Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

63۔ 1 مثلیٰ ، طریقۃ کی صفت ہے یہ امثل کی تانیث ہے افضل کے معنی میں مطلب یہ ہے کہ اگر یہ دونوں بھائی اپنے جادو کے زور سے غالب آگئے، تو سادات و اشراف اس کی طرف مائل ہوجائیں گے، جس سے ہمارا اقتدار خطرے میں اور ان کے اقتدار کا امکان بڑھ جائے گا۔ علاوہ ازیں ہمارا بہترین طریقہ یا مذہب، اسے بھی یہ ختم کردیں گے۔ یعنی اپنے مشرکانہ مذہب کو بھی انہوں نے " بہترین " قرار دیا جیسا کہ آج بھی ہر باطل مذہب اور فرقے کے پیروکار اسی زعم فاسد میں مبتلا ہیں سچ فرمایا اللہ نے (کل حزب بما لدیھم فرحون) ہر فرقہ جو اس کے پاس ہے اس پر ریچھ رہا ہے۔۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قَالُوْٓا اِنْ ھٰذٰىنِ لَسٰحِرٰنِ ۔۔ : یہ ” اِنْ “ اصل میں ”إِنَّ “ حرف تاکید ہے، جس کی علامت خبر ” لَسٰحِرٰنِ “ پر لام تاکید ہے۔ یہاں ایک مشہور سوال ہے کہ ” إِنَّ “ اپنے اسم کو نصب دیتا ہے، اس لیے ” ھٰذٰىنِ “ کے بجائے ” ھٰذَیْنِ “ ہونا چاہیے تھا۔ اس کا ایک جواب یہ ہے کہ ” إِنَّ “ کے نون کو جزم دینے کے بعد اس کا عمل ختم کردیا گیا اور ” ھٰذٰىنِ “ مبتدا ہونے کی وجہ سے مرفوع ہے، دوسرا یہ کہ ” اِنْ “ (نون ساکن کے ساتھ) ” إِنَّہُ “ یعنی ” إِنَّ “ اور ضمیر شان کی جگہ آیا ہے، چناچہ ” اِنْ “ کا اسم ضمیر شان تھی اور ” ھٰذیٰن “ اگلے جملے کا مبتدا ہے اور وہ جملہ ” اِنپ “ کی خبر بن رہا ہے۔ (ابن جزی) مزید جواب لمبی تفسیروں میں دیکھیں۔ ” الْمُثْلٰى“ ” أَمْثَلُ “ اسم تفضیل کا مؤنث ہے، بمعنی ” أَفْضَلُ “ سب سے اچھا۔- 3 آخر باہمی مشورے کے بعد مال و دولت اور جاہ ومنصب کی حرص نے ان سب کو مقابلے پر متفق کردیا اور فیصلہ یہ ٹھہرا کہ یہ دونوں یقیناً جادوگر ہیں اور چاہتے ہیں کہ اقتدار حاصل کرکے تمہیں تمہارے وطن سے نکال دیں اور تمہارے دین و مذہب کو، جو سب سے اچھا ہے اور تمہاری عیش و عشرت والی بہترین زندگی کو حکومت پر قبضہ کرکے ختم کردیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( مَا ذِءْبَانِ جَاءِعَانِ أُرْسِلاَ فِيْ غَنَمٍ بِأَفْسَدَ لَھَا مِنْ حِرْصِ الْمَرْءِ عَلَی الْمَالِ وَالشَّرْفِ لِدِیْنِہٖ )” دو بھوکے بھیڑیے، جو بھیڑ بکریوں میں چھوڑ دیے جائیں، وہ انھیں اس قدر برباد کرنے والے نہیں جس قدر آدمی کی مال اور بلند مرتبہ (شہرت) کی حرص اس کے دین کو برباد کرنے والی ہے۔ “ [ ترمذی، الزھد، باب حدیث ما ذئبان جائعان۔۔ : ٢٣٧٦۔- ابن حبان : ٣٢٢٨، عن کعب بن مالک (رض) ، صحیح ]

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

اِنْ ھٰذٰىنِ لَسٰحِرٰنِ يُرِيْدٰنِ اَنْ يُّخْرِجٰكُمْ مِّنْ اَرْضِكُمْ بِسِحْرِهِمَا وَيَذْهَبَا بِطَرِيْقَتِكُمُ الْمُثْلٰى یعنی یہ دونوں جادوگر ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ اپنے جادو کے ذریعہ تم کو یعنی فرعن اور آل فرعن کو تمہاری زمین مصر سے نکال دیں، مطلب یہ ہے کہ جادو کے ذریعہ تمہارے ملک پر اپنا قبضہ کرنا چاہتے ہیں اور یہ کہ تمہارا طریقہ جو سب سے افضل و بہتر ہے اس کو مٹا دیں۔ مثلی، امثل کا صیغہ مونث ہے جس کے معنے افضل و اعلیٰ کے ہیں، مطلب یہ تھا کہ تمہارا مذہب و طریقہ کہ فرعون کو اپنا خدا اور صاحب اختیار و اقتدار مانتے ہو یہی سب سے افضل و بہتر طریقہ ہے یہ لوگ اس کو مٹا کر اپنا دین و مذہب پھیلانا چاہتے ہیں اور لفظ طریقہ کے ایک معنی یہ بھی آتے ہیں کہ قوم کے سرداروں اور نمائندہ لوگوں کو اس قوم کا طریقہ کہا جاتا ہے۔ حضرت ابن عباس اور علی مرتضی سے اس جگہ طریقہ کی یہی تفسیر منقول ہے کہ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ تمہاری قوم کے سرداروں اور باعزت لوگوں کو ختم کردیں اس لئے تم لوگوں کو چاہئے کہ مقابلہ کے لئے اپنی پوری تدبیر و توانائی صرف کرو اور سب جادوگر صف بستہ ہو کر یکبارگی ان کے مقابلے پر عمل کرو۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قَالُوْٓا اِنْ ھٰذٰىنِ لَسٰحِرٰنِ يُرِيْدٰنِ اَنْ يُّخْرِجٰكُمْ مِّنْ اَرْضِكُمْ بِسِحْرِہِمَا وَيَذْہَبَا بِطَرِيْقَتِكُمُ الْمُثْلٰى۝ ٦٣- سحر - والسِّحْرُ يقال علی معان :- الأوّل : الخداع وتخييلات لا حقیقة لها، نحو ما يفعله المشعبذ بصرف الأبصار عمّا يفعله لخفّة يد، وما يفعله النمّام بقول مزخرف عائق للأسماع، وعلی ذلک قوله تعالی:- سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ [ الأعراف 116] - والثاني :- استجلاب معاونة الشّيطان بضرب من التّقرّب إليه، کقوله تعالی:- هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّياطِينُ تَنَزَّلُ عَلى كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الشعراء 221- 222] ، - والثالث :- ما يذهب إليه الأغتام «1» ، وهو اسم لفعل يزعمون أنه من قوّته يغيّر الصّور والطّبائع، فيجعل الإنسان حمارا، ولا حقیقة لذلک عند المحصّلين . وقد تصوّر من السّحر تارة حسنه، فقیل : «إنّ من البیان لسحرا» «2» ، وتارة دقّة فعله حتی قالت الأطباء : الطّبيعية ساحرة، وسمّوا الغذاء سِحْراً من حيث إنه يدقّ ويلطف تأثيره، قال تعالی: بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَسْحُورُونَ [ الحجر 15] ، - ( س ح ر) السحر - اور سحر کا لفظ مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے اول دھوکا اور بےحقیقت تخیلات پر بولاجاتا ہے - جیسا کہ شعبدہ باز اپنے ہاتھ کی صفائی سے نظرون کو حقیقت سے پھیر دیتا ہے یانمام ملمع سازی کی باتین کرکے کانو کو صحیح بات سننے سے روک دیتا ہے چناچہ آیات :۔ سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ [ الأعراف 116] تو انہوں نے جادو کے زور سے لوگوں کی نظر بندی کردی اور ان سب کو دہشت میں ڈال دیا ۔ - دوم شیطان سے کسی طرح کا تقرب حاصل کرکے اس سے مدد چاہنا - جیسا کہ قرآن میں ہے : هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّياطِينُ تَنَزَّلُ عَلى كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الشعراء 221- 222] ( کہ ) کیا تمہیں بتاؤں گس پر شیطان اترا کرتے ہیں ( ہاں تو وہ اترا کرتے ہیں ہر جھوٹے بدکردار پر ۔- اور اس کے تیسرے معنی وہ ہیں جو عوام مراد لیتے ہیں - یعنی سحر وہ علم ہے جس کی قوت سے صور اور طبائع کو بدلا جاسکتا ہے ( مثلا ) انسان کو گدھا بنا دیا جاتا ہے ۔ لیکن حقیقت شناس علماء کے نزدیک ایسے علم کی کچھ حقیقت نہیں ہے ۔ پھر کسی چیز کو سحر کہنے سے کبھی اس شے کی تعریف مقصود ہوتی ہے جیسے کہا گیا ہے (174)- ان من البیان لسحرا ( کہ بعض بیان جادو اثر ہوتا ہے ) اور کبھی اس کے عمل کی لطافت مراد ہوتی ہے چناچہ اطباء طبیعت کو ، ، ساحرۃ کہتے ہیں اور غذا کو سحر سے موسوم کرتے ہیں کیونکہ اس کی تاثیر نہایت ہی لطیف ادرباریک ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے : بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَسْحُورُونَ [ الحجر 15]( یا ) یہ تو نہیں کہ ہم پر کسی نے جادو کردیا ہے ۔ یعنی سحر کے ذریعہ ہمیں اس کی معرفت سے پھیر دیا گیا ہے ۔- رود - والْإِرَادَةُ منقولة من رَادَ يَرُودُ : إذا سعی في طلب شيء، والْإِرَادَةُ في الأصل : قوّة مركّبة من شهوة وحاجة وأمل، نحو : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17]- ( ر و د ) الرود - الا رادۃ یہ اراد یرود سے ہے جس کے معنی کسی چیز کی طلب میں کوشش کرنے کے ہیں اور ارادۃ اصل میں اس قوۃ کا نام ہے ، جس میں خواہش ضرورت اور آرزو کے جذبات ملے جلے ہوں ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17] یعنی اگر خدا تمہاری برائی کا فیصلہ کر ہے یا تم پر اپنا فضل وکرم کرنا چاہئے ۔ - ذهب - الذَّهَبُ معروف، وربما قيل ذَهَبَةٌ ، ويستعمل ذلک في الأعيان والمعاني، قال اللہ تعالی: وَقالَ إِنِّي ذاهِبٌ إِلى رَبِّي[ الصافات 99] ،- ( ذ ھ ب ) الذھب - ذھب ( ف) بالشیء واذھبتہ لے جانا ۔ یہ اعیان ومعانی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : إِنِّي ذاهِبٌ إِلى رَبِّي[ الصافات 99] کہ میں اپنے پروردگار کی طرف جانے والا ہوں ۔ - طرق - الطَّرِيقُ : السّبيل الذي يُطْرَقُ بالأَرْجُلِ ، أي يضرب . قال تعالی: طَرِيقاً فِي الْبَحْرِ- [ طه 77] ، وعنه استعیر کلّ مسلک يسلكه الإنسان في فِعْلٍ ، محمودا کان أو مذموما . قال :- وَيَذْهَبا بِطَرِيقَتِكُمُ الْمُثْلى[ طه 63] ، وقیل : طَرِيقَةٌ من النّخل، تشبيها بالطَّرِيقِ في الامتداد، والطَّرْقُ في الأصل : کا لضَّرْبِ ، إلا أنّه أخصّ ، لأنّه ضَرْبُ تَوَقُّعٍ كَطَرْقِ الحدیدِ بالمِطْرَقَةِ ، ويُتَوَسَّعُ فيه تَوَسُّعَهُم في الضّرب، وعنه استعیر : طَرْقُ الحَصَى للتَّكَهُّنِ ، وطَرْقُ الدّوابِّ الماءَ بالأرجل حتی تكدّره، حتی سمّي الماء الدّنق طَرْقاً «2» ، وطَارَقْتُ النّعلَ ، وطَرَقْتُهَا، وتشبيها بِطَرْقِ النّعلِ في الهيئة، قيل : طَارَقَ بين الدِّرْعَيْنِ ، وطَرْقُ الخوافي «3» : أن يركب بعضها بعضا، والطَّارِقُ : السالک للطَّرِيقِ ، لکن خصّ في التّعارف بالآتي ليلا، فقیل : طَرَقَ أهلَهُ طُرُوقاً ، وعبّر عن النّجم بالطَّارِقِ لاختصاص ظهوره باللّيل . قال تعالی: وَالسَّماءِ وَالطَّارِقِ- [ الطارق 1] ، قال الشاعر :- 299 ۔ نحن بنات طَارِقٍ«4» وعن الحوادث التي تأتي ليلا بالطَّوَارِقِ ، وطُرِقَ فلانٌ: قُصِدَ ليلًا . قال الشاعر :۔ كأنّي أنا المَطْرُوقُ دونک بالّذي ... طُرِقْتَ به دوني وعیني تهمل - «5» وباعتبار الضّرب قيل : طَرَقَ الفحلُ النّاقةَ ، وأَطْرَقْتُهَا، واسْتَطْرَقْتُ فلاناً فحلًا، کقولک :- ضربها الفحل، وأضربتها، واستضربته فحلا .- ويقال للنّاقة : طَرُوقَةٌ ، وكنّي بالطَّرُوقَةِ عن المرأة .- وأَطْرَقَ فلانٌ: أغضی، كأنه صار عينه طَارِقاً للأرض، أي : ضاربا له کا لضّرب بالمِطْرَقَةِ ،- وباعتبارِ الطَّرِيقِ ، قيل : جاءت الإبلُ مَطَارِيقَ ، أي : جاءت علی طَرِيقٍ واحدٍ ، وتَطَرَّقَ إلى كذا نحو توسّل، وطَرَّقْتُ له : جعلت له طَرِيقاً ، وجمعُ الطَّرِيقِ طُرُقٌ ، وجمعُ طَرِيقَةٍ طرَائِقُ. قال تعالی:- كُنَّا طَرائِقَ قِدَداً [ الجن 11] ، إشارة إلى اختلافهم في درجاتهم، کقوله : هُمْ دَرَجاتٌ عِنْدَ اللَّهِ [ آل عمران 163] ، وأطباق السّماء يقال لها : طَرَائِقُ. قال اللہ تعالی: وَلَقَدْ خَلَقْنا فَوْقَكُمْ سَبْعَ طَرائِقَ [ المؤمنون 17] ، ورجلٌ مَطْرُوقٌ: فيه لين واسترخاء، من قولهم : هو مَطْرُوقٌ ، أي : أصابته حادثةٌ لَيَّنَتْهُ ، أو لأنّه مضروب، کقولک : مقروع، أو مدوخ، أو لقولهم : ناقة مَطْرُوقَةٌ تشبيها بها في الذِّلَّةِ.- ( ط رق ) الطریق - کے معنی راستہ ہیں جس پر چلا جاتا ہے ۔ قرآں میں ہے ؛طَرِيقاً فِي الْبَحْرِ [ طه 77] پھر ان کے لئے دریا میں راستہ بناؤ ۔ اسی سے بطور استعارہ ہر اس مسلک اور مذہب کو طریق کہاجاتا ہے جو انسان کوئی کام کرنے کے لئے اختیار کرتا ہے اس سے کہ وہ قتل محمود ہو یا مذموم ۔ قرآن میں ہے : وَيَذْهَبا بِطَرِيقَتِكُمُ الْمُثْلى[ طه 63] اور تمہارے بہتر مذہب کو نابود کردیں ۔ اور امتداد میں راستہ کے ساتھ تشبیہ دے کر کھجور کے لمبے درخت کو بھی طریقۃ کہہ دیتے ہیں ۔ الطرق کے اصل معنی مارنے کے ہیں مگر یہ ضرب سے زیادہ خاص ہے ۔ کیونکہ طرق کا لفظ چٹاخ سے مارنے پر بولا جاتا ہے جیسے ہتھوڑے سے لوہے کو کوٹنا بعد ازاں ضرب کی طرح طرق کے لفظ میں بھی وسعت پیدا ہوگئی چناچہ بطور استعارہ کہاجاتا ہے ۔ طرق الحصی ٰ کا ہن کا اپنی کہانت کے لئے کنکر مارنا طرق الدواب چوپائے جانورون کا پانی میں داخل ہوکر اسے پاؤں سے گدلا کردینا ۔ طارقت النعل وطرق تھا میں نے جوتے ایک پر تلہ پر دوسرا رکھ کر اسے سی دیا ۔ پھر طرق النعل کی مناسبت سے طارق بین الدرعین کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی ایک زرہ کے اوپر دوسری زرہ پہننا کے ہیں ۔ طرق الخوارج پرند کے اندورنی پروں کا تہ برتہ ہونا اور الطارق کے معنی ہیں راستہ پر چلنے والا ۔ مگر عرف میں بالخصوص اس مسافر کو کہتے ہیں جو رات میں آئے چناچہ طرق اھلہ طروقا کے معنی ہیں وہ رات کو آیا اور النجم ستارے کو بھی الطارق کہاجاتا ہے کیونکہ وہ بالخصوص رات کو ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَالسَّماءِ وَالطَّارِقِ [ الطارق 1] آسمان اور رات کو آنے والے کی قسم ۔ شاعر نے کہاے ُ ۔ ( الرجز) (291) نحن بنات طارق ہم طارق یعنی سردار کی بیٹیاں ہیں ۔ طوارق اللیل وہ مصائب جو رات کو نازل ہوں ۔ طرق فلان رات میں صدمہ پہنچا ۔ شاعرنے کہا ہے ( الطویل ) (292) کانی انا المطروق دونک بالذی طرقت بہ دونی وعینی تھمل میں اس طرح بےچین ہوتا ہوں کہ وہ مصیبت جو رات کو تجھ پر آتی ہے مجھے پہنچ رہی ہے ۔ اور میری آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہوتے ہیں ۔ اور معنی ضرف یعنی مجفتی کرنے کے اعتبار سے کہاجاتا ہے ۔ صرق الفحل الناقۃ ( اونٹ کا ناقہ سے جفتی کرنا ) اطرق تھا میں نے سانڈہ کو اونٹنی پر چھوڑا۔ استطرقت فلانا الفحل : میں نے فلاں سے جفتی کے لئے سانڈھ طلب کیا اور یہ محاورات ضربھا الفحل واضرب تھا واستضربتہ کی طرح استعمال ہوتے ہیں اور اس ناقہ کو جو گابھن ہونے کے قابل ہوجائے اسے طروقۃ کہاجاتا ہے اور بطور کنایہ طروقۃ بمعنی عورت بھی آجاتا ہے ۔ اطرق فلان فلاں نے نگاہیں نیچی کرلیں ۔ گویا اس کی نگاہ زمین کو مارنے لگی جیسا کہ مطرقۃ ( ہتھوڑے ) سے کو ٹا جاتا ہے اور طریق بمعنی راستہ کی مناسبت سے جاءت الابل مطاریق کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔ یعنی اونٹ ایک ہی راستہ سے آئے اور تطرقالیٰ کذا کے معنی ہیں : کسی چیز کی طرف رستہ بنانا طرقت لہ کسی کے لئے راستہ ہموار کرنا ۔ الطریق کی جمع طرق آتی ہے اور طریقۃ کی جمع طرائق ۔ چناچہ آیت کریمہ : كُنَّا طَرائِقَ قِدَداً [ الجن 11] کے معنی یہ ہیں کہ ہم مختلف مسلک رکھتے تھے اور یہ آیت کریمہ : هُمْ دَرَجاتٌ عِنْدَ اللَّهِ [ آل عمران 163] ان لوگوں کے خدا کے ہاں ( مختلف اور متقارب ) درجے ہیں ۔ کی مثل ہے یعنی جیسا کہ یہاں دربات سے مراد اصحاب الدرجات ہیں اسی طرح طرئق سے اصحاب طرائق مراد ہیں ) اور آسمان کے طبقات کو بھی طرائق کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَلَقَدْ خَلَقْنا فَوْقَكُمْ سَبْعَ طَرائِقَ [ المؤمنون 17] ہم نے تمہارے اوپر کی جانب سات طبقے پیدا کئے ) رجل مطروق نرم اور سست آدمی پر ھو مطروق کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی مصیبت زدہ کے ہیں یعنی مصائب نے اسے کمزور کردیا جیسا کہ مصیبت زدہ آدمی کو مقروع یا مدوخکہاجاتا ہے یا یہ ناقۃ مطروقۃ کے محاورہ سے ماخوذ ہے اور یہ ذلت میں اونٹنی کیساتھ تشبیہ دیکر بولا جاتا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٦٣) بالآخر سب متحد ہو کر اعلانیہ کہنے لگے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) و ہارون (علیہ السلام) دونوں جادوگر ہیں یا یہ کہ فرعون نے ان جادوگروں سے کہا کہ موسیٰ (علیہ السلام) وہارون (علیہ السلام) دونوں جادوگر ہیں ان کا مطلب یہ ہے کہ تمہیں سرزمین مصر سے اپنے جادو کے زور سے نکال باہر کریں اور تمہارے عمدہ مذہبی طریقہ کا اور تم میں سے بہترین اور عقل مند لوگوں کا دفتر ہی ختم کردیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٦٣ (قَالُوْٓا اِنْ ہٰذٰٹنِ لَسٰحِرٰنِ یُرِیْدٰنِ اَنْ یُّخْرِجٰکُمْ مِّنْ اَرْضِکُمْ بِسِحْرِہِمَا وَیَذْہَبَا بِطَرِیْقَتِکُمُ الْمُثْلٰی ) ” - مُثْلیٰ مؤنث ہے اَمْثَل کا ‘ جس کے معنی ہیں سب سے زیادہ مثالی۔ حق کے مقابلے میں باطل ذہنیت کا باہمی اتفاق ملاحظہ ہو کہ جو دلیل اس وقت فرعون اور اس کے درباریوں کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے خلاف سوجھی تھی آج بھی شیطانی قوتیں مسلمانوں کے خلاف اسی دلیل کے تحت پروپیگنڈا کر رہی ہیں۔ ابلیسی سوچ کے نقیبوں نے آج بھی پوری دنیا میں شور برپا کر رکھا ہے کہ ہماری مثالی تہذیب و ثقافت کے لیے خطرہ ہے۔ ہم نے بڑی محنت سے مختلف اداروں کو فروغ دیا ہے ‘ دنیا میں انسانی حقوق کا تصور متعارف کرایا ہے ‘ جان جوکھوں میں ڈال کر مرد و زن کی مساوات اور عورتوں کی آزادی کی جنگ لڑی ہے۔ مگر مسلمان بنیاد پرست ہماری تہذیب و ثقافت کی ان مثالی کو ملیا میٹ کردینا چاہتے ہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :36 اور یہ کہنے والے لازماً فرعونی پارٹی کے وہ سر پھرے لوگ ہوں گے جو حضرت موسیٰ کی مخالفت میں ہر بازی کھیل جانے پر تیار تھے ۔ جہاندیدہ اور معاملہ فہم لوگ قدم آگے بڑھاتے ہوئے جھجک رہے ہوں گے ۔ اور یہ سر پھرے جوشیلے لوگ کہتے ہوں گے کہ خواہ مخواہ کی دور اندیشیاں چھوڑ دو اور جی کڑا کر کے مقابلہ کر ڈالو ۔ سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :37 یعنی ان لوگوں کا دار و مدار دو باتوں پر تھا ۔ ایک یہ کہ اگر جادوگر بھی موسیٰ کی طرح لاٹھیوں سے سانپ بنا کر دکھا دیں گے تو موسیٰ کا جادوگر ہونا مجمع عام میں ثابت ہو جائے گا ۔ دوسرے یہ کہ وہ تعصبات کی آگ بھڑکا کر حکمران طبقے کو اندھا جوش دلانا چاہتے تھے اور یہ خوف انہیں دلا رہے تھے کہ موسیٰ کا غالب آ جانا تمہارے ہاتھوں سے ملک نکل جانے اور تمہارے مثالی ( ) طریق زندگی کے ختم ہو جانے کا ہم معنی ہے ۔ وہ ملک کے با اثر طبقے کو ڈرا رہے تھے کہ اگر موسیٰ کے ہاتھ اقتدار آ گیا تو یہ تمہاری ثقافت ، اور یہ تمہارے آرٹ ، اور یہ تمہارا حسین و جمیل تمدن ، اور یہ تمہاری تفریحات ، اور یہ تمہاری خواتین کی آزادیاں ( جن کے شاندار نمونے حضرت یوسف کے زمانے کی خواتین پیش کر چکی تھیں ) غرض وہ سب کچھ جو کے بغیر زندگی کا کوئی مزہ نہیں ، غارت ہو کر رہ جائے گا ۔ اس کے بعد تو نری ملائیت کا دور دورہ ہوگا جسے برداشت کرنے سے مر جانا بہتر ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani