قرآن حکیم سب سے بڑا معجزہ ۔ کفاریہ بھی کہا کرتے تھے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ یہ نبی اپنی سچائی کا کوئی معجزہ ہمیں نہیں دکھاتے؟ جواب ملتا ہے کہ یہ ہے قرآن کریم جو اگلی کتابوں کی خبر کے مطابق اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم پر اتارا ہے جو نہ لکھنا جانیں نہ پڑھنا صلی اللہ علیہ وسلم ۔ دیکھ لو اس میں اگلے لوگوں کے حالات ہیں اور بالکل ان کتابوں کے مطابق جو اللہ کی طرف سے اس سے پہلے نازل شدہ ہیں ۔ قرآن ان سب کا نگہبان ہے ۔ چونکہ اگلی کتابیں کمی بیشی سے پاک نہیں رہیں ، اس لئے قرآن اترا ہے کہ ان کی صحت غیرصحت کو ممتاز کردے ۔ سورۃ عنکبوت میں کافروں کے اس اعتراض کے جواب میں فرمایا ( قُلْ اِنَّمَا الْاٰيٰتُ عِنْدَ اللّٰهِ وَمَا يُشْعِرُكُمْ ۙ اَنَّهَآ اِذَا جَاۗءَتْ لَا يُؤْمِنُوْنَ ١٠٩ ) 6- الانعام:109 ) یعنی کہہ دے کہ اللہ تعالیٰ رب العالمین ہر قسم کے معجزات ظاہر کرنے پر قادر ہے میں تو صرف تنبیہہ کرنے والارسول ہوں میرے قبضے میں کوئی معجزہ نہیں لیکن کیا انہیں یہ معجزہ کافی نہیں کہ ہم نے تجھ پر کتاب نازل فرمائی ہے جو ان کے سامنے برابر تلاوت کی جارہی ہے جس میں ہر یقین والے کے لئے رحمت وعبرت ہے ۔ صحیح بخاری ومسلم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ہر نبی کو ایسے معجزے ملے کہ انہیں دیکھ کر لوگ ان کی نبوت پر ایمان لے آئے ۔ لیکن مجھے جیتا جاگتا زندہ اور ہمیشہ رہنے والا معجزہ دیا گیا ہے یعنی اللہ کی یہ کتاب قرآن مجید جو بذریعہ وحی مجھ پر اتری ہے ۔ پس مجھے امید ہے کہ قیامت کے دن تمام نبیوں کے تابعداروں سے میرے تابعدار زیادہ ہوں گے ۔ یہ یاد رہے کہ یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے بڑا معجزہ بیان ہوا ہے اس سے یہ مطلب نہیں کہ آپ کے معجزے اور تھے ہی نہیں علاوہ اس پاک معجز قرآن کے آپ کے ہاتھوں اس قدر معجزات سرزد ہوئے ہیں جو گنتی میں نہیں آسکتے ۔ لیکن ان تمام بیشمار معجزوں سے بڑھ چڑھ کر آپ کا سب سے اعلیٰ معجزہ قرآن کریم ہے ۔ اگر اس محترم ختم المرسلین آخری پیغمبر علیہ السلام کو بھیجنے سے پہلے ہی ہم ان نہ ماننے والوں کو اپنے عذاب سے ہلاک کردیتے تو ان کا یہ عذر باقی رہ جاتا کہ اگر ہمارے پیغمبر آتے کوئی وحی الٰہی نازل ہوتی تو ہم ضرور اس پر ایمان لاتے اور اس کی تابعداری اور فرماں برداری میں لگ جاتے اور اس ذلت و رسوائی سے بچ جاتے ۔ اس لئے ہم نے ان کا یہ عذر بھی کاٹ دیا ۔ رسول بھیج دیا ، کتاب نازل فرمادی ، انہیں ایمان نصیب نہ ہوا ، عذابوں کے مستحق بن گئے اور عذر بھی دور ہوگئے ۔ ہم خوب جانتے ہیں کہ ایک کیا ہزاروں آیتیں اور نشانات دیکھ کر بھی انہیں ایمان نصیب نہیں ہوگا ۔ ہاں جب عذابوں کو اپنے آنکھوں سے دیکھ لیں گے اس وقت ایمان لائیں گے لیکن وہ محض بےسود ہے جیسے فرمایا ہم نے یہ پاک اور بہتر کتاب نازل فرما دی ہے جو بابرکت ہے تم اسے مان لو اور اس کی فرماں برداری کرو تو تم پر رحم کیا جائے گا ، الخ یہی مضمون آیت ( وَاَقْسَمُوْا بِاللّٰهِ جَهْدَ اَيْمَانِهِمْ لَىِٕنْ جَاۗءَتْهُمْ اٰيَةٌ لَّيُؤْمِنُنَّ بِهَا ١٠٩ ) 6- الانعام:109 ) ، میں ہے کہ کہتے ہیں کہ رسول کی آمد پر ہم مومن بن جائیں گے معجزہ دیکھ کر ایمان قبول کرلیں گے لیکن ہم ان کی سرشت سے واقف ہیں یہ تمام آیتیں دیکھ کر بھی ایمان نہ لائیں گے ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کافروں سے کہہ دیجئے کہ ادھر ہم ادھر تم منتظر ہیں ۔ ابھی حال کھل جائے گا کہ راہ مستقیم پر کون ہے؟ حق کی طرف کون چل رہا ہے ؟ عذابوں کو دیکھتے ہی آنکھیں کھل جائیں گی اس وقت معلوم ہو جائے گا کون گمراہی میں مبتلا تھا ۔ گھبراؤ نہیں ابھی ابھی جان لوگے کہ کذاب وشریر کون تھا ؟ یقینا مسلمان راہ راست پرہیں اور غیرمسلم اس سے ہٹے ہوئے ہیں ۔
133۔ 1 یعنی ان کی خواہش کے مطابق نشانی، جیسے ثمود کے لئے اونٹنی ظاہر کی گئی۔ 133۔ 2 ان سے مراد تورات، انجیل اور زبور وغیرہ ہیں، یعنی کیا ان میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفات موجود نہیں، جن سے ان کی نبوت کی تصدیق ہوتی ہے۔ یا یہ مطلب ہے کہ کیا ان کے پاس پچھلی قوموں کے حالات نہیں پہنچے کہ انہوں نے جب اپنی حسب خواہش معجزے کا مطالبہ کیا اور وہ انھیں دکھا دیا گیا لیکن اس کے باوجود وہ ایمان نہیں لائے، تو انھیں ہلاک کردیا گیا۔
[١٠١] اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ پہلے صحیفوں اور آسمانی کتابوں میں آپ کی علامات اور آپ کی آمد کی بشارت موجود تھیں اور بعض انصاف پسند لوگوں نے برملا اس بات کا اعتراف بھی کیا تھا کہ یہ وہی نبی آخر الزمان ہیں جن کی سابقہ کتابوں میں بشارات دی گئی تھیں اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ قرآن جیسا واضح معجزہ مل جانے کے بعد اب یہ کون سی نشانی چاہتے ہیں اور قرآن ایسی کتاب ہے جو اگلی کتابوں کے ضروری مضامین کا محافظ اور ان کی صداقت پر حجت بھی ہے اور گواہ بھی۔
وَقَالُوْا لَوْلَا يَاْتِيْنَا ۔۔ : کفار کہا کرتے تھے کہ اگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نبی ہیں تو گزشتہ انبیاء کی طرح اپنے سچا ہونے کی کوئی نشانی کیوں پیش نہیں کرتے ؟ فرمایا، اس سے زیادہ آپ کی سچائی کی اور کیا دلیل ہوسکتی ہے کہ پہلی آسمانی کتابیں آپ کے آنے کی خبر دے رہی ہیں۔ یقیناً یہ خبر اہل کتاب کو معلوم ہے اور ان کے واسطے سے کفار مکہ تک پہنچ چکی ہے۔ پہلی کتابوں میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذکر خیر کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورة اعراف (١٥٧) ، فتح (٢٩) اور صف (٦) ۔
بَيِّنَةُ مَا فِي الصُّحُفِ الْاُوْلٰى یعنی پچھلی آسمانی کتابیں تورات و انجیل اور صحف ابراہیم (علیہ السلام) وغیرہ سب کے سب رسول آخر الزماں محمد مصطفے ٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت و رسالت کی شہادت دیتے آئے ہیں کیا یہ بینات ان منکرین کے لئے کافی سے زیادہ ثبوت نہیں ہے۔
وَقَالُوْا لَوْلَا يَاْتِيْنَا بِاٰيَۃٍ مِّنْ رَّبِّہٖ ٠ۭ اَوَلَمْ تَاْتِہِمْ بَيِّنَۃُ مَا فِي الصُّحُفِ الْاُوْلٰى ١٣٣- أتى- الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه - ( ا ت ی ) الاتیان - ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے - الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- بَيِّنَة- والبَيِّنَة : الدلالة الواضحة عقلية کانت أو محسوسة، وسمي الشاهدان بيّنة لقوله عليه السلام : «البيّنة علی المدّعي والیمین علی من أنكر» «2» ، وقال سبحانه : أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود 17] ، وقال : لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال 42] ، جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم 9] .- ( ب ی ن ) البَيِّنَة- کے معنی واضح دلیل کے ہیں ۔ خواہ وہ دلالت عقلیہ ہو یا محسوسۃ اور شاھدان ( دو گواہ ) کو بھی بینۃ کہا جاتا ہے جیسا کہ آنحضرت نے فرمایا ہے : کہ مدعی پر گواہ لانا ہے اور مدعا علیہ پر حلف ۔ قرآن میں ہے أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود 17] بھلا جو لوگ اپنے پروردگار کی طرف سے دلیل ( روشن رکھتے ہیں ۔ لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال 42] تاکہ جو مرے بصیرت پر ( یعنی یقین جان کر ) مرے اور جو جیتا رہے وہ بھی بصیرت پر ) یعنی حق پہچان کر ) جیتا رہے ۔ جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم 9] ان کے پاس ان کے پیغمبر نشانیاں کے کر آئے ۔ - صحف - الصَّحِيفَةُ : المبسوط من الشیء، کصحیفة الوجه، والصَّحِيفَةُ : التي يكتب فيها، وجمعها :- صَحَائِفُ وصُحُفٌ. قال تعالی: صُحُفِ إِبْراهِيمَ وَمُوسی [ الأعلی 19] ، يَتْلُوا صُحُفاً مُطَهَّرَةً فِيها كُتُبٌ قَيِّمَةٌ [ البینة 2- 3] ، قيل : أريد بها القرآن، وجعله صحفا فيها كتب من أجل تضمّنه لزیادة ما في كتب اللہ المتقدّمة . والْمُصْحَفُ : ما جعل جامعا لِلصُّحُفِ المکتوبة، وجمعه : مَصَاحِفُ ، والتَّصْحِيفُ : قراءة المصحف وروایته علی غير ما هو لاشتباه حروفه، والصَّحْفَةُ مثل قصعة عریضة .- ( ص ح ف ) الصحیفۃ - کے معنی پھیلی ہوئی چیز کے ہیں جیسے صحیفۃ الوجہ ( چہرے کا پھیلاؤ ) اور وہ چیز جس میں کچھ لکھا جاتا ہے اسے بھی صحیفہ کہتے ہیں ۔ اس کی جمع صحائف وصحف آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ صُحُفِ إِبْراهِيمَ وَمُوسی [ الأعلی 19] یعنی ابراہیم اور موسیٰ کے صحیفوں میں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ يَتْلُوا صُحُفاً مُطَهَّرَةً فِيها كُتُبٌ قَيِّمَةٌ [ البینة 2- 3] پاک اوراق پڑھتے ہیں جس میں مستحکم ( آیتیں ) لکھی ہوئی ہیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ صحف سے قرآن پاک مراد ہے اور اس کو صحفا اور فیھا کتب اس لئے کہا ہے کہ قرآن میں کتب سابقہ کی بنسبت بہت سے زائد احکام اور نصوص پر مشتمل ہے ۔ المصحف متعدد صحیفوں کا مجموعہ اس کی جمع مصاحف آتی ہے اور التصحیف کے معنی اشتباہ حروف کی وجہ سے کسی صحیفہ کی قرآت یا روایت میں غلطی کرنے کے ہیں ۔ اور صحفۃ ( چوڑی رکابی ) چوڑے پیالے کی طرح کا ایک برتن ۔
(١٣٣) اور کفار مکہ یوں کہتے ہیں کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے پاس کوئی نشانی اپنی نبوت کی کیوں نہیں لاتے، کیا ان کے پاس توریت وانجیل کے مضامین کا ظہور نہیں پہنچا کہ ان میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نعت وصفت کا ذکر ہے۔
آیت ١٣٣ (وَقَالُوْا لَوْلَا یَاْتِیْنَا بِاٰیَۃٍ مِّنْ رَّبِّہٖ ط) ” - ہر بات ‘ ہر دلیل کے جواب میں مشرکین مکہ کی ایک ہی رٹ تھی کہ اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے بھیجے ہوئے رسول ہیں تو ہمیں کوئی حسیّ معجزہ کیوں نہیں دکھاتے ؟- (اَوَلَمْ تَاْتِہِمْ بَیِّنَۃُ مَا فِی الصُّحُفِ الْاُوْلٰی ) ” - پہلے آسمانی صحیفوں کی تعلیمات کا قرآن مجید میں موجود ہونا اور خود قرآن کا ان صحیفوں میں بیان کی گئی پیشین گوئیوں کا مصداق بن کر آجانا کیا معجزہ نہیں ہے ؟ اور کیا یہ معجزہ ان کی ہدایت کے لیے کافی نہیں ہے ؟
سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :116 یعنی کیا یہ کوئی کم معجزہ ہے کہ انہی میں سے ایک امی شخص نے وہ کتاب پیش کی ہے جس میں شروع سے اب تک کی تمام کتب آسمانی کے مضامین اور تعلیمات کا عطر نکال کر رکھ دیا گیا ہے ۔ انسان کی ہدایت و رہنمائی کے لیے ان کتابوں میں جو کچھ تھا ، وہ سب نہ صرف یہ کہ اس میں جمع کر دیا گیا ، بلکہ اس کو ایسا کھول کر واضح بھی کر دیا گیا کہ صحر نشین بدّو تک اس کو سمجھ کر فائدہ اٹھا سکتے ہیں ۔
58: اس سے مراد قرآن کریم ہے اور آیت کی تشریح دو طرح کی جا سکتی ہے، ایک یہ کہ یہ قرآن وہ کتاب ہے جس کی پیشین گوئی پھچلے آسمانی صحیفوں میں موجود تھی، جس کا مطلب یہ ہے کہ ان صحیفوں نے قرآن کریم کی حقانیت کی گواہی دی تھی، اور دوسرا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ یہ قرآن کریم پچھلے آسمانی صحیفوں کے مضامین کی تصدیق کر کے ان کی گواہی دے رہا ہے، حالانکہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جن کی زبان مبارک پر یہ کلام جاری ہوا ہے وہ امی ہیں، اور ان کے پاس کوئی ایسا ذریعہ نہیں ہے، جس سے وہ پچھلی کتابوں کا علم حاصل کرسکتے۔ اب جو ان آسمانی کتابوں کے مضامین ان کی زبان پر جاری ہو رہے ہیں، اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ یہ مضامین اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئے ہیں، اور قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے، اس سے بڑھ کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کی اور کیا نشانی چاہتے ہو۔