Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

129۔ 1 یعنی یہ مکذبین اور مشرکین مکہ دیکھتے نہیں کہ ان سے پہلے کئی امتیں گزر چکی ہیں، جن کے جانشین ہیں اور ان کی رہائش گاہوں سے گزر کر آگے جاتے ہیں انھیں ہم اسکے جھٹلانے کی وجہ سے ہلاک کرچکے ہیں، جن کے عبرت ناک انجام میں اہل عقل و دانش کے لئے بڑی نشانیاں ہیں، لیکن اہل مکہ ان سے آنکھیں بند کئے ہوئے انہی کی روش اپنائے ہوئے ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ نے پہلے سے یہ فیصلہ نہ کیا ہوتا کہ وہ تمام حجت کے بغیر اور اس مدت کے آنے سے پہلے جو وہ مہلت کے لئے کسی قوم کو عطا فرماتا ہے، کسی کو ہلاک نہیں کرتا۔ تو فورا انھیں عذاب الٰہی آ چمٹتا اور یہ ہلاکت سے دو چار ہوچکے ہوتے۔ مطلب یہ ہے کہ تکذیب رسالت کے باوجود اگر ان پر اب تک عذاب نہیں آیا تو یہ سمجھیں کہ آئندہ بھی نہیں آئے گا بلکہ ابھی ان کو اللہ کی طرف سے مہلت ملی ہوئی ہے، جیسا کہ وہ ہر قوم کو دیتا ہے۔ مہلت عمل ختم ہوجانے کے بعد ان کو عذاب الٰہی سے بچانے والا کوئی نہیں ہوگا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٩٣ـ۔ ا ] جس طرح اللہ تعالیٰ کے ہر کام میں تدریج و امہال کا قانون کام کرتا ہے۔ ان پر عذاب الٰہی کے نزول میں بھی وہی قانون کارفرما ہے۔ اور اس قاعدہ میں بہت سی مصلحتیں مضمر ہوتی ہیں۔ یعنی جس طرح جو کام کے سرانجام پانے کے لئے ایک مقررہ مدت درکار ہوتی ہے۔ اسی طرح عذاب الٰہی کا بھی وقت مقرر ہے۔ جس کی چند شرائط ہیں۔ اور اگر یہ قانون جاری وساری نہ ہوتا تو ان کے اعمال واقعی اس قابل ہیں کہ انھیں فوری طور پر تباہ و برباد کردیا جاتا۔ اس قانونی تدریج و امہال میں کیا مصلحتیں ہیں اور اگر اس قانون کا لحاظ نہ رکھا جائے تو اس میں کیا نقصانات ہیں، ان کا ذکر پہلے حواشی میں کیا جاچکا ہے۔ لہذا اب تکرار کی ضرورت نہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

ۧوَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ ۔۔ : اصل میں ” وَلَوْلاَ کَلِمَۃٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّکَ وَأَجَلٌ مُّسَمًّی لَکَانَ (الْعَذَابُ ) لِزَامًا “ ہے، فواصل (آیات کے آخری حروف) کی مطابقت کے لیے ” وَّاَجَلٌ مُّسَمًّى“ کو مؤخر کردیا گیا۔ - ” 3 لِزَامًا “ بروزن ” قِتَالٌ“ باب مفاعلہ کا مصدر ہے اور اسم فاعل کے معنی میں برائے مبالغہ ہے، لازم ہونے والا۔ - ” لَکَانَ “ میں ضمیر ” ھُوَ “ اس کا اسم ہے جو پچھلی آیات کے مضمون ” الْعَذَابُ “ (وہی عذاب) کی طرف لوٹ رہی ہے۔ - 3 جب پہلی قوموں کی ہلاکت کا ذکر فرمایا تو سوال پیدا ہوا کہ اب ان جھٹلانے والوں کو کیوں ہلاک نہیں کیا جا رہا ؟ فرمایا کہ اس کے دو سبب ہیں، ایک تو وہ بات جو رب تعالیٰ کی طرف سے پہلے طے ہوچکی اور دوسرا وہ وقت جو مقرر ہوچکا۔ پہلے طے شدہ بات سے مراد اللہ تعالیٰ کی رحمت کا اس کے غضب پر غالب ہونا ہے، جیسا کہ ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( لَمَّا خَلَقَ اللّٰہُ الْخَلْقَ کَتَبَ فِيْ کِتَابِہٖ وَ ھُوَ یَکْتُبُ عَلٰی نَفْسِہٖ وَھُوَ وَضْعٌ عِنْدَہٗ عَلَی الْعَرْشِ اِنَّ رَحْمَتِيْ تَغْلِبُ غَضَبِيْ ) [ بخاري، التوحید، باب قول اللہ : ( ویحذرکم اللہ نفسہ ) : ٧٤٠٤ ] ” جب اللہ تعالیٰ نے مخلوق پیدا فرمائی تو اپنے آپ پر یہ بات لکھ دی، اور وہ خود ہی اپنے آپ پر لکھتا ہے، اور اسے اپنے پاس عرش پر رکھ لیا کہ بیشک میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے۔ “ اور اس نے اپنی رحمت سے یہ بھی لکھ دیا ہے کہ وہ پیغام پہنچانے اور حجت پوری کرنے کے بغیر عذاب نہیں دیتا۔ دیکھیے بنی اسرائیل (١٥) اور نساء (١٦٥) اور یہ بھی لکھ دیا ہے کہ کفار کی نسل سے بیشمار مسلمان پیدا ہوں گے، اس لیے اس نے فوراً عذاب نازل کرنے کے بجائے کفار کو مہلت دے رکھی ہے۔ دوسری بات یہ کہ ہر ایک کا وقت مقرر شدہ ہے، جس سے پہلے کوئی قوم یا شخص جتنی بھی نافرمانی کرے، اسے مہلت دی جاتی ہے، تاکہ وہ یہ نہ کہہ سکے کہ مجھے وقت نہیں ملا، جیسا کہ فرمایا : (لِكُلِّ اُمَّةٍ اَجَلٌ ۚ فَاِذَا جَاۗءَ اَجَلُهُمْ لَا يَسْـتَاْخِرُوْنَ سَاعَةً وَّلَا يَسْتَقْدِمُوْنَ ) [ الأعراف : ٣٤ ] ” اور ہر امت کے لیے ایک وقت ہے، پھر جب ان کا وقت آجاتا ہے تو وہ ایک گھڑی نہ پیچھے ہوتے ہیں اور نہ آگے ہوتے ہیں۔ “ اگر یہ دو باتیں نہ ہوتیں تو وہی پہلی قوموں والا عذاب لازم ہوجاتا۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلَوْلَا كَلِمَۃٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّكَ لَكَانَ لِزَامًا وَّاَجَلٌ مُّسَمًّى۝ ١ ٢٩ۭ- كلم - الكلْمُ : التأثير المدرک بإحدی الحاسّتين، فَالْكَلَامُ : مدرک بحاسّة السّمع، والْكَلْمُ : بحاسّة البصر، وكَلَّمْتُهُ : جرحته جراحة بَانَ تأثيرُها،- ( ک ل م ) الکلم ۔- یہ اصل میں اس تاثیر کو کہتے ہیں جس کا ادراک دو حاسوں میں سے کسی ایک کے ساتھ ہوسکے چناچہ کلام کا ادراک قوت سامعہ کیساتھ ہوتا ہے ۔ اور کلم ( زخم ) کا ادراک قوت بصر کے ساتھ ۔ محاورہ ہے ۔ کلمتہ ۔ میں نے اسے ایسا زخم لگایا ۔ جس کا نشان ظاہر ہوا اور چونکہ یہ دونوں ( یعنی کلام اور کلم ) معنی تاثیر میں مشترک ہیں ۔- سبق - أصل السَّبْقِ : التّقدّم في السّير، نحو : فَالسَّابِقاتِ سَبْقاً [ النازعات 4] ، والِاسْتِبَاقُ : التَّسَابُقُ. قال : إِنَّا ذَهَبْنا نَسْتَبِقُ [يوسف 17] ، وَاسْتَبَقَا الْبابَ [يوسف 25] ، ثم يتجوّز به في غيره من التّقدّم، قال : ما سَبَقُونا إِلَيْهِ [ الأحقاف 11] ،- ( س ب ق) السبق - اس کے اصل معنی چلنے میں آگے بڑھ جانا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : فَالسَّابِقاتِ سَبْقاً [ النازعات 4] پھر وہ ( حکم الہی کو سننے کے لئے لپکتے ہیں ۔ الاستباق کے معنی تسابق یعنی ایک دوسرے سے سبقت کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :َ إِنَّا ذَهَبْنا نَسْتَبِقُ [يوسف 17] ہم ایک دوسرے سے دوڑ میں مقابلہ کرنے لگ گئے ۔ وَاسْتَبَقَا الْبابَ [يوسف 25] اور دونوں دوڑتے ہوئے دروز سے پر پہنچنے ۔ مجازا ہر شے میں آگے بڑ اجانے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ ما سَبَقُونا إِلَيْهِ [ الأحقاف 11] تو یہ ہم سے اس کیطرف سبقت نہ کرجاتے ۔ - رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- لزم - لُزُومُ الشیء : طول مكثه، ومنه يقال : لَزِمَهُيَلْزَمُهُ لُزُوماً ،- والْإِلْزَامُ ضربان :- إلزام بالتّسخیر من اللہ تعالی، أو من الإنسان، وإلزام بالحکم والأمر . نحو قوله : أَنُلْزِمُكُمُوها وَأَنْتُمْ لَها كارِهُونَ [هود 28]- ( ل ز م ) لزمہ - یلزمہ لزوما کے معنی کسی چیز کا عرصہ دراز تک ایک جگہ پر ٹھہرے رہنا کے ہیں ۔- اور الزام ( افعال ) دوقسم پر ہے - ایک تو الزام بالتسخیر ہے اسکی نسبت اللہ تعالیٰ اور انسان دونوں کی طرف ہوسکتی ہے اور دوسرے الزام بالحکم والامر یعنی کسی چیز کو حکما واجب کردینا جیسے فرمایا : أَنُلْزِمُكُمُوها وَأَنْتُمْ لَها كارِهُونَ [هود 28] تو کیا ہم اس کے لئے تمہیں مجبور کرسکتے ہیں ۔ اور تم ہو کہ اس سے ناخوش ہورہے ہو ۔- أجل - الأَجَل : المدّة المضروبة للشیء، قال تعالی: لِتَبْلُغُوا أَجَلًا مُسَمًّى [ غافر 67] ، أَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ [ القصص 28] .- ( ا ج ل ) الاجل - ۔ کے معنی کسی چیز کی مدت مقررہ کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلِتَبْلُغُوا أَجَلًا مُسَمًّى [ غافر : 67] اور تاکہ تم ( موت کے ) وقت مقررہ تک پہنچ جاؤ ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٢٩) اور اگر تاخیر عذاب کے بارے میں آپ کے رب کی طرف سے ایک بات پہلے سے فرمائی نہ ہوتی اور اس امت کے لیے نزول عذاب کے بارے میں ایک وقت مقرر نہ ہوتا تو ان کی ہلاکت کے لیے ان پر عذاب ضرور نازل ہوتا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٢٩ (وَلَوْلَا کَلِمَۃٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّکَ لَکَانَ لِزَامًا وَّاَجَلٌ مُّسَمًّی ) ” - اگر اللہ تعالیٰ نے ان کی مہلت کی مدت پہلے سے طے نہ فرما دی ہوتی تو ان پر کب کا عذاب آچکا ہوتا۔ ترتیب عبارت اصل میں یوں ہے : ” وَلَوْلَا کَلِمَۃٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّکَ وَّاَجَلٌ مُّسَمًّی لَکَانَ لِزَامًا “ لیکن یہاں پر عبارت کے مخصوص آہنگ ( ) کے پیش نظر الفاظ میں تقدیم و تاخیر کی گئی ہے۔ - اگلی آیات کی سورة الحجر کی آخری پندرہ آیات کے ساتھ گہری مشابہت ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

55: یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت سے ان کافروں کو عذاب دینے کا ایک وقت مقرر کر رکھا ہے، اور یہ طے کر رکھا ہے کہ اس سے پہلے ان کو مہلت دی جائے گی۔ اس لیے ان کی نافرمانیوں کے باوجود ان پر عذاب نازل نہیں ہو رہا ہے۔ اگر یہ بات پہلے سے طے نہ ہوتی تو ان کے کرتوت ایسے تھے کہ ان کو فوری طور پر عذاب آ چمٹتا۔