Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

40۔ 1 یہ اس وقت ہوا، جب ماں نے تابوت دریا میں پھینک دیا تو بیٹی سے کہا، ذرا دیکھتی رہو، یہ کہاں کنارے لگتا ہے اور اس کے ساتھ کیا معاملہ ہوتا ہے ؟ جب اللہ کی مشیت سے موسیٰ (علیہ السلام) فرعون کے محل میں پہنچ گئے، شیرخوارگی کا عالم تھا، چناچہ دودھ پلانے والی عورتوں اور آیاؤں کو بلایا گیا لیکن موسیٰ (علیہ السلام) کسی کا دودھ نہ پیتے موسیٰ (علیہ السلام) کی بہن خاموشی سے سارا منظر دیکھ رہی تھی، بالآخر اس نے کہا میں تمہیں ایسی عورت بتاتی ہوں جو تمہاری یہ مشکل دور کر دے گی، انہوں نے کہا ٹھیک ہے، چناچہ وہ اپنی ماں کو، جو موسیٰ (علیہ السلام) کی بھی ماں تھی، بلا لائی، جب ماں نے بیٹے کو چھاتی سے لگایا تو موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ کی تدبیر و مشیت سے غٹا غٹ دودھ پینا شروع کردیا۔ 40۔ 2 یہ ایک دوسرے احسان کا ذکر ہے، جب موسیٰ (علیہ السلام) سے غیر ارادی طور پر ایک فرعونی کو صرف گھونسہ مارنے سے مرگیا، جس کا ذکر سورة قصص میں آئے گا 40۔ 3 فتون دخول اور خروج کی طرح مصدر ہے یعنی ابتلیناک ابتلاء یعنی ہم نے تجھے خوب آزمایا۔ یا یہ جمع ہے فتنہ کی جیسے حجرۃ کی حجور اور بدرۃ کی بدور کی جمع ہے یعنی ہم نے تجھے کئی مرتبہ یا بار بار آزمایا یا آزمائشوں سے نکالا مثلا جو سال بچوں کے قتل کا تھا تجھے پیدا کیا تیری ماں نے تجھے سمندر کی موجوں کے سپرد کردیا تمام دایاؤں کا دودھ تجھ پر حرام کردیا تو نے فرعون کی داڑھی پکڑ لی تھی جس پر اس نے تیرے قتل کا ارادہ کرلیا تھا تیرے ہاتھوں قبطی کا قتل ہوگیا وغیرہ ان تمام مواقع آزمائش میں ہم ہی تیری مدد اور چارہ سازی کرتے رہے۔ 40۔ 4 یعنی فرعونی کے غیر ارادی قتل کے بعد تو یہاں سے نکل کر مدین چلا گیا اور وہاں کئی سال رہا۔ 40۔ 5 یعنی ایسے وقت میں تو آیا جو وقت میں نے اپنے فیصلے اور تقدیر میں تجھ سے ہم کلامی اور نبوت کے لئے لکھا ہوا تھا یا قَدَرٍ سے مراد، عمر ہے یعنی عمر کے اس مرحلے میں آیا جو نبوت کے لئے موزوں ہے۔ یعنی چالیس سال کی عمر میں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٣] تابوت کا فرعون کے سامنے پیش کیا جائے :۔ تابوت کو دریا کی موجوں کے حوالے کرنے تک کا کام تو سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کی ماں نے سرانجام دیا۔ اس سے بعد کے سب کام اللہ تعالیٰ کے اپنے کارنامے اور سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) پر احسانات ہیں۔ دریا کی موجوں نے تابوت کو دریائے نیل کی اس شاخ کے رخ دھکیل دیا۔ جس پر فرعون کا محل واقع تھا۔ اس مقام پر ایک لہر اٹھی۔ جس نے اس تابوت کو ساحل پر فرعون کے محل کے پاس پھینک دیا۔ پھر اتفاق کی بات کہ یہ تابوت فرعون کے سامنے پیش کیا گیا جو اے موسیٰ میرا بھی دشمن تھا اور تمہاری بھی دشمن تھا۔ تو میرا اس لحاظ سے کہ وہ میرا نافرمان تھا اور میرے مقابلہ پر اپنی خدائی کا دعویدار بن بیٹھا تھا اور تمہارا اس لئے کہ وہ تمہیں جان سے ہی ختم کردینا چاہتا تھا۔ پھر میں نے تمہاری ایسی پیاری صورت بنادی تھی کہ جو بھی تمہیں دیکھتا تمہیں پیار کرنے لگتا تھا اور اس کا دل تمہاری محبت سے بھر جاتا تھا۔ یہی بات تمہاری زندگی کا ذریعہ بن گئی اور یہ سب کچھ میری نگرانی میں اور میرے ارادہ سے ہو رہا تھا۔- [٢٤] فرعون کے ہاں موسیٰ کی تربیت :۔ پھر تمہاری تربیت کا یہ سامان کیا۔ کہ جب تمہاری والدہ نے تابوت کو دریا کے حوالے کیا تو اس نے اپنی بیٹی یعنی تمہاری بہن کو یہ تاکید کردی تھی کہ دریا کے بہاؤ کے ساتھ چلتی جائے۔ اور اس تابوت کی نگرانی کرتی رہے کہ اس تابوت کا کیا انجام ہوتا ہے۔ تاآنکہ اسے پتہ چل گیا کہ تم فرعون کے گھر میں پہنچ گئے ہو۔ - ایسا پیارا بچہ دیکھ کر فرعون کی بیوی آسیہ نے اپنے خاوند سے کہا کہ ہمارے ہاں اولاد نہیں، کیوں نہ ہم اسے اپنا بیٹا ہی بنالیں۔ بالأخر اس نے اپنے خاوند فرعون کو اس بات کا قائل کرلیا۔ اب سوال یہ تھا کہ کون سی اناپریا دائی سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کو دودھ پلائے۔ جو بھی انا لائی جاتی سیدنا موسیٰ اس کا دودھ پینے سے ایا کراہتے تھے۔ بڑا ٹیڑھا مسئلہ بن گیا تھا۔ جب یہ بات عام ہوئی تو سیدنا موسیٰ کی بہن نے وہاں حاضر ہو کر کہا۔ میں تمہیں ایک ایا کی نشاندہی کرتی ہوں مجھے امید ہے کہ یہ بچہ اس کا دودھ ضرور پی لے گا۔ چناچہ موسیٰ کی بہن نے اپنی ماں کا اتا پتا بتلایا۔ اسے بتلایا گیا۔ تو بچہ فی الواقع اس کا دودہ پینے لگا۔ پھر فرعون اور اس کی بیوی نے یہ بچھ سیدنا موسیٰ کی ماں کے ہی حوالہ کردیا اور اس کی سرکاری خزانہ سے تنخواہ بھی مقرر کردی گئی۔ اور اسے بچہ سمیت واپس اپنے گھر بھیج دیا گیا۔ اس طرح اے موسیٰ ہم نے حیرت انگیز طریقے سے تمہاری پرورش کا بندوبست کردیا۔ تم خود بھی اپنی ماں کے پاس پہنچ گئے۔ تربیت بھی ہونے لگی اور تمہاری ماں کی آنکھیں بھی ٹھنڈی رہیں۔ اس طرح ہم نے تمہیں موت کے منہ سے بچایا اور بچپن میں تمہاری تربیت کا انتظام اسی فرعون کے ہاتھوں کروایا جو تمہاری ہی جان کے درپے تھا۔- [٢٥] سیدنا موسیٰ کے ہاتھوں ایک قبطی کا مرجانا :۔ اس واقعہ کی تفصیل تو سورة قصص میں آئے گی۔ اجمال یہ ہے کہ سیدنا موسیٰ کے ہاتھوں ایک قبطی (فرعونی) نادانستہ طور پر مارا گیا تھا۔ آپ نے اسے صرف مکہ مارا تھا جس سے اس کی موت واقع ہوگئی۔ تو ہم نے تمہیں مدین کی راہ دکھائی اور اس کے نتیجہ میں جو تمہیں سزا کے طور پر اپی موت کا خطرہ تھا اس سے نجات دی۔ اس کے بعد بھی تم پر کئی آزمائشوں کے دوار آئے۔ جن میں ہم تمہاری مدد کرتے رہے۔- [٢٦] تقدیر کے مطابق اسباب ضرور بنتے چلے جاتے ہیں :۔ تم مدین پہنچے تو بالکل ایک اجنبی مسافر تھے۔ پھر ہم نے تمہارے لئے ایسے سامان مہیا کردیئے کہ تم مدین میں شعیب (علیہ السلام) کے پاس باعزت طور پر رہنے لگے۔ سالہا سال ان کی بکریاں چرائیں۔ اس سے بھی تمہاری تربیت مقصود تھی۔ پھر شعیب (علیہ السلام) کی بیٹی سے تمہارا نکاح ہوا تو تمہاری یہ ضرورت بھی پوری ہوگئی۔ پھر مدین میں معینہ مدت گزارنے کے بعد تمہیں اپنے وطن واپس جانے کا خیال آیا۔ سردیوں کیطویل اور اندھیری رات میں تم بال بچوں سمیت سفر کر رہے تھے تو راستہ بھول گئے۔ اور اب تم آگ دیکھ کر ادھر آگئے ہو تو راستہ کا اتا پتا معلوم کرو۔ اور اپنے گھروالوں کے لئے کچھ آگ کے انگارے لے جاؤ تو یہ سب کچھ اتفاقا ً ہی نہیں ہوگیا۔ بلکہ تم ٹھیک ہماری مشیت اور اندازہ کے مطابق یہاں پہنچے ہو۔ ہمیں تم کو یہاں اسوقت اور اس حال میں لانا مقصود تھا تو تمہارے لئے حالات ہی ایسے پیدا کردیئے کہ تم از خود یہاں پہنچ گئے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

” اِذْ تَمْشِيْٓ اُخْتُكَ “ کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورة قصص (١١ تا ١٣) اور ” وَقَتَلْتَ نَفْسًا “ سے آخر آیت تک کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورة قصص (١٤ تا ٢٨) ۔- وَفَتَنّٰكَ فُتُوْنًا : ” فُتُوْنًا “ ” فَتَنَ یَفْتِنُ “ کا مصدر ہے، جیسا کہ ” قُعُوْدٌ“ اور ” خُرُوْجٌ“ وغیرہ ہیں۔ اس کی تنوین تعظیم کے لیے ہے، اس لیے ترجمہ کیا ہے ” اور ہم نے تجھے آزمایا، خوب آزمانا۔ “ اس آزمائش میں شاہ زادگی کی آسائشوں کے بعد ان کے ہاتھوں قبطی کا نادانستہ قتل، پھر اپنے قتل ہونے کا خوف، پھر بےسروسامانی میں فوری ہجرت، بھوکے پیاسے اور شدید خوف کی حالت میں کئی دن رات کا سفر، پردیس اور دس سالہ مزدوری سب شامل ہیں، جن سب میں زبردست تربیت کا سامان تھا۔ حافظ ابن کثیر نے ایک لمبی حدیث ” حدیث فتون “ مکمل ذکر کرنے کے بعد فرمایا ہے کہ اس کا اکثر حصہ اسرائیلیات سے لیا گیا ہے۔- ثُمَّ جِئْتَ عَلٰي قَدَرٍ يّٰمُوْسٰى : یعنی تمہارا راہ بھول کر وادی طویٰ میں آنا اور میرے ساتھ کلام اور نبوت و رسالت سے سرفراز ہونا، کسی طے شدہ منصوبے کے بغیر اور اچانک نہیں تھا، بلکہ عین میرے مقرر کردہ وقت اور فیصلے کے مطابق تھا۔ اگرچہ ہر کام ہی اللہ کی تقدیر سے ہے، مگر اس ” قَدَرٍ “ سے مراد خاص طور پر طے کرنا ہے، جیسا کہ اگلی آیت میں فرمایا : (وَاصْطَنَعْتُكَ لِنَفْسِيْ ) ” صَنَعَ یَصْنَعُ “ کا معنی بنانا ہے، ” اِصْطَنَعَ “ باب افتعال سے ہے، صاد کی مناسبت سے تاء کو طاء سے بدل دیا اور حروف کے اضافے سے معنی میں اضافہ ہوگیا، یعنی میں نے تجھے خاص طور پر اپنے کام یعنی رسالت و نبوت کے لیے تیار کیا ہے۔ یہ تمام احسانات کا خلاصہ ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

اِذْ تَمْشِيْٓ اُخْتُكَ ، موسیٰ (علیہ السلام) کی بہن کا اس تابوت کے تعاقب میں جانا اور اس کے بعد کا قصہ جس کا اجمال اس آیت میں آیا ہے جس کے آخر میں فرمایا ہے وَفَتَنّٰكَ فُتُوْنًا یعنی ہم نے آپ کی آزمائش کی بار بار (قالہ ابن عباس) یا آپ کو مبتلائے آزمائش کیا بار بار (قالہ الضحاک) اس کی پوری تفصیل سنن نسائی کی ایک طویل حدیث میں بروایت ابن عباس آئی ہے وہ یہ ہے۔- حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا مفصل قصہ :- حدیث الفتون کے نام سے طویل حدیث سنن نسائی کتاب التفسیر میں بروایت ابن عباس نقل کی ہے اور ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں بھی اس کو پورا نقل کرنے کے بعد فرمایا ہے کہ حضرت ابن عباس نے اس روایت کو مرفوع یعنی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بیان قرار دیا ہے اور ابن کثیر نے بھی حدیث کے مرفوع ہونے کی توثیق کے لئے فرمایا ہے کہ :۔- وصدق ذٰلک عندی، یعنی اس حدیث کا مرفوع ہونا میرے نزدیک درست ہے پھر اس کے لئے ایک دلیل بھی بیان فرمائی لیکن اس کے بعد یہ بھی نقل فرمایا ہے کہ ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے بھی اپنی اپنی تفسیروں میں یہ روایت نقل کی ہے مگر وہ موقوف یعنی ابن عباس کا اپنا کلام ہے، مرفوع حدیث کے جملے اس میں کہیں کہیں آئے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ابن عباس نے یہ روایت کعب احبار سے لی ہے جیسا کہ بہت سے مواقع میں ایسا ہوا ہے مگر ابن کثیر جیسے ناقد حدیث اور نسائی جیسے امام حدیث اس کو مرفوع مانتے ہیں اور جنہوں نے مرفوع تسلیم نہیں کیا وہ بھی اس کے مضمون پر کوئی نکیر نہیں کرتے اور اکثر حصہ اس کا تو خود قرآن کریم کی آیات میں آیا ہوا ہے اس لئے پوری حدیث کا ترجمہ لکھا جاتا ہے جس میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے تفصیلی قصے کے ضمن میں بہت سے علمی اور عملی فوائد بھی ہیں۔ حدیث الفتون بسند امام نسائی قاسم بن ابی ایوب فرماتے ہیں کہ مجھے سعید بن حبیر نے خبر دی کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عباس سے اس آیت کی تفسیر دریافت کی جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں آئی ہے یعنی وَفَتَنّٰكَ فُتُوْنًا میں نے دریافت کیا کہ اس میں فتون سے کیا مراد ہے ؟ ابن عباس نے فرمایا کہ اس کا واقعہ بڑا طویل ہے صبح کو سویرے آجاؤ تو بتلا دیں گے، جب اگلے دن صبح ہوئی تو میں سویرے ہی ابن عباس کی خدمت میں حاضر ہوگیا تاکہ کل جو وعدہ فرمایا تھا اس کو پورا کراؤں۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ سنو (ایک روز) فرعون اور اس کے ہم نشینوں میں اس بات کا ذکر آیا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے وعدہ فرمایا ہے کہ ان کی ذریت میں انبیاء اور بادشاہ پیدا فرماویں گے۔ بعض شرکاء مجلس نے کہا کہ ہاں بنی اسرائیل تو اس کے منتظر ہیں جس میں ان کو ذرا شک نہیں کہ ان کے اندر کوئی نبی و رسول پیدا ہوگا اور پہلے ان لوگوں کا خیال تھا کہ وہ نبی یوسف بن یعقوب (علیہ السلام) ہیں جب ان کی وفات ہوگئی تو کہنے لگے کہ ابراہیم (علیہ السلام) سے جو وعدہ کیا گیا تھا یہ اس کے مصداق نہیں (کوئی اور نبی و رسول پیدا ہوگا اور جو اس وعدہ کو پورا کرے گا) ۔ فرعون نے یہ سنا تو (اس کو فکر لاحق ہوگئی کہ اگر بنی اسرائیل میں جن کو اس نے غلام بنا رکھا تھا کوئی نبی و رسول پیدا ہوگیا تو وہ ان کو مجھ سے آزاد کرائے گا) اس لئے حاضرین مجلس سے دریافت کیا کہ اس آفت سے بچنے کا کیا راستہ ہے یہ لوگ آپس میں مشورے کرتے رہے اور انجام کار سب کی رائے اس پر متفق ہوگئی کہ (بنی اسرائیل میں جو لڑکا پیدا ہو اس کو ذبح کردیا جائے اس کے لئے) ایسے سپاہی مقرر کردیئے گئے جن کے ہاتھوں میں چھریاں تھیں اور وہ بنی اسرائیل کے ایک ایک گھر میں جاکر دیکھتے تھے جہاں کوئی لڑکا نظر آیا اس کو ذبح کردیا۔- کچھ عرصہ یہ سلسلہ جاری رہنے کے بعد ان کو یہ ہوش آیا کہ ہماری سب خدمتیں اور محبت مشقت کے کام تو بنی اسرائیل ہی انجام دیتے ہیں اگر یہ سلسلہ قتل کا جاری رہا تو ان کے بوڑھے تو اپنی موت مر جائیں گے اور بچے ذبح ہوتے رہے تو آئندہ بنی اسرائیل میں کوئی مرد نہ رہے گا جو ہماری خدمتیں انجام دے۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ سارے مشقت کے کام ہمیں خود ہی کرنا پڑیں گے اس لئے اب یہ رائے ہوئی کہ ایک سال میں پیدا ہونے والے لڑکوں کو چھوڑ دیا جائے، دوسرے سال میں پیدا ہونے والوں کو ذبح کردیا جائے۔ اس طرح بنی اسرائیل میں کچھ جوان بھی رہیں گے جو اپنے بوڑھوں کی جگہ لے سکیں اور ان کی تعداد اتنی زیادہ بھی نہ ہوگی جس سے فرعونی حکومت کو خطرہ ہوسکے۔ یہ بات سب کو پسند آئی اور یہی قانون نافذ کردیا گیا (اب حق تعالیٰ کی قدرت و حکمت کا ظہور اس طرح ہوا کہ) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کو ایک حمل اس وقت ہوا جبکہ بچوں کو زندہ چھوڑ دینے کا سال تھا، اس میں حضرت ہارون (علیہ السلام) پیدا ہوئے فرعونی قانون کی رو سے ان کے لئے کوئی خطرہ نہیں تھا اگلے سال جو لڑکوں کے قتل کا سال تھا اس میں حضرت موسیٰ حمل میں آئے تو ان کی والدہ پر رنج و غم طاری تھا کہ اب یہ بچہ پیدا ہوگا تو قتل کردیا جائے گا۔ ابن عباس نے قصہ کو یہاں تک پہنچا کر فرمایا کہ اے ابن جبیر فتون یعنی آزمائش کا یہ پہلا موقع ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) ابھی دنیا میں پیدا بھی نہیں ہوئے تھے کہ ان کے قتل کا منصوبہ تیار تھا۔ اس وقت حق تعالیٰ نے ان کی والدہ کو بذریعہ وحی الہام یہ تسلی دے دی کہ وَلَا تَخَافِيْ وَلَا تَحْـزَنِيْ ۚ اِنَّا رَاۗدُّوْهُ اِلَيْكِ وَجَاعِلُوْهُ مِنَ الْمُرْسَلِيْنَ ، یعنی تم کوئی خوف و غم نہ کرو (ہم اس کی حفاظت کریں گے اور کچھ دن جدا رہنے کے بعد) ہم ان کو تمہارے پاس واپس کردیں گے پھر ان کو اپنے رسولوں میں داخل کرلیں گے۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) پیدا ہوگئے تو ان کی والدہ کو حق تعالیٰ نے حکم دیا کہ اس کو ایک تابوت میں رکھ کر دریا (نیل) میں ڈال دو ۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ نے اس حکم کی تعمیل کردی۔ جب وہ تابوت کو دریا کے حوالے کر چکیں تو شیطان نے ان کے دل میں یہ وسوسہ ڈالا کہ یہ تو نے کیا کام کیا اگر تیرا بچہ تیرے پاس رہ کر ذبح بھی کردیا جاتا تو اپنے ہاتھوں سے کفن دفن کر کے کچھ تو تسلی ہوتی اب تو اس کو دریا کے جانور کھائیں گے (موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ اسی رنج و غم میں مبتلا تھیں کہ) دریا کی موجوں نے تابوت کو ایک ایسی چٹان پر ڈال دیا جہاں فرعون کی باندیاں لونڈیاں نہانے دھونے کے لئے جایا کرتی تھیں، انہوں نے یہ تابوت دیکھا تو اٹھا لیا اور کھولنے کا رادہ کیا تو ان میں سے کسی نے کہا کہ اگر اس میں کچھ مال ہوا اور ہم نے کھول لیا تو فرعون کی بیوی کو یہ گمان ہوگا کہ ہم نے اس میں سے کچھ الگ رکھ لیا ہے ہم کچھ بھی کہیں اس کو یقین نہیں آئے گا اس لئے سب کی رائے یہ ہوگئی کہ اس تابوت کو اسی طرح بند اٹھا کر فرعون کی بیوی کے سامنے پیش کردیا جائے۔- فرعون کی بیوی نے تابوت کھولا تو اس میں ایک ایسا لڑکا دیکھا جس کو دیکھتے ہی اس کے دل میں اس سے اتنی محبت ہوگئی جو اس سے پہلے کسی بچے سے نہیں ہوئی تھی (جو درحقیقت حق تعالیٰ کے اس ارشاد کا ظہور تھا (وَاَلْقَيْتُ عَلَيْكَ مَحَبَّةً مِّنِّيْ ) دوسری طرف حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ بوسوسہ شیطانی اللہ تعالیٰ کے اس وعدہ کو بھول گئیں اور حالت یہ ہوگئی وَاَصْبَحَ فُؤ َادُ اُمِّ مُوْسٰى فٰرِغًا، یعنی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کا دل ہر خوشی اور ہر خیال سے خالی ہوگیا (صرف حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی فکر غالب آگئی) ادھر جب لڑکوں کے قتل پر مامور پولیس والوں کو فرعون کے گھر میں ایک لڑکا آجانے کی خبر ملی تو وہ چھریاں لے کر فرعون کی بیوی کے پاس پہنچ گئے کہ یہ لڑکا ہمیں دو تاکہ ذبح کردیں۔- ابن عباس نے یہاں پہنچ کر پھر ابن جبیر کو مخاطب کیا کہ اے ابن جبیر فتون یعنی آزمائش کا (دوسرا) واقعہ یہ ہے۔- فرعون کی بیوی نے ان لشکری لوگوں کو جواب دیا کہ ابھی ٹہرو کہ صرف اس ایک لڑکے سے تو بنی اسرائیل کی قوت نہیں بڑھ جائے گی میں فرعون کے پاس جاتی ہوں اور اس بچے کی جاں نشینی کراتی ہوں، اگر فرعون نے اس کو بخش دیا تو یہ بہتر ہوگا ورنہ تمہارے معاملے میں دخل نہ دوں گی یہ بچہ تمہارے حوالے ہوگا۔ یہ کہہ کر وہ فرعون کے پاس گئی اور کہا کہ یہ بچہ میری اور تمہاری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے فرعون نے کہا کہ ہاں تمہاری آنکھوں کی ٹھنڈک ہونا تو معلوم ہے مگر مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں۔- اس کے بعد ابن عباس نے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ قسم اس ذات کی جس کی قسم کھائی جاسکتی ہے اگر فرعون اس وقت بیوی کی طرح اپنے لئے بھی موسیٰ (علیہ السلام) کی قرة العین آنکھوں کی ٹھنڈک ہونے کا اقرار کرلیتا تو اللہ تعالیٰ اس کو بھی ہدایت کردیتا جیسا اس کی بیوی کو ہدایت ایمان عطا فرمائی۔- (بہرحال بیوی کے کہنے سے فرعون نے اس لڑکے کو قتل سے آزاد کردیا) اب فرعون کی بیوی اس کو دودھ پلانے کے لیے اپنے آس پاس کی عورتوں کو بلایا۔ سب نے چاہا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کو دودھ پلانے کی خدمت سرانجام دیں مگر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو کسی کی چھاتی نہ لگتی (وَحَرَّمْنَا عَلَيْهِ الْمَرَاضِعَ مِنْ قَبْلُ ) اب فرعون کی بیوی کو فکر ہوگئی کہ جب کسی کا دودھ نہیں لیتے تو زندہ یہ کیسے رہیں گے اس لئے اپنی کنیزوں کے سپرد کیا کہ اس کو بازار اور لوگوں کے مجمع میں لے جائیں شاید کسی عورت کا دودھ یہ قبول کرلیں۔- اس طرف موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ نے بےچین ہو کر اپنی بیٹی کو کہا کہ ذرا باہر جا کر تلاش کرو اور لوگوں سے دریافت کرو کہ اس تابوت اور بچہ کا کیا انجام ہوا، وہ زندہ ہے یا دریائی جانوروں کی خوراک بن چکا ہے اس وقت تک ان کو اللہ تعالیٰ کا وہ وعدہ یاد نہیں آیا تھا جو حالت حمل میں ان سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی حفاظت اور چند روزہ مفارقت کے بعد واپسی کا کیا گیا تھا۔ حضرت موسیٰ کی بہن باہر نکلیں تو (قدرت حق کا یہ کرشمہ دیکھا کہ) فرعون کی کنیزیں اس بچے کو لئے ہوئے دودھ پلانے والی عورت کی تلاش میں ہیں، جب انہوں نے یہ ماجرا دیکھا کہ یہ بچہ کسی عورت کا دودھ نہیں لیتا اور یہ کنیزیں پریشان ہیں تو ان سے کہا کہ میں تمہیں ایک ایسے گھرانے کا پتہ دیتی ہوں جہاں مجھے امید ہے کہ یہ ان کا دودھ بھی لیں گے اور وہ اس کو خیر خواہی و محبت کے ساتھ پالیں گے۔ یہ سن کر ان کنیزوں نے ان کو اس شبہ میں پکڑ لیا کہ یہ عورت شاید اس بچے کی ماں یا کوئی عزیز خاص ہے جو وثوق کے ساتھ یہ کہہ رہی ہے کہ وہ گھر والے اس کے خیر خواہ اور ہمدرد ہیں (اس وقت یہ بہن بھی پریشان ہوگئی) ۔- ابن عباس نے اس جگہ پہنچ کر پھر ابن جبیر کو خطاب کیا کہ یہ (تیسرا) واقعہ فتون یعنی آزمائش کا ہے اس وقت موسیٰ (علیہ السلام) کی بہن نے بات بنائی اور کہا کہ میری مراد اس گھر والوں کے ہمدرد خیر خواہ ہونے سے یہی تھی کہ فرعونی دربار تک ان کی رسائی ہوگی اس سے ان کو منافع پہنچنے کی امید ہوگی اس لئے وہ اس بچے کی محبت و ہمدردی میں کسر نہ کریں گے۔ یہ سن کر کنیزوں نے ان کو چھوڑ دیا۔ یہ واپس اپنے گھر پہنچی اور موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کو واقعہ کی خبر دی وہ ان کے ساتھ اس جگہ پہنچیں جہاں یہ کنیزیں جمع تھیں، کنیزوں کے کہنے سے انہوں نے بھی بچے کو گود میں لے لیا، موسیٰ (علیہ السلام) فوراً ان کی چھاتیوں سے لگ کر دودھ پینے لگے یہاں تک کہ پیٹ بھر گیا۔ یہ خوشخبتی فرعون کی بیوی کو پہنچی کہ اس بچے کے لیے دودھ پلانے والی مل گئی۔ فرعون کی بیوی نے موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کو بلوایا۔ انہوں نے آکر حالات دیکھے اور یہ محسوس کیا کہ فرعون کی بیوی میری حاجت و ضرورت محسوس کر رہی ہے تو ذرا خود داری سے کام لیا۔ اہلیہ فرعون نے کہا کہ آپ یہاں رہ کر اس بچے کو دودھ پلائیں کیونکہ مجھے اس بچے سے اتنی محبت ہے کہ میں اس کو اپنی نظروں سے غائب نہیں رکھ سکتی۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ نے کہا کہ میں تو اپنے گھر کو چھوڑ کر یہاں نہیں رہ سکتی کیونکہ میری گود میں خود ایک بچہ ہے جس کو دودھ پلاتی ہوں، میں اس کو کیسے چھوڑوں۔ ہاں اگر آپ اس پر راضی ہوں کے بچہ میرے سپرد کریں میں اپنے گھر رکھ کر اس کو دودھ پلاؤں اور یہ وعدہ کرتی ہوں کہ اس بچے کی خبر گیری اور حفاظت میں ذرا کوتاہی نہ کروں گی۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کو اس وقت اللہ تعالیٰ کا وہ وعدہ بھی یاد آگیا جس میں فرمایا کہ چند روز کی جدائی کے بعد ہم ان کو تمہارے پاس واپس دے دیں گے اس لئے وہ اور اپنی بات پر جم گئیں۔ اہلیہ فرعون نے مجبور ہو کر ان کی بات مان لی اور یہ اسی روز حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو لے کر اپنے گھر آئیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کا نشو و نما خاص طریقے پر فرمایا۔- جب موسیٰ (علیہ السلام) ذرا قوی ہوگئے تو اہلیہ فرعون نے ان کی والدہ سے کہا کہ یہ بچہ مجھے لا کر دکھلا جاؤ (کہ میں اس کے دیکھنے کے لئے بےچین ہوں) اور اہلیہ فرعون نے اپنے سب درباریوں کو حکم دیا کہ یہ بچہ آج ہمارے گھر آرہا ہے تم میں سے کوئی ایسا نہ رہے جو اس کا اکرام نہ کرے اور کوئی ہدیہ اس کو پیش نہ کرے اور میں خود اس کی نگرانی کروں گی کہ تم لوگ اس معاملہ میں کیا کرتے ہو۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ جس وقت موسیٰ (علیہ السلام) اپنی والدہ کے ساتھ گھر سے نکلے اسی وقت سے ان پر تحفوں اور ہدایا کی بارش ہونے لگی یہاں تک کہ اہلیہ فرعون کے پاس پہنچے تو اس نے اپنے پاس سے خاص تحفے اور ہدیے الگ پیش کیے۔ اس کے بعد اہلیہ فرعون ان کو دیکھ کر بیحد مسرور ہوئی اور یہ سب تحفے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کو دے دئیے۔ اس کے بعد اہلیہ فرعون نے کہا کہ اب میں ان کو فرعون کے پاس لے جاتی ہوں وہ ان کو انعامات اور تحفے دیں گے جب ان کو لے کر فرعون کے پاس پہنچی تو فرعون نے ان کو اپنی گود میں لے لیا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون کی داڑھی پکڑ کر زمین کی طرف جھکا دیا۔ اس وقت دربار کے لوگوں نے فرعون سے کہا کہ آپ نے دیکھ لیا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ابراہیم (علیہ السلام) سے جو وعدہ کیا تھا بنی اسرائیل میں ایک نبی پیدا ہوگا جو آپ کے ملک و مال کا وارث ہوگا، آپ پر غالب آئے گا اور آپ کو پچھاڑے گا، یہ وعدہ کس طرح پورا ہو رہا ہے۔- فرعون متنبہ ہوا اور اسی وقت لڑکوں کو قتل کرنے والے سپاہیوں کو بلا لیا تاکہ اس کو ذبح کردیں ابن عباس نے یہاں پہنچ کر پھر ابن جبیر کو خطاب کیا کہ یہ (چوتھا) واقعہ فتون یعنی آزمائش کا ہے کہ پھر موت سر پر منڈلانے لگی۔- اہلیہ فرعون نے یہ دیکھا تو کہا کہ آپ تو یہ بچہ مجھے دے چکے ہیں پھر اب یہ کیا معاملہ ہو رہا ہے، فرعون نے کہا تم یہ نہیں دیکھتیں کہ یہ لڑکا اپنے عمل سے گویا یہ دعویٰ کر رہا ہے کہ وہ مجھ کو زمین پر پچھاڑ کر مجھ پر غالب آجائے گا۔ اہلیہ فرعون نے کہا کہ آپ ایک بات کو اپنے اور میرے معاملہ کے فیصلہ کے لئے مان لیں جس سے حق بات ظاہر ہوجاوے گی (کہ بچے نے یہ معاملہ بچپن کی بیخبر ی میں کیا ہے یا دیدہ دانستہ کسی شوخی سے) آپ دو انگارے آگ کے اور دو موتی منگوا لیجئے اور دونوں کو ان کے سامنے کر دیجئے اگر یہ موتیوں کی طرف ہاتھ بڑھائیں اور آگ کے انگاروں سے بچیں تو آپ سمجھ لیں کہ اس کے افعال عقل و شعور سے دیدہ و دانستہ ہیں اور اگر اس نے موتیوں کی بجائے انگارے ہاتھ میں اٹھائے تو یہ یقین ہوجائے گا کہ یہ کام کسی عقل و شعور سے نہیں کیا گیا کیونکہ کوئی عقل والا انسان آگ کو ہاتھ میں نہیں اٹھا سکتا (فرعون نے اس آزمائش کو مان لیا) دو انگارے اور دو موتی موسیٰ (علیہ السلام) کے سامنے پیش کئے تو موسیٰ (علیہ السلام) نے انگارے اٹھا لئے (بعض دوسری روایات میں ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) موتیوں کی طرف ہاتھ بڑھانا چاہتے تھے کہ جبرئیل امین نے ان کا ہاتھ انگاروں کی طرف پھیر دیا) فرعون نے یہ ماجرا دیکھا تو فوراً ان کے ہاتھ سے انگارے چھین لئے کہ ان کا ہاتھ نہ جل جائے (اب تو اہلیہ فرعون کی بات بن گئی) اس نے کہا کہ آپ نے واقعہ کی حقیقت کو دیکھ لیا، اس طرح اللہ تعالیٰ نے پھر یہ موت موسیٰ (علیہ السلام) سے ٹلا دی کیونکہ قدرت خداوندی کو ان سے آگے کام لینا تھا۔- (حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اسی طرح فرعون کے شاہانہ اعزازو اکرام اور شاہانہ خرچ پر اپنی والدہ کی نگرانی میں پرورش پاتے رہے یہاں تک یہ جوان ہوگئے) ۔- ان کے شاہی اکرام و اعزاز کو دیکھ کر فرعون کے لوگوں کو بنی اسرائیل پر وہ ظلم و جور اور تذلیل و توہین کرنے کی ہمت نہ رہی جو اس سے پہلے آل فرعون کی طرف سے ہمیشہ بنی اسرائیل پر ہوتا رہتا تھا۔ ایک روز موسیٰ (علیہ السلام) شہر کے کسی گوشہ میں چل رہے تھے تو دیکھا کہ دو آدمی آپس میں لڑ رہے ہیں جن میں سے ایک فرعونی ہے اور دوسرا اسرائیلی۔ اسرائیلی نے موسیٰ (علیہ السلام) کو دیکھ کر امداد کے لئے پکارا۔ موسیٰ (علیہ السلام) کو فرعونی آدمی کی جسارت پر بہت غصہ آگیا کہ اس نے شاہی دربار میں موسیٰ (علیہ السلام) کے اعزازو اکرام کو جانتے ہوئے اسرائیلی کو ان کے سامنے پکڑ رکھا ہے جبکہ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) اسرائیلیوں کی حفاظت کرتے ہیں اور لوگوں کو تو صرف یہی معلوم تھا کہ ان کا تعلق اسرائیلی لوگوں سے صرف رضاعت اور دودھ پینے کی وجہ سے ہے۔- حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی والدہ یا کسی اور ذریعہ سے یہ معلوم کردیا ہو کہ یہ اپنی دودھ پلانے والی عورت ہی کے بطن سے پیدا ہوئے اور اسرائیلی ہیں۔- غرض موسیٰ (علیہ السلام) نے غصہ میں آکر اس فرعونی کے ایک مکا رسید کیا جس کو وہ برداشت نہ کرسکا اور وہیں مر گیا مگر اتفاق سے وہاں کوئی اور آدمی موسیٰ (علیہ السلام) اور ان دونوں لڑنے والوں کے سوا موجود نہیں تھا، فرعونی تو قتل ہوگیا اسرائیلی اپنا آدمی تھا اس سے اس کا اندیشہ نہ تھا کہ یہ مخبری کردے گا۔- جب یہ فرعونی موسیٰ (علیہ السلام) کے ہاتھ سے مارا گیا تو موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا هٰذَا مِنْ عَمَلِ الشَّيْطٰنِ ۭ اِنَّهٗ عَدُوٌّ مُّضِلٌّ مُّبِيْنٌ، یعنی یہ کام شیطان کی طرف سے ہوا ہے وہ کھلا دشمن گمراہ کرنے والا ہے (پھر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کی) رَبِّ اِنِّىْ ظَلَمْتُ نَفْسِيْ فَاغْفِرْ لِيْ فَغَفَرَ لَهٗ ۭ اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ ، یعنی اے میرے پروردگار میں نے اپنے نفس پر ظلم کیا (کہ یہ خطا قتل فرعونی کی مجھ سے سرزد ہوگئی) مجھے معاف فرما دیجئے۔ اللہ تعالیٰ نے معاف فرما دیا کیونکہ وہ ہی بہت معاف کرنے والا اور بہت رحمت کرنے والا ہے۔- موسیٰ (علیہ السلام) اس واقعہ کے بعد خوف و ہراس کے عالم میں یہ خبریں دریافت کرتے رہے (کہ اس کے قتل پر آل فرعون کا ردعمل کیا ہوا اور دربار فرعون تک یہ معاملہ پہنچا یا نہیں) معلوم ہوا کہ معاملہ فرعون تک اس عنوان سے پہنچا کہ کسی اسرائیلی نے آل فرعون کے ایک آدمی کو قتل کردیا ہے اس لئے اسرائیلیوں سے اس کا انتقام لیا جائے۔ اس معاملے میں ان کے ساتھ کوئی ڈھیل کا معاملہ نہ کیا جائے۔ فرعون نے جواب دیا کہ اس کے قاتل کو متعین کرکے مع شہادت کے پیش کرو۔ - کیونکہ بادشاہ اگرچہ تمہارا ہی ہے مگر اس کے لئے یہ کسی طرح مناسب نہیں کہ بغیر شہادت و ثبوت کے کسی سے قصاص لے لے۔ تم اس کے قاتل کو تلاش کرو اور ثبوت مہیا کرو میں ضرور تمہارا انتقام بصورت قصاص اس سے لوں گا۔ فرعون کے لوگ یہ سن کر گلی کوچوں اور بازاروں میں گھومنے لگے کہ کہیں اس کے قتل کرنے والے کا سراغ مل جائے مگر ان کو کوئی سراغ نہیں مل رہا تھا۔- اچانک یہ واقعہ پیش آیا کہ اگلے روز موسیٰ (علیہ السلام) گھر سے نکلے تو اسی اسرائیلی کو دیکھا کہ کسی دوسرے فرعونی شخص سے مقاتلہ کرنے میں لگا ہوا ہے اور پھر اس اسرائیلی نے موسیٰ (علیہ السلام) کو مدد کے لئے پکارا مگر موسیٰ (علیہ السلام) کل کے واقعہ پر ہی نادم ہو رہے تھے اور اس وقت اسی اسرائیلی کو پھر لڑتے ہوئے دیکھ کر اس پر ناراض ہوئے (کہ خطا اسی کی معلوم ہوتی ہے یہ جھگڑالو آدمی ہے اور لڑتا ہی رہتا ہے) مگر اس کے باوجود موسیٰ (علیہ السلام) نے ارادہ کیا کہ فرعونی شخص کو اس پر حملہ کرنے سے روکیں لیکن اسرائیلی کو بھی بطور تنبیہ کہنے لگے تو نے کل بھی جھگڑا کیا تھا آج پھر لڑ رہا ہے، تو ہی ظالم ہے۔ اسرائیلی نے موسیٰ (علیہ السلام) کو دیکھا کہ وہ آج بھی اسی طرح غصے میں ہیں جیسے کل تھے تو اس کو موسیٰ (علیہ السلام) کے ان الفاظ سے یہ شبہ ہوگیا کہ یہ آج مجھے ہی قتل کردیں گے تو فوراً بول اٹھا کہ اے موسیٰ کیا تم چاہتے ہو کہ مجھے قتل کر ڈالو جیسے کل تم نے ایک شخص کو قتل کردیا تھا۔- یہ باتیں ہونے کے بعد یہ دونوں ایک دوسرے سے الگ ہوگئے مگر فرعونی شخص نے آل فرعون کے ان لوگوں کو جو کل کے قاتل کی تلاش میں تھے جا کر یہ خبر پہنچا دی کہ خود اسرائیلی نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کہا ہے کہ تم نے کل ایک آدمی قتل کردیا ہے۔ یہ خبر دربار فرعون تک فوراً پہنچائی گئی۔ فرعون نے اپنے سپاہی موسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کرنے کے لئے بھیج دئیے۔ یہ سپاہی جانتے تھے کہ وہ ہم سے بچ کر کہاں جائیں گے۔ اطمینان کے ساتھ شہر کی بڑی سڑک سے موسیٰ (علیہ السلام) کی تلاش میں نکلے۔ اس طرف ایک شخص کو موسیٰ (علیہ السلام) کے متبعین میں سے جو شہر کے کسی بعید حصہ میں رہتا تھا اس کی خبر لگ گئی کہ فرعونی سپاہی موسیٰ (علیہ السلام) کی تلاش میں بغرض قتل نکل چکے ہیں اس نے کسی گلی کوچے کے چھوٹے راستہ سے آگے پہنچ کر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو خبر دی۔- یہاں پہنچ کر پھر ابن عباس نے ابن جبیر کو خطاب کیا کہ اے ابن جبیر یہ (پانچواں) واقعہ فتون یعنی آزمائش کا ہے کہ موت سر پر آچکی تھی اللہ نے اس سے نجات کا سامان کردیا۔- حضرت موسیٰ (علیہ السلام) یہ خبر سن کر فوراً شہر سے نکل گئے اور مدین کی طرف رخ پھر گیا۔ یہ آج تک شاہی ناز و نعمت میں پلے تھے کبھی محنت و مشقت کا نام نہ آیا تھا مصر سے نکل کھڑے ہوئے مگر راستہ بھی کہیں کا نہ جانتے تھے مگر اپنے رب پر بھروسہ تھا کہ عَسٰى رَبِّيْٓ اَنْ يَّهْدِيَنِيْ سَوَاۗءَ السَّبِيْلِ ، یعنی امید ہے کہ میرا رب مجھے راستہ دکھاوے گا۔ جب شہر مدین کے قریب پہنچے تو شہر سے باہر ایک کنویں پر لوگوں کا اجتماع دیکھجا جو اس پر اپنے جانوروں کو پانی پلا رہے تھے۔ اور دیکھا کہ دو عورتیں اپنی بکریوں کو سمیٹے ہوئے الگ کھڑی ہیں، موسیٰ (علیہ السلام) نے ان عورتوں سے پوچھا کہ تم الگ کیوں کھڑی ہو ؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم سے یہ تو ہو نہیں سکتا کہ ہم ان سب لوگوں سے مزاحمت اور مقابلہ کریں اس لیے ہم اس انتظار میں ہیں کہ جب یہ سب لوگ فارغ ہوجائیں تو جو کچھ بچا ہوا پانی مل جائے گا اس سے ہم اپنا کام نکالیں گے۔- موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کی شرافت دیکھ کر خود ان کے لئے کنویں سے پانی نکالنا شروع کردیا اللہ تعالیٰ نے قوت و طاقت بخشی تھی بڑی جلدی ان کی بکریوں کو سیراب کردیا۔ یہ عورتیں اپنی بکریاں لے کر اپنے گھر گئیں اور موسیٰ (علیہ السلام) ایک درخت کے سایہ میں چلے گئے اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی رَبِّ اِنِّىْ لِمَآ اَنْزَلْتَ اِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيْرٌ، یعنی اے میرے پروردگار میں محتاج ہوں اس نعمت کا جو آپ میری طرف بھیجیں (مطلب یہ تھا کہ کھانے کا اور ٹھکانہ کا کوئی انتظام ہوجائے) یہ لڑکیاں جب روزانہ کے وقت سے پہلے بکریوں کو سیراب کر کے گھر پہنچیں تو ان کے والد کو تعجب ہوا اور فرمایا آج تو کوئی نئی بات ہے، لڑکیوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کے پانی کھینچنے اور پلانے کا قصہ والد کو سنا دیا۔ والد نے ان میں سے ایک کو حکم دیا کہ جس شخص نے یہ احسان کیا ہے اس کو یہیں بلا لاؤ، وہ بلا لائی، والد نے موسیٰ (علیہ السلام) سے ان کے حالات دریافت کئے اور فرمایا لَا تَخَفْ ڣ نَجَوْتَ مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِيْنَ ، یعنی اب آپ خوف و ہراس اپنے دل سے نکال دیجئے، آپ ظالموں کے ہاتھ سے نجات پاچکے ہیں ہم نہ فرعون کی سلطنت میں ہیں نہ اس کا ہم پر کچھ حکم چل سکتا ہے۔- اب ان دو لڑکیوں میں سے ایک نے اپنے والد سے کہا يٰٓاَبَتِ اسْتَاْجِرْهُ ۡ اِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْـتَاْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْاَمِيْنُ ، یعنی ابا جان، ان کو آپ ملازم رکھ لیجئے کیونکہ ملازمت کے لئے بہترین آدمی وہ ہے جو قوی بھی ہو اور امانت دار بھی۔ والد کو اپنی لڑکی سے یہ بات سن کر غیرت سی آئی کہ میری لڑکی کو یہ کیسے معلوم ہوا کہ یہ قوی بھی ہیں اور امین بھی۔ اس لئے اس سے سوال کیا کہ تمہیں ان کی قوت کا اندازہ کیسے ہوا اور ان کی امانت داری کس بات سے معلوم کی۔ لڑکی نے عرض کیا کہ ان کی قوت کا مشاہدہ تو ان کے کنویں سے پانی کھینچنے کے وقت ہوا کہ سب چرواہوں سے پہلے انہوں نے اپنا کام کرلیا، دوسرا کوئی ان کے برابر نہیں آسکا اور امانت کا حال اس طرح معلوم ہوا کہ جب میں ان کو بلانے کے لئے گئی اور اول نظر میں جب انہوں نے دیکھا کہ میں ایک عورت ہوں تو فوراً اپنا سر نیچا کرلیا اور اس وقت تک سر نہیں اٹھایا جب تک کہ میں نے ان کو آپ کا پیغام نہیں پہنچا دیا۔ اس کے بعد انہوں نے مجھ سے فرمایا کہ تم میرے پیچھے پیچھے چلو مگر مجھے اپنے گھر کا راستہ پیچھے سے بتلاتی رہو اور یہ بات صرف وہی مرد کرسکتا ہے جو امانت دار ہو۔ والد کو لڑکی کی اس دانشمندانہ بات سے مسرت ہوئی اور اس کی تصدیق فرمائی اور خود بھی ان کے بارے میں قوت و امانت کا یقین ہوگیا۔ اس وقت لڑکیوں کے والد نے (جو اللہ کے رسول حضرت شعیب (علیہ السلام) تھے) موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا کہ آپ کو یہ منظور ہے کہ میں ان دونوں میں سے ایک کا نکاح آپ سے کردوں جس کی شرط یہ ہوگی کہ آپ آٹھ سال تک ہمارے یہاں مزدوری کریں، اور اگر آپ دس سال پورے کردیں تو اپنے اختیار سے کردیں بہتر ہوگا مگر ہم یہ پابندی آپ پر عائد نہیں کرتے تاکہ آپ پر زیادہ مشقت نہ ہو۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کو منظور فرما لیا جس کی رو سے موسیٰ (علیہ السلام) پر صرف آٹھ سال کی خدمت بطور معاہدہ کے لازم ہوگئی باقی دو سال کا وعدہ اختیاری رہا، اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر موسیٰ (علیہ السلام) سے وہ وعدہ بھی پورا کرا کر دس سال پورے کرا دئیے۔- سعید بن جبیر فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک نصرانی عالم مجھے ملا، اس نے سوال کیا کہ تم جانتے ہو کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے دونوں میعادوں میں سے کون سی میعاد پوری فرمائی ؟ میں نے کہا کہ مجھے معلوم نہیں کیونکہ اس وقت تک ابن عباس کی یہ حدیث مجھے معلوم نہ تھی۔ اس کے بعد میں ابن عباس سے ملا ان سے سوال کیا۔ انہوں نے فرمایا کہ آٹھ سال کی میعاد پورا کرنا تو موسیٰ (علیہ السلام) پر واجب تھا اس میں کچھ کمی کرنے کا تو احتمال ہی نہیں اور یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کو اپنے رسول کا اختیاری وعدہ بھی پورا ہی کرنا منظور تھا اس لئے دس سال کی میعاد پوری کی۔ اس کے بعد میں اس نصرانی عالم سے ملا اور اس کو یہ خبر دی تو اس نے کہا کہ تم نے جس شخص سے یہ بات دریافت کی ہے کیا وہ تم سے زیادہ علم والے ہیں، میں نے کہا کہ بیشک وہ بہت بڑے عالم اور ہم سب سے افضل ہیں۔- (دس سال کی میعاد خدمت پوری کرنے کے بعد جب) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اپنی اہلیہ محترمہ کو ساتھ لے کر شعیب (علیہ السلام) کے وطن مدین سے رخصت ہوئے، راستہ میں سخت سردی اندھیری رات، راستہ نامعلوم، بےکسی اور بےبسی کے عالم میں اچانک کوہ طور پر آگ دیکھنے پھر وہاں جانے اور حیرت انگیز مناظر کے بعد معجزہ عصا و ید بیضاء اور اس کے ساتھ منصب نبوت و رسالت عطا ہونے کے بعد (جس کا پورا قصہ قرآن میں اوپر گزر چکا ہے) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو یہ فکر ہوئی کہ میں فرعونی دربار کا ایک مفرور ملزم قرار دیا گیا ہوں مجھ سے قبطی کا قصاص لینے کا حکم وہاں سے ہوچکا ہے اب اس کے پاس دعوت رسالت لے کر جانے کا حکم ہوا ہے، نیز اپنی زبان میں لکنت کا عذر بھی سامنے آیا تو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض معروض پیش کی حق تعالیٰ نے ان کی فرمائش کے مطابق ان کے بھائی حضرت ہارون کو شریک رسالت بنا کر ان کے پاس وحی بھیج دی اور یہ حکم دیا کہ وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا شہر مصر سے باہر استقبال کریں۔ اس کے مطابق موسیٰ (علیہ السلام) وہاں پہنچے۔ ہارون (علیہ السلام) سے ملاقات ہوئی دونوں بھائی (حسب الحکم) فرعون کو دعوت دینے کے لئے اس کے دربار میں پہنچے کچھ وقت تک تو ان کو دربار میں حاضری کا موقع نہیں دیا گیا۔ یہ دونوں دروازے پر ٹہرے رہے پھر بہت سے پردوں میں گزر کر حاضری کی اجازت ملی اور دونوں نے فرعون سے کہا اِنَّا رَسُوْلَا رَبِّكَ ، یعنی ہم دونوں تیرے رب کی طرف سے قاصد اور پیغامبر ہیں۔ فرعون نے پوچھا فَمَنْ رَّبُّكُمَا (تو بتلاؤ تمہارا رب کون ہے) موسیٰ و ہارون (علیہ السلام) نے وہ بات کہی جس کا قرآن نے خود ذکر کردیا (رَبُّنَا الَّذِيْٓ اَعْطٰي كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهٗ ثُمَّ هَدٰى، اس پر فرعون نے پوچھا کہ پھر تم دونوں کیا چاہتے ہو اور ساتھ ہی قبطی مقتول کا واقعہ ذکر کرکے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو مجرم ٹہرایا (اور اپنے گھر میں ان کی پرورش پانے کا احسان جتلایا) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے دونوں باتوں کا وہ جواب دیا جو قرآن میں مذکور ہے (یعنی مقتول کے معاملہ میں تو اپنی خطا اور غلطی کا اعتراف کر کے ناواقفیت کا عذر ظاہر کیا اور گھر میں پرورش پر احسان جتلانے کا جواب یہ دیا کہ تم نے سارے بنی اسرائیل کو اپنا غلام بنا رکھا ہے ان پر طرح طرح کے ظلم کر رہے ہو اسی کے نتیجہ میں بہ نیرنگ تقدیر میں تمہارے گھر میں پہنچا دیا گیا اور جو کچھ اللہ کو منظور تھا وہ ہوگیا اس میں تمہارا کوئی احسان نہیں۔ پھر موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون کو خطاب کر کے پوچھا کہ کیا تم اس پر راضی ہو کہ اللہ پر ایمان لے آؤ اور بنی اسرائیل کو غلامی سے آزاد کردو۔ فرعون نے اس سے انکار کیا اور کہا کہ اگر تمہارے پاس رسول رب ہونے کی کوئی علامت ہے تو دکھلاؤ۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی عصا زمین پر ڈال دی تو وہ عظیم الشان اژدہا کی شکل میں منہ کھولے ہوئے فرعون کی طرف لپکی۔ فرعون خوفزدہ ہو کر اپنے تخت کے نیچے چھپ گیا اور موسیٰ (علیہ السلام) سے پناہ مانگی کہ اس کو روک لیں۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کو پکڑ لیا۔ پھر اپنے گریبان میں ہاتھ ڈال کر نکالا تو وہ چمکنے لگا یہ دوسرا معجزہ فرعون کے سامنے آیا پھر دوبارہ گریبان میں ہاتھ ڈالا تو وہ اپنی اصلی حالت پر آگیا۔- فرعون نے ہیبت زدہ ہو کر اپنے درباریوں سے مشورہ کیا (کہ تم دیکھ رہے ہو یہ کیا ماجرا ہے اور ہمیں کیا کرنا چاہیے) درباریوں نے متفقہ طور پر کہا کہ (کچھ فکر کی بات نہیں) یہ دونوں جادوگر ہیں اپنے جادو کے ذریعہ تم کو تمہارے ملک سے نکالنا چاہتے ہیں اور تمہارے بہترین دین و مذہب کو (جو ان کی نظر میں فرعون کی پرستش کرنا تھا) یہ مٹانا چاہتے ہیں۔ آپ ان کی کوئی بات نہ مانیں (اور کوئی فکر نہ کریں) کیونکہ آپ کے ملک میں بڑے بڑے جادوگر ہیں، آپ ان کو بلا لیجئے وہ اپنے جادو سے ان کے جادو پر غالب آجائیں گے۔- فرعون نے اپنی مملکت کے سب شہروں میں حکم دے دیا کہ جتنے آدمی جادوگری میں ماہر ہوں وہ سب دربار میں حاضر کردیئے جاویں، ملک بھر کے جادوگر جمع ہوگئے تو انہوں نے فرعون سے پوچھا کہ جس جادوگر سے آپ ہمارا مقابلہ کرانا چاہتے ہیں وہ کیا عمل کرتا ہے، اس نے بتلایا کہ وہ اپنی لاٹھی کو سانپ بنا دیتا ہے، جادوگروں نے بڑی بےفکری سے کہا کہ یہ تو کوئی چیز نہیں، لاٹھیوں اور رسیوں کو سانپ بنا دینے کے جادو کا تو جو کمال ہمیں حاصل ہے اس کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا، مگر یہ طے کردیجئے کہ اگر ہم اس پر غالب آگئے تو ہمیں کیا ملے گا۔- فرعون نے کہا کہ تم غالب آگئے تو تم میرے خاندان کا جز اور مقربین خاص میں داخل ہوجاؤ گے اور تمہیں وہ سب کچھ ملے گا جو تم چاہو گے۔- اب جادوگروں نے مقابلہ کا وقت اور جگہ موسیٰ (علیہ السلام) سے طے کر کے اپنی عید کے دن چاشت کا وقت مقرر کردیا۔ ابن جبیر فرماتے ہیں کہ ابن عباس نے مجھ سے بیان فرمایا کہ ان کا یوم الزینہ (یعنی عید کا دن) جس میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو فرعون اور اس کے جادوگروں پر فتح عطا فرمائی وہ عاشوراء یعنی محرم کی دسویں تاریخ تھی۔ جب سب لوگ ایک وسیع میدان میں مقابلہ دیکھنے کے لئے جمع ہوگئے تو فرعون کے لوگ آپس میں ایک دوسرے کو کہنے لگے لَعَلَّنَا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ اِنْ كَانُوْا هُمُ الْغٰلِبِيْنَ ، یعنی ہمیں یہاں ضرور رہنا چاہئے تاکہ یہ ساحر یعنی موسیٰ و ہارون اگر غالب آجائیں تو ہم بھی ان پر ایمان لے آئیں، ان کی یہ گفتگو ان حضرات کے ساتھ استہزاء و مذاق کے طور پر تھی (ان کا یقین تھا کہ یہ ہمارے جادوگروں پر غالب نہیں آسکیں گے) ۔- میدان مقابلہ مکمل آراستہ ہوگیا تو جادوگروں نے موسیٰ (علیہ السلام) کو خطاب کیا کہ پہلے آپ کچھ ڈالیں (یعنی اپنا سحر دکھلائیں) یا ہم پہلے ڈال کر ابتداء کریں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان سے کہا کہ تم ہی پہل کرو، اپنا جادو دکھلاؤ۔ ان لوگوں نے اپنی لاٹھیاں اور کچھ رسیاں زمین پر یہ کہتے ہوئے ڈال دیں بِعِزَّةِ فِرْعَوْنَ اِنَّا لَنَحْنُ الْغٰلِبُوْنَ ، یعنی بطفیل فرعون ہم ہی غالب آئیں گے (یہ لاٹھیاں اور رسیاں دیکھنے میں سانپ بن کر چلنے لگیں) یہ دیکھ کر موسیٰ (علیہ السلام) پر ایک خوف طاری ہوا (فَاَوْجَسَ فِيْ نَفْسِهٖ خِيْفَةً مُّوْسٰى)- یہ خوف طبعی ہوسکتا ہے جو مقتضائے بشریت ہے، انبیاء بھی اس سے مستشنیٰ نہیں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ خوف اس بات کا ہو کہ اب اسلام کی دعوت جس کو میں لے کر آیا ہوں اس میں رکاوٹ پیدا ہوجائے گی۔- اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو بذریعہ وحی حکم دیا کہ اپنی عصا ڈال دو ۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی عصا ڈالی تو وہ ایک بڑا اژدہا بن گیا جس کا منہ کھلا ہوا تھا اس اژدہا نے ان تمام سانپوں کو نگل لیا جو جادوگروں نے لاٹھیوں اور رسیوں کے بنائے تھے۔- فرعونی جادوگر جادو کے فن کے ماہر تھے یہ ماجرا دیکھ کر ان کو یقین ہوگیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی عصا کا یہ اژدہا جادو سے نہیں بلکہ اللہ کی طرف سے ہے۔ اس لئے جادوگروں نے اسی وقت اعلان کردیا کہ ہم اللہ پر اور موسیٰ (علیہ السلام) کے لائے ہوئے دین پر ایمان لے آئے اور ہم اپنے پچھلے خیالات و عقائد سے توبہ کرتے ہیں۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے فرعون اور اس کے ساتھیوں کی کمر توڑ دی اور انہوں نے جو جال پھیلایا تھا وہ سب باطل ہوگیا (فَغُلِبُوْا هُنَالِكَ وَانْقَلَبُوْا صٰغِرِيْنَ ) فرعون اور اس کے ساتھی مغلوب ہوگئے اور ذلت و رسوائی کیساتھ اس میدان سے پسپا ہوئے۔- جس وقت یہ مقابلہ ہورہا تھا فرعون کی بیوی آسیہ پھٹے پرانے کپڑے پہن کر اللہ تعالیٰ سے موسیٰ (علیہ السلام) کی مدد کے لئے دعا مانگ رہی تھی اور آل فرعون کے لوگ یہ سمجھتے رہے کہ یہ فرعون کی وجہ سے پریشان حال ہیں اس کے لئے دعا مانگ رہی ہیں حالانکہ ان کا غم و فکر سارا موسیٰ (علیہ السلام) کے لئے تھا (اور انہیں کے غالب آنے کی دعا مانگ رہی تھیں) اس کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جب کوئی معجزہ دکھاتے اور اللہ کی طرف سے اس پر حجت تمام ہوجاتی تو اسی وقت وعدہ کرلیتا تھا کہ اب میں بنی اسرائیل کو آپ کے ساتھ بھیج دوں گا مگر جب موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا سے وہ عذاب کا خطرہ ٹل جاتا تو اپنے وعدہ سے پھرجاتا تھا) اور یہ کہہ دیتا تھا کہ کیا آپ کا رب کوئی اور بھی نشانی دکھا سکتا ہے۔ یہ سلسلہ چلتا رہا بالآخر اللہ تعالیٰ نے قوم فرعون پر طوفان اور ٹڈی دل اور کپڑوں میں جوئیں اور برتنوں اور کھانے میں مینڈکوں اور خون وغیرہ کے عذاب میں مسلط کردئیے، جن کو قرآن میں آیات مفصلات کے عنوان سے بیان کیا گیا ہے۔ اور فرعون کا حال یہ تھا کہ جب ان میں سے کوئی عذاب آتا اور اس سے عاجز ہوتا تو موسیٰ (علیہ السلام) سے فریاد کرتا کہ کسی طرح یہ عذاب ہٹا دیجئے تو ہم وعدہ کرتے ہیں کہ بنی اسرائیل کو آزاد کردیں گے پھر جب عذاب ٹل جاتا تو پھر بدعہدی کرتا۔ یہاں تک کہ حق تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو یہ حکم دے دیا کہ اپنی قوم بنی اسرائیل کو ساتھ لے کر مصر سے نکل جائیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ان سب کو لے کر رات کے وقت شہر سے نکل گئے فرعون نے جب صبح دیکھا کہ یہ سب لوگ چلے گئے تو اپنی فوج تمام اطراف سے جمع کر کے ان کے تعاقب میں چھوڑ دی۔ ادھر اللہ تعالیٰ نے اس دریا جو موسیٰ (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل کے راستہ میں تھا یہ حکم دے دیا کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) تجھ پر لاٹھی ماریں تو دریا میں بارہ راستے بن جانے چاہئیں۔ جن سے بنی اسرائیل کے بارہ قبائل الگ الگ گزر سکیں۔ اور جب یہ گزر جائیں تو ان کے تعاقب میں آنے والوں پر یہ دریا کے بارہ حصے پھر مل جائیں۔- حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جب دریا کے قریب پہنچے تو یہ یاد نہ رہا کہ لاٹھی مارنے سے دریا میں راستے پیدا ہوں گے اور ان کی قوم نے ان سے فریاد کی اِنَّا لَمُدْرَكُوْنَ یعنی ہم تو پکڑ لئے گئے (کیونکہ پیچھے فرعونی فوجوں کو آتا دیکھ رہے تھے اور آگے دریا حائل تھا) اس وقت موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ یاد آیا کہ دریا پر لاٹھی مارنے سے اس میں رستے پیدا ہوجاویں گے اور فوراً دریا پر اپنی لاٹھی ماری۔ یہ وہ وقت تھا کہ بنی اسرائیل کے پچھلے حصوں سے فرعونی افواج کے اگلے حصے تقریباً مل چکے تھے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزے سے دریا کے الگ الگ ٹکڑے ہو کر وعدہ ربانی کے مطابق بارہ راستے بن گئے اور موسیٰ (علیہ السلام) اور تمام بنی اسرائیل ان راستوں سے گزر گئے۔ فرعونی افواج جو ان کے تعاقب میں تھی انہوں نے دریا میں راستے دیکھ کر ان کے تعاقب میں اپنے گھوڑے اور پیادے ڈال دئیے تو دریا کے یہ مختلف ٹکڑے بامر ربانی پھر آپس میں مل گئے۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل دوسرے کنارے پر پہنچ گئے تو ان کے اصحاب نے کہا کہ ہمیں یہ خطرہ ہے کہ فرعون ان کے ساتھ غرق نہ ہوا ہو اور اس نے اپنے آپ کو بچا لیا ہو تو موسیٰ (علیہ السلام) نے دعا فرمائی کہ فرعون کی ہلاکت ہم پر ظاہر کردے قدرت حق نے فرعون کی مردہ لاش کو دریا سے باہر پھینک دیا اور سب نے اس کی ہلاکت کا آنکھوں سے مشاہدہ کرلیا۔- اس کے بعد یہ بنی اسرائیل موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ آگے چلے تو راستہ میں ان کا گزر ایک قوم پر ہوا جو اپنے بنائے ہوئے بتوں کی عبادت اور پرستش کر رہے تھے۔ تو یہ بنی اسرائیل موسیٰ (علیہ السلام) سے کہنے لگے (يٰمُوْسَى اجْعَلْ لَّنَآ اِلٰـهًا كَمَا لَهُمْ اٰلِهَةٌ ۭقَالَ اِنَّكُمْ قَوْمٌ تَجْـهَلُوْنَ ، اِنَّ هٰٓؤ ُ لَاۗءِ مُتَبَّرٌ مَّا هُمْ فِيْهِ ) یعنی اے موسیٰ ہمارے لئے بھی کوئی ایسا ہی معبود بنا دیجئے جیسے انہوں نے بہت سے معبود بنا رکھے ہیں۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ تم عجیب قوم ہو کہ ایسی جہالت کی باتیں کرتے ہو، یہ لوگ جو بتوں کی عبادت میں مشغول ہیں ان کی عبادت برباد ہونے والی ہے (موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا) کہ تم اپنے پروردگار کے اتنے معجزات اور اپنے اوپر انعامات دیکھ چکے ہو پھر بھی تمہارے یہ جاہلانہ خیالات نہیں بدلے۔ یہ کہہ کر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) مع اپنے ان ساتھیوں کے یہاں سے آگے بڑھے اور ایک مقام پر جا کر ان کو ٹہرا دیا اور فرمایا تم سب یہاں ٹہرو، میں اپنے رب کے پاس جاتا ہوں، تیس دن کے بعد واپس آجاؤں گا اور میرے پیچھے ہارون (علیہ السلام) میرے نائب و خلیفہ رہیں گے ہر کام میں ان کی اطاعت کرنا۔- موسیٰ (علیہ السلام) ان سے رخصت ہو کر کوہ طور پر تشریف لے گئے اور (اشارہ ربانی سے) تیس دن رات کا مسلسل روزہ رکھا تاکہ اس کے بعد کلام ربانی سے مستفید ہو سکیں گے مگر تیس دن رات کے مسلسل روزہ سے جو ایک قسم کی بو روزہ دار کے منہ میں ہوجاتی ہے یہ فکر ہوئی کہ اس بو کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے شرف ہم کلامی نامناسب ہے، تو پہاڑی گھاس کے ذریعہ مسواک کر کے منہ صاف کرلیا۔ جب بارگاہ حق میں حاضر ہوئے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ارشاد ہوا کہ تم نے افطار کیوں کرلیا (اور اللہ تعالیٰ کو معلوم تھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے کچھ کھایا پیا نہیں بلکہ منہ صاف کرلینے کو پیغمبرانہ امتیاز کی بنا پر افطار کرنے سے تعبیر فرمایا) موسیٰ (علیہ السلام) نے اس حقیقت کو سمجھ کر عرض کیا کہ اے میرے پروردگار مجھے یہ خیال ہوا کہ آپ سے ہم کلام ہونے کے لئے منہ کی بو دور کر کے صاف کرلوں۔ حکم ہوا کہ موسیٰ کیا تمہیں خبر نہیں کہ روزہ دار کے منہ کی بو ہمارے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی زیادہ محبوب ہے، اب آپ لوٹ جائیے اور دس دن مزید روزے رکھئے پھر ہمارے پاس آئیے موسیٰ (علیہ السلام) نے حکم کی تعمیل کی۔- اس آیت کی تفسیر کا بقیہ حصہ معارف القرآن جلد میں دیکھیں

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِذْ تَمْشِيْٓ اُخْتُكَ فَتَقُوْلُ ہَلْ اَدُلُّكُمْ عَلٰي مَنْ يَّكْفُلُہٗ۝ ٠ۭ فَرَجَعْنٰكَ اِلٰٓى اُمِّكَ كَيْ تَقَرَّ عَيْنُہَا وَلَا تَحْزَنَ۝ ٠ۥۭ وَقَتَلْتَ نَفْسًا فَنَجَّيْنٰكَ مِنَ الْغَمِّ وَفَتَنّٰكَ فُتُوْنًا۝ ٠ۥۣ فَلَبِثْتَ سِنِيْنَ فِيْٓ اَہْلِ مَدْيَنَ۝ ٠ۥۙ ثُمَّ جِئْتَ عَلٰي قَدَرٍ يّٰمُوْسٰى۝ ٤٠- مشی - المشي : الانتقال من مکان إلى مکان بإرادة . قال اللہ تعالی: كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ- [ البقرة 20] ، وقال : فَمِنْهُمْ مَنْ يَمْشِي عَلى بَطْنِهِ [ النور 45] ، إلى آخر الآية . يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] ، فَامْشُوا فِي مَناكِبِها[ الملک 15] ، ويكنّى بالمشي عن النّميمة . قال تعالی: هَمَّازٍ مَشَّاءٍ بِنَمِيمٍ [ القلم 11] ، ويكنّى به عن شرب المسهل، فقیل : شربت مِشْياً ومَشْواً ، والماشية : الأغنام، وقیل : امرأة ماشية : كثر أولادها .- ( م ش ی ) المشی - ( ج ) کے معنی ایک مقام سے دوسرے مقام کی طرف قصد اور ارادہ کے ساتھ منتقل ہونے کے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة 20] جب بجلی چمکتی اور ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ فَمِنْهُمْ مَنْ يَمْشِي عَلى بَطْنِهِ [ النور 45] ان میں سے بعض ایسے ہیں جو پیٹ کے بل چلتے ہیں يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں ۔ فَامْشُوا فِي مَناكِبِها[ الملک 15] تو اس کی راہوں میں چلو پھرو ۔ اور کنایۃ میس کا لفظ چغلی کھانے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ هَمَّازٍ مَشَّاءٍ بِنَمِيمٍ [ القلم 11] طعن آمیز اشارتیں کرنے والا چغلیاں لئے پھرنے والا ۔ اور کنایۃ کے طور پر مشئی کے معنی مسہل پینا بھی آتے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے : ۔ شربت مشیا ومشو ا میں نے مسہل دواپی الما شیۃ مویشی یعنی بھیڑ بکری کے ریوڑ کو کہتے ہیں اور امراۃ ماشیۃ اس عورت کو کہتے ہیں جس کے بچے بہت ہوں ۔- دلَ- الدّلالة : ما يتوصّل به إلى معرفة الشیء، کدلالة الألفاظ علی المعنی، ودلالة الإشارات،- والرموز، والکتابة، والعقود في الحساب، وسواء کان ذلک بقصد ممن يجعله دلالة، أو لم يكن بقصد، كمن يرى حركة إنسان فيعلم أنه حيّ ، قال تعالی: ما دَلَّهُمْ عَلى مَوْتِهِ إِلَّا دَابَّةُ الْأَرْضِ- [ سبأ 14] . أصل الدّلالة مصدر کالکتابة والإمارة، والدّالّ : من حصل منه ذلك، والدلیل في المبالغة کعالم، وعلیم، و قادر، وقدیر، ثم يسمّى الدّالّ والدلیل دلالة، کتسمية الشیء بمصدره .- ( د ل ل ) الدلا لۃ - ۔ جس کے ذریعہ کسی چی کی معرفت حاصل ہو جیسے الفاظ کا معانی پر دلالت کرن اور اشارات در ہو ز اور کتابت کا اپنے مفہوم پر دلالت کرنا اور حساب میں عقود کا عدد مخصوص پر دلالت کرنا وغیرہ اور پھر دلالت عام ہے کہ جاہل یعنی واضح کی وضع سے ہوا یا بغیر وضع اور قصد کے ہو مثلا ایک شخص کسی انسان میں حرکت دیکھ کر جھٹ جان لیتا ہے کہ وہ زندہ ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ ما دَلَّهُمْ عَلى مَوْتِهِ إِلَّا دَابَّةُ الْأَرْضِ [ سبأ 14] تو کسی چیز سے ان کا مرنا معلوم نہ ہوا مگر گھن کے کیڑز سے ۔ اصل میں دلالۃ کا لفظ کنایہ وامارۃ کی طرح مصدر ہے اور اسی سے دال صیغہ صفت فاعل ہے یعنی وہ جس سے دلالت حاصل ہو اور دلیل صیغہ مبالغہ ہے جیسے ہے کبھی دال و دلیل بمعنی دلالۃ ( مصدر آجاتے ہیں اور یہ تسمیہ الشئ بمصدر کے قبیل سے ہے ۔- كفل - الْكَفَالَةُ : الضّمان، تقول : تَكَفَّلَتْ بکذا، وكَفَّلْتُهُ فلانا، وقرئ : وَكَفَّلَها زَكَرِيَّا - [ آل عمران 37] «3» أي : كفّلها اللہ تعالی، ومن خفّف «4» جعل الفعل لزکريّا، المعنی: تضمّنها . قال تعالی: وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللَّهَ عَلَيْكُمْ كَفِيلًا[ النحل 91] ، والْكَفِيلُ : الحظّ الذي فيه الکفاية، كأنّه تَكَفَّلَ بأمره . نحو قوله تعالی: فَقالَ أَكْفِلْنِيها[ ص 23] أي : اجعلني کفلا لها، والکِفْلُ : الكفيل، قال : يُؤْتِكُمْ كِفْلَيْنِ مِنْ رَحْمَتِهِ [ الحدید 28] أي : كفيلين من نعمته في الدّنيا والآخرة، وهما المرغوب إلى اللہ تعالیٰ فيهما بقوله : رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً [ البقرة 201]- ( ک ف ل ) الکفالۃ - ضمانت کو کہتے ہیں اور تکفلت بکذا کے معنی کسی چیز کا ضامن بننے کے ہیں ۔ اور کفلتہ فلانا کے معنی ہیں میں نے اسے فلاں کی کفالت میں دے دیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَكَفَّلَها زَكَرِيَّا[ آل عمران 37] اور زکریا کو اس کا متکفل بنایا ۔ بعض نے کفل تخفیف فاء کے ساتھ پڑھا ہے اس صورت میں اس کا فاعل زکریا (علیہ السلام) ہوں گے یعنی حضرت زکریا (علیہ السلام) نے ان کو پانی کفالت میں لے لیا ۔ اکفلھا زیدا اسے زید کی کفالت میں دیدیا ) قرآن میں ہے : ۔ أَكْفِلْنِيها[ ص 23] یہ بھی میری کفالت مٰن دے دو میرے سپرد کر دو الکفیل اصل میں بقدر ضرورت حصہ کو کہتے ہیں ۔ گویا وہ انسان کی ضرورت کا ضامن ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللَّهَ عَلَيْكُمْ كَفِيلًا[ النحل 91] اور تم خدا کو اپنا کفیل بنا چکے ہو ۔ اور الکفل کے معنی بھی الکفیل یعنی حصہ کے آتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ يُؤْتِكُمْ كِفْلَيْنِ مِنْ رَحْمَتِهِ [ الحدید 28] وہ تمہیں اپنی رحمت سے اجر کے دو حصے عطا فرمائیگا ۔ یعنی دنیا اور عقبیی دونون جہانوں میں تمہیں اپنے انعامات سے نوزے گا ۔ اور یہی دوقسم کی نعمیتں ہیں جن کے لئے آیت رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً [ البقرة 201- رجع - الرُّجُوعُ : العود إلى ما کان منه البدء، أو تقدیر البدء مکانا کان أو فعلا، أو قولا، وبذاته کان رجوعه، أو بجزء من أجزائه، أو بفعل من أفعاله . فَالرُّجُوعُ : العود، - ( ر ج ع ) الرجوع - اس کے اصل معنی کسی چیز کے اپنے میدا حقیقی یا تقدیر ی کی طرف لوٹنے کے ہیں خواہ وہ کوئی مکان ہو یا فعل ہو یا قول اور خواہ وہ رجوع بذاتہ ہو یا باعتبار جز کے اور یا باعتبار فعل کے ہو الغرض رجوع کے معنی عود کرنے اور لوٹنے کے ہیں اور رجع کے معنی لوٹا نے کے - قرر ( آنکھ ٹهنڈي کرنا)- صببت فيها ماء قَارّاً ، أي : باردا، واسم ذلک الماء الْقَرَارَةُ والْقَرِرَةُ. واقْتَرَّ فلان اقْتِرَاراً نحو : تبرّد، وقَرَّتْ عينه تَقَرُّ : سُرّت، قال : كَيْ تَقَرَّ عَيْنُها [ طه 40] ، وقیل لمن يسرّ به : قُرَّةُ عين، قال : قُرَّتُ عَيْنٍ لِي وَلَكَ [ القصص 9] ، وقوله : هَبْ لَنا مِنْ أَزْواجِنا وَذُرِّيَّاتِنا قُرَّةَ أَعْيُنٍ [ الفرقان 74] ، قيل : أصله من القُرِّ ، أي : البرد، فَقَرَّتْ عينه، قيل : معناه بردت فصحّت، وقیل : بل لأنّ للسّرور دمعة باردة قَارَّةً ، وللحزن دمعة حارّة، ولذلک يقال فيمن يدعی عليه : أسخن اللہ عينه، وقیل : هو من الْقَرَارِ. والمعنی: أعطاه اللہ ما تسکن به عينه فلا يطمح إلى غيره، وأَقَرَّ بالحقّ : اعترف به وأثبته علی نفسه . وتَقَرَّرَ الأمرُ علی كذا أي :- حصل، والقارُورَةُ معروفة، وجمعها : قَوَارِيرُ قال : قَوارِيرَا مِنْ فِضَّةٍ [ الإنسان 16] ، وقال : رْحٌ مُمَرَّدٌ مِنْ قَوارِيرَ [ النمل 44] ، أي : من زجاج .- قرت لیلتنا تقر رات کا ٹھنڈا ہونا ۔ یوم قر ٹھنڈا دن ) لیلۃ فرۃ ( ٹھنڈی رات ) قر فلان فلاں کو سردی لگ گئی اور مقرور کے معنی ٹھنڈا زدہ آدمی کے ہیں ۔ مثل مشہور ہے ۔ حرۃ تحت قرۃ یہ اس شخص کے حق میں بولتے ہیں جو اپنے ضمیر کے خلاف بات کرے ۔ قررت القدر اقرھا میں نے ہانڈی میں ٹھنڈا پانی ڈالا ۔ اور اس پانی کو قرارۃ قررہ کہا جاتا ہے ۔ اقتر فلان اقترار یہ تبرد کی طرح ہے جس کے معنی ٹھنڈے پانی سے غسل کرنے کے ہیں ۔ قرت عینہ ت قرآن کھ کا ٹھنڈا ہونا ۔ مراد خوشی حاصل ہونا ہے قرآن پاک میں ہے : كَيْ تَقَرَّ عَيْنُها [ طه 40] تاکہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں ۔ اور جسے دیکھ کر انسان کو خوشی حاصل ہو اسے قرۃ عین کہاجاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : قُرَّتُ عَيْنٍ لِي وَلَكَ [ القصص 9] یہ میری اور تمہاری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے ۔ هَبْ لَنا مِنْ أَزْواجِنا وَذُرِّيَّاتِنا قُرَّةَ أَعْيُنٍ [ الفرقان 74] اے ہمارے پروردگار ہمیں بیویوں کی طرف سے دل کا چین اور اولاد کی طرف سے آنکھ کی ٹھنڈک عطا فرما۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں قر بمعنی سردی سے ہے لہذا قرت عینہ کے معنی آنکھ کے ٹھنڈا ہو کر خوش ہوجانے کے ہیں بعض نے کہا ہے کہ قرت عینہ کے معنی خوش ہونا اس لئے آتے ہیں کہ خوشی کے آنسو ٹھنڈے ہوتے ہیں اور غم کے آنسو چونکہ گرم ہونے ہیں اس لئے بددعا کے وقت اسخن اللہ عینہ کہاجاتا ہاے ۔ بعض نے کہا ہے کہ قرار س مشتق ہے مراد معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ اسے وہ چیزبخشے جس سے اس کی آنکھ کی سکون حاصل ہو یعنی اسے دوسری چیز کی حرص نہ رہے ۔ اقر بالحق حق کا اعتراف کرنا ۔ تقر الامر علی ٰ کذا کسی امر کا حاصل ہوجانا ۔ القارودۃ شیشہ جمع قواریر قرآن میں ہے : قَوارِيرَا مِنْ فِضَّةٍ [ الإنسان 16] اور شیشے بھی چاندی کے ۔ صبح ممرد من قواریر یہ ایسا محل ہے جس میں ( نیچے ) شیشے جڑے ہوئے ہیں یعنی شیشے کا بنا ہوا ہے ۔- عين - العَيْنُ الجارحة . قال تعالی: وَالْعَيْنَ بِالْعَيْنِ [ المائدة 45] - ( ع ی ن ) العین - کے معنی آنکھ کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَالْعَيْنَ بِالْعَيْنِ [ المائدة 45] آنکھ کے بدلے آنکھ ۔ لَطَمَسْنا عَلى أَعْيُنِهِمْ [يس 66] ان کی آنکھوں کو مٹا ( کر اندھا ) کردیں ۔- حزن - الحُزْن والحَزَن : خشونة في الأرض وخشونة في النفس لما يحصل فيه من الغمّ ، ويضادّه الفرح، ولاعتبار الخشونة بالغم قيل : خشّنت بصدره : إذا حزنته، يقال : حَزِنَ يَحْزَنُ ، وحَزَنْتُهُ وأَحْزَنْتُهُ قال عزّ وجلّ : لِكَيْلا تَحْزَنُوا عَلى ما فاتَكُمْ [ آل عمران 153] - ( ح ز ن ) الحزن والحزن - کے معنی زمین کی سختی کے ہیں ۔ نیز غم کی وجہ سے جو بیقراری سے طبیعت کے اندر پیدا ہوجاتی ہے اسے بھی حزن یا حزن کہا جاتا ہے اس کی ضد فوح ہے اور غم میں چونکہ خشونت کے معنی معتبر ہوتے ہیں اس لئے گم زدہ ہوے کے لئے خشنت بصررہ بھی کہا جاتا ہے حزن ( س ) غمزدہ ہونا غمگین کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ لِكَيْلا تَحْزَنُوا عَلى ما فاتَكُمْ [ آل عمران 153] تاکہ جو چیز تمہارے ہاتھ سے جاتی رہے ۔۔۔۔۔ اس سے تم اندو ہناک نہ ہو - قتل - أصل القَتْلِ : إزالة الروح عن الجسد کالموت، لکن إذا اعتبر بفعل المتولّي لذلک يقال : قَتْلٌ ، وإذا اعتبر بفوت الحیاة يقال : موت . قال تعالی: أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144] - ( ق ت ل ) القتل - ( ن ) الموت کی طرح اس کے معنی بھی جسم سے روح کو زائل کرنے کے ہیں لیکن موت اور قتل میں فرق یہ ہے کہ اگر اس فعل کو سرا انجام دینے والے کا اعتبار کیا جائے تو اسے قتل کہا جاتا ہے اور اگر صرف روح کے فوت ہونے کا اعتبار کیا جائے تو اسے موت کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں قرآن میں ہے : ۔ أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144]- نجو - أصل النَّجَاء : الانفصالُ من الشیء، ومنه : نَجَا فلان من فلان وأَنْجَيْتُهُ ونَجَّيْتُهُ. قال تعالی: وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا[ النمل 53]- ( ن ج و )- اصل میں نجاء کے معنی کسی چیز سے الگ ہونے کے ہیں ۔ اسی سے نجا فلان من فلان کا محاورہ ہے جس کے معنی نجات پانے کے ہیں اور انجیتہ ونجیتہ کے معنی نجات دینے کے چناچہ فرمایا : ۔- وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا[ النمل 53] اور جو لوگ ایمان لائے ان کو ہم نے نجات دی ۔- غم - الغَمُّ : ستر الشیء، ومنه : الغَمَامُ لکونه ساترا لضوء الشمس . قال تعالی: يَأْتِيَهُمُ اللَّهُ فِي ظُلَلٍ مِنَ الْغَمامِ [ البقرة 210] . والغَمَّى مثله، ومنه : غُمَّ الهلالُ ، ويوم غَمٌّ ، ولیلة غَمَّةٌ وغُمَّى، قال : ليلة غمّى طامس هلالها وغُمَّةُ الأمر . قال : ثُمَّ لا يَكُنْ أَمْرُكُمْ عَلَيْكُمْ غُمَّةً [يونس 71] ، أي : كربة . يقال : غَمٌ وغُمَّةٌ. أي : كرب وکربة، والغَمَامَةُ : خرقة تشدّ علی أنف النّاقة وعینها، وناصية غَمَّاءُ : تستر الوجه .- ( غ م م ) الغم - ( ن ) کے بنیادی معنی کسی چیز کو چھپا لینے کی ہیں اسی سے الغمیٰ ہے جس کے معنی غبار اور تاریکی کے ہیں ۔ نیز الغمیٰ جنگ کی شدت الغمام کہتے ہیں کیونکہ وہ سورج کی روشنی کو ڈھانپ لیتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : يَأْتِيَهُمُ اللَّهُ فِي ظُلَلٍ مِنَ الْغَمامِ [ البقرة 210] کہ خدا کا عذاب بادلوں کے سائبانوں میں آنازل ہوا ۔ اسی سے غم الھلال ( چاند ابر کے نیچے آگیا اور دیکھا نہ جاسکا ۔ ویوم غم ( سخت گرم دن ولیلۃ غمۃ وغمی ٰ ( تاریک اور سخت گرم رات ) وغیرہ ہا محاورات ہیں کسی شاعر نے کہا ہے ( جز ) ( 329) لیلۃ غمی ٰ طامس ھلالھا تاریک رات جس کا چاند بےنور ہو ۔ اور غمۃ الامر کے معنی کسی معاملہ کا پیچدہ اور مشتبہ ہونا ہیں ، قرآن پاک میں ہے : ۔ ثُمَّ لا يَكُنْ أَمْرُكُمْ عَلَيْكُمْ غُمَّةً [يونس 71] پھر تمہارا معاملہ تم پر مشتبہ نہ رہے ۔ یعنی پھر وہ معاملہ تمہارے لئے قلق و اضطراب کا موجب نہ ہو اور غم وغمۃ کے ایک ہی معنی ہیں یعنی حزن وکرب جیسے کرب وکربۃ اور غمامۃ اس چیتھڑے کو کہتے ہیں جو اونٹنی کی ناک اور آنکھوں پر باندھ دیا جاتا ہے تاکہ کسی چیز کو دیکھ یاسونگھ نہ سکے ) اور ناصیۃ غماء پیشانی کے لمبے بال جو چہرے کو چھالیں ۔- فتن - أصل الفَتْنِ : إدخال الذّهب النار لتظهر جو دته من رداء ته، واستعمل في إدخال الإنسان النار . قال تعالی: يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات 13] - ( ف ت ن ) الفتن - دراصل فتن کے معنی سونے کو آگ میں گلانے کے ہیں تاکہ اس کا کھرا کھوٹا ہونا ہوجائے اس لحاظ سے کسی انسان کو آگ میں ڈالنے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات 13] جب ان کو آگ میں عذاب دیا جائے گا ۔ - لبث - لَبِثَ بالمکان : أقام به ملازما له . قال تعالی: فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ [ العنکبوت 14] ،- ( ل ب ث ) لبث بالمکان - کے معنی کسی مقام پر جم کر ٹھہرنے اور مستقل قیام کرنا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ [ العنکبوت 14] تو وہ ان میں ۔ ہزار برس رہے ۔- أهل - أهل الرجل : من يجمعه وإياهم نسب أو دين، أو ما يجري مجراهما من صناعة وبیت وبلد، وأهل الرجل في الأصل : من يجمعه وإياهم مسکن واحد، ثم تجوّز به فقیل : أهل الرجل لمن يجمعه وإياهم نسب، وتعورف في أسرة النبيّ عليه الصلاة والسلام مطلقا إذا قيل :- أهل البیت لقوله عزّ وجلّ : إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ [ الأحزاب 33] - ( ا ھ ل ) اھل الرجل - ۔ ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو اس کے ہم نسب یا ہم دین ہوں اور یا کسی صنعت یامکان میں شریک ہوں یا ایک شہر میں رہتے ہوں اصل میں اھل الرجل تو وہ ہیں جو کسی کے ساتھ ایک مسکن میں رہتے ہوں پھر مجازا آدمی کے قریبی رشتہ داروں پر اہل بیت الرجل کا لفظ بولا جانے لگا ہے اور عرف میں اہل البیت کا لفظ خاص کر آنحضرت کے خاندان پر بولا جانے لگا ہے کیونکہ قرآن میں ہے :۔ إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ ( سورة الأحزاب 33) اسے پیغمبر گے اہل بیت خدا چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی ( کا میل کچیل ) دور کردے ۔- جاء - جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال «1» : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] ، - ( ج ی ء ) جاء ( ض )- جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔- قَدَرُ- وقت الشیء المقدّر له، والمکان المقدّر له، قال : إِلى قَدَرٍ مَعْلُومٍ [ المرسلات 22] ، وقال : فَسالَتْ أَوْدِيَةٌ بِقَدَرِها [ الرعد 17] ، أي : بقدر المکان المقدّر لأن يسعها، وقرئ :( بِقَدْرِهَا) «2» أي : تقدیرها . وقوله : وَغَدَوْا عَلى حَرْدٍ قادِرِينَ [ القلم 25] ، قاصدین، أي : معيّنين لوقت قَدَّرُوهُ ، وکذلک قوله فَالْتَقَى الْماءُ عَلى أَمْرٍ قَدْ قُدِرَ [ القمر 12] ، وقَدَرْتُ عليه الشیء : ضيّقته، كأنما جعلته بقدر بخلاف ما وصف بغیر حساب . قال تعالی: وَمَنْ قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ [ الطلاق 7] ، أي : ضيّق عليه، وقال : يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشاءُ وَيَقْدِرُ [ الروم 37] ، وقال : فَظَنَّ أَنْ لَنْ نَقْدِرَ عَلَيْهِ [ الأنبیاء 87] ، أي : لن نضيّق عليه، وقرئ : ( لن نُقَدِّرَ عليه) «3» ، ومن هذا - قدر کے معنی اس معین وقت یا مقام کے بھی ہوتے ہیں جو کسی کام کے لئے مقرر ہوچکا ہو چناچہ فرمایا : إِلى قَدَرٍ مَعْلُومٍ [ المرسلات 22] ایک معین وقت تک ۔ نیز فرمایا : فَسالَتْ أَوْدِيَةٌ بِقَدَرِها [ الرعد 17] پھر اس سے اپنے اپنے اندازے کے مطابق نالے بہ نکلے ۔ یعنی نالے اپنے ( ظرف کے مطابق بہ نکلتے ہیں ایک قرات میں بقدر ھا ہے جو بمعنی تقدیر یعنی اندازہ ۔۔۔ کے ہے اور آیت کریمہ : وَغَدَوْا عَلى حَرْدٍ قادِرِينَ [ القلم 25]( اور کوشش کے ساتھ سویرے ہی جاپہنچے ( گویا کھیتی پر ) قادر ہیں ۔ میں قادرین کے معنی قاصدین کے ہیں یعنی جو وقت انہوں نے مقرر کر رکھا تھا ۔ اندازہ کرتے ہوئے اس وقت پر وہاں جا پہنچے اور یہی معنی آیت کریمہ : فَالْتَقَى الْماءُ عَلى أَمْرٍ قَدْ قُدِرَ [ القمر 12] تو پانی ایک کام کے لئے جو مقدر ہوچکا تھا جمع ہوگیا میں مراد ہیں ۔ اور قدرت علیہ الشئی کے معنی کسی پر تنگی کردینے کے ہیں گویا وہ چیز اسے معین مقدار کے ساتھ دی گئی ہے اس کے بالمقابل بغیر حساب ( یعنی بےاندازہ ) آتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ [ الطلاق 7] اور جس کے رزق میں تنگی ہو ۔ یعنی جس پر اس کی روزی تنگ کردی گئی ہو ۔ نیز فرمایا : يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشاءُ وَيَقْدِرُ [ الروم 37] خدا جس پر جاہتا ہے رزق فراخ کردیتا ہے اور جس کا چاہتا ہے تنگ کردیتا ہے ۔ فَظَنَّ أَنْ لَنْ نَقْدِرَ عَلَيْهِ [ الأنبیاء 87] اور خیال کیا کہ ہم ان پر تنگی نہیں کریں گے اور ایک قرآت میں لن نقدر علیہ ہے۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

موسیٰ پر آزمائشیں - قول باری ہے (وفتناک فتونا اور ہم نے تجھے مختلف آزمائشوں سے گزارا) سعید بن جبیر کا قول ہے کہ میں نے حضرت ابن عباس سے اس آیت کی تفسیر پوچھی تھی تو انہوں نے فرمایا تھا۔” ابن جبیر دن کے وقت میں اس پر نئے سرے سے غور کر کے تمہیں بتائوں گا۔ “ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کا مفہوم یہ بتایا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پے در پے آزمائشوں میں مبتلا کئے گئے اور پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں ان تمام آزمائشوں سے خلاصی عطا فرمائی۔ پہلے تو آپ کا استقرار حمل ان سالوں میں ہوا جن میں فرعون بنی اسرائیل کے بچوں کو ذبح کروا دیا کرتا تھا۔ پھر آپ کو سمندر میں ڈالا گیا۔ پھر ماں کی چھاتی کے سوا کسی اور عورت کا دودھ پینے سے روک دیا گیا۔ پھر آپ نے فرعون کی داڑھی کھینچ لی جس سے وہ بھڑک اٹھا تھا اور آپ کو قتل کرنے کا ارادہ کرلیا تھا۔ پھر آپ نے موتی کو اٹھانے کی بجائے انگارے کو اٹھا لیا تھا جسکی بنا پر فرعون کے ہاتھوں قتل ہونے سے بچ گئے تھے (یہ واقعہ فرعون کے محل میں پیش آیا تھا جہاں آپ ایک شیر خوار بچے کی حیثیت سے پرورش پا رہے تھے) پھر آپ کے ہمدردوں میں سے ایک شخص نے آ کر آپ کو خبردار کیا تھا کہ فرعون ک کے درباری آپ کو قتل دینے کے مشورے کر رہے ہیں جس کی بنا پر آپ وہاں سے نکل آئے تھے۔ مجاہد نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے کہا کہ اس کا مفہوم ہے ” ہم نے تمہیں پوری طرح چھٹکارا دلا دیا۔ “

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٤٠۔ ٤١) یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب کہ تمہاری بہن تمہاری تلاش میں فرعون کے گھر تک آئیں اور اجنبی بن کر کہنے لگیں کیا آپ کو ایسی آیا چاہیے جو اس کی اچھی طرح پرورش کرے چناچہ اس طریقے سے ہم نے تمہیں تمہاری ماں پاس پھر پہنچا دیا تاکہ ان کا دل خوش ہوجائے اور اپنے بیٹے کی ہلاکت کا خوف نکل جائے۔- اور تم نے غلطی سے ایک قبطی کو مار ڈالا تھا اور پھر قوم کے انتقام کے خوف سے بھی ہم نے تمہیں نجات دی اور بار بار ہم نے تمہیں آزمائشوں میں ڈالا پھر اس کے بعد مدین والوں میں دس سال تک رہے پھر ایک خاص وقت پر جو میرے علم میں تمہاری رسالت اور ہم کلامی کے لیے مقرر تھا تم یہاں آئے اور اے موسیٰ (علیہ السلام) یہاں آنے پر میں نے تمہیں کو اپنا رسول بنانے کے لیے منتخب کیا ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤٠ (اِذْ تَمْشِیْٓ اُخْتُکَ ) ” - اور وہ چلتے چلتے فرعون کے محل تک پہنچ گئی جہاں بچے کو فوری طور پر دودھ پلانے کے انتظامات کیے جا رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو کسی بھی عورت کا دودھ پینے سے منع کردیا تھا۔ جب بہت سی عورتیں بلائی گئیں اور وہ سب کی سب آپ ( علیہ السلام) کو دودھ پلانے میں ناکام رہیں تو آپ ( علیہ السلام) کی بہن جو یہ سب کچھ دیکھ رہی تھی بول پڑی :- (فَتَقُوْلُ ہَلْ اَدُلُّکُمْ عَلٰی مَنْ یَّکْفُلُہٗ ط) ” - آپ ( علیہ السلام) کی بہن نے اپنی ہی والدہ کے بارے میں ان لوگوں کو مشورہ دیا۔ چناچہ جب آپ ( علیہ السلام) کی والدہ کو بلایا گیا تو آپ ( علیہ السلام) نے ان کا دودھ فوراً پی لیا۔- (فَرَجَعْنٰکَ الآی اُمِّکَ کَیْ تَقَرَّ عَیْنُہَا وَلَا تَحْزَنَ ط) ” - چنانچہ مامتا کی تسلی و تسکین کے لیے بچے کو واپس والدہ کی گود میں پہنچا دیا گیا۔ مقام غور ہے اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں کے جذبات و احساسات کا کس حد تک پاس ہے۔ - (وَقَتَلْتَ نَفْسًا) ” - پھر جب آپ ( علیہ السلام) جوان ہوئے اور مصر میں آپ ( علیہ السلام) کے ہاتھوں ایک قبطی قتل ہوگیا :- (فَلَبِثْتَ سِنِیْنَ فِیْٓ اَہْلِ مَدْیَنَ ) ” - آپ ( علیہ السلام) کے مدین پہنچنے اور وہاں ٹھہرنے کے بارے میں تفصیل سورة القصص میں بیان ہوئی ہے۔ یہاں صرف اشارہ کیا گیا ہے۔- (ثُمَّ جِءْتَ عَلٰی قَدَرٍ یّٰمُوْسٰی ) ” - یعنی اس وقت آپ ( علیہ السلام) کا یہاں پہنچنا کسی حسن اتفاق کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک طے شدہ پروگرام کا حصہ ہے۔ میں نے آپ ( علیہ السلام) کے سب معاملات کے متعلق باقاعدہ منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔ آپ ( علیہ السلام) نے اس سے پہلے جو کچھ کیا ‘ آپ ( علیہ السلام) جہاں جہاں رہے ‘ یہ سب اس منصوبہ بندی کا حصہ تھا اور اب اسی منصوبہ بندی اور ایک طے شدہ فیصلے کے مطابق آپ ( علیہ السلام) اس جگہ پہنچ گئے ہو۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

16: فرعون کی اہلیہ نے جب بچے کو پالنے کا ارادہ کرلیا تو اُن کو دودھ پلانے والی کی تلاش شروع ہوئی، لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام کسی بھی عورت کا دودھ منہ میں نہیں لیتے تھے۔ حضرت آسیہ نے اپنی کنیزیں بھیجیں کہ وہ کوئی ایسی عورت تلاش کریں جس کا دودھ یہ قبول کرلیں۔ اُدھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ بچے کو دریا میں ڈالنے کے بعد بے چین تھیں۔ اُنہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بہن کو دیکھنے کے لئے بھیجا کہ بچہ کا انجام کیا ہوا؟ یہ ڈھونڈتے ڈھونڈتے اُسی جگہ پہنچ گئیں جہاں فرعون کی کنیزیں پریشانی کے عالم میں دودھ پلانے والی عورتوں کو تلاش کر رہی تھیں۔ اُن کو موقع مل گیا، اور اُنہوں نے اپنی والدہ کو یہ خدمت سونپنے کی تجویز پیش کی، اور اُنہیں وہاں لے بھی آئیں، جب اُنہوں نے بچے کو دودھ پلانا چاہا تو بچے نے آرام سے دودھ پی لیا، اور پھر اﷲ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق بچہ دوبارہ اُن کے پاس آگیا۔ 17: یہ سارے واقعات تفصیل سے سورہ قصص میں آنے والے ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ آپ نے مظلوم اسرائیلی کو ایک ظالم سے بچانے کے لئے اُسے ایک مکا مارا تھا، اُن کا مقصد اسے ظلم سے باز رکھنا تھا، قتل کرنا مقصود نہیں تھا، لیکن وہ مکے ہی سے مر گیا۔ 18: اِن آزمائشوں کی تفصیل حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے ایک طویل روایت میں بتائی ہے جو تفسیر ابن کثیرؒ میں مروی ہے، اور اس کا مکمل ترجمہ ’’معارف القرآن‘‘ جلد 6 ص 84 تا 103 میں موجود ہے۔