) اس سے بھی ہدایت نہیں ہوئی کہ ہم ان سے پہلے بہت سے گروہوں کو (اس اعراض ہی کے سبب عذاب سے) ہلاک کرچکے ہیں کہ ان (میں سے بعض) کے رہنے کے مقامات میں یہ لوگ بھی چلتے (پھرتے) ہیں (کیونکہ شام کو جاتے ہوئے اہل مکہ کے رستہ میں بعض ان قوموں کے مکانات آتے تھے) اس (امر مذکور) میں تو اہل فہم کے (سمجھنے کے) لئے (کافی) دلائل (اعراض کے نتائج بد ہونے کے) موجود ہیں اور (ان پر فوری عذاب نہ آنے سے جو ان کو شبہ اپنے مذہب کے مذموم نہ ہونے کا ہوتا ہے تو اس کی حقیقت یہ ہے کہ) اگر آپ کے رب کی طرف سے ایک بات پہلے سے فرمائی ہوئی نہ ہوتی (وہ یہ کہ بعض مصلحتوں کی وجہ سے ان کو مہلت دی جاوے گی) اور (عذاب کے لئے) ایک میعاد معین نہ ہوتی (کہ وہ قیامت کا دن ہے) تو (ان کے کفر و اعراض کے اقتضاء سے) عذاب لازمی طور پر ہوتا (خلاصہ یہ کہ کفر تو مقضی عذاب کا ہے لیکن ایک مانع کی وجہ سے توقف ہو رہا ہے پس ان کا وہ شبہ اور فوری عذاب نہ آنے سے اپنے حق پر ہونے کا استدلال غلط ہے، غرضیہ کہ امہال ہے اہمال نہیں) سو (جب عذاب کا آنا یقینی ہے تو) آپ ان کی (کفر آمیز) باتوں پر صبر کیجئے (اور بغض فی اللہ کی وجہ سے جو ان پر غیظ آتا ہے اور ان پر تاخیر عذاب سے اضطراب ہوتا ہے اس اضطراب کو ترک کیجئے اور اپنے رب کی حمد وثناء کے ساتھ (اس کی) تسبیح (و تقدیس) کیجئے (اس میں نماز بھی آگئی) آفتاب نکلنے سے پہلے (مثلاً نماز فجر) اور اس کے غروب سے پہلے (مثلاً نماز ظہر و عصر) اور اوقات شب میں (بھی) کیا کیجئے ( مثلاً نماز مغرب و عشاء) اور ان کے اول و آخر میں (تسبیح کرنے کے واسطے اہتمام کے لئے مکرر کہا جاتا ہے جس سے نماز فجر و مغرب کے ذکر کی بھی اہتماماً تکریر ہوگئی) تاکہ (آپ کو ثواب ملے) آپ (اس سے) خوش ہوں (مطلب یہ کہ آپ اپنی توجہ معبود حقیقی کی طرف رکھئے لوگوں کی فکر نہ کیجئے) اور ہرگز ان چیزوں کی طرف آپ آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھئے (جیسا اب تک بھی نہیں دیکھا) جس سے ہم نے کفار کے مختلف گروہوں کو (مثلاً یہود و نصاری و مشرکین کو) ان کی آزمائش کے لئے متمتع کر رکھا ہے کہ وہ (محض) دنیوی زندگی کی رونق ہے (مطلب اوروں کو سنانا ہے کہ جب معصوم نبی کے لئے یہ ممانعت ہے جن میں احتمال بھی نہیں تو غیر معصوم کو تو اس کا اہتمام کیونکر ضروری نہ ہوگا اور آزمائش یہ کہ کون احسان مانتا ہے اور کون سرکشی کرتا ہے اور آپ کے رب کا عطیہ (جو آخرت میں ملے گا) بدرجہا (اس سے) بہتر اور دیرپا ہے (کہ کبھی فنا ہی نہ ہوگا، خلاصہ کلام کا یہ ہوا کہ نہ ان کے اعراض بکسر الہمزہ کی طرف التفات کیا جاوے نہ ان کے اعراض بفتح الہمزہ یعنی اسباب عیش کی طرف سب کا انجام عذاب ہے) اور اپنے متعلقین کو (یعنی اہل خاندان کو یا مؤمنین کو) بھی نماز کا حکم کرتے رہئے اور خود بھی اس کے پابند رہئے (یعنی زیادہ توجہ کے قابل یہ امور ہیں) ہم آپ سے اور (اسی طرح دوسروں سے ایسے) معاش (کموانا) نہیں چاہتے (جو طاعات ضروریہ سے مانع ہوں) معاش تو آپ کو (اور اسی طرح اوروں کو) ہم دیں گے (یعنی مقصود اصلی اکتساب نہیں بلکہ دین اور اطاعت ہیں، اکتساب کی اسی حالت میں اجازت یا امر ہے کہ ضروری اطاعت میں وہ مخل نہ ہو) اور بہتر انجام تو پرہیزگاری ہی کا ہے (اس لئے ہم حکم دیتے ہیں لَا تَمُدَّنَّ اور وَاْمُرْ اَهْلَكَ الخ اور معترضین کے بعض احوال و اقوال جو اوپر معلوم ہوئے اسی طرح ان کا ایک اور قول بھی مذکور ہوتا ہے کہ) وہ لوگ (عناداً ) یوں کہتے ہیں کہ یہ رسول ہمارے پاس کوئی نشانی (اپنی نبوت کی) کیوں نہیں لاتے) (آگے جواب ہے کہ) کیا ان کے پاس پہلی کتابوں کے مضمون کا ظہور نہیں پہنچا ( مراد اس سے قرآن ہے کہ اس سے کتب سابقہ کے مضمون پیشین گوئی کے صدق کا ظہور ہوگیا مطلب یہ کہ کیا ان کے پاس قرآن نہیں پہنچا جس کی پہلے سے شہرت تھی کہ وہ نبوت پر کافی دلیل ہے) اور اگر ہم ان کو قبل قرآن آنے کے (سزائے کفر میں) کسی عذاب سے ہلاک کردیتے (اور پھر قیامت کے روز اصلی سزا کفر کی دی جاتی کہ وہ لازم ہی تھی) تو یہ لوگ (بطور عذر کے) یوں کہتے کہ اے ہمارے رب آپ نے ہمارے پاس کوئی رسول (دنیا میں) کیوں نہ بھیجا تھا کہ ہم آپ کے احکام پر چلتے قبل اس کے کہ ہم (یہاں خود) بےقدر ہوں اور (دوسروں کی نگاہ میں) رسوا ہوں (سو اب اس عذر کی بھی گنجائش نہیں رہی، اگر وہ یوں کہیں کہ وہ عذاب کب ہوگا تو) آپ کہہ دیجئے کہ (ہم) سب اتنظار کر رہے ہیں سو (چندے) اور انتظار کرلو اب عنقریب تم کو (بھی) معلوم ہوجاوے گا کہ راہ راست والے کون ہیں اور وہ کون ہے جو (منزل) مقصود تک پہنچا (یعنی وہ فیصلہ عنقریب بعد موت یا بعد الحشر ظاہر ہوجاوے گا۔ )- معارف ومسائل - اَفَلَمْ يَهْدِ لَهُمْ ، يَهْدِ میں ضمیر قاعل ہدی کی طرف راجع ہے جو اسی لفظ کے ضمن میں مذکور ہے اور ہدی سے مراد قرآن یا رسول ہے تو معنے یہ ہیں کہ کیا قرآن یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو یعنی اہل مکہ کو یہ ہدایت نہیں دی اور اس سے باخبر نہیں کیا کہ تم سے پہلے کتنی امتیں اور جماعتیں اپنی نافرمانی کی وجہ سے عذاب خداوندی میں گرفتار ہو کر ہلاک ہوچکی ہیں جن کے گھروں اور زمینوں میں اب تم چلتے پھرتے ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس میں ضمیر فاعل اللہ تعالیٰ کی طرف راجع ہو اور معنے یہ ہوں کہ کیا اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو ہدایت نہیں دی۔ الخ

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَ فَلَمْ يَہْدِ لَہُمْ كَمْ اَہْلَكْنَا قَبْلَہُمْ مِّنَ الْقُرُوْنِ يَمْشُوْنَ فِيْ مَسٰكِنِہِمْ۝ ٠ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّاُولِي النُّہٰى۝ ١٢٨ۧ- هدى- الهداية دلالة بلطف،- وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه :- الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل،- والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى- [ طه 50] .- الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء،- وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا - [ الأنبیاء 73] .- الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی،- وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن 11] - الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ- بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43]. - ( ھ د ی ) الھدایتہ - کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔- انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے - ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے - اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی - ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت - کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ - ( 3 ) سوم بمعنی توفیق - خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔- ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا - مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43] میں فرمایا ۔- هلك - الْهَلَاكُ علی ثلاثة أوجه :- افتقاد الشیء عنك، وهو عند غيرک موجود کقوله تعالی: هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة 29] - وهَلَاكِ الشیء باستحالة و فساد کقوله :- وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة 205] ويقال : هَلَكَ الطعام .- والثالث :- الموت کقوله : إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء 176] وقال تعالیٰ مخبرا عن الکفّار :- وَما يُهْلِكُنا إِلَّا الدَّهْرُ [ الجاثية 24] .- ( ھ ل ک ) الھلاک - یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ایک یہ کہ - کسی چیز کا اپنے پاس سے جاتے رہنا خواہ وہ دوسرے کے پاس موجود ہو جیسے فرمایا : هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة 29] ہائے میری سلطنت خاک میں مل گئی ۔- دوسرے یہ کہ - کسی چیز میں خرابی اور تغیر پیدا ہوجانا جیسا کہ طعام ( کھانا ) کے خراب ہونے پر ھلک الطعام بولا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة 205] اور کھیتی کو بر باد اور انسانوں اور حیوانوں کی نسل کو نابود کردی ۔ - موت کے معنی میں - جیسے فرمایا : ۔ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء 176] اگر کوئی ایسا مرد جائے ۔- قرن - والقَرْنُ : القوم المُقْتَرِنُونَ في زمن واحد، وجمعه قُرُونٌ. قال تعالی: وَلَقَدْ أَهْلَكْنَا الْقُرُونَ مِنْ قَبْلِكُمْ [يونس 13] ،- ( ق ر ن ) قرن - ایک زمانہ کے لوگ یا امت کو قرن کہا جاتا ہے اس کی جمع قرون ہے قرآن میں ہے : ۔ وَلَقَدْ أَهْلَكْنَا الْقُرُونَ مِنْ قَبْلِكُمْ [يونس 13] اور تم سے پہلے ہم کئی امتوں کو ۔ ہلاک کرچکے ہیں - مشی - المشي : الانتقال من مکان إلى مکان بإرادة . قال اللہ تعالی: كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ- [ البقرة 20] ، وقال : فَمِنْهُمْ مَنْ يَمْشِي عَلى بَطْنِهِ [ النور 45] ، إلى آخر الآية . يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] ، فَامْشُوا فِي مَناكِبِها[ الملک 15] ، ويكنّى بالمشي عن النّميمة . قال تعالی: هَمَّازٍ مَشَّاءٍ بِنَمِيمٍ [ القلم 11] ، ويكنّى به عن شرب المسهل، فقیل : شربت مِشْياً ومَشْواً ، والماشية : الأغنام، وقیل : امرأة ماشية : كثر أولادها .- ( م ش ی ) المشی - ( ج ) کے معنی ایک مقام سے دوسرے مقام کی طرف قصد اور ارادہ کے ساتھ منتقل ہونے کے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة 20] جب بجلی چمکتی اور ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ فَمِنْهُمْ مَنْ يَمْشِي عَلى بَطْنِهِ [ النور 45] ان میں سے بعض ایسے ہیں جو پیٹ کے بل چلتے ہیں يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں ۔ فَامْشُوا فِي مَناكِبِها[ الملک 15] تو اس کی راہوں میں چلو پھرو ۔ اور کنایۃ مشی کا لفظ چغلی کھانے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ هَمَّازٍ مَشَّاءٍ بِنَمِيمٍ [ القلم 11] طعن آمیز اشارتیں کرنے والا چغلیاں لئے پھرنے والا ۔ اور کنایۃ کے طور پر مشئی کے معنی مسہل پینا بھی آتے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے : ۔ شربت مشیا ومشو ا میں نے مسہل دواپی الما شیۃ مویشی یعنی بھیڑ بکری کے ریوڑ کو کہتے ہیں اور امراۃ ماشیۃ اس عورت کو کہتے ہیں جس کے بچے بہت ہوں ۔- سكن - السُّكُونُ : ثبوت الشیء بعد تحرّك، ويستعمل في الاستیطان نحو : سَكَنَ فلان مکان کذا، أي : استوطنه، واسم المکان مَسْكَنُ ، والجمع مَسَاكِنُ ، قال تعالی: لا يُرى إِلَّا مَساكِنُهُمْ [ الأحقاف 25] ، - ( س ک ن ) السکون ( ن )- حرکت کے بعد ٹھہر جانے کو سکون کہتے ہیں اور کسی جگہ رہائش اختیار کرلینے پر بھی یہ لفط بولا جاتا ہے اور سکن فلان مکان کذا کے معنی ہیں اس نے فلاں جگہ رہائش اختیار کرلی ۔ اسی اعتبار سے جائے رہائش کو مسکن کہا جاتا ہے اس کی جمع مساکن آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : لا يُرى إِلَّا مَساكِنُهُمْ [ الأحقاف 25] کہ ان کے گھروں کے سوا کچھ نظر ہی نہیں آتا تھا ۔- نُّهيَةُ ( عقل)- : العقل الناهي عن القبائح . جمعها : نُهًى. قال تعالی: إِنَّ فِي ذلِكَ لَآياتٍ لِأُولِي النُّهى[ طه 54] وتَنْهِيَةُ الوادي حيث ينتهي إليه السّيل، ونَهَاءُ النّهار : ارتفاعه، وطلب الحاجة حتی نُهِيَ عنها . أي : انتهى عن طلبها، ظفر بها أو لم يظفر .- النھیۃ ۔ عقل جو انسان کو قبیح باتوں سے روکتی ہو اس کی جمع نھی آتی ہے ۔ قرآن پاک میں ہے :إِنَّ فِي ذلِكَ لَآياتٍ لِأُولِي النُّهى[ طه 54] بیشک ان ( باتوں ) میں عقل والوں کے لئے ( بہت سے ) نشانیاں ہیں ۔ تنھیۃ الوادی وادی کا آخری کنارہ جہاں کہ سیلاب رک جاتا ہے ۔ نھایۃ النھار دن کا بلند ہونا ۔ طلب الحاجۃ حتی نھی عنھا ۔ اس نے اپنی حاجت کو طلب کیا حتیٰ کہ اس کی طلب کرنے کے بعد اس سے رک گیا اور اس میں کامیاب ہونا شرط نہیں ہے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٢٨) کیا ان مکہ والوں کو اس سے بھی ہدایت نہیں ہوئی کہ ہم ان سے پہلے بہت سی جماعتوں کو ہلاک کرچکے ہیں کہ ان ہی مقامات میں یہ لوگ بھی چلتے پھرتے ہیں، اور جو ان مجرموں کو ہم نے سزا دی ہے ان میں عقل مندوں کے لیے بڑی نشانیاں موجود ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :109 اشارہ ہے اہل مکہ کی طرف جو اس وقت مخاطب تھے ۔ سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :110 یعنی تاریخ کے اس سبق میں ، آثار قدیمہ کے اس مشاہدے میں ، نسل انسانی کے اس تجربے میں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani