Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

اس بات نے بنی اسرائیل کے کئی فرقے کر دیئے ۔ ایک فرقے نے تو کہا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے آنے تک ہم اس کی بابت کوئی بات طے نہیں کر سکتے ممکن ہے یہی اللہ ہو تو ہم اس کی بے ادبی کیوں کریں؟ اور اگر یہ رب نہیں ہے تو موسیٰ علیہ السلام کے آتے ہی حقیقت کھل جائے گی ۔ دوسری جماعت نے کہا محض واہیات ہے یہ شیطانی حرکت ہے ہم اس لغویت پر مطلقاً ایمان نہیں رکھتے نہ یہ ہمارا رب نہ ہمارا اس پر ایمان ۔ ایک پاجی فرقے نے دل سے اسے مان لیا اور سامری کی بات پر ایمان لائے مگر بہ ظاہر اس کی بات کو جھٹلایا ۔ حضرت ہارون علیہ السلام نے اسی وقت سب کو جمع کر کے فرمایا کہ لوگو یہ اللہ کی طرف سے تمہاری آزمائش ہے تم اس جھگڑے میں کہاں پھنس گئے تمہارا رب تو رحمان ہے تم میری اتباع کرو اور میرا کہنا مانو ۔ انہوں نے کہا آخر اس کی کیا وجہ کہ تیس دن کا وعدہ کر کے حضرت موسیٰ علیہ السلام گئے ہیں اور آج چالیس دن ہونے کو آئے لیکن اب تک لوٹے نہیں ۔ بعض بیوقوفوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ ان سے ان کا رب خطا کر گیا اب یہ اس کی تلاش میں ہوں گے ۔ ادھر دس روزے اور پورے ہونے کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ سے ہمکلامی کا شرف حاصل ہوا آپ کو بتایا گیا کہ آپ کے بعد آپ کی قوم کا اس وقت کیا حال ہے آپ اسی وقت رنج و افسوس اور غم و غصے کے ساتھ واپس لوٹے اور یہاں آ کر قوم سے بہت کچھ کہا سنا اپنے بھائی کے سر کے بال پکڑ کر گھسیٹنے لگے غصے کی زیادتی کی وجہ سے تختیاں بھی ہاتھ سے پھینک دیں پھر اصل حقیقت معلوم ہو جانے پر آپ نے اپنے بھائی سے معذرت کی ان کے لئے استغفار کیا اور سامری کی طرف متوجہ ہو کر فرمانے لگے کہ تو نے ایسا کیوں کیا ؟ اس نے جواب دیا کہ اللہ کے بھیجے ہوئے کے پاؤں تلے سے میں نے ایک مٹھی اٹھالی یہ لوگ اسے نہ پہچان سکے اور میں نے جان لیا تھا ۔ میں نے وہی مٹھی اس آگ میں ڈال دی تھی میرے رائے میں یہی بات آئی ۔ آپ نے فرمایا جا اس کی سزا دنیا میں تو یہ ہے کہ تو یہی کہتا رہے کہ ہاتھ لگانا نہیں پھر ایک وعدے کا وقت ہے جس کا ٹلنا ناممکن ہے اور تیرے دیکھتے دیکھتے ہم تیرے اس معبود کو جلا کر اس کی خاک بھی دریا میں بہا دیں گے ۔ چنانچہ آپ نے یہی کیا اس وقت بنی اسرائیل کو یقین آ گیا کہ واقعی وہ اللہ نہ تھا ۔ اب وہ بڑے نادم ہوئے اور سوائے ان مسلمانوں کے جو حضرت ہارون علیہ السلام کے ہم عقیدہ رہے تھے باقی کے لوگوں نے عذر معذرت کی اور کہا کہ اے اللہ کے نبی اللہ سے دعا کیجئے کہ وہ ہمارے لئے توبہ کا دروازہ کھول دے جو وہ فرمائے گا ہم بجا لائیں گے تاکہ ہماری یہ زبردست خطا معاف ہو جائے آپ نے بنی اسرائیل کے اس گروہ میں سے ستر لوگوں کو چھانٹ کر علیحدہ کیا اور توبہ کے لئے چلے وہاں زمین پھٹ گئی اور آپ کے سب ساتھی اس میں اتار دیئے گئے ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فکر لاحق ہوا کہ میں بنی اسرائیل کو کیا منہ دکھاؤں گا ؟ گریہ وزاری شروع کی اور دعا کی کہ اے اللہ اگر تو چاہتا تو اس سے پہلے ہی مجھے اور ان سب کو ہلاک کر دیتا ہمارے بیوقوفوں کے گناہ کے بدلے تو ہمیں ہلاک نہ کر ۔ آپ تو ان کے ظاہر کو دیکھ رہے تھے اور اللہ کی نظریں ان کے باطن پر تھیں ان میں ایسے بھی تھے جو بہ ظاہر مسلمان بنے ہوئے تھے لیکن دراصل ولی عقیدہ ان کا اس بچھڑے کے رب ہونے پر تھا ان ہی منافقین کی وجہ سے سب کو تہ زمین کر دیا گیا تھا ۔ نبی اللہ کی اس آہ و زاری پر رحمت الٰہی جوش میں آئی اور جواب ملا کہ یوں تو میری رحمت سب پر چھائے ہوئے ہے لیکن میں اسے ان کے نام ہبہ کروں گا جو متقی پرہیزگار ہوں ، زکوٰۃ کے ادا کرنے والے ہوں ، میری باتوں پر ایمان لائیں اور میرے اس رسول و نبی کی اتباع کریں جس کے اوصاف وہ اپنی کتابوں میں لکھے پاتے ہیں یعنی توراۃ انجیل میں ۔ حضرت کلیم اللہ علیہ صلوات اللہ نے عرض کی کہ بار الہی میں نے اپنی قوم کے لئے توبہ طلب کی ، تو نے جواب دیا کہ تو اپنی رحمت کو ان کے ساتھ کر دے گا جو آگے آنے والے ہیں پھر اللہ مجھے بھی تو اپنی اسی رحمت والے نبی کی امت میں پیدا کرتا ۔ رب العالمین نے فرمایا سنو ان کی توبہ اس وقت قبول ہو گی کہ یہ لوگ آپس میں ایک دوسرے کو قتل کرنا شروع کر دیں نہ باپ بیٹے کو دیکھے نہ بیٹا باپ کو چھوڑے آپس میں گتھ جائیں اور ایک دوسرے کو قتل کرنا شروع کر دیں ۔ چنانچہ بنو اسرائیل نے یہی کیا اور جو منافق لوگ تھے انہوں نے بھی سچے دل سے توبہ کی اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی جو بچ گئے تھے وہ بھی بخشے گئے جو قتل ہوئے وہ بھی بخش دیئے گئے ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اب یہاں سے بیت المقدس کی طرف چلے ۔ توراۃ کی تختیاں اپنے ساتھ لیں اور انہیں احکام الٰہی سنائے جو ان پر بہت بھاری پڑے اور انہوں نے صاف انکار کر دیا ۔ چنانچہ ایک پہاڑ ان کے سروں پر معلق کھڑا کر دیا گیا وہ مثل سائبان کے سروں پر تھا اور ہر دم ڈر تھا کہ اب گرا انہوں نے اب اقرار کیا اور تورات قبول کرلی پہاڑ ہٹ گیا ۔ اس پاک زمین پر پہنچے جہاں کلیم اللہ انہیں لے جانا چاہتے تھے دیکھا کہ وہاں ایک بڑی طاقتور زبردست قوم کا قبضہ ہے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سامنے نہایت نامردی سے کہا کہ یہاں تو بڑی زور آور قوم ہے ہم میں ان کے مقابلہ کی طاقت نہیں یہ نکل جائیں تو ہم شہر میں داخل ہو سکتے ہیں ۔ یہ تو یونہی نامردی اور بزدلی ظاہر کرتے رہے ادھر اللہ تعالیٰ نے ان سرکشوں میں سے دو شخصوں کو ہدایات دے دی وہ شہر سے نکل کر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم میں آ ملے اور انہیں سمجھانے لگے کہ تم ان کے جسموں اور تعداد سے مرعوب نہ ہو جاؤ یہ لوگ بہادر نہیں ان کے دل گردے کمزور ہیں تم آگے تو بڑھو ان کے شہر کے دروازے میں گئے اور ان کے ہاتھ پاؤں ڈھیلے ہوئے یقیناً تم ان پر غالب آ جاؤ گے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ دونوں شخص جنہوں نے بنی اسرائیل کو سمجھایا اور انہیں دلیر بنایا خود بنی اسرایئل میں سے ہی تھے واللہ اعلم ۔ لیکن ان کے سمجھانے بجھانے اللہ کے حکم ہو جانے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وعدے نے بھی ان پر کوئی اثر نہ کیا بلکہ انہوں نے صاف کورا جواب دے دیا کہ جب تک یہ لوگ شہر میں ہیں ہم تو یہاں سے اٹھنے کے بھی نہیں موسیٰ علیہ السلام تو آپ اپنے رب کو اپنے ساتھ لے کر چلا جا اور ان سے لڑ بھڑ لے ہم یہاں بیٹھے ہوئے ہیں ۔ اب تو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے صبر نہ ہو سکا آپ کے منہ سے ان بزدلوں اور ناقدروں کے حق میں بد دعا نکل گئی اور آپ نے ان کا نام فاسق رکھ دیا ۔ اللہ کی طرف سے بھی ان کا یہی نام مقرر ہو گیا اور انہیں اسی میدان میں قدرتی طور پر قید کر دیا گیا چالیس سال انہیں یہیں گزر گئے کہیں قرار نہ تھا اسی بیاباں میں پریشانی کے ساتھ بھٹکتے پھرتے تھے اسی میدان قید میں ان پر ابر کا سایہ کر دیا گیا اور من و سلویٰ اتار دیا گیا کپڑے نہ پھٹتے تھے نہ میلے ہوتے تھے ایک چوکونہ پتھر رکھا ہوا تھا جس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے لکڑی ماری تو اس میں سے بارہ نہریں جاری ہوگئیں ہر طرف سے تین تین لوگ چلتے چلتے آگے بڑھ جاتے تھک کر قیام کر دیتے ، صبح اٹھتے تو دیکھتے کہ وہ پتھر وہیں ہے جہاں کل تھا ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس حدیث کو مرفوع بیان کیا ہے ۔ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب یہ روایت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنی تو فرمایا کہ اس فرعونی نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اگلے دن کے قتل کی خبر رسانی کی تھی یہ بات سمجھ میں نہیں آتی ۔ کیونکہ قبطی کے قتل کے وقت سوائے اس بنی اسرایئل ایک شخص کے جو قبطی سے لڑ رہا رہا تھا وہاں کوئی اور نہ تھا اس پر حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بہت بگڑے اور حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہاتھ تھام کر حضرت سعد بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس لے گئے اور ان سے کہا آپ کو یاد ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے اس شخص کا حال بیان فرمایا تھا جس نے حضرت موسیٰ کے قتل کے راز کو کھولا تھا بتاؤ وہ بنی اسرائیل شخص تھا یا فرعونی؟ حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا بنی اسرائیل سے اس فرعونی نے سنا پھر اس نے جا کر حکومت سے کہا اور خود اس کا شاہد بنا ( سنن کبری نسائی ) یہی روایت اور کتابوں میں بھی ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اپنے کلام سے بہت تھوڑا سا حصہ مرفوع بیان کیا گیا ہے ۔ بہت ممکن ہے کہ آپ نے بنو اسرائیل میں سے کسی سے یہ روایت لی ہو کیونکہ ان سے روایتیں لینا مباح ہیں ۔ یا تو آپ نے حضرت کعب احبار رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہی یہ روایت سنی ہو گی اور ممکن ہے کسی اور سے سنی ہو ۔ واللہ اعلم ۔ میں نے اپنے استاد شیخ حافظ ابو الحجاج مزی رحمتہ اللہ علیہ سے بھی یہی سنا ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

39۔ 1 مراد فرعون ہے جو اللہ کا بھی دشمن اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا بھی دشمن تھا۔ یعنی لکڑی کا وہ تابوت تیرتا ہوا جب شاہی محل کے کنارے پہنچا تو اسے باہر نکال کر دیکھا گیا، تو اس میں ایک معصوم بچہ تھا، فرعون نے اپنی بیوی کی خواہش پر پرورش کے لئے شاہی محل میں رکھ لیا۔ 39۔ 2 یعنی فرعون کے دل میں ڈال دی یا عام لوگوں کے دلوں میں تیری محبت ڈال دی۔ 39۔ 3 چناچہ اللہ کی قدرت کا اور اس کی حفاظت و نگہبانی کا کمال اور کرشمہ دیکھئے کہ جس بچے کی خاطر، فرعون بیشمار بچوں کو قتل کروا چکا، تاکہ وہ زندہ نہ رہے، اسی بچے کو اللہ تعالیٰ اس کی گود میں پلوا رہا ہے، اور ماں اپنے بچے کو دودھ پلا رہی ہے، لیکن اس کی اجرت بھی اسی دشمن موسیٰ (علیہ السلام) سے وصول کر رہی ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٢] سیدنا موسیٰ کی پیدائش اور صندوق میں ڈالنا :۔ ہوا یہ تھا کہ فرعون کو ایک ڈراؤنا سا خواب آیا جس کی تعبیر اسے درباری نجومیوں نے یہ بتلائی کہ بنی اسرائیل میں ایک شخص پیدا ہونے والا ہے جو تمہاری سلطنت کو تہ وبالا کردے گا اور تمہاری ہلاکت کا موجب بنے گا اس کا توڑ فرعون نے یہ سوچا کہ آئندہ بنی اسرائیل کے ہاں جتنے لڑکے پیدا ہوں ان کو پیدا ہوتے ہی مار ڈالا جائے اور اس حکم کی تعمیل کے لئے اس نے اپنے تمام اہل کاروں کو ہدایات جاری کردیں اور دائیوں کی یہ ذمہ داری تھی کہ جس وقت کسی بنی اسرائیل کے فرد یا سبطی کے ہاں لڑکا پیدا ہو وہ فورا ً حکومت کو اس کی اطلاع کرے۔ دراصل فرعون کی اپنی سلطنت کو بچانے کی یہ تدبیر کی بنی اسرائیل کے ہاں ہر نئے پیدا ہونے والے بچے کو پیدا ہوتے ہی مار ڈالا جائے، اس کی حماقت اور ناعاقبت اندیشی پر مبنی تھی۔ وجہ یہ ہے کہ جو تعبیر نجومیوں نے بتلائی تھی اس کے متعلق دو ہی صورتیں ممکن ہیں۔ ایک یہ کہ وہ تعبیر غلط ہو۔ اس صورت میں اسے کسی تدبیر کی ضرورت ہی نہ تھی۔ دوسری یہ کہ وہ تعبیر درست ہو۔ اس صورت میں بھی فرعون کی کسی تدبیر کا کچھ فائدہ نہ تھا۔ اس لئے کہ تدبر سے اس تعبیر کو تبدیل کیا جاسکتا ہو تو وہ تعبیر درست کیسے قرار دی جاسکتی ہے۔ یہی دوسری صورت فرعون سے پیش آئی۔ اس کی اس ظالمانہ تدبیر کے باوجود تقدیر غالب آئی اور جو کچھ اللہ کی مشیت میں تھا وہ ہو کے رہا۔- فرعون کا یہ وحشیانہ حکم ایک طویل عرصہ سے بنی اسرائیل پر ڈھایا۔۔ بنی اسرائیل پر ڈھایا جارہا تھا۔ جب سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) پیدا ہوئے۔ قرآن کی والدہ اس بچے کے فعل کے تصور سے سخت مغموم ہوگئیں۔ یکدم ان کے دل میں اللہ تعالیٰ نے یہ خیال ڈال دیا کہ اس بچے کی پیدائش کی خبر اہل کاروں کے پاس پہنچنے سے پیشتر ہی اسے ایک تابوت میں بند کردے۔ پھر اس تابوت کو دریائے نیل کی موجوں کی سپرد کردیا جائے۔ اس طرح ایک تو بچہ کو اپنی آنکھوں کے سامنے قتل ہونے کے منظر کی اذیت سے بچ جائیں گے دوسرے ممکن ہے اللہ تعالیٰ اس بچے کی زندگی کی کوئی اور صورت پیدا کردے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اَنِ اقْذِفِيْهِ فِي التَّابُوْتِ ۔۔ : یعنی تمہارا کام بس اتنا ہے کہ صندوق میں ڈال کر دریا (نیل) میں ڈال دو ۔ آگے دریا کو ہمارا حکم یہ ہے کہ اسے راستے میں روکنے یا لے جا کر سمندر میں ڈالنے کے بجائے عین فرعون کے محل کے پاس ساحل پر لگا دے۔ اس واقعہ کی پوری تفصیل سورة قصص (٧ تا ١٣) میں ہے۔ - وَاَلْقَيْتُ عَلَيْكَ مَحَبَّةً مِّنِّيْ ۔۔ : یعنی تمہاری صورت ایسی بنائی اور اس میں اپنی طرف سے ایسی انوکھی دل ربائی رکھی کہ جو کوئی تمہیں دیکھتا بےاختیار محبت کرنے لگتا۔ ” وَلِتُصْنَعَ عَلٰي عَيْنِيْ “ کا عطف ” وَاَلْقَيْتُ عَلَيْكَ مَحَبَّةً مِّنِّيْ “ سے حاصل ہونے والے مفہوم پر ہے، جس کی تقدیر یوں ہوگی : ” وَ أَلْقَیْتُ عَلَیْکَ مَحَبَّۃً مِّنِّیْ لِتُحَبَّ وَلِتُصْنَعَ عَلٰی عَیْنِیْ “ ” اور میں نے تجھ پر ایک انوکھی محبت ڈال دی، تاکہ تجھ سے محبت کی جائے اور تاکہ تیری پرورش میری آنکھوں کے سامنے کی جائے۔ “ اس عطف کی مزید توجیہات مفصل کتب میں دیکھیں۔ ” مَحَبَّةً “ میں تنوین تنکیر کے لیے ہے، اس لیے ” ایک انوکھی محبت “ ترجمہ کیا ہے، یعنی جو اسباب کی وجہ سے نہیں تھی، بلکہ بلا اسباب خاص اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھی۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

فَلْيُلْقِهِ الْيَمُّ بالسَّاحِلِ ، اس جگہ یم بمعنے دریا سے بظاہر نہر نیل مراد ہے آیت میں ایک حکم تو موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ ماجدہ کو دیا گیا ہے کہ اس بچے (موسیٰ علیہ السلام) کو صندوق میں بند کرکے دریا میں ڈال دیں، دوسرا حکم بصیغہ امر دریا کے نام ہے کہ وہ اس تابوت کو کنارہ پر ڈال دے فَلْيُلْقِهِ الْيَمُّ بالسَّاحِلِ ، دریا چونکہ بظاہر بےحس و بےشعور ہے اس کو حکم دینے کا مفہوم سمجھ میں نہیں آتا اس لئے بعض حضرات نے یہ قرار دیا کہ اگرچہ یہاں صیغہ امر بمعنی الحکم استعمال ہوا ہے مگر مراد اس سے حکم نہیں بلکہ خبر دینا ہے کہ دریا اس کو کنارہ پر ڈال دے گا۔ مگر محققین علماء کے نزدیک امر اپنے ظاہر پر امر اور حکم ہی ہے اور دریا ہی اس کا مخاطب ہے کیونکہ ان کے نزدیک دنیا کی کوئی مخلوق درخت اور پتھر تک بےعقل و بےشعور نہیں بلکہ سب عقل و ادراک موجود ہے اور یہی عقل و ادراک ہے جس کے سبب یہ سب چیزیں حسب تصریح قرآن اللہ کی تسبیح میں مشغول ہیں۔ ہاں یہ فرق ضرور ہے کہ انسان اور جن اور فرشتہ کے علاوہ کسی مخلوق میں عقل و شعور اتنا مکمل نہیں جس پر احکام حلال و حرام عائد کر کے مکلف بنایا جائے، دانائے روم نے خوب فرمایا - خاک و باد و آب و آتش بندہ اند بامن و تو مردہ باحق زندہ اند - يَاْخُذْهُ عَدُوٌّ لِّيْ وَعَدُوٌّ لَّهٗ ، یعنی اس تابوت اور اس میں بند کئے ہوئے بچے کو ساحل دریا سے ایسا شخص اٹھائے گا جو میرا بھی دشمن ہے اور موسیٰ کا بھی، مراد اس سے فرعون ہے۔ فرعون کا اللہ کا دشمن ہونا اس کے کفر کی وجہ سے ظاہر مگر موسیٰ (علیہ السلام) کا دشمن کہنا اس لئے محل غور ہے کہ اس وقت تو فرعون حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا دشمن نہیں تھا بلکہ ان کی پرورش پر زر کثیر خرچ کر رہا تھا پھر اس کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا دشمن فرمایا تو انجام کار کے اعتبار سے ہے کہ بالآخر فرعون کا دشمن ہوجانا اللہ تعالیٰ کے علم میں تھا اور یہ کہا جائے تو بھی کچھ بعید نہیں کہ جہاں تک فرعون کی ذات کا تعلق ہے وہ فی نفسہ اس وقت بھی دشمن ہی تھا۔ اس نے حضرت موسیٰ کی تربیت صرف بیوی آسیہ کی خاطر گوارا کی تھی اور اس میں بھی جب اس کو شبہ ہوا تو اسی وقت قتل کرنے کا حکم دے دیا تھا جو حضرت آسیہ کی دانش مندی کے ذریعہ ختم ہوا (روح و مظہری)- وَاَلْقَيْتُ عَلَيْكَ مَحَبَّةً مِّنِّيْ ، اس جگہ لفظ محبت مصدر بمعنے محبوبیت ہے اور مطلب یہ ہے کہ حق تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم نے اپنی عنایت و رحمت سے آپ کے وجود میں ایک محبوبیت کی شان رکھ دی تھی کہ جو آپ کو دیکھے آپ سے محبت کرنے لگے۔ حضرت ابن عباس اور عکرمہ سے یہی تفسیر منقول ہے (مظہری)- وَلِتُصْنَعَ عَلٰي عَيْنِيْ ، لفظ صنعت سے اس جگہ مراد عمدہ تربیت ہے جیسے عرب میں صنعت فرسی کا محاورہ اسی معنی میں معروف ہے کہ میں نے اپنے گھوڑے کی اچھی تربیت کی اور علی عینی سے مراد علی حفظی یعنی اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرما لیا تھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی بہترین تربیت براہ راست حق تعالیٰ کی نگرانی میں ہو اس لئے مصر کی سب سے بڑی ہستی یعنی فرعون کے ہاتھوں ہی اس کے گھر میں یہ کام اس طرح لیا گیا کہ وہ اس سے بیخبر تھا کہ میں اپنے ہاتھوں اپنے دشمن کو پال رہا ہوں۔ (مظہری)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَنِ اقْذِفِيْہِ فِي التَّابُوْتِ فَاقْذِ فِيْہِ فِي الْيَمِّ فَلْيُلْقِہِ الْيَمُّ بِالسَّاحِلِ يَاْخُذْہُ عَدُوٌّ لِّيْ وَعَدُوٌّ لَّہٗ۝ ٠ۭ وَاَلْقَيْتُ عَلَيْكَ مَحَبَّۃً مِّنِّيْ۝ ٠ۥۚ وَلِتُصْنَعَ عَلٰي عَيْنِيْ۝ ٣٩ۘ- قذف - الْقَذْفُ : الرّمي البعید، ولاعتبار البعد فيه قيل : منزل قَذَفٌ وقَذِيفٌ ، وبلدة قَذُوفٌ: بعیدة،- وقوله : فَاقْذِفِيهِ فِي الْيَمِ [ طه 39] ، أي : اطرحيه فيه، وقال : وَقَذَفَ فِي قُلُوبِهِمُ الرُّعْبَ [ الأحزاب 26] ، بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْباطِلِ [ الأنبیاء 18] ، يَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَّامُ الْغُيُوبِ [ سبأ 48] ، وَيُقْذَفُونَ مِنْ كُلِّ جانِبٍ دُحُوراً [ الصافات 8- 9] ، واستعیر القَذْفُ للشّتم والعیب کما استعیر الرّمي .- ( ق ذ ف ) القذف - ( ض ) کے معنی دور پھیکنا کے ہیں پھر معنی بعد کے اعتبار سے دور دراز منزل کو منزل قذف وقذیف کہاجاتا ہے اسی طرح دور در ازشہر کو بلدۃ قذیفۃ بول لیتے ہیں ۔۔۔ اور آیت کریمہ : فَاقْذِفِيهِ فِي الْيَمِ [ طه 39] پھر اس ( صندوق ) کو دریا میں ڈال دو ۔ کے معنی دریا میں پھینک دینے کے ہیں ۔ نیز فرمایا : وَقَذَفَ فِي قُلُوبِهِمُ الرُّعْبَ [ الأحزاب 26] اور ان کے دلوں میں دہشت ڈال دی ۔ بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْباطِلِ [ الأنبیاء 18] بلک ہم سچ کو جھوٹ پر کھینچ مارتے ہیں ۔ يَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَّامُ الْغُيُوبِ [ سبأ 48] وہ اپنے اوپر حق اتارتا ہے اور وہ غیب کی باتوں کا جاننے والا ہے ۔ وَيُقْذَفُونَ مِنْ كُلِّ جانِبٍ دُحُوراً [ الصافات 8- 9] اور ہر طرف سے ( ان پر انگارے ) پھینکے جاتے ہیں ( یعنی ) وہاں سے نکال دینے کو ۔ اور رمی کی طرح قذف کا لفظ بھی بطور استعارہ گالی دینے اور عیب لگانے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے - تابوت - التَّابُوت فيما بيننا معروف، أَنْ يَأْتِيَكُمُ التَّابُوتُ [ البقرة 248] ، قيل : کان شيئا منحوتا من الخشب فيه حكمة . وقیل : عبارة عن القلب، والسکينة عمّا فيه من العلم، وسمّي القلب سفط العلم، وبیت الحکمة، وتابوته، ووعاء ه، وصندوقه، وعلی هذا قيل : اجعل سرّك في وعاء غير سرب . وعلی تسمیته بالتابوت قال عمر لابن مسعود رضي اللہ عنهما : (كنيف ملیء علما)- ( ت ب ت ) التابوت - کے معنی صندوق کے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ أَنْ يَأْتِيَكُمُ التَّابُوتُ [ البقرة 248] کہ تمہارے پاس ایک صندوق آئے گا ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ وہ صندوق لکڑی کا تھا جس میں حکمت کی کتابین تھیں ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ تابوت سے مراد دل ہے اور اس میں سکینت سے مراد علم ہے اس لئے دل کو سقط العلم و بیت الحکمۃ وتابوت العلم وصندوقہ کہا جاتا ہے ۔ چناچہ کہا گیا ہے :۔ اجعل سرک فی وعآء غیر سرب ۔ کہ اپنے بھید کو ایسے برتن میں رکھو جو ٹپکتا نہ ہو اور دل کا نام تابوت ہونے کہ وجہ سے حضرت عمر نے عبد اللہ بن مسعود کے متعلق فرمایا (47) ھو کنیت ملئ علما وہ ایک ایسا برتن ہے جو علم سے پر ہے ۔- الیم - اليَمُّ : البحر . قال تعالی: فَأَلْقِيهِ فِي الْيَمِّ [ القصص 7] ويَمَّمْتُ كذا، وتَيَمَّمْتُهُ :- قصدته، قال تعالی: فَتَيَمَّمُوا صَعِيداً طَيِّباً [ النساء 43] وتَيَمَّمْتُهُ برمحي : قصدته دون غيره . واليَمَامُ : طيرٌ أصغرُ من الورشان، ويَمَامَةُ : اسمُ امرأةٍ ، وبها سمّيت مدینةُ اليَمَامَةِ.- ( ی م م ) الیم - کے معنی در یا اور سمندر کے ہیں قرآن پاک میں ہے : ۔ فَأَلْقِيهِ فِي الْيَمِّ [ القصص 7] تو اسے در یا میں ڈال دینا یممت کذا وتیممت قصد کرنا قرآن پاک میں ہے ۔ فَتَيَمَّمُوا صَعِيداً طَيِّباً [ النساء 43] تو پاک مٹی لو ۔ یممتہ بر محی میں نے اسے نیزے نشان نہ بنایا ۔ الیامم جنگلی کبوتر کو کہتے ہیں اور یمامۃ ایک عورت کا نام تھا جس کے نام پر ( صوبہ یمن کے ایک شہر کا نام الیمامہ رکھا گیا تھا ۔- لقی( افعال)- والإِلْقَاءُ : طرح الشیء حيث تلقاه، أي : تراه، ثم صار في التّعارف اسما لكلّ طرح . قال : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه 87] ، قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ- [ الأعراف 115] ،- ( ل ق ی ) لقیہ ( س)- الالقآء ( افعال) کے معنی کسی چیز کو اس طرح ڈال دیناکے ہیں کہ وہ دوسرے کو سمانے نظر آئے پھر عرف میں مطلق کس چیز کو پھینک دینے پر القاء کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه 87] اور اسی طرح سامری نے ڈال دیا ۔ قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ [ الأعراف 115] تو جادو گروں نے کہا کہ موسیٰ یا تو تم جادو کی چیز ڈالو یا ہم ڈالتے ہیں ۔ موسیٰ نے کہا تم ہی ڈالو۔ - سحل - قال عزّ وجلّ : فَلْيُلْقِهِ الْيَمُّ بِالسَّاحِلِ [ طه 39] ، أي : شاطئ البحر أصله من :- سَحَلَ الحدید، أي : بَرَدَهُ وقَشَرَهُ ، وقیل : أصله أن يكون مَسْحُولًا، لکن جاء علی لفظ الفاعل، کقولهم : همّ ناصب . وقیل : بل تصوّر منه أنه يَسْحَلُ الماءَ ، أي : يفرّقه ويضيّقه، والسُّحَالَةُ : البرادة، والسَّحِيلُ والسُّحَالُ : نهيق الحمار «1» ، كأنه شبّه صوته بصوت سحل الحدید، والْمِسْحَلُ : اللسان الجهير الصوت، كأنه تصوّر منه سحیل الحمار من حيث رفع صوته، لا من حيث نكرة صوته، كما قال تعالی: إِنَّ أَنْكَرَ الْأَصْواتِ لَصَوْتُ الْحَمِيرِ [ لقمان 19] ، والْمِسْحَلَتَانِ : حلقتان علی طرفي شكيم «2» اللّجام .- ( س ح ل )- قرآن میں ہے : ۔ فَلْيُلْقِهِ الْيَمُّ بِالسَّاحِلِ [ طه 39] تو دریا اسے ساحل پر ڈال دے گا ۔ یہ اصل میں سحل الحدید سے ہے جس کے معنی ريتی سے لوہے کا برادہ بنانے اور چھیلنے کے ہیں ۔ بعض کا خیال ہے دریا کے کنارے کو ساحل کی بجائے مسحول کہنا چاہیئے تھا مگر اسم مفعول کی بجائے اسم فاعل استعمال ہوتا ہے جیسا کہ ھم ناصب کہا جاتا ہے حالانکہ ھم منصوب ہوتا ہے ۔ بعض کے نزدیک ساحل کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ وہ پانی کو متفرق اور محدود کردیتا ہے اس صورت میں ساحل بمعنی فاعل ہوگا ۔ السحالۃ برادہ کو کہتے ہیں اور گدھے کی ہنهناہٹ کو سحیل یا سحال کہا جاتا ہے گویا کرخت ہونے کے لحاظ سے اس کی آواز لوہے کو رگڑنے کی آواز کے مشابہ ہے ۔ اور بلند آواز آدمی کو مسحل کہا جاتا ہے گویا وہ سجیل الحمار کے مشابہ ہے یعنی رفع صوت کے لحاظ سے نہ کہ آواز کے کرخت ہونے کے لحاظ سے جیسا کہ قرآن میں گدھے کی آواز کے متعلق کہا ہے ۔ إِنَّ أَنْكَرَ الْأَصْواتِ لَصَوْتُ الْحَمِيرِ [ لقمان 19] اور وہانہ لگام کے دونوں طرف کے حلقوں کو مسحلتان کہا جاتا ہے ۔- أخذ - الأَخْذُ : حوز الشیء وتحصیله، وذلک تارةً بالتناول نحو : مَعاذَ اللَّهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنا مَتاعَنا عِنْدَهُ [يوسف 79] ، وتارةً بالقهر نحو قوله تعالی: لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ [ البقرة 255] - ( اخ ذ) الاخذ - ۔ کے معنی ہیں کسی چیز کو حاصل کرلینا جمع کرلینا اور احاطہ میں لے لینا اور یہ حصول کبھی کسی چیز کو پکڑلینے کی صورت میں ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ مَعَاذَ اللهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهُ ( سورة يوسف 79) خدا پناہ میں رکھے کہ جس شخص کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی ہے اس کے سو اہم کسی اور پکڑ لیں اور کبھی غلبہ اور قہر کی صورت میں جیسے فرمایا :۔ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ ( سورة البقرة 255) نہ اس پر اونگھ غالب آسکتی اور نہ ہ نیند ۔ محاورہ ہے ۔- عدو - العَدُوُّ : التّجاوز ومنافاة الالتئام، فتارة يعتبر بالقلب، فيقال له : العَدَاوَةُ والمُعَادَاةُ ، وتارة بالمشي، فيقال له : العَدْوُ ، وتارة في الإخلال بالعدالة في المعاملة، فيقال له : العُدْوَانُ والعَدْوُ. قال تعالی: فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام 108] ، وتارة بأجزاء المقرّ ، فيقال له : العَدْوَاءُ. يقال : مکان ذو عَدْوَاءَ «3» ، أي : غير متلائم الأجزاء . فمن المُعَادَاةِ يقال :- رجلٌ عَدُوٌّ ، وقومٌ عَدُوٌّ. قال تعالی: بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه 123]- ( ع د و ) العدو - کے معنی حد سے بڑھنے اور باہم ہم آہنگی نہ ہونا ہیں اگر اس کا تعلق دل کی کیفیت سے ہو تو یہ عداوۃ اور معاداۃ کہلاتی ہے اور اگر رفتار سے ہو تو اسے عدو کہا جاتا ہے اور اگر عدل و انصاف میں خلل اندازی کی صورت میں ہو تو اسے عدوان اور عدو کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام 108] کہ یہ بھی کہیں خدا کو بےادبی سے بےسمجھے برا نہ کہہ بیٹھیں ۔ اور اگر اس کا تعلق کسی جگہ کے اجزاء کے ساتھ ہو تو اسے عدواء کہہ دیتے ہیں جیسے مکان ذوعدوء ناہموار مقام چناچہ معاداۃ سے اشتقاق کے ساتھ کہا جاتا ہے رجل عدو وقوم عدو اور یہ واحد جمع دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه 123] اب سے تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔ - حب - والمحبَّة :- إرادة ما تراه أو تظنّه خيرا، وهي علی ثلاثة أوجه :- محبّة للّذة، کمحبّة الرجل المرأة، ومنه :- وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان 8] .- ومحبّة للنفع، کمحبة شيء ينتفع به، ومنه :- وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] .- ومحبّة للفضل، کمحبّة أهل العلم بعضهم لبعض لأجل العلم .- ( ح ب ب ) الحب والحبۃ - المحبۃ - کے معنی کسی چیز کو اچھا سمجھ کر اس کا ارادہ کرنے اور چاہنے کے ہیں - اور محبت تین قسم پر ہے :- ۔ ( 1) محض لذت اندوزی کے لئے - جیسے مرد کسی عورت سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ آیت : ۔ وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان 8] میں اسی نوع کی محبت کی طرف اشارہ ہے - ۔ ( 2 ) محبت نفع اندوزی کی خاطر - جیسا کہ انسان کسی نفع بخش اور مفید شے سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13 اور ایک چیز کو تم بہت چاہتے ہو یعنی تمہیں خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح حاصل ہوگی - ۔ ( 3 ) کبھی یہ محبت یہ محض فضل وشرف کی وجہ سے ہوتی ہے - جیسا کہ اہل علم وفضل آپس میں ایک دوسرے سے محض علم کی خاطر محبت کرتے ہیں ۔ - صنع - الصُّنْعُ : إجادةُ الفعل، فكلّ صُنْعٍ فِعْلٌ ، ولیس کلّ فعل صُنْعاً ، ولا ينسب إلى الحیوانات والجمادات کما ينسب إليها الفعل . قال تعالی: صُنْعَ اللَّهِ الَّذِي أَتْقَنَ كُلَّ شَيْءٍ [ سورة النمل 88] ، وَيَصْنَعُ الْفُلْكَ [هود 38] ، - ( ص ن ع ) الصنع - ( ف) کے معنی کسی کام کو ( کمال مہارت سے ) اچھی طرح کرنے کے ہیں اس لئے ہر صنع کو فعل کہہ سکتے ہیں مگر ہر فعل کو صنع نہیں کہہ سکتے اور نہ ہی لفظ فعل کی طرح حیوانات اور جمادات کے لئے بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ صُنْعَ اللَّهِ الَّذِي أَتْقَنَ كُلَّ شَيْءٍ [ سورة النمل 88] یہ خدا کی صنعت کاری ہے جس نے ہر چیز کو نہایت مہارت سے محکم طور پر بنایا ۔ وَيَصْنَعُ الْفُلْكَ [هود 38] تو نوح (علیہ السلام) نے کشتی بنائی شروع کردی ۔- عين - ويقال لذي العَيْنِ : عَيْنٌ «3» ، وللمراعي للشیء عَيْنٌ ، وفلان بِعَيْنِي، أي : أحفظه وأراعيه، کقولک : هو بمرأى منّي ومسمع، قال : فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنا[ الطور 48] ، وقال : تَجْرِي بِأَعْيُنِنا - [ القمر 14] ، وَاصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنا[هود 37] ، أي : بحیث نریونحفظ . وَلِتُصْنَعَ عَلى عَيْنِي[ طه 39] ، أي : بکلاء تي وحفظي . ومنه : عَيْنُ اللہ عليك أي : كنت في حفظ اللہ ورعایته، وقیل : جعل ذلک حفظته وجنوده الذین يحفظونه، وجمعه : أَعْيُنٌ وعُيُونٌ. قال تعالی: وَلا أَقُولُ لِلَّذِينَ تَزْدَرِي أَعْيُنُكُمْ [هود 31] ، رَبَّنا هَبْ لَنا مِنْ أَزْواجِنا وَذُرِّيَّاتِنا قُرَّةَ أَعْيُنٍ- [ الفرقان 74] .- ويستعار الْعَيْنُ لمعان هي موجودة في الجارحة بنظرات مختلفة،- واستعیر للثّقب في المزادة تشبيها بها في الهيئة، وفي سيلان الماء منها فاشتقّ منها : سقاء عَيِّنٌ ومُتَعَيِّنٌ: إذا سال منها الماء، وقولهم : عَيِّنْ قربتک «1» ، أي : صبّ فيها ما ينسدّ بسیلانه آثار خرزه، وقیل للمتجسّس : عَيْنٌ تشبيها بها في نظرها، وذلک کما تسمّى المرأة فرجا، والمرکوب ظهرا، فيقال : فلان يملك كذا فرجا وکذا ظهرا لمّا کان المقصود منهما العضوین، وقیل للذّهب : عَيْنٌ تشبيها بها في كونها أفضل الجواهر، كما أنّ هذه الجارحة أفضل الجوارح ومنه قيل : أَعْيَانُ القوم لأفاضلهم، وأَعْيَانُ الإخوة : لنبي أب وأمّ ، قال بعضهم : الْعَيْنُ إذا استعمل في معنی ذات الشیء فيقال : كلّ ماله عَيْنٌ ، فکاستعمال الرّقبة في المماليك، وتسمية النّساء بالفرج من حيث إنه هو المقصود منهنّ ، ويقال لمنبع الماء : عَيْنٌ تشبيها بها لما فيها من الماء، ومن عَيْنِ الماء اشتقّ : ماء مَعِينٌ. أي : ظاهر للعیون، وعَيِّنٌ أي : سائل . قال تعالی: عَيْناً فِيها تُسَمَّى سَلْسَبِيلًا[ الإنسان 18] ، وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُوناً [ القمر 12] ، فِيهِما عَيْنانِ تَجْرِيانِ [ الرحمن 50] ، يْنانِ نَضَّاخَتانِ [ الرحمن 66] ، وَأَسَلْنا لَهُ عَيْنَ الْقِطْرِ [ سبأ 12] ، فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الحجر 45] ، مِنْ جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الشعراء 57] ، وجَنَّاتٍ وَعُيُونٍ وَزُرُوعٍ [ الدخان 25- 26] . وعِنْتُ الرّجل : أصبت عَيْنَهُ ، نحو : رأسته وفأدته، وعِنْتُهُ : أصبته بعیني نحو سفته : أصبته بسیفي، وذلک أنه يجعل تارة من الجارحة المضروبة نحو : رأسته وفأدته، وتارة من الجارحة التي هي آلة في الضّرب فيجري مجری سفته ورمحته، وعلی نحوه في المعنيين قولهم : يديت، فإنه يقال : إذا أصبت يده، وإذا أصبته بيدك، وتقول : عِنْتُ البئر أثرت عَيْنَ مائها، قال :إِلى رَبْوَةٍ ذاتِ قَرارٍ وَمَعِينٍ [ المؤمنون 50] ، فَمَنْ يَأْتِيكُمْ بِماءٍ مَعِينٍ [ الملک 30] . وقیل : المیم فيه أصليّة، وإنما هو من : معنت «2» . وتستعار العَيْنُ للمیل في المیزان ويقال لبقر الوحش : أَعْيَنُ وعَيْنَاءُ لحسن عينه، وجمعها : عِينٌ ، وبها شبّه النّساء . قال تعالی: قاصِراتُ الطَّرْفِ عِينٌ- [ الصافات 48] ، وَحُورٌ عِينٌ [ الواقعة 22] .- ( ع ی ن ) العین - اور عین کے معنی شخص اور کسی چیز کا محافظ کے بھی آتے ہیں اور فلان بعینی کے معنی ہیں ۔ فلاں میری حفاظت اور نگہبانی میں ہے جیسا کہ ھو بمر ا ئ منی ومسمع کا محاورہ ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنا[ الطور 48] تم تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہو ۔ وہ ہماری آنکھوں کے سامنے چلتی تھی ۔ وَلِتُصْنَعَ عَلى عَيْنِي[ طه 39] اور اس لئے کہ تم میرے سامنے پر دریش پاؤ ۔ اور اسی سے عین اللہ علیک ہے جس کے معنی ہیں اللہ تعالیٰ تمہاری حفاظت اور نگہداشت فرمائے یا اللہ تعالیٰ تم پر اپنے نگہبان فرشتے مقرر کرے جو تمہاری حفاظت کریں اور اعین وعیون دونوں عین کی جمع ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَلا أَقُولُ لِلَّذِينَ تَزْدَرِي أَعْيُنُكُمْ [هود 31] ، اور نہ ان کی نسبت جن کو تم حقارت کی نظر سے دیکھتے ہو یہ کہتا ہوں کہ ۔ رَبَّنا هَبْ لَنا مِنْ أَزْواجِنا وَذُرِّيَّاتِنا قُرَّةَ أَعْيُنٍ [ الفرقان 74] اے ہمارے پروردگار ہم کو ہماری بیویوں کی طرف سے آ نکھ کی ٹھنڈک عطا فرما ۔ اور استعارہ کے طور پر عین کا لفظ کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے جو مختلف اعتبارات سے آنکھ میں پائے جاتے ہیں ۔ مشکیزہ کے سوراخ کو عین کہا جاتا ہے کیونکہ وہ ہیئت اور اس سے پانی بہنے کے اعتبار سے آنکھ کے مشابہ ہوتا ہے ۔ پھر اس سے اشتقاق کے ساتھ کہا جاتا ہے ۔ سقاء عین ومعین پانی کی مشک جس سے پانی ٹپکتا ہو عین قر بتک اپنی نئی مشک میں پانی ڈالواتا کہ تر ہو کر اس میں سلائی کے سوراخ بھر جائیں ، جاسوس کو عین کہا جاتا ہے کیونکہ وہ دشمن پر آنکھ لگائے رہتا ہے جس طرح کو عورت کو فرج اور سواری کو ظھر کہا جاتا ہے کیونکہ ان دونوں سے مقصود یہی دو چیزیں ہوتی ہیں چناچنہ محاورہ ہے فلان یملک کذا فرجا وکذا ظھرا ( فلاں کے پاس اس قدر لونڈ یاں اور اتنی سواریاں ہیں ۔ (3) عین بمعنی سونا بھی آتا ہے کیونکہ جو جواہر میں افضل سمجھا جاتا ہے جیسا کہ اعضاء میں آنکھ سب سے افضل ہوتی ہے اور ماں باپ دونوں کی طرف سے حقیقی بھائیوں کو اعیان الاخوۃ کہاجاتا ہے ۔ (4) بعض نے کہا ہے کہ عین کا لفظ جب ذات شے کے معنی میں استعمال ہوجی سے کل مالہ عین تو یہ معنی مجاز ہی ہوگا جیسا کہ غلام کو رقبۃ ( گردن ) کہہ دیا جاتا ہے اور عورت کو فرج ( شرمگاہ ) کہہ دیتے ہیں کیونکہ عورت سے مقصود ہی یہی جگہ ہوتی ہے ۔ (5) پانی کے چشمہ کو بھی عین کہاجاتا ہے ۔ کیونکہ اس سے پانی ابلتا ہے جس طرح کہ آنکھ سے آنسو جاری ہوتے ہیں اور عین الماء سے ماء معین کا محاورہ لیا گیا ہے جس کے معنی جاری پانی کے میں جو صاف طور پر چلتا ہوا دکھائی دے ۔ اور عین کے معنی جاری چشمہ کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : عَيْناً فِيها تُسَمَّى سَلْسَبِيلًا[ الإنسان 18] یہ بہشت میں ایک چشمہ ہے جس کا نام سلسبیل ہے ۔ وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُوناً [ القمر 12] اور زمین میں چشمے جاری کردیئے ۔ فِيهِما عَيْنانِ تَجْرِيانِ [ الرحمن 50] ان میں دو چشمے بہ رہے ہیں ۔ يْنانِ نَضَّاخَتانِ [ الرحمن 66] دو چشمے ابل رہے ہیں ۔ وَأَسَلْنا لَهُ عَيْنَ الْقِطْرِ [ سبأ 12] اور ان کیلئے ہم نے تانبے کا چشمہ بہا دیا تھا ۔ فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الحجر 45] باغ اور چشموں میں ۔ مِنْ جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الشعراء 57] باغ اور چشمے اور کھیتیاں ۔ عنت الرجل کے معنی ہیں میں نے اس کی آنکھ پر مارا جیسے راستہ کے معنی ہوتے ہیں میں نے اس کے سر پر مارا فادتہ میں نے اس کے دل پر مارا نیز عنتہ کے معنی ہیں میں نے اسے نظر بد لگادی جیسے سفتہ کے معنی ہیں میں نے اسے تلوار سے مارا یہ اس لئے کہ اہل عرب کبھی تو اس عضو سے فعل مشتق کرتے ہیں جس پر مارا جاتا ہے اور کبھی اس چیز سے جو مار نے کا آلہ ہوتی ہے جیسے سفتہ ورمحتہ چناچہ یدیتہ کا لفظ ان ہر دومعنی میں استعمال ہوتا ہے یعنی میں نے اسے ہاتھ سے مارا یا اس کے ہاتھ پر مارا اور عنت البئر کے معنی ہیں کنواں کھودتے کھودتے اس کے چشمہ تک پہنچ گیا قرآن پاک میں ہے :إِلى رَبْوَةٍ ذاتِ قَرارٍ وَمَعِينٍ [ المؤمنون 50] ایک اونچی جگہ پر جو رہنے کے لائق تھی اور ہوا پانی جاری تھا ۔ فَمَنْ يَأْتِيكُمْ بِماءٍ مَعِينٍ [ الملک 30] تو ( سوائے خدا کے ) کون ہے جو تمہارے لئے شیریں پال کا چشمہ بہالائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ معین میں لفظ میم حروف اصلیہ سے ہے اور یہ معنت سے مشتق ہے جسکے معنی ہیں کسی چیز کا سہولت سے چلنا یا بہنا اور پر بھی بولا جاتا ہے اور وحشی گائے کو آنکھ کی خوب صورتی کہ وجہ سے اعین دعیناء کہاجاتا ہے اس کی جمع عین سے پھر گاواں وحشی کے ساتھ تشبیہ دے کر خوبصورت عورتوں کو بھی عین کہاجاتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : قاصِراتُ الطَّرْفِ عِينٌ [ الصافات 48] جو نگاہیں نیچی رکھتی ہوں ( اور ) آنکھیں بڑی بڑی ۔ وَحُورٌ عِينٌ [ الواقعة 22] اور بڑی بڑی آنکھوں والی حوریں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے (والقیت علیک محبۃ منی اور میں نے اپنی طرف سے تجھ پر محبت طاری کردی) یعنی میں نے ایسی کیفیت پیدا کردی کہ جو شخص تمہیں دیکھتا اس کے دل میں تمہاری محبت پیدا ہوجاتی حتی کہ فرعون کی نظروں میں بھی تم محبوب قرار پائے تھے اور اس طرح تم اس کے شر سے محفوظ ہوگئے تھے۔ دوسری طرف اس کی بیوی آسیہ بنت مزاحم کے دل میں تمہارے لئے محبت پید اہو گئی تھی جس کی بنا پر اس نے تمہیں اپنا بیٹا بنا لیا تھا۔ - قول باری ہے (ولتصنع علی عینی اور ایسا انتظام کیا کہ تو میری نگرانی میں پالا جائے) قتادہ کا قول ہے ” تاکہ میری محبت اور میرے ارادے کے سائے میں تیری پرورش ہو۔ “

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٣٩) کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو ایک بند صندوق میں رکھ دو اور پھر اس صندوق کو دریا میں ڈال دو پھر دریا ان کو کنارے تک لے آئے گا آخر کار فرعون ان کو پکڑ لے گا جو کافر ہونے کی وجہ سے میرا بھی دشمن ہے اور قتل کرنے کے ارادہ سے ان کا بھی دشمن ہے۔- اور اے موسیٰ (علیہ السلام) میں نے اس وقت تمہارے چہرے پر اپنی طرف سے ایک اثر محبت ڈال دیا تھا تاکہ جو تمہیں دیکھے پیار کرے اور تمہارے ساتھ جو کچھ اس وقت معاملہ ہو رہا تھا وہ میری خاص نگرانی میں ہو رہا تھا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

(فَلْیُلْقِہِ الْیَمُّ بالسَّاحِلِ یَاْخُذْہُ عَدُوٌّ لِّیْ وَعَدُوٌّ لَّہٗ ط) ” - حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کی طرف کی جانے والی وحی کے بارے میں یہاں مزید تفصیل بیان نہیں فرمائی گئی ‘ بلکہ اس کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے براہ راست خطاب شروع ہو رہا ہے۔ یہ قرآن کا خاص اسلوب ہے کہ کچھ چیزیں پڑھنے اور سننے والے پر چھوڑ دی جاتی ہیں کہ وہ سیاق وسباق کے مطابق خود سمجھ جائے۔ بہر حال اس واقعہ کی مزید تفصیلات یوں ہیں کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ نے آپ ( علیہ السلام) کو صندوق میں بند کر کے دریا میں ڈال دیا۔ آپ ( علیہ السلام) کی بڑی بہن اپنی والدہ کی ہدایت کے مطابق صندوق پر نظر رکھے ساحل کے ساتھ ساتھ چلتی رہی۔ صندوق کے شاہی محل میں پہنچنے کی خبر بھی بچی کے ذریعے والدہ کو مل گئی۔ ادھر فرعون بچے کو قتل کرنے پر تلا ہوا تھا۔ اس کی بیوی حضرت آسیہ (رض) (جو بنی اسرائیل میں سے تھیں اور نیک خاتون تھیں) نے اس کو سمجھایا کہ ہمارے ہاں اولاد نہیں ہے ‘ یہ بچہ میری اور آپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک ثابت ہوگا ‘ ہم اسے اپنا بیٹا بنا لیں گے ‘ چناچہ آپ اسے قتل نہ کریں۔ ادھر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر اپنی محبت کا پرتو ڈال کر آپ ( علیہ السلام) کے چہرے کو انتہائی پر کشش بنا دیا تھا۔ چناچہ آپ ( علیہ السلام) کی صورت ایسی من مو ہنی تھی کہ ہر شخص دیکھتے ہی آپ ( علیہ السلام) کا گرویدہ ہوجاتا تھا۔- (وَاَلْقَیْتُ عَلَیْکَ مَحَبَّۃً مِّنِّیْج وَلِتُصْنَعَ عَلٰی عَیْنِیْ ) ” اور (اے موسیٰ (علیہ السلام) ) - لِتُصْنَعَ کے لفظی معنی ہیں : ” تاکہ تم کو بنایا جائے “۔ اسی مادہ سے لفظ مَصْنَع مشتق ہے جس کے معنی کارخانہ کے ہیں۔ یعنی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی تربیت کا کارخانہ فرعون کا محل قرار پایا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ ( علیہ السلام) پر اپنی محبت کا پرتو ڈال کر آپ ( علیہ السلام) کی شکل میں ایسی کشش پیدا کردی تھی کہ دشمن بھی دیکھتے تو گرویدہ ہوجاتے۔ یہ سب کچھ اس لیے کیا گیا کہ آپ ( علیہ السلام) کی پرورش کے انتظامات خصوصی طور پر شاہی محل میں کیے جانے منظور تھے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

12: فرعون کو کسی نجومی نے یہ کہہ دیا تھا کہ بنی اسرائیل کا ایک شخص تمہاری سلطنت کو ختم کرے گا۔ اِس لئے اس نے یہ حکم جاری کردیا تھا کہ بنی اسرائیل میں جو کوئی بچہ پیدا ہو اسے قتل کردیا جائے۔ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئے تو اُن کی والدہ کو فکر ہوئی کہ اِن کو بھی فرعون کے آدمی قتل کر ڈالیں گے۔ اس موقع پر اﷲ تعالیٰ نے اُن کے دِل پر الہام فرمایا کہ اس بچے کو صندوق میں رکھ کر دریائے نیل میں ڈال دو۔ 13: چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ وہ صندوق بہتا ہوا فرعون کے محل کے پاس پہنچ گیا، اور فرعون کے کارندوں نے بچے کو اٹھا کر فرعون کے پاس پیش کیا، اور اس کی بیوی حضرت آسیہ نے اسے آمادہ کرلیا کہ اُسے اپنا بیٹا بنا کر پالیں۔ 14: حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شکل وصورت میں اﷲ تعالیٰ نے ایسی معصومیت رکھ دی تھی کہ جو بھی آپ کو دیکھتا، آپ سے محبت کرتا تھا۔ اسی وجہ سے فرعون بھی انہیں اپنے گھر میں رکھنے پر راضی ہوگیا 15: یوں تو ہر شخص کی پَرورِش اﷲ تعالیٰ ہی کی نگرانی میں ہوتی ہے، مگر یہاں مطلب یہ ہے کہ عام طور سے پَرورِش کے جو اسباب ہوتے ہیں کہ ماں باپ اپنے خرچ اور ذمہ داری پر بچے کی پَرورِش کرتے ہیں، وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معاملے میں اختیار نہیں فرمائے گئے۔ اس کے بجائے اﷲ تعالیٰ نے براہِ راست اُن کی پَرورِش اُن کے دُ شمن سے کرائی۔