Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

132۔ 1 اس خطاب میں ساری امت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تابع ہے۔ یعنی مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ خود بھی نماز کی پا بندی کرے اور اپنے گھر والوں کو بھی نماز کی تاکید کرتا رہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٩٨] یعنی خود نمازوں پر پابند رہنے کے علاوہ آپ کو اپنے گھر والوں کو بھی ان کی پابندی کا حکم دینا چاہئے۔ پھر اس بات پر سختی سے عمل درآمد کرانا چاہئے۔ اس سے آپ کے مشن کو مزید تقویت پہنچے گی۔ اگرچہ اس آیت میں خطاب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہے تاہم حکم عام ہے۔ اسی لئے آپ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ بچہ جب سات برس کا ہوجائے تو اسے نماز ادا کرنے کو کہو اور اگر دس سال کا ہونے پر بھی اسے نماز کی عادت نہ پڑے تو اسے مار کر نماز پڑھاؤ۔ (ابوداؤد، بحوالہ مشکوۃ، کتاب الصلوٰۃ۔ الفصل الثانی)- ] ـ٩٩] عرب میں یہ دستور تھا کہ مالک اپنے غلاموں کو کمائی کے لئے بھیجتے۔ پھر ان سے یہ کمائی خود وصول کرتے یا پھر غلام پر اس کی قابلیت کے مطابق روزانہ یا ماہانہ ایک رقم مقرر تھی کہ اتنی رقم تو وہ بہرحال کما کر اپنے مالک کو دے گا اور اگر کچھ زائد کما لے تو وہ اس کا اپنا ہوگا جس طرح ہمارے ہاں کسی چیز کا روزانہ یا ماہانہ کرایہ یا ٹھیکہ مقرر کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ سے اور مسلمانوں سے یہ فرماتے ہیں کہ ہم تم سے کچھ رزق نہیں مانگتے، حالانکہ تم سب میرے بندے اور غلام ہو۔ بلکہ وہ تو ہم خود تمہیں دیتے ہیں اور یہ ہمارا ذمہ ہے۔ تمہارا کام بس یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کی فرمانبرداری میں لگے رہو۔ جو رزق تمہارے مقدر میں ہے وہ تمہیں مل کے ہی رہے گا۔- ] ـ١٠٠] اور یاد رکھو کہ جو شخص تقویٰ اختیار کرے گا ؟ اس دنیا میں بھی اس کا انجام بہتر ہوگا اور آخرت میں بھی۔ دنیا میں اس کی انجام کی بہتری کا ذکر ایک دوسری آیت میں یوں بیان فرمایا کہ دنیا میں جب کوئی متقی شخص کسی مشکل میں پھنس جاتا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ ضرور اس سے نکلنے کی راہ پیدا کردیتا ہے۔ نیز ایسی جگہ سے اسے رزق مہیا کرتا ہے جہاں سے اس کا وہم و گمان بھی نہیں ہوگا ( ٦٥: ١، ٢) علاوہ ازیں اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ مثلا ً اگر ایک متقی شخص کاروبار کرتا ہے تو اس کی ساکھ قائم ہوتی ہے اور کسی کی ساکھ قائم ہوجانا اللہ کا بہت بڑا فضل اور انعام ہے اور انجام کار وہی کامیاب رہتا ہے۔ غرض یہ جملہ ایک ایسی آفاتی صداقت ( ) ہے کہ جس اعتبار سے بھی اس کا تجربہ کیا جائے درست ہی ثابت ہوگا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَاْمُرْ اَهْلَكَ بالصَّلٰوةِ ۔۔ : ” وَاصْطَبِرْ “ ” صَبَرَ یَصْبِرُ “ سے باب افتعال کا امر ہے، تاء کو طاء سے بدل دیا ہے اور حروف کے اضافے سے مبالغہ مقصود ہے، اس لیے ترجمہ ” خوب پابندرہ “ کیا گیا ہے۔ ان آیات میں بظاہر تمام اوامر کے مخاطب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں، مگر امت کا ہر فرد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تابع ہونے کی وجہ سے ان کا مخاطب ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( مُرُوْا أَوْلَادَکُمْ بالصَّلَاۃِ وَھُمْ أَبْنَاءُ سَبْعِ سِنِیْنَ وَاضْرِبُوْھُمْ عَلَیْھَا وَھُمْ أَبْنَاءُ عَشْرِ سِنِیْنَ وَفَرِّقُوْا بَیْنَھُمْ فِيْ الْمَضَاجِعِ ) [ أبوداوٗد، الصلاۃ، باب متٰی یؤمر الغلام بالصلاۃ : ٤٩٥، عن عبداللہ بن عمرو (رض) ] ” اپنی اولاد کو نماز کا حکم دو جب وہ سات برس کے ہوں اور انھیں اس کی وجہ سے مارو جب وہ دس برس کے ہوں اور آپس میں ان کے بستر الگ کر دو ۔ “ یعنی بجائے اس کے کہ آپ کے گھر والے دنیا داروں کے عیش و آرام کی طرف نگاہیں بڑھائیں، آپ انھیں نماز کی تاکید کریں اور خود بھی اس پر خوب پابندی کریں۔ کیونکہ یہ چیز ان کا اور آپ کا تعلق اللہ تعالیٰ سے جوڑ دے گی اور تم میں حلال روزی پر، چاہے وہ مقدار میں کتنی ہی تھوڑی ہو، صبر و قناعت کا جذبہ پیدا کرے گی اور اصل غنا صبر و قناعت سے ہے، نہ کہ مال و دولت سے۔ - لَا نَسْــَٔــلُكَ رِزْقًا ۔۔ : عام طور پر روزی کمانے کی وجہ سے آدمی اللہ تعالیٰ کی عبادت اور نماز میں سستی کرتا ہے، اس لیے فرمایا، ہمارا مطالبہ آپ سے روزی کمانے کا نہیں عبادت اور نماز کا ہے، روزی تمہیں ہم دیں گے۔ اللہ کے احکام کے مطابق زندگی بسر کرنے کا نام عبادت ہے، اللہ تعالیٰ نے انسان کو روزی کمانے کے لیے پیدا نہیں فرمایا، بلکہ اپنے احکام کے مطابق زندگی بسر کرنے کے لیے پیدا فرمایا ہے۔ اگر وہ اللہ کا بندہ (غلام) بن کر اس کے احکام کے مطابق زندگی بسر کرے تو اسے رزق کی کوئی کمی نہیں آئے گی، فرمایا : (وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ 56؀ مَآ اُرِيْدُ مِنْهُمْ مِّنْ رِّزْقٍ وَّمَآ اُرِيْدُ اَنْ يُّطْعِمُوْنِ 57؀ اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذو الْقُوَّةِ الْمَتِيْنُ ) [ الذاریات : ٥٦ تا ٥٨ ] ” اور میں نے جنوں اور انسانوں کو پیدا نہیں کیا مگر اس لیے کہ میری عبادت کریں، نہ میں ان سے کوئی رزق چاہتا ہوں اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھلائیں، بیشک اللہ ہی بیحد رزق دینے والا، طاقت والا، نہایت مضبوط ہے۔ “ انسان کی بےصبری اور بخل و حرص کا علاج نماز کی محافظت اور اس پر دوام ہے۔ دیکھیے سورة معارج (١٩ تا ٣٥) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی یَقُوْلُ یَا ابْنَ آدَمَ تَفَرَّغْ لِعِبَادَتِيْ أَمْلَأُ صَدْرَکَ غِنًی وَأَسُدَّ فَقْرَکَ وَإِلاَّ تَفْعَلْ مَلَأْتُ یَدَیْکَ شُغْلاً وَلَمْ أَسُدَّ فَقْرَکَ ) [ ترمذي، صفۃ القیامۃ، باب أحادیث ابتلینا بالضراء۔۔ : ٢٤٦٦، عن أبي ہریرہ (رض) ]” اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، اے ابن آدم میری عبادت کے لیے پوری طرح فارغ ہوجا، (تو) میں تیرا سینہ غنا سے بھر دوں گا اور تیری فقیری دور کر دوں گا اور اگر تو نے ایسا نہ کیا تو میں تیرے دونوں ہاتھ مشغولیت سے بھر دوں گا اور تیری فقیری دور نہیں کروں گا۔ “ - وَالْعَاقِبَةُ للتَّقْوٰى : یعنی چاہے دنیا میں ان کے دن تکلیف سے گزریں مگر آخرت میں ہمیشہ رہنے والا عیش و آرام انھی کا حصہ ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( مَنْ کَانَتِ الْآخِرَۃُ ھَمَّہٗ جَعَلَ اللّٰہُ غِنَاہُ فِيْ قَلْبِہٖ وَجَمَعَ لَہٗ شَمْلَہٗ وَأَتَتْہُ الدُّنْیَا وَھِیَ رَاغِمَۃٌ وَمَنْ کَانَتِ الدُّنْیَا ھَمَّہٗ جَعَلَ اللّٰہُ فَقْرَہُ بَیْنَ عَیْنَیْہٖ وَفَرَّقَ عَلَیْہِ شَمْلَہٗ وَلَمْ یَأْتِہٖ مِنَ الدُّنْیَا إِلاَّ مَا قُدِّرَ لَہٗ ) [ ترمذي، صفۃ القیامۃ، باب أحادیث ابتلینا بالضراء۔۔ : ٢٤٦٥، عن أنس بن مالک (رض) ] ” جس شخص کی فکر صرف آخرت ہو اللہ تعالیٰ اس کی دولت مندی اس کے دل میں رکھ دیتا ہے اور اس کے لیے اس کے تمام معاملات جمع کردیتا ہے اور دنیا اس کے پاس ذلیل ہو کر آتی ہے اور جس کی فکر صرف دنیا ہو اللہ تعالیٰ اس کا فقر اس کی آنکھوں کے سامنے رکھ دیتا ہے اور اس کے تمام معاملات کو بکھیر دیتا ہے اور دنیا اسے اتنی ہی ملتی ہے جو اس کے مقدر میں ہے۔ “ اس سے معلوم ہوا کہ دنیا و آخرت دونوں میں اچھا انجام تقویٰ ہی کا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

اپنے اہل و عیال اور متعلقین کو نماز کی پابندی کی تاکید اور اس کی حکمت :- وَاْمُرْ اَهْلَكَ بالصَّلٰوةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا، یعنی آپ اپنے اہل کو بھی نماز کا حکم کیجئے اور خود بھی اس پر جمے رہئے۔ یہ بظاہر دو حکم الگ الگ ہیں ایک اہل و عیال کو نماز کی تاکید دوسرے خود اس کی پابندی لیکن غور کیا جائے تو خود اپنی نماز کی پوری پابندی کے لئے بھی یہ ضروری ہے کہ آپ کا ماحول آپ کے اہل و عیال اور متعلقین نماز کے پابند ہوں کیونکہ ماحول اس کے خلاف ہوا تو طبعی طور پر انسان خود بھی کوتاہی کا شکار ہوجاتا ہے۔- لفظ اَهْلَ میں بیوی اولاد اور متعلقین سبھی داخل ہیں جن سے انسان کا ماحول اور معاشرہ بنتا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جب یہ آیت نازل ہوئی تو آپ روزانہ صبح کی نماز کے وقت حضرت علی اور فاطمہ کے مکان پر جا کر آواز دیتے تھے الصلوة الصلوة (قرطبی)- اور حضرت عروہ ابن زبیر جب کبھی امراء و سلاطین کی دولت و حشمت پر ان کی نظر پڑتی تو فوراً اپنے گھر میں لوٹ جاتے اور گھر والوں کو نماز کے لئے دعوت دیتے اور یہ آیت پڑھ کر سناتے تھے اور حضرت فاروق اعظم جب رات کو تہجد کے لئے بیدار ہوتے تو اپنے گھر والوں کو بھی بیدار کردیتے تھے اور یہی آیت پڑھ کر سناتے تھے (قرطبی)- جو آدمی نماز اور اللہ کی عبادت میں لگ جاتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لئے رزق کا معاملہ آسان بنا دیتے ہیں :- لَا نَسْــَٔــلُكَ رِزْقًا یعنی ہم تم سے یہ مطالبہ نہیں کرتے کہ تم اپنا اور اپنے اہل و عیال کا رزق اپنے زور علم و عمل سے پیدا کرو بلکہ یہ معاملہ ہم نے اپنے ذمہ رکھا ہے کیونکہ رزق کی تحصیل دراصل انسان کے بس میں سے ہی نہیں وہ زیادہ سے زیادہ یہی تو کرسکتا ہے کہ زمین کو نرم قابل کاشت بنائے اور کچھ دانے اس میں ڈال دے مگر دانہ کے اندر سے درخت نکالنا اور پیدا کرنا اس میں تو اس کا کوئی ادنی دخل نہیں وہ براہ راست حق تعالیٰ کا فعل ہے۔ درخت نکل آنے کے بعد بھی انسان کا سارا عمل اس کی حفاظت کرنا اور جو پھل پھول قدرت نے اس کے اندر پیدا فرمائے ہیں ان سے فائدہ اٹھانا۔ اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول ہوجائے اللہ تعالیٰ یہ بار محنت بھی اس کے لئے آسان اور ہلکا کردیتے ہیں۔ ترمذی اور ابن ماجہ نے حضرت ابوہریرہ کی روایت سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔- یقول اللہ تعالیٰ یا ابن ادم تفرغ لعبادتی املاء صدرک غنی واسد فقرک وان لم تفعل ملاءت صدرک شغلا ولم اسد فقرک (ابن کثیر)- (اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : اے ابن آدم تو میری عبادت کے لئے اپنے آپ کو فارغ کرلے تو میں تیرے سینے کو غناء و استغنا سے بھر دوں گا۔ اور تیری محتاجی کو دور کر دوں گا اور اگر تو نے ایسا نہ کیا تو تیرا سینہ فکر اور شغل سے بھر دوں گا اور محتاجی دور نہ کروں گا (یعنی جتنا مال بڑھتا جائے گا حرص بھی اتنی ہی بڑھتی چلی جائے گی۔ اس لئے ہمیشہ محتاج ہی رہے گا۔ )- اور حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ :- من جعل ھمومہ ھما واحدا ھم المعاد کفاہ اللہ ھم دنیاہ ومن تشبعت بہ الھموم فی احوال الدنیا لم یبال اللہ فی ای اودیۃ ھلک رواہ ابن ماجہ (ابن کثیر)- جو شخص اپنے سارے فکروں کو ایک فکر یعنی آخرت کی فکر بنا دے تو اللہ تعالیٰ اس کے دنیا کے فکروں کی خود کفالت کرلیتا ہے اور جس کے فکر دنیا کے مختلف کاموں میں لگے رہے تو اللہ تعالیٰ کو کوئی پرواہ نہیں کہ وہ ان فکروں کے کسی جنگل میں ہلاک ہوجائے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاْمُرْ اَہْلَكَ بِالصَّلٰوۃِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْہَا۝ ٠ۭ لَا نَسْــَٔــلُكَ رِزْقًا۝ ٠ۭ نَحْنُ نَرْزُقُكَ۝ ٠ۭ وَالْعَاقِبَۃُ لِلتَّقْوٰى۝ ١٣٢- أمر - الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته :- إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود 123] - ( ا م ر ) الامر - ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔- وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے - أهل - أهل الرجل : من يجمعه وإياهم نسب أو دين، أو ما يجري مجراهما من صناعة وبیت وبلد، وأهل الرجل في الأصل : من يجمعه وإياهم مسکن واحد، ثم تجوّز به فقیل : أهل الرجل لمن يجمعه وإياهم نسب، وتعورف في أسرة النبيّ عليه الصلاة والسلام مطلقا إذا قيل :- أهل البیت لقوله عزّ وجلّ : إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ [ الأحزاب 33] - ( ا ھ ل ) اھل الرجل - ۔ ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو اس کے ہم نسب یا ہم دین ہوں اور یا کسی صنعت یامکان میں شریک ہوں یا ایک شہر میں رہتے ہوں اصل میں اھل الرجل تو وہ ہیں جو کسی کے ساتھ ایک مسکن میں رہتے ہوں پھر مجازا آدمی کے قریبی رشتہ داروں پر اہل بیت الرجل کا لفظ بولا جانے لگا ہے اور عرف میں اہل البیت کا لفظ خاص کر آنحضرت کے خاندان پر بولا جانے لگا ہے کیونکہ قرآن میں ہے :۔ إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ ( سورة الأحزاب 33) اسے پیغمبر گے اہل بیت خدا چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی ( کا میل کچیل ) دور کردے ۔- صلا - أصل الصَّلْيُ الإيقادُ بالنار، ويقال : صَلِيَ بالنار وبکذا، أي : بلي بها، واصْطَلَى بها، وصَلَيْتُ الشاةَ : شویتها، وهي مَصْلِيَّةٌ. قال تعالی: اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] - والصَّلاةُ ،- قال کثير من أهل اللّغة : هي الدّعاء، والتّبريك والتّمجید يقال : صَلَّيْتُ عليه، أي : دعوت له وزكّيت، وقال عليه السلام : «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] - وصَلَاةُ اللهِ للمسلمین هو في التّحقیق :- تزكيته إيّاهم . وقال : أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ [ البقرة 157] ، - ومن الملائكة هي الدّعاء والاستغفار،- كما هي من النّاس «3» . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] والصَّلَاةُ التي هي العبادة المخصوصة،- أصلها : الدّعاء، وسمّيت هذه العبادة بها کتسمية الشیء باسم بعض ما يتضمّنه، والصَّلَاةُ من العبادات التي لم تنفکّ شریعة منها، وإن اختلفت صورها بحسب شرع فشرع . ولذلک قال : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103]- ( ص ل ی ) الصلیٰ- ( س) کے اصل معنی آگ جلانے ہے ہیں صلی بالنار اس نے آگ کی تکلیف برداشت کی یا وہ آگ میں جلا صلی بکذا اسے فلاں چیز سے پالا پڑا ۔ صلیت الشاۃ میں نے بکری کو آگ پر بھون لیا اور بھونی ہوئی بکری کو مصلیۃ کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] آج اس میں داخل ہوجاؤ ۔ - الصلوۃ - بہت سے اہل لغت کا خیال ہے کہ صلاۃ کے معنی دعا دینے ۔ تحسین وتبریک اور تعظیم کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے صلیت علیہ میں نے اسے دعادی نشوونمادی اور بڑھایا اور حدیث میں ہے (2) کہ «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، - جب کسی کو کھانے پر بلا یا جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرلے اگر روزہ دار ہے تو وہ انکے لئے دعاکرکے واپس چلا آئے اور قرآن میں ہے وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لئے موجب تسکین ہے ۔- اور انسانوں کی طرح فرشتوں کی طرف سے بھی صلاۃ کے معنی دعا اور استغفار ہی آتے ہیں - چناچہ فرمایا : إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] بیشک خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں ۔ اور الصلوۃ جو کہ ایک عبادت مخصوصہ کا نام ہے اس کی اصل بھی دعاہی ہے اور نماز چونکہ دعا پر مشتمل ہوتی ہے اسلئے اسے صلوۃ کہاجاتا ہے ۔ اور یہ تسمیۃ الشئی باسم الجزء کے قبیل سے ہے یعنی کسی چیز کو اس کے ضمنی مفہوم کے نام سے موسوم کرنا اور صلاۃ ( نماز) ان عبادت سے ہے جن کا وجود شریعت میں ملتا ہے گو اس کی صورتیں مختلف رہی ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103] بیشک نماز مومنوں مقرر اوقات میں ادا کرنا فرض ہے ۔- سأل - السُّؤَالُ : استدعاء معرفة، أو ما يؤدّي إلى المعرفة، واستدعاء مال، أو ما يؤدّي إلى المال، فاستدعاء المعرفة جو ابه علی اللّسان، والید خلیفة له بالکتابة، أو الإشارة، واستدعاء المال جو ابه علی الید، واللّسان خلیفة لها إمّا بوعد، أو بردّ. - ( س ء ل ) السؤال - ( س ء ل ) السوال کے معنی کسی چیز کی معرفت حاصل کرنے کی استد عایا اس چیز کی استز عا کرنے کے ہیں ۔ جو مودی الی المعرفۃ ہو نیز مال کی استدعا یا اس چیز کی استدعا کرنے کو بھی سوال کہا جاتا ہے جو مودی الی المال ہو پھر کس چیز کی معرفت کی استدعا کا جواب اصل مٰن تو زبان سے دیا جاتا ہے لیکن کتابت یا اشارہ اس کا قائم مقام بن سکتا ہے اور مال کی استدعا کا جواب اصل میں تو ہاتھ سے ہوتا ہے لیکن زبان سے وعدہ یا انکار اس کے قائم مقام ہوجاتا ہے ۔- رزق - الرِّزْقُ يقال للعطاء الجاري تارة، دنیويّا کان أم أخرويّا، وللنّصيب تارة، ولما يصل إلى الجوف ويتغذّى به تارة «2» ، يقال : أعطی السّلطان رِزْقَ الجند، ورُزِقْتُ علما، قال : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] ، أي : من المال والجاه والعلم، - ( ر ز ق) الرزق - وہ عطیہ جو جاری ہو خواہ دنیوی ہو یا اخروی اور رزق بمعنی نصیبہ بھی آجاتا ہے ۔ اور کبھی اس چیز کو بھی رزق کہاجاتا ہے جو پیٹ میں پہنچ کر غذا بنتی ہے ۔ کہاجاتا ہے ۔ اعطی السلطان رزق الجنود بادشاہ نے فوج کو راشن دیا ۔ رزقت علما ۔ مجھے علم عطا ہوا ۔ قرآن میں ہے : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] یعنی جو کچھ مال وجاہ اور علم ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے صرف کرو - عاقب - والعاقِبةَ إطلاقها يختصّ بالثّواب نحو : وَالْعاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ [ القصص 83] ، وبالإضافة قد تستعمل في العقوبة نحو : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا [ الروم 10] ،- ( ع ق ب ) العاقب - اور عاقبتہ کا لفظ بھی ثواب کے لئے مخصوص ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالْعاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ [ القصص 83] اور انجام نیک تو پرہیز گاروں ہی کا ہے ۔ مگر یہ اضافت کی صورت میں کبھی آجاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا [ الروم 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔- وقی - الوِقَايَةُ : حفظُ الشیءِ ممّا يؤذيه ويضرّه . يقال : وَقَيْتُ الشیءَ أَقِيهِ وِقَايَةً ووِقَاءً. قال تعالی: فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان 11] ، والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35]- ( و ق ی ) وقی ( ض )- وقایتہ ووقاء کے معنی کسی چیز کو مضر اور نقصان پہنچانے والی چیزوں سے بچانا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان 11] تو خدا ان کو بچا لیگا ۔ - التقویٰ- اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٣٢) اور اپنے متعلقین کو بھی بالخصوص شدت کے وقت نماز کا حکم کرتے رہے اور خود بھی اس پر قائم رہیے، ہم آپ سے اور آپ کے متعلقین سے معاش نہیں چاہتے، معاش تو آپ کو ہم دیں گے اور جنت تو ان ہی حضرات کے لیے ہے، جو کفر وشرک اور فواحش سے بچنے والے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :114 یعنی تمہارے بال بچے بھی اپنی تنگ دستی و خستہ حالی کے مقابلہ میں ان حرام خوروں کے عیش و عشرت کو دیکھ کر دل شکستہ نہ ہوں ۔ ان کو تلقین کرو کہ نماز پڑھیں ۔ یہ چیز ان کے زاویۂ نظر کو بدل دے گی ۔ ان کے معیار قدر کو بدل دے گی ۔ ان کی توجہات کا مرکز بدل دے گی ۔ وہ پاک رزق پر صابر و قانع ہو جائیں گے اور اس بھلائی کو جو ایمان و تقویٰ سے حاصل ہوتی ہے اس عیش پر ترجیح دینے لگیں گے جو فسق و فجور اور دنیا پرستی سے حاصل ہوتا ہے ۔ سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :115 یعنی ہم نماز پڑھنے کے لیے تم سے اس لیے نہیں کہتے ہیں کہ اس سے ہمارا کوئی فائدہ ہے ۔ فائدہ تمہارا اپنا ہی ہے ، اور وہ یہ ہے کہ تم میں تقویٰ پیدا ہو گا جو دنیا اور آخرت دونوں ہی میں آخری اور مستقل کامیابی کا وسیلہ ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

57: اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ جس طرح دنیا میں آقا اپنے غلاموں کو معاشی مشغلے میں لگا کر ان کی آمدنی سے رزق حاصل کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ تمہاری اس طرح کی بندگی سے بے نیاز ہے، اس کے بجائے وہ خود تمہیں رزق دینے کا وعدہ کرچکا ہے۔ اور دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہم نے تم پر یہ ذمہ داری عائد نہیں کی کہ تم اپنا رزق خود پیدا کرو۔ تم زیادہ سے زیادہ جو کچھ کرتے ہو، وہ یہ کہ اسباب کو اختیار کرلیتے ہو، مثلاً زمین میں بیج بو دیتے ہو، لیکن اس بیج سے دانہ اگانے کا کام ہم نے تم پر نہیں رکھا۔ بلکہ ہم خود اس سے وہ پیداوار پیدا کرتے ہیں جو تمہیں رزق مہیا کرتی ہے۔