Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

130۔ 1 بعض مفسرین کے نزدیک تسبیح سے مراد نماز ہے اور وہ اسے پانچ نمازوں سے مراد لیتے ہیں۔ طلوع شمس سے قبل فجر، ٖغروب سے قبل، عصر رات کی گھڑیوں سے مغرب و عشاء اور اطراف النھار سے ظہر کی نماز مراد ہے کیونکہ ظہر کا وقت، یہ نماز اول کا طرف آخر اور نہار آخر کا طرف اول ہے۔ اور بعض کے نزدیک ان اوقات میں ایسے ہی اللہ کی تسبیح و توحید ہے، جس میں نماز، تلاوت، ذکر اذکار، دعا مناجات اور نوافل سب داخل ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ آپ ان مشرکین کی تکذیب سے بددل نہ ہوں۔ اللہ کی تسبیح وتحمید کرتے رہیں۔ اللہ تعالیٰ جب چاہے گا، ان کی گرفت فرما لے گا۔ 130۔ 2 یہ متعلق ہے فَسَبِّحْ سے یعنی ان اوقات میں تسبیح کریں، یہ امید رکھتے ہوئے کہ اللہ کے ہاں آپ کو وہ مقام و درجہ حاصل ہوجائے گا جس سے آپ کا نفس راضی ہوجائے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٩٤] مصائب و مشکلات کا ثابت قدمی سے مقابلہ کرنے کے لئے قرآن نے متعدد مقامات پر دو باتوں پر زور دیا ہے۔ ایک صبر اور دوسرے نماز۔ صبر سے مراد احکام الٰہی کو پورے استقلال کے ساتھ بجا لاتے رہنا بھی ہے۔ اور اس راہ میں پیش آنے والی مشکلات کو خندہ پیشانی سے برداشت کرنا بھی۔ اور نماز سے بندے کا اللہ سے تعلق پیدا ہوتا ہے اور وہ اللہ پر توکل کرنا سیکھتا ہے اور جوں جوں یہ تعلق بڑھتا جاتا ہے۔ اللہ پر توکل میں بھی اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ اور اسی توکل سے مشکلات کو برداشت کرنے کی ہمت و جرأت پیدا ہوتی ہے۔- ] ـ٩٥] حد کے ساتھ تسبیح اور محض تسبیح دونوں سے یہاں مراد نماز ہے کہ یہ عرب میں عام دستور ہے کہ کسی چیز کا کوئی خاص جزء بول کر اس سے مراد کل لیا جاتا ہے اور اس کی مثالیں بہت ہیں۔ سورج کے طلوع سے پہلے سے مراد فجر کی نماز ہے اور غروب سے پہلے کی نماز عصر ہے۔ رات کے کچھ اوقات سے مراد نماز عشاء ہے اور نماز تہجد بھی جو آپ پر تو فرض تھی لیکن دوسروں کے لئے سنت مؤکدہ ہے۔ اور ان کے کنارے تین ہی ہوسکتے ہیں، صبح، شام اور زوال آفتاب، صبح سے مراد فجر کا نماز ہے جس کا ذکر پہلے ہی آچکا، شام سے مراد نماز مغرب اور زوال آفتاب سے مراد ظہر کی نماز ہے۔ گویا اس ایک آیت سے ہی پانچوں فرض نمازیں اور ان کے اوقات ثابت ہوجاتے ہیں اور اس آیت کا ایک مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ کو کسی وقت بھی اللہ کی یاد اور تسبیح و تہلیل سے غافل نہ رہنا چاہئے۔- ] ـ٩٦] یعنی صبر اور نمازوں کے قیام کے نتائج اتنے شاندار حاصل ہوں گے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان پر خوش ہوجائیں گے اور فی الواقعہ ان کے ایسے شاندار نتائج نکہلے جو سب دنیا نے دیکھ لئے اور ایسے نتائج کا ذکر قرآن کی اور بھی بہت سی آیات میں مذکور ہے۔ اور اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس دنیا کے بعد آخر کو اتنا بلند مقام عطا ہوگا جس پر آپ خوش ہوجائیں گے۔ جیسے آپ کا قیامت کے دن انبیاء سمیت سب لوگوں کے لئے اللہ کے حضور سفارش کرنا اور آپ کو مقام محمود عطا ہونا وغیرہ۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

فَاصْبِرْ عَلٰي مَا يَــقُوْلُوْنَ : یعنی جب اللہ تعالیٰ نے انھیں مہلت دینا طے فرما دیا ہے تو اب خواہ وہ کتنی تکلیف دہ باتیں کہیں، ساحر کہیں یا شاعر، کاہن کہیں یا مجنون، مذاق اڑائیں یا اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ باتیں کہیں، آپ کے پاس صبر اور اللہ سے فریاد کے سوا چارہ نہیں، کیونکہ ہر مصیبت میں دو ہی چیزیں مددگار ثابت ہوتی ہیں، ایک صبر اور دوسری اللہ تعالیٰ کا ذکر اور تسبیح و تحمید، جس کی جامع صورت نماز ہے، اس لیے دوسری جگہ فرمایا : (وَاسْتَعِيْنُوْا بالصَّبْرِ وَالصَّلٰوةِ ) [ البقرۃ : ١٥ ] ” اور صبر اور نماز کے ساتھ مدد طلب کرو۔ “- وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ : اس کا لفظی معنی اگرچہ یہ ہے کہ ” اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کر “ مگر مراد نماز ہے، جیسا کہ جز بول کر کل مراد لیا جاتا ہے، رکعت یا سجدہ بول کر پوری نماز مراد لی جاتی ہے، اسی طرح تسبیح و حمد بول کر پوری نماز مراد لی ہے، کیونکہ رکوع اور سجدہ کی طرح تسبیح و حمد بھی نماز کا جز ہے۔ دلیل اس کی جریر بن عبداللہ بجلی (رض) کی حدیث ہے، وہ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بیٹھے ہوئے تھے تو آپ نے چودھویں رات کے چاند کو دیکھ کر فرمایا : ( إِنَّکُمْ سَتَرَوْنَ رَبَّکُمْ کَمَا تَرَوْنَ ھٰذَا لَا تُضَامُوْنَ فِيْ رُؤْیَتِہٖ فَإِنِ اسْتَطَعْتُمْ أَنْ لَّا تُغْلَبُوْا عَلٰی صَلاَۃٍ قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوْبِھَا فَافْعَلُوْا ثُمَّ قَرَأَ : ( وَسَبِّــحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ الْغُرُوْبِ ) [ ق : ٣٩ ] [ بخاري، التفسیر، باب قولہ ( وسبح بحمد ربک۔۔ ): ٤٨٥١ ]” تم اپنے رب کو اسی طرح دیکھو گے جیسے اسے دیکھ رہے ہو، اسے دیکھنے میں تمہیں کوئی بھیڑ پیش نہیں آئے گی۔ تو اگر تم یہ کرسکو کہ سورج طلوع ہونے سے پہلے اور اس کے غروب ہونے سے پہلے کی نماز کی ادائیگی میں کوئی تم پر غالب نہ آئے (رکاوٹ نہ بنے) تو ایسا کرو۔ “ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی : ( وَسَبِّــحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ الْغُرُوْبِ ) سورة قٓ کی اس آیت اور زیر تفسیر آیت کے الفاظ ایک ہیں، اس لیے یہاں بھی ” وَسَبِّــحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ “ سے مراد نماز ہی ہے۔ یہ بات واضح رہے کہ فرض نمازیں پانچ ہیں، ان کے اوقات کے اول و آخر کی تعیین، ان کی رکعات، ان کے ادا کرنے کا طریقہ سب کچھ حدیث سے معلوم ہوتا ہے، حدیث کے انکار کا مطلب درحقیقت قرآن کا انکار ہے۔ صرف قرآن مجید سے ان میں سے کسی بات پر عمل ممکن نہیں، بلکہ نماز کے علاوہ زکوٰۃ، صیام، حج غرض کسی بھی حکم پر پوری طرح عمل ممکن نہیں۔ اس لیے کسی بھی مسلمان کو یہ مانے بغیر چارہ نہیں کہ قرآن مجید نے بھی انھی پانچ نمازوں کو فرض قرار دیا ہے جنھیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دن رات میں فرض بتایا ہے اور اپنے قول و عمل سے ان کا نمونہ پیش فرمایا ہے۔ اس لیے سلف صالحین نے ایسی تمام آیات کی تفسیر، جن میں نماز کے اوقات کی طرف اشارہ ہے، حدیث کو مدنظر رکھ کر ہی کی ہے۔- اس آیت سے پانچ نمازوں کا حکم کس طرح ثابت ہوتا ہے ؟ اس بارے میں مفسرین کا بیان مختلف ہے۔ مجھے بقاعی (رض) کی تفسیر بہتر معلوم ہوتی ہے، وہ یہ ہے کہ ” قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ “ سے مراد فجر کی نماز ہے۔ ” وَقَبْلَ غُرُوْبِهَا “ سے مراد ظہر اور عصر کی نماز ہے۔ ”ۚ وَمِنْ اٰنَاۗئِ الَّيْلِ “ سے مراد مغرب اور عشاء ہے اور ” وَاَطْرَاف النَّهَارِ “ (دن کے کناروں) سے مراد فجر اور عصر ہے، کیونکہ فجر دن کے پہلے کنارے میں ہے اور عصر دن کے آخری کنارے میں، رہی مغرب تو وہ رات میں شامل ہے۔ اس پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان دو نمازوں (فجر اور عصر) کا ذکر ” قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ الْغُرُوْبِ “ میں ہوچکا ہے، اس تفسیر کے مطابق ان کا ذکر دوبارہ لازم آتا ہے۔ جواب اس کا یہ ہے کہ ان دونوں نمازوں کی مزید تاکید کے لیے ان کا دوبارہ ذکر کیا گیا ہے، جیسا کہ فرمایا : (حٰفِظُوْا عَلَي الصَّلَوٰتِ وَالصَّلٰوةِ الْوُسْطٰى ۤ وَقُوْمُوْا لِلّٰهِ قٰنِتِيْنَ ) [ البقرۃ : ٢٣٨ ] (سب نمازوں کی حفاظت کرو اور درمیانی نماز کی اور اللہ کے لیے فرماں بردار ہو کر کھڑے رہو) میں ” صلاۃ وسطیٰ “ کا ذکر اس کی فضیلت و اہمیت کے پیش نظر دوبارہ کیا گیا ہے۔ فجر اور عصر کے فضائل کے پیش نظر ان کی مزید تاکید کے لیے انھیں دوبارہ ذکر فرمایا، کیونکہ حدیث کے مطابق ان دونوں نمازوں میں رات اور دن کے فرشتے شامل ہوتے ہیں اور جیسا کہ اوپر گزرا کہ اللہ تعالیٰ کی زیارت کے حصول کے لیے ان دونوں نمازوں کا خاص دخل ہے۔ نمازوں کے اوقات کے لیے مزید دیکھیں سورة بنی اسرائیل (٧٨) ۔- لَعَلَّكَ تَرْضٰى : یہ اشارہ ہے اس طرف کہ صبر اور نماز کی برکت سے آپ کو مقام محمود حاصل ہوگا۔ دیکھیے سورة بنی اسرائیل (٧٩) سورة ضحی میں فرمایا : (وَلَسَوْفَ يُعْطِيْكَ رَبُّكَ فَتَرْضٰى ) [ الضحٰی : ٥ ]” اور یقیناً عنقریب تیرا رب تجھے عطا کرے گا، پس تو راضی ہوجائے گا۔ “ حدیث میں ہے کہ اہل جنت کو بھی راضی کیا جائے گا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِنَّ اللّٰہَ یَقُوْلُ لِأَھْلِ الْجَنَّۃِ یَا أَھْْلَ الْجَنَّۃِ فَیَقُوْلُوْنَ لَبَّیْکَ رَبَّنَا وَسَعْدَیْکَ وَالْخَیْرُ فِيْ یَدَیْکَ ، فَیَقُوْلُ ھَلْ رَضِیْتُمْ ؟ فَیَقُوْلُوْنَ وَمَا لَنَا لاَ نَرْضَی یَا رَبِّ فَقَدْ أَعْطَیْتَنَا مَا لَمْ تُعْطِ أَحَدًا مِنْ خَلْقِکَ ؟ فَیَقُوْلُ أَلاَ أُعْطِیْکُمْ أَفْضَلَ مِنْ ذٰلِکَ ؟ فَیَقُوْلُوْنَ یَا رَبِّ وَأَيُّ شَيْءٍ أَفْضَلُ مِنْ ذٰلِکَ ؟ فَیَقُوْلُ : أُحِلُّ عَلَیْکُمْ رِضْوَانِيْ فَلاَ أَسْخَطُ عَلَیْکُمْ بَعْدَہُ أَبَدًا ) [ بخاري، التوحید، باب کلام الرب مع أہل الجنۃ : ٧٥١٨، عن أبی سعید الخدری ]” اللہ تعالیٰ اہل جنت سے فرمائے گا، اے اہل جنت وہ کہیں گے، بار بار تیری جناب میں حاضر ہیں اے ہمارے رب اور بار بار حاضر ہیں تو وہ فرمائے گا، کیا تم راضی (خوش) ہوگئے ؟ وہ کہیں گے، ہمیں کیا ہے کہ ہم خوش نہ ہوں، جب کہ تو نے ہمیں وہ کچھ عطا فرمایا جو اپنی مخلوق میں سے کسی کو عطا نہیں فرمایا۔ وہ فرمائے گا، کیا میں تمہیں اس سے بھی افضل چیز عطا کروں ؟ وہ کہیں گے، اے رب اور اس سے افضل کیا ہے ؟ وہ فرمائے گا، میں تمہیں اپنی رضا عطا کرتا ہوں، سو اس کے بعد میں تم پر کبھی ناراض نہیں ہوں گا۔ “ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِذَا دَخَلَ أَھْلُ الْجَنَّۃِ الْجَنَّۃَ ، قَالَ یَقُوْلُ اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی تُرِیْدُوْنَ شَیْءًا أَزِیْدُکُمْ ؟ فَیَقُوْلُوْنَ أَلَمْ تُبَیِّضْ وُجُوْھَنَا ؟ أَلَمْ تُدْخِلْنَا الْجَنَّۃَ وَ تُنَجِّنَا مِنَ النَّارِ ؟ قَالَ فَیَکْشِفُ الْحِجَابَ ، فَمَا أُعْطُوْا شَیْءًا أَحَبَّ إِلَیْھِمْ مِنَ النَّظَرِ إِلٰی رَبِّھِمْ ) [ مسلم، الإیمان، باب إثبات رؤیۃ المؤمنین۔۔ : ١٨١، عن صہیب (رض) ] ” جب اہل جنت، جنت میں داخل ہوجائیں گے تو اللہ تبارک و تعالیٰ فرمائے گا : ” تم کوئی چیز چاہتے ہو کہ میں تمہیں مزید دوں ؟ “ تو وہ کہیں گے : ” کیا تو نے ہمارے چہرے سفید نہیں کیے ؟ کیا تو نے ہمیں جنت میں داخل نہیں فرمایا اور ہمیں آگ سے نجات نہیں دی ؟ “ فرمایا : ” تو اس وقت اللہ حجاب اٹھا دے گا، تو انھیں کوئی چیز عطا نہیں کی گئی ہوگی جو انھیں اپنے رب عز وجل کے دیدار سے زیادہ محبوب ہو۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

فَاصْبِرْ عَلٰي مَا يَــقُوْلُوْنَ ، اہل مکہ جو ایمان سے بھاگنے کے لئے طرح طرح کے حیلے بہانے تلاش کرتے تھے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو برے برے کلمات سے یاد کرتے تھے، کوئی ساحر کوئی شاعر کوئی کاذب کہتا تھا۔ ان کی ایذاؤں کا علاج قرآن کریم نے اس جگہ دو چیزوں سے بتلایا ہے اول یہ کہ آپ ان کے کہنے کی طرف التفات نہ کریں بلکہ صبر کریں۔ دوسری چیز اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول ہوجانا ہے جو اگلے جملے میں فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ کے الفاظ سے بیان کیا گیا ہے۔- دشمنوں کی ایذاؤں سے بچنے کا علاج صبر اور اللہ کی یاد میں مشغول ہونا ہے :- دشمنوں سے تو اس دنیا میں کسی چھوٹے بڑے، اچھے برے انسان کو نجات نہیں ملتی۔ ہر شخص کا کوئی نہ کوئی دشمن ہوتا ہے اور دشمن کتنا ہی حقیر و ضعیف ہو اپنے مخالف کو کچھ نہ کچھ ایذا پہنچا ہی دیتا ہے، زبانی گالی گلوچ ہی سہی، سامنے ہمت نہ ہو تو پیچھے ہی سہی۔ اس لئے دشمن کی ایذاؤں سے بچنے کی فکر ہر شخص کو ہوتی ہے۔ قرآن کریم نے ان کا بہترین اور کامیاب نسخہ دو چیزوں سے مرکب بیان فرمایا ہے۔ اول صبر یعنی اپنے نفس کو قابو میں رکھنا اور انتقام کی فکر میں نہ پڑنا دوسرے اللہ تعالیٰ کی یاد اور عبادت میں مشغول ہوجانا۔ تجربہ شاہد ہے کہ صرف یہی نسخہ ہے جس سے ان ایذاؤں سے نجات مل سکتی ہے ورنہ انتقام کی فکر میں پڑنے والا کتنا ہی قوی اور بڑا اور صاحب اقتدار ہو بسا اوقات مخالف سے انتقام لینے پر قادر نہیں ہوتا اور یہ فکر انتقام ایک مستقل عذاب اس کے لئے بن جاتا ہے اور جب انسان کی توجہ حق تعالیٰ کی طرف ہوجائے اور وہ دھیان یہ کرے کہ اس دنیا میں کوئی کسی کو کسی طرح کا نقصان یا ایذا بغیر مشیت خداوندی کے نہیں پہنچا سکتا اور اللہ تعالیٰ کے اعمال و افعال سب حکمت پر مبنی ہوتے ہیں اس لئے جو صورت پیش آئی ہے اس میں ضرور کوئی حکمت ہوگی تو مخالف کی ایذاؤں سے پیدا ہونے والا غیظ و غضب خود بخود کافور ہوجاتا ہے اسی لئے آخر آیت میں فرمایا لَعَلَّكَ تَرْضٰى یعنی اس تدبیر سے آپ راضی خوشی بسر کرسکیں گے۔ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ یعنی آپ اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کریں اس کی حمد و شکر کے ساتھ۔ اس میں اشارہ ہے کہ جس بندے کو اللہ تعالیٰ کا نام لینے یا کچھ عبادت کرنے کی توفیق ہوجائے اس کو چاہئے کہ اپنے اس عمل پر ناز و فخر کرنے کے بجائے اللہ تعالیٰ کی حمد و شکر کو اپنا وظیفہ بنائے یہ ذکر اللہ یا عبادت اسی کی توفیق کا نتیجہ اور ثمرہ ہے۔- اور یہ لفظ سَبِّحْ بِحَمْدِ عام ذکر و حمد کے معنے میں بھی ہوسکتا ہے اور خاص نماز کے معنے میں بھی عموماً حضرات مفسرین نے اسی کو لیا ہے اور اس کے بعد جو اوقات معین کر کے بتلائے ہیں وہ بھی نمازوں کے اوقات قرار دیئے ہیں۔ مثلاً قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ سے مراد نماز فجر اور قَبْلَ غُرُوْبِهَا سے مراد نماز ظہر و عصر اور وَمِنْ اٰنَاۗئِ الَّيْلِ سے مراد رات کی سب نماز میں مغرب عشاء یہاں تک کہ تہجد بھی اس میں شامل ہے اور پھر لفظ اَطْرَاف النَّهَارِ سے اس کی مزید تاکید بتلائی گئی ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَاصْبِرْ عَلٰي مَا يَــقُوْلُوْنَ وَسَبِّــحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوْبِہَا۝ ٠ۚ وَمِنْ اٰنَاۗئِ الَّيْلِ فَسَبِّــحْ وَاَطْرَافَ النَّہَارِ لَعَلَّكَ تَرْضٰى۝ ١٣٠- صبر - الصَّبْرُ : الإمساک في ضيق، والصَّبْرُ : حبس النّفس علی ما يقتضيه العقل والشرع، أو عمّا يقتضیان حبسها عنه، وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب 35] ، وسمّي الصّوم صبرا لکونه کالنّوع له، وقال عليه السلام :«صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر»- ( ص ب ر ) الصبر - کے معنی ہیں کسی کو تنگی کی حالت میں روک رکھنا ۔ لہذا الصبر کے معنی ہوئے عقل و شریعت دونوں یا ان میں سے کسی ایک کے تقاضا کے مطابق اپنے آپ کو روک رکھنا ۔ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب 35] صبر کرنے والے مرو اور صبر کرنے والی عورتیں اور روزہ کو صبر کہا گیا ہے کیونکہ یہ بھی ضبط نفس کی ایک قسم ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا «صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر» ماه رمضان اور ہر ماہ میں تین روزے سینہ سے بغض کو نکال ڈالتے ہیں - سبح - السَّبْحُ : المرّ السّريع في الماء، وفي الهواء، يقال : سَبَحَ سَبْحاً وسِبَاحَةً ، واستعیر لمرّ النجوم في الفلک نحو : وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [ الأنبیاء 33] ، ولجري الفرس نحو :- وَالسَّابِحاتِ سَبْحاً [ النازعات 3] ، ولسرعة الذّهاب في العمل نحو : إِنَّ لَكَ فِي النَّهارِ سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل 7] ، والتَّسْبِيحُ : تنزيه اللہ تعالی. وأصله : المرّ السّريع في عبادة اللہ تعالی، وجعل ذلک في فعل الخیر کما جعل الإبعاد في الشّرّ ، فقیل : أبعده الله، وجعل التَّسْبِيحُ عامّا في العبادات قولا کان، أو فعلا، أو نيّة، قال : فَلَوْلا أَنَّهُ كانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ- [ الصافات 143] ،- ( س ب ح ) السبح - اس کے اصل منعی پانی یا ہوا میں تیز رفتار ری سے گزر جانے کے ہیں سبح ( ف ) سبحا وسباحۃ وہ تیز رفتاری سے چلا پھر استعارہ یہ لفظ فلک میں نجوم کی گردش اور تیز رفتاری کے لئے استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [ الأنبیاء 33] سب ( اپنے اپنے ) فلک یعنی دوائر میں تیز ی کے ساتھ چل رہے ہیں ۔ اور گھوڑے کی تیز رفتار پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالسَّابِحاتِ سَبْحاً [ النازعات 3] اور فرشتوں کی قسم جو آسمان و زمین کے درمیان ) تیر تے پھرتے ہیں ۔ اور کسی کام کو سرعت کے ساتھ کر گزرنے پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ إِنَّ لَكَ فِي النَّهارِ سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل 7] اور دن کے وقت کو تم بہت مشغول کا رہے ہو ۔ التسبیح کے معنی تنزیہ الہیٰ بیان کرنے کے ہیں اصل میں اس کے معنی عبادت الہی میں تیزی کرنا کے ہیں ۔۔۔۔۔۔ پھر اس کا استعمال ہر فعل خیر پر - ہونے لگا ہے جیسا کہ ابعاد کا لفظ شر پر بولا جاتا ہے کہا جاتا ہے ابعد اللہ خدا سے ہلاک کرے پس تسبیح کا لفظ قولی ۔ فعلی اور قلبی ہر قسم کی عبادت پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَلَوْلا أَنَّهُ كانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ [ الصافات 143] قو اگر یونس (علیہ السلام) اس وقت ( خدا کی تسبیح ( و تقدیس کرنے والوں میں نہ ہوتے ۔ یہاں بعض نے مستحین کے معنی مصلین کئے ہیں لیکن انسب یہ ہے کہ اسے تینوں قسم کی عبادت پر محمول کیا جائے - حمد - الحَمْدُ لله تعالی: الثناء عليه بالفضیلة، وهو أخصّ من المدح وأعمّ من الشکر، فإنّ المدح يقال فيما يكون من الإنسان باختیاره، ومما يقال منه وفيه بالتسخیر، فقد يمدح الإنسان بطول قامته وصباحة وجهه، كما يمدح ببذل ماله وسخائه وعلمه، والحمد يكون في الثاني دون الأول، والشّكر لا يقال إلا في مقابلة نعمة، فكلّ شکر حمد، ولیس کل حمد شکرا، وکل حمد مدح ولیس کل مدح حمدا، ويقال : فلان محمود :- إذا حُمِدَ ، ومُحَمَّد : إذا کثرت خصاله المحمودة، ومحمد : إذا وجد محمودا «2» ، وقوله عزّ وجلّ :إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود 73] ، يصحّ أن يكون في معنی المحمود، وأن يكون في معنی الحامد، وحُمَادَاكَ أن تفعل کذا «3» ، أي : غایتک المحمودة، وقوله عزّ وجل : وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ [ الصف 6] ، فأحمد إشارة إلى النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم باسمه وفعله، تنبيها أنه كما وجد اسمه أحمد يوجد وهو محمود في أخلاقه وأحواله، وخصّ لفظة أحمد فيما بشّر به عيسى صلّى اللہ عليه وسلم تنبيها أنه أحمد منه ومن الذین قبله، وقوله تعالی: مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ- [ الفتح 29] ، فمحمد هاهنا وإن کان من وجه اسما له علما۔ ففيه إشارة إلى وصفه بذلک وتخصیصه بمعناه كما مضی ذلک في قوله تعالی: إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيى [ مریم 7] ، أنه علی معنی الحیاة كما بيّن في بابه «4» إن شاء اللہ .- ( ح م د ) الحمدللہ - ( تعالیٰ ) کے معنی اللہ تعالے کی فضیلت کے ساتھ اس کی ثنا بیان کرنے کے ہیں ۔ یہ مدح سے خاص اور شکر سے عام ہے کیونکہ مدح ان افعال پر بھی ہوتی ہے جو انسان سے اختیاری طور پر سرزد ہوتے ہیں اور ان اوصاف پر بھی جو پیدا کشی طور پر اس میں پائے جاتے ہیں چناچہ جس طرح خرچ کرنے اور علم وسخا پر انسان کی مدح ہوتی ہے اس طرح اسکی درازی قدو قامت اور چہرہ کی خوبصورتی پر بھی تعریف کی جاتی ہے ۔ لیکن حمد صرف افعال اختیار یہ پر ہوتی ہے ۔ نہ کہ اوصاف اضطرار ہپ پر اور شکر تو صرف کسی کے احسان کی وجہ سے اس کی تعریف کو کہتے ہیں ۔ لہذا ہر شکر حمد ہے ۔ مگر ہر شکر نہیں ہے اور ہر حمد مدح ہے مگر ہر مدح حمد نہیں ہے ۔ اور جس کی تعریف کی جائے اسے محمود کہا جاتا ہے ۔ مگر محمد صرف اسی کو کہہ سکتے ہیں جو کثرت قابل ستائش خصلتیں رکھتا ہو نیز جب کوئی شخص محمود ثابت ہو تو اسے بھی محمود کہہ دیتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود 73] وہ سزاوار تعریف اور بزرگوار ہے ۔ میں حمید بمعنی محمود بھی ہوسکتا ہے اور حامد بھی حماد اک ان تفعل کذا یعنی ایسا کرنے میں تمہارا انجام بخیر ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ [ الصف 6] اور ایک پیغمبر جو میرے بعد آئیں گے جن کا نام احمد ہوگا ان کی بشارت سناتاہوں ۔ میں لفظ احمد سے آنحضرت کی ذات کی طرف اشارہ ہے اور اس میں تنبیہ ہے کہ جس طرح آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام احمد ہوگا اسی طرح آپ اپنے اخلاق واطوار کے اعتبار سے بھی محمود ہوں گے اور عیٰسی (علیہ السلام) کا اپنی بشارت میں لفظ احمد ( صیغہ تفضیل ) بولنے سے اس بات پر تنبیہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت مسیح (علیہ السلام) اور ان کے بیشتر وجملہ انبیاء سے افضل ہیں اور آیت کریمہ : مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ [ الفتح 29] محمد خدا کے پیغمبر ہیں ۔ میں لفظ محمد گومن وجہ آنحضرت کا نام ہے لیکن اس میں آنجناب کے اوصاف حمیدہ کی طرف بھی اشنار پایا جاتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ : إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيى [ مریم 7] میں بیان ہوچکا ہے کہ ان کا یہ نام معنی حیات پر دلالت کرتا ہے جیسا کہ اس کے مقام پرند کو ہے ۔- طلع - طَلَعَ الشمسُ طُلُوعاً ومَطْلَعاً. قال تعالی: وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ- [ طه 130] ، حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر 5] ، والمَطْلِعُ : موضعُ الطُّلُوعِ ، حَتَّى إِذا بَلَغَ مَطْلِعَ الشَّمْسِ وَجَدَها تَطْلُعُ عَلى قَوْمٍ [ الكهف 90] ، وعنه استعیر : طَلَعَ علینا فلانٌ ، واطَّلَعَ. قال تعالی: هَلْ أَنْتُمْ مُطَّلِعُونَ [ الصافات 54] ، فَاطَّلَعَ- [ الصافات 55] ، قال : فَأَطَّلِعَ إِلى إِلهِ مُوسی[ غافر 37] ، وقال : أَطَّلَعَ الْغَيْبَ [ مریم 78] ، لَعَلِّي أَطَّلِعُ إِلى إِلهِ مُوسی[ القصص 38] ، واسْتَطْلَعْتُ رأيَهُ ، وأَطْلَعْتُكَ علی كذا، وطَلَعْتُ عنه : غبت، والطِّلاعُ : ما طَلَعَتْ عليه الشمسُ والإنسان، وطَلِيعَةُ الجیشِ : أوّل من يَطْلُعُ ، وامرأةٌ طُلَعَةٌ قُبَعَةٌ «1» : تُظْهِرُ رأسَها مرّةً وتستر أخری، وتشبيها بالطُّلُوعِ قيل : طَلْعُ النَّخْلِ. لَها طَلْعٌ نَضِيدٌ [ ق 10] ، طَلْعُها كَأَنَّهُ رُؤُسُ الشَّياطِينِ [ الصافات 65] ، أي : ما طَلَعَ منها، وَنَخْلٍ طَلْعُها هَضِيمٌ [ الشعراء 148] ، وقد أَطْلَعَتِ النّخلُ ، وقوسٌ طِلَاعُ الكفِّ : ملءُ الكفِّ.- ( ط ل ع ) طلع - ( ن ) الشمس طلوعا ومطلعا کے معنی آفتاب طلوع ہونے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ [ طه 130] اور سورج کے نکلنے سے پہلے ۔۔۔۔۔ تسبیح وتحمید کیا کرو ۔ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر 5] طلوع صبح تک ۔ اور مطلع کے معنی ہیں طلوع ہونیکی جگہ قرآن میں ہے : ۔ حَتَّى إِذا بَلَغَ مَطْلِعَ الشَّمْسِ وَجَدَها تَطْلُعُ عَلى قَوْمٍ [ الكهف 90] یہاں تک کہ سورج کے طلوع ہونے کے مقام پر پہنچا تو دیکھا کہ وہ ایسے لوگوں پر طلوع کرتا ہے ۔۔۔۔۔ اسی سے استعارہ کے طور طلع علینا فلان واطلع کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی ہیں کسی کے سامنے ظاہر ہونا اور اوپر پہنچ کر نیچے کی طرف جھانکنا قرآن میں ہے : ۔ هَلْ أَنْتُمْ مُطَّلِعُونَ [ الصافات 54] بھلا تم اسے جھانک کر دیکھنا چاہتے ہو اتنے میں وہ خود جھانکے گا ۔ فَاطَّلَعَ [ الصافات 55] پھر اوپر جاکر موسیٰ (علیہ السلام) کے خدا کو دیکھ لوں ۔ أَطَّلَعَ الْغَيْبَ [ مریم 78] کیا اس نے غیب کی خبر پالی ۔ لَعَلِّي أَطَّلِعُ إِلى إِلهِ مُوسی[ القصص 38] تاکہ میں موسیٰ (علیہ السلام) کے خدا کی طرف چڑھ جاؤں ۔ استطعت ( میں نے اس کی رائے معلوم کی ۔ اطلعت علٰی کذا میں نے تمہیں فلان معاملہ سے آگاہ کردیا طلعت عنہ میں اس سے پنہاں ہوگیا ( اضداد الطلاع ہر وہ چیز جس پر سورج طلوع کرتا ہو یا ( 2 ) انسان اس پر اطلاع پائے طلعیۃ الجیش ہر اول دستہ امرء ۃ طلعۃ قبعۃ وہ عورت جو بار بار ظاہر اور پوشیدہ ہو اور طلوع آفتاب کی مناسبت سے طلع النخل کا محاورہ استعمال ہوتا ہے اور اس کے معنی درخت خرما کے غلاف کے ہیں جس کے اندر اس کا خوشہ ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ لَها طَلْعٌ نَضِيدٌ [ ق 10] جن کا گا بھاتہ بتہ ہوتا ہے طَلْعُها كَأَنَّهُ رُؤُسُ الشَّياطِينِ [ الصافات 65] ان کے شگوفے ایسے ہوں گے جیسے شیطانوں کے سر ۔ وَنَخْلٍ طَلْعُها هَضِيمٌ [ الشعراء 148] اور کھجوریں جن کے شگوفے لطیف ونازک ہوتے ہیں ۔ الطلعت النخل کھجور کا شگوفے دار ہونا ۔ قو س طلاع الکھف کمان جس سے مٹھی بھر جائے ۔- شمس - الشَّمْسُ يقال للقرصة، وللضّوء المنتشر عنها، وتجمع علی شُمُوسٍ. قال تعالی: وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَها [يس 38] ، وقال :- الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبانٍ [ الرحمن 5] ، وشَمَسَ يومَنا، وأَشْمَسَ : صار ذا شَمْسٍ ، وشَمَسَ فلان شِمَاساً : إذا ندّ ولم يستقرّ تشبيها بالشمس في عدم استقرارها .- ( ش م س ) الشمس - کے معنی سورج کی نکیر یا وہوپ کے ہیں ج شموس قرآن میں ہے ۔ وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَها [يس 38] اور سورج اپنے مقرر راستے پر چلتا رہتا ہے ۔ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبانٍ [ الرحمن 5] سورج اور چاند ایک حساب مقرر سے چل رہے ہیں ۔ شمس یومنا واشمس ۔ دن کا دھوپ ولا ہونا شمس فلان شماسا گھوڑے کا بدکنا ایک جگہ پر قرار نہ پکڑناز ۔ گویا قرار نہ پکڑنے ہیں میں سورج کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے ۔- غرب - الْغَرْبُ : غيبوبة الشّمس، يقال : غَرَبَتْ تَغْرُبُ غَرْباً وغُرُوباً ، ومَغْرِبُ الشّمس ومُغَيْرِبَانُهَا . قال تعالی: رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ [ الشعراء 28] ، رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ [ الرحمن 17] ، بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج 40] ، وقد تقدّم الکلام في ذكرهما مثنّيين ومجموعین «4» ، وقال : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور 35] ، وقال : حَتَّى إِذا بَلَغَ مَغْرِبَ الشَّمْسِ وَجَدَها تَغْرُبُ [ الكهف 86] ، وقیل لكلّ متباعد :- غَرِيبٌ ، ولكلّ شيء فيما بين جنسه عدیم النّظير : غَرِيبٌ ، وعلی هذا قوله عليه الصلاة والسلام : «بدأ الإسلام غَرِيباً وسیعود کما بدأ» «5» وقیل : العلماء غُرَبَاءُ ، لقلّتهم فيما بين الجهّال، والغُرَابُ سمّي لکونه مبعدا في الذّهاب . قال تعالی: فَبَعَثَ اللَّهُ غُراباً يَبْحَثُ- [ المائدة 31] ، وغَارِبُ السّنام لبعده عن المنال، وغَرْبُ السّيف لِغُرُوبِهِ في الضّريبة «6» ، وهو مصدر في معنی الفاعل، وشبّه به حدّ اللّسان کتشبيه اللّسان بالسّيف، فقیل : فلان غَرْبُ اللّسان، وسمّي الدّلو غَرْباً لتصوّر بعدها في البئر، وأَغْرَبَ الساقي : تناول الْغَرْبَ ، والْغَرْبُ : الذّهب «1» لکونه غَرِيباً فيما بين الجواهر الأرضيّة، ومنه : سهم غَرْبٌ: لا يدری من رماه . ومنه : نظر غَرْبٌ: ليس بقاصد، و، الْغَرَبُ : شجر لا يثمر لتباعده من الثّمرات، وعنقاء مُغْرِبٌ ، وصف بذلک لأنه يقال : کان طيرا تناول جارية فَأَغْرَبَ «2» بها . يقال عنقاء مُغْرِبٌ ، وعنقاء مُغْرِبٍ بالإضافة . والْغُرَابَانِ : نقرتان عند صلوي العجز تشبيها بِالْغُرَابِ في الهيئة، والْمُغْرِبُ : الأبيض الأشفار، كأنّما أَغْرَبَتْ عينُهُ في ذلک البیاض . وَغَرابِيبُ سُودٌ- [ فاطر 27] ، قيل : جَمْعُ غِرْبِيبٍ ، وهو المُشْبِهُ لِلْغُرَابِ في السّواد کقولک : أسود کحلک الْغُرَابِ.- ( غ رب ) الغرب - ( ن ) سورج کا غائب ہوجانا غربت نغرب غربا وغروبا سورج غروب ہوگیا اور مغرب الشمس ومغیر بانھا ( مصغر ) کے معنی آفتاب غروب ہونے کی جگہ یا وقت کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ [ الشعراء 28] وہی ) مشرق اور مٖغرب کا مالک ہے ۔ رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ [ الرحمن 17] وہی دونوں مشرقوں اور مغربوں کا مالک ہے ۔ بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج 40] مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی قسم ۔ ان کے تثنیہ اور جمع لانے کے بحث پہلے گذر چکی ہے ۔ نیز فرمایا : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور 35] کہ نہ مشرق کی طرف سے اور نہ مغرب کی طرف ۔ حَتَّى إِذا بَلَغَ مَغْرِبَ الشَّمْسِ وَجَدَها تَغْرُبُ [ الكهف 86] یہاں تک کہ جب سورج کے غروب ہونے جگہ پہنچا ۔ اور ہر اجنبی کو غریب کہاجاتا ہے اور جو چیز اپنی ہم جنس چیزوں میں بےنظیر اور انوکھی ہوا سے بھی غریب کہہ دیتے ہیں ۔ اسی معنی میں آنحضرت نے فرمایا (58) الاسلام بدء غریبا وسعود کمابدء کہ اسلام ابتداء میں غریب تھا اور آخر زمانہ میں پھر پہلے کی طرح ہوجائے گا اور جہلا کی کثرت اور اہل علم کی قلت کی وجہ سے علماء کو غرباء کہا گیا ہے ۔ اور کوے کو غراب اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ بھی دور تک چلا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَبَعَثَ اللَّهُ غُراباً يَبْحَثُ [ المائدة 31] اب خدا نے ایک کو ابھیجا جو زمین کریدٹے لگا ۔ اور غارب السنام کے معنی کو ہاں کو بلندی کے ہیں کیونکہ ( بلندی کی وجہ سے ) اس تک پہنچنا مشکل ہوتا ہے اور غرب السیف کے معنی تلوار کی دھار کے ہیں کیونکہ تلوار بھی جسے ماری جائے اس میں چھپ جاتی ہے لہذا ی مصدر بمعنی فاعل ہے ۔ پھر جس طرح زبان کو تلوار کے ساتھ تشبیہ دی جاتی ہے اسی طرح زبان کی تیزی کو بھی تلوار کی تیزی کے ساتھ تشبیہ دے کر فلان غرب اللسان ( فلاں تیز زبان ہے ) کہاجاتا ہے اور کنوئیں میں بعد مسافت کے معنی کا تصور کرکے ڈول کو بھی غرب کہہ دیا جاتا ہے اور اغرب الساقی کے معنی ہیں پانی پلانے والے ڈول پکڑا اور غرب کے معنی سونا بھی آتے ہیں کیونکہ یہ بھی دوسری معدنیات سے قیمتی ہوتا ہے اور اسی سے سھم غرب کا محاورہ ہے یعنی دہ تیر جس کے متعلق یہ معلوم نہ ہو کہ کدھر سے آیا ہے ۔ اور بلا ارادہ کسی طرف دیکھنے کو نظر غرب کہاجاتا ہے اور غرب کا لفظ بےپھل درخت پر بھی بولا جاتا ہے گویا وہ ثمرات سے دور ہے ۔ بیان کیا جاتا ہے کہ عنقاء جانور ایک لڑکی کو اٹھا کر دوردروازلے گیا تھا ۔ اس وقت سے اس کا نام عنقاء مغرب اوعنقاء مغرب ( اضافت کے ساتھ ) پڑگیا ۔ الغرابان سرینوں کے اوپر دونوں جانب کے گڑھے جو ہیت میں کوے کی طرح معلوم ہوتے ہیں ۔ المغرب گھوڑا جس کا کر انہ ، چشم سفید ہو کیونکہ اس کی آنکھ اس سفیدی میں عجیب و غریب نظر آتی ہے ۔ اور آ یت کریمہ : وَغَرابِيبُ سُودٌ [ فاطر 27] کہ غرابیب کا واحد غربیب ہے اور اس کے معنی کوئے کی طرح بہت زیادہ سیاہ کے ہیں جس طرح کہ اسود کحلک العراب کا محاورہ ہے ۔ ( یعنی صفت تاکیدی ہے اور اس میں قلب پایا جاتا ہے اصل میں سود غرابیب ہے ۔- آنا ( ساعت)- وآناء اللیل : ساعاته، الواحد : إِنْيٌ وإنىً وأَناً «1» ، قال عزّ وجلّ :- يَتْلُونَ آياتِ اللَّهِ آناءَ اللَّيْلِ [ آل عمران 113] وقال تعالی: وَمِنْ آناءِ اللَّيْلِ فَسَبِّحْ [ طه 130] ، وقوله تعالی: غَيْرَ ناظِرِينَ إِناهُ [ الأحزاب 53] أي : وقته، والإنا إذا کسر أوّله قصر، وإذا فتح مدّ ، نحو قول الحطيئةوآنیت العشاء إلى سهيل ... أو الشّعری فطال بي الأناء - «2» أَنَى وآن الشیء : قرب إناه، وحَمِيمٍ آنٍ [ الرحمن 44] بلغ إناه من شدة الحر، ومنه قوله تعالی: مِنْ عَيْنٍ آنِيَةٍ [ الغاشية 5] وقوله تعالی: أَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوا[ الحدید 16] أي : ألم يقرب إناه . ويقال «3» : آنَيْتُ الشیء أُنِيّاً ، أي : أخّرته عن أوانه، وتَأَنَّيْتُ : تأخّرت، والأَنَاة : التؤدة . وتَأَنَّى فلان تَأَنِّياً ، وأَنَى يَأْنِي فهو آنٍ ، أي : وقور . واستأنيته : انتظرت أوانه، ويجوز في معنی استبطأته، واستأنيت الطعام کذلک، والإِنَاء : ما يوضع فيه الشیء، وجمعه آنِيَة، نحو : کساء وأكسية، والأَوَانِي جمع الجمع .- ( ا ن ی ) انی - ( ض) الشئ اس کا وقت قریب آگیا ۔ وہ اپنی انہتا اور پختگی کے وقت کو پہنچ گئی ۔ قرآن میں ہے :۔ أَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوا ( سورة الحدید 16) کیا ابھی تک مومنوں کے لئے وقت نہیں آیا (57 ۔ 16) غَيْرَ نَاظِرِينَ إِنَاهُ ( سورة الأحزاب 53) تم کھانے وقت کا انتظار کر رہے ہو ( انی الحمیم ۔ پانی حرارت میں انتہا کو پہنچ گیا ) قرآن میں ہے حَمِيمٍ آنٍ ( سورة الرحمن 44) میں عین انیۃ انی ( بتثلیث الہمزہ ) وقت کا کچھ حصہ اس کی جمع اناء ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ يَتْلُونَ آيَاتِ اللهِ آنَاءَ اللَّيْلِ ( سورة آل عمران 113) جور ات کے وقت خدا کی ائتیں پڑھتے ہیں وَمِنْ آنَاءِ اللَّيْلِ فَسَبِّحْ ( سورة طه 130) اور رات کے اوقات میں ( بھی ) اس کی تسبیح کیا کرو۔ انی ۔ ہمزہ مکسور رہونے کی صورت میں اسم مقصور ہوگا اور ہمزہ مفتوح ہونے کی صورت میں اسم ممدود حطیہ نے کہا ہے ( الوافر ) (31) آنیت العشاء الی سھیل اوشعریٰ فطال بی الاناء میں نے سہیل یا شعری ستارہ کے طلوع ہونے تک کھانے کو مؤخر کردیا اور میرا انتظار طویل ہوگیا ۔ آنیت الشئی ایناء ۔ کسی کام کوا کے مقررہ وقت سے موخر کرنا ۔ تانیث ۔ میں نے دیر کی لاناۃ ۔ علم ۔ وقار ۔ طمانیست تانٰی فلان تانیا ۔ وانی یاتیٰ ان یا ( س) تحمل اور حلم سے کام لینا ۔ استانیت الشئ میں نے اس کے وقت کا انتظار کیا نیز اس کے معنی دیر کرنا بھی آتے ہیں جیسے استانیت الطعام ۔ میں نے کھانے کو اس کے وقت سے موخر کردیا ۔ الاناء ۔ برتن ۔ آنیۃ ۔ جیسے کساء واکسیۃ اس کی جمع الجمع الاثانی ہے ۔- ليل - يقال : لَيْلٌ ولَيْلَةٌ ، وجمعها : لَيَالٍ ولَيَائِلُ ولَيْلَاتٌ ، وقیل : لَيْلٌ أَلْيَلُ ، ولیلة لَيْلَاءُ. وقیل :- أصل ليلة لَيْلَاةٌ بدلیل تصغیرها علی لُيَيْلَةٍ ، وجمعها علی ليال . قال اللہ تعالی: وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم 33] - ( ل ی ل ) لیل ولیلۃ - کے معنی رات کے ہیں اس کی جمع لیال ولیا ئل ولیلات آتی ہے اور نہایت تاریک رات کو لیل الیل ولیلہ لیلاء کہا جاتا ہے بعض نے کہا ہے کہ لیلۃ اصل میں لیلاۃ ہے کیونکہ اس کی تصغیر لیلۃ اور جمع لیال آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّا أَنْزَلْناهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ [ القدر 1] ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں نازل ( کرنا شروع ) وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم 33] اور رات اور دن کو تمہاری خاطر کام میں لگا دیا ۔ - طرف - طَرَفُ الشیءِ : جانبُهُ ، ويستعمل في الأجسام والأوقات وغیرهما . قال تعالی: فَسَبِّحْ وَأَطْرافَ النَّهارِ [ طه 130] ، أَقِمِ الصَّلاةَ طَرَفَيِ النَّهارِ- [هود 114] - ( ط رف ) الطرف - کے معنی کسی چیز کا کنارہ اور سرا کے ہیں اور یہ اجسام اور اوقات دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَسَبِّحْ وَأَطْرافَ النَّهارِ [ طه 130] اور اس کی بیان کرو اور دن کے اطراف میں ۔ أَقِمِ الصَّلاةَ طَرَفَيِ النَّهارِ [هود 114] اور دن ۔ کے دونوں سروں ( یعنی صبح اور شام کے اوقات میں ) نماز پڑھا کرو ۔ - نهار - والنهارُ : الوقت الذي ينتشر فيه الضّوء، وهو في الشرع : ما بين طلوع الفجر إلى وقت غروب الشمس، وفي الأصل ما بين طلوع الشمس إلى غروبها . قال تعالی: وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ خِلْفَةً [ الفرقان 62]- ( ن ھ ر ) النھر - النھار ( ن ) شرعا طلوع فجر سے لے کر غروب آفتاب کے وقت گو نھار کہاجاتا ہے ۔ لیکن لغوی لحاظ سے اس کی حد طلوع شمس سے لیکر غروب آفتاب تک ہے ۔ قرآن میں ہے : وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ خِلْفَةً [ الفرقان 62] اور وہی تو ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے والا بیانا ۔- لعل - لَعَلَّ : طمع وإشفاق، وذکر بعض المفسّرين أنّ «لَعَلَّ» من اللہ واجب، وفسّر في كثير من المواضع ب «كي» ، وقالوا : إنّ الطّمع والإشفاق لا يصحّ علی اللہ تعالی، و «لعلّ» وإن کان طمعا فإن ذلك يقتضي في کلامهم تارة طمع المخاطب، وتارة طمع غيرهما . فقوله تعالیٰ فيما ذکر عن قوم فرعون : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء 40] - ( لعل ) لعل - ( حرف ) یہ طمع اور اشفاق ( دڑتے ہوئے چاہنے ) کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ اپنے لئے استعمال کرے تو اس کے معنی میں قطیعت آجاتی ہے اس بنا پر بہت سی آیات میں لفظ کی سے اس کی تفسیر کی گئی ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ کے حق میں توقع اور اندیشے کے معنی صحیح نہیں ہیں ۔ اور گو لعل کے معنی توقع اور امید کے ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا تعلق مخاطب سے ہوتا ہے اور کبھی متکلم سے اور کبھی ان دونوں کے علاوہ کسی تیسرے شخص سے ہوتا ہے ۔ لہذا آیت کریمہ : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء 40] تاکہ ہم ان جادو گروں کے پیرو ہوجائیں ۔ میں توقع کا تعلق قوم فرعون سے ہے ۔- رضي - يقال : رَضِيَ يَرْضَى رِضًا، فهو مَرْضِيٌّ ومَرْضُوٌّ. ورِضَا العبد عن اللہ : أن لا يكره ما يجري به قضاؤه، ورِضَا اللہ عن العبد هو أن يراه مؤتمرا لأمره، ومنتهيا عن نهيه، قال اللہ تعالی:- رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ [ المائدة 119] ، وقال تعالی: لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 18] ، وقال تعالی: وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ دِيناً [ المائدة 3] ، وقال تعالی: أَرَضِيتُمْ بِالْحَياةِ الدُّنْيا مِنَ الْآخِرَةِ [ التوبة 38] ، وقال تعالی: يُرْضُونَكُمْ بِأَفْواهِهِمْ وَتَأْبى قُلُوبُهُمْ- [ التوبة 8] ، وقال عزّ وجلّ : وَلا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِما آتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَ [ الأحزاب 51] ، والرِّضْوَانُ :- الرّضا الکثير، ولمّا کان أعظم الرِّضَا رضا اللہ تعالیٰ خصّ لفظ الرّضوان في القرآن بما کان من اللہ تعالی: قال عزّ وجلّ : وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها ما كَتَبْناها عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغاءَ رِضْوانِ اللَّهِ- [ الحدید 27] ، وقال تعالی: يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْواناً [ الفتح 29] ، وقال : يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوانٍ [ التوبة 21] ، وقوله تعالی: إِذا تَراضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ- [ البقرة 232] ، أي : أظهر كلّ واحد منهم الرّضا بصاحبه ورَضِيَهُ.- ( ر ض و ) رضی - ( س ) رضا فھو مرضی و مرضو ۔ راضی ہونا ۔ واضح رہے کہ بندے کا اللہ تعالیٰ سے راضی ہونا یہ ہے کہ جو کچھ قضائے الہیٰ سے اس پر وارد ہو وہ اسے خوشی سے بر داشت کرے اور اللہ تعالیٰ کے بندے پر راضی ہونے کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اسے اپنے اوامر کا بجا لانے والا اور منہیات سے رکنے والا پائے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ [ المائدة 119] اللہ تعالیٰ ان سے خوش اور وہ اللہ تعالیٰ سے خوش ۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 18] تو اللہ تعالیٰ ضرور ان مسلمانوں سے خوش ہوتا ہے وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ دِيناً [ المائدة 3] اور ہم نے تمہارے لئے دین اسلام کو پسند فرمایا : ۔ أَرَضِيتُمْ بِالْحَياةِ الدُّنْيا مِنَ الْآخِرَةِ [ التوبة 38] کیا آخرت کے بدلے دنیا کی زندگی پر قناعت کر بیٹھے ہو ۔ يُرْضُونَكُمْ بِأَفْواهِهِمْ وَتَأْبى قُلُوبُهُمْ [ التوبة 8] اپنی زبانی باتوں سے تو تم کو رضا مند کردیتے ہیں اور ان کے دل ہیں کہ ان باتوں سے انکار کرتے ہیں ۔ وَلا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِما آتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَ [ الأحزاب 51] اور آزردہ خاطر نہ ہوں گی اور جو کچھ ( بھی ) تم ان کو دوگے وہ ( لے کر سب ) راضی ہوجائیں گی ۔ الرضوان رضائے کثیر یعنی نہایت خوشنودی کو کہتے ہیں ۔ چونکہ سب سے بڑی رضا اللہ تعالیٰ کی رضا مندی ہے اس لئے قرآن پاک میں خاص کر رضا الہی ٰ کے لئے رضوان کا لفظ استعما ل ہوا ہے ۔ جیسا کہ فرمایا : ۔ وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها ما كَتَبْناها عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغاءَ رِضْوانِ اللَّهِ [ الحدید 27] اور ( لذت ) دنیا کا چھوڑ بیٹھنا جس کو انہوں نے از خود ایجاد کیا تھا ہم نے وہ طریق ان پر فرض نہیں کیا تھا مگر ( ہاں ) انہوں نے اس کو خدا ( ہی ) کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے ایجاد کیا تھا ۔ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْواناً [ الفتح 29] اور خدا کے فضل اور خوشنودی کی طلب گاری میں لگے رہتے ہیں ۔ يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوانٍ [ التوبة 21] ان کا پروردگار ان کو اپنی مہربانی اور رضامندی کی خوشخبری دیتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔۔ : إِذا تَراضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ [ البقرة 232] ، جب جائز طور پر آپس میں وہ راضی ہوجائیں ۔ میں تراضوا باب تفاعل سے ہے جس کے معنی باہم اظہار رضامندی کے ہیں ،

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٣٠) لہذا اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ کفار جو ظلم اور کفر کر رہے ہیں، آپ اس پر صبر کیجیے اور آپ اپنے پروردگار کے حکم سے صبح کی نماز اور ظہر و عصر اور رات آنے پر مغرب و عشاء کی نماز پڑھیے اور ظہر و عصر کا ابھی اہتمام رکھیے تاکہ ان عبادتوں کے صلہ میں آپ کو مقام شفاعت حاصل ہو اور آپ اس سے خوش ہوجائیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

(وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوْبِہَاج ) ” - یہ نماز فجر اور نماز مغرب کی طرف اشارہ ہے۔- (وَمِنْ اٰنَآیئ الَّیْلِ فَسَبِّحْ ) ” - اس سے نماز مغرب اور عشاء مراد ہیں۔- (وَاَطْرَاف النَّہَارِ ) ” - دن کے دونوں اطراف سے دن کے آغاز اور سورج ڈھلنے کے بعد کے اوقات مراد ہیں۔ دن کے آغاز میں صلوٰۃ الضحیٰ یا نماز چاشت کا وقت ہے جبکہ سورج ڈھلنے کے بعد نماز ظہر کا۔ یعنی نصف النہار کے بعد جتنے وقفے پر نماز ظہر کا وقت ہے تقریباً اتنے ہی وقفے پر نصف النہار سے پہلے نماز چاشت کا وقت ہے۔ نمازوں کی تعداد اصل میں آٹھ ہے۔ (ان میں سے تین کو فرض نہیں رکھا گیا) جن کے اوقات چوبیس گھنٹوں میں بڑی خوبصورتی سے برابر تقسیم پر رکھے گئے ہیں ‘ اس طرح کہ تقریباً ہر تین گھنٹے بعد نماز کا وقت ہے۔ لیکن ان میں سے صرف پانچ نمازوں کو فرض کیا گیا ہے ‘ باقی تین (اشراق ‘ چاشت ‘ اور تہجد ) کو نفلی قرار دے دیا گیا تاکہ عام لوگوں کو فجر سے ظہر تک اپنی معاشی سرگرمیوں کے لیے اور رات کو آرام کے لیے تسلسل کے ساتھ مناسب وقت مل سکے۔- (لَعَلَّکَ تَرْضٰی ) ” - اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس پر عمل کریں گے تو اللہ تعالیٰ آپ کو خوش کردیں گے۔ ان احکام کی تعمیل کا ایسا اجر ملے گا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) راضی ہوجائیں گے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :111 یعنی چونکہ اللہ تعالیٰ ان کو ابھی ہلاک نہیں کرنا چاہتا ، اور ان کے لیے مہلت کی ایک مدت مقرر کر چکا ہے ، اس لیے اس کی دی ہوئی اس مہلت کے دوران میں یہ جو کچھ بھی تمہارے ساتھ کریں اس کو تمہیں برداشت کرنا ہو گا اور صبر کے ساتھ ان کی تمام تلخ و ترش باتیں سنتے ہوئے اپنا فریضۂ تبلیغ و تذکیر انجام دینا پڑے گا ۔ اس تحمل و برداشت اور اس صبر کی طاقت تمہیں نماز سے ملے گی جس کو تمہیں ان اوقات میں پابندی کے ساتھ ادا کرنا چاہیے ۔ رب کی حمد و ثنا کے ساتھ اس کی تسبیح کرنے سے مراد نماز ہے ، جیسا کہ آگے چل کر خود فرما دیا : وَأمُرْ اَھْلَکَ بَالصَّلوٰۃِ وَاصْطَبِرْ عَلَیْھَا ، اپنے اہل و عیال کو نماز کی تلقین کرو اور خود بھی اس کے پابند رہو ۔ نماز کے اوقات کی طرف یہاں بھی صاف اشارہ کر دیا گیا ہے ۔ سورج نکلنے سے پہلے فجر کی نماز ۔ سورج غروب ہونے سے پہلے عصر کی نماز ۔ اور رات کے اوقات میں عشا اور تہجد کی نماز ۔ رہے دن کے کنارے ، تو وہ تین ہی ہو سکتے ہیں ۔ ایک کنارہ صبح ہے ، دوسرا کنارہ زوال آفتاب ، اور تیسرا کنارہ شام ۔ لہٰذا دن کے کناروں سے مراد فجر ، ظہر اور مغرب کی نماز ہی ہو سکتی ہے ۔ مزید تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم ۔ ہود ، حاشیہ 113 ۔ بنی اسرائیل ، حاشیہ 91 تا 97 ، جلد سوم ، الروم حاشیہ 24 ۔ جلد چہارم ، المومن ۔ حاشیہ 74 ۔ سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :112 اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں اور غالباً دونوں ہی مراد بھی ہیں ۔ ایک یہ کہ تم اپنی موجودہ حالت پر راضی ہو جاؤ جس میں اپنے مشن کی خاطر تمہیں طرح طرح کی ناگوار باتیں سہنی پڑ رہی ہیں ، اور اللہ کے اس فیصلے پر راضی ہو جاؤ کہ تم پر ناحق ظلم اور زیادتیاں کرنے والوں کو بھی سزا نہیں دی جائے گی ، وہ داعی حق کو ستاتے بھی رہیں گے اور زمین میں دندناتے بھی پھریں گے ۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ تم ذرا یہ کام کر کے تو دیکھو ، اس کا نتیجہ وہ کچھ سامنے آئے گا جس سے تمہارا دل خوش ہو جائے گا ۔ یہ دوسرا مطلب قرآن میں متعدد مقامات پر مختلف طریقوں سے ادا کیا گیا ہے ۔ مثلاً سورہ بنی اسرائیل میں نماز کا حکم دینے کے بعد فرمایا : عَسٰٓی اَنْ یَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَاماً مَّحْموْداً ، توقع ہے کہ تمہارا رب تمہیں مقام محمود پر پہنچا دے گا آیت 79 ۔ اور سورہ ضحٰی میں فرمایا : وَلَلْاٰخِرَۃُ خَیْرٌ لَّکَ مِنَ الْاُوْلیٰ ہ وَ لَسَوْفَ یُعْطِیْکَ رَبُّکَ فَتَرْضٰی ، تمہارے لیے بعد کا دور یقیناً پہلے دور سے بہتر ہے ، اور عنقریب تمہارا رب تمہیں اتنا کچھ دے گا کہ تم خوش ہو جاؤ گے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

56: نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی جا رہی ہے کہ یہ لوگ آپ کے خلاف جو بے ہودہ باتیں کرتے ہیں، ان کا جواب دینے کے بجائے ان پر صبر کرتے رہئے، اور اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تقدیس میں لگے رہئے جس کا بہترین طریقہ نماز پڑھنا ہے، چنانچہ سورج نکلنے سے پہلے فجر کی نماز اور غروب سے پہلے عصر کی نماز اور رات میں عشاء اور تہجد کی نماز اور دن کے کناروں پر مغرب کی نماز کا اہتمام کرتے رہئے۔ اس طرز عمل کا نتیجہ یہ ہوگا کہ بالآخر آپ خوش ہوجائیں گے، ایک تو اس لیے کہ اس پر آپ کو جو اجر ملنے والا ہے، وہ انتہائی عظیم الشان ہے، اور دوسرے یہی طرز عمل آخر کار دشمنوں پر آپ کی فتح کا ضامن ہے، اور تیسرے اس لیے کہ آپ کو امت کی شفاعت کا مقام حاصل ہوگا تو امت کی نجات سے آپ کو خوشی ہوگی۔